find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Eid ki Namaj Padhne ka Sunnat tarika Kya hai?

Eid ki Namaj Padhne ka Sunnat tarika kya hai?

Eid ki Namaj kaise Padhni chahiye.?

Jashn-E-Eid Miladunnabi Manana Kaisa hai Islam me?

Eid ki Namaj se Pahle fitara Nikalane Ke Masail.

Sabse Pahle Eid ki Namaj kab Padhi gayi thi?

Qurbani ke Ahkaam o Masail part 2

Fitra me Hame kya kya dena Chahiye Shariyat ke mutabik?

Lock down me Eid Ul Fitra ya Eid Ul Azaha ki Namaj kaise padhi jayegi?

Eid ki Namaj se  pahle aur bad me Kya karna chahiye?

*نماز عیدین پڑھنے کا سنت طریقہ*

*شیخ جیلانی کا موقف*

تحریر: *قاری محمد اسماعیل قادرپوری*

شیخ جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نماز عیدین کا سنت طریقہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

*اسکی دو رکعت ہیں پہلی رکعت میں سبحانک اللہم کے بعد سات تکبیریں پڑھے اور اس کے بعد آعوذ پڑھے اور دوسری رکعت میں قرات پڑھنے سے پہلے پانچ تکبیریں کہے اور ان کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک تکبیر کہتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے (رفع الیدین کرے)....... اور جب تکبیروں سے فارغ ہو تو آعوذ پڑھے اور اس کے بعد سورۃ الفاتحہ اور پھر سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ھل اتک پڑھے۔*

(غنیۃ الطالبین باب دونوں عیدوں کے بیان میں، صفحہ نمبر 517)

شیخ جیلانی رحمہ اللّٰہ کی عبارت سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

*1- پہلی رکعت میں ثناء کے بعد سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں ٹوٹل 12 تکبیریں کہنی ہیں۔*

*2- دونوں رکعتوں میں زائد تکبیرات کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھنی ہے اور تکبیرات میں رفع الیدین بھی کرنا ہے۔*

*3- دونوں رکعات میں وہی سورتیں تلاوت کرنی ہیں جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تلاوت کیا کرتے تھے۔*

*ہمارے جو بھائی شیخ جیلانی رحمہ اللّٰہ کو اپنا غوث الاعظم مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ہر بات اللّٰہ تعالٰی کے حکم سے لکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ نماز عیدین کا طریقہ درست کریں اور سنت رسول کے مطابق نماز ادا کریں۔*

احادیث سے بھی نماز عیدین کے پڑھنے کا یہی طریقہ ثابت ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں:

*أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى فِي الْأُولَى سَبْعَ تَكْبِيرَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الثَّانِيَةِ خَمْسًا*

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے۔*

(سنن ابوداؤد حدیث نمبر 1149وسندہ صحیح)

سیدنا عمرو بن عوف المزنی رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:

*كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ فِي الْأُولَى سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْآخِرَةِ خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ*

*عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہتے تھے۔*

(جامع ترمذی حدیث نمبر 536)

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللّٰہ عنہما بیان کرتے ہیں:

*قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ سَبْعٌ فِي الْأُولَى، ‏‏‏‏‏‏وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا۔*

*اللّٰہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اور دونوں میں قرأت (زائد) تکبیرات کے بعد ہے۔*

(ابوداؤد حدیث نمبر 1151)

*قارئین کرام! ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز عیدین پڑھاتے تو آپ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ، ٹوٹل بارہ تکبیریں کہتے تھے۔ اور دونوں رکعتوں میں تکبیرات قرات سے پہلے کہتے اور قرات بعد میں کرتے تھے اور اہل الحدیث بھی الحمدللہ اسی طریقہ پر سنت کے مطابق پڑھتے ہیں۔*

Share:

Deeni Madaris Par Angrejo ka Galba kaise hote ja raha hai?

Deeni Madaris Par Angrejiyat kaise hawi hoti ja rahi hai?

*دینی مدارس کی اثر انگیزی میں کمی کے اسباب*

(یہ مفتی تقی عثمانی صاحب کی چشم کشا تحریر ہے، بڑی محنت سے اس کو جمع کیا ہے، ارباب انتظام اور حضرات اساتذہ سے عاجزانہ درخواست ہے اس تحریر کو اول تا آخر مکمل بغور پڑھیں، اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے!۔ وسیم فلاحی عفا اللہ عنہ)

جہاں تک راقم الحروف نے غور کیا، ہمارے انحطاط کا بنیادی سبب یہ ہے کہ رفتہ رفتہ دینی مدارس کے تعلیم و تعلّم کا یہ نظام ایک رسم بنتا جارہا ہے، اور اس کا اصل مقصد نگاہوں سے اوجھل ہورہا ہے، اگر چہ ہماری زبانوں پر یہی جملہ رہتا ہے کہ ہماری تمام کاوشوں کا مقصدِ اصلی دین کی خدمت ہے، لیکن بسا اوقات یہ بات محض گفتار ہی کی حد تک محدود رہتی ہے، اور دل کی گہرائیوں میں جاگزیں نہیی ہوتی، اگر یہ مقصد واقعةً ہمارے دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہوتا تو اس کی لگن سے ہمارا کوئی لمحہ خالی نہ ہوتا، پھر ہمیں اپنے اسلاف کی طرح ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی کہ ہمارا کوئی عمل اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف تو نہیی، اور ہمارا طرز عمل خدمت دین اور اس کے مقصد کے لیے مفید ہورہا ہے یا مضر ؟؟

اس کے برعکس عملاً ہماری تمام تر توجہات دینی مدارس کے ظواہر پر مرکوز رہتی ہیں، اور ان توجہات میں مقصدِ اصلی کی لگن کا کوئی عکس نظر نہیی آتا، عموماً منتظمین کے عملی مسائل یہ ہوتے ہیں کہ کس طرح مدرسے کی شہرت میں اضافہ ہو؟

کس طرح اس میں طلبہ کی تعداد بڑھے؟
کس طرح مشہور اساتذہ کو اپنے یہاں جمع کیا جائے؟

اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کس طرح عوام میں مدرسے اور اس کے اهل حل و عقد کی مقبولیت میں اضافہ ہو؟

ہمارا طرزعمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مدارس کے قیام سے ہمارے پیش نظر یہی بنیادی مقاصد ہیں، جن کے حصول کی دھن میں ہمارے شب وروز صرف ہورہے ہیں، چنانچہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات ایسے ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں، جو کسی دین اور اهل دین کے شایان شان نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات تو ان مقاصد کے لیے واضح طور پر ناجائز ذرائع کے استعمال میں بھی باک محسوس نہیی کیا جاتا، اور اگر کسی مدرسے کو ان مقاصد میں فی الجملہ کامیابی حاصل ہوصل ہوجائے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مقصد اصلی حاصل ہوگیا، لیکن طلباء کی تعلیمی، اخلاقی اور دینی حالت کیسی ہے؟

ہم کس قسم کے افراد تیار کرکے اس سے معاشرے کی قیادت کے خواہش مند ہیں؟

اور فی الواقعہ ہماری جدوجہد سے دین کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے؟

ان سوالات پر غور کرنے اور ان کی تڑپ رکھنے والے رفتہ رفتہ مفقود ہوتے جارہے ہیں۔

اس صورت حال کا بنیادی سبب یہ کہ ہم ایک مرتبہ زبان سے اپنا مقصد اصلی خدمت دین کو قرار دینے کے بعد عملی زندگی میں اسے بھول جاتے ہیں، اور اپنی کوششوں کا تمام تر محور ان ظواہر کو بنالیتے ہیں، جو یا تو شرعاً مطلوب ہی نہیں، یا اگر مطلوب ہیں تو اس شرط کے ساتھ کہ ان کو نیک نیتی سے مقصد کا محض ذریعہ قرار دیا جائے، خود مقصد نہ سمجھ لیا جائے۔

اسی طرح اساتذہ کا معاملہ عام طور سے یہ نظر آتا ہے کہ ان کا محور فکر بسا اوقات یہ رہتا ہے کہ ہمیں کونسا مضمون یا کونسی کتاب پڑھانے کے لیے ملے؟

طلبہ پر کس طرح اپنے علمی تفوق کی دھاک بٹھائی جائے، وہ کونسے ذرائع اختیار کیے جائیں جن سے طلبہ میں اپنی مقبولیت بڑھے؟

اور پھر اس مقبولیت میں اضافہ کی خاطر بسا اوقات یہ بات مد نظر نہیی رہتی کہ طلبہ کے لیے کونسا طرز عمل زیادہ مفید اور مناسب ہے؟

بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کیا طرزعمل طلبہ کی خواہشات کے مطابق ہے؟

چنانچہ اس کے نتیجے میں اساتذہ اپنے طلبہ کی رہنمائی کرنے کے بجائے ان کی خواہشات کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں، اور طلبہ اساتذہ کے پیچھے نہیی چلتے، بلکہ اساتذہ طلبہ کی خواہشات کے پیچھے چلنے لگنے ہیں۔

ماضی میں خاص طور پر دینی مدارس کی روایت یہ رہی ہے کہ اساتذہ اور طالب علم کا رشتہ محض ایک رسمی رشتہ نہیی ہوتا تھا، جو درسگاہ کی حد تک محدود ہو، اس کے بجائے وہ ایک ایسا روحانی رشتہ ہوتا تھا، جو دائمی طور پر عمر بھر قائم رہتا تھا،

استاذ صرف کتاب پڑھانے کی ڈیوٹی ادا کرنے والا معلم نہیی ہوتا تھا، بلکہ وہ اپنے طلبہ کے لیے ایک مشفق باپ، ان کا اخلاقی اور روحانی مربی اور علم و عمل دونوں کے میدان میں ایک شفیق نگراں کی حیثیت رکھتا تھا، جو طلبہ کے نجی معاملات تک دخیل ہوتا تھا، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ طلبہ اپنے اساتذہ سے علمی استعداد کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی حاصل کرتے تھے، ان سے زندگی کا سلیقہ سیکھتے تھے، ان سے للہیت، ایثار، تواضع اور دوسرے اخلاق فاضلہ اپنی زندگی میں جذب کرتے تھے، اور اس طرح شاگرد اپنے استاذ کے علم و عمل کا آئینہ ہوا کرتا تھا۔

رفتہ رفتہ یہ باتیں داستان پارینہ ہوتی جارہی ہیں، اور وجہ وہی ہے کہ استاذ نے اپنا مقصد صرف درسگاہ میں ایک ایسی تقریر کرنے کو بنالیا ہے، جسے طلبہ پسند کر سکیں، رہی یہ بات کہ کس قسم کی تقریر ان طلبہ کے لیے زیادہ مفید ہے؟

ان طلبہ کو مفید تر بنانے کے لیے ان کو کن کاموں کا مکلّف کرنا ضروری ہے؟

طلبہ کے کونسے رجحانات ان کے علم و عمل کے لیے مضر ہیں؟

ان رجحانات کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے؟

طالب علم درسگاہ سے باہر جاکر کس قسم کی زندگی گزارتے ہیں؟

ان سوالات کے بارے میں سوچنے اور ان مقاصد کی لگن رکھنے والے-الا ما شاء اللہ- مفقود ہوتے جارہے ہیں۔

دار العلوم دیوبند کی بنیادی خصوصیت، جس کی بناء پر وہ بر صغیر کے دوسری درسگاہوں سے ممتاز ہوا، یہ تھی کہ وہ علم براے علم کا ادارہ نہ تھا، بلکہ انسانوں کی ایسی تربیت گاہ تھی، جس سے صحیح العقیدہ سچے اور پکے مسلمان تیار ہوتے تھے، اپنی گفتار سے زیادہ کردار سے اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔

اس وقت ہمیں سب سے پہلے اپنے ماحول میں دینی مدارس کی اسی روح کو از سر نو تازہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہماری درسگاہیں اگر بہت کامیاب ہوئیں تب بھی محض علم براے علم کے مراکز بن کر رہ جائیں گی، مدرسے قائم کرنا اور ان میں چند لگے بندھے علوم کا درس دینا بذات خود ایک مقصد بن جائے گا، جس میں  بہت سے مستشرقین پورپ بھی سرگرم عمل ہیں، اور رفتہ رفتہ ہم سے سارے اوصاف گم ہوجائیں گے، جو ان علوم کی درس و تدریس کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔

دینی مدارس میں یہ اصل روح جو مرور ایام سے دھیمی پڑتی جارہی ہے، از سر نو تازہ کرنے کے لیے سب سے اہم ذمہ داری ان درسگاہوں کے اساتذہ اور منتظیمین پر عائد ہوتی ہے، ان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ پہلے اپنے ذاتی اعمال و اخلاق کا جائزہ لے کر یہ دیکھیں کہ اسلامی علوم نے ان میں اپنا کوئی رنگ پیدہ کیا ہے یا نہیں؟

خوف خدا اور فکر آخرت میں کتنا اضافہ ہوا؟
اللہ کے ساتھ تعلق کتنا بڑھا؟
عبادت کے ذوق میں کتنی زیادتی ہوئی؟
جن فضائل اعمال کی دوسروں کو شب و روز تلقین کی جاتی ہے، ان پر خود کتنا عمل پیرا ہوے؟

جس انفاق فی سبیل اللہ کی دوسروں کو بڑھ چڑھ کر تاکید کی جاتی ہے، اس میں ہم خود کس قدر حصہ دار بنے؟

دین کے خاطر جان و مال کی قربانی دینے کے جذبے نے کتنی ترقی کی؟

معاشرے کے بگاڑ سے کرب و اضطراب کی کیفیت اور اس کی اصلاح کی فکر کس حد دل و دماغ پر طاری ہوئی؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ ساری باتیں ہمارے سوچنے کی ہیں، اور اگر ہم حقیقت پسندی کے ساتھ ان سوالات کا جواب اپنے عمل میں تلاش کریں، تو ندامت و حسرت کا پیدہ ہونا ناگزیر ہے۔

ضرورت اسی ندامت و حسرت سے کام لینے کی ہے، لیکن اس سے صحیح کام اسی وقت لیا جاسکتا ہے، جب ندامت و حسرت محض وقتی ابال نہ ہو، بلکہ اس کا بار بار استحضار ہوتا رہے، یہاں تک کہ یہ مستقبل کے لیے نشان راہ بن جائے۔۔۔۔

Share:

Ek Aurat ne Kisi Ladke ko Bhookh se tadapate hue Dekh kar Use Doodh pilayi.

Jab ek ladke ko Bhookh se tadapte hue dekh kar ek Naw jawan Aurat ne use Doodh pine ko diya.

Aap ke Ek Glass Doodh ke badle Bill ka rakam Ada (Payment) kar diya gaya hai.

ایک چھوٹے سے شهر میں ایک غریب لڑکا اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کا لیۓ گھر گھر جاکر چیزیں فروخت کرتا تھا ، ایک دن اس کی کوئی بهی چیز فروخت نهیں هوئی.

بھوک کی وجه سے اس کی حالت خراب هو رهی تھی لیکن وه کسی سے کھانے کے لیۓ کچھ مانگنے کی همت نهیں کر پا رها تھا .

ایک گھر پر اس نے دستک دی تو دروازه ایک نوجوان عورت نے کھولا ، اس نے لڑکے کی شکل دیکھ کر بھانپ لیا که وه بھوکا هے ، خاموشی سے بغیر کوئی سوال کیۓ لڑکے کو دودھ کا گلاس تھما دیا ، دودھ پی کر لڑکے نے اس کی قیمت دریافت کی تو عورت نے کها :

ھمدردی اور مهربانی کی کوئی قیمت نهیں هوتی "
لڑکا شکریه ادا کر کے چلا گیا ..

اس بات کو ایک عرصه گزر گیا ..
وه عورت ایک شدید قسم کی بیماری میں مبتلا هوگئی ، اس کی بیماری کسی کی سمجھ میں نهیں آرهی تھی ،

شهر کے ایک بڑے ڈاکٹر سے رجوع کیا ،
ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور ایک نظر میں پهچان لیا ، اس نے پوری توجه سے اس کا علاج کیا ، عورت کی جان بچ گئی ..

ڈاکٹر نے اسپتال والوں سے کھا که اس عورت کا بل اسے بھجوا دیا جاۓ ، اسپتال والوں نے بل بهجوا دیا ، ڈاکٹر نے بل کے ایک کونے په کچھ لکھا اور واپس اس عورت کو بهیج دیا .

جب بل کا لفافه اس عورت کو ملا تو اس نے ڈرتے ڈرتے لفافه کھولا ، اس کا خیال تھا که اس بل کی ادائیگی کے لیئے اسے اپنے اثاثے فروخت کرنا هوں گے لیکن بل پر ایک جمله لکھا تھا جسے پڑھتے ہی عورت کی آنکھیں محبت اور تشکر سے نم ہو گئی، وہ جملہ تھا کہ..

"آپ کے ایک دودھ کے گلاس کی عوض آپ کا بل ادا کر دیا گیا ہے"

زندگی میں بے لوثی سے کیا گیا کوئی بھی کام کبھی رائیگاں نهیں جاتا ، جو کچھ هم کرتے هیں ، اچھا یا برا ، اس کا بدل جلد یا بدیر همیں ضرور ملتا هے ، لیکن شرط یه هے که بغیر کسی صلے کی تمنا کے کسی کی خوشی کے لیۓ ، کسی سے همدردی کے لیئے نیکی کی جاۓ..

Share:

Kale Rang (Colours) ki Ba Haya Dulhan aur Uska Deen dar Shauhar. (Part 2)

Kale rang (colours) ki Ba haya Dulhan se Shadi karke Ek Shauhar ne khud ko Duniya ka sabse bewkoof Shakhs bataya.

Kale Rang ki Bahaya Dulhan Part 1

سانولے رنگ کی باحیا دلہن)

ایک باحیا عورت کے باحیا زندگی

{کُل 4 قسطیں ہیں قسط نمبر2}

السلام علیکم!

وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکتہ زلیخا نے دھیمے لہجے میں جواب دیا نکاح کے دو بولوں نے اس کی ساری سوچوں کا مرکز عمر کو بنا دیا اس نے تو کبھی نہ کسی غیر محرم مرد کو چاہا نہ دیکھا اور نہ ہی کبھی کسی کو چھوا لیکن یہ شخص تو ابھی سے ہی اس کے دل میں ڈیرہ ڈال چکا ہے ایک الگ سا اطمینان تحفظ کا احساس اور شدید کشش کا احساس اسکو سرشار کیے جا رہا تھا

وضو سے سارا بناؤ سنگار اور میک اپ پانی کی نظر ہو چکا تھا لیکن زلیخا اس چیز کی پرواہ کیے بغیر جائے نماز پہ کھڑی تھی اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز تھی اور گڑا گڑا کر دعائیں مانگ رہی تھی.

دروازے پہ آہٹ نے زلیخا کے دل کو ایک اور بار تیزی سے دھڑکنے پر مجبور کر دیا خود سے بولی یقینا عمر واپس آگئے ہیں باہر سے امی کی آواز آئی بیٹی میں ہوں!

زلیخا دروازے کی طرف لپکی اور امی کا استقبال کیا
امی اس حلیے میں بہو کو دیکھ کر صدقے واری ہو رہی تھیں میری بچی میری بہو کا اپنے رب سے مضبوط تعلق ہے ماشاءاللہ پیار سے گلے لگایا ماتھا چوما اور ڈھیروں دعائیں دیں.

میری بچی کھانا لگاؤں؟

نہیں امی مجھے بھوک نہیں آپ ان سے پوچھ لیں شاید وہ کھائیں
واپڈا کی کرم نوازیوں کے کیا کہنے؟

بجلی کے نزول کے ساتھ عمر اور بابا جان کمرے میں داخل ہو چکے تھے قدرے اونچی آواز سے سلام بولا اچانک نظر دلہن کے سانولے ہاتھوں پہ پڑی تو ایک دم دل بجھ سا گیا لیکن اپنے جذبات کو نا ظاہر کرنے میں کامیابی کا جھنڈا گاڑا بابا جان نے بھی خوب محبتیں نچھاور کی اور کھانے کے لیے بلایا لیکن عمر نے بھی صاف انکار کر دیا کہ بھوک نہیں ہے.

بابا جان نے بولا بیگم پسے بادام اور دودھ لے آئیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا اس سنت کو پورا کرے
امی ٹھیک دو منٹ بعد ٹھنڈے دودھ کا گلاس لیے عمر کو تھماتے ہوئے بولیں بیٹا پہلے خود پیو اور پھر زلیخا کو پلاؤ اور دودھ کی دعا یاد دلائی عمر نے غٹا غٹ دودھ کا آدھا گلاس پیا اور باقی زلیخا کو پکڑایا اس نے بھی عظیم دقت کے ساتھ چند گھونٹ نیچے اتارے اور امی بابا کی طرف دیکھا تو دونوں مسرت بھرے جذبات سے بولے اور پیو بیٹی لیکن زلیخا کے مسلسل انکار پر عمر کو بقیہ دودھ ختم کرنے کا حکم صادر ہوا اس کے بعد امی بابا کو لے کر کمرے سے جاتے ہوئے بولیں بیٹی میں نے تمھاری ضرورت کا سارا سامان اس کونے میں رکھ دیا ہے وہ دونوں جا چکے تھے کمرے میں خاموشی کا راج تھا.

زلیخا شرم سے سر جھکائے کھڑی تھی تو عمر بولا آپ تشریف رکھیں اور خود وہ اپنی کتابوں کو اوپر نیچے کرنے لگا پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ گود میں ہاتھ رکھے سر ضرورت سے زیادہ جھکائے بیٹھی تھی
چہرہ تو ٹھیک طرح سے دکھائی نہیں دیا لیکن ہاتھوں کی رنگت بتا رہی تھی محترمہ کافی سانولی ہیں .

جس کے غم نے عمر کو اندر ہی اندر چاٹا اس کا دل بجھ سا گیا کہ آخر امی بابا نے اس کا انتخاب کیوں کیا؟

میرا اور اس کا بھلا کیا جوڑ ہے؟

وہ خود ہی دل میں سوال و جواب کیے جا رہا تھا
عمر کا دل ٹوٹ چکا تھا اس کو اپنے والدین سے ایسے انتخاب کی امید نہ تھی آخر ظاہری حسن بھی کوئی چیز ہے؟

اتنے سال خود کو عورت کے فتنوں سے بچائے رکھا زنا کاری کے گند سے خود کو بچایا تو کس کے لیے؟

ایک حلال رشتے کے لئے ایک دل کو موہ لینے والی بیوی کے لیے لیکن اس میں تو کشش ہی نہیں ہے سانولی سی مریل ککڑی عمر کے اندر سرد جنگ کا سلسلہ جاری تھا.

دماغ جیسے ماؤف ہو رہا ہو
لیکن اس کا ضمیر بار بار ملامت کر رہا تھا .

احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم

دنیا ایک پونجی ہے اور دنیا کی سب سے بہترین پونجی نیک عورت ہے
(صحیح مسلم )
کسی عورت سے ان چار چیزوں کے سبب نکاح کیا جاتا ہے.

1: اس کا مال

2: اس کا حسب نصب

3: اس کا حسن و جمال
لیکن دیکھو

تم دین والی کو ترجیح دینا

(بخاری مسلم ابو داؤد نسائی بیہقی)
لیکن اس کا...

✍🏻📜 سلســـلہ جـــاری ہــے.....

Share:

Kali Rang ki Ba haya Dulhan Aur Uska Deen dar Shauhar. Part 1

Ek Kali rang ki Ba haya Dulhan Part 1

Ek Nek Khatoon Jiski Shadi ek Deen dar Gharane me ek Deen dar Shauhar se hui.

Kale rang ki ba haya dulhan Part 2

Kale rang ki ba haya dulhan Part 3

Kale rang ki ba haya dulhan Part 4

سانولے رنگ کی باحیا دلہن_ 鹿
سبق آموز۔ باحیا عورت کے لیے ضرور پڑھیں

{کُل 4 قسطیں ہیں قسط نمبر1}

عمر نہایت مؤدب دین دار اپنے والدین کی اکلوتی اولاد والدین کی آنکھوں کا تارا تمام دوست احباب اسکے اعلی اخلاق کے گرویدہ تھے اللہ نے اس کو بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا.

عمر پڑھائی کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا
مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم عمر نہایت ذہین اور ہونہار اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کا پسندیدہ طالب علم جسکو دن رات مفید علم پا لینے کی جستجو رہتی.

بابا اور امی جان کی ہر فون کال پہ ایک ہی رٹ ہوتی بیٹا اپنا گھر بسا لے نکاح کر لے تیرا دین مکمل ہو جائے گا.

ان شاءاللہ

ہماری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں نا جانے کب زندگی کی بازی ہار جائیں ہم چاہتے ہیں تیرے لئے اپنے ہاتھوں سے دین دار نیک لڑکی بیاہ کر لائیں جو تیری دین و دنیا کا کل سرمایہ ہو گی تیری آنے والی نسل کو پروان چڑھاے گی.

ان شاءاللہ
عمر جو نہایت ادب سے والدین کی نصیحتوں کو سن رہا تھا آخر کار اس کو ہتھیار ڈالنے پڑ گئے لمبی سانس لے کر بولا ٹھیک ہے بابا جان! جیسے آپ کی خواہش ہے میں خوش ہوں لیکن میں صرف 2 ہفتے کی چھٹی کے لیے آ سکتا ہوں مجھے واپس آ کر اپنے امتحانات کی تیاری بھی کرنی ہے عمر بیٹا ایک بہت اچھا رشتہ ہے.
میرے بہت قریبی دوست کی بھانجی ہے تمہاری ماں مل چکی ہے اس سے بہت ہی عمدہ اخلاق اور اعلی صفات کی مالک ہے تیرے لیے بہترین شریک حیات ہو گی اور میں اپنی تحقیق کروا چکا ہوں۔

الحمدللہ عمر کا دل تھوڑی دیر کے لیے خیالی تصورات میں چلا گیا تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد ٹھیک ہے بابا جان جو آپ کو مناسب لگتا ہے کر گزریں مجھے پورا یقین ہے آپکا یہ فیصلہ خیر سے خالی نہیں ہو گا آپ نے ہمیشہ میری بہترین رہنمائی کی ہے اور مجھے آپ کی پسند پہ کوئی اعتراض نہیں ہے .

بیٹا تو نے میرا مان رکھ لیا ہے مجھے تم سے یہی امید تھی بابا بھرائی ہوئی آواز میں بولے فرحت جذبات سے لبریز بابا بولے بیٹا اللہ تجھے دین اور دنیا میں کامیاب کرے میرے بچے آمین .

بابا کی آنکھیں شدت جذبات سے امڈ آئیں

یہ لے میرے بچے ماں سے بات کر ماں کی مامتا جوکہ پہلے ہی نچھاور تھی اپنے فرمانبردار بیٹے پہ سلام اور دعا کے طویل سلسلے کے بعد امی بولیں میرے چاند تو جمعرات کو آ رہا ہے تو کیا ہم نکاح جمعہ کی نماز کے بعد طے کر لیں؟

میرے لعل تو ادھر زیادہ دنوں کے لیے نہیں ہوگا تو ہم چاہتے ہیں تو اپنی دلہن کے ساتھ بھی کچھ وقت گزارے
پر میرے بچے تو نے ابھی تک زلیخا کو تو دیکھا ہی نہیں ہے؟

جی امی نہیں دیکھا ہے میں نے.

زلیخا کو آپ نے دیکھا میں نے دیکھا ایک ہی بات ہے مجھے آپ دونوں پر مکمل بھروسہ ہے میری طرف سے آپ دونوں کو مکمل اختیار ہے آپ اپنے فیصلے کو پایا تکمیل تک پہنچائیں.

ایک دم عمر کے دل کے نرم گوشے نے انگڑائی لی زلیخا اس کی ہونے والی شریک حیات جسکو نہ کبھی اس نے دیکھا نہ سنا لیکن پھر بھی دل اس کو سوچنے پر مجبور کر رہا تھا-

جوں جوں وقت گزر رہا تھا عمر کی دعاؤں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا تھا سوچا جانے سے پہلے عمرے کی ادائیگی کی جائے اللہ کے گھر عمر نے اپنے ہونے والی شریک حیات کے لیے ہاتھ پھیلا دیئے تقوی اور خیر و برکت کی دعائیں مانگی چونکہ یہ اسکی زندگی کا ایک بہت اہم فیصلہ تھا دل میں سنت کی تڑپ اور لگاؤ نے اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے تھے-

مردانہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت 6 فٹ کا قد کشادہ سینہ
سرخ و سپید عمر چہرے پہ سنت رسول سجائے کسی بھی لحاظ سے کم نہ تھا-

موتیوں جیسے دانت جو کثرت مسواک سے اور دمکتے تھے خوبصورت روشن آنکھیں اور کشادہ پیشانی کسی بھی دین دار دوشیزہ کے لیے ایک عظیم نعمت سے کم نہ تھی -

اپنے ملک   آمد پر والدین کی خوشی دے دینی تھی ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا نکاح کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں-

بابا جان نے صبح کے انتظامات سے آگاہ کیا۔
دو سے اڑھائی گھنٹے کا سفر ہے اور ہم سیدھا مسجد جائیں گے نماز جمعہ کی ادائیگی اور پھر نکاح

ان شاءاللہ

عمر کے دل میں زلیخا کے دیدار نے ایک بار شدت سے انگڑائی لی ان دیکھی انجان زلیخا اس کی زندگی کا حصہ بننے جا رہی تھی وہ وقت بھی آن پہنچا دعائیہ کلمات اور مبارکباد کی پر جوش آوازیں بلند ہو رہی تھیں چھوارے اور مٹھائی کا دور دورہ چل رہا تھا-

فضا میں مسرت بھرے قہقہے بلند ہو رہے تھے طے پایا رخصتی نماز عصر کے بعد ان شاءاللہ

چند قریبی لوگوں کی بارات رخصتی کے لیے پر تول رہی تھی کہ سر سے پاؤں تک ڈھکی زلیخا کو امی نے اپنے پہلو میں بٹھایا بابا جان نے ڈرائیونگ سیٹ کو سنبھالا اور پھر عمر اگلی سیٹ پر بابا جانی کے ساتھ بیٹھ  گیا کچھ دیر بعد گاڑی جی ٹی روڈ پر فراٹے لے رہی تھی بابا جانی اور عمر ملکی حالات پر مہو گفتگو تھے۔

عمر کی بھاری مردانہ آواز زلیخا کو بہت بھا گئی جبکہ امی جان زلیخا کو ساتھ لگا کر بار بار  دعائیہ کلمات دہرا رہی تھیں-

مسافت کو مد نظر رکھتے ہوئے بابا جان نے کہا کیوں نہ کسی جگہ پہ رکا جائے لیکن امی بضد تھیں کہ مغرب سے پہلے گھر پہنچا جائے دھیرے دھیرے سورج اپنی تپش کھو رہا تھا زلیخا کا دل دھک دھک کر رہا تھا لیکن دل ہی دل میں دعائیہ کلمات دہرا رہی تھی اجنبی منزل کا عجیب مزا تڑپ شوق اور تجسس کے ملے جلے جذبات کا امتزاج-

ٹھیک آدھا گھنٹہ مغرب سے قبل وہ اپنے گھر کے دروازے پہ تھے امی سے چابی لے کر عمر نے مین گیٹ کھولا چنانچہ موقع غنیمت جان کر زلیخا نے دلہا جی کو دیکھنے کی ٹھانی لیکن گیٹ کھولتے ہی دلہا میاں اندر تشریف لے جا چکے تھے-

بابا جانی نے کھلے گیٹ سے گاڑی گھر کے بڑے صحن میں پارک کی جبکہ دلہا میاں گھر کے تالے اور گھر کی بتیاں جلانے کی تگ و دو میں دکھائی دیئے زلیخا کا دل مچلا اور جی چاہا وقت ادھر ہی رک جائے اور وہ اپنے دلہا جی کو دیکھتی رہے-

واپڈا کی کرم نوازی کے کیا کہنے بجلی کا جنازہ اٹھ چکا تھا واپڈا کے کارنامے ہر وقت لوگوں کی خوشیوں کو دوبالا کرنے میں کارفرماں پورے گھر کے دروازے کھل چکے تھے لیکن ہلکا اندھیرا چھا رہا تھا-

امی نے آواز لگائی عمر موبائل کی بیٹری لے آؤ تو دلہن اور سامان کو کمرے تک لے چلیں بابا واش روم جا چکے تھے اپنے موبائل کی بیٹری کے سہارے سے جی امی آیا عمر کی مؤدب آواز گونجی بیٹے زلیخا کو اندر لے چلو میں تمہارے بابا کے ساتھ سامان نکالتی ہوں نہیں امی میں کرتا ہوں آپ جائیں -

ارے نہیں نہیں بیٹا دلہن لمبے سفر سے آئی ہے اس کو کمرے میں لے چلو عمر نے اپنے دایاں ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا آ جائیں میں آپ کو اندر لے چلوں-

زلیخا کا دل بلیوں کی طرح اچھل رہا تھا خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہ دین دار خوبصورت اور خوب سیرت شخص اس کی زندگی کا ہم سفر ہے دل میں بسم اللہ بول کر اس نے اپنا دستانے والا ہاتھ آ گے بڑھا دیا ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی خواب ہو زلیخا نے دل ہی دل میں سوچا چند لمحوں میں وہ اپنے کمرے میں آن پہنچے آپ ادھر رکیں میں کچن سے موم بتیاں لے کر آتا ہوں اور آپ اپنا برقعہ (عبایہ) اتار لیں -

چند لمحوں بعد عمر دو موم بتیوں سمیت ان کو جلانے کی تگ و دو میں مصروف تھا پھر بولا میں ایک موم بتی واش روم میں رکھ رہا ہوں اور ایک کمرے کے لیے ہے -

مغرب کی اذان کا وقت ہوا -

میں وضو کر کے مسجد جا رہا ہوں زلیخا نے دھیرے سے بولا جی
دستانے اور برقعہ اتارا ہی تھا کہ عمر واش روم سے باہر نکلا اچانک نظر اس کے مرمری پتلے ھاتھوں پہ پڑی بہت پتلے اور نازک ہاتھ لیکن رنگت کا اندازہ کرنے سے قاصر تھا-

جی وہ مجھے وضو کرنا ہے زلیخا دھیمے لہجے میں بولی
جی جی ضرور لیکن آپ اس لباس میں کیسے وضو کریں گی؟

عمر نے اچٹتی نگاہ ڈال کر استفسار کیا جی وہ میں کر لوں گی مجھے عادت ہے اکثر برقعے میں بھی وضو کرنے کی جی عمر لمبی سانس کھینچ کر چلیں جیسے آپ کو مناسب لگتا ہے میں مغرب کے لیے جا رہا ہوں-

السلام علیکم!

وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکتہ
زلیخا نے دھیمے لہجے میں جواب دیا

جاری ہے۔۔۔۔۔

Share:

Ladke Ladkiyo ka Inbox me Phone par Batchit karna ya tanhai me milna kaisa hai?

Ajnabi Mard aur Ajnabi Aurat tanhai me Nahi mil sakte hai?

Kya Inbox me Ladke ladkiyaan baat kar sakte hai?

अल्लाह ताला ने औरत को #पर्दा करने का हुक्म दिया है जो के औरत के लिए अल्लाह की तरफ से बहुत बड़ा इनाम है। इसी पर्दे मे #औरत की #इज़्ज़त है, यही औरत की #हया की हीफाजत का जरिया है। जो औरत पर्दा करती है अल्लाह उसको दुनिया व #आखि़रत की बेशुमार नेमतें अता करता है, जिनमे से सबसे बड़ी नेमत यह है के अल्लाह ऐसी औरत से राजी हो जाता है, एक #मोमिना औरत के लिए इससे बढ़ कर और खुशी की बात क्या हो सकती है के उसका रब उससे राजी हो जाए?

ایک اجنبی مرد اور اجنبی عورت کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔۔۔

چاہے انبکس ہو یا کوئی اور جگہ۔۔۔

شریعت ضرورت کے تحت بات کرنے کی اجازت دیتی ہے لیکن ، دوستیاں کرنے کی اور بہن بھائی بن جانے کی بالکل اجازت نہیں اور نا ہی ان رشتوں کی کوئی حیثیت ہے ۔۔

جتنا مرضی جسٹیفائی کرلیں کہ میں بہت اچھی ہوں, میری سوچ بہت صاف ہے ، اور بھائی بھی بہت اچھے ہیں جن سے بات ہوتی ہے ، وغیرہ وغیرہ
عقل کے گھوے دورانا بند کیجیے۔

عشق محبت, شادى بیاہ, گھمنے اور چکر لگانے کی بات نہیں ہونی چاہیے .

صرف دینی ایشوز پر بات ہوتی ہے بس اور تو کوئی بات نہیں ہوتی ۔۔۔

پھر بھی ہمیں سب سے پہلے حکم کو دیکھنا ہے کہ تقوی کیا ہے۔۔۔

جب اللہ پاک کے طرف  قدم بڑھایا ہے تو پھر ٹھیک طریقے سے بڑھائیں اور پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں ۔۔۔

کیونکہ جب ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں بتا رہے کہ تنہائی میں غیر محرم سے بات چیت میں تیسرا شیطان موجود ہے تو پھر بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔۔

کیونکہ ہم کمزور ہیں شیطان مردود کے شر سے صرف اللہ پاک کی رحمت سے بچ سکتے ہیں ۔۔

اس لئے ایسا موقع ہی نا دیں کہ دین دار ہوتے ہوئے بھی شرمندگی اٹھانی پڑے ،،

دین کی بات پوچھ کر بس جواب کا انتظار ہو ،لمبی چوڑی بحث جس میں نا کوئی فائدہ اور نا ہی کوئی حکمت ،ایسی فالتو گفتگو سے بچنا چاہئے۔۔

اور سوال بھی وہ ہو جو ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو سدھارنے کے بارے میں ہو ۔۔

بعض اوقات یہ بھی دھوکہ دیا جارہا ہوتا شیطان کی طرف سے کہ ،دین کی بات پوچھنی ہے ،لیکن وہ دین کی بات کیا ہوتی کہ فلاں بات قرآن میں اس طرح ہے ،اس طرح کیوں نہیں ہے۔۔

بھلا بتائیں اس سے کیا فائدہ پہنچا ؟؟
وقت بھی برباد اور فائدہ بھی کوئی نہیں
؟؟

Share:

Kale rang ki ba haya Dulhan aur Deen dar Shauhar. (Part 4)

Kale (Black) rang ki Deen dar aur Khub Seerat Dulhan aur Deen dar Shauhar.

Kale Rang ki Ba Haya Dulhan Part 1

Kale rang ki ba Haya Dulhan Part 2

Kale Rang ki ba haya Dulhan Part 3

سانولے رنگ کی با حیا دُلہن

سبق آموز کہانی باحیا عورت
ان شاءاللہ آگے اس حیا پر ایک اور کہانی شروع کرنے کا ارادہ ہے.

{کُل 4 قسطیں ہیں قسط نمبر4}

LAST Part

آخر بابا کو ماننا ہی پڑا
زلیخا میری بچی ادھر آ میں تجھے ضرورت کی ساری چیزیں دکھاؤں زلیخا قرآن مجید کو رکھ کر فورا ان کے پاس آن پہنچی امی بابا کی دعاؤں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا بابا بولے عمر کی ماں پھر سے سوچ لو
ارے آپ کیوں گھبراتے ہیں؟

میرا عمر ہے نا زلیخا کا خیال رکھنے کے لئے ایک دم سے زلیخا کے دل میں ٹھیس اٹھی اور آنکھوں کی نمی کو چھپا لیا چند سیکنڈوں میں امی اور زلیخا کچن میں جا چکے تھے انکے جاتے ہی بابا نے لمبی سانس لی اور سمجھانے کے انداز میں بولے دیکھو بیٹا ہمارے پیچھے تمھیں بہو کا خاص خیال رکھنا ہے اس بچی نے یتیمی کی زندگی گزاری ہے اور بہت مشکلات دیکھی ہیں ۔

جی بابا آپ گھبرائیں نہیں میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا ان شا۶اللہ مجھے تم سے یہی امید تھی میرے بچے اللہ تیرا دامن خوشیوں سے بھر دے آمین -

اور ہاں میں گاڑی چھوڑے جا رہا ہوں پیچھے سے تمہیں ضرورت پڑ سکتی ہے بہو کو تھوڑی دیر باہر لے جانا یا ایک چکر  لگا لینا -
سوچوں میں گم عمر جی جی بابا جانی

اچھا بیٹا ہم ابھی ناشتے کے بعد نکلیں گے ان شاءاللہ تم آرام کرو جی بابا جانی امی اور زلیخا کی ہنسنے کی آوازیں کیچن سے آ رہی تھیں جیسے ایک دوسرے کو سالوں سے جانتی ہیں-

عمر دوبارہ سونے کے لئے پر تولنے لگا جبکہ زلیخا امی کے ساتھ گوش گپیوں میں مصروف تھی اور ساتھ ساتھ ہر چیز کا جائزہ بھی لے رہی تھی ماموں کے گھر کتنی غربت تھی اور یہاں ہر چیز کتنی نفیس ہے
کاش ان چیزوں کا مالک بھی میرا ہو جائے دل میں دوبارہ سے ایک ہوک اٹھی زلیخا میری بچی جاؤ ناشتے کے لیے عمر کو بھی بلا لاؤ تم دونوں نے رات کو بھی کچھ نہیں کھایا زلیخا کمرے میں آئی تو دیکھا عمر تو خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے -

کمرے کی ہلکی سی روشنی میں دل کیا ادھر ہی کھڑی ہو کر اپنے دل کے مالک کو اسی طرح دیکھتی رہے لیکن امی ابو کو خوش کرنے کے لئے چار و ناچار ناشتہ ان کے ساتھ کھایا ان کی روانگی کا وقت آ گیا زلیخا کا دل غمگین تھا-

میں تو اکیلی رہ جاؤں گی عمر کے ساتھ اور ان کو تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے میرے میں بجھے دل کے ساتھ سوچا امی بابا کو رخصت کر کے کیچن میں صفائی کی ٹھانی پھر صحن میں سفید کپڑوں کی ٹوکری سے کپڑے نکال کر ان کو سرف میں ڈبو دیا کچن کو لشکا کر دوپٹے کو ایک سائیڈ پہ رکھا اور کپڑوں کی رگڑائی شروع کر دی کپڑوں کی رگڑائی میں اس قدر مگن تھی کہ آگے پیچھے کا کوئی ہوش نہیں تھا-

عمر نے 5 منٹ خوب جائزہ لیا اور پھر سلام جھاڑا زلیخا ایک دم اپنے خیالوں میں مگن گھبرا گئی اور منہ پہ ہاتھ رکھ کر چیخ کو روک لیا بے دھیانی میں صابن والے ہاتھ چہرے کو کافی حد تک میلا کر چکے تھے اور صابن کا جھاگ نمایاں ہو رہا تھا عمر نے اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟

جی جی وہ میں کپڑے دھو رہی ہوں

اچھا تو یہ مشین کس خوشی میں پڑی ہے ؟

صرف گھر کی خوبصورتی کے لیے؟

آپ کو پتا ہے آپ کون ہیں؟

جی مجھے پتا ہے میں زلیخا مراد ہوں-

عمر ہنسی چھپاتے ہوئے بولا نہیں بالکل غلط بول رہی ہیں آپ!

زلیخا حیرت سے اس کا چہرہ پڑنے لگی آپ دلہن ہیں اور وہ بھی نئی نویلی عمر نے زور دے کر بولا -

ایک ٹھیس پھر اٹھی اور آہستہ سے جی بول پائی
ہوا کے جھونکے نے ماتھے پہ پڑے بالوں کو الجھا دیا پھر بنا سوچے صابن والے ہاتھوں سے انکو پیچھے ہٹایا -

عمر کی ہنسی چھوٹ گئی یہ کیا حال بنایا ہوا ہے؟

شکل دیکھیں آئینے میں اپنی ذرا زلیخا نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن آئینہ نظر نہ آیا چھوڑیں آئینہ کو میں خود صاف کر دیتا ہوں -

عمر نے گیلے ہاتھوں سے صابن سے اٹے بال اور چہرہ صاف کیا اور پھر پوچھا آپ کو کھانا پکانا آتا ہے؟

بڑے ہی پرجوش لہجے میں جی مجھے سب کچھ آتا ہے زلیخا نے جواب دیا -

اچھا ماشا۶اللہ عمر بولا

پھر تو آپ مکانوں کی تعمیر کا کام بھی جانتی ہوں گی؟

زلیخا حیرت سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی-

میں سوچ رہا ہوں آپکو اینٹیں بجری اور ریت منگوا دوں اور آپ مجھے ایک غسل خانہ تعمیر کر دیں-

بے ساختہ زلیخا کی ہنسی چھوٹ گئی اور عمر نے بھی زور کا قہقہہ لگایا میں باہر سے کھانا لاتا ہوں آپ یہ سب سمیٹیں ارے نہیں نہیں باہر سے کھانا نا لائیں میں نے تو پراٹھوں کے لیے مصالحہ اور آٹا تیار کر رکھا ہے-

آپ کچھ بھول رہی ہیں کہ آپ نئی نویلی دلہن ہیں اور نئی دلہنیں ایسے کارنامے سر انجام نہیں دیتی بلکہ نخرے اٹھواتی ہیں -

زلیخا: دلہن پرانی ہو یا نئی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس احساس ذمہ داری ہونا چاہئے اور یہ سب میری تربیت کا حصہ ہے اور ویسے بھی مجھے فارغ بیٹھنا پسند نہیں ہے -

فارغ انسان شیطان کا گھر ہے عمر بڑے انہماک سے اس کی باتیں سن رہا تھا اچھا جی جیسے آپ کی خوشی عمر بولا یہ دیں میں تار پہ لٹکا دوں عمر نے ہمدردی جھاڑی -

بس میں اچھی طرح کھنگال کے لائی زلیخا کا پاؤں ایک دم گیلے فرش پر پھیلے سرف سے پھسلا جو کہ اس کے 14 طبق روشن کرنے کیلئے کافی تھا-

عمر نے فورا آگے بڑھ کر اس کو مضبوطی سے تھام لیا
عمر زلیخا کو تھامے ہوئے بولا سنیں محترمہ آپکے یہ شوق مجھے مریض بناکر ہی رہے گا۔

اگر کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی تو بابا میری ہڈیاں بھی توڑ دیتے لہٰذا ہوش کے ناخن لیں زلیخا ایک دم سنبھلی اور شرمندگی سے بولی کوشش کروں گی-

آئندہ شکایت کا موقع نہیں دوں ان شا۶اللہ

جائیں جا کر کپڑے بدلیں میں یہ سب فارغ کرتا ہوں جی اچھا زلیخا بولی اور ہاں سنیں دھیان سے پلیز

جی اچھا ان شا۶اللہ

زلیخا کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے تھا کمرے میں آکر لمبی سانس لی سوٹ کیس سے سادہ سا فیروزی سوٹ نکالا شاور لیا اور سیدھی کچن میں پراٹھے بنانے لگ گی باہر دیکھا تو عمر کپڑوں کو پھیلانے کی تگ و دو میں مصروف تھا-

پراٹھوں کی تیاری کے ساتھ زلیخا دل ہی دل میں ذکر بھی کر رہی تھی جوکہ اس کی عادت کا حصہ تھا -

تیار شدہ پراٹھے اور چائے میز پہ سجائی اور دھیمے لہجے میں عمر کو پکارا اندر آتے ہی عمر کی نظر زلیخا کے گھٹاؤں جیسے کالے لمبے بالوں پہ پڑی جن سے پانی کی بوندیں موتیوں کی طرح ٹپک رہی تھیں دل ہی دل میں بولا سانولی تو ضرور ہے لیکن خوبیوں سے بھری ہوئی ہے ماشا۶اللہ -

آپ بھی آ جائیں عمر نے پکارا نہیں میں امی اور بابا کے ساتھ کھا چکی ہوں میں ذرا کمرہ درست کر لوں ساری چیزیں سمیٹیں بستر درست کیا باہر سے عمر نے پکارا-

آئی جی!!

ادھر بیٹھیں -
کرسی کھینچ کر سامنے بیٹھ گئی میری طرف دیکھیں عمر نے نرمی سے پکارا ایک دم سے نظریں اٹھائیں اور پھر فورا نیچے جھکا لیں آپ کھانا کھا چکے ہیں تو میں یہ برتن دھو لوں بڑی مشکل سے پھنسی ہوئی آواز نکالی-

جی میں کھا چکا ہوں اور بہت مزا آیا ہے آپ کو شکریہ کے لئے بلایا تھا-

ظہر کے بعد ہم دامن کوہ جائیں گے اور اس کے بعد عصر فیصل مسجد میں ان شا۶اللہ

آپ کبھی آئی ہیں پنڈی پہلے؟
جی کبھی بھی نہیں میں تو صرف جہلم سے دینہ اور دینہ سے جہلم تک ہی محدود تھی-

ظہر کے بعد نوبیاہتا جوڑا دامن کوہ کی طرف روانہ تھا -

گاڑی میں مکمل خاموشی تھی زلیخا پردے میں لپٹی گہری سوچوں میں گم تھی عمر نے خاموشی کو توڑ ا آپ بولتی بہت کم ہیں؟

میں بولتی ہوں وقت ضرورت اچھا پھر مجھے 1 سے 100 تک گنتی سنائیں -

جی؟

زلیخا نے سوالیہ نظروں سے عمر کو دیکھا
اچھا اگر 100 تک نہیں آتی تو 1 سے 10 تک سنائیں اور پھر 10 سے 1 آپ واقعی مجھ سے گنتی سننا چاہتے ہیں؟

زلیخا سراپا احتجاج تھی -

پھر میں 1 سے 100 تک سناؤں گی کیونکہ مجھے گنتی آتی ہے زلیخا نے بھی ایک ہی سپیڈ میں ساری سنا ڈالی ابھی اور کچھ سننا ہے آپ نے؟

جی 12 کا پہاڑا سنائیں-
اچھا وہ بھی سن لیں کیا یاد کریں گے ایک ہی سانس میں سارا سنا دیا جوکہ عمر کو بھی نہیں آتا تھا-

دونوں دامن کوہ پہنچ چکے تھے گہرے سر سبز سرو اور سفیدے کے درخت ناہموار زمین پھر دونوں ایک کونے میں جا بیٹھے زلیخا پھر سے خاموش اور سوچوں میں گم عمر نے سوال داغا آپ کہاں تک پڑھی ہیں؟

اور شادی سے پہلے کیا مصروفیات تھیں؟

پرائیویٹ بی اے کیا ہے مدرسے میں قرآن اور گھر میں ٹیوشن پڑھاتی تھی-
آپکے والدین کو کیا ہوا تھا؟

میں دو سال کی تھی تو ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے اور پھر میرے ماموں نے میری کفالت کی ذمہ داری لے لی -

بچپن سے آج تک غربت کے باوجود دونوں نے دین کو نہیں چھوڑا اور دینی تربیت کی الحمدللہ -

زلیخا بول رہی تھی اور عمر پوری توجہ سے اس کو سن رہا تھا -

شاعری پسند کرتی ہوں؟
جی!
پھر سناؤ کچھ!

نگاہیں میرے گرد آلود چہرے پہ ہیں دنیا کی
جو پوشیدہ ہے باطن میں وہ جوہر کون دیکھے گا
یہاں تو سنگ مر مر کی چمک پہ لوگ مرتے ہیں
میرے کچے مکان تیرا کھلا در کون دیکھے گا؟

واہ واہ ہم ہیں نا آپکا کھلا در دیکھنے کے لیے عمر نے زور سے قہقہہ لگایا میں آپکو ایک شعر سناتا ہوں -

*ڈبے میں ڈبا ڈبے میں کیک*
*میری زلیخا لاکھوں میں ایک*

بے ساختہ زلیخا کی ہنسی نکل گئی-

سنیں آپ کو میرا سانولا رنگ پسند نہیں ہے اور میں یہ کل ہی جان گئی تھی-

زلیخا مراد کل رات تک نہیں تھا لیکن تہجد کی نماز اور تلاوت قرآن نے آپ کو دنیا کی سب سے خوبصورت عورت بنا دیا ہے اور مجھے پتا تھا کہ آپ تہجد کے لیے اٹھی تھیں مجھے فخر ہے کہ میری مضبوط عقیدہ اور سنت سے لگاؤ رکھنے والی بیوی میری مضبوط نسل کو پروان چڑھاے گی ان شاءاللہ
میں داد دیتا ہوں امی بابا کی پسند کو
زلیخا مراد آپ *میری دلہن* ہیں -

آپ میری پاکیزہ باکردار اور با حیا دلہن ہیں -

جس کی اعلی تربیت نے میرے دل میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیئے ہیں -
زلیخا کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے بھر آئیں جنکو عمر نے اپنے ہاتھوں میں سمو لیا-

✍🏻📜سلســـلہ خــتم شــد.....

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS