find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Allah ke Nabi Apni Biwiyo Ke Sath Kaise Rahte They.

Nabi-E-Akram Sallahu Alaihe Wasallam ki Ajdwaji Zindagi Kaisi Thi

ازدواجی زندگی خوشگوار بنانے کے نبوی نسخے اور نصائح:
1 نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہ رضی اللہ عنہا* کی ران پر سر مبارک رکھ کر سو جایا کرتے تھے.
بخاری:334  سنن
2 نبی صلی اللہ علیہ وسلم* گھر کے کام کاج میں اپنی بیویوں کا ھاتھ بٹاتے تھے.
بخاری:676
3 نبی صلی اللہ علیہ وسلم* اپنی بیویوں کی کڑوی کسیلی باتیں اور طرز_عمل خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے.
*بخاری:2581 اور 4913
4 نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہ رضی اللہ عنہا* کو Nick Name عائش سے پکارتے تھے.
بخاری:3768
*5 نبی صلی اللہ علیہ وسلم* اپنی بیویوں کی بیماری میں بیمار پرسی کرتے تھے.
*بخاری:4141
6 ایک مرتبہ ایک سفر میں *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کی بیویاں بھی آپ کے ہمراہ تھیں. حدی خوان اونٹوں کو تیز تیز ہانکنے لگا تو آپ نے اسے حکم دیا:
آہستہ چلو, آبگینے/شیشے ٹوٹنے نہ پائیں.
گویا *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے عورتوں کی نرمی کے لیۓ آبگینے کا استعارہ استعمال کیا.
بخاری:6149, 6161, 6210, 6211
*7 نبی صلی اللہ علیہ وسلم* جب گھر تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے
(تاکہ بیوی کے لیۓ باعث_طہارت ہو)
*مسلم:591*
8 برتن میں جس جگہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا ہونٹ لگا کر پانی پیتیں *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* بھی اسی جگہ ہونٹ مبارک لگا کر پانی پیتے.
*مسلم:692
9  ایک مرتبہ عید کے دن *نبی صلی اللہ علیہ وسلم* نے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا دل بہلانے کے لیۓ اپنے جسم مبارک کے پردہ کی اوٹ سے حبشیوں کے کرتب (نیزہ بازی وغیرہ) دکھاۓ.
*مسلم:2064 , 2066
10 نبی صلی اللہ علیہ وسلم* نے کسی کھانے میں کبھی عیب نہیں نکالا.
*مسلم:5380
11 نبی صلی اللہ علیہ وسلم* نے کسی بیوی یا خادم کو کبھی نہیں مارا.
*مسلم:6050 ابن ماجہ:1984*
12 نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی خدیجہ رضی اللہ عنہا* کی وفات کے بعد بھی ان کی بزرگ سہیلیوں سے حسن_ سلوک فرماتے اور ان کو تحائف بھجواتے.
*ترمذی:2017
13 نبی صلی اللہ علیہ وسلم* نے تفنن طبع کے لیۓ زندگی میں دو مرتبہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ لگائی.
پہلی مرتبہ امی عائشہ جیت گئیں
اور دوسری مرتبہ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* جیت گئے.
جب *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* دوسری بار جیت گئے تو *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا :
عائشہ ! حساب برابر ہو گیا.
ابوداؤد:2578  السلسلہ الصحیحہ:1945
14جب *نبی صلی اللہ علیہ وسلم* کی روح مبارک قبض ہوئی اس وقت آپ کا سر مبارک امی عائشہ کی گود میں تھا.
بخاری:2741 مسلم:4231
نبوی نصیحتیں*
*1 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بیوی بچوں پر خرچ کرنا بھی باعث_ثواب ہے.
*بخاری:55
2 بیوی کے منہ میں کھانے کا لقمہ ڈالنا بھی باعث_ثواب ہے.
*بخاری:56
*3 نبی صلی اللہ علیہ وسلم* اس بات کو پسند فرماتے کہ مومن اپنی بیوی کے ساتھ ہنسے اور کھیل کود کرے.
*بخاری:6387
4 جو مومن اللہ تعالی اور یوم_آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ جب (اپنی بیوی) میں ناپسندیدہ معاملہ دیکھے تو اچھے طریقے سے کہے یا خاموش رہے. عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ بیٹھو گے, عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو.
*مسلم:3644
5 آدمی اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے کیونکہ اگر اس کی کوئی عادت ناپسند ہو گی تو  کوئی دوسری عادت پسند ہوگی.
*مسلم:3645
6 دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے.
*مسلم:3649
7 نبی صلی اللہ علیہ وسلم* نے بیوی کی کمزوریاں تلاش کرنے سے منع فرمایا ہے.
مسلم:4969
8 تم میں بہتر مومن وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو.
ترمذی:1162
سبب_تالیف:
اس پوسٹ/میسج کو تالیف/تحریر کرنے کا مقصد درج ذیل حدیث ہے.
شیطان سب سے زیادہ جس بات سے خوش ہوتا ہے وہ میاں بیوی میں تفریق ڈلوانا یعنی *طلاق* دلوانا ہے.
مسلم:71
Share:

Exam (Mushkil waqt) Ke Waqt Padhne Ki Dua

Mushkil kaam ke waqt padhne ki dua / Imtihan (Exam) ke waqt ki dua

Anas Bin Malik Radi Allahu anhu se rivayat hai ki Rasool-Allah Sal-Allahu alaihi wasallam ye dua farmaya karte they
اللّهُـمَّ لا سَـهْلَ إِلاّ ما جَعَلـتَهُ سَهـلاً، وَأَنْتَ تَجْـعَلُ الْحَـزَنَ إِذا شِـئْتَ سَهـْلاً 
Allahumma la sahla illa ma ja'altu sahla,wa'anta taj-alul hazna iza shiata sahla
Ya Allah koi bhi kaam aasan nahi hai siwaye uske jisko tu aasan kar de aur , Aur agar tu chahe to mushkil kaam ko bhi aasan bana de
Sahih Ibn Hibban , 2427
-----------
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا ارشاد فرماتے
اللّهُـمَّ لا سَـهْلَ إِلاّ ما جَعَلـتَهُ سَهـلاً، وَأَنْتَ تَجْـعَلُ الْحَـزَنَ إِذا شِـئْتَ سَهـْلاً
اے الله کوئی کام بھی آسان نہیں سوائے اس کے جس کو تو آسان کر دے اور اگر تو چاہیں تو مشکل کام بھی آسان بنا دے
صحیح ابن حبان ۲۴۲۷

-------------------
Narrated By Anas bin malik Radi allahu anhu , The Prophet Sal-Allahu Alaihi Wasallam used to recite this dua 
اللّهُـمَّ لا سَـهْلَ إِلاّ ما جَعَلـتَهُ سَهـلاً، وَأَنْتَ تَجْـعَلُ الْحَـزَنَ إِذا شِـئْتَ سَهـْلاً
Allahumma la sahla illa ma ja'altu sahla,wa'anta taj-alul hazna iza shiata sahla
(O Allah ! There is nothing easy except what You make easy, and You make the difficult easy if it be Your Will
Sahih Ibn Hibban , 2427.
     ☆▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬☆
Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo
Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare !
JazakAllah  Khaira Kaseera
Share:

Hasad kya Hai Aur Rashak (رشک) Kya Hai?

 Kya Hasad Aur Rashak Karna Chahiye

کیا حسد دو باتوں میں جائز ہے یہ سنگین غلطی ہے حسد نہایت قبیح گناہ ہے جسکا جواز کسی بھی صورت میں نہیں ۔ آئیے بھائی کو وضاحت کرتے ہیں۔
حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھننے کی خواہش کرنا ہے۔ جبکہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے لیکن رشک میں وہ نعمت محسود (جس سے حسد کیا جائے)سے چھن جانے یا اس نعمت کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چنانچہ حسد ایک منفی جبکہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔اور اسکے جواز کی کوئی صورت نہیں
حسد کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: یہ کہ حاسد دوسرے کی نعمت چھن جانے کی خواہش کرے خواہ وہ اس کو ملے یا نہ ملے یہ مذموم ترین قسم ہے کہ انسان اپنے لیے بھی اللہ سبحان و تعالیٰ کے انعام و فضل کا خواہش مند نہیں ہوتا اور وہ اپنے بھائی کے نقصان کا متمنی ہوتا ہے۔
دوسری قسم: یہ ہے کہ حاسد چاہتا ہے کہ نعمت، صاحب نعمت سے چھن کر مجھے مل جائے،یہ کیفیت ایمان کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ اللہ بڑے فضل اور وسعت والا ہے۔ 'نعمت' صاحب نعمت سے چھن کر مجھے مل جائے'' اس کی بجائے حاسد اگراللہ سے یہ دعا کرے کہ ''یااللہ! یہ نعمت مجھے بھی مل جائے'' تواللہ کی قدرتِ کاملہ سے کیا بعیدہے کہ وہ اس کو صاحب نعمت سے بڑھ کر مالا مال کردے یہ اللہ پر ایمان اور سوچ کا فرق ہے۔
اگر انسان کسی دوسرے پر اللہ کا فضل و کرم دیکھے اور پھر اللہ سے اپنے لیے بھی وہی کچھ یا اس سے بڑھ کر طلب کرے تو یہ رشک کہلاتاہے . اسی رشک کو دو باتوں میں جائز قرار دیا گیا پے ۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ (رشک )صرف دو چیزوں پر جائز (مستحسن )ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے مال دیا اور اس کو راہ حق پر خرچ کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالی نے حکمت (علم) دی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1324)
۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، (رشک) صرف دو شخصوں پر (مستحسن) ہے، ایک اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا ہے اور اس کا پڑوسی اسے سن کر کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی طرح پڑھنا نصیب ہوتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا، دوسرے اس شخص پر جسے اللہ تعالی نے دولت دی ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے، پھر کوئی اس پر رشک کرتے ہوئے کہے ہے کہ کاش مجھے بھی یہ مال میسرآتا تو میں بھی اسے اسی طرح صرف کرتا۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 18)
۔...................................................................
سسٹر میسز اے انساری
Share:

Mani Kya Hai Aur Maji Kya Hai? Ghusal kin Halat Me Wajib Hota Hai.

Fajer ki Namaj ke uthne ke bad koi Apne Aap ko Us Halat Me Paye ke Ghusal Wajib Hai to Wah Kya Kare

السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اگر کوئی فجر کے لیے اٹھے اور اپنے آپکو اس حالت میں پائے کہ اس پر غسل فرض ہے تو وہ نماز فجر کیسے ادا کرے؟؟؟
کیا وضو پر اکتفا کر کے نماز فجر ادا کی جا سکتی ہے اور بعد میں غسل کیا جا سکتا ہے؟
اور یہ بھی وضاحت کر دیں کہ مذی اور منی میں کیا فرق ہے ؟؟؟ اور اس بابت احکامات کیا ہیں ۔۔۔۔ جزاک اللہ خیر
وٙعَلَيــْــــكُم السَّـــــــلاَم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه
مندرجہ ذیل حالتوں میں غسل کرنا فرض ہوجاتا ہے:
1- جوش اور شہوت کے ساتھ منی خارج ہونے کے بعد۔ 'اس میں احتلام بھی داخل ہے'۔
2-جماع کے بعد، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
3- حیض کے بعد۔
4-نفاس کے بعد۔
[وہ خون جو بچے کی پیدائش پر جاری ہوتا ہے۔'مولف']
⛔مذی، منی اور ودی میں فرق
➖ مذی: اس لیس دار پتلے پانی کو کہتے ہیں جو شہوت کے وقت لذت و جوش کے بغیر شرمگاہ سے نکلتا ہے اور بسا اوقات اس کے نکلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے غسل فرض نہیں ہوتا، البتہ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
➖ منی: شرمگاہ سے انزال کے وقت لذت و جوش کے ساتھ خارج ہونے والا سفید پانی ہوتا ہے جو انسانی تخلیق کا مادہ اور اصل ہے اور اس کے اس کیفیت کے ساتھ نکلنے سے غسل فرض ہوجاتا ہے۔
➖ ودی: وہ گاڑھا سفید مٹیالے رنگ کا پانی جو پیشاب سے قبل یا بعد خارج ہوتا ہے اور بغیر بو کے ہوتا ہے۔ اس کے نکلنے پر غسل فرض نہیں ہوتا، البتہ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
⛔کچھ باتیں واضح کرنے کی
واضح رہے کہ مذی کے خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بہت طاقتور جوان تھے اور آپ کو مذی کثرت سے آتی تھی۔ آپ کو مسئلہ معلوم نہ تھا کہ مذی کے خارج ہونے سے پر غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں۔ چونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے، اس لیے بالمشافہ دریافت کرتے شرم محسوس کی تو اپنے دوست سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ مسئلہ دریافت کریں۔ مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے مذی کے خارج ہونے پر غسل واجب قرار نہ دیا بلکہ فرمایا:
"اس کے نکلنے پر صرف وضو کرنا چاہیے۔"
[صحیح البخاری، العلم، باب من استحیا فامر غیرہ بالسوال، حدیث:132، والوضوء، باب من لم یرالوضوء الا من المخرجین من القبل والدبر، حدیث:178، وصحیح مسلم، الحیض، باب المذی، حدیث:303]
 مذی کے خارج ہونے پر کیا کرے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر مذی خارج ہو تو ذکر'آلہ تناسل' کو دھو لو اور وضو کرو۔"
[صحیح البخاری، الغسل، باب غسل المذی والوضوء منہ، حدیث:269، وصحیح مسلم، الحیض، باب المذی، حدیث:303]
نیز فرمایا:
"اور کپڑے پر جہاں مذی لگنے کا خیال ہو ایک چلو پانی لے کر چھڑک لینا کافی ہے"۔
[صحیح] سنن ابی داود، الطھارۃ، باب فی المذی، حدیث:210، وسندہ حسن، وجامع الترمذی، الطھارۃ، باب فی المذی یصیب الثوب، حدیث:115، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
سیلان رحم موجب غسل نہیں
جن عورتوں کو سفید رطوبت، یعنی لیکوریا کی شکایت ہوتی ہے، اس سے ان پر غسل لازم نہیں ہوتا، تاہم اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لہذا وہ وضو کرکے حسب معمول نمازیں ادا کرتی رہیں۔
 عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
اے اللہ کے رسول! یقینا اللہ حق سے نہیں شرماتا 'میں بھی آپ سے مسئلہ پوچھنا جاہتی ہوں' کیا عورت پر غسل واجب ہے جب اسے احتلام ہوجائے؟ آپ نے فرمایا: " ہاں، جب وہ پانی 'منی کا نشان' دیکھے۔" اس پر ام سلمہ رضی اللہ نے 'شرم سے' منہ چھپالیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا: "ہاں 'ہوتا ہے' تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو'اگرایسا نہیں' تو بتاو کہ پھر بچے کی ماں کے ساتھ مشابہت کیسے ہوجاتی ہے؟"
[صحیح البخاری، الغسل، باب اذا احتلمت المراۃ، حدیث:282 ، نیز دیکھیے حدیث:130، وصحیح مسلم، الحیض، باب وجوب الغسل علی المراۃ بخروج المنی منھا، حدیث:313، آخری جملہ بددعا نہیں، محض ایک محاورہ ہے، مراد تنبیہ کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔ع،ر]
معلوم ہوا کہ عورت یا مرد نیند سے اٹھ کر اگر تری، یعنی منی دیکھے تو یہ علامت ہے لہذا، ان پر غسل کرنا فرض ہوجاتا ہے اور اگر احتلام کی کیفیت انھیں یاد ہو لیکن نشان نہ پائیں تو غسل فرض نہیں ہوگا، ایسی صورت میں شک کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سسٹر میسز اے انصاری
Share:

Ek Maa Bete Ka Bahut Hi Afsarda Waqya.

دلیر ماں( افسانہ)
امتحانات ختم ہو چکے تھے. سبھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے تھے. شاطر بھی ٹرین کے ذریعہ وقت صبح گھر پہونچ گیا. بہنوں نے خوشیوں سے چلا کر شاطر کا بہنانہ استقبال کیا. شاطر بھی ہنستے ہوئے کمرے کے اندر داخل ہوگیا. ماں بیمار تھی. شاطر جا کر ماں کے پاس بیٹھ گیا. جگر کے ٹکڑے کو دیکھ کر ماں کا اداس چہرہ یکایک کھل اٹھا.
شاطر کے والدشہر سے باہر ایک معمولی قسم کے ملازم تھے. خلوص و ایمانداری کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکر یں کھا رہے تھے.جہاں بھی جاتے معمول کے مطابق شرافت پاؤں کی بیڑیاں بن جاتی . ہمیشہ اجرت سے کم پیسے ملنا اپنا مقدر مان چکے تھے. کبھی کبھی تو الزامات بھی لگتے. الزامات کو مٹانے کی خاطر سود بھی دیتے. مگر پھر بھی الزامات جوں کا توں ان کا سایہ کی طرح پیچھا کرتیں.
شاطر کو آئے ہوئے پندرہ دن کا عرصہ گزر چکا تھا. سبھی خوش مگر حیران و پریشان تھے. شوخیاں. شرارتیں.لاابالیاں. بہنوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا. سب شاطر سے رخصت ہوچکی تھیں. ماں کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹانے سے بھی سبھی حیران و پریشان تھے.
میز کے چاروں طرف سبھی کھانے کے بعد گفتگو کر رہے تھے. تبھی شاطر کی بڑی بہن نے کہا شاطر اب کے ہمارے لئے آتے وقت کیا لاؤگے. بات کاٹ کر چھوٹی بہن نے کہا. اچھا شاطر یہ بتاؤ. تمہاری  پرانی شراتییں کہاں ہیں.؟ . حالات کے شعور نے سبھوں کو چھین لیاہے . شاطر کو تبھی اپنے عارف و کالج یاد آگئے. یکایک موبائل کی گھنٹی بجی. عارف نے کہا بہت بہت مبارک ہو. میرے پیارے شاطر. تمہارا نام فائنل لسٹ میں آگیا ہے. صرف تین روز باقی ہیں. داخلہ لینے کی تیاری کرو. شاطر نے موبائل اسکرین پر نگاہیں جمالیں. اپنے نام پر نظر پڑتی ہی خوشیوں کے دوبوند اس کی آنکھوں سے چھلک گئے. بہنوں نے تیزی سے بھاگ کر باورچی خانہ میں ماں کو یہ خوشخبری سنائی.
شاطر داخلہ کے اصول و ضوابط پڑھنے لگا. فیس پر نظر پڑتی ہی اسے اپنی منزل بہت دور دکھنے لگی. اس نے اپنے والد کو خوشخبری سنائی. ساتھ ہی اداس لہجہ میں فیس کے بارے میں بھی بتایا. والد نے مغموم لہجے میں کہا. بیٹا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے. ابھی  میں  کچھ نہیں کرسکتا.
فیس کے بارے میں شاطر نے ماں سے بھی گفتگو کی. ماں بھی چپ چاپ بیٹھ گئ. یکا یک ماں کے ذہن میں خیال آیا. چلو شناسا ؤں کے در پر ہی دستک دی جائے. اپنوں نے (اپنا خون تو اپنا خون ہو تا ہے) کو عملی جامہ پہنا نے کے بجائے. اپنائیت کا کا احساس گفتگو سے بھی نہ دلایا. ماں نے آخر فون کاٹ دیا.
ماں پاس خموش بیٹھ گئ. ماں کی خموشی و لاچار نگاہیں شاطر کے خوابوں کے پر کتر نے لگے. لخت جگر کو دولت علم سے مالا مال کرنے کی تمنائیں ادھورا خواب بننے لگیں .
ماں اٹھ کر کمرے میں چلی گئی چند منٹ بعد  سونے کے کنگن سامنے لاکر رکھ دیئے. شاطر نے کہا. ماں یہ کیا ہے. آپ تو کہتی تھیں یہی کنگن بیچ کر ہم بڑی بہن کی شادی کریں گے.  شاطر کو بازار کی جانب اشارہ کے سوا ماں کچھ نہ کہ سکی.
شاطر بازار سے واپس آگیا. کنگن جوہری کا ہو کر بھی شاطر کو خوشیاں نہ دے سکا.
ماں کی بیماری بڑھ چکی تھی. مگر پھر بھی پل بھر آرام کرنے کو فرصت میسر نہ تھی. شاطر کچھ دیر کے بعد اپنے بیگ کے ساتھ تیار ہوگیا. ماں دعاؤں میں یاد رکھنا. میں چلتا ہوں. ماں نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا. شاطر کا ہاتھ پکڑ لیا. چہرہ سے کئ دنوں سے بیمار مگر ممتانہ لہجہ میں کہا. شاطر اگر ہوسکے تو آج مت جاؤ. اٹھتے قدم ماں کے لہجے سے رک گئے.
آخر ایک شام و شب ماں کے سایہ میں  اور گزر گئ.
ماں کی طبیعت آج کچھ زیادہ ہی خراب ہوگئ تھی. ماں درد سے آنسو بہا رہی تھی. شاطر دبے پاؤں گھر میں آیا. ماں کے  گرتے آنسوؤں پر نظر پڑ گئی. ماں آنسوؤں کو برابر روکے جا رہی تھی. درد نے آنسوؤں پر ماں کے ضبط کو چھین لیا تھا. شاطر کو اگلی صبح ہر حال داخلہ کے لئے پہونچنا تھا. درد سے نڈھال ماں نے شاطر  کو صرف اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیا.
(فنی ناحیہ سے آپ کے تبصروں پر مشکور ہوں گے)
عبید اسد
شعبئہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ.
Share:

Kya Km umer Me Safed Balo ko Kala Kar Sakti Hai Aurat

Kisi Aurat Ka Bal Km Umer Me hi Safed Ho jata Hai to Kya Use Kala Kar Sakte Hai

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بہنا میرا سوال ہے ایک عورت کے بال چھوٹی عمر میں سفید ہوجاتے ہیں کیا وہ عورت اپنے بالوں کو کالا کر سکتی ہے یا نہیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھائین جزاک اللہ خیرا ؟
وٙعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
جی ہاں برادر محترم ، عورت کالے رنگ کے علاوہ ہر رنگ سے بال رنگ سکتی ہے ۔خالص سياه رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ جیسے گولڈن،براؤن اور سنہری وغیرہ سے رنگنا جائز ہے بشرطیکہ اس کی تہہ نہ جمتی ہو البتہ آج کل مروجہ فیشنی رنگوں سے بچنا چاہیے کہ فساق فجار اور فیشن پرست لوگوں کے ساتھ مشابہت لازم نہ آئے.
کما فی الصحیح لمسلم:عن ابی ھریرة رضی اللہ تعالی عنه ان النبی صلی الله عليه وسلم قال:”ان اليھود والنصاری لا يصبغون فخالفوهم.”
وقال ایضا:”اجتنبوا السواد.”(2/199)
واضح رہے دوسرے رنگ وہ منتخب کرے جس میں سیاہی کی طرف رجحان ہو
درج ذیل مسئلوں میں عورت کے سر کے بالوں کے احکام مرد کی طرح ہیں مثلا :
➊ بال پاک ہیں۔
➋ بالوں کی خرید و فروخت کرنا نا جائز ہے۔
➌ بالوں کوکنگھی کرنا۔
➍ کنگھی دائیں سے شروع کرنا۔
➎ مانگ تالو سے نکالنا۔
➏ بالوں میں تیل لگانا۔
➐ بالوں کو گوند کر یا چوٹی بنا کر نماز نہ پڑھنا۔
➑ بالوں کو کسی چیز سے چپکانا۔
➒ سفید بالوں کو اکھیڑنا حرام ہے۔
➓ سفید بالوں کو کالے رنگ کے علاوہ مہندی یا زرد رنگ یا کسی اور رنگ سے رنگنا۔
⓫ مصنوعی بال (وگ) لگانا حرام ہے۔
⓬ وضو میں سر کا مسح کرنا۔
⓭ غسل جنابت کے وضو میں سر کا مسح کرنے کے بجائے تین چلو ڈالنا یا مسح کرنا۔
۔..............................................................
Share:

Kya Allah Ko Allah Miya ya Allah G Kah Sakte Hai?

Allah Miya Kahna Kaisa Hai

 السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم اور مسز اے انصاری بہن
سوال-- میں روز مرہ سوشل میڈیا پر اکثر ایک لفظ استعمال ہوتا ہوا دیکھتا ہوں ۔
اس کے بارے میں نے اپنی ناقص علم کے مطابق غلط سمجھا واللہ اعلم
باقی آپ دونوں تسلی بخش جواب دیں گے ان شاء اللہ
سوال یہ ہے ۔
ہم اللہ کو اللہ میاں کہتے ہیں ۔ میاں کے اردو میں تین معنی ہیں ۔ (شوہر) (دلال)(سرتاج)
اب اللہ میاں کہنا کیسا ہے ؟؟؟؟؟
2 اکثر میں دیکھتا ہوں پوسٹوں پر لوگوں کے کمنٹ جسس میں یہ لکھا ہوتا ہے
ہائے اللہ
اللہ جی
اللہ میاں
ایسے بہت سارے الفاظ ہیں جو مجھے اس وقت یاد نہیں
اگر ہو سکے تو اس کو ایک مستقل موضوع بنا کر پوسٹ کریں تا کہ ہمیں حق اور سچ کا پتا چلے ۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا فی دنیا والاخرہ
کیا اللہ میاں کہنا جائز پے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وٙعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه 
 اللہ کے نام کے ساتھ لفظ میاں کا استعمال درست ہے ۔
اور بریلوی صاحب کا فتوى بالکل غلط ہے ۔
کیونکہ لفظ میاں در حقیقت "میراں" بمعنى سردار کا مخفف ہے ۔
اور یہ آقا ‘ مالک ‘ سرکار وغیرہ کے معنوں میں اپنی اول وضع میں مستعمل ہے ۔
پھر خاوند ‘ جناب ‘ دوست ‘ استاد اور شہزادے کے لیے بھی بولا جاتا ہے ۔
اور جب یہ لفظ اللہ تعالى کے نام کے ساتھ بولا جائے تو اسوقت یہ کمال تعظیم کے طور پر مستعمل ہوتا ہے ۔ خوب سمجھ لیں
ابو عبدالرحمٰن محمد رفیق الطاہر
ہماری دانست میں
’’ سائیں ‘‘خاوند ،فقیر بھکاری،وڈیرہ شاہی اور پیر حضرات کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم لیکن ہم ان الفاظ کو عامیانہ سمجھتے ہیں ۔ اور ان کے معانی سے پتہ چلتا ہے کہ ’’جی اور سائیں‘‘ کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ پکارنا زیب نہیں دیتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم
۔...........................................................
سسٹر میسز اے انصاری
Share:

Kya Dhadhi ko Ek Moost Ke Bad Katna Chahiye?

 Dhadhi Ko Katne Ka Masla, Kya Monchh Rakh Sakte HAi, Dhadhi Kitne Bare hone Pe Katne Chahiye


بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
حدیث ہے داڑی کو معاف کرنا اور کچھ کہتے ہیں ایک مٹھ کے بعد کاٹ سکتے ہیں ایسی بھی حدیث ہے یہ حدیث کسی صحابی سے منقول ہے اس کی وضاحت کر دے ارجنٹ جواب برائے مہربانی
شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:
وٙعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
داڑھى پورى اور گھنى ركھنا فرض ہے، اور داڑھى كا كوئى بال بھى كاٹنا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمايا:
" مونچھيں كاٹو، اور داڑھى كو بڑھاؤ مشركوں كى مخالفت كرو"
متفق عليہ. يہ حديث ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے.
اور صحيح بخارى ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مونچھيں كاٹو، اور داڑھى پورى ركھو مشركوں كى مخالفت كرو "
اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مونچھيں پست كرو، اور داڑھى لمبى كرو مجوسيوں كى مخالفت كرو "
يہ سب احاديث داڑھى پورى اور گھنى اور اپنى حالت پر باقى ركھنے پر دلالت كرتى ہيں، اور مونچھوں كے كاٹنے كے وجوب پر دلالت كرتى ہيں، مشروع بھى يہى ہے، اور يہى واجب اور فرض ہے جس كى راہنمائى نبى كريم صلى اللہ عليہ نے فرمائى اور اس كا حكم بھى ديا.
اور پھر داڑھى پورى ركھنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى اور صحابہ كرام كى اقتدا اور مشركوں كى مخالفت، اور كفار اور عورتوں سے مشابہت بھى سے بھى دورى ہے.
ليكن ترمذى شريف ميں جو حديث مروى ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى داڑھى كے طول و عرض سے كاٹا كرتے تھے "
اہل علم كے ہاں يہ خبر باطل ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بعض لوگ اس كو دليل بناتے ہيں، حالانكہ يہ حديث ثابت ہى نہيں، كيونكہ اسكى سند ميں عمر بن ہارون بلخى ہے جو متہم بالكذب رواتى ہے.
لہذا مومن شخص كے ليے اس باطل حديث كو دليل بنانا جائز نہيں، اور نہ ہى اہل علم كے اقوال كے ساتھ رخصت حاصل كرنا جائز ہے، كيونكہ سنت نبويہ سب كے ليے حاكم ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ جو كوئى شخص رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت كرتا ہے، اس نے اللہ تعالى كى اطاعت كى ﴾.
” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو چھوڑتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)​
ديكھيں كتاب: مجموع فتاوى و مقالات المتنوعۃ فضيلۃ الشيخ علامہ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 4 / 443 ).
1 - کیا داڑھی بڑھانا واجب ہے یا جائز؟
2 - کیا داڑھی مونڈھنا گناہ ہے یا یہ عمل دین ميں نقص کا باعث ہے؟
3 - کیا داڑھی مونڈھنا مونچھیں بڑھانے کے ساتھ جائز ہے؟
ان سوالات کے جواب میں ہم کہیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے جسے امام بخاری اور امام مسلم نے صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم مونچھیں چھوٹی کرو، اور داڑھیاں لمبى رکھو اور مشرکین کی مخالفت کرو
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لمبی کرو، مجوسیوں کی مخالفت کرو
اور امام نسائی نے اپنی سنن میں صحیح اسناد کے ساتھ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں علامہ حافظ ابومحمد ابن حزم کا قول ہے کہ تمام علماء متفق ہیں کہ مونچھیں کاٹنا اور داڑھی بڑھانا فرض ہے۔ ا. هـ.
مونچھیں کاٹنے داڑھی بڑھانے اور گھنی کرنے کے تعلق سے اس باب میں احادیث اور علماء کا کلام بکثرت پایا جاتا ہے، جس کا احاطہ اس مختصر جواب میں ممکن نہیں ہے، اور گزشتہ احادیث اور ابن حزم کے نقل کردہ اجماع سے تينوں سوالوں کا جواب بھی مل جاتا ہے،
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی بڑھانا اور گھنی کرنا فرض ہے اسے ترک نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور آپ کا حکم وجوب کو بتاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟﺟﻮ ﻛﭽھ ﺭﺳﻮﻝ ﺩﮮ ﻟﮯ ﻟﻮ، ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺭﻭﻛﮯ ﺭﻙ ﺟﺎؤ
اسی طرح مونچھیں کاٹنا واجب ہے اور مونچھوں کو بالکل چھوٹا کرنا افضل ہے، لیکن مونچھیں بڑھانا یا اسمیں دم بنانا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی مخالفت لازم آتی ہے:
مونچھیں چھوٹی كرو تم مونچھوں کو پست کرو مونچھیں کاٹو جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں
یہ چاروں جملے جیساکہ صحیح احادیث میں وارد ہوئے ہیں، اور آخری لفظ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا وہ آپ کا يہ فرمان ہے:
جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں اس میں شدید وعید ہے جو ایک مسلمان کو اس عمل سے پرہیز کرنے کو واجب قرار دیتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی بجا آوری کی طرف دعوت دیتا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مونچھیں بڑھانا اور اسمیں دم بنانا گناہ اور معصیت ہے ،
اسی طرح داڑھی مونڈھنا اور اسے چھوٹی کرنا جملہ معصیت اور گناہ میں سے ہے، جس سے ایمان کی کمی اور کمزوری لازم آتی ہے، اور اللہ کا غیظ وغضب نازل ہونے کا اندیشہ ہے، مذکورہ احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ مونچھیں لمبی کرنا اور داڑھی مونڈھانا یا چھوٹی کرنا مجوسیوں اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرنے کے مرادف ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا گناہ عظیم ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو جس قوم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ ان ہی میں سے ہوگا۔ امید ہے کہ یہ جواب آپ کے لیے کافی وشافی ہوگا۔
احناف داڑھی کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ خود ساختہ ہے اور اپنے خود ساختہ عمل کےلئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کا سہارا لیتے ہیں کہ انہوں نے ایک مشت سے زائد داڑھی کٹائی تھی۔ لیکن احناف کا داڑھی کے ساتھ موجود سلوک کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ہے۔
جن لوگوں کا قول کہ قبضہ یعنی ایک مٹھ سے زاید کو کاٹا جایے اور وہ ابن عمر وغیرہ کے آثار سے استدلال کرتے ہیں تو یہ استدلال ضعیف ہے کیونکہ مرفوع اور صحیح احادیث جو کہ داڑھی کو بڑھانے پر دلالت کرتی ہیں ان موقوف آثار کی نفی کرتی ہیں چنانچہ ان مرفوع کو مرفوع اور صحیح احادیث کے ہوتے ہوءے حجت بنانا صحیح نہیں
تحفۃ الاحوذی 8/49
1۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خاص حج اور عمرہ کے موقع پر ایسا کیا جبکہ موجود حنفی تقریبا ہر مہینے یا پندرہ دن بعد یہ عمل کرتے ہیں اور نہ وہ کوئی حج کا موقع ہوتا ہے اور نہ ہی عمرہ کا۔
2۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عمل کو سنت قرار نہیں دیا جبکہ احناف اسے سنت قرار دیتے ہیں
3۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے داڑھی کو صرف لمبائی میں کٹوایا تھا جبکہ احناف داڑھی کو لمبائی کے علاوہ اطراف سے بھی کٹواتے ہیں اور خط بنوانے کے نام پر گالوں کے بال بھی کٹواتے ہیں جو کہ داڑھی کا حصہ ہیں۔
جہاں تک عمر رضی اللہ عنہ کا فعل بیان کیا جاتا ہے تو عمر رضی اللہ عنہ کا قول اس کی مخالفت میں ہے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ عمل سنت کے خلاف تھا یا زیادہ سے زیادہ صرف حج و عمرہ کے موقع پر اختیار کرنے والا عمل تھا اور اگر میں یہ کہوں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اعفا ء اللحیہ وا لی حدیث کے راوی بھی ہیں اور محدثین کا اصول ہے کہ جب کسی راوی کا عمل اس کی بیان کر دہ روایت کے خلا ف ہو تو روا یت کا اعتبا ر ہو تا ہے اس کے عمل کی کو ئی حیثیت نہیں ہو تی ۔
۔..................................................................
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْــــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــــاتُه
Share:

Jung Ki Khawahish Dil Me Na Rakho Aur Aman ki Dua karo?

Jung ki Tamanna Dil Me Na Rakho

Jannat Talwar ke Saye Tale Hai (Mafhoom Hadeeth)


السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس حدیث کا مفہوم تھوڑا وضاحت کر دیں
دو باتیں ہیں اس حدیث میں ایک تو جنگ کی خواہش پر منع کیا جا رہا ہے دوسری طرف جنت تلوار کے سائے تلے
((وضاحت کر دیں ))
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو، بلکہ اللہ ﷻ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے
بخاري 2966
ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا قَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ العَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ»، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ»
{ ابو ابر اہیم عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعض ایام میں ، جن میں آپ کا دشمن سے سامنا ہو ا، انتظار فر ما یا ، ( یعنی لڑائی شروع نہیں کی ) حتیٰ کہ جب سو رج ڈھل گیا تو آپ ان ( صحابہ رضوان اللہم اجمعین) میں کھڑے ہوئے }
ترجمہ حدیث : اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو ! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو ، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو ، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی ، اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے ، بادل بھیجنے والے ، احزاب ( دشمن کے دستوں ) کو شکست دینے والے ، انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر ۔
➖ صحیح البخاری / رٙقٙمُ الْحٙدِیْث : 2966
➖ كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ/جہاد کا بیان
➖ بَابٌ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّهَارِ أَخَّرَ القِتَالَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ/نبی کریم ﷺ دن ہوتے ہی اگر جنگ نہ شروع کردیتے تو سورج کے ڈھلنے تک لڑائی ملتوی رکھتے
( متفق علیہ )
توثیق الحدیث : أخرجہ البخاری (٦/٣٣۔فتح) ، و صحیح المسلم(١٧٤٦)
⛔اسی سے متعلق ایک دوسری حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے جو صحیح مسلم (مختصر ) کے مطالعے کے دوران سامنے آئی:
باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا، لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے
ابو النضر سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی جو کہ قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، کی کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےعمر بن عبیداللہ کو کہ جب وہ حروریہ کی طرف (لڑائی) کے لیئے نکلے، تو لکھا اور وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کی خبر دینا چاہتے تھے کہ جن دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دشمن سے لڑائی کی حالت میں*تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زوالِ آفتاب تک انتظار کیا پھر لوگوں (صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمیعن) میں*کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے (لڑائی) ملاقات کی آرزو مت کرو اور اللہ تعالٰی سے سلامتی کی آرزو کرو۔ (لیکن)جب آمنا سامنا ہو جائے تو صبر سے کام لو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔
حدیث نمبر 1126
باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا، لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور یوں*دعا فرمائی کہ اے اللہ! کتاب نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں*کو بھگانے والے، ان کو بھگا دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔
(آمین ثم آمین)
⛔ تبصرہ :
کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے لہٰذا جہاں تک ممکن ہو لڑائی کو ٹالنا اچھا ہے۔ اگر کوئی صلح کی عمدہ صورت نکل سکے۔ اور جب نبھا کی شکل نہ نظر آئے اور صورتِ حال یہ ہو کہ دشمن مقابلہ ہی پر آمادہ ہو تو جم کر اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ایسے موقعہ پر اس دعائے مسنونہ کا پڑھنا ضروری ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ یعنی اللھم منزل الکتاب ومجری السحاب وھازم الاحزاب اھزمھم وانصرنا علیھم جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جنت کے لئے مالی و جانی قربانی کی ضرورت ہے جنت کا سودا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت قرآن ﴿ اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ﴾(التوبۃ: ۱۱۱) میں مذکور ہے.
Share:

Shariyat Ke Mutabik Talak Dene ke Bad Kya Fir Se Shauhar Biwi Nikah Kar Sakte Hai?

Talak Kitne Dino Pe di ja sakti Hai

 السلام وعلیکم.
دورِ جاہلیت کے رواج کو رد کرتے ہوئے الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ
طلاق(رجعی) دو مرتبہ ہے پھر یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا پھر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردینا ہے اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ بھی واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے پس اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے ‘ تو ان دونوں پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیہ میں دے یہ اللہ کی حدود ہیں ‘ پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں
(البقرہ -229)
طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔
فائدہ یہ ہے کہ میاں بیوی اگرعدت کے اندر صلح کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر عدت گزر جانے کے بعد بھی آپس میں مل بیٹھنے پر رضامند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے۔ یہ سنّت طریقہ کار ہے ۔
اگر معاملہ ایسا ہو کہ پہلی طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع کر لیں یا پھر عدت کے بعد تجدید نکاح سے وہ دوبارہ مل جائیں ، لیکن پھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ حالات کشیدہ ہو جائیں اور مرد دوسری مرتبہ طلاق دے دے ،تو بھی پہلے طریقہ کی طرح دوبارہ وہ مل سکتے ہیں
لیکن اگر پھر سے اختلاف ہو جائے اور مرد تیسری دفعہ طلاق دے دے تو تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی(حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ)(البقرہ -230)کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
پھراگر وہ طلاق دے اسے (تیسری بار)تو وہ حلال نہیں اس کے لیے اس کے بعد یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی اور سے اس کے سوا پھراگروہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے دے توکوئی گناہ نہیں ان دونوں پر کہ وہ رجوع کرلیں اگردونوں یہ خیال کریں کہ وہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی حدیں اوریہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں وہ کھول کھول کربیان کرتاہے ا نہیں اس قوم کے لیے (جو) علم رکھتے ہیںَ
(البقرہ -230)
سورة البقرہ آیت ٢٣٠ کے مطابق تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی
(حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ)
(البقرہ -230)
کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
جو صورتِ حال آپ نے مذکور کی ہے اسکے مطابق خاوند نے جب تیسری بار طلاق دے دی۔ تو اب عورت اس کے لیے حرام ہوگئی۔ عورت پر عدت تو ہوگی، مگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرسکتا۔ اب ان دونوں کے ملاپ کی صرف یہ صورت ہے کہ عدت گزرنے کے بعد عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے- نکاح مستقل رہنے کی نیت سے ہو گا ، تمام نکاح کے کام سر انجام دیے جائیں گے ، یعنی ولیمہ بھی ہو گا اور نکاح کا اعلان بھی کیا جائے گا -لیکن پھر کسی وقت وہ مرد از خود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہوجائے تو پھر عدت گزرنے کے بعد یہ عورت پہلے مرد سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
Share:

Kya Allah Ke Nabi Pahli Takbir Me Rafa Dayein Karte They?

Kya Allah Ke Rasool Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam Pahli Takbir Me Rafa Dayein Karte They? Kya Ye Tirmizi ki Hadees Shahi Hai?

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة، ثم لا يعود.
”آپ پہلی تکبیر میں رفع الیدین فرماتے تھے، پھر دوبارہ نہ کرتے۔“ (مسند احمد:441،388/1، سنن ابي داود:748، سنن نسائي:1927، سنن ترمذي:257)
تبصرہ:
(۱) یہ روایت ”ضعیف“ ہے،
اس میں سفیان ثوری ہیں، جو کہ بالاجماع ”مدلس“ ہیں، ساری کی ساری سندوں میں ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں۔ مسلم اصول ہے کہ جب ”ثقہ مدلس“ بخاری و مسلم کے علاوہ ”عن“ یا ”قال“ کے الفاظ کے ساتھ حدیث بیان کرے تو وہ ”ضعیف“ ہوتی ہے۔
اس حدیث کے راوی امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م : ۱۸۱ھ) نے امام ہشیم بن بشیر رحمہ اللہ (م : ۱۸۳ھ) سے پوچھا، آپ ”تدلیس“ کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:
ان كبيريك قد دلسا الأعمش وسفيان.
”آپ کے دو بڑوں امام اعمش اور امام سفیان رحمہ اللہ علیہما نے بھی تدلیس کی ہے۔“ (الكامل لابن عدي:95/1، 135/7 وسنده صحيح)
امام عینی حنفی لکھتے ہیں:
سفيان من المدلسين، والمدلس لا يحتج بعنعنته الا أن يثبت سماعه من طريق آخر.
”سفیان مدلس راویوں میں سے ہیں اور مدلس راوی کے عنعنہ سے حجت نہیں لی جاتی، الا یہ کہ دوسری سند میں اس کا سماع ثابت ہو جائے۔“(عمدة القاري :112/3)
(۲) یہ ”ضعیف“ روایت عام ہے، جبکہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے متعلق احادیث خاص ہیں، خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے، لہذا یہ حدیث عدم رفع الیدین کے ثبوت پر دلیل نہیں بن سکتی۔
(۳) مانعین رفع الیدین یہ بتائیں کہ وہ اس حدیث کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود وتروں اور عیدین میں پہلی تکبیر کے علاوہ کیوں رفع الیدین کرتے ہیں؟
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ محدیثین کرام کی نظر میں
(۱) امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم يثبت عندي حديث ابن مسعود. ”میرے نزدیک حدیث ابن مسعود ثابت نہیں۔“ (سنن الترمذي: تحت حديث256، سنن الدارقطني:393/1، السنن الكبريٰ للبيھي:79/2، وسنده صحيح)
(۲) امام ابوداود رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وليس ھو بصحيح علي ھذا اللفظ. ”یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں۔“
(۳) امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا خطأ. ”یہ غلطی ہے۔“ (العلل:96/1)
(۴) امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وليس قول من قال : ثم لم يعد محفوظا.
”جس راوی نے دوبارہ رفع یدین نہ کرنے کے الفاظ کہے ہیں، اس کی روایت محفوظ نہیں۔“ (العلل:173/5)
(۵) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھو في الحقيقة أضعف شئ يعول عليه، لأن له عللا تبطله.
”درحقیقت یہ ضعیف ترین چیز ہے جس پر اعتماد کیا جات ہے، کیونکہ اس میں کئی علتیں ہیں جو اسے باطل قرار دیتی ہیں۔“(التلخيص الحبير لابن حجر:222/1)
تنبیہ :
اگر کوئی کہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن“ کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے :
”ابن دحیہ نے اپنی کتاب ”العلم المشہور“ میں کہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کتنی ہی ”موضوع“ (من گھڑت) اور ”ضعیف“ سندوں والی احادیث کو ”حسن“ کہہ دیا ہے۔“
(نصب الراية للزيلعي:217/2، البناية للعيني:869/2، مقالات الكوثري:311، صفائح اللجين از احمد رضا خان بريلوي:29)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه
Share:

Jisne Fatima ko Sataaya Usne Mujhe Sataya.

السلام علیکم ورحمةاللہ
اس حدیث کے بارے میں رہنمائی فرما دیں
کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ستایا اس نے مجھے ستایا اور یہ تب فرمایا جب حضرت علی نے ابو جہل کی بیٹی سے شادی کی تھی۔
اس حدیث کا سیاق و سباق بتا دیں
والسلام علیکم
۔....................................................
عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَة : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : فَاطِمَة بَضْعَةٌ مِنِّي، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ امام بخاری کے ہیں۔
الحديث رقم 5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3510، و في کتاب : المناقب، باب : مناقب فاطمة، 3 / 1374، الرقم : 3556، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1903، الرقم : 2449، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم : 32269، و أبو عوانة في المسند، 3 / 70، الرقم؛ 4233، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 361، الرقم : 2954، و الطبراني في المعجم الکبير، 202 / 404، الرقم : 1012.
یہ حدیث اس وقت بیان کی تھی جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے نبیﷺ اور اللہ کے عدو کی بیٹی کو ایک ہی چھت کے نیچے رکھنے کا سوچ رہے تھے۔۔۔
اُس موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم حسنین رضی اللہ عنھم جنت میں عورتوں کی سردار کو تکلیف دینے پر یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی۔۔
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے علی بن حسین نے بیان کیا اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں)پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد: میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔
اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیے۔
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS