Namaj me Chhink ka Sharai Aadab.
Namaj me Chinkne ya Khasne ka Sharai Hukmالسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
نماز اور غیر نماز میں چھینک کے شرعئی آداب :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✒️: مسز انصاری
چھینک اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ چھینک آنے پر مسنون دعا اور دعا سننے والے پر جواب کا وجوب شرعئی لحاظ سے ثابت ہے ۔
صحیح بخاری،کتاب الادب کی دسویں حدیث یہ ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا عطس أحدكم فليقل: الحمد لله، وليقل له أخوه أو صاحبه: يرحمك الله، فإذا قال له: يرحمك الله، فليقل: يهديكم الله ويصلح بالكم "
سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا
جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہے اور اس کا بھائی اسے یرحمک اللہ کہے تو جب وہ اسے یرحمک اللہ کہے تو وہ اسے یوں کہے یھدیکم اللہ ویصلح بالکم
اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے ۔
(صحیح بخاری ،سنن ابو داود ، سنن الترمذی )
اور چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چھینک سے دماغ میں رکے ہوئے فضلات و بخارات خارج ہو جاتے ہیں اور دماغ کی رگوں اور اس کے پٹھوں کی رکا وٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ جس سے انسان بہت سی خوفناک بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، جو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہترین نعمت ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔
[بخاري كتاب الادب]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتا ہے اور جمائی کو ناپسند فرماتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد لله کہے تو ہر اس مسلمان پر جو اسے سنے حق ہے کہ اسے يرحمك الله کہے اور جمائی شیطان سے ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے کیونکہ جب وہ ”ھا “ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [بخاري كتاب الادب]
صحیح حدیث کے مطابق تین مرتبہ چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا چاہیے، مگر تین مرتبہ سے زائد بار چھینک زکام کے مرض کی علامت ہے
يُشَمَّتُ العاطِسُ ثلاثًا ، فما زاد فهو مَزْكومٌ
چھینکنے والے کو چھینک آنے پر تین بار جواب دیا جائے، اور جو اس سے زیادہ ہو ‘ تو پھر وہ زکام زدہ ہے ۔
الراوي : سلمة بن الأكوع | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح ابن ماجه | الصفحة أو الرقم : 3009 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
یاد رہے کہ چھینک کے جواب میں الحمدللہ کے ساتھ علی کل حال کہنا بھی ثابت ہے ، چنانچہ ابن عمر نے ایک آدمی کو بتایا کہ آپﷺ نے انھیں الحمد للہ علی کل حال کے الفاظ سکھائے تھے ، حدیث شریف میں ہے :
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ »
ترجمہ : سیدنانافعؒ کہتے ہیں کہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا' الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ'یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ ﷺ پر ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:کہنے کو تو میں بھی الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ کہہ سکتاہوں ۱؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم ' الحمد للہ علی کل حال' (ہرحال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں) کہیں۔
[ دیکھئے : شیخ البانیؒ کی کتاب : إرواء الغليل | الصفحة أو الرقم: 3/245 | خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
اور جس شخص کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ نہ کہے تو سننے والے کو بھی اسے یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہیے :
عَطَسَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْنِي، قَالَ: إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ وَلَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دو آدمیوں نے چھینکا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کی چھینک پر یرحمک اللہ کہا اور دوسرے کی چھینک پر نہیں کہا۔ اس پر دوسرا شخص بولا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ان کی چھینک پر یرحمک اللہ فرمایا۔ لیکن میری چھینک پر نہیں فرمایا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے الحمدللہ کہا تھا اور تم نے نہیں کہا تھا۔
الراوي : أنس بن مالك | المحدث : مسلم | المصدر : صحيح مسلم | الصفحة أو الرقم : 2991 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح] | التخريج : أخرجه البخاري (6225)، ومسلم (2991).
دورانِ باجماعت نماز جب مقتدی کو امام کے پیچھے چھینک آئے تو خاموشی سے آہستہ آواز کے ساتھ الحمد للہ کہہ سکتا ہے جیسا کہ حضرت رفاعہ بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
" میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تو مجھے چھینک آ گئی، تو میں نے «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» ”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ کہا، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، اور سلام پھیر کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟“ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے دوسری بار پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟“ تو رفاعہ بن رافع بن عفراء رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے کیسے کہا تھا؟“ انہوں نے کہا: میں نے یوں کہا تھا: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» ”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے لے کر کون اوپر چڑھے۔“
[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 932 || صحيح ابي داود :700 || صحيح ترمذي :331 ]
واضح رہے کہ چھینک مارنے اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقت ایک ہی تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 799]
البتہ نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں ، اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :
" جب نمازی کوچھینک آئے تووہ المحد للہ کہے گا ، اس لیے کہ اس کا ثبوت سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالی عنہ کے قصہ میں ملتا ہے :
سیدنا معاویہ بن حکم رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے توایک شخص نے چھینک لی اورالحمدللہ کہا تواس کے جواب میں معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ نے يرحمك الله کہا تولوگ انہيں گھور گھور کردیکھنے لگے کہ اس نے غلط کام کیا ہے ، توانہوں نے کہا کہ ان کے مائیں گم پائيں تووہ لوگ اپنی رانوں پرہاتھ مارنے لگے تا کہ وہ خاموش ہوجائيں تووہ خاموش ہوگیا ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو انہیں بلایا معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں اللہ کی قسم نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹا اورنہ ہی مارا اورنہ برا بھلا کہا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
نماز میں لوگوں سے باتیں کرنا صحیح نہيں بلکہ اس میں تو تسبیح وتحمید اورتکبیر اورقرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے ۔
[ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 537 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 930 ) ]
اس قصہ سے پتہ چلتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینک کے بعد الحمدللہ کہنے والے کو کچھ نہيں کہا جو اس بات کی دلیل ہے کہ نمازمیں جب انسان کو جب چھینک آئے تو اسے الحمدللہ کہنا چاہیے کیونکہ یہاں ایسا سبب پایا جاتا ہے جو الحمد للہ کہنے کا متقاضی ہے ، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ ہر وہ سبب جس کی بنا پر کوئي دعا ہو وہ بھی نماز میں کہنا جائز ہے ۔ "
[ دیکھیے : فتاوی ابن عثیمین رحمہ اللہ ( 13 / 342 ) ]
ھٰذا ماعندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب