Agar Shauhar Biwi ko Apni "Maa" Ya Behan kah de to kya wah apne Shauhar par haram Ho jayegi?
Kya Biwi ko Apni Maa ya behan kah kar Mukhatib kar lene se Shauhar Biwi ka Rishta khatam ho jata hai?
Kya Khawind Apni Biwi ki Pistaan moonh me le sakta hai?
Sawal: Khawind agar Biwi ko Maa ya Behan kah de to kya is tarah kahne se Biwi us par Haram Ho jayegi? Iska Kaffara kya hoga? Mukammal tafseel se jawab dein.
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-257"
سوال_خاوند اگر اپنی بیوی کو ماں یا بہن کہہ دے تو کیا اس طرح کہنے سے بیوی اس پر حرام ہوجائے گی؟ نیز اس کا کفارہ کیا ہو گا؟ مکمل تفصیل بیان کریں..!
Published Date: 27-6-2019
جواب:
الحمد للہ:
*مطلوبہ سوال میں جو بات پوچھی گئی ہے،اسے شریعت میں "ظہار" کہتے ہیں، ظہار کا لفظ ” ظَہْرٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی پیٹھ ہے،یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو غصہ میں یہ بات کہہ دے کہ تو مجھ پر میری ماں یا میری بہن کی پیٹھ کی طرح حرام ہے تو یہ ظہار کہلاتا ہے اور عرب میں یہ دستور تھا کہ جو شخص اپنی بیوی کو ماں یا بہن کہہ دیتا تو وہ عورت اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی.
لیکن اسلام نے اس جہالت کا رد کیا ہے،
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں،
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَيۡنِ فِىۡ جَوۡفِهٖ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزۡوَاجَكُمُ الّٰٓـئِْ تُظٰهِرُوۡنَ مِنۡهُنَّ اُمَّهٰتِكُمۡ ۚ وَمَا جَعَلَ اَدۡعِيَآءَكُمۡ اَبۡنَآءَكُمۡ ؕ ذٰ لِكُمۡ قَوۡلُـكُمۡ بِاَ فۡوَاهِكُمۡ ؕ وَاللّٰهُ يَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَهُوَ يَهۡدِى السَّبِيۡلَ ۞
ترجمہ:
اللہ نے کسی آدمی کے لیے اس کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اور نہ اس نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو، تمہاری مائیں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے، یہ تمہارا اپنے مونہوں سے کہنا ہے اور اللہ سچ کہتا ہے اور وہی (سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔
تفسیر:
یعنی ہر شخص کی ماں ایک ہی ہے، جس کے پیٹ میں سے وہ پیدا ہوا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے بعد کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ اس کی ماں بن جائے، نہ تمہارے اپنی بیویوں کو ماں کی طرح حرام کہنے سے وہ ماں بن جاتی ہیں، اور ہر شخص کا باپ بھی ایک ہی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ پہلے تو اس کا باپ ایک تھا، پھر کسی نے اس کو بیٹا کہہ دیا تو وہ اس کا باپ بن گیا۔ یہ صرف تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی بات کو نہیں مانتا، وہ تو وہی بات کہتا ہے جو حقیقت اور سچ ہے اور وہ اصل سیدھے راستے ہی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔
(تفسیر القرآن الکریم - سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر _4)
*ظہار کی مزید تفصیل سورہ مجادلہ کی ابتدائی آیات میں بیان ہوئی ہے*
القرآن - سورۃ المجادلة آیت نمبر 1 تا 4
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
آئیت نمبر_1
قَدۡ سَمِعَ اللّٰهُ قَوۡلَ الَّتِىۡ تُجَادِلُكَ فِىۡ زَوۡجِهَا وَ تَشۡتَكِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ ۖ وَاللّٰهُ يَسۡمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ ۢ بَصِيۡرٌ ۞
ترجمہ:
یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ بیشک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
آئیت نمبر-2
اَلَّذِيۡنَ يُظٰهِرُوۡنَ مِنۡكُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِهِمۡ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمۡؕ اِنۡ اُمَّهٰتُهُمۡ اِلَّا الّٰٓـىِٔۡ وَلَدۡنَهُمۡؕ وَاِنَّهُمۡ لَيَقُوۡلُوۡنَ مُنۡكَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَزُوۡرًاؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ ۞
ترجمہ:
وہ لوگ جو تم میں سے اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں ان کے سوا کوئی نہیں جنھوں نے انھیں جنم دیا اور بلاشبہ وہ یقینا ایک بری بات اور جھوٹ کہتے ہیں اور بلاشبہ اللہ یقینا بےحد معاف کرنے والا، نہایت بخشنے والا ہے۔
آئیت نمبر_3
وَالَّذِيۡنَ يُظٰهِرُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِهِمۡ ثُمَّ يَعُوۡدُوۡنَ لِمَا قَالُوۡا فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّتَمَآسَّا ؕ ذٰ لِكُمۡ تُوۡعَظُوۡنَ بِهٖ ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞
ترجمہ:
اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں، پھر اس سے رجوع کرلیتے ہیں جو انھوں نے کہا، تو ایک گردن آزاد کرنا ہے، اس سے پہلے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، یہ ہے وہ (کفارہ) جس کے ساتھ تم نصیحت کیے جاؤ گے، اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، پوری طرح باخبر ہے۔
آئیت نمبر_4
فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ شَهۡرَيۡنِ مُتَتَابِعَيۡنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّتَمَآسَّاؕ فَمَنۡ لَّمۡ يَسۡتَطِعۡ فَاِطۡعَامُ سِتِّيۡنَ مِسۡكِيۡنًاؕ ذٰلِكَ لِتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِؕ وَلِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۞
ترجمہ:
پھر جو شخص نہ پائے تو دو پے درپے مہینوں کا روزہ رکھنا ہے، اس سے پہلے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، پھر جو اس کی (بھی) طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
*سورہ مجادلہ کی ان آیات میں ظہار کا حکم اور اسکا کفارہ بیان ہوا ہے،اب ہم ان آیات کی تفسیر پڑھتے ہیں*
تفسیر:
قَدْ سَمِعَ اللہ ُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا : یہ آیات خولہ بنت ثعلبہ (رض) کے بارے میں اتریں ۔ بعض روایات میں ان کا نام خویلہ اور بعض میں جمیلہ آیا ہے۔ ان کے خاوند اوس بن صامت انصاری (رض) تھے جو عبادہ بن صامت (رض) کے بھائی تھے ، بوڑھے تھے اور خولہ کے ان سے بچے بھی تھے۔ انہوں نے کسی بات پر ناراض ہو کر ان سے ظہار کرلیا ، یعنی یہ کہہ دیا : ” انت علی کظھر امی “ تو مجھ پر میری ماں کی پیٹ کی طرح ہے۔ “ جاہلیت میں جو شخص بیوی سے ظہار کرتا وہ اسے ماں ہی کی طرح ہمیشہ کے لیے حرام سمجھ لیتا تھا ۔ خولہ کے سامنے تو دنیا اندھیرا ہوگئی ، اس عمر میں کہاں رہوں گی ، بچوں کا کیا کروں گی ؟ باپ کے پاس رہے تو ضائع ہوجائیں گے ، میرے پاس رہے تو انہیں کہاں سے کھلاؤں گی ؟ وہ یہ شکایت لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں ،
وہ کہتی تھی میرے بارے میں کوئی گنجائش نکالیں ، میرے خاوند نے مجھے طلاق نہیں دی ، صرف ” انت علی کظھر امی “ کہا ہے۔ اب میں بڑھاپے میں کہاں جاؤں اور بچوں کا کیا کروں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اکٹھے رہنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، خیر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کا حل نازل فرما دیا،
سنن ابو داؤد میں ہے کہ خویلہ بنت مالک بن ثعلبہ (رض) نے کہا میرے خاوند اوس بن صامت (رض) نے مجھ سے ظہار کرلیا تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی ، میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس شکایت کرتی تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے تھے اور فرماتے تھے ( اتق اللہ فانہ ابن عمک) ” اس کے بارے میں اللہ سے ڈر ، کیونکہ وہ تمہارا چچازاد ہے “۔ مگر میں نہیں ٹلی ، یعنی مجھے اس مسئلہ کا حل چاہیے تھا ہر صورت میں)
اس عورت کا جھگڑا دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ظہار کے کفارہ کے بارے قرآن نازل فرما دیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
اپنے شوہر سے کہو کہ ظہار کے کفارے میں ( یعت رقبۃ) “ وہ ایک گردن آزاد کرے۔ “
میں نے کہا :
” وہ تو اس کے پاس ہے نہیں ۔
‘ ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( فیصوم شھرین متتابعین)”
پھر دو ماہ لگاتار روزے رکھے
“۔ میں نے کہا :” اے اللہ کے رسول ! وہ بڑا بوڑھا ہے ، روزے رکھ نہیں سکتا “۔
فرمایا :( فلیطعم ستین مسکینا)” پھر اسے کہو کہ ساٹھ (60) مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ “
میں نے کہا : ” اس کے پاس کوئی چیز نہیں جس کا صدقہ کرے۔
کہتی ہیں: اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کی ایک زنبیل آ گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول ( آپ یہ مجھے دے دیجئیے ) ایک اور زنبیل میں دے دوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک ہی کہا ہے، لے جاؤ اور ان کی جانب سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو، اور اپنے چچا زاد بھائی ( یعنی شوہر ) کے پاس لوٹ جاؤ،
(سنن ابو داؤد ، الطلاق ، باب فی الظھار: حدیث نمبر_2214، وقال الالبانی حسن)
*ظہار ک کفارہ یہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے کہ ظہار کرنے والا شخص اپنی بیوی ساتھ ملنے سے پہلے ایک غلام آزاد کرے، نا کر سکے تو 2 ماہ کے لگاتار روزے رکھے ،اور اگر روزے بھی نا رکھ سکے تو 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اسکے پاس استطاعت نا ہو تو کوئی اور اسکی طرف سے صدقہ کر دے.
_______&__________
*اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے ظہار کر لے اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اس سے ہم بستری کر لے تو اسکا کفارہ بھی وہی ہو گا جو ظہار کا کفارہ ہے*
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا تھا اور پھر اس کے ساتھ جماع کر لیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا ہے اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں نے اس سے جماع کر لیا تو کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تم پر رحم کرے کس چیز نے تجھ کو اس پر آمادہ کیا؟“ اس نے کہا: میں نے چاند کی روشنی میں اس کی پازیب دیکھی ( تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا ) آپ نے فرمایا: ”اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ اسے کر نہ لینا جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، (یعنی ظہار کا کفارہ جب تک ادا نا کر لو)
(سنن ترمذی حدیث نمبر_1199)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-2065)
سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،
مجھے عورت سے جماع کی جتنی شہوت و قوت ملی تھی ( میں سمجھتا ہوں ) اتنی کسی کو بھی نہ ملی ہو گی، جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اس ڈر سے کہ کہیں میں رمضان کی رات میں بیوی سے ملوں ( صحبت کر بیٹھوں ) اور پے در پے جماع کئے ہی جاؤں کہ اتنے میں صبح ہو جائے اور میں اسے چھوڑ کر علیحدہ نہ ہو پاؤں، میں نے رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے بیوی سے ظہار کر لیا،(یعنی یہ کہہ دیا کہ رمضان کا پورا مہینہ اسکی بیوی اس پر اسکی ماں کی طرح حرام ہو گی)،
پھر ایسا ہوا کہ ایک رات میری بیوی میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک مجھے اس کی ایک چیز دکھائی پڑ گئی تو میں ( اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا ) اسے دھر دبوچا، جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں اپنے حال سے باخبر کیا، میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنے معاملے سے باخبر کر دوں، ان لوگوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم نہ جائیں گے، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارے متعلق قرآن ( کوئی آیت ) نازل نہ ہو جائے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات نہ کہہ دیں جس کی شرمندگی برقرار رہے، البتہ تم خود ہی جاؤ اور جو مناسب ہو کرو، تو میں گھر سے نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ کو اپنی بات بتائی، آپ نے فرمایا: ”تم نے یہ کام کیا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، میں نے ایسا کیا ہے، آپ نے فرمایا: ”تم نے ایسا کیا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، میں نے ایسا کیا ہے آپ نے ( تیسری بار بھی یہی ) پوچھا: ”تو نے یہ بات کی ہے“، میں نے کہا: جی ہاں، مجھ سے ہی ایسی بات ہوئی ہے، مجھ پر اللہ کا حکم جاری و نافذ فرمائیے، میں اپنی اس بات پر ثابت و قائم رہنے والا ہوں، آپ نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کرو“، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اپنی اس گردن کے سوا کسی اور گردن کا مالک نہیں ہوں ( غلام کیسے آزاد کروں ) آپ نے فرمایا: ”پھر دو مہینے کے روزے رکھو“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جو پریشانی و مصیبت لاحق ہوئی ہے وہ اسی روزے ہی کی وجہ سے تو لاحق ہوئی ہے، آپ نے فرمایا: ”تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو“، میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! ہم نے یہ رات بھوکے رہ کر گزاری ہے، ہمارے پاس رات کا بھی کھانا نہ تھا، آپ نے فرمایا: ”بنو زریق کے صدقہ دینے والوں کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں صدقہ کا مال دے دیں اور اس میں سے تم ایک وسق ساٹھ مسکینوں کو اپنے کفارہ کے طور پر کھلا دو اور باقی جو کچھ بچے وہ اپنے اوپر اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرو، وہ کہتے ہیں: پھر میں لوٹ کر اپنی قوم کے پاس آیا، میں نے کہا: میں نے تمہارے پاس تنگی، بدخیالی اور بری رائے و تجویز پائی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کشادگی اور برکت پائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارا صدقہ لینے کا حکم دیا ہے تو تم لوگ اسے مجھے دے دو، چنانچہ ان لوگوں نے مجھے دے دیا۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3299)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-2062)
*یعنی اگر کوئی شخص غصے میں بیوی کو ماں یا بہن کی طرح خود پر حرام کر لے تو وہ ماں یا بہن بنے گی تو نہیں مگر شرعی نقطہ نظر سے یہ اچھا عمل نہیں، اس لیے شریعت نے یہ الفاظ کہنے پر کفارہ رکھا ہے تا کہ مرد حضرات اس طرح کے الفاظ کہنے سے پرہیز کریں*
___________&_____________
مگر واضح رہے یہ ظہار کا حکم اور کفارہ اس وقت لاگو ہو گا جب غصے کی حالت میں شوہر بیوی کو خود پر حرام کرنے کی نیت سے ایسے الفاظ بولے، لیکن اگر وہ مذاق میں یا پیار محبت سے بیوی کو ماں یا بہن کہہ دیتا ہے جس میں نیت ظہار کی نہیں ہوتی تو ایسے الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں اور نا ہی ایسے الفاظ کہنے سے کوئی کفارہ ادا کرنا پڑے گا*
سعودی فتاویٰ ویب سائٹ islamqa.info پر یہ سوال پوچھا گیا کہ کہ بیوی کو مذاق یا پیار محبت میں ماں یا بہن کہنا کیسا ہے؟
انکا جواب یہ تھا۔۔۔۔!!
اول:
آدمی اگر اپنی بیوی کو "تم میری ماں ہو" یا" میری بہن ہو"یا "امی " کہہ دے تو اس میں خاوند کی نیت کے مطابق ظہار ہونے یا نہ ہونے دونوں کا احتمال ہے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے، اور ہر شخص کیلئے وہی ہے جسکی اس نے نیت کی
(متفق علیہ)
اور عام طور پر اس طرح کے کلمات پیار محبت اور توقیر کیلئے خاوند کہہ دیتا ہے، چنانچہ اس صورت میں یہ ظہار نہیں ہوگا، اور نہ ہی شوہر کیلئے بیوی حرام ہوگی۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (8/6) میں کہتے ہیں:
"اور اگر خاوند نے کہہ دیا: تم مجھ پر میری ماں کی طرح ہو، یا ماں جیسی ہو، اور اس کا مقصد ظہار تھا ، تو اکثر علماء کے ہاں یہ ظہار ہی ہوگا، اور اگر مقصد صرف عزت و احترام تھا تو ظہار نہیں ہوگا۔۔۔ اور اسی طرح [ان جملوں کا بھی یہی حکم ہوگا کہ]: "تم میری ماں ہو"، یا "میری بیوی میری ماں" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا کہ :
کچھ لوگ اپنی بیوی سے کہہ دیتے ہیں کہ میں تمہارا بھائی ہوں، اور تم میری بہن ہو، تو اسکا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جب خاوند اپنی بیوی سے کہے کہ میں تمہارا بھائی ہوں اور تم میری بہن ہو، یا کہے کہ : تم میری ماں ہو، یا میری ماں جیسی ہو، یا پھر کہہ دے کہ: "تم میرے نزدیک میری ماں جیسی ہو، یا بہن جیسی ہو، تو اگر اس کی مذکورہ باتوں کی نیت صرف عزت افزائی، احترام ، صلہ رحمی اور اظہار محبت ہو ، یا سرے سے کوئی نیت تھی ہی نہیں ، اور نہ کوئی ارادہ ظہار کے شواہد پائے گئے ، تو یہ ظہار نہیں ہوگا اور نہ اسے کوئی کفارہ لازم آئے گا۔
اور اگر اس جیسے دیگر کلمات سے ظہار کا ارادہ تھا، یا ظہار کیلئے شواہد پائے گئے ، جیسے کہ یہ کلمات بیوی پر غصہ اور اسے ڈانٹ ڈپٹ پلانے کے وقت صادر ہوئے ہوں تو یہ ظہار ہوگا جو کہ حرام ہے، اس پر اسے توبہ کرنی ہوگی، اور بیوی سے ہمبستری سے قبل کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا، جو کہ ایک غلام کو آزاد کرنا ہے، اگر غلام نہ ملے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہونگے، اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہوگا" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (20/274)
دوم:
بعض علماء کے نزدیک خاوند کی طرف سے اپنی بیوی کو : "میری ماں "، یا "میری بہن" کہنا مکروہ ہے، اس کی دلیل وہ
ابو داود (2210)کی روایت کو بناتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو کہہ دیا: "میری بہنا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہاری بہن ہے کیا؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند جانا اوراسے اس روک دیا)
صحیح بات یہی ہے کہ اس بات میں کوئی کراہت نہیں ہے، کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے، البانی نے اسے ضعیف ابو داود میں ضعیف قرار دیا ہے۔
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا آدمی کیلئے یہ جائز ہے کہ اپنی بیوی کو صرف محبت کے طور پر کہہ دے"او!میری بہن"یا محبت ہی کی وجہ سے کہہ دے: "او! میری ماں"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں! "میری بہن"یا "میری ماں"یا اسکے علاوہ پیار و محبت کا موجب بننے والے کلمات کہنا جائز ہے، اگرچہ کچھ اہل علم کے ہاں بیوی کو اس قسم کے جملوں سے مخاطب کرنا مکروہ ہے، لیکن حقیقت میں کراہت کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، اور اس آدمی نے ان جملوں سے یہ نیت نہیں کی کہ اسکی بیوی بہن کی طرح اس پر حرام ہے، یا وہ اسکا بہن کی طرح محرم ہے، بلکہ اس نے محبت اور پیار بڑھانے کیلئے ایسا کیا، اور ہر وہ چیز جو میاں بیوی کے مابین محبت کا سبب ہو چاہے وہ خاوند کی طرف سے ہو یا بیوی کی طرف سے تو وہ مطلوب ہے" انتہی
( "فتاوى برنامج نور على الدرب)
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
اگر شوہر بیوی کا دودھ چوس لے تو کیا انکا نکاح ٹوٹ جائے گا؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-148
اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/