find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam Part 1

Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam Part 1

Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam 
Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam, Namaz Me Haiz Ke Msail, Hazz Me Periods Ka Byan, Rmzan Aur Periods

Namaz Roza Aur Hazz Se Motalliq Haiz Ke 60 Ahkaam

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
 
◆ نماز،روزہ اورحج سےمتعلق حیض کے 60 احکام
۔┄┅════════════════════════┅┄
حصّہ اول ⇚ 1 - 30
سوال (1) : عورت اگر فجر کے فوراً بعد پاک ہو جائے تو کیا وہ کھا نے پینے اور دیگر مفطرات سے رک کر اس دن کا روزہ کھے گی ؟ اور کیا اس کے اس دن کے روزہ کا شمار ہوگا یا اسے اس دن کی قضا کرنی ہوگی ؟
جواب: عورت اگر طلوع فجر کے بعد پاک ہوتی ہے تو اس دن اس کے کھانے پینےاور دیگر مفطرات سے باز رہنے کے سلسلہ میں علماء کے دو قول ہیں :
پہلا قول: یہ ہے کہ اسے اس دن کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے رک جانا ضروری ہے ,لیکن اسکا یہ روزہ شمار نہ ہوگا ,بلکہ اس کی قضا کرنی ہوگی ,امام احمد رحمہ اللہ کا مشہور مذ ہب یہی ہے-
دوسرا قول: یہ ہے کہ اس کیلئے اس دن کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے باز رہنا ضروری نہیں , کیونکہ اس کے لئے اس دن کا روزہ رکھنا درست نہیں , اسلئے کہ دن کے ابتدائی حصہ میں وہ حائضہ تھی جس کا روزہ رکھنا درست نہیں, اور جب اس کا روزہ درست نہیں تو کھانے پینے اور مفطرات سے رکے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں, اور یہ وقت ایسا ہے جس کا احترام اس پر ضروری نہیں کیونکہ دن کے ابتدائی حصہ میں وہ روزہ نہ رکھنے کی پا بند تھی , بلکہ اس وقت اس کا روزہ رکھنا حرام تھا ,اور شرعی روزہ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی عبادت کی نیت سے طلوع فجر سےلیکرغروب آفتاب تک مفطرات سے باز رہا جائے-
یہ دوسرا قول جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں پہلے قول سے زیادہ راجح ہے, بہر حا ل دونوں قو ل کی روشنی میں مذکورہ عورت کو اس دن کے روزہ کی قضا کرنی ہوگی-
سوال (2): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ اگر حائضہ عورت (فجرسے پہلے) پا ک ہوئی اور فجر کے بعد غسل کیا اور نماز پڑھی اور اس دن کا روزہ مکمل کیا ,تو کیا اس پر اس روزہ کی قضا واجب ہے ؟
جواب: حائضہ اگر طلوع فجر سے ایک منٹ بھی پہلے پاک ہو اور اسے طہر کا یقین ہو تو اگر یہ رمضان کا مہینہ ہے تو اس پر اس دن کا روزہ واجب ہے اور وہ روزہ صحیح شمار ہو گا ,اس کی قضا واجب نہیں ہوگی کیونکہ اس نے طہر کی حالت میں روزہ رکھا ہے ,اور اس نے غسل اگر چہ فجر بعد کیا ہے ,تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ,جس طرح مرد اگر جماع یا احتلام کے سبب جنبی ہو جائے اور سحری کرلے ,اور غسل طلوع فجر کے بعد کرے, تو اسکا روزہ صحیح ہے-
اس مناسبت سے میں عورتوں سے متعلق ایک اورمسئلہ کی جانب متنبہ کرنا چا ہتا ہوں ,وہ یہ کہ بعض عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ عورت جب دن کا روزہ مکمل کرلے اور اسے افطار کے بعد اور عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے حیض آجائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے ,اسکی کوئی اصل نہیں ,بلکہ اگر غروب آفتاب کے ایک لمحہ کےبعد بھی حیض آجائے تو وہ روزہ مکمل اور صحیح ہے-
سوال (3): نفاس والی عورت اگر چالیس دن سے پہلے پاک ہوجائے تو کیا اس پر روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا واجب ہے؟
جواب: ہاں, نفاس والی عورت پر چالیس دن سے پہلے جب بھی پاک ہو جائے اور رمضان کا مہینہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا واجب ہے اور اس کے شوہر کیلئے اس سے مجامعت کرنا بھی درست ہے کیونکہ وہ عورت اب پاک ہے, اور روزہ اور نماز کےوجوب سے اور جماع کی اباحت سے کوئی چیز مانع نہیں-
سوال (4): اگر عورت کے حیض کی معروف عادت آٹہ دن یا سات دن ہو ,پھر کبھی ایک یا دو مرتبہ اس کا حیض معروف عادت سے زیادہ دن تک رہ جائے ,تواسکا کیا حکم ہے؟
جواب: کسی عورت کی معروف عادت اگر 6 دن یا سات دن ہو ,لیکن پھر یہ مدت لمبی ہوجائے اور اسکا حیض 8 دن یا نودن یا دس دن یا گیارہ دن تک باقی رہ جائے تو وہ پاک ہونے تک نماز نہ پڑھے,کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کی کوئی خاص مدت متعین نہیں کی ہے ,اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿ ويسألونك عن المحيض قل هو أذىً ﴾
البقرۃ[222] ترجمہ"وہ آپ سے حیض کےمتعلق دریافت کرتے ہیں, آپ فرما دیجئے کہ وہ ناپاکی ہے "
اسلئے جب تک حیض کا خون باقی رہے عورت بھی اپنی حالت پر باقی رہے گی, یہاں تک کہ وہ پاک ہو کر غسل کرے اور پھر نماز پڑھے .پھر دوسرے مہینہ میں اگر اسے گزشتہ مہینہ سے کم مدت حیض آ ئے تو جیسے ہی وہ پاک ہو غسل کرلے ,اگر چہ اس مہینہ کی مدت سے کم ہو . الغرض عورت جب تک حیض سے ہو نماز نہ پڑھے ,خواہ یہحیض سابقہ عادت کے مطابق ہو یا اس سے زیادہ ہو یا اس سے کم ہو, اور جب حیض سے پاک ہو جائے نماز پڑھے-
سوال (5): کیا نفاس والی عورت چالیس دن تک نماز اور روزہ ترک کئے رہے گی ,یا اس سلسلہ میں نفاس کے خون کے بند ہونے کا اعتبار کیا جائے گا کہ جیسے ہی خون ہوجائے وہ غسل کرکے نماز شروع کردے؟ نیز طہر کیلئے اقل مدت نفاس کیا ہے؟
جواب : نفاس کی کوئی متعین مدت نہیں ہے , بلکہ جب تک خون آئے عورت نمازو روزہ ترک کئے رہے اور اس کا شوہر اس سے مجامعت بھی نہ کرے , اور جب طہردیکھ لے نماز اور روزہ شروع کردے , اور اب اسکا شوہر اس سے مجامعت بھی کرسکتا ہے, بھلے ہی ابھی چالیس دن پورے نہ ہوئے ہوں, اور اگر چہ اس نے نفاس میں دس دن یا پانچ دن ہی گزارے ہوں -
الغرض نفاس ایک حسی چیزہے اور احکام اس کے وجود یا عدم سے تعلق رکھتے ہیں ,لہذا جب نفاس موجود ہوگا اس کے احکام ثابت ہوں گے ,اور جب عورت پاک ہو جائے گی تو نفاس کے احکام بھی اس سے ساقط ہو جائیں گے , البتہ اگر نفاس کا خون60 دن کےبعد بھی جاری رہے تو اس صورت میں عورت مستحاضہ سمجھی جائے گی ,اس لئے اس حیض کی جو معروف مدت تھی صرف اتنی مدت گزار کر وہ غسل کرے گی اور نماز پڑھےگی –
سوال (6): عورت كو رمضان كے مہینہ میں دن میں خون کے معمولی قطرے آگئے ,اوراس طرح کا خون پورے ماہ اسے آتا رہا اور وہ روزہ رکھتی رہی ,تو کیااسکا روزہ درست ہے ؟
جواب: ہاں, اسکا روزہ درست ہے, اور خون کے ان قطرو ں کا کوئی اعتبار نہیں , کیونکہ وہ رگوں سے آتے ہیں ,اور علی رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ خون کے یہ قطرے جو نکسیر کی طرح ہوتے ہیں حیض نہیں –
سوال (7):حائضہ یا نفاس والی عورت اگرفجرسے پہلے پاک ہوجائے ,لیکن طلوع فجر کے بعد غسل کرے ,تو کیا اسکا روزہ درست ہے؟
جواب: ہاں, حائضہ اور اسی طرح نفاس والی عورت اگر فجر سے پہلے پاک ہو جائے ,لیکن طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اسکا روزہ درست ہے ,کیونکہ وہ جس وقت پاک ہوئی روزہ رکھنے کے لائق ہوگئی اور وہ بعینہ اس مرد کی طرح ہے جو طلوع فجرکے وقت حالت جنابت میں تھا ,تو اسکا روزہ درست ہے ,
کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ فالآن باشروهن وابتغو ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض منالخيط الأسود من الفجر﴾[البقرة:187-
پس اب تم اپنی بيويوں سے مباشرت کرو , اور جو چیز اللہ نے تمہارے لئے لکھی ہے اسے تلاش کرو ,اور کھاتے پیتے رہو , یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھا گے سےظاہر ہو جائے –
تو جب اللہ تعالی نے طلوع فجرتک جماع کرنے کی اجازت دی ہے تو اسکا لازمی مطلب یہ ہے کہ غسل طلوع فجرکے بعد ہوگا-
نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے, کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات سے جماع کے بعد جنابت کی حالت میں صبح کرتے, حالانکہ آپ روزہ سے ہوتے تھے -
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر کے بعد غسل جنابت فرماتے تھے -
سوال (8) عورت نے خون محسوس کیا یا حیض کی تکلیف محسوس کی, لیکن غروب آفتاب سے پہلے خون نہیں آیا, توکیا اس کا یہ روزہ درست ہے یا اس کی قضا کرنا ہو گی؟
جواب: اگر پاک عورت نے حالت صیام میں حیض آنامحسوس کیا یا حیض کی محسوس کی لیکن حیض غروب آفتاب کے بعد آیا ,تو اسکا اس دن کا روزہ درست ہے, لہذااگر وہ فرض روزہ تھا تو اسکا اعادہ نہیں کرنا ہوگا, اور اگر نفل روزہ تھا تو اسکا اجروثواب متاثر نہیں ہوگا –
سوال (9) عورت نے خون دیکھا, لیکن قطعی فیصلہ نہیں کرسکی کہ وہ دم حیض ہی ہے, تو اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہے ؟
جواب: مذکورہ عورت کا اس دن کا روزہ درست ہے ,کیونکہ حیض کا نہ ہونا ہی اصل ہے, یہاں تک کہ اسے حیض آنے کا پورا یقین ہو جائے-
سوال (10) بعض دفعہ عورت دن کے مختلف اوقات میں خون کا معمولی اثریا خون کےمعمولی قطرے دیکھتی ہے ,کبھی تو ایسا حیض کے ایام میں دیکھتی ہے جبکہ ابھی حیض شروع نہیں ہوا ہے ,اورکبھی ایام حیض کے علاوہ ایام میں دیکھتی ہے ,سوال یہ ہے کہ مذکورہ دونوں حالتوں میں اسکے روزہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: تقریبا اسی قسم کے ایک سوال کا جواب گزرچکا ہے ,البتہ سوال کا ایک حصہ باقی رہ جاتا ہے ,وہ یہ کہ خون کے قطرے اگر حیض کے ایام میں دکھائی دیں اور وہ انہیں حیض سمجھ رہی ہو جو اس کے نزدیک معروف ہے , تو وہ حیض کے حکم میں ہوں گے-
سوال (11) کیا حائضہ اورنفاس والی عورتیں رمضان المبارک کے مہینہ میں دن میں کھا ,پی سکتی ہیں ؟
جواب: ہاں, حیض اور نفاس والی عورتیں رمضان المبارک کے مہینہ میں دن میں کھا ,پی سکتی ہیں ,البتہ بہتر یہ ہےکہ اگر گھر میں بچے ہوں تو چھپ کر کھائیں ,تاکہ بچوں کےذہن میں کوئی اشکا ل نہ پیدا ہو -
سوال (12) حائضہ یا نفاس والی عورت اگرعصر کے وقت پاک ہو ,تو کیا اسے عصر کے سا تہ ظہر کی نماز پڑھنا ہوگی یا وہ صرف عصر کی نماز پڑھے گی ؟
جواب : اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ مذکورہ عورت کو صرف عصر کی نماز پڑھنا ہوگی ,کیونکہ اس صورت مین ظہر کی نماز کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ,اوربراءت ذمہ یعنی عدم وجوب ہی اصل ہے –
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے:
"جس نے غروب آفتاب سے پہلےعصر کی ایک رکعت بھی پالی اس نے عصر کی نماز پالی " اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اس نے ظہر کی نماز پالی,حالانکہ ظہر کی نماز بھی اس صورت میں واجب ھوتی تو آپ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا-
مذکورہ بالا صورت میں عورت پر ظہر کی نماز کے واجب نہ ہونے کی ایک وجہ اور بھی ہے , وہ یہ کہ اگر عورت ظہر کا وقت ہو جانے کے بعد حائضہ ہو تو اسے صرف ظہرکی نماز قضا کرنا ہو گی ,عصر کی نہیں ,حالانکہ ظہر اورعصر کو ایک ساتہ ملا کر جاتا ہے ,اور اس صورت میں اور سوال کے اندر مذکور صورت میں کوئی فرق نہیں -
لہذا بعض حدیث اور قیاس کی روشنی میں مذکورہ عورت پر صرف عصر کی نماز پڑھنا لازم ہے اور ٹھیک اسی طرح اگروہ عشاء کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلےپا ک ہو جائے تو اسے صرف عشاء کی نماز پڑھنی ہوگی ,مغرب کی نہیں –
سوال (13) جن عورتوں کا حمل ساقط ہوتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہو تیں :یا تو اسقاط حمل جنین کی تخلیق سے پہلے ہوتا ہے ,اوریا تو جنین کی تخلیق اور اسکے اندر شکل وصورت بننے کے بعد ,اب سوال یہ ہے کہ جس دن اسقاط حمل ہوا اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہے؟ نیز ان ایام کے روزہ کا کیا حکم ہے جن میں وہ خون دیکھتی ہے ؟
جوا ب: ا گر جنین کی تخلیق نہیں ہوئی ہے تو یہ خون نفاس کا خون نہیں ,لہذا وہ عورت نماز پڑھے گی اور روزہ رکھے گی اوراسکا روزہ بھی درست ہے , اوراگر جنین کی تخلیق ہو چکی ہے تو یہ خون نفاس کا خون ہے , لہذا اس حالت میں اس کا نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا جائز نہیں –
اس مسئلہ میں قاعدہ یا ضابطہ یہ ہے کہ اگر جنین کی تخلیق ہو چکی ہو تو اسقاط کے بعد آنےوالا خون نفاس کا خون ہے, اور اس صورت میں اس کیلئےوہ سب حرام ہے جو ایک نفاس والی عورت پرحرام ہو تا ہے , اور اگر جنین کی تخلیق نہ ہوئی ہو تو وہ خون نفاس کا خون نہیں ,لہذا نفاس والی عورت پر جو چیزیں حرام ہیں وہ اس پر حرام نہیں-
سوال (14) : حاملہ عورت کو اگر رمضان کے مہینہ میں دن میں خون آجائے تو کیا اس کا روزہ متاثر ہوگا ؟
جواب: اگر عورت روزے سے ہو اوراسے حیض کا خون آجائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے,کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"کیا ایسا نہیں کہ جب عورت حیض سے ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے"-
اسی لئے حیض کو مفطرات (روزہ ٹوڑنے والی اشیاء)میں شمار کیا جاتا ہے , اورنفاس کا حکم بھی وہی ہے ,لہذ ا حیض یا نفاس کا خون آنے سے روزہ ٹوٹ جائیگا –
رہا حاملہ عورت کو رمضان المبارک کے مہینےمیں دن میں خون آنے کا مسئلہ ,تو وہ اگر حیض کا خون ہے تو اس کا حکم غیر حاملہ عورت کے حیض کا ہے ,یعنی اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا , اور اگر حیض کا خون نہیں تو اس سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا-
حاملہ عورت کو جو حیض آسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جب سے اس کو حمل قرار پایا ہے اس کا حیض بند نہ ہوا ہو ,بلکہ عادت کے مطابق آتا رہا ہو , تو راجح قول کے مطابق وہ حیض ہے اور اس پر حیض کے احکام نافذ ہوں گے , لیکن اگر اس کا حیض بند ہو گیا ہو , پھر اس کے بعد وہ خون دیکھے جو حیض کا معروف خون نہیں ,تو اس سے روزہ متاثر نہیں ہوگا , کیونکہ وہ خون ,حیض نہیں –
سوال (15): عورت اگرحیض کی عادت کے دنوں میں ایک دن خون دیکھے ,اوراس کے دوسرے دن پورے دن خون نہ دیکھے ,تو اس کو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب: اس مسئلہ میں ظاہر یہ ہے کہ اس عورت نے اپنے حیض کے ایام میں جو طہریا خشکی دیکھی ہےوہ حیض کے تا بع ہے ,لہذا وہ طہر شمار نہیں ہوگا , بنابریں وہ اس چیز سے بچے گی جس سے حائضہ عورت بچتی ہے-
لیکن بعض اہل علم نے یہ کہا کہ جو عورت ایک دن خون دیکھے اور ایک دن خون نہ دیکھے ,تو خون حیض شمار ہوگا اور خون نہ آنے والا دن طہر ,یہاں تک کہ پندرہ دن گزرجائیں ,پندرہ دن کے بعد پھر وہ استحاضہ شمار ہوگا , امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب یہی ہے-
سوال (16): حیض کے آخری ایام میں طہر سے پہلے عورت خون کا کوئی اثر نہین پاتی ,تو کیا وہ اس دن روزہ رکھ سکتی ہے جبکہ ابھی اس نے سفید پانی نہیں دیکھا ہے ؟یا اسے کیا کرنا ہوگا ؟
جواب: اگر مذکورہ عورت کی عادت یہ ہو کہ وہ حیض کے بعد سفید پانی نہیںدیکھتی ,جیسا کہ بعض عورتوں میں یہ بات پائی جاتی ہے , تو وہ روزہ رکھے گی , اور اگر اسکی عادت یہ ہو کہ وہ حیض کےبعد سفیدی دیکھتی ہے ,تو جب تک سفیدی نہ دیکھ لے روزہ نہیں رکھ سکتی -
سوال (17): حائضہ اور نفاس والی عورت کے لئے ضرورت کے تحت مثلاً طالبہ یا معلّمہ ہونے کی صورت میں دیکھ کر یا زبانی قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ضرورت کے تحت حائضہ یا نفاس والی عورت مثلاًطالبہ یا معلمہ کیلئے رات یا دن کسی بھی وقت قرآن کریم پڑھنے اور اس کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ,لیکن اجروثواب کی غرض سے اس حالت میں قرآن کریم کی تلاوت نہ کرنا ہی افضل ہے ,کیونکہ بہت سے بلکہ اکثراہل علم کا یہی خیال ہے کہ حائضہ کیلئے قرآن کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں –
سوال (18): كيا حائضہ عورت کیلئے طہر کےبعد کپڑے تبدیل کرنا ضروری ہیں ؟بھلے ہی اس میں خون یا نجاست نہ لگی ہو ؟
جواب: نہیں ,کپڑے تبدیل کرنا ضروری نہیں , کیونکہ حیض سے جسم ناپاک نہیں ہوتا ,بلکہ صرف وہ چیزیں ناباک ہو تی ہے جس میں یہ خون لگ جائے ,اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےعورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو وہ اسے دھو لیں اور اس میں نماز پڑھیں .
سوال (19): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نفاس کیوجہ سےرمضان کے سات روزے نہیں رکھے , اور دوسرا رمضان آنے تک اس نے ان روزوں کی قضا بھی نہیں کی , پھر دوسرے رمضان کے بھی اس کے سات روزے رہ گئے کیونکہ وہ بچے کو دودہ پلا رہی تھی ,بیماری کا عذر ہونے کیوجہ سے اس نے ان روزوں کی بھی قضا نہیں کی , اب جبکہ تیسرا رمضان قریب ہے اس عورت کو کیا کرنا چاہئے ؟ جواب سے مستفید فرمائیں , اللہ تعالی آپ کو اجروثواب سے نوازے –
جواب : مذکورہ عورت اگروا قعی مریض ہے اور روزوں کی قضا کی استطاعت نہیں رکھتی , تو چونکہ وہ معذور ہے اس لئے جب بھی اپنے اندر استطاعت پائے روزوں کی قضا کرے. اگرچہ دوسرا رمضان آجائے , لیکن اگر اسکے پاس کو ئی عذر نہیں ,بلکہ بہانہ بازی اور سستی کر رہی ہے , تو اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرے , عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" ميرے ذمہ روزے باقی ہوتے تھے,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کر پاتی تھی" بنابریں اس عورت کو اپنے سلسلے میں غور کرنا چاہئے , اگراسکے پاس کوئی معقول عذر نہیں ہے تو وہ گنہگار ہے, اور اسکے ذمہ جو روزے باقی ہیں ان کی قضا کرنے میں جلدی کرے ,لیکن اگر وہ واقعی معذور ہے تو روزوں کی قضا میں سال دوسال کی بھی تاخیر ہو جائے تو اس مین کوئی حرج نہیں –
سوال (20): بعض عورتوں کا حال یہ ہے کہ دوسرا رمضان آجاتا ہے اور وہ ابھی گزشتہ رمضان کےچھوڑے ہوئے روزوں کی قضا نہیں کئے ہوتی ہیں , تو ایسی عورتوں پر کیا واجب ہے؟
جواب : ایسی عورتوں پريہ واجب ہے کہ وہ اس فعل سے اللہ تعالی سے سچی توبہ کریں (اور دوسرا رمضان ختم ہوتے ہی ان روزوں کی قضا کرلیں ) کیونکہ بغیر کسی عذر کے ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرنا جائز نہیں ,جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے" میرے ذمہ روزے باقی ہوتے تہے ,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کرپأتی تھی "
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ایک رمضان کے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے بعد تک مؤخر کرنا ممکن نہیں ,لہذ ا ایسی عورتوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے اللہ عزوجل سے سچی توبہ کریں اوردوسرے رمضان کے بعد چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرلیں-
سوال (21): اگر عورت دوپہر کے بعد مثلاً ایک بجے حائضہ ہوجائے اور اس نے ابھی تک ظہر کی نماز نہ پڑھی ہو ,تو کیا پاک ہونے کے بعد اسے اس نماز کی قضا کرنی ہوگی؟
جواب : اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے , بعض کا یہ کہنا ہے کہ مذکورہ عورت پر اس نماز کی قضا واجب نہیں ,کیونکہ اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی اورنہ ہی گنہگار ہوئی ,کیونکہ اس کیلئے نماز کواس کے آخری وقت تک مؤخرکرنا جائز ہے ,لیکن بعض دوسرے علماء یہ کہتے ہیں کہ اس پر مذکورہ نمازکی قضا واجب ہے ,کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے"جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نےنمازپالی " ویسے احتیاط اسی میں ہے کہ وہ اس نماز کی قضا کرلے ,کیونکہ ایک نماز کی بات ہے جس کی قضا میں عورت کیلئے کوئی مشقت وپریشانی نہیں –
سوال (22 ): حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یا دو دن پہلے خون دیکھ لے ,تو کیا اس کی وجہ سے وہ نماز اور روزہ ترک کردیگی ؟
جواب: حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یادودن پہلے خون دیکہ لے اورولادت کی تکلیف (دردزہ) محسوس کرے ,تو یہ نفاس شمار ہوگا ,لہذا اس کی وجہ سے عورت نماز اورروزہ چھوڑدے گی –لیکن اگرخون آنے کےساتہ دردزہ محسوس نہ کرے ,تو یہ فاسد خون مانا جائے گا جس کا کوئی اعتبار نہیں , اورنہ ہی یہ خون نماز اور روزہ سے مانع ہے –
سوال (23): لوگوں کے ساتہ روزہ رکھنے کی غرض سے مانع حیض گولیوں کے استعمال کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب: میں اس بات سے سختی سےمنع کرتا ہوں ,کیونکہ اطباء کے ذریعہ میرے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ان گولیوں کے بڑے نقصانات ہیں ,لہذا عورتوں سے یہی کہنا ہے کہ یہ بات اللہ تعالی نے تمام عورتوں کیلئے مقدر فرمادی ہے ,اسلئے اللہ عزوجل کی مقررکردہ تقدیر پر قانع رہو, اور جب کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو تو روزہ رکھو ,اور جب کوئی شرعی رکاوٹ درپیش ہو تو اللہ عزوجل کی تقدیر پر رضا مند رہتے ہوئے روزہ توڑدو-
سوال (24): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت کو شوہر سے ہمبستری اور حیض سے پاک ہونے کے دوماہ بعد خون کے چھوٹے چھوٹے قطرے آنے لگے ,اب اس حالت میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے یا کیا کرے؟
جواب: حیض اور نکاح (جماع) سے متعلق عورتوں کی مشکلات اس سمندر کےمانند ہےجسکا کوئی ساحل ہی نہیں,( یعنی بےشمار ہیں) ,جس کا ایک سبب مانع حیض اور مانع حمل گولیوں کا استعمال بھی ہے , سابقہ دور میں اس قسم کے اکثر اشکالات کو جانتے بھی نہ تھے ,یہ صحیح ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہی سے بلکہ جب سے عورت کا وجود ہو ا اسی وقت سے اشکالات موجود ہیں ,لیکن اشکالات کی ایسی کثرت وبہتات کہ انسان ان کے حل کرنے میں حیران وپریشان ہوجائے ,بڑی افسوسناک بات ہے.
لیکن اس سلسلہ میں عام قاعدہ یہ ہے کہ عورت جب پاک ہوجائے , اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکہ لے,اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکھنے سےمیری مرا د یہ ہے کہ اسے وہ سفید پانی نظر آجائے جسے عورتیں جانتی ہیں ,خواہ وہ پانی مٹ میلا ہو ,یا زردی مائل ہو , یا قطرہ ہو , یا رطوبت ہو , تو یہ سب حیض میں شمار نہیں ہیں , اسلئے اس کے لئے نماز اورروزہ سے مانع نہیں اورنہ ہی اس کے شوہر کیلئے مجامعت سے مانع,کیونکہ یہ سب چیزیں حیض سے نہیں ,
جیسا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :"هم زردي مائل يا مـ ٹ میلے پانی کا کچھ اعتبار نہیں کرتے تھے "
اس حديث كو اما م بخاري نے روایت کیا ہے.اور امام ابوداود نے اس میں لفظ طہر کا اضافہ کیا ہے (یعنی طہر کے بعد ہم زردی مائل یا مٹ میلے پانی کا کچہ اعتبار نہیں کرتے تھٍٍے ) اس حدیث کی سند صحیح ہے.
اس بنا پر ہم کہ سکتے ہیں کہ طہر کا یقین ہو جانے کے بعد اس قسم کی جو بھی چیز ظاہر ہو وہ عورت کیلئے مضر نہیں , اور نہ ہی اس کے لئے نماز ,روزہ اور شوہر کے ساتہ ہمبستری سے مانع ہے , لیکن اس پر واجب ہے کہ جب تک وہ طہر نہ دیکھ لے جلدی نہ کرے ,کیونکہ بعض عورتیں جیسے ہی دیکھتی ہیں کہ خون بند ہو گیا طہر دیکھے بغیر جلدی سے غسل کر لیتی ہیں ,
یہی وجہ ہے کہ صحابیات –رضی اللہ عنہن- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کےپاس کرسف یعنی خون والی روئی بھیجتیں , تو وہ جواب میں ان سے فرماتیں کہ جلدی نہ کرو یہاں تک کہ سفیدی دیکھ لو .
سوال (25): بعض عورتوں کو مسلسل خون جاری رہتا ہے , اورکبھی ایسا ہوتا ہےکہ ایک یا دو دن بند رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہو جاتا ہے ,ایسی حالت میں ان کیلئے نماز ,روزہ اوردیگر عبادتوں کا کیا حکم ہے؟
جواب: بہت سے اہل علم کےنزدیک مشہور یہی ہے کہ اگر عورت کی کوئی مخصوص عادت (یعنی متعین مدت ) ہے , تو اس عادت کے پوری ہوجانے کے بعد وہ غسل کرے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے , اور دو یا تین دن کے بعد وہ جو خون دیکھتی ہے وہ حیض نہیں ھے , کیونکہ ان علماء کے نزدیک طہر کی کم سے کم مدت تیرہ (13)دن ہے ,اور بعض دوسرے اہل علم یہ کہتے ہیں کہ جب وہ خون دیکھے حائضہ شمارہوگی , اور جب نہ دیکھے پاک شمار ہو گی , اگرچہ دونوں حیض کے درمیان تیرہ (13) دن کا وقفہ نہ ہو.
سوال (26):عورت کیلئے رمضان المبارک کی راتوں میں گھرمیں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں ؟ خاص کر اس صورت میں جبکہ مسجد میں وعظ ونصیحت کا سلسلہ بھی ہو ؟ نیز مسجد میں نماز پڑھنے والی عورتوں کو آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟
جواب: افضل یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں نماز پڑھے , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے :"اور عورتوں کے لئے ان کا گھر نماز کے لئے زیادہ بہترہے"
نیز اس لئے کہ عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا بہت سے حالات میں فتنہ سے خالی نہیں ہوتا , اس لئے اس کا گھر میں نمازپڑھ لینا مسجد جانے سے بہتر ہے, جہان تک وعظ ونصیحت کے سننے کی بات ھے ,تو یہ کیسٹ کے ذریعہ بھی ہو سکتا ہے -
جو عورتیں نماز کیلئے مسجد جاتی ہیں ان کو میری یہی نصیحت ہے کہ وہ کسی زیب وزینت کا مظاہرہ نہ کریں اورنہ ہی خوشبو لگا کرجائیں.
سوال (27) :عورت كے لئے رمضان المبارک کے مہینہ میں روزہ کی حالت میں کھانا چکھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : ضرورت اسکی متقاضی ہو تو اسکے چکھنےمیں کوئی حرج نہیں ,لیکن چکھنے کے بعد وہ اسے تھوک دے .
سوال (28): ایک عورت حمل کے ابتدائی ایام سے گزررہی تھی کہ ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگئی اور بہت زیادہ خون گرنے کی وجہ سے جنین (پیٹ کا بچھ) سا قط ہو گیا , تو ایسی صورت میں کیا وہ روزہ توڑدے یا جاری رکھے ؟ اور اگر روزہ توڑدے تو کیا اس پر کوئی گناہ ہے ؟
جواب : ہمارا یہ خیال ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا, جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عورتوں کو حیض بند ہونے سے ہی حمل کا پتہ چلتا ہے , اور حیض کو جیسا کہ اہل علم کہتے ہیں ,اللہ تبارک وتعالی نے اس حکمت کے تحت پید ا فرمایا ہے کہ وہ ماں کے پیٹ میں جنیں کے لئے غذا بنے , لہذا جیسے ہی حمل قرار پاتا ہے حیض آنا بند ہوجاتا ھے ,لیکن بعض عورتوں کو حسب عادت حمل کے بعد بھی حیض جاری رہتا ہے جسطرح حمل سے پہلے تھا , تو ایسی عورت پر یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس کا یہ حیض صحیح حیض ہے , کیونکہ وہ حمل سے متاثر ہوئے بغیر جاری ہے –تو اس قسم کا حیض بھی ہر اس چیز سے مانع ہوگا جس سے غیر حاملہ کا حیض مانع ہوتا ہے ,اورہر اس چیزکو واجب کرنے والا ہوگا جس کو غیر حاملہ کا حیض واجب کرتا ہے, اور ہر اس چیز کو ساقط کردے گا جسے غیر حاملہ کا حیض ساقط کرتا ہے .
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حاملہ کو جو خون آتا ھے وہ دو طرح کا ہوتا ہے :
ايك طرح كے خون پر حیض کا حکم عائد ہوگا,اوریہ وہ خون ہے جوحمل کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح جاری رہے , جسکا مطلب یہ ہے کہ وہ حمل سے متاثر نہیں ہوا ہے ,لہذا وہ حیض شمار ہوگا.
دوسرا خون وہ ہے جو کسی ایکسیڈ نٹ کےسبب یا کسی وزنی چیز کے اٹھانے کی وجہ سے یا کہیں سے گرجانے کے باعث اچانک آجائے ,تو یہ حیض نہیں ,بلکہ رگ کا خون ھے ,لہذا اس کیلئے نماز اور روزہ سے مانع نہیں ہوگا ,بلکہ یہ پاک عورتوں کے حکم میں ھوگی,لیکن اگر ایکسیڈ نٹ کے سبب پیٹ کا بچہ یا حمل ساقط ہو جائے تو اہل علم کے بقول اس کی دو صورت ہے :
پہلی صورت یہ ہے کہ پیٹ کا بجہ اس حال میں ساقط ہو کہ اس کی شکل وصورت ظاہر ہوچکی ھے, تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہو گا ,جس میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے گی , اور پاک ہونے تک اس کا شوہر بھی اس سے ہمبستری نہیں کرسکتا.
دوسری صورت یہ ہے کہ حمل اس حال میں ساقط ہو کہ ابھی اس کی شکل وصورت ظاہر نہیں ہوئی ہے ,تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس نہیں, بلکہ فاسد خون شمارہو گا ,جو اس کے لئے نماز ,روزہ اور دیگر امور سے مانع نہیں .ا ہل علم فرماتے ہیں کہ تخلیق (شکل وصورت ) ظاہر ہونے کی اقل مدت اکیاسی (81) دن ہے, جیسا کہ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ صادق ومصدوق ہیں ,نے فرمایا :" ہر شخص اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے , پھر اسی مدت کے بقدرخون کا لوتھڑا رہتا ہے ,پھر اس کے اسی مدت کے بقدر گوشت کا ٹکڑا رہتا ہے ,پھر اس کے پاس فرشتہ بھیجا جاتا ہے جسے چار باتوں کا حکم ہوتا ہے ,چنانچہ وہ اس کی روزی , اس کی زندگی کی مدت , اس کا عمل اور یہ کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت لکھ دیتا ہے"
لہذا اس مدت سے پہلے پیٹ کے اندر جنین کی خلقت کا مظاہرہ ہونا ممکن نہیں ,ویسے عموما نوے (90) دن سے پہلے خلقت ظاہر نہیں ہوتی , جیسا کہ بعض اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے .
سوال (29): ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ تقریبا سال بھر پہلے تیسرے مہینے مین میرا حمل ساقط ہوگیا , پاک ہونے تک میں نے نماز نہیں پڑھی ’ مجھے بتایا گیا کہ مجھ پر نماز پڑھنی واجب ہے , اب میں کیا کروں جبکہ میں متعین طور پردنو ں کی تعداد نہیں جانتی ؟
جواب : اہل علم کے نزدیک معروف یہی ہے کہ عورت تین ماہ کا جنین ساقط کردے تو وہ نماز نہیں پڑھے گی, کیونکہ اگر وہ ایسا جنین ساقط کرتی ہے جس کے اندر انسانی شکل و
صورت ظاہر ہوچکی ہو تو اس حالت میں آنے والا خون نفاس کا خون ہے جسکے ہوتے ہوئے عورت نماز نہیں پڑھے گی –
علماء کا کہنا ہے کہ جنین کی شکل وصورت (81) اکیاسی دن پورے ہونے پر ظاہر ہو سکتی ہے ,اوریہ مدت تین ماہ سے کم ہے , لہذا اگر عورت کو یقین ہو کہ ساقط ہونے والا جنین تین ماہ کا ہو چکا ہے تو آنے والا خون نفاس کا خون ہٍے,لیکن اگرجنین (80)اسّی دن سے پہلے ساقط ہوا ہے تو اس صورت میں آنے والا خون فا سد خون ہے جس کی وجہ سے وہ نماز ترک نہیں کرے گی اب مذکورہ عورت اپنے متعلق یاد داشت پر زور دے ,اگر اسکا جنین80 دن پورے ہونے سے پہلے ساقط ہوا ہے تو وہ نمازوں کی قضا کرے , اگر اسے چھوڑی ہوئی نمازوں کی تعداد معلوم نہیں تو حتی الإمکان اندازہ لگا کر جو غالب گمان ہو اس کے مطابق نمازوں کی قضا کرے-
سوال (30): ایک خاتون دریافت کرتی ہیں کہ جب سے ان پر روزہ واجب ہوا ہے وہ رمضان کے روزے رکھتی ہیں ,لیکن ان روزوں کی قضا نہیں کرتیں جو حیض کے دنوں میں چھوٹ جاتے تھے, اور چونکہ انہیں چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد معلوم نہیں , اس لئے چاہتی ہیں کہ انہیں اس چیز کی طرف رہنمائی کی جائے جو ان پر واجب ہے؟
جواب: ہمیں افسوس ہے کہ مسلمان عورتوں سے اس طرح کی بات واقع ہو ,کیونکہ واجب روزوں کی قضا نہ کرنا یا تو نا واقفیت کی بنا پر ہے یا سستی وکاہلی کی بنا پر ,اور یہ دونوں ہی مصیبت ہیں , ناواقفیت کا علاج تو یہ ہے کہ علم سیکھا جائے اور جاننے والوں سے دریافت کیا جائے , لیکن سستی وکاہلی کا علاج یہ کہ اللہ عزوجل کا تقوى اختیار کیا جائے ,اس کے عذاب وعقاب سے ڈرا جائے اور اسکی مرضیات کی طرف سبقت کی جائے-
مذکورہ عورت پر ضروری ہے کہ اس سے جو غلطی ہو چکی ہے اس سے اللہ تعالى سے سچی توبہ اور استغفار کرے , اور جتنے روزے چھوڑے ہیں بقدر استطاعت ان کا اندازہ لگا کرقضا کرے , اس طرح وہ بری الذمہ ہو سکتی ہے , اور ہمیں امید ہےکہ اللہ تعالى اس کی توبہ قبول فرما لے گا –
 وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
تاليف : فضيلت مآب شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله
اردو ترجمة : ابو المكرم عبد الجليل رحمه الله
نظرثا ني : شفيق الرحمن ضياء الله
طباعت واشاعت : دفترتعاون برائےدعوت وارشاد سلطانہ-ریاض
وٙعَلَيــْــكُم السَّـــــــلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  
Share:

Roze Me Haiz O Nafaas Ke Aham Tareen Masail

Roze Me Haiz O Nafaas Ke Aham Tareen Masail

Roze Me Haiz O Nafaas Ke Aham Tareen Masail 
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Ramzan Me Period Aaye TO Kya Kare, Periods While Fasting, MC in Ramadan, is Fasting Allowed while periods, Haiz Aur Roza, Din Me Roza Rahte Huye Haiz Aa Jaye To Kya Karen
Roze Me Haiz O Nafaas Ke Aham Tareen Masail

◆ حیض و نفاس اور روزہ :
جب عورت کو روزہ کی حالت میں ماہواری شروع ہوجائے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے ، اگرچہ غروب شمس سے چندلمحہ قبل ہی ماہواری کاخون آنا شروع ہوجائے ، اگراس کا روزہ واجب ہوتواس پر قضاء واجب ہوگي ، حالت حیض میں عورت کا روزہ جاری رکھنا حرام ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
حائضہ اورنفاس والی عورت کے روزہ کی حرمت میں امت کا اجماع ہے ، لھذا اس بنا پر اس کا روزہ صحیح نہیں ۔۔۔۔ امت کا اس پربھی اجماع ہے کہ اسے اس روزہ کی قضاء میں روزہ رکھنا ہوگا ، امام ترمذی ، ابن مندر ، اورابن جریر اورہماے اصحاب وغیرہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے ۔ باختصار
دیکھیں المجموع للنووی ( 2 / 386 )
اور ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اہل علم کا اجماع ہے کہ حائضہ اورنفاس والی عورت کا روزہ رکھنا حلال نہیں ، بلکہ وہ رمضان کے روزے نہیں رکھیں گي بلکہ وہ بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراگر وہ روزہ رکھ بھی لیں تو ان کا روزہ صحیح نہیں ہوگا ۔
عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہمیں حیض آتا توہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم روزے قضاء کریں اورنماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا ) متفق علیہ ۔
اس میں حکم تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے ، ابو سعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( کیا تم میں سے جب کسی ایک حیض آتا ہے وہ نہ تو نماز ادا کرتی ہے اورنہ ہی روزہ رکھتی ہے ، یہ اس کے دین میں کمی ہے ) صحیح بخاری ۔
حائضہ اورنفاس والی عورت برابر ہے کیونکہ نفاس کا خون ہی حیض کا خون ہے اوراس کا حکم بھی وہی ہے ، جب دن کے کسی بھی حصہ میں حیض آجائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجائےگا ، چاہے دن کی ابتداء میں حیض آئے یا پھر شام کے وقت ، اورحائضہ عورت نے جب حالت حیض میں روزہ رکھنے کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود روزہ کی نیت کی اورکچھ نہ کھایا پیا تووہ گنہگار ہوگی ، اوراس کا یہ روزہ رکھنا کافی نہیں ہوگا ۔ اھـ
شیخ ابن عثیمین اللہ تعالی کا کہنا ہے :
روزہ کی حالت میں حیض آنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ، چاہے غروب شمس سے ایک لمحہ قبل ہی کیوں نہ آئے ، اگر توفرضی روزہ ہوتواس دن کی قضاء واجب ہوگي ۔
لیکن اگر اس نے مغرب سے قبل حیض کے خون کے انتقال کومحسوس کیا اورخون آنا شروع نہیں ہوا بلکہ مغرب کے بعد خون آنا شروع ہوا تواس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اورصحیح قول یہی ہے کہ باطل نہيں ہوگا ۔ ا ھـ
دیکھیں : الدماء الطبیعیۃ للنساء صفحہ نمبر ( 28 ) ۔
مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے مندرجہ ذیل سوال کیاگيا :
ایک عورت نے روزہ رکھا لیکن غروب شمس اور اذان سے کچھ دیر قبل حیض آنا شروع ہوجائے تو کیا اس کا روزہ باطل ہوجائے گا ؟
کمیٹی کا جواب تھا :
اگرتو حیض مغرب سے قبل آئے توروزہ باطل ہوگا اوراس کی قضاء کرے گي لیکن اگر مغرب سے بعد حیض آنے کی صورت میں اس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اس پر کوئي قضاء نہيں ۔ ا ھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 155 ) ۔
◆ نفاس والی عورت کے کئی احوال ہیں:
1۔ اس کا خون چالیس دن پورے ہونے سے پہلے ہی رک جائے اور پھر دوبارہ نہ آئے، تو ایسی عورت خون رک جانے پر غسل کرے اور نماز روزہ شروع کر دے۔
 2۔ اس کا خون چالیس دن پورے ہونے سے پہلے ہی رک جائے مگر چالیس دن پورے ہونے پر پھر دوبارہ شروع ہو جائے تو اس صورت میں جب خون رک جائے تو غسل کرے اور نماز روزہ ادا کرے اور جب دوبارہ شروع ہو تو بھی یہ نفاس ہی کا خون ہے لہذا نماز روزے سے رک جائے اور ان دنوں کے پورے ہونے کے بعد روزوں کی قضا دے، نماز کی نہیں۔
 3۔ چالیس دن پورے ہونے تک خون جاری رہے تو اس ساری مدت میں یہ ناز روزے سے توقف کرے، اور خون رکنے پر غسل کرے اور نماز روزے میں مشغول ہو۔
 4۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ خون چالیس دن سے زیادہ تک جاری رہے تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
☜ 1۔  یہ مزید دن اس کے حیض کی تاریخوں میں آ جائیں ۔۔
☜ 2۔  یا یہ زائد دن حیض کی تاریخوں کے علاوہ ہوں۔
اگر یہ زائد دن حیض کی تاریخوں کے ہوں تو اسے حیض کے دن پورے ہونے تک رکنا ہو گا۔ اگر یہ زائد دن حیض کی تاریخوں کے نہیں ہیں تو اسے غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دینا چاہئے۔ اس کے بعد اگر تین بار ایسا ہو تو یہ اس کی عادت سمجھی جائے گی اور پھر اس کے مطابق کرنا ہو گا، اور ان دنوں میں اگر اس نے روزے رکھے ہوں تو ان کی قضا دینی ہو گی، نماز کی قضا کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ اضافہ دن پھر دوبارہ نہ ہوں تو اسے استحاضہ سمجھا جائے گا۔
(محمد بن ابراہیم آل الشیخ)
احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا /صفحہ نمبر 216
◆ نفاس والی عورت پر حائضہ کی طرح روزہ رکھنا یا نماز ادا کرنا یا بیت اللہ کا حج کرنا حرام ہے لیکن اس پر حائضہ کی طرح ہی نفاس میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا واجب ہے۔
(فضیلۃ الشیخ صالح الفوزان )
دیکھیے : عورتوں کےلیے صرف/صفحہ نمبر 191
◆ جب نفاس والی عورت پاک ہو جائے اور طہارت کی علامت یعنی پانی کی سفیدی یا مکمل صفائی کو دیکھ لے تو وہ نماز روزہ شروع کر دے خواہ وہ ولادت کے ایک دن یا ایک ہفتہ بعد ہی پاک ہو جائے کیونکہ نفاس کم از کم کوئی حد نہیں ہے بلکہ بعض عورتوں کو تو ولادت کے بعد بالکل خون نہیں آتا لہذا اس سلسلہ میں چالیس دن کی کوئی شرط نہیں ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ / جلد 2
◆ حائضہ عورت کا روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے اور نہ اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے ایام میں روزے رکھے بلکہ جوں ہی ایام شروع ہوں، اسے روزے چھوڑ دینے چاہئیں اور پھر رمضان کے بعد اتنے دنوں کے روزے رکھنے چاہئیں جتنے دن وہ حیض کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکی۔
فتاویٰ اسلامیہ / جلد  2
◆ رمضان سے ایک ہفتہ پہلے میرے ہاں بچے کی ولادت ہو اور میں چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جاؤن تو کیا رمضان کے ان باقی دنوں کے روزے رکھنا مجھ پر واجب ہے؟
جواب ⤵
 ہاں جب نفاس والی عورت پاک ہو جائے اور طہارت کی علامت یعنی پانی کی سفیدی یا مکمل صفائی کو دیکھ لے تو وہ نماز روزہ شروع کر دے خواہ وہ ولادت کے ایک دن یا ایک ہفتہ بعد ہی پاک ہو جائے کیونکہ نفاس کم از کم کوئی حد نہیں ہے بلکہ بعض عورتوں کو تو ولادت کے بعد بالکل خون نہیں آتا لہذا اس سلسلہ میں چالیس دن کی کوئی شرط نہیں ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد : 2
◆ اگرنفاس والی عورت چالیس دنوں سے پہلے پاک ہوجائے توکیا وہ روزہ ،نماز اورحج اداکرسکتی ہے؟
جواب ⤵
 ہاں نفاس والی عورت اگرچالیس دنوں سے پہلے پاک ہوجائے تو وہ روزہ ،نماز، حج اورعمرہ اداکرسکتی ہےاوراس کے شوہر کے لئے اس سے مباشرت کرنا بھی جائز ہے مثلا اگر وہ بیس دنوں کے بعد پاک ہوجائے تو وہ غسل کرکے نماز،روزہ اداکرسکتی ہے اوراپنے شوہر کے لئے بھی حلال ہوگی اورجوعثمان بن ابی العاص سے مروی ہے کہ انہوں نے اسے مکروہ سمجھا ہے تویہ کراہت تنزیہہ پر محمول ہوگی اوریہ ان کا اجتہاد ہے لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔صحیح بات یہی ہے کہ اگر وہ چالیس دنوں سے پہلے پاک ہوجائے تو اس میں کوئی حر ج نہیں،اس کی طہارت صحیح ہوگی اوراگر وہ چالیس دنوں کے اندر دوبارہ خون آجائے تو صحیح قول کے مطابق یہ نفاس کا خون شمارہوگا اورحالت طہارت میں اداکیا ہوا روزہ ،نماز اورحج صحیح ہوگا اورحالت طہارت میں اداکی ہوئی کسی عبادت کو دہرانے کی ضرورت نہ ہوگی۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد :1/صفحہ:323
◆ روزہ  دا ر خاتون  کو عصر کے بعد  ما ہو ار ی  آگئی  اب  وہ اپنے  روزے کو  مکمل  کر ے  یا ترک  کر دے ؟
جواب ⤵
خو ن  حیض  یا نفاس  ایسا خو ن  ہے جو روزے  کو ختم کر دیتا  ہے اس خو ن  کے آجا نے  سے روزہ  خو د بخو د  ختم  ہو جا تا  لہذا جس  روزہ دار خاتون  کو عصر  کے بعد  یا مغرب سے چند  منٹ پہلے  حیض  آگیا  اس روزہ ٹوٹ  گیا  اسے چا ہیے  کہ مخصوص ایا م  میں  رہ  جا نے والے روزوں  کی رمضا ن کے بعد قضا  دے ان ایا م  میں رہ  جا نے  والی  نمازوں  کی قضا  نہیں   ان ایا م میں جو روزے رہ گئے  ہو ں آیندہ  رمضا ن  سے پہلے  پہلے  انہیں  رکھ  لینا  چا ہیے  دانستہ  دیر  کر نا  شر عاً نا  پسندیدہ  عمل  ہے نیز  اگر  طلوع  فجر  سے پہلے  خو ن  حیض  کی بندش کا یقین  ہو  گیا  تو اس دن  کا روزہ  رکھنا  چاہیے  اس حا لت  میں  روزہ  رکھا  جا سکتا  ہے  اگر چہ  غسل  نہ کیا  ہو  غسل وغیرہ  روزہ رکھنے کے بعد  نماز  سے پہلے  کر لینا  چا ہیے  روزہ  کے لیے  خو ن کا بندہ  ہو نا ضروری  ہے  غسل  کر نا  روزے  کے لیے  شرط  نہیں ہے
فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:1 /صفحہ:211
◆ روزے  رکھنے کے لیے مانع ادویا ت  حیض  کا استعما ل  شرعاً کیا حکم   رکھتا ہے ؟
جواب ⤵
خو ن حیض ایک  فا سد  ما دہ ہے جسے  روکنا  اچھا نہیں  ہے اگر  کسی عورت  کا صرف  ارادہ ہو کہ میں رمضا ن میں ہی  اپنے روزے مکمل کر لوں  تا کہ میر ے  ذمے ان کا قرض  با قی  نہ رہے  تو یہ  کو ئی مستحسن اقدام نہیں ہے  اس کے علا وہ  اطبا  کی رپو رٹ  ہے کہ  ما نع  حیض  ادویا ت  کا استعما ل  عورت  کے رحم  اعصاب  اور نظا م  خو ن  کے لیے  انتہا ئی  نقصان  دہ ہے  ان کے استعما ل  سے مہینے  کی  عا دت  بھی بگڑ  جا تی  ہے اور جسم نحیف  اور کمزور  پڑ  جا تا  ہے لہذا ہما را مشو رہ یہ ہے  کہ عورتوں کو ان  کے استعما ل  سے اجتناب  کر نا  چا ہیے  اگر چہ ان  کے استعما ل کے بعد  روزے رکھے جا ئیں  گے ان کا  فرض  تو بہر حا ل  ادا  ہو جا ئے گا  البتہ  علما  نے ایسی  ادویا ت  کے استعما ل کو چند شرا ئط کے ساتھ  مشروط  کیا ہے ۔
(1)ان کے استعمال  سے نقصا ن  کا اندیشہ  نہ ہو  اگر  نقصان  کا خطرہ ہے تو  پرہیز کیا جا ئے  ارشاد با ر ی تعا لیٰ  ہے کہ "اپنے  آپ کو  ہلا کت  میں مت ڈا لو ۔2/(البقرۃ:195)
نیز فر ما یا :"کہ اپنے آپ کو ہلا ک  نہ کرو  یقیناً اللہ تعا لیٰ  تم پر بہت مہر با ن  ہے ۔(4/النسا ء  :29)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  ہر غیر ضروری  چیز  کے استعما ل  سے منع  فر ما یا  حدیث  میں ہے  کہ نقصا ن  اٹھا نا  اور نقصان  پہنچا نا  دو نو ں  کسی صورت میں جا ئز نہیں ہیں ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :1/313)
(2)خا وند سے اجا زت لی جا ئے  اگر خا وند مو جو د ہو کیو نکہ بعض اوقات  ایسا ہو تا ہے  کہ عورت  عدت  کے ایا م  میں ہو تی  ہے وہ ما نع  حیض  ادویات کے استعما ل سے  ایام عدت  کو طویل  کر نا چاہتی ہے تا کہ  دیر  تک  اس سے نان  و نفقہ  وصول  کیا جا ئے  ایسے حا لا ت  میں  اس سے اجازت لینا ضروری ہے اسی  طرح  اگر ثا بت  ہو جا ئے  کہ ایسی  ادویا ت  کے استعمال  سے حمل  مین رکا وٹ  ہو سکتی ہے  ایسی  حا لت  میں بھی  عورت خا وند  سے اجازت لینا  ضروری ہے  ایسی  ادویا ت  کا استعما ل  اگر چہ  جا ئز  ہے تا ہم  بہتر  ہے کہ  فطرت  سے  چھیڑ چھا ڑ  نہ کی جا ئے  البتہ  اگر کو ئی  مجبو ری  ہو تو  الگ  با ت  ہے  ہما رے  نز دیک  رمضا ن  میں اپنے  روزے  مکمل  کر نے کی نیت  سے  ایسی ادویا ت  استعما ل  کر نا  کو ئی معقو ل  عذر  نہیں ہے (واللہ اعلم)
دیکھیے : فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:1 /صفحہ:214
◆ ایک عورت جو ایام حیض میں تھی پاک ہو گئی اور صبح کو روزہ رکھ لیا مگر غسل طلوع فجر کے بعد کیا اور پھر نماز پڑھی اور اس دن کا روزہ پورا کر لیا، کیا اسے اس دن کے روزے کی قضا دینی ہو گی؟
جواب ⤵
اگر کوئی حائضہ عورت طلوع فجر سے پہلے پاک ہو گئی ہو، خواہ ایک منٹ پہلے ہی پاک ہو، اور اسے یقین ہو کہ وہ اب پاک ہو گئی ہے، اور رمضان کے دن ہوں، تو اسے واجب ہے کہ روزہ رکھے، اور اس کا اس دن کا روزہ بالکل صحیح ہو گا، اور اس دن کی کوئی قضا اس کے ذمے نہیں ہے، کیونکہ اس نے بحالت طہارت روزہ رکھا ہے، غسل خواہ طلوع فجر کے بعد کرے، اس میں کوئی حرج نہیں، جیسے کہ اگر کوئی مرد فجر کے وقت میں جنبی ہو، مباشرت سے یا احتلام وغیرہ سے، تو اس کو چاہئے کہ سحری کھائے اور روزہ رکھے، غسل خواہ طلوع فجر کے بعد کرے، اس کا روزہ بالکل صحیح ہو گا۔
اس مناسبت سے میں ایک اور مسئلہ سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ کئی عورتیں سمجھتی ہیں کہ اگر انہیں افطار کے بعد عشاء سے پہلے حیض آ جائے، تو ان کا اس دن کا روزہ باطل ہو جاتا ہے، اس بات کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اگر حیض غروب آفتاب کے بعد آئے، خواہ ایک منٹ بعد ہی آ جائے تو اس دن کا روزہ بالکل درست اور صحیح ہو گا۔ (محمد بن صالح عثیمین)
دیکھیے : احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا/صفحہ:380
◆ فجر یا ظہر کے بعد ماہواری سے پاک ہوجائے، تو کيا کھانے پینے سے رکے رہنا ضروری ہے؟
جواب ⤵
جب عورت روزے کے وقت کے داخل ہونے کے بعد اپنے حیض سے پاک ہوجائے - خواہ دن کا پہلا وقت ہو یا درمیانہ یا آخری- تو اس پر واجب ہے کہ وہ دن کے باقی حصہ میں کھانے پینے سے رک جائے؛ الله تعالى كا فرمان ہے :" فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ "   ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﻛﻮ ﭘﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﻛﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ آيت ۔ ايسا وہ روزہ دار کے حق میں روزہ کے اوقات کی حرمت کی خاطر کرے گی، کیونکہ مانع کے زائل ہونے کی وجہ سے اب وہ بھی روزہ داروں کے ساتھ شامل ہوگئي ہے، اور اس پر واجب ہے کہ اس دن کا روزہ قضاء کرے، کیونکہ اس نے مکمل دن روزہ نہیں رکھا، دن کے ايک حصہ کا روزہ کُل کے لئے کافی نہیں ہوسکتا، اور اس بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
 " وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ " 
 ﺗﻢ ﻛﮭﺎﺗﮯ ﭘﯿﺘﮯ ﺭﮨﻮ ﯾﮩﺎﮞتک ﻛﮧ ﺻﺒﺢ ﰷ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﺳﯿﺎﮦ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ۔ ﭘﮭﺮ ﺭﺍﺕ ﺗﻚ ﺭﻭﺯﮮ ﻛﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﻛﺮﻭ
علاوہ ازیں اس پر واجب ہے کہ وہ غسل کرکے فرض نماز ادا کرے ۔
◆ لاعلمی کی وجہ سے ماضی میں حیض و نفاس کے روزوں کی قضا نہیں دی ۔ اور اب کئی وجوہات کی بناء پر روزے نہیں رکھ سکتی :
☜  پہلی وجہ : نہیں معلوم کہ وہ کتنے دن تھے [ جن کی قضاء نہیں کی ہے ]
☜  دوسری وجہ : عمر اور جسمانی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی ہے ۔
جواب : ⤵
 پہلی بات:
حیض و نفاس کی حالت میں جتنے روزے چھوٹے ہیں، ان تمام دنوں کی قضاء کرنا آپ پر واجب ہے، اسلئے کہ حالتِ حیض و نفاس میں روزہ رکھنا درست نہیں ہے۔
 دوسری بات :
آپ نے جتنے دنوں کا روزہ ترک کيا ہے، ان دنوں کی گنتی اپنے گمان ہی سے سہی جاننے کی کوشش ضرور کریں۔
 تيسری بات :
آپ پر لگاتار قضاء کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ آپ اپنی طاقت کے مطابق جب چاہیں روزہ رکھ لیں۔
 چوتهی بات :
 آپ نے جتنے دن حالتِ حیض یا نفاس کے وجہ سے روزہ چھوڑا ہے، ان میں سے ہر دن کے بدلے آپ کسی محتاج کو کھانا کھلائیں، اسلئے کہ آپ نے ان روزوں کی قضاء میں تاخیر کردی ہے، اور یہ کھانا اگر ایک ہی مرتبہ میں دیا جائے، چاہے ایک ہی فقیر کو دیا گیا ہو، تو بھی کافی ہے۔
 پانچويں بات:
اگر آپ خود محتاج ہوں، اور کھانا کھلانے کی استطاعت نہيں ہے تو آپ پر کوئی اور چیز نہیں ہے۔ اور آپ کا روزوں کی قضاء کرلینا کافی ہے۔
 چھٹی بات :
اگر آپ اپنی پیرانہ سالی یا کسی دائمی مرض کی وجہ سے قضاء نہ کرسکتی ہوں، البتہ آپ کھانا کھلا سکتی ہوں، تو اپنے علاقے کی عام غذاء سے ہر دن کے بدلے آدھا صاع کھلانا کافی ہے، اور اس آدھے صاع کی مقدار علاقے کی عام غذاء سے کھجور یا چاول یا اس کے علاوہ کسی اور چیز سے ڈيڑھـ کیلو ہے ۔ اور اگر آپ روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے سے بھی عاجز ہوں، تو آپ سے قضاء معاف ہوجائیگی؛
اسلئے کہ الله عز وجل کا فرمان ہے :
" فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ "  
ﭘﺲ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻚ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﻮﺳﻜﮯ ﺍﹴ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨﻮ ۔
نیز الله سبحانه و تعالى كا فرمان ہے :
"لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا"  
ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﺴﯽ ﺟﺎﻥ ﻛﻮ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ تکلیف ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
◆  لا علمی اور جہالت کے باعث بلوغت سے لیکر حيض بند ہونے کی عمر تک حیض کی وجہ سے چھوڑے ہوئے رمضان کے روزوں کی قضاء نہیں کی ہے، اور اب حيض کے بند ہوجانے کی عمر ميں ہے۔ چونکہ سالوں گذر چکے ہیں، اسلئے نہیں معلوم ہے کہ کتنے دنوں کی قضاء ہے؟ عورت کو کیا کرنا چاہئے؟
جواب ⤵
اس مذکورہ عورت پر یہ واجب ہے کہ بالغ ہونے سے لیکر سن ياس تک جتنے رمضان کے روزے اس سے چھوٹے ہیں، وہ اس کی قضاء کرے، اور اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ سابقہ سالوں میں چھوٹے ہوئے رمضان کے روزوں کی تعداد جاننے کی حتی الامکان کوشش کرے، اور اس کی قضاء کرے، نیز ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے، اسلئے کہ اس نے قضاء کرنے تاخیر کی ہے، اور کھانے کی مقدار اپنےعلاقے کی عام غذاء سے آدھا صاع ہے، جو لگ بھگ دیڑھ کیلو کا ہوتا ہے، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ وہ کھانا کھلانے کی قدرت رکھتی ہو، اور اگر یہ عورت غریب ہے، تو اس کیلئے صرف روزوں کی قضاء کرلینا کافی ہے، اور ان روزوں کو لگاتار یا الگ الگ دنوں ميں قضاء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
◆  رمضان کے پہلے دن حيض سے طہارت کا غسل کیا،اور غسل سے پہلے روزہ رکھہ چکی تھی۔ تو کیا اس کے حق میں اس دن کا روزہ درست ہوگا ؟
جواب ⤵
عورت پر یہ واجب ہے کہ جب خون مکمل طور پر بند ہوجائے، تو اس وقت غسل کرے، اس طور پر کہ وہ مکمل پاکی دیکھ لے، اور جب تک خون آتا رہے، چاہے کم ہی کیوں نہ، تو اس عورت کو حیض والی ہی کہا جائیگا، بشرطیکہ یہ خون حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت 15 دن کے اندر ہی آرہا ہو، اسلئے کہ ام المؤمنين حضرت عائشہ رضي الله عنها کا قول ہے کہ تم جلدی نہ کرو یہاں تک کہ تم قصۂ بيضاء يعنی اچھی طرح سفیدی دیکھ لو، اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ اور جس عورت سے خون بند ہوگیا ہو، اور اس نے غسل کرنے سے پہلے روزہ رکھ لیا ہو، تو اس کا یہ روزہ درست ہے، اسلئے کہ روزے کی درستگی کیلئے پاکی شرط نہیں ہے، اور اسلئے کہ حضوراکرم صلى الله عليه وسلم حالتِ جنابت میں روزہ رکھ لیا کرتے تھے، اور پھر اس کے بعد آپ غسل فرماتے تھے۔
◆ روزے سے چند منٹ پہلے حیض آنا
ایک عورت نے روزہ رکھا ہوا ہے اور صرف دن غروب ہونے میں دس منٹ باقی ہیں یا اس سے بھی اس کو حیض آجاتا ہے ۔ کیا وہ اس وقت اپنا روزہ افطار کردے یا دس منٹ انتظار کرکے بعد کھولے اور یہ روزہ اس عورت کا شمار ہوگا یاکہ نہیں؟نیز ایام حیض کے قضاء شدہ روزے کی قضائی کیا عید کے بعد متصل دے یا سال بھر کے اندر اندر جب چاہے رکھ سکتی ہے؟
 اس کا روزہ ٹوٹ چکا ہے باقی اب کھانے پینے میں اس کو اختیار ہے۔ جس طرح چاہے کرے جب روزہ ٹوٹ چکا ہے تو قضا ضروری ہے۔ یہاں منٹوں کا کوئی حساب نہیں۔ حیض روزے کی ضد ہے۔ دونوں جمع نہیں ہوسکتے حضرت عائشہؓ ماہ شعبان میں قضائی دیا کرتی تھیں۔ (مشکوٰۃ وغیرہ)
اس سے معلوم ہوا کہ دیر سے بھی قضائی دے سکتی ہے او رجتنی جلدی دی جائے بہتر ہے کیونکہ خطرہ ہے موت آجائے اور  روزے ذمہ رہ جائیں۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/حج کے مسائل 
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
 وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
فتاوی کتب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Roza Jaldi Kholne Ka Azab, Roza Na Rakhne Ka Azab

Roza Jaldi Kholne Ka Azab, Roza Na Rakhne Ka Azab

Roza Jaldi Kholne Ka Azab, Roza Na Rakhne Ka Azab
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
                                             روزہ جلدی کھولنے اور نا رکھنے کا عذاب
                            
روزہ جلدی کھولنے اور نا رکھنے کا عذاب
Roza Na Rakhne Ka Azab
┄┅════════════════┅┄
رسول اللہ صلی اللہ کوبحالت خواب جھنم کے بعض عذاب دکھائے گئے،جہاں آپ نے اہل جہنم کی شدید چیخ و پکار سنی،آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا جنہیں الٹایا گیا تھا اور ان کی باچھیں چیری جارہی تھیں جن سے زیادہ خون جاری تھا آپ کے معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے ہی روزہ کھول لیتے تھے (اور روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ رمضان میں ) کھاتے پیتے رہتے تھے ۔
(رواه ابن خزيمة : 1986.و ابن حبان: 7491. والحاكم : 1568. 2837. وصححه على شرط مسلم ووافقه الذهبي۔ والنسائي في الكبرى: 3273. وصححه الالباني رحمهم الله السلسة الصحيحة : 3951 )
وضاحت :
 جلدی روزہ کھولنے کا مطلب یعنی سورج کے غروب ہونے سے قبل ہی روزہ کھولنا ہے، بلکہ سورج کے غروب ہونے کے بعد بلاتاخیر روزہ کھولنا چاہیے ۔ جیسے بعض لوگ سورج غروب ہونے کے بعد اتنا اندھیرا چھا جانے کو ضروری سمجھتے ہیں کہ تارے نظر آنے لگ جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودونصاریٰ کا یہی معمول تھا۔ اس لیے آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم یہود و نصاریٰ کے برعکس سورج کے غروب ہوتے ہی فورا روزہ کھول لیا کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ"
(صحیح بخاری، الصوم، باب تعجیل الافطار، رقم 1957۔ مسلم، الصیام، باب فضل السحور، رقم 1098)
"وہ لوگ اس وقت تک ہمیشہ بھلائی میں رہیں گے جب تک روزہ کھولنے میں جلدی کریں گے"
واللہ تعالیٰ اعلم
Share:

Irrfan Khan Janant Me Jayega Ya Jahannum Me

Irrfan Khan Janant Me Jayega Ya Jahannum Me

Irfan Khan Janant Me Jayega Ya Jahannu Me
Irfan Khan News, Irfan Khan Latest, Irfan Khan Son, Irfan Khan Movies, Irfan Latest, Irfan Khan about Islam
Actor Irrfan Khan
عرفان کی موت اور ہمارا رویہ
ثناءاللہ صادق تیمی
میں کئی ساری بحثوں میں بالکل پڑنا نہیں چاہتا لیکن پھر صورت حال ایسی سامنے آتی ہے کہ بنا پڑے رہا بھی نہيں جاتا ۔ عرفان ( را پر تشدید ) مر گیا اور ہر انسان کو ایک دن مرنا ہے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ بالی ووڈ سے لےکر ہالی ووڈ تک میں اس نے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا ۔ وہ  اپنے طرز  کاایک انوکھا اداکار تھا اور اس حقیقت کو فلم کے بڑے بڑے تنقید نگار مانتے ہیں ۔ جن لوگوں کو فلم ، تفریح اور سنیما سے لگاؤ ہے انہیں واقعی یہ ایک بڑا خسارہ نظر آئے گا ۔ مانا جاتا ہے کہ دلیپ کمار ، نصیرالدین شاہ اور بلراج ساہنی جیسے اونچے ادا کاروں کی خوبیوں سے عرفان آراستہ تھا یعنی کردار کو اس طرح ادا کرتا تھا کہ اس میں زندگی دوڑا دیتا تھا ۔ اس کی ادا کاری اس کی اپنی تھی ، وہ نقالی کرنے میں بھروسہ نہيں رکھتا تھا اور زندگی کو بھی اپنی شرطوں کے مطابق جینا چاہتا تھا ۔
بحیثيت اداکار وہ اتنا اونچا تھا کہ آج ملکی سطح پر  ہی نہیں عالمی سطح پر اس کے مرنے پر ایک غم کی کیفیت محسوس کی جارہی ہے ۔ بڑے بڑے لوگ مانتے ہیں کہ فلمی جگت ایک بڑی صلاحیت سے محروم ہوگيا ۔ فلم ، اداکاری ، فلم سازی سے متعلق ہماری جو ناپختہ ،کم تر جانکاری ہے اس اعتبار سےبھی عرفان ایک فطری ادا کار تھا اور اپنے کرافٹ میں کمال رکھتا تھا ۔ایک ایسے انسان کے مرجانے پر عام لوگوں کا افسوس ظاہر کرنا بالکل فطری ہے جو پچھلے کئی سالوں سے انہيں اپنی اداکاری سے محظوظ کررہا تھا ۔ یہ عام لوگ کسے کے لیے بھی آر آئی پی ، اللہ جنت الفردوس میں اعلا مقام دے اور اللہ روح کو شانتی دے جیسے دعائيہ جملے  بول دیتے ہیں ۔ ان میں زيادہ تر لوگوں کو اس بات کی تمیز ہی نہيں ہوتی کہ کہاں کیا بولنا ہے اور کہاں کیا نہیں بولنا ہے ۔
جنت اور جہنم کا تعلق اخروی زندگی سے ہے اور یہ بات ادنی سے ادنی مسلمان بھی جانتا ہے کہ مغفرت کے لیے ایمان شرط ہے ۔ اعمال کی بڑی سے بڑی خرابی ایمان کے ہوتے ہوئے مغفرت کا دروازہ بند نہيں کرتی اس لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ مرنے والا مسلمان ہو ۔ اب اگر عرفان کی بات کریں تو وہ خود ہی کہہ چکا تھا کہ وہ کسی مذہب میں وشواس نہيں کرتا ، بلکہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی مذہب سے نہ جوڑنے کےلیے ہی یہ چاہتا تھا کہ اس کے نام کے ساتھ " خان " نہ لگے اور عرفان خان سے وہ عرفان ( را پر تشدید) بن گیا ۔مجھے جے این یو کی وہ محفل یاد ہے ، غالبا 2012  کی بات ہے ، اس نے بہت سی باتیں کی تھیں جن میں مذہب سے متعلق اس کا وہ فلسفہ بھی تھا جس کاذکرابھی ہوا ۔یعنی وہ خود کو مسلمان نہيں سمجھتا تھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ جو خود کو مسلمان نہیں سمجھتا ہو اس کے لیے زبردستی مغفرت کی دعائیں کرکے اسے مسلمان بنانا بھی کوئی دانشمندی کی بات نہیں ۔ یہاں مثال کے طور پر جاوید اختر کو دیکھ سکتے ہیں ۔ جاوید اختر فلم جگت کے بہت بڑے آدمی ہیں ، وہ زبان و ادب کے بھی اتنے ہی بڑے انسان ہیں ، شاعری اور تاریخ سب پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن وہ مانتے ہیں کہ وہ ناستک ہیں ، مسلمان نہيں ہیں تو انہيں زبردستی مسلمان بنانا ہماری کہاں کی دانشمندی ہوگی ۔
ان سطور کے نہ لکھنے کا ارادہ تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی لیکن جب مدارس کے فارغین کو باہم دیگر عجیب وغریب انداز میں بحث کرتے دیکھا تو لگا کہ اتنی باتیں لکھی جانی چاہیے ۔ عام آدمی کا کچھ بھی کہ گزرنا مسئلہ نہيں ہوتا لیکن صاحبان فضیلت علما کرام کا  اس قسم کے معاملات میں جوش میں آنا سمجھ سے پرے ہے ۔ عرفان کو اپنے مسلمان ہونے پر اصرار ہوتا تو آپ ہم سب مغفرت کی دعا کرتے۔ اسے اس سے انکار تھا تو ہم کیوں بے مطلب زبردستی اسے مسلمان کریں ، جو آدمی زندہ رہتے ہوئے اپنے فکرونظر پر قائم تھا  ، مرنے کے بعد کیوں اس سے اس کا فلسفہ حیات چھینا جائے ؟
کسی کے بھی مرنے پر تکلیف ہوتی ہے ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے ۔ تکلیف ہونے میں مسئلہ نہیں لیکن مغفرت کی دعا سے قبل یہ حقیقت بہرحال سامنے رکھیے کہ عرفان کو اپنے مسلمان ہونے سے انکار تھا۔
مجھے ایک بات اور سمجھ میں نہیں آتی کہ کچھ لوگ جنہیں عرفان کی موت پر تکلیف ہوئی اور تکلیف کے اظہار کے لیے انہوں نے پوسٹ لکھنا ضروری سمجھا انہيں یہ کیوں لگتا ہے کہ بہر صورت وہ مولویوں کو ضرور اپنے یہاں گھسیٹ کر لائیں  اور بحث ومناقشہ کا سلسلہ شروع کریں ۔ بھائی ، اگر آپ اس کو  اس کے انکار کے باوجود زبردستی مسلمان سمجھ رہے ہیں اور مغفرت کی دعائیں کررہے ہیں تو کرتے رہیے لیکن یہ ضرورہے کہ آپ خود اس کے فکر وفلسفہ کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں ۔وہ نہیں مانتا اور آپ زبردستی منوارہے ہيں ۔ آپ اس اللہ سے اس کی مغفرت طلب کررہے ہیں جسے وہ مانتا ہی نہیں تھا تو سوچیے آپ کون سی عقلمندی کررہے ہیں ؟  پھر اللہ پاک کے رحم و کرم کی وسعت کا حوالہ دینے سے پہلے یہ بھی ضرور دیکھ لیجیے کہ اسی اللہ پاک نے ایمان کی شرط بھی رکھی ہے یا نہیں ۔ اگر ایمان کی شرط اسی اللہ پاک کی رکھی ہوئی ہے تو عمومی احادیث سے استدلال یقینی طور پر سکے کے صرف ایک رخ کو پیش کرنے جیسا ہوگا اور اس اعتبار سے تو دنیا کا کوئی بھی شخص وہ چاہے جتنا بڑا اللہ کا منکر ہو ،  اس رحمت کا مستحق ٹھہرے گا ۔ایک فاحشہ کے ذریعہ کتے کو پانی پلانے اور سو آدمی کو قتل کرنے کے بعد بھی رحمت ومغفرت کے استحاق کو پیش کرنے سے قبل اس بات کا احساس رکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ دونوں مثالیں صاحبان ایمان کی ہیں ۔ اعمال کی بڑی سے بڑی خرابی ایمان کے ہوتے ہوئے اتنی اثر انداز نہیں ہوتی کہ آدمی مغفرت و رحمت سے مکمل محروم ہوجائے لیکن اگر ایمان سے انکار ہو تو مغفرت اور رحمت کے لیے جگہ چھوڑی کہاں گئی ؟اس نکتے پر غور کرنا بہت ضروری ہے ۔  واضح رہے کہ عرفان کا یہ معاملہ پوشیدہ بھی نہیں ، وہ علی الاعلان اس انکار کا اظہار کرتا تھا ۔ اس لیے غیر ضروری فلسفہ طرازی کی بھی ضرورت نہیں ۔ اللہ ہمیں درست سمجھ دے ۔
Share:

Kya Bhook Lagne Par Roza Tod Sakte Hain, Kya Roza Ke Badle Miskeen Ko Khana Khila Sakte Hain

Kya Bhook Lagne Par Roza Tod Sakte Hain, Kya Roza Ke Badle Miskeen Ko Khana Khila Sakte Hain, Roza Kin Haalton Me Maaf Hai, Kya Garmi Lagne Se Roza Tod Sakte Hain

Kya Bhook Lagne Par Roza Tod Sakte Hain, Kya Roza Ke Badle Miskeen Ko Khana Khila Sakte Hain, Roza Kin Haalton Me Maaf Hai, Kya Garmi Lagne Se Roza Tod Sakte Hain

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــلاَم عَلَيــْكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــاتُه

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ   علماء متوجہ ہوں
اس وقت گاوں میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے گرمی انتہائی شدید ہے کٹائی موخر بھی نہیں کی جاسکتی اور گرمی کی تاب بھی نہیں لائی جاسکتی
تو دو صورتیں ہیں
روزہ توڑ کر ایک مسکین کو کھانا دے
یا روزہ توڑ دے اور بعد میں اس کی قضاء کرے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
مسلمان کو محض پیاس یا بھوک کے خدشے سے روزہ رکھنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے، یا صرف خدشے سے روزہ نہ رکھے کہ وہ روزہ مکمل کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتا ۔ بلکہ مسلمان کو چاہیے کہ صبر کرے اور اللہ تعالی سے مدد مانگے، اور شدت گرمی سے اپنے سر پر پانی ڈال لے یا کلی کر لے۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ رمضان میں اپنے دن کا آغاز روزہ رکھ کر کرے، پھر اگر روزہ مکمل نہ کر سکے اور مرنے کا خدشہ ہو یا بیمار ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے روزہ افطار کرنا جائز ہو جائے گا، ہاں محض وہم کی بنیاد پر روزہ مت کھولے، بلکہ اسی وقت روزہ کھولے جب اسے مشقت کا سامنا ہو۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح موقف یہ ہے کہ: جب انسان کو شدت بھوک یا پیاس سے مرنے کا خدشہ لاحق ہو جائے یا کوئی اور تنگی لاحق ہو تو اس کے لیے روزہ افطار کرنا جائز ہے۔"
اسی طرح الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الکافی" کتاب کی تشریح میں کہتے ہیں:
"جب روزے دار کو پیاس کا خدشہ ہو، لیکن یہاں پیاس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہلکی سی پیاس لگی اور روزہ کھول دیا، بلکہ یہاں پر پیاس سے ایسی پیاس مراد ہے جس سے جان کو خطرہ لاحق ہو جائے، یا پیاس کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑے۔" ختم شد
"تعليقات ابن عثيمين على الكافي"(3/124)
اگر کٹائی گندم وغیرہ کی وجہ سے افطار جائز ہو تو امیروں کو گھر بیٹھے پہلے جائز ہونا چاہیے کیونکہ ان کی طبیعت کے نازک ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھے بھوک پیاس کا برداشت کرنا بہ نسبت زمینداروں کے زیادہ مشکل ہے۔ اگرچہ زمیندار کاروباری ہوں۔ نیز مزدوروں کا پیشہ زمینداری سے کم نہیں۔ ان کو بھی افطاری کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے اندر لوہار، سنار۔ معمار وغیرہ آ سکتے ہیں۔ اب بتلایئے روزہ کون رکھے گا ؟؟ پھر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اس سے کہیں زیادہ سخت کام ہوتے تھے۔ کیونکہ غریب لوگ تھے محنت مشقت سے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ زمیندارہ بھی آپ کے زمانہ میں تھا۔ خیر قرون میں بھی یہ معاملات پیش آتے رہے۔ مگر کسی سے زمین دارہ کی وجہ سے افطار ثابت نہیں۔ پھر اگر ٹھنڈے ٹھنڈے کٹائی کر کے کٹی ہوئی فصل جمع کر لی جائے تو چنداں تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ صرف اتنی بات ہے کہ چار روز زیادہ لگ جائیں گے۔ لیکن اس کا کوئی حرج نہیں۔ دنیوی عزروں کی وجہ سے بھی تو کام آگے پیچھے ہو جاتے ہیں اگر دین کے لیے چار روز بعد میں کام ہو گیا تو برداشت کرنا چاہیے۔
(فتاویٰ اہل حدیث ج ۲ ص ۵۵۵۔ ۱۱ ربیع الاول ۱۳۵۸ھ) (عبد اللہ امر تسری روپڑی)
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 06 /صفحہ 434
✍ درج بالا دلائل کی روشنی میں میری اس مسئلے میں رائے یہ ہے کہ کام کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا حرام ہے، محض دھوپ کی شدت کے اندیشے سے روزہ کا ترک جائز نہیں ۔ جب مسلمان کو روزہ رکھنے پر قابل برداشت حد تک مشقت حاصل ہو تو وہ افطاری کے وقت خوش ہوتا ہے، صرف اس لیے نہیں کہ اب مشقت زائل ہونے لگی ہے ؛ بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالی نے روزے کی مشقت برداشت کرنے کی صلاحیت بخشی اور روزے جیسی عظیم اطاعت مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی، لہذا مسلمان کی نظر مشقت پر نہیں ہوتی کہ اب مشقت زائل ہونے والی ہے، بلکہ اس کی نظریں روزے کی نیکی پر ہوتی ہیں کہ اب روزہ مکمل ہونا والا ہے،
لہٰذا آپ رمضان میں روزے رکھیے ، کیونکہ رمضان کے روزے ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے ، اس میں کوتاہی جائز نہیں ۔ پھر اگر آپ کی حالت سنگین ہو تو ٹھنڈے پانی سے غسل کر لیجیے ، اسکے باوجود اگر آپکی حالت بدستور سنگین رہے یہاں تک کہ ہلاکت کا اندیشہ ہو تو آپ روزہ افطار کر لیجیے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Share:

Witr Ki Namaz Ke Baad Teen Martaba Subhan Al Mulqul Qudoos Kahna Mustahab Hai

Witr Ki Namaz Ke Baad Teen Martaba Subhan Al Mulqul Qudoos Kahna Mustahab Hai

Witr Ki Namaz Ke Baad Teen Martaba Subhan Al Mulqul Qudoos Kahna Mustahab Hai
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
وتروں کے بعد تین مرتبہ "سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ"  کہنا مستحب ہے"
Witr Ki Namaz Ke Baad Teen Martaba Subhan Al Mulqul Qudoos Kahna Mustahab Hai
Witr Ki Namaz Ke Baad Teen Martaba Subhan Al Mulqul Qudoos

ابی بن کعب رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتروں میں ِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى اورَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ اورَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھا کرتے تھے اورجب سلام پھیرتے تو بلند آواز میں مندرجہ ذیل کلمات کہتے :
: ( سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس )
پاک ہے بادشاہ بہت پاکیزگي والا ، پاک ہے بادشاہ بہت پاکیزگي والا ، پاک ہے بادشاہ بہت پاکیزگی والا ۔
مسند احمد حدیث نمبر ( 14929 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1430 ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 1699 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن نسائي ( 1653 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اس روایت کو أبوداود طیالسی نے " المسند " (1/441)  میں اسی طرح ابن جعد  نے اپنی " المسند " (1/86)  میں اور ابن ابی شیبہ  نے " المصنف " (2/93) اور امام احمد  نے  اپنی " مسند " (24/72) میں  اور دیگر محدثین نے بھی روایت کیا ہے، اس حدیث کی بہت سی اسانید ہیں اور ان اسانید کو کئی محدثین اور محققین  مثلاً: ابن ملقن، البانی، شیخ مقبل الوادعی، مسند احمد کے طبعہ رسالہ کے محققین  اور دیگر اہل علم نے صحیح قرار دیا ہے۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Share:

Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat Aur Masail

Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat, Janabat Me Gusul Kab Kiya Jaye, Janabat Ki Halat Me Der Se Jaga Aur Sehri Ka Kam Waqt Hai, Ramzan Me Din Ke Waqt Ehtalam Ho Gaya To Kya Karen, Bahalat Roza Ehtalam, Bekhabri Me Roze Ki Halat Me Ehtalam Ho Jaye to Kya Kare, Masjid Me Soya Jab Bedar Hua ToEhtalam Ho Gaya, Roze Me Ehtalam Ke Masail

Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat, Janabat Me Gusul Kab Kiya Jaye, Janabat Ki Halat Me Der Se Jaga Aur Sehri Ka Kam Waqt Hai, Ramzan Me Din Ke Waqt Ehtalam Ho Gaya To Kya Karen, Bahalat Roza Ehtalam, Bekhabri Me Roze Ki Halat Me Ehtalam Ho Jaye to Kya Kare, Masjid Me Soya Jab Bedar Hua ToEhtalam Ho Gaya, Roze Me Ehtalam Ke Masail

Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat, Janabat Me Gusul Kab Kiya Jaye, Janabat Ki Halat Me Der Se Jaga Aur Sehri Ka Kam Waqt Hai, Ramzan Me Din Ke Waqt Ehtalam Ho Gaya To Kya Karen, Bahalat Roza Ehtalam, Bekhabri Me Roze Ki Halat Me Ehtalam Ho Jaye to Kya Kare, Masjid Me Soya Jab Bedar Hua ToEhtalam Ho Gaya, Roze Me Ehtalam Ke Masail
Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
 
 ▓ حالت جنابت میں روزے کے احکامات :
۔┄┅═══════════════┅┄
حدثنا عبد الله بن مسلمة، ‏‏‏‏‏‏عن مالك، ‏‏‏‏‏‏عن سمي مولى ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة، ‏‏‏‏‏‏انه سمع ابا بكر بن عبد الرحمن، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كنت انا وابي حين دخلنا على عائشةوام سلمة. ح وحدثنا ابو اليمان، ‏‏‏‏‏‏اخبرنا شعيب، ‏‏‏‏‏‏عن الزهري، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اخبرني ابو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، ‏‏‏‏‏‏ان اباه عبد الرحمن اخبر مروان، ‏‏‏‏‏‏ان عائشة، ‏‏‏‏‏‏وام سلمةاخبرتاه:‏‏‏‏ "ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدركه الفجر وهو جنب من اهله، ‏‏‏‏‏‏ثم يغتسل ويصوم"، ‏‏‏‏‏‏وقال مروان لعبد الرحمن بن الحارث:‏‏‏‏ اقسم بالله، ‏‏‏‏‏‏لتقرعن بها ابا هريرة، ‏‏‏‏‏‏ومروان يومئذ على المدينة، ‏‏‏‏‏‏فقال ابو بكر:‏‏‏‏ فكره ذلك عبد الرحمن، ‏‏‏‏‏‏ثم قدر لنا ان نجتمع بذي الحليفة، ‏‏‏‏‏‏وكانت لابي هريرة هنالك ارض، ‏‏‏‏‏‏فقال عبد الرحمن، ‏‏‏‏‏‏لابي هريرة:‏‏‏‏ إني ذاكر لك امرا، ‏‏‏‏‏‏ولولا مروان اقسم علي فيه لم اذكره لك، ‏‏‏‏‏‏فذكر قول عائشة وام سلمة، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ كذلك حدثني الفضل بن عباس وهن اعلم، ‏‏‏‏‏‏وقال همام، ‏‏‏‏‏‏وابن عبد الله بن عمر، ‏‏‏‏‏‏عن ابي هريرة، ‏‏‏‏‏‏كان النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ يامر بالفطر، ‏‏‏‏‏‏والاول اسند.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ (بعض مرتبہ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمٰن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ (کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلاف تھا)ان دنوں مروان، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمٰن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمٰن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (میں کیا کروں) کہا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی تھی (اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔
بَابُ الصَّائِمِ يُصْبِحُ جُنُبًا:
باب: روزہ دار صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھے تو کیا حکم ہے۔
حدیث نمبر: 1925 - 1925
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ اس مفہوم پر فرماتے ہیں
اگر كوئي شخص احتلام يا جماع سے جنبي ہو جبكہ جماع اذان فجر سے كيا قبل گيا ہواورصبح ہوجائے تواس پر كچھ لازم نہيں آتا اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
( عائشہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتي ہيں كہ: نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم رمضان المبارك ميں بعض اوقات احتلام كےبغير جنبي ہوتے توفجرہوجاتي تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم غسل كركے روزہ ركھ ليتے تھے )
صحيح بخاري ( 1926 ) صحيح مسلم ( 1109 ) .
طہارت  روزے کیلئے شرط نہیں ہےحالانکہ  نماز صحیح ہونے کیلئے  طہارت  شرط ہے، اور اس پر تمام علمائے کرام کا اجماع ہے، جیسے کہ ابن المنذر نے الاجماع(1) اور نووی نے شرح مسلم: (3/102) میں نقل کیا ہے۔کیونکہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
 "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر  کا وقت اپنی اہلیہ کیساتھ  ہم بستری کی وجہ سے جنابت کی حالت میں ہو جاتا تھا، آپ پھر بھی روزہ رکھتے تھے"
 بخاری: (1926) مسلم:(1109)
اور مسلم کے الفاظ ہیں کہ: "۔۔۔آپ احتلام کی وجہ سے جنبی نہیں ہوتے تھے"
اگر یہ معاملہ جماع کی وجہ سے جنبی ہونے کے بارے میں ہے تو احتلام کے بارے میں یہی حکم بالاولی ہونا چاہیے؛ کیونکہ جماع انسان اپنی مرضی سے کرتا ہے، لیکن احتلام میں کسی کو اختیار نہیں ہے۔
نیز علمائے کرام کا جنابت کی حالت میں روزہ صحیح ہونے سے متعلق  اجماع ہے ، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں:
"پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کو  رات کے وقت احتلام ہوگیا ، اور فجر سے پہلے غسل کا موقع ملنے کے باوجود غسل نہ کیا ، اور صبح کی نماز کا وقت جنابت کی حالت میں  ہوا ، یا پھر دن میں  احتلام ہو گیا تو اس کا روزہ صحیح ہے" انتہی
"المجموع" (6/308)
اور اگر کسی نے تیمّم سے لاعلمی پر نمازیں ادا کر لیں تو اس پر نمازوں کا اعادہ نہیں ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "مجموع الفتاوی" (23/37) میں اسی موقف کی بھر پوری تائید کی ہے، چنانچہ رقمطراز ہیں:
"اور اگر کسی کو وجوب کا علم ہی نہیں تھا، چنانچہ جس وقت سے اس کو علم ہوا ہے اس کے بعد والی نمازیں  اسی کے مطابق ادا کرے گا، البتہ سابقہ نمازوں کا اعادہ لازمی نہیں ہے، جیسے کہ صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "مسیء الصلاۃ" دیہاتی سے فرمایا تھا: "جاؤ جا کر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی" آخر کار اس دیہاتی نے کہا: "قسم ہے اس ذات کی جس نے آپکو حق دیکر مبعوث فرمایا، مجھے اس سے اچھی نماز نہیں آتی، آپ مجھے ایسی نماز سکھا دیں جس سے میری نماز مکمل ہو" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز سکھائی" اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موجودہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا ہے، سابقہ نمازوں کے اعادہ کا حکم نہیں دیا، حالانکہ اس دیہاتی کا بیان تھا: " مجھے اس سے اچھی نماز نہیں آتی "
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما کو نماز کی قضا دینے کا حکم نہیں دیا، جس واقعہ میں  عمر رضی اللہ عنہ نے نماز  نہ پڑھی جبکہ عمار  چوپائے کی طرح  زمین میں لوٹ پوٹ ہوئے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ  کو جنابت کی حالت میں چھوڑی ہوئی نمازوں  کا حکم نہیں دیا، اسی طرح استحاضہ کو بھی  چھوڑی ہوئی نمازوں  کا حکم نہیں دیا، حالانکہ مستحاضہ خاتون کا یہ کہنا تھا کہ: "مجھے اتنا سخت استحاضہ ہوتا ہے کہ میں نماز روزہ نہیں کر سکتی" اسی طرح آپ نے ان لوگوں کو بھی دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جو رمضان میں اس وقت کھاتے پیتے رہے جب تک سفید رسی سیاہ رسی سے عیاں نہیں ہوگئی۔
◆ علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ کیا اس شخص کا روزہ درست ہے جس نے جنبی ہونے کی حالت میں صبح کی ؟
تو فتاوی جات کمیٹی کا جواب تھا
انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ جنبی ہونے کی حالت میں روزے کی نیت کرے، اور پھر وہ اس کے بعد جنابت کا غسل کر لے، اس لئے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی بعض اوقات حالتِ جنابت میں فجر ہوجاتی تھی، تو آپ روزہ رکھتے پھر غسل فرماتے۔
◆ جنبی مرد و عورت کو سورج طلوع ہونے سےپہلے پہلے غسل کرکے نماز ادا کرنا چاہیے ۔خصوصًا مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ جلد غسل کرے تاکہ نمازِ فجر با جماعت ادا کرسکے۔
جب عورت فجر سے پہلے پہلے پاک ہو جائے تو اس کے لیے روزہ رکھنا لازم ہے۔طلوع فجر کے بعد تک غسل کو مئوخر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن تاخیر اسقدر نہیں ہونی چاہیے کہ سورج طلوع ہو جائے بلکہ طلوع آفتاب سے پہلے پہلے غسل کر کے نماز پڑھنا واجب ہے ۔
۔|
سماحة الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ
فتاویٰ اسلامیہ
جلد دوم
◆ آنکھ دیر سے کھلی۔ ابھی غسل جنابت کرنا ہے، سحری کا وقت تھوڑا ہے، کیا کرے ؟
ابن ماجہ میں حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنبی ہوئے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کے لیے بلاتے تو آپ اٹھتے اور غسل کرتے پھر نماز پڑھاتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی ضرورت سے اگر وقت غسل کا قبل سحری نہیں ملتا تو باوضو ہو کر سحری کھا لے اور پھر بعد صبح صادق غسل کر کے نماز پڑھ لے روزہ میں کوئی خرابی نہیں آتی۔
۔|
(عبد اللہ امر تسری روپڑی)
(فتاویٰ اہل حدیث ج ۲ ص ۵۶۶)
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 06 /ص 118
◆رمضان میں رات کو بیوی سے ہمبستری کی، سحری کا وقت ختم ہو رہا ہے کیا کرے گا ؟
اس صورت میں نہائے بغیر سحری کھائی جا سکتی ہے۔کیونکہ سحری کھانے کے لئے طہارت شرط نہیں ہے۔ ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد، عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمان کہ «اَشھَدُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہ صَلی اللَّہ علیه و علی آله وسلم اِن کانَ لَیُصبِحُ جُنَباً مِن جِمَاعٍ غَیرِ اِحتَلَام ثُمَّ یَصُومُهُ » میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے اور غسل کیے بغیر روزہ رکھتے»،
پھر ہم دونوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور انہوں نے بھی یہی بات کی۔ صحیح البخاری ، حدیث نمبرۛ ١۹۳١
عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور یقینی بات ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے غُسل فرما لیتے تھے ۔
دیکھیے : فتاویٰ  ثنائیہ جلد 1
 جنابت کی حا لت میں روزہ رکھا جا سکتا ہے حدیث میں ہے   کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بحا لت  جنا بت  روزہ  رکھ لیتے  تھے  ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم )
اگر چہ  سید  نا ابو ہریرہ  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  کا فتوی  تھا  کہ جنبی  آدمی  غسل  کیے  بغیر  روزہ نہ رکھے  لیکن  ان کے سا منے  جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمل آیا تو انہوں  نے فو راً اپنے فتوی سے رجو ع کر لیا ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم)
سید ہ عا ئشہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا  کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جنبی ہو تے  پھر  آپ نہائے بغیر  روزہ رکھ لیتے  سحری  کھا نے  کے بعد  غسل  کر کے  نماز  فجر  ادا کرتے ۔(صحیح مسلم )
 اسی طرح احتلا م سے بھی روزہ خرا ب نہیں ہو تا  اذان  فجر  سے قبل  صحبت  کر نے  سے روزہ  نہیں ٹو ٹتا ہا ں  اگر  اذان  کے بعد  ہم بستری  کرتا  رہا  تو پھر  روزہ  ٹو ٹ جا ئے  گا  اسے  کفا رہ  بھی  دینا  ہو گا  اور  اس  رو ز ہ کی قضا  بھی ضروری ہے ۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/ج1/ص207
▓ احتلام کے احکامات :
 فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ فرماتے ہیں
اللہ سبحانہ وتعالى نے انسان ميں شہوت كا مادہ ركھا ہے، اور اپنے بندوں كو حكم ديا ہے كہ اگر ان ميں نكاح كى استطاعت ہے تو وہ اس طاقت كو صحيح طرح استعمال كريں، تا كہ دنياوى مصلحت پورى ہو اور خاندان بن سكيں، اور معاشرہ كو تقويت حاصل ہو، اور اللہ تعالى كى سنت كے مطابق دنيا كى آبادى ہو.
پھر اللہ تعالى نے جو بندوں ميں يہ طاقت ( شہوت ) جمع كى ہے وہ زيادہ ہوتو اسے نكالنے كے ليے احتلام كے ذريعہ خارج كيا ہے، اور يہ دونوں جنسوں يعنى مرد و عورت ميں قوت خارج كرنے كا سبب ہے، جس ميں انسان كا اپنا كوئى دخل نہيں، بلكہ يہ بشرى اور انسانى طبعيت كا تقاضا ہے، اس پر انسان كا مواخذہ نہيں كيا جائيگا، اس كى دليل يہ ہے كہ:
1 - على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين اشخاص سے قلم اٹھا ليا گيا ہے، سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور مجنون اور پاگل سے حتى كہ وہ عقلمند ہو جائے "
* سنن ترمذى حديث نمبر ( 1343 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3032 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3378 ).
* حديث ترمذى كے علاوہ باقى سنن ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے.
* حديث كو امام ترمذى نے اور امام نووى نے شرح مسلم ( 8 / 14 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور سوئے ہوئے شخص كو كوئى پتہ نہيں ہوتا كہ وہ كيا كر رہا ہے، چنانچہ وہ بھى مرفوع القلم ميں شامل ہوتا ہے، اور خواب نيند ميں آتى ہے اس ليے خواب ان اشياء ميں شامل ہو گى جو معاف ہيں.
2 - بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے احتلام كو تو بلوغت كى علامت قرار ديا ہے، اسى ليے فرمان بارى تعالى ہے:
* ﴿ اور جب تم ميں سے بچے بلوغت كو پہنچ جائيں تو وہ اجازت طلب كريں .. ﴾النور ( 59 ).
*  اس ليے اگر احتلام حرام ہوتا تو اللہ تعالى اسے بلوغت كى علامت قرار نہ ديتا.
3 - زينب بنت ام سلمہ بيان كرتى ہيں كہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:
" ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائيں اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا،
چنانچہ كيا اگر عورت كو احتلام ہو تو وہ بھى غسل كرے گى ؟ تو رسول كريم صلى اللہ
عليہ وسلم نے فرمايا: "ہاں جب وہ پانى ديكھے، تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى نے اپنا چہرہ
ڈھانپ ليا اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا عورت كو بھى
احتلام ہوتا ہے ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:ہاں، تيرے ہاتھ خاك آلودہ
ہوں، تو پھر اس كى بچہ اس كى مشابہت كيسے اختيار كرتا ہے ؟ "
* صحيح بخارى حديث نمبر ( 130 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 313 ).
4 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو اپنا لباس گيلا پائے اور اسے احتلام ہونا ياد نہ ہو ۔ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا كہ وہ غسل كرے.اور ايك ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جسے احتلام تو ہوا ہو ليكن وہ لباس گيلا نہ پائے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اس پر غسل نہيں ہے.ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگيں: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا اگر عورت ايسا ديكھے تو اس پر بھى غسل ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ہاں، عورتيں بھى مردوں كى طرح ہى ہيں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 113 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 236 ).
عجلونى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ:
ابن قطان رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے طريق سے ضعيف ہے، اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كے طريق سے صحيح ہے.
ديكھيں: كشف الخفاء ( 1 / 248 ).
 خلاصہ يہ ہوا كہ : احتلام ايك طبعى چيز ہے، اور اس سے چھٹكارا اور خلاصى ممكن نہيں ۔
▓  احتلام اور روزہ :
◆ رمضان میں دن کے وقت روزہ دار کو احتلام ہو جائے تو کیا کرے :
احتلام روزہ کو باطل نہیں کرتا کیونکہ یہ بات روزہ دار کے اختیار میں نہیں ہوتی۔ البتہ اس صورت میں اس پر غسل واجب ہے، جبکہ منی لگی ہوئی دیکھ لے۔
اگر اسے نماز فجر کے بعد احتلام ہو اور وہ ظہر کی نماز کے وقت تک غسل کو موخر کر لے تو بھی کوئی حرج نہیں … اسی طرح اگر وہ رات کو اپنی بیوی سے صحبت کرے اور طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ چنانچہ نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپ جماع سے جنبی حالت میں صبح کرتے پھر نہاتے اور روزہ رکھتے۔
حیض اور نفاس والی عورتوں کی بھی یہی صورت ہے۔ اگر وہ رات کو پاک ہو جائیں اور طلوع فجر کے بعد نہائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ان کا روزہ صحیح ہوگا… لیکن انہیں اور اسی طرح جنبی کو بھی یہ جائز نہیں کہ وہ طلوع آفتاب یا نماز فجر کو موخر کرے۔ بلکہ ان سب پر واجب ہے کہ نہانے میں جلدی کریں تاکہ طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کو اپنے وقت پر ادا کر سکیں ۔
اور مرد پر لازم ہے کہ جنابت کے غسل سے جلد فارغ ہو تاکہ فجر کی نماز باجماعت ادا کر سکے۔ اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
دیکھیے : فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلد1/صفحہ 125-مقالات وفتاویٰ ابن باز/صفحہ284
احتلام سے روزہ باطل نہیں ہوتا کیونکہ احتلام انسان کے اختیار میں نہیں اور حالت نیند میں انسان مرفوع القلم ہواکرتا ہے۔ یہاں اس امر کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے جو آج کل بہت سے لوگ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ رمضان کی راتوں میں وہ بیدار رہتے ہیں اور بیدار بھی ایسے کام کی وجہ سے رہتے ہیں، جسکا کوئی نفع ونقصان نہیں ہوتا ، پھر سارا دن گہری نیند سوئے رہتے ہیں ، یہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ روزے کو اطاعت، ذکر قراءت قرآن اور دیگر ایسے امور کا ذریعہ بنانا چاہیے، جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا تقرب حاصل ہو۔
فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ390
◆ دن کو سویا اور احتلام ہو گیا۔ اب روزہ گیا یا رہا :
روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسے پورا کرنا چاہیے۔
(اخبار اہل حدیث سوہدرہ جلد ۶ شمارہ ۲۱۔ ۲۹ رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ)
توضیح:
اس لیے روزہ نہیں ٹوٹا کہ انسان نیند کی حالت میں مکلف نہیں۔ ہاں احتلام کی وجہ سے غسل واجب ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 06 ص 440
◆  بحالت روزہ احتلام ہوجائے تو کیا روزہ ٹوٹ گیا ؟
احتلام سے روزہ خراب نہیں ہوتا کیونکہ احتلام انسان  کا غیر ارادی فعل ہے، اس کے علاوہ بحالت نیند مرفوع ا لقلم ہوتا ہے ، اس لئے روزہ کی حالت  میں اگر کسی کو احتلام ہوجائے تو  اس کا روزہ صحیح ہے ۔اس سے روزہ ٹوٹنے کی صراحت قرآن وہ حدیث میں بیان نہیں ہوئی،البتہ ایک چیز کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ بعض لوگ رمضان  المبارک کی راتیں فضول باتوں میں گزارتے ہیں،پھر سارادن گہری نیند سوئے رہتے ہیں ،اسی گہری نیند میں پراگندہ  خیالات کی وجہ سے احتلام ہوجاتا ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ روزے کو تلاوت قرآن ،ذکر الہٰی اور دیگر ایسے امور کا ذریعہ بنایا جائے ،جس سے اللہ تعالی ٰ خوش ہو۔رات کے وقت گپیں لگاتے رہنا اور دن کو روزہ رکھ کر سوئے رہنا دانشمندی نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے سے روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد:2/صفحہ :230
◆ اگر کسی شخص کو بے خبری میں روزے کی حالت میں احتلام ہوگیاتو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ایک آدمی سحری کھا کر اور فجر کی نماز پڑھ کر سوگیا۔ مگر جب بیدار ہوا’اس پر غسل فرض ہوچکا تھا۔ ایسی حالت میں اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ہاں اگر اس نے جان بوجھ کر کوئی ایسا عمل کیا جس کی وجہ سے احتلام ہوا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
دیکھیے : فتاویٰ صراط مستقیم/ص301
◆ مسجد میں سو گیا۔ جب بیدار ہوا تو معلوم ہوا احتلام ہوگیا۔ کیا روزہ پر اثر انداز ہوگا :
احتلام سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ یہ بندے کے بس کی بات نہیں۔ لیکن جب منی نکلے تو اس پر غسل جنابت لازم ہے۔ کیونکہ نبیﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب احتلام والا پانی یعنی منی دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے۔
اور یہ جو آپ نے بلا غسل نماز ادا کی۔ یہ آپ سے غلطی ہوئی ہے اور بہت بری بات ہے۔ اب آپ پر لازم ہے کہ اس نماز کو دہرائیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف توبہ بھی کریں۔
اور جو پتھر آپ کے سر پر لگا، جس سے خون بہہ نکلا، تو اس سے آپ کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
اور جو قے آپ کے اندر سے نکلی۔ اس میں بھی آپ کا کچھ اختیار نہ تھا، لہٰذا آپ کا روزہ باطل نہیں ہوا۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((مَن ذَرَعَه القَیئُ؛ فلَا قَضائَ علیه، ومَنِ اسْتَقَائَ؛ فعلیه القضَاء))
’’جسے بے اختیار قے آئی،اس پر روزہ کی قضاء نہیں اور جس نے عمداً قے کی، اس پر قضاء ہے۔‘‘
اس حدیث کو احمد اور اہل سنن نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا۔
دیکھیے : فتاویٰ دارالسلام/ جلد 1
◆ روزے کیلیے اٹھا تو احتلام تھا،وقت بھی کم ہے تو پہلے نہاناچاہئے یا کھانا کھانا چاہئے۔؟
احتلام کی حالت میں کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔چاہئے کہ پہلے  روزہ رکھ لے اور بعد میں نہا لے ،کیونکہ روزہ رکھنے کے لئے پاکیزگی کی شرط نہیں ہے۔ ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ
" میں اور میرے والد، عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے،
  تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ اَشھَدُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہ
  صَلی اللَّہ علیه و علی آله وسلم اِن کانَ لَیُصبِحُ جُنَباً مِن جِمَاعٍ غَیرِ
  اِحتَلَام ثُمَّ یَصُومُهُ »
  میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
  احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت
  میں صبح کرتے اور غسل کیے بغیر روزہ رکھتے»،
  پھر ہم دونوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور
  انہوں نے بھی یہی بات کی۔
 صحیح البخاری ، حدیث نمبرۛ ١۹۳١
عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور یقینی بات ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے غُسل فرما لیتے تھے ۔
فتوی کمیٹی
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
 وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه


Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS