find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Iraq: Wah Sar jamin Jahan se Fitne paida honge aur Sari Duniya me failenge? Nazad aur Nazdi Kya hai.

Nazad aur Nazdi kya hai?

Mashriq se Fitne kaise Paida honge?
Iraq ke bare Me Hadees me Fitno ka Sarjamin kyo kaha gaya hai?
Sari Buraiyaan Mashriq (East) se Niklegi aur Iraq me Fitne janam lenge.
Sawal: Kaun Sa Nazad Fitno ki sarjamin hai? Aur yaha se Nikalne wale fitne kaun se hai? Wazahat kare.


“سلسلہ سوال و جواب نمبر-342”
سوال-کونسا نجد فتنوں کی سرزمین ہے؟اور اس میں پھوٹنے والے فتنے کون سے ہیں؟ صحیح احادیث سے وضاحت کریں!
غزہ پر قیامت ٹوٹنے کی گھڑی میں جنھوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہیں وہ تاحیات اور بعد الممات بھی ذلت اور عار کے ساتھی ہیں.

Published Date: 19-6-2020

جواب:
الحمدللہ:

*ہمارے ہاں نجد سے متعلق عجیب و غریب باتیں سنائی دیتی ہیں۔ بعض لوگ نجد عراق کے بارے میں مروی صحیح احادیث کی مراد میں تلبیس سے کام لیتے ہوئے انہیں نجد حجاز پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی توحید پر مبنی اصلاحی تحریک کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں*

*ان صحیح احادیث کی حقیقی مراد کیا ہے ؟ پرفتن نجد کون سا ہے ؟ اس میں پھوٹنے والے فتنے کون سے ہیں ؟ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے بارے میں مذکورہ لاف زنی کی کیا حقیقت ہے ؟ اس مضمون میں غیرجانبداری سے ان امور کا جائزہ لیا جائے گا*

*اس تحقیقی مضمون کاخاکہ کچھ یوں ہے کہ سب سے پہلے نجد کے پرفتن ہونے کے بارے میں مروی وہ احادیث مع ترجمہ ذکر کی جائیں گی جو محدثین کے اصول کے مطابق بالکل صحیح ہیں۔ پھر کچھ صحیح احادیث ہی کے ذریعے ان صحیح احادیث کی تفسیر و تشریح کی جائے گی۔ آخر میں مسلمہ فقہائے کرام، معروف شراحِ حدیث اور نامور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں اس تحقیق کی تائید پیش کی جائے گی*

*آئیے سب سے پہلے نجد کے بارے میں صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں :*

حدیث ①
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا “. قَالُوا : وَفِي نَجْدِنَا. قَالَ : ” اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا “. قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِي نَجْدِنَا. فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ : ” هُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ “.
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اور ہمارے نجد میں ؟ فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت دے۔ صحابہ کرام نے پھر عرض کی : اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی ؟ میرے خیال میں تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے۔ شیطان کا سینگ بھی وہیں طلوع ہو گا۔ ‘‘
(صحيح البخاری حدیث : 7094)
( سنن ترمذی حدیث - 3953)
( مسند الإمام أحمد:118/2،ح5987)

حدیث ②
 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَقْبِلٌ الْمَشْرِقَ يَقُولُ : ” أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ”
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرما رہے تھے : آگاہ رہو، فتنہ یہیں سے رونما ہو گا، یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔“
(صحيح بخاری حدیث : 7093)
( صحيح مسلم : حدیث -2905)

حدیث ③
 سالم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں
أَنَّهُ قَامَ إِلَى جَنْبِ الْمِنْبَرِ فَقَالَ : ” الْفِتْنَةُ هَاهُنَا، الْفِتْنَةُ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُقَرْنُ الشَّيْطَانِ “. أَوْ قَالَ : ” قَرْنُ الشَّمْسِ ”
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی ایک جانب کھڑے ہوئے اور فرمایا : فتنہ یہیں سے ابھرے گا، فتنہ یہیں سے ابھرے گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
(صحيح بخاری حدیث : 7092)

 صحیح مسلم کی روایت میں ابن عمر سے مروی روائیت کے الفاظ یہ ہیں :
أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمَشْرِقِ يَقُولُ : ” أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرمایا : خبردار! فتنے یہاں سے رونما ہوں گے اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔“
(صحیح مسلم حدیث -2905)

حدیث ④
 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ إِلَى الْمَشْرِقِ، وَيَقُولُ : ” هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یاد رکھو! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔“
(المؤطا للإمام مالك :2794٫2795)
(صحيح بخاری:حدیث -3279 )

حدیت ⑤
 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ : ” هَاهُنَا الْفِتْنَةُ، هَاهُنَا الْفِتْنَةُ، حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ “.
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے یہ فرماتے ہوئے سنا : فتنے یہیں سے نمودار ہوں گے اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
(مسند احمد،حدیث 5905حسن)

حدیت ⑥
 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت سے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رَأْسُ الْكُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ
”کفر کا منبع مشرق کی جانب ہے۔“
(صحيح بخارى حدیث -3301)
(صحيح مسلم حدیث -52)

*صحیح احادیث کی تفسیر صحیح احادیث سے*
قارئین کرام! آپ نے ان چھ صحیح احادیث کا مطالعہ کر لیا ہے۔ اب ان میں نجد مشرق سے کیا مراد ہے ؟ ہم یہ مراد بھی صحیح احادیث ہی سے واضح کرتے ہیں

حدیت ①
 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ، يَؤُمُّ الْعِرَاقَ : ” هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا ” ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ” مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ”

”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے : خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
(مسند احمد,143/2،ح:6302 صحيح)

حدیث ②
 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اللَّهمَّ بارِكْ لنا في مدينتِنا،وبارِكْ لنا في مكَّتِنا، وبارِكْ لنا في شامِنا، وبارِكْ لنا في يَمَنِنا،وبارِكْ لنا في صاعِنا ومُدِّنا، فقال رجُلٌ: يا رسولَ اللَّهِ، وفي عِراقِنا، فأعرَضَ عنه، فقال: فيه الزلزال والفتنُ، وبها يطلُعُ قَرْنُ الشَّيطانِ.

’’ یا اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو با برکت بنا دے، ہمارے لیے ہمارے مکہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے، ہمارے صاع (قریبا 2.099 کلوگرام کا پیمانہ) اور مد (قریبا 524.88 گرام کاپیمانہ) میں برکت دے۔ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے عراق کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف التفات نہ کرتے ہوئے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے بپا ہوں گے۔ وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
[مسند الشاميين للطبراني : 1276، المعرفة والتاريخ للحافظ يعقوب بن سفيان الفسوي : 747/2، 748،)
( المخلصيات : 196/2، ح : 1341،)
( حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 133/6،)
( تاريخ ابن عساكر : |131/1، و سندهٔ صحيح]
(شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج سير أعلام النبلاء ١٥/٢٨٧ • إسناده صحيح)
(الهيثمي (٨٠٧ هـ)، مجمع الزوائد ٣/٣٠٨ • رجاله ثقات •)

حدیت ③
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى صاعنا ومدّنا، فرددها ثلاث مرّات، فقال رجل : يا رسول الله ! ولعراقنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بها الزلازل والفتن، ومنها يطلع قرن الشيطان .
”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے صاع اور مد میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ ایک شخص نے کہا : ہمارے عراق کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
[المعجم الكبير للطبراني : 384/12، ح : 13422، المعرفة والتاريخ للفسوي : 747/2، مسند البزار : 5881، حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 133/6، و سندهٔ صحيح]

حدیث ④
 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
صلى النبى صلى الله عليه وسلّم صلاة الفجر، فأقبل على القوم، فقال : اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مدّنا وصاعنا، اللهم ! بارك لنا فى شأمنا ويمينا، فقال رجل : والعراق يا رسول الله ! فسك ثم قال : اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مدّنا وصاعنا، اللَّهُمُ ! بارك لنا فى حرمنا، وبارك لنا فى شأمنا ويمينا،فقال رجل : والعراق يا رسول الله ! قال : من ثم يطلع قرن الشيطان، وتهيج الفتن.

”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کی طرف رخ مبارک کیا اور فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے، ہمارے شام اور یمن کو بابرکت بنا۔ ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! عراق کے لیے بھی دعا کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے، اے اللہ! ہمارے حرم کو برکت والا بنا اور شام اور یمن کو بھی بابرکت بنا۔ ایک آدمی نے پھر کہا : اللہ کے رسول ! عراق کے لیے بھی دعا کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور فتنے رونما ہوں گے۔“
[المعجم الأوسط للطبراني : 4098،)
(فضائل الشأم و دمشق لأبي الحسن الربعي، ص : 11، ح : 20،)
(تاريخ الرقة لأبي على القشيري، ص : 95، ح : 145،)
(تاريخ دمشق لابن عساكر : 132/1، و سندهٔ حسن]

اس حدیث کے راویوں کے بارے میں :

 حافظ ہیثمی (735-807 ھ ) فرماتے ہے :رجاله ثقات . ”اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔“
[ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 305/3]

 اس کے راوی زیاد بن بیان کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) نے ”صدوق عابد“ قرار دیا ہے۔
[ تقريب التهذيب : 2057]

 اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673- 748ھ) فرماتے ہیں :
صدوق، قانِت . ”یہ سچا اور نیک شخص ہے۔“ [ الكاشف : 275/1، الرقم : 1687]

 امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے :
ليس به باس . ”اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [ ميزان الاعتدال للذهبي : 87/2، تهذيب التهذيب لابن حجر : 256/3]

 امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ”الثقات (247/8)“ میں ذکر کر کے فرمایا ہے :
كانَ شَيْخًاصَالحًا. ”یہ نیک شیخ تھا۔ ‘‘

 شیخ ابوملیح حسن بن عمر رقی نے ان کی تعریف کی ہے۔ [ التاريخ الكبير للبخاري : 346/3، و سندهٔ صحيح]

 علامہ ابن خلفون نے اسے اپنی کتاب ”الثقات“ میں ذکر کیا ہے۔
[إكمال تهذيب الكمال للمغلطائيي : 97/5]

ایسے راوی کی روایت ”حسن“ درجے سے کم نہیں ہوتی۔

حدیث ⑤
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى شأمنا، اللهم ! بارك لنا فى يمينا فقالھا مرارا، فلما كان فى الثالثة او الرابعة، قالوا: يا رسول الله! وفي عراقنا، قال ان بها الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان

”اے اللہ ! ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اللہ ! ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی مرتبہ فرمائی۔ جب تیسری یا چوتھی مرتبہ ہوئی تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ! ہمارے عراق کے لیے بھی دعا فرمایئے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عراق تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے۔ یہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
(المعجم الكبير للطبراني : 293/12، ح : 13422،)
( مسند البزار : 5880، و سندهٔ حسن]

حدیث ⑥
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَيَمَنِنَا “. مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ رَجُلٌ : وَفِي مَشْرِقِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مِنْ هُنَالِكَ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ، وَبِهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ “.
’’ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! ہمارے شام اور یمن میں خیر و برکت فرما۔ یہ دعا آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمائی۔ ایک نے عرض کی : اللہ کے رسول ! ہمارے مشرق کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور دنیا کا نوے فى صد شر وہیں پر ہے۔“
[مسند احمد حدیث-5642 و سندهٔ حسن]

اس کے راوی عبید اللہ بن میمون کے بارے میں :

 امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
معروف الحديث. ”اس کی حدیث معروف ہے۔“ [التاريخ الكبير : 388/3، ت : 1247]

امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صالح الحديث . ”اس کی حدیث حسن ہے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 322/5]

حدیت ⑦
نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یوں دعا فرمائی :
اللهم ! بارك لنا فى شامنا ويميننا، قال : قالوا : وفي نجدنا، فقال : قال : اللهم ؛ بارك لنا فى شامنا وفي يمين، قال : قالوا : وفي نجدنا، قال : قال : هناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان .

”اے اللہ ! : ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما۔ کچھ لوگوں نے کہا: ہمارے نجد کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا : اے اللہ ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما۔ لوگوں نے پھر کہا: ہمارے نجد کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ [صحيح البخاري : 141/1، ح : 1037]

صحیح بخاری کی ایک حدیث ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ الفاظ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں۔ اس روایت میں اگرچہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، لیکن یہ بھی حکماً مر فوع ہے۔ اس بارے میں :

 شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) لکھتے ہیں :
هكذا وقع فى هذه الروايات التى اتصلت لنا بصورة المؤقوف عن ابن عمر، قال : اللهم بارك . . .، لم يذكر النبى صلى الله عليه وسلم، وقال القابسي : سقط ذكر النبى صلى الله عليه وسلم من النسخة، ولا بد منه، لان مثلهٔ لايقال بالرأي

”جو روایات ہمارے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف صورت میں پہنچی ہیں، ان میں اسی طرح ہے کہ انہوں نے خود یہ دعا کی ہے، اس میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔ قابسی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر صحیح بخاری کے نسخے سے گر گیا ہے۔ یہاں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر ضروری ہے، کیونکہ ایسی بات کوئی صحابی اپنے قیاس سے نہیں کہہ سکتا۔“
[فتح الباري : 522/2]

حدیت ⑧
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے سالم رحمہ اللہ نے عراق والوں کو مخاطب کر کے فرمایا :
يا أهل العراق ! ما أسألكم عن الصغيرة وأركبكم للكبيرة ! سمعت أبى عبد الله بن عمر يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إن الفتنة تجيء من ههنا، وأؤما بيده نحو المشرق، من حيث يطلع قرنا الشيطان .

”عراق کے باشندو ! تعجب خیز بات ہے کہ ایک طرف تم چھوٹے چھوٹے مسائل بہت پوچھتے ہو اور دوسری طرف کی کبیرہ گناہوں کے ارتکاب میں اتنے دلیر ہو ! میں نے اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : فتنہ یہاں سے آئے گا اور یہیں سے شیطان کے سینگ طلوع ہوں گے، ساتھ ہی آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔“
[صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 50]

حدیت ⑨
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من بيت عائشة، فقال : رأس الكفر من ههنا، من حيث يطلع قرن الشيطان، يعني المشرق .
”اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے گھر سے نکلے تو فرمایا : مشرق کفر کا سرچشمہ ہے، وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
[صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 48]

حدیت ⑩
بدری صحابی سیدنا ابومسعود رضى اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
من ههنا جاءت الفتن، نخو المشرق .
”فتنے مشرق ہی کی طرف سے آئیں گے۔“
[صحيح البخاري : 496/1، ح : 3498]

یہ پوری دس دلیلیں ہیں،

*صحیح احادیث کی تفسیر اہل علم سے
لغوی طور پر ”نجد“ بلند علاقے کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا میں بہت سارے ”نجد“ ہیں لیکن مذکورہ احادیث میں ”نجد“ کی تشریح ”مشرق“ اور ”عراق“ سے ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ جو ”نجد“ فتنوں کی آماجگاہ ہے اور جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا، وہ مشرق کی سمت ہے اور اس سے مراد عراق ہی ہے۔ صحیح احادیث نبویہ پکار پکار کر یہی بتا رہی ہیں۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی خیال تھا*

اسی بارے میں :

 مشہور لغوی ابن منظور افریقی (630-711ھ) لکھتے ہیں :
ما ارتفع من تهامة إلى أرض العراق، فهو نجد .
”تہامہ کی حدود سے لے کر عراق تک جو بلند جگہ ہے، وہ نجد ہے۔
[ لسان العرب : 413/3 ]

 احادیث نبویہ کا لغوی حل کرنے والے مشہور لغوی ابن اثیر (544-606 ھ) لکھتے ہیں :
والنجد : ما ارتفع من الأرض، وهو اسم خاص لما دون الحجاز، مما يلي العراق .
”نجد بلند زمین کو کہتے ہیں۔ یہ حجاز کے باہر عراق سے ملحقہ علاقے کا خاص نام ہے۔“
[النهاية فى غريب الحديث والاثر : 19/5]

علامہ خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ) ’’ نجد“ کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، والغور ما انخفض منها، وتهامة كلّها من الغور، ومنها مكة، والفتنة تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدّجال، فى أكثر ما يروى من الأخبار.
”مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواح کا علاقہ ہے۔ یہ مدینہ والوں کے مشرق میں واقع ہے۔ نجد کا اصلی معنیٰ بلند زمین ہے۔ نشیبی علاقے کو غور کہتے ہیں۔ تہامہ کا سارا علاقہ غور ہے۔ مکہ بھی اسی غور میں واقع ہے۔ اکثر روایات کے مطابق فتنے کا ظہور مشرق سے ہو گا، اسی جانب سے یاجوج ماجوج نکلیں گے اور یہیں سے دجال رونما ہو گا۔“
[ إعلام الحديث للخطابي : 4/2 127- ط – المغربية ]

 امام اندلس حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ( 368 – 463ھ) لکھتے ہیں :
اشارة رسول الله صلى الله عليه وسلم – والله اعلم – الي ناحية المشرق بالفتنة لأن الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين، هي قتل عثمان بن عفان رضى الله عنه، وهى كانت سبب وقعة الجمل، وحروب صفين، كانت فى ناحية المشرقي، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق .

”واللہ اعلم ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔ یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔“
[ الاستذكار : 519/8 ]

علامہ ابوالحسن علی بن خلف عبدالملک العروف بہ ابن بطال (م : 449 ھ) لکھتے ہیں :
قال الخطابي : القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا یحمد من الأمور، كقوله صلى الله عليه وسلم فى الفتنة وطلوعها من ناحية المشرق : ومنه يطلع قرن الشيطان، وقال فى الشمس : إنها تطلع بين قرني الشيطان، والقرن : الأمة من الناس یحدثون بعد فناء آخرين، قال الشاعر : مضى القرن الذى أنت منهم . . . . وخلفت فى قرن فأنت غريب وقال غيره : كان أهل المشرق يؤمئذ أهل كفر، فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت الفتنة الكبرى التي كانت مفتاح فساد ذات البين، وهى مقتل عثمان رضى الله عنه، وكانت سبب وقعة الجمل وصفين، ثم ظهور الخوارج في ارض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق، ومعلوم أن البدع إنما ابتدأت من المشرق، وإن الذين اقتتلوا بالجمل وصفين، بينهم كثير من أهل الشام والحجاز، فإن الفتنة وقعت فى ناحية المشرق، وكان سببا إلى افتراق كلمة المسلمين، وفساد نيات كثير منهم إلى يؤم القيامة، وكان رسول الله يحذر من ذلك ويعلمه قبل وقوعه، وذلك دليل على نبوته.

حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تو رہ جائے تو اس وقت تو اجنبی ہے۔ ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا، وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا ! یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد، عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔ سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔ جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی، ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی، لہذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔ یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔“
[ شرح صحيح البخاري : 44/10 ]

 حافظ ابن الجوزی (508- 597 ھ) لکھتے ہیں :
أما تخصيص الفتن بالمشرق، فلان الدجال يخرج من تلك الناحية، وكذلك يأجوج ومأجوج، وأما ذكر قرن الشيطان، فعلى سبيل المثل، كأن إبليس يطلع رأسه بالفتن من تلك النواحي.

”مشرق کے ساتھ فتنوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اسی سمت سے ہو گا۔ رہی بات شیطان کے سینگ کی تو یہ بطور مثال ہے، گویا کہ شیطان فتنوں کی صورت میں اس سمت سے اپنا سر اٹھائے گا۔“
[ كشف المشكل على الصحيحين : 493/2 ]

 شارح بخاری، علامہ کرمانی ”نجد“ اور ’’ غور“ کا معنی واضع کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ومن كان بالمدينة الطيبة – صلى الله على ساكنها – كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، ولعل المراد من الزلازل والاضطرابات التى بين الناس من البلايا، ليناسب الفتن مع احتمال إرادة حقيقتها، قيل : إن أهل المشرق كانوا حينئذ أهل الكفر، فأخبر أن الفتنة تكون من ناحيتهم، كما أن وقعة الجمل وصفين وظهور الخوارج من أهل نجد والعراق وما والأها كانت من المشرق، وكذلك يكون خروج الدجال ويأجوج ومأجوج منها، وقيل : القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا يحمد من الأمور.

”مدینہ طیبہ کے باسیوں کا نجد، عراق اور اس کا نواحی علاقہ ہے۔ یہی اہل مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔ عراق میں زلزلوں اور فسادات سے مراد شاید وہ جنگیں ہیں جو لوگوں کے درمیان ہوئیں۔ یہی بات فتنوں کے حسب حال ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقی زلزلے مراد ہوں۔ ایک قول یہ ہے کہ اہل مشرق اس وقت کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اسی طرف سے کھڑے ہوں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ جنگ جمل اور صفین اور خوارج کے ظہور والے واقعات نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقے کے لوگوں کے سبب ہی پیش آئے۔ یہ تمام مشرقی علاقے ہیں۔ اسی طرح دجال اور یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی اسی علاقے سے ہو گا۔ اس حدیث میں مذکور سینگ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جانور کا سینگ بطور مثال قبیح امور کے لئے مستعمل ہے۔“
[ شرح الكرماني للبخاري : 168/24 ]

 شارح بخاری، علامہ عینی حنفی (762-859 ھ ) امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب باب قول النبى صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق کے تحت لکھتے ہیں :

مطابقته للترجمة فى قوله : ”وهناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان“، وأشار بقوله : ”هناك“ نجد، ونجد من المشرق، قال الخطابي : نجد من جهة المشرق، ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهل المدينة، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، وهو خلاف الغور، فإنه ما انخفض منها، وتهامة كلها من الغور، ومكة من تهامة اليمن، والفتن تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدجال، وقال كعب : بها الداء العضال، وهو الهلاك فى الدين، وقال المهلب : إنما ترك الدعاء لأهل المشرق، ليضعفوا عن الشر الذى هو موضوع فى جهتهم لاستيلاء الشيطان بالفتن.

”اس حدیث کی امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں زلزے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کہہ کر نجد کی طرف اشارہ فرمایا اور نجد مشرق ہی میں واقع ہے۔ فتنوں کا آغاز مشرق ہی سے ہوتا ہے۔ اسی طرف سے یاجوج و ماجوج اور دجال کا ظہور ہو گا۔ کعب کہتے ہیں : مشرق میں مہلک بیماری ہو گی اور وہ بیماری دین سے بیزاری ہے۔ مہلب کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لئے دعا اس لیے نہیں کی کہ وہ اس شر سے باز آ جائیں جو شیطان کے فتنوں کی صورت میں ان کی سمت میں موجود ہے۔“
[ عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري : 200/24 ]

 نیز لکھتے ہیں :
وإنما أشار إلى المشرق لأن أهله يؤمئذ كانوا أهل كفر، فأخبر أن الفئة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت، وهى وقعة الجمل ووقعة صفين، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما ورائها من المشرق، وكانت الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين قتل عثمان رضي الله تعالى عنه، وكان يحذر من ذلك ويعلم به قبل وقوعه، وذلك من دلالات نبوته .

”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ اس لیے فرمایا کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اس طرف سے سر اٹھائیں گے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ جنگ جمل و صفین اور خوارج کا ظہور نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقوں ہی میں ہوا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی صورت میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ بھی اسی سمت سے آیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں کے واقع ہونے سے قبل ہی اس سمت سے خبردار اور متنبہ فرماتے تھے۔ یہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔“
[ عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري : 199/24 ]

 شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرماتے ہیں :
وقال غيره : كان أهل المشرق يومئذ أهل كفر، فأخبر صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، فكان كما أخبر، وأول الفتن كان من قبل المشرق، فكان ذلك سببا للفرقة بين المسلمين، وذلك مما يحبه الشيطان ويفرح به، وكذلك البدع نشأت من تلك الجهة.
”علامہ خطابی کے علاوہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دے دی کہ فتنے اسی سمت سے پیدا ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے عین مطابق سب سے پہلا فتنہ جو مسلمانوں میں دائمی اختلاف و افتراق کا باعث بنا، وہ مشرق ہی سے نمودار ہوا۔ اختلاف کو شیطان پسند کرتا ہے اور اس پر بہت خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح بدعات نے بھی اسی علاقے میں پرورش پائی۔
“ [ فتح الباري : 47/13 ]

*تمام گمراہ اور ظالم فرقے، مثلاً رافضی، جہمی، قدریہ، وغیرہ مشرق کی پیداوار ہیں۔ تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ فتنہ دجال بھی یہیں سے ظاہر ہو گا*

 شارح ترمذی، علامہ محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م : 1353ھ) اس حدیث کے الفاظ يخرج قرن الشيطان کی شرح میں فرماتے ہیں :

يخرج قرن الشيطان، اي حزبه واهل وقته وزمانه واعوانه، ذكره السيوطي، وقيل : يحتمل أن يريد بالقرن قوة الشيطان، وما يستعين به على الإضلال.
”علامہ سیوطی کے بقول شیطان کے سینگ سے مراد اس کا گروہ، اس کا دور اور اس کے معاونین ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ سینگ سے مراد شیطان کی قوت اور اس کے گمراہ کن حربے ہیں۔ “
( تحفة الاحوذي : 381/4 )

 رأس الكفر نحو المشرق کا معنی بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م : 1014 ھ) لکھتے ہیں :
رأس الكفر، أى معظمه، ذكره السيوطي، والأظهر أن يقال : منشأة نحو المشرق.
”سیوطی نے ذکر کیا ہے کہ کفر کے سر سے مراد کفر کا بڑا حصہ ہے۔ زیادہ بہتر یہ معنی ہے کہ کفر کا سرچشمہ مشرق کی سمت ہے۔“ [ مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح 8626 4039/9 ]

 نیز لکھتے ہیں :
وقال النووي : المراد باختصاص المشرق به مزيد تسلط الشيطان على أهل المشرق، وكان ذلك فى عهده – صلى الله عليه وسلم – ويكون حين يخرج الدجال من المشرق، فإنه منشأ الفتن العظيمة ومثار الكفر.
”علامہ نووی فرماتے ہیں کہ فتنوں کو مشرق کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل مشرق پر شیطان کا غلبہ زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا تھا اور دجال بھی مشرق ہی سے نمودار ہو گا۔ یوں مشرق بڑے بڑے فتنوں کا منبع اور کفر کا سرچشمہ ہے۔“
[ مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح : 4037/9، ح : 6268 ]

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا :
هل ترون ما أرى ؟ قالوا : لا، قال : فإني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع القطر .
”جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں نظر آ رہا ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : نہیں اللہ کے رسول !، فرمایا : بلاشبہ میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کی طرح داخل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔“
[صحيح البخاري : 1046/2، ح : 7060 صحيح مسلم : 389/1، ح 389/1]

اس حدیث نبوی اور مذکورہ بالا احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے :

شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرما تے ہیں :
وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.
”اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ ( خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے ) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ “
[ فتح الباري : 13/13 ]

*لہذا احادیث نبویہ میں مذکور فتنوں کی آماجگاہ نجد سے مراد عراق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں واضح طور پر عراق کا نام موجود ہے۔ علمائے کرام اور فقہائے عظام کی تصریحات بھی یہی ہیں۔ حق وہی ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہو جائے۔ اس کے باوجود بعض لوگ ان صحیح احادیث کو چھپاتے ہوئے اہل حق پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے*

[ماخذ توحید ڈاٹ کام]

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!


 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Palestine: India ke waise Musalman aur Imam jo Gaza aur Palestine ke liye dua nahi karte lekin apne Favourite Player ke liye Quran ki tilawat jarur karte hai.

Musalmano ka ek bada tabka Jisme allim-E-Deen bhi shamil hai ne Cricket Match ko Hi Apna Deen samajh rakha hai.

जिन्होंने कभी अपने इंतकाल किये हुए बाप दादा के लिए दुवाएं नही की वह अपने पसंदीदा नेता, खिलाडी,अदाकार् , क्रिकेट टीम के लिए दुवाएं कर रहे है लेकिन फिलिस्तीन जहाँ 15000 से ज्यादा लोग शहीद हो गए उनके लिए दुआ करने का वक्त नही।

इजरायली सामान का बॉयकॉट के मुहिम मे शामिल होए और सिर्फ वक्ति तौर पर नही बल्कि हमेशा के लिए इस्राएल और उसके शैतानी कुव्वतो का बॉयकॉट करे, उनके बनाये खाने पीने के सामान के साथ साथ इलेक्ट्रॉनिक और टेक कंपनियों का बॉयकॉट करे, इस्राएल और उसके साथियो के माशीयत (economy) को ज्यादा से ज्यादा नुक्सान पहुचाने की कोशिश करे।

अभी और हमेशा के लिए इस्राएल और उसका साथी अमेरिका का खाने पीने से लेकर इलेक्ट्रॉनिक समान का जहाँ तक हो सके बॉयकॉट करे, रोज़मर्रा के सामानों मे बहुत सारे इस्राएल और अमेरिका का प्रोडक्ट खरीदते है उनकी पहचान करके उसका बॉयकॉट करे।
जैसे सर्फ एक्सेल, एरियल सरफ कपड़े साफ करने के लिए
पीने के लिए पेप्सी, कोकाकोला, KFC, थम्स अप, वगैरह
इन समानो को खरीदना बन्द करे, अगर फिलिस्तीन के लिए कुछ करना चाहते है तो।

दिल्ली मे जमीअत उलमा ए हिंद
जमात इस्लामी हिंद, उलमा ए अहले हदीस
आल इंडिया उलामा एंड माशाएख बोर्ड ( बरैली ) सब का हेड ऑफिस है। कहाँ गाएब हो जाते है ये इदारा वाले, आजतक ज़मीन पर उतर कर काम करते हुए इनसब को नही देखा गया, सिर्फ जलसे मे, खुतबे मे और सालाना इजलास् मे ये चेहरे नज़र आते है। अगर ये अरसद मदनी और महमूद मदनी फिलिस्तीन मे होते तो वहाँ इस्राएल को सही साबित करते और फिलिस्तिनियो को ग़ज़ा छोड़ने के लिए कहते, नेतन्याहु से बड़ा इनाम पाने मे इस तरह वे कामयाब हो जाते।
फलस्तीन पर कोई प्रोग्राम इनके बैनर से देखा है।
आम मुसलमानो को हालात से रुबरू कराने की ज़िम्मेदारी किसकी है ?

इन तंजीमो का क्या काम है?

यूरोप मे गिरफ़्तरिया हो रही है जो इजरायली आतंक के खिलाफ इंसानियत के साथ खड़े है, अरब देशो मे जिसकी नाम आने पर मुसलमान झूम उठते है वहाँ फिलिस्तीन के समर्थन मे नारे लगाने वाले या इजरायली आतंक को दिखाने वाले को हिरासत मे लिया जा रहा है, वहाँ इमाम को खुतबे मे इस पर बोलने की पाबंदी है। वहाँ वही कुछ हो रहा है जो अमेरिका चाहता है और इमाम या उलेमा वही बातें कर रहे है जो सलेबी कठपुतली बादशाह लिख कर दे रहा है। दिल्ली मे भी इमाम को फिलिस्तीन का नाम लेकर दुआ करने पर पुलिस के तरफ से रोक लगा दिया गया है। लेकिन इस्राएल के समर्थन मे रैलिया निकाल सकते है।

अरब हुकमराँ मस्ज़िद ए अक्सा का मामला सिर्फ फिलिस्तिनियो की ज़िम्मेदारी समझते है और दुनिया का मुसलमान इसे अरबो का मामला। जब तक इसे उम्मत ए मुहम्मदिया का मसला नही समझा जायेगा तब तक फिलिस्तीन आज़ाद नही होगा।

खिलाफत से बादशाहत और बादशाहत से जम्हूरियत मे कैसे तब्दील हुई?

क्रिकेट मैच या कोई भी खेल मे जितने के बाद प्लेग्राउंड या कही भी शुक्राने की नमाज़ पढ़ना कैसा है?

अरबी - सलेबी और यहूदि - सऊदी भाई भाई कैसे बने?

मुसलमानो का आज रहनुमा कैसे कैसे बेगैरत बने हुए है?

#फिलिस्तीन मुसलमान और मुस्लिम हुकमराँ।

शराब् को ड्रिंक, जीना को डेट, सूद को इंट्रेस्ट, बे पर्दगी को फैशन, नँगापन को आज़ादी, बेहयाई फ़हाशि को आज़ाद ख्याल, खुदगर्ज़ी को सियासत, बेईमानी, रिश्वतखोरी और चोरी को "पैसे कमाने का ट्रिक" जैसे नाम देकर आज हम सब अक़लमंद कहलाते है। इसी वज़ह से आज मुसलमान हर जगह जलील व रुस्वा हो रहा है।

ग़म-ए किर्केट है हम हिन्दी मुसलमानों को
दीनी अहकाम की हम फ़िक्र नहीं करते हैं।

जुम्मन् किस्म के मुसलमान मैच के दीवाने है, अपनी फेवरिट टीम के जितने के लिए मन्नतें भी मांगते है, दुवाएं करते है, सोशल मीडिया पर उसके समर्थन मे स्टेट्स भी लगाते है लेकिन दूसरी तरफ फिलिस्तीन के समर्थन मे इस्राएल के कंपनिया और समानो का भी बॉयकॉट करते है, उन्ही समानो का प्रचार करने के लिए यह खिलाडी कंपनियों से अरबो डॉलर कंट्रैट करते है और यह अब्दुल उन ब्रांड का इंप्रेसन भी बढ़ाते है। इनमे से कितने खिलाड़ी, आदकार  जिनके फिल्मो को मुसलमान समझ कर देखने जाते है, इन्होंने फिलिस्तीन को ईमदाद किया है? ईमदाद तो दूर की बात है यह उनके प्रोडक्ट का प्रचार कर रहे है।  जो अब्दुल अपने किसी फौत हुए शख्स के लिए कभी दुवाएं नही की होगी वह खिलरियो के लिए, सेलेब्रेटी के कामयाबी के लिए दुआ करते है और मन्नते मांगते है।

ईरान की खोखली धमकिया
तुर्किये का ब्यानबाजी
पाकिस्तान के मिली तराने
अरब के मुजरे और निंदा एक्स्प्रेस
आल ए सउद् के डरामे

फिलिस्तीन के लोगो को नही बचा सकते है, सारी दुनिया अरबो के तरफ देख रही है और अरब तवाएफो के तरफ देख रहे है, बर्रे सगीर के मुसलमान और नाम निहाद इमाम व उलेमा को फिलिस्तीन के साथ खड़ा होना चाहिए लेकिन वह सऊदी अरब के साथ खड़े है, अरबो को जस्तीफ़ाय करने मे,  जलसे व इजलास मे पैसे लेकर बोलने वाले मौलानाओ व मुहल्ले के इमामो को फिलिस्तीन के डिफा मे खड़ा होना चाहिए था लेकिन यह सऊदी हुकमराँ के डिफा मे खड़े है।

ग़ज़ा की जंग से कुछ चिजे साबित हुई, जिस के लिए पहले लोगो को यकीन दिलाने पर वह खुद को मॉडर्न कह कर पश्चिम का गुलाम बनने मे फ़ख़्र महसूस करते थे।
पश्चिम और ईसाइयों का मनवाधिकार, लोकतंत्र,आज़ादी, बराबरी का नारा सिर्फ ढोंग है। कुत्तो और बिल्लियो को प्यार करने वालो ने हज़ारो इंसानी बच्चो और औरतो को टुकड़े टुकड़े कर दिया। यह सब पर वह खुश है बल्कि ओबामा का सलाहकर कह रहा है के यह तादाद बहुत कम है,
दूसरा यह के संयुक्त राष्ट्र नाम की संस्था बड़ी ताकतो की लौंडी है, यह संस्था हमेशा बड़ी ताकतो के सवॉर्थो  की रक्षा के लिए काम करता है, यह एक गैरजरूरी और नाकाम एदारा है।

इंसानियत का ताल्लुक मजहब से नही
और इस्राएल का ताल्लुक़ इंसानियत से नही।

इस बात पर मुहर लग गयी के इंसानी हुकुक, आलमी अदालत, अक्वामी मुताहेदा की सारी तंजीमे यहूद ओ नसारा के हुकुक के लिए बनाई गयी है।

ऐ फिलिस्तीन के शहीद बच्चो हमे माफ करना, हम उस बेगैरत दौड़ मे पैदा हुए है के जिस की हुकमराँ फिरंगियों के गुलाम है, सिर्फ सलेबियो के लिए फौज भेजती है लड़ने के लिए, ऐ ग़ज़ा के बच्चो हमारी शिकायत न करना।

ऐ अल्लाह हमारे पास फिलिस्तीन और मस्जिद ए अक्सा के लिए दुआ के सिवा कोई रास्ता नही, ऐ अल्लाह हमारी दुआ को रद्द न करना, हमे मायूस न करना तु रहमान है, रहीम है। ऐ अल्लाह जो फिलिस्तीन के लिए महाज पर खड़े है दुश्मनो के सामने उनको फतह अता कर, मुजाहिदीन की हीफाजत कर, उनकी गैब् से मदद फरमा, मुज़हिदीन को सलामती के साथ उनको अपने घरों और मस्जिदो मे लौटा  दे। ऐ अल्लाह जिन्होंने ग्ज़ा के लोगो पर, घरों पर, मस्जिदो पर बॉम्ब गिराया, मस्ज़िदों को शहीद किया उसे तबाह कर दे, जिसने भी उसकी मदद की उसका नाम ओ निशाँ मिटा दे। फिलिस्तिनियो का क़त्ल ए आम करने वाले को इबरत नाक सज़ा दे। ऐ अल्लाह फिलिस्तिनि लोगो, उनके घरों और मस्जिदो को महफूज़ रख। आमीन

Share:

Palestine: Arab Summit me Palestinian ke Liye laye Bill par Char Arab Mulko ne Vote nahi kiya.

Jaise Jaise Israel Palestinian par Bombari Speed kar raha hai waise waise Arab Condomention ki speed bhi badh rahi hai.

Aaj Tak OIC, Arab League jaise Orgnization ne Musalmano ki hifajat ke liye kya kiya hai?
Wah 4 Arab State jinhone Mir Zafar, Mir Sadiq ka Kirdar ada kiya hai?
अरबी सलेबी भाई भाई, यहूदि सऊदी भाई भाई
उस्मानिया समराज्य के खिलाफ अरबो ने कैसे गद्दारी की थी?
फिलिस्तीन और आज का मुसलमान, अरब हुकमराँ।

हमसब ने किताबो मे पढ़ा है, जब रोम जल रहा था तब उसके सहयोगियों ने बांसुरी बजाई थी।


आज आँखो से देखा।
फिलिस्तीन और ग़ज़ा के लोगो को खून मे नहलाया जा रहा था तब पड़ोसी सऊदी अरब मे मुजरे का मजा लिया जा रहा था, शकीरा के साथ ठुमके लगा रहे थे । इस्लाम अमल की बुनियाद पर किसी को नेक और बद कहता है नाकि नस्ल के बुनियाद पर। इस्लाम ने कुरान ओ सुन्नत पर चलने को कहा है नाकि अरबो की पैरवी और हिमायत करने का, जिससे कोई सच्चा मुसलमान हो जायेगा।

पढ़ता हूँ तो पूछती है यह खालिक की किताब

बे मिशल यहूदि, यह सऊदी भी अज़ाब, 

इस क़ौम के बारे मे क्या लिखू फराज़ 

काबे की कमाई से जो पीती है शराब्।

आज यह सच साबित होता नज़र आरहा है, बाकी अरब भक्त मुसलमान अरब हुक्मरानो के दरबारी शायर बने हुए है, की दरबारी इमाम स्क्रिप्टेड खुतबा दे रहा है, कोई उसकी तारीफ मे कसीदे पढ़ रहा है, कोई उसके नाच गाने और ठुमके लगाने को जाएज़ साबित करने मे लगा है, कोई तुर्किये से मुकाबला करके अरब को जस्टिफ़ाय कर रहा है वगैरह। 

अरब देशो का संगठन अरब लीग का बैठक सऊदी अरब के रियाद मे चल रहा है। इसके बाद सऊदी के दबदबा वाला संगठन OIC (Orgnization of Islamic Co Opration) का बैठक भी रियाद मे 11 नोवम्बर से होने वाला है। OIC को कुछ लोग orgnization ऑफ इस्राएल को ऑपरेशन भी कहते है। क्योंके यह सऊदी अरब के दबाओ वाला संगठन है जिसमे दुनिया भर के 57 मुस्लिम देश शामिल है। आजतक OIC ने मुसलमानो के लिए कुछ खास नही किया सिवाए निंदा के। OIC दुनिया भर के मुसलमानो पर हो रहे ज़ुल्म पर सिर्फ निंदा किया है, और उसके अहम देश सऊदी अरब और UAE ने उन देशो से गहरी दोस्ती की है जिन्होंने मुसलमानो पर सब से ज्यादा ज़ुल्म किया है, OIC ने जिसकी निंदा की है।

अरब लीग के बैठक मे तमाम अरब मुमालिक ने अपनी अपनी राय रखी, और 8 ओक्टोबर् से इस्राएल जो कुछ भी कर रहा है वह सबकी निंदा की है जो शुरुआती दिनों से ही करते आये है।
अरब देश दुनिया भर के मुसलमानो का नुमाइंदा होने का दावा करते है लेकिन 1948 से फिलिस्तीन के ज़मीन को कब्ज़ा करके इस्राएल बैठा हुआ है और फिलिस्तिनियो को मार कर भगा रहा है उसको आज़ाद नही करा सके, इसके उलट अरबो ने इस्राएल से दोस्ती कर ली और अमेरिका के कहने पर इस्राएल से बिजनेस शुरू कर दी। ये वह समझौते है इस्राएल के साथ जिसे जरिये इनकी दोस्ती बढ़ रही है, जैसे जैसे इनकी यहूदियों से दोस्ती बढ़ रही है वैसे वैसे इस्राएल का फिलिस्तीन पर बॉम्बारि भी बढ़ रहा है। अब तक 12500 से ज्यादा लोगो का क़त्ल कर चुका है।

अब्राहम एकार्ड्स
I2 U2  -  जिसका मतलब होता है (इंडिया इस्राएल - यूनाइटेड स्टेट ऑफ अमेरिका,  युनिटेड अरब एमिरात)।
तीसरा समझौता है "इंडिया मिडिल ईस्ट यूरोप कॉरिडोर"
इन सब के जरिये अमेरिका अरबो पर इस्राएल को तसलिम करने का दबाओ बना रहा है, दूसरी तरह UAE और सऊदी अरब गरीब मुस्लिम देशों पर अमेरिका के हुक्म को मानते हुए धमका रहा है इस्राएल से दोस्ती बढ़ाने के लिए।

अरब लीग मे एक प्रस्ताव रखा गया जिसके तहत 5 शर्त रखा गया लागू करने के लिए। जिसके पक्ष मे 11 अरब देश वोट किया और 4 अरब देश खारिज कर दिया।

1. अरब देश अपना मिलिट्री बेस अमेरिका और उसके सहयोगियों के इस्तेमाल पर पाबंदी लगाए। जिसके जरिये इस्राएल को हथियार और गोला बारूद भेजा जा रहा है।

2. अरब देश इस्राएल से राजनयिक, आर्थिक, सामरिक और सैन्य रिश्ते खतम करे।

3.तेल भेजना बंद करे और अपने सलाहियात् के मुताबिक जंग बंद करने का दबाओ डाले।

4. इस्राएल के नागरिक विमानो के लिए अरब देश वायुमार्ग बंद करे।

5. एक अरब मंत्रियों के समिति का गठन करे जो फ़ौरन न्यूयॉर्क, वॉशिंगटन, जेनेवा, लंदन, पेरिस और ब्रुसेल्स जाए, और अरब समिट  वहाँ जंग बंद करने के लिए और ग़ज़ा का नरसंहार बंद करने के लिए दबाओ डाले।
इस प्रस्ताव का 11 देशो ने समर्थन किया जबकि 4 देश प्रस्ताव के खिलाफ थे। इन चार देशो का नाम ज़ाहिर नही किया गया है जबकि समर्थन करने वाले देशों का नाम बताया गया है।

इस प्रस्ताव पर 11 देशो ने वोट किया
फिलिस्तीन
सीरिया
अल्जीरिया
टूनिशिया
इराक
लेबनान
कुवैत
क़तर
ओमान
लीबिया
यमन

इससे यह साफ ज़ाहिर होता है के ये अरब लीग या OIC से कुछ नही होने वाला है मुसलमानो का, सिर्फ अपनी मनमानी के लिए अरबो ने यह संगठन बनाया है जिसे जरिये अपना प्रभाव का इस्तेमाल बाकी कमज़ोर देशों करे और उस अपना गुलाम बनाकर रखे।
इस के खिलाफ वोट करने वाले का नाम भले ही नही दिया गया हो लेकिन सियासत के महिरीन को मालूम है के वह कौन चार अरब देश है।
सऊदी इसमे जरूर शामिल होगा, UAE भी इसमे अपना कोर्दुग्लू का किरदार अदा कर रहा है, बाकी मिस्र और जोर्डन पर तो इस्राएल का बैठाया हुआ अपना मुखबिर हुकमराँ है ही।

सऊदी सिर्फ कमज़ोर मुस्लिम देशो पर अपना सिक्का चलाता है जबकि फिलिस्तीन के लिए आजतक कुछ कर नही सका सिर्फ निंदा के।
सऊदी पहले ही कह चुका है के वह तेल को हथियार के रूप मे इस्तेमाल नही करेगा। वह अपने यहाँ मस्ज़िद के इमाम को भी अपने हिसाब से चलाता है, ताकी अवाम बादशाह के खिलाफ आवाज़ न उठाय। खाना ए काबा के इमाम अल सदैश् कहते है "फिलिस्तीन का मसला एक फितना है, इसमे मुसलमानो को शामिल नही होना चाहिए"। वहाँ उलेमा को मस्ज़िद मे खुतबा देने से पहले का बोलना है वह लिख कर दिया जाता है, जिस तरह सारी दुनिया मे फिलिस्तीन के लिए दुवायें हो रही है और इमाम मेम्बर से लोगो को मस्जिद ए अकसा की अहमियत, फिलिस्तिनियो की आज़ादी, ग़ज़ा के लोगो के उपर हो रहे ज़ुल्म को बता रहे है वैसा वहाँ कुछ भी नही है। वहाँ के दरबारी इमाम स्क्रिप्टेड खुतबा देकर अवाम को अंधेरे मे रख रहे है ताकि अवाम हालात ए हाज़रा से रूबरू हो गयी तो हुकूमत के खिलाफ बगावत शुरू हो सकता है या बादशाह को अमेरिका और इस्राएल की मदद करना बंद करना होगा।
सऊदी अमेरिका का कठपुतली है जो इस्राएल को फिलिस्तिनियो के खिलाफ मदद कर रहा है।

UAE उन चार देश में शामिल जिसने 2020 मे इस्राएल को मान्यता दिया था। इसने ग़ज़ा के नरसंहार पर इस्राएल का साथ दिया और वाज़ेह कर दिया के हम इस्राएल से अपना बिजनेस खतम नही करेंगे, उससे संबंध नही तोड़ेंगे।

मिस्र के सदर अल सीसी का तो पता ही होगा के वह अमेरिका का कठपुतली है, जिसने लोगो की चुनी हुई सरकार का तख्तापलट करके उस फांसी की सज़ा देकर खुद तख्त पर काबिज है। फतह अल सीसी ये सब मोसाद और CIA की मदद से किया था।

जोर्डन का किंग इस्राएल का बैठाया हुआ अपना एजेंट है,। इस्राएल को अज़रबैजान तेल भेज रहा है, अमेरिका और दूसरे ईसाई देश हथियार भेज रहा है वह सब जोर्डन के बंदरगाह से होते हुए जा रहा है।
यमन, इराक,शाम और ईरान के खिलाफ रहने वाला सऊदी अरब अमेरिका के इशारे पर काम करता है, आज इन्ही मुल्को ने फिलिस्तीन के समर्थन के लिए अरब लीग मे वोट किया।

खबर आई है के अरब इस्लामिक समिट मे सऊदी अरब, UAE, मोरोक्को, बहरीन ने इस ड्राफ्ट के खिलाफ वोट किया, यानी वह तेल और ऐरस्पेस ये सब अमेरिका इस्राएल के इस्तेमाल के लिए जारी रखेगा सिर्फ जुबानी जंग करेगा, ये नही होना चाहिए, वह नही होना चाहिए, ऐसे करेंगे वैसे करेंगे वगैरह वगैरह। लेकिन अमली तौर पर इस्राएल के साथ खड़े रहेंगे। 

फिलिस्तीन के तरफ से एक शेर इन छुपे दुश्मनो के लिए

बेनकाब उन की ज़फाओ को किया है मैंने

वक़्त के हाथ मे आईना दिया है मैंने

फिल्हाल अरब मुल्को मे अभी कैसा माहौल है?
पाकिस्तान के सेनेटर मुस्ताक अहमद क़तर और मिस्र गए थे हमास के नेताओ से मिलने।

उन्होंने वहाँ क्या कुछ देखा वह बताते है।

"आलम ए अरब मे अवाम को अपने डेंटिस्ट के अलावा कही और मूंह खोलने की इजाज़त नही। अमेरिकी गुलाम बादशाहो ने अवाम को बदतरीन गुलाम बनाया हुआ है। मैंने मिस्र मे दो हफ्ते गुजारा है, काहिरा मे जुमे के दिन किसी भी मस्ज़िद मे फिलिस्तीन या मस्जिद ए अकसा का ज़िक्र नही हुआ, कही भी जलसे जुलूस नही हुए, किसी भी मस्ज़िद मे फिलिस्तिनियो के लिए दुवायें नही हुई, वहाँ उलेमा के तरफ से इसपर कोई बहस नही हो रहा है, न अवाम को कुछ बताया जा रहा है। वहाँ मस्जिद के इमाम को इसपर बोलने की इजाज़त नही, मुजाहिरा करने पर पाबंदी है। वहाँ हर जुमे के दिन बड़ी मस्जिदो मे नमाज से पहले पुलिस गड़ियां, जेल गाड़ियां, शेलिंग, लाठी चार्ज की जाती थी। पुलिस दस्तो की तैनाती हमेशा रहती थी। मिसरी सदर फतह अल सीसी ने हमास के रॉकेटो से बचने के लिए इजरायली प्रधान मंत्री और फिलिस्तिनियो का क़ातिल नेतन्याहु को दो जहाज़ भेज दिया हमास के रॉकेटो का आग बुझाने के लिए।"

UAE ने इस्राएल के लिए राहत समाग्रि का पांच जहाज़ भेजा, वही इस्राएल के मंत्री बोल रहा है के हमे फिलिस्तिनियो के जाने की की परवाह नही।
अमेरिकी सदर बोलते है के "इजरायली लोगो की जान फिलिस्तिनियो से ज्यादा अहम है"
यहूदि आलिम ने कहा के "इजरायली फौज (IDF) को इजरायली औरतों को छोड़कर बाकी सारे फिलिस्तिनि औरतों का रेप करना चाहिए"
अमेरिकी विदेश मंत्री (एंटोनी ब्लिंकेन्) इस्राएल जाकर कहता है "मै यहाँ अमेरिकी विदेश मंत्री की हैसियत से नही बल्कि एक यहूदि होने की हैसियत से आया हू"

इस्राएल ने हॉस्पिटल पर बॉम्बारि के 12500 से ज्यादा लोगो को मारा, कहाँ है वह जो मुसलमानो का नेता बनने को तैयार रहता है?
किधर है वह सुन्नी मुसलमानो का रहनुमा ?
किधर है वह OIC का हेड जो अपनी मन मर्ज़ी से दूसरे मुस्लिम मुमालिक को अलग थलग करने मे लगा रहता है।
कहाँ है वह 40 देश के आर्मी चीप  जो UN के कहने पर शांति सेना भेजता है?
कही ये OIC (Orgnization of Israel Co -Opration) तो नही .
किधर है वह अरब मुमालिक जो अमेरिका की चाकरी करने और मुखबिरी करने मे लगा रहता है, उसका दोस्त अमेरिका और ब्रिटेन किधर है? जिसने उस्मानिया सलतनत से आज़ादी के लिए अंग्रेजो का साथ दिया था?

Share:

Palestine: Aaj Salebi Aur Sahyuni Musalmano ke Khilaf Maidan-E-Jung me khade hai lekin Musalman Soye hue hai. Musalmano ne kaise Palestinian ko dhoka diya?

Musalmano ke Khilaf Salebi aur Sahyuni Ek sath Jung me.

America Ise Islam ke khilaf "Holy War" Samajhta hai, Pura Yahudi o Nasrani ek sath Musalmano ke khilaf Maidan-E-Jung me Khada hai lekin Arab ise Sirf Palestine ka masla aur Musalman ise Arab aur Gza ka Masla Samajh rahe hai.

ऐ ईमान वालो तुम यहूदियों और नासराणियो को यार व मददगार न बनाओ, ये दोनो खुद ही एकदूसरे के यार ओ मदद गार है। और तुम मे से जो शख्स उनकी दोस्ती का दम भरेगा तो फिर वह उन्ही मे से होगा। यकिनन अल्लाह जालिम लोगो को हिदायत नही देता।

शहादत है मत़लूब मक़सूद मोमिन
ना माले ग़नीमत ना किश्वर कुशाई।

जब उम्मत ए मुस्लेमा जिहाद से गाफ़िल् हो गयी तो सलेबी व सह्युनि मुसलमानो पर हाकिम बन गए, दुनिया की सारी क़ौमे मुसलमानो के खिलाफ इकट्ठा होने लगी, उनकी हालत शेरो जैसी होने लगी और
मुसलमानो की हालत बिल्कुल लौंडियो जैसी हो गयी।

अगर आप फिलिस्तीन की आज़ादी चाहते है और इजरायली सामान खरीद कर इस्तेमाल भी करते है तो समझ जाए के आप फिलिस्तिनियो का खून बहाने, मस्जिदो पर बॉमबारी करने की फंडिंग कर रहे है। साथ साथ आप झूठ भी बोल रहे है के मै क़ीबला ए अव्वल की हीफाज़त चाहता हूँ। जितना यहूद ओ नसारा और अरबो का फिलिस्तिनियो के खून से हाथ रंगे है उतना ही आप भी शामिल है इसमे।

पढ़ता हूँ तो पूछती है यह खालिक की किताब
बे मिशल यहूदि, यह सऊदी भी अज़ाब,

इस क़ौम के बारे मे क्या लिखू फराज़
काबे की कमाई से जो पीती है शराब्।

आज मुसलमानो और इस्लाम के खिलाफ सलेबी सह्युनि दोनो मैदान ए जंग मे तौनात् है लेकिन मुसलमानो को मस्ज़िद अकसा सिर्फ फिलिस्तीन का मसला दिखाई देता है, अरब इसे सिर्फ ग़ज़ा का मामला समझते है। सह्युनि और सलेबी समझ गए लेकिन मुसलमान नही समझे क्योंके दरबारी मौलवियो, स्क्रिप्टेड इमामो, मुशायरा कव्वाली गाने वाले को अपना रहबर बनाये हुए है।

अरबो के खज़ाने की चाबी सलेबियो के पास है.

अरब बादशाहो का क़ीबला ए अव्वल वाइट हाउस है।

मुसलमानो का नेता और OIC का हेड सऊदी अरब की सियासी सफर, जब उसने मुसलमानो के साथ गद्दारी की।

फिलिस्तीन और मुस्लिम हुकमराँ व अवाम।

अरबी सलेबी भाई भाई - यहूदि सऊदी भाई भाई।

अरब मे खिलाफत किसने खत्म किया और इक़तदार के लिए मुसलमानो के साथ गद्दारी की?

मस्जिद ए अकसा की आज़ादी और जिहाद का वक़्त।

मस्ज़िद ए अकसा सिर्फ फिलिस्तीन का नही बल्कि आलम ए इस्लाम का मामला है जिसके लिए सह्युनि और सलेबी एक साथ खड़े है।

ईसाई फिलिस्तिनियो के नरसंहार को "हॉली वार" कह रहे है और सह्युनियो को हथियार, सियासी,माली मदद कर रहे है। 

जितनी रफ्तार से फिलिस्तीन मे दवा और राहत समाग्रि नही पहुँच रही है उससे कही दस गुना रफ्तार से IDF को हथियार पहुँच रहे है, सऊदी यमन के तरफ से, अमेरिका अरब खाडी के तरफ से,जोर्डन इराक किं तरफ से इस्राएल की सुरक्षा की ज़िम्मेदारी संभाल रहा है। मुसलमानो ने फिलिस्तिनियो को अकेला छोड़कर उन्हे धोका दिया है, फिलिस्तिनियो के साथ गद्दारी किया है।

अमेरिकी  सदर जोसेफ बाइडेन ने तमाम मुस्लिम मुमालिक, मुस्लिम संगठन, जंग बंदी, फिलिस्तिनियो के अधिकार, UN और सारी दुनिया को चैलेंज किया है?

उसने एलान किया है के येरुसलम् फिलिस्तीन से छीन लिया जाए, और इसे इस्राएल को दे दिया जाए। क्योंके यह इलाका यहूदियों का है और अमेरिका ईसाई देश है। आज आलम ए इस्लाम और उम्मत ए मुस्लेमा के खिलाफ ईसाई यहूदियों के साथ खड़े है। क्योंके यह दोनो इस्लाम विरोधी है। यह हमेशा मुसलमानो के खिलाफ थे और रहेंगे, बस ज़हिरी तौर पर खुद को सेकुलर का ढोंग करके दुनिया को इंसानियत पर सबक सिखाते है।

  अमेरिका और पूरी ईसाई दुनिया का कहना है के हम इस्राएल के साथ उसके मिसाइल हथियार और ग़ज़ा व फिलिस्तीन को खत्म करने के लिए 30 बिलियन डॉलर की मदद, हथियार, राजनीतिक कुत्नीतिज्य और सामरिक मदद के साथ खड़े है।

उसने इसे इस्लाम और मुसलमानो के खिलाफ क्रुशेड् और होली वार का नाम दिया है। यहूदि आलिम ने कहा है "इजरायली फ़ौजों को इस्राएल औरतो को छोड़कर फिलिस्तिनि व मुसलमान औरतों का बलताकार और रेप करना चाहिए।"
जैसा के अमेरिकन, ब्रिटिश, रोमन, बिज़ान्टीन सम्राज्य करते आया है, वह उसी परंपरा को दोहरा रहा है।

  मगर अरब हुकमराँ इसे सिर्फ ग़ज़ा का मसला समझकर नाच गाने मे लगे है, अरबो ने उस्मानिया सलतंत्  के खिलाफ अंग्रेजो से मिलकर गद्दारी की, वही अंग्रेज़ उस्मानिया सलतनत के ज़मीन पर फिलिस्तिनियो को भगाकर यहूदियों को बसा दिया और इस्राएल नाम का नजाएज़ देश बनाया। जो 1948 से अरबो का क़त्ल ए आम  कर रहा है। अरब हुकामराँ और इस्राएल मे समानता यही है। दोनो को ब्रिटिश ने बनाया। ब्रिटिश से पहले इस्राएल नाम का कोई देश नही था बल्कि वह फिलिस्तीन था जो उस्मानिया समराज्य का हिस्सा था और अरब भी। इस्राएल को पैदा किया ब्रिटेन ने और बड़ा किया अमेरिका ने। अरब और इस्राएल दोनो अमेरिका का वफादार दोस्त है। मगर अरबो के ज़मीन पर बसा इस्राएल हमेशा फिलिस्तिनियो का क़त्ल ए आम करता है तो अरब खामोश रहते है और अमेरिका इस्राएल का हर तरह से। मदद करता है।
अरबो ने इस्राएल को तसलिम किया और दूसरे मुस्लिम मुमालिक पर भी दबाओ डाल रहा है के तुमसब् भी इस्राएल के साथ मिल जो और अब्राहम एकार्ड्स अपना लो।

ऐ मुसलमानो जो अपने दिन, अपने भाईयो और अपने मुकद्दस मकामात् से हकीकी मुहब्बत और फिकर करता है। जो वाक़ई अक्सा मस्ज़िद और फिलिस्तीन की आज़ादी चाहता है।

इस्राएल की हिमायत करना और अमेरिका की पॉलिसियो का प्रचार करना बंद करे।
हमसब से क़यामत के दिन यह सवाल किया जायेगा और हमसे हिसाब लिया जायेगा।

 ईसाई कंपनी,हुकूमत, देश, नेता, मंत्री, मीडिया, रिपोर्टर, एक्टर, सब के सब इस्राएल को फंडिंग कर रहे है फिलिस्तिनियो का खून बहाने के लिए। अगर आप भी इन नेताओ और कंपनियों के सामान खरीद कर खाते है तो समझिये आप सब अपने फिलिस्तिनि भाई का खून पी रहे है।

स्टारबक्स कॉफि कंपनी के सदर ने कहा के वह अरब आज़ादी पसंदो को मारने के लिए इस्राएल को पहले से अब दोगुना मदद करेगा। वह इस्राएल को सालाना 2 बिलियन डॉलर अदा करने के लिए जाना जाता है स्टारबक्स के मुनाफे से।

फिलिप मोर्स कंपनी ( मार्लबोरो सिग्रेट की प्रोड्यूसर) रोजाना इस्राएल को मदद करती है। इसका मुनाफा का 12% इस्राएल को जाता है।

  पूरी मुस्लिम दुनिया मे सिग्रेट नोशी करने वाले ग़ज़ा के लोगो को, मस्ज़िदों को, अस्पतालो को बॉम्ब से तबाह करने मे इस्राएल की मदद करते है।
100 मिलियन डॉलर की क़ीमत के साथ थांबको नोशी करने वाले।

 मुसलमान रोज़ इस्राएल को 12 मिलियन डॉलर की मदद कर रहे है फिलिस्तिनियो के क़त्ल ए आम मे, मस्ज़िदों को बॉम्ब से उडाने मे, अस्पतालो मे मरीजों को मारने मे, एंबुलेंस, रेफूजी कैंपस पर मिसाइल मारने मे।

एक F16 विमान की क़ीमत है 50 मिलियन डॉलर। जिसका मतलब है के मुसलमान हर चार दिन मे एक जंगी जहाज़ की क़ीमत अदा कर रहा है इस्राएल को जिससे वह अस्पतालो और मस्ज़िदों पर बॉम्ब की बारिश किये हुए है।

बदक़िस्मती से... वह मुसलमानो पर बमो की बारिश करने के लिए चंदा इकट्ठा कर रहा है और मुसलमान उसके मुहिम को कामयाब बनाने मे हर तरह से मदद कर रहे है

  इससे पहले के हम अपने भाईयो की मदद कर सकें, फिलिस्तिनियो के दुश्मनो की हिमायत करना छोड़ दे।

सऊदी अरब ने कहा है के हम तेल को  हथियार नही बनाएंगे। दूसरी तरह सऊदी अरब के रियाद मे मुजिक फेस्टिवल मनाया जा रहा है। नाच गाने हो रहे है।

UAE के बैंक अल फलाह ने फिलिस्तीन की मदद के लिए बनाये गए ट्रस्ट के एकाउंट को बंद कर दिया, ताकी इससे फिलिस्तीन को जो लोग मदद करना चाहते है उसे न पहुँचे।
सऊदी कहता है हम तेल को हथियार नही बनाएंगे, UAE कहता है हम इस्राएल से किसी भी कीमत पर अपना बिजनेस बंद नही करेंगे, उससे अपना राजदूत नही बुलाएँगे,  जोर्डन अपना एयरबेस इस्राएल को इस्तेमाल करने के लिए दिया है, सऊदी, UAE का एयरबेस पहले से ही अमेरिका इस्तेमाल करता है अब उसे इस्राएल फिलिस्तिनियो पर बॉम्बारि करने के लिए इस्तेमाल कर रहा है।

स्टारबक्स
कोकाकोला
बर्गर, पिज़्ज़ा
पेप्सी, आमाज़ॉन
फेसबुक, X, इंस्टाग्राम, मेटा, सब आज मुसलमानो के खिलाफ सह्युनियो के साथ मैदान ए जंग मे उतरे है। लेकिन मुसलमान जिसे अपना रहबर समझ कर फखर महसूस करते है उन्होंने फिलिस्तिनियो के सिर्फ निंदा का बलास्टि मिसाइल अभी तक छोड़ा है। अरब हुकमराँ को सिर्फ तख्त चाहिए चाहे वह किसी भी तरह से हो। अरबो को फिलिस्तीन की कोई फिकर नही। फिलिस्तीन के लिए अरबो के तरफ से सिर्फ ब्याबाजी हुई है, हर 3-4 दिन पर एक बयान, स्पीच, स्टेटमेंट्, देकर सो जाते है उसी को लेकर आप खाइये, पीजिये, सोइये और अरबो का एहसान मानिये।

इस्राएल ने हॉस्पिटल पर बॉम्बारि कर के 11000 से ज्यादा लोगो को मारा, कहाँ है वह जो मुसलमानो का नेता बनने को तैयार रहता है? 

किधर है वह सुन्नी मुसलमानो का रहनुमा ? 

किधर है वह OIC का हेड जो अपनी मन मर्ज़ी से दूसरे मुस्लिम मुमालिक को अलग थलग करने मे लगा रहता है। 

कहाँ है वह 40 देश के आर्मी चीप जो UN के कहने पर शांति सेना भेजता है? 

कही ये OIC (Orgnization of Israels Co -Opration) तो नही? . 

किधर है वह अरब मुमालिक जो अमेरिका की चाकरी करने और मुखबिरी करने मे लगा रहता है, उसका दोस्त अमेरिका और ब्रिटेन किधर है? जिसने उस्मानिया सलतनत से आज़ादी के लिए अंग्रेजो का साथ दिया था?  
आप अगर कुछ करना चाहते है तो इजरायली सामान का बॉयकॉट करे।

यह पैगाम दुसरो तक जरूर पहुचाये, दूसरे मुसलमान भाईयो से इस्के बारे मे जरूर बातें करे।

इस्राएल को यह सब करने के लिए कहा से मदद मिल रही है?

  नापाक वज़ूद इस्राएल जो आज कर रहा है या 1948 से करता आरहा है... सिर्फ अमेरिका की हिमायत से, ब्रिटेन, फ्रांस की हिमायत से। अगर सलेबी सह्युनि को मदद करना बन्द कर दे तो आज झुक जायेगा। जैसे कुछ होता है अमेरिका हथियार भेजना शुरू कर देता है।
इसमे असल मुज़रिम कौन है? अमेरिका. जिसके बारे मे बात करने से मीडिया, हुकमराँ और माहेरिन डरते है, मीडिया इस पर बात नही करता क्योंके उसे अमेरिका के तरफ से मिले हुए इनाम का भी लाज रखना।
लिहाज़ा आम मुसलमानो को सोचना होगा के अरबो का, तुर्किये का, पाकिस्तान का, मिस्र का सबसे करीबी पार्टनर् कौन है? वह अमेरिका है, इस्राएल को मदद कौन देता है वह अमेरिका है। लिहाज़ा अगर जादूगर की जान तोते मे है तो जादूगर को मारने से नही मरेगा बल्कि तोता को पकड़ना होगा,। तोते की गर्दन जब कटेगी तब ये तागुत् खत्म होगा। इसके लिए आल्मी सतह पर मुस्लिम दुनिया को चीन और रूस के खेमे मे जाना। होगा।

पहले अपने दुश्मन को पहचाने। कौन है जिसकी ताकत पर इस नजाएज़ वज़ूद को नाज़ है?

हर नमाज़ में अपने फिलिस्तीनी भाईयों और मुजाहीदीन के लिए ज़रूर दुआ करें। कम से कम हम इतना तो कर ही सकते है। आप अब फिलिस्तीन के लिए जरूर दुआ करे। 

या अल्लाह फिलिस्तीन को आज़ाद कर और मस्ज़िद ए अक्सा की हीफाजत फरमा,फिलिस्तीन की आज़ादी के लिए कोशिस करने वालो की मदद कर और ज़ालिम को उसके ज़ुल्म के साथ बर्बाद कर दे। इस्राएल को मदद करने वाले को मिटा दे। आमीन

Share:

Palestine: Masjid E Aqsaa Ki Aazadi,Musalmano ki Bedari aur Jihad ka waqt.

Maszid-E-Aqsa Ki Aazadi ke liye Musalmano ko kya karna chahiye?

Gza ki Pukar, Bedar Ummat aur Jihad Ka Faisla.
Musalmano ka Rehnuma kaun hai, Muslim Leadership kaha hai?
Palestine par Musalman Hukmran aur Aam Musalmano ka Rawaiyya.

پیامِ غزہ : بیدارئ اُمت اور جہـ.ـادِ اُمت کا فیصلہ کن موڑ ؛ حصہ اول

استاد اسامه محمود حفظہ اللّٰه

برصغیر اور پوری دنیا میں بستے میرے اہل ایمان بھائیو اور بہنو!

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

الحمدللہ الله کا فضل و احسان ہے، اس کا انتہائی کرم ہے کہ مسجد اقصیٰ کی بازیابی کا جہـ.ـا د ، جو بالاصل پوری امت کو اس کی عزت لوٹانے اور اس کو آزادی دلانے کا جہـ.ـا د ہے، آج ایک انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہوا چاہتا ہے اور دنیا میں نمودار ہونے والے واقعات و حالات سب بتا رہے ہیں کہ امت مسلمہ کی تاریخ میں یہ مرحلہ اس کے لیے ایک بالکل نئے دور کا آغاز ان شاء اللہ ثابت ہو گا۔
اس مرحلے کی حالیہ نشانی، قلب و روح کو فرحت و سرور دینے والا عظیم واقعہ طوفانِ اقصیٰ ہے۔

وہ مبارک اور بے مثال طوفان کہ جو غزہ کے مجـ.ـا ہدینِ عظام اور پیکر صبر و ثبات عوام کے ، ذلت کی زندگی پر عزت اور دنیا کی عارضی متاع پر آخرت کی دائمی نعمتوں کو ترجیح دینے کے باعث ممکن ہوا، بلاشبہ اس نے امت سے ذلت ورسوائی کے وہ داغ دھو ڈالے جو خائنین امت کی قبیح خیانتوں اور غداریوں کے باعث امت کے اجلے دامن پر لگے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کو دیکھ کر ہر صاحبِ ایمان کو دل کے اندر تک اسلام اور اہلِ اسلام کی عزت و عظمت کا ایک نیا احساس ہوا اور الحمدللہ نظر آ رہا ہے کہ طوفان الاقصیٰ اور اس کے بعد کے واقعات کے باعث آج پوری امت میں جہـ.ـا د اور استشھاد کے جذبے نے زور پکڑ لیا ہے۔ بچے، بوڑھے اور جوان، بلکہ خواتین تک بھی، سب میدان جہـ.ـا د میں اترنے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں اور فرط تشکر سے ہماری آنکھیں بھیگی ہیں کہ ہر طرف اقصیٰ کی خاطر جینے اور اہل اقصیٰ ہی کی خاطر مرنے اور شہید ہونے کی قسمیں اٹھائی جارہی ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ یہ جذبات کبھی ٹھنڈے نہ ہوں، یہ عظیم مقاصد و عزائم کبھی پست نہ ہوں، یہ موقع اور یہ جنگ ہم سب کی زندگیوں میں ایک ایسی با معنی تبدیلی کا ذریعہ بن جائے کہ جس کا محور، مرکز اور بنیاد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت و بندگی ہو ، ہماری زندگیوں میں وہ تبدیلی و انقلاب یہ لائے کہ جس کا راستہ جہـ.ـا د فی سبیل اللہ اور جس کی منزل اقصیٰ پہنچ کر فتح یاب ہونا یا دوسری صورت میں جہاد اقصی میں ہی قربان ہو کر جام شہادت پینا ہو... اللہ ہی سے دعا ہے اور وہ ذات ہی دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والی ہے کہ اللہ ! امتِ مسلمہ کے سب مجـ.ـا ہدین / اہل ایمان کو یہ توفیق دے کہ وہ سب اپنی اپنی جگہ مجـ.ـا ہدینِ قدس کے ہم رکاب بن جائیں سسکتی ماؤں، بہنوں اور ارض قدس میں قتل ہوتے ہمارے معصوم بچوں کے انتقام کی خاطر وہ صہیونی صلیبی اس منحوس اور ابلیسی اتحاد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ان ظالموں پر عذاب الہی کا کوڑا بن کر برسیں اور یوں امتِ مسلمہ شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک ان عظیم جہـ.ـا دی لشکروں کا منظر پیش کرے کہ جن کے دیکھنے کے لیے تاریخ کو ایک صدی سے زائد عرصے کا انتظار کرنا پڑا، وہ عظیم لشکر یہاں بن جائیں کہ جن کے اٹھنے اور آگے بڑھنے کے لیے دنیا بھر کے مظلومین چشم بہ راہ ، یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ یا اللہ ! ہمیں اس زمین سے نکال کہ یہاں کے باسی بہت ظالم ہیں اور یا اللہ ! اپنی طرف سے ہمارا کوئی مدد گار اور نصرت کرنے والا بھیج !

پس آج اگر ان مظلومین کی پکار پر لبیک کہا گیا، جو فرض ہم پر عائد ہے اس کے ادا کرنے میں اگر لیت و لعل سے کام نہیں لیا گیا، مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے ناگزیر اور مطلوب ایک جہـ.ـا دی تحریک اگر اٹھ کھڑی ہوئی، نوجوانانِ امت خراسان و برصغیر سے جزیرۂ عرب، ارض شام و افریقہ تک اس جہـ.ـا دی لشکر میں اگر شامل ہوئے اور لشکر ابلیس پر ضربیں لگانے کے لیے پورے عالم کو میدانِ جہـ.ـا د اگر بنا لیا گیا۔ اور اللہ کے اذن سے یہی کچھ اب ہو گا، اس لیے کہ اس کے علاوہ اقصیٰ کی آزادی کا کوئی اور راستہ نہیں۔ تو پھر فتح و نصرت ان شاء اللہ زیادہ دور نہیں، اللہ کے اذن سے پھر یہی وہ لشکر ہوں گے جن کے بالآخر کامیاب ہو جانے کی بشارت نبی الملاحم ﷺ آج سے چودہ سو سال پہلے دے چکے ہیں اور جو ایک فتح کے بعد دوسری اور ایک پڑاؤ کے بعد دوسرے پڑاؤ کی طرف پیش قدمی کریں گے ، پرچمِ جہـ.ـا د ایک ہاتھ کے کٹنے کے بعد دوسرا تھامے گا، شہادتیں اس سفر میں رکاوٹ نہیں بنیں گی، بلکہ اس کا خون امت کی عزت و عظمت کے اس سفر میں ایندھن بن کر عزیمتوں اور عظمتوں کے اس قافلے کو آگے سے آگے دھکیلے گا اور بالآخر وہ وقت پہنچ ہی جائے گا جب اللہ کی زمین پر اللہ ہی کا عدل و انصاف قائم ہو جائے گا اور ظلم و کفر پر کھڑے دجالی نظام کے لیے دنیا بھر میں کہیں کوئی جائے پناہ نہیں مل پائے گی ..... جاری ہے ان شاء الله

Share:

Cricket Match: Playground me Match jitne ke Bad Sazda karna kaisa hai? Kya Islam iski ijazat deta hai?

Khel ke Maidan me Urdu Nam ke Khilariyo Ka Sajda karna kaisa hai?

Cricket Match Jitne ke Bad Musalman Cricketer ka Field me Sajda karne ke Bare Me Islam kya hukm deta hai?
Kya Koi Musalman Player kisi Khel me Fatahyab hone par Sazda kar sakta hai?

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

سجدہ ہی تو ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

کھیلوں کے میدانوں میں سجدہ شکر کو لے کر آج کل لوگوں کی مبالغہ آرائیاں بڑی مایوس کن ہیں، کہا جارہا ہے سجدہ تو ایک عبادت ہے اللہ کو سجدہ پسند ہے جہاں بھی جس وقت بھی کیا جائے کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔۔۔ الحمق داء لا دواء له (حماقت لاعلاج مرض ہے)

سجدہ تو مزاروں پر بھی ہوتا ہے، کیا اللہ کو مزاروں پر سجدہ خوش کرے گا ؟ اگر سجدہ ہر جگہ ہر موقعہ پر جائز ہوتا تو نمازِ جنازہ میں بھی جائز ہوتا، مگر سجدہ صرف اللہ کے لیے جائز ہے اور جائز کام و مقام کی شرط کے ساتھ جائز ہے ۔

بلا شک سجدہ عبادت ہے، مگر ہر عبادت سعادت نہیں ہوتی، اگر عبادات بلا شرائط کے سعادتیں ہوتیں تو بدعتیں جائز ہوجاتیں ، اسی طرح ناجائز ذرائع سے جائز کام مقبول نہیں ہوتے ورنہ حرام کمائی کے حج بھی حج مبرور ہوتے اور حرام کمائیوں سے تعمیر شدہ مکانات پر اللہ کا فضل ہوتا۔۔۔۔

کسی ظاہری نعمت کے حاصل ہونے یا کسی ظاہری مصیبت کے ٹلنے کے وقت انسان کا اپنے جسم کے سب سے معزز ترین حصہ یعنی چہرہ کو زمین پر رکھ کر دل ، زبان اور تمام اعضا ء سے  اللہ کا شکر ادا کرنا سجدہ شکر کہلاتا ہے ، سجدہ شکر کرنا مستحب ہے، سجدہ شکر شریعت سے ثابتہ ہے سجدہ شکر کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی ملتا ہے ، جب انسان کو اُس کی وہ مطلوبہ جائز چیز یا جائز دیرینہ تمنا حاصل ہوجائے جس کی وہ تمنا کرتا تھا اور اس کے لیے اللہ جل و علا سے دعا کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ کے شکر اور (اُس کی) حمد کے لیے وہ سجدہ شکر کرے گا ، تاہم سجودِ شُکر کی بھی شرائط ہیں، یہ کہ جائز خوشیوں پر سجدہ شکر کیا جائے، محض سجدہ کی عبادت، عبادت نہیں بلکہ اپنی شرائط کے ساتھ عبادت ہے ورنہ سوائے جسم کی حرکت کے کچھ نہیں ، اگر سجدہ شکر کی شرائط نا ہوتیں تو حرام کاموں کی کامیابیوں پر سجود جائز ہوتے ۔
رہی بات کھیلوں کے میدان میں سجدے تو اول بات یہ کہ کھیلوں کی مروجہ صورتیں ہی غلط ہیں، اگرچہ اسلام میں کھیلوں کی ممانعت نہیں ہے بلکہ چند شرائط کے ساتھ کھیل جائز ہے، یہ کہ
- اسراف نا ہو
- وقت کا ضیاع نا ہو
- عبادات متاثر نا ہوں
- مرد و زن کا اختلاط
- ننگ نیم برہنہ بے پردہ عورتوں کی موجودگی نا ہو
- موسیقی جو کہ حرام ہے اس کی کوئی بھی صورت نا پائی جائے.

اگر تو ان شرائط کا خیال رکھا جائے تو کھیل جائز ہے اور اس میں کیے گئے سجود بھی جائز ہیں، مگر کھیلوں کی موجودہ صورتوں میں یہ شرائط مفقود ہیں، اسی لیے یہ لہو و لعب کے سوا کچھ نہیں، اور لہو و لعب پر سجدے نہیں کیے جاتے بلکہ توبہ استغفار کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس حرکت سے بچائے جسے شیطان بظاہر لاحرج اور خوشنما دکھا کر راغب کرتا ہے ۔

ھذا ماعندی والعلم عند ربی و علمہ اتم۔

Share:

Khilafat se Badshahat me Kaise tabdil hui, Islamic System kab lagu tha?

Sahaba Ke Daur me Itni Jungein Kyu hui?

Khilafat se Badshahat aur Badshahat se Jamhuriyat me Kab Tabdil ho gayi?

Masla Palestine aur Muslim Hukmran
Palestinian ke Qatl e Aam me Europe aur Ahle Arab Shamil hai.
Middle East me Israel banane ke bad se kya kya hua?
Palestine me Maujuda halat aur Arab Hukmrano ki Zimmedariya.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-224"
سوال_ صحابہ کرام کے عہد میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟اور خلافت بادشاہت میں کیسے تبدیل ہوئی؟ نیز باغی پارٹی کا انجام کیا ہوا؟

Published Date:22-3-2019

جواب:
الحمدللہ:

(تاریخ اسلام پر آخری سلسلہ )

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر جمعہ کے دن ہم تاریخ اسلام کے مشہور واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیے جانے والے اعتراضات اور انکے جوابات پڑھتے ہیں،پچھلے سلسلہ جات نمبر.

87٫88،92٫96٫102 131،133٫134، 139،145،151،156,166

*میں سب سے پہلے ہم نے تاریخ کو پڑھنے اور اور جانچنے کے کچھ اصول پڑھے پھر یہ پڑھا کہ خلافت کی شروعات کیسے ہوئی؟ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رض کی خلافت اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا، اور یہ بھی پڑھا کہ واقعہ فدک کی حقیقت کیا تھی؟ اور یہ بھی پڑھا کہ حضرت عمر فاروق رض کو کس طرح خلیفہ ثانی مقرر کیا گیا،اور حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت کے کچھ اہم مسائل کے بارے پڑھا ،کہ انکے دور میں فتنے کیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے اور ،حضرت خالد بن ولید رض کو کن وجوہات کی بنا پر سپہ سالار کے عہدہ سے ہٹا کر ابو عبیدہ رض کی کمانڈ میں دے دیا،اور خلیفہ دوئم کی شہادت کیسے ہوئی، اور پھر سلسلہ 133٫134 میں ہم نے پڑھا کہ تیسرے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟
اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس موقع پر بے انصافی ہوئی؟ اور دور عثمانی کی باغی تحریک کیسے وجود میں آئی؟ انہوں نے کس طرح عثمان رض کو شہید کیا اور صحابہ کرام نے عثمان رض کا دفاع کیسے کیا؟اور پھر سلسلہ نمبر-139 میں ہم نے پڑھا کہ باغی تحریک نے کس طرح عثمان غنی رض پر الزامات لگائے اور انکی حقیقت بھی جانی،  اور پھر سلسلہ_145 میں ہم نے پڑھا کہ عثمان غنی رض کو شہید کرنے کے بعد فوراً صحابہ نے باغیوں سے بدلہ کیوں نا لیا؟ چوتھے خلیفہ راشد کا انتخاب کیسے ہوا؟

*کیا صحابہ کرام سے زبردستی بیعت لی گئی؟اور کیا علی رض  باغیوں سے بدلہ لینے کے حق میں نہیں تھے؟اور کیا علی (رض) نے عثمان رض کے قاتلوں کو خود حکومتی عہدے دیے تھے؟ اس ساری تفصیل کے بعد سلسلہ نمبر-151 میں ہم نے جنگ جمل کے بارے پڑھا کہ وہ جنگ* *باغیوں کی منافقت اور دھوکے کہ وجہ سے ہوئی تھی، جس میں باغیوں کی کمر تو ٹوٹی مگر ساتھ میں بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے، اور پھر سلسلہ نمبر_156 میں ہم نے جنگ صفین کے بارے پڑھا کہ جنگ صفین کیسے ہوئی،اسکے اسباب کیا تھے، اور پھر مسلمانوں کی صلح کیسے ہوئی اور پھر سلسلہ نمبر-166 میں ہم نے جنگ صفین کے بعد واقع تحکیم یعنی مسلمانوں میں صلح کیسے ہوئی، کون سے صحابہ فیصلہ کرنے کے لیے حکم مقرر کیے گئے اور حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنھما کے مابین تعلقات کیسے تھے،*
*اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر-171 میں ہم نے  یہ پڑھا کہ خوارج کیسے پیدا ہوئے اور باغی جماعت میں گروپنگ کیسے ہوئی؟
خوارج کا نقطہ نظر کیا تھا؟*
*حضرت علی نے خوارج سے کیا معاملہ کیا؟خوارج سے جنگ کے نتائج کیا نکلے؟اور بالآخر مصر کی باغی پارٹی کا کیا انجام ہوا؟*
*اور سلسلہ نمبر 176 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی (رض) کیسے شہید ہوئے؟ حضرت علی (رض) کی شہادت کے وقت صحابہ کرام اور باغیوں کے کیا حالت تھی؟حضرت علی ( رض) کی شہادت پر صحابہ کے تاثرات کیا تھے؟حضرت علی(رض) کے دور میں فرقوں کا ارتقاء کیسے ہوا؟حضرت علی (رض) کی خلافت کس پہلو سے کامیاب رہی؟حضرت علی (رض) کے دور میں بحران کیوں نمایاں ہوئے؟ اور اسی طرح سلسلہ نمبر 181 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت علی رض کی شہادت کے بعد خلیفہ کون بنا؟ حضرت حسن اور معاویہ رض کا اتحاد کن حالات میں ہوا؟

اس کے کیا اسباب تھے اور اس کے نتائج کیا نکلے؟اور کیا معاویہ رض نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا تھا؟اور حضرت معاویہ کی کردار کشی کیوں کی گئی؟ معاویہ پر کیا الزامات عائد کیے گئے اور ان کا جواب کیا ہے؟ اور حضرت معاویہ نے قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟سلسلہ نمبر-188 میں ہم نے پڑھا کہ کس طرح باغی راویوں نے جھوٹی روایتوں سے یہ مشہور کر دیا کہ حضرت امیرمعاویہ (رض) خود بھی حضرت علی (رض) پر سب وشتم کرتے اور اپنےگورنروں سے بھی کرواتے تھے، اور سلسلہ نمبر-194 میں ہم نے استلحاق کی حقیقت جانی،اور پھر سلسلہ نمبر-197 میں ہم نے پڑھا کہ باغی راویوں نے امیر معاویہ رض پر جو الزامات لگائے انکی کیا حقیقت تھی؟ جیسے کہ کیا حضرت امیر معاویہ (رض ) کے گورنر رعایا پر ظلم کرتے تھے؟اور کیا معاویہ (رض) نے عمار (رض) کا سر کٹوایا تھا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا واقعی حضرت معاویہ رض نے حسن (رض) سمیت سیاسی مخالفین کو زہر دلوایا تھا؟اور پچھلے سلسلہ نمبر-201 میں ہم نے پڑھا کہ کیا حضرت امیر معاویہ رض نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا تھا؟*اور کیا یزید کو مشورے کے بنا زبردستی ولی عہد مقرر کیا گیا؟اور کیا یزید بے نماز،شرابی اور ہم جنس پرست تھا؟ اور پھر پچھلے سلسلہ نمبر 205 میں ہم نے پڑھا  کہ کیا بنو ہاشم اور بنو امیہ ایک دوسرے کے دشمن تھے؟ اور حضرت علی(رض)کی بنو امیہ کے بارے کیا رائے تھی؟اور کیا معاویہ (رض) نے غزوہ بدر کا انتقام جنگ صفین کی صورت میں لیا؟اور کیا معاویہ(رض) نے بنو امیہ کا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے زیادہ حکومتی عہدے اپنے لوگوں کو دیے؟اور یہ کہ معاویہ(رض) کا دور حکومت خلافت کا دور تھا یا ملوکیت کا؟اور یہ بھی پڑھا کہ کیا خلافت صرف حضرت علی(رض)  تک قائم رہی؟اور  سلسلہ نمبر-208 میں ہم نے معاویہ (رض ) کے فضائل و مناقب صحیح حدیث سے پڑھے، اور ناقدین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا ،آپکے شاندار  کارنامے پڑھے اور آخر پر یہ بھی پڑھا کہ صحابہ کرام کی آپکے بارے کیا رائے تھی؟* اور پچھلے سلسلہ نمبر-211 میں ہم نے پڑھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی اصل نوعیت کیا تھی؟سانحہ کربلا کیسے وقوع پذیر ہوا؟ سانحہ کربلا کا ذمہ دار کون تھا؟سانحہ کربلا کے کیا نتائج امت مسلمہ کی تاریخ پر مرتب ہوئے؟دیگر صحابہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شمولیت اختیار کیوں نہ کی؟یزید نے قاتلین حسین کو سزا کیوں نہ دی؟شہادت عثمان کی نسبت شہادت حسین پر زیادہ زور کیوں دیا گیا؟ اور سانحہ کربلا کے بارے میں بعد کی صدیوں میں کیا رواج پیدا ہوئے؟ اور سلسلہ نمبر-215 میں ہم نے پڑھا کہ سانحہ کربلا کے بعد  دوسرا بڑا سانحہ حرہ کیسے پیش آیا؟
کیا یزید کے حکم سے مدینہ میں خواتین کی عصمت دری کی گئی؟ کیا یزید نے مکہ پر حملہ کر کے بیت اللہ جلایا؟یزید کے بارے ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟
اور آخر پر باغی تحریک نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟؟ اور پچھلے سلسلہ نمبر 218 میں ہم نے حضرت عبداللہ بن زبیر(رض) کی خلافت کے بارے چند مختصر سوالات کے جواب پڑھے،*

*جمعہ کے دن جو تاریخ اسلام کا سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا اس سلسلے کا آج یہ آخری حصہ ہے،*

آج کے سلسلے میں ہم ان سوالات کے جواب تلاش کریں گے جو ان تاریخی سلسلہ جات کو پڑھنے سے ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں،

@عہد صحابہ میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟

@خلافت، ملوکیت میں کس طرح تبدیل ہوئی؟

@بنو امیہ کا باقی دور کیسا تھا؟

@ بعد میں باغی تحریک پر کیا گزری؟

@ناصبی کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟

اس سلسلہ کے اختتام پر ہم اس قابل ہوں گے کہ عہد صحابہ سے متعلق عمومی تاریخی سوالات کے جواب جان سکیں۔

 
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سیاسی دور 73ھ/ع692 میں ختم ہوتا ہے۔ اس دور سے متعلق کچھ عمومی نوعیت کے سوالات ہیں جو تاریخ کے طلباء کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ان کا جائزہ لیں گے۔ ان شاءاللہ

*صحابہ کرام میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟*

عہد صحابہ میں اتنی جنگیں نہیں تھیں جتنا کہ تاریخ کو پڑھنے سے تاثر ملتا ہے۔  اصل میں صحافی اور مورخین حضرات کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ چن چن کر منفی واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں اور مثبت واقعات ان کے نزدیک اتنے اہم نہیں ہوتے کہ ان کا اندراج تاریخ کی کتب میں کیا جائے۔ مثال مشہور ہے کہ کتا انسان کو کاٹ لے تو خبر نہیں بنتی بلکہ اس وقت بنتی ہے جب انسان کتے کو کاٹ لے۔

صحافت کی ایک اصطلاح ہے جسے "نیوز ویلیو" کہا جاتا ہے۔ جرنلزم کے ماہرین کے نزدیک نیوز ویلیو کا انحصار متعدد عوامل پر ہوتا ہے:

1۔ منفی پن:
منفی خبروں کو مثبت خبروں کی نسبت زیادہ کوریج ملتی ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ کروڑوں لوگ اللہ تعالی کے  حضور حاضر ہوتے ہیں،  لاکھوں لوگ غرباء اور مساکین کی مدد کرتے ہیں، کروڑوں لوگ ایک دوسرے سے محبت سے  ملتے ہیں لیکن ان سب کی کوئی نیوز ویلیو نہیں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کروڑوں میں سے چند لوگ اگر قتل، بدکاری، ریپ، لڑائی جھگڑا  یا اسی  نوعیت کا کوئی کام کر بیٹھیں تو تمام اخبارات اسے رپورٹ کرتے ہیں۔ ہزاروں جہاز، ٹرینیں، بسیں اور کاریں صحیح و سلامت اپنی منزل مقصود پر پہنچتی ہیں  لیکن اخبار میں اس کی خبر نہیں آتی اور نہ ہی کوئی نیوز چینل اسے رپورٹ کرتا ہے لیکن اگر ایک آدھ جہاز، ٹرین، بس یا کار کو حادثہ پیش آ جائے تو یہ خبر بن جاتی ہے۔

2۔ تصادم:
تصادم اور لڑائی جھگڑے پر مبنی خبروں کو زیادہ کوریج دی جاتی ہے۔

3۔ نمایاں شخصیات سے تعلق:
نمایاں شخصیات جیسے حکمران طبقے سے متعلق خبریں زیادہ نشر کی جاتی ہیں جبکہ عام آدمی  سے متعلق خبریں کم۔

4۔ توقع:
ایسی خبریں جن کی لوگوں کو توقع نہ ہو، کو زیادہ کوریج ملتی ہے کیونکہ اس سے لوگوں کو چونکایا جا سکتا ہے اور سنسنی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہاں کتے اور انسان والی مثال فٹ بیٹھتی ہے۔

5۔ تحقیقات:
اگر کسی خبر کے لیے بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہو تو اس کی نسبت اس خبر کو زیادہ کوریج دی جاتی ہے جس کے لیے تحقیق کی ضرورت نہ ہو اور وہ آسانی سے دستیاب ہو سکے۔

یہ باتیں مزید تفصیل سے اس لنک پر آپ دیکھ سکتے ہیں
(https://en.wikipedia.org/wiki/News_values)

ان کے علاوہ دیگر عوامل جیسے خبر کی دستیابی، میڈیا میں پیش کیے جانے والے دیگر واقعات، میڈیا کا اپنا شیڈول وغیرہ بھی خبر کی کوریج کا تعین کرتے ہیں۔ چونکہ مورخین کے کام کا انحصار صحافیوں کے کام پر ہوتا ہے، اس وجہ سے یہی عوامل وہاں بھی اپنا اثر دکھا دیتے ہیں۔ صحافی، اخباری اور مورخ انہی باتوں کو اپنی کتب میں درج کرتے ہیں جن کی ان کے نزدیک کچھ نیوز ویلیو ہو ،
تاکہ ان کا اخبار یا کتاب بک سکے۔ جو چیزیں نارمل اور روٹین ہوتی ہیں، انہیں وہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر ان دنوں میں مسلمانوں کی مذہبی، علمی، فکری، تہذیبی اور دعوتی تاریخ پر کام کر رہا ہوں لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تاریخ کے بارے میں کتب تاریخ میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے ہمیں کتب تاریخ سے ہٹ کر دیگر وسائل پر انحصار زیادہ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ مورخین اور اخباریوں کے نزدیک علمی، فکری اور دعوتی تاریخ کی اتنی نیوز ویلیو نہیں تھی کہ وہ اس سے متعلق زیادہ تفصیلات اپنی کتب میں درج کرتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پورے سیاسی دور کا جائزہ لیا جائے تو اس میں امن کے وقفے ، جنگ کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔
اس کے لیے آپ اس ٹائم  لائن کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس ٹائم لائن میں چھوٹے موٹے اور مقامی نوعیت کے واقعات کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ ان کا عام زندگی پر کوئی  اثر نہیں پڑتا ہے۔

1-2/622-623
امن کا دور۔۔۔ تقریباً ایک سال

2/624
غزوہ بدر ۔۔۔ ایک دن کی جنگ اور کاروائی میں چند دن لگے۔

2-3/624-625
امن کا وقفہ۔۔۔ تقریباً ایک سال

3/625
غزوہ احد ۔۔۔ ایک دن کی جنگ اور کاروائی میں چند دن لگے۔

3-5/625-627
امن کا وقفہ ۔۔۔ تقریباً دو سال

5/627
غزوہ خندق ۔۔۔ چند دن کا محاصرہ اور مکمل کاروائی میں بیس پچیس دن لگے۔

5-7/627-629
امن کا وقفہ ۔۔۔ دو سال

7/629
غزوہ خیبر ۔۔۔ چند دن کی جنگ اور مکمل کاروائی میں بیس پچیس دن لگے۔
جنگ موتہ ۔۔۔ چند دن کی جنگ اور مکمل کاروائی میں بیس پچیس دن لگے۔

7-8/629-630
امن کا وقفہ ۔۔۔ ایک سال

8/630
فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ ہوازن اور چند چھوٹے موٹے غزوات۔  سب کو ملا کر چند ماہ کا وقت لگا۔

8-11/630-632
امن کا وقفہ ۔۔۔ تین سال۔ اس میں صرف ایک تبوک کی مہم ہے جس میں جنگ نہیں ہوئی۔

11/632
بعض عرب قبائل کا ارتداد اور ان سے جنگیں

12-35/632-655
مسلم دنیا میں امن کا وقفہ ۔۔۔ 23 برس۔ سرحدوں پر روم اور ایران سے جنگیں چلتی رہیں۔

35-40/655-660
شہادت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا دور۔۔۔ اس میں بھی محض تین جنگیں ہوئیں اور ان کے درمیان امن رہا۔

41-60/660-680
مسلم دنیا میں امن کا وقفہ ۔۔۔  20 برس۔ سرحدوں پر اہل روم اور خراسان سے جنگ چلتی رہی۔

61-64/680-684
سیاسی بے چینی کا دور ۔۔۔ تین سال۔ اس میں بھی سوائے تین سانحوں کے بالعموم امن قائم رہا۔

64-67/684-687
خانہ جنگی کا دور

67-70/687-690
چھوٹی موٹی بغاوتوں  کے علاوہ عمومی امن کا وقفہ ۔۔۔ چار سال

71-73/690-692
خانہ جنگی کا دور ۔۔۔ دو سال

73-132/692-750
چھوٹی موٹی بغاوتوں کے علاوہ بحیثیت مجموعی امن کا دور ۔۔۔ 58 سال

ان تمام ادوار کو دیکھا جائے تو مسلم دنیا کی حد تک سوائےدس بارہ سالوں کے تقریباً سو برس کی بقیہ پوری تاریخ امن کے ادوار پر مشتمل ہے۔ صحیح معنوں میں سن61-67اور 71-73کو خانہ جنگی کا دور کہا جا سکتا ہے۔

  حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ تمام ہی قبائل نے بغاوت کر دی ہو۔ پورے عرب کے صرف چند قبائل نے بغاوت کی جسے متحد مسلمانوں نے چند ہی ماہ میں ختم کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور کو خانہ جنگی کا دور اس وجہ سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک باغی تحریک موجود تھی اور جو بھی جنگیں ہوئیں، ان میں یہی باغی تحریک شامل تھی۔  اس  طرح سے اندرونی انتشار کا دور صرف آٹھ دس سالوں پر محیط ہے۔ 
امن کا زمانہ تقریباً سو برس  پر محیط ہے جس میں ہر قسم کی معاشی، معاشرتی، دعوتی، تعلیمی، اخلاقی  اور ثقافتی ترقی ہمیں نظر آتی ہے۔
  جنگ کا تناسب محض 25% جبکہ امن کا تناسب 75% ہے۔  
یہ 25% بھی محض سالوں کا تناسب ہے۔ ان سالوں کے اندر بھی یہ کیفیت نہیں رہی ہو گی کہ ہر مہینے اور ہر دن جنگ ہو رہی ہو گی بلکہ محض چند ماہ ایسے ہوں گے جن میں جنگ ہوئی ہو گی۔ اخباری اور مورخین کے نزدیک چونکہ امن کے ان طویل وقفوں کی کوئی نیوز ویلیو نہیں ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ انہیں ایسے نظر انداز کرتے ہیں جیسے ان میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے برعکس وہ جنگ کی استثنائی صورت پر بہت زیادہ فوکس کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس دور میں جنگ ایک نارمل کیفیت تھی اور امن کے وقفے محض استثنائی تھے۔
جہاں تک بیرونی خطرات کا تعلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار مکہ اور یہود سے جو جنگیں ہوئیں، ان کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے اسلام کی دعوت کو مٹانے کے لیے اس پر حملوں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد روم اور ایران کی سپر پاورز سے جنگوں کا آغاز بھی اسی وجہ سے ہوا کہ یہ قوتیں اپنے قریب ایک تیسری سیاسی طاقت کو برداشت نہ کر رہی تھیں۔  اس دور میں ابھی اقوام متحدہ وجود میں نہ آئی تھی اور ہر ریاست خود کو دوسری کے ساتھ جنگ پر مجبور پاتی تھی۔ اگر ایک ریاست دوسری پر حملہ نہ کرتی تو دوسری پہلی پر حملہ کر دیتی۔ یہ کیفیت 1945 تک رہی ہے جب اقوام عالم نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک معاہدہ کیا کہ کوئی ریاست دوسری پر حملہ نہ کرے گی اور جارحیت کی صورت میں مسئلے کا حل اقوام متحدہ کے ادارے کے ذریعے تلاش کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ جنگیں اب بھی چلتی  رہتی ہیں۔

*خلافت ملوکیت میں کیسے تبدیل ہوئی؟*

یہ حقیقت ہے کہ عبد الملک بن مروان سے صحیح معنوں میں بادشاہت کا آغاز ہوا۔ عبدالملک کے بعد ان کے چار بیٹے ولید، سلیمان، یزید اور ہشام خلیفہ یکے بعد دیگرے بنے۔  صرف درمیان میں دو سال کے لیے ان کے بھتیجے عمر بن عبدالعزیز بن مروان رحمہ اللہ کو خلافت ملی اور انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔ بنو امیہ کے بعد یہ بادشاہت بنو عباس اور پھر عثمانی ترکوں کے ہاتھ میں رہی اور یہ ملوکیت ہی تھی۔ یہاں پر تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سن 1ھ/ع622 میں قائم ہونے والی وہ حکومت الہیہ،  جس کے بانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، کیا یہ حکومت الہیہ اتنی کمزور تھی کہ محض 73 برس میں اس کا خاتمہ ہو گیا اور یہ ملوکیت میں تبدیل ہو گئی؟  پھر ان 73 برس میں بھی کم از کم یزید کا چار سالہ دور سانحات سے پر ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اسلام، کم از کم سیاسی میدان میں بالکل ہی ناکام رہا۔

یہ سوال اصل میں اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اس ملوکیت کو آج کل کے زمانے کی فوجی آمریتوں پر قیاس کر لیتے ہیں جو عالم اسلام میں جا بجا مسلط ہیں۔ اس وجہ سے لازم ہے کہ قدیم دورکی ملوکیت  کا موازنہ ہم اپنے دور کی آمریتوں سے کر لیں تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملوکیت کی تیرہ سو سالہ تاریخ میں اچھے اور برے ہر طرح کے بادشاہ گزرے ہیں تاہم مجموعی غلبہ خیر ہی کا رہا ہے۔

آئیے ایک جدول میں  ان تین ادوار کا موازنہ کرتے ہیں

1_خلافت راشدہ کا دور
2_اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کا دور،
3_جدید آمریتوں کا دور،

1۔ مملکت کا قانون
خلافت راشدہ کے دور میں قرآن و سنت قانون کی بنیاد تھا،

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں قرآن و سنت قانون کی بنیاد تھا،

جدید آمریتوں کے دور میں حکمران طبقے کی منشاء قانون کی بنیاد ہے،

2۔  حکمران کا انتخاب
خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں کے حکمران باہمی مشورہ سے بنے،

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں حکمران موروثی اقتدار یا فوجی طاقت کے زور پر بنے

جدید آمریت کے دور میں موروثی اقتدار یا فوجی طاقت سے ہی حکمران بنتے ہیں،

3۔ علماء و صلحاء کا حکومت میں کردار

خلافت راشدہ میں علماء حکومت میں شریک تھے

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں علماء کافی حد تک شریک حکومت تھے اور اصلاح کرتے رہے

جدید آمریتوں کی حکومت میں علماء کم ہی شریک ہوئے

4۔ بیت المال پر حکمران کا ذاتی کنٹرول

خلافت راشدہ میں حکمران کا بیت المال پر کوئی کنٹرول نہیں بلکہ خلیفہ سے مکمل حساب لیا جاتا تھا

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں حکمرانوں کا بیت المال پر  ایک حد تک کنٹرول تھق مگر زیادہ فنڈ عوام کی فلاح پر خرچ ہوتے تھے

جدید آمریتوں کیلے دور میں حکمرانوں کا بیت المال پر مکمل کنٹرول ،

5۔ حکمرانوں کی اخلاقی حالت

خلافت راشدہ میں تمام حکمران  آئیڈیل تھے

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں زیادہ تر اچھے اور کبھی برے حکمران

جدید آمریتوں کے دور میں زیادہ تر برے حکمران

6۔ حکمرانوں کا ظلم و ستم

خلافت راشدہ میں بالکل نہیں

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں  زیادہ تر صرف اپنے سیاسی مخالفین کے لیے

جدید آمریتوں کے دور میں زیادہ تر صرف اپنے سیاسی مخالفین کے لیے

7۔ قانون سازی کی ذمہ داری

خلافت راشدہ  کے دور میں قرآن و سنت کی بنیاد پر اہل شوری کا اجتماعی اجتہاد

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں قرآن و سنت کی بنیاد پر اہل علم کا اجتماعی اجتہاد

جدید آمریتوں کے دور میں حکمران کی ذات یا اس کی ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ

8۔ عوام کی فلاح و بہبود

خلافت راشدہ کے دور میں تمام تر فنڈز عوام کی فلاح اور قومی ضروریات پر خرچ ہوتا تھا

اموی، عباسی اور عثمانی سلاطین کے دور میں فنڈز کا اکثر حصہ عوام کی فلاح اور قومی ضروریات پر خرچ ہوتا تھا جبکہ کچھ حصہ حکمران طبقہ استعمال کرتا تھا

جدید آمریتوں کے دور میں فنڈز کا اکثر حصہ حکمران طبقے کی ذات پر خرچ ہوتا ہے جبکہ کچھ حصہ قومی ضروریات کے لیے باقی بچتا ہے

اس جدول کو دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملوکیت کے اس دور میں ایسا نہیں تھا کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہو اور پوری کی پوری امت مسلمہ گمراہی کا شکار ہو گئی ہو۔ اس کے برعکس ہمیں نظر آتا ہے کہ حکمران طبقے میں کچھ خرابیاں تو پیدا ہوئیں مگر بڑی حد تک یہ امت صراط مستقیم پر قائم رہی۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں میں موروثی بادشاہت قائم ہو گئی جس کے نتیجے میں آپس میں خانہ جنگیاں اور اقتدار کی کشمکش ہوتی رہی تاہم مملکت کا قانون قرآن و سنت ہی رہا۔ مسلمانوں کی ان تمام مملکتوں میں عوام کی فلاح و بہبود کو بنیادی حیثیت حاصل رہی اور برے حکمرانوں کے دور میں بھی عام آدمی کو اس کا حق ملتا رہا۔اس کے برعکس غیر مسلم دنیا میں بالعموم یہ کیفیت نہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم اپنے اپنے ملکوں کو چھوڑ کر مسلم علاقوں میں آ کر آباد ہوتے تھے اور یہاں کے فوائد سے اسی طرح انجوائے  کرتے تھے جیسے اب مسلمان مغربی دنیا میں جا کر  کرتے ہیں۔ 

 اگر پوری مسلم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں تین طرح کے حکمران نظر آتے ہیں:

·نہایت ہی اعلی کردار کے حکمران۔
ان میں مثلاً عمر بن عبد العزیز، متوکل علی اللہ عباسی اور  صلاح الدین ایوبی  رحمہم اللہ نمایاں ہیں۔  ان کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

·نہایت ہی برے کردار  کے حکمران۔
ان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔

· درمیانی قسم کے حکمران جن میں اچھائیاں اور برائیاں پائی جاتی تھیں۔ زیادہ تر سلاطین اسی نوعیت کے ہیں۔

دنیا کی دیگر اقوام کی تاریخ سے اگر ہم اپنی تاریخ کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم تاریخ میں اگرچہ برائیاں موجود رہی ہیں تاہم خیر کا عنصر زیادہ غالب ہے۔ اس وجہ سے اس تاریخ پر ہمیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

*بنو امیہ کا بقیہ دور کیسا تھا؟*

بنو امیہ کا بقیہ دور ملا جلا ہے۔ اس میں اچھے اور برے دونوں طرح کے حکمران گزرے ہیں۔ زیادہ تر حکمران وہ ہیں جو حکومت کی اہلیت رکھتے تھے تاہم ان میں کچھ خرابیاں بھی موجود تھیں۔ ولید بن عبدالملک بن مروان کا زمانہ فتوحات کا زمانہ ہے۔ اس میں سندھ، اسپین اور وسطی ایشیا کے علاقے فتح ہوئے۔ سلیمان بن عبد الملک کے زمانے میں کچھ کمزوریاں موجود ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز بن مروان رحمہ اللہ کا مختصر دور ہے  جس میں انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔ ان کے بعد یزید اور ہشام بن عبد الملک کے ادوار ہیں جن میں اچھی بری دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔  ان کے ادوار میں حکومتی سطح پر کچھ خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں  تاہم ایسا نہیں تھا کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہو۔ ہشام کے بعد بنو عباس کی تحریک اٹھی جس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ عباسی خلفاء بھی امویوں کی طرح ہی تھے۔ ان میں بھی اچھے برے ہر طرح کے ادوار گزرے ہیں۔ ایک طرف ہمیں ہادی، ہارون الرشید اور متوکل جیسے دیندار خلفاء نظر آتے ہیں اور دوسری طرف برے حکمران بھی انہی کا حصہ  ہیں۔

*بعد میں باغی تحریک پر کیا گزری؟*

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو باغی تحریک اٹھی تھی اور زیر زمین موجود رہی تھی، اس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس کے دو حصے ہو گئے تھے: ایک حصہ خوارج تھے اور دوسرے عراق کے باغی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس تحریک کی ان دونوں شاخوں کو اچھی طرح کچل دیا تھا۔ اس کے بعد عبدالملک بن مروان کے زمانے میں خوارج نے پھر سر اٹھایا لیکن اموی گورنر مہلب بن ابی صفرہ نے ان کی قوت کو ایک بار پھر توڑ کر رکھ  دیا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے  پھر  کئی مرتبہ سر اٹھانے کی کوشش کی لیکن مسلسل بغاوتوں کے نتیجے میں یہ کمزور ہو کر ختم ہو گئے۔ 
ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں خوارج مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے جن میں ازارقہ، صفاریہ اور اباضیہ کو شہرت ملی۔ ان کے یہ نام اپنے اپنے لیڈروں کے ناموں پر تھے۔ ان میں سے اباضیہ نسبتاً اعتدال پسند تھے۔ یہ  عام مسلمانوں کو کافر قرار نہیں دیتے تھے  اور نہ ہی بغاوت کو فرض سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس خوارج کی دیگر پارٹیوں کا موقف یہ  تھا کہ ان کے علاوہ تمام مسلمان کافر ہیں اور ظالم حکمران کے خلاف بغاوت فرض ہے۔ یہ تمام گروہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں بار بار ’’خود کش بغاوتیں‘‘ کرتے رہے اور اس کے نتیجے میں مکمل طور پر ختم ہو گئے۔

اباضیہ اپنے اعتدال پسند موقف کے باعث باقی رہے اور اب تک موجود ہیں۔

  دوسری صدی کے نصف آخر میں انہیں شمالی افریقہ میں اقتدار بھی مل گیا جو کہ آل رستم (160-296/776-909) کی حکومت کہلاتی ہے۔ اس کے بعد اگرچہ انہیں زوال آیا لیکن اب بھی یہ لیبیا اور الجیریا میں اقلیت اور عمان میں اکثریت میں موجود ہیں۔

باغی پارٹی کے کوفی گروپ کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اس کی بھی دو شاخیں ہو گئی تھیں۔ سلیمان بن صرد کی قیادت میں ایک شاخ نے "توابین" کے نام سے بغاوت کی جس میں ان کے اکثر لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد یہ مختار ثقفی کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے اور پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی افواج نے ان کا قلع قمع کر دیا۔ اس کے بعد یہ نہایت سکون سے رہے تاہم انہوں نے اپنی کاوشوں کا رخ پراپیگنڈا کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے جنگ صفین ، سانحہ کربلا اور دیگر واقعات سے متعلق تاریخی روایات وضع کر کے مسلمانوں میں پھیلانا  شروع کر دیں تاکہ عام مسلمانوں کو باغی تحریک کا حصہ بنایا جا سکے۔ انہیں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوئی اور مین اسٹریم مسلمان حکومت وقت کے ساتھ وابستہ رہے۔  چونکہ یہ لوگ حضرت علی اور حسین رضی اللہ عنہما کا نام استعمال کرتے تھے، اس وجہ سے بعض لوگ ان سے متاثر ہو جاتے تھے۔ تاہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان کی قیادت اب حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے پاس تھی جنہوں نے پانچ یا چھ خلفاء کا زمانہ پایا مگر کبھی علم بغاوت بلند نہ کیا بلکہ 95/714 میں اپنی وفات تک امت کی تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔

دوسری صدی ہجری کے دوسرے عشرے میں باغی تحریک کچھ تقویت اس وقت ملی جب حضرت زین العابدین کے بیٹے زید رحمہما  اللہ کو انہوں نے بغاوت پر آمادہ کر لیا لیکن عین موقع پر انہیں دھوکہ دے کر ان سے الگ ہو گئے۔ یہ بالکل وہی معاملہ تھا جو اس سے پہلے وہ حضرت زید کے پڑدادا، حضرت علی اور دادا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ کر چکے تھے۔

طبری نے122/740 کے باب ہشام کلبی اور ابو مخنف کے حوالے سے اس واقعے کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
ذكر هشام عن أبي مخنف: 
جب زید کے ان طرف داروں کو، جنہوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، معلوم ہوا کہ زید کے ارادہ کا علم یوسف بن عمر (اس زمانے کے گورنر عراق) کو ہو گیا ہے اور اس نے زید کے پاس اپنے جاسوس لگا دیے ہیں اور وہ ان کے حال کی تفتیش کررہا ہے تو ان کے لیڈروں کی ایک جماعت زید کے پاس آئی اور ان سے پوچھا: "ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟"
زید نے جواب دیا: "اللہ ان پر اپنا رحم کرے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ میں نے اپنے کسی خاندان والے  کو ان سے برأت کا اعلان کرتے نہیں سنا ہے اور نہ ہی کوئی شخص ان کے متعلق کبھی برے الفاظ استعمال کرتا ہے۔"
ان لوگوں نے کہا: "آپ اہل بیت کے خون کا بدلہ لینے کے لیے اسی لیے اٹھے ہیں کہ یہ دونوں (ابوبکر و عمر) آپ کی حکومت کے درمیان میں  حائل ہو گئے تھے اور اسے آپ لوگوں (اہل بیت) کے ہاتھوں سے نکال دیا۔"
زید نے کہا: "اس معاملے میں سخت سے سخت بات جو میں کہہ سکتا ہوں، وہ صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے زیادہ مستحق  ہم تھے مگر قوم (مسلمانوں) نے دوسروں کو ہم پر ترجیح دی اور ہمیں اس سے ہٹا دیا۔ مگر اس بنیاد پر وہ ہمارے نزدیک کفر کے درجہ تک نہیں پہنچے۔ یہ دونوں حضرات امیر المومنین ہوئے تو انہوں نے لوگوں میں انصاف کیا ، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر عمل پیرا رہے۔"
ان لوگوں نے کہا: "جب ان دونوں حضرات نے آپ کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا تو پھر ان لوگوں (بنو امیہ) نے بھی نہیں کیا۔ پھر آپ ہمیں کیوں ان لوگوں سے لڑنے کا کہہ رہے ہیں جنہوں نے آپ پر ظلم نہیں کیا۔"
زید نے کہا: "یہ بات نہیں ہے۔ یہ لوگ ان جیسے نہیں ہیں ۔ یہ نہ صرف مجھ پر بلکہ آپ لوگوں بلکہ خود اپنے آپ پر بھی ظلم کرتے ہیں۔ میں آپ کو کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف بلاتا ہوں تاکہ احیاء سنت ہو اور بدعات مٹائی جائیں۔ اگر آپ لوگ میری دعوت کو قبول کر لیں تو خود آپ کو اس کا فائدہ پہنچے گا اور اگر انکار کر دیں تو میں آپ پر حکمران تو ہوں نہیں کہ آپ میری بات لازم طور پر مان لیں۔"
یہ سن کر یہ لوگ انہیں چھوڑ کر چلے آئے اور اپنی بیعت توڑ دی۔ کہنے لگے: "یہ امام سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔" یہ لوگ اس بات کے مدعی تھے کہ زید کے بھائی محمد بن علی (الباقر) اصل میں امام تھے۔ ان کے بیٹے جعفر بن محمد (الصادق) ابھی زندہ تھے۔ ان لوگوں نے کہا: "جعفر اپنے والد کے بعد ہمارے امام ہیں اور وہی امامت کے مستحق ہیں۔ ہم زید بن علی کا ساتھ نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ امام نہیں ہیں۔" اس بنا  پر زید نے ان کا نام رافضہ (انکار کرنے والے) رکھا مگر اب (طبری کے زمانے میں) یہ لوگ مدعی ہیں کہ جب ہم نے مغیرہ کا ساتھ چھوڑا تو انہوں نے ہمارا یہ نام رکھا۔
(طبری 5/231)

اس کے بعد زید بن علی رحمہما اللہ نے بغاوت کر دی۔ ان کے ہاتھ پر ہزاروں لوگوں نے بیعت کی تھی لیکن محض 218 آدمی اکٹھے ہوئے اور اس جھڑپ میں زید شہید ہو گئے۔اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کی اولاد کے بزرگوں کو امام قرار دے کر ان کے نام سے اپنی تحریک چلا رہے تھے۔

اس کے بعد  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اولاد کے کچھ لوگوں نے بنو امیہ کے خلاف تحریک اٹھائی۔ اس تحریک میں اس باغی  تحریک نے بنو عباس کا ساتھ دیا اور یہ کامیاب رہی۔ بنو امیہ کا تختہ الٹ کر بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اس باغی تحریک کے لیڈروں کو حکومت میں شریک نہ کیا۔ اس پر یہ بہت تلملائے اور انہوں نے تاریخی روایتوں میں بنو عباس کے خلاف بھی جی کھول کر پراپیگنڈا کیا۔ یہ مشہور کر دیا کہ بنو عباس اتنے سفاک تھے  کہ انہوں نے بنو امیہ کے باقی ماندہ لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا اور پھر انہیں قتل کروا کر ان کی تڑپتی ہوئی لاشوں پر دستر خوان بچھا کر اس پر کھانا تناول کیا۔  یہ روایت نہ تو طبری میں موجو دہے اور نہ کسی اور معتبر کتاب میں۔ اگر اس روایت میں ذرا سی بھی حقیقت ہوتی تو بنو امیہ کے زمانے میں اسپین میں لکھی جانے والی کتابوں میں اس واقعے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ بنو امیہ نے تو خود پر ہونے والے اس ظلم کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ بہرحال باغی تحریک کو بنو عباس کے دور عروج میں بھی کوئی کامیابی نصیب نہ ہوئی اور جس اقتدار کے لیے وہ کھڑے ہوئے تھے، وہ انہیں کم از کم تین سو برس تک نصیب نہ ہوا۔

*ناصبی کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟*

یہ کہا جاتا ہے کہ پہلی صدی میں ایک اور فرقہ بھی پیدا ہوا جنہیں ’’نواصب‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ خود کو ’’شیعان عثمان‘‘ یا ’’العثمانیون‘‘ کہا کرتے تھے اور بنو امیہ کے شدید حمایتی تھے۔  مشہور ادیب جاحظ (150-255/767-869)نے ان پر ایک کتاب’’العثمانیہ‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ ابن عساکر اور ابن کثیر نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔  اپنی ابتدا میں ان کا موقف صرف یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا قصاص لیا جائے اور باغی تحریک کے سرغنوں کو کڑی سزا دی جائے۔ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا احترام کرتے تھے۔

ابن عساکر لکھتے ہیں:
یزید بن ہارون سے کہا گیا: ’’آپ حضرت عثمان کے فضائل تو بیان کرتے ہیں لیکن حضرت علی کے فضائل کیوں بیان نہیں کرتے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’حضرت عثمان کے ساتھی تو حضرت علی کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کرتے لیکن جو لوگ خود کو اصحاب علی کہتے ہیں، وہ حضرت عثمان کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں۔ 
(ابن عساکر،39/503)

بعد کے دورمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ گروہ حضرت علی ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کے خلاف زبان درازی کرنے لگا۔  بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مروان بن حکم کی اولاد میں سے جو لوگ خلفاء ہوئے، انہوں نے جمعہ کے خطبوں میں حضرت علی کے خلاف سب و شتم کا آغاز کیا اور اس رسم بد کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ختم کیا۔ لیکن ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ ایسا کرنا، خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا تھا۔ حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے سبھی خلفاء کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات رہے کیونکہ انہوں نے واقعہ حرہ کے موقع پر مروان کے پورے خاندان کو بچایا تھا۔ کیا اس بات کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے والد اور دادا کو گالیاں دینے والوں  کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے؟ یہ بات البتہ ممکن ہے کہ بنو امیہ کے بعض حاشیہ برداروں ، خوشامد پسندوں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں نے ایسی حرکت کی ہو۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ناصبی فرقہ کی تاریخ سے متعلق کچھ تفصیلات مل جائیں لیکن یہ نہیں مل سکی ہیں۔ 

 شہرستانی  (d. 578/1182)، جنہوں نے اپنے زمانے کے فرقوں کے تعارف اور تاریخ پر ایک عظیم کتاب ’’الملل والنهل‘‘ لکھی تھی، نے بھی اس کتاب میں ناصبیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناصبی کوئی منظم فرقہ نہیں رہا بلکہ یہ محض ایک رجحان تھا  جو بعض لوگوں میں جاری رہا۔ جب بنو عباس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کیا تو ان کے  حامیوں کو بھی قتل کیا۔ اس میں ناصبی فرقہ بھی مٹ کر رہ گیا۔  بعد کی صدیوں میں ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے تاہم یہ منظم نہیں ہو سکے۔ ابن کثیر نے اپنے زمانے (آٹھویں صدی ہجری) کے بعض لوگوں کا ذکر کیا  ہے جو سانحہ کربلا کی یاد میں دس محرم کو جشن منایا کرتے تھے۔ بہرحال امت میں ان لوگوں کو کبھی قبول عام حاصل نہیں ہوا اور انہیں نفرت کی نگاہ ہی سے دیکھا گیا ہے۔ اس وجہ سے یہ گروہ  کبھی کھل کر سامنے نہیں آ سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بعض لوگوں کا انفرادی رجحان ہے۔ موجودہ دور میں بھی بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مگر ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اہل تشیع کے نزدیک ’’ناصبیت‘‘ کی تعریف کچھ مختلف ہے۔ اگر مثلاً انٹرنیٹ پر ناصبی، نواصب، ناصبیت  قسم کے الفاظ عربی اور اردو میں سرچ کیے جائیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک تمام اہل سنت ناصبی ہیں۔  ہر وہ شخص جو حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھتا ہو، ان کے نزدیک ناصبی میں شمار ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اہل تشیع کے معتدل لوگوں کا موقف اس سلسلے میں مختلف ہو تاہم ان کے متشدد لوگوں کا موقف یہی معلوم ہوتا ہے۔

((آج کے آخری تاریخی سلسلہ کا خلاصہ))

·  امت مسلمہ کی پہلی صدی کا زیادہ حصہ جنگوں میں نہیں، بلکہ حالت امن میں گزرا ہے۔یہ محض اخباریوں کا رجحان ہے کہ وہ جنگ کی خبروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

· خلافت اگرچہ ملوکیت میں تبدیل ہو گئی تاہم یہ ملوکیت، مطلق آمریت (Absolute Dictatorship) نہیں تھی۔ بنو امیہ، بنو عباس اور بنو عثمان کے اکثر حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانوں میں بڑی حد تک خلافت راشدہ  کے کردار کو زندہ رکھا۔

·باغی تحریک کا خارجی گروپ جلد ہی ختم ہو گیا تاہم دوسرا گروپ باقی رہا اور بغاوتیں برپا کرتا رہا۔  اس مقصد کے لیے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان کے نام کو دل کھول کر استعمال کیا۔

·ناصبی فرقہ، ایک رجحان کا نام ہے جو بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض میں اختیار کر لیا تھا۔

_________&__$________

*صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تاریخ پر اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات کا جواب  ہم نے تسلی بخش دے دیا ہے الحمدللہ اسکے ساتھ ہی ہمارا یہ جمعہ کے دن کا تاریخی سلسلہ اختتام کو پہنچتا ہے،*

جلد ہی اس تاریخی سلسلے کو ہم ایک پی ڈی ایف کتاب کی شکل میں دوستوں ساتھ شئیر کریں گے،

نوٹ_
(واضح رہے ہمارے ان تاریخی سلسلوں کا زیادہ تر کریڈٹ استاد محترم مبشر نذیر صاحب کو جاتا ہے، اللہ پاک انکو سلامت رکھیں، آباد رکھیں، آمین ثم آمین )

 (واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS