find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Masjid me Namaj ke liye Dusri Jamat khadi karna jayez hai?

Kya Namaj ke liye Masjid me Dusri Jamat khadi kar sakte hai?

Sawal: Masjid me Namaj ke liye Dusri jamat ka kya hukm hai? Yani jab ek masjid me Namaj jamaat ke sath ada ho jaye, fir uske bad kuchh aur log aa jaye to kya dubara jamat karwa sakte hai? Jo log dusri jamat se mana karte hai kya unki dalail jayez hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-371"

سوال_ مسجد میں نماز کیلئے جماعت ثانی کا کیا حکم ہے؟ یعنی جب ایک مسجد میں نماز با جماعت ادا ہو جائے ، پھر اس کے بعد کچھ اور لوگ آجائیں تو کیا دوبارہ جماعت کروا سکتے ہیں کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں؟ نیز  جو لوگ دوسری جماعت سے منع کرتے ہیں انکے دلائل کا جائزہ؟

Published Date: 25-2-2022

جواب..!
الحمدللہ..!

*آجکل بہت سی مساجد میں یہ یہ نوٹ لکھا دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں جماعت ثانی کروانا منع ہے، بحکم انتظامیہ۔۔۔بڑے افسوس سے کہنا پڑتا کہ یہ لوگوں کو نا صرف جماعت کے ثواب سے محروم کرتے ہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام کے عمل کو ترک کرنے کا حکم دیتے ہیں، کیونکہ بوقت ضرورت مسجد میں دوسری، تیسری یا چوتھی جماعت کروائی جا سکتی ہے کوئی قباحت نہیں اس میں، یہ بات ٹھیک ہے کہ جان بوجھ کر پیچھے رہنا یا فتنے کیلئے اپنے فرقے کی الگ جماعت کروانا غلط ہے، لیکن اگر کچھ لوگ کسی عذر کیوجہ سے جماعت سے پیچھے رہ جائیں، یا کوئی مسافر ہے جو لیٹ جماعت کے بعد تاخیر سے مسجد پہنچا ہے تو اسی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا جواز صحیح احادیث میں موجود ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ، تابعین عظام اور فقہاء محدثین رحمہم اللہ کا اس پر عمل رہا ہے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ باجماعت نماز کی فضیلت تنہا نماز پڑھنے سے زیادہ ہے۔۔۔مسجد ہو یا گھر یا سفر کی حالت ہو یا جنگ کا ماحول نماز جماعت سے پڑھنے کی فضیلت ہے، تو جہاں جماعت کو اتنی زیادہ فضیلت و اہمیت دی گئی ہو کہ اگر کوئی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو دوسرا آ کر اسکے ساتھ مل جائے اور وہ دونوں جماعت شروع کر لیں۔۔!  اسی طرح اگر کوئی شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھ چکا ہے تو دوسرے آنے والے شخص کو جماعت کا ثواب دلانے کیلئے اسکے ساتھ پھر نماز پڑھ لے۔۔۔! اور اگر کوئی جماعت کیلئے ساتھی نا ملے تو گھر بیوی، بچوں کو جماعت کیلئے ساتھ کھڑا کر لے، ۔۔۔! حتی کہ حدیث میں آتا ہے اللہ اس شخص سے بہت راضی ہوتا ہے جو تنہا جنگل میں اذان و اقامت کہہ کر نماز پڑھتا ہے، اور بعض صحیح موقوف روایات میں ہے کہ فرشتے اس کے ساتھ مل جاتے ہیں جو تنہا ہونے کے باوجود جماعت کی نیت سے نماز شروع کر لے۔۔۔! بیسیوں نہیں سینکڑوں احادیث اور واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں جماعت سے نماز پڑھنے کے فضائل و احکام بیان ہوئے ہیں، پھر بھی لوگوں کو مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کیلئے روکنا سمجھ سے بالاتر ہے،*

*گو کہ اس مسئلہ میں بھی علمائے کرام کا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ جیسے کہ بعض ائمہ مثلا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ دوسری جماعت کرانا جائز ہے،  جبکہ امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، اور اصحاب الرائے وغیرہ کا موقف یہ ہے کہ دوسری جماعت مکروہ ہے۔ امام شافعی کا کہنا ہے کہ جس مسجد میں امام اور موذن مقرر ہوں وہاں دوسری جماعت کرانا مکروہ ہے ۔ اگر جماعت کرا لیں تو کفایت کرتی ہے، ملاحظہ ہو (کتاب الام للشافعی_۱/۱۳۶،۱۳۷٣) جبکہ اصحاب الرائے احناف کا کہنا ہے کہ مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ فتاویٰ شامی وغیرہ میں مذکور ہے،*

*یہاں ہم دونوں فریقین کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ کونسی بات قرآن و حدیث کے مطابق ہے!*
_______________&_______

*فریق اول یعنی مسجد میں جماعت ثانی کے جواز کے دلائل درج ذیل ہیں* ​

*پہلی دلیل*

جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: اس مسجد میں دوسری جماعت جس میں ایک مرتبہ جماعت ہوچکی ہو
حدیث نمبر: 220
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ النَّاجِيِّ الْبَصْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ وَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  أَيُّكُمْ يَتَّجِرُ عَلَى هَذَا ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ فَصَلَّى مَعَهُ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ وَالْحَكَمِ بْنِ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ الْقَوْمُ جَمَاعَةً فِي مَسْجِدٍ قَدْ صَلَّى فِيهِ جَمَاعَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق وقَالَ آخَرُونَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ يُصَلُّونَ فُرَادَى، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ سُفْيَانُ،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَمَالِكٌ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ يَخْتَارُونَ الصَّلَاةَ فُرَادَى، ‏‏‏‏‏‏وَسُلَيْمَانُ النَّاجِيُّ بَصْرِيٌّ وَيُقَالُ:‏‏‏‏ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْمُتَوَكِّلِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ.
ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ  ایک شخص  (مسجد)  آیا رسول اللہ  ﷺ  نماز پڑھ چکے تھے تو آپ نے فرمایا:  تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟ ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی ۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
  ١- ابو سعید خدری ؓ کی حدیث حسن ہے، 
٢- اس باب میں ابوامامہ، ابوموسیٰ اور حکم بن عمیر ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں،
٣- صحابہ اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس مسجد میں لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے ہوں اس میں  (دوسری)  جماعت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، 
٤- اور بعض دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ وہ تنہا تنہا نماز پڑھیں، یہی سفیان، ابن مبارک، مالک، شافعی کا قول ہے، یہ لوگ تنہا تنہا نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہیں۔  
تخریج دارالدعوہ:  سنن ابی داود/ الصلاة ٥٦ (٥٧٤)،  ( تحفة الأشراف: ٤٢٥٦)، مسند احمد (٣/٦٤، ٨٥)، سنن الدارمی/الصلاة ٩٨ (١٤٠٨) (صحیح)  
قال الشيخ الألباني:  صحيح، المشکاة (1146)، الإرواء (535)، الروض النضير (979) 

سنن ابو داؤد میں یہ الفاظ ہیں!

سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: مسجد میں دو مرتبہ جماعت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 574
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ رَجُلًا يُصَلِّي وَحْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّيَ مَعَهُ.
ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا:  کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے، یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے ۔  
تخریج دارالدعوہ:  سنن الترمذی/الصلاة ٥٠ (٢٢٠)، (تحفة الأشراف: ٤٢٥٦)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/٦٤، ٨٥)، سنن الدارمی/الصلاة ٩٨ (١٤٠٨) (صحیح  )''

یہی حدیث انس بن مالک سے سنن دار قطنی ۱١/۲۷۷ میں مروی ہے جس کے بارے میں علامی نیومی حنفی نے آثار السنن ١۱/ ۲۶۷٢ لکھا '' اسنادہ، صحیح ''علامہ زیلعی نے نصب الرایہ میں ٢۲/ ۵۸٨ پر لکھا ( وسندہ جیدا )
اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے

یہ روایت کئی طرق سے مروی ہے،
امام حاکم نے مستدرک حاکم میں اس روایت کو صحیح کہا ہے اور تلخیص میں امام ذہبی نے حاکم کی موافقت کی ہے ۔
بیہقی میں ہے کہ ابو بکر نے اس کے ساتھ نماز ادا کی ۔ علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرایہ میں اور علامہ سیوطی نے فوت المغتذی میں لکھا ہے کہ جس آدمی نے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی وہ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔

تخریج الحدیث!
ملاحظہ ہو!
( المنتقی لا بن جا رود (۳۳۰)
ابو داؤد، (۵۷۴) ترمذی (۲۲۰) (دارمی ١۱/ ۲۵۸،) (مسند احمد ۳٣/۶۴،٨۸۵٥،۵/ ۴۵٥) (مسند ابی یعلی ٢۲/ ۳۲۱) (ابن حبان _٤۴۳۶٣، ۴۳۷، ۴۳۸) ، (طبرانی صغیر ١۱/ ۲۱۸٢٨،۲۳۸٣) (بہیقی ۳٣/۶۹)،( المحلی ۴٤/ ۲۳۸٢٨)، (حاکم ١۱/ ۲۰۹)،( شرح السنۃ ۳٣/۴۳۶ ٣) (ابن ابی شیبہ ۲٢/۳۲۲٢٢،)
(ابن خزیمہ (١۱۶۳۲٢)،  (نصب الرایۃ ۲٢/ ۵۷) (التدوین فی اخبار قوین للرافعی ٢۲/ ۲۵۸)

*اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت ثانیہ مسجد میں جائز ہے اور اگر کوئی شخص اس وقت مسجد میں آجائے جب جماعت ہو چکی ہو تو وہ دوبارہ کسی کے ساتھ مل کر جماعت کی صورت میں نماز ادا کرے تو یہ صحیح مشروع اور جائز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ( ایکم یتجر علی ھذا الا رجل یتصدق علی ھذا )اس پر شاہد ہیں۔*
*اس حدیث میں صراحۃً یہ بات موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جماعت سے نماز پسند فرمائی، اس کے لیے جماعت سے نماز پڑھ چکے آدمی کو ترغیب دی کہ جا کر ساتھ پڑھ لے تاکہ پیچھے آنے والے کی نماز جماعت سے ہوجائے، تو جب پیچھے رہ جانے والے ہی کئی لوگ ہوں تو کیوں نہ وہ دوسری جماعت کروا کے نماز پڑھیں،*
«فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ» (سورة الحشر: 2 )
  اور یاد رہے فرض نماز کی طبیعت ہی اصلاً جماعت ہ,،

امام بغوی رحمہ اللہ شرح السنہ میں اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں :
" و فيه دليل على أنه يجوز لمن صلى فى جماعة أن يصليها ثانيا مع جماعة  آخرين و أنه  يجوز أقامة  الجماعة فى مسجد مرتين  وهو  قول غير واحد من الصحابة و التابعين"
'' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس آدمی نے ایک دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی ہو ، اس کیلئے جائز ہے کہ وہ دوسری مرتبہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کر لے ۔ اسی طرح مسجد میں دوبارہ جماعت قائم کرنا بھی جائز ہے۔ یہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ کا قول ہے''

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
" و لا يكره إعادة الجماعة فى المسجد و معناه فى المسجد  ومعناه  أنه إذا صلى إمام الحى وحضرها  جماعة وهذا قول ابن مسعود و عطاء و الحسن والنخعى و قتادة و إسحاق"
'' ایک مسجد میں دوسری کرانا مکروہ نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب محلے کے امام نے نماز پڑھ لی اور دوسری جماعت حاضر ہو گی تو اس کیلئے مستحب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں ۔ یہ قول عبداللہ بن مسعود، عطاء ، نخعی، حسن، قتادہ، اور اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کا ہے ''۔ ( المغنی ٣۳/۱۰)
پھر امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اس کے بعد حدیث ابی سعید بھی ذکری کی :

*دوسری دلیل*

حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی دوسری جماعت کے قائل تھے،

[عن الجعد أبي عثمان:] مَرَّ بِنا أَنَسُ بْنُ مالِكٍ رضيَ اللهُ عنهُ في مسجدِ بَنِي ثَعْلَبَةَ فقال: أَصَلَّيْتُمْ؟ قُلْنا: نَعَمْ، وذلكَ في صلاةِ الصُّبْحِ، فأمرَ رجلًا فَأَذَّنَ وأقامَ، ثُمَّ صلّى بِأصحابِهِ.
(ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، المطالب العالية ١‏/١٩٦  •  صحيح موقوف  )
(ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، تغليق التعليق ٢‏/٢٧٦  •  إسناده صحيح موقوف)
( أخرجه مطولا بنحوه عبد الرزاق (٣٤١٧)،
وابن أبي شيبة (٧١٦٩) بنحوه، وأبو يعلى (٤٣٥٥) باختلاف يسير
'' ابو عثمان الجعد سے مروی ہے کی بنو ثعلبہ کی مسجد میں انس بن مالک ہمارے پاس سے گزرے تو کہا کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہاں اور وہ صبح کی نماز تھی ۔ آپ نے ایک آدمی کو حکم کیا، اس نے اذان و اقامت کہی ، پھر آپ نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی، ''
( یہ روایت بخاری میں تعلقیاً ۲٢/ ۱۳۱١٣١ مع فتح الباری اور مسند ابی یعلی(٤٣۴۳۵۵٥٥) ٨۷/ ۳۱۵، ابن ابی شیبہ ۲٢/۳۲۱٢١، بیہقی ٣۳/ ۷۰، مجمع الزوائد٢۲/۴ ٤، المطالب العالیہ ١۱/ ۱۱۸(٤۴۲۶٢٦) تغلیق التعلیق ٢۲/۲۷۶ ٦، عبدالرزاق ۲٢/۲۹۱ ٢٩١ طبقات المحدثین لابی الشیخ ١۱/۴۰۲٠٢ ، ۴۰۳٣ میں موصولاً مروی ہے۔ )

*تیسری دلیل*
ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :
( إبن مسعود دخل المسجد و قد صلوا فجمع بعلقمة و مسروق و الأسود))
'' عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے نماز پڑھ لی تھی تو آپ نے علقمہ ، مسروق اور اسود کو جماعت کرائی ''۔
(ابکار المنن ص ٢۲۵۳٣، اس کی سند صحیح ہے ۔ (مرعاۃ شرح مشکوۃ ٤/ ١٠٤)

*چوتھی دلیل*

صحیح بخاری
کتاب: اذان کا بیان
باب: باب: نماز باجماعت کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 647
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي الْجَمَاعَةِ تُضَعَّفُ عَلَى صَلَاتِهِ فِي بَيْتِهِ وَفِي سُوقِهِ خَمْسًا وَعِشْرِينَ ضِعْفًا، ‏‏‏‏‏‏وَذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رُفِعَتْ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا صَلَّى لَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تُصَلِّي عَلَيْهِ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرَ الصَّلَاةَ.
ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوصالح سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز گھر میں یا بازار میں پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کرتا ہے اور اس کے تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد کا راستہ پکڑتا ہے اور سوا نماز کے اور کوئی دوسرا ارادہ اس کا نہیں ہوتا، تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے اور جب نماز سے فارغ ہوجاتا ہے تو فرشتے اس وقت تک اس کے لیے برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہے۔ کہتے ہیں اللهم صل عليه،‏‏‏‏ اللهم ارحمه‏ اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اے اللہ! اس پر رحم کر اور جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہو گویا تم نماز ہی میں مشغول ہو۔۔

اسی طرح ایک جگہ ہے کہ!

صحیح بخاری
کتاب: اذان کا بیان
باب: باب: نماز باجماعت کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 645
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً.
ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

*یہ حدیث اپنے عموم کے اعتبار سے پہلی اور دوسری دونوں جماعتوں کو شامل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کی پہلی جماعت فوت ہو جائے تو وہ دوسری جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے تو مذکورہ فضیلت پا لے گا*

*مذکورہ بالا احادیث و آثار صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسجد میں دوسری جماعت کرا لینا بلا کراہت جائز و درست ہے اور یہ موقف اکابر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا تھا*۔

_______&_______
_______&_______

*فریق ثانی یعنی دوسری جماعت کو مکروہ سمجھنے والوں کے دلائل​ اور انکا جائزہ*

پہلی دلیل:
١- [عن أبي بكرة نفيع بن الحارث:] أنَّ رسولَ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أقبلَ من بعضِ نواحي المدينةِ يريدُ الصلاةَ فوجد الناسَ قد صلوا فانصرفَ إلى منزلِه فجمع أهلَه ثم صلى بهم
ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ :
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اطرف سے آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرانا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کو جمع کیا، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی ''
(الکامل لا بن عدی ٦۶/ ۳۲۹۸، مجمع الزوائد٢۲/۴۸٨، طبرانی اوسط (٤۴۷۳۹٣٩) علامہ البانی نے اس سند کو حسن قرار دیا ہے تمام المنہ ۱١/۱۵۵٥)
اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کو طبرانی نے معجم کبیر و اوسط میں بیان کیا ہے۔ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔
اس سے یہ دلیل کی جاتی ہے کہ اگر دوسری جماعت بلا کر اہت جائز ہوتی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی فضیلت کو ترک نہ کرتے یعنی مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت عام مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہت زیادہ ہے۔

*دلیل کا جائزہ*
اول:
مولانا عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں ' اس حدیث سے دوسری جماعت کی مکروہیت پر دلیل پکڑنا محل نظر ہے۔ اسلئے کہ یہ حدیث اس بارے میں نص نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں نماز پڑھائی ہو بلکہ اس بات کا بھی احتمال موجود ہے کہ آپ نے انہیں نماز مسجد میں پڑھائی ہو ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر کی طرف جانا گھر والوں کو جمع کرنے کیلئے تھا، نہ کہ گھر میں جماعت کروانے کیلئے ، توا س صورت میں حدیث اس مسجد میں جس کا موذن و امام متعین ہو، دوسری جماعت کے استحباب کی دلیل ہو گی....!
بہر حال اس کیلئے مسجد میں دوسری جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کو مکروہ کہنا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ یہ حدیث کے بعد میں آنے والے اکیلے آدمی کی اس مسجد میں نماز کی کراہت پر دلالت نہیں کرتی ۔ اگر اس حدیث سے مسجد میں دوبارہ جماعت کے مکروہ ہونے پر دلیل کی جائے تو پھر اس سے یہ بھی ثابت ہو گا کہ اکیلے بھی اس مسجد میں نماز نہ پڑھے ۔
( مرعاۃ ۴٤/۱۰۵ ٥)

دوم!
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو گھر میں ہی جماعت کرائی تو اس سے مسجد میں دوبارہ جماعت کی کراہت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اتنہائی آخری بات جو ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک آدمی ایسی مسجد میں آئے جس میں جماعت ہو چکی ہو اور اسکو مسجد میں کوئی دوسرا شخص نا ملے جسکی نماز رہتی ہو تو جماعت کا ثواب حاصل کرنے کیلئے اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر میں جماعت کروا کے نماز پڑھ سکتا ہے،

سوم:
اگرچہ علامہ البانی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے مگر یہ محل نظر ہے کیونکہ اس کی سند میں بقیہ بن الولید مدلس راوی ہیں اور یہ تدلیس التسویہ کرتا ہے جو کہ انتہائی بڑی تدلیس ہے اور اس کی تصریح بالسماع مسلسل نہیں ہے۔

دیکھیں!
ابن عدي (ت ٣٦٥)، الكامل في الضعفاء ٨‏/١٤٢  •  [فيه] معاوية الأطرابلسي في بعض رواياته ما لا يتابع عليه

المعلمي (ت ١٣٨٦)، تراجم منتخبة من التهذيب ١٤‏/١٩٣  •  [فيه] الوليد بن مسلم مدلس

*دوسری دلیل*
( عن إبراهيم أن علقمة و الأسود أقبلا مع ابن مسعود إلى مسجد فاستقبلهم الناس قد صلوا فرجع بهم إلى البيت فجعل أحدهما عن يمينه والأخر عن شماله ثم صلى بهما .))
'' ابراہیم نخفی سے مروی ہے کہ علقمہ اور اسود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ مسجد کی طر ف آئے تو لوگ انہیں اس حالت میں ملے کہ انہوں نے نماز پڑھ لی تھی توابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ان دونوں کے ساتھ گھر کی طرف چلے گئے، انہوں نے ایک کو دائیں جانب اور دوسری کو بائیں جانب کیا پھر ان کو نماز پڑھائی ''(عبدالرزاق ٣٨۳۸۸۳٨٣)٢۲/ ۴۰۹، طبرانی کبیر(٩۹۳۸۰٣٨٠)

*جائزہ*
اس روایت کی سند میں حماد بن ابی سلیمان ہیں جو مختلط اور مدلس تھے۔
(ملاحظہ ہو طبقات المدلسین ٣٠)

 اور یہ روایت معنعن ہے اور مدلس کی عن عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
نیز حماد کے اختلاف سے قبل تین راویوں کی روایت حجت ہوتی ہے۔

علامہ ہیثمی فرماتے ہیں:
ولا يقبل من حديث حماد  إلا ما رواه عنه القدماء شعبة وسفيان  الثورى والدستوائى ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الإختلاط( مجمع الزوائد 1/125)
 '' حماد بن ابی سلیمان کی وہ روایت قبول کی جائے جو اس سے قدماء یعنی اختلاط سے پہلے والے راویوں کی رویات ہوگی جیسے شعبہ ، سفیان ثوری اور ہشام دستوائی اور جو ان کے علاوہ اس سے روایت کریں وہ بعد از ختلاف ہے ۔''
 تقریباً یہی بات امام احمد بن جنبل  رحمہ اللہ  سے منقول ہے۔
(ملا حظہ ہو شرح علل  ترمذی لابن رجب ص ۳۲۶ وغیرہ )
اور یہ روایت حماد سے معمر نے بیان کی ہے لہٰذا یہ بھی قابل حجت نہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اوپر ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے۔

________&_____________

*لہٰذا مذکورہ بالا توضیحات سے معلوم ہوا کہ دوسری جماعت میں کراہت کے بارے میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں بلکہ صحیح روایت سے دوسری جماعت کا جواز نکلتا ہے اور یہی جواز والا مذہب اقرب الی الصواب ہے*

مولانا عبیداللہ رحمان  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ۔
" فأرجع الأقوال عندنا هو أنه يجوز و يباح من اتى مسجدا قد صلى فيه بإمام راتب وهو لم يكن صلاها وقد  فاتته الجماعة  لعذر أن يصلى بالجماعة  والله أعلم "
( مرعاة شرح مشكوة 4/107)
'' ہمارے نزدیک راحج قول یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں اس حال میں پہنچا کہ امام معین کے ساتھ نماز ادا ہو چکی ہو اور اس نے وہ نماز نہیں پڑھی اور عذر کی بناء پر اس کی جماعت فوت ہو گئی تو اس کیلئے جائز و مباح ہے کہ وہ جماعت ثانیہ کے ساتھ نماز ادا کر لے ''۔

*بہر صورت یہ یاد رہے کہ بغیر عزر کے جماعت سے پیچھے رہنا اور خواہ مخواہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر دوسری جماعت کا رواج ڈالنا درست نہیں کیونکہ دوسری جانب جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پسند کرتے تھے کہ مومنوں کی نماز اکھٹی ہو*

جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے :
(( لقد أعجبنى أن تكون صلاة المؤمنين واحدة حتى لقد هممت أن أبث رجالا فى الدور فيوذنون الناس بحين الصلوة ))(ابن خزيمه 1/199 . ابو داؤد (506) 1/138)
    '' مجھ یہ پسند ہے کہ مومنوں کی نماز ایک ہو یہاں تک کہ میں نےا رادہ کیا ہے کہ کچھ آدمیوں کو محلوں میں پھیلا دوں اور وہ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دیں ۔''

اس کے علاوہ بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تاکید میں کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ وارد ہوئی ہیں جن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمیں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ سوائے عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اگر ہم گھر سے نماز با جامعت کے ادارے سے نکلتے ہیں اور ہمارے آتے آتے نماز فوت ہو جاتی ہےتومسجد میں آکر ادا کرنے سے جماعت کاثواب مل جائے گا، جیسا کہ حدیث صحیحہ میں وار دہے کہ،

 سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: آدمی نماز کے ارادہ سے مسجد کے لئے نکلا مگر جماعت ہوگئی تو بھی ثواب ملے گا
حدیث نمبر: 564
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ طَحْلَاءَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحْصِنِ بْنِ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ رَاحَ فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا، ‏‏‏‏‏‏أَعْطَاهُ اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ مِثْلَ أَجْرِ مَنْ صَلَّاهَا وَحَضَرَهَا لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَجْرِهِمْ شَيْئًا.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر مسجد کی طرف چلا تو دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اسے بھی اللہ تعالیٰ جماعت میں شریک ہونے والوں کی طرح ثواب دے گا، اس سے جماعت سے نماز ادا کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔  
تخریج دارالدعوہ:  سنن النسائی/الإمامة ٥٢ (٨٥٦)، (تحفة الأشراف: ١٤٢٨١)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٣٨٠) (صحیح  )

*لہٰذا بغیر عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے اور اگر کسی عذر کی بنا پر جماعت سے رہ گیا اور پھر دیگر افراد کے ساتھ مل کر دوسری جماعت کرا لی تو بلا کراہت جائز ہے*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

مآخذ:
(آپکے مسائل اور انکا حل، جلد -1
محدث فتویٰ )
کچھ کمی بیشی کے ساتھ
_______&______

سوال- کیا باجماعت نماز ادا کرنا فرض ہے؟اور کیا اذان کی آواز سن کر بغیر کسی شرعی عذر کے گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-7)

سوال: گھر میں عورتوں کی جماعت کا کیا حکم ہے؟کیا خواتین کا مسجد میں تراویح پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟ اور کیا خواتین گھر میں نماز باجماعت ادا کر سکتی ہیں؟ اور اسکا طریقہ کیا ہو گا؟ کیا عورتیں بھی جماعت کے لیے اذان اور اقامت کہیں گی؟ نیز کیا امامت کے لیے عورت کا حافظہِ قرآن ہونا ضروری ہے؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-244)

سوال_نماز میں صف بندی کے مراتب کیا ہیں؟یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے مقتدی اپنی صفیں کس ترتیب سے بنائیں گے؟ کیا بچے پہلی صف میں کھڑے ہو سکتے؟ نیز اگر کوئی شخص اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھر میں جماعت کروائے تو وہ کس ترتیب سے کھڑے ہونگے؟ نیز کسی غیر محرم مرد ساتھ تنہا عورت کی جماعت ہو جائے گی؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-329)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Wuzu ke bad Sharamgaah par pani dalne ki Sharai haisiyat, kya bagair Chhinte ke wuzu nahi hoga?

Wuzu karne ka sahi tarika kya hai?

Sawal: wuzu karne ke bad Sharamgaah ki taraf chhinte marne ki sharai haisiyat kya hai? Agar koi Shakhs chhinte nahi marta hai to kya uska wuzu mukammal hoga?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-373"
سوال- وضو کرنے کے بعد شرمگاہ کی طرف چھینٹے مارنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اگر کوئی شخص چھینٹے نہیں مارتا تو کیا اسکا وضو مکمل ہو گا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں!

Published Date: 10-03- 2022

جواب!
الحمدللہ!

*وضو کے بعد شرمگاہ کی طرف (کپڑے کے اوپر سے یا کپڑے کے نیچے سے ) چھینٹے مارنا شرعی طور پر جائز اور درست ہے، یہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے، اور اس عمل کے ذریعے شیطانی وسوسے دور ہوتے ہیں، عموماً لوگوں کو شیطان کیطرف سے ایک وسوسہ آتا رہتا ہے وضو کے بعد یا نماز کے دوران کہ انکی شرمگاہ سے پیشاب وغیرہ کا قطرہ نکل گیا۔۔۔یا وہ نمی محسوس کرتے ہیں۔۔۔ جسکی وجہ سے وہ نماز توڑ دیتے ہیں اور دوبارہ استنجاء اور وضو کر کے نماز پڑھتے ہیں۔۔۔تو اس وسوسے سے بچنے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بہترین تدبیر بتلائی ہے کہ وضو کے بعد شرمگاہ کیطرف چھینٹے مار لیے جائیں تا کہ وسوسہ آنے پر اسے یہ خیال ہو کہ یہ پیشاب وغیرہ کے قطرے نہیں بلکہ جو وضو کے بعد پانی کے چھینٹے مارے تھے یہ اسکی نمی ہے۔۔ اور وہ اپنی نماز توجہ سے پڑھ سکے۔۔!*

دلائل ملاحظہ فرمائیں!

📚سنن ابوداؤد
کتاب: پاکی کا بیان
باب: شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے دینے کا بیان
حدیث نمبر: 166
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ هُوَ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ بْنِ الْحَكَمِ الثَّقَفِيِّ أَوِ الْحَكَمِ بْنِ سُفْيَانَ الثَّقَفِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَالَ يَتَوَضَّأُ وَيَنْتَضِحُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ وَافَقَ سُفْيَانَ جَمَاعَةٌ عَلَى هَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ الْحَكَمُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ ابْنُ الْحَكَمِ.
ترجمہ:
سفیان بن حکم ثقفی یا حکم بن سفیان ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  جب پیشاب کرتے تو وضو کرتے، اور  (وضو کے بعد)   شرمگاہ پر   (تھوڑا)   پانی چھڑک لیتے۔  
تخریج دارالدعوہ:
سنن النسائی/الطھارة ١٠٢ (١٣٤)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٨ (٤٦١)، (تحفة الأشراف: ٣٤٢٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٧٩) (صحیح  )  حاكم : 1/ 171]
↰ اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذھبی نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔

📚سنن ابوداؤد
کتاب: پاکی کا بیان
باب: شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے دینے کا بیان
حدیث نمبر: 167
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ هُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالَ ثُمَّ نَضَحَ فَرْجَهُ.
ترجمہ:
ثقیف کے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، ان کے والد کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو دیکھا کہ آپ نے پیشاب کیا، پھر اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکا۔  
تخریج دارالدعوہ:  انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: ٣٤٢٠) (صحیح  )

سنن نسائی میں بھی یہ روایت موجود ہے!

📚سنن نسائی
کتاب: پاکی کا بیان
باب: پانی کے چھڑکنے کا بیان
حدیث نمبر: 135
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏ح وَأَنْبَأَنَاأَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا قَاسِمٌ وَهُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْجَرْمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَكَمِ بْنِ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَتَوَضَّأَ وَنَضَحَ فَرْجَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ فَنَضَحَ فَرْجَهُ.
ترجمہ:
حکم بن سفیان ؓ کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، اور اپنی شرمگاہ پر پانی کا چھینٹا مارا۔ احمد کی روایت میں و نضح فرجه کی جگہ فنضح فرجه ہے۔  
تخریج دارالدعوہ:  انظر ما قبلہ (صحیح  )  
وضاحت: ١ ؎: 
حکم بن سفیان  ان کے نام میں اضطراب ہے، حکم بن سفیان، سفیان بن حکم، ابن ابی سفیان یا أبو الحکم کئی طرح سے آیا ہے، نیز کسی کی روایت میں عن أبيه ہے اور کسی کی روایت میں نہیں ہے، اس لیے ان کی یہ روایت اضطراب کے سبب ضعیف ہے، (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تحفۃ الأشراف: ٣٤٢٠  ) لیکن ابن ماجہ میں مروی زید اور جابر ؓ کی روایتوں سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہوجاتی ہے۔  
قال الشيخ الألباني:  صحيح  
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 135

📚سنن ابن ماجہ
کتاب: پاکی کا بیان
باب: وضو کے بعد (ستر کے مقابل رومالی پر) پانی چھڑ کنا۔
حدیث نمبر: 462
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِرْيَابِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيِه زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ عَلَّمَنِي جِبْرَائِيلُ الْوُضُوءَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَنِي أَنْ أَنْضَحَ تَحْتَ ثَوْبِي لِمَا يَخْرُجُ مِنَ الْبَوْلِ بَعْدَ الْوُضُوءِ. 
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ. ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ التَّنِّيسِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنِ لَهِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
ترجمہ:
زید بن حارثہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  جبرائیل  (علیہ السلام)  نے مجھے وضو سکھایا، اور مجھے اپنے کپڑے کے نیچے  (شرمگاہ)  پر چھینٹے مارنے کا حکم دیا کہ کہیں وضو کے بعد پیشاب کا کوئی قطرہ نہ آگیا ہو  (تاکہ چھینٹے مارنے سے یہ شبہ زائل ہوجائے) ١ ؎۔  
تخریج دارالدعوہ:
تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٣٧٤٥، ومصباح الزجاجة: ١٨٩)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٦١) (حسن)
🚫(سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر حسن ہے لیکن وأمرني أن أنضح تحت ثوبي کا لفظ ضعیف ہے اس کا کوئی شاہد نہیں ہے، البتہ فعل نبوی سے یہ ثابت ہے،
ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:  ١٣٤١ ، و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:  ٨٤١ ، صحیح أبی داود:  ١٥٩  )

📚سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو "نضح فرجہ"یعنی شرمگاہ پر پانی چھڑکتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ١٦٧/١ حدیث1775،وسندہ صحیح)

📚سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ جسم اور کپڑے کے درمیان پانی چھڑکتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ١٦٧/١، حدیث 1774،وسندہ صحیح)

📚محمد بن سیرین رحمہ اللہ (تابعی)جب وضو سے فارغ ہوتے تو"قال بکف من ماء فی ازارہ ھکذا"اس طرح ایک چلو پانی ازار(تہبند)میں ڈالتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ١٦٧/١، حدیث1780،وسندہ صحیح)

📚حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک آدمی نے شکایت کی کہ میں جب نماز میں ہوتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ میرے ذکر پر تری ہے تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
"قاتل الله الشيطان انه يمس ذكر الانسان فى صلاته ليريك انه قد احدث فاذ توضات فانضح فرجك بالماء فان وجدت قلت هو من الماء ففعل الرجل ذلك فذهب"
” اللہ شیطان کو غارت کرے وہ نماز میں انسان کی شرم گاہ کو چھوتا ہے تاکہ اسے یہ خیال دلائے کہ وہ بے وضو ہو گیا ہے، جب تم وضو کرو تو اپنی شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے مار لیا کرو۔ پس اگر تو ایسا خیال پائے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پانی ہے۔ تو اس آدمی نے ایسے ہی کیا تو یہ وسوسہ ختم ہوگیا۔ “
( عبد الرزاق 1/ : 1/ 151۔ 583۔)
(ابن ابي شيبة : 1/ 193۔ باب من كان اذا توضا نضح فرجه)

📚داؤد بن قیس فرماتے ہیں میں نے محمد بن کعب القرظی سے سوال کیا، (میں کیا کروں جب) میں جب وضو کرتا ہوں تو تری پاتا ہوں ؟“ انہوں نے کہا: ”جب تم وضو کر لو تو اپنی شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے مار لیا کرو، جب تمہیں ایسا وسوسہ آئے تو سمجھنا کی یہ وہی پانی ہے جس کے میں نے چھینٹے مارے ہیں۔ شیطان تجھے نہیں چھوڑے گا حتٰی کہ تیرے پاس آئے گا اور تجھے تنگ کرے گا۔ “ (عبدالرزاق : 152/1 )

_____&_____

*مذکورہ بالا احادیث اور آثارسے ثابت ہوا کہ وضو کے بعد اگر کوئی آدمی اپنی شرمگاہ پر تہہ بند اور شلوار وغیرہ کے اندر یا اوپر،شیطانی وسوسہ سے ازالہ کے لئے پانی کے چھینٹے مارے تو یہ شرعی طور پر درست ہے,*

* بعض علماء کرام نے یہاں پر شلوار یا تہبند کے اندر ڈائریکٹ شرمگاہ پر چھینٹے مارنے کی قید لگائی ہے جو بنا دلیل کے ہے، اصل مقصد شرمگاہ کو نمی پہنچانا ہے تا کہ وسوسہ ختم ہو۔۔  وہ کپڑے کے اوپر سے چھینٹے مار کر پہنچائیں یا کپڑے کے نیچے سے کوئی فرق نہیں،  اور ویسے بھی آجکل ازار یعنی تہبند وغیرہ بہت کم استعمال ہوتی ہے اور شلوار پہننے والے شخص کیلئے شلوار کے اندر پانی چھڑکنا مشکل کام ہے،*

*یہ ایک مسنون عمل ہے،جو وضو مکمل کرنے کے بعد کیا جاتا ہے اور اس پر عمل کرنے کا ثواب ہے اور اس کے علاوہ یہ عمل شیطانی وسوسے سے چھٹکارے کا علاج بھی ہے، بعض نے اسکی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ شرمگاہ پر پانی چھڑکنے سے پیشاب وغیرہ کے قطرے باہر نہیں نکلتے۔۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ احلیل مرد کا عورت کی طرح ہے، اور گائے وغیرہ کی چھاتی کی طرح ہے، جب پستان میں دودھ کو روکنا منظور ہوتا ہے، تو پانی چھڑک دیتے ہیں، اسی طرح شرم گاہ پر پانی چھڑکنے سے قطرہ رک جاتا ہے*

*عموماً شرمگاہ سے قطرے نکلنے کا  یہ مسئلہ یا وہم مردوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے، اگر کسی عورت کو ایسا کوئی مسئلہ ہو تو وہ بھی اس پر عمل کر سکتی ہے،*

*لیکن یاد رہے یہ عمل فرض نہیں اور اسکے بغیر بھی وضو مکمل ہے،جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص وضو کے بعد شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے نہ مارے تو بھی اس کا وضو مکمل ہے*

📚ایک دیہاتی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وضو کا طریقہ معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو تین تین مرتبہ اعضائے وضو دھو کر دکھائے۔ پھر فرمایا وضو اس طرح ہے۔ اب جو شخص اضافہ کرے اس نے برا کیا حد سے تجاوز کیا اور ظلم کا ارتکاب کیا۔
[سنن نسائی حدیث نمبر-140)
قال الشيخ الألباني:  حسن صحيح  
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 140
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابی داود/الطہارة ٥١ (١٣٥) مطولاً، سنن ابن ماجہ/فیہ ٤٨ (٤٢٢)، (تحفة الأشراف: ٨٨٠٩)، مسند احمد ٢/١٨٠ (حسن صحیح  )

📙 *واضح رہے اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی کو حقیقت میں پیشاب کے قطرے نکلنے کی بیماری ہو یا اچانک کسی کا پیشاب وغیرہ نکل جائے تو وہ جانتے بوجھتے  اسے وسوسہ بنا دے اور ناپاکی میں ہی نماز پڑھ لے، تو یہ جائز نہیں ہے، ہاں بیمار شخص کیلئے الگ احکامات موجود ہیں، کہ وہ شرمگاہ وغیرہ والی جگہ دھو کر یا ہو سکے تو لباس وغیرہ تبدیل کر کے ایک وضو سے ایک نماز مکمل پڑھ لے۔۔ اس دوران چاہے اسے حقیقی قطرے آتے رہیں وہ اپنی نماز مکمل کرے گا، اور دوسری نماز کیلئے پھر طہارت حاصل کرے گا، اسکی تفصیل ہم ان شاءاللہ ایک الگ سلسلہ میں بیان کریں گے*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

ماخذ محدث فورم :
( احکام ومسائل از مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ )
کچھ اضافے کے ساتھ

________&_____

📚سوال- شیطانی وسوسوں کے بارے شریعت میں کیا حکم ہے؟
کیا گندے وسوسوں اور خیالوں کا بھی انسان کو گناہ ملتا ہے؟ اور اگر نماز کے دوران گندے خیالات آئیں تو کیا نماز باطل ہو جائے گی؟ نیز دوران نماز اور عام حالات میں ان وسوسوں کے پیدا ہونے کی وجوہات اور ان سے بچنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
((جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-295))

📚سوال_ کن کن امور سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔۔؟
((جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-15))

____&_______

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Tamilnadu ke dalit Pariwar ne Hindu Dharm Chhor Islam Apnaya.

 जानिए क्यों तमिलनाडु के 8 दलित परिवारों ने इस्लाम धर्म अपना लिया।

आज कल एक खबर बहुत ही जोर शोर से फैलाई जा रही है के भारत के दक्षिण राज्य तमिलनाडु में आठ दलित परिवारों ने इस्लाम मजहब कुबूल कर लिया है।

यह उस वक्त हो रहा है जब हिंदुस्तान में कर्नाटक के यूनिवर्सिटीज में मुस्लिम लड़कियों को हिजाब पहनने पर पाबंदी लगा दिया गया है। कॉलेज के प्रशासन (इंतजामिया) ने यह खबर दी के शिक्षण संस्थानों में कोई भी मुस्लिम लड़की हिजाब या नकाब लगाकर नही आ सकती।

यह खबर आते ही मुस्लिम लड़कियां गुस्से में आ गई और उन्होंने कानूनी लड़ाई लड़ने की बात की। सभी मुस्लिम छात्राओं ने हिजाब के लिए प्रदर्शन भी किए। इस छात्राओं में मुस्कान खान का नाम सबसे ऊपर है जिन्होंने कुछ असामाजिक तत्वों का खुलेआम विरोध किया।

अब इस तरह तमिलनाडु में दलित परिवार के इस्लाम धर्म अपनाने की खबर भी आ गई है।

दक्षिणी तमिलनाडु के थेनी में आठ दलित परिवारों के चालीस लोगों ने इस्लाम कबूल कर लिया है। 

थेनी जिले के बोदिनायकनूर शहर के डोंबिचेरी गांव में कुछ दिन पहले इन दलित परिवार के लोगो ने दीन ए इस्लाम अपनाया, इस्लामिक विद्वानों ने उन्हें इस्लाम की शिक्षा दी और इस्लाम धर्म में कलमा पढ़ाकर उन्हें मुसलमान बनाया।

खास बात यह है के बोदिनायकनूर तमिलनाडु के पूर्व मुख्यमंत्री और अन्नाद्रमुक के वरिष्ठ नेता ओ पनीरसेल्वम का निर्वाचन क्षेत्र है। मुसलमान बनने वाले लोगो ने कहा कि उन पर ऊंची जाति के हिंदुओं द्वारा लगातार हमला किया गया, जो उन्हें निचली जाति की स्थिति का हवाला देते हुए स्थानीय रेस्तरां और रास्ते में चाय की दुकानों से चाय या कॉफी पीने की अनुमति नहीं देते हैं।

उन्हें हर तरह की परेशानियों का सामना करना पड़ता था। उन्हें एक इंसान से हटकर किसी अलग मखलूक के जैसा समझा जाता था। उन लोगो के जुल्म वो ज्यादती भी की जाती थी।

इन लोगो का यह भी कहना है के उन्हें बड़े जाती के लोग पिटा करते थे, उनकी लड़कियों के साथ बदतमीजी की जाती थी। दलित लड़कियों को छेड़े जाते थे।

उन दलित बहनों का कहना है के उनपर स्वर्ण जाती के लोग गंदे कॉमेंट्स और इशारे करते थे।

रहीमा जो पहले हिंदू दलित लड़की थी उनका पहले विरालक्ष्मी नाम था। 

उनका कहना है के "उन्हें पहले पिटा जाता था, उनकी पहले बेइज्जती की जाती थी, उन्हें छेड़ा जाता था, उन्हें गालियां दी जाती थी"। उन्होंने यह भी बताया के दलित लोगो को उन गलियों में चलने भी नही दिया जाता था जिन गलियों में ऊंची जाति के लोग रहते थे। हमारे मां बाप और दादा दादी को इस तरह का अपमान सहना पड़ा इसलिए हमलोगो ने फैसला किया के अब बहुत हो गया। अब हम मुसलमान है और यहां कोई इस तरह का भेदभाव नहीं है।

धर्म बदलने वाले लोगो ने बताया के उनपर हमेशा नियमित रूप से ऊंची जाति के लोग हमले किया करते थे और हर छह महीने पर डोंबुचेरी गांव में दलितों के खिलाफ हिंसा की कोई न कोई घटना सामने आती है।

रहीमा के पति मोहम्मद इस्माइल, जो पहले कलाइकनन थे उन्होंने बताया के पिछले साल 2021 में दिवाली के मौके पर ऊंची जाति के लोगो ने उनकी पिटाई की, इसी घटना के बाद उन्होंने इस्लाम धर्म अपनाने का फैसला कर लिया था।

उन्होंने बताया के उन्हें मोटरसाईकिल खरीदने की वजह से बुरी तरह से पीटा गया । मोहम्मद इस्माइल ने आगे बताया के तमिलनाडु में दलित परिवार बहुत मुसीबत में जिंदगी जी रहे है।

एक और दलित शख्स मोहम्मद अली जिन्ना जो 15 साल पहले दलित हिंदू थे उन्होंने बताया के इस्लाम धर्म अपनाने की वजह कुछ और नहीं बल्कि स्वर्ण जातियों का अत्याचार है। उन्होंने कहा के जब मैने इस्लाम धर्म अपना लिया तब से मैं ऊंची जातियों के अत्याचार से बचा हो। आज मैं जिस सड़क पर खड़ा हूं पंद्रह साल पहले उसपर चलने की इजाजत मुझे नहीं थी। 

इन्ही सारी वजहों से मैंने हिंदू धर्म छोड़ इस्लाम धर्म अपना लिया.

Share:

Kya Hijab Tarakki ki raah me rukawat hai, Islamic Parda aur Modern Culture.

Kya Hijab Aur Islamic Parda Tarakki Ki raah me rukawat hai?

Kya Hijab karne wali Khawateen Conservative hai?

Kya Sari Tarakki sirf Hijab aur Nakab hatane se hi mil sakti hai?

Kya Islam Muhabbat ka Dushman hai?

Islam Hamari Jaan aur Hijab Hamari Shaan. Ek Deeni Behan ka nara.

Musalmano ke Upar Europe Ka Cultural Dron.

Modern Culture ke Bam par Behyai failayi Ja rahi hai.

Muslim Khawateen ke Hijab se Liberalo ke Dimag par Shayed Parda pad gaya hai?

کیا حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ؟

تحریر حافظ عبدالسلام ندوی (مظفرپور،بہار)

کرناٹک کے اڈوپی میں حجاب کے تنازعہ نے جب سے سر اٹھایا ہے تب سے پوری دنیا میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ
کیا خواتین کے لئے حجاب یا پردہ مذہب اسلام میں
فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے یا پھر اس کی حد
محض مباح اور مستحب تک ہے، لیکن اس بیچ لبرلز کا
ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو حجاب اور پردہ کو خواتین
کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دے رہا ہے اور اسے
قدامت پرستی اور پسماندگی کی ایک علامت بتا
رہاہے، ان نام نہاد لبرل دانشوروں کی جماعت مسلم اور
غیر مسلم دونوں افراد پر مشتمل ہے، لیکن اس دعوی
میں کس قدر صداقت ہے اس کا اندازہ ہم ذیل کی
سطروں میں لگانے کی کوشش کریں گے.

اسلام نے خواتین کی تعلیم و ترقی کی راہ میں کسی
طرح رکاوٹ ڈالی ہے نہ ان پر علم کے دروازے بند رکھے ہیں بلکہ حجاب اور پردے کا مکمل خیال کرتے ہوئے یہ
حکم دیا گیا ہےکہ وہ مسجدوں، تعلیم گاہوں اور دینی
درس گاہوں کا رخ کریں اور اپنے علم کی پیاس بجھائیں.

یہی وجہ ہے کہ قرون اولیٰ میں مخدرات اسلام نے بے
شمار علمی کارنامے انجام دئےاور سب سے زیادہ مہتم
بالشان اور رفیع القدر علم، علم حدیث کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ان محدثات کی مکمل فہرست اور
سوانح حیات سے واقفیت حاصل کرنی ہو تو عالمی
شہرت یافتہ عالمِ دین ڈاکٹر اکرم ندوی کی 43 جلدوں
پر مشتمل تالیف"الوفاء بأسماء النساء"کی طرف رجوع
کیا جا سکتا ہے، جس میں دس ہزار سے زائد محدثات کا
تذکرہ جمیل جمع کیا گیا ہے.

ان میں سے بیشتر
محدثات نے علم حدیث کی تحصیل کے پیش نظر دور
دراز علاقوں کا سفر بھی کیا اور حدیث کے موضوع پر
تصنیف و تالیف کا کام بھی انجام دیا، کتب حدیث کی
شرح بھی لکھیں اور حدیث کی تعلیم کے ادارے بھی
قائم کیے، اور یہ تمام امور مکمل اسلامی حجاب کی
رعایت کرتے ہوئے انجام دیئے گئے، اور یہ سلسلہ صرف
عهد اوائل اسلام اور قرون مشھود لھا بالخیر تک ہی
محدود نہ رہا بلکہ تاہنوز جاری ہے، دور جدید میں بھی
ایسی بے شمار مسلم خواتین ہیں جنہوں نے حجاب میں
رہتے ہوئےترقی کے اعلی منازل طے کئے اور اکیسویں
صدی میں بھی حجاب کی مکمل رعایت کرتے ہوئے وہ
بے شمار کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں، ذیل میں ہم
ان ہی میں سے چند باکمال باحجاب خواتین کا مختصر تفصیل کے ساتھ تذکرہ کرتے ہیں.

اس فہرست میں سب سے پہلا نام حلیمہ یعقوب کا
ہے، جو آزاد ملک سنگاپور کی پہلی خاتون صدر
ہیں، حلیمہ یعقوب نسلی طور پر بھارتی مسلمان ہیں
، 2017ء میں صدارت کی کرسی پر براجمان ہونے سے
قبل وہ رکن پارلیمان بھی رہ چکی ہیں،حلیمہ یعقوب نے سیاست کے اس طویل اور پر خار سفر میں کبھی اپنے آپ کو بے پردہ نہیں رکھا اور ہمیشہ حجاب کو اوڑھے
رہیں وہ آج بھی حجاب پہنتی ہیں اور ملک کا نظم و
نسق بھی اسی حالت میں سنبھالتی ہيں، سوال یہ ہے
کہ اگر حجاب محض انتہا پسندی اور پسماندگی کی
علامت ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ ایشیا پیسیفک خطے
کے 39 ممالک میں اول درجہ حاصل کرنے والے ملک کی صدارت کے عہدے پر ایک باحجاب خاتون فائز ہوتیں؟

اس فہرست میں دوسرا نام مشہور امریکی سیاستدان
الہان عبداللہ عمر کا ہے، جو 2019 عیسوی میں امریکی ریاست مینیسوٹا سے منتخب ہونے والی مسلمان رکن کانگریس ہيں، الہان اصلا صومالیہ سے علاقہ رکھتی ہیں، انہوں نے ابتدا ہی سےحجاب اور مکمل پردے میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور سیاست کی دنیا میں قدم
رکھنے کے بعد بھی اپنے لئے حجاب کو باعث فخر سمجھا.

اس وقت وہ محض 37 سال کی ہیں لیکن پوری دنیا ان کی علمی و تخلیقی صلاحیتوں کا قائل ہے، اگر حجاب قدامت پرستی کی علامت ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ایوان میں ایک باحجاب مسلم خاتون الہان عمر منتخب ہو کر آتیں؟

تیسرا نام طاہرہ شیریں رحمان کا ہے جو 2018 عیسوی
میں امریکی مقامی ٹیلی وژن میڈیا میں پہلی حجاب
پہننے والی آن ایئر رپورٹر بنی ہیں، طاہرہ رحمان رپورٹر بننے سے قبل پروڈیوسر بھی رہ چکی ہیں،انہوں نے ایک
انٹرویو میں اپنی زندگی کے تلخ تجربات کو بیان کرتے
ہوئے ہوئے کہا کہ حجاب پہننے کے سبب ہمیشہ میری
حوصلہ شکنی کی گئی، مجھےقدامت پسند اور بنیاد
پرست کہا گیا لیکن میرے عزائم متزلزل نہیں ہوئے اور
میں نے حجاب کے ساتھ ہی ترقی کے تمام مدارج طے
کرنے کا عہد کیا، میں بقیہ مسلم خواتین کو بھی یہ
نصیحت کرتی ہوں کہ وہ حجاب کو اپنے لئے فخر کا
باعث سمجھیں اور اپنے خوابوں کی تکمیل میں اسے
رکاوٹ نہ باور کریں.

اس ضمن میں چوتھا نام ویرونا کلیکشن نامی مشہور
امریکی برانڈ کی شریک بانی لیزا ووگل کا ہے، لیزا ووگل نے2010 عیسوی میں اسلام مذہب قبول کیا اور پھر
حجاب پہننے لگیں، لیکن انہیں شدید طور پر اس بات
کی کمی محسوس ہوئی کہ مسلم خواتین کے
لیے
مارکیٹ میں ایسے حجاب معدوم ہیں جو اسلامی
تقاضوں کو پورا کرتے ہوں، چنانچہ اس ضرورت کی
تکمیل کے لئے انہوں نے ویرونا کلیکشن کا آغاز کیا اور وہ
آج امریکہ کے بڑے تاجروں میں سے ایک شمار ہوتی ہیں.

مذکورہ چاروں خواتین کے علاوہ بے شمار ایسے نام اس
فہرست میں درج کیے جاسکتے ہیں جو حجاب میں رہتے
ہوئے بھی عالمی سطح پر خدمات انجام دے رہی ہیں.

لیکن اس عجالہ نافعہ میں اس کی گنجائش
نہیں، خلاصۃ المقال یہ کہ حجاب خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ محافظ ہے، یہ قدامت پرستی کی علامت نہیں بلکہ عصمت و عفت کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے

مس ورلڈ کی زبان سے کیا حجاب ترکی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

اسلام مخالف تحریکیں ماڈرن کلچر کے نام پر پھیلایا جا رہا ہے؟

جب برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر کی بیوی نے حجاب کی اور دوسری خواتین کو بھی ایسا ہی کرنے کو کہا۔

مسلم خواتین حجاب کے لیے کیوں احتجاج کر رہی ہے اور انکا کیا خیال ہے پردے کو لئے کر؟

Share:

Muslim Auratein Chehra Dhankti Hai Dimag nahi, Coronavirus se Kya nahi sikha ke Hijab aur Nakab kya hai?

Kya unlogo ne Coronavirus se nahi sikha ke Hijab aur Nakab kya hai?

Muslim Khawateen Chehre Cover karti hai Dimag nahi.

Muslim Ladkiyo ke Hijab se Kya Pareshani hai Kuchh logo ko?

Jab Brtish PM Tony Blair ki Biwi ne Hijab pahanane Ka Announce kiya?

#we cover our Body not Brain
#Hijab #Nakab #Sharai Parda #Islamic Parda #Islamic Rule.


کیا اُن لوگو کے دماغ پر پردہ پڑ گیا ہے جو لوگ آج حجاب اور نقاب کے حلاف بول رہے ہیں؟

اسلام کی شہزادیاں حجاب کے لیے آج کیوں لڑ رہی ہے؟

کیا اسلام محبت کا دشمن ہے؟

اسلامک تہذیب و ثقافت کے اوپر یورپ کا کلچرل ڈرون کیسے گرایا جا رہا ہے؟

ایک بہن کا اعلان: اسلام ہماری جان اور حجاب ہماری شان۔

حجاب کیا ہے کرونا سے بھی نہیں سیکھا ؟؟

تم کو اسلام دشمنی نے گونگا ، بہرا ، اندھا کردیا ہے ، تمھاری عقل و فہم پر پردہ پڑ گیا ہے ، تمہارا شعور ماؤف ہو چکا ہے - جانورں کو عقل نہیں اس لیے ان کو ننگا پھرنے میں شرم و حیا اور عار نہیں اور تم تو انسان ہو مگر تمہاری اسلام دشمنی نے تم کو جانوروں سے بھی بدتر بنا دیا ہے -

شرم و حیا اور لجا ، پاکدامنی اور عفت و عصمت کی حفاظت صرف اسلام ہی نہیں ہر مہذب قوم  کا شعار ہے اور ہندوستانی تہذیب بھی  -

حجاب اور پردہ کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے ، اس کی شکلیں الگ الگ ہو سکتی ہیں مگر نفس حجاب و پردہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا -

کیا گھونگھٹ نکالنا ، چادروں سے بدن چھپانا پلو اور آنچل کا سر پر رکھنا ہندی خواتین کی ریتی و خصلت نہیں ہے ؟

چونکہ مسلمانوں کے یہاں رائج حجاب ( برقعہ ) سے پورا بدن اچھی طرح چھپ جاتا ہے اس لیے عموماً اسی کو استعمال میں لایا جاتا ہے - حجاب و پردہ سے انکار وہی کرے گا جو بے غیرت و بے حیا ہوگا -

روزانہ زنابالجر ( ریپ ) کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی ہوس کا شکار ہو رہی ہیں.

باپ بیٹی اور بھائی بہن کا رشتہ بھی تار تار ہوتا نظر آرہا ہے کیا یہ بے پردگی ،  بے حیائ اور بے روک ٹوک اختلاط مرد و زن کا شاخسانہ اور سیکس فری کا برا انجام نہیں ہے ؟

کیا میڈیکل سائنس نہیں بتایا کہ مہلک بیماری ایڈس ( AIDS) کی سب سے بڑی وجہ ناجائز طریقے سے مرد و عورت کا آپس میں جسمانی تعلق قائم کرنا ہے۔

حالانکہ  اسلام نے چودہ سو سال پہلے اس کی سخت مذمت کی اور اس کے خطرناک انجام سے ڈرایا -

2019 ء کے آواخر میں کرونا وائرس قہر بنکر آیا اور میڈیکل سائنس کی چولیں ہلا کر رکھ دی مگر سب سے پہلے حفاظتی تدابیر یہ بتایا کہ بار بار ہاتھوں کو دھوتے رہیں پھر تو چوک چوہارے میں کھڑے ہوکر پولیس کرمیاں بھی ہاتھ دھونے کی تحریک شروع کردی ، میڈیا والے بھی خوب زور شور سے پرچار کرنے لگے پھر بھی تم کو ہوش نہیں آیا کہ دن رات میں پانچ مرتبہ وضو کر نے کے فوائد کیا ہیں؟

جس کی تعلیم اسلام نے چودہ سو سال پہلے دے چکا ہے -

ماسک لگانے کی تحریک بھی خوب چلی اور ڈاکٹروں نے تو سر سے پیر تک خاص حفاظتی لباس پہن کر علاج و معالجہ کا کام انجام دئیے اور دے رہے ہیں پھر بھی تمہاری عقل پر پردہ ہی پڑا رہا اور سمجھ نہ سکے کہ حجاب و پردہ کی اہمیت کیا ہے ؟

یہاں تک کہ سبھی ڈاکٹروں نے عوام سے گذارش کیا کے آپ لوگ پورے جسم ڈھکنے والے کپڑے پہنیے تاکہ وبا جسم پر نہیں پڑےگی اور نہیں ناک اور منہ کے ذریعے اندر جائےگی۔ 

اسی وجہ چہرے ڈھانکنے کے لیے ماسک پہننے کے لئے درخواست کیا گیا۔

یاد رکھیں ! قانون فطرت سے بغاوت نہ کر ورنہ  ایڈس اور کرونا وائرس  سے بھی زیادہ خطرناک صورت میں اس کا اثر ظاہر ہوگا اور تمہاری ساری نفرتیں جو مسلم عورتوں کے حجاب، پردہ اور نقاب سے ہے خاک میں مل جائے گی -

منقول۔    ریاض احمد قددری

Share:

Musalmano ke Upar Europe Ka Cultural Dron، Islamic Parda aur Aaj ka Modern Burqa.

Musalmano Par Liberal gang ka Cultural Dron.

Islamic Parda aur Aaj ki Muslim ladkiyaan.

ﺑِﺴــــــــْــﻢِﷲِﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦِﺍلرَّﺣِﻴـــــــــﻢ

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

دورِ جدید کا فیشن دار برقعہ...پردہ یا فتنہ؟

جو برقعہ عورت کے پردہ اور زیب و زینت کو چھپانے کے لیۓ تھا، آج وہی برقعہ بےحیائی کو دعوت دینے اور خود کو غیر مردوں کے لیے نمائش کا ذریعہ بنایا جارہا ہے.

چمک دمک اور جسم کے نشیب و فراز کو ظاہر کرنے والا یہ برقعہ پردہ نہیں بلکہ کھلی بےپردگی ہے.

آج حجاب کے نام پر کیسے کیسے فیشن متعارف کیۓ جارہے ہیں بجاۓ عورت کو ڈھاپنے کے مزید عریاں کررہی ہے، ذرا سوچیں!!
کیا یہ وہی پردہ ہے جس کا قرآن نے حکم دیا ہے؟؟

 قرآن مجید میں آیا ہے۔ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِھِنَّ

حضرت عبداللہ بن عباس کے بہ قول ”جلباب“ اس چادر کو کہا جاتا ہے جو اوپر سے لے کر نیچے تک پورے جسم کو چھپائے، لغت ِ عرب میں بھی ”جلباب“ اس چادر کو کہا جاتا ہے جو پورے بدن کو چھپالے نہ کہ وہ چادر جو بعض جسم کو چھپالے۔

 گھر کے مرد حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے گھروں کا جائزہ لےکر اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں، ماؤں کو شرعی پردہ کروائیں کہ برقعہ ڈھیلا ڈھالا ہو بالکل سادہ ہو، نہ اس میں کسی قسم کی چمک دمک ہو اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی ڈیزائن ہو کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، (کہ تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا) لعنت ہو ان مردوں پر جن کے گھر سے عورتیں بے پردہ ہوکر نکلتی ہیں.

اکبر الہ آبادی نے ایسے مردوں کو کیا خوب کہا ہے۔

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

 پردہ عورتوں کو عزت و عصمت عطا کرتا ہے.

نامحرم مردوں کو حریص نظروں سے بچاتا ہے، سادگی اپنائیں سادگی ایمان کا حصہ ہے، اسلام نے بگاڑ کے ہر راستہ کو بند کرکے اس پر روک لگادی.

اس نے لازم کیا کہ حتی المقدور حجاب میں رہیں، جسم کے نمائش اور کہلی آزادی سے پرہیز کریں۔

فاجر و فاشکو کے نعرے نہیں لگائے بلکہ اسلامی طریقے کے مطابق خود کو ڈھالیں۔
میرا جسم میری مرضی والے بد اخلاقی نعرے نہیں لگائے۔ یہ جسم ایک دن اسی طرح خاک میں مل جانا ہے پھر اس کا انجام کیا ہوگا شاید ہی آپ سب کو معلوم ہو؟

مغربی لباس کو جدید اور اسلامی لباس کو قدامت پسند اور انتہا پسند سمجھنا چھوڑ دیں کیونکہ مرنے کے بعد کوئی ماڈرن اور لبرل لباس آپ کو نہیں ملے گا بلکہ وہ سفید رنگ کا کفن۔

میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والے یہود و نصرانی کی پیروی کر رہے ہیں، اُنکی مشاہبت اختیار کر رہے ہے اور اسلامک نظام، اسلامک تہذیب و ثقافت، شریعت کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ اُن کا خود کو آزاد خیال بتانا اور دینی بھائیوں کو دقیانوسی اور قدامت پسند بتانا یہ ثابت کرتا ہے کے انہوں ایک بنے بنائے منصوبے کو انجام دینا شروع کر دیا ہے ۔

حقیقی رشتہ کے علاوہ تمام لوگوں سے پردہ کرنا ضروری قرار دیا تاکہ فتنہ کا سبب نہ بنے۔

الله رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تمام فتنوں سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین
اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے یا پھر اسے تباہ کر دیں جو اسلامک ریاست، مسلمانوں کے اندر بے حیائی، فحاشی ، بد اخلاقی اور ہم جنسیت پھیلا رہے ہیں۔

دھل جائیگی تیری یہ جوانی جس کا تجھ کو ناز ہے
تو بجا لے چاہئے جتنا چار دن کا ساز ہے۔

۔   پاگل کسے کہتے ہیں؟
ـ
جو ہوش گنوا بیٹھے؟
جو روڈ پہ جا بیٹھے؟
جو مانگ کے کھا بیٹھے؟
جو بھوک چھپا بیٹھے؟

کہتے ہیں اسے پاگل؟
بے شرم پھرے جو وہ؟
ٹھوکر سے گرے جو وہ؟
شکوہ نہ کرے جو وہ؟
بے موت مرے جو وہ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہے کون بھلا پاگل؟ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ننگا ہو بدن جس کا
گندا ہو رہن جس کا
آزاد ہو من جس کا
خالی ہو ذہن جس کا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کیا اس کو کہیں پاگل؟ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گھر بھول گیا ہو جو
در بھول گیا ہو جو
زر بھول گیا ہو جو
شر بھول گیا ہو جو
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وہ شخص ہے کیا پاگل؟ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عزت سے ہو ناواقف
ذلت سے ہو ناواقف
دولت سے ہو ناواقف
شہرت سے ہو ناواقف
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا اس کو کہیں پاگل؟ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تم بات میری مانو
جو سچ ہے اسے جانو
اس گول سی دنیا میں
صرف ایک نہیں پاگل
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ اور بھی ہیں پاگل  
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جو ماں کو ستاتا ہے
دل اس کا دکھا تا ہے
جو باپ کے اوپر بھی
جھٹ ہاتھ اٹھا تا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وہ شخص بھی ہے پاگل 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جو رب کو بھلا بیٹھا
جو کرکے خطا بیٹھا
دولت کے نشے میں جو
جنت کو گنوا بیٹھا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وہ شخص بھی پاگل ہے 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جو علم نہ سیکھے وہ
جو دین نہ جانے وہ
جو خود کو بڑا سمجھے
جو حق کو نہ مانے وہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہے وہ بھی بڑا پاگل  
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دنیا میں جو کھویا ہے
غفلت میں جو سویا ہے
جو موت سے ہے غافل
جو عیش کا جویا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کو بھی کہو پاگل

Share:

Kya Walidain me se koi ek Razi na ho to Nikah jayez Ho sakta hai, Shadi ke Liye Aurat Ka Chehra Dekhna Sahi ya Galat?

Agar Gharwale Shadi se Inkar kare to Kya karna chahiye?

Kya walidain (Parents) ke bagair Ijazat ke Shadi kar Sakte hai?

Agar Maa aur Baap dono me se Koi ek raji na ho to kya Nikah ho sakta hai?


Sawal: Mujhe Ek Aurat Bahut Pasand hai Jiska maine Aaj tak Chehra bhi nahi dekha aur jab Maine rishte ki baat ki tab unke (Aurat) walidain me Ek razi hai aur ek nahi.
Ab mai soch Me pad gya hoo ke ab kya karoo. Kaise usko razi karoo. Agar koi Qurani zikr ho to bataye taki mai Zikr karoo.

Waldain ke Bagair Ijazat ke Shadi karna

Modern Culture Ke nam par Islam se bagawat karna.

Muslim Ladkiyaan Gair Muslim Ladko ke sath kyu Bhag rahi hai?

Jab British PM Tony Blair ki biwi ne Hijab kiya aur Dusri Aurato ko bhi Aisa karne ko kaha.

Muslim Ladkiyaan Hijab ke liye Kyu Protest kar rahi hai?

اسلام علیکم امابعد۔
مجھے کچھ باتوں کا جواب چاہیۓ جو اسلام و صیح حدیث سے واضح ہو۔

تو سوال میرا یہ تھا کہ مجھے ایک عورت بہت پسند
جس کا میں نے اج تک منہ بھی نہیں دیکھا۔ اور جب
میں نے رشتے کی بات چھیڑ دی تو ان کے والدین میں
ایک راضی ہے اور ایک نہیں۔
اور اب میں سوچ میں پڑھ گیا ہوں کہ اب کیا کروں۔
کیسے ان کو راضی کروں یہ کوٸ قرآنی زکر ہو تو مجھے وہ بتایٸن تا کہ میں زکر کروں ۔ مجھے قرآن کے مطابق جواب ملے۔

۔...................................................................

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

: مسز انصاری

سلام درست لکھا کریں پیارے اخی ۔۔۔ الف کے بعد س
سے پہلے لام ملائیے
اسلام علیکم ❌
السلام علیکم✔

آپ نے ایک غلطی کی معزز اخی کہ رشتہ کی بات آگے
بڑھانے سے پہلے لڑکی کو نہیں دیکھا ، جبکہ اسلام مرد کو نکاح کے لیے کچھ قیود کے ساتھ لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے ۔ چنانچہ سیدنا ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا تو ایک
شخص نبی صلی اللہ علیہ کے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے :

کیا تم اسے دیکھا ہے ؟ وہ کہنے لگا نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اسے جا کر دیکھو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے ۔

[ صحیح مسلم حدیث : 1424 /سنن دار قطنی ( 3 /
253 ) ( 34 ) ]

اور ایک روایت میں ہے کہ :
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے
بنوسلمہ کی ایک لڑکی سے منگنی کی اور میں اسے
دیکھنے کے لیے کھجور کے تنوں میں چھپ جایا کرتا تھا حتی کہ میں نے اس سے نکاح کی رغبت دیکھی تو اس سے شادی کرلی ۔

[ صحیح سنن ابوداود حدیث : 1832/ 1834 ]

رہی بات کہ اب لڑکی کے والدین میں سے ایک راضی
نہیں ہے ، تو میرے رجحان کے مطابق یہ وقت غنیمت ہے کہ آپ دو کام کریں :

- یہ کہ سب سے پہلے لڑکی کو ایک نظر ضرور دیکھیے ۔
- دیکھنے کے بعد بھی اگر آپ کا دل اسی کی طرف مائل
ہو تو پھر استخارہ کیجیے ، بے شک استخارہ کرنے والا
شرمندہ نہیں ہوتا ، اور استخارہ کسی اندھے کنویں کی
مثل معاملہ کے منفی اور مثبت پہلو کھول کھول کر
سامنے رکھ دیتا ہے ، تب اللہ تعالیٰ مثبت راہ کی طرف
چلنے میں اپنے بندے کی مدد فرماتا ہے ۔

ان شاءاللہ العزیز ان دو کاموں کے بعد اللہ تعالیٰ آپ کے لیے بھلائی کی صورت پر آپ کے دل کو اطمینان عطا فرمائے گا ، اگر نتیجہ آپ کی سوچ اور خواہش کے
برعکس ہو تو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر مسلمان کو قدم
جما دینے چاہییں ، وہ اللہ اپنی طرف مائل سائل کو
اندھیروں سے بچا لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت بندے
کی چاہت پر نہیں بلکہ بندے کی فلاح و بقا کے لیے ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی کی مدد فرمائے اور اسے وہی عطا
فرمائے جو اس کے دین اور دنیا کی بھلائی کے لیے سود مند ہو ۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین -

کیا اسلام محبت کا دشمن ہے، ویلنٹائن ڈے منانے شریعت کے نظر میں؟

14 فروری کو کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس دن کو ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں؟

آپی میرا والا ایسا نہیں ہے دیکھنا وہ مجھے شہزادیوں کے جیسا رکھے گا۔

کیا آپ بھی کسی کی بہن کو پھول دیے ہیں یہ دینے والے ہے؟

Share:

Sh bin baz has started that a woman cannot pass in front of a praying man 3 arms length if he has no sutra. Is it a distance of 3 forearms or 3 full arms and do i cOunt itfrom myfeet position or Sujood position?

Can anybody Pass in front of a Person who is praying?

QUESTION: Sh bin baz has started that a
woman cannot pass in front of a
praying man 3 arms length if he has
no sutra. Is it a distance of 3
forearms or 3 full arms and do i
cOunt itfrom myfeet position or
sujud position?

ANSWER: It's not permissible to pass in
between the standing position and
the sujood place ofa person
praying.

Sheikh Assim Al-Hakeem

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS