find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts sorted by date for query Palestine. Sort by relevance Show all posts
Showing posts sorted by date for query Palestine. Sort by relevance Show all posts

Islamic History: Yazid (Yazeed) ki maut ke bad sahaba me ikhtelaf kyo hua? Yazeed ke maut ke bad ka daur.

Yazeed ki maut ke bad Sahaba me ikhtelaf kyo aur kaise hua!

Sawal: Hazrat Abdullah Bin Jubair R. Z. Ki khilafat ka Aagaz aur Ikhatataam (End) kaise hua? Unka banu Umaiyya se kya ikhtelaf tha? Yazeed ki maut ke bad Ikhtelaf ki kya Nawaiyyat thi?
Aaj Palestine ki Madad ke liye Musalman taiyyar kyo nahi?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-218"
سوال_حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کی خلافت کا آغاز اور اختتام کیسے ہوا؟ اور ان کا بنو امیہ سے کیا اختلاف تھا؟ نیز یزید کی موت کے بعد اختلافات کی کیا نوعیت تھی؟

Published Date:9-3-2019

جواب:
الحمدللہ:

*جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر*
*87٫88،92٫96٫102 131،133٫134، 139،145،151،156,166*
*میں سب سے پہلے ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول پڑھے پھر یہ پڑھا کہ خلافت کی شروعات کیسے ہوئی؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، اور یہ بھی پڑھا کہ واقعہ فدک کی حقیقت کیا تھی؟ اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی شہادت کیسے ہوئی، اور پھر سلسلہ 133٫134 میں ہم نے پڑھا کہ تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟ اور دور عثمانی کی باغی تحریک کیسے وجود میں آئی؟ انہوں نے کس طرح عثمان رض کو شہید کیا اور صحابہ کرام نے عثمان رض کا دفاع کیسے کیا؟اور پھر سلسلہ نمبر-139 میں ہم نے پڑھا کہ باغی تحریک نے کس طرح عثمان غنی رض پر الزامات لگائے اور انکی حقیقت بھی جانی،  اور پھر سلسلہ_145 میں ہم نے پڑھا کہ عثمان غنی رض کو شہید کرنے کے بعد فوراً صحابہ نے باغیوں سے بدلہ کیوں نا لیا؟ چوتھے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟*
*کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی؟اور کیا علی رض  باغیوں سے بدلہ لینے کے حق میں نہیں تھے؟اور کیا علی (رض) نے عثمان رض کے قاتلوں کو خود حکومتی عہدے دیے تھے؟ اس ساری تفصیل کے بعد سلسلہ نمبر-151 میں ہم نے جنگ جمل کے بارے پڑھا کہ وہ جنگ* *باغیوں کی منافقت اور دھوکے کہ وجہ سے ہوئی تھی، جس میں باغیوں کی کمر تو ٹوٹی مگر ساتھ میں بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے، اور پھر سلسلہ نمبر_156 میں ہم نے جنگ صفین کے بارے پڑھا کہ جنگ صفین کیسے ہوئی،اسکے اسباب کیا تھے، اور پھر مسلمانوں کی صلح کیسے ہوئی اور پھر سلسلہ نمبر-166 میں ہم نے جنگ صفین کے بعد واقع تحکیم یعنی مسلمانوں میں صلح کیسے ہوئی، کون سے صحابہ فیصلہ کرنے کے لیے حکم مقرر کیے گئے اور حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے مابین تعلقات کیسے تھے،*
*اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر-171 میں ہم نے  یہ پڑھا کہ خوارج کیسے پیدا ہوئے اور باغی جماعت میں گروپنگ کیسے ہوئی؟
خوارج کا نقطہ نظر کیا تھا؟*
*حضرت علی نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟خوارج سے جنگ کے نتائج کیا نکلے؟اور بالآخر مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟*
*اور سلسلہ نمبر 176 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی (رض) کیسے شہید ہوئے؟ حضرت علی (رض) کی شہادت کے وقت صحابہ کرام اور باغیوں کے کیا حالت تھی؟حضرت علی( رض) کی شہادت پر صحابہ کے تاثرات کیا تھے؟حضرت علی(رض) کے دور میں فرقوں کا ارتقاء کیسے ہوا؟حضرت علی (رض) کی خلافت کس پہلو سے کامیاب رہی؟حضرت علی (رض) کے دور میں بحران کیوں نمایاں ہوئے؟ اور اسی طرح سلسلہ نمبر 181 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی رض کی شہادت کے بعد خلیفہ کون بنا؟ حضرت حسن اور معاویہ رض کا اتحاد کن حالات میں ہوا؟
اس کے کیا اسباب تھے اور اس کے نتائج کیا نکلے؟اور کیا معاویہ رض نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا تھا؟اور حضرت معاویہ کی کردار کشی کیوں کی گئی؟ معاویہ پر کیا الزامات عائد کیے گئے اور ان کا جواب کیا ہے؟ اور حضرت معاویہ نے قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟سلسلہ نمبر-188 میں ہم نے پڑھا کہ کس طرح باغی راویوں نے جھوٹی روایتوں سے یہ مشہور کر دیا کہ حضرت امیرمعاویہ (رض) خود بھی حضرت علی (رض) پر سب وشتم کرتے اور اپنےگورنروں سے بھی کرواتے تھے، اور سلسلہ نمبر-194 میں ہم نے استلحاق کی حقیقت جانی،اور پھر سلسلہ نمبر-197 میں ہم نے پڑھا کہ باغی راویوں نے امیر معاویہ رض پر جو الزامات لگائے انکی کیا حقیقت تھی؟ جیسے کہ کیا حضرت امیر معاویہ (رض ) کے گورنر رعایا پر ظلم کرتے تھے؟اور کیا معاویہ (رض) نے عمار (رض) کا سر کٹوایا تھا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا واقعی حضرت معاویہ رض نے حسن (رض) سمیت سیاسی مخالفین کو زہر دلوایا تھا؟اور پچھلے سلسلہ نمبر-201 میں ہم نے پڑھا کہ کیا حضرت امیر معاویہ رض نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا تھا؟*اور کیا یزید کو مشورے کے بنا زبردستی ولی عہد مقرر کیا گیا؟اور کیا یزید بے نماز،شرابی اور ہم جنس پرست تھا؟ اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر 205 میں ہم نے پڑھا  کہ کیا بنو ہاشم اور بنو امیہ ایک دوسرے کے دشمن تھے؟ اور حضرت علی(رض)کی بنو امیہ کے بارے کیا رائے تھی؟اور کیا معاویہ (رض) نے غزوہ بدر کا انتقام جنگ صفین کی صورت میں لیا؟اور کیا معاویہ(رض) نے بنو امیہ کا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے زیادہ حکومتی عہدے اپنے لوگوں کو دیے؟اور یہ کہ معاویہ(رض) کا دور حکومت خلافت کا دور تھا یا ملوکیت کا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا خلافت صرف حضرت علی(رض)  تک قائم رہی؟اور  سلسلہ نمبر-208 میں ہم نے معاویہ (رض ) کے فضائل و مناقب صحیح حدیث سے پڑھے، اور ناقدین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا ،آپکے شاندار  کارنامے پڑھے اور آخر پر یہ بھی پڑھا کہ صحابہ کرام کی آپکے بارے کیا رائے تھی؟* اور پچھلے سلسلہ نمبر-211 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی اصل نوعیت کیا تھی؟سانحہ کربلا کیسے وقوع پذیر ہوا؟ سانحہ کربلا کا ذمہ دار کون تھا؟سانحہ کربلا کے کیا نتائج امت مسلمہ کی تاریخ پر مرتب ہوئے؟دیگر صحابہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شمولیت اختیار کیوں نہ کی؟یزید نے قاتلین حسین کو سزا کیوں نہ دی؟شہادت عثمان کی نسبت شہادت حسین پر زیادہ زور کیوں دیا گیا؟ اور سانحہ کربلا کے بارے میں بعد کی صدیوں میں کیا رواج پیدا ہوئے؟ اور سلسلہ نمبر-215 میں ہم نے پڑھا کہ سانحہ کربلا کے بعد  دوسرا بڑا سانحہ حرہ کیسے پیش آیا؟
کیا یزید کے حکم سے مدینہ میں خواتین کی عصمت دری کی گئی؟ کیا یزید نے مکہ پر حملہ کر کے بیت اللہ جلایا؟یزید کے بارے ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟
اور آخر پر باغی تحریک نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟؟

آج کے سلسلہ میں ہم پڑھیں گے ان شاءاللہ

*حضرت عبداللہ بن زبیر(رض) کی خلافت*

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت سے متعلق زیادہ سوالات نہیں ہیں۔ آپ ایک جلیل القدر صحابی ہیں، آپ کے والد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ،  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے "حواری" اور والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما  کو "ذات النطاقین" کا خطاب دیا۔ انہی سیدہ اسماء نے ہجرت نبوی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کھانے کا انتظام کیا۔  ابن زبیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے اور ان کے علاوہ اپنی خالہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے تربیت یافتہ تھے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو کچھ ماہ تک مسلمانوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہوا۔ اسلام دشمنوں نے یہ مشہور کر دیا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کر دیا ہے اور ان کی تعداد میں اب اضافہ نہ ہو سکے گا۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما 1/622 میں پیدا ہوئے اور تمام صحابہ نے اس پر خوشی منائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گود میں لے کر کھجور چبا کر ان کے منہ میں ڈالی۔

خلفائے راشدین کے دور میں آپ نے ایک نوجوان کی حیثیت سے نمایاں علمی اور عسکری کارنامے  انجام دیے۔  عہد صدیقی میں جنگ یرموک میں اہم کارنامے انجام دیے۔ عہد عثمانی میں قرآن مجید کی کاپیاں بنانے کے کام میں شریک رہے اور افریقہ کی مہم میں شریک ہوئے۔ خلیفہ مظلوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے موقع پر ان کی حفاظت کی اور  جنگ جمل میں مالک الاشتر سے براہ راست مقابلہ کیا۔  حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں آپ افریقہ اور قسطنطنیہ کی مہمات میں شریک تھے۔

اصاغر صحابہ میں چار افراد ایسے تھے جو عبادت، زہد و تقوی اور علم دین میں غیر معمولی مقام رکھتے تھے اور اتفاق سے ان چاروں کا نام عبداللہ تھا۔ اس وجہ سے یہ عباد لہ (عبداللہ کی جمع) کہلاتے تھے۔ یہ ابن عمر، ابن عباس، ابن عمرو بن عاص اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم تھے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ابن زبیر اب ساٹھ سال کے ہو چکے تھے۔ انہوں نے یزید کی حکومت کو پسند نہیں کیا اور اس کی بیعت نہیں کی۔ آپ مکہ مکرمہ میں مقیم رہے تاہم آپ نے حکومت کے خلافت بغاوت بھی نہیں کی۔ جیسا کہ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ سرکاری افواج نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا جو کہ کئی دن جاری رہا مگر ابن زبیر نے صرف اپنا دفاع ہی کیا۔ یزید کی وفات کے بعد ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور سوائے شام کے، تقریباً سبھی علاقوں پر ان کی خلافت قائم ہو گئی جو کہ 73/693 تک قائم رہی۔  ان کے دور کے بارے میں بہت زیادہ سوالات نہیں ہیں، بس چند امور وضاحت طلب ہیں۔ 

*ابن زبیر اور دیگر صحابہ کا موقف کیا تھا؟*

ہماری رائے میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما پوری دیانتداری سے یہ سمجھتے تھے کہ بنو امیہ میں باپ کے بعد بیٹے کی ولی عہدی کا جو سلسلہ شروع ہو گیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد یزید کو تو انہوں نے برداشت کر لیا اور اعلان خلافت نہ کیا لیکن پھر یزید کے بعد اس کے بیٹے معاویہ ثانی کو وہ برداشت نہ کر سکے۔ دوسری جانب اہل شام میں اختلافات پیدا ہو گئے اور شامی فوج کے کمانڈر حصین بن نمیر نے خود ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو خلافت قبول کرنے کی دعوت دی۔

اس کے برعکس دیگر اکابر صحابہ جیسے حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا موقف یہ تھا کہ دو خلیفوں کے اعلان سے امت میں انتشار پیدا ہو گا اور خانہ جنگی ہو گی۔ اس وجہ سے حکومت کی اطاعت کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق جس رائے کو درست سمجھا، اس پر عمل کیا۔ یہ سب حضرات ہمارے لیے محترم ہیں۔ ہمیں ان سب کا احترام کرنا چاہیے۔ بعد کے حالات نے یہ ثابت کیا کہ ابن عمر اور ابن عباس کی رائے درست تھی۔

*65ھ/ع685 میں عالم اسلام کی صورتحال کیا تھی؟*

یزید کے دور کے بارے میں ہم مطالعہ کر چکے ہیں کہ یہ سیاسی بے چینی کا دور تھا۔ ایک طرف اس میں سانحہ کربلا ہوا تو دوسری طرف اہل مدینہ کی بغاوت کو اس نے سختی سے کچل دیا۔ تاہم یزید کے  دور تک عالم اسلام متحد تھا اور 64ھ/ع684 میں اس کے مرتے ہی مختلف  سیاسی تحریکوں نے سر اٹھا لیا۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

1۔ پہلا گروہ بنو امیہ کا تھا جنہوں نے یزید کے بعد اس کے بیٹے معاویہ بن یزید کو خلیفہ بنا لیا تھا۔ یہ ایک نہایت ہی عابد و زاہد شخص تھے اور ان کی تعریف بعض شیعہ مورخین نے بھی کی ہے۔
(Ameer Ali, Syed. Short History of the Saracens. P. 89.) www.aboutquran.com

یہ محض چالیس دن کے بعد وفات پا گئے۔ ان کے بعد بنو امیہ اور اہل شام میں اختلافات پیدا ہو گئے جس کی وجہ سے ایک خلیفہ کے نام پر اتفاق نہ ہو سکا۔  بنو امیہ کا یہ اختلاف ایک سال تک جاری رہا جس کے اختتام پر  انہوں نے متفقہ طور پر مروان بن حکم کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیا۔  مروان صرف ایک سال ہی زندہ رہے اور 65ھ/ع686 ہی میں فوت ہوئے البتہ ان کے بعد بنو امیہ کے سبھی خلفاء ان کی اولاد سے ہوئے۔

2۔  دوسرا گروہ اہل حجاز کا تھا جنہوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ منتخب کر لیا۔ تاہم اہل حجاز ہی میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جنہوں نے بعد کی جنگوں میں غیر جانبداری کا رویہ اختیار کیا۔

3۔ تیسرا گروہ عراق میں بنو امیہ کے وفاداروں کا تھا۔ اس کی سربراہی گورنر عراق ابن زیاد کر رہا تھا۔ انہوں نے بنو امیہ کے اختلاف کے سیٹل ہونے تک  ابن زیاد کی بیعت کر لی۔

4۔ چوتھا گروہ عراق کی باغی تحریک کا تھا۔ انہوں نے پہلے سلیمان بن صرد کی قیادت میں منظم ہو کر ابن زیاد کے خلاف بغاوت کی جس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے مختار ثقفی کی قیادت میں اکٹھے ہو کر ایک بار پھر بغاوت کی جو کہ کامیاب رہی۔ اس بغاوت میں انہوں نے عراق میں بنو امیہ کے حامیوں پر قابو پا لیا اور ابن زیاد اور دیگر لوگوں کا قتل عام کر دیا۔

5۔ پانچواں گروہ خوارج کا تھا۔ یہ وہی گروپ تھا جس نے حضرت علی کو شہید کیا تھا لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی حکمت عملی کے سبب انہیں زیادہ سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکا تھا۔ اب یہ لوگ بھی کسی حد تک منظم ہو گئے تھے تاہم اب ان کے متعدد گروپ ہو چکے تھے ۔  اب یہ نہ صرف عام مسلمانوں کو، بلکہ ایک دوسرے کو بھی کافر قرار دے کر واجب القتل سمجھنے لگے تھے۔

6۔ چھٹا گروہ غیر جانبدار مسلمانوں کا تھا جو کہ اکثریت پر مشتمل تھا۔  یہ کوئی منظم سیاسی گروپ نہ تھا بلکہ عام مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے اکابر صحابہ تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہر حالت میں جماعت یعنی حکومت وقت  کے ساتھ رہنا چاہیے، پارٹی بازی میں نہیں پڑنا چاہیے اور جب ایک حکومت قائم ہو جائے تو اس کی اطاعت سے نہیں نکلنا چاہیے تاکہ ان کی توانائیاں باہمی جنگوں میں صرف نہ ہو سکیں۔

*ان چھ گروہوں کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟*

64-73ھ/ع684-693 کے نو برس ان میں سے پہلے پانچ گروہوں  کی باہمی کشاکش میں گزرے۔  چھٹے گروپ نے سیاست سے لاتعلقی رکھی اور جس بھی گروہ کو اقتدار ملا، اس کی بیعت کر لی۔ ان حضرات نے اپنی پوری توجہ دین کی تعلیم اور تربیت کی طرف لگا دی اور اس  میدان میں غیر معمولی کارنامے انجام دیے۔  یہ حضرات دوسری خانہ جنگی کے زمانے میں بالعموم محفوظ رہے۔ جو بھی معاملات ہوئے، وہ پہلے پانچ گروہوں کے درمیان طے پائے۔ چونکہ یہ اتنے سارے گروپ ہیں، اس وجہ سے ان کے حالات بیان کرتے ہوئے مورخین نے واقعات کو اس طرح خلط ملط کر دیا  ہے کہ بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی۔ اس صورتحال کا تجزیہ کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ ہم اس دور کے واقعات کی ٹائم لائن پیش کر دیں۔

رجب 60ھ/ع680
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات اور یزید کی حکومت کا آغاز

محرم 61ھ/ع680
سانحہ کربلا

ذو الحجہ 63ھ/ع683
سانحہ حرہ

محرم 64ھ/ع683
مکہ کا محاصرہ

ربیع الاول 64ھ/ع683
یزید کی موت اور شام میں معاویہ بن یزید کی بیعت

ربیع الاول 64ھ/ع684
حجاز میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی بیعت

جمادی الاخری 64/684
معاویہ بن یزید کی وفات اور اہل مصر کی ابن زبیر سے بیعت

64ھ/ع684
ابن زبیر کا عراق پر کنٹرول

ذو القعدہ 64ھ/ع684
شام میں مروان بن حکم کی بیعت اور شام، فلسطین اور مصر پر بنو امیہ کی حکومت کا کنٹرول

جمادی الاولی 65ھ/ع685
سلیمان بن صرد اور بنو امیہ کی جنگ جس میں بنو امیہ کو فتح حاصل ہوئی

جمادی الاخری 65ھ/ع685
بصرہ میں خوارج کی ابن زبیر کے خلاف بغاوت جس میں خوارج کو فتح حاصل ہوئی

رمضان 65ھ/ع685
مروان بن حکم کی وفات  اور عبد الملک بن مروان کی بیعت

ذو الحجہ 66ھ/ع686
جنگ بابل: مختار ثقفی اور بنو امیہ کی جنگ جس میں مختار ثقفی کو فتح حاصل ہوئی

ذو الحجہ 66ھ/ع686
جنگ موصل: مختار ثقفی  کے ساتھی ابراہیم بن اشتر اور بنو امیہ کی جنگ جس میں ابراہیم کو فتح حاصل ہوئی اور ابن زیاد اور حصین بن نمیر مارے گئے۔  شمالی عراق پر مختار کی حکومت قائم ہو گئی۔

66ھ/ع686
یمامہ (موجودہ وسطی سعودی عرب) میں نجدہ بن عامر کی بغاوت اور یمامہ کی ابن زبیر  کی حکومت سے علیحدگی

رمضان 67ھ/ع687
جنگ کوفہ: مصعب بن زبیر  اور مختار کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں ابن زبیر کو فتح حاصل ہوئی اور مختار ثقفی مارا گیا۔

68ھ/ع688
ایران میں خوارج کی بغاوت اور ابن زبیر کی فتح

69ھ/ع689
نجدہ بن عامر کی شکست اور یمامہ پر ابن زبیر کا کنٹرول

69ھ/ع689
عمرو بن سعید اموی کی عبدالملک بن مروان  کے خلاف بغاوت اور  عبدالملک کی فتح

71ھ/ع691
عبدالملک بن مروان کا عراق پر حملہ اور مصعب بن زبیر سے جنگ۔ عبدالملک کو فتح نصیب ہوئی اور عراق بنو امیہ کے کنٹرول میں چلا گیا۔

رمضان 72ھ/ع692
عبد الملک کی جانب سے حجاج بن یوسف کا مکہ کا محاصرہ  اور حجاز پر عبد الملک کا کنٹرول

جمادی الاخری 73/692
حجاج بن یوسف کی فتح اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی شہادت

73ھ/ع692
عبد الملک بن مروان کے اقتدار کی تکمیل

76-77ھ/ع696-697
خوارج کی بغاوت اور ان کا مکمل استیصال

86ھ/ع705
عبد الملک بن مروان کی وفات

*اس ٹائم لائن کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ اس زمانے کی بڑی سیاسی قوتیں دو تھیں: ایک حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور دوسرے بنو امیہ۔ عراق کی باغی تحریک اور خوارج چھوٹے گروپ تھے۔ اس پورے دور کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے*

1۔ ابتدائی دور(64-67ھ/ع684-687)
یہ سیاسی بے چینی اور خانہ جنگی کا دور تھا۔ اس دور میں عراق میں خوارج اور عراق کی باغی تحریکیں پیدا ہوئیں تاہم ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان پر قابو پا لیا۔ مختار ثقفی کے بعد عراق کی باغی تحریک کی قوت کا  زور ٹوٹ گیا۔ اسی طرح خوارج بھی شکست کھا کر ایران کے علاقوں میں بکھر گئے اور خاموشی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اس دوران بنو امیہ اندرونی اختلافات کا شکار رہے تاہم انہوں نے جلد ہی کم بیک کیا اور ایک دو سال کے عرصے میں  شام اور مصر پر اپنا کنٹرول بحال کر لیا۔ 

2۔ متوسط دور (67-71ھ/ع687-691):
یہ نسبتاً استحکام اور سکون کا دور تھا۔ اس زمانے میں باہمی خانہ جنگیاں نہیں ہوئیں۔ صرف ایران میں خوارج اور یمامہ میں نجدہ بن عامر نے چھوٹی موٹی بغاوتیں کیں جنہیں ابن زبیر نے فرو کر دیا۔ اس زمانے میں عبد الملک نے بھی شام، فلسطین اور مصر میں اپنی حکومت کو مستحکم کیا۔

3۔  آخری دور (71-73/691-692):
یہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت کے زوال اور بنو امیہ کی حکومت کے عروج کا دور ہے۔ اس میں پہلے عراق اور پھر حجاز ابن زبیر کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے اور بالآخر ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

4۔ عبد الملک بن مروان کا دور (73-86/692-705): یہ استحکام کا دور تھا اور اس میں سوائے چھوٹی موٹی بغاوتوں کے اور کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہ ہوا۔

5۔ اس کے بعد  بنو امیہ کے تقریباً پورے دور میں حکومت مستحکم رہی، مسلمانوں میں اتحاد برقرار رہا  اور سوائے چھوٹی موٹی بغاوتوں کے اور کوئی بڑا مسئلہ پید نا ہوا۔ یہ صورتحال 130ھ/ع747 تک برقرار رہی۔  اس کے بعد بنو عباس کی بنو امیہ کے خلاف تحریک  منظر عام پر آئی اور بالآخر بنو امیہ کا اقتدار ختم ہو گیا۔ تاہم امویوں نے اس کے بعد اسپین میں اپنا اقتدار قائم کر لیا جو کہ 422ھ/ع1031تک جاری رہا۔

*ابن زبیر اور بنو امیہ کے اختلاف کی حیثیت کیا تھی؟*

بعض لوگ ابن زبیر رضی اللہ عنہما او ربنو امیہ کے اختلاف کو مذہبی رنگ دیتے ہیں۔ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ بنو امیہ بڑے ظالم و جابر اور بدمعاش قسم کے لوگ تھے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس وجہ سے ان کے مقابلے میں اپنی خلافت کا اعلان کیا تاہم اموی غالب آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنو امیہ کی خلافت کو بھی  اکابر صحابہ جیسے ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے قبول کیا۔ اگر یہ اختلاف مذہبی ہوتا تو یہ حضرات اسے قبول نہ کرتے۔ 

صحیح بخاری میں ہے:

عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھا جب لوگوں نے عبدالملک کی بیعت کی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے لکھا ”اللہ کے بندے عبدالملک امیرالمؤمنین کے نام، میں اقرار کرتا ہوں سننے اور اطاعت کرنے کی۔ اللہ کے بندے عبدالملک امیرالمؤمنین کے لیے اللہ کے دین اور اس کے رسول کی سنت کے مطابق، جتنی مجھ میں طاقت ہو گی اور میرے بیٹوں نے بھی اس کا اقرار کیا۔“
( صحیح بخاری۔ حدیث نمبر،-7205)

ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر پر تمہیں حیرت نہیں ہوتی۔ وہ اب خلافت کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ ان کے لیے محنت مشقت کروں گا کہ ایسی محنت اور مشقت میں نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے لیے بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں ان سے ہر حیثیت سے بہتر تھے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسے، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے بیٹے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن کے بیٹے۔ لیکن عبداللہ بن زبیر نے کیا کیا وہ مجھ سے غرور کرنے لگے۔ انہوں نے نہیں چاہا کہ میں ان کے خاص مصاحبوں میں رہوں ( اپنے دل میں کہا ) مجھ کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں گا اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی نہ ہوں گے۔ خیر اب مجھے امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے جو ہونا تھا وہ ہوا اب بنی امیہ جو میرے چچا زاد بھائی ہیں اگر مجھ پر حکومت کریں تو یہ مجھ کو اوروں کے حکومت کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
( صحیح البخاری, حدیث نمبر-4666)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اختلاف کی حیثیت مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھی۔  ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں کا  نقطہ نظر یہ تھا کہ بنو امیہ کے اندر باپ کے بعد بیٹے کی خلافت کا جو سلسلہ شروع ہو گیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔  اس وجہ سے انہوں نے اسے ختم کرنے کے لیے کوشش کی۔  اس کے برعکس ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے یہ محسوس کیا کہ اگر اس سلسلے کو بزور ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو امت میں افتراق و انتشار پیدا ہو گا۔ امت کو افتراق و انتشار اور خانہ جنگیوں سے بچانا، اسے موروثی بادشاہت  سے بچانے کی نسبت زیادہ اہم ہے۔ان تمام بزرگوں کی اپنی اپنی اجتہادی رائے تھی اور ہر ایک نے اپنی رائے کے مطابق عمل کیا اور سبھی کو ان کی حسن نیت کا اجر ملے گا۔ ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے سیاسی میدان سے الگ ہو کر علم اور دعوت کے میدان میں  غیر معمولی کارنامے سر انجام دیے،

چھٹے عشرے میں عالم اسلام کی سیاسی حالت تبدیل ہو چکی تھی۔ ایک طرف بنو امیہ اور ان کے حامی تھے اور دوسری جانب  ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے حامی۔ عبد الملک بن مروان بھی ایک بڑے عالم اور فقیہ تھے اور ان کا شمار متوسط تابعین کے فقہاء میں ہوتا ہے۔ حضرت ابن زبیر اور بنو امیہ میں رشتے داری تھی۔ ان کی بہن رملہ بنت زبیر کی شادی اموی سائنسدان خالد بن یزید بن معاویہ سے ہوئی تھی۔
(بلاذری۔ انساب الاشراف۔ 5/386۔ باب خالد بن یزید بن معاویہ۔)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حضرات بھی اسے محض ایک سیاسی اختلاف ہی سمجھتے تھے، مذہبی اختلاف نہیں سمجھتے تھے۔

دونوں گروہوں کو عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے بعد ان کے درمیان باہمی جنگوں کا افسوس ناک سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں عبد الملک کا اقتدار عالم اسلام پر قائم ہو گیا اور تمام مسلمانوں نے ان کی بیعت کر لی۔  کاش کہ یہ اختلاف مذاکرات کے ذریعے طے کر لیا جاتا اور "کچھ دو اور کچھ لو" کے اصول کے تحت ویسا ہی اتحاد وجود میں آتا جیسا کہ 33 برس پہلے حضرت حسن اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی صلح کے نتیجے میں ہوا تھا۔ بہرحال یہ سب لوگ اب گزر چکے ہیں اور ان کے آپس کے اختلافات کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے۔ ہمیں اس معاملے میں کسی پر زبان طعن دراز نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان واقعات کی تفصیلات ہمیں محض تاریخی روایتوں ہی سے ملتی ہیں۔ 

*حجاج بن یوسف کے بارے میں کیا رائے رکھنی چاہیے؟*

مشرقی ممالک میں انارکی کو ختم کرنے اور حکومت کو مستحکم کرنے میں حجاج بن یوسف نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ اس شخص کے بارے میں تاریخی روایتوں  میں آتا ہے کہ اس نے عراق اور حجاز میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا اور بے شمار لوگ قتل کروائے۔  اگر یہ مظالم فی الواقع ہوئے ہیں تو یقیناً حجاج اور عبدالملک بن مروان ان کے لیے اللہ تعالی کے حضور جواب دہ ہوں گے۔  دوسری طرف ہمیں یہ روایات بھی ملتی ہیں کہ مسلم خواتین کی پکار پر حجاج ہی نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو راجہ داہر سے جنگ کرنے بھیجا جنہوں نے موجودہ کراچی سے لے کر ملتان تک کا علاقہ فتح کر لیا۔

تاریخ طبری  میں ہے کہ حجاج بن یوسف نے بعض صحابہ جیسے حضرت جابر بن عبداللہ، انس بن مالک اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہم پر بھی تشدد کیا اور ان کے داغ لگوائے۔ 

طبری میں یہ روایت 74/694 کے باب کے شروع میں بیان ہوئی ہے۔ انہوں نے اس روایت کی منقطع اسناد (Broken chain of narrators) یوں بیان کی ہے:

 عن ابن أبي ذئب عن إسحاق بن يزيد، اور حدثني شرحبيل بن أبي عون عن أبيه۔

طبری اور ان واقعات کے درمیان دو سو برس کا طویل زمانہ ہے  اور یہ ممکن نہیں ہے کہ محض دو واسطوں سے یہ روایت ان تک پہنچی ہو۔

  یہ معلوم نہیں کہ یہ نامعلوم لوگ کس درجے میں قابل اعتماد تھے۔ درایت کے اعتبار سے بھی یہ روایت قرین قیاس نہیں ہے کیونکہ  جیسے جیسے اصحاب رسول  دنیا سے رخصت ہو رہے تھے، باقی ماندہ صحابہ  کی قدر و منزلت لوگوں کی نظر میں بہت زیادہ بڑھ رہی تھی۔ اس دور میں جب  قلیل تعداد میں ضعیف العمر صحابہ باقی رہ گئے تھے، ان کے ساتھ اتنی گستاخی کی جاتی تو لوگ کوئی احتجاج نہ کرتے۔ یہ کام  حجاج جیسے شخص کے لیے بھی ممکن نہ تھا۔  عین ممکن ہے کہ حجاج کے مظالم کی داستانیں اس پراپیگنڈا کا حصہ ہوں جو بنو عباس نے بنو امیہ کی حکومت گرانے کے لیے کیا،لیکن حقیقت کیا ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے،

*اس سلسلہ کے ساتھ ہی صحابہ کرام کی تاریخ پر جو جدید ذہنوں کے سوالات اور شبہات تھے انکا اختتام ہوتا ہے*

نوٹ_

*آئندہ ہفتے اس سلسلے کے اختتام پر ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کریں گے جو صحابہ کرام کے بارے ان تاریخی سلسلہ جات کو پڑھنے سے  اک طالب علم کے ذہن میں  پیدا ہوتے ہیں*

ان شاءاللہ تعالیٰ

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Palestine: India ke waise Musalman aur Imam jo Gaza aur Palestine ke liye dua nahi karte lekin apne Favourite Player ke liye Quran ki tilawat jarur karte hai.

Musalmano ka ek bada tabka Jisme allim-E-Deen bhi shamil hai ne Cricket Match ko Hi Apna Deen samajh rakha hai.

जिन्होंने कभी अपने इंतकाल किये हुए बाप दादा के लिए दुवाएं नही की वह अपने पसंदीदा नेता, खिलाडी,अदाकार् , क्रिकेट टीम के लिए दुवाएं कर रहे है लेकिन फिलिस्तीन जहाँ 15000 से ज्यादा लोग शहीद हो गए उनके लिए दुआ करने का वक्त नही।

इजरायली सामान का बॉयकॉट के मुहिम मे शामिल होए और सिर्फ वक्ति तौर पर नही बल्कि हमेशा के लिए इस्राएल और उसके शैतानी कुव्वतो का बॉयकॉट करे, उनके बनाये खाने पीने के सामान के साथ साथ इलेक्ट्रॉनिक और टेक कंपनियों का बॉयकॉट करे, इस्राएल और उसके साथियो के माशीयत (economy) को ज्यादा से ज्यादा नुक्सान पहुचाने की कोशिश करे।

अभी और हमेशा के लिए इस्राएल और उसका साथी अमेरिका का खाने पीने से लेकर इलेक्ट्रॉनिक समान का जहाँ तक हो सके बॉयकॉट करे, रोज़मर्रा के सामानों मे बहुत सारे इस्राएल और अमेरिका का प्रोडक्ट खरीदते है उनकी पहचान करके उसका बॉयकॉट करे।
जैसे सर्फ एक्सेल, एरियल सरफ कपड़े साफ करने के लिए
पीने के लिए पेप्सी, कोकाकोला, KFC, थम्स अप, वगैरह
इन समानो को खरीदना बन्द करे, अगर फिलिस्तीन के लिए कुछ करना चाहते है तो।

दिल्ली मे जमीअत उलमा ए हिंद
जमात इस्लामी हिंद, उलमा ए अहले हदीस
आल इंडिया उलामा एंड माशाएख बोर्ड ( बरैली ) सब का हेड ऑफिस है। कहाँ गाएब हो जाते है ये इदारा वाले, आजतक ज़मीन पर उतर कर काम करते हुए इनसब को नही देखा गया, सिर्फ जलसे मे, खुतबे मे और सालाना इजलास् मे ये चेहरे नज़र आते है। अगर ये अरसद मदनी और महमूद मदनी फिलिस्तीन मे होते तो वहाँ इस्राएल को सही साबित करते और फिलिस्तिनियो को ग़ज़ा छोड़ने के लिए कहते, नेतन्याहु से बड़ा इनाम पाने मे इस तरह वे कामयाब हो जाते।
फलस्तीन पर कोई प्रोग्राम इनके बैनर से देखा है।
आम मुसलमानो को हालात से रुबरू कराने की ज़िम्मेदारी किसकी है ?

इन तंजीमो का क्या काम है?

यूरोप मे गिरफ़्तरिया हो रही है जो इजरायली आतंक के खिलाफ इंसानियत के साथ खड़े है, अरब देशो मे जिसकी नाम आने पर मुसलमान झूम उठते है वहाँ फिलिस्तीन के समर्थन मे नारे लगाने वाले या इजरायली आतंक को दिखाने वाले को हिरासत मे लिया जा रहा है, वहाँ इमाम को खुतबे मे इस पर बोलने की पाबंदी है। वहाँ वही कुछ हो रहा है जो अमेरिका चाहता है और इमाम या उलेमा वही बातें कर रहे है जो सलेबी कठपुतली बादशाह लिख कर दे रहा है। दिल्ली मे भी इमाम को फिलिस्तीन का नाम लेकर दुआ करने पर पुलिस के तरफ से रोक लगा दिया गया है। लेकिन इस्राएल के समर्थन मे रैलिया निकाल सकते है।

अरब हुकमराँ मस्ज़िद ए अक्सा का मामला सिर्फ फिलिस्तिनियो की ज़िम्मेदारी समझते है और दुनिया का मुसलमान इसे अरबो का मामला। जब तक इसे उम्मत ए मुहम्मदिया का मसला नही समझा जायेगा तब तक फिलिस्तीन आज़ाद नही होगा।

खिलाफत से बादशाहत और बादशाहत से जम्हूरियत मे कैसे तब्दील हुई?

क्रिकेट मैच या कोई भी खेल मे जितने के बाद प्लेग्राउंड या कही भी शुक्राने की नमाज़ पढ़ना कैसा है?

अरबी - सलेबी और यहूदि - सऊदी भाई भाई कैसे बने?

मुसलमानो का आज रहनुमा कैसे कैसे बेगैरत बने हुए है?

#फिलिस्तीन मुसलमान और मुस्लिम हुकमराँ।

शराब् को ड्रिंक, जीना को डेट, सूद को इंट्रेस्ट, बे पर्दगी को फैशन, नँगापन को आज़ादी, बेहयाई फ़हाशि को आज़ाद ख्याल, खुदगर्ज़ी को सियासत, बेईमानी, रिश्वतखोरी और चोरी को "पैसे कमाने का ट्रिक" जैसे नाम देकर आज हम सब अक़लमंद कहलाते है। इसी वज़ह से आज मुसलमान हर जगह जलील व रुस्वा हो रहा है।

ग़म-ए किर्केट है हम हिन्दी मुसलमानों को
दीनी अहकाम की हम फ़िक्र नहीं करते हैं।

जुम्मन् किस्म के मुसलमान मैच के दीवाने है, अपनी फेवरिट टीम के जितने के लिए मन्नतें भी मांगते है, दुवाएं करते है, सोशल मीडिया पर उसके समर्थन मे स्टेट्स भी लगाते है लेकिन दूसरी तरफ फिलिस्तीन के समर्थन मे इस्राएल के कंपनिया और समानो का भी बॉयकॉट करते है, उन्ही समानो का प्रचार करने के लिए यह खिलाडी कंपनियों से अरबो डॉलर कंट्रैट करते है और यह अब्दुल उन ब्रांड का इंप्रेसन भी बढ़ाते है। इनमे से कितने खिलाड़ी, आदकार  जिनके फिल्मो को मुसलमान समझ कर देखने जाते है, इन्होंने फिलिस्तीन को ईमदाद किया है? ईमदाद तो दूर की बात है यह उनके प्रोडक्ट का प्रचार कर रहे है।  जो अब्दुल अपने किसी फौत हुए शख्स के लिए कभी दुवाएं नही की होगी वह खिलरियो के लिए, सेलेब्रेटी के कामयाबी के लिए दुआ करते है और मन्नते मांगते है।

ईरान की खोखली धमकिया
तुर्किये का ब्यानबाजी
पाकिस्तान के मिली तराने
अरब के मुजरे और निंदा एक्स्प्रेस
आल ए सउद् के डरामे

फिलिस्तीन के लोगो को नही बचा सकते है, सारी दुनिया अरबो के तरफ देख रही है और अरब तवाएफो के तरफ देख रहे है, बर्रे सगीर के मुसलमान और नाम निहाद इमाम व उलेमा को फिलिस्तीन के साथ खड़ा होना चाहिए लेकिन वह सऊदी अरब के साथ खड़े है, अरबो को जस्तीफ़ाय करने मे,  जलसे व इजलास मे पैसे लेकर बोलने वाले मौलानाओ व मुहल्ले के इमामो को फिलिस्तीन के डिफा मे खड़ा होना चाहिए था लेकिन यह सऊदी हुकमराँ के डिफा मे खड़े है।

ग़ज़ा की जंग से कुछ चिजे साबित हुई, जिस के लिए पहले लोगो को यकीन दिलाने पर वह खुद को मॉडर्न कह कर पश्चिम का गुलाम बनने मे फ़ख़्र महसूस करते थे।
पश्चिम और ईसाइयों का मनवाधिकार, लोकतंत्र,आज़ादी, बराबरी का नारा सिर्फ ढोंग है। कुत्तो और बिल्लियो को प्यार करने वालो ने हज़ारो इंसानी बच्चो और औरतो को टुकड़े टुकड़े कर दिया। यह सब पर वह खुश है बल्कि ओबामा का सलाहकर कह रहा है के यह तादाद बहुत कम है,
दूसरा यह के संयुक्त राष्ट्र नाम की संस्था बड़ी ताकतो की लौंडी है, यह संस्था हमेशा बड़ी ताकतो के सवॉर्थो  की रक्षा के लिए काम करता है, यह एक गैरजरूरी और नाकाम एदारा है।

इंसानियत का ताल्लुक मजहब से नही
और इस्राएल का ताल्लुक़ इंसानियत से नही।

इस बात पर मुहर लग गयी के इंसानी हुकुक, आलमी अदालत, अक्वामी मुताहेदा की सारी तंजीमे यहूद ओ नसारा के हुकुक के लिए बनाई गयी है।

ऐ फिलिस्तीन के शहीद बच्चो हमे माफ करना, हम उस बेगैरत दौड़ मे पैदा हुए है के जिस की हुकमराँ फिरंगियों के गुलाम है, सिर्फ सलेबियो के लिए फौज भेजती है लड़ने के लिए, ऐ ग़ज़ा के बच्चो हमारी शिकायत न करना।

ऐ अल्लाह हमारे पास फिलिस्तीन और मस्जिद ए अक्सा के लिए दुआ के सिवा कोई रास्ता नही, ऐ अल्लाह हमारी दुआ को रद्द न करना, हमे मायूस न करना तु रहमान है, रहीम है। ऐ अल्लाह जो फिलिस्तीन के लिए महाज पर खड़े है दुश्मनो के सामने उनको फतह अता कर, मुजाहिदीन की हीफाजत कर, उनकी गैब् से मदद फरमा, मुज़हिदीन को सलामती के साथ उनको अपने घरों और मस्जिदो मे लौटा  दे। ऐ अल्लाह जिन्होंने ग्ज़ा के लोगो पर, घरों पर, मस्जिदो पर बॉम्ब गिराया, मस्ज़िदों को शहीद किया उसे तबाह कर दे, जिसने भी उसकी मदद की उसका नाम ओ निशाँ मिटा दे। फिलिस्तिनियो का क़त्ल ए आम करने वाले को इबरत नाक सज़ा दे। ऐ अल्लाह फिलिस्तिनि लोगो, उनके घरों और मस्जिदो को महफूज़ रख। आमीन

Share:

Palestine: Arab Summit me Palestinian ke Liye laye Bill par Char Arab Mulko ne Vote nahi kiya.

Jaise Jaise Israel Palestinian par Bombari Speed kar raha hai waise waise Arab Condomention ki speed bhi badh rahi hai.

Aaj Tak OIC, Arab League jaise Orgnization ne Musalmano ki hifajat ke liye kya kiya hai?
Wah 4 Arab State jinhone Mir Zafar, Mir Sadiq ka Kirdar ada kiya hai?
अरबी सलेबी भाई भाई, यहूदि सऊदी भाई भाई
उस्मानिया समराज्य के खिलाफ अरबो ने कैसे गद्दारी की थी?
फिलिस्तीन और आज का मुसलमान, अरब हुकमराँ।

हमसब ने किताबो मे पढ़ा है, जब रोम जल रहा था तब उसके सहयोगियों ने बांसुरी बजाई थी।


आज आँखो से देखा।
फिलिस्तीन और ग़ज़ा के लोगो को खून मे नहलाया जा रहा था तब पड़ोसी सऊदी अरब मे मुजरे का मजा लिया जा रहा था, शकीरा के साथ ठुमके लगा रहे थे । इस्लाम अमल की बुनियाद पर किसी को नेक और बद कहता है नाकि नस्ल के बुनियाद पर। इस्लाम ने कुरान ओ सुन्नत पर चलने को कहा है नाकि अरबो की पैरवी और हिमायत करने का, जिससे कोई सच्चा मुसलमान हो जायेगा।

पढ़ता हूँ तो पूछती है यह खालिक की किताब

बे मिशल यहूदि, यह सऊदी भी अज़ाब, 

इस क़ौम के बारे मे क्या लिखू फराज़ 

काबे की कमाई से जो पीती है शराब्।

आज यह सच साबित होता नज़र आरहा है, बाकी अरब भक्त मुसलमान अरब हुक्मरानो के दरबारी शायर बने हुए है, की दरबारी इमाम स्क्रिप्टेड खुतबा दे रहा है, कोई उसकी तारीफ मे कसीदे पढ़ रहा है, कोई उसके नाच गाने और ठुमके लगाने को जाएज़ साबित करने मे लगा है, कोई तुर्किये से मुकाबला करके अरब को जस्टिफ़ाय कर रहा है वगैरह। 

अरब देशो का संगठन अरब लीग का बैठक सऊदी अरब के रियाद मे चल रहा है। इसके बाद सऊदी के दबदबा वाला संगठन OIC (Orgnization of Islamic Co Opration) का बैठक भी रियाद मे 11 नोवम्बर से होने वाला है। OIC को कुछ लोग orgnization ऑफ इस्राएल को ऑपरेशन भी कहते है। क्योंके यह सऊदी अरब के दबाओ वाला संगठन है जिसमे दुनिया भर के 57 मुस्लिम देश शामिल है। आजतक OIC ने मुसलमानो के लिए कुछ खास नही किया सिवाए निंदा के। OIC दुनिया भर के मुसलमानो पर हो रहे ज़ुल्म पर सिर्फ निंदा किया है, और उसके अहम देश सऊदी अरब और UAE ने उन देशो से गहरी दोस्ती की है जिन्होंने मुसलमानो पर सब से ज्यादा ज़ुल्म किया है, OIC ने जिसकी निंदा की है।

अरब लीग के बैठक मे तमाम अरब मुमालिक ने अपनी अपनी राय रखी, और 8 ओक्टोबर् से इस्राएल जो कुछ भी कर रहा है वह सबकी निंदा की है जो शुरुआती दिनों से ही करते आये है।
अरब देश दुनिया भर के मुसलमानो का नुमाइंदा होने का दावा करते है लेकिन 1948 से फिलिस्तीन के ज़मीन को कब्ज़ा करके इस्राएल बैठा हुआ है और फिलिस्तिनियो को मार कर भगा रहा है उसको आज़ाद नही करा सके, इसके उलट अरबो ने इस्राएल से दोस्ती कर ली और अमेरिका के कहने पर इस्राएल से बिजनेस शुरू कर दी। ये वह समझौते है इस्राएल के साथ जिसे जरिये इनकी दोस्ती बढ़ रही है, जैसे जैसे इनकी यहूदियों से दोस्ती बढ़ रही है वैसे वैसे इस्राएल का फिलिस्तीन पर बॉम्बारि भी बढ़ रहा है। अब तक 12500 से ज्यादा लोगो का क़त्ल कर चुका है।

अब्राहम एकार्ड्स
I2 U2  -  जिसका मतलब होता है (इंडिया इस्राएल - यूनाइटेड स्टेट ऑफ अमेरिका,  युनिटेड अरब एमिरात)।
तीसरा समझौता है "इंडिया मिडिल ईस्ट यूरोप कॉरिडोर"
इन सब के जरिये अमेरिका अरबो पर इस्राएल को तसलिम करने का दबाओ बना रहा है, दूसरी तरह UAE और सऊदी अरब गरीब मुस्लिम देशों पर अमेरिका के हुक्म को मानते हुए धमका रहा है इस्राएल से दोस्ती बढ़ाने के लिए।

अरब लीग मे एक प्रस्ताव रखा गया जिसके तहत 5 शर्त रखा गया लागू करने के लिए। जिसके पक्ष मे 11 अरब देश वोट किया और 4 अरब देश खारिज कर दिया।

1. अरब देश अपना मिलिट्री बेस अमेरिका और उसके सहयोगियों के इस्तेमाल पर पाबंदी लगाए। जिसके जरिये इस्राएल को हथियार और गोला बारूद भेजा जा रहा है।

2. अरब देश इस्राएल से राजनयिक, आर्थिक, सामरिक और सैन्य रिश्ते खतम करे।

3.तेल भेजना बंद करे और अपने सलाहियात् के मुताबिक जंग बंद करने का दबाओ डाले।

4. इस्राएल के नागरिक विमानो के लिए अरब देश वायुमार्ग बंद करे।

5. एक अरब मंत्रियों के समिति का गठन करे जो फ़ौरन न्यूयॉर्क, वॉशिंगटन, जेनेवा, लंदन, पेरिस और ब्रुसेल्स जाए, और अरब समिट  वहाँ जंग बंद करने के लिए और ग़ज़ा का नरसंहार बंद करने के लिए दबाओ डाले।
इस प्रस्ताव का 11 देशो ने समर्थन किया जबकि 4 देश प्रस्ताव के खिलाफ थे। इन चार देशो का नाम ज़ाहिर नही किया गया है जबकि समर्थन करने वाले देशों का नाम बताया गया है।

इस प्रस्ताव पर 11 देशो ने वोट किया
फिलिस्तीन
सीरिया
अल्जीरिया
टूनिशिया
इराक
लेबनान
कुवैत
क़तर
ओमान
लीबिया
यमन

इससे यह साफ ज़ाहिर होता है के ये अरब लीग या OIC से कुछ नही होने वाला है मुसलमानो का, सिर्फ अपनी मनमानी के लिए अरबो ने यह संगठन बनाया है जिसे जरिये अपना प्रभाव का इस्तेमाल बाकी कमज़ोर देशों करे और उस अपना गुलाम बनाकर रखे।
इस के खिलाफ वोट करने वाले का नाम भले ही नही दिया गया हो लेकिन सियासत के महिरीन को मालूम है के वह कौन चार अरब देश है।
सऊदी इसमे जरूर शामिल होगा, UAE भी इसमे अपना कोर्दुग्लू का किरदार अदा कर रहा है, बाकी मिस्र और जोर्डन पर तो इस्राएल का बैठाया हुआ अपना मुखबिर हुकमराँ है ही।

सऊदी सिर्फ कमज़ोर मुस्लिम देशो पर अपना सिक्का चलाता है जबकि फिलिस्तीन के लिए आजतक कुछ कर नही सका सिर्फ निंदा के।
सऊदी पहले ही कह चुका है के वह तेल को हथियार के रूप मे इस्तेमाल नही करेगा। वह अपने यहाँ मस्ज़िद के इमाम को भी अपने हिसाब से चलाता है, ताकी अवाम बादशाह के खिलाफ आवाज़ न उठाय। खाना ए काबा के इमाम अल सदैश् कहते है "फिलिस्तीन का मसला एक फितना है, इसमे मुसलमानो को शामिल नही होना चाहिए"। वहाँ उलेमा को मस्ज़िद मे खुतबा देने से पहले का बोलना है वह लिख कर दिया जाता है, जिस तरह सारी दुनिया मे फिलिस्तीन के लिए दुवायें हो रही है और इमाम मेम्बर से लोगो को मस्जिद ए अकसा की अहमियत, फिलिस्तिनियो की आज़ादी, ग़ज़ा के लोगो के उपर हो रहे ज़ुल्म को बता रहे है वैसा वहाँ कुछ भी नही है। वहाँ के दरबारी इमाम स्क्रिप्टेड खुतबा देकर अवाम को अंधेरे मे रख रहे है ताकि अवाम हालात ए हाज़रा से रूबरू हो गयी तो हुकूमत के खिलाफ बगावत शुरू हो सकता है या बादशाह को अमेरिका और इस्राएल की मदद करना बंद करना होगा।
सऊदी अमेरिका का कठपुतली है जो इस्राएल को फिलिस्तिनियो के खिलाफ मदद कर रहा है।

UAE उन चार देश में शामिल जिसने 2020 मे इस्राएल को मान्यता दिया था। इसने ग़ज़ा के नरसंहार पर इस्राएल का साथ दिया और वाज़ेह कर दिया के हम इस्राएल से अपना बिजनेस खतम नही करेंगे, उससे संबंध नही तोड़ेंगे।

मिस्र के सदर अल सीसी का तो पता ही होगा के वह अमेरिका का कठपुतली है, जिसने लोगो की चुनी हुई सरकार का तख्तापलट करके उस फांसी की सज़ा देकर खुद तख्त पर काबिज है। फतह अल सीसी ये सब मोसाद और CIA की मदद से किया था।

जोर्डन का किंग इस्राएल का बैठाया हुआ अपना एजेंट है,। इस्राएल को अज़रबैजान तेल भेज रहा है, अमेरिका और दूसरे ईसाई देश हथियार भेज रहा है वह सब जोर्डन के बंदरगाह से होते हुए जा रहा है।
यमन, इराक,शाम और ईरान के खिलाफ रहने वाला सऊदी अरब अमेरिका के इशारे पर काम करता है, आज इन्ही मुल्को ने फिलिस्तीन के समर्थन के लिए अरब लीग मे वोट किया।

खबर आई है के अरब इस्लामिक समिट मे सऊदी अरब, UAE, मोरोक्को, बहरीन ने इस ड्राफ्ट के खिलाफ वोट किया, यानी वह तेल और ऐरस्पेस ये सब अमेरिका इस्राएल के इस्तेमाल के लिए जारी रखेगा सिर्फ जुबानी जंग करेगा, ये नही होना चाहिए, वह नही होना चाहिए, ऐसे करेंगे वैसे करेंगे वगैरह वगैरह। लेकिन अमली तौर पर इस्राएल के साथ खड़े रहेंगे। 

फिलिस्तीन के तरफ से एक शेर इन छुपे दुश्मनो के लिए

बेनकाब उन की ज़फाओ को किया है मैंने

वक़्त के हाथ मे आईना दिया है मैंने

फिल्हाल अरब मुल्को मे अभी कैसा माहौल है?
पाकिस्तान के सेनेटर मुस्ताक अहमद क़तर और मिस्र गए थे हमास के नेताओ से मिलने।

उन्होंने वहाँ क्या कुछ देखा वह बताते है।

"आलम ए अरब मे अवाम को अपने डेंटिस्ट के अलावा कही और मूंह खोलने की इजाज़त नही। अमेरिकी गुलाम बादशाहो ने अवाम को बदतरीन गुलाम बनाया हुआ है। मैंने मिस्र मे दो हफ्ते गुजारा है, काहिरा मे जुमे के दिन किसी भी मस्ज़िद मे फिलिस्तीन या मस्जिद ए अकसा का ज़िक्र नही हुआ, कही भी जलसे जुलूस नही हुए, किसी भी मस्ज़िद मे फिलिस्तिनियो के लिए दुवायें नही हुई, वहाँ उलेमा के तरफ से इसपर कोई बहस नही हो रहा है, न अवाम को कुछ बताया जा रहा है। वहाँ मस्जिद के इमाम को इसपर बोलने की इजाज़त नही, मुजाहिरा करने पर पाबंदी है। वहाँ हर जुमे के दिन बड़ी मस्जिदो मे नमाज से पहले पुलिस गड़ियां, जेल गाड़ियां, शेलिंग, लाठी चार्ज की जाती थी। पुलिस दस्तो की तैनाती हमेशा रहती थी। मिसरी सदर फतह अल सीसी ने हमास के रॉकेटो से बचने के लिए इजरायली प्रधान मंत्री और फिलिस्तिनियो का क़ातिल नेतन्याहु को दो जहाज़ भेज दिया हमास के रॉकेटो का आग बुझाने के लिए।"

UAE ने इस्राएल के लिए राहत समाग्रि का पांच जहाज़ भेजा, वही इस्राएल के मंत्री बोल रहा है के हमे फिलिस्तिनियो के जाने की की परवाह नही।
अमेरिकी सदर बोलते है के "इजरायली लोगो की जान फिलिस्तिनियो से ज्यादा अहम है"
यहूदि आलिम ने कहा के "इजरायली फौज (IDF) को इजरायली औरतों को छोड़कर बाकी सारे फिलिस्तिनि औरतों का रेप करना चाहिए"
अमेरिकी विदेश मंत्री (एंटोनी ब्लिंकेन्) इस्राएल जाकर कहता है "मै यहाँ अमेरिकी विदेश मंत्री की हैसियत से नही बल्कि एक यहूदि होने की हैसियत से आया हू"

इस्राएल ने हॉस्पिटल पर बॉम्बारि के 12500 से ज्यादा लोगो को मारा, कहाँ है वह जो मुसलमानो का नेता बनने को तैयार रहता है?
किधर है वह सुन्नी मुसलमानो का रहनुमा ?
किधर है वह OIC का हेड जो अपनी मन मर्ज़ी से दूसरे मुस्लिम मुमालिक को अलग थलग करने मे लगा रहता है।
कहाँ है वह 40 देश के आर्मी चीप  जो UN के कहने पर शांति सेना भेजता है?
कही ये OIC (Orgnization of Israel Co -Opration) तो नही .
किधर है वह अरब मुमालिक जो अमेरिका की चाकरी करने और मुखबिरी करने मे लगा रहता है, उसका दोस्त अमेरिका और ब्रिटेन किधर है? जिसने उस्मानिया सलतनत से आज़ादी के लिए अंग्रेजो का साथ दिया था?

Share:

Palestine: Aaj Salebi Aur Sahyuni Musalmano ke Khilaf Maidan-E-Jung me khade hai lekin Musalman Soye hue hai. Musalmano ne kaise Palestinian ko dhoka diya?

Musalmano ke Khilaf Salebi aur Sahyuni Ek sath Jung me.

America Ise Islam ke khilaf "Holy War" Samajhta hai, Pura Yahudi o Nasrani ek sath Musalmano ke khilaf Maidan-E-Jung me Khada hai lekin Arab ise Sirf Palestine ka masla aur Musalman ise Arab aur Gza ka Masla Samajh rahe hai.

ऐ ईमान वालो तुम यहूदियों और नासराणियो को यार व मददगार न बनाओ, ये दोनो खुद ही एकदूसरे के यार ओ मदद गार है। और तुम मे से जो शख्स उनकी दोस्ती का दम भरेगा तो फिर वह उन्ही मे से होगा। यकिनन अल्लाह जालिम लोगो को हिदायत नही देता।

शहादत है मत़लूब मक़सूद मोमिन
ना माले ग़नीमत ना किश्वर कुशाई।

जब उम्मत ए मुस्लेमा जिहाद से गाफ़िल् हो गयी तो सलेबी व सह्युनि मुसलमानो पर हाकिम बन गए, दुनिया की सारी क़ौमे मुसलमानो के खिलाफ इकट्ठा होने लगी, उनकी हालत शेरो जैसी होने लगी और
मुसलमानो की हालत बिल्कुल लौंडियो जैसी हो गयी।

अगर आप फिलिस्तीन की आज़ादी चाहते है और इजरायली सामान खरीद कर इस्तेमाल भी करते है तो समझ जाए के आप फिलिस्तिनियो का खून बहाने, मस्जिदो पर बॉमबारी करने की फंडिंग कर रहे है। साथ साथ आप झूठ भी बोल रहे है के मै क़ीबला ए अव्वल की हीफाज़त चाहता हूँ। जितना यहूद ओ नसारा और अरबो का फिलिस्तिनियो के खून से हाथ रंगे है उतना ही आप भी शामिल है इसमे।

पढ़ता हूँ तो पूछती है यह खालिक की किताब
बे मिशल यहूदि, यह सऊदी भी अज़ाब,

इस क़ौम के बारे मे क्या लिखू फराज़
काबे की कमाई से जो पीती है शराब्।

आज मुसलमानो और इस्लाम के खिलाफ सलेबी सह्युनि दोनो मैदान ए जंग मे तौनात् है लेकिन मुसलमानो को मस्ज़िद अकसा सिर्फ फिलिस्तीन का मसला दिखाई देता है, अरब इसे सिर्फ ग़ज़ा का मामला समझते है। सह्युनि और सलेबी समझ गए लेकिन मुसलमान नही समझे क्योंके दरबारी मौलवियो, स्क्रिप्टेड इमामो, मुशायरा कव्वाली गाने वाले को अपना रहबर बनाये हुए है।

अरबो के खज़ाने की चाबी सलेबियो के पास है.

अरब बादशाहो का क़ीबला ए अव्वल वाइट हाउस है।

मुसलमानो का नेता और OIC का हेड सऊदी अरब की सियासी सफर, जब उसने मुसलमानो के साथ गद्दारी की।

फिलिस्तीन और मुस्लिम हुकमराँ व अवाम।

अरबी सलेबी भाई भाई - यहूदि सऊदी भाई भाई।

अरब मे खिलाफत किसने खत्म किया और इक़तदार के लिए मुसलमानो के साथ गद्दारी की?

मस्जिद ए अकसा की आज़ादी और जिहाद का वक़्त।

मस्ज़िद ए अकसा सिर्फ फिलिस्तीन का नही बल्कि आलम ए इस्लाम का मामला है जिसके लिए सह्युनि और सलेबी एक साथ खड़े है।

ईसाई फिलिस्तिनियो के नरसंहार को "हॉली वार" कह रहे है और सह्युनियो को हथियार, सियासी,माली मदद कर रहे है। 

जितनी रफ्तार से फिलिस्तीन मे दवा और राहत समाग्रि नही पहुँच रही है उससे कही दस गुना रफ्तार से IDF को हथियार पहुँच रहे है, सऊदी यमन के तरफ से, अमेरिका अरब खाडी के तरफ से,जोर्डन इराक किं तरफ से इस्राएल की सुरक्षा की ज़िम्मेदारी संभाल रहा है। मुसलमानो ने फिलिस्तिनियो को अकेला छोड़कर उन्हे धोका दिया है, फिलिस्तिनियो के साथ गद्दारी किया है।

अमेरिकी  सदर जोसेफ बाइडेन ने तमाम मुस्लिम मुमालिक, मुस्लिम संगठन, जंग बंदी, फिलिस्तिनियो के अधिकार, UN और सारी दुनिया को चैलेंज किया है?

उसने एलान किया है के येरुसलम् फिलिस्तीन से छीन लिया जाए, और इसे इस्राएल को दे दिया जाए। क्योंके यह इलाका यहूदियों का है और अमेरिका ईसाई देश है। आज आलम ए इस्लाम और उम्मत ए मुस्लेमा के खिलाफ ईसाई यहूदियों के साथ खड़े है। क्योंके यह दोनो इस्लाम विरोधी है। यह हमेशा मुसलमानो के खिलाफ थे और रहेंगे, बस ज़हिरी तौर पर खुद को सेकुलर का ढोंग करके दुनिया को इंसानियत पर सबक सिखाते है।

  अमेरिका और पूरी ईसाई दुनिया का कहना है के हम इस्राएल के साथ उसके मिसाइल हथियार और ग़ज़ा व फिलिस्तीन को खत्म करने के लिए 30 बिलियन डॉलर की मदद, हथियार, राजनीतिक कुत्नीतिज्य और सामरिक मदद के साथ खड़े है।

उसने इसे इस्लाम और मुसलमानो के खिलाफ क्रुशेड् और होली वार का नाम दिया है। यहूदि आलिम ने कहा है "इजरायली फ़ौजों को इस्राएल औरतो को छोड़कर फिलिस्तिनि व मुसलमान औरतों का बलताकार और रेप करना चाहिए।"
जैसा के अमेरिकन, ब्रिटिश, रोमन, बिज़ान्टीन सम्राज्य करते आया है, वह उसी परंपरा को दोहरा रहा है।

  मगर अरब हुकमराँ इसे सिर्फ ग़ज़ा का मसला समझकर नाच गाने मे लगे है, अरबो ने उस्मानिया सलतंत्  के खिलाफ अंग्रेजो से मिलकर गद्दारी की, वही अंग्रेज़ उस्मानिया सलतनत के ज़मीन पर फिलिस्तिनियो को भगाकर यहूदियों को बसा दिया और इस्राएल नाम का नजाएज़ देश बनाया। जो 1948 से अरबो का क़त्ल ए आम  कर रहा है। अरब हुकामराँ और इस्राएल मे समानता यही है। दोनो को ब्रिटिश ने बनाया। ब्रिटिश से पहले इस्राएल नाम का कोई देश नही था बल्कि वह फिलिस्तीन था जो उस्मानिया समराज्य का हिस्सा था और अरब भी। इस्राएल को पैदा किया ब्रिटेन ने और बड़ा किया अमेरिका ने। अरब और इस्राएल दोनो अमेरिका का वफादार दोस्त है। मगर अरबो के ज़मीन पर बसा इस्राएल हमेशा फिलिस्तिनियो का क़त्ल ए आम करता है तो अरब खामोश रहते है और अमेरिका इस्राएल का हर तरह से। मदद करता है।
अरबो ने इस्राएल को तसलिम किया और दूसरे मुस्लिम मुमालिक पर भी दबाओ डाल रहा है के तुमसब् भी इस्राएल के साथ मिल जो और अब्राहम एकार्ड्स अपना लो।

ऐ मुसलमानो जो अपने दिन, अपने भाईयो और अपने मुकद्दस मकामात् से हकीकी मुहब्बत और फिकर करता है। जो वाक़ई अक्सा मस्ज़िद और फिलिस्तीन की आज़ादी चाहता है।

इस्राएल की हिमायत करना और अमेरिका की पॉलिसियो का प्रचार करना बंद करे।
हमसब से क़यामत के दिन यह सवाल किया जायेगा और हमसे हिसाब लिया जायेगा।

 ईसाई कंपनी,हुकूमत, देश, नेता, मंत्री, मीडिया, रिपोर्टर, एक्टर, सब के सब इस्राएल को फंडिंग कर रहे है फिलिस्तिनियो का खून बहाने के लिए। अगर आप भी इन नेताओ और कंपनियों के सामान खरीद कर खाते है तो समझिये आप सब अपने फिलिस्तिनि भाई का खून पी रहे है।

स्टारबक्स कॉफि कंपनी के सदर ने कहा के वह अरब आज़ादी पसंदो को मारने के लिए इस्राएल को पहले से अब दोगुना मदद करेगा। वह इस्राएल को सालाना 2 बिलियन डॉलर अदा करने के लिए जाना जाता है स्टारबक्स के मुनाफे से।

फिलिप मोर्स कंपनी ( मार्लबोरो सिग्रेट की प्रोड्यूसर) रोजाना इस्राएल को मदद करती है। इसका मुनाफा का 12% इस्राएल को जाता है।

  पूरी मुस्लिम दुनिया मे सिग्रेट नोशी करने वाले ग़ज़ा के लोगो को, मस्ज़िदों को, अस्पतालो को बॉम्ब से तबाह करने मे इस्राएल की मदद करते है।
100 मिलियन डॉलर की क़ीमत के साथ थांबको नोशी करने वाले।

 मुसलमान रोज़ इस्राएल को 12 मिलियन डॉलर की मदद कर रहे है फिलिस्तिनियो के क़त्ल ए आम मे, मस्ज़िदों को बॉम्ब से उडाने मे, अस्पतालो मे मरीजों को मारने मे, एंबुलेंस, रेफूजी कैंपस पर मिसाइल मारने मे।

एक F16 विमान की क़ीमत है 50 मिलियन डॉलर। जिसका मतलब है के मुसलमान हर चार दिन मे एक जंगी जहाज़ की क़ीमत अदा कर रहा है इस्राएल को जिससे वह अस्पतालो और मस्ज़िदों पर बॉम्ब की बारिश किये हुए है।

बदक़िस्मती से... वह मुसलमानो पर बमो की बारिश करने के लिए चंदा इकट्ठा कर रहा है और मुसलमान उसके मुहिम को कामयाब बनाने मे हर तरह से मदद कर रहे है

  इससे पहले के हम अपने भाईयो की मदद कर सकें, फिलिस्तिनियो के दुश्मनो की हिमायत करना छोड़ दे।

सऊदी अरब ने कहा है के हम तेल को  हथियार नही बनाएंगे। दूसरी तरह सऊदी अरब के रियाद मे मुजिक फेस्टिवल मनाया जा रहा है। नाच गाने हो रहे है।

UAE के बैंक अल फलाह ने फिलिस्तीन की मदद के लिए बनाये गए ट्रस्ट के एकाउंट को बंद कर दिया, ताकी इससे फिलिस्तीन को जो लोग मदद करना चाहते है उसे न पहुँचे।
सऊदी कहता है हम तेल को हथियार नही बनाएंगे, UAE कहता है हम इस्राएल से किसी भी कीमत पर अपना बिजनेस बंद नही करेंगे, उससे अपना राजदूत नही बुलाएँगे,  जोर्डन अपना एयरबेस इस्राएल को इस्तेमाल करने के लिए दिया है, सऊदी, UAE का एयरबेस पहले से ही अमेरिका इस्तेमाल करता है अब उसे इस्राएल फिलिस्तिनियो पर बॉम्बारि करने के लिए इस्तेमाल कर रहा है।

स्टारबक्स
कोकाकोला
बर्गर, पिज़्ज़ा
पेप्सी, आमाज़ॉन
फेसबुक, X, इंस्टाग्राम, मेटा, सब आज मुसलमानो के खिलाफ सह्युनियो के साथ मैदान ए जंग मे उतरे है। लेकिन मुसलमान जिसे अपना रहबर समझ कर फखर महसूस करते है उन्होंने फिलिस्तिनियो के सिर्फ निंदा का बलास्टि मिसाइल अभी तक छोड़ा है। अरब हुकमराँ को सिर्फ तख्त चाहिए चाहे वह किसी भी तरह से हो। अरबो को फिलिस्तीन की कोई फिकर नही। फिलिस्तीन के लिए अरबो के तरफ से सिर्फ ब्याबाजी हुई है, हर 3-4 दिन पर एक बयान, स्पीच, स्टेटमेंट्, देकर सो जाते है उसी को लेकर आप खाइये, पीजिये, सोइये और अरबो का एहसान मानिये।

इस्राएल ने हॉस्पिटल पर बॉम्बारि कर के 11000 से ज्यादा लोगो को मारा, कहाँ है वह जो मुसलमानो का नेता बनने को तैयार रहता है? 

किधर है वह सुन्नी मुसलमानो का रहनुमा ? 

किधर है वह OIC का हेड जो अपनी मन मर्ज़ी से दूसरे मुस्लिम मुमालिक को अलग थलग करने मे लगा रहता है। 

कहाँ है वह 40 देश के आर्मी चीप जो UN के कहने पर शांति सेना भेजता है? 

कही ये OIC (Orgnization of Israels Co -Opration) तो नही? . 

किधर है वह अरब मुमालिक जो अमेरिका की चाकरी करने और मुखबिरी करने मे लगा रहता है, उसका दोस्त अमेरिका और ब्रिटेन किधर है? जिसने उस्मानिया सलतनत से आज़ादी के लिए अंग्रेजो का साथ दिया था?  
आप अगर कुछ करना चाहते है तो इजरायली सामान का बॉयकॉट करे।

यह पैगाम दुसरो तक जरूर पहुचाये, दूसरे मुसलमान भाईयो से इस्के बारे मे जरूर बातें करे।

इस्राएल को यह सब करने के लिए कहा से मदद मिल रही है?

  नापाक वज़ूद इस्राएल जो आज कर रहा है या 1948 से करता आरहा है... सिर्फ अमेरिका की हिमायत से, ब्रिटेन, फ्रांस की हिमायत से। अगर सलेबी सह्युनि को मदद करना बन्द कर दे तो आज झुक जायेगा। जैसे कुछ होता है अमेरिका हथियार भेजना शुरू कर देता है।
इसमे असल मुज़रिम कौन है? अमेरिका. जिसके बारे मे बात करने से मीडिया, हुकमराँ और माहेरिन डरते है, मीडिया इस पर बात नही करता क्योंके उसे अमेरिका के तरफ से मिले हुए इनाम का भी लाज रखना।
लिहाज़ा आम मुसलमानो को सोचना होगा के अरबो का, तुर्किये का, पाकिस्तान का, मिस्र का सबसे करीबी पार्टनर् कौन है? वह अमेरिका है, इस्राएल को मदद कौन देता है वह अमेरिका है। लिहाज़ा अगर जादूगर की जान तोते मे है तो जादूगर को मारने से नही मरेगा बल्कि तोता को पकड़ना होगा,। तोते की गर्दन जब कटेगी तब ये तागुत् खत्म होगा। इसके लिए आल्मी सतह पर मुस्लिम दुनिया को चीन और रूस के खेमे मे जाना। होगा।

पहले अपने दुश्मन को पहचाने। कौन है जिसकी ताकत पर इस नजाएज़ वज़ूद को नाज़ है?

हर नमाज़ में अपने फिलिस्तीनी भाईयों और मुजाहीदीन के लिए ज़रूर दुआ करें। कम से कम हम इतना तो कर ही सकते है। आप अब फिलिस्तीन के लिए जरूर दुआ करे। 

या अल्लाह फिलिस्तीन को आज़ाद कर और मस्ज़िद ए अक्सा की हीफाजत फरमा,फिलिस्तीन की आज़ादी के लिए कोशिस करने वालो की मदद कर और ज़ालिम को उसके ज़ुल्म के साथ बर्बाद कर दे। इस्राएल को मदद करने वाले को मिटा दे। आमीन

Share:

Palestine: Masjid E Aqsaa Ki Aazadi,Musalmano ki Bedari aur Jihad ka waqt.

Maszid-E-Aqsa Ki Aazadi ke liye Musalmano ko kya karna chahiye?

Gza ki Pukar, Bedar Ummat aur Jihad Ka Faisla.
Musalmano ka Rehnuma kaun hai, Muslim Leadership kaha hai?
Palestine par Musalman Hukmran aur Aam Musalmano ka Rawaiyya.

پیامِ غزہ : بیدارئ اُمت اور جہـ.ـادِ اُمت کا فیصلہ کن موڑ ؛ حصہ اول

استاد اسامه محمود حفظہ اللّٰه

برصغیر اور پوری دنیا میں بستے میرے اہل ایمان بھائیو اور بہنو!

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

الحمدللہ الله کا فضل و احسان ہے، اس کا انتہائی کرم ہے کہ مسجد اقصیٰ کی بازیابی کا جہـ.ـا د ، جو بالاصل پوری امت کو اس کی عزت لوٹانے اور اس کو آزادی دلانے کا جہـ.ـا د ہے، آج ایک انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہوا چاہتا ہے اور دنیا میں نمودار ہونے والے واقعات و حالات سب بتا رہے ہیں کہ امت مسلمہ کی تاریخ میں یہ مرحلہ اس کے لیے ایک بالکل نئے دور کا آغاز ان شاء اللہ ثابت ہو گا۔
اس مرحلے کی حالیہ نشانی، قلب و روح کو فرحت و سرور دینے والا عظیم واقعہ طوفانِ اقصیٰ ہے۔

وہ مبارک اور بے مثال طوفان کہ جو غزہ کے مجـ.ـا ہدینِ عظام اور پیکر صبر و ثبات عوام کے ، ذلت کی زندگی پر عزت اور دنیا کی عارضی متاع پر آخرت کی دائمی نعمتوں کو ترجیح دینے کے باعث ممکن ہوا، بلاشبہ اس نے امت سے ذلت ورسوائی کے وہ داغ دھو ڈالے جو خائنین امت کی قبیح خیانتوں اور غداریوں کے باعث امت کے اجلے دامن پر لگے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کو دیکھ کر ہر صاحبِ ایمان کو دل کے اندر تک اسلام اور اہلِ اسلام کی عزت و عظمت کا ایک نیا احساس ہوا اور الحمدللہ نظر آ رہا ہے کہ طوفان الاقصیٰ اور اس کے بعد کے واقعات کے باعث آج پوری امت میں جہـ.ـا د اور استشھاد کے جذبے نے زور پکڑ لیا ہے۔ بچے، بوڑھے اور جوان، بلکہ خواتین تک بھی، سب میدان جہـ.ـا د میں اترنے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں اور فرط تشکر سے ہماری آنکھیں بھیگی ہیں کہ ہر طرف اقصیٰ کی خاطر جینے اور اہل اقصیٰ ہی کی خاطر مرنے اور شہید ہونے کی قسمیں اٹھائی جارہی ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ یہ جذبات کبھی ٹھنڈے نہ ہوں، یہ عظیم مقاصد و عزائم کبھی پست نہ ہوں، یہ موقع اور یہ جنگ ہم سب کی زندگیوں میں ایک ایسی با معنی تبدیلی کا ذریعہ بن جائے کہ جس کا محور، مرکز اور بنیاد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت و بندگی ہو ، ہماری زندگیوں میں وہ تبدیلی و انقلاب یہ لائے کہ جس کا راستہ جہـ.ـا د فی سبیل اللہ اور جس کی منزل اقصیٰ پہنچ کر فتح یاب ہونا یا دوسری صورت میں جہاد اقصی میں ہی قربان ہو کر جام شہادت پینا ہو... اللہ ہی سے دعا ہے اور وہ ذات ہی دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والی ہے کہ اللہ ! امتِ مسلمہ کے سب مجـ.ـا ہدین / اہل ایمان کو یہ توفیق دے کہ وہ سب اپنی اپنی جگہ مجـ.ـا ہدینِ قدس کے ہم رکاب بن جائیں سسکتی ماؤں، بہنوں اور ارض قدس میں قتل ہوتے ہمارے معصوم بچوں کے انتقام کی خاطر وہ صہیونی صلیبی اس منحوس اور ابلیسی اتحاد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ان ظالموں پر عذاب الہی کا کوڑا بن کر برسیں اور یوں امتِ مسلمہ شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک ان عظیم جہـ.ـا دی لشکروں کا منظر پیش کرے کہ جن کے دیکھنے کے لیے تاریخ کو ایک صدی سے زائد عرصے کا انتظار کرنا پڑا، وہ عظیم لشکر یہاں بن جائیں کہ جن کے اٹھنے اور آگے بڑھنے کے لیے دنیا بھر کے مظلومین چشم بہ راہ ، یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ یا اللہ ! ہمیں اس زمین سے نکال کہ یہاں کے باسی بہت ظالم ہیں اور یا اللہ ! اپنی طرف سے ہمارا کوئی مدد گار اور نصرت کرنے والا بھیج !

پس آج اگر ان مظلومین کی پکار پر لبیک کہا گیا، جو فرض ہم پر عائد ہے اس کے ادا کرنے میں اگر لیت و لعل سے کام نہیں لیا گیا، مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے ناگزیر اور مطلوب ایک جہـ.ـا دی تحریک اگر اٹھ کھڑی ہوئی، نوجوانانِ امت خراسان و برصغیر سے جزیرۂ عرب، ارض شام و افریقہ تک اس جہـ.ـا دی لشکر میں اگر شامل ہوئے اور لشکر ابلیس پر ضربیں لگانے کے لیے پورے عالم کو میدانِ جہـ.ـا د اگر بنا لیا گیا۔ اور اللہ کے اذن سے یہی کچھ اب ہو گا، اس لیے کہ اس کے علاوہ اقصیٰ کی آزادی کا کوئی اور راستہ نہیں۔ تو پھر فتح و نصرت ان شاء اللہ زیادہ دور نہیں، اللہ کے اذن سے پھر یہی وہ لشکر ہوں گے جن کے بالآخر کامیاب ہو جانے کی بشارت نبی الملاحم ﷺ آج سے چودہ سو سال پہلے دے چکے ہیں اور جو ایک فتح کے بعد دوسری اور ایک پڑاؤ کے بعد دوسرے پڑاؤ کی طرف پیش قدمی کریں گے ، پرچمِ جہـ.ـا د ایک ہاتھ کے کٹنے کے بعد دوسرا تھامے گا، شہادتیں اس سفر میں رکاوٹ نہیں بنیں گی، بلکہ اس کا خون امت کی عزت و عظمت کے اس سفر میں ایندھن بن کر عزیمتوں اور عظمتوں کے اس قافلے کو آگے سے آگے دھکیلے گا اور بالآخر وہ وقت پہنچ ہی جائے گا جب اللہ کی زمین پر اللہ ہی کا عدل و انصاف قائم ہو جائے گا اور ظلم و کفر پر کھڑے دجالی نظام کے لیے دنیا بھر میں کہیں کوئی جائے پناہ نہیں مل پائے گی ..... جاری ہے ان شاء الله

Share:

Khilafat se Badshahat me Kaise tabdil hui, Islamic System kab lagu tha?

Sahaba Ke Daur me Itni Jungein Kyu hui?

Khilafat se Badshahat aur Badshahat se Jamhuriyat me Kab Tabdil ho gayi?

Masla Palestine aur Muslim Hukmran
Palestinian ke Qatl e Aam me Europe aur Ahle Arab Shamil hai.
Middle East me Israel banane ke bad se kya kya hua?
Palestine me Maujuda halat aur Arab Hukmrano ki Zimmedariya.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-224"
سوال_ صحابہ کرام کے عہد میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟اور خلافت بادشاہت میں کیسے تبدیل ہوئی؟ نیز باغی پارٹی کا انجام کیا ہوا؟

Published Date:22-3-2019

جواب:
الحمدللہ:

(تاریخ اسلام پر آخری سلسلہ )

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر.

87٫88،92٫96٫102 131،133٫134، 139،145،151،156,166

*میں سب سے پہلے ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول پڑھے پھر یہ پڑھا کہ خلافت کی شروعات کیسے ہوئی؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، اور یہ بھی پڑھا کہ واقعہ فدک کی حقیقت کیا تھی؟ اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی شہادت کیسے ہوئی، اور پھر سلسلہ 133٫134 میں ہم نے پڑھا کہ تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟
اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟ اور دور عثمانی کی باغی تحریک کیسے وجود میں آئی؟ انہوں نے کس طرح عثمان رض کو شہید کیا اور صحابہ کرام نے عثمان رض کا دفاع کیسے کیا؟اور پھر سلسلہ نمبر-139 میں ہم نے پڑھا کہ باغی تحریک نے کس طرح عثمان غنی رض پر الزامات لگائے اور انکی حقیقت بھی جانی،  اور پھر سلسلہ_145 میں ہم نے پڑھا کہ عثمان غنی رض کو شہید کرنے کے بعد فوراً صحابہ نے باغیوں سے بدلہ کیوں نا لیا؟ چوتھے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟

*کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی؟اور کیا علی رض  باغیوں سے بدلہ لینے کے حق میں نہیں تھے؟اور کیا علی (رض) نے عثمان رض کے قاتلوں کو خود حکومتی عہدے دیے تھے؟ اس ساری تفصیل کے بعد سلسلہ نمبر-151 میں ہم نے جنگ جمل کے بارے پڑھا کہ وہ جنگ* *باغیوں کی منافقت اور دھوکے کہ وجہ سے ہوئی تھی، جس میں باغیوں کی کمر تو ٹوٹی مگر ساتھ میں بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے، اور پھر سلسلہ نمبر_156 میں ہم نے جنگ صفین کے بارے پڑھا کہ جنگ صفین کیسے ہوئی،اسکے اسباب کیا تھے، اور پھر مسلمانوں کی صلح کیسے ہوئی اور پھر سلسلہ نمبر-166 میں ہم نے جنگ صفین کے بعد واقع تحکیم یعنی مسلمانوں میں صلح کیسے ہوئی، کون سے صحابہ فیصلہ کرنے کے لیے حکم مقرر کیے گئے اور حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے مابین تعلقات کیسے تھے،*
*اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر-171 میں ہم نے  یہ پڑھا کہ خوارج کیسے پیدا ہوئے اور باغی جماعت میں گروپنگ کیسے ہوئی؟
خوارج کا نقطہ نظر کیا تھا؟*
*حضرت علی نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟خوارج سے جنگ کے نتائج کیا نکلے؟اور بالآخر مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟*
*اور سلسلہ نمبر 176 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی (رض) کیسے شہید ہوئے؟ حضرت علی (رض) کی شہادت کے وقت صحابہ کرام اور باغیوں کے کیا حالت تھی؟حضرت علی ( رض) کی شہادت پر صحابہ کے تاثرات کیا تھے؟حضرت علی(رض) کے دور میں فرقوں کا ارتقاء کیسے ہوا؟حضرت علی (رض) کی خلافت کس پہلو سے کامیاب رہی؟حضرت علی (رض) کے دور میں بحران کیوں نمایاں ہوئے؟ اور اسی طرح سلسلہ نمبر 181 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی رض کی شہادت کے بعد خلیفہ کون بنا؟ حضرت حسن اور معاویہ رض کا اتحاد کن حالات میں ہوا؟

اس کے کیا اسباب تھے اور اس کے نتائج کیا نکلے؟اور کیا معاویہ رض نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا تھا؟اور حضرت معاویہ کی کردار کشی کیوں کی گئی؟ معاویہ پر کیا الزامات عائد کیے گئے اور ان کا جواب کیا ہے؟ اور حضرت معاویہ نے قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟سلسلہ نمبر-188 میں ہم نے پڑھا کہ کس طرح باغی راویوں نے جھوٹی روایتوں سے یہ مشہور کر دیا کہ حضرت امیرمعاویہ (رض) خود بھی حضرت علی (رض) پر سب وشتم کرتے اور اپنےگورنروں سے بھی کرواتے تھے، اور سلسلہ نمبر-194 میں ہم نے استلحاق کی حقیقت جانی،اور پھر سلسلہ نمبر-197 میں ہم نے پڑھا کہ باغی راویوں نے امیر معاویہ رض پر جو الزامات لگائے انکی کیا حقیقت تھی؟ جیسے کہ کیا حضرت امیر معاویہ (رض ) کے گورنر رعایا پر ظلم کرتے تھے؟اور کیا معاویہ (رض) نے عمار (رض) کا سر کٹوایا تھا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا واقعی حضرت معاویہ رض نے حسن (رض) سمیت سیاسی مخالفین کو زہر دلوایا تھا؟اور پچھلے سلسلہ نمبر-201 میں ہم نے پڑھا کہ کیا حضرت امیر معاویہ رض نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا تھا؟*اور کیا یزید کو مشورے کے بنا زبردستی ولی عہد مقرر کیا گیا؟اور کیا یزید بے نماز،شرابی اور ہم جنس پرست تھا؟ اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر 205 میں ہم نے پڑھا  کہ کیا بنو ہاشم اور بنو امیہ ایک دوسرے کے دشمن تھے؟ اور حضرت علی(رض)کی بنو امیہ کے بارے کیا رائے تھی؟اور کیا معاویہ (رض) نے غزوہ بدر کا انتقام جنگ صفین کی صورت میں لیا؟اور کیا معاویہ(رض) نے بنو امیہ کا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے زیادہ حکومتی عہدے اپنے لوگوں کو دیے؟اور یہ کہ معاویہ(رض) کا دور حکومت خلافت کا دور تھا یا ملوکیت کا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا خلافت صرف حضرت علی(رض)  تک قائم رہی؟اور  سلسلہ نمبر-208 میں ہم نے معاویہ (رض ) کے فضائل و مناقب صحیح حدیث سے پڑھے، اور ناقدین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا ،آپکے شاندار  کارنامے پڑھے اور آخر پر یہ بھی پڑھا کہ صحابہ کرام کی آپکے بارے کیا رائے تھی؟* اور پچھلے سلسلہ نمبر-211 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی اصل نوعیت کیا تھی؟سانحہ کربلا کیسے وقوع پذیر ہوا؟ سانحہ کربلا کا ذمہ دار کون تھا؟سانحہ کربلا کے کیا نتائج امت مسلمہ کی تاریخ پر مرتب ہوئے؟دیگر صحابہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شمولیت اختیار کیوں نہ کی؟یزید نے قاتلین حسین کو سزا کیوں نہ دی؟شہادت عثمان کی نسبت شہادت حسین پر زیادہ زور کیوں دیا گیا؟ اور سانحہ کربلا کے بارے میں بعد کی صدیوں میں کیا رواج پیدا ہوئے؟ اور سلسلہ نمبر-215 میں ہم نے پڑھا کہ سانحہ کربلا کے بعد  دوسرا بڑا سانحہ حرہ کیسے پیش آیا؟
کیا یزید کے حکم سے مدینہ میں خواتین کی عصمت دری کی گئی؟ کیا یزید نے مکہ پر حملہ کر کے بیت اللہ جلایا؟یزید کے بارے ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟
اور آخر پر باغی تحریک نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟؟ اور پچھلے سلسلہ نمبر 218 میں ہم نے حضرت عبداللہ بن زبیر(رض) کی خلافت کے بارے چند مختصر سوالات کے جواب پڑھے،*

*جمعہ کے دن جو تاریخ اسلام کا سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا اس سلسلے کا آج یہ آخری حصہ ہے،*

آج کے سلسلے میں ہم ان سوالات کے جواب تلاش کریں گے جو ان تاریخی سلسلہ جات کو پڑھنے سے ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں،

@عہد صحابہ میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟

@خلافت، ملوکیت میں کس طرح تبدیل ہوئی؟

@بنو امیہ کا باقی دور کیسا تھا؟

@ بعد میں باغی تحریک پر کیا گزری؟

@ناصبی کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟

اس سلسلہ کے اختتام پر ہم اس قابل ہوں گے کہ عہد صحابہ سے متعلق عمومی تاریخی سوالات کے جواب جان سکیں۔

 
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سیاسی دور 73ھ/ع692 میں ختم ہوتا ہے۔ اس دور سے متعلق کچھ عمومی نوعیت کے سوالات ہیں جو تاریخ کے طلباء کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ان کا جائزہ لیں گے۔ ان شاءاللہ

*صحابہ کرام میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟*

عہد صحابہ میں اتنی جنگیں نہیں تھیں جتنا کہ تاریخ کو پڑھنے سے تاثر ملتا ہے۔  اصل میں صحافی اور مورخین حضرات کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ چن چن کر منفی واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں اور مثبت واقعات ان کے نزدیک اتنے اہم نہیں ہوتے کہ ان کا اندراج تاریخ کی کتب میں کیا جائے۔ مثال مشہور ہے کہ کتا انسان کو کاٹ لے تو خبر نہیں بنتی بلکہ اس وقت بنتی ہے جب انسان کتے کو کاٹ لے۔

صحافت کی ایک اصطلاح ہے جسے "نیوز ویلیو" کہا جاتا ہے۔ جرنلزم کے ماہرین کے نزدیک نیوز ویلیو کا انحصار متعدد عوامل پر ہوتا ہے:

1۔ منفی پن:
منفی خبروں کو مثبت خبروں کی نسبت زیادہ کوریج ملتی ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ کروڑوں لوگ اللہ تعالی کے  حضور حاضر ہوتے ہیں،  لاکھوں لوگ غرباء اور مساکین کی مدد کرتے ہیں، کروڑوں لوگ ایک دوسرے سے محبت سے  ملتے ہیں لیکن ان سب کی کوئی نیوز ویلیو نہیں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کروڑوں میں سے چند لوگ اگر قتل، بدکاری، ریپ، لڑائی جھگڑا  یا اسی  نوعیت کا کوئی کام کر بیٹھیں تو تمام اخبارات اسے رپورٹ کرتے ہیں۔ ہزاروں جہاز، ٹرینیں، بسیں اور کاریں صحیح و سلامت اپنی منزل مقصود پر پہنچتی ہیں  لیکن اخبار میں اس کی خبر نہیں آتی اور نہ ہی کوئی نیوز چینل اسے رپورٹ کرتا ہے لیکن اگر ایک آدھ جہاز، ٹرین، بس یا کار کو حادثہ پیش آ جائے تو یہ خبر بن جاتی ہے۔

2۔ تصادم:
تصادم اور لڑائی جھگڑے پر مبنی خبروں کو زیادہ کوریج دی جاتی ہے۔

3۔ نمایاں شخصیات سے تعلق:
نمایاں شخصیات جیسے حکمران طبقے سے متعلق خبریں زیادہ نشر کی جاتی ہیں جبکہ عام آدمی  سے متعلق خبریں کم۔

4۔ توقع:
ایسی خبریں جن کی لوگوں کو توقع نہ ہو، کو زیادہ کوریج ملتی ہے کیونکہ اس سے لوگوں کو چونکایا جا سکتا ہے اور سنسنی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہاں کتے اور انسان والی مثال فٹ بیٹھتی ہے۔

5۔ تحقیقات:
اگر کسی خبر کے لیے بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہو تو اس کی نسبت اس خبر کو زیادہ کوریج دی جاتی ہے جس کے لیے تحقیق کی ضرورت نہ ہو اور وہ آسانی سے دستیاب ہو سکے۔

یہ باتیں مزید تفصیل سے اس لنک پر آپ دیکھ سکتے ہیں
(https://en.wikipedia.org/wiki/News_values)

ان کے علاوہ دیگر عوامل جیسے خبر کی دستیابی، میڈیا میں پیش کیے جانے والے دیگر واقعات، میڈیا کا اپنا شیڈول وغیرہ بھی خبر کی کوریج کا تعین کرتے ہیں۔ چونکہ مورخین کے کام کا انحصار صحافیوں کے کام پر ہوتا ہے، اس وجہ سے یہی عوامل وہاں بھی اپنا اثر دکھا دیتے ہیں۔ صحافی، اخباری اور مورخ انہی باتوں کو اپنی کتب میں درج کرتے ہیں جن کی ان کے نزدیک کچھ نیوز ویلیو ہو ،
تاکہ ان کا اخبار یا کتاب بک سکے۔ جو چیزیں نارمل اور روٹین ہوتی ہیں، انہیں وہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر ان دنوں میں مسلمانوں کی مذہبی، علمی، فکری، تہذیبی اور دعوتی تاریخ پر کام کر رہا ہوں لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تاریخ کے بارے میں کتب تاریخ میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے ہمیں کتب تاریخ سے ہٹ کر دیگر وسائل پر انحصار زیادہ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ مورخین اور اخباریوں کے نزدیک علمی، فکری اور دعوتی تاریخ کی اتنی نیوز ویلیو نہیں تھی کہ وہ اس سے متعلق زیادہ تفصیلات اپنی کتب میں درج کرتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پورے سیاسی دور کا جائزہ لیا جائے تو اس میں امن کے وقفے ، جنگ کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔
اس کے لیے آپ اس ٹائم  لائن کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس ٹائم لائن میں چھوٹے موٹے اور مقامی نوعیت کے واقعات کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ ان کا عام زندگی پر کوئی  اثر نہیں پڑتا ہے۔

1-2/622-623
امن کا دور۔۔۔ تقریباً ایک سال

2/624
غزوہ بدر ۔۔۔ ایک دن کی جنگ اور کاروائی میں چند دن لگے۔

2-3/624-625
امن کا وقفہ۔۔۔ تقریباً ایک سال

3/625
غزوہ احد ۔۔۔ ایک دن کی جنگ اور کاروائی میں چند دن لگے۔

3-5/625-627
امن کا وقفہ ۔۔۔ تقریباً دو سال

5/627
غزوہ خندق ۔۔۔ چند دن کا محاصرہ اور مکمل کاروائی میں بیس پچیس دن لگے۔

5-7/627-629
امن کا وقفہ ۔۔۔ دو سال

7/629
غزوہ خیبر ۔۔۔ چند دن کی جنگ اور مکمل کاروائی میں بیس پچیس دن لگے۔
جنگ موتہ ۔۔۔ چند دن کی جنگ اور مکمل کاروائی میں بیس پچیس دن لگے۔

7-8/629-630
امن کا وقفہ ۔۔۔ ایک سال

8/630
فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ ہوازن اور چند چھوٹے موٹے غزوات۔  سب کو ملا کر چند ماہ کا وقت لگا۔

8-11/630-632
امن کا وقفہ ۔۔۔ تین سال۔ اس میں صرف ایک تبوک کی مہم ہے جس میں جنگ نہیں ہوئی۔

11/632
بعض عرب قبائل کا ارتداد اور ان سے جنگیں

12-35/632-655
مسلم دنیا میں امن کا وقفہ ۔۔۔ 23 برس۔ سرحدوں پر روم اور ایران سے جنگیں چلتی رہیں۔

35-40/655-660
شہادت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا دور۔۔۔ اس میں بھی محض تین جنگیں ہوئیں اور ان کے درمیان امن رہا۔

41-60/660-680
مسلم دنیا میں امن کا وقفہ ۔۔۔  20 برس۔ سرحدوں پر اہل روم اور خراسان سے جنگ چلتی رہی۔

61-64/680-684
سیاسی بے چینی کا دور ۔۔۔ تین سال۔ اس میں بھی سوائے تین سانحوں کے بالعموم امن قائم رہا۔

64-67/684-687
خانہ جنگی کا دور

67-70/687-690
چھوٹی موٹی بغاوتوں  کے علاوہ عمومی امن کا وقفہ ۔۔۔ چار سال

71-73/690-692
خانہ جنگی کا دور ۔۔۔ دو سال

73-132/692-750
چھوٹی موٹی بغاوتوں کے علاوہ بحیثیت مجموعی امن کا دور ۔۔۔ 58 سال

ان تمام ادوار کو دیکھا جائے تو مسلم دنیا کی حد تک سوائےدس بارہ سالوں کے تقریباً سو برس کی بقیہ پوری تاریخ امن کے ادوار پر مشتمل ہے۔ صحیح معنوں میں سن61-67اور 71-73کو خانہ جنگی کا دور کہا جا سکتا ہے۔

  حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ تمام ہی قبائل نے بغاوت کر دی ہو۔ پورے عرب کے صرف چند قبائل نے بغاوت کی جسے متحد مسلمانوں نے چند ہی ماہ میں ختم کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور کو خانہ جنگی کا دور اس وجہ سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک باغی تحریک موجود تھی اور جو بھی جنگیں ہوئیں، ان میں یہی باغی تحریک شامل تھی۔  اس  طرح سے اندرونی انتشار کا دور صرف آٹھ دس سالوں پر محیط ہے۔ 
امن کا زمانہ تقریباً سو برس  پر محیط ہے جس میں ہر قسم کی معاشی، معاشرتی، دعوتی، تعلیمی، اخلاقی  اور ثقافتی ترقی ہمیں نظر آتی ہے۔
  جنگ کا تناسب محض 25% جبکہ امن کا تناسب 75% ہے۔  
یہ 25% بھی محض سالوں کا تناسب ہے۔ ان سالوں کے اندر بھی یہ کیفیت نہیں رہی ہو گی کہ ہر مہینے اور ہر دن جنگ ہو رہی ہو گی بلکہ محض چند ماہ ایسے ہوں گے جن میں جنگ ہوئی ہو گی۔ اخباری اور مورخین کے نزدیک چونکہ امن کے ان طویل وقفوں کی کوئی نیوز ویلیو نہیں ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ انہیں ایسے نظر انداز کرتے ہیں جیسے ان میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے برعکس وہ جنگ کی استثنائی صورت پر بہت زیادہ فوکس کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس دور میں جنگ ایک نارمل کیفیت تھی اور امن کے وقفے محض استثنائی تھے۔
جہاں تک بیرونی خطرات کا تعلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار مکہ اور یہود سے جو جنگیں ہوئیں، ان کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے اسلام کی دعوت کو مٹانے کے لیے اس پر حملوں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد روم اور ایران کی سپر پاورز سے جنگوں کا آغاز بھی اسی وجہ سے ہوا کہ یہ قوتیں اپنے قریب ایک تیسری سیاسی طاقت کو برداشت نہ کر رہی تھیں۔  اس دور میں ابھی اقوام متحدہ وجود میں نہ آئی تھی اور ہر ریاست خود کو دوسری کے ساتھ جنگ پر مجبور پاتی تھی۔ اگر ایک ریاست دوسری پر حملہ نہ کرتی تو دوسری پہلی پر حملہ کر دیتی۔ یہ کیفیت 1945 تک رہی ہے جب اقوام عالم نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک معاہدہ کیا کہ کوئی ریاست دوسری پر حملہ نہ کرے گی اور جارحیت کی صورت میں مسئلے کا حل اقوام متحدہ کے ادارے کے ذریعے تلاش کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ جنگیں اب بھی چلتی  رہتی ہیں۔

*خلافت ملوکیت میں کیسے تبدیل ہوئی؟*

یہ حقیقت ہے کہ عبد الملک بن مروان سے صحیح معنوں میں بادشاہت کا آغاز ہوا۔ عبدالملک کے بعد ان کے چار بیٹے ولید، سلیمان، یزید اور ہشام خلیفہ یکے بعد دیگرے بنے۔  صرف درمیان میں دو سال کے لیے ان کے بھتیجے عمر بن عبدالعزیز بن مروان رحمہ اللہ کو خلافت ملی اور انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔ بنو امیہ کے بعد یہ بادشاہت بنو عباس اور پھر عثمانی ترکوں کے ہاتھ میں رہی اور یہ ملوکیت ہی تھی۔ یہاں پر تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سن 1ھ/ع622 میں قائم ہونے والی وہ حکومت الہیہ،  جس کے بانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، کیا یہ حکومت الہیہ اتنی کمزور تھی کہ محض 73 برس میں اس کا خاتمہ ہو گیا اور یہ ملوکیت میں تبدیل ہو گئی؟  پھر ان 73 برس میں بھی کم از کم یزید کا چار سالہ دور سانحات سے پر ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اسلام، کم از کم سیاسی میدان میں بالکل ہی ناکام رہا۔

یہ سوال اصل میں اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اس ملوکیت کو آج کل کے زمانے کی فوجی آمریتوں پر قیاس کر لیتے ہیں جو عالم اسلام میں جا بجا مسلط ہیں۔ اس وجہ سے لازم ہے کہ قدیم دورکی ملوکیت  کا موازنہ ہم اپنے دور کی آمریتوں سے کر لیں تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملوکیت کی تیرہ سو سالہ تاریخ میں اچھے اور برے ہر طرح کے بادشاہ گزرے ہیں تاہم مجموعی غلبہ خیر ہی کا رہا ہے۔

آئیے ایک جدول میں  ان تین ادوار کا موازنہ کرتے ہیں

1_خلافت راشدہ کا دور
2_اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کا دور،
3_جدید آمریتوں کا دور،

1۔ مملکت کا قانون
خلافت راشدہ کے دور میں قرآن و سنت قانون کی بنیاد تھا،

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں قرآن و سنت قانون کی بنیاد تھا،

جدید آمریتوں کے دور میں حکمران طبقے کی منشاء قانون کی بنیاد ہے،

2۔  حکمران کا انتخاب
خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں کے حکمران باہمی مشورہ سے بنے،

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں حکمران موروثی اقتدار یا فوجی طاقت کے زور پر بنے

جدید آمریت کے دور میں موروثی اقتدار یا فوجی طاقت سے ہی حکمران بنتے ہیں،

3۔ علماء و صلحاء کا حکومت میں کردار

خلافت راشدہ میں علماء حکومت میں شریک تھے

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں علماء کافی حد تک شریک حکومت تھے اور اصلاح کرتے رہے

جدید آمریتوں کی حکومت میں علماء کم ہی شریک ہوئے

4۔ بیت المال پر حکمران کا ذاتی کنٹرول

خلافت راشدہ میں حکمران کا بیت المال پر کوئی کنٹرول نہیں بلکہ خلیفہ سے مکمل حساب لیا جاتا تھا

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں حکمرانوں کا بیت المال پر  ایک حد تک کنٹرول تھق مگر زیادہ فنڈ عوام کی فلاح پر خرچ ہوتے تھے

جدید آمریتوں کیلے دور میں حکمرانوں کا بیت المال پر مکمل کنٹرول ،

5۔ حکمرانوں کی اخلاقی حالت

خلافت راشدہ میں تمام حکمران  آئیڈیل تھے

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں زیادہ تر اچھے اور کبھی برے حکمران

جدید آمریتوں کے دور میں زیادہ تر برے حکمران

6۔ حکمرانوں کا ظلم و ستم

خلافت راشدہ میں بالکل نہیں

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں  زیادہ تر صرف اپنے سیاسی مخالفین کے لیے

جدید آمریتوں کے دور میں زیادہ تر صرف اپنے سیاسی مخالفین کے لیے

7۔ قانون سازی کی ذمہ داری

خلافت راشدہ  کے دور میں قرآن و سنت کی بنیاد پر اہل شوری کا اجتماعی اجتہاد

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں قرآن و سنت کی بنیاد پر اہل علم کا اجتماعی اجتہاد

جدید آمریتوں کے دور میں حکمران کی ذات یا اس کی ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ

8۔ عوام کی فلاح و بہبود

خلافت راشدہ کے دور میں تمام تر فنڈز عوام کی فلاح اور قومی ضروریات پر خرچ ہوتا تھا

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں فنڈز کا اکثر حصہ عوام کی فلاح اور قومی ضروریات پر خرچ ہوتا تھا جبکہ کچھ حصہ حکمران طبقہ استعمال کرتا تھا

جدید آمریتوں کے دور میں فنڈز کا اکثر حصہ حکمران طبقے کی ذات پر خرچ ہوتا ہے جبکہ کچھ حصہ قومی ضروریات کے لیے باقی بچتا ہے

اس جدول کو دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملوکیت کے اس دور میں ایسا نہیں تھا کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہو اور پوری کی پوری امت مسلمہ گمراہی کا شکار ہو گئی ہو۔ اس کے برعکس ہمیں نظر آتا ہے کہ حکمران طبقے میں کچھ خرابیاں تو پیدا ہوئیں مگر بڑی حد تک یہ امت صراط مستقیم پر قائم رہی۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں میں موروثی بادشاہت قائم ہو گئی جس کے نتیجے میں آپس میں خانہ جنگیاں اور اقتدار کی کشمکش ہوتی رہی تاہم مملکت کا قانون قرآن و سنت ہی رہا۔ مسلمانوں کی ان تمام مملکتوں میں عوام کی فلاح و بہبود کو بنیادی حیثیت حاصل رہی اور برے حکمرانوں کے دور میں بھی عام آدمی کو اس کا حق ملتا رہا۔اس کے برعکس غیر مسلم دنیا میں بالعموم یہ کیفیت نہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم اپنے اپنے ملکوں کو چھوڑ کر مسلم علاقوں میں آ کر آباد ہوتے تھے اور یہاں کے فوائد سے اسی طرح انجوائے  کرتے تھے جیسے اب مسلمان مغربی دنیا میں جا کر  کرتے ہیں۔ 

 اگر پوری مسلم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں تین طرح کے حکمران نظر آتے ہیں:

·نہایت ہی اعلی کردار کے حکمران۔
ان میں مثلاً عمر بن عبد العزیز، متوکل علی اللہ عباسی اور  صلاح الدین ایوبی  رحمہم اللہ نمایاں ہیں۔  ان کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

·نہایت ہی برے کردار  کے حکمران۔
ان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔

· درمیانی قسم کے حکمران جن میں اچھائیاں اور برائیاں پائی جاتی تھیں۔ زیادہ تر سلاطین اسی نوعیت کے ہیں۔

دنیا کی دیگر اقوام کی تاریخ سے اگر ہم اپنی تاریخ کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم تاریخ میں اگرچہ برائیاں موجود رہی ہیں تاہم خیر کا عنصر زیادہ غالب ہے۔ اس وجہ سے اس تاریخ پر ہمیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

*بنو امیہ کا بقیہ دور کیسا تھا؟*

بنو امیہ کا بقیہ دور ملا جلا ہے۔ اس میں اچھے اور برے دونوں طرح کے حکمران گزرے ہیں۔ زیادہ تر حکمران وہ ہیں جو حکومت کی اہلیت رکھتے تھے تاہم ان میں کچھ خرابیاں بھی موجود تھیں۔ ولید بن عبدالملک بن مروان کا زمانہ فتوحات کا زمانہ ہے۔ اس میں سندھ، اسپین اور وسطی ایشیا کے علاقے فتح ہوئے۔ سلیمان بن عبد الملک کے زمانے میں کچھ کمزوریاں موجود ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز بن مروان رحمہ اللہ کا مختصر دور ہے  جس میں انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔ ان کے بعد یزید اور ہشام بن عبد الملک کے ادوار ہیں جن میں اچھی بری دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔  ان کے ادوار میں حکومتی سطح پر کچھ خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں  تاہم ایسا نہیں تھا کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہو۔ ہشام کے بعد بنو عباس کی تحریک اٹھی جس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ عباسی خلفاء بھی امویوں کی طرح ہی تھے۔ ان میں بھی اچھے برے ہر طرح کے ادوار گزرے ہیں۔ ایک طرف ہمیں ہادی، ہارون الرشید اور متوکل جیسے دیندار خلفاء نظر آتے ہیں اور دوسری طرف برے حکمران بھی انہی کا حصہ  ہیں۔

*بعد میں باغی تحریک پر کیا گزری؟*

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو باغی تحریک اٹھی تھی اور زیر زمین موجود رہی تھی، اس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس کے دو حصے ہو گئے تھے: ایک حصہ خوارج تھے اور دوسرے عراق کے باغی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس تحریک کی ان دونوں شاخوں کو اچھی طرح کچل دیا تھا۔ اس کے بعد عبدالملک بن مروان کے زمانے میں خوارج نے پھر سر اٹھایا لیکن اموی گورنر مہلب بن ابی صفرہ نے ان کی قوت کو ایک بار پھر توڑ کر رکھ  دیا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے  پھر  کئی مرتبہ سر اٹھانے کی کوشش کی لیکن مسلسل بغاوتوں کے نتیجے میں یہ کمزور ہو کر ختم ہو گئے۔ 
ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں خوارج مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے جن میں ازارقہ، صفاریہ اور اباضیہ کو شہرت ملی۔ ان کے یہ نام اپنے اپنے لیڈروں کے ناموں پر تھے۔ ان میں سے اباضیہ نسبتاً اعتدال پسند تھے۔ یہ  عام مسلمانوں کو کافر قرار نہیں دیتے تھے  اور نہ ہی بغاوت کو فرض سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس خوارج کی دیگر پارٹیوں کا موقف یہ  تھا کہ ان کے علاوہ تمام مسلمان کافر ہیں اور ظالم حکمران کے خلاف بغاوت فرض ہے۔ یہ تمام گروہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں بار بار ’’خود کش بغاوتیں‘‘ کرتے رہے اور اس کے نتیجے میں مکمل طور پر ختم ہو گئے۔

اباضیہ اپنے اعتدال پسند موقف کے باعث باقی رہے اور اب تک موجود ہیں۔

  دوسری صدی کے نصف آخر میں انہیں شمالی افریقہ میں اقتدار بھی مل گیا جو کہ آل رستم (160-296/776-909) کی حکومت کہلاتی ہے۔ اس کے بعد اگرچہ انہیں زوال آیا لیکن اب بھی یہ لیبیا اور الجیریا میں اقلیت اور عمان میں اکثریت میں موجود ہیں۔

باغی پارٹی کے کوفی گروپ کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اس کی بھی دو شاخیں ہو گئی تھیں۔ سلیمان بن صرد کی قیادت میں ایک شاخ نے "توابین" کے نام سے بغاوت کی جس میں ان کے اکثر لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد یہ مختار ثقفی کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے اور پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی افواج نے ان کا قلع قمع کر دیا۔ اس کے بعد یہ نہایت سکون سے رہے تاہم انہوں نے اپنی کاوشوں کا رخ پراپیگنڈا کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے جنگ صفین ، سانحہ کربلا اور دیگر واقعات سے متعلق تاریخی روایات وضع کر کے مسلمانوں میں پھیلانا  شروع کر دیں تاکہ عام مسلمانوں کو باغی تحریک کا حصہ بنایا جا سکے۔ انہیں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوئی اور مین اسٹریم مسلمان حکومت وقت کے ساتھ وابستہ رہے۔  چونکہ یہ لوگ حضرت علی اور حسین رضی اللہ عنہما کا نام استعمال کرتے تھے، اس وجہ سے بعض لوگ ان سے متاثر ہو جاتے تھے۔ تاہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان کی قیادت اب حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے پاس تھی جنہوں نے پانچ یا چھ خلفاء کا زمانہ پایا مگر کبھی علم بغاوت بلند نہ کیا بلکہ 95/714 میں اپنی وفات تک امت کی تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔

دوسری صدی ہجری کے دوسرے عشرے میں باغی تحریک کچھ تقویت اس وقت ملی جب حضرت زین العابدین کے بیٹے زید رحمہما  اللہ کو انہوں نے بغاوت پر آمادہ کر لیا لیکن عین موقع پر انہیں دھوکہ دے کر ان سے الگ ہو گئے۔ یہ بالکل وہی معاملہ تھا جو اس سے پہلے وہ حضرت زید کے پڑدادا، حضرت علی اور دادا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ کر چکے تھے۔

طبری نے122/740 کے باب ہشام کلبی اور ابو مخنف کے حوالے سے اس واقعے کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
ذكر هشام عن أبي مخنف: 
جب زید کے ان طرف داروں کو، جنہوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، معلوم ہوا کہ زید کے ارادہ کا علم یوسف بن عمر (اس زمانے کے گورنر عراق) کو ہو گیا ہے اور اس نے زید کے پاس اپنے جاسوس لگا دیے ہیں اور وہ ان کے حال کی تفتیش کررہا ہے تو ان کے لیڈروں کی ایک جماعت زید کے پاس آئی اور ان سے پوچھا: "ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟"
زید نے جواب دیا: "اللہ ان پر اپنا رحم کرے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ میں نے اپنے کسی خاندان والے  کو ان سے برأت کا اعلان کرتے نہیں سنا ہے اور نہ ہی کوئی شخص ان کے متعلق کبھی برے الفاظ استعمال کرتا ہے۔"
ان لوگوں نے کہا: "آپ اہل بیت کے خون کا بدلہ لینے کے لیے اسی لیے اٹھے ہیں کہ یہ دونوں (ابوبکر و عمر) آپ کی حکومت کے درمیان میں  حائل ہو گئے تھے اور اسے آپ لوگوں (اہل بیت) کے ہاتھوں سے نکال دیا۔"
زید نے کہا: "اس معاملے میں سخت سے سخت بات جو میں کہہ سکتا ہوں، وہ صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے زیادہ مستحق  ہم تھے مگر قوم (مسلمانوں) نے دوسروں کو ہم پر ترجیح دی اور ہمیں اس سے ہٹا دیا۔ مگر اس بنیاد پر وہ ہمارے نزدیک کفر کے درجہ تک نہیں پہنچے۔ یہ دونوں حضرات امیر المومنین ہوئے تو انہوں نے لوگوں میں انصاف کیا ، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر عمل پیرا رہے۔"
ان لوگوں نے کہا: "جب ان دونوں حضرات نے آپ کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا تو پھر ان لوگوں (بنو امیہ) نے بھی نہیں کیا۔ پھر آپ ہمیں کیوں ان لوگوں سے لڑنے کا کہہ رہے ہیں جنہوں نے آپ پر ظلم نہیں کیا۔"
زید نے کہا: "یہ بات نہیں ہے۔ یہ لوگ ان جیسے نہیں ہیں ۔ یہ نہ صرف مجھ پر بلکہ آپ لوگوں بلکہ خود اپنے آپ پر بھی ظلم کرتے ہیں۔ میں آپ کو کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف بلاتا ہوں تاکہ احیاء سنت ہو اور بدعات مٹائی جائیں۔ اگر آپ لوگ میری دعوت کو قبول کر لیں تو خود آپ کو اس کا فائدہ پہنچے گا اور اگر انکار کر دیں تو میں آپ پر حکمران تو ہوں نہیں کہ آپ میری بات لازم طور پر مان لیں۔"
یہ سن کر یہ لوگ انہیں چھوڑ کر چلے آئے اور اپنی بیعت توڑ دی۔ کہنے لگے: "یہ امام سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔" یہ لوگ اس بات کے مدعی تھے کہ زید کے بھائی محمد بن علی (الباقر) اصل میں امام تھے۔ ان کے بیٹے جعفر بن محمد (الصادق) ابھی زندہ تھے۔ ان لوگوں نے کہا: "جعفر اپنے والد کے بعد ہمارے امام ہیں اور وہی امامت کے مستحق ہیں۔ ہم زید بن علی کا ساتھ نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ امام نہیں ہیں۔" اس بنا  پر زید نے ان کا نام رافضہ (انکار کرنے والے) رکھا مگر اب (طبری کے زمانے میں) یہ لوگ مدعی ہیں کہ جب ہم نے مغیرہ کا ساتھ چھوڑا تو انہوں نے ہمارا یہ نام رکھا۔
(طبری 5/231)

اس کے بعد زید بن علی رحمہما اللہ نے بغاوت کر دی۔ ان کے ہاتھ پر ہزاروں لوگوں نے بیعت کی تھی لیکن محض 218 آدمی اکٹھے ہوئے اور اس جھڑپ میں زید شہید ہو گئے۔اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کی اولاد کے بزرگوں کو امام قرار دے کر ان کے نام سے اپنی تحریک چلا رہے تھے۔

اس کے بعد  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اولاد کے کچھ لوگوں نے بنو امیہ کے خلاف تحریک اٹھائی۔ اس تحریک میں اس باغی  تحریک نے بنو عباس کا ساتھ دیا اور یہ کامیاب رہی۔ بنو امیہ کا تختہ الٹ کر بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اس باغی تحریک کے لیڈروں کو حکومت میں شریک نہ کیا۔ اس پر یہ بہت تلملائے اور انہوں نے تاریخی روایتوں میں بنو عباس کے خلاف بھی جی کھول کر پراپیگنڈا کیا۔ یہ مشہور کر دیا کہ بنو عباس اتنے سفاک تھے  کہ انہوں نے بنو امیہ کے باقی ماندہ لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا اور پھر انہیں قتل کروا کر ان کی تڑپتی ہوئی لاشوں پر دستر خوان بچھا کر اس پر کھانا تناول کیا۔  یہ روایت نہ تو طبری میں موجو دہے اور نہ کسی اور معتبر کتاب میں۔ اگر اس روایت میں ذرا سی بھی حقیقت ہوتی تو بنو امیہ کے زمانے میں اسپین میں لکھی جانے والی کتابوں میں اس واقعے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ بنو امیہ نے تو خود پر ہونے والے اس ظلم کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ بہرحال باغی تحریک کو بنو عباس کے دور عروج میں بھی کوئی کامیابی نصیب نہ ہوئی اور جس اقتدار کے لیے وہ کھڑے ہوئے تھے، وہ انہیں کم از کم تین سو برس تک نصیب نہ ہوا۔

*ناصبی کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟*

یہ کہا جاتا ہے کہ پہلی صدی میں ایک اور فرقہ بھی پیدا ہوا جنہیں ’’نواصب‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ خود کو ’’شیعان عثمان‘‘ یا ’’العثمانیون‘‘ کہا کرتے تھے اور بنو امیہ کے شدید حمایتی تھے۔  مشہور ادیب جاحظ (150-255/767-869)نے ان پر ایک کتاب’’العثمانیہ‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ ابن عساکر اور ابن کثیر نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔  اپنی ابتدا میں ان کا موقف صرف یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا قصاص لیا جائے اور باغی تحریک کے سرغنوں کو کڑی سزا دی جائے۔ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا احترام کرتے تھے۔

ابن عساکر لکھتے ہیں:
یزید بن ہارون سے کہا گیا: ’’آپ حضرت عثمان کے فضائل تو بیان کرتے ہیں لیکن حضرت علی کے فضائل کیوں بیان نہیں کرتے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’حضرت عثمان کے ساتھی تو حضرت علی کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کرتے لیکن جو لوگ خود کو اصحاب علی کہتے ہیں، وہ حضرت عثمان کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں۔ 
(ابن عساکر،39/503)

بعد کے دورمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ گروہ حضرت علی ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کے خلاف زبان درازی کرنے لگا۔  بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مروان بن حکم کی اولاد میں سے جو لوگ خلفاء ہوئے، انہوں نے جمعہ کے خطبوں میں حضرت علی کے خلاف سب و شتم کا آغاز کیا اور اس رسم بد کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ختم کیا۔ لیکن ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ ایسا کرنا، خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا تھا۔ حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے سبھی خلفاء کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات رہے کیونکہ انہوں نے واقعہ حرہ کے موقع پر مروان کے پورے خاندان کو بچایا تھا۔ کیا اس بات کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے والد اور دادا کو گالیاں دینے والوں  کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے؟ یہ بات البتہ ممکن ہے کہ بنو امیہ کے بعض حاشیہ برداروں ، خوشامد پسندوں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں نے ایسی حرکت کی ہو۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ناصبی فرقہ کی تاریخ سے متعلق کچھ تفصیلات مل جائیں لیکن یہ نہیں مل سکی ہیں۔ 

 شہرستانی  (d. 578/1182)، جنہوں نے اپنے زمانے کے فرقوں کے تعارف اور تاریخ پر ایک عظیم کتاب ’’الملل والنهل‘‘ لکھی تھی، نے بھی اس کتاب میں ناصبیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناصبی کوئی منظم فرقہ نہیں رہا بلکہ یہ محض ایک رجحان تھا  جو بعض لوگوں میں جاری رہا۔ جب بنو عباس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کیا تو ان کے  حامیوں کو بھی قتل کیا۔ اس میں ناصبی فرقہ بھی مٹ کر رہ گیا۔  بعد کی صدیوں میں ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے تاہم یہ منظم نہیں ہو سکے۔ ابن کثیر نے اپنے زمانے (آٹھویں صدی ہجری) کے بعض لوگوں کا ذکر کیا  ہے جو سانحہ کربلا کی یاد میں دس محرم کو جشن منایا کرتے تھے۔ بہرحال امت میں ان لوگوں کو کبھی قبول عام حاصل نہیں ہوا اور انہیں نفرت کی نگاہ ہی سے دیکھا گیا ہے۔ اس وجہ سے یہ گروہ  کبھی کھل کر سامنے نہیں آ سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بعض لوگوں کا انفرادی رجحان ہے۔ موجودہ دور میں بھی بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مگر ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اہل تشیع کے نزدیک ’’ناصبیت‘‘ کی تعریف کچھ مختلف ہے۔ اگر مثلاً انٹرنیٹ پر ناصبی، نواصب، ناصبیت  قسم کے الفاظ عربی اور اردو میں سرچ کیے جائیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک تمام اہل سنت ناصبی ہیں۔  ہر وہ شخص جو حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھتا ہو، ان کے نزدیک ناصبی میں شمار ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اہل تشیع کے معتدل لوگوں کا موقف اس سلسلے میں مختلف ہو تاہم ان کے متشدد لوگوں کا موقف یہی معلوم ہوتا ہے۔

((آج کے آخری تاریخی سلسلہ کا خلاصہ))

·  امت مسلمہ کی پہلی صدی کا زیادہ حصہ جنگوں میں نہیں، بلکہ حالت امن میں گزرا ہے۔یہ محض اخباریوں کا رجحان ہے کہ وہ جنگ کی خبروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

· خلافت اگرچہ ملوکیت میں تبدیل ہو گئی تاہم یہ ملوکیت، مطلق آمریت (Absolute Dictatorship) نہیں تھی۔ بنو امیہ، بنو عباس اور بنو عثمان کے اکثر حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانوں میں بڑی حد تک خلافت راشدہ  کے کردار کو زندہ رکھا۔

·باغی تحریک کا خارجی گروپ جلد ہی ختم ہو گیا تاہم دوسرا گروپ باقی رہا اور بغاوتیں برپا کرتا رہا۔  اس مقصد کے لیے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان کے نام کو دل کھول کر استعمال کیا۔

·ناصبی فرقہ، ایک رجحان کا نام ہے جو بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض میں اختیار کر لیا تھا۔

_________&__$________

*صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تاریخ پر اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات کا جواب  ہم نے تسلی بخش دے دیا ہے الحمدللہ اسکے ساتھ ہی ہمارا یہ جمعہ کے دن کا تاریخی سلسلہ اختتام کو پہنچتا ہے،*

جلد ہی اس تاریخی سلسلے کو ہم ایک پی ڈی ایف کتاب کی شکل میں دوستوں ساتھ شئیر کریں گے،

نوٹ_
(واضح رہے ہمارے ان تاریخی سلسلوں کا زیادہ تر کریڈٹ استاد محترم مبشر نذیر صاحب کو جاتا ہے، اللہ پاک انکو سلامت رکھیں، آباد رکھیں، آمین ثم آمین )

 (واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS