find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Jung Ki Khawahish Dil Me Na Rakho Aur Aman ki Dua karo?

Jung ki Tamanna Dil Me Na Rakho

Jannat Talwar ke Saye Tale Hai (Mafhoom Hadeeth)


السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس حدیث کا مفہوم تھوڑا وضاحت کر دیں
دو باتیں ہیں اس حدیث میں ایک تو جنگ کی خواہش پر منع کیا جا رہا ہے دوسری طرف جنت تلوار کے سائے تلے
((وضاحت کر دیں ))
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو، بلکہ اللہ ﷻ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے
بخاري 2966
ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا قَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ العَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ»، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ»
{ ابو ابر اہیم عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعض ایام میں ، جن میں آپ کا دشمن سے سامنا ہو ا، انتظار فر ما یا ، ( یعنی لڑائی شروع نہیں کی ) حتیٰ کہ جب سو رج ڈھل گیا تو آپ ان ( صحابہ رضوان اللہم اجمعین) میں کھڑے ہوئے }
ترجمہ حدیث : اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو ! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو ، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو ، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی ، اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے ، بادل بھیجنے والے ، احزاب ( دشمن کے دستوں ) کو شکست دینے والے ، انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر ۔
➖ صحیح البخاری / رٙقٙمُ الْحٙدِیْث : 2966
➖ كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ/جہاد کا بیان
➖ بَابٌ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّهَارِ أَخَّرَ القِتَالَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ/نبی کریم ﷺ دن ہوتے ہی اگر جنگ نہ شروع کردیتے تو سورج کے ڈھلنے تک لڑائی ملتوی رکھتے
( متفق علیہ )
توثیق الحدیث : أخرجہ البخاری (٦/٣٣۔فتح) ، و صحیح المسلم(١٧٤٦)
⛔اسی سے متعلق ایک دوسری حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے جو صحیح مسلم (مختصر ) کے مطالعے کے دوران سامنے آئی:
باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا، لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے
ابو النضر سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی جو کہ قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، کی کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےعمر بن عبیداللہ کو کہ جب وہ حروریہ کی طرف (لڑائی) کے لیئے نکلے، تو لکھا اور وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کی خبر دینا چاہتے تھے کہ جن دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دشمن سے لڑائی کی حالت میں*تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زوالِ آفتاب تک انتظار کیا پھر لوگوں (صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمیعن) میں*کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے (لڑائی) ملاقات کی آرزو مت کرو اور اللہ تعالٰی سے سلامتی کی آرزو کرو۔ (لیکن)جب آمنا سامنا ہو جائے تو صبر سے کام لو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔
حدیث نمبر 1126
باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا، لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور یوں*دعا فرمائی کہ اے اللہ! کتاب نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں*کو بھگانے والے، ان کو بھگا دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔
(آمین ثم آمین)
⛔ تبصرہ :
کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے لہٰذا جہاں تک ممکن ہو لڑائی کو ٹالنا اچھا ہے۔ اگر کوئی صلح کی عمدہ صورت نکل سکے۔ اور جب نبھا کی شکل نہ نظر آئے اور صورتِ حال یہ ہو کہ دشمن مقابلہ ہی پر آمادہ ہو تو جم کر اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ایسے موقعہ پر اس دعائے مسنونہ کا پڑھنا ضروری ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ یعنی اللھم منزل الکتاب ومجری السحاب وھازم الاحزاب اھزمھم وانصرنا علیھم جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جنت کے لئے مالی و جانی قربانی کی ضرورت ہے جنت کا سودا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت قرآن ﴿ اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ﴾(التوبۃ: ۱۱۱) میں مذکور ہے.
Share:

Shariyat Ke Mutabik Talak Dene ke Bad Kya Fir Se Shauhar Biwi Nikah Kar Sakte Hai?

Talak Kitne Dino Pe di ja sakti Hai

 السلام وعلیکم.
دورِ جاہلیت کے رواج کو رد کرتے ہوئے الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ
طلاق(رجعی) دو مرتبہ ہے پھر یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا پھر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردینا ہے اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ بھی واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے پس اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے ‘ تو ان دونوں پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیہ میں دے یہ اللہ کی حدود ہیں ‘ پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں
(البقرہ -229)
طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔
فائدہ یہ ہے کہ میاں بیوی اگرعدت کے اندر صلح کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر عدت گزر جانے کے بعد بھی آپس میں مل بیٹھنے پر رضامند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے۔ یہ سنّت طریقہ کار ہے ۔
اگر معاملہ ایسا ہو کہ پہلی طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع کر لیں یا پھر عدت کے بعد تجدید نکاح سے وہ دوبارہ مل جائیں ، لیکن پھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ حالات کشیدہ ہو جائیں اور مرد دوسری مرتبہ طلاق دے دے ،تو بھی پہلے طریقہ کی طرح دوبارہ وہ مل سکتے ہیں
لیکن اگر پھر سے اختلاف ہو جائے اور مرد تیسری دفعہ طلاق دے دے تو تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی(حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ)(البقرہ -230)کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
پھراگر وہ طلاق دے اسے (تیسری بار)تو وہ حلال نہیں اس کے لیے اس کے بعد یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی اور سے اس کے سوا پھراگروہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے دے توکوئی گناہ نہیں ان دونوں پر کہ وہ رجوع کرلیں اگردونوں یہ خیال کریں کہ وہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی حدیں اوریہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں وہ کھول کھول کربیان کرتاہے ا نہیں اس قوم کے لیے (جو) علم رکھتے ہیںَ
(البقرہ -230)
سورة البقرہ آیت ٢٣٠ کے مطابق تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی
(حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ)
(البقرہ -230)
کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
جو صورتِ حال آپ نے مذکور کی ہے اسکے مطابق خاوند نے جب تیسری بار طلاق دے دی۔ تو اب عورت اس کے لیے حرام ہوگئی۔ عورت پر عدت تو ہوگی، مگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرسکتا۔ اب ان دونوں کے ملاپ کی صرف یہ صورت ہے کہ عدت گزرنے کے بعد عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے- نکاح مستقل رہنے کی نیت سے ہو گا ، تمام نکاح کے کام سر انجام دیے جائیں گے ، یعنی ولیمہ بھی ہو گا اور نکاح کا اعلان بھی کیا جائے گا -لیکن پھر کسی وقت وہ مرد از خود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہوجائے تو پھر عدت گزرنے کے بعد یہ عورت پہلے مرد سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
Share:

Kya Allah Ke Nabi Pahli Takbir Me Rafa Dayein Karte They?

Kya Allah Ke Rasool Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam Pahli Takbir Me Rafa Dayein Karte They? Kya Ye Tirmizi ki Hadees Shahi Hai?

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة، ثم لا يعود.
”آپ پہلی تکبیر میں رفع الیدین فرماتے تھے، پھر دوبارہ نہ کرتے۔“ (مسند احمد:441،388/1، سنن ابي داود:748، سنن نسائي:1927، سنن ترمذي:257)
تبصرہ:
(۱) یہ روایت ”ضعیف“ ہے،
اس میں سفیان ثوری ہیں، جو کہ بالاجماع ”مدلس“ ہیں، ساری کی ساری سندوں میں ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں۔ مسلم اصول ہے کہ جب ”ثقہ مدلس“ بخاری و مسلم کے علاوہ ”عن“ یا ”قال“ کے الفاظ کے ساتھ حدیث بیان کرے تو وہ ”ضعیف“ ہوتی ہے۔
اس حدیث کے راوی امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م : ۱۸۱ھ) نے امام ہشیم بن بشیر رحمہ اللہ (م : ۱۸۳ھ) سے پوچھا، آپ ”تدلیس“ کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:
ان كبيريك قد دلسا الأعمش وسفيان.
”آپ کے دو بڑوں امام اعمش اور امام سفیان رحمہ اللہ علیہما نے بھی تدلیس کی ہے۔“ (الكامل لابن عدي:95/1، 135/7 وسنده صحيح)
امام عینی حنفی لکھتے ہیں:
سفيان من المدلسين، والمدلس لا يحتج بعنعنته الا أن يثبت سماعه من طريق آخر.
”سفیان مدلس راویوں میں سے ہیں اور مدلس راوی کے عنعنہ سے حجت نہیں لی جاتی، الا یہ کہ دوسری سند میں اس کا سماع ثابت ہو جائے۔“(عمدة القاري :112/3)
(۲) یہ ”ضعیف“ روایت عام ہے، جبکہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے متعلق احادیث خاص ہیں، خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے، لہذا یہ حدیث عدم رفع الیدین کے ثبوت پر دلیل نہیں بن سکتی۔
(۳) مانعین رفع الیدین یہ بتائیں کہ وہ اس حدیث کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود وتروں اور عیدین میں پہلی تکبیر کے علاوہ کیوں رفع الیدین کرتے ہیں؟
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ محدیثین کرام کی نظر میں
(۱) امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم يثبت عندي حديث ابن مسعود. ”میرے نزدیک حدیث ابن مسعود ثابت نہیں۔“ (سنن الترمذي: تحت حديث256، سنن الدارقطني:393/1، السنن الكبريٰ للبيھي:79/2، وسنده صحيح)
(۲) امام ابوداود رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وليس ھو بصحيح علي ھذا اللفظ. ”یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں۔“
(۳) امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا خطأ. ”یہ غلطی ہے۔“ (العلل:96/1)
(۴) امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وليس قول من قال : ثم لم يعد محفوظا.
”جس راوی نے دوبارہ رفع یدین نہ کرنے کے الفاظ کہے ہیں، اس کی روایت محفوظ نہیں۔“ (العلل:173/5)
(۵) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھو في الحقيقة أضعف شئ يعول عليه، لأن له عللا تبطله.
”درحقیقت یہ ضعیف ترین چیز ہے جس پر اعتماد کیا جات ہے، کیونکہ اس میں کئی علتیں ہیں جو اسے باطل قرار دیتی ہیں۔“(التلخيص الحبير لابن حجر:222/1)
تنبیہ :
اگر کوئی کہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن“ کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے :
”ابن دحیہ نے اپنی کتاب ”العلم المشہور“ میں کہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کتنی ہی ”موضوع“ (من گھڑت) اور ”ضعیف“ سندوں والی احادیث کو ”حسن“ کہہ دیا ہے۔“
(نصب الراية للزيلعي:217/2، البناية للعيني:869/2، مقالات الكوثري:311، صفائح اللجين از احمد رضا خان بريلوي:29)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه
Share:

Jisne Fatima ko Sataaya Usne Mujhe Sataya.

السلام علیکم ورحمةاللہ
اس حدیث کے بارے میں رہنمائی فرما دیں
کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ستایا اس نے مجھے ستایا اور یہ تب فرمایا جب حضرت علی نے ابو جہل کی بیٹی سے شادی کی تھی۔
اس حدیث کا سیاق و سباق بتا دیں
والسلام علیکم
۔....................................................
عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَة : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : فَاطِمَة بَضْعَةٌ مِنِّي، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ امام بخاری کے ہیں۔
الحديث رقم 5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3510، و في کتاب : المناقب، باب : مناقب فاطمة، 3 / 1374، الرقم : 3556، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1903، الرقم : 2449، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم : 32269، و أبو عوانة في المسند، 3 / 70، الرقم؛ 4233، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 361، الرقم : 2954، و الطبراني في المعجم الکبير، 202 / 404، الرقم : 1012.
یہ حدیث اس وقت بیان کی تھی جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے نبیﷺ اور اللہ کے عدو کی بیٹی کو ایک ہی چھت کے نیچے رکھنے کا سوچ رہے تھے۔۔۔
اُس موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم حسنین رضی اللہ عنھم جنت میں عورتوں کی سردار کو تکلیف دینے پر یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی۔۔
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے علی بن حسین نے بیان کیا اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں)پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد: میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔
اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیے۔
Share:

Kya Qudrati Balon Me Alag Se Bal Lga Sakte Hai?

وگ پہننے کا حکم قدرتی بالوں میں مصنوعی بال شامل کرنے والا ہی ہے، اور ایسے کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ المُسَيِّبِ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ المَدِينَةَ، آخِرَ قَدْمَةٍ قَدِمَهَا، فَخَطَبَنَا فَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنْ شَعَرٍ، قَالَ: مَا كُنْتُ أَرَى أَحَدًا [ص:166] يَفْعَلُ هَذَا غَيْرَ اليَهُودِ «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهُ الزُّورَ. يَعْنِي الوَاصِلَةَ فِي الشَّعَرِ»
ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ آخری مرتبہ مدینہ منورہ تشریف لائے اور ہمیں خطبہ دیا۔آ پ نے بالوں کا ایک گچھا نکال کے کہا کہ یہ یہودیوں کے سوا اور کوئی نہیں کرتا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے” زور “یعنی فریبی فرمایا یعنی جو بالوں میں جوڑ لگائے تو ایسا آدمی مردہویا عورت وہ مکار ہے جو اپنے مکر وفریب پر اس طور پر پردہ ڈالتا ہے ۔
➖ كِتَابُ اللِّبَاسِ/ لباس کے بیان میں
➖ بَابُ الوَصْلِ فِي الشَّعَرِ/بالوں میں الگ سے بناوٹی چٹیا لگانا اوردوسرے بال جوڑنا
➖ صحیح البخاری / رقم الحدیث /5938
حدثنا آدم، ‏‏‏‏‏‏حدثنا شعبة، ‏‏‏‏‏‏عن عمرو بن مرة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت الحسن بن مسلم بن يناق، ‏‏‏‏‏‏يحدث عن صفية بنت شيبة، ‏‏‏‏‏‏عن عائشة رضي الله عنها، ‏‏‏‏‏‏ان جارية من الانصار تزوجت، ‏‏‏‏‏‏وانها مرضت فتمعط شعرها، ‏‏‏‏‏‏فارادوا ان يصلوها، ‏‏‏‏‏‏فسالوا النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ "لعن الله الواصلة والمستوصلة"، ‏‏‏‏‏‏تابعه ابن إسحاق، ‏‏‏‏‏‏عن ابان بن صالح، ‏‏‏‏‏‏عن الحسن، ‏‏‏‏‏‏عن صفية، ‏‏‏‏‏‏عن عائشة.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ میں نے حسن بن مسلم بن نیاق سے سنا، وہ صفیہ بنت شیبہ سے بیان کرتے تھے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ انصار کی ایک لڑکی نے شادی کی۔ اس کے بعد وہ بیمار ہو گئی اور اس کے سر کے بال جھڑ گئے، اس کے گھر والوں نے چاہا کہ اس کے بالوں میں مصنوعی بال لگا دیں۔ اس لیے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مصنوعی بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔ شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن اسحاق نے بھی ابان بن صالح سے، انہوں نے حسن بن مسلم سے، انہوں نے صفیہ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔
➖ صحيح بخاري /رقم الحدیث : 5934
➖ كتاب اللباس/لباس کے بیان میں
➖ بَابُ الْوَصْلِ فِي الشَّعَرِ/بالوں میں الگ سے بناوٹی چٹیا لگانا اور دوسرے بال جوڑنا۔
⛔ کن حالات میں وگ کی اجازت ہے۔👇
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا:
"ایک عورت نے ادویات استعمال کیں جس کی وجہ سے سر کے سارے یا اکثر بال گر گئے، لیکن اب وہ عورت وگ استعمال نہیں کرنا چاہتی اس کے نزدیک وگ کا استعمال جائز نہیں ہے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جو حالت آپ نے بیان کی ہے کہ دوبارہ بال آنے کی امید ہی نہیں ہے اس صورت میں وگ استعمال کرنے کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ وگ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس وقت وگ کا استعمال خوبصورتی بڑھانے کیلئے نہیں ہے بلکہ عیب چھپانے کیلئے ہے، چنانچہ وگ کا استعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے زمرے میں نہیں آئے گا ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے قدرتی بالوں میں کوئی اور چیز شامل کرتی ہے، لیکن سوال میں مذکور صورت میں یہ خاتون بالوں میں کوئی چیز شامل کرنے والی شمار نہیں ہوتی؛ کیونکہ وگ استعمال کر کے خوبصورتی بڑھانا نہیں چاہتی یا بالوں کی مقدار میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی بلکہ ایک عیب کو چھپانا چاہتی ہے، اور عیب چھپانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ عیب چھپانے اور خوبصورتی بڑھانے دونوں میں فرق ہے"

Share:

Jikska Mai Maula Uska Ali Maula kya Yah Sahi Hai?

Ali Maula Kahna Kya Shahi Hai

 جس کا میں مولا اس کا علی مولا۔
اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا واقعی یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث۔
۔.......................................................................
یہ حدیث مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ترمذي/حدیث نمبر ( 3713 ) اور ابن ماجہ /حدیث نمبر ( 121 ) میں روایت کی گئی ہے اوراس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ أَوْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَأَبُو سَرِيحَةَ هُوَ حُذَيْفَةُ بْنُ أَسِيدٍ الْغِفَارِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔
جامع الترمذی / رقم الحدیث : 3713
امام ترمذی کہتے ہیں:
➖ ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
➖ ۲- شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔
➖ تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: ۳۲۹۹)، و۳۶۶۷)، و مسند احمد (۴/۳۶۸، ۳۷۲) (صحیح)
اور علامہ حافظ زبیر علی زئیؒ کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح ہے :
سنن الترمذیؒ کی تخریج میں فرماتے ہیں :
"اسناده صحيح ، واخرجه احمد في فضائل الصحابة 2/569 زح959 ،عن محمد بن جعفر وهو حديث متواتر كما في كتب المتواترة : كتاب السيوطي ح100، الكناني ح232، الزبيدي ح69، ورواه احمد 4/372 في مسنده، والحديث وراه النسائي فى الكبرى ح8148 ، من حديث ابي الطفيل به مطولا-
➖ زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے ھدایہ کی تخریج ( 1 / 189 ) میں کہا ہے کہ :
کتنی ہی ایسی روایات ہیں جن کے راویوں کی کثرت اورمتعدد طرق سے بیان کی جاتیں ہیں ، حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضی اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) بھی ہے ۔
➖ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔
➖ امام بخاری اور ابراھیم حربی محدثین کےایک گروہ سے یہ منقول ہےکہ انہوں نےاس قول میں طعن کیا ہے۔لیکن اسکے بعد والا قول (اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ ) آخرتک،تویہ بلاشبہ کذب افتراء ہے ۔
دیکھیں منھاج السنۃ ( 7 / 319 )
➖ امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :
حديث ( من کنت مولاہ ) کے کئ طریق جید ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔
اوراگر یہ جملہ ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) صحیح بھی مان لیا جاۓ اور اس کے صحیح ہونے سے کسی بھی حال میں یہ حدیث میں ان کلمات کی زیادتی کی دلیل نہیں بن سکتی جس کا غالیوں نے حدیث میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کوباقی سب صحابہ سے افضل قرار دے سکیں ، یاپھرباقی صحابہ پرطعن کرسکیں کہ انہوں نے ان کا حق سلب کیا تھا ۔
➖ شیخ الاسلام نے ان زيادات اوران کے ضعیف ہونےکا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔
➖ اس حديث کے معنی میں بھی اختلاف کیا گیا ہے ، توجوبھی معنی ہو وہ احاديث صحیحہ میں جویہ ثابت اورمعروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں افضل ترین شخصیت ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہیں اور خلافت کے بھی وہی زيادہ حق دارتھے ان کے بعد عمربن الخطاب اورپھرعثمان بن عفان اوران کےبعد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنھم سے تعارض نہیں رکھتا ، اس لیے کہ کسی ایک صحابی کی کسی چیزمیں معین فضیلت اس پردلالت نہی کرتی کہ وہ سب صحابہ سے افضل ہیں ، اورنہ ہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا صحابہ کرام میں سب سے افضل ہونا اس کے منافی ہے جیسا کہ عقائد کے باب میں یہ مقرر شدہ بات ہے ۔
Share:

Kisi Musalman Ki Ayadat Karne Kaisa Hai?

Hazrat Ali Raziyallahu Anhu farmaate hain ke maine Rasulullah ﷺ ko ye irshaad farmaate hue suna: Jo Musalmaan kisi Musalmaan ki subah ko iyaadat karta hai to shaam tak sattar (70) hazaar farishte uske liye dua karte rehte hain aur jo shaam ko iyaadat karta hai to subah tak sattar hazar farishte uske liye dua karte rehte hain aur use jannat mein ek baagh miljaata hai. (Tirmizi: 969)

Share:

Gair Sharai Mahfil Ki Najer-o-Neyaj Khana Kaisa Hai?

Kisi Gairullah Ke Nam Ka Najer O Neyaz Khana Kaisa Hai

 غیر شرعئی مجالس میں اہل بدعت کے نذر ونیاز والے کھانوں کا کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ سب یہ کام غیر اللہ کے لیے کرتے ہیں اور اس کو باعث ثواب سمجھتے ہیں لہٰذا یہ سب رسوم اور بدعات ہیں اور ”مااہل لغیر للہ“ میں داخل ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”من احدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردّ“
غیر اللہ کے نام کا کھانا بہت سخت حرام ہے ، یاد رکھیے اس سے کم درجہ کے حرام کو کھانے پر چالیس دن کی نماز قبول نہ ہونے کا فرمان مصطفی ﷺ
موجود ہے جسکے مطابق
عن عبد الله بن عمرو رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"لا يشرب الخمر رجل من أمتي فيقبل الله منه صلاة أربعين يوما"
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : ”میری امت کا کوئی شخص شراب نہ پیئے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا“ )) أخرجه النسائى وصححه الألبانى.
عن بعض أزواج النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال :"من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلة" رواه مسلم.
شیطان ہمارے خون میں گردش کرتا ہے۔اس لیے ہمیں ہر طرح کے طریقے سے گناہ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے
جب ایسی مجالس ہونگی تو ان کے کھانے کی حرمت و حلت مشکوک ہو جائےاس لیے ہمیں ایسے امور سے اجتناب کرناچاہیئے جن کے متعلق ہم شکوک و شبہات کا شکار ہو سکتے ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وہ چیز چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈال دے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے ۔
ترمذی/ حدیث : 2708
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/باب : 60
حضرت ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ یاد کیے: ''وہ چیز چھوڑ دے جو تجھے شک میں ڈال دے اور اس چیز کو اختیار کر جو تجھے شک وشبہ میں نہ ڈالے کیونکہ سچ اطمینان ہے اور جھوٹ شک اور بے چینی ہے۔
(ترمذی۔ حدیث صحیح ہے)
توثیق الحدیث:اخرجہ الترمذی (2518)، والنسائی (3278۔328)، واحمد (2001)
اگر غیراللہ کی نذر و نیاز اور بدعئی مجالس میں پیش کیا جانے والا کھانا ، کھانے والا جانتا ہے کہ اسلام میں غیراللہ کی نذر لینا دینا جائز نہیں ، اس کے باوجود نہ تو اس شرک کا ارتکاب کرنے والوں کو قرآن کی بات بتاتا ہے ، بلکہ نذر کا مال لیتا ،کھاتا ہے تو یقیناً وہ ایمان فروش ہے ، سورۃ البقرہ کی درج ذیل دو آیتیں توجہ سے پڑھیں ؛
رب العزت کا ارشاد ہے :
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٧٣؁
ترجمہ :
اللہ تعالی نے تو صرف تم پر مردار خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا ہے اور ہر وہ چیز بھی جو غیر اللہ کے نام سے مشہور کردی جائے۔ پھر جو شخص ایسی چیز کھانے پر مجبور ہوجائے درآنحالیکہ وہ نہ تو قانون شکنی کرنے والا ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو، تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ یقینا بڑا بخشنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ښ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١٧٤؁
ترجمہ :
جو لوگ ان باتوں کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کی ہیں اور اس کام کے عوض تھوڑا سا دنیوی فائدہ اٹھا لیتے ہیں یہ لوگ دراصل اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے کلام کرے گا اور نہ (گناہوں سے) پاک کرے گا۔ اور انہیں دکھ دینے والا عذاب ہوگا ۔
─━══★◐★══━─
✍ لہٰذا ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ ایسی محافل سے اجتناب فرمائیے جہاں ایمان فروشی کا سامان ہو ۔ ہم آپکو تبلیغِ دین کے لیے بھی ایسی غیر شرعئی مجالس میں اسی وقت اجازت دینا مناسب سمجھتے ہیں جب کہ آپ اتنا دینی فہم اور معرفت رکھتی ہوں کہ حق اور باطل میں تمیز کر سکیں ، نیز اس چیز کی معرفت ہو کہ آپ صحیح اور فاسد چیزوں کو بھی جان سکیں ، یہ جان سکیں کہ آپ کو تبلیغِ دین کے لیے حکمت اور اسلوب کا کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے ، یہ جان سکیں کہ بدعتی مجالس میں دعوتِ دین کی صورت میں پیدا ہونے والے فتنہ سے آپ کس طرح نبرد آزما ہو سکتی ہیں ۔ اگر آپ ابلاغی شعور نہیں رکھتیں تو آپکو ایسی مجالس سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے ، کیونکہ غالب گمان ہے کہ اوامر و نواہی کو شیطان گڈ مڈ کر دے اور آپ کوتاہی کر بیٹھیں ، یاد رکھیے شیطان گناہ کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے
﴿وَزَیَّنَ لَھُمْ الْشَیْطَانُ أَعْمَالَھُم﴾․
(النمل:24) ”
اور بھلے دکھلارکھے ہیں ان کو شیطان نے ان کے کام۔“
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Share:

Majbooran Gharwale ke Kahne Par Kya Kisi Chaliswi, Pachaswi Me Ja Sakte Hai?

Gharwale ke Kahne Par kisi Chaliswi, Pachaswi wagairah Me Kya Ja Sakte Hai

اگر مجبوراً کسی چالیسویں پچاسویں ، وغیرہ میں جانا پڑجاۓ ،شوہر کے کہنے سے تو کیا عمل اختیار کرنا چاہیئے ؟ یا حق کی دعوت کا اظہار کرنے کی نیت سے جاسکتے ہیں ؟
ہمیں یہ علم ہونا ضروری ہے کہ اطاعت معروف میں ہے معصیت میں نہیں ۔ اللہ تعالی کی معصیت کے کام میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاسکتی ۔ آپﷺ نے فرمایا:
[اَلطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ]
’’اطاعت تو صرف معروف (شریعت مطہرہ کے عین مطابق) کاموں میں ہے۔‘‘
(صحیح البخاری، المغازی، حدیث: ۴۳۴۰)
اوریہ بھی علم ہونا چاہیے کہ حرام کام معروف اوراچھا کام نہيں بلکہ یہ تو منکر اوربرائي ہے جس پر عمل خالق پر مخلوق کو فوقیت دینا ہے
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " السمع والطاعة على المرء المسلم فيما احب وكره، ‏‏‏‏‏‏ما لم يؤمر بمعصية، ‏‏‏‏‏‏فإن امر بمعصية، ‏‏‏‏‏‏فلا سمع عليه ولا طاعة "، ‏‏‏‏‏‏قال ابو عيسى:‏‏‏‏ وفي الباب، ‏‏‏‏‏‏عن علي، ‏‏‏‏‏‏وعمران بن حصين، ‏‏‏‏‏‏والحكم بن عمرو الغفاري، ‏‏‏‏‏‏وهذا حديث حسن صحيح.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے خواہ وہ پسند کرے یا ناپسند کرے، اور اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ اس کے لیے سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت کرنا“ ۱؎۔
➖امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، عمران بن حصین اور حکم بن عمر و غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
➖سنن ترمذي/حدیث نمبر: 1707
➖كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
➖کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
➖باب مَا جَاءَ لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ
➖باب: خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
➖تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۰۸ (۲۹۵۵)، والأحکام ۴ (۷۱۴۴)، صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۸۳۹)، سنن ابی داود/ الجہاد ۹۶ (۲۶۲۶)، سنن النسائی/البیعة ۳۴ (۴۲۱۱)، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۴۰ (۲۸۶۴)، (تحفة الأشراف: ۸۰۸۸)، و مسند احمد (۲/۱۷، ۴۲) (صحیح)
اس لیے خاوند اگربیوی کوکسی حرام کام کرنے کا کہنے اورنہ کرنے پر طلاق کی دھمکی دے توبیوی اپنے خاوند کواچھے اوربہتر انداز میں سمجھائے اوراسے اس حرام کام سے خوف دلائے ۔ لیکن ان امورِ معصیت میں عورت کے لیے جائز نہیں کہ خاوند کی اطاعت کرے ۔ علماء ہوں یا امراء و حکام ، ہر خاص و عام کی اطاعت قرآن و سنت کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر ان کا کوئی حکم شریعت کے مخالف ہو اس میں ان کی اطاعت بجا لانا ناجائز اور حرام ہے۔ رہی بات دین کی غرض سے ایسی مجالس میں جانا تو خیروبھلائ اورنیکی کی دعوت دینا دین اسلام کا ایک اہم کام ہے جس پر اسلام بہت زیادہ زوردیتا ہے ، اس لیے کہ یہ ایسا وسیلہ ہے جو اسلام کے پھیلنے اورنشر ہونےاورعدل کے ثابت ہونے میں اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔
چاہے یہ کام امر بالمروف سے ہو یاپھر نہی عن المنکر کے ساتھ ، یا پھر اس میں قدوہ حسنہ استعمال کیا جاۓ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
تم میں سےایک جماعت ایسی ہونی چاہيۓ جو بھلائ کی طرف بلاۓ اورنیک کاموں کا حکم کرے اوربرے کاموں سے منع کرے ، اوریہی لوگ فلاح وکامیابی حاصل کرنے والے ہيں آل عمران ( 104 ) ۔
 لہٰذا اگر آپ سمجھتی ہیں کہ حق کی دعوت دینے کے لیے آپ ایسی مجالس میں شرکت کرنے کے باوجود فتنہ سے دور رہ سکتی ہے، ارکانِ مجالس کا انکے امورِ بدعہ میں شامل ہوئے بغیر دعوتِ دین ان تک پہنچا سکتی ہیں ، نیز آپ کا میلان نواہی کے کسی بھی کام کو اختیار کرنے کا پابند نہ بنایا جائے تو اس اعتدال و توازن اور ثبات و استقلال کے ساتھ ایک مومن کی حقیقی شان یہی ہونی چاہیے کہ وہ نیکیوں کے معاملے میں حریص ہو، بھلائی کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھائے اور جن اعمالِ صالحہ کی اس کو تعلیم دی گئی ہے ان کی توفیق و استطاعت رکھتے ہوئے ان کی تشہیر و انجام دہی میں کبھی کوتاہی نہ کرے۔ لہٰذا ہمارے علم کے مطابق ان مذکورہ شروط کے ساتھ آپ کا ایسی مجلس میں شرکت کرنا ان شاءاللہ کوئی حرج پیدا نہیں کرے گا
Share:

Advance Balance Kya Sood Ke Dayere Me Aati Hai?

Mobile Company Jo Advance Balance Deti Hai kya wah Sood (Intrest) Hai

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
1- موبائل کمپنی جو ایڈوانس ریچارج یا لون دیتی ہیں وہ بھی سود سے ملحق ہے ؟ یعنی سود سے ہی متعلق ہے؟
اس ضمن میں دو اقوال پائے جاتے ہیں
پہلا مئوقف ہے کہ یہ اضافی رقم کمپنی کے سروس چارجز اور حکومتی ٹیکس ہوتا ہے جو وہ ایزی لوڈ اور کارڈ لوڈ پر بھی کاٹ لیتے ہیں۔آج کل اگر 100 روپے کا کارڈ لوڈ کریں تو 75 روپے آتے ہیں،اب کیا ہم یہاں بھی یہ کہیں گے کہ کمپنی نے 75 دے کر ہم سے 100 روپے لئے ہیں۔یہاں ایسا کوئی بھی نہیں کہتا ہے،ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ یہ حکومتی ٹیکس اور سروس چارجز ہیں جو ہر کارڈ کے ساتھ ساتھ ہر کال پر بھی کٹتے رہتے ہیں اور یہ ایسے اصول ہیں جو سم لیتے وقت ہی کمپنی آپ کو بتا دیتی ہے کہ ہم ان ان شرائط پر آپ کو اپنی کمپنی کی سروس مہیا کریں گے،اور ہم کمپنی کی ان شرائط کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ تحریری معاہدہ بھی کرتے ہیں کہ ہم کمپنی کی تمام شرائط سے متفق ہیں۔
2۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے کمپنی سے نقد رقم نہیں لی ہوتی بلکہ ایک سروس اور خدمت لی ہوتی ہے ،جس کے چارجز ہم خدمت کے حصول کے بعد ادا کرتے ہیں۔(جبکہ کارڈ یا ایزی لوڈ میں پہلے ہی ادا کر دیتے ہیں۔)اب اس کو سود کیسے کہا جا سکتا ہے
 دوسرا مئوقف ہے کہ مختلف موبائل کمپنیاں اپنا کاروبار چمکانے کیلئے اس طرح کی سہولیات صارفین کو دیتی ہیں۔ مثلاً:
٭ جاز کمپنی 10 روپے کا بیلنس دے کر 13.20 روپے کاٹتی ہے۔
٭ یوفون کمپنی 30 روپے دے کر 34 روپے واپس لیتی ہے۔
٭ ٹیلی نار والے 40 روپے دے کر 45.12 روپے وصول کرتے ہیں۔اور اسے سروس چارجز کا نام دیا جاتا ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق یہ سود ہے جس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تم اس سود سے باز نہیں آئو گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ لڑنے کیلئے تیار ہو جائو۔‘‘ (البقرۃ: ۲۷۹)
ہمارے مطابق راجح قول یہ ہے کہ موبائل کمپنیوں کا ایڈوانس لون دیکر واپسی کے وقت اضافی رقم لینا سود کے زمرے میں نہیں آتا ،کیونکہ کمپنی کی طرف سے لون ملنے کی شکل یہ ہوتی ہے کہ اس کی طرف سے جو بیلنس موبائل میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے وہ در حقیقت گفتگو کا حق دیا جاتا ہے وہ روپیہ کی شکل میں وصول نہیں کیا جاسکتا، نیز سروس چارجز کی کٹوتی جانبین کا حق ہے۔ پس جانبین سے اتحاد جنس نہیں پایا جاتا اس لیے اضافی رقم پر سود کا حکم نہیں۔
Share:

EK se Jyada Shadi Karne ki Ijazat Islam Kyu Deta Hai?

Islam Ek Se Jyada Shadi Karne Ki Ijazat Kyu Deta Hai?
एक से ज्यादा बीवियां रखने की इजाज़त क्यो?
सवाल: मुस्लिमों को एक से ज़्यादा बीवियां रखने की इजाज़त क्यों है? यानी इस्लाम एक से ज़्यादा शादी करने की इजाज़त क्यों देता है।??????
चौदहवीं भारतीय संसद में फिल्म अभिनेता धर्मेन्द्र चुनाव जीतकर लोकसभा में पहुंचे जिनकी दो बीवियां हैं एक "श्रीमती प्रकाश कौर" और "दूसरी हेमा मालिनी"। यहां तक कि दूसरी बीवी हेमा मालिनी भी राज्यसभा में सांसद रही हैं। इसी तरह फिल्म अभिनेत्री जयाप्रदा भी समाजवादी पार्टी के टिकट पर चुनाव जीतकर संसद में पहुंची जो कि अपने पति श्रीकांत नाहटा की दूसरी बीवी है। ऐसी और भी कई मिषालें दी जा सकती हैं |
जिनमें फ़िल्म कलाकार और राजनेता भी शामिल हैं। हैरत की बात तो यह है कि, एक वक्त में एक ही औरत से शादी करने का कानून बनाने वाली संसद ने धर्मेन्द्र, हेमामालिनी या जयाप्रदा जैसे। सांसदों से कभी यह नहीं पूछा कि उन्होंने कानून की ख़िलाफ़वर्जी। (अवहेलना) क्यों की? इन नामी-गिरामी हस्तियों के ख़िलाफ़ क़ानूनी कार्रवाई करना तो बहुत दूर की बात है।
हिन्दूधर्म को मानने वाले इसकी किस तरह ख़िलाफ़वर्जी करते हैं, इसकी दो मशहूर मिषालें तो आपको बताई जा चुकी है लेकिन अगर आप तलाश करें तो हज़ारों लाखों मिषालें आपको और भी मिल सकती हैं।
Q बेहतर क्या, चोरी-छुपे आश्नाई या पाकबाज़ ज़िन्दगी?
जो लोग मर्द के लिये एक से ज्यादा शादी करने के लिये दी गई ईस्लामी इजाज़त का विरोध करते हैं, उनसे निवेदन है कि एक बार दुनिया की मशहूर हस्तियों की बायोग्राफी निष्पक्ष होकर पढ़ लें आपको पता चलेगा कि ज्यादातर लोगों के एक वैध बीवी होने के साथ-साथ एक या एक से अधिक औरतों के साथ छुपे सम्बंध भी थे।
जो औरत किसी मर्द की घोषित (डिक्लेयर्ड) बीवी न हो उसे समाज घृणित (गिरी हुई) नज़र से देखता है; अगर मुँह पर न कह सके तो पीठ पीछे उसे 'रखेल' जैसे घटिया लफ्ज़ से सम्बोधित किया जाता है। बेचारी ऐसी औरत सामाजिक संम्मान के साथ - साथ बीवी होने के नाते मिलने वाले धार्मिक व कानूनी अधिकारों से भी महरूम रहती है।
----------------------------------------

Share:

Hadees Me Kalma-E-Taiyyba Kaha Hai?

Kalma-E-Taiyyba Shahi Hadees Se

Musnad Ahmed Hadees # 11762
۔ (۱۱۷۶۲)۔ عَنِ الصُّنَابِحِیِّ أَنَّہُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَہُوَ فِی الْمَوْتِ فَبَکَیْتُ، فَقَالَ: مَہْلًا لِمَ تَبْکِی؟ فَوَاللّٰہِ لَئِنِ اسْتُشْہِدْتُ لَأَشْہَدَنَّ لَکَ، وَلَئِنْ شُفِّعْتُ لَأَشْفَعَنَّ لَکَ، وَلَئِنْ اسْتَطَعْتُ لَأَنْفَعَنَّکَ،
ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ مَا حَدِیثٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  لَکُمْ فِیہِ خَیْرٌ إِلَّا حَدَّثْتُکُمُوہُ إِلَّا حَدِیثًا وَاحِدًا، سَوْفَ أُحَدِّثُکُمُوہُ الْیَوْمَ وَقَدْ أُحِیطَ بِنَفْسِی، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  یَقُولُ: ((مَنْ شَہِدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ حُرِّمَ عَلَی النَّارِ۔)) حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ مِثْلَہُ قَالَ: حَرَّمَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلَیْہِ النَّارَ۔ (مسند احمد: ۲۳۰۸۷)
صنا بحی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبادہ بن صامت  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ  کے پاس گیا، جبکہ وہ مرض الموت میںمبتلا تھے، ان کی حالت دیکھ کر میں رونے لگا، انہوںنے کہا: رک جاؤ، تم کیوں روتے ہو؟ اللہ کی قسم! اگر مجھ سے تمہارے بارے میں گواہی لی گئی تو میں تمہارے مومن ہونے کی گواہی دوں گا، اگر  مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی تو میں تمہارے حق میں شفاعت کروں گا اور اگر مجھ سے ہو سکا تو تمہیں نفع پہنچائوں گا۔ ‘ پھر کہا: اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  سے جو بھی کوئی ایسی حدیث سنی ہے جس میں تمہارے لیے بہتری ہے تو میں وہ حدیث تمہیں سنا چکا ہوں، البتہ ایک حدیث ہے، جو میں تمہیں نہیں سنا سکا، وہ تمہیں آج ابھی سناتا ہوں اور اب صورت حال یہ ہے کہ میری روح قبض کی جانے والی ہے۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  جو آدمی یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  اس کے رسول ہیں، اس پر جہنم حرام کر دی جاے گی یا یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرا م کر دے گا۔
Sahih Hadees
Taken From Misage Ansari 
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS