find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Iddat Ke Masail: Aurat Iddat kab tak aur Kahan Gujaregi, Kisi Jaruri kam ke liye Ghar se bahar ja Sakti hai ya Nahi?

Aurat iddat kahan Gujaregi? Apne Waldain ke ghar ya Shauhar ke Ghar?
Kya Iddat ke Dauran Aurat Ghar se bahar Ja sakti hai?
Sawal: Agar Kisi Aurat ka Shauhar Faut ho jaye to wah iddat kahan Gujaregi? Waldain Ke Ghar iddat gujar sakti hai? Iddat ke Dauran jaruri kamo ke liye ghar se bahar nikalne ka kya hukm hai? Kya Jaruri Kamkaz ya Dars sunne Ke liye ja sakti ?
Kya Ladki Dusri Ladki se Shadi kar Sakti hai? Homosexuality and Islam.

Kya Ladki Apni marzi se Shadi kar sakti hai?

Kya Auraten Qabristaan, Eidgaah aur Masjid me Ja Sakti hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر -383"
سوال- اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت کہاں گزارے۔۔؟والدین کے گھر عدت گزار سکتی.؟ نیز شوہر کی عدت وفات میں گھر سے باہر نکلنے کا کیا حکم؟ کیا وہ کسی ضروری کام کاج، اور علاج یا درس وغیرہ سننے کیلئے گھر سے باہر جا سکتی ہے.؟

Published Date: 28-12-2022

جواب!
الحمدللہ..!

*جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اسے عدت اپنے اسی گھر میں گزارنی چاہیے جس میں وہ شوہر کی رفاقت کے وقت قیام پذیر تھی ، یعنی اپنے شوہر کے گھر میں ہی گزارے گی، ہاں اگر اسکی جان یا مال کو بہت زیادہ خطرہ ہو کہ وہاں رہنا مشکل ہو جائے تو وہ کسی اور محفوظ جگہ پر عدت گزار سکتی ہے، اور بغیر کسی وجہ کے دوران عدت عورت کیلئے گھر سے نکلنا جائز نہیں، ہاں البتہ وہ بہت ضرورت کے تحت گھر سے نکل سکتی ہے، کسی کام وغیرہ کیلئے جیسے کوئی اور نہیں باہر جانے والا تو سودا سلف لینے، یا ڈاکٹر پاس جانا، کسی کا پیپر/امتحان ہو، یا انٹرویو جاب کا یا ایسی کوئی اور اہم بات جس سے مالی یا جانی نقصان کا خدشہ ہو، یا آس پاس درس و تدریس کیلۓ، یا دل بہلانے کیلئے آس پاس کسی پڑوسن گھر جا سکتی مگر شرط یہ ہے کہ رات اپنے گھر میں گزارے، یہ جائز ہے*

*دلائل درج ذیل ہیں...!*

📚جامع ترمذی
کتاب: طلاق اور لعان کا بیان
باب: شوہر فوت ہوجائے تو عورت عدت کہاں گزارے
حدیث نمبر: 1204
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، أَنْبَأَنَا مَعْنٌ، أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ، وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَتْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَبَقُوا حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ، ‏‏‏‏‏‏لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ. قَالَتْ:‏‏‏‏ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَفَقَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَانْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ فِي الْمَسْجِدِ نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  كَيْفَ قُلْتِ ؟  قَالَتْ:‏‏‏‏ فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  امْكُثِي فِي بَيْتِكِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ . قَالَتْ:‏‏‏‏ فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّبَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَضَى بِهِ.
ترجمہ:

زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ  فریعہ بنت مالک بن سنان ؓ جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں  (ہوا یہ تھا کہ)  ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے، جب وہ مقام قدوم کے کنارے پر ان سے ملے، تو ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا۔ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ  ﷺ  سے پوچھا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤں؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کا نہ تو کوئی مکان چھوڑا ہے اور نہ کچھ خرچ۔ تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  ہاں ، چناچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ  ﷺ  نے مجھے آواز دی۔  (یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے)  پھر آپ نے پوچھا:  تم نے کیسے کہا؟ میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں ذکر کیا تھا، آپ نے فرمایا:  تم اپنے گھر ہی میں رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہوجائے ، چناچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب عثمان ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اور مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا۔ چناچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔
(ترمذی، کتاب الطلاق واللعان باب ما جاء این تعتد المتوفی عنہا زوجھا_1204)

(موطا مالک، احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی، دارمی وغیرھا)
(الألباني (ت ١٤٢٠)، صحيح الترمذي ١٢٠٤)
(ابن عبد البر (ت ٤٦٣)، التمهيد ٢١‏/٢٧  •  مشهور معروف ثابت)

📙امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرھم کا عمل ہے انہوں نے عدت گزارنے والی عورت کے لیے جائز نہیں رکھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر سے عدت پوری ہونے سے پہلے منتقل ہو۔

امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راھویہ کا یہی موقف ہے اور بعض اہل علم صحابہ وغیرھم نے کہا کہ عورت جہاں چاہے عدت گزار لے اگر وہ اپنے خاوند کے گھر عدت نہ گزارنا چاہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ترین ہے یعنی عورت اسی گھر میں عدت گزارے جہاں وہ اپنے شوہر کی رفاقت میں قیام پذیر تھی۔
(ترمذی مع تحفۃ الاحوذی 4/441،442)

📚سئل شيخ الإسلام ابن تيمية – رحمه الله - :
عن امرأة عزمت على الحج هي وزوجها فمات زوجها في شعبان : فهل يجوز لها أن تحج ؟
فأجاب :
ليس لها أن تسافر في العدة عن الوفاة إلى الحج في مذهب الأئمة الأربعة .
" مجموع الفتاوى " ( 34 / 29 ) 
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك عورت اور اس كے خاوند نے حج كا عزم كيا تو شعبان كے مہينہ ميں اس كے خاوند كى وفات ہوگئى تو كيا اس كے ليے حج كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
آئمہ اربعہ كے ہاں بيوہ عورت دوران عدت حج كے ليے سفر نہيں كر سكتى "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 29 )

📙ایک اور جگہ پر شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

المعتدة عدة الوفاة تتربص أربعة أشهر وعشراً ، وتجتنب الزينة والطِّيب في بدنها وثيابها ، ولا تتزين ولا تتطيب ولا تلبس ثياب الزينة ، وتلزم منزلها فلا تخرج بالنهار إلا لحاجة ولا بالليل إلا لضرورة ... .
ويجوز لها سائر ما يباح لها في غير العدة : مثل كلام من تحتاج إلى كلامه من الرجال إذا كانت مستترة وغير ذلك .
وهذا الذي ذكرتُه هو سنَّة رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي كان يفعله نساء الصحابة إذا مات أزواجهن ونساؤه صلى الله عليه وسلم .
" مجموع الفتاوى " ( 34 / 27 ، 28 )
" بيوہ عورت چار ماہ دس دن عدت گزارےگى، اور وہ عدت كے عرصہ ميں زينت و زيبائش اور بدن و لباس ميں خوشبو لگانے سے اجتناب كريگى، نہ تو وہ زينت اختيار كرے گى اور نہ ہى خوشبو لگائيگى، اور نہ ہى خوبصورت لباس زيب تن كريگى، اور اپنے گھر ميں ہى رہےگى، بغير حاجت كے دن كے وقت باہر نہيں نكلےگى، اور رات كو بھى ضرورت كے بغير باہر نہيں جائيگى....
اس كے ليے ہر وہ چيز جائز ہے جو عدت كے علاوہ عرصہ ميں جائز ہے؛ مثلا اگر باپرد ہو كر اسے كسى مرد سے بات چيت كرنا پڑے تو كر سكتى ہے.
ميں نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے اگر كوئى صحابى فوت ہو جاتا تو صحابہ كرام كى بيوياں يہى كيا كرتى تھيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں نے بھى ايسا ہى كيا "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 27 - 28 ).

*لہذا عورت عدت اپنے شوہر کے گھر میں ہی گزارے اور بغیر عذر کے گھر سے باہر نا نکلے، لیکن مجبوری کے تحت کام کاج کے لئے دن کے وقت گھر سے نکل سکتی ہے اور رات اسی گھر میں آ کر بسر کرے گی اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے*

📚صحیح مسلم
کتاب: طلاق کا بیان

كِتَابُ الطَّلَاقِ (بَابُ جَوَازِ خُرُوجِ الْمُعْتَدَّةِ الْبَائِنِ، وَالْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا فِي النَّهَارِ لِحَاجَتِهَا
باب: باب: طلاق بائن کی عدت گزرنے والی اور جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو ‘اس کے لیے اپنی کسی ضرورت کے تحت دن کے وقت گھر سے نکلنا جائز ہے،
انٹرنیشنل حدیث نمبر -1483
اسلام 360حدیث نمبر: 3721
و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ح و حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُا طُلِّقَتْ خَالَتِي فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ فَأَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَلَی فَجُدِّي نَخْلَکِ فَإِنَّکِ عَسَی أَنْ تَصَدَّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں: میری خالہ کو طلاق ہو گئی، انہوں نے (دورانِ عدت) اپنی کھجوروں کا پھل توڑنے کا ارادہ کیا، تو ایک آدمی نے انہیں (گھر سے) باہر نکلنے پر ڈانٹا۔ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں، اپنی کھجوروں کا پھل توڑو، ممکن ہے کہ تم (اس سے) صدقہ کرو یا کوئی اور اچھا کام کرو۔‘‘
(صحیح مسلم، ابوداؤد، مسند احمد، نسائی، دارمی، ابن ماجہ وغیرھا)

*آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث میں مطلقہ عورت کو عدت کے دوران بوقت ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے لہذا وفات کی عدت والی عورت کو اسی پر قیاس کیا جائے گا۔*

📚اس کی تائید مجاہد تابعی کے اس اثر سے بھی ہوتی ہے کہ
12077 - ﻋﻦ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻛﺜﻴﺮ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﻣﺠﺎﻫﺪ: اﺳﺘﺸﻬﺪ ﺭﺟﺎﻝ ﻳﻮﻡ ﺃﺣﺪ ﻋﻦ ﻧﺴﺎﺋﻬﻢ، ﻭﻛﻦ ﻣﺘﺠﺎﻭﺭاﺕ ﻓﻲ ﺩاﺭﻩ، ﻓﺠﺌﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﻠﻦ: ﺇﻧﺎ ﻧﺴﺘﻮﺣﺶ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺑﺎﻟﻠﻴﻞ، ﻓﻨﺒﻴﺖ ﻋﻨﺪ ﺇﺣﺪاﻧﺎ، ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺃﺻﺒﺤﻨﺎ ﺗﺒﺪﺩﻧﺎ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﻮﺗﻨﺎ؟ ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: «ﺗﺤﺪﺛﻦ ﻋﻨﺪ ﺇﺣﺪاﻛﻦ ﻣﺎ ﺑﺪا ﻟﻜﻦ، ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺃﺭﺩﺗﻦ اﻟﻨﻮﻡ ﻓﻠﺘﺄﺕ ﻛﻞ اﻣﺮﺃﺓ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻬﺎ»
اُحد کے دن بہت سے لوگ شہید ہو گئے۔ ان کی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم رات کے وقت وحشت محسوس کرتی ہیں اس لئے چاہتی ہیں کہ کسی دوسری عورت کے ہاں رات بسر کر لیں یہاں تک کہ جب ہم صبح کریں تو اپنے گھروں کو جلدی سے آ جائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
تم جس کسی کے ہاں چاہو بات چیت کرو اور جب سونا چاہو تو ہر عورت اپنے اپنے گھر چلی جائے۔
(مصنف عبدالرزاق _ ج7، ص35 /ح12077)
(بیہقی 5ج/ ص436)

*معلوم ہوا کہ عورت بوقت مجبوری کام کاج کی غرض سے گھر سے باہر نکل سکتی ہے اور رات اپنے گھر میں ہی بسر کرے گی۔حضرت عمر، زید بن ثابت، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے۔*

📚 اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ
12064 - ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻭﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻗﺎﻝ: «ﻛﺎﻧﺖ ﺑﻨﺖ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺗﻌﺘﺪ ﻣﻦ ﻭﻓﺎﺓ ﺯﻭﺟﻬﺎ، ﻓﻜﺎﻧﺖ ﺗﺄﺗﻴﻬﻢ ﺑﺎﻟﻨﺎﺭ ﻓﺘﺤﺪﺙ ﻋﻨﺪﻫﻢ، ﻓﺈﺫا ﻛﺎﻥ اﻟﻠﻴﻞ ﺃﻣﺮﻫﺎ ﺃﻥ ﺗﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻬﺎ»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا تو وہ دن کی روشنی میں اپنے  والد سے ملنے کے لیے آ جایا کرتی تھیں، اور جب رات ہو جاتی تو وہ انہیں حکم دیتے کہ اپنے گھر چلی جائے۔
(مصنف عبدالرزاق:31ص/ج7،حدیث:12064)

📚مصنف عبدالرزاق ہی میں ہے کہ
12068 - ﻋﻦ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻋﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻋﻦ ﻋﻠﻘﻤﺔ ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻝ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻧﺴﺎء ﻣﻦ ﻫﻤﺪاﻥ ﻧﻌﻲ ﺇﻟﻴﻬﻦ ﺃﺯﻭاﺟﻬﻦ، ﻓﻘﻠﻦ: ﺇﻧﺎ ﻧﺴﺘﻮﺣﺶ. ﻓﻘﺎﻝ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: «ﺗﺠﺘﻤﻌﻦ ﺑﺎﻟﻨﻬﺎﺭ، ﺛﻢ ﺗﺮﺟﻊ ﻛﻞ اﻣﺮﺃﺓ ﻣﻨﻜﻦ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻬﺎ ﺑﺎﻟﻠﻴﻞ»
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان عورتوں کو جن کے شوہر وفات پا گئے ہوتے اور وہ اکیلے بیٹھنے سے پریشان ہوتیں، اجازت دیتے تھے کہ وہ کسی ایک کے گھر میں اکٹھی ہو جایا کریں، حتی کہ جب رات ہو جاتی تو ہر ایک سونے کے لیے اپنے گھر چلی جاتی تھی۔
(مصنف عبدالرزاق:32ص/ج7،حدیث:12068)

*لہذا ضرورت و حاجت كى خاطر عورت کیلئے دوران عدت دن كے وقت اپنے گھر سے باہر جانا جائز ہے، مثلا ضرورى اشياء كى خريدارى كے ليے بازار جانا، يا پھر كام کاج كے ليے*

__________&_____________

*سعودی فتاویٰ ویبسائٹ Islamqa.info پر اس طرح ایک سوال کیا گیا کہ،*

📙سوال:
ايك عورت كا خاوند فوت ہوگيا اور وہ كرايہ كے گھر ميں رہتى ہے، اس كے ميكے والے بھى اسى علاقے ميں رہتے ہيں ليكن گھر ان سے دور ہے، اور اس كا بھائى بھى كام كاج كى بنا پر اس كے گھر آ كر نہيں رہ سكتا، اور عورت مكان كا كرايہ بھى ادا نہيں كر سكتى، كيا يہ عورت عدت گزارنے كے ليے ميكے منتقل ہو سكتى ہے ؟

📚جواب.. !
الحمد للہ..!

بيوہ عورت كے ليے اپنے اسى گھر ميں عدت گزارنى واجب ہے جس گھر ميں رہائش ركھے ہوئے اسے خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى حكم ديا ہے.
كتب سنن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى درج ذيل حديث مروى ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فريعۃ بنت مالك رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:
" تم اسى گھر ميں رہو جس گھر ميں تمہيں خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى، حتى كہ عدت ختم ہو جائے.
فريعۃ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں:
چنانچہ ميں نے اسى گھر ميں چار ماہ دس دن عدت بسر كى تھى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2300 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1204 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 200 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.

اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اكثر اہل علم كا بھى يہى مسلك ہے، ليكن انہوں نے يہ اجازت دى ہے كہ اگر كسى عورت كو اپنى جان كا خطرہ ہو يا پھر اس كے پاس اپنى ضروريات پورى كرنے كے ليے كوئى دوسرا شخص نہ ہو اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہ كر سكتى ہو تو كہيں اور عدت گزار سكتى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بيوہ كے ليے اپنے گھر ميں ہى عدت گزارنے كو ضرورى قرار دينے والوں ميں عمر اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہما شامل ہيں، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى مروى ہے، اور اما مالك امام ثورى اور امام اوزاعى اور امام ابو حنيفہ اور امام شافعى اور اسحاق رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
حجاز شام اور عراق كے فقھاء كرام كى جماعت كا بھى يہى قول ہے "
اس كے بعد لكھتے ہيں:
" چنانچہ اگر بيوہ كو گھر منہدم ہونے يا غرق ہونے يا دشمن وغيرہ كا خطرہ ہو... تو اس كے ليے وہاں سے دوسرى جگہ منتقل ہونا جائز ہے؛ كيونكہ يہ عذر كى حالت ہے...
اور اسے وہاں سے منتقل ہو كر كہيں بھى رہنے كا حق حاصل ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 8 / 127 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك عورت كا خاوند فوت ہو گيا ہے اور جس علاقے ميں اس كا خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس عورت كى ضرورت پورى كرنے والا كوئى نہيں، كيا وہ دوسرے شہر جا كر عدت گزار سكتى ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" اگر واقعتا ايسا ہے كہ جس شہر اور علاقے ميں خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس بيوہ كى ضروريات پورى كرنے والا كوئى نہيں، اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہيں كر سكتى تو اس كے ليے وہاں سے كسى دوسرے علاقے ميں جہاں پر اسے اپنے آپ پر امن ہو اور اس كى ضروريات پورى كرنے والا ہو وہاں منتقل ہونا شرعا جائز ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتا ( 20 / 473 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:
" اگر آپ كى بيوہ بہن كو دوران عدت اپنے خاوند كے گھر سے كسى دوسرے گھر ميں ضرورت كى بنا پر منتقل ہونا پڑے مثلا وہاں اسے اكيلے رہنے ميں جان كا خطرہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، وہ دوسرے گھر ميں منتقل ہو كر عدت پورى كريگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 473 ).

اس بنا پر اگر يہ عورت اكيلا رہنے سے ڈرتى ہے، يا پھر گھر كا كرايہ نہيں ادا كر سكتى تو اپنے ميكے جا كر عدت گزارنے ميں كوئى حرج نہيں ہے.
واللہ اعلم .

(ماخذ: الاسلام سوال و جواب)

_________&___________

*پاکستانی فتاویٰ ویبسائٹ "محدث اردو فتویٰ" پر ایسا ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں!

📙 (192) عدت گزارنے والی عورت کام پر جاسکتی ہے؟
سوال:
لندن سے مسز شمیم لودھی لکھتی ہیں

’’ خاوند کے فوت ہونے پر بیوی کو عدت کے دن پورے کرنے ہوتے ہیں اور کافی شرائط بھی ہیں کہ وہ یہ نہیں کرسکتی ‘ وہ نہیں کر سکتی‘ باہر نہیں جا سکتی۔ اگر عورت کے اوپر سب گھربار کا بوجھ پڑھ جائے اور مجبوراً اسے باہر نکلنا بھی پڑتا ہے جیسے اس ملک میں ایک دو ہفتے کے بعد عورت کام پر جانے لگتی ہے۔ اگر نہ جائے تو سارے گھر کا نظام رک جاتا ہے۔ توایسی حالت میں عورت کے لئے کیا حکم ہے؟
ذرا روشنی ڈالئے‘بہت سی بہنوں کا سوال ہے۔

📚الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو ایسی عورت کے لئے چار مہینے دس دن ہے ۔ اس مدت کےمتعین کرنے کے مختلف اسباب یا حکمتیں ہوسکتی ہیں۔ بہرحال غرض یہی  ہے کہ عورت کو اتنا وقت دیا جائے کہ وہ خاوند کی موت کا صدمہ بھی برداشت کرلے اور استبرائے رحم بھی ہوجائے۔ شریعت اسلامی میں عورت کے لئے بہتر اور مناسب تو یہی ہے کہ وہ اس دوران گھر کے اندر ہی رہے اور ہر قسم کی زیب و زینت سے مکمل پرہیز کرے۔ قرآن حکیم کی سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۳۶ میں عدت کا ذکر ہوا ہے۔

خاوند کی وفات کے علاوہ طلاق کی شکل میں عدت کے دوران بھی عورت کے لئے باہر نکلنا ممنوع قرار دی گیا ہے۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر ۱ میں مردوں کو اس بات سے روکا گیا کہ وہ عورتوں کو طلاق کے بعد عدت کے دوران ہی گھر سے نکال دیں اور عورتوں کو بھی اس بات سےمنع کیاگیا کہ وہ خود گھروں نکل جائیں۔اسلام سے پہلے جاہلیت کےزمانے میں مطلقہ عورتوں خصوصاً جن کے خاوند فوت ہوجاتے تھے انہیں سخت ذہنی اذیت سے دوچار ہوناپڑتا تھا انہیں تمام معاشرے سے الگ تھلگ کرکے ایک غلیظ و تاریک کمرے میں رہنے پر مجبور کیا جاتاتھا ا ور گندے کپڑے پہننے کی پابندیا ں لگائی جاتی تھی اور پھر اس کے بعد جاہلیت کی بعض فضول قسم کی رسمیں ادا کرنے کے بعد اس گھر یا کمرے سے باہر آتی تھیں۔ اسلام نے جہاں ان تمام پابندیوں کو ختم کیا اور اسے عزت و وقار کے ساتھ اسی گھر میں رہنے کا حق دیا ۔ وہاں خوشبو اور زیب و زینت  کی دوسری اشیاء استعمال کرنے سےمنع کیا۔

جہاں تک کام یا دوسری کسی ضرورت کے تحت باہر نکلنے کا تعلق ہے تو قرآن کی تعلیمات اور احادیث میں جو تفصیل آئی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو اس کی اجازت نہیں اور خیر و برکت اسی میں ہے کہ اسلامی احکام پر عمل کرکے عورت چار ماہ دس دن گھر میں گزارے لیکن شدید ضرورت کے تحت عورت کو گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کے پاس ایک عورت آئی جس کا خاوند فوت ہوچکا تھا اور وہ عدت گزار رہی تھی۔ اس نے پوچھا کہ میرا والد بیمار ہے کیا میں اس کے یہاں جاسکتی ہوں ؟ ام سلمہ نے دن کے وسطہ میں جانے کی اجازت دے دی۔

ایک اور روایت میں ہے: ’’شہدائے احد کی بیویوں نے رسول اللہﷺ سے یہ شکایت کی کہ گھر میں وہ تنہائی محسوس کرتی ہیں تو کیا ہم کبھی ایک دوسری کے پاس رات گزار سکتی ہیں؟ تو آپﷺ نے انہیں ایک دوسری کے گھر میں جانے کی اجازت دی اورفرمایا کہ سونے کےوقت اپنے گھروں میں آجایا کرو۔‘‘ (نیل الاوطار)

اس طرح کی متعدد روایا ت اور صحابہ کرام ؓ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عورتیں ضرورت کے مطابق اپنے گھروں سے باہر نکل سکتی ہیں۔

اس لئے آپ نے کام کرنے کے بارےمیں جو دریافت کیا ہے یہ بھی ایک ضرورت  اور مجبوری ہے جس کی  وجہ سے عدت گزارنے والی عورت کو کچھ دیر کےلئے باہر نکلنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا جس عورت کا اور کوئی ذریعہ معاش نہیں کوئی کمانے والا بھی نہیں چھٹی بھی نہیں مل سکتی اور کوئی متبادل بھی نہیں تو ایسی صورت میں وہ کام پر جاسکتی ہےلیکن عام سادہ اور باوقار لباس میں جانا چاہئے اور زیب و زینت اور آرائش سےمکمل پرہیز کرنا ہوگا۔

حضرت جابرؓ سےایک حدیث مروی ہے ’’ میری خالہ کو تین طلاقیں ہوچکی تھیں (وہ حالت عدت میں تھی) تو وہ کھجور کاٹنے کےلئے باہر گئی۔ اسے ایک آدمی نے منع کیا تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور یہ بات ذکر کی توآپ ﷺ نے فرمایا تو باہر جاکر کھجوریں کاٹ سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے تو اس طرح اللہ کی راہ میں صدقہ کرے یا کوئی خیرو بھلائی کرے۔‘‘ (مسلم شریف)

اب اس حدیث سے بھی ہم یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ ضرورت اور کام کےلئے عورت باہر جاسکتی ہےکیونکہ عام حالت میں تو مطلقہ عورت کو بھی عدت کےدوران باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
( ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب)
فتاویٰ صراط مستقیم
ص409محدث فتویٰ

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Auraton ki Aazadi aur Musalman Auraton ki izzat o Gairat.

Auraton ki Aazadi... Jahannum ka Entry ticket.
Aazadi-E-Niswa aur Musalman Aurato ki Izzat aur Mardo ki Gairat.

آزادی نسواں ، جہنم کے داخلے کا ٹکٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باپ کے ہاتھ تھک گئے کما کر بیٹی کو کپڑے پہنانے میں۔
بیٹی کے کپڑے اتر گئے اپنے  یار کو منانے میں (منقول)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🖊خبردار اے اسلام کی محترم اور معزز

عورتوں !!!!!! آزادی نسواں کے گندے کلچر میں تم جیسی سفید لباسِ فاخرہ میں ملبوس مومنہ کا کوئی کام نہیں ، اپنی پیدائش تا جوانی اپنے بوڑھے والدین کی خدمات کو اس گندے کلچر کی نظر نہیں کرو ، تم ایک شاندار ، رفعت و عظمت والے دین کی عظیم ہستیاں ہو ، تم جہنم کو بھڑکانے والی نہیں ہو بلکہ ان شاءاللہ تم سے جنت کو معطر کیا جائے گا ۔

اپنے سروں کو برہنہ نا ہونے دو ، اپنے جسموں کو بے لباس نا ہونے دو ، برہنگی شیطان کا وہ خاص مہلک ہتھیار ہے جو نسوانیت کی آبرو اور تقدس کے سر کو قلم کر دیتا ہے ۔۔۔

پس وہ کام کرو کہ تمہیں جنت کی حوروں پر فوقیت دی جائے ، ان کاموں سے رک جاو جو تمہیں جہنم میں سوختہ سامان کردیں ۔

Share:

Islam aur Homosexuality: Mai Ek Ladki hoo aur Ek Ladki se Shadi karna chahati hoo, kya Islam iski ijazat deta hai?

Kya Aurat  Aurat se aur Mard Mard se Shadi kar sakti hai?

Islam me Bisexuality aur Homosexuality ka kya Hukm hai?
Sawal: Mai Ek Ladki hoo. Aur mai ek Ladki me involve hoo. Mai us se Shadi karna Chahati hoo, mai janti hoo ke mera Mazhab is chij ki ijazat  nahi deta.... Kya koi aur tarika ban sakta hai..?
Islam aur Western Culture ke manane wale Musalman.

Mastrubation karne ke Gunah aur Uske Nuksanat.

Naw jawano me Failti ja rahi in buraiyo ka ilaaz kya hai?

Joy land movie aur Pakistani Rahnuma.

Jab Misr ki Mallika ne Europe ki Pairawi karte hue hijab Utar di.

Education ke nam par Magribi Prast log Muslim Ladkiyo ko Be Parda karna chahate hai?

Kya Musalman Ladki Apni marzi se Shadi kar sakti hai?

Musalman ladke aur Ladkiya Magrib ke raste par chal rahe hai?

A RESPECTED MUSLIMA

Assalam o alaikum wrhmtulhi wabbraktu..

مجھے آپ سے کچھ سوال پوچھنا ہے.

میں لڑکی ہوں. اور میں ایک لڑکی میں انوالو ہوں.
میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں. میں جانتی ہوں کہ میرا مذہب اس چیز کی اجازت نہیں دیتا. کیا کوئی اور طریقہ بن سکتا ہے..؟
کیا جنس بدل کر شادی کی جا سکتی ہے؟ پلیز رہنمائ فرمائیے. میں اس آزمائش سے نکل نہیں پا رہی. جزاک اللہ خیرا کثیرا. 

=====================

وَعَلَيــْــكُم السَّـــــلاَم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

 : مسزانصاری

جنسی روابط دو مخالف جنس میں ہونا ایک فطری عمل ہے جسے شرعئی حدود و قیود کے ساتھ عمل میں لانا گناہ نہیں ۔ لیکن دورِ حاضر میں یورپ کے کلچر کی پیداوار آزادی نسواں کے نظریات کے حامی طبقے اور ان نظریات سے نکلتی گناہوں کی راہوں پر چلنے والے مرد و زن میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کا سبب محض ان کا دین سے دور ہونا ہے ۔

جس طرح قومِ لوط میں یہ قبیح فعل پایا جاتا تھا کہ مرد مرد کے ساتھ غیر شرعئی اور جنسی تسکین تلاش کرے ، اسی طرح آج مغرب میں ایک گندہ اور غلیظ فعل پروان چڑھ رہا ہے جس نے مسلم معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، اور وہ ہے ہم " جنس پرستی " ۔ یعنی ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ ہمبستری کرے ، اپنی نفسانی شہوت کو دوسری عورت کے ساتھ پوری کرے ۔

عبد الکریم زیدان المفصل في أحكام المرأة میں رقمطراز ہیں :

جیسے مردوں کے درمیان غیر اخلاقی جنسی تعلقات پائے جاتے ہیں ایسے ہی خواتین کے درمیان بھی پائے جاتے ہیں جسے مسلم فقہائے کرام "سحاق" کہتے ہیں اور اسکی وضاحت میں کہتے ہیں کہ: ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ ہمبستری کرے۔ ( المفصل في أحكام المرأة : زيدان 5/450 )

فی زمانہ مسلمان طبقہ کا ایک قابلِ ذکر طبقہ ہم جنس پرستی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جسے مغرب زدہ لوگ ہی فروغ دے رہے ہیں ۔

لواطت (ہم جنس پرستی) انسان کی شہوت کو تسکین پہنچانے کا بدترین راستہ ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو تجاوز کرنا ہے ۔ یہ بدترین لوگوں کا بہترین شغل ہے جس پر دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور آخرت میں بھی اس کی دردناک سزا ہے ۔

یہ وہ گناہ ہے جو قومِ لوط میں پایا گیا تھا کہ مرد مرد کے ساتھ غیر شرعئی اور جنسی تسکین تلاش کرے ، اللہ تعالیٰ نے اسی گناہ کی وجہ سے قوم لوط کو تباہ و برباد کر دیا تھا اور ادنیا میں ان کی سزا یہ تھی کہ ان کے گھروں کو الٹ کر تہہ و بالا کر دیا گیا اور ان پر پتھروں کی بارش کر دی گئی ۔

جس وقت کوئی کسی کی ذات میں دلچسپی رکھتا ہو اور کھنچتا چلا آئے ، پھر یہ دلچسپی خاص حد سے تجاوز کر جائے جیسا کہ فی زمانہ لڑکیاں آپس میں بڑھ جاتی ہیں اور آپس میں ہمبستری کی طرف مائل ہوجاتی ہیں ، یہ ایک بھیانک گناہ ۔ قرآن میں اس کی سخت وعید ہے "

وَ الّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ فَاسۡتَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِنَّ اَرۡبَعَۃً مِّنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَاَمۡسِکُوۡ ہُنَّ فِی الۡبُیُوۡتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ یَجۡعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا ﴿سورة النساء/۱۵﴾

اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے پھر اگر وہ گواہی دے دیویں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھروں میں یہاں تک کہ اٹھا لیوے ان کو موت یا مقرر کر دے اللہ ان کے لئے کوئی راہ

وَ الَّذٰنِ یَاۡتِیٰنِہَا مِنۡکُمۡ فَاٰذُوۡہُمَا ۚ فَاِنۡ تَابَا وَ اَصۡلَحَا فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿سورة النساء/۱۶﴾

اور جو دو مرد کریں تم میں سے وہی بدکاری تو ان کو ایذا دو پھر اگر وہ دونوں توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان کا خیال چھوڑ دو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے.

قَالَ رَسُولُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ

نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو قوم لوط جیسا عمل کرتے پائو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔

ترمذي، السنن، 4: 57، رقم: 1456، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

لواطت کی سزا کے بارے میں حضرات صحابہ کرامؓ سے یہ وارد ہے کہ جو شخص یہ کام كرے یا جس کے ساتھ کیا جائے دونوں کو قتل کر دیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے‘ یا رجم کر دیا جائے یا کسی بلند پہاڑ کی چوٹی سے گرا دیا جائے اور پھر پتھروں سے مار دیا جائے کیونکہ اس میں بے حد اخلاقی خرابی بھی ہے اور یہ فطرت کے خلاف بھی ہے‘ یہ کام کرنے والے شرعی شادی سے روگردانی کرتے ہیں اور مفعول بہ عورت سے بھی کم تر حالت اختیار کر لیتا ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ/جلد : ٣/صفحہ : ۴٠٩ )

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:

خواتین کا چپٹی کھیلنا (خواتین کا ہم جنسی عمل) اور ہاتھ سے منی خارج کرنے کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب  دیا کہ:

"لڑکیوں کا آپس میں جنسی عمل حرام ہے، بلکہ کبیرہ ترین گناہوں میں شامل ہے؛ کیونکہ یہ عمل اللہ تعالی کے اس فرمان سے متصادم ہے: (وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ * إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ * فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ)

ترجمہ: اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ٭ ماسوائے اپنی بیویوں  اور لونڈیوں کے ، تو وہ قابل ملامت نہیں ہیں ٭ پس جو شخص بھی ان کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرے تو یہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔[المؤمنون:5 – 7]

نیز اسی آیت کی رو سے جلق [ہاتھ سے منی کا اخراج] بھی منع ہے؛ کیونکہ یہ بھی سنگین نتائج کا باعث ہے۔

شیخ عبد العزیز بن باز، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد اللہ غدیان، شیخ عبد اللہ قعود۔
فتاوی دائمی کمیٹی (22/68)

 : اے مسلمان سائلہ بہن !! ذرا سی لذت کی وجہ سے ابدی زندگی میں دردناک عذاب کا سودا نا کریں ، اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود میں انسان کی سلامتی ہے ، خیر ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے ۔

اگر آپ دین سے ہٹ کر بھی تدبر کریں تو انسانی فطرت سلیمہ بھی حیاتِ انسانی کی اقدار اور نظام کی پاسدار ہوا کرتی ہیں ۔ مسلمان کی فطرت کا حسن اسلامی قوانین پر چلنے میں ہوتا ہے ۔

مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے ، اسی اللہ کے دین پر نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق چلتا ہے تو مسلمان سے مومن بن جاتا ہے ، مومن مرد و عورت کی فطرتِ سلیمہ کبھی بھی برائی ، فحاشی ، بے حیائی اور منکرات کو قبول نہیں کرتیں ۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے نہایت عالی و پاکیزہ دین سے نوازا ہے ، آپ خوش نصیب ہیں کہ اس امت میں سے ہیں جس کے امتی کو اگر جہنم میں غوطہ بھی دیا گیا تو خاص وقت کے بعد نکال لیا جائے گا تب وہ جنت کے حسین اور دلفریب محلات کا مالک بن جائے گا ، آپ کیوں تباہی اور بربادی کے راستے پر چل پڑی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی جنت کو کون ٹھکرانا پسند کرتا ہے ، وہی پسند کرتا ہے میری مسلمہ بہن جو اللہ تعالیٰ کے منع کردہ کاموں کو اختیار کرتا ہے ، انسان کا وہ عمل جنت کو ٹھکرانے کے مترادف ہوتا ہے جس میں منکرات اور شہوات میں انسان اپنے آپ کو بے لگام چھوڑ دیتا ہے ۔
ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا یہ کبیرہ ترین گناہ آپ کو دردناک جہنم کی جھلسا دینے والی آگ میں ڈال دے گا ۔

اللہ تعالیٰ سے ڈریے اور بچیے اس دن سے جب آپ کو جہنم کے فرشتوں سے کوئی نہیں چھڑا پائے گا ، آپ کو جہنم کی طرف کھینچا جائے گا ، وہ جہنم جس کے نظارے سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ، وہ جہنم جس کی ہولناکی سے حمل والیاں اپنے حمل گرادیں گی ، وہ جہنم جس کی ہیبت جوان کو بوڑھا کر دے گی اور وہ جہنم جس کے خوف سے پسینہ گردنوں تک لوگوں کو ڈبو دے گا ۔

اس کام سے سچی توبہ کیجیے ،  اس کام سے دور رہنے کی فکر جب آپ میں جا گزیں ہوگی تو اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا ، آپ اس لڑکی کی دوستی چھوڑ دیجیے جس نے آپ کو غلط کام چھوڑنے پر کبھی نصیحت نہیں کی ۔

انسان کا بہترین دوست وہ ہوتا ہے میری سسٹر جو اپنے دوست کے قدم برائی کی طرف اٹھنے سے روک لے ، جو اپنے دوست کو اللہ کے عذابوں سے ڈرائے اور اسکی جنت کی رغبت دلائے ۔

آپ کی یہ دوست آپکی دوست نہیں بلکہ وہ سواری ہے جس پر بیٹھ کر آپ جہنم کی طرف رختِ سفر باندھے ہوئے ہیں ۔ لوٹ آئیے اللہ کی طرف ، اللہ تعالیٰ کی رحمت آپ کو بلا رہی ہے کہ :

قُلْ يٰعِبَادِىَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۗ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ

(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے ۔

اے ہماری مسلمہ بہن !! روئے زمین پر بعد از انبیاء و رسل ، اللہ تعالیٰ کا کوئی ایک بندہ بھی ایسا نہیں جس  کے نفس پر اور قلب و ذہن پر دنیا کی گہما گہمی ، چمک دمک اور رنگ رلیوں کی آڑ میں شیطان نے نقب نا لگائی ہو ، ہر انسان پر ہر جہت سے شیطانی حملے ہوئے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہوکر گناہ اور قصور کر بیٹھتے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ اسے توبہ کی طرف مائل کیا ، قرآن کھولیے آپ کو جگہ جگہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی نوید دے رہا ہے :

وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف:87)

ترجمہ:اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقینا رب کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔

وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ(الحجر:56).

ترجمہ : اپنے رب تعالی کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں ۔

لا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (زمر : ۵٣)

اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے

پس آپ اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے توبہ کیجیے اور نیکی پر استقامت کی مدد طلب کیجیے ۔ اور یقین رکھیے کہ وہ عزتوں والا رب نا صرف آپ کو معاف فرما دے گا بلکہ آپ کو برائی سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے گا ۔۔۔۔

میں اس تحریر پڑھنے والے ہر بہن بھائی سے دردمندانہ درخواست کرتی ہوں کہ اپنی بہن کو اپنی عبادتوں میں یاد رکھیے ، اللہ تعالیٰ سے اس کی ہدایت کی دعا کیجیے ، بھلا اگر آپ کی بچی یا آپکی بہن اس فعل میں مبتلا ہو جائے تو ایمانداری سے بتائیے کہ کس کرب سے آپ گزریں گے ؟

اسی کرب کو محسوس کر کے اس بچی کے لیے صدق دل سے دعا کیجیے ، ان شاءاللہ آپ سب کی غائبانہ دعائیں خود آپ کی بہنوں بیٹیوں کی شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بن جائیں گی ۔

ALQURAN O HADITHS♥ ➤WITH MRS.ANSARI

وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ․
اللہ عز و جل اھل توحید کو شیاطین کے شر سے محفوظ رکھے.
اللهم آمين آمين آمين يارب انت الحي الذي لا يموت أبداً
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْـكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Share:

Imam kaun hota hai? Namaj me Imamat kaun kara sakta hai, Na Balig, Gulam aur Disability Namaz Padha Sakta hai?

Namaj me imamat kaun kara sakta hai?

Sawal: Namaj me Imamat ka Haqdar kaun hai? Aur kya Gulam, Majoor (Disability) aur Na Balig baccha logo ki Imamat Karwa sakta hai?
Namaj se jude Masail ke bare me padhne ke liye yahan click kare.

Namaj-E-Nabwi Part 01

Tahajjud ki Namaj kaise Padhe?

Kya Aurat aur Mard ke Namaj ka tarika alag alag hai?

Witr, Tahajjud, Nawafil ki namaj aur Salatul Tasbeeh kaise padhe?

Namaj-E-Janaza me Surah Fatiha padhna hai Ya nahi?

Namaj kaise padhe? Shuru se aakhir tak Roman urdu me Padhe

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-252"
سوال_نماز میں امامت کا حقدار کون ہے؟ اور کیا غلام، معذور اور نابالغ بچہ لوگوں کی امامت کروا سکتا ہے؟

Published Date: 17-6-2019

جواب:
الحمدللہ:

*نماز میں امامت کا حقدار وہ ہے جسکو قرآن زیادہ یاد ہو اور اگر قرآن کو یاد کرنے میں سب برابر ہوں تو امامت کا وہ زیادہ حقدار ہے جو حدیث کا علم زیادہ رکھتا ہو اور اگر حدیث کے علم میں بھی سب برابر ہوں تو امام وہ بنے گا جو ایمان پہلے لایا یا جس نے اسلام کے لیے ہجرت پہلے کی ہو اور اگر قرآن و حدیث کے علم اور ایمان و ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو امامت وہ کروائے گا جو ان میں عمر کے لحاظ سے بڑا ہو گا*

*مندرجہ بالا شرائط اگر نابالغ بچے،غلام یا معذور افراد میں پائی جائیں تو انکو ہی امام بنانا چاہیے بجائے اسکے کہ قرآن و حدیث سے ناواقف لوگوں کو امام بنائیں*

دلائل درج ذیل ہیں..!

ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والا ہو ، اگر پڑھنے میں برابر ہو ں تو وہ جو ان میں سے سنت کا زیادہ عالم ہو ، اگر وہ سنت ( کے علم ) میں بھی برابر ہوں تو وہ جس نے ان سب کی نسبت پہلے ہجرت کی ہو ، اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو وہ جو اسلام قبول کرنے میں سبقت رکھتا ہو ۔ کوئی انسان وہاں دوسرے انسان کی امامت نہ کرے جہاں اس ( دوسرے ) کا اختیار ہو اور اس کے گھر میں اس کی قابل احترام نشست پر اس کی اجازت کے بغیر کوئی نہ بیٹھے ۔ ( ابوسعید ) اشج نے اپنی روایت میں اسلام قبول کرنے میں ( سبقت ) کے بجائے عمر میں ( سبقت رکھتا ہو )ہے۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر 673)

ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  لوگوں کی امامت وہ کرے جسے اللہ کی کتاب  ( قرآن مجید )  سب سے زیادہ یاد ہو، اور سب سے اچھا پڑھتا ہو ، اور اگر قرآن پڑھنے میں سب برابر ہوں تو جس نے ان میں سے سب پہلے ہجرت کی ہے وہ امامت کرے، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو وہ امامت کرے ، اور اگر سنت  ( کے جاننے )  میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو، اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ پر بیٹھو، إلا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دیدے،
(سنن نسائی حدیث نمبر-781)

مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ملک سے حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر نوجوان تھے۔ تقریباً بیس راتیں ہم آپ کی خدمت میں ٹھہرے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی رحم دل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ہماری غربت کا حال دیکھ کر ) فرمایا کہ جب تم لوگ اپنے گھروں کو جاؤ تو اپنے قبیلہ والوں کو دین کی باتیں بتانا اور ان سے نماز پڑھنے کے لیے کہنا کہ فلاں نماز فلاں وقت اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھیں۔ اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔

(صحیح بخاری،کتاب الأذان،حدیث نمبر-685)
،بَابُ إِذَا اسْتَوَوْا فِي الْقِرَاءَةِ فَلْيَؤُمَّهُمْ أَكْبَرُهُمْ:
باب: اس بارے میں کہ اگر جماعت کے سب لوگ قرآت میں برابر ہوں تو امامت بڑی عمر والا کرے،

*غلام کی امامت کی دلیل*

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب پہلے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بھی پہلے قباء کے مقام عصبہ میں پہنچے تو ان کی امامت ابوحذیفہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ آپ کو قرآن مجید سب سے زیادہ یاد تھا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-692)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر انکی امامت کرواتا تھا،
(صحیح بخاری،قبل الحدیث-692)

*معذور کی امامت کی دلیل*

عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اور وہ نابینا تھے، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: رات میں تاریکی ہوتی ہے اور کبھی بارش ہوتی ہے اور راستے پانی میں بھر جاتا ہے، اور میں آنکھوں کا اندھا آدمی ہوں، تو اللہ کے رسول! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں اسے مصلیٰ بنا لوں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اور آپ نے پوچھا:  تم کہاں نماز پڑھوانی چاہتے ہو؟  انہوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ میں نماز پڑھی،
(سنن نسائی حدیث نمبر-789)

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ییں، کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (جب بھی سفر پر جاتے ) تو ابن
ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرماتے، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-595)

*نابالغ بچے کی امامت کی دلیل*

عمرو بن سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ کہتے ہیں کہ جب فتح مكہ ہوا تو لوگ جوق در جوق اسلام قبول كرنے لگے، اور ميرے والد بھى اپنى قوم كے ساتھ مسلمان ہو گئے، جب وہ واپس آئے تو كہنے لگے:
اللہ كى قسم ميں تمہارے پاس نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاں سے حق لايا ہوں، چنانچہ انہوں نے فرمايا ہے كہ اس وقت اتنى نماز اور اس وقت اتنى نماز ادا كرو، اور جب نماز كا وقت ہو جائے تو تم ميں سے كوئى ايک شخص اذان كہے اور تمہارى جماعت وہ كرائے جو شخص سب سے زيادہ حافظ قرآن ہو، چنانچہ انہوں نے ديكھا كہ ميرے علاوہ كوئى اور زيادہ قرآن كا حافظ نہيں، كيونكہ ميں قافلوں كو ملتا اور ان سے قرآن ياد كيا كرتا تھا، چنانچہ انہوں نے مجھے امامت كے ليے آگے كر ديا، جبكہ اس وقت ميرى عمر ابھى چھ يا سات برس تھى "
(صحيح بخارى حديث نمبر_4302)

عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے (جب) میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو“، تو جب میرے والد لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو“، تو لوگوں نے نگاہ دوڑائی تو ان میں سب سے بڑا قاری ( قرآن یاد کرنے والا) میں ہی تھا، چنانچہ میں ہی ان کی امامت کرتا تھا، اور اس وقت میں آٹھ سال کا بچہ تھا
(سنن نسائي، كتاب الإمامة،حدیث790)
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
بَابُ: إِمَامَةِ الْغُلاَمِ قَبْلَ أَنْ يَحْتَلِمَ
باب: نابالغ بچہ کی امامت کا بیان

*اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مکلف نابالغ بچہ مکلف لوگوں کی امامت کر سکتا ہے، رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ نے انہیں اپنے اجتہاد سے اپنا امام بنایا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں تھی، تو یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نزول وحی کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا، اگر یہ چیز درست نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دے دی جاتی، اور آپ اس سے ضرور منع فرما دیتے.

سعودی فتاویٰ ویبسائٹ پر درج ذیل سوال کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ،

لوگوں ميں امامت کا سب سے زيادہ امامت كا حقدار وہ شخص ہے جو نماز كے احكام كا عالم اور قرآن مجيد كا حافظ ہو،

ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" لوگوں كى امامت وہ كروائے جو قرآن مجيد كا سب سے زيادہ قارى ہو اور اگر وہ اس ميں سب برابر ہوں تو پھر سنت كو سب سے زيادہ جاننے والا شخص امامت كروائے "
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 630)

" سب سے زيادہ قارى "
یہاں قاری سے مراد بہترين قرآت کرنے والا نہيں، بلكہ اس سے مراد كتاب اللہ كا حافظ ہے،
جیسا کہ عمرو بن سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جس ميں وہ کہتے ہیں کہ ميں سب سے زيادہ قرآن مجيد كا حافظ تھا۔۔۔۔انتہی (صحیح بخاری،4302)

ہم نے يہ اس ليے كہا ہے كہ وہ نماز كے احكام كا علم ركھتا ہو، كيونكہ ہو سكتا ہے اسے نماز ميں كوئى مسئلہ پيش ہو مثلا وضوء ٹوٹ جائے، يا كوئى ركعت رہ جائے اور اسے اس سے نپٹنا بھى نہ آئے، جس كى بنا پر وہ غلطى كر بيٹھے اور دوسروں كى نماز ميں بھى نقص پيدا كرے، يا اسے باطل ہى كر بيٹھے,
سابقہ حديث سے بعض علماء كرام نے استدلال كيا ہے كہ امامت كے ليے اسکو آگے كيا جائے جو زيادہ سمجھ ركھتا ہو، اور فقيہ ہو

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
امام مالك اور شافعى اور ان كے اصحاب كا كہنا ہے:
حافظ قرآن پر افقہ جو زيادہ فقيہ ہو مقدم ہے؛ كيونكہ قرآت ميں سے جس كى ضرورت ہے اس پر تو وہ مضبوط ہے، اور فقہ ميں سے اسے جس چيز كى ضرورت ہے اس ميں مضبوط نہيں، اور ہو سكتا ہے نماز ميں اسے كچھ معاملہ پيش آ جائے جس كو صحيح كرنے كى اس ميں قدرت نہ ہو، ليكن جو كامل فقہ والا ہے وہ صحيح كر لے گا.

اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو نماز ميں امامت كے ليے باقى صحابہ سے مقدم كيا حالانكہ صحابہ ميں كئى ايك ان سے بھى زيادہ حافظ اور قارى تھے.

اور وہ حديث كا جواب يہ ديتے ہيں كہ صحابہ كرام ميں سے زيادہ حافظ و قارى ہى افقہ يعنى زيادہ فقيہ تھے،
ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان:

" اگر وہ قرآت ميں سب برابر ہوں تو پھر سنت كا سب سے زيادہ عالم "
اس بات كى دليل ہے كہ مطلقا زيادہ قارى و حافظ ہى مقدم ہو گا
(ديكھيں: الشرح مسلم للنووى_ 5 / 177 )

چنانچہ نووى رحمہ اللہ تعالى كى اگرچہ ان كے امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے استدلال حديث ميں ان كى مخالفت كى ہے، ليكن ان كى كلام كا اعتبار اس اساس پر ہے كہ صحابہ كرام ميں كوئى بھى ايسا نہيں تھا جو قرآت اور قرآن مجيد كا اچھى طرح حافظ ہو اور اسے شرعى احكام كا علم نہ ہو، جيسا كہ آج كے ہمارے دور ميں اكثر لوگوں كى حالت ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر ان دونوں ميں سے ايك شخص نماز كے احكام كا زيادہ علم ركھے، اور دوسرا شخص نماز كے علاوہ باقى دوسرے معاملات ميں زيادہ علم ركھتا ہو تو نماز كے احكام جاننے والے كو مقدم كيا جائيگا.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 19 )

مستقل فتوى كميٹى كا كہنا ہے:
..۔۔جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر جاہل شخص كى امامت صحيح نہيں الا يہ كہ امامت كا اہل شخص نہ ہونے كى صورت ميں وہ اپنى طرح جاہل لوگوں كى امامت كرائے،
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 264 )

(https://islamqa.info/ar/answers/20219/)

*یعنی نماز میں امامت کسی عالم دین اور حافظ قرآن کو ہی کروانی چاہیے،جو نماز کے مسائل وغیرہ کو سمجھتا ہو،اگر نماز پڑھنے والوں میں سے کوئی بھی حافظ قرآن یا حدیث کا علم جاننے والا نا ہو تو ان میں سے کوئی شخص بھی انکی امامت کروا سکتا ہے، لیکن حافظ قرآن یا عالم کی موجودگی میں کسی جاہل یا دین سے انجان  شخص کا امامت کروانا درست نہیں*

نوٹ_
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خوبصورت شخص کو امام بنانا چاہیے تو یہ بات سرا سر غلط ہے اور اس کے متعلق پیش کی جانے والی تمام روایات موضوع اور باطل ہیں،
(دیکھیں موضوع اور منکر روایات،47٫48)

( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                 +923036501765

آفیشل فیس بک پیج
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info

Share:

Afghanistan Taliban ke faisle par Duniya bhar ke Maulana, ulema aur Mufti kyu Shor macha rahe hai, ye jamhuri ulema ka rawaiyya kya sabit karta hai?

Afghanistan me Taliban ke rawaiyye par Duniya bhar ke Ulema aur Mufti kyu shor machaye hue hai?

Jab "Islamic Republic of Pakistan " Jo Islam ke nam Par bana tha us mulk me Magrib ke taiyar kiye hue falsfe aur Tahjib failaye ja rahe they aur kanoon banaye ja rahe hai to waha ke Ulema, Mufti aur Imam kyu khamosh they?


ऐसे उलेमा तब बेदार होते है जब तालिबान शरीयत नफिज करता है, ये उलेमा, मुफ्ती, मौलाना और रहनुमा तब कहाँ होते है जब इसररल फिलिस्तिनियो पर बॉम्ब गिराता है, नार्वे मे कुरान को आग लगाया जाता है, फ्रांस मे प्यारे नबी की शान मे गुस्ताखी की जाती है, पाकिस्तान मे आज़ादी के नाम पर बेहयाई फैलाई जाती  है। ट्रांसजेंडर, मुखनस्, बद फेलि और हमजिंसीयत्, लेस्बियन, BiSexual, Homosexuality के तहफ्फुज के लिए कानून बनाये जाते है। क्या इससे बड़ा गुनाह तालिबान ने कर दिया है शरीयत नफिज कर।
ये जम्हूरी (Democratic) उलेमा इस्लाम और शरीयत को भी वोटिंग कराकर सही और गलत का फैसला करेंगे क्या?
इनके लिए इस्लाम से ज्यादा मगरिब् की तर्ज ए जिंदगी की फ़िक्र क्यों?
ये इस्लाम को मग्रिबियत मे तब्दील करना चाहते है, का मागरिबि फहाशि कानून जब बनाया गया तब इनकी किसी ने सुनी या इनसे किसी ने मश्विरा किया?

Islam se Pahle Arab me kis Mazhab ke manane wale they?

Aaj ka Modern Shikari aur Musalman.

Wah Tarikh jiske bad Musalmano ki halat bilkul Rakhailon jaisi ho gayi.

Taliban Ladkiyo ke liye Universities kyu band kiya aur kab Khulegi?

ये जम्हूरी उलेमा इस्लाम और शरीयत को भी वोटिंग कराकर सही और गलत का फैसला करेंगे क्या? 

السلام علیکم و رحمتہ اللہ!

یہ قائدین تب بیدار ہوتے ہیں جب افغانستان میں طالبان شریعت کا کوئی حکم نافذ کرتے ہیں، میں حیران ہوں کہ امت مسلمہ اتنی بے حس ہے کہ انکو معلوم ہی نہیں کہاں کس کے حق میں اور کس کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔

بہت سے لوگ افغانستان میں خواتین پر عارضی پابندی کے بارے میں بحث کر رہے تھے اور اسلامی حقوق کے بارے میں  شیخی مار رہے تھے، یہاں تک کہ پاکستان کے بہت سے علماء نے افغانستان کی انتظامیہ کو خطوط لکھے۔ یہاں میں چند نکات بیان کرنا چاہوں گا تاکہ آپ عارضی پابندی کے پیچھے اصل مقاصد کو سمجھ سکیں۔

• افغانستان کے تعلیمی نظام کا نصاب غیر ملکیوں کےنصاب اور ان کے قابل افسوس پروپیگنڈہ مقاصس سے بھرا ہوا ہے۔

•  فلسفہ پر علماء کا موقف واضح ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے وقت کا ضیاع ہے۔

• کارل مارکس کی طرف سے دیے گئے نظریات کے مطابق بیٹے کو شادی کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ ماں یا بہن سے اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون، یہاں تک کہ وہ فرماتے ہیں کہ بیٹا اپنی ماں سے اس وقت زنا کرتا ہے جب وہ اسے دودھ پلاتی ہو۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔

• مغربی تعلیمی نظام نے مرد و زن کے اختلاط (کو ایجوکیشن سسٹم) کو متعارف کرایا ہے جب کوئی بچہ چھٹی یا ساتویں جماعت میں ہوتا ہے تو اسے ایسی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کے بارے میں استاد بھی اسے سکھانے میں شرم محسوس کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں اسی تعلیمی نظام میں پڑھ رہا تھا جب میں بچہ تھا تو ہمارے استاد مسلمان بھی نہیں تھے وہ حیاتیات تولید کے مضمون کے بارے میں پڑھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے، جس کی وجہ مخلوط تعلیمی نظام تھا۔

• مغرب نے جنسی تعلیم کے نام پر ہمارے معاشرے میں زہر گھول دیا ہے، انہوں نے ایسی اصطلاحات متعارف کرائی ہیں جو اسلامی تعلیمات اور ہمارے معاشرے میں ثقافتی عروض کو پامال کرتی ہیں، جیسے LGBTQ، oral**، anal*، حتیٰ کہ ایسی چیزیں جن کے متعلق آدمی کسی آدمی سے بات کرنے میں آر  محسوس کرتا ہے۔

• دوسرا مسئلہ حقوق نسواں کا ہے، کہ عورت وہ بھی کر سکتی ہے جو مرد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن محض سمجھنے کے لیے میں یہاں چیزوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔

خواتین جذباتی طور پر کمزور ہوتی ہیں لیکن وہ نفسیاتی طور پر مردوں کے مقابلے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ جیسا کہ مردوں کو جسمانی شکل میں طاقت ملی ہے۔

اب آتے ہیں علماء کی طرف کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے۔ بے شک لیکن عورت کے بنیادی حق جو کہ اس کی سلامتی اور اس کا مذہب ہے، کو سلب کرکے اس حق کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ امارت قائم ہو چکی ہے جمہوریت کا نظام تعلیم نہیں پڑھایا جا سکتا لیکن امارت کا اپنا نصاب ہو گا جہاں خواتین کو میڈیکل سائنس اور دیگر شعبوں کے بارے میں پڑھایا جا سکے گا جو کہ افغانی خواتین کی ضرورت ہے۔

جو علماء دین کی تبلیغ کرتے ہیں وہ پہلے اپنے ملک میں تبلیغ کریں اور وہ اس وقت کہاں تھے جب عافیہ صدیقی کو اسی ملک میں اسی فوج نے اغوا اور زیادتی کا نشانہ بنایا جس کی آپ دن رات تعریف کر رہے ہیں۔
آپ کی نصیحت اس وقت کہاں تھی جب جامعہ حفصہ میں طالبات پر بمباری کی گئی اور آپ ہوٹلوں میں گھس گئے تاکہ محصور طالبات کے اہل خانہ آپ تک نہ پہنچ سکیں۔
جب وزیرستان میں ضرب عضب آپریشن ہوتا ہے تو آپ کا دین تب کہاں گیا؟
جب افغانیوں کو اسی فوج نے امریکیوں کے حوالے کرنے کے لیے قید کیا تو آپ کا علم تب کہاں گیا؟
اب میں سمجھ پا رہا ہوں کہ آپ ان علماء کے وفد میں شامل تھے جنہوں نے ملا عمر سے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اور فتویٰ دیا اور آپ نے دین کے علم سے ملا عمر پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسے حوالے کر دیں۔ لیکن فیمینسٹ اور لبرلز جیسے لوگ جو فی الحال ہیبت اللہ اخوند زا کے فتوے کی بات کرتے ہیں ملا عمر کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے۔

طالبان نے ان چار چیزوں کی نشاندہی کی ہے جو کہ حجاب ہے (یہ مخلوط تعلیم اور مغربی تعلیم کے نصاب میں نہیں ہوتا)۔ یہ صرف حجاب کی بات نہیں ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کفار ایران کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور جب ایران کے شہریوں نے حجاب کے نظام کو قبول نہیں کیا تو اس کے ساتھ کیا ہوا۔ ملک الٹ چکا ہے۔

دوسرا نکتہ محرم تھا اور اس مسئلے کو نئے انفراسٹرکچر بنا کر حل کیا جا سکتا ہے، طلباء کے قرب و جوار میں دیہاتوں یا شہروں میں سکول بنا کر۔ لیکن امریکہ نے افغانستان کی معیشت پر قبضہ کر لیا ہے آپ کو اسے منجمد کیے جانے پر چیخنا چاہیے تھا لیکن آپ کو عقل نہیں ہے۔

Share:

Aaj kal ke Muslim Ladke aur Ladkiyaan Ishq bazi me PHD kiye hue hai.

Muslim Muashare me Ladke Ladkiyo me ishq baji ka bhoot kaise joro par hai?

Muslim ladkiyaan Ishq baji Me PHD kiye hui hai.
Kali rang aur Safed rang ki Ladki me Competition.

Ladke Ladkiyo ka Social media par Ho rahi Muhabbat ka anjaam.

Musalmano ki Halat aur Anjaam. shikari aur Musalman.

اگر اک مرد، کسی عورت سے شوشل میڈیا کے ذریعے تعلق قائم کرے،یا پھر کسی پارک بازار میں نمبر ایکسچینج کرے، یا پھر کزنز ہوں آپس میں یا سکول فڑینڈ کالج فڑینڈ یونیورسٹی کے ہوں، عشق و محبت میں مبتلا ہو جائیں۔۔۔

راتوں رات باتیں،
گھر والوں سے چھپ کر کالز
وڈیو کالز
ملاقاتیں

ناجانے کون کون سے گناہ کرلیں،

اور پھر اگر کوئی ان سے کہے کہ یہ سب غلط ہے
تو آگے سے جواب دیتے ہیں کہ

"جی اسلام محبت کی اجازت دیتا ہے، اسلام پسند کی اجازت دیتا ہے، سب ہی کرتے ہیں، آج کل یہ سب کون سوچتا، اپ پرانی سوچ والے ہو، یہ 2022 ہے، آپ کون سے جنگلوں کے زمانے سے ہو۔"

کیا واقعی اسلام ایسی گھٹیا، گندی اور حرام تعلقات کی اجازت دیتا ہے؟
نہیں؟
تو پھر یہ جو لوگ بکواس کرتے ہیں انہیں آپ روکتے کیوں نہیں ہو؟

روکنے کی بجائے الٹا یار دوست احباب مدد کرتے ہیں
روکنے کی بجائے لڑلی کی سہیلی مدد کرتی ہے.

روکنے کی بجائے مائیں اپنی بچیوں کی مدد کرتی ہے، باقائدہ مائیں اور بہنیں پوچھ رہی ہوتی ہیں کس س ملنے جارہے، کس سے چکر چلا رہی وغیرہ۔

میرے بھائی بہنوں اسلام پسند کی اجازت دیتا ہے حدود میں، نا کہ کسی کے ساتھ راتیں گزار کر ملاقات کر کے گھر والوں سے چھپ کر کالز پر مسجز پر باتیں کر کے عشق لڑانے کی اجازت نہیں دیتا اسلام۔۔۔۔

جس پسند کی اجازت اسلام دیتا ہے اس کے معانی ہیں با عزت طریقے سے بنا حرام تعلقات قائم کئیے آپ اپنی پسند کا اظہار کرنے کا حق رکھتے ہو، یہی جائز اور حلال حق اسلام نے ہر مرد و عورت کو دیا ہے ۔۔۔

والدین پر لازم ہے اپنے بچے بچی کے لیے کسی کو پسند کریں تو بچوں کی مرضی لاّزمی لیں۔۔۔

مرد و عورت اپنی پسند کا اظہار رکھتے ہیں نا کہ اس پسند کے ساتھ چکر چلا کر عشق معشوقی میں مبتلا ہو کر حرام زادگیاں کرنے کے بعد اسے حلال بنانے کی کوشش کریں۔۔۔ایسی گھٹیا اجازت ہمارے پاک دین اسلام نے نہیں دی۔۔۔

اور جو لوگ اپنے دوستوں بھائی بہنوں رشتہرداروں میں یہ بات کہتا/کہتی ہے کہ کچھ نہیں ہوتا، کچھ غلط نہیں، اسلام اجازت دیتا، چلا لو چکر، کر لو باتیں، ملاقاتیں، سب ہی کرتے۔
ایسے لوگ بے حیائی پھیلانے والوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے ساتھ بہت سخت معاملہ پیش آئے گا۔۔۔

،ہم سب کو بطور امت اس بات کو عام کرنا ہوگا کہ اسلام اظہارے پسند کی اجازت دیتا ہے حرام کاریوں کی نہیں۔۔۔اور جو لوگ اس بے حیائی کو پھیلا رہے ہیں اگر انہیں نا روکا جائے تو یہ بھی گناہ کرنے والوں کو بڑھاوا دینا جیسا ہی ہے جس کی پوچھ ہوگی آپ سے۔۔۔۔اپنے بھائی بہنوں دوستوں احباب فیملی سبکو آگاہ کریں۔۔۔کیونکہ وہ سب حرام کاریوں کو جائز سمجھنے لگ گئیے ہیں۔

الحیاء من الایمانبے حیائی کا خاتمہ

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS