Find All types of Authentic Islamic Posts in English, Roman Urdu, Urdu and Hindi related to Quran, Namaz, Hadeeth, Ramzan, Haz, Zakat, Tauhid, Iman, Shirk, Islah-U-Nisa, Daily Hadith, Hayat-E-Sahaba and Islamic quotes.

Asal Badshah kaun hai Ulema ya Aaj ke Hukmaran? Kaun Izzat ke layek hai?

Aasal Badshah kaun hai ye Aaj ke Ulema ya Hukmaran.
Ulema Ki Tankhwah aur Unke Zindagi jine ke tarike.

عباسی دور میں علماء و فقہاء کی تنخواہ کروڑوں میں تھی

طریقِ علم نجاتِ دارین 46

عباسی دور میں علماء و فقہاء کی تنخواہیں سن کر بندہ حیران رہ جاتا ہے.

مؤذن کی تنخواہ ایک ہزار سونے کے سکے سالانہ تھی
یاد رکھیں ایک سونے کا سکہ تقریباً چار ماشے کا اور 250 سونے کے سکے ہوں تو ایک کلو بنتا ہے
اس لحاظ سے تقریباً چار کلو سونا ایک اذان دینے والے مؤذن کی تنخواہ تھی یعنی آج کے آٹھ کروڑو کے قریب!

قرآن کریم سکھانے والوں کی تنخواہ دو ہزار سونے کے سکے
اور علماء و فقہاء کی تنخواہ چار ہزار سونے کے سکے سالانہ تنخواہ تھی یعنی ایک سال میں تقریبا بیس کروڑ سے زائد تھی
( النفقات و اداراتھا فی الدولۃ العباسیہ للضیف الله یحیی الزھرانی )

یہی وجہ تھی وہ دور سنہرا دورِ اسلام کہلاتا تھا جب علماء و فقہاء اس قدر معزز تھے کیوں نہ ہوں جنہوں نے حکومت و حکام کو چلانا ہے جنہوں نے آخرت کی طرف لے جانا ہے وہ کیوں نہ اس قدر عزت افزائی کے مستحق ہوں
بغداد میں بیت الحکمت ہو یا مدرسہ نظامیہ سائنس دان علماء تبھی تیار ہوتے ہیں جب فکرِ معاش سے آزاد رکھے جائیں.

آج نظام الٹ کر دیا گیا

جمہوری نظامِ حکومت اور میکالے کا نظامِ تعلیم اس وجہ سے مسلط کیا گیا ہے تاکہ دجالی نظام کی حوصلہ افزائی اور دینی نظام و تعلیم کی حوصلہ شکنی کی جائے.
نوکریاں و مراعات انہی کو دی جاتی ہیں جو جمہوری غلاظت کو چاٹتے اور میکالی تعلیم کو پیتے ہیں

مگر آفرین ہے ان ماں باپ پر جو مادیت کے اس دور میں اور پیسے کی دوڑ میں بچوں کو دینی تعلیم دلواتے ہیں اور یقین سے بیٹھتے ہیں کہ جس رب کا دین پڑھ رہے ہیں وہی دولت و عزت دے گا۔
یہی وجہ ہے کھرب پتی مالدار حتی کہ وزیر اعظم بھی ہو تو صرف اس کے منہ پر تعریف اور عزت کی جاتی ہے
مگر محلے کے امام اور عالمِ دین کے ہاتھ چومے جاتے ہیں اور ان کو دعاؤں کا کہا جاتا ہے۔

ہارون رشید نے بھی یہی کہا تھا
اصل بادشاہ تو یہ علماء ہیں"
ہماری عزت تو ہمارے خوف سے کی جاتی ہے.

علمِ دین حاصل کریں دین و دنیا میں معزز ہوں گے- مال کی طلب میں نہ کریں نہ عزت کی خواہش میں کریں رضائے الٰہی کے لیئے کریں وہ اتنا نوازے گا کہ تاحشر کام و نام باقی رہے گا۔

(سید مہتاب عالم)

-------------------------------------------------

Share:

Quran o Hadees ki Raushani me Aurat ka Ghar ki namaj me Chehre ka Parda karna kaisa hai?

Kya Aurat Masjid me Namaj padhne ja sakti hai?
Namaj ke Dauran Khawateen chehre ke alawa kin hisso ki Parda karegi?
Ghar me Agar Na mehram ho to Aurat kaise Namaj Padhegi?
Shariyat ki raushani se Aurat ka Ghar ki Namaj me Chehare ka Parda.

السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

شریعت کی رُو سے عورت کا گھر کی نماز میں چہرے کا ستر
۔┄┅════════════════┅┄
🖋: مسز انصاری

صحیح احادیث کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ نے عورت کی خیر و عافیت اور عفت و عصمت  کی حفاظت اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے مساجد کے مقابلہ میں گھر میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا ۔ اور گھر میں نماز کے لیے بھی عورت گھر کا پوشیدہ حصہ یا اندرونی کوٹھری کو ترجیح دے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صلاةُ المرأةِ في بيتِها أفضلُ من صلاتِها في حجرتِها وصلاتُها في مَخدعِها أفضلُ من صلاتِها في بيتِها
(صحيح أبي داود : ۵٧٠)

عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے ( اندرونی ) کوٹھری میں زیادہ افضل ہے ۔

گھر میں نماز ادا کرنا عورت کو نماز کا وہی اجر وثواب دے گا جو وہ کسی مسجد میں باجماعت ادا کرے ۔ یاد رہے مسجد میں باجماعت نماز ادا نا کرنے سے عورت اس فضیلت سے محروم نہیں ہوتی جو فضیلت مردوں کو باجماعت نماز کی ادائیگی سے حاصل ہوتی ہے سوائے دو مساجد مسجد حرام یا مسجد نبویﷺ کے ، اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: ما صلّت المرأۃ فی مکان خیر لھا من بیتھا الّا أن تکون المسجد الحرام أو مسجد النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم الّا امرأۃ تخرج فی منقلیھا یعنی خفّیھا۔

‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، عورت کے لیے نماز کی کوئی بھی جگہ اپنے گھر سے بہتر نہیں، ہاں! اگر مسجد حرام یا مسجد نبوی ﷺ ہو اور عورت موزے پہن کر نکلے( تو بہترہے)۔’’

(المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۹۳/۹)

تاہم عورت کا مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں صحابیات جمعةالمبارک کی نماز میں بھی شریک ہوتی تھیں ، صحیح احادیث کی روشنی میں پیارے نبیﷺ نے عورت کو مسجد جانے کی اجازت فرمائی ہے تاہم گھر کی نماز کو افضل قرار دیا ہے ، آپﷺ نے فرمایا :
لا تمنعوا نساءَكمُ المساجدَ وبيوتُهنَّ خيرٌ لَهنَّ
(صحيح أبي داود: ۵٦٧)
اپنی عورتوں کو مساجد سے مت روکو ، مگر ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔

رہی بات گھروں میں نماز پڑھنے کے لیے عورت کے ستر کی تو نا محرم کے لیے عورت پوری کی پوری واجب الستر ہے ، اور نامحرم کی غیر موجودگی میں عورت کا چہرہ واجب الستر نہیں ، جیسے اپنے گھر میں اپنے محرموں کے سامنےعورت بغیر اوڑھنی کے بھی رہ سکتی ہے ، تاہم گھر میں نامحرم کی موجودگی میں وہ مکمل ستر کے ساتھ رہے گی ۔

نماز کے لیے اگر عورت تنہا ہے یا صرف اس کے محرم ہی موجود ہیں تو اس صورت میں چہرے کے علاوہ پورے بدن کا ستر عورت کے لیے واجب ہے ، بصورتِ دیگر اگر وہ گھر میں نماز ادا کر رہی ہے اور نامحرم بھی گھر میں موجود ہیں تو اس صورت میں عورت کے لیے پورے بدن کے ستر کے ساتھ چہرہ بھی واجب الستر ہوگا ۔

اس بارے میں الشیخ ابن جبرین فرماتے ہیں :
نماز کے دوران عورت کے لئے پورے بدن کو ڈھکنا ضروری ہے۔ چہرے کے علاوہ اس کا پورا جسم واجب الستر ہے۔ اگر اس کے پاس محرم موجود ہوں یا وہ تنہا نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران چہرے پر پردہ نہیں کرے گی۔
اگر وہ غیر محرم مردوں کی موجودگی میں نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران اور نماز علاوہ بھی چہرے کا پردہ کرے گی۔ کیونکہ چہر ہ واجب الستر ہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]

دورانِ نماز عورت کا دستانے پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں الشیخ ابن جبرین کہتے ہیں

دستانہ ہاتھ کی جراب ہے لہٰذا اگر عورت احرام کی حالت میں ہوتو اس کے لئے اسے پہننا ناجائز ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

’’لاتنتقب المرأۃ ولا تلبس القفازین‘‘۔

’’عورت نقاب بھی نہ لے اوردستانے بھی نہ پہنے ‘‘۔ المعجم الأوسط لطبرانی (5/10) حدیث : (6420) اسنادہ ضعیف ، فیہ عمر بن صہبان ، ضعیف ، (التقریب ) وانظر مجمع الزوائد (3/222) قلت فی الصحیح بعضہ ، ابو داود (1825) (صحیح ) صحیح البخاری ، حدیث : (1838) جزء من الحدیث۔

لہٰذا احرام کے دوران عورت کے لئے دستانے پہنناحرام ہے۔

البتہ اگر عورت احرام کی حالت میں نہ ہو اورنمازپڑھ رہی ہو اور اس کے نزدیک غیر محرم مرد بھی نہ ہوں تو اس کے لئے بہتر اورافضل یہ ہے کہ وہ دستانے کو ہاتھ سے اتارکر نمازپڑھے تاکہ اس کے ہاتھ جائے نماز کوبراہ راست لگیں۔ اسی طرح اگر اس کے آس پاس غیر محرم مردموجود ہوں اور اس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوتو اسے سجدہ کرتے وقت اپنے چہرے سے کپڑا ہٹالینا چاہیئے کیونکہ جسم پر پہنے ہوئے کسی کپڑے مثلاً :رومال ، دوپٹہ ، لباس وغیرہ پرسجدہ مجبوری کے بغیر کرنا مکروہ ہے۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ :

’’ہم نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گرمی کے موسم میں نماز پڑھاکرتے تھے۔ اگر کسی شخص کے لئے زمین پرپیشانی کولگانا ممکن نہ ہوتا تو وہ کپڑا بچھا کر اس کے اوپرسجدہ کرلیتا‘‘۔ --- سنن ابوداود، کتاب الصلاۃ ، باب الرجل یسجد علی ثوبہ ، حدیث : (660) (صحیح ) ---

اس میں پیشانی پر کپڑا لگنے کوعدم استطاعت کے ساتھ مشروط قراردیاگیاہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]

دورانِ نماز پاوں ڈھانپنے کے بارے میں علماء کی دو رائے ہیں ، افضل اور راجح یہی ہے کہ پاوں کو بھی ڈھانپا جائے ۔ اس بارے میں الشیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں

" ہاتھوں اور پائوں کو نماز کے دوران ہرصورت میں ڈھکنا ضروری ہے خواہ غیر محرم مرد موجود ہوں یا نہ ہوں۔ کیونکہ نماز کے دوران چہرے کے علاوہ عورت کاپورا جسم واجب الستر ہے ۔"

اس بارے میں علامہ محمد بن صالح العثیمینؒ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :

اگر نماز میں عورت کے دونوں ہاتھ اور پاؤں ننگے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے ۔جب کہ وہاں کوئی نہ ہو اور عورت اپنے گھر میں نماز ادا کررہی ہو؟

الجواب ــــــــــــــــــــــ​

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حنابلہ ۔کے مذہب میں مشہور قول یہ ہے کہ نماز میں آزاد اور بالغ عورت کا چہرے کے سوا سارا جسم پردہ ہے۔ لہذا اس کے لئے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگاکرنا جائز نہیں لیکن بہت سے اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ عورت کے لئے نماز میں ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا رکھنا جائز ہے۔جب کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن فرض کیا کہ اگر عورت نے نماز میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا کرلیا اور پھر وہ اس سلسلے میں فتویٰ طلب کرے تو کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی نماز کو دوہرائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ/جلد : ١ /صفحہ : ٣٨١

والله ولي التوفيق
وَالسَّــــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

Share:

Islam aur Homosexuality: Loot Alaihe Salam Ki Qaum Ko Allah ne Kaise Barbad kiya? Islam aur Homosexuality: Quran ka Faisla

Loot Alaihe Salam ki Qaum par kis Gunah ka Ajaab aaya?

Qaum-E-Loot par Allah ke taraf se kaise Saja nazil hui?
 Islam aur Homosexuality: Quran ka Faisla
 Loot Alaihe Salam  Ki Qaum: Ek ibarat.
Isalm me HamjisnParsati ki saja aur Anjaam.
Isalm VS Liberlism: Homosexuality and Shariah law.
HomoSexuality and Isalmic law.
Modern Daur ke Gunah aur Deen ka Rukh.
Islam mein Nafarmani ka Anjaam.
Quran mein Homosexuality ka Zikr.
Muslim Ummah ka Rukh: Rehmat ya Naseehat?
Modern Daur aur Qaum-E-Loot or Daur-E-Jahiliyat.
Islamic Law aur Sexual Morality.

Islam aur homosexuality, Homosexuality Quran mein, Gay marriage Islam, Homosexual acts in Islam, LGBTQ+ in Islam, Lgbtq in Islam, Islamic view on LGBT, Homosexuality aur Hadees, Islamic teachings on sexuality, Homosexuality Islamic view, #IslamAurHomosexuality, #IslamicTeachings, 
#LootKiQaum, #IslamVsModernity, #IslamicReminder, #LGBTInIslam, #transgenderinIslam.

Islam me Homosexuality Kyo haram hai?

Islam mein nafarmani, Homosexuality ka Islamic jawab, Quran aur Hadees homosexuality, Gay marriage Islam, Loot ki qaum ka anjaam.

قوم لوط علیہ السلام
‏سب سے زیادہ بےحیا قوم لوط علیہ سلام کی قوم تھی یہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں میں دلچسپی رکھتے تھے.

خاص کر مسافروں میں سے کوئی خوبصورت لڑکا ہوتا تو یہ لوگ اسے اپنا شکار بنا لیتے طلموت میں لکھا ہے
کہ اہل سدوم اپنی روز مرہ کی زندگی میں سخت ظالم دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے.
کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہیں گزر سکتا تھا
کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔
کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا تھا اور یہ لوگ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا
۔ جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ اعلانیہ بد کاریاں کرتے تھے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور بدکاری کے اس گھناونے عمل سے توبہ کرنے کا حکم دیا۔
حضرت لوط نے کہا تم  یہ کیوں کرتے ہو کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت حاصل کرنے کے لیے مرد کی طرف مائل ہوتے ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔ تو پھر حضرت لوط اہل سدوم کو دن رات وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ لیکن اس قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔

بلکہ وہ بدنصیب بہت فخریہ انداز میں یہ کام کرتے تھے انہیں حضرت لوط کا سمجھانا بھی برا لگتا تھا
لہذا انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم ہمیں اسی طرح بھلا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے
تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ حضرت لوط نے نصیحت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔
لہذا ایک دن اہل سدوم نے خود ہی عذاب الہی کا مطالبہ کر دیا۔
اللہ تعالی نے اب تک ان کے اس بدترین عمل فحاشی اور بدکاری کے باوجود ڈھیل دے رکھی تھی۔
لیکن جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے ایک دن کہا
کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔
لہذا ان پر عذاب الہی کا فیصلہ ہوگیا۔
اللہ نے اپنے خاص فرشتوں کو دنیا کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ فرشتے دراصل حضرت میکائیل، اور جبرائل  علیہ السلام تھے.

پھر یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر تشریف لے آئے۔

حضرت لوط نے جب ان خوبصورت نوعمر لڑکوں کو دیکھا تو سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔
انہیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اگر ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں دیکھ لیا۔
تو نہ جانے وہ انکے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ حضرت لوط کی بیوی کا نام وائلہ تھا .

اس نے آپ پر ایمان نہیں لایا تھا.

اور وہ دراصل منافقہ تھی۔ وہ کافروں کے ساتھ تھی لہذا اس نے جاکر اہل سدوم کو یہ خبر دے دی۔
کہ لوط کے گھر دو نوجوان لڑکے مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں.
یہ سن کر بستی والے دوڑتے ہوئے۔ حضرت لوط کے گھر پہنچے.
حضرت لوط نے کہا کہ یہ جو میری قوم کی لڑکیاں ہیں
یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں اللہ سے ڈرو مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔

کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں،؟
حضرت لوط علیہ السلام کی بات سن کر وہ لوگ بولے
تم بخوبی واقف ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی حاجت نہیں
اور جو ہماری اصل چاہت ہے اس سے تم بخوبی واقف ہو۔
قوم لوط کے اس شرم سار جواب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
کہ وہ فعل بد میں کس حد تک مبتلا ہو چکے تھے
جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ان کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی آئی تو حضرت لوط نے گھر کے دروازے بند کر دیے اور ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں چھپا دیا۔

ان بدکار لوگوں نے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا
اور ان میں سے کچھ گھر کے دیوار پر بھی چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے.

حضرت لوط علیہ السلام اپنے مہمانوں کی عزت کے خیال سے بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے فرشتے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی اور پریشانی کا یہ عالم دیکھا۔ تو حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے یوں فرمایا۔

اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں
یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے.
۔ ابھی کچھ رات باقی ہے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو .

اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔
اہل سدوم حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا دروازہ توڑنے پر بضد تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے گھر سے باہر نکل کر اپنے پر کا ایک کونا انہیں مارا۔
جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے
اور بصارت ظاہر ہوگئی.

یہ خاص عذاب ان لوگوں کو پہنچا۔ جو حضرت لوط کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام حقیقت حال جان کر مطمئن ہو گئے
اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کو ہی نکل کھڑے ہوئے۔
لیکن پھر بھی ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی لیکن کچھ دور جا کر وہ واپس اپنے قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ جہنم واصل ہو گئی۔

صبح کا آغاز ہوا تو اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل نے بستی کو اوپر سے اکھاڑ دیا اور پھر اپنے بازو پر رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ آسمان والوں نے بستی۔۔۔
‏کے کتے کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں.
۔ پھر اس بستی کو زمین پر دے مارا جس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔
ہر پتھر پر مرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا۔
جب یہ پتھر ان کو لگتے تو ان کے سر پاش پاش ہوجاتے۔
صبح سویرے شروع ہونے والا
یہ عذاب اشراک تک پوری بستی کو نیست و نابود کر چکا تھا .

قوم لوط کی ان خوبصورت بستیوں کو اللہ نے ایک انتہائی بد بو دار
اور سیاہ جیل میں تبدیل کر دیا۔ جس کے پانی سے رہتی دنیا تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔

سمندر کے اس حصے میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اسے ڈیڈ سی یعنی بحرے مردار کہا جاتا ہے

جو اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔ ماہرین آثار نے دس سالوں کی تحقیق و جستجو کے بعد اس تباہ شدہ شہر کو دریافت کیا تھا۔
تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ اس شہر میں زندگی بالکل ختم ہو چکی ہے۔
شہر کے راستے اور کھنڈرات کو دیکھ کر ارکلوجسٹ نے یہ اندازہ لگایا
کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت لوگ روزمرہ کے معاملات اور کاموں میں مشغول تھے
اور یہاں زندگی اچانک ختم ہو گئی تھی.

اہل سدوم جنہیں پتھر بنا دیا گیا تھا۔ ان کے بت ابھی تک بحیرہ مردار کے پاس موجود ہیں جو لوگوں کے لیے ایک عبرت ہے.

آج یورپی ممالک میں انسانی آزادی کے نام پر اس بدکاری کی اجازت دی جاتی ہے.
اور اس فحش عمل کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے
  روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیطان سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین عمل کیا ہے ابلیس بولا جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے!

اور مجھے شرم آتی ھے یہ کہتے ھوئے کہ
آج ھمارے معاشرے میں یہی سب چل رہا ہے بلکہ اس قبیح کام کو قانون کی سر پرستی حاصل ہے ۔۔۔
اللہ ھماری دنیاوی اور اخروی زندگی کو بہتر بنانے کی عقل و عمل عطاء فرمائے ۔۔۔

Share:

Na Tamam Qayenat me Na Tamam Zindagi ka Maksad Kya hai?

Musalmano ki Zindagi ka Maqsad kya hai?

ناتمام کائنات میں ناتمام زندگی کا مقصد :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🖋️: مسز انصاری

اس حیاتِ ناتمام میں جبکہ تمہارے جسم میں سانسوں کی روانی ہو تو تم یوں جیو کہ جب بھی لوگوں کے سامنے تمہارا نام لیا جائے تو تمہارا نام ان کے کانوں میں رس گھولے ، تمہارا نام سن کر ان کے لب مسکرانے لگیں، جب تمہارا ذکر کسی مجلس میں چھِڑ جائے تو ہر قلب محبت و احترام سے بھرجائے، جس محفل کو تم چھوڑ کر اٹھ جاؤ وہاں تمہارے اخلاص کی خوشبو تادیر پھیلی رہے اور ہر شخص تم سے ملاقات کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے بے چین ہوجائے ۔
اور جب اللہ الہ العالمین تمہارے جسم میں سانسوں کو روک دے ، تو تم اس طرح رخصت ہو کہ جب بھی تمہارا تذکرہ کسی مجلس میں ہو تو کہا جائے کہ فلاں شخص مجھے بے حد معزز تھا وہ میرا مئونس و ہمدم تھا، اپنی زبان سے کبھی مجھ پر لفظوں کے نشتر نہیں چبھوتا تھا ، میری نادانیوں کا تمسخر نہیں اڑاتا تھا، جب جب مجھ پر زندگی تنگ ہوئی اور آزمائشوں نے مجھے جھنجوڑا اس نے میری دلجوئی کی اور مجھے تنہا نہیں چھوڑا، اس نے کبھی مجھے بیچ راستے میں اکیلا نہیں چھوڑا، میرا ہاتھ یکبار تھاما تو پھر کبھی نہیں چھوڑا، مجھے تکلیف میں چھوڑ کر اپنی راہ نہیں بدلی اور تمہاری یاد میں لوگ بے اختیار روپڑیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ تمہاری زندگی ابھی ناتمام ہے، تمہیں شاید اس زندگی میں بہت سارے اذیت رساں ملیں جو تمہیں اذیت دے کر خود تو چل دییے، مگر ان کے چلائے گئے تیر ہنوز تمہارے دل میں پیوست ہیں، تو تم ان جیسے ہرگز نا بننا جن کی یادیں اور باتیں جب تمہیں چھو کر گزریں تو سماعت میں زہر گھول دیں ۔۔۔۔۔۔

انسانیت اْن کے نزدیک کائنات کی دانائی ہے بہت بڑی
جو لوگ معرفتِ الہی سے سر تاپیر شرابور ہوتے ہیں.

Share:

Le Palak bacche ke bare me Kya Hukm hai? Aulad nahi hone ki wazah se yatim Khane se bacche lekar Uski Parwarish kar sakte hai?

Le Palak Bacche ke bare me Sharai Ahkamat kya hai?

Kya Aulad na hone ki Surat me Yatim khane se ya Rishtedar se Baccha God lekar usko Moonh Bola Beta/Beti banana aur Uski Parwarish karna jayez hai?
Kya wah Baccha Hamari Khawateen ka Mehram Ban jayega aur Hamari Jayedad ka bhi warish Hoga? Tafseel se rahnumai Farmaye.
"Mera Jism meri marji" Ke naare se ab tak kya Hasil hua?
Muslim Ladkiyo ko BLT se kaise Mahfuz rakhe?
Dusri shadi ki istaa"at rakhte hue bhi Shadi nahi karne dena.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر -388"
سوال_  لے پالک بچے کے بارے شرعی احکامات کیا ہیں؟ کیا اولاد نا ہونے کی صورت میں کسی رشتہ دار یا یتیم خانے سے بچہ گود لے کر اسکو منہ بولا بیٹا بنانا اور اسکی پرورش کرنا جائز ہے؟ نیز کیا وہ بچہ ہماری خواتین کا محرم بن جائے گا اور  ہماری جائیداد کا بھی وارث ہو گا؟  تفصیل سے رہنمائی کریں؟

Published Date: 12-09-2024

جواب..!
الحمدللہ۔۔۔!

 *لے پالک کہتے ہیں کسی دوسرے کے بچے کو اپنا منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنانے کو، جیسے کہ اکثر لوگ اولاد نا ہونے کی صورت میں یا احسان کرتے ہوئے اپنے کسی رشتے دار یا کسی یتیم بچے کو اپنے گھر میں رکھتے ہیں،اسکی پرورش کرتے ہیں،حتی کہ اپنی حقیقی اولاد کی طرح اسکو بھی اپنا نام دیتے ہیں، اسکی پڑھائی لکھائی اور شناختی کارڈ وغیرہ تمام جگہوں پر اسکو اپنی ولدیت/شناخت دیتے ہیں، اور وہ بچہ اپنے حقیقی باپ کی بجائے ان پرورش کرنے والوں کی طرف منسوب ہو جاتا ہے، اور اس گھر کی خواتین سے گھل مل جاتا ہے اور بظاہر انکا محرم بن جاتا ہے.

بچوں کومنہ بولا بیٹا بنانے کی شرعی حیثیت۔۔؟

بچوں کو منہ بولا بیٹا بنانے کی دو قسمیں ہیں :
ممنوع اور غیر ممنوع!

*پہلی قسم : ممنوع :-
وہ یہ کہ کسی دوسرے کے بچے کو اپنا بیٹا بیٹے کے احکام دیے جائيں اور ایسا کرنا جائز نہیں،

جیسا کہ قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں..!
ما جَعَلَ اللَّهُ لِرَ‌جُلٍ مِن قَلبَينِ فى جَوفِهِ ۚ وَما جَعَلَ أَزو‌ٰجَكُمُ الّـٰـٔى تُظـٰهِر‌ونَ مِنهُنَّ أُمَّهـٰتِكُم ۚ وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذ‌ٰلِكُم قَولُكُم بِأَفو‌ٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَو‌ٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ٥﴾....

اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا ہے، یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، اللہ تعالٰی حق بات فرماتا ہے اور وه سیدھی راه سجھاتا ہے ،لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ ۔ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ، البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
(سورہ الاحزاب آئیت ـ4٫5)

یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہونگے۔
((کیا ظہار سے بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی؟ پھر اس کا کفارہ.؟ دیکھیے سلسلہ نمبر 257))

اس لئے اس کی اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کر کے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔

اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔

حدیث ملاحظہ فرمائیں!

صحیح بخاری
کتاب: تفاسیر کا بیان
باب: باب: آیت کی تفسیر یعنی ”ان (آزاد شدہ غلاموں کو) ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کیا کرو“۔
حدیث نمبر: 4782

حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَالِمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:‏‏‏‏ أَنَّ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوهُ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ:‏‏‏‏ ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5.

ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  کے آزاد کئے ہوئے غلام زید بن حارثہ کو ہم ہمیشہ زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی (ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله‏)
کہ انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ کے نزدیک سچی اور ٹھیک بات ہے۔

اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوحذیفہ رض کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا۔ نبیﷺ نے حضرت ابوحذیفہ رض کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو (کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی) اور تمہارے شوہر کو جو اس منہ بولے بیٹے کے گھر رہنے سے پریشانی ہے وہ بھی ختم ہو جائیگی ۔۔۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

(صحیح مسلم ، کتاب الرضاع باب رضاعۃ الکبیر
(ابوداود ، کتاب النکاح ، باب فیمن حرم بہـ2061)

(رضاعت کبیر کے حوالے سے مکمل تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر - 148)

دوسری قسم : مباح اور جائز :
وہ یہ ہے کہ بچے پر احسان کرتے ہوئے اس کی کفالت کی جائے اور دینی اور اصلاحی تربیت کی جائے اوراس کی صحیح اور بہتر راہنمائی کرتے ہوئے اسے دین و دنیا میں نفع دینے والی اشیاء کی تعلیم دی جائے ۔

*یتیم کی کفالت اور منہ بولا بیٹا بنانے میں بہت فرق ہے جسے ہم ذيل کے کچھ نقاط میں بیان کرتے ہیں :*

*1 - منہ بولا بیٹا بنانا یہ ہے کہ :*
کوئي شخص کسی یتیم بچے کو حاصل کرکے اسے اپنے صلبی بیٹے جیسا بنا کراسے اپنی طرف منسوب کر لے یعنی اسے اس کی ولدیت کے ساتھ پکارا جانے لگے ، اور اس مرد کی محرمات عورتیں اس یتیم بچے کے لیے حلال نہ ہوں اور منہ بولے بیٹے کے والدکے دوسرے بیٹے اور بیٹیاں اس کے بہن بھائي اور اس شخص کی بہنیں یتیم کی پھوپھیاں بن جائیں اور اسی طرح باقی رشتہ دار بھی ۔

دور جاھلیت میں ایسا کیا جاتا تھا ، حتی کہ یہ نام بعض صحابہ کرام کے ناموں سے بھی چمٹے رہے مثلا مقدار بن اسود حالانکہ ان کے والد کانام عمرو تھا لیکن انہيں منہ بولا بیٹا بنانے کی بنا پر مقداد بن الاسود کہا جاتا تھا ۔

اور ابتدائے اسلام میں بھی اسی طرح معاملہ چلتا رہا حتی کہ اللہ تعالی نے اسے ایک مشہور قصہ میں حرام قرار دیا کہ زيدبن حارثہ رضي اللہ تعالی عنہ کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پکارا جاتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے حرام کردیا اور حکم دیا کہ انہيں ان کے آباء کے نام سے پکارا جائے ۔

*2 - اب یقینا اللہ تعالی نے منہ بولابیٹا بنانا حرام کردیا ہے اس لیے کہ اس میں نسب کی ضياع ہے حالانکہ ہمیں تو حکم ہے کہ ہم نسب ناموں کی حفاظت کریں ۔

صحیح بخاری
کتاب: فرائض کی تعلیم کا بیان
باب: اس شخص کا بیان جو غیر کو اپنا باپ بنائے
حدیث نمبر: 6766
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ. 
حدیث نمبر: 6767
فَذَكَرْتُهُ لِأَبِي بَكْرَةَ فَقَالَ:‏‏‏‏ وَأَنَا سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ترجمہ: سعد ؓ نے بیان کیا کہ  میں نے نبی کریم  ﷺ  سے سنا نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔  
پھر میں نے اس کا تذکرہ ابوبکر ؓ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ  اس حدیث کو نبی کریم  ﷺ  سے میرے دونوں کانوں نے بھی سنا ہے اور میرے دل نے اس کو محفوظ رکھا ہے۔

دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیں!

صحیح بخاری
کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
حدیث نمبر: 3508
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحُسَيْنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيلِيّ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ وَمَنِ ادَّعَى قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
ترجمہ:

ابوذر ؓ نے بیان کیا  کہ  انہوں نے نبی کریم  ﷺ  سے سنا، آپ  ﷺ  فرما رہے تھے   جس شخص نے بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ بنایا تو اس نے کفر کیا اور جس شخص نے بھی اپنا نسب کسی ایسی قوم سے ملایا جس سے اس کا کوئی  (نسبی)  تعلق نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے،

*حدیث میں کفر کا معنی یہ ہے کہ اس نے کفریہ کام کیا ہے نہ کہ وہ دین سے ہی خارج ہوگيا ۔*
اس لیے کہ اس میں اللہ تعالی کے حرام کردہ چيز کو حلال کرنا ہے ۔
اور اس لیے بھی کہ مثلا یتیم جسے منہ بولا بیٹا بنایا جائے اس پر منہ بولا بیٹا بنانے والے نے اپنی بیٹیاں حرام کردی ہیں حالانکہ وہ اس کے لیے مباح اور جائز تھیں جسے اللہ تعالی نے حرام نہيں ،
اور اسی طرح جس نے منہ بولا بیٹا بنایا ہے اس نے اپنے بعد اس کے لیے وراثت حلال کرلی ، اس میں بھی اللہ تعالی کے حرام کردہ کو مباح کرنا ہے ، اس لیے کہ وراثت تو صلبی اولاد کا حق ہے اور اس نے غیرصلبی کو بھی اس میں شریک کرلیا ہے ۔

اور یہ بھی ہے کہ اس سے منہ بولا بیٹا بنانے والے کی اولاد اور منہ بولے بیٹے کے مابین حسد و بغض پیدا ہوگا ۔
اس لیے کہ ان کے بعض حقوق کی حق تلفی ہوگی اور وہ یتیم اور منہ بولا بیٹا بغیر کسی حق کے کچھ حقوق حاصل کرلے گا ، حالانکہ صلبی بیٹوں کویہ علم ہے کہ ان کے ساتھ وہ اس کا مستحق نہيں تھا ۔

لیکن یتیم کی کفالت یہ ہے کہ کوئي شخص کسی یتیم بچے کواپنےگھر یاکسی دوسری جگہ میں ہی اپنی طرف منسوب کیے بغیر ہی اس کی کفالت کرے اوراس کی پرورش اورنان نفقہ کی ذمہ داری برداشت کرے ، اوراس میں نہ تو وہ کسی حرام کردہ کو حلال اور نہ کی حلال کو حرام کرے جیسا کہ منہ بولا بیٹا بنانے میں ہوتا ہے ۔
بلکہ کفالت کرنے والے کواللہ تعالی کے بعد کریم اوراحسان انعام کرنے والے کی صفت سے متصف ہوگا ، اس لیے یتیم کی کفالت کرنے والے کو منہ بولابیٹا بنانے والے پرقیاس نہيں کیا جائے گا اس لیے کہ اس میں فرق پایا جاتا ہے ، اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم بچے کی کفالت کرنے پر ابھارا ہے ۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
 اور آپ سے یتیموں کےبارے میں بھی سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجۓ کہ ان کی خیرخواہی کرنا بہتر ہے اور اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائي ہیں اللہ تعالی بدنیت اورنیک نیت ہر ایک کو خوب جانتا ہے ، اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو تمہيں مشقت میں ڈال دیتا یقینا اللہ تعالی غلبہ والا اورحکمت والا ہے
(سورہ البقرۃ- 220 )

اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ مرافقت کا سبب بتایا ہے کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ رہے گا ۔
سھل بن سعد رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہونگے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کر کے اشارہ کیا )
(صحیح بخاری حديث نمبرـ5304 )

لیکن یہاں پر ایک تنبیہ کرنا ضروری ہے کہ جب بھی یہ یتیم بچے بالغ ہوجائيں تو انہيں کفالت کرنے والے شخص کی عورتوں اور بیٹیوں سے علیحدہ کرنا واجب ہوجائیگا ، یہ نہ ہو کہ وہ ایک جانب تو اصلاح کرے اور دوسری طرف غلطی اور فساد کا مرتکب ہوتا رہے ۔

اور اسی طرح یہ بھی علم میں ہونا چاہیے کہ بعض اوقات کفالت میں یتیم بچی بھی ہو سکتی ہے اور ہوسکتا ہے وہ خوبصورت بھی ہو اور بلوغت سے قبل اسے اشتہاء بھی ہو اس لیے کفالت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کا خیال رکھے کہ کہيں وہ یتیموں کے ساتھ کہيں حرام کام کا ارتکاب نہ کرنے لگيں ، بعض اوقات یہ ہوسکتا ہے اورپھر یہ فساد کا ایسا سبب ہوگا جس کی اصلاح کرنا ممکن نہيں ہوگی ۔
پھر ہم آخر میں اپنے بھائيوں کو یتیموں کی کفالت کرنے پر ابھارتے اوراس کا شوق دلاتے ہیں کہ اس میں بہت زيادہ اجروثواب ہے اور یہ ایک اخلاقی فريضہ ہے جوآج کل بہت ہی نادر لوگوں میں ملتا ہے صرف وہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے خیر اور بھلائي کی محبت اور یتیموں اور مسکینوں کی اصلاح اور ان پر مہربانی و نرمی کا برتاؤ کرنا ھبہ کیا ہے،

(مآخذ الاسلام سوال وجواب/اردو فتویٰ )
ـــــــ&ـــــــــــــــــ

*اس تفصیل کے بعد ہم سعودی فتاویٰ ویبسائٹ islamqa کا فتویٰ یہاں درج کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں!*

سوال - ایک شخص کی اولاد نہیں اور اس نے لاوارث بچوں کے ادارے سے ایک بچہ حاصل کرکے اس کی پرورش کی اوراسے تعلیم دلائي اوراس کے ساتھ حسن سلوک کیا ، اس کوشش اوراپنی جانب سے مہربانی کرتے ہوئے اس نے سرکاری اوراق میں بچہ اپنے نام سے اندراج کروایا ، اب اس کا حکم کیا ہوگا ؟

جواب کا متن!
الحمد للہ 

شرعا جائز نہيں کہ کسی لاوارث بچے کو لے پالک بنانے والا اپنے نسب میں شامل کرے اور اس بچے کو اس کے بیٹے اور اسے اس کے والد کا نام دیا جائے اور اس کے قبیلے کی طرف منسوب کیا جائے ، جیسا کہ سوال میں وارد ہے ، اس لیے کہ اس میں دروغ بیانی اور دھوکہ اور نسب ناموں کا اختلاط پایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عزتوں کو بھی خطرہ ہے ۔
اور اس میں وراثت کی تقسیم میں بھی تغییر پایا جاتا ہے کہ بعض مستحقین کو محروم اور غیر مستحق کو مستحق قرار دیا جاتا ہے اور اسی طرح حرام کو حلال اور حلال چيز کو حرام کرنا پایا جاتا ہے ، مثلا نکاح اور خلوت وغیرہ اور اسی طرح دوسری حرمتوں کو توڑا جاتا اور حدود اللہ سے تجاوز کیا جاتا ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے بچے کی والدکے علاوہ کسی اورکی طرف نسبت کرنا حرام قراردیتے ہوئے فرمایا :
{ اورتمہارے لے پالک لڑکوں کوتمہارے حقیقی بیٹے نہيں بنایا ہے ، یہ توتمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ، اللہ تعالی حق بات فرماتا ہے ، اوروہ سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔
منہ بولے بیٹوں کوان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک مکمل انصاف تویہی ہے ، وہ تمہارے دینی بھائي اور دوست ہیں تم سے بھول چوک میں جوکچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئي گناہ نہيں ، البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے } الاحزاب ( 4-5 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ علم رکھتے ہوئے کسی اورکی طرف نسبت کی تو اس پر جنت حرام ہے ) اسے بخاری اورمسلم اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔
اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ کسی اورکی نسبت کا دعوی کیا یا اپنے اولیاء کے علاوہ کسی اورکی طرف منسوب ہوا اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالی کی لعنت ہے ) ۔
لھذا فتوی لینے والے کا مذکورہ نام کے بارہ میں اجتھاد غلط ہے اور اس پر جمے رہنا جائز نہيں بلکہ اسے اس کی حرمت میں وارد شدہ نصوص کی بنا پر بدلنا اور صحیح کرنا ضروری ہے ، ان نصوص اور دلائل کو اوپر بیان کیا جاچکا ہے ۔
لیکن لاوارث بچے پر مہربانی اور اس کی حسن تربیت اور اس پراحسان کرنا ایک نیکی اور اچھا کام ہے ، اور شریعت اسلامیہ نے ایسا کرنے کی ترغیب بھی دلائي ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔
واللہ اعلم  .

(ماخذ: اللجنۃ الدائمۃ : دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 12 - 13 )

*یعنی اگر بھول چوک میں کسی نے لے پالک بچے کو اپنا نام دے دیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسکے اصل والد کا نام اسکی ولدیت میں لکھوائے اور اگر کسی کو اصل والد کا نام ،نسب نہیں پتہ تو ایسے بچے کی ولدیت میں نام عبداللہ لکھوا دیا کریں ،کیونکہ عبداللہ کا معنی اللہ کا بندہ۔۔ اور جتنے لوگ سب اللہ کے بندے ۔۔اس میں حرج نہیں ہو گا ان شاءاللہ ،*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
________________&______________

سوال_خاوند اگر اپنی بیوی کو ماں یا بہن کہہ دے تو کیا اس طرح کہنے سے بیوی اس پر حرام ہوجائے گی؟ نیز اس کا کفارہ کیا ہو گا؟ مکمل تفصیل بیان کریں..!
(جواب کیلئے دیکھیں نمبر -257)

سوال_رضاعت کب ثابت ہوتی ہے ؟ کیا بڑی عمر کا شخص کسی کا رضاعی بیٹا بن سکتا ہے؟ یا شوہر بیوی کا دودھ پی لے تو کیا وہ اسکا بیٹا بن جائے گا؟ اور انکا نکاح ٹوٹ جائے گا؟ تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر ـ148، 147

ـــــــــــــــ&ــــــــــــــــــــــــ

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Dusri Shadi ke Masail. Dusri, Tisri aur Chauthi Shadi karne ki Haisiyat rakhte hue bhi Shadi nahi karna.

Dusri Shadi ke Masail aur Muashera.

Kya Dusri shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi agar Biwi razi na ho to Shauhar Dusri Shadi kar sakta hai?

Nikah se jude masayel janne ke liye click kare. 

Aaj jyada Umar hone ke bawjood bhi Padhi likhi ladkiyo ki Shadi kyo nahi ho rahi hai? 

Kya Hame Dusri Shadi ko Aam nahi kar dena chahiye? 

Mard ke Liye 4 Shadiya kyu jaruri hai? 

Dusri Shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi Biwi Shadi karne nahi deti. 

 


بِسْـــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــــاتُه

➖ دوسری شادی کے مسائل ➖

شادی انبیائے کرام کی سنت ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ(الرعد: 38)

ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ،کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے ،ہر مقررہ وعدہ کی ایک لکھت ہے ۔
جو مسلمان نبی کی اس سنت سے اعراض کرے وہ مسلمان نہیں ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انِّكاحُ من سنَّتي ، فمن لم يعمَل بسنَّتي فليسَ منِّي ، وتزوَّجوا ، فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأممَ ، ومن كانَ ذا طَولٍ فلينكَح ، ومن لم يجِد فعلَيهِ بالصِّيامِ ، فإنَّ الصَّومَ لَهُ وجاءٌ(صحيح ابن ماجه:1508)

ترجمہ: نکاح میرا طریقہ ہے اور جو شخص میرے طریقے پر عمل نہیں کرتا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ شادیاں کیا کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر دوسری امتوں پر فخر کروں گا، جو (مالی طور پر) استطاعت رکھتا ہو وہ (ضرور) نکاح کرے اور جسے (رشتہ) نہ ملے، وہ روزے رکھا کرے کیونکہ روزہ خواہش کو کچل دیتا ہے۔

جس نے طاقت رکھتے ہوئے شادی کرلی اس نے سنت پر عمل کیا ،جو طاقت رکھنے کے باوجود شادی نہیں کرتا وہ تارک سنت ہے ،اس میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو شادی کی عمر کو پہنچ گئے اور گناہ میں واقع ہونے کا خطرہ ہے مگر بعض دنیاوی مقاصد کی برآوری کے لئے شادی میں ٹال مٹول کرتے ہیں ۔ مخلوط تعلیم حاصل کرنے والے یا اختلاط کی جگہوں پہ رہنے سہنے والے اس قسم کے بہت سے لوگ ناجائز طریقے سے شہوت رانیاں کرتے ہیں۔ اس مرحلے میں سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وقت پہ اپنے ماتحت کی شادی کرا دے تاکہ شرمگاہ کی حفاظت ہوسکے جوکہ نکاح کے ایک اہم مقاصد میں سے ہے ۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
يا معشرَ الشبابِ ! من استطاع منكم الباءةَ فليتزوجْ . فإنه أغضُّ للبصرِ ، وأحصنُ للفرجِ . ومن لم يستطعْ فعليه بالصومِ . فإنه له وجاءٌ(صحيح مسلم:1400)

ترجمہ : اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والی اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا تو وہ روزے کو لازم کر لے ،یہ خواہش کو قابو میں کرنے کا ذریعہ ہے۔

اگر مرد نے ایک خاتون سے شادی کرلی تو اس نے سنت پر عمل کرلیا ، رہا مسئلہ دوسری شادی کا تو یہ بھی مردوں کے لئے مباح ہے ۔ قرآن میں اللہ نے پہلے دو شادی کا ہی ذکر کیا ہے پھر تین، پھر چار، ان میں انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کو اختیار کرنے کا حکم ملا۔

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً(النساء:3)

ترجمہ: اور عورتوں میں سے جوبھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین ، چار چار سے ،لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہوتو ایک ہی کافی ہے ۔

تعدد ازدواج کی حکمت :
۔ • ─┅━━━━━━━┅┄ •
پہلے دھیان میں یہ رہے کہ شادی کی حکمت مسلمانوں کی تعداد بڑھانا جس پر نبی ﷺ بروز قیامت فخر کریں گے ، اسی طرح شرمگاہ کی حفاظت بھی شادی کے مقصد میں سے ہے ۔
٭ایک سے زائد شادی حکم الہی ہے اور اللہ کا کوئی حکم کسی مصلحت کے بغیر نہیں خواہ ہماری محدود عقل اس کا ادراک کرے یا نہ کرے۔

٭ قدرتی طور پر دنیا میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اور باہر مردوں کے کام کاج ،مسائل ،جھگڑا لڑائی ،قتل و فساد کے سبب مرد ہی کا زیادہ نقصان ہوتا ہے، اگر ہر آدمی ایک شادی پر اکتفا کرے تو بقیہ عورتوں کی شادی کا مسئلہ پیچیدہ ہوجائے گا۔ آج جہیز کی لعنت کا ایک سبب لڑکیوں کی کثرت ہے ، اگر لڑکیاں کم ہوتیں تو لڑکے پیسہ دے دے کر شادی کرتے۔ لڑکیوں کی کثرت کوئی مسئلہ نہیں ہے بشرطیکہ لوگ متعدد شادیاں کرے ، آج لوگوں نے شادی چھوڑ کر زنا کا راستہ تلاش کیا تو اللہ نے ان میں ایڈز کی بیماری پھیلا دی۔
٭ خواتین پہ بعض مخصوص مراحل آتے ہیں اس وقت مرد اپنی بیوی سے دور رہتا ہے اس صورت میں کثرت جماع والا شخص یا تو دوسری شادی کرے گا یا زنا کا راستہ اختیار کرے گا یا پھر بیوی ہی سے ناجائز طریقے سے فائد ہ اٹھائے گا ، ان تمام صورتوں میں دوسری شادی جائزو اولی ہے ۔

٭ بعض مردوں میں قدرتی طور پر شہوت زیادہ ہوتی ہے ایسے حضرات کے لئے بھی جائز راستہ دوسری شادی ہی ہے ورنہ غلط راستہ اختیار کرے گا۔

٭بعض لوگوں کو ایک بیوی سے اولاد نہیں ہوتی رہتی ہے ، مایوسی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے مگر دوسری شادی سے بہت سارے لوگ صاحب اولاد ہوجاتے ہیں۔
٭ بیوہ یا مطلقہ یا عمر رسیدہ عورت (کسی بیماری کے سبب یا عیب کے سبب یا رشتہ طے کرتے کرتے کافی وقت گزرگیا اور آج ایسا بہت دیکھنے کو ملتا ہے خصوصا جو لڑکی کالی یا معذور یا غریب ہو)سے شادی کرنا لوگ معیوب سمجھتے ہیں ، اگر ان سے کوئی شادی کرلے تو ایسے مرد کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ ایسی عورتوں سے شادی کرنا جہاں ان کے ساتھ احسان وسلوک ہوتا ہے وہیں شادی کے مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں۔
٭ تعدد ازدواج سے پر فتن دور میں شرمگاہوں کی حفاظت پر قوی مدد ملتی ہے ۔
فضیلةالشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لازم ہے
─┅━━━━━━━━━━━━━━━┅
ایک سے زيادہ شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی شرط نہيں ، اور نہ ہی خاوند پر فرض ہے کہ وہ جب دوسری شادی کرنا چاہے تو اپنی پہلی بیوی کو راضی کرے ، لیکن یہ مکارم اخلاق اور ایک اخلاقی فریضہ اور اس سے حسن معاشرت ہے کہ وہ اس کا بھی خیال رکھے اور اس کی تکلیف کوکم کرنے کی کوشش کرے جوکہ اس جیسے معاملے میں عورت کی طبیعت میں شامل ہوتی ہے ۔
اور اسے اچھی اور بہتر ملاقات اور ملنے میں مسکراتے چہرے اور اچھی بات کہہ کر اور اگر کچھ مال میسر ہو اور اس کی ضرورت تو وہ بھی دے کر راضی کیا جائے ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ
( 3 / 204 ) ۔
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" خاوند پر فرض نہيں كہ اگر وہ دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے تو پہلى بيوى كو راضى كرے، ليكن يہ مكارم اخلاق اور حسن معاشرت ميں شامل ہے كہ وہ پہلى بيوى كو راضى كرے، اور اس كے احساسات كو سمجھ كر اس تكليف كو كم كرنے كى كوشش كرے، كيونكہ عورتوں كى طبيعت ميں شامل ہے كہ وہ اس كو راضى و خوشى تسليم نہيں كرتيں، خاوند پہلى بيوى سے خوش رہے اور بہتر طريقہ سے ملے اور اچھى بات چيت كے ذريعہ اس كا دل بہلائے اور اسے راضى كرے، اور اسى طرح اگر اسے مال دينے كى ضرورت ہو اور اس كے پاس مال ہو تو بيوى كو مال دے كر اسے راضى كرے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 402 ).

مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہے ۔ جبکہ پہلی بیوی دیندار ، فاضلہ اور
حقوق نبھانے والی وفا شعار ہے ، لیکن دوسری شادی کی بات پر طلاق مانگتی ہے
  ─┅━━━━━━━━━━━━━━

عورت كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ اس كا اللہ سبحانہ و تعالى كے احكام ميں سے كسى حكم كو ناپسند كرنا بعض اوقات كفر بھى ہو سكتا ہے، يا پھر وہ اسے كفر كى حد تك لے جا سكتا ہے جس كى بنا پر دين اسلام سے ہى خارج ہو جائے.
شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

جو شخص خود بھى چار شادياں كرنا ناپسند كرے اور دوسروں كو بھى اسے ناپسند كرنے كى ترغيب دلائے ايسے شخص كا حكم كيا ہو گا ؟

شيخ كا جواب تھا:
" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كے مشروع كردہ كو ناپسند كرے اور لوگوں كو اس سے نفرت دلائے، ايسا كرنا دين اسلام سے ارتداد كہلاتا ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يہ اس ليے كہ انہوں نے اللہ تعالى كے نازل كردہ كو ناپسند كيا تو اللہ نے ان كے اعمال ضائع كر دے محمد ( 9 ).
چنانچہ معاملہ بڑ خطرناك ہے، اور اس كا سبب يہ ہے كہ ايسے لوگ كفار كى باتوں سے متاثر ہوتے ہيں، حالانكہ كفار كا تو كام ہى دين اسلام سے نفرت دلانا ہوتا ہے، اور وہ ايسے شبھات پيدا كرنے كى كوشش كرتے ہيں جو مسلمان كے ليے نقصان دہ ہوں اور بے وقوف قسم كے ايسے مسلمانوں ميں رواج پائيں جن پر دين اسلام كے احكام مخفى ہيں.
اور ان دينى احكام و قوانين ميں چار شادياں كرنا بھى شامل ہے، كيونكہ اس ميں مرد سے پہلے عورت كے ليے مصلحت پائى جاتى ہے "
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 251 ).

ليكن يہ لازم نہيں كہ جب خاوند دوسرى شادى كرنے لگے تو وہ غيرت كھاتے ہوئے يا پھر ناراض ہو كر وہ اس شرعى قانون كو ہى ناپسند كرنے لگے؛ بلكہ كچھ عورتيں تو ايسى بھى ہيں جنہيں يہ معلوم ہے كہ يہ چيز اللہ كى شريعت ميں سے ہے اور اللہ نے جو شريعت نازل كى ہے اس پر ايمان بھى ركھتى ہے اور اس كے دين كو بھى پسند كرتى ہے.
ليكن پھر وہ نفس كى كمزورى كى اور اللہ كى حلال كردہ كو حرام كيے يا پھر اس كى شريعت كو ناپسند كيے بغير خاوند كى ايك سے زائد شادياں كرنے كو ناپسند كرتى ہے.
خاوند كى جو يہ نيت ہے كہ وہ كسى بيوہ يا مطلقہ يا كسى ايسى عورت سے شادى كر لے جس كى شادى كى عمر جاتى رہى ہے اس پر اس كا مشكور ہونا چاہيے، يہ نيت قابل تعريف ہے، اور لوگوں كى جانب سے اسے ايسا كرنے كى ترغيب دلائى جانى چاہيے تھى، اور اسى طرح بيوى بھى اسے ابھارتى كہ تم ايسا ضرور كرو، كيونكہ يہ تو بہت ہى اچھے اخلاق ميں شامل ہوتا ہے.

بيوى كو چاہيے كہ وہ جو كچھ اپنے ليے پسند كرتى ہے وہى دوسرے كے ليے بھى پسند كرے، وہ اپنے ليے تو پسند كرتى ہے كہ اس كا خاوند بھى ہو اور اولاد بھى، تو اسى طرح اسے يہ اپنے علاوہ كسى دوسرى عورت كے ليے پسند كرنا چاہيے.

بلكہ اگر اس كى بيٹى اس حالت ميں ہوتى جس ميں دوسرى خواتين ہيں تو وہ تمنا كرتى كہ كاش اس كا بھى كوئى خاوند ہو جو اس كى سترپوشى كرے چاہے وہ شادى شدہ ہى ہو، اور چاہے ايك سے زائد شاديوں والا ہى ہو، اس ليے اسے علم ہونا چاہيے كہ عورتوں اور ان كى ماؤں كا احساس اور جذبہ يہى ہوتا ہے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى حرج كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ حديث نمبر ( 1685 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ہم عورت كو نصيحت كرتے ہيں بلكہ ہر اس عورت كو جس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے كہ پہلى بيوى كو اللہ كے حكم پر راضى ہونا چاہيے، اور اللہ تعالى سے دعا كرنى چاہيے كہ اس سلسلہ ميں اس كے دل ميں جو غيرت پائى جاتى ہے اسے ختم كر دے، اور اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اپنے خاوند كے پاس ہى رہنا چاہيے.

کیا خاوند کے لیے چھپ کر شادی کرنا جائز ہوگا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
خاوند پر واجب نہيں كہ وہ اپنى بيويوں كو بتائے كہ وہ اور شادى كريگا، ليكن اگر شادى كر لے تو پھر اسے بتانا واجب ہے؛ كيونكہ بيويوں كو شادى كے بارہ ميں نہ بتانے سے وہ سوء ظن اختيار كر كے سمجھيں گى كہ اس كے كسى سے غلط تعلقات ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ بيويوں كو تقسيم ميں عدل كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے.
اور يہ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب انہيں علم ہو كہ ان كے علاوہ اور بھى بيوى ہے، اور نئى بيوى كو بھى پہلى بيويوں جيسا ہى حق حاصل ہے.
اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ نكاح كے مقاصد اور حكمت اور احكام كو بھول جائے، اور اپنى شہوت كے پيچھے پڑ كر يہاں اور وہاں شہوت پورى كرتا پھرے، اور پھر مصيبت تو يہ ہے كہ وہ اپنے اس عمل كو اسلام كى طرف منسوب كرتا پھرے!!

پہلى بيوى کا واپس آنے كیليے دوسرى بيوى كوطلاق دينےكى شرط
─┅━━━━━━━━━━━━━━┅┄
پہلى بيوى كے ليے اپنى سوكن كى طلاق طلب كرنا حلال نہيں، سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كى بالنص ممانعت موجود ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ اس كا برتن الٹ دے اسے تو وہ كچھ ملے گا جو اس كے مقدر ميں ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4857 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:
" اور كوئى عورت بھى اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ مت كرے تا كہ وہ اس كے برتن ميں جو كچھ ہے وہ الٹ لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2574 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ ( لا يحل ) اس كى حرمت واضح اور ظاہر ہے " انتہى ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 220 ).
اور ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ اپنى سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ وہ اكيلى ہى خاوند كى زوجيت ميں ہو، بلكہ اس كے ليے تو وہ كچھ ہے جو تقدير سبقت لے جا چكى ہے نہ تو سوكن كى طلاق كى وجہ سے كوئى نقصان ہو سكتا ہے جو اس كے مقدر ميں تھا اور نہ ہى اس ميں كوئى زيادتى ہو سكتى ہے " انتہى
ديكھيں: التمھيد ( 18 / 165 ).

اور شيخ عبد اللہ البسام رحمہ اللہ اس حديث كے فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اس حديث ميں سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرنے كى حرمت بيان ہوئى ہے، اور اسى طرح سوكن كے بارہ ميں كينہ و بغض ركھنا اور خاوند كو اس پر ابھارنا، يا سوكن اور خاوند كے مابين فتنہ و خرابى پيدا كرنا تا كہ ان ميں شر اور خرابى پيدا ہو اور وہ اسے چھوڑ دے تو يہ حرام ہے.

اگر دوسرى شادى كا نتيجہ پہلے گھر كى تباہى ہو تو كيا دوسرى شادى كر لے ؟
─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄
دين اسلام نے كوئى بھى ايسا عمل مشروع نہيں كيا جس سے فرد يا معاشرے كو ضرر اور نقصان ہوتا ہو، بلكہ دين اسلام نے جتنے بھى امور مشروع كيے ہيں ان ميں زندگى و تعمير اور اجتماعيت و طہارت و پاكيزگى اور عفت و عصمت اور بلندى كا قيمتى معنى پايا جاتا ہے، خليل اور كوتاہى تو ان مسلمانوں ميں ہوتى ہے جو اللہ كى شريعت كى صحيح سمجھ نہيں ركھتے، يا پھر سمجھتے تو ہيں ليكن وہ اس پر عمل نہيں كرتے، اور اپنى خواہشات كے پيچھے چل نكلنے كى بنا پر بدعملى كا شكار ہوتے ہيں.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے ہم اس كى مثال يہ دے سكتے ہيں كہ ايك سے زائد شادياں كرنا بعض اوقات اس كے پہلے گھر اور بيوى كى تباہى كا سبب بن سكتا ہے، اس كا سبب پہلى بيوى پر ظلم كرنا اور اپنى خواہش كے پيچھےچلنا اور پہلى بيوى كو اس كے حقوق ادا نہ كرنا ہوتا ہے.
يا پھر اس كا سبب يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنى پہلى بيوى كو اپنى دوسرى شادى كرنے كى خبر دينے ميں صحيح طريقہ اور تصرف اختيار نہيں كرتا،

ان عورتوں پر تعجب ہے كہ ايك عورت اپنا گھر اجاڑنے پر راضى ہو جاتى ہیں جسے اس نے اپنے پسينہ اور برسہا برس كى جدوجہد كر كے بنايا تھا، اور اپنى اولاد كى تباہى بھى اپنے سامنے ديكھ رہى ہوتى ہے، اور اپنے ميكے ميں ذليل ہونے پر راضى ہونا برداشت كر ليتى ہے، اور وہ اپنى بھابھيوں كى ملازمہ بن كر بھائيوں كے گھر ميں رہنے پر تو راضى ہو جاتى ہے، حالانكہ وہ خود اپنے گھر ميں ملكہ تھى ليكن صرف اس ليے وہ اس گھر كو چھوڑنا چاہتى ہے كہ اس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے!

عقل و دانش كى مالك عورت كے ليے ممكن نہيں كہ وہ خاوند كى دوسرى شادى كى نيت معلوم ہوجانے كے بعد كوئى ايسا عمل كرے جو عقل كے منافى ہو، يا پھر خاوند ايسا اقدام كرے تو بيوى عقل كے منافى كوئى عمل سرانجام دے، بلكہ اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اللہ سے اجر وثواب كى نيت كرنى چاہے كہ اللہ اسے اس كے صبر كا اجر عطا كريگا، اور بيوى كو چاہيے كہ وہ خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كے ساتھ پيش آئے اور خاوند كے پورے حقوق ادا كرتى رہے، اور اپنا گھر تباہ كرنے پر راضى مت ہو، اور نہ ہى اپنا خاندان خاوند كى دوسرى شادى كرنے كى وجہ سے تباہ كرنے پر تل جائے، كيونكہ دوسرى شادى تو اس كے ليے اللہ نے مباح كى ہے، اور اس كى بہت عظيم حكمتيں پائى جاتى ہيں، اگر خاوند اپنى بيوى كے حقوق پورے نہيں كرتا اور ان ميں عدل نہيں كرتا تو اللہ عزوجل كے ہاں وہ مجرم ہے.

دوسری شادی کب واجب یا حرام ہو جاتی ہے ؟
• ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄

بعض اوقات يہ واجب بھى ہو جاتى ہے اور واجب اس وقت ہو گى جب اسے خدشہ ہو كہ وہ كسى حرام ميں پڑ جائيگا، اور وہ دونوں بيويوں كے مابين عدل كرنے پر قادر ہو تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا واجب ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں كئى سالوں سے شادى شدہ ہوں اور ميرے كئى ايك بچے بھى ہيں، اور خاندانى زندگى بھى اچھى گزر رہى ہے، ليكن ميں ايك اور بيوى كى ضرورت محسوس كرتا ہوں؛ كيونكہ سيدھا رہنا چاہتا ہوں اور ميرے ليے ايك بيوى كافى نہيں، كيونكہ ايك مرد ہونے كے ناطے مجھ ميں عورت سے زيادہ قوت پائى جاتى ہے، اور دوسرى چيز يہ كہ ميں كچھ مخصوص والى بيوى چاہتا ہوں جو ميرى پہلى بيوى ميں نہيں ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ ميں حرام ميں نہيں پڑنا چاہتا،
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے تو آپ كے ليے حسب قدرت و استطاعت دوسرى اور تيسرى اور چوتھى شادى كرنا مشروع ہے، تا كہ آپ اپنى عفت و عصمت كو بچا سكيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر آپ عدل كر سكتے ہوں تو درج ذيل فرمان بارى تعالى پر عمل كرتے ہوئے دوسرى شادى كريں:
فرمان بارى تعالى ہے:
 اور اگر تمہيں ڈر ہو كہ يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے تم انصاف نہ ركھ سكو گے تو اور عورتوں سے جو بھى تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو، دو دو، تين تين، چار چار سے، ليكن اگر تمہيں ڈر ہو 
كہ عدل نہ كر سكو گے تو ايك ہى كافى ہے ۔ النساء ( 3 )
لیکن اگر بيويوں كے نان و نفقہ لباس و رات بسر كرنے ميں عدل و انصاف نہيں كر سكتا تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا حرام ہے.

کیا ایک دن میں مرد دو نکاح کر سکتا ہے ؟
❖ •─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
انسان ایک دن میں دو خواتین سے نکاح کر سکتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ )تم دو، دو، تین، تین ، یا چار ، چار جتنی تمہیں اچھی لگیں خواتین سے شادی کرو۔ النساء : 3
دو خواتین سے یکبار نکاح کرنا یا مختلف اوقات میں؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اہل علم دونوں خواتین کی رخصتی ایک ہی دن ؛ اچھی نہیں سمجھتے؛ کیونکہ ان میں سے ایک کا حق مارا جائے گا۔
امام یحی بن ابو الخیر عمرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک ہی رات میں دو بیویوں کو خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، کیونکہ دونوں کا حق اکٹھا ادا کرنا ممکن ہی نہیں، اس لئے اگر ایک کے ساتھ رات گزارے گا تو دوسری اجنبیت محسوس کریگی۔
اور اگر دونوں اسکے پاس آجائیں تو جس کیساتھ نکاح پہلے ہوا تو پہلے اسی کا حق ہوگا، پھر بعد میں دوسری کا، کیونکہ پہلے والی سبقت لے چکی ہے، اور اگر دونوں کیساتھ برابر عقد ہوا تو قرعہ اندازی کریگا، کیونکہ دونوں میں سے کسی کو کسی لحاظ سے بھی فوقیت حاصل نہیں ہے"انتہی
ماخوذ از کتاب:" البيان" از: عمرانی (9/520)

شیخ منصور بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی نے دو خواتین سے شادی کی تو دونوں کو ایک ہی رات میں خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، چاہے دونوں کنواری ہوں یا بیوہ، یا ایک کنواری اور یک بیوہ؛ کیونکہ خاوند دونوں کا حق پورا نہیں کرسکتا، اور جسکی باری بعد میں آئے گی اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، اور اجنبیت محسوس کرے گی، [لیکن پھر بھی]جو بیوی سب سے پہلے داخل ہوئی اسکا حق پہلے بنتا ہے، اسکا حق ادا کرنے کے بعد دوسری کے پاس جائے گا اور اسکا حق ادا کریگا؛ کیونکہ دوسری کا حق بھی اس پر واجب ہے، خاوند نے اس کے حق کی ادائیگی اس لئے نہیں کی کہ درمیان میں [پہلی بیوی کی وجہ سے]رکاوٹ تھی ، جسکی وجہ سے تاخیر ہوئی چنانچہ جب رکاوٹ زائل ہوگئی تو واجب ادا کرنا ضروری ہوگیا، اس کے بعد دنوں کی تقسیم شروع ہوجائے گی، اور جسکی باری ہوگی اسی کے حقوق ادا کریگا، اگر دونوں ہی بیویاں برابر داخل ہوئیں تو دونوں میں سے ایک کو قرعہ کے ذریعے ترجیح دیگا، اس لئے کہ دونوں ہی سبب استحقاق میں برابر ہوگئیں ہیں، اور قرعہ ایسی حالت میں باعث ترجیح ہوتا ہے"
ماخوذ از: " كشاف القناع " (5/208) ، اور دیکھیں: " المغنی- از ابن قدامہ " (7/242)
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ تعالیٰ

طلاق کی نیت سے معینہ مدت کے لیے نکاح کرنا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
طلاق کی نیت سے شادی متعین وقت کے لئے شادی ہے، اور مؤقتا شادی کرنا غلط و باطل ہے، کیونکہ یہ متعہ ہے، اور متعہ بالاجماع حرام ہے، اور صحیح شادی کی تعریف یہ ہے کہ ہمیشگی اور رشتے کو برقرار رکھنے کی نیت سے شادی کی جائے، اب اگر بیوی صالح اور مناسب نہ ہو تو وہ اسے طلاق دے سکتا ہے، الله تعالى نے فرمايا: "فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ" [پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھـ چھوڑ دینا ہے]۔

لوگ ویزا لینے کا آسان طریقہ اپناتے ہیں کہ انسان امریکی عورت کے ساتھـ شادی کرلے، چنانچہ اکثر لوگ کسی عورت کے ساتھـ شکلی طور پر کسی عورت کو نکاح کرنے پر راضی کرلیتے ہیں، اور اس نکاح نامہ کے عوض اس عورت کو مال دیتے ہیں، اور ہمبستری کے بغیر شہریت کے حصول کے لئے آسان طریقہ اختیار کرتے ہیں، جس کا کسی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے، یہ شادی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے، نیز غیر اسلامی ملک کی شہریت لینا جائز نہیں ہے، اور غیر اسلامی ممالک کی شہریت کے بارے میں ہم نے ایک فتوی جاری کیا ہے، اور اس کی عبارت یہ ہے: "کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے ملک کی شہریت لے جس کی حکومت کافر ہو؛ کیونکہ یہ ان کے ساتھـ دوستی اور جس باطل پر وہ قائم ہیں اس پر رضامندی کے اظہار کا ذریعہ ہے"۔

لہٰذا وقتی شادی متعہ ہے، اور یہ نکاح قرآن و حدیث اور اہل سنت و جماعت کے اجماع کی رُو سے باطل ہے،
➖چنانچہ صحيحين میں علی بن ابی طالب رضي الله عنه سے روایت ہے:
" بے شک رسول الله صلى الله عليه وسلم نے خیبر کے زمانے
میں نکاحِ متعہ اور پالتو گدھے کے گوشت سے منع فرمایا ہے "
صحيح بخاری،الحيل (6961) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،الصيد والذبائح (4334) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/79) ، موطأ مالك،النكاح (1151) ، سنن دارمی،النكاح (2197). بے

➖اور ايک روايت ميں ہے:
" خیبر کے دن آپ نے عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمایا "
صحيح بخاری،المغازي (4216) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،النكاح (3366) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/142) ، موطأ مالك،الصيد (1080) ، سنن دارمی،الأضاحي (1990).

➖ اور صحیح مسلم میں نبي کریم صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں نے تمہیں اجازت دی تھی کہ تم عورتوں سے متعہ کرسکتے ہو، اور اب یقیناً اللہ تعالی نے متعہ کو قیامت كے دن تک حرام کردیا ہے، تو کسی کے پاس اس قسم کی کوئی چيز(عورت) ہے، تو وہ اس کو چھوڑدے، اور جو کچھـ اس کو دے دیا ہے وہ اس سے واپس نہ لے۔
صحيح مسلم،النكاح (1406) ، سنن نسائی،النكاح (3368) ، سنن أبو داود،النكاح (2072) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1962) ، مسند أحمد بن حنبل (3/405) ، سنن دارمی،النكاح (2195).

یاد رکھیے وقتی شادی میں ازدواجی تعلقات زنا شمار ہوتے ہیں، اور جو اس کے باطل ہونے کے علم کے باوجود اس پر عمل کرے، تو اس پر زنا کے احکام لاگو ہوں گے، اور شرعی نکاح یہ ہے کہ انسان کسی عورت کے ساتھـ ہمیشہ کے لئے بیوی بنانے کی نیت سے شادی کرے، اور اگر وہ صالح بیوی نہ رہی، تو اسے طلاق دے سکتا ہے، چنانچہ الله تعالى نے فرمايا:

فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ ﴿٢٢٩﴾البقرة
ﭘﮭﺮ ﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﻛﻨﺎ ﯾﺎ ﻋﻤﺪﮔﯽ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ

الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( فتاوٰی/21140/12087/

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

POPULAR POSTS