Shab-E-Barat Manana Sunnat se Sabit hai ya nahi?
Shab-E-Barat ke mutalliq Kuchh ahem Sawalat.
Kya Shab-E-Barat ka Lafj Quran Me kahi aaya hai?
क्या शब ए बारात एक इस्लामी त्योहार है?
शब ए बारात के बारे में इसलाम क्या कहता है?
سوالات و جوابات بسلسلہ شبِ برات* ۔۔۔
*سوال # 01*
کیا شعبان کی 15 تاریخ کو لوگوں کی تقدیروں اور موت حیات وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں ؟
جواب :
جی نہیں، قرآن و حدیث سے ایسا کچھ ثابت نہیں ، بلکہ اللّه تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اسکی زندگی اور موت وغیرہ کے فیصلے لکھ دیے ہیں ۔
اللّه تعالیٰ نے فرمایا :
" اللّه کے حکم کے بنا کوئی جاندار نہیں مر سکتا, مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے."
(سورة آل عمران
آیة : 145)
اور
رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :
" اللّه تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے 50 ہزار سال قبل ہی سب کی تقدیریں لکھ دی تھیں۔"
(صحیح مسلم ، کتاب القدر ، حدیث : 4797)
*سوال # 02*
کیا 15 شعبان کو اعمال نامے اللّه کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں ؟
جواب :
جی نہیں ، ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں جس میں صرف 15 شعبان کو اعمال پیش ہونے کا ذکر ہو ۔ بلکہ ہر روز اعمال اللّه کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں ۔
رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :
" رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اللّه کی طرف چڑھتے (پیش ہوتے) ہیں۔"
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، حدیث : 447)
*سوال # 03*
کیا اللّه تعالیٰ صرف 15 شعبان کی رات پہلے آسمان (آسمانِ دنیا) پر نزول فرماتا ہے ؟ اور کیا ہمیں صرف 15 شعبان کی رات عبادت کرنی چاہیے ؟
جواب :
جی نہیں ، کسی بھی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں کہ اللّه تعالیٰ صرف 15 شعبان کی رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ۔
رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :
" ہمارا رب بلند اور برکت والا ہر رات جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو دنیا کے آسمان (پہلے آسمان) کی طرف نزول فرماتا ہے اور پکارتا ہے : "کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تا کہ میں اسکی دعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے مانگے تا کہ میں اسے عطا کروں ، کون ہے جو مجھ سے بخشش طالب کرے تا کہ میں اسے معاف کر دوں۔"
(صحیح بخاری ، کتاب التہجد ، حدیث : 1145)
*سوال # 04*
کیا خصوصی طور پر 15 شعبان کو روزہ رکھنا ثابت ہے ؟
جواب :
جی نہیں ، کسی بھی صحیح حدیث میں صرف 15 شعبان کو روزہ رکھنے کا ذکر نہیں ، بلکہ رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم ماہِ شعبان کے اکثر ایام روزے سے گزارتے تھے ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ مطہرہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
"میں نے نبی صلی اللّه علیہ و سلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں اتنے (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔"
(صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، حدیث : 1969)
*سوال # 05*
کیا 15 شعبان کی رات فوت شدگان کی روحیں گھروں کی طرف لوٹتی ہیں ؟ اور کیا اس رات خصوصی طور پر قبرستان جانا چاہیے ؟
جواب :
جی نہیں ، جب کوئی بندہ فوت ہو جاتا ہے تو اسکی روح اس دنیا سے عالم ارواح منتقل ہو جاتی ہے اور دنیا سے اسکا رابطہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے ۔
اللّه تعالیٰ نے فرمایا :
" یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب ، مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں اس (دنیا) میں نیک کام کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ، (اللّه فرماۓ گا) ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ (حسرت سے) کہنے والا ہے ، اور ان سب (روحوں) کے آگے اس دن تک ایک برزخ (آڑ) ہے جس دن وہ (قبروں سے) اُٹھائے جائیں گے۔"
(سورة المومنون آیة : 99 - 100)
اور 15 شعبان کی رات خصوصی طور پر قبرستان جانے کے حوالے سے کوئی صحیح حدیث نہیں ، ویسے بھی قبرستان جانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ وہاں جا کر صرف اہل قبرستان کے لئے دعا کی جاۓ ، کیوں فوت شدگان کے لئے مغفرت کی دعا تو مسجد میں اور گھر بیٹھ کر بھی کی جا سکتی ہے ، بلکہ قبرستان جانے کا اصل مقصد موت کو یاد کرنا ہوتا ہے ۔
رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :
" قبروں کی زیارت کیا کرو ، یہ موت یاد دلاتی ہیں۔"
(صحیح مسلم ، کتاب الجنائز ، حدیث : 976)
*سوال # 06*
کیا "شبِ برات" کے الفاظ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ؟ اور کیا یہ اسلامی تہوار ہے ؟
جواب :
جی نہیں ، "شب" فارسی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ہیں "رات" ، اور "برات" عربی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے "بیزاری ، دوری ، لا تعلقی اور نجات" ۔ ان الفاظ سے ہی ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ ایک من گھڑت اور ایران سے سمگل شدہ رات ہے ، کیونکہ اسلام قربت کی راتوں کا قائل ہے ، نہ کہ بیزاری اور دوری کا ، اور اللّه تعالیٰ نے اسلام "فارسی" میں نہیں اتارا ، البتہ رافضیت نے فارسی عقائد و نظریات اسلامی معاشروں خصوصاً برصغیر میں ضرور پھیلاے ہیں ۔
دراصل رافضی (موجودہ شیعہ) 15 شعبان کی رات "شبِ تبراء" مناتے ہیں ، ان کا فاسد و باطل عقیدہ ہے کہ
"اس رات امام مہدی آئینگے اور (سیدینا) ابو بکر و عمر (رضی اللّه عنہم) کو انکی قبروں سے نکال کر سولی پر لٹکایں گے اور شیعوں کو اہل سنّت سے نجات دلائیں گے۔ (نعوذ باللہ) "
(شیعہ کتاب: حق الیقین
مصنف: ملا باقر مجلسی
صفحہ 145)
غور طلب بات یہ ہے کہ لفظ "برات" اور "تبراء" دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی "کسی سے لا تعلقی ، بیزاری ، دوری یا نجات کا اظھار کرنا۔"
اللّه تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث اور اہل سنّت کے اصل منہج کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ، آمین ۔
اللھم اھدنا و سددنا !
*الدين النصيحة*
No comments:
Post a Comment