Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam Part 1
Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam
Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam |
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
◆ نماز،روزہ اورحج سےمتعلق حیض کے 60 احکام
۔┄┅════════════════════════┅┄
حصّہ اول ⇚ 1 - 30
سوال (1) : عورت اگر فجر کے فوراً بعد پاک ہو جائے تو کیا وہ کھا نے پینے اور دیگر مفطرات سے رک کر اس دن کا روزہ کھے گی ؟ اور کیا اس کے اس دن کے روزہ کا شمار ہوگا یا اسے اس دن کی قضا کرنی ہوگی ؟
جواب: عورت اگر طلوع فجر کے بعد پاک ہوتی ہے تو اس دن اس کے کھانے پینےاور دیگر مفطرات سے باز رہنے کے سلسلہ میں علماء کے دو قول ہیں :
پہلا قول: یہ ہے کہ اسے اس دن کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے رک جانا ضروری ہے ,لیکن اسکا یہ روزہ شمار نہ ہوگا ,بلکہ اس کی قضا کرنی ہوگی ,امام احمد رحمہ اللہ کا مشہور مذ ہب یہی ہے-
دوسرا قول: یہ ہے کہ اس کیلئے اس دن کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے باز رہنا ضروری نہیں , کیونکہ اس کے لئے اس دن کا روزہ رکھنا درست نہیں , اسلئے کہ دن کے ابتدائی حصہ میں وہ حائضہ تھی جس کا روزہ رکھنا درست نہیں, اور جب اس کا روزہ درست نہیں تو کھانے پینے اور مفطرات سے رکے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں, اور یہ وقت ایسا ہے جس کا احترام اس پر ضروری نہیں کیونکہ دن کے ابتدائی حصہ میں وہ روزہ نہ رکھنے کی پا بند تھی , بلکہ اس وقت اس کا روزہ رکھنا حرام تھا ,اور شرعی روزہ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی عبادت کی نیت سے طلوع فجر سےلیکرغروب آفتاب تک مفطرات سے باز رہا جائے-
یہ دوسرا قول جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں پہلے قول سے زیادہ راجح ہے, بہر حا ل دونوں قو ل کی روشنی میں مذکورہ عورت کو اس دن کے روزہ کی قضا کرنی ہوگی-
سوال (2): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ اگر حائضہ عورت (فجرسے پہلے) پا ک ہوئی اور فجر کے بعد غسل کیا اور نماز پڑھی اور اس دن کا روزہ مکمل کیا ,تو کیا اس پر اس روزہ کی قضا واجب ہے ؟
جواب: حائضہ اگر طلوع فجر سے ایک منٹ بھی پہلے پاک ہو اور اسے طہر کا یقین ہو تو اگر یہ رمضان کا مہینہ ہے تو اس پر اس دن کا روزہ واجب ہے اور وہ روزہ صحیح شمار ہو گا ,اس کی قضا واجب نہیں ہوگی کیونکہ اس نے طہر کی حالت میں روزہ رکھا ہے ,اور اس نے غسل اگر چہ فجر بعد کیا ہے ,تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ,جس طرح مرد اگر جماع یا احتلام کے سبب جنبی ہو جائے اور سحری کرلے ,اور غسل طلوع فجر کے بعد کرے, تو اسکا روزہ صحیح ہے-
اس مناسبت سے میں عورتوں سے متعلق ایک اورمسئلہ کی جانب متنبہ کرنا چا ہتا ہوں ,وہ یہ کہ بعض عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ عورت جب دن کا روزہ مکمل کرلے اور اسے افطار کے بعد اور عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے حیض آجائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے ,اسکی کوئی اصل نہیں ,بلکہ اگر غروب آفتاب کے ایک لمحہ کےبعد بھی حیض آجائے تو وہ روزہ مکمل اور صحیح ہے-
سوال (3): نفاس والی عورت اگر چالیس دن سے پہلے پاک ہوجائے تو کیا اس پر روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا واجب ہے؟
جواب: ہاں, نفاس والی عورت پر چالیس دن سے پہلے جب بھی پاک ہو جائے اور رمضان کا مہینہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا واجب ہے اور اس کے شوہر کیلئے اس سے مجامعت کرنا بھی درست ہے کیونکہ وہ عورت اب پاک ہے, اور روزہ اور نماز کےوجوب سے اور جماع کی اباحت سے کوئی چیز مانع نہیں-
سوال (4): اگر عورت کے حیض کی معروف عادت آٹہ دن یا سات دن ہو ,پھر کبھی ایک یا دو مرتبہ اس کا حیض معروف عادت سے زیادہ دن تک رہ جائے ,تواسکا کیا حکم ہے؟
جواب: کسی عورت کی معروف عادت اگر 6 دن یا سات دن ہو ,لیکن پھر یہ مدت لمبی ہوجائے اور اسکا حیض 8 دن یا نودن یا دس دن یا گیارہ دن تک باقی رہ جائے تو وہ پاک ہونے تک نماز نہ پڑھے,کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کی کوئی خاص مدت متعین نہیں کی ہے ,اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿ ويسألونك عن المحيض قل هو أذىً ﴾
البقرۃ[222] ترجمہ"وہ آپ سے حیض کےمتعلق دریافت کرتے ہیں, آپ فرما دیجئے کہ وہ ناپاکی ہے "
اسلئے جب تک حیض کا خون باقی رہے عورت بھی اپنی حالت پر باقی رہے گی, یہاں تک کہ وہ پاک ہو کر غسل کرے اور پھر نماز پڑھے .پھر دوسرے مہینہ میں اگر اسے گزشتہ مہینہ سے کم مدت حیض آ ئے تو جیسے ہی وہ پاک ہو غسل کرلے ,اگر چہ اس مہینہ کی مدت سے کم ہو . الغرض عورت جب تک حیض سے ہو نماز نہ پڑھے ,خواہ یہحیض سابقہ عادت کے مطابق ہو یا اس سے زیادہ ہو یا اس سے کم ہو, اور جب حیض سے پاک ہو جائے نماز پڑھے-
سوال (5): کیا نفاس والی عورت چالیس دن تک نماز اور روزہ ترک کئے رہے گی ,یا اس سلسلہ میں نفاس کے خون کے بند ہونے کا اعتبار کیا جائے گا کہ جیسے ہی خون ہوجائے وہ غسل کرکے نماز شروع کردے؟ نیز طہر کیلئے اقل مدت نفاس کیا ہے؟
جواب : نفاس کی کوئی متعین مدت نہیں ہے , بلکہ جب تک خون آئے عورت نمازو روزہ ترک کئے رہے اور اس کا شوہر اس سے مجامعت بھی نہ کرے , اور جب طہردیکھ لے نماز اور روزہ شروع کردے , اور اب اسکا شوہر اس سے مجامعت بھی کرسکتا ہے, بھلے ہی ابھی چالیس دن پورے نہ ہوئے ہوں, اور اگر چہ اس نے نفاس میں دس دن یا پانچ دن ہی گزارے ہوں -
الغرض نفاس ایک حسی چیزہے اور احکام اس کے وجود یا عدم سے تعلق رکھتے ہیں ,لہذا جب نفاس موجود ہوگا اس کے احکام ثابت ہوں گے ,اور جب عورت پاک ہو جائے گی تو نفاس کے احکام بھی اس سے ساقط ہو جائیں گے , البتہ اگر نفاس کا خون60 دن کےبعد بھی جاری رہے تو اس صورت میں عورت مستحاضہ سمجھی جائے گی ,اس لئے اس حیض کی جو معروف مدت تھی صرف اتنی مدت گزار کر وہ غسل کرے گی اور نماز پڑھےگی –
سوال (6): عورت كو رمضان كے مہینہ میں دن میں خون کے معمولی قطرے آگئے ,اوراس طرح کا خون پورے ماہ اسے آتا رہا اور وہ روزہ رکھتی رہی ,تو کیااسکا روزہ درست ہے ؟
جواب: ہاں, اسکا روزہ درست ہے, اور خون کے ان قطرو ں کا کوئی اعتبار نہیں , کیونکہ وہ رگوں سے آتے ہیں ,اور علی رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ خون کے یہ قطرے جو نکسیر کی طرح ہوتے ہیں حیض نہیں –
سوال (7):حائضہ یا نفاس والی عورت اگرفجرسے پہلے پاک ہوجائے ,لیکن طلوع فجر کے بعد غسل کرے ,تو کیا اسکا روزہ درست ہے؟
جواب: ہاں, حائضہ اور اسی طرح نفاس والی عورت اگر فجر سے پہلے پاک ہو جائے ,لیکن طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اسکا روزہ درست ہے ,کیونکہ وہ جس وقت پاک ہوئی روزہ رکھنے کے لائق ہوگئی اور وہ بعینہ اس مرد کی طرح ہے جو طلوع فجرکے وقت حالت جنابت میں تھا ,تو اسکا روزہ درست ہے ,
کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ فالآن باشروهن وابتغو ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض منالخيط الأسود من الفجر﴾[البقرة:187-
پس اب تم اپنی بيويوں سے مباشرت کرو , اور جو چیز اللہ نے تمہارے لئے لکھی ہے اسے تلاش کرو ,اور کھاتے پیتے رہو , یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھا گے سےظاہر ہو جائے –
تو جب اللہ تعالی نے طلوع فجرتک جماع کرنے کی اجازت دی ہے تو اسکا لازمی مطلب یہ ہے کہ غسل طلوع فجرکے بعد ہوگا-
نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے, کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات سے جماع کے بعد جنابت کی حالت میں صبح کرتے, حالانکہ آپ روزہ سے ہوتے تھے -
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر کے بعد غسل جنابت فرماتے تھے -
سوال (8) عورت نے خون محسوس کیا یا حیض کی تکلیف محسوس کی, لیکن غروب آفتاب سے پہلے خون نہیں آیا, توکیا اس کا یہ روزہ درست ہے یا اس کی قضا کرنا ہو گی؟
جواب: اگر پاک عورت نے حالت صیام میں حیض آنامحسوس کیا یا حیض کی محسوس کی لیکن حیض غروب آفتاب کے بعد آیا ,تو اسکا اس دن کا روزہ درست ہے, لہذااگر وہ فرض روزہ تھا تو اسکا اعادہ نہیں کرنا ہوگا, اور اگر نفل روزہ تھا تو اسکا اجروثواب متاثر نہیں ہوگا –
سوال (9) عورت نے خون دیکھا, لیکن قطعی فیصلہ نہیں کرسکی کہ وہ دم حیض ہی ہے, تو اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہے ؟
جواب: مذکورہ عورت کا اس دن کا روزہ درست ہے ,کیونکہ حیض کا نہ ہونا ہی اصل ہے, یہاں تک کہ اسے حیض آنے کا پورا یقین ہو جائے-
سوال (10) بعض دفعہ عورت دن کے مختلف اوقات میں خون کا معمولی اثریا خون کےمعمولی قطرے دیکھتی ہے ,کبھی تو ایسا حیض کے ایام میں دیکھتی ہے جبکہ ابھی حیض شروع نہیں ہوا ہے ,اورکبھی ایام حیض کے علاوہ ایام میں دیکھتی ہے ,سوال یہ ہے کہ مذکورہ دونوں حالتوں میں اسکے روزہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: تقریبا اسی قسم کے ایک سوال کا جواب گزرچکا ہے ,البتہ سوال کا ایک حصہ باقی رہ جاتا ہے ,وہ یہ کہ خون کے قطرے اگر حیض کے ایام میں دکھائی دیں اور وہ انہیں حیض سمجھ رہی ہو جو اس کے نزدیک معروف ہے , تو وہ حیض کے حکم میں ہوں گے-
سوال (11) کیا حائضہ اورنفاس والی عورتیں رمضان المبارک کے مہینہ میں دن میں کھا ,پی سکتی ہیں ؟
جواب: ہاں, حیض اور نفاس والی عورتیں رمضان المبارک کے مہینہ میں دن میں کھا ,پی سکتی ہیں ,البتہ بہتر یہ ہےکہ اگر گھر میں بچے ہوں تو چھپ کر کھائیں ,تاکہ بچوں کےذہن میں کوئی اشکا ل نہ پیدا ہو -
سوال (12) حائضہ یا نفاس والی عورت اگرعصر کے وقت پاک ہو ,تو کیا اسے عصر کے سا تہ ظہر کی نماز پڑھنا ہوگی یا وہ صرف عصر کی نماز پڑھے گی ؟
جواب : اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ مذکورہ عورت کو صرف عصر کی نماز پڑھنا ہوگی ,کیونکہ اس صورت مین ظہر کی نماز کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ,اوربراءت ذمہ یعنی عدم وجوب ہی اصل ہے –
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے:
"جس نے غروب آفتاب سے پہلےعصر کی ایک رکعت بھی پالی اس نے عصر کی نماز پالی " اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اس نے ظہر کی نماز پالی,حالانکہ ظہر کی نماز بھی اس صورت میں واجب ھوتی تو آپ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا-
مذکورہ بالا صورت میں عورت پر ظہر کی نماز کے واجب نہ ہونے کی ایک وجہ اور بھی ہے , وہ یہ کہ اگر عورت ظہر کا وقت ہو جانے کے بعد حائضہ ہو تو اسے صرف ظہرکی نماز قضا کرنا ہو گی ,عصر کی نہیں ,حالانکہ ظہر اورعصر کو ایک ساتہ ملا کر جاتا ہے ,اور اس صورت میں اور سوال کے اندر مذکور صورت میں کوئی فرق نہیں -
لہذا بعض حدیث اور قیاس کی روشنی میں مذکورہ عورت پر صرف عصر کی نماز پڑھنا لازم ہے اور ٹھیک اسی طرح اگروہ عشاء کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلےپا ک ہو جائے تو اسے صرف عشاء کی نماز پڑھنی ہوگی ,مغرب کی نہیں –
سوال (13) جن عورتوں کا حمل ساقط ہوتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہو تیں :یا تو اسقاط حمل جنین کی تخلیق سے پہلے ہوتا ہے ,اوریا تو جنین کی تخلیق اور اسکے اندر شکل وصورت بننے کے بعد ,اب سوال یہ ہے کہ جس دن اسقاط حمل ہوا اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہے؟ نیز ان ایام کے روزہ کا کیا حکم ہے جن میں وہ خون دیکھتی ہے ؟
جوا ب: ا گر جنین کی تخلیق نہیں ہوئی ہے تو یہ خون نفاس کا خون نہیں ,لہذا وہ عورت نماز پڑھے گی اور روزہ رکھے گی اوراسکا روزہ بھی درست ہے , اوراگر جنین کی تخلیق ہو چکی ہے تو یہ خون نفاس کا خون ہے , لہذا اس حالت میں اس کا نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا جائز نہیں –
اس مسئلہ میں قاعدہ یا ضابطہ یہ ہے کہ اگر جنین کی تخلیق ہو چکی ہو تو اسقاط کے بعد آنےوالا خون نفاس کا خون ہے, اور اس صورت میں اس کیلئےوہ سب حرام ہے جو ایک نفاس والی عورت پرحرام ہو تا ہے , اور اگر جنین کی تخلیق نہ ہوئی ہو تو وہ خون نفاس کا خون نہیں ,لہذا نفاس والی عورت پر جو چیزیں حرام ہیں وہ اس پر حرام نہیں-
سوال (14) : حاملہ عورت کو اگر رمضان کے مہینہ میں دن میں خون آجائے تو کیا اس کا روزہ متاثر ہوگا ؟
جواب: اگر عورت روزے سے ہو اوراسے حیض کا خون آجائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے,کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"کیا ایسا نہیں کہ جب عورت حیض سے ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے"-
اسی لئے حیض کو مفطرات (روزہ ٹوڑنے والی اشیاء)میں شمار کیا جاتا ہے , اورنفاس کا حکم بھی وہی ہے ,لہذ ا حیض یا نفاس کا خون آنے سے روزہ ٹوٹ جائیگا –
رہا حاملہ عورت کو رمضان المبارک کے مہینےمیں دن میں خون آنے کا مسئلہ ,تو وہ اگر حیض کا خون ہے تو اس کا حکم غیر حاملہ عورت کے حیض کا ہے ,یعنی اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا , اور اگر حیض کا خون نہیں تو اس سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا-
حاملہ عورت کو جو حیض آسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جب سے اس کو حمل قرار پایا ہے اس کا حیض بند نہ ہوا ہو ,بلکہ عادت کے مطابق آتا رہا ہو , تو راجح قول کے مطابق وہ حیض ہے اور اس پر حیض کے احکام نافذ ہوں گے , لیکن اگر اس کا حیض بند ہو گیا ہو , پھر اس کے بعد وہ خون دیکھے جو حیض کا معروف خون نہیں ,تو اس سے روزہ متاثر نہیں ہوگا , کیونکہ وہ خون ,حیض نہیں –
سوال (15): عورت اگرحیض کی عادت کے دنوں میں ایک دن خون دیکھے ,اوراس کے دوسرے دن پورے دن خون نہ دیکھے ,تو اس کو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب: اس مسئلہ میں ظاہر یہ ہے کہ اس عورت نے اپنے حیض کے ایام میں جو طہریا خشکی دیکھی ہےوہ حیض کے تا بع ہے ,لہذا وہ طہر شمار نہیں ہوگا , بنابریں وہ اس چیز سے بچے گی جس سے حائضہ عورت بچتی ہے-
لیکن بعض اہل علم نے یہ کہا کہ جو عورت ایک دن خون دیکھے اور ایک دن خون نہ دیکھے ,تو خون حیض شمار ہوگا اور خون نہ آنے والا دن طہر ,یہاں تک کہ پندرہ دن گزرجائیں ,پندرہ دن کے بعد پھر وہ استحاضہ شمار ہوگا , امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب یہی ہے-
سوال (16): حیض کے آخری ایام میں طہر سے پہلے عورت خون کا کوئی اثر نہین پاتی ,تو کیا وہ اس دن روزہ رکھ سکتی ہے جبکہ ابھی اس نے سفید پانی نہیں دیکھا ہے ؟یا اسے کیا کرنا ہوگا ؟
جواب: اگر مذکورہ عورت کی عادت یہ ہو کہ وہ حیض کے بعد سفید پانی نہیںدیکھتی ,جیسا کہ بعض عورتوں میں یہ بات پائی جاتی ہے , تو وہ روزہ رکھے گی , اور اگر اسکی عادت یہ ہو کہ وہ حیض کےبعد سفیدی دیکھتی ہے ,تو جب تک سفیدی نہ دیکھ لے روزہ نہیں رکھ سکتی -
سوال (17): حائضہ اور نفاس والی عورت کے لئے ضرورت کے تحت مثلاً طالبہ یا معلّمہ ہونے کی صورت میں دیکھ کر یا زبانی قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ضرورت کے تحت حائضہ یا نفاس والی عورت مثلاًطالبہ یا معلمہ کیلئے رات یا دن کسی بھی وقت قرآن کریم پڑھنے اور اس کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ,لیکن اجروثواب کی غرض سے اس حالت میں قرآن کریم کی تلاوت نہ کرنا ہی افضل ہے ,کیونکہ بہت سے بلکہ اکثراہل علم کا یہی خیال ہے کہ حائضہ کیلئے قرآن کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں –
سوال (18): كيا حائضہ عورت کیلئے طہر کےبعد کپڑے تبدیل کرنا ضروری ہیں ؟بھلے ہی اس میں خون یا نجاست نہ لگی ہو ؟
جواب: نہیں ,کپڑے تبدیل کرنا ضروری نہیں , کیونکہ حیض سے جسم ناپاک نہیں ہوتا ,بلکہ صرف وہ چیزیں ناباک ہو تی ہے جس میں یہ خون لگ جائے ,اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےعورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو وہ اسے دھو لیں اور اس میں نماز پڑھیں .
سوال (19): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نفاس کیوجہ سےرمضان کے سات روزے نہیں رکھے , اور دوسرا رمضان آنے تک اس نے ان روزوں کی قضا بھی نہیں کی , پھر دوسرے رمضان کے بھی اس کے سات روزے رہ گئے کیونکہ وہ بچے کو دودہ پلا رہی تھی ,بیماری کا عذر ہونے کیوجہ سے اس نے ان روزوں کی بھی قضا نہیں کی , اب جبکہ تیسرا رمضان قریب ہے اس عورت کو کیا کرنا چاہئے ؟ جواب سے مستفید فرمائیں , اللہ تعالی آپ کو اجروثواب سے نوازے –
جواب : مذکورہ عورت اگروا قعی مریض ہے اور روزوں کی قضا کی استطاعت نہیں رکھتی , تو چونکہ وہ معذور ہے اس لئے جب بھی اپنے اندر استطاعت پائے روزوں کی قضا کرے. اگرچہ دوسرا رمضان آجائے , لیکن اگر اسکے پاس کو ئی عذر نہیں ,بلکہ بہانہ بازی اور سستی کر رہی ہے , تو اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرے , عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" ميرے ذمہ روزے باقی ہوتے تھے,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کر پاتی تھی" بنابریں اس عورت کو اپنے سلسلے میں غور کرنا چاہئے , اگراسکے پاس کوئی معقول عذر نہیں ہے تو وہ گنہگار ہے, اور اسکے ذمہ جو روزے باقی ہیں ان کی قضا کرنے میں جلدی کرے ,لیکن اگر وہ واقعی معذور ہے تو روزوں کی قضا میں سال دوسال کی بھی تاخیر ہو جائے تو اس مین کوئی حرج نہیں –
سوال (20): بعض عورتوں کا حال یہ ہے کہ دوسرا رمضان آجاتا ہے اور وہ ابھی گزشتہ رمضان کےچھوڑے ہوئے روزوں کی قضا نہیں کئے ہوتی ہیں , تو ایسی عورتوں پر کیا واجب ہے؟
جواب : ایسی عورتوں پريہ واجب ہے کہ وہ اس فعل سے اللہ تعالی سے سچی توبہ کریں (اور دوسرا رمضان ختم ہوتے ہی ان روزوں کی قضا کرلیں ) کیونکہ بغیر کسی عذر کے ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرنا جائز نہیں ,جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے" میرے ذمہ روزے باقی ہوتے تہے ,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کرپأتی تھی "
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ایک رمضان کے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے بعد تک مؤخر کرنا ممکن نہیں ,لہذ ا ایسی عورتوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے اللہ عزوجل سے سچی توبہ کریں اوردوسرے رمضان کے بعد چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرلیں-
سوال (21): اگر عورت دوپہر کے بعد مثلاً ایک بجے حائضہ ہوجائے اور اس نے ابھی تک ظہر کی نماز نہ پڑھی ہو ,تو کیا پاک ہونے کے بعد اسے اس نماز کی قضا کرنی ہوگی؟
جواب : اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے , بعض کا یہ کہنا ہے کہ مذکورہ عورت پر اس نماز کی قضا واجب نہیں ,کیونکہ اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی اورنہ ہی گنہگار ہوئی ,کیونکہ اس کیلئے نماز کواس کے آخری وقت تک مؤخرکرنا جائز ہے ,لیکن بعض دوسرے علماء یہ کہتے ہیں کہ اس پر مذکورہ نمازکی قضا واجب ہے ,کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے"جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نےنمازپالی " ویسے احتیاط اسی میں ہے کہ وہ اس نماز کی قضا کرلے ,کیونکہ ایک نماز کی بات ہے جس کی قضا میں عورت کیلئے کوئی مشقت وپریشانی نہیں –
سوال (22 ): حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یا دو دن پہلے خون دیکھ لے ,تو کیا اس کی وجہ سے وہ نماز اور روزہ ترک کردیگی ؟
جواب: حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یادودن پہلے خون دیکہ لے اورولادت کی تکلیف (دردزہ) محسوس کرے ,تو یہ نفاس شمار ہوگا ,لہذا اس کی وجہ سے عورت نماز اورروزہ چھوڑدے گی –لیکن اگرخون آنے کےساتہ دردزہ محسوس نہ کرے ,تو یہ فاسد خون مانا جائے گا جس کا کوئی اعتبار نہیں , اورنہ ہی یہ خون نماز اور روزہ سے مانع ہے –
سوال (23): لوگوں کے ساتہ روزہ رکھنے کی غرض سے مانع حیض گولیوں کے استعمال کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب: میں اس بات سے سختی سےمنع کرتا ہوں ,کیونکہ اطباء کے ذریعہ میرے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ان گولیوں کے بڑے نقصانات ہیں ,لہذا عورتوں سے یہی کہنا ہے کہ یہ بات اللہ تعالی نے تمام عورتوں کیلئے مقدر فرمادی ہے ,اسلئے اللہ عزوجل کی مقررکردہ تقدیر پر قانع رہو, اور جب کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو تو روزہ رکھو ,اور جب کوئی شرعی رکاوٹ درپیش ہو تو اللہ عزوجل کی تقدیر پر رضا مند رہتے ہوئے روزہ توڑدو-
سوال (24): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت کو شوہر سے ہمبستری اور حیض سے پاک ہونے کے دوماہ بعد خون کے چھوٹے چھوٹے قطرے آنے لگے ,اب اس حالت میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے یا کیا کرے؟
جواب: حیض اور نکاح (جماع) سے متعلق عورتوں کی مشکلات اس سمندر کےمانند ہےجسکا کوئی ساحل ہی نہیں,( یعنی بےشمار ہیں) ,جس کا ایک سبب مانع حیض اور مانع حمل گولیوں کا استعمال بھی ہے , سابقہ دور میں اس قسم کے اکثر اشکالات کو جانتے بھی نہ تھے ,یہ صحیح ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہی سے بلکہ جب سے عورت کا وجود ہو ا اسی وقت سے اشکالات موجود ہیں ,لیکن اشکالات کی ایسی کثرت وبہتات کہ انسان ان کے حل کرنے میں حیران وپریشان ہوجائے ,بڑی افسوسناک بات ہے.
لیکن اس سلسلہ میں عام قاعدہ یہ ہے کہ عورت جب پاک ہوجائے , اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکہ لے,اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکھنے سےمیری مرا د یہ ہے کہ اسے وہ سفید پانی نظر آجائے جسے عورتیں جانتی ہیں ,خواہ وہ پانی مٹ میلا ہو ,یا زردی مائل ہو , یا قطرہ ہو , یا رطوبت ہو , تو یہ سب حیض میں شمار نہیں ہیں , اسلئے اس کے لئے نماز اورروزہ سے مانع نہیں اورنہ ہی اس کے شوہر کیلئے مجامعت سے مانع,کیونکہ یہ سب چیزیں حیض سے نہیں ,
جیسا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :"هم زردي مائل يا مـ ٹ میلے پانی کا کچھ اعتبار نہیں کرتے تھے "
اس حديث كو اما م بخاري نے روایت کیا ہے.اور امام ابوداود نے اس میں لفظ طہر کا اضافہ کیا ہے (یعنی طہر کے بعد ہم زردی مائل یا مٹ میلے پانی کا کچہ اعتبار نہیں کرتے تھٍٍے ) اس حدیث کی سند صحیح ہے.
اس بنا پر ہم کہ سکتے ہیں کہ طہر کا یقین ہو جانے کے بعد اس قسم کی جو بھی چیز ظاہر ہو وہ عورت کیلئے مضر نہیں , اور نہ ہی اس کے لئے نماز ,روزہ اور شوہر کے ساتہ ہمبستری سے مانع ہے , لیکن اس پر واجب ہے کہ جب تک وہ طہر نہ دیکھ لے جلدی نہ کرے ,کیونکہ بعض عورتیں جیسے ہی دیکھتی ہیں کہ خون بند ہو گیا طہر دیکھے بغیر جلدی سے غسل کر لیتی ہیں ,
یہی وجہ ہے کہ صحابیات –رضی اللہ عنہن- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کےپاس کرسف یعنی خون والی روئی بھیجتیں , تو وہ جواب میں ان سے فرماتیں کہ جلدی نہ کرو یہاں تک کہ سفیدی دیکھ لو .
سوال (25): بعض عورتوں کو مسلسل خون جاری رہتا ہے , اورکبھی ایسا ہوتا ہےکہ ایک یا دو دن بند رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہو جاتا ہے ,ایسی حالت میں ان کیلئے نماز ,روزہ اوردیگر عبادتوں کا کیا حکم ہے؟
جواب: بہت سے اہل علم کےنزدیک مشہور یہی ہے کہ اگر عورت کی کوئی مخصوص عادت (یعنی متعین مدت ) ہے , تو اس عادت کے پوری ہوجانے کے بعد وہ غسل کرے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے , اور دو یا تین دن کے بعد وہ جو خون دیکھتی ہے وہ حیض نہیں ھے , کیونکہ ان علماء کے نزدیک طہر کی کم سے کم مدت تیرہ (13)دن ہے ,اور بعض دوسرے اہل علم یہ کہتے ہیں کہ جب وہ خون دیکھے حائضہ شمارہوگی , اور جب نہ دیکھے پاک شمار ہو گی , اگرچہ دونوں حیض کے درمیان تیرہ (13) دن کا وقفہ نہ ہو.
سوال (26):عورت کیلئے رمضان المبارک کی راتوں میں گھرمیں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں ؟ خاص کر اس صورت میں جبکہ مسجد میں وعظ ونصیحت کا سلسلہ بھی ہو ؟ نیز مسجد میں نماز پڑھنے والی عورتوں کو آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟
جواب: افضل یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں نماز پڑھے , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے :"اور عورتوں کے لئے ان کا گھر نماز کے لئے زیادہ بہترہے"
نیز اس لئے کہ عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا بہت سے حالات میں فتنہ سے خالی نہیں ہوتا , اس لئے اس کا گھر میں نمازپڑھ لینا مسجد جانے سے بہتر ہے, جہان تک وعظ ونصیحت کے سننے کی بات ھے ,تو یہ کیسٹ کے ذریعہ بھی ہو سکتا ہے -
جو عورتیں نماز کیلئے مسجد جاتی ہیں ان کو میری یہی نصیحت ہے کہ وہ کسی زیب وزینت کا مظاہرہ نہ کریں اورنہ ہی خوشبو لگا کرجائیں.
سوال (27) :عورت كے لئے رمضان المبارک کے مہینہ میں روزہ کی حالت میں کھانا چکھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : ضرورت اسکی متقاضی ہو تو اسکے چکھنےمیں کوئی حرج نہیں ,لیکن چکھنے کے بعد وہ اسے تھوک دے .
سوال (28): ایک عورت حمل کے ابتدائی ایام سے گزررہی تھی کہ ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگئی اور بہت زیادہ خون گرنے کی وجہ سے جنین (پیٹ کا بچھ) سا قط ہو گیا , تو ایسی صورت میں کیا وہ روزہ توڑدے یا جاری رکھے ؟ اور اگر روزہ توڑدے تو کیا اس پر کوئی گناہ ہے ؟
جواب : ہمارا یہ خیال ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا, جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عورتوں کو حیض بند ہونے سے ہی حمل کا پتہ چلتا ہے , اور حیض کو جیسا کہ اہل علم کہتے ہیں ,اللہ تبارک وتعالی نے اس حکمت کے تحت پید ا فرمایا ہے کہ وہ ماں کے پیٹ میں جنیں کے لئے غذا بنے , لہذا جیسے ہی حمل قرار پاتا ہے حیض آنا بند ہوجاتا ھے ,لیکن بعض عورتوں کو حسب عادت حمل کے بعد بھی حیض جاری رہتا ہے جسطرح حمل سے پہلے تھا , تو ایسی عورت پر یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس کا یہ حیض صحیح حیض ہے , کیونکہ وہ حمل سے متاثر ہوئے بغیر جاری ہے –تو اس قسم کا حیض بھی ہر اس چیز سے مانع ہوگا جس سے غیر حاملہ کا حیض مانع ہوتا ہے ,اورہر اس چیزکو واجب کرنے والا ہوگا جس کو غیر حاملہ کا حیض واجب کرتا ہے, اور ہر اس چیز کو ساقط کردے گا جسے غیر حاملہ کا حیض ساقط کرتا ہے .
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حاملہ کو جو خون آتا ھے وہ دو طرح کا ہوتا ہے :
ايك طرح كے خون پر حیض کا حکم عائد ہوگا,اوریہ وہ خون ہے جوحمل کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح جاری رہے , جسکا مطلب یہ ہے کہ وہ حمل سے متاثر نہیں ہوا ہے ,لہذا وہ حیض شمار ہوگا.
دوسرا خون وہ ہے جو کسی ایکسیڈ نٹ کےسبب یا کسی وزنی چیز کے اٹھانے کی وجہ سے یا کہیں سے گرجانے کے باعث اچانک آجائے ,تو یہ حیض نہیں ,بلکہ رگ کا خون ھے ,لہذا اس کیلئے نماز اور روزہ سے مانع نہیں ہوگا ,بلکہ یہ پاک عورتوں کے حکم میں ھوگی,لیکن اگر ایکسیڈ نٹ کے سبب پیٹ کا بچہ یا حمل ساقط ہو جائے تو اہل علم کے بقول اس کی دو صورت ہے :
پہلی صورت یہ ہے کہ پیٹ کا بجہ اس حال میں ساقط ہو کہ اس کی شکل وصورت ظاہر ہوچکی ھے, تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہو گا ,جس میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے گی , اور پاک ہونے تک اس کا شوہر بھی اس سے ہمبستری نہیں کرسکتا.
دوسری صورت یہ ہے کہ حمل اس حال میں ساقط ہو کہ ابھی اس کی شکل وصورت ظاہر نہیں ہوئی ہے ,تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس نہیں, بلکہ فاسد خون شمارہو گا ,جو اس کے لئے نماز ,روزہ اور دیگر امور سے مانع نہیں .ا ہل علم فرماتے ہیں کہ تخلیق (شکل وصورت ) ظاہر ہونے کی اقل مدت اکیاسی (81) دن ہے, جیسا کہ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ صادق ومصدوق ہیں ,نے فرمایا :" ہر شخص اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے , پھر اسی مدت کے بقدرخون کا لوتھڑا رہتا ہے ,پھر اس کے اسی مدت کے بقدر گوشت کا ٹکڑا رہتا ہے ,پھر اس کے پاس فرشتہ بھیجا جاتا ہے جسے چار باتوں کا حکم ہوتا ہے ,چنانچہ وہ اس کی روزی , اس کی زندگی کی مدت , اس کا عمل اور یہ کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت لکھ دیتا ہے"
لہذا اس مدت سے پہلے پیٹ کے اندر جنین کی خلقت کا مظاہرہ ہونا ممکن نہیں ,ویسے عموما نوے (90) دن سے پہلے خلقت ظاہر نہیں ہوتی , جیسا کہ بعض اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے .
سوال (29): ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ تقریبا سال بھر پہلے تیسرے مہینے مین میرا حمل ساقط ہوگیا , پاک ہونے تک میں نے نماز نہیں پڑھی ’ مجھے بتایا گیا کہ مجھ پر نماز پڑھنی واجب ہے , اب میں کیا کروں جبکہ میں متعین طور پردنو ں کی تعداد نہیں جانتی ؟
جواب : اہل علم کے نزدیک معروف یہی ہے کہ عورت تین ماہ کا جنین ساقط کردے تو وہ نماز نہیں پڑھے گی, کیونکہ اگر وہ ایسا جنین ساقط کرتی ہے جس کے اندر انسانی شکل و
صورت ظاہر ہوچکی ہو تو اس حالت میں آنے والا خون نفاس کا خون ہے جسکے ہوتے ہوئے عورت نماز نہیں پڑھے گی –
علماء کا کہنا ہے کہ جنین کی شکل وصورت (81) اکیاسی دن پورے ہونے پر ظاہر ہو سکتی ہے ,اوریہ مدت تین ماہ سے کم ہے , لہذا اگر عورت کو یقین ہو کہ ساقط ہونے والا جنین تین ماہ کا ہو چکا ہے تو آنے والا خون نفاس کا خون ہٍے,لیکن اگرجنین (80)اسّی دن سے پہلے ساقط ہوا ہے تو اس صورت میں آنے والا خون فا سد خون ہے جس کی وجہ سے وہ نماز ترک نہیں کرے گی اب مذکورہ عورت اپنے متعلق یاد داشت پر زور دے ,اگر اسکا جنین80 دن پورے ہونے سے پہلے ساقط ہوا ہے تو وہ نمازوں کی قضا کرے , اگر اسے چھوڑی ہوئی نمازوں کی تعداد معلوم نہیں تو حتی الإمکان اندازہ لگا کر جو غالب گمان ہو اس کے مطابق نمازوں کی قضا کرے-
سوال (30): ایک خاتون دریافت کرتی ہیں کہ جب سے ان پر روزہ واجب ہوا ہے وہ رمضان کے روزے رکھتی ہیں ,لیکن ان روزوں کی قضا نہیں کرتیں جو حیض کے دنوں میں چھوٹ جاتے تھے, اور چونکہ انہیں چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد معلوم نہیں , اس لئے چاہتی ہیں کہ انہیں اس چیز کی طرف رہنمائی کی جائے جو ان پر واجب ہے؟
جواب: ہمیں افسوس ہے کہ مسلمان عورتوں سے اس طرح کی بات واقع ہو ,کیونکہ واجب روزوں کی قضا نہ کرنا یا تو نا واقفیت کی بنا پر ہے یا سستی وکاہلی کی بنا پر ,اور یہ دونوں ہی مصیبت ہیں , ناواقفیت کا علاج تو یہ ہے کہ علم سیکھا جائے اور جاننے والوں سے دریافت کیا جائے , لیکن سستی وکاہلی کا علاج یہ کہ اللہ عزوجل کا تقوى اختیار کیا جائے ,اس کے عذاب وعقاب سے ڈرا جائے اور اسکی مرضیات کی طرف سبقت کی جائے-
مذکورہ عورت پر ضروری ہے کہ اس سے جو غلطی ہو چکی ہے اس سے اللہ تعالى سے سچی توبہ اور استغفار کرے , اور جتنے روزے چھوڑے ہیں بقدر استطاعت ان کا اندازہ لگا کرقضا کرے , اس طرح وہ بری الذمہ ہو سکتی ہے , اور ہمیں امید ہےکہ اللہ تعالى اس کی توبہ قبول فرما لے گا –
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
تاليف : فضيلت مآب شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله
اردو ترجمة : ابو المكرم عبد الجليل رحمه الله
نظرثا ني : شفيق الرحمن ضياء الله
طباعت واشاعت : دفترتعاون برائےدعوت وارشاد سلطانہ-ریاض
وٙعَلَيــْــكُم السَّـــــــلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔┄┅════════════════════════┅┄
حصّہ اول ⇚ 1 - 30
سوال (1) : عورت اگر فجر کے فوراً بعد پاک ہو جائے تو کیا وہ کھا نے پینے اور دیگر مفطرات سے رک کر اس دن کا روزہ کھے گی ؟ اور کیا اس کے اس دن کے روزہ کا شمار ہوگا یا اسے اس دن کی قضا کرنی ہوگی ؟
جواب: عورت اگر طلوع فجر کے بعد پاک ہوتی ہے تو اس دن اس کے کھانے پینےاور دیگر مفطرات سے باز رہنے کے سلسلہ میں علماء کے دو قول ہیں :
پہلا قول: یہ ہے کہ اسے اس دن کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے رک جانا ضروری ہے ,لیکن اسکا یہ روزہ شمار نہ ہوگا ,بلکہ اس کی قضا کرنی ہوگی ,امام احمد رحمہ اللہ کا مشہور مذ ہب یہی ہے-
دوسرا قول: یہ ہے کہ اس کیلئے اس دن کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے باز رہنا ضروری نہیں , کیونکہ اس کے لئے اس دن کا روزہ رکھنا درست نہیں , اسلئے کہ دن کے ابتدائی حصہ میں وہ حائضہ تھی جس کا روزہ رکھنا درست نہیں, اور جب اس کا روزہ درست نہیں تو کھانے پینے اور مفطرات سے رکے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں, اور یہ وقت ایسا ہے جس کا احترام اس پر ضروری نہیں کیونکہ دن کے ابتدائی حصہ میں وہ روزہ نہ رکھنے کی پا بند تھی , بلکہ اس وقت اس کا روزہ رکھنا حرام تھا ,اور شرعی روزہ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی عبادت کی نیت سے طلوع فجر سےلیکرغروب آفتاب تک مفطرات سے باز رہا جائے-
یہ دوسرا قول جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں پہلے قول سے زیادہ راجح ہے, بہر حا ل دونوں قو ل کی روشنی میں مذکورہ عورت کو اس دن کے روزہ کی قضا کرنی ہوگی-
سوال (2): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ اگر حائضہ عورت (فجرسے پہلے) پا ک ہوئی اور فجر کے بعد غسل کیا اور نماز پڑھی اور اس دن کا روزہ مکمل کیا ,تو کیا اس پر اس روزہ کی قضا واجب ہے ؟
جواب: حائضہ اگر طلوع فجر سے ایک منٹ بھی پہلے پاک ہو اور اسے طہر کا یقین ہو تو اگر یہ رمضان کا مہینہ ہے تو اس پر اس دن کا روزہ واجب ہے اور وہ روزہ صحیح شمار ہو گا ,اس کی قضا واجب نہیں ہوگی کیونکہ اس نے طہر کی حالت میں روزہ رکھا ہے ,اور اس نے غسل اگر چہ فجر بعد کیا ہے ,تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ,جس طرح مرد اگر جماع یا احتلام کے سبب جنبی ہو جائے اور سحری کرلے ,اور غسل طلوع فجر کے بعد کرے, تو اسکا روزہ صحیح ہے-
اس مناسبت سے میں عورتوں سے متعلق ایک اورمسئلہ کی جانب متنبہ کرنا چا ہتا ہوں ,وہ یہ کہ بعض عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ عورت جب دن کا روزہ مکمل کرلے اور اسے افطار کے بعد اور عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے حیض آجائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے ,اسکی کوئی اصل نہیں ,بلکہ اگر غروب آفتاب کے ایک لمحہ کےبعد بھی حیض آجائے تو وہ روزہ مکمل اور صحیح ہے-
سوال (3): نفاس والی عورت اگر چالیس دن سے پہلے پاک ہوجائے تو کیا اس پر روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا واجب ہے؟
جواب: ہاں, نفاس والی عورت پر چالیس دن سے پہلے جب بھی پاک ہو جائے اور رمضان کا مہینہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا واجب ہے اور اس کے شوہر کیلئے اس سے مجامعت کرنا بھی درست ہے کیونکہ وہ عورت اب پاک ہے, اور روزہ اور نماز کےوجوب سے اور جماع کی اباحت سے کوئی چیز مانع نہیں-
سوال (4): اگر عورت کے حیض کی معروف عادت آٹہ دن یا سات دن ہو ,پھر کبھی ایک یا دو مرتبہ اس کا حیض معروف عادت سے زیادہ دن تک رہ جائے ,تواسکا کیا حکم ہے؟
جواب: کسی عورت کی معروف عادت اگر 6 دن یا سات دن ہو ,لیکن پھر یہ مدت لمبی ہوجائے اور اسکا حیض 8 دن یا نودن یا دس دن یا گیارہ دن تک باقی رہ جائے تو وہ پاک ہونے تک نماز نہ پڑھے,کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کی کوئی خاص مدت متعین نہیں کی ہے ,اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿ ويسألونك عن المحيض قل هو أذىً ﴾
البقرۃ[222] ترجمہ"وہ آپ سے حیض کےمتعلق دریافت کرتے ہیں, آپ فرما دیجئے کہ وہ ناپاکی ہے "
اسلئے جب تک حیض کا خون باقی رہے عورت بھی اپنی حالت پر باقی رہے گی, یہاں تک کہ وہ پاک ہو کر غسل کرے اور پھر نماز پڑھے .پھر دوسرے مہینہ میں اگر اسے گزشتہ مہینہ سے کم مدت حیض آ ئے تو جیسے ہی وہ پاک ہو غسل کرلے ,اگر چہ اس مہینہ کی مدت سے کم ہو . الغرض عورت جب تک حیض سے ہو نماز نہ پڑھے ,خواہ یہحیض سابقہ عادت کے مطابق ہو یا اس سے زیادہ ہو یا اس سے کم ہو, اور جب حیض سے پاک ہو جائے نماز پڑھے-
سوال (5): کیا نفاس والی عورت چالیس دن تک نماز اور روزہ ترک کئے رہے گی ,یا اس سلسلہ میں نفاس کے خون کے بند ہونے کا اعتبار کیا جائے گا کہ جیسے ہی خون ہوجائے وہ غسل کرکے نماز شروع کردے؟ نیز طہر کیلئے اقل مدت نفاس کیا ہے؟
جواب : نفاس کی کوئی متعین مدت نہیں ہے , بلکہ جب تک خون آئے عورت نمازو روزہ ترک کئے رہے اور اس کا شوہر اس سے مجامعت بھی نہ کرے , اور جب طہردیکھ لے نماز اور روزہ شروع کردے , اور اب اسکا شوہر اس سے مجامعت بھی کرسکتا ہے, بھلے ہی ابھی چالیس دن پورے نہ ہوئے ہوں, اور اگر چہ اس نے نفاس میں دس دن یا پانچ دن ہی گزارے ہوں -
الغرض نفاس ایک حسی چیزہے اور احکام اس کے وجود یا عدم سے تعلق رکھتے ہیں ,لہذا جب نفاس موجود ہوگا اس کے احکام ثابت ہوں گے ,اور جب عورت پاک ہو جائے گی تو نفاس کے احکام بھی اس سے ساقط ہو جائیں گے , البتہ اگر نفاس کا خون60 دن کےبعد بھی جاری رہے تو اس صورت میں عورت مستحاضہ سمجھی جائے گی ,اس لئے اس حیض کی جو معروف مدت تھی صرف اتنی مدت گزار کر وہ غسل کرے گی اور نماز پڑھےگی –
سوال (6): عورت كو رمضان كے مہینہ میں دن میں خون کے معمولی قطرے آگئے ,اوراس طرح کا خون پورے ماہ اسے آتا رہا اور وہ روزہ رکھتی رہی ,تو کیااسکا روزہ درست ہے ؟
جواب: ہاں, اسکا روزہ درست ہے, اور خون کے ان قطرو ں کا کوئی اعتبار نہیں , کیونکہ وہ رگوں سے آتے ہیں ,اور علی رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ خون کے یہ قطرے جو نکسیر کی طرح ہوتے ہیں حیض نہیں –
سوال (7):حائضہ یا نفاس والی عورت اگرفجرسے پہلے پاک ہوجائے ,لیکن طلوع فجر کے بعد غسل کرے ,تو کیا اسکا روزہ درست ہے؟
جواب: ہاں, حائضہ اور اسی طرح نفاس والی عورت اگر فجر سے پہلے پاک ہو جائے ,لیکن طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اسکا روزہ درست ہے ,کیونکہ وہ جس وقت پاک ہوئی روزہ رکھنے کے لائق ہوگئی اور وہ بعینہ اس مرد کی طرح ہے جو طلوع فجرکے وقت حالت جنابت میں تھا ,تو اسکا روزہ درست ہے ,
کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ فالآن باشروهن وابتغو ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض منالخيط الأسود من الفجر﴾[البقرة:187-
پس اب تم اپنی بيويوں سے مباشرت کرو , اور جو چیز اللہ نے تمہارے لئے لکھی ہے اسے تلاش کرو ,اور کھاتے پیتے رہو , یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھا گے سےظاہر ہو جائے –
تو جب اللہ تعالی نے طلوع فجرتک جماع کرنے کی اجازت دی ہے تو اسکا لازمی مطلب یہ ہے کہ غسل طلوع فجرکے بعد ہوگا-
نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے, کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات سے جماع کے بعد جنابت کی حالت میں صبح کرتے, حالانکہ آپ روزہ سے ہوتے تھے -
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر کے بعد غسل جنابت فرماتے تھے -
سوال (8) عورت نے خون محسوس کیا یا حیض کی تکلیف محسوس کی, لیکن غروب آفتاب سے پہلے خون نہیں آیا, توکیا اس کا یہ روزہ درست ہے یا اس کی قضا کرنا ہو گی؟
جواب: اگر پاک عورت نے حالت صیام میں حیض آنامحسوس کیا یا حیض کی محسوس کی لیکن حیض غروب آفتاب کے بعد آیا ,تو اسکا اس دن کا روزہ درست ہے, لہذااگر وہ فرض روزہ تھا تو اسکا اعادہ نہیں کرنا ہوگا, اور اگر نفل روزہ تھا تو اسکا اجروثواب متاثر نہیں ہوگا –
سوال (9) عورت نے خون دیکھا, لیکن قطعی فیصلہ نہیں کرسکی کہ وہ دم حیض ہی ہے, تو اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہے ؟
جواب: مذکورہ عورت کا اس دن کا روزہ درست ہے ,کیونکہ حیض کا نہ ہونا ہی اصل ہے, یہاں تک کہ اسے حیض آنے کا پورا یقین ہو جائے-
سوال (10) بعض دفعہ عورت دن کے مختلف اوقات میں خون کا معمولی اثریا خون کےمعمولی قطرے دیکھتی ہے ,کبھی تو ایسا حیض کے ایام میں دیکھتی ہے جبکہ ابھی حیض شروع نہیں ہوا ہے ,اورکبھی ایام حیض کے علاوہ ایام میں دیکھتی ہے ,سوال یہ ہے کہ مذکورہ دونوں حالتوں میں اسکے روزہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: تقریبا اسی قسم کے ایک سوال کا جواب گزرچکا ہے ,البتہ سوال کا ایک حصہ باقی رہ جاتا ہے ,وہ یہ کہ خون کے قطرے اگر حیض کے ایام میں دکھائی دیں اور وہ انہیں حیض سمجھ رہی ہو جو اس کے نزدیک معروف ہے , تو وہ حیض کے حکم میں ہوں گے-
سوال (11) کیا حائضہ اورنفاس والی عورتیں رمضان المبارک کے مہینہ میں دن میں کھا ,پی سکتی ہیں ؟
جواب: ہاں, حیض اور نفاس والی عورتیں رمضان المبارک کے مہینہ میں دن میں کھا ,پی سکتی ہیں ,البتہ بہتر یہ ہےکہ اگر گھر میں بچے ہوں تو چھپ کر کھائیں ,تاکہ بچوں کےذہن میں کوئی اشکا ل نہ پیدا ہو -
سوال (12) حائضہ یا نفاس والی عورت اگرعصر کے وقت پاک ہو ,تو کیا اسے عصر کے سا تہ ظہر کی نماز پڑھنا ہوگی یا وہ صرف عصر کی نماز پڑھے گی ؟
جواب : اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ مذکورہ عورت کو صرف عصر کی نماز پڑھنا ہوگی ,کیونکہ اس صورت مین ظہر کی نماز کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ,اوربراءت ذمہ یعنی عدم وجوب ہی اصل ہے –
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے:
"جس نے غروب آفتاب سے پہلےعصر کی ایک رکعت بھی پالی اس نے عصر کی نماز پالی " اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اس نے ظہر کی نماز پالی,حالانکہ ظہر کی نماز بھی اس صورت میں واجب ھوتی تو آپ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا-
مذکورہ بالا صورت میں عورت پر ظہر کی نماز کے واجب نہ ہونے کی ایک وجہ اور بھی ہے , وہ یہ کہ اگر عورت ظہر کا وقت ہو جانے کے بعد حائضہ ہو تو اسے صرف ظہرکی نماز قضا کرنا ہو گی ,عصر کی نہیں ,حالانکہ ظہر اورعصر کو ایک ساتہ ملا کر جاتا ہے ,اور اس صورت میں اور سوال کے اندر مذکور صورت میں کوئی فرق نہیں -
لہذا بعض حدیث اور قیاس کی روشنی میں مذکورہ عورت پر صرف عصر کی نماز پڑھنا لازم ہے اور ٹھیک اسی طرح اگروہ عشاء کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلےپا ک ہو جائے تو اسے صرف عشاء کی نماز پڑھنی ہوگی ,مغرب کی نہیں –
سوال (13) جن عورتوں کا حمل ساقط ہوتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہو تیں :یا تو اسقاط حمل جنین کی تخلیق سے پہلے ہوتا ہے ,اوریا تو جنین کی تخلیق اور اسکے اندر شکل وصورت بننے کے بعد ,اب سوال یہ ہے کہ جس دن اسقاط حمل ہوا اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہے؟ نیز ان ایام کے روزہ کا کیا حکم ہے جن میں وہ خون دیکھتی ہے ؟
جوا ب: ا گر جنین کی تخلیق نہیں ہوئی ہے تو یہ خون نفاس کا خون نہیں ,لہذا وہ عورت نماز پڑھے گی اور روزہ رکھے گی اوراسکا روزہ بھی درست ہے , اوراگر جنین کی تخلیق ہو چکی ہے تو یہ خون نفاس کا خون ہے , لہذا اس حالت میں اس کا نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا جائز نہیں –
اس مسئلہ میں قاعدہ یا ضابطہ یہ ہے کہ اگر جنین کی تخلیق ہو چکی ہو تو اسقاط کے بعد آنےوالا خون نفاس کا خون ہے, اور اس صورت میں اس کیلئےوہ سب حرام ہے جو ایک نفاس والی عورت پرحرام ہو تا ہے , اور اگر جنین کی تخلیق نہ ہوئی ہو تو وہ خون نفاس کا خون نہیں ,لہذا نفاس والی عورت پر جو چیزیں حرام ہیں وہ اس پر حرام نہیں-
سوال (14) : حاملہ عورت کو اگر رمضان کے مہینہ میں دن میں خون آجائے تو کیا اس کا روزہ متاثر ہوگا ؟
جواب: اگر عورت روزے سے ہو اوراسے حیض کا خون آجائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے,کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"کیا ایسا نہیں کہ جب عورت حیض سے ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے"-
اسی لئے حیض کو مفطرات (روزہ ٹوڑنے والی اشیاء)میں شمار کیا جاتا ہے , اورنفاس کا حکم بھی وہی ہے ,لہذ ا حیض یا نفاس کا خون آنے سے روزہ ٹوٹ جائیگا –
رہا حاملہ عورت کو رمضان المبارک کے مہینےمیں دن میں خون آنے کا مسئلہ ,تو وہ اگر حیض کا خون ہے تو اس کا حکم غیر حاملہ عورت کے حیض کا ہے ,یعنی اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا , اور اگر حیض کا خون نہیں تو اس سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا-
حاملہ عورت کو جو حیض آسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جب سے اس کو حمل قرار پایا ہے اس کا حیض بند نہ ہوا ہو ,بلکہ عادت کے مطابق آتا رہا ہو , تو راجح قول کے مطابق وہ حیض ہے اور اس پر حیض کے احکام نافذ ہوں گے , لیکن اگر اس کا حیض بند ہو گیا ہو , پھر اس کے بعد وہ خون دیکھے جو حیض کا معروف خون نہیں ,تو اس سے روزہ متاثر نہیں ہوگا , کیونکہ وہ خون ,حیض نہیں –
سوال (15): عورت اگرحیض کی عادت کے دنوں میں ایک دن خون دیکھے ,اوراس کے دوسرے دن پورے دن خون نہ دیکھے ,تو اس کو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب: اس مسئلہ میں ظاہر یہ ہے کہ اس عورت نے اپنے حیض کے ایام میں جو طہریا خشکی دیکھی ہےوہ حیض کے تا بع ہے ,لہذا وہ طہر شمار نہیں ہوگا , بنابریں وہ اس چیز سے بچے گی جس سے حائضہ عورت بچتی ہے-
لیکن بعض اہل علم نے یہ کہا کہ جو عورت ایک دن خون دیکھے اور ایک دن خون نہ دیکھے ,تو خون حیض شمار ہوگا اور خون نہ آنے والا دن طہر ,یہاں تک کہ پندرہ دن گزرجائیں ,پندرہ دن کے بعد پھر وہ استحاضہ شمار ہوگا , امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب یہی ہے-
سوال (16): حیض کے آخری ایام میں طہر سے پہلے عورت خون کا کوئی اثر نہین پاتی ,تو کیا وہ اس دن روزہ رکھ سکتی ہے جبکہ ابھی اس نے سفید پانی نہیں دیکھا ہے ؟یا اسے کیا کرنا ہوگا ؟
جواب: اگر مذکورہ عورت کی عادت یہ ہو کہ وہ حیض کے بعد سفید پانی نہیںدیکھتی ,جیسا کہ بعض عورتوں میں یہ بات پائی جاتی ہے , تو وہ روزہ رکھے گی , اور اگر اسکی عادت یہ ہو کہ وہ حیض کےبعد سفیدی دیکھتی ہے ,تو جب تک سفیدی نہ دیکھ لے روزہ نہیں رکھ سکتی -
سوال (17): حائضہ اور نفاس والی عورت کے لئے ضرورت کے تحت مثلاً طالبہ یا معلّمہ ہونے کی صورت میں دیکھ کر یا زبانی قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ضرورت کے تحت حائضہ یا نفاس والی عورت مثلاًطالبہ یا معلمہ کیلئے رات یا دن کسی بھی وقت قرآن کریم پڑھنے اور اس کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ,لیکن اجروثواب کی غرض سے اس حالت میں قرآن کریم کی تلاوت نہ کرنا ہی افضل ہے ,کیونکہ بہت سے بلکہ اکثراہل علم کا یہی خیال ہے کہ حائضہ کیلئے قرآن کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں –
سوال (18): كيا حائضہ عورت کیلئے طہر کےبعد کپڑے تبدیل کرنا ضروری ہیں ؟بھلے ہی اس میں خون یا نجاست نہ لگی ہو ؟
جواب: نہیں ,کپڑے تبدیل کرنا ضروری نہیں , کیونکہ حیض سے جسم ناپاک نہیں ہوتا ,بلکہ صرف وہ چیزیں ناباک ہو تی ہے جس میں یہ خون لگ جائے ,اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےعورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو وہ اسے دھو لیں اور اس میں نماز پڑھیں .
سوال (19): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نفاس کیوجہ سےرمضان کے سات روزے نہیں رکھے , اور دوسرا رمضان آنے تک اس نے ان روزوں کی قضا بھی نہیں کی , پھر دوسرے رمضان کے بھی اس کے سات روزے رہ گئے کیونکہ وہ بچے کو دودہ پلا رہی تھی ,بیماری کا عذر ہونے کیوجہ سے اس نے ان روزوں کی بھی قضا نہیں کی , اب جبکہ تیسرا رمضان قریب ہے اس عورت کو کیا کرنا چاہئے ؟ جواب سے مستفید فرمائیں , اللہ تعالی آپ کو اجروثواب سے نوازے –
جواب : مذکورہ عورت اگروا قعی مریض ہے اور روزوں کی قضا کی استطاعت نہیں رکھتی , تو چونکہ وہ معذور ہے اس لئے جب بھی اپنے اندر استطاعت پائے روزوں کی قضا کرے. اگرچہ دوسرا رمضان آجائے , لیکن اگر اسکے پاس کو ئی عذر نہیں ,بلکہ بہانہ بازی اور سستی کر رہی ہے , تو اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرے , عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" ميرے ذمہ روزے باقی ہوتے تھے,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کر پاتی تھی" بنابریں اس عورت کو اپنے سلسلے میں غور کرنا چاہئے , اگراسکے پاس کوئی معقول عذر نہیں ہے تو وہ گنہگار ہے, اور اسکے ذمہ جو روزے باقی ہیں ان کی قضا کرنے میں جلدی کرے ,لیکن اگر وہ واقعی معذور ہے تو روزوں کی قضا میں سال دوسال کی بھی تاخیر ہو جائے تو اس مین کوئی حرج نہیں –
سوال (20): بعض عورتوں کا حال یہ ہے کہ دوسرا رمضان آجاتا ہے اور وہ ابھی گزشتہ رمضان کےچھوڑے ہوئے روزوں کی قضا نہیں کئے ہوتی ہیں , تو ایسی عورتوں پر کیا واجب ہے؟
جواب : ایسی عورتوں پريہ واجب ہے کہ وہ اس فعل سے اللہ تعالی سے سچی توبہ کریں (اور دوسرا رمضان ختم ہوتے ہی ان روزوں کی قضا کرلیں ) کیونکہ بغیر کسی عذر کے ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرنا جائز نہیں ,جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے" میرے ذمہ روزے باقی ہوتے تہے ,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کرپأتی تھی "
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ایک رمضان کے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے بعد تک مؤخر کرنا ممکن نہیں ,لہذ ا ایسی عورتوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے اللہ عزوجل سے سچی توبہ کریں اوردوسرے رمضان کے بعد چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرلیں-
سوال (21): اگر عورت دوپہر کے بعد مثلاً ایک بجے حائضہ ہوجائے اور اس نے ابھی تک ظہر کی نماز نہ پڑھی ہو ,تو کیا پاک ہونے کے بعد اسے اس نماز کی قضا کرنی ہوگی؟
جواب : اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے , بعض کا یہ کہنا ہے کہ مذکورہ عورت پر اس نماز کی قضا واجب نہیں ,کیونکہ اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی اورنہ ہی گنہگار ہوئی ,کیونکہ اس کیلئے نماز کواس کے آخری وقت تک مؤخرکرنا جائز ہے ,لیکن بعض دوسرے علماء یہ کہتے ہیں کہ اس پر مذکورہ نمازکی قضا واجب ہے ,کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے"جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نےنمازپالی " ویسے احتیاط اسی میں ہے کہ وہ اس نماز کی قضا کرلے ,کیونکہ ایک نماز کی بات ہے جس کی قضا میں عورت کیلئے کوئی مشقت وپریشانی نہیں –
سوال (22 ): حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یا دو دن پہلے خون دیکھ لے ,تو کیا اس کی وجہ سے وہ نماز اور روزہ ترک کردیگی ؟
جواب: حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یادودن پہلے خون دیکہ لے اورولادت کی تکلیف (دردزہ) محسوس کرے ,تو یہ نفاس شمار ہوگا ,لہذا اس کی وجہ سے عورت نماز اورروزہ چھوڑدے گی –لیکن اگرخون آنے کےساتہ دردزہ محسوس نہ کرے ,تو یہ فاسد خون مانا جائے گا جس کا کوئی اعتبار نہیں , اورنہ ہی یہ خون نماز اور روزہ سے مانع ہے –
سوال (23): لوگوں کے ساتہ روزہ رکھنے کی غرض سے مانع حیض گولیوں کے استعمال کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب: میں اس بات سے سختی سےمنع کرتا ہوں ,کیونکہ اطباء کے ذریعہ میرے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ان گولیوں کے بڑے نقصانات ہیں ,لہذا عورتوں سے یہی کہنا ہے کہ یہ بات اللہ تعالی نے تمام عورتوں کیلئے مقدر فرمادی ہے ,اسلئے اللہ عزوجل کی مقررکردہ تقدیر پر قانع رہو, اور جب کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو تو روزہ رکھو ,اور جب کوئی شرعی رکاوٹ درپیش ہو تو اللہ عزوجل کی تقدیر پر رضا مند رہتے ہوئے روزہ توڑدو-
سوال (24): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت کو شوہر سے ہمبستری اور حیض سے پاک ہونے کے دوماہ بعد خون کے چھوٹے چھوٹے قطرے آنے لگے ,اب اس حالت میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے یا کیا کرے؟
جواب: حیض اور نکاح (جماع) سے متعلق عورتوں کی مشکلات اس سمندر کےمانند ہےجسکا کوئی ساحل ہی نہیں,( یعنی بےشمار ہیں) ,جس کا ایک سبب مانع حیض اور مانع حمل گولیوں کا استعمال بھی ہے , سابقہ دور میں اس قسم کے اکثر اشکالات کو جانتے بھی نہ تھے ,یہ صحیح ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہی سے بلکہ جب سے عورت کا وجود ہو ا اسی وقت سے اشکالات موجود ہیں ,لیکن اشکالات کی ایسی کثرت وبہتات کہ انسان ان کے حل کرنے میں حیران وپریشان ہوجائے ,بڑی افسوسناک بات ہے.
لیکن اس سلسلہ میں عام قاعدہ یہ ہے کہ عورت جب پاک ہوجائے , اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکہ لے,اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکھنے سےمیری مرا د یہ ہے کہ اسے وہ سفید پانی نظر آجائے جسے عورتیں جانتی ہیں ,خواہ وہ پانی مٹ میلا ہو ,یا زردی مائل ہو , یا قطرہ ہو , یا رطوبت ہو , تو یہ سب حیض میں شمار نہیں ہیں , اسلئے اس کے لئے نماز اورروزہ سے مانع نہیں اورنہ ہی اس کے شوہر کیلئے مجامعت سے مانع,کیونکہ یہ سب چیزیں حیض سے نہیں ,
جیسا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :"هم زردي مائل يا مـ ٹ میلے پانی کا کچھ اعتبار نہیں کرتے تھے "
اس حديث كو اما م بخاري نے روایت کیا ہے.اور امام ابوداود نے اس میں لفظ طہر کا اضافہ کیا ہے (یعنی طہر کے بعد ہم زردی مائل یا مٹ میلے پانی کا کچہ اعتبار نہیں کرتے تھٍٍے ) اس حدیث کی سند صحیح ہے.
اس بنا پر ہم کہ سکتے ہیں کہ طہر کا یقین ہو جانے کے بعد اس قسم کی جو بھی چیز ظاہر ہو وہ عورت کیلئے مضر نہیں , اور نہ ہی اس کے لئے نماز ,روزہ اور شوہر کے ساتہ ہمبستری سے مانع ہے , لیکن اس پر واجب ہے کہ جب تک وہ طہر نہ دیکھ لے جلدی نہ کرے ,کیونکہ بعض عورتیں جیسے ہی دیکھتی ہیں کہ خون بند ہو گیا طہر دیکھے بغیر جلدی سے غسل کر لیتی ہیں ,
یہی وجہ ہے کہ صحابیات –رضی اللہ عنہن- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کےپاس کرسف یعنی خون والی روئی بھیجتیں , تو وہ جواب میں ان سے فرماتیں کہ جلدی نہ کرو یہاں تک کہ سفیدی دیکھ لو .
سوال (25): بعض عورتوں کو مسلسل خون جاری رہتا ہے , اورکبھی ایسا ہوتا ہےکہ ایک یا دو دن بند رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہو جاتا ہے ,ایسی حالت میں ان کیلئے نماز ,روزہ اوردیگر عبادتوں کا کیا حکم ہے؟
جواب: بہت سے اہل علم کےنزدیک مشہور یہی ہے کہ اگر عورت کی کوئی مخصوص عادت (یعنی متعین مدت ) ہے , تو اس عادت کے پوری ہوجانے کے بعد وہ غسل کرے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے , اور دو یا تین دن کے بعد وہ جو خون دیکھتی ہے وہ حیض نہیں ھے , کیونکہ ان علماء کے نزدیک طہر کی کم سے کم مدت تیرہ (13)دن ہے ,اور بعض دوسرے اہل علم یہ کہتے ہیں کہ جب وہ خون دیکھے حائضہ شمارہوگی , اور جب نہ دیکھے پاک شمار ہو گی , اگرچہ دونوں حیض کے درمیان تیرہ (13) دن کا وقفہ نہ ہو.
سوال (26):عورت کیلئے رمضان المبارک کی راتوں میں گھرمیں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں ؟ خاص کر اس صورت میں جبکہ مسجد میں وعظ ونصیحت کا سلسلہ بھی ہو ؟ نیز مسجد میں نماز پڑھنے والی عورتوں کو آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟
جواب: افضل یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں نماز پڑھے , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے :"اور عورتوں کے لئے ان کا گھر نماز کے لئے زیادہ بہترہے"
نیز اس لئے کہ عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا بہت سے حالات میں فتنہ سے خالی نہیں ہوتا , اس لئے اس کا گھر میں نمازپڑھ لینا مسجد جانے سے بہتر ہے, جہان تک وعظ ونصیحت کے سننے کی بات ھے ,تو یہ کیسٹ کے ذریعہ بھی ہو سکتا ہے -
جو عورتیں نماز کیلئے مسجد جاتی ہیں ان کو میری یہی نصیحت ہے کہ وہ کسی زیب وزینت کا مظاہرہ نہ کریں اورنہ ہی خوشبو لگا کرجائیں.
سوال (27) :عورت كے لئے رمضان المبارک کے مہینہ میں روزہ کی حالت میں کھانا چکھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : ضرورت اسکی متقاضی ہو تو اسکے چکھنےمیں کوئی حرج نہیں ,لیکن چکھنے کے بعد وہ اسے تھوک دے .
سوال (28): ایک عورت حمل کے ابتدائی ایام سے گزررہی تھی کہ ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگئی اور بہت زیادہ خون گرنے کی وجہ سے جنین (پیٹ کا بچھ) سا قط ہو گیا , تو ایسی صورت میں کیا وہ روزہ توڑدے یا جاری رکھے ؟ اور اگر روزہ توڑدے تو کیا اس پر کوئی گناہ ہے ؟
جواب : ہمارا یہ خیال ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا, جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عورتوں کو حیض بند ہونے سے ہی حمل کا پتہ چلتا ہے , اور حیض کو جیسا کہ اہل علم کہتے ہیں ,اللہ تبارک وتعالی نے اس حکمت کے تحت پید ا فرمایا ہے کہ وہ ماں کے پیٹ میں جنیں کے لئے غذا بنے , لہذا جیسے ہی حمل قرار پاتا ہے حیض آنا بند ہوجاتا ھے ,لیکن بعض عورتوں کو حسب عادت حمل کے بعد بھی حیض جاری رہتا ہے جسطرح حمل سے پہلے تھا , تو ایسی عورت پر یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس کا یہ حیض صحیح حیض ہے , کیونکہ وہ حمل سے متاثر ہوئے بغیر جاری ہے –تو اس قسم کا حیض بھی ہر اس چیز سے مانع ہوگا جس سے غیر حاملہ کا حیض مانع ہوتا ہے ,اورہر اس چیزکو واجب کرنے والا ہوگا جس کو غیر حاملہ کا حیض واجب کرتا ہے, اور ہر اس چیز کو ساقط کردے گا جسے غیر حاملہ کا حیض ساقط کرتا ہے .
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حاملہ کو جو خون آتا ھے وہ دو طرح کا ہوتا ہے :
ايك طرح كے خون پر حیض کا حکم عائد ہوگا,اوریہ وہ خون ہے جوحمل کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح جاری رہے , جسکا مطلب یہ ہے کہ وہ حمل سے متاثر نہیں ہوا ہے ,لہذا وہ حیض شمار ہوگا.
دوسرا خون وہ ہے جو کسی ایکسیڈ نٹ کےسبب یا کسی وزنی چیز کے اٹھانے کی وجہ سے یا کہیں سے گرجانے کے باعث اچانک آجائے ,تو یہ حیض نہیں ,بلکہ رگ کا خون ھے ,لہذا اس کیلئے نماز اور روزہ سے مانع نہیں ہوگا ,بلکہ یہ پاک عورتوں کے حکم میں ھوگی,لیکن اگر ایکسیڈ نٹ کے سبب پیٹ کا بچہ یا حمل ساقط ہو جائے تو اہل علم کے بقول اس کی دو صورت ہے :
پہلی صورت یہ ہے کہ پیٹ کا بجہ اس حال میں ساقط ہو کہ اس کی شکل وصورت ظاہر ہوچکی ھے, تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہو گا ,جس میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے گی , اور پاک ہونے تک اس کا شوہر بھی اس سے ہمبستری نہیں کرسکتا.
دوسری صورت یہ ہے کہ حمل اس حال میں ساقط ہو کہ ابھی اس کی شکل وصورت ظاہر نہیں ہوئی ہے ,تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس نہیں, بلکہ فاسد خون شمارہو گا ,جو اس کے لئے نماز ,روزہ اور دیگر امور سے مانع نہیں .ا ہل علم فرماتے ہیں کہ تخلیق (شکل وصورت ) ظاہر ہونے کی اقل مدت اکیاسی (81) دن ہے, جیسا کہ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ صادق ومصدوق ہیں ,نے فرمایا :" ہر شخص اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے , پھر اسی مدت کے بقدرخون کا لوتھڑا رہتا ہے ,پھر اس کے اسی مدت کے بقدر گوشت کا ٹکڑا رہتا ہے ,پھر اس کے پاس فرشتہ بھیجا جاتا ہے جسے چار باتوں کا حکم ہوتا ہے ,چنانچہ وہ اس کی روزی , اس کی زندگی کی مدت , اس کا عمل اور یہ کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت لکھ دیتا ہے"
لہذا اس مدت سے پہلے پیٹ کے اندر جنین کی خلقت کا مظاہرہ ہونا ممکن نہیں ,ویسے عموما نوے (90) دن سے پہلے خلقت ظاہر نہیں ہوتی , جیسا کہ بعض اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے .
سوال (29): ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ تقریبا سال بھر پہلے تیسرے مہینے مین میرا حمل ساقط ہوگیا , پاک ہونے تک میں نے نماز نہیں پڑھی ’ مجھے بتایا گیا کہ مجھ پر نماز پڑھنی واجب ہے , اب میں کیا کروں جبکہ میں متعین طور پردنو ں کی تعداد نہیں جانتی ؟
جواب : اہل علم کے نزدیک معروف یہی ہے کہ عورت تین ماہ کا جنین ساقط کردے تو وہ نماز نہیں پڑھے گی, کیونکہ اگر وہ ایسا جنین ساقط کرتی ہے جس کے اندر انسانی شکل و
صورت ظاہر ہوچکی ہو تو اس حالت میں آنے والا خون نفاس کا خون ہے جسکے ہوتے ہوئے عورت نماز نہیں پڑھے گی –
علماء کا کہنا ہے کہ جنین کی شکل وصورت (81) اکیاسی دن پورے ہونے پر ظاہر ہو سکتی ہے ,اوریہ مدت تین ماہ سے کم ہے , لہذا اگر عورت کو یقین ہو کہ ساقط ہونے والا جنین تین ماہ کا ہو چکا ہے تو آنے والا خون نفاس کا خون ہٍے,لیکن اگرجنین (80)اسّی دن سے پہلے ساقط ہوا ہے تو اس صورت میں آنے والا خون فا سد خون ہے جس کی وجہ سے وہ نماز ترک نہیں کرے گی اب مذکورہ عورت اپنے متعلق یاد داشت پر زور دے ,اگر اسکا جنین80 دن پورے ہونے سے پہلے ساقط ہوا ہے تو وہ نمازوں کی قضا کرے , اگر اسے چھوڑی ہوئی نمازوں کی تعداد معلوم نہیں تو حتی الإمکان اندازہ لگا کر جو غالب گمان ہو اس کے مطابق نمازوں کی قضا کرے-
سوال (30): ایک خاتون دریافت کرتی ہیں کہ جب سے ان پر روزہ واجب ہوا ہے وہ رمضان کے روزے رکھتی ہیں ,لیکن ان روزوں کی قضا نہیں کرتیں جو حیض کے دنوں میں چھوٹ جاتے تھے, اور چونکہ انہیں چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد معلوم نہیں , اس لئے چاہتی ہیں کہ انہیں اس چیز کی طرف رہنمائی کی جائے جو ان پر واجب ہے؟
جواب: ہمیں افسوس ہے کہ مسلمان عورتوں سے اس طرح کی بات واقع ہو ,کیونکہ واجب روزوں کی قضا نہ کرنا یا تو نا واقفیت کی بنا پر ہے یا سستی وکاہلی کی بنا پر ,اور یہ دونوں ہی مصیبت ہیں , ناواقفیت کا علاج تو یہ ہے کہ علم سیکھا جائے اور جاننے والوں سے دریافت کیا جائے , لیکن سستی وکاہلی کا علاج یہ کہ اللہ عزوجل کا تقوى اختیار کیا جائے ,اس کے عذاب وعقاب سے ڈرا جائے اور اسکی مرضیات کی طرف سبقت کی جائے-
مذکورہ عورت پر ضروری ہے کہ اس سے جو غلطی ہو چکی ہے اس سے اللہ تعالى سے سچی توبہ اور استغفار کرے , اور جتنے روزے چھوڑے ہیں بقدر استطاعت ان کا اندازہ لگا کرقضا کرے , اس طرح وہ بری الذمہ ہو سکتی ہے , اور ہمیں امید ہےکہ اللہ تعالى اس کی توبہ قبول فرما لے گا –
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
تاليف : فضيلت مآب شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله
اردو ترجمة : ابو المكرم عبد الجليل رحمه الله
نظرثا ني : شفيق الرحمن ضياء الله
طباعت واشاعت : دفترتعاون برائےدعوت وارشاد سلطانہ-ریاض
وٙعَلَيــْــكُم السَّـــــــلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam Part 2
- Kya Napaki Ki Halat Me Sehri Kha Sakte Hai?
- Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat
- Ramzan ke Mahine Me Shaitan Ko Kaid Kar Liya Jata Hai.
- Taraweeh Ki Namaj 8 ya 20 rakaat Sunnat HAi?
- Ramzan Ke Mahine Me Kya Aurat Haiz ko rokne ke liye Dawa Le Sakti hai?
- Iftar ke Waqt Padhi Jane wali Dua.
- Kiske Nam Se Mannat Mangna Chahiye?
Ramzan Ka Mahina Kaisa Mahina Hai? - ramzan Ke mahine me Jhoot nahi bolne walo ko khush khabri.
- Quran Padhne Walo Ki Azmat
- Roza Farz Hone Ke Sharayet, Kis Par Ramzan Ke Roze Farz Hain
- Rozedar Ke Liye Jayez Kaam
- Roze Ki Niyat Ke Masail ~ Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga
- Iftar Ka Waqt Aur Uske Masail~ Iftar Ki Dua, Iftar Ka Sahih Waqt
- Musaafir Ke Roze Ke Ahkaam Aur Masail
- Roza Ke Fazail Wa Masail,Ramzan Ka Chaand Aur Dua
- Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat
- Kya Bhook Lagne Par Roza Tod Sakte Hain, Kya Roza Ke Badle Miskeen Ko Khana Khila Sakte Hain
- Roza Jaldi Kholne Ka Azab, Roza Na Rakhne Ka Azab
- Roze Me Haiz O Nafaas Ke Aham Tareen Masail