find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Parde Aur Be Parde Ki Halat me Paida Hone wali Aulad Kaisa Hota Hai?

Parde Aur Be Pardagi Me kitni Farq Hai?
ایک گاؤں میں ایک باپردہ خاتون رہتی تھیں
جن کی ڈیمانڈ تھی کہ شادی اس سے کریں گی جو انہیں باپردہ رکھے گا
ایک نوجوان اس شرط پر نکاح کے لیے رضامند ہوجاتا ہے
دونوں کی شادی ہوجاتی ہے ۔ وقت گذرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک بیٹا ہوجاتا ہے ۔
ایک دن شوہر کہتا ہے کہ میں سارا دن کھیتوں میں کام کرتا ہوں ۔ کھانے کے لیے مجھے گھر آنا پڑتا ہے جس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے تم مجھے کھانا کھیتوں میں پہنچادیا کرو
بیوی راضی ہوجاتی ہے ۔۔
وقت گذرتے گذرتے ایک اور بیٹا ہوجاتا ہے
جس پر شوہر کہتا ہے کہ اب گذارا مشکل ہے تمہیں میرے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹانا پڑے گا
یوں وہ با پردگی سے نیم پردے تک پہنچ جاتی ہے
اور تیسرے بیٹے کی پیدائش پر اس کا شوہر مکمل بےپردگی تک لے آتا ہے
وقت گذرتا رہتا ہے یہاں تک اولاد جوان ہوجاتی ہے
ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے شوہر ہسنے لگتا ہے
بیوی سبب پوچھتی ہے تو کہتا ہے کہ بڑا تو پردہ پردہ کرتی تھی آخر کار تیرا پردہ ختم ہوگیا ۔۔ کیا فرق پڑا پردے اور بے پردگی کا
زندگی تو اب بھی ویسے ہی گذر رہی ہے
وہ بولتی ہے کہ تم ساتھ والے کمرے میں چھپ جاؤ میں تمہیں پردے اور بے پردگی کا فرق سمجھاتی ہوں
شوہر کمرے میں چھپ جاتا ہے
عورت اپنے بال بکھیرے رونا پیٹنا شروع کردیتی ہے
پہلے بڑا بیٹا آتا ہے ۔ رونے کا سبب پوچھتا ہے
کہتی ہے تیرے باپ نے مارا ہے
بڑا بیٹا ماں کو سمجھاتا ہے کہ اگر مارا ہے تو کوئی بات نہیں وہ آپ سے محبت بھی تو کرتے ہیں آپ کا خیال رکھتے ہیں ۔
وہ سمجھا بجھا کر چلا جاتا ہے
عورت پھر سے رونے کی ایکٹنگ کرتی ہے اور منجھلے بیٹے کو بلا کر بتاتی ہے کہ تیرے باپ نے مجھے مارا
منجھلا بیٹا کو غصہ آتا ہے وہ باپ کو برا بھلا کہتے ہوئے ماں کو سمجھا بجھا کر چپ کروا کر چلا جاتا ہے
آخر کار عورت یہی ڈرامہ چھوٹے بیٹے کے سامنے کرتی ہے
چھوٹا بیٹا تو غصہ سے آگ بگولہ ہوجاتا ہے اور زور زور سے گالیاں بکتے ہوئے ڈنڈا اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ ابھی باپ کی خبر لیتا ہوں
پھر عورت شوہر کو بلا کر بولتی ہے
کہ پہلا میرے پردے کے وقت پیدا ہوا
تو اس نے تیرا پردہ رکھا
دوسرا نیم پردے کے زمانے میں پیدا ہوا
تو تیری آدھی لاج رکھ لی
جبکہ تیسرا جو مکمل بے پردگی کے زمانے میں ہوا
تو وہ مکمل طور پر تیرا عزت کا پردہ اتارنے گیا ہے
حاصل کلام:
پردہ عورت کا فطری تقاضا ہے
جو خالق مرد وزن کی طرف سے قاعدہ بھی ہے ۔۔

Share:

Kya 6 kalme Ager yad nahi Ho to Hm Musalman Nahi Ho Sakte?

Kya islam Me 6 kalme Hai aur use Yad Karna Ekdam Jaruri Hai?

بسم اللہ الرحمن الرحیم
برصغیر پاک وہند میں شش کلمے کے نام سے چند دعائیہ کلمات اور تسبیحات بہت پابندی سے بچوں کو یاد کروائے جاتے ہیں، اس تحریر میں ہم آپ کے سامنے ان کلمات کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کریں گے،
چھ کلمے جو معروف ہیں :
____________________
پہلا کلمہ طیّب
لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول،
یہ کلمہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے،
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایاتوتکبرکرنے والی ایک قوم کاذکرکیا: یقیناجب انہیں لاالہ الااللہ کہا جاتاہے توتکبرکرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب کفرکرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تواللہ نے اپنا سکون واطمینان اپنے رسول اورمومنوں پراتارااوران کے لئے کلمة التقوی کولازم قراردیا اوراس کے زیادہ مستحق اوراہل تھے اوروہ (کلمة التقوی) ’’لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ‘‘ہے۔حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت (مقرر کر نے) و الے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیاتھاتومشرکین نے اس کلمہ سے تکبرکیاتھا''۔
[کتاب الاسماء والصفات للبیہقی:ـ جلد نمبر 1صفحہ نمبر263حدیث نمبر195۔ ناشر:مکتبة السوادی، جدة ،الطبعة الأولی]۔
یہ حدیث بالکل صحیح ہے، اس کی سندکے سارے راوی سچے اورقابل اعتمادہے ہیں
دوسرا کلمہ شہادت کہا جاتا ہے جو ایمان کا لفظی اقرار ہے
اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ
یہ بھی کمی بیشی کے ساتھ احادیث سے ثابت ہے، اور احادیث میں اس کو پڑھنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص دن بھر میں سو مرتبہ یہ دعا پڑھے گا «لا إله إلا الله وحده لا شريك له،‏‏‏‏ له الملك،‏‏‏‏ وله الحمد،‏‏‏‏ وهو على كل شىء قدير‏.‏»
”نہیں ہے کوئی معبود، سوا اللہ تعالیٰ کے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے۔ اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“
تو اسے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔ سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس سے مٹا دی جائیں گی۔ اس روز دن بھر یہ دعا شیطان سے اس کی حفاظت کرتی رہے گی۔ تاآنکہ شام ہو جائے اور کوئی شخص اس سے بہتر عمل لے کر نہ آئے گا، مگر جو اس سے بھی زیادہ یہ کلمہ پڑھ لے۔
(صحیح بخاری 3293)
تیسرا کلمہ تمجید کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے؛
سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْد ﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ ط وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ
یہ الفاظ الگ الگ دو مختلف احادیث میں آئے ہیں
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں یہ کلمات کہوں سبحان اللہ ، الحمد اللہ لا الہ الا اللہ ،اللہ اکبر تو یہ میرے نزدیک ان سب اشیا سے زیادہ محبوب ہیں جن سورج طلوع ہوتا ہے ( یعنی ساری دنیا سے زیادہ محبوب) (مسلم)
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن قیس کلمہ لا حول ولا قوۃ الا با اللہ کہا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے
(بخاری ، مسلم)
چوتھا کلمہ جس کو توحید کہا جاتا ہے؛
لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَهُ لَاشَرِيْکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْی وَيُمِيْتُ وَهُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا ط ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط بِيَدِهِ الْخَيْرُ ط وَهُوَعَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْر.
ان میں سے بعض الفاظ قرآن مجید کے ضرور ہیں مگر یہ کلمات اس ترتیب کے ساتھ ثابت نہیں ہیں؛
__________________________________
پانچواں کلمہ اِستغفار
اَسْتَغْفِرُ اﷲَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهُ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآ اَعْلَمُ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ.
یہ الفاظ اس ترتیب کے ساتھ قرآن و حدیث میں کہیں بھی مذکور نہیں ہیں
_________________________________
6 چھٹا کلمہ ردِّ کفر
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَيْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِهِ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِهِ تُبْتُ عَنْهُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِيْبَةِ وَالْبِدْعَةِ وَالنَّمِيْمَةِ  وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُهْتَانِ وَالْمَعَاصِيْ کُلِّهَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ.
یہ بھی دعائیہ کلمات ہیں جن کا مصدر معلوم نہیں ...
خلاصہ : چھ کلموں کو بر صغیر میں علماء نے مشہور کیا کیونکہ عوام عربی سے ناواقف تھے لہذا ان کو مختصر الفاظ میں دعائیں سکھا دیں، لیکن ان پر دوام اور سختی سے عمل پیرا ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ جس طرح سورہ یٰس کی فضیلت میں غلو سے کام لیا گیا، بدعات ایجاد کی گئیں۔ نتیجۃً سورہ البقرۃ اور سورہ الکہف جیسی افضل سورۃ کو لوگوں نے نظر انداز کیا۔ اور ثابت شدہ فضائل سے بھی محروم ہوگئے۔
بلکل اسی طرح یہ مجوزہ چھ کلمے یاد کروانے میں شدت اور فضیلت میں غلو سے کام لیا گیا کہ ہمارے بچوں کی اکثریت سید الاستغفار اور صبح شام کے مسنون اذکار سے محروم ہو گئی۔ان میں سے زیادہ تر صرف عربی میں بعض قرانی الفاظ پر مشتمل الله کی تعریف پر منبی کلمات ہیں- جن کا کوئی شرعی ثبوت مذکورہ ترتیب اور مذکورہ اسماء کے ساتھ نہیں ملتا.ان کو جو یاد نہ کرے اس پر کوئی عیب نہیں اور جو حدیث میں موجود نبی صلی الله علیہ وسلم کی دعائیں یاد کرے تو وہ بھی بہتر ہے کلمات میں جو الفاظ و دعائیں ہیں ،ان میں سے جو حدیث میں موجود ہیں جو نبی سے ثابت ہیں ان کویاد کرسکتے ہیں۔
لوگوں میں یہ چیز باور کرائی جارہی ہے کہ نعوذ باللہ جس کو یہ چھہ کلمے یاد نہیں اس کا ایمان کمزور ہے ۔ کلمے یاد ہونا نہ ہونا ایمان کا پیمانہ نہیں نہ ہی اسکی کوئی ایکسٹرا فضیلت ہے ۔ مسنون کلمات کو اکٹھا کرکے ایک مجموعہ بنادینے پر دو مؤقف ہوسکتے ہیں لیکن اسکو عوام پر تھونپ دینا نری جہالت کے علاوہ کچھ نہیں۔
نوٹ : واضح رہے کہ یہ ترتیب اور تعداد حدیث سے ثابت نہیں۔
عبیداللّٰه  ثقفی
Share:

Kisi Musalman ko Kafir Ya Fajir Kah dena Kaisa Hai?

Kisi Ko Kafir Ya Fajir-o-Fashiq Qrar Dena Kaisa Hai?

تکفیر کے اصول و ضوابط
اول: کسی کو کافر یا فاسق  قرار دینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، بلکہ یہ اختیار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے؛ کیونکہ کسی کو کافر یا فاسق قرار دینا ان شرعی احکام سے تعلق رکھتا ہے جن کی بنیاد کتاب و سنت ہوتی ہے، اسی لئے اس معاملے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا ضروری ہے ؛ اور صرف اسی کو کافر یا فاسق کہا جائے گا جس کے کافر یا فاسق ہونے کے متعلق کتاب و سنت  میں دلائل موجود ہیں۔
بنیادی طور پر کوئی بھی مسلمان جب تک وہ علانیہ طور پر دین پر عمل پیرا  ہو تو اسے مسلمان  ہی سمجھا جائے گا، تا آنکہ شرعی دلائل کی رو سے اس کا دائرہ اسلام سے خارج ہونا ثابت ہو جائے۔
کسی کو کافر یا فاسق قرار دینے میں کوتاہی برتنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں دو بڑی خرابیاں  ہیں:
1- کسی پر حکم لگانا درحقیقت  اللہ تعالی پر بہتان بازی ہے، نیز کسی پر جو حکم لگایا جا رہا ہے  وہ حکم اس شخص کے بارے میں بھی بہتان ہے۔
2- اگر وہ شخص متعلقہ الزام سے بری ہو تو انسان کو برے لقب دینے کے زمرے میں بھی آتا ہے۔
صحیح بخاری: (6104) اور مسلم: (60) میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر قرار دیتا ہے تو وہ حکم ان دونوں میں سے ایک  پر لاگو ہو جاتا ہے)  اسی حدیث کے ایک اور الفاظ یہ بھی ہیں کہ: (اگر تو وہ ایسا ہی تھا جیسا اس نے کہا  [تو ٹھیک] بصورتِ دیگر وہ حکم اسی پر لوٹ جائے گا)
دوم:
اس لیے کسی بھی مسلمان پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے قبل دو چیزوں کو دیکھنا ضروری  ہے:
1- کتاب و سنت میں یہ بات واضح ہو کہ یہ قول یا فعل کفر یا فسق کا موجب ہے۔
2- کفر یا فسق کا حکم معین شخص پر لاگو ہوتا  ہو، یعنی کسی کو کافر یا فاسق قرار دینے کی شرائط  پوری ہوں اور اسے کافر یا فاسق قرار دینے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔
اس کی اہم ترین شرائط درج ذیل ہیں:
I. مرتکب خطا کو علم ہو کہ اس کی جو غلطی ہے وہ  اس کے کافر یا فاسق ہونے کی موجب ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيراً )
ترجمہ: اور جو ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے علاوہ کسی اور راستے   پر چلے تو ہم اسے اسی راستے کے سپرد کر دیتے ہیں جس پر وہ چلا ہے، اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گےاور وہ بد ترین ٹھکانا ہے۔[النساء:115 ]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ )
ترجمہ: اللہ تعالی کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کیا کرتا، تاآنکہ ان پر یہ واضح نہ کر دے کہ انہیں کن کن باتوں سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالی یقیناً ہر چیز کو جاننے والا ہے  [ التوبہ:115]
چنانچہ اس لیے اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی شخص نو مسلم ہے اور وہ  کسی فریضے کا انکار کر دیتا ہے تو وہ اس وقت تک کافر نہیں ہو گا جب تک اسے اس فریضے کے بارے میں بتلا نہ دیا جائے۔
II. کسی پر کفر یا فسق کا حکم لگانے  کیلیے موانع میں سے ایک یہ ہے کہ کفر یا فسق کا موجب بننے والا عمل غیر ارادی طور پر سر زد ہو جائے، اس کی متعدد صورتیں ہیں، مثلاً:
- اس سے کفریا فسق والا عمل جبراً کروایا جائے، چنانچہ  وہ شخص جبر  کی وجہ سے مجبور ہو کر وہ کام کرے، دلی طور پر راضی ہو کر نہ کرے، تو ایسی صورت میں اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی  کا فرمان ہے:
(مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْأِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ)
ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے رضا مندی سے کفر کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ [النحل:106]
اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اسے انتہا درجے کی فرحت ، یا غم یا خوف وغیرہ کی وجہ سے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ گیا ہے، اس کی دلیل صحیح مسلم: (2744) میں ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کو اپنے بندے کے توبہ کرنے پر اس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جب تم میں سے کسی کی  سواری کھلے کھانے پینے کے سامن کے ساتھ چٹیل میدان میں گم ہو جائے اور  وہ مایوس ہو کر  ایک درخت کے سائے تلے  مایوسی کی حالت میں ہی سو جائے ، ابھی وہ اسی افسردگی کے عالم میں  ہو تو اپنی سواری پاس کھڑی ہو ئی  پائے  تو وہ سواری کی مہار پکڑ کر شدت فرحت کی بنا پر غلطی سے کہہ دے: یا اللہ! تو میرا بندہ میں تیرا اللہ!)
III. ایک مانع یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اس کام میں تاویل کر رہا ہو، مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ کچی باتیں ہو جنہیں وہ حقیقی دلائل سمجھ کر یہ عمل کر رہا ہو، یا اسے شرعی حجت اور دلیل صحیح انداز سے سمجھ نہ آئی ہو، تو ایسی صورت میں اسی وقت کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے جب  شرعی مخالفت عمداً ہو اور جہالت رفع ہو جائے، اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
(ولَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً)
ترجمہ: جن کاموں میں تم سے خطا ہو جائے تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن [گناہ اس میں ہے جس میں] تم عمداً خطا کرو۔ اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [الأحزاب:5]
ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى"  (23/349) میں کہتے ہیں:
"امام احمد رحمہ اللہ  نے ان مسلمان خلیفوں پر بھی "رحمہ اللہ" کہتے ہوئے دعا کی ہے جنہوں نے  جہمی نظریات سے متاثر ہو کر قرآن مجید کو مخلوق سمجھ لیا تھا اور اسی موقف کے داعی بن گئے تھے، امام احمد نے ان کیلیے دعائے مغفرت بھی کی؛ کیونکہ امام احمد جانتے تھے کہ ان مسلمان خلفائے کرام پر یہ بات واضح ہی نہیں ہوئی تھی کہ وہ [قرآن کریم کو مخلوق مانتے ہوئے]غلط ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں، نہ انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کا انکار کر رہے ہیں، انہوں نے تاویل کی تھی اور اسی تاویل میں انہیں غلطی لگی، اور ایسے لوگوں کی تقلید کر بیٹھے جو خلق قرآن کے قائل تھے" انتہی
اسی طرح "مجموع الفتاوى" (12/180) کی ایک اور جگہ کہتے ہیں:
"کسی کو کافر قرار دینے کے متعلق  صحیح  قول یہ ہے کہ امت محمدیہ میں سے جو شخص تلاش حق  کیلیے جد و جہد کرے اور غلطی کا شکار ہو جائے تو اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس کی یہ غلطی معاف کر دی جائے گی۔ البتہ جس شخص کیلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی بات کا علم ہو گیا اور اس کے با وجود ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی مومنین کا راستہ نہ اپنائے تو وہ کافر ہے۔اور اگر ہوس پرستی  کے غلبہ میں  تلاش حق میں کوتاہی کا مرتکب ہو جاتا ہے اور لا علمی کے باوجود شرعی امور میں گفتگو کرتا ہے تو وہ نافرمان اور گناہگار ہے اس لیے وہ فاسق ہو گا، ایسا بھی ممکن ہے کہ اس کی نیکیاں اس کے گناہوں سے زیادہ ہوں" انتہا
ایک اور مقام (3/229)پر آپ کہتے ہیں:
" میں ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں اور میرے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ  میں کسی معین شخص کو کافر، فاسق یا گناہگار کہنے کا سخت مخالف ہوں اور اس سے روکتا ہوں، صرف ایک حالت میں[معین طور پر کافر ہونے کا حکم لگاتا ہوں جب] کہ  یہ بات معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص پر وحی کی حجت قائم ہو گئی ہے؛ کہ جس کی مخالفت کرنے پر انسان بسا اوقات کافر، تو کبھی فاسق یا بعض حالات میں گناہگار ہو جاتا ہے۔ اور میں یہ بات پختگی سے کہتا ہوں کہ  اللہ تعالی نے اس امت کے خطا سے ہونے والے گناہ معاف کر دئیے ہیں، اور خطا سے ہونے والے گناہوں میں وہ اعمال بھی شامل ہیں جن کا تعلق خبری [یعنی نظریاتی] اور عملی [یعنی فقہی] مسائل سے ہے۔ سلف صالحین کا شروع سے اس قسم کے مسائل میں اختلاف چلا آ رہا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی دوسروں پر کفر، فاسق اور گناہگار ہونے کا فتوی نہیں لگایا"۔۔۔ پھر اس کی مثالیں ذکر کرنے کے بعد کہا:
"میں یہ بات واضح کرتا رہا ہوں کہ سلف صالحین اور ائمہ کرام کی جانب سے مطلق طور پر کسی  کی تکفیر کا حکم جو نقل کیا گیا ہے کہ "جو فلاں فلاں بات کہے وہ کافر ہے" یہ بھی حق بات ہے؛ لیکن یہاں مطلق طور پر کسی فعل کے فاعل کو کافر قرار دینا اور معین کر کے کسی کو کافر کہنے میں فرق کرنا انتہائی ضروری ہے۔"۔۔۔پھر کہتے ہیں:
"کسی کو کافر قرار دینا "وعید" سے تعلق رکھتا ہے؛ چنانچہ اگرچہ کسی شخص کی کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر مشتمل ہو  لیکن چونکہ وہ نو مسلم ہے اس نے ابھی اسلام قبول کیا ہے ، یا کسی [علم و معرفت سے دور ]پسماندہ علاقے کا وہ رہائشی ہے تو ایسے شخص کو اس کے انکار اور تکذیب کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جائے گا تاآنکہ اس پر حجت قائم ہو جائے؛ کیونکہ ایسا عین ممکن ہے کہ اس شخص نے یہ نصوص سنی ہی نہ ہوں! یا سنی تو ہوں لیکن انہیں سمجھا ہی نہ ہو! یا اس کے پاس اس سے متصادم یا معارض کوئی شبہ ہو جس کی وجہ سے وہ ان نصوص میں غلط طور پر تاویل کرتا ہو۔
میں ہمیشہ صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث اپنے ذہن میں رکھتا ہوں  جس میں ایک شخص کا ذکر ہے جو کہ کہتا ہے: (جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پھر مجھے پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی نے مجھے پکڑ لیا  تو مجھے اتنا عذاب دے گا کہ کسی کو اس نے اس سے پہلے اتنا عذاب نہیں دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا  اور فرمایا: اس آدمی کا جو حصہ بھی تمہارے پاس ہے اسے جمع کر دو، تو زمین سے اسے جمع کر دیا اور وہ زندہ کھڑا ہو گیا۔ تو اللہ تعالی نے پوچھا: تمہیں اس پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: پروردگار! تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا)  حدیث میں مذکور اس شخص کو اللہ تعالی کی قدرت میں شک ہوا تھا کہ اگر اسے پیس کر اڑا دیا گیا تو اللہ تعالی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکے گا، بلکہ اس کا عقیدہ  بن گیا کہ وہ دوبارہ زندہ ہی نہیں کیا جائے گا۔ تو یہ بات تمام مسلمانوں کے ہاں متفقہ طور پر کفر ہے؛ لیکن چونکہ وہ اللہ تعالی کی قدرت سے نابلد تھا ، اور ساتھ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ایمان بھی رکھتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے اسی خوف کی بنا پر بخش دیا۔
تو اب جو شخص اجتہاد کی اہلیت رکھنے والا ہو اور تاویل کر رہا ہوں ساتھ میں اس کی کوشش یہ بھی ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند بھی رہے تو ایسا شخص حدیث میں مذکور شخص سے زیادہ  مغفرت کا حق دار ہے۔" ختم شد
(یہ گفتگو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب: "القواعد المثلی" کے آخر سے لی گئی ہے، ساتھ میں کچھ اضافے بھی ہیں)
اگر تکفیر کا معاملہ اتنا ہی حساس ہے   اور تکفیر میں ہونے والی غلطی کے نتائج بھی بہت سنگین ہیں تو ایک مبتدی طالب علم تو کجا  ایک بڑے طالب علم کو بھی ایسے مسائل میں نہیں پڑنا چاہیے، اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ علم نافع کے حصول کیلیے کوشش کرے جس سے اس کی دنیا اور آخرت دونوں اچھی ہوں۔
سوم:
اس سے پہلے کہ آپ کو اس بارے میں کتابوں کا مشورہ دیں، ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ اہل  علم اور اہل سنت  علمائے کرام  سے براہِ راست حصول علم کی کوشش کریں؛ کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جو آسان بھی ہے اور پر امن بھی ہے؛ تاہم اس کیلیے شرط یہ ہے کہ آپ صرف انہی سے علم حاصل کریں جن  کے علم اور دینداری پر آپ کو اعتماد ہو، وہ متبع سنت بھی ہو اور فکری اور عملی بدعات  سے دور بھی ہو۔
محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:   "یہ علم دین ہے اس لیے جن سے تم اپنا دین لے رہے ہو انہیں پرکھ  لینا" امام مسلم  رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب کے مقدمے میں بیان کیا ہے۔
اگر جہاں آپ رہتے ہیں وہاں پر حصولِ علم کیلیے کوئی عالم دین میسر نہ ہوں  تو پھر آپ ان کی کیسٹس  سے تعاون لے سکتے ہیں، اب تو انہیں سی ڈی پر حاصل کرنا بھی آسان ہو چکا ہے، بلکہ -الحمد للہ- اسلامی ویب سائٹس سے حاصل کرنا مزید آسان  ہے۔
اسی طرح آپ کسی بڑے عالم دین نہ سہی لیکن حصول علم کیلیے تڑپ رکھنے والے اچھے اور متبع سنت طالب علم سے بھی مستفید ہو سکتے ہیں ، اور ایسے افراد سے شاید ہی کوئی جگہ خالی ہوتی ہے۔
چہارم:
ہم  آپ کو جن کتابوں کو  مطالعہ میں شامل کرنے کی تلقین کرتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
1- تفسیر میں: تفسیر شیخ ابن سعدی، اور تفسیر ابن کثیر۔
2- حدیث میں:  اربعین نووی مع شرح، اسی طرح جامع العلوم والحکم از ابن رجب ، یہ پڑھنے کے بعد آپ ریاض الصالحین پر بھر پور توجہ دیں یہ بہت ہی بابرکت کتاب ہے، ریاض الصالحین کے ساتھ آپ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی شرح  ریاض الصالحین سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
3- کتب عقیدہ: آپ کتاب التوحید از شیخ محمد بن عبدالوہاب پڑھیں اس کے ساتھ اس کی کوئی بھی شرح ملا لیں، ایسے ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب عقیدہ واسطیہ بھی پڑھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر مختصر رسائل بھی کتب عقیدہ میں شامل کریں، جیسے کہ : ابن رجب کی کتاب " تحقيق كلمة الإخلاص " اور اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب: "التحفة العراقية في الأعمال القلبية"
4- ایسے ہی آپ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب زاد المعاد پڑھیں، انہی کی کتاب الوابل الصیب اور  الداء و الدواء کا مطالعہ کریں۔
یہ ابتدائی مرحلے کی کتابیں ہیں ، آپ ان کا مطالعہ کرنے  کے ساتھ ساتھ اگر کسی ایسے ساتھی کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو آپ کی ان کتب کے پڑھنے میں معاونت کرے تو  اس سے آپ کی معلومات میں بتدریج خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ
واللہ اعلم.
عبیداللّٰه ثقفی
Share:

Hamal Ke Bad Biwi Se Milne Ka Hukm.

Pregnant ke Bad Biwi Se Jima Ka Hukm.

حمل کے بعد بیوی سے جماع کا حکم
ہر وقت اور ہر حالت ميں بيوى سے لطف اندوز ہونا جائز ہے، الا يہ كہ جس سے شريعت نے منع كيا ہے كہ دبر ميں وطئ كرنا حرام ہے، اور اسى طرح حيض يا نفاس كى حالت ميں بھى جماع كرنا حرام كيا گيا ہے.
رہا مسئلہ حاملہ بيوى كا تو اس سے جماع كرنے كى حرمت كى كوئى دليل نہيں ہے، ليكن اگر خدشہ ہو بچے كو ضرر و نقصان پہنچےگا، اور اس ضرر كا اندازہ بھى تجربہ كار ليڈى ڈاكٹر ہى لگا سكتى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تمہارى بيوياں تمہارى كھيتي ہيں تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ۔۔  البقرۃ ( 223 ).
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا كہنا ہے:
الحرث: يہ بچہ پيدا ہونے كى جگہ ہے.
تو تم اپنى كھيتى ميں آؤ .
يعنى جيسے چاہو آگے سے يا پھچلى جانب سے ايك ہى جگہ يعنى بچہ پيدا ہونے والى جگہ ميں جيسا كہ احاديث سے ثابت ہے.
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 588 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
حمل كے عرصہ ميں خاوند كے ليے بيوى سے كب جماع سے اجتناب كرنا واجب ہوتا ہے ؟
اور كيا ـ خاص كر حمل كے پہلے تين ماہ كے دوران ـ بيوى سے جماع كرنے سے بچے كے ليے نقصاندہ ہيں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" جب حمل كو ضرر اور نقصان نہ ہو تو حاملہ عورت سے جماع كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ حائضہ عورت سے جماع كرنا ممنوع ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور آپ سے حيض كے بارہ ميں دريافت كرتے  ہيں، آپ انہيں كہہ ديجئے كہ حيض كى حالت ميں عورتوں سے عليحدہ رہو، اور ان كے پاك ہونے تك ان كے قريب مت جاؤ، جب وہ پاك صاف ہو جائيں تو پھر جہاں سے اللہ نے حكم ديا ہے وہيں سے ان كے پاس آؤ، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى توبہ كرنے والوں اور پاك صاف رہنے والوں سے محبت كرتا ہے البقرۃ ( 222 ).
اور نفاس والى عورت بھى اس طرح ہے كہ اس سے پاك ہونے تك جماع نہيں كيا جائيگا، اور اسى طرح حج اور عمرہ كا احرام باندھنے والى عورت سے بھى " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد العزيز آل شيخ.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ بكر ابو زيد.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 353 ).
اور شيخ عبد اللہ بن منيع حفظہ اللہ سے حاملہ عورت سے جماع كے بارہ ميں دريافت كيا گيا.
ان كا جواب تھا:
" شريعت اسلاميہ ميں حاملہ عورت سے خاوند كا جماع كرنا ممنوع نہيں ہے، بلكہ يہ نہى تو حيض اور نفاس والى عورت كے ساتھ خاص ہے، ليكن اگر تجربہ كار ڈاكٹر كسى خاص حالت كى بنا پر يہ فيصلہ كريں كہ اس سے جماع كرنا اس كى صحت كے ليے نقصاندہ ہے تو يہ حالت خاص ہے، اس پر قياس نہيں كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: فتاوى و بحوث الشيخ عبد اللہ بن منيع ( 4 / 228 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 21725 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
دوم:
رہا مسئلہ حمل كے آخرى مہينہ ميں جماع كرنا بيوى كے ليے نقصاندہ ہے يا نہيں ؟
اس كے بارہ ميں تجربہ كار ليڈى ڈاكٹر سے رابطہ كيا جائے كيونكہ يہ عورت كى طبيعت اور حمل كے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، اور حمل كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے اثرات كے اعتبار سے ہوگا، جو مختلف ہوتے ہيں، اور اسے ماہر ليڈى ڈاكٹر ہى بتائےگى.
ليكن اصل كے اعتبار سے يہى ہے كہ حمل كى حالت ميں جماع كرنے سے نہ تو عورت كو كوئى نقصان ہے، اور نہ ہى بچہ كوكوئى ضرر ہوتا ہے.
بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو پيٹ ميں پائے جانے والے بچے كو كھيتى سے مشابہت دى ہے، اور آدمى كى منى كو اس پانى سے جو اس كھيتى كو لگايا جاتا ہے.
يہ اس بات كى دليل ہے كہ آدمى كے پانى سے ماں كے پيٹ ميں بچے كو فائدہ ہوتا ہے، جس كا معنى يہ ہوا كہ حالت حمل ميں بيوى كے ساتھ جماع كرنا اور رحم ميں انزال كرنے سے فائدہ ہوتا ہے نقصان نہيں. ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
وطئ بچے كى سماعت اور بصارت ميں اضافہ كا باعث بنتى ہے "
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 140 ).
رہا مسئلہ كہ بچے كى پيدائش جلد ہو جاتى ہے، يہ قول صحيح نہيں، الا يہ كہ اگر جماع بڑى زبردستى اور شدت سے كيا جائے، اور عورت كا رحم كمزور ہو تو پھر تجربہ كار لوگوں كا قول يہى ہے.
اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى حاملہ بيوى كى نفسيات كا بھى خيال كرے، اور اس كى تكليف كا بھى، اور خاص كر آخرى ايام ميں كيونكہ اس كے ليے تو بيٹھنا بھى دوبھر ہو جاتا ہے، اس ليے خاوند كو جماع كے ليے مناسب حالت اختيار كرنى چاہيے تا كہ بيوى كو ضرر نہ ہو، اور نہ ہى بچے كو نصان پہنچے.
Share:

Sabse Acha Amal Kya Hai?

Sabse Pyara Amal Kaun Sa Hai?

صاحب خلق عظیم، رسول رحمت اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
[[البر حسن الخلق...]]
نیکی "حسن اخلاق" ہے۔ (صحیح مسلم:2553)
یہ بہت ہی جامع اور مانع کلام ہے، ایک ایسا کلام جس کے الفاظ بہت کم اور مختصر لیکن معانی بہت زیادہ اور عظیم ہیں، اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم خصوصیات میں سے ہیں۔
دین اسلام حسن اخلاق کا دوسرا نام ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل ہے۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق کے عظیم درجے پر فائز تھے۔
حسن اخلاق صرف بندوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اللہ کے ساتھ بھی مطلوب ہے۔
اللہ کے ساتھ حسن اخلاق یہ ہے کہ شرح صدر اور خوش دلی کے ساتھ اس کی بنائی ہوئی تقدیر اور کئے گئے فیصلوں کو مانا جائے، اس کے بھیجے ہوئے دین اور شریعت کو تسلیم کیا جائے اور اس کے مقرر کردہ عقائد واحکام کو عمل میں لایا جائے، اور اس تعلق سے سینے میں کوئی تنگی اور دل میں کوئی حرج نہ محسوس کیا جائے۔۔۔
بندوں کے ساتھ حسن اخلاق یہ ہے ان کے ساتھ خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے ساتھ پیش آیا جائے، انہیں تکلیف دینے اور نقصان پہنچانے سے باز رہا جائے، ان کی ایذا رسانیوں اور بد سلوکیوں پر صبر وتحمل اور عفو ودرگزر سے کام لیا جائے، اور ان کے ساتھ معاملات میں نرمی وآسانی برتی جائے نیز سخاوت وایثار، اعلی ظرفی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جائے۔
دینی، دعوتی، اصلاحی اور تربیتی کاموں میں بوقت حاجت اور بقدر ضرورت سختی برتنا حسن اخلاق کے منافی نہیں ہے۔
اے اللہ! ہم سب کو حسن اخلاق کی دولت سے مالا مال کر دے۔
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب
Share:

Insaan Farishta Hai Ya Shaitan?

Kya insaan Farishta bhi Ho sakta hai?

انسان نہ فرشتہ ہے کہ صرف صحیح کرےگا اور نہ شیطان کہ صرف غلط کرےگا، یہی وجہ ہے کہ اگر وہ کچھ غلط کرتا ہے تو بہت کچھ صحیح بھی کرتا ہے، لہذا نہ یہ مطلوب ہے کہ وہ فرشتہ بن جائے اور نہ اس کا مجاز ہے کہ شیطان بن جائے، البتہ شرعی واخلاقی طور پر وہ اس حکم کا ضرور پابند ہے کہ جہاں تک ہو سکے صحیح کرے اور غلط سے بچنے کی بہر صورت کوشش کرے، کیونکہ:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے 
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب
इंसान न तो फ़रिश्ता है कि सिर्फ़ सही करेगा और न ही शैतान है कि सिर्फ़ ग़लत करेगा, यही कारण है कि अगर वह कुछ ग़लत करता है तो बहुत कुछ सही भी करता है, इसलिए न यह हुक्म है कि वह फ़रिश्ता बन जाए और न इसकी इजाज़त है कि शैतान बन जाए | अलबत्ता शरई और अख़लाक़ी तौर पर वह इस बात का पाबंद ज़रूर है कि जहां तक हो सके सही करे और हर हाल में ग़लत से बचने की कोशिश करे, क्योंकि:
अमल से ज़िंदगी बनती है जन्नत भी जहन्नम भी
यह ख़ाकी अपनी फ़ितरत में न नूरी है न नारी है
आप का भाई:  इफ़्तेख़ार आलम मदनी
इस्लामिक गाइडेंस सेंटर    जुबैल सऊदी अरब
Share:

Kya Islam Talwar Se Failaya Gya? (Part 07)

Kya Islam Talwar Se Faila Hai? (Part 07)
सवाल : इस्लाम को शान्ति का धर्म कैसे कहा जा सकता है जबकि यह तलवार से फैला है?
‘जिन लोगों ने तुमसे सुलह की और अपना समझौता हर बार तोड़ते रहे और वे (अल्लाह से) डरते नहीं। ऐसे लोगों को अगर तुम लड़ाई में पाओ तो ऐसी सजा दो कि जो लोग उनके पीछे हैं उनके कदम उखड़ जाएं और वे सबक लें।'. (अल अन्फ़ाल : 56-57)
इस आयत में मुस्लिमों को ऐसे लोगों से लड़ने की इजाज़त दी गई हैं जो उनके साथ शान्ति समझौता करके तोड़ दें, धोखा दें और हमला कर दें।
'अलबत्ता वे मुश्कि इससे अलग हैं जिनसे तुमने समझौता कर रखा है और इसके बाद उन्होंने उसे निभाने में कोई कमी नहीं की। और न तुम्हारे ख़िलाफ़ किसी की मदद की। ऐसे लोगों के समझौते को उनकी मुद्दत पूरी होने तक पूरा करो कि अल्लाह मुत्तकियों को पसन्द करता।   (सूरह तौबा: 4)
इस आयत में मुस्लिमों को पाबन्द किया गया है वे ऐसे लोगों से जंग न करें जो उनके साथ समझौते में बंधे हुए हैं और वादाखिलाफी नहीं करते और मुस्लिमों के दुश्मनों की मदद भी नहीं करते।
अगर मुश्रिको (बहु-देववादियों में से कोई शख़्स तुमसे पनाह (शरण) की मांग करे तो उसे पनाह दे दो यहाँ तक कि वो अल्लाह का कलाम सुन ले। फिर उसे उसके अमन की जगह पहुंचा दो। यह इसलिये कि यह लोग जानते नहीं हैं।'. (सूरह तौबा : 6)
इस आयत में यह बताया गया है कि अगर कोई मुश्रिक (मूर्तिपूजक/बहुदेववादी/गैर-मुस्लिम) अगर मुस्लिम क़ौम के किसी शख्स से पनाह (शरण) मांगे तो उसे पनाह देनी चाहिये। इस शरणागत इन्सान को इतना मौका भी मिलना चाहिये कि वो अल्लाह का कलाम सुन ले। उसके बाद भी उसे इस्लाम कुबूल करने के लिये मजबूर न करके उसे ऐसी जगह पहुंचा देना चाहिये जहाँ उसे कोई खतरा नहीं हो। क्या किसी और धर्म में इतना मानवीय आदेश मौजूद है?
'और अगर ये अहद (प्रतिज्ञा)  करने के बाद अपनी कसमें तोड़ डालें और तुम्हारे दीन की तौहीन करने लगे तो कुफ्र के पेशवाओं से लड़ो कि उनकी कसमों का कोई भरोसा नहीं (उनसे लड़ो) यहाँ तक कि वे बाज़ आ जाएं।'  (सूरह तौबा : 12)
TO BE CONTINUE In sha'Allah
----------------------------------------

Share:

Allah Ki Rah me Kharch karne wale aur Nahi Karne wale.

Roz Allah ki Raah Me Kuchh n Kuchh Kharch kare.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[ما من يوم يصبح العباد فيه إلا وملكان ينزلان، يقول أحدهما: اللهم أعط منفقا خلفا، ويقول الآخر: اللهم أعط ممسکا تلفا]
"ہر دن صبح کو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور مال عطا کر، اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! خرچ نہ کرنے والے کا مال تباہ کر دے۔"(صحیح بخاری:1442 صحیح مسلم:1010)
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے وگرنہ مال کی برکت ختم ہو جاتی ہے، وہیں ایک دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اللہ کی راہ میں کچھ نہ کچھ روزانہ خرچ کرنا چاہئے خواہ ایک دو روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔  آج کے دور میں بھلا کون سا ایسا بر سر روزگار انسان ہے جو روزانہ کی اس نفع بخش تجارتی اسکیم میں اپنا مال انویسٹ نہیں کر سکتا؟؟؟
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب

Share:

Ager Mukammal Taur Pe Amal Na Kar Sako To Deen Ke Qareeb Raho.

Yah Deen Aasan Hai Aur Mukammal Taur Par Amal Karo.
Muhammad Sallallahu álayhi wa sallam ne farmaya.
Ye deen aasaan hai aur jo deen me (amli taur pe) sakhti bartega to deen uspar galib aajaye ga (aur ose thakadega) lehaza sahih raaste par chalo (agar Mukammal taur se amal na karsako to kam az kam) deen se qariib raho,logo ko deen ke mo^amale me khush rakho (nafrat na paida karo) uneh aasaani do aur subah wa shaam aur koch raat me (êbaadat se) madad hasil karo.
English
Messenger of Allah (ﷺ) said
'Indeed, this religion is easy, and no one will ever overburden himself in religion, except that it will overcome him. So seek what is appropriate, and come as close as you can, and receive the glad tidings (that you will be rewarded), and take it easy; and gain strength by worshipping in the mornings, afternoons, and during the last hours of the nights.'"
Hindi
नबी (ﷺ) ने फरमाया :
ये दिन(इस्लाम) आसान है । और जो दिन में(अमली तौर पे) सख्ती बर्तेगा तो दिन उस पर गालिब आ जायेगा और उसे थका देगा।
*लिहाजा सही रास्ते पर चलो(अगर मुकम्मल तौर से अमल ना कर सको तो कम अज कम), दिन से करीब रहे, लोगों को दिन के मा'अमले मे खुश रखें(नफरत ना पैदा करों), उन्हें आसानी दो और सुबह-शाम और कुछ रातों में (इबादत से)मदद हासिल करों।
Grade: Sahih (Darussalam)
[ Sunan an-Nasa'i: 5034 ]
----------------------------------------------------

Share:

Muttfaq Alaihe Hadees Kaunsi Hadees Hai?

"Muttfaq Alaihi متفق الیہ Hadees" kise kaha jata hai?
"Muttfaq Alaihi متفق الیہ Hadees" us Hadees ko kaha jata hai jis Hadees ko Imam Bukhari ne apni kitab "Sahih Bukhari" me aur Imam Muslim ne apni kitab "Sahih Muslim" me ek sath bayan ki ho yaani jo Hadees in dono Sahih Kitabo me ek sath paayi jaati ho aise Hadees ko "Muttfaq Alaihi Hadees" kaha jata hai. Aisi Hadees Sahih hone me koi shaq baaqi nahi rahta.
🔻 Misal ke taur par ye Hadees Muttafaq Alayhi Hadees hai:
Abu Huraia (RadhiAllahu) kahte hai ke Rasoolullah (SallallahuA'laihiWaSallam) ne Irshaad Farmaya:
"Jab Allah Takhleeq Mukammal Kar Chuka To Usne Kitab Me Likha Ke Meri Rahmat Meri Gusse Par Galib Hogi Wo Kitab Allah Ke Paas Hai Arsh Ke Upar".

📙(Sahih Bukhari Kitabul Bad Ul Khalk Hadees No. 3194)
📙(Sahih Muslim Kitabut Tauba Hadees No. 2751)
Ye Hadees "Muttfiq Alaihi Hadees" ki ek misaal hai.
Allahu Aalam Bis-Sawab
🔴•┈•••••✦▪✿▪✦•••••┈•🔴
Allah may accept our this small effort and keep us away from RIYA.

Share:

Rab Aur Bande Ka Darmiyani Wasta. (Part 09)

Kya Allah Se Dua Mangne Ke liye kisi dusre logo ki wasile ki jarurat hai?

بندے اور رب کے درمیان واسطہ/وسیلہ:(Part 09)
یہ صرف دین اسلام کی امتیازی خوبی ہے کہ اس کا ماننے والا کسی ذات کا واسطہ لئے بغیر اپنے رب تک رسائی اور اس کی قربت ورضامندی حاصل کر سکتا ہے، کسی شخصیت کا سہارا لئے بغیر اس کی عبادت وبندگی انجام دے سکتا ہے، اور اس سے اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لئے کسی مخلوق کا حوالہ دئے بغیر دعا وفریاد کر سکتا ہے۔
جبکہ اسلام کے سوا ہر دین میں اس کے ماننے والوں کے لئے کسی نہ کسی کا واسطہ/وسیلہ لینا ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔
لیکن افسوس کہ کچھ نام نہاد مسلمانوں کو اسلام کی یہ امتیازی خوبی شاید راس نہیں آئی اس لئے وہ بھی غیروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اور رب کے درمیان شخصیات کے واسطے/وسیلے کی بھول بھلیوں میں پھنس کر رہ گئے۔
سچ فرمایا نبی صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ:
"لتتبعن سنن من كان قبلكم."(صحيح البخاري:7320)
"تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے۔۔۔"
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب
Share:

Rab Aur Bande Ka Darmiyani Wasta. (Part 08)

Allah se Maangne ke liye kya wasile aur Sifarish Jaruri Hai?

بندے اور رب کے درمیان واسطہ:(Part 08)
بعض مسلمانوں میں رائج بے دینی وبے عملی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اور رب کے درمیان خود ساختہ واسطے، وسیلے اور سفارشی مقرر کر رکھے ہیں اور اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں اور جیسی چاہیں زندگی گزاریں یہ واسطے، وسیلے اور سفارشی بہر صورت ان کی نیا پار کرا دیں گے، لہذا نجات کے لئے ایمان خالص اور عمل صالح کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور کیوں اپنے آپ کو خواہشات نفسانی کی پیروی اور گناہوں کی لذت سے محروم کریں؟
شاید ایسے ہی فریب خوردہ لوگوں کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:
{قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالا. الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا وهم يحسبون أنهم يحسنون صنعا}
"آپ کہ دیجئے کہ کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ عمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ ہیں جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بے کار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔"(سورہ کہف:103-104)
اللہ ہدایت دے۔
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS