Qayamat ke Din Ek nanhe Bacche ki fariyad.
Social media par Ladke Ladkiyo ka chating haram hai kyu?
Parda aur Hijab ki ahmiyat Islam me.
Aurat se ilm wapas le liya jaye to kya asar padega?
روز محشر ایک بچے کی فریاد
اے اللہ میں نے اپنے ارد گرد یہی کچھ ہوتا دیکھا‘ میرے والدین میرے بہن بھائی سب یہی کچھ کرتے تھے‘ اس لئے میں بھی یہ سب سیکھتاگیا‘ مجھے کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ میں کچھ غلط کر رہا ہوں‘ میں نے جب آنکھ کھولی گھر میں ٹی وی کی آواز سنی‘ تھوڑا سا بڑا ہوا تو مجھے کارٹون دیکھنا اچھا لگنے لگا‘ میں روزانہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کارٹون دیکھنے لگا‘ دادی ماں منع کرتیں کہ اتنا زیادہ ٹی وی دیکھنا آنکھوں کے لئے اچھا نہیں تو ابو کہتے ’’خیر ہے کم ازکم شرارتوں سے تو بچا ہوا ہے ناں۔‘‘ میں تھوڑا بڑا ہوا تو ہمارے گھر میں ڈش بھی آگئی کبھی میں گانے اور ڈرامے دیکھنے بیٹھا تو امی کہتیں کہ ’’بچے بڑوں کے پروگرامز نہیں دیکھتے‘‘ اور خود وہی پروگرام دیکھنے لگتیں۔
میں سمجھا کہ شاید بڑوں کے لئے ہر طرح کے پروگرامز دیکھنا ’’جائز‘‘ ہے۔ میں بڑا ہونے کا انتظار کرنے لگا تاکہ مجھ پر بھی کوئی روک ٹوک نہ ہو‘ امی ابو سے چھپ کر ’’بڑوں والے‘‘ پروگرامز دیکھتا اور امی ابو آتے تو چینل بدل دیتا۔ یا اللہ ایسے ماحول میں تیرے نیک بندوں کی طرح آنکھ جھکانا کیسے سیکھتا؟
جب دادا ابو گاڑی میں ہوتے تو ابو گانے نہیں لگاتے تھے ورنہ عموماً گاڑی میں بھی گانے لگے رہتے۔ میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی گاڑی کا ٹیپ چلانا سیکھ لیاتھا‘ مجھے ٹوکنے کے بجائے سب میری اس حرکت پر خوش ہوتے کہ ’’دیکھو ابھی سے ہی کتنا چالاک ہے۔‘‘ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ گانوں کاشوق بھی بڑھتا گیا‘ میرے جیب خرچ کا بیشتر حصہ C.Ds پر خرچ ہونے لگا‘مجھے کبھی کسی نے نہیں روکا کہ
یہ غلط ہے‘ کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو ’’مزا میر‘‘ (گانے بجا نے کے آلات) توڑنے کے لئے آئے تھے اور ہم انہی کے امتی کہلانے کے باوجود اٹھتے بیٹھتے گانے سننے اور گانے گنگنانے والے بن گئے۔
ابھی میں بہ مشکل تین چار سال کا تھا کہ مجھے شہر کے مہنگے ترین اسکول میں ڈال دیا گیا۔ امی ابو مجھے دن رات پڑھنے کا کہتے میں کلاس میں فرسٹ آنے لگا۔ امی ابو مجھ سے بہت خوش تھے‘ ایک دفعہ ایک داڑھی والے انکل ابو سے ملنے آئے۔ مجھ سے بھی باتیں کرنے لگے‘ مجھ سے انہوں نے ’’اے ‘ بی ‘سی‘‘ اور بہت سی poems (نظمیں) سنیں ‘ پھر اچانک انہوں نے مجھے سورئہ الناس سنانے کو کہا ‘ مجھے سورئہ الناس نہیں آتی تھی‘ پھر سورئہ فاتحہ سنانے کو کہا تو میں پھر گڑ بڑا سا گیا اور ان سے کہا کہ ’’انکل یہ تو ہمیں ٹیچر نے نہیں سکھائی۔
‘‘انہوں نے مجھے پیار سے کہا کہ ’’بیٹا یہ تو آپ کو قاری صاحب سے سیکھنی چاہیے تھیں‘ آج کل کی ٹیچرز کو تو خود بھی نہیں آتیں ویسے بھی اب تو آپ3rdکلاس میں ہو اور آٹھ سال آپ کی عمر ہے‘ اب تو آپ کو نماز بھی پڑھنی چاہیے۔‘‘ میں دل میں بڑا شرمندہ ہوا کہ انکل مجھے نالائق سمجھیں گے مگر جب انکل کے جانے کے بعد امی نے ابو سے کہا کہ ’’ظفر صاحب بھی بچے کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں بھلا اتنے سے بچے کو اتنی زیادہ سورتیں کہاں یاد ہوسکتی ہے‘‘ تو میری تسلی ہوگئی کہ سورتیں یاد نہ ہونا کوئی اتنی بڑی شرمندگی کی بات نہیں ہے۔ اللہ میاں ایسے ماحول میں قرآن کی عظمت اور اہمیت میرے دل میں کیسے پیدا ہوتی؟
دادا جی فجر کے وقت نماز کے لئے مجھے آواز دیتے تو امی ہولے سے کہتیں کہ ’’ذرا ٹھہر کر پڑھ لے گا‘ رات کو دیر تک ہوم ورک کرتا رہا ہے۔ ’’ایسی‘‘ ذرا ٹھہر‘‘ کے چکر میں دیر ہو جاتی اور کرتے کرتے ناشتے کا وقت ہو جاتا‘ میں ناشتہ کر کے اسکول چلا جاتا‘ دوپہر کو اسکول سے واپس آتا تو دادا جی نماز پڑھ چکے ہوتے‘ مجھے بھی وضو کرنے کا کہتے تو ابو کہتے کہ ’’ابھی تھکا ہوا اسکول سے آیا ہے‘ کھانا کھا کر پڑھ لے گا۔‘‘ کھانا کھا کر میں چپکے سے بستر میں گھس جاتا ‘ میرے ذہن میں یہ بات کبھی آئی ہی نہیں کہ نماز ہر کام سے زیادہ اہم ہے‘ میں نے تو ہمیشہ اپنے بڑوں کو آخری وقت میں عام سا کام سمجھ کر نماز پڑھتے دیکھا‘ اس حالت میں ‘ میں نے پرورش پائی‘ تو پھر میں کیسے ان صحابہ رضی اللہ عنھم جیسا ہو جاتا جو میدان جنگ میں بھی نماز چھوڑنے پر راضی نہ ہوتے تھے۔
میں نے اپنے والدین کو جھوٹ سے منع کرتے ہوئے پھر اسی محفل میں جھوٹ بولتے دیکھا‘ غصے میں چیختے ہوئے دیکھا اور ساتھ ہی نرمی کی نصیحت بھی سنی۔ مجھے بتایا جاتا کہ غیبت گناہ ہے مگر چند لمحوں میں ہی کسی کی ڈھیر ساری خامیاں بیان کردی جاتیں صبر شکر کی فضیلت پر قصے سنائے جاتے مگر کھانا لیٹ ہونے پر چیخ و پکار شروع ہو جاتی‘ بڑوں کا ادب کرنے کاکہاجاتا مگر دادا جی کے کاموں پر دیر تک بڑ بڑایا جاتا ‘ میں سمجھا کہ ’’خوش اخلاقی‘‘ شاید اس کانام ہے کہ منہ پر ہنس ہنس کر میٹھا بول بولا جائے اور پیٹھ پیچھے کھال کھینچ لی جائے‘ میں نے بارہا سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ’’اعلیٰ اخلاق‘‘ کا بہترین نمونہ ہیں مگر اپنے ارد گرد موجود لوگوں میں نے کسی میں بھی ان کے طریقے اپنانے کی تڑپ نہیں دیکھی۔
میری بہنیں بھی ایسے ہی ماحول میں بڑی ہوئیں‘ ایسے ہی دہرے معیار دیکھتی اور سیکھتی گئیں‘ جب باجی پہلی دفعہ کالج جانے لگیں تو دادی جان نے انہیں سر پربڑی چادر کرنے کو کہا۔
باجی کو بڑا برا لگا‘ دادی جان کے سامنے تو چپ ہوگئیں مگر امی کے پاس جا کر شور مچانے لگیں کہ ’’ساری لڑکیاں تو یونیفارم کا دوپٹہ ہی کرتی ہیں اور میں بڑی سی چادر کر کے جاؤں ‘ میں نے اتنی بڑی چادر کر کے نہیں جانا۔‘‘ امی نے ایک دو دفعہ دبے لہجے میں کہا کہ اوڑھ لو ناں جب باجی نہ مانی تو امی بولیں ’’اچھا دادی جان کے سامنے اوڑھ لو گاڑی میں جا کر اتار دینا۔‘‘ اس دن سے باجی اچھی طرح سیکھ گئی کہ بڑوں کو دھوکہ کس طرح دیا جاتا ہے‘.
جب ایک دفعہ دھوکہ دینے کا راستہ کھل گیا تو پھر بات دادی جان تک رکنے والی کہاں تھی‘ امی کو پتہ بھی نہ چلتا اور باجی کالج سے بازار جا کر اپنی مرضی کے ڈائجسٹ اور انگلش ناول خرید کر لے آتیں۔ کالج کی کتابوں میں چھپا کر پڑھتیں اور امی ابو سمجھتے کہ ہماری بیٹی کمرے میں پڑھائی کر رہی ہے۔
اللہ میاں کیا ہمارے بڑے ہمارے گناہوں میں برابر کے شریک نہیں ہیں انہوں نے برائی کو چالاکی اور ہوشیاری کا نام دے کر ہماری تائید کی‘ ایسے ماحول میں میری باجی کس طرح عائشہr و فاطمہrکی طرح معصوم اور دیندار ہوتیں۔
اللہ میاں میرے ماں باپ نے میرے لئے دنیا کی ہر نعمت مہیا کی‘ مجھے ہر طرح کی سہولت دی‘ میرے آرام کے لئے اپنا آرام قربان کیا‘ میں نے جوخواہش کی انہوں نے اسے پورا کرنا ضروری سمجھا‘ ایک دفعہ مجھے بچپن میں عجیب قسم کا بخار ہوگیا‘ رات کو سر میں بہت سخت درد ہوتا تو رات کو ابو دو تین بجے تک میرا سر دباتے اور امی دودھ وغیرہ گرم کر کے لاتیں۔ اگلے دن میں تو آرام سے سوتا رہتا اور ابو آفس اور امی گھر کے کاموں میں لگ جاتیں۔ تقریباً ایک ڈیڑھ ہفتہ یہی ہوتا رہا اور میرے ماں باپ ماتھے پر شکن لائے بغیر دن رات ڈیوٹی دیتے رہے۔
اللہ میاں میرے امی ابو نے میرے دنیاوی آرام کے لئے ہر شے مہیا کی مگر وہ یہ بھول گئے کہ آخرت کاآرام بھی تو میری ضرورت ہے‘ دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر تڑپ اٹھتے مگر آگ کے خوفناک عذاب کو بھول گئے‘ میرے کھانے پینے کے لئے میری پسند کی چیزوں سے گھر بھر دیا مگر کھولتے پانی اور بدبو دار پیپ کو بھول گئے‘ مجھے قیمتی ترین لباس پہنایا‘ گرمی سردی سے میری حفاظت کی مگر آگ کے کرتے اور تارکول کی شلوار کو بھول گئے‘ میرا رنگ پیلا ہونے پر پریشان ہوگئے مگر روز محشر میں کالی رات کی سی تاریکی والے چہروں کو بھول گئے۔
یااللہ میں اپنے والدین سے محبت تو بہت کرتا ہوں مگر یہ بھی جانتا ہوں کہ آج میری رسوائی میں کچھ نہ کچھ ہاتھ ان کا بھی ہے‘ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تیرے سامنے میرا یہ عذر قابل قبول نہیں ہے کیونکہ بلوغت کے بعد سے میں اپنے قول و فعل کا خود ذمہ دار ہوں مگر خدایا میں اپنے والدین کی شکایت لے کر آیا ہوں کہ انہوں نے مجھ سے بے پناہ محبت کرنے کے باوجود مجھے کیوں گم راہیوں کے جنگل میں دھکیل دیا‘ جہاں سے نکلنا میرے لئے ناممکن نہ سہی مگر دشوار ضرور تھا۔