find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Iman. Show all posts
Showing posts with label Iman. Show all posts

Islam Ki Buniyad aur Iman ke Arkan.

Islam ke 5 Arkan or iman ke 6 Arkan hain.

--------------------------------------------


"Islam Ke Arkan 5 Hai"
---------------------
1) TAUHEED. (Allah Ko Ek Manna)
2)  Salat (NAMAZ). (Kayam Karo)
3) ZAKAAT. (Ada karo)
4) ROZA. (Ramzan ke Roze Rakhna)
5) HAJJ. (karna)
{Sahi Muslim No: 111}

"Imaan Ke 6 Arkan Hai"
---------------------------
1) Allah Par Imaan Lana
2) Farishton Par Imaan Lana
3) Rasoolon Par Imaan Lana
4) Allah Ki Nazil Ki Hui Kitabon Par Imaan Lana
5) Qayamat Ke Din Par Imaan Lana
6) Achi Aur Buri Taqdeer Par Imaan Lana
{Sahih Bukhari No: 4777}.
( हर बात दलील के साथ)

Share:

Gusl karne ka Aur Wuzu karne ka Tarika Kya Hai?

Wuzu Ka Sharai Tarika kya hai aur Gusl Kaise kiya jata hai?
Asslamualaikum wa rahmathllahi wa barakatuh

Mujhe wuzu ka complete tareeka bata den Or Jo Regular Gusl karte hain uska bhi masnun tareeka bata den..
Jazakallahu Khair

جواب تحریری
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ گزشتہ صفحات میں وضو کی شرائط فرائض اور سنن کا بیان پڑھ چکے ہیں۔ اب ہم انھی نصوص شرعیہ کی روشنی میں مکمل وضو تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے تا کہ آپ کا عمل اس کے مطابق ہو۔

وضو کرنے والا اولاً وضو کی نیت کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں نماز وغیرہ کے لیے وضو کر رہا ہے پھر بسم اللہ پڑھے۔پھر اپنے ہاتھوں کو تین بار دھوئے پھر تین بار کلی کرے اور ناک میں تین بار پانی کھینچے بائیں ہاتھ سے ناک جھاڑے۔ پھر تین بار چہرہ دھوئے لمبائی میں چہرے کی حد پیشانی کے اوپر والے حصے (جہاں سر کے بال شروع ہوتے ہیں)سے لے کر ٹھوڑی تک ہے۔ داڑھی کے بال چہرےکاحصہ ہیں جن کا دھونا فرض ہے۔ داڑھی مختصر ہے تو اس کو اوپر اور اندر سے دھونا ضروری ہے۔ اگر داڑھی لمبی اور ایسی گھنی ہے کہ اس کے نیچے والی جسمانی جلد نظر نہیں آتی تو صرف داڑھی کے باہر والے حصے کو دھولیا جائے اور اندورنی حصے کا خلال کر لیا جائے جس کا طریقہ اوپر بیان ہو چکا ہے چہرے کی چوڑائی کی حد ایک کان سے دوسرے کان تک ہے۔ کان سر کا حصہ ہیں ان پر سر کی طرح مسح کرے۔

پھر اپنے ہاتھوں کو ناخنوں سے لے کر کہنیوں سمیت تین بار دھوئے۔اگر اس کے ہاتھوں پر آٹا مٹی یا ناخن پالش وغیرہ لگی ہوتو اسے اتارے تاکہ پانی اعضاء کی جلد تک پہنچ جائے۔

پھر نیا پانی لے کر پورے سر کا اور دونوں کانوں کا ایک بار مسح کرے۔ مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو پانی سے تر کر کے انھیں سر کے ابتدائی حصے پر رکھے پھر انھیں سر پر گزار گدی تک لے جائے پھر ان ہاتھوں کو اسی طرح اس جگہ پر واپس لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا پھر دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیوں کو کانوں کے سوراخوں میں داخل کرے اور کانوں کے اندر والے حصے میں پھیرے جب کہ انگوٹھوں کے ساتھ کانوں کے پچھلے حصے پر مسح کرے۔پھر دونوں پاؤں کو(پہلے دایاں پھر بایاں) ٹخنوں تک تین بار دھوئے۔

اگر کسی شخص کا ہاتھ یا پاؤں کٹا ہوا ہو تو وہ ہاتھ یا پاؤں کا باقی حصہ دھولے۔ اور اگر اس کا ہاتھ کہنی تک کٹا ہوا ہے تو بازو کا اگلا حصہ دھولے ۔ اسی طرح اگر کسی کا پاؤں ٹخنے تک کٹ چکا ہے تو وہ پنڈلی کا ابتدائی حصہ دھولے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم... ﴿١٦﴾... سورة التغابن
"سو اللہ تعالیٰ سے حسب طاقت ڈرو۔"[1]

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ"
"جب میں تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو حسب طاقت اس پر عمل کرو۔"[2]

بنا بریں ایسا معذور شخص جب فرض کردہ عضو کے بقیہ حصے کو دھولے گا تو اس نے حسب طاقت حکم پر عمل کر لیا۔"[3]

وضو کرنے کے بعد آسمان کی طرف نگاہ اٹھائے۔[4]اور اس حال میں وہ تمام دعائیں پڑھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول اور ثابت ہیں وہ یہ ہیں۔

"أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"
"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے بندے اور رسول ہیں۔[5]

"اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَوَّابِينَ ، واجْعَلْني مِنَ المُتَطَهِّرِينَ "
"اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا دےاور پاکیزگی حاصل کرنے والوں میں سے بنا دے۔

"سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وبَحَمْدكَ أشْهدُ أنْ لا إلهَ إلا أنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ"
"اے اللہ ! تو پاک ہے اپنی تعریفوں کے ساتھ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سواکوئی معبود نہیں میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف ہی توبہ کرتاہوں۔"[6]

وضو کے بعد مذکورہ بالا ذکر اور دعا پڑھنے میں حکمت یہ ہے کہ وضو سے ظاہری طہارت حاصل ہوئی جب کہ توحید اور توبہ سے باطنی طہارت میسر آئی۔ اس طرح ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی عظیم طہارتیں جمع ہو گئیں اور بندہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونے کے قابل ہوگیا۔ یہ صورت حال کس قدر مناسب اور خوب تر ہے۔

اگر کوئی شخص وضو کر کے اپنے اعضاء کو کسی صاف ستھرے تولیے وغیرہ سے پونچھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

تنبیہ:اچھی طرح اور مکمل وضو کرنا(جس میں کوئی عضو خشک نہ رہ جائے) فرض ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے قدم کا ناخن برابر حصہ خشک رہ گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے فرمایا:

"ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ "
"تم واپس جا کر اچھی طرح دوبارہ وضو کرو۔"[7]

ایک اور روایت میں ہے:

"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلا يُصَلِّي ، وَفِي ظَهْرِ قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ وَالصَّلَاةَ"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ اس کے قدم کا درہم بھرحصہ (وضو کا پانی نہ لگنے کی وجہ سے)خشک رہ گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے وضو اور نماز دونوں کو دہرانے کا حکم دیا۔"[8]

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"ويلٌ للأعقابِ مِن النار"
"(خشک رہ جانے والی)ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔[9]

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ذمہ داری کی ادائیگی میں سستی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایڑیوں کا ایک حصہ خشک رہ گیا تو اسی بنا پر ایڑیوں کو عذاب ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنَّهَا لا تَتِمُّ صَلاةُ أَحَدِكُمْ حَتَّى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَيَغْسِلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ وَيَمْسَحَ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ . . ."
"کسی شخص کی نمازتب تک کامل نہ ہوگی جب تک وہ اللہ کے حکم کے مطابق مکمل وضو نہ کرے گا۔ وہ اپنا چہرہ دھوئے کہنیوں تک بازو دھوئے اور سر کا مسح کرے پھر ٹخنوں تک پاؤں دھوئے۔"[10]

میرے مسلمان بھائی!کامل اور اچھی طرح وضو کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پانی ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عضو پر مناسب حد تک بہایا جائے حتی کہ وہ خوب صاف ہو جائے۔ بلا ضرورت کثرت سے پانی کا استعمال اسراف ہے جس سے منع کیا گیا ہے بلکہ کبھی پانی کے کثرت استعمال کے باوجود مطلوبہ طہارت حاصل نہیں ہو تی اگر قلیل پانی سے مکمل وضو ہو جائے تو یہ کافی ہے۔ ایک روایت میں ہے:

"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ ، وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ إِلَى خَمْسَةِ أَمْدَادٍ"
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع سے لے کر پانچ مد تک پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے۔"[11]

پانی کے استعمال میں اسراف (فضول خرچی) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمایا ہے۔

ایک روایت میں ہے۔

"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ فَقَالَ مَا هَذَا السَّرَفُ فَقَالَ أَفِي الْوُضُوءِ إِسْرَافٌ قَالَ نَعَمْ وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهَرٍ جَارٍ"
"سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا گزر ہوا اور وہ وضو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیکھا اور فرمایا:

پانی میں اس قدر اسراف کیوں ؟تو انھوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف  ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا:"ہاں اگرچہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہو۔"[12]

ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یوں خبر دی ہے:"میری امت میں سے کچھ لوگ طہارت کی بابت حد سے تجاوز کریں گے۔"[13]

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إِنَّ لِلْوُضُوُءِ شَيْطَاناً يُقالُ لَهُ : الْوَلَهَانُ، فَاتَّقُوا وَسْوَاسَ الْمَاء"
"وضو کے لیے ایک شیطان ہے جسے ولہان کہا جاتا ہے لہٰذا تم پانی کے بارے میں وسوسوں سے بچو۔"[14]

پانی کے استعمال میں اسراف سے فائدہ ہونے کی بجائے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

کبھی پانی کی کثرت پر اعتماد ہوتا ہے اور اس طرف توجہ اس قدر ہوتی ہے کہ یہ خیال نہیں رہتا کہ پانی اعضاء کے تمام حصوں تک پہنچ پایا ہے یا نہیں بلکہ بسا اوقات پانی عضو کے مکمل حصے تک پہنچ نہیں پاتا اس بنا پر اس کا وضوناقص ہوتا اور وہ طہارت کے بغیر ہی نماز ادا کرتا ہے۔

وضو میں پانی کے کثرت استعمال (اسراف)سے عبادت میں غلو کا اندیشہ ہے کیونکہ وضو عبادت ہے اور جب عبادت میں غلو آجائے تو خرابی اور فساد لازم آتا ہے۔

پانی کے بے جا استعمال کے سبب طہارت سے متعلق وسوسے (شکوک و شبہات )پیدا ہوتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع میں مکمل بھلائی اور خیرہے۔اس کے علاوہ امور بدعات ہیں۔"اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہر اس عمل کی توفیق دے جو اسے محبوب اور پسند ہو۔

اے مسلمان بھائی!آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ وضو اور عبادات کی ادائیگی مسنون طریقے سے افراط و تفریط سے دور رہتے ہوئےہو کیونکہ یہ دونوں چیزیں قابل مذمت ہیں۔ بہتر کام میانہ روی ہے۔ عبادت میں سستی سے نقض پیدا ہوتا ہے جب کہ انتہا پسند (اسراف کرنے والا)ایسی زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے جو دین میں شامل نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی پیروی کرنے والا ہی صحیح طریقے سے عبادت کا حق ادا کرتا ہے۔

اے اللہ! ہمیں حق کو حق کی شکل میں دکھا اور اس کی اتباع کی توفیق دے اور باطل کو باطل کی صورت میں سامنے لا اور اس سے اجتناب کی ہمت دے ایسا نہ ہو کہ باطل ہم پر واضح نہ ہو سکے اور ہم اس میں پڑ کر گمراہ ہوجائیں ۔(آمین)

[1]۔التغابن:64۔16۔

[2]۔صحیح البخاری الاعضام بالکتاب والسنۃ باب الاقتداء یسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حدیث 7288۔وصحیح مسلم الحج باب فرض الحج مرۃ فی اعلمر حدیث 1337۔ومسند احمد 2/258۔

[3]۔(ضعیف) اس روایت کی سند میں ایک راوی مجہول ہے۔ سنن ابی داؤد الطہارۃ باب مایقول الرجل اذا توضا؟حدیث 170۔

[4]۔صحیح مسلم الطہارۃ باب الذکر المستحب عقب الوضوء حدیث 234۔وجامع الترمذی الطہارۃ باب فی مایقال بعد الوضوء حدیث 55۔

[5]۔جامع الترمذی الطہارۃ باب فی مایقال بعد الوضو حدیث 55۔

[6]۔ولسنن الکبری للنسائی عمل الیوم واللیلہ باب مایقول اذا فرغ من وضو 6/25۔حدیث9909۔والمستدرک للحاکم 1/564۔حدیث 2072 وسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للا لبانی حدیث 2651۔

[7]۔صحیح مسلم الطہارۃ باب وجوب استیعاب جمیع اجزاء محل الطہارۃ حدیث 243۔وسنن ابی داؤد الطہارۃ باب تفریق الوضوءحدیث 173۔

[8]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب تفریق الوضوء حدیث 175۔

[9]۔صحیح البخاری الوضو باب غسل الاعقاب حدیث 165 وصحیح مسلم الطہارۃ باب وجوب غسل الرجلین یکما لہما حدیث 242۔

[10]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب صلاۃ من لایقیم صلیہ فی الرکوع والسجود حدیث 858۔

[11]۔صحیح البخاری الوضوء باب الوضوء بالمد حدیث 201وصحیح مسلم الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ حدیث325۔واللفظ لہ ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے اور ایک مد کا وزن 625گرام ہے اور بعض علماء کے نزدیک 525 گرام ہے(صارم)

[12]۔(ضعیف ) سنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب ماجاء فی القصد فی الوضوء حدیث 425۔ومسند احمد 2/221۔اس معنی میں اگلی حدیث صحیح ہے۔

[13]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب الاسراف فی الوضو ء حدیث 96۔

[14]۔(ضعیف)جامع الترمذی الطہارۃ باب ماجاء فی کراھیہ الاسراف فی الوضوء بالماء حدیث 57۔ ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب ماجاء فی القصد فی الوضوء حدیث 421۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

Share:

Imaan kamjor bhi hota Hai aur Isme Azafa Bhi hota hai.

Imaan Badhta bhi hai Aur km bhi Hota Hai.
اسلاف کی سنہری باتیں : (102)
🍃 امام احمد بن حنبل رحمه الله کے بیٹے صالح کہتے ہیں کہ میرے والد احمد بن حنبل رحمه الله نے فرمایا :
« ایمان کے مختلف درجے ہیں، بعض ایمان بعض سے افضل ہیں، ایمان بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی، اسکا بڑھنا رضائے الہی کے اعمال سے ہے اور اسکا گھٹنا عمل کے چھوڑنے سے ہے ».
📕 [ مسائل الإمام أحمد بروایة صالح || مسئلة : ١١٩٨ ]

Share:

Imaan Ka Mana Aur Mahfoom. Imaan Kya Hai?

IMAN KA MAA’NA WA MAFHOOM```
Part : 1
SAWAL 1: Iman ke lughavi wa sharai maa’na kya hain?
_________
JAWAB 1: Iman ka lughavi maa’na: Tasdeeq karna.
Iman ka sharai maa’na: Zaban se iqrar karna, dil se tasdeeq karna aur us par amal karne ka naam iman hai.
_________
SAWAL 2 : Arkan e iman kitne hain aur iski daleel kya hai?
_________
JAWAB 2 : Arkan e iman (6) cheehen hain.

1. Allah par iman
2.. Farishton par iman
3. Kitabon par iman
4. Rasoolon par iman
5. Aakhirat par iman
6. Taqdeer par iman
Daleel: Nabiصلى الله عليه وسلم ne farmaya:

“Tum iman laao Allah par, uske farishton par, uski
kitabon par, uske rasoolon par, aakhirat ke din par aur taqdeer ke bure bhale hone par.”
📒[SAHIH MUSLIM: 8]

In Sha Allah, To Be Continued...

Share:

Jisne Khud ko Allah ke Hawale Kar diya Wah Kamyab Ho Gya?

Qna'ant Pasandi Hmare Liye Kis tarah Behtar Hai?

✍ قناعت پسندی بہت عظیم نعمت ہے اور اس کی بڑی برکتیں اور بے شمار فائدے ہیں:
✍ اس سے دل پر سکون، نفس مطمئن اور طبیعت خوش گوار رہتی ہے۔
✍ یہ انسان کو ذہنی پریشانیوں، نفسیاتی بیماریوں، باطنی امراض اور خواہشات کی غلامی سے بچائے رکھتی ہے۔
✍ اس سے دل کی صفائی، اخلاق کی بلندی، رزق کی پاکیزگی اور معاشرے کی اچھائی برقرار رہتی ہے۔
✍ یہ زندگی کو قلق، اضطراب، بے چینی، بد نظمی، بے ترتیبی اور عدم انضباط سے محفوظ رکھتی ہے۔
✍ اس سے آپس کے تعلقات، محبتیں اور رشتے ناطے مربوط اور مستحکم رہتے ہیں۔
✍ یہ دینی غیرت، ایمانی حرارت، عزت نفس، خود داری اور خود مختاری کو سلب نہیں ہونے دیتی۔
✍ اس سے دینی ودنیاوی حقوق وواجبات ادا کرنے، ذمےداریاں نبھانے اور تقاضے پورے کرنے میں آسانی ہوتی ہے-
✍ یہ وقت، توانائی، تندرستی، عقل، ذہانت اور صلاحیت کو غیر ضروری امور میں خرچ نہیں ہونے دیتی۔
✍ حقیقت یہ ہے کہ قناعت پسندی ہی سچی کامیابی اور اصل دولتمندی ہے، جیساکہ امیر قناعت، رسول رحمت اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
{ليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس}
"امیری مال ومتاع کی بہتات میں نہیں ہے، اصل امیری دل کی امیری ہے۔"(صحیح بخاری:6446 صحیح مسلم:1051)
اور  {قد أفلح من أسلم ورزق كفافا وقنعه الله بما آتاه}
"یقینا وہ کامیاب ہو گیا جس نے خود کو اللہ کے سپرد کر دیا، اور اسے بقدر کفایت رزق دیا گیا اور جو کچھ اللہ نے اسے دیا اس پر اس کو قناعت بھی عطا کیا۔"(صحیح مسلم:1054)
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب
Share:

Jab Unke Pas Allah Ka Nam Liya Jata Hai To Unka Dil Dar Jata Hai.

Iman wale Kaise Shakhs Hai unki Mishal Kya Hai?
   ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦِﺍلرَّﺣِﻴﻢ 
        السَّلاَمُ عَلَيكُم وَرَحمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ
       ☆▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬☆
Al Quran : Imaan wale to wo hi hain jab Allah subhanahu ka naam aaye to unke Dil dar jaye aur jab uski aaytein un par padhi jaye to unke Imaan me Jyadati  ho jata hai.
------------
✦ Al Quran : Imaan wale to wo hi hain jab Allah subhanahu ka naam aaye to unke Dil dar jaye aur jab uski aaytein un par padhi jaye to unka Imaan ziyada ho jata hai Aur wo apne RAB par bharosa rakhte hain.Wo jo Namaz Qayam karte hain aur jo humne unhe Rizq diya hai usmein se kharch karte hain. Yahi sacche Imaan wale hain aur unke RAB ke yahan unke liye Darje hain aur bakhshish hai aur ezzat ka rizq hai.
Al Quran, Surah Anfal (8), Verse: 2-4

✦ Hadith: Abu Hurairah Radi allahu anhu se rivayat hai ki Rasoollallah Sallallahu alaihi wasallam ne farmaya Saat tarah ke log hain jinhe ALLAH Subhanahu Apne (Arsh ke) saaye mein panaah dega unmein se ek wo bhi hai jisne tanhaii mein ALLAH subhanahu ko yaad kiya to uski aankhon se aansoo jari ho gaye
Sahih Bukhari, Vol 7, 6479
--------
ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل  خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر توکل رکھتے ہیں وہ لوگ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں  یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے ان کے رب کی بارگاہ میں (بڑے) درجات ہیں اور مغفرت اور بلند درجہ رزق ہے
القرآن: سورۃ انفال (۸) آیت ۲-۴

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سات طرح کے لوگ وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں پناہ دے گا۔ (ان میں) ایک وہ شخص بھی ہے جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔“
صحیح بخاری جلد ۷ ۶۴۷۹
-----------------
✦ अल क़ुरान : ईमान वाले तो वो ही हैं जब अल्लाह सुबहानहु का नाम आए तो उनके दिल डर जाए और जब उसकी आयतें उन पर पढ़ी जाए तो उनका ईमान ज़ियादा हो जाता है और वो अपने रब पर भरोसा रखते हैं.वो जो नमाज़ क़ायम करते हैं और जो हमने उन्हे रिज़क़ दिया है उसमें से खर्च करते हैं.  यही सच्चे ईमान वाले हैं और उनके रब के यहाँ उनके लिए दर्जे हैं और बखशीश है और ईज्ज़त का रिज्क है.
अल क़ुरान, सुराह अनफाल (8), आयत  2-4

✦ हदीस : अबू हुरैरा  रदी अल्लाहू अन्हु से रिवायत है की रसूल अल्लाह सलअल्लाहू अलैही वसल्लम  ने फरमाया सात तरह के लोग हैं जिन्हे अल्लाह सुबहानहु अपने (अर्श के) साए में पनाह देगा उनमें से एक वो भी है जिसने तन्हाई में अल्लाह सुबहानहु को याद किया तो उसकी आँखों से आँसू जारी हो गये
सही बुखारी, जिल्द 7, 6479
---------------
✦ Al Quran : The believers are only those who, when Allah is mentioned, feel a fear in their heartsand when His Verses (this Qur'an) are recited unto them, they increase their Faith, And they put their trust in their Lord (Alone); Who perform As-Salat (Iqamat-as-Salat) and spend out of that We have provided them.
It is they who are the believers in truth. For them are grades of dignity with their Lord, and Forgiveness and a generous provision (Paradise).
Al Quran, Surah Anfal 8, Verse: 2-4

✦ Hadith: Narrated by Abu hurairah Radi Allahu Anhu The Prophet Peace be upon him said ALLAH will give shade to seven (types of people) under His Shade (on the Day of Resurrection). (one of them will be) a person who remembers ALLAH and his eyes are then flooded with tears.
Sahih Bukhari, Vol 8, Book 76, #486.
     ☆▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬☆
Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo
Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare
  🌹JazakAllah  Khaira Kaseera🌹

Share:

Kya Gunaho se Bachna Mager Neki nahi karna Itna hi kafi Hai?

Kya Neki karne aur Gunaho se baj nahi aana hmare Liye Kafi Hai?

بعض لوگ نیکیاں کرتے ہیں لیکن گناہوں سے نہیں بچتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جہنم سے آزادی کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔
بعض لوگ گناہوں سے بچتے ہیں لیکن نیکیاں نہیں کرتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جنت میں داخلہ کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔
بعض لوگ  نیکیاں بھی نہیں کرتے ہیں اور گناہوں سے بھی نہیں بچتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جہنم سے بچنے اور جنت میں جانے کے لئے صرف ایمان ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے، اور ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ نیکیاں بھی کی جائیں اور گناہوں سے بھی بچا جائے۔
بہت کم ہیں ایسے لوگ جو نیکیاں بھی کرتے ہوں اور گناہوں سے بھی بچتے ہوں، اللہ ہمیں بھی ان خوش نصیب لوگوں میں سے بنائے۔
(افتخار عالم مدنی)
कुछ लोग नेकियां करते हैं लेकिन गुनाहों से नहीं बचते हैं, उन्हें मालूम होना चाहिए कि जहन्नम से आज़ादी के लिए यह काफ़ी नहीं है।
कुछ लोग गुनाहों से बचते हैं लेकिन नेकियां नहीं करते हैं, उन्हें मालूम होना चाहिए कि जन्नत में दाख़िला के लिए यह काफ़ी नहीं है।
कुछ लोग नेकियां भी नहीं करते हैं और गुनाहों से भी नहीं बचते हैं, उन्हें मालूम होना चाहिए कि जहन्नम से बचने और जन्नत में जाने के लिए सिर्फ़ ईमान काफ़ी नहीं है, बल्कि उसके साथ अमल भी ज़रुरी है।
और ईमान का लाज़िमी तक़ाज़ा है कि नेकियां भी जाएं और गुनाहों से भी बचा जाए।
बहुत कम हैं ऐसे लोग जो नेकियां भी करते हों और गुनाहों से भी बचते हों, अल्लाह हमें भी इन ख़ुश नसीब लोगों में से बनाए।
(इफ़्तिख़ार आलम मदनी)
Share:

Seerat-E-Mustakim Pe kaun Chal Rha Hai?

Seerat-E-Mustakim Kya Hai?
ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جو اسلام کا کلمہ پڑھے یقینی اور مکمل طور پر ہدایت کے درجے پر فائز ہو؛ اور نہ یہ لازم ہے کہ جو شخص کل تک راہ ہدایت پر قائم تھا وہ آج بھی اس پر گامزن ہو، اور جو آج اس پر گامزن ہے وہ کل بھی اس پر ثابت قدم رہے۔
✍ یہی وجہ ہے کہ کتاب ہدایت "قرآن مجید" میں جو دعا سب سے پہلے ذکر  کی گئی ہے اور شب وروز کی عظیم الشان عبادت "نماز" کی ہر رکعت میں جس دعا کے کرنے کا واجبی حکم آیا ہے، وہ "صراط مستقیم" یعنی "راہ ہدایت" کی معرفت اور اس پر استقامت کی دعا ہے۔
چنانچہ ملاحظہ فرمائیں ہر نماز میں پڑھی جانے والی قرآن کی سب سے پہلی سورہ "سورہ فاتحہ" کی آیت نمبر:6:
{اهدنا الصراط المستقيم}
"ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے"
لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ "صراط مستقیم" کو جاننے، ماننے، اپنانے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی دعا اور جد وجہد کرتا رہے۔
اللہ ہم سب کو توفیق بخشے۔
آپ کا بھائی:   افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب

Share:

Kya Hidayat Maal o Daulat wale ko Milti Hai?

Hidayat Kise Aur Kaise Milti Hai?
راہ حق کی ہدایت نہ تو حسب ونسب اور جاہ و منصب سے ملتی ہے اور نہ ہی مال و دولت اور عقل و ذہانت سے نہیں ملتی ہے۔
بلکہ یہ نعمت اللہ کے فضل وکرم اور اس کی توفیق سے ملتی ہے، اور اس کو ضرور ملتی ہے جو اس کا سچا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لئے مخلصانہ جد وجہد کرتا ہے۔
چچا ابو طالب کی ایمان کی دولت سے محرومی اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا اس نعمت سے مالا مال ہونا اس نا قابل انکار حقیقت کی بہترین تصویر ہے۔
اور سچ فرمایا اللہ تعالی نے کہ:
{إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء}
"آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔"
(سورہ قصص:56)
اور. {والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا}
"جو ہماری راہ میں جد وجہد کریں گے ہم ان کو اپنی راہیں ضرور دکھائیں گے۔"
(سورہ عنکبوت:69)
آپ کا بھائی:  افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر جبیل سعودی عرب

Share:

Gaib Pe Iman rakhna yah Momeen ki imtiyazi Shan Hai.

مومن کی امتیازی شان:
مشاہدات اور حسیات وغیرہ  پر ایمان رکھنا کوئی امتیازی شان نہیں ہے، ان چیزوں پر تو ملحدین اور کافرین بھی ایمان رکھتے ہیں۔
مومنین کی امتیازی شان یہ ہے کہ وہ ان غیبیات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔
دین اسلام میں ایمان بالغیب کی اہمیت کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایمانیات میں سب سے پہلے اسی ایمان کا تذکرہ ہے اور اہل تقوی کی صفات میں بھی سب سے پہلے اسی صفت کا بیان ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{الم. ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين. الذين يؤمنون بالغيب...}
الم، اس کتاب میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت نامہ ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے "جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر"۔
(سورہ بقرہ:1-3)
واضح رہے کہ عذاب قبر غیبی امور میں سے ہے اور برحق ہے اور اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔
آپ کا بھائی:   افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر  جبیل سعودی عرب

Share:

Taqdeer ke Bare me Bahes Karna ya Galat kahna kaisa Hai?

Insaan ko Dono Raste Dikha Diye Gye Hai, khawah wo burai wala Rasta ikhtiyar kare ya Khair wala.
تقدیر کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص شرعاً منع ہے، کیونکہ اس کے متعلق بحث و تکرار سے اجر کی محرومی، بدعملی اور ضلالت کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ ایک حدیث میں ہے :​
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على اصحابه وهم يختصمون في القدر فكانما يفقا في وجهه حب الرمان من الغضب فقال : بهذا امرتم او لهذا خلقتم ؟ تضربون القرآن بعضه ببعض بهذا هلكت الامم قبلكم​
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ مسئلہ تقدیر پر بحث کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اس قدر غصے میں آ گئے کہ معلوم ہوتا تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا تم اس کا حکم دیے گئے ہو یا تم اس کام کے لیے پیدا کئے گئے ہو ؟ اللہ کے قرآن کی بعض آیات کو بعض کے ساتھ ٹکڑاتے ہو؟ (یاد رکھو ! ) اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں۔“ [ابن ماجه، باب فى القدر : 85، منصف عبدالرزاق : 11/ 216، 20367، مسند احمد 2/ 178]​
↰ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر و شر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چاہے اختیار کرے۔​
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :​
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا [ 76-الإنسان:3]​
’’ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔“​
✿ ایک اور مقام پر فرمایا :​
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ​
’’ ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دیے۔“ [90-البلد:10]​
↰ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کے دونوں راستے دکھا دیے ہیں اور اسے عقل و شعور عطا کر دیا ہے کہ اپنے لیے دونوں راستوں میں سے جو صحیح ہے اس کو اختیار کر لے۔ اگر انسان سیدھے یعنی خیر و برکت والے راستے کو اختیار کر ے گا تو جنت میں داخل ہو گا اور جہنم کے دردناک عذاب سے اپنے آپ کو بچا لے گا اور اگر راہ راست کو ترک کر کے ضلالت و گمراہی اور شیطانی راہ پر گامزن ہو گا تو جہنم کی آگ میں داخل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اس نے اپنے علم کی بنیاد پر لکھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا ؟ یا کیا کرے گا ؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اس لیے اس نے اپنے علم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے۔ کیونکہ اس کا علم کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اس نے قلمبند کی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ کے کمال علم و احاطہ کلی کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اس نے ان لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے۔​
اس لیے یہ بات کہنا درست نہیں کہ زانی و شرابی، چور و ڈاکو وغیرہ جہنم میں کیوں جائیں گے ؟ کیونکہ ان کے مقدر ہی میں زنا کرنا، شراب پینا، چوری کرنا اور ڈاکے وغیرہ ڈالنا لکھا ہوا تھا۔ اس کی مثال یو ں سمجھ لیجئے کہ ایک استاد جو اپنے شاگردوں کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور ان کے لکھنے پڑھنے سے دلچسپی و عدم دلچسپی سے اچھی طرح واقف ہے، وہ اپنے علم کی بنا پر کسی ذہین و مخنتی طالب علم کے بارے میں ڈائری میں لکھ دے کہ یہ طالب علم اپنی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کرے گا اور کسی شریر اور کند ذہن طالب علم کے بارے میں لکھ دے کہ وہ امتحان میں ناکام ہو گا اور پھر لائق اور کند ذہن کو کلاس میں برابر محنت کروائے اور انہیں اکٹھا سمجھائے لیکن جب امتحان ہو اور ذہین طالب علم اچھے نمبر حاصل کر کے اول پوزیشن حاصل کرے اور کند ذہن طالب علم ناکام ہو جائے تو کیا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ لائق طالب علم اس لیے کامیاب ہوا کہ استاد نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں اس کے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ اول پوزیشن حاصل کر گا اور کند ذہن اس لیے فیل ہوا کہ اس کے متعلق استاد نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ فیل و ناکام ہو گا۔ لہذٰا اس بے چارے کا کیا قصور اور گناہ ہے ؟ یقیناسمجھدار انسان یہ نہیں کہے گا کہ اس میں استاد کا قصور ہے۔ اس لیے کہ اس میں استاد کی غلطی نہیں کیونکہ وہ دونوں کو برابر سمجھاتا رہا کہ امتحان قریب ہے، محنت کرو و گرنہ فیل ہو جاؤ گے۔ استاد کی ہدایت کے مطابق لائق طالب علم نے محنت کی اور نالائق طالب علم اپنی بری عادات میں مشغول رہا، یوں اس نے اپنا وقت کھیل کود اور شرارتوں میں صرف کر دیا۔​
اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کا علم بلاشبہ پوری کائنات سے زیادہ اکمل و اتم ہے، اس سے کوئی چیز مخفی و پوشیدہ نہیں، اس نے اپنے کامل علم کی بناء پر ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قابل ہی لکھ دیا تھا کہ یہ بدبخت ہو گا یا نیک ؟ جنتی ہو گا یا جہنمی ؟ مگر ان سے اختیارات اور عقل و شعور سلب نہیں کرتا بلکہ ان کی رہنمائی کرتے ہوئے اچھے اور برے راستوں میں فرق اپنے انبیاء و رسل بھیج کر کرتا رہا ہے اور سلسلہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد انبیاء کے ورثا ء صالح علماء کے ذریعے کائنات میں انہیں ایمان و اعتقاد اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتا ہے، کفر و شرک، معصیت اور گناہ سے منع کر تا ہے، جہنم کے عذاب اور حساب کتاب اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈراتا ہے۔ ان تمام احکامات کے باوجود جب کافر اپنے کفر اور طغیان پر اڑا رہتا ہے، فاسق اپنے فسق و فجور سے توبہ نہیں کرتا تو اس کے ان برے اعمال پر اگر اللہ تعالیٰ ان کو سزا دے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ یہ تو عین عدل و انصاف ہے اور اس کے برعکس نیک و بد اور کافر و مومن سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا عین ظلم و ناانصافی ہے۔​
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی​ حفظہ اللہ

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS