Muslim ladkiyo ko Bhagakar Shadi karne ki muhim shuru ki gayi hai jisse Musalmano ke gharo ko barbad kiya ja sake.
Muslim ladkiyo ko Gair Muslim ladko ke sath bhagne ya shadi karne se rokne ke tarike.मुस्लिम लड़कियो को भगा कर शादी का झासा देकर उससे गलत काम कैसे करवाया जाता है?
⚙ فتنہ ارتداد پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جائیں۔۔!
ایمان والے جب اپنے ایمان و عمل میں کمزور ہوجاتے ہیں تو انہیں باطل قوتیں مختلف طریقوں سے دین سے پھیرنے کی کوشش کرتی ہیں، یہ کوششیں مختلف طرح کی ہوتی ہیں جیسے بداعتقادی کے ذریعہ ارتداد، اور فکری ارتداد یا مذہب کی تبدیلی۔
(١) کبھی تو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر بد اعتقادی کے فتنے پیدا کئے جاتے ہیں، جیسے مرزا غلام احمد قادیانی کے مانے والے ختم نبوت کا انکار کرکے دین اسلام کی بنیاد کو منہدم کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مالی تحریص (لالچ) کے ذریعہ قادیانی بناکر مرتد کرتے ہیں، یا جیسے موجودہ دور میں شکیل بن حنیف نے ہندوستان میں اپنے آپ کو مسیح موعود، یا مہدی موعود بناکر پیش کیا ہے اور وہ دین کے لبادہ میں مسلم نوجوانوں کو گمراہ کر کے مرید بناتا ہے۔
(۲) اسی طرح فکری ارتداد جیسے کمیونزم ، نیچریت ، یا انکار حدیث ، یا انکار رسالت وغیرہ۔
(۳) اور کبھی براہ راست دین اسلام سے ہٹاکر ایمان والوں کو ہندو، عیسائی وغیرہ بناکر مرتد کرتے ہیں۔
یہ فتنے ہر زمانہ میں ہوتے رہتے ہیں مگر اس وقت کئی طبقے متاثر ہیں، جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ دین کی تعلیمات سے ناواقف ہے، یا غربت و افلاس میں مبتلا طبقہ جو کئی نسلوں سے دینی تعلیم سے محروم ہے، جیسے جھگی جھونپڑی میں رہنے والے، یا مختلف کمزور برادریوں کے افراد، مرد وخواتین، اسی طرح وہ بچے جو شرک و بت پرستی کے ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور دینی تعلیم سے محروم ہیں، اسی طرح مسلمان نوجوانوں خاص طور پر مسلم لڑکیوں کو ہندؤ تنظیموں سے وابستہ افراد ورغلا کر ہندو لڑکوں سے شادی کراکر مرتد کر رہے ہیں غور کرنے پر اس کے مندرجہ ذیل وجوہ و اسباب سامنے آتے ہیں، جیسے:
» ملک کی فرقہ پرست تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس کی طرف سے منظم سازش کے ذریعہ غیرمسلم لڑکوں کا مسلم لڑکیوں سے رابطہ کرانے کی تحریک چلانا اور ترغیب دے کر ان سے شادی کرلینا۔
» مسلم لڑکیوں کا دین وشریعت سے نا واقفیت کی بنیاد پر ارتداد کی راہ اختیار کر لینا
» مسلم لڑکے اور ان کے والدین کی طرف سے تلک و جہیز کا مطالبہ کرنا اور مسلم لڑکیوں کے سرپرستوں کا اپنی غربت کی وجہ سے بے دست و پا ہونا۔
» مسلم لڑکیوں اور لڑکوں کا تاخیر سے شادی ہونا۔
» ہاسٹلوں میں لڑکیوں کا آزادانہ طریقے پر زندگی گزارنا۔
» اسکول، کالج اور کو چنگ سنٹر میں مخلوط تعلیم کی وجہ سےلڑکے اور لڑکیوں کے درمیان راه ور سم کا بڑھ جانا۔
» والدین کا اولاد کی دینی تعلیم و تربیت سے بے تو جہی برتنا۔
» لڑکے اور لڑکیوں کا موبائل،ٹی وی اور انٹرنیٹ پر عریاں تصاویر کو دیکھنا۔
» سماجی طور پر بے حیائی اور عریانیت کا پھیلاؤ اور لڑ کے ولڑکیوں کا غیر شرعی لباس پہننا۔
موجودہ ملکی قانون سے سہارا پا کر ارتداد کی راہ اختیار کرنا،یا باہمی رضامندی سے نا جائز رشتوں کو اختیار کرنا۔
» مسلم مردوں کا ایک لمبے عرصہ تک ملازمت کے لیے گھر اور وطن سے دور رہنا اور ان کی بیویوں کا شہروں، یا قصبوں میں علاحدہ مکان لے کر رہنا۔
» مسلم لڑکیوں کا مردوں کے ساتھ مخلوط جگہوں پر ملازمت اور نوکری کرنا ۔
اس فتنہ پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جائیں:
(الف) غیر مسلم لڑکوں کا مسلم لڑکیوں سے رابطہ ختم ، یا کم کرنے کی کوشش۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جائیں:-
(۱) گاؤں اور محلہ کے مسلم و غیر مسلم دانشور حضرات مل بیٹھ کر سماجی طور پر دباؤ بنائیں کہ اس طرح کے عمل سے سماج تناؤ کا شکار ہوتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ختم ہوتی ہے۔
(۲) ہر پندرہ دن پر خواتین بالخصوص اسکول اور کالج میں پڑھنے والی لڑکیوں کا دینی اجتماع کسی محفوظ مقام پر کیا جائے اور اس میں پردہ و حیا کے شرعی احکام، ایمان و عمل صالح اور دین کی باتیں بتائی جائیں۔
(۳) آر ایس ایس کی ترغیبی مہم کے فتنہ سے عام لوگوں کو واقف کرایا جائے اور اس سے بچنے کی ترغیب دیجائے۔
(۴) اور خواص کو بھی اس تحریک سے جوڑا جائے اور ان سے ان کے اپنے حلقہ اثر میں اس کام کو مہم کے طور پر کرنے کی ضرورت بتلائی جائے۔
(٥) مسلم گھرانے کے اندرونی حالات کی اصلاح پر توجہ دی جائے۔
(٦) ان کاموں کے لئے محلہ کی سطح پر نگراں کمیٹی بنائی جائے، جو گاؤں اور محلہ میں غیر مسلم لڑکوں کی آمد و رفت، تعلقات وغیرہ پر نگاہ رکھیں۔
(٧) غیر مسلم لڑکوں کی کوچنگ سے جہاں مخلوط تعلیم ہوتی ہو حتیٰ المقدور بچنے کی کوشش کی جائے۔
(ب) دین و شریعت سے نا واقفیت دور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کئے جائیں۔
(١) بچیوں کی ابتدائی دینی تعلیم و تربیت کو فوقیت دی جائے۔
نیز گھر میں اسلامی ماحول کو بنانے کے لئے نماز کا قیام روزانہ تلاوت کلام پاک کا معمول اور ۱۰ ، ۱۵ منٹ کوئی دینی کتاب پڑھی جائے۔
(٢) اسکول و کالج میں ماہانہ دینی و تربیتی پروگرام کا نظام بنایا جائے اور تمام اقلیتی اسکول کے نصاب تعلیم میں دینیات کو بھی داخل درس کرانے کی کوشش کی جائے۔
علماء مدارس ذمہ داران اور ائمہ کرام کے نام خطوط ارسال کئے جائیں اور انہیں اس پر متوجہ کیا جائے، تاکہ عوام و خواص کو بچے بچیوں کی دینی تعلیم دینے کی ترغیب دینے پر آمادہ کریں-
(٤) اسلام کا تعارف آسان کتابوں کے ذریعہ بھی کیا جائے۔ وہ اگر اردو پڑھنا نہیں جانتی ہیں تو ہندی زبان کی مفید کتابیں انہیں فراہم کی جائیں۔
(٥) سیرت نبی صل اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کے لیے ماہ ربیع الاول یا دیگر مہینوں میں مرد و خواتین کے الگ الگ سیرت کے جلسے منعقد کئے جائیں۔
(ج) تلک و جہیز کو روکنے کے لے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرنی چاہئے۔
(١) تلک وجہیز کی قباحت پر ائمہ کرام جمعہ کے خطبات میں تقریر کریں اور سال میں کم سے کم تین چار مرتبہ اس کو موضوع سخن بنائیں اور قوم کو سمجھائیں کہ تلک و جہیز کی رسم حرام ہے، اس سے بچنے میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
(٢) بلاک کی سطح سے کام کو شروع کیا جائے اور پہلے مرحلہ میں کسی ایک بلاک کو مثالی بنا کر شادی وںیاہ میں ہونے والے بے جا رسومات، فضول خرچی، ریا و نمائش وغیرہ سے پر ہیز کرنے کی تلقین کی جائے۔
(٣) نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد کرنے کی تحریک چلائی جائے، اس کے لیے لوگوں کا مزاج بنایا جائے ۔
(٤) بارات کی رسم کو بھی ختم کیا جائے۔
(٥) لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کا شرعی طریقہ بتلایا جائے اور نص قطعی سے اس کو مستدل کیا جائے۔
(ه) تاخیر سے شادی نہ کی جائے۔
(١) شرعی اعتبار سے جب لڑکے و لڑکیاں جوان ہو جائیں تو مناسب رشتہ تلاش کر کے ان کی شادی کردی جائے ، اس میں بےجا تاخیر نہ کی جائے اور اس کے لئے لوگوں میں بیداری مہم چلائی جائے۔
(د) مخلوط تعلیم کے نقصانات سے بچا جائے۔
مسلم اسکولوں کے ذمہ داروں سے گزارش کی جائے کہ چوتھے کلاس سے بچوں کے سیکشن علاحدہ کر دیں۔
(کمپوزر حافظ آفاق عادل)