Aazab-E-Qaber HAque Hai
عذاب ِقبر حق ہے ┈┈┈┈ پارٹ 1
عذا ب قبر حق ہے۔ قرآن کریم، احادیث متواترہ اور اجماع امت اس کی دلیل ہے، جب کہ ائمہ سلف کی تصریحات اس پر شاہد ہیں، ہدایت قرآن و حدیث کی پیروی کا نام ہے۔ ائمہ سلف اسی پر گامزن تھے۔ سلف کی مخالفت در حقیقت ہوائے نفس کی پیروی ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَا ہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ . (القَصَص : ٥٠)
”جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت چھوڑ کر ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے، اس سے بڑا گمراہ کون ہوگا۔”
شیخ الاسلا م، امام اہل سنت، محمد بن مسلم بن شہاب زہری رحمہ اللہ (م : ١٢٥ھ) فرماتے ہیں:
مِنَ اللّٰہِ الْعِلْمُ وَعَلَی الرَّسُولِ الْبَلَاغُ .
”علم اللہ کی طرف سے ہے اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تبلیغ ہے۔”
(الجامع لأخلاق الراوي للخطیب : ١/١١ح : ١٣٣٣، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (٧٣١۔٧٩٢ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذَا کَلَامٌ جَامِعٌ نَّافِعٌ .
”یہ انتہائی جامع اور نفع مند کلام ہے۔”
(شرح عقیدہ الطحاویۃ : ٢١٩)
1 امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ (١٥٠۔٢٠٤ھ) فرماتے ہیں:
وَأَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ وِّمَسْأَلَۃُ أَہْلِ الْقُبُورِحَقٌّ .
”عذاب قبر حق ہے، قبر میں سوال وجوا ب بھی حق ہے۔”
(مَناقب الشافعي للبَیْہَقِي : ١/٤١٥)
2 شیخ الاسلام امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (١٦٤۔٢٤١ھ) فرماتے ہیں:
عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ لَا یُنْکِرُہ، إِلَّا ضَالٌّ أَوْ مُضِلٌّ .
”عذاب قبر حق ہے۔ اس کا انکار کوئی گمراہ اور گمراہ گر ہی کر سکتا ہے۔”
(الروح لابن القیم الجوزیۃ، ص : ٥٧)
3 علامہ ابو بکر بن مجاہد رحمہ اللہ (م : ٣٦٦ھ) فرماتے ہیں:
أَجْمَعَ أَہْلُ السُّنَّۃِ أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَأَنَّ النَّاسَ یُفْتَنُونَ فِي قُبُورِہِمْ بَّعْدَ أَنْ یُحْیَوْا فِیہَا وَیُسْأَلُوا فِیہَا، وَیُثَبِّتُ اللّٰہُ مَنْ أَحَبَّ تَثْبِیتَہ، مِنْہُمْ .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذا ب قبر حق ہے۔ انسان قبروں میں زندہ کئے جانے کے بعد، سوال و جواب کی آزمائش سے گزارے جائیں گے، پھراللہ جسے اللہ چاہیں گے، ثابت قدم رکھیں گے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بَطّال : ١٠/١٥٤)
امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ (م : ٢٨٧ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي الْمُسَائَلَۃِ أَخْبَارٌ ثَابِتَۃٌ، وَالْـأَخْبَارُ الَّتِي فِي الْمُسَائَلَۃِ فِي الْقَبْرِ مُنْکَرٌ وَّنَکِیرٌ أَخْبَارٌ ثَابِتَۃٌ تُوجِبُ الْعِلْمَ .
”قبر میں منکر نکیرکے سوال و جواب کے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں۔ یہ علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔”
(السّنّۃ : ٢/٣٩٥)
مورخ اسلام ،محدث کبیر الشان، امام ابو جعفر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠) لکھتے ہیں:
…تَظَاہُرُ الْـأَخْبَارِ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٖ، مَعَ جَوَازِہٖ فِي الْعَقْلِ وَصِحَّتِہٖ فِیہِ، وَذٰلِکَ أَنَّ الْحَیَاۃَ مَعْنیً وَالْـآلَامَ وَاللَّذَّاتِ وَالْمَعْلُومَ مَعَانٍ غَیْرُہ، وَغَیْرُ مُسْتَحِیلٍ وُّجُودُ الْحَیَاۃِ مَعَ فَقْدِ ہٰذِہِ الْمَعَانِي، وَوُجُودُ ہٰذِہِ الْمَعَانِي مَعَ فَقْدِ الْحَیَاۃِ، لَا فَرْقَ بَیْنَ ذٰلِکَ .
”عذاب قبر کی وضاحت احادیث سے ہوتی ہے،عقل بھی اسے درست تسلیم کرتی ہے،یہ زندگی معنوی چیز ہے اور تکالیف و لذات اور معلومات وغیرہ بھی معنوی چیزیں ہیں، جو زندگی کے علاوہ ہیں۔ ان کے بغیر زندگی کا اور زندگی کے بغیر ان کا وجود ناممکن نہیں۔”
(التبصیر في معالم الدین، ص : ٢١٣)
امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ (م : ٣٢١ھ) لکھتے ہیں:
فَکَانَ ہٰذَا الْحَدِیثُ فِیہِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَقَدْ رُوِیَتْ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارٌ بِّاسْتِعَاذَتِہٖ مِنْہُ مُتَوَاتِرَۃٌ .
”اس حدیث سے عذاب قبر کا اثبات ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب ِقبر سے پناہ کے بارے متواتر احادیث آئی ہیں۔”
(شرح مشکل الآثار : ١٣/٩٨)
4 ابو عثمان بن حداد رحمہ اللہ (٢١٩۔٣٠٢ھ) فرماتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَنْکَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ وَالْـأَصَمُّ وَضِرَارٌ .
”عذاب قبر کا انکار بشر مریسی، اصم اور ضرار نے کیا ہے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بَطَّال : ١٠/١٥٤)
5 قاضی ابو بکر باقلانی رحمہ اللہ (م : ٤٠٣ھ) وغیرہ کہتے ہیں:
قَدْ وَرَدَ الْقُرْآنُ بِتَصْدِیقِ الْـأَخْبَارِ الْوَارِدَۃِ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ تَعَالٰی : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (غافر : ٤٦) وَقَدِ اتَّفَقَ الْمَسْلِمُونَ أَنَّہ، لَا غُدْوَۃَ وَلَا عَشِيَّ فِي الْـآخِرَۃِ، وَإِنَّمَا ہُمَا فِي الدُّنْیَا، فَہُمْ یُعْرَضُونَ مَمَاتَہُمْ عَلَی النَّارِ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَدْخُلُونَ أَشَدَّ الْعَذَابِ، قَالَ تَعَالٰی : (وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ)
(غافِر:٤٦)
”قرآن میں عذاب قبر سے متعلق روایات کی تصدیق موجود ہے، اللہ فرماتے ہیں:(اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) ‘یہ لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ مسلمان متفق ہیں کہ آخرت میں دن ہوگا نہ رات، تو اس سے ثابت ہو اکہ دن رات جو عذا ب ان پر پیش کئے جاتے ہیں، وہ آخرت سے پہلے کی دنیا ہے، آخرت کے بارے تو یہ حکم ہے: (وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذََابِ) ‘روز قیامت حکم ہوگا فرعونیوں کو، سخت ترین عذاب سے دوچار کردو۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ١٥٤، ١٥٥)
علامہ، ابوبکر جصاص حنفی رحمہ اللہ (٣٠٥۔٣٧٠) لکھتے ہیں:
وَہٰذَا یُبْطِلُ قَوْلَ مَنْ یُّنْکِرُ عَذَابَ الْقَبْرِ .
”اس سے ثابت ہوا کہ منکرین ِعذاب ِقبر کا مذہب باطل ہے۔”
(أحکا م القرآن للجصّاص : ١/١١٣)
6 علامہ ابومطرف قنازعی رحمہ اللہ (٣٤١۔٤١٣ھ) فرماتے ہیں:
ثُمَّ یُضْرَبُ ضَرْبَۃً تَفْتَرِقُ أَوْصَالُہ،، وَہٰذَا أَصْلٌ صَحِیحٌ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ لَا یَخْتَلِفُونَ فِیہِ، وَمَنْ قَالَ بِخِلاَفِہٖ فَہُو کَاذِبٌ مُُفْتَرٍ .
”پھر فرشتہ اس زور سے مارے گا کہ اس کے جوڑ کھل جائیں گے۔ یہ حدیث باجماع اہل سنت ”صحیح” ہے۔ جو اس کے خلاف کہتا ہے، وہ جھوٹا بہتان باز ہے۔”
(تفسیر الموطّأ، ص : ٢٣٣)
علا مہ ،ابو عمر و دانی (٣٧١۔٤٤٤ھ) کہتے ہیں:
وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْ نَصِّ التَّنْزِیلِ قَوْلُہ، عَزَّ وَجَلَّ : (سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلٰی عَذَابٍ عَظِیمٍ)، یَعْنِي عَذَابَ الدُّنْیَا بِالْقَتْلِ وَغَیْرِہٖ وَعَذَابَ الْقَبْرِ، وَقَوْلُہ، : (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِي الْـآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِینَ) وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْـأَسَانِیدِ الصَّحِیحَۃِ أَنَّہ، قَالَ : نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ .
”قرآن کی یہ آیت : (سُنَعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلٰی عَذَابٍ عَظِیمٍ) ‘ہم انہیں دو ہراعذاب دیں گے، پھر بڑے عذاب سے دوچار کر دیں گے۔’ مراد دنیا میں قتل وغیرہ کا عذاب اور عذاب قبر ہے۔ فرمان ِباری تعالی ہے: (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِي الْـآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِینَ) ‘اللہ ایمان والوں کو دنیا و آخرت میں کلمہ توحید پر قائم رکھے گا اور ظالموں کو پھسلا دے گا۔’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسناد سے ثابت ہے کہ یہ آیت عذاب قبر کے ثبوت میں نازل ہوئی۔”
(الرسالۃ الوافیۃ لمذہب أہل السّنۃ في الاعتقادات وأصول الدیانات : ١/١٩٩)
7 حافظ ِمغرب، ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ الْإِقْرَارُ بِعَذَابِ الْقَبْرِ وَلَا خِلَافَ بَیْنَ أَہْلِ
السُّنَّۃِ فِي جَوَازِ تَصْحِیحِہٖ وَاعْتِقَادِ ذٰلِکَ وَالْإِیمَانِ بِہٖ .
”اس حدیث میں عذاب ِقبر کا اثبات ہے۔ اہل سنت متفق ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔”
(التمہید لِمَا في الموطّأ من المعاني و الأسانید : ١٢/١٨٦)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ مُصَدِّقُونَ بِفِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ لِتَوَافُرِ الْـأَخْبَارِ بِذٰلِکَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”اہل سنت فتنہ عذاب قبر کو تسلیم کرتے ہیں، کیوں کہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں۔”
(الِاسْتِذْکَا ر : ٢/٣٣٩)
مزید فرماتے ہیں:
فَرَدُّوا الْـأَحَادِیثَ الْمُتَوَاتِرَۃَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَتِہٖ .
”گمراہوں نے عذاب ِقبر اور فتنہ قبر کی متواتر احادیث رد کر دی ہیں۔”
(جامع بَیان العلم وفضلہ : ٢/١٠٥٢)
علامہ سرخسی حنفی (م : ٤٨٣ھ) لکھتے ہیں:
دَلِیلٌ لِّـأَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَلٰی أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ .
”یہ اہل سنت کی دلیل ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔”
(شرح السیر الکبیر، ص : ٨)
8 علامہ مازری رحمہ اللہ (٤٥٣۔٥٣٦ھ) لکھتے ہیں:
عَذَابُ الْقَبْرِ ثَابِتٌ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَقَدْ وَرَدَتْ بِہِ الْـآثَارُ وَقَالَ تَعَالٰی : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ) وقال : (قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ) وَلَا یَبْعُدُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ الْبَارِي الْحَیَاۃَ فِي بَعْضِ أَجْزَاءِ الْجَسَدِ وَلَا یُدْفَعُ ہٰذَا بِالِاسْتِبْعَادِ لِمَا بَیَّنَّاہُ وَلَا بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی (لَا یَذُوقُونَ فِیہَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَۃَ الْـأُولٰی) لِـأَنَّہ، یَحْتَمِلُ أَنْ یُّرِیدَ الْمَوْتَۃَ الَّتِي فِیہَا جُرَعٌ وَّغُصَصٌ، وَّمَوْتَۃُ الْقَبْرِ لَیْسَتْ کَذٰلِکَ وَیَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنْ یُّرِیدَ جِنْسَ الْمَوْتِ وَلَمْ یُرِدْ مَوتَۃً وَّاحِدۃً وَّإِذَا احْتَمَلَ لَمْ یُرَدَّ بِہٖ مَا قَدَّمْنَاہُ مِنَ الظَّوَاہِرِ وَالْـأَخْبَارِ .
”اہل ِسنت کا مذہب ہے کہ عذاب ِقبر ثابت ہے۔ بے شمار احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (غافر : ٢٥) ‘وہ صبح و شام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ اسی طرح فرمان ہے : (قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ) ‘کہیں گے : ہمارے رب تو نے ہمیں دو زندگیاں اور دو موتیں دیں۔’ یہ بات عقلا بعید نہیں کہ اللہ تعالی بدن کے بعض اجزاء میں زندگی لوٹا دے، اسے ناممکن کہہ کر ٹھکرایا نہیں جا سکتا، نہ ہی قرآن کی یہ آیت : (لَا یَذُوقُونَ فِیہَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَۃَ الْـأُولٰی) ‘انہیں صرف ایک ہی موت آئے گی۔’ منکرین عذا ب قبر کی دلیل بن سکتی ہے، کیوں کہ اس میں احتمال ہے کہ ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ قبر میں وہ موت نہیں آئے گی، جس میں تکلیف اور غصہ شامل ہو تا ہے۔ اس موت سے جنس موت بھی مراد ہو سکتی ہے، لہٰذا اس محتمل دلیل کی بنا پر واضح احادیث ٹھکرائی نہیں جا سکتیں ۔”
(المعلم بفوائد مسلم : ٣/٣٦٥)
9 علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (٣٨٤۔٤٥٦ھ) لکھتے ہیں:
ذَہَبَ ضِرَارُ بْنُ عَمْرٍو الْغَطَفَانِيُّ أَحَدُ شُیُوخِ الْمُعْتَزِلَۃِ إِلٰی إِنْکَارِعَذَابِ الْقَبْرِ وَہُوَ قَوْلُ مَنْ لَّقِینَا مِنَ الْخَوَارِجِ وَذَہَبَ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَبِشْرُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ وَالْجُبَائِيُّ وَسَائِرُ الْمُعْتَزِلَۃِ إِلٰی الْقَوْلِ بِہٖ وَبِہٖ نَقُولُ لِصِحَّۃِ الْآثَارِ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٖ .
”معتزلی عالم ضرار بن عمرو غطفانی نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے، خوارج بھی یہی کہتے ہیں۔ اہل سنت، بشر بن معتمر، جبائی معتزلی اور معتزلہ عذاب قبر کے قائل ہیں۔ صحیح احادیث نبویہ کی وجہ سے ہم بھی اسی کے قائل ہیں۔”
(الفصل في الملل والأہواء والنّحل : ٤/٥٤۔٥٥)
0 قاضی عیاض رحمہ اللہ (٤٧٦۔٥٤٦ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَّرٰی مِنْ ہٰذَا فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِیہِ أَنَّ الْـأَرْوَاحَ بَاقِیَۃٌ لَّاتَفْنٰی، فََیُنْعَمُ الْمُحْسِنُ وَیُعَذِّبُ الْمُسِيْءُ کَمَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ وَالْـاْثَارِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، خِلَافاً لِّغَیْرِہِمْ مِّنْ أَہْلِ الْبِدَعِ الْقَائِلِینَ بِفَنَائِہَا .
”یہاں عذاب قبر کے بارے میں روایات بھی موجود ہیں۔ انہی روایات میں ہے کہ روح باقی رہتی ہے، کبھی فنا نہیں ہوتی۔ نیکو کار کو نعمتیں اور گنہگار کو عذاب دیا جاتا ہے۔ یہی اہل ِسنت کا مذہب ہے، جب کہ اہل ِبدعت اس کے مخالف ہیں، وہ روح کے فنا کے قائل ہیں۔”
(إکمال المعلم بفوائد مسلم : ٦/٣٠٦)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ تَصْحِیحُ ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ وِإِمْرَارُہَا عَلٰی وَجْہِہَا لِصِحَّۃِ طُرُقِہَا وَقُبُولِ السَّلَفِ لَہَاخِلَافًا لِّجَمِیعِ الْخَوَارِجِ، وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَۃِ، وَبَعْضِ الْمُرْجِئَۃِ؛ إِذْ لَا اسْتِحَالَۃَ فِیہَا وَلَا رَدَّ لِلْعَقْلِ .
”اہل سنت ان احادیث کو صحیح مانتے ہیں اور جس طرح وارد ہوئی ہے، اسی طرح قبول کرتے ہیں، کیوں کہ اس کی اسانیدصحیح ہیں اور سلف نے انہیں قبول کیا ہے۔ خوار ج، اکثر معتزلہ اور بعض مرجیہ عذاب قبر کے قائل نہیں، حالاں کہ اس میں کوئی عقلی بُعد نہیں۔”
(إکمال المعلم بفوئد مسلم : ٨/٤٠١)
قوام السنۃ، ابو قاسم، اسماعیل بن محمد اصبہانی رحمہ اللہ (٤٥٧۔٥٣٥ھ) لکھتے ہیں:
وَأَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَضَغْطَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ .
”عذاب قبر حق ہے اور قبر کا جھٹکا بھی حق ہے۔”
(الحجۃ في بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ أہل السنۃ : ١/٢٤٩)
! علامہ ابوبکر بن العربی (٤٦٨۔٥٤٣ھ) لکھتے ہیں:
فِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ حَقٌّ لَّا رَیْبَ فِیہِ، وَقَدِ اصْطَفَقَتْ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَالدَّلِیلُ عَلَیْہِ الْحَدِیثُ الصَّحِیحُ وَالْقُرْآنُ الْفَصِیحُ أَمَّا الْـأَحَادِیثُ، فَہِيَ کَثِیرَۃٌ لَّا تُحْصٰی، وَأَبْیَنُ وَأَشْہَرُ مِنْ أَنْ تُسْتَقْصٰی .
”اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فتنہ قبر بلا شک و شبہ حق ہے، اہل سنت و الجماعت کا اس پر اجماع ہے۔ ان کے دلائل بے شمار احادیث صحیحہ اور آیات قرآنیہ ہیں۔ احادیث تو لاتعداد، واضح اور مشہور ہیں۔”
(المسالک في شرح الموطّأ : ٣/٢٩٧)
علامہ حسین بن حسین حلیمی رحمہ اللہ (٣٣٨۔٤٠٣ھ) لکھتے ہیں:
وَلَمْ یُعْلَمْ أَہْلُ السُّنَّۃِ خِلَافًا أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ .
”عذاب قبر کو حق ماننے میں اہل سنت کے ہاں کوئی اختلاف معلوم نہیں۔”
(المنہاج في شعب الإیمان : ١/٤٨٩)
محمد بن حسین، ابو عبد الرحمن السلمی رحمہ اللہ (م : ٤١٢ھ) لکھتے ہیں:
أَمَّا الْـأَخْبَارُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ فَبَالِغَۃٌ مَبْلَغَ الِاسْتِفَاضَۃِ .
”عذاب ِقبر کے متعلق روایات حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔”
(فیض القدیر للمناوي : ٥/٣٣٢)
شارح صحیح بخاری، علا مہ ابن بطال (م : ٤٤٩ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، یَجِبُ الْـإِیمَانُ بِہٖ وَالتَّسْلِیمُ لَہ،، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”عذاب قبر حق ہے۔ اس پر ایمان لانا اور اسے درست تسلیم کرنا واجب ہے۔ اہل ِسنت کا یہی مذہب ہے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ١/٣٢٤)
نیز فرماتے ہیں:
وَفِیہِ : أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَأَہْلُ السُّنَّۃِ مُجْمِعُونَ عَلَی الْـإِیمَانِ بِہٖ وَالتَّصْدِیقِ، وَلَا یُنْکِرُہ، إِلَّا مُبْتَدِعٌ .
”اس حدیث کا مستفاد ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ اہل سنت اس پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے پر متفق ہیں۔ اس کا منکر بدعتی ہی ہو سکتا ہے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ٣/٣٨)
علامہ، ابو المظفر اسفرایینی رحمہ اللہ (م : ٤٧١ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَدْ بَلَغَتِ الْـأَخْبَارُ حَدَّ التَّوَاتُرِ فِي الْمَعْنٰی وَإِنْ کَانَ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْہَا لَمْ یَبْلُغْ حَدَّ التَّوَاتُرِ فِي اللَّفْظِ فَأَنْکَرُوا مَا فِي ذٰلِکَ مِنْ نُّصُوصِ الْقُرْآنِ .
”عذاب قبر کی احادیث لفظی تو نہیں، البتہ معنوی تواتر کو ضرور پہنچتی ہیں۔ اہل بدعت نے تو اس بارے نصوص قرآنیہ بھی ٹھکرا دی ہیں۔”
(التبصیر في الدین وتمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفرق الہالکین، ص : ٦٧)
نیز فرماتے ہیں:
وَلَا یُنْکِرُ مَا اسْتَفَاضَ بِہِ الْـأَخْبَارُ وَنَطَقَتْ بِہِ الْآیَاُت مِنَ الْـأَحْیَاءَ فِي الْقَبْرِ إِلَّا مَنْ یُّنْکِرُ عُمُومَ قُدْرَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَنْ أَنْکَرَ عُمُومَ قُدْرَتِہٖ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی کَانَ خَارِجًا عَنْ زُمْرَۃِ أَہْلِ الْإِسْلَامِ .
”قرآنی آیات اور احادیث نبویہ پڑھنے والا قبر میں زندگی دئیے جانے کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے، جو اللہ کو ہر چیز پر قادر نہ مانتا ہو اور جو اللہ کو قادر نہیں مانتا، وہ زمرہ مسلماناں سے خارج ہے۔”
(التبصیر في الدین وتمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفِرَق الہالکین، ص : ١٧٧)
علامہ ابو مظفر سمعانی رحمہ اللہ (٤٢٦۔٤٨٩)لکھتے ہیں:
نَحْنُ إِذَا تَدَبَّرْنَا عَامَّۃَ مَا جَاءَ فِي أَمْرِ الدِّینِ مِنْ ذِکْرِ صِفَاتِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا تَعَبَّدَ النَّاسُ بِہٖ مِنِ اعْتِقَادِہٖ وَکَذٰلِکَ مَا ظَہَرَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ وَتَدَاوَلُوہُ بَیْنَہُمْ وَنَقَلُوہُ عَنْ سَلَفِہِمْ إِلٰی أَنْ أَسْنَدُوہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذِکْرِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَسُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ وَالْحَوْضِ وَالْمِیزَانِ وَالصِّرَاطِ وَصِفَاتِ الْجَنَّۃِ وَصِفَاتِ النَّارِ وَتَخْلِیدِ الْفَرِیقَیْنِ فِیہِمَا أُمُورٌ لَّا نُدْرِکُ حَقَائِقَہَا بِعُقُولِنَا وَإِنَّمَا وَرَدَ الْـأَمْرُ بِقُبُولِہَا وَالْإِیمَانِ بِہَا . فَإِذَا سَمِعْنَا شَیْئًا مِنْ أُمُورِ الدِّینِ وَعَقَلْنَاہُ وَفَہِمْنَاہُ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ فِي ذٰلِکَ وَالشُّکْرُ وَمِنْہُ التَّوْفِیقُ وَمَا لَمْ یُمْکِنَّا إِدْرَاکَہ، وَفَہْمَہ، وََلَمْ تَبْلُغْہُ عُقُولُنَا آمَنَّا بِہٖ وَصَدَّقْنَا وَاعْتَقَدْنَا أَنَّ ہٰذَا مِنْ قِبَلِ رُبُوبِیَّتِہٖ وَقُدْرَتِہٖ وَاکْتَفَیْنَا فِي ذٰلِکَ بِعِلْمِہٖ وَمَشِیئَتِہٖ وَقَالَ تَعَالٰی فِي مِثْلِ ہٰذَا (وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِیتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا) وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (وَلَا یُحِیطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلَّا بِمَا شَائَ) ثُمَّ نَقُولُ لِہٰذَا الْقَائِلِ الَّذِي یَقُولُ بُنِيَ دِینُنَا عَلَی الْعَقْلِ وَأُمِرْنَا بِاتِّبَاعِہٖ أَخْبَرْنَا إِذَا أَتَاکَ أَمْرٌ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی یُخَالِفُ عَقْلَکَ فَبِأَیِّہِمَا تَأْخُذُ بِالَّذِي تَعْقِلُ أَوْ بِالَّذِي تُؤْمَرُ فَإِنْ قَالَ بِالَّذِي أَعْقِلُ فَقَدْ أَخْطَأَ وَتَرَکَ سَبِیلَ الْإِسْلَامِ وَإِنْ قَالَ إِنَّمَا آخُذُ بِالَّذِي جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَقَدْ تَرَکَ قَوْلَہ، وَإِنَّمَا عَلَیْنَا أَنْ نَّقْبَلَ مَا عَقَلْنَاہُ إِیمَانًا وَّتَصْدِیقًا وَّمَا لَمْ نَعْقِلْہُ قَبِلْنَاہُ وَتَسْلِیمًا وَاسْتِسْلَامًا . وَہٰذَا مَعْنٰی قَوْلِ الْقَائِلِ مِنْ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِنَّ الْإِسْلَامَ قَنْطَرَۃٌ لَا تُعْبَرُ إِلَّا بِالتَّسْلِیمِ فَنَسْأَلُ اللّٰہَ التَّوْفِیقَ فِیہِ وَالثُّبَاتَ عَلَیْہِ وَأَنْ یَّتَوَفَّانَا عَلٰی مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَنِّہٖ وَفَضْلِہٖ .
”جب ہم اللہ کی صفات یا اعتقادات میں غور وفکر کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی متفقہ نقل اور متواتر سند سے منقول مسئلہ عذاب ِقبر، سوالات منکر نکیر، حوض، میزان، پل صراط، جنت و جہنم کی صفات اور فریقین کا جنت و جہنم میں ہمیشہ رہنا، ایسے امور ہیں کہ عقل ان کے حقائق کے ادراک سے قاصر ہے، قرآنی حکیم انہیں قبول کرنے اور ان پر ایمان لانے کا کہتا ہے۔ اگر ہم کسی دینی حکم کو سمجھ لیتے ہیں توالحمد للہ، اگر نہ سمجھ پائیں، ہماری عقل قاصر رہ جائے، تو بھی اس پر ایمان و اعتقاد لازم ہے۔ ہم تسلیم کریں گے کہ یہ اس کی شان ربوبیت اور اس کی قدرت ہے، ہمیں اس کا علم ہوا اتنا ہی کافی ہے، اللہ فرماتے ہیں: (وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِیتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلٌ) ‘میرے محبوب! لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے! کہ روح میرے رب کا امر ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔’ اسی طرح فرمان باری تعالی ہے : (وَلَا یُحِیطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلَّا بِمَا شَائَ) ‘یہ صرف اتنا علم رکھتے ہیں، جتنا اللہ نے انہیں دیا ہے۔’ جو کہتا ہے کہ دین کا ہر معاملہ عقل میں آنے والا ہے، ہمیں عقل ہی کے اتباع کا حکم ہے، ہم اس سے سوال کریں گے کہ اگر قرآن و سنت میں کوئی چیز آپ کی عقل کے خلاف آئے تو کیا کریں گے آپ؟ قرآن و سنت مانیں گے یا عقل؟ اگر تو اس نے کہا کہ عقل کی مانوں گا تو یہ اس کی خطا ہو گی ، گویا اسلا م کے راستے کو چھوڑ چکا اور اگر اس نے کہا کہ قرآن و سنت کی مانوں گا تو عر ض کریں گے کہ آپ تو کہتے تھے کہ عقل ہی میزان ہے، اب عقل کو چھوڑا کیوں ؟ ہم پر لازم ہے کہ ہم وہ حکم بھی مانیں، جسے عقل تسلیم کرتی ہے، وہ بھی مانیں، جسے تسلیم نہیں کرتی۔ اہل سنت کا کہنا ہے کہ اسلام پل ہے، اسے عبور کرنا ہے تو تسلیم ورضا کا پیکر بننا ہو گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیںاپنے فضل و احسان سے ملت رسول عربی پر موت نصیب کرے ۔”
(الانتصار لأصحاب الحدیث : ٨١۔٨٣)
علامہ غزالی (٤٥٠۔٥٠٥) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا عَذَابُ الْقَبْرِ فَقَدْ دَلَّتْ عَلَیْہِ قَوَاطِعُ الشَّرْعِ إِذْ تَوَاتَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَنِ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ بِّالِاسْتِعَاذَۃِ مِنْہُ فِي الْـأَدْعِیَۃِ، وَاشْتَہَرَ قَوْلُہ، عِنْدَ الْمُرُورِ بِقَبْرَیْنِ إِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَدَلَّ عَلَیْہِ قَوْلُہ، تَعَالٰی وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءَ الْعَذَابِ . النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا الْـآیَۃَ، وَہُوَ مُمْکِنٌ، فَیَجِبُ التَّصْدِیقُ بِہٖ وَوَجْہُ إِمْکَانِہٖ ظَاہِرٌ، وَإِنَّمَا تُنْکِرُہُ الْمُعْتَزِلَۃُ مِنْ حَیْثُ یَقُولُونَ إِنَّا نَرٰی شَخْصَ الْمَیِّتِ مُشَاہَدَۃً وَّہُوَ غَیْرُ مُعَذَّبٌ وَإِنَّ الْمَیِّتَ رُبَمَا تَفْتَرِسُہُ السِّبَاعُ وَتَأْکُلُہ،، وَہٰذَا ہَوَسٌ؛ أَمَّامُشَاہَدَۃُ الشَّخْصِ فَہُوَ مُشَاہَدَۃٌ لِّظَوَاہِرِ الْجِسْمِ، وَالْمُدْرِکُ لِلْعِقَابِ جُزْءٌ مِّنَ الْقَلْبِ أَوْ مِنَ الْبَاطِنِ کَیْفَ کَانَ وَلَیْسَ مِنْ ضُرُورَۃِ الْعَذَابِ ظُہُورُ حَرَکَۃٍ فِي ظَاہِرِ الْبَدَنِ، بَلِ النَّاظِرُ إِلٰی ظَاہِرِ النَّائِمِ لَا یُشَاہِدُ مَا یُدْرِکُہُ النَّائِمُ مِنَ اللَّذَّۃِ عِنْدَ الِاحْتِلَامِ وَمِنَ الْـأَلَمِ عِنْدِ تَخَیُّلِ الضَّرْبِ وَغَیْرِہٖ، وَلَوِ انْتَبَہَ النَّائِمُ وَأَخْبَرَ عَنْ مُّشَاہَدَاتِہٖ وَآلَامِہٖ وَلَذَّاتِہٖ مَنْ لَّمْ یَجْرِ لَہ، عَہْدٌ بِّالنَّوْمِ لَبَادَرَ إِلَی الْـإِنْکَارِ اغْتِرَاراً بِّسُکُونِ ظَاہِرِ جِسْمِہٖ، کَمُشَاہَدَۃِ إِنْکَارِ الْمُعْتَزِلَۃِ لِعَذَابِ الْقَبْرِ وَأَمَّا الَّذِي تَأْکُلُہُ السِّبَاعُ فَغَایَۃُ مَا فِي الْبَابِ أَنْ یَّکُونَ بَطْنُ السَّبُعِ قَبْرًا، فَإِعَادَۃُ الْحَیَاۃِ إِلٰی جُزْءٍ یُّدْرِکُ الْعَذَابَ مُمْکِنٌ، فَمَا کُلُّ مُتَأَلِّمٍ یُّدْرِکُ الْـأَلَمَ مِنْ جَمِیعِ بَدَنِہٖ، وَأَمَّا سُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فَحَقٌّ، وَالتَّصْدِیقُ بِہٖ وَاجِبٌ لِّوُرُودِ الشَّرْعِ بِہٖ وَإِمْکَانِہٖ .
”عذاب قبر پر شریعت کے قطعی دلائل موجود ہیں، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر سے پناہ کی دعائیں متواتر منقول ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا : انہیں عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ حدیث مشہور ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : (وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ، النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِّیًا) ‘آل فرعون کو برے عذاب نے گھیرلیا، وہ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ ایسا ہونا ممکن ہے اور اس پر ایمان واجب ہے۔ معتزلہ عذاب قبر کے منکر ہیں، کہتے ہیں : ہم میت کو دیکھتے ہیں، ہم نے آج تک مشاہدہ نہیں کیا کہ کسی کو قبر میں عذاب دیا جا رہا ہو، میت کو درندے نوچ لیتے ہیں۔ یہ معتزلہ کا پاگل پن ہے ۔ حالاں کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ جس کا آپ مشاہدہ کرتے ہیں، وہ ظاہری جسم ہے۔ جب کہ عذاب کا تعلق دل اور جسم کے باطنی حصہ سے ہے، تو آپ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ جسم کے اندر عذاب ہو رہا ہو، تو جسم کو حرکت دینے کی حاجت ہی نہیں۔ آپ ظاہری آنکھ سے وہ کچھ نہیں دیکھ سکتے، جو سونے والا خواب میں دیکھتا ہے۔ معتزلہ کو چاہئے کہ جب سونے والا اپنے نیند کے مشاہدے میں احتلام یا تکلیف وغیرہ کی خبر دے، تو انکار کر دیجئے گا کہ ہم نے تو نہیں دیکھا۔ قبر میں مشاہدہ نہیں ہوتا یا درندے کھا لیتے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں اللہ اس کے ہر جزو میں زندگی بھر کر اسے عذاب دے سکتا ہے، منکر نکیر کے سوال و جواب حق ہیں اور ان پر ایمان واجب ہے۔”
(الاقتصاد في الاعتقاد، ص : ١١٧، ١١٨)
علامہ ابو یعلی رحمہ اللہ (م : ٥٢١ھ) لکھتے ہیں:
ثُمَّ الْـإِیمَانُ بِعَذَابِ الْقَبْرِ، وَبِمُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (فَإِنَّ لَہ، مَعِیشَۃً ضَنْکاً)(طہٰ : ٢٤) قَالَ أَصْحَابُ التَّفْسِیرِ عَذَابُ الْقَبْرِ…..مَنْ أَنْکَرَ ذٰلِکَ فَہُوَ کَافِرٌ .
”پھر عذاب قبر اور منکر نکیر پر ایمان بھی واجب ہے، اللہ فرماتے ہیں: (فَإِنَّ لَہ، مَعِیشَۃً ضَنْکًا) ‘اس کی قبر تنگ کر دی جائے گی۔’ مفسرین کہتے ہیں : اس سے مراد عذابِ قبر ہے۔ جو اس کا انکار کرتا ہے، وہ کافر ہے۔”
(الاعتقاد : ٣٢)
ابو الحسین، یحییٰ بن ابی الخیر یمنی شافعی رحمہ اللہ (م : ٥٥٨ھ) لکھتے ہیں:
وَأَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَأَنَّ مَسْأَلَۃَ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فِي الْقَبْرِ حَقٌّ .
”عذاب قبر حق ہے اور قبر میں منکر نکیر کے سوال و جوا ب بھی حق ہیں۔”
(الانتصار في الرد علی المعتزلۃ القدریۃ الأشرار : ١/١٠٠)
$ شارح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ دَلَائِلُ الْکِتَا بِ وَالسُّنَّۃِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) الْـآیَۃَ، تَظَاہَرَتْ بِہِ الْـأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ رِّوَایَۃِ جَمَاعَۃٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ فِي مَوَاطِنَ کَثِیرَۃٍ وَّلَایَمْتَنِعُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ وَیُعَذِّبُہ، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ الشَّرْعُ بِہٖ وَجَبَ قَبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَقَدْ ذَکَرَ مُسْلِمٌ ہُنَا أَحَادِیثَ کَثِیرَۃً فِي إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَسَمَاعِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَوْتَ مَنْ یُعَذَّبُ فِیہِ وَسَمَاعِ الْمَوْتٰی قَرْعَ نِعَالِ دَافِنِیہِمْ وَکَلَامِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِـأَہْلِ الْقَلِیبِ وَقَوْلِہٖ مَا أَنْتُمْ بِّأَسْمَعَ مِنْہُمْ وَسُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ الْمَیِّتَ وَإِقْعَادِہِمَا إِیَّاہُ وَجَوَابِہٖ لَہُمَا وَالْفَسْحِ لَہ، فِي قَبْرِہٖ وَعَرْضِ مَقْعَدِہٖ عَلَیْہِ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ وَسَبَقَ مُعْظَمُ شَرْحِ ہٰذَا فِي کِتَابِ الصَّلَاۃِ وَکِتَابِ الْجَنَائِزِ وَالْمَقْصُودُ أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ کَمَا ذَکَرْنَا خِلَافًا لِّلْخَوَارِجِ وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَۃِ وَبَعْضِ الْمُرْجِئَۃِ .
”اہل سنت عذاب قبر کا اثبات کرتے ہیں۔ اس پر کتا ب و سنت سے واضح دلائل موجود ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں : (النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) ‘وہ صبح و شام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ اثبات عذاب قبر کی روایات بہت سی کتابوں میں بہت سے علاقوں میں موجود صحابہ سے مروی ہیں۔ اللہ بدن کے کسی جزء میں زندگی لٹانے پہ قادر ہے، اس میں کوئی عقلی بُعد نہیں، جب بُعد نہیں اور نصوص شریعت بھی اس کی موید ہیں تو واجب ہوا کہ اثبات عذاب قبر کا عقیدہ رکھا جائے۔ امام مسلم رحمہ اللہ عذاب قبر کے بارے میں بہت سی روایات لائے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحب قبر کی آواز سننا، جب اسے عذاب دیا جا رہا تھا، مردوں کا دفنا نے والوں کے قدموں کی چاپ سننا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل قلیب سے گفتگو کرنا اور فرمانا کہ اب یہ آپ سے زیادہ سن رہے ہیں، فرشتوں کا مرنے والے سے سوال کرنا، اسے بٹھانا، میت کا سوالات کے جوابات دینا، قبر کا کشادہ ہونا، صبح و شام اس کا ٹھکانہ دکھایا جانا، یہ سب کچھ شریعت میں موجود ہے۔ جن پر تفصیلی بحث کتاب الصلاۃ اور کتاب الجنائز میں گزر چکی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عذاب قبر کا اثبات اہل سنت کا مذہب ہے، جب کہ خوارج، اکثر معتزلہ اور بعض مرجیہ اس کے منکر ہیں۔”
(شرح صحیح مسلم ١٧/٢٠٠، ٢٠١)
% علامہ ابن قدامہ مقدسی (٥٤١۔٦٢٠ھ) لکھتے ہیں:
وَعَذَابُ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ حَقٌّ وَّقَدِ اسْتَعَاذَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ، وَأَمَرَ بِہٖ فِي کُلِّ صَلَاۃٍ وَّفِتْنَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَسُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیْرٍ حَقٌّ .
”عذاب قبر اور اس کی نعمتیں حق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر سے پناہ مانگی ہے اور ہر نماز میں پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ فتنہ قبر حق ہے۔ منکر ونکیر کا سوال جواب کرنا حق ہے۔”
(لمعۃ الاعتقاد، ص : ٣١)
^ علامہ مفسر ابو حیان ، اندلسی (٦٥٤۔٧٤٥ھ) لکھتے ہیں:
وَأَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْکَرَّامِیَّۃُ أَثْبَتُوہ، بِلَا خِلَافٍ بَّیْنَہُمْ، إِلَّا أَنَّ أَہْلَ السُّنَّۃِ یَقُولُونَ یَحْیَا الْمَیِِّتُ الْکَافِرُ فَیُعَذَّبُ فِي قَبْرِہٖ، وَالْفَاسِقُ یَجُوزُ أَنْ یُّعَذَّبَ فِي قَبْرِہٖ، وَالْکَرَّامِیَّۃُ تَقُولُ یُعَذَّبُ وَہُوَ مَیِِّتٌ وَّالْـأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ قَدِ اسْتَفَاضَتْ بِعَذَابِ الْقَبْرِ، فَوَجَبَ الْقَوْلُ بِہٖ وَاعْتِقَادُہ، .
”اہل ِسنت اور کرامیہ بلا اختلاف عذاب قبر کا اثبات کرتے ہیں، ہاں! اہل سنت کہتے ہیں کہ کافر کی میت زندہ ہو گی، اسے عذاب دیا جائے گا۔ فاسق کو بھی عذاب ہو سکتا ہے اور کرامیہ کہتے ہیں کہ اسے مردہ حالت ہی میں عذاب دیا جائے گا۔ احادیث صحیحہ سے عذاب قبر کا اثبات ہو تا ہے، اس کا اقرار و اعتقاد واجب ہے۔”
(البحرالمحیط في التفسیر : ١/٢١١)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فَاعْلَمْ أَنَّ مَذْہَبَ سَلَفِ الْـأَمَّۃِ وَأَئِمَّتِہَا أَنَّ الْمَیِّتَ إذَا مَاتَ یَکُونُ فِي نَعِیمٍ أَوْ عَذَابٍ، وَأَنَّ ذٰلِکَ یَحْصُلُ لِرُوحِہٖ وَلِبَدَنِہٖ .
”جان لیجئے! سلف اور ائمہ کا مذہب ہے کہ انسان مرنے کے بعد نعمتوں میں ہوتا ہے یا عذاب میں اور یہ عذاب و نعم روح و بدن دونوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٤/٢٦٦)
& شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذَا کَمَا أَنَّہ، مُقْتَضَی السُّنَّۃِ الصَّحِیحَۃِ فَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ بَیْنَ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”صحیح احادیث اسی کا تقاضہ کرتی ہیں۔ یہ اہل سنت کا اجماعی مذہب ہے۔”
(الروح، ص : ٥٧)
نیز لکھتے ہیں:
فَالْـأَخْبَارُ الْوَارِدَۃُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَالشَّفَاعَۃِ وَالْحَوْضِ وَرُؤْیَۃِ الرَّبِّ تَعَالٰی وَتَکْلِیمِہٖ عِبَادَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَأَحَادِیثُ عُلُوِّہٖ فَوْقَ سَمَاوَاتِہٖ عَلٰی عَرْشِہٖ، وَأَحَادِیثُ إِثْبَاتِ الْعَرْشِ، وَالْـأَحَادِیثُ الْوَارِدَۃُ فِي إِثْبَاتِ الْمَعَادِ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ نَحْوُ ذٰلِکَ مِمَّا یُعْلَمُ بِالِاضْطِرَارِ أَنَّ الرَّسُولَ جَاءَ بِہَا کَمَا یُعْلَمُ بِالِاضْطِرَارِ أَنَّہ، جَاءَ بِالتَّوْحِیدِ وَفَرَائِضِ الْإِسْلَامِ وَأَرْکَانِہٖ، وَجَاءَ بِإِثْبَاتِ الصِّفَاتِ لِلرَّبِّ تَعَالٰی، فَإِنَّہ، مَا مِنْ بَّابٍ مِّنْ ہٰذِہِ الْـأَبْوَابِ إِلَّا وَقَدْ تَوَاتَرَ فِیہِ الْمَعْنَی الْمَقْصُودُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَاتُرًا مَّعْنَوِیًّا لِّنَقْلِ ذٰلِکَ عَنْہُ بِعِبَارَاتٍ مُّتَنَوِّعَۃٍ مِّنْ وُّجُوہٍ مُّتَعَدِّدَۃٍ یَّمْتَنِعُ فِي مِثْلِہَا فِي الْعَادَۃِ التَّوَاطُؤُ عَلَی الْکَذِبِ عَمْدًا أَوْ سَہْوًا، وَإِذَا کَانَتِ الْعَادَۃُ الْعَامَّۃُ وَالْخَاصَّۃُ الْمَعْہُودَۃُ مِنْ حَالِ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ وَخَلَفِہَا تَمْنَعُ
التَّوَاطُؤَ عَلَی الِاتِّفَاقِ عَلَی الْکَذِبِ فِي ہٰذِہِ الْـأَخْبَارِ، وَیَمْتَنِعُ فِي الْعَادَۃِ وُقُوعُ الْغَلَطِ فِیہَا، أَفَادَتِ الْعِلْمَ وَالْیَقِینَ .
”عذاب قبر، حوض، شفاعت، جنت میں رؤیت خدا وندی، اللہ کا بندوں سے کلام کرنا، احادیث علو، اللہ کا آسمانوں پر بلند ہونا، اثبات ِعرش اورجنت و جہنم وغیرہ کی احادیث، ان احادیث میں سے ہیں، جن کے متعلق یہ یقین ہو کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین عالیہ ہیں، جیسا کہ یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم توحید، فرائض اسلام، ارکان اسلام اور اثبات صفات کرنے کے لیے تشریف لائے۔ ان میں سے ہر مسئلہ میں مروی احادیث متواتر معنوی کے درجہ کی ہیں، کیوں کہ یہ مختلف متون اور متنوع اسانید و طرق سے وارد ہوئی ہیں۔ ایسی صورت میںجان بوجھ کر یا بھولے سے جھوٹ پر متفق ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ جب ایک چیز اتنی عام ہے کہ سلف سے اب تک مسلسل اس پر گفتگو ہو رہی ہے، تو اس صورت میں جھوٹ پر سب کا اتفاق کیسے ہو سکتا ہے؟ اس میں غلطی کا وقوع عادتا محال ہو گا، لہٰذا یہ احادیث علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔”
(مختصر الصواعق المرسلۃ علی الجہمیۃ و المعطلۃ، ص : ٥٤٨)
علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ (٧٤١۔٧٩٢ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ تَّوَاتَرَتِ الْـأَخْبَارُ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي ثُبُوتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ لِمَنْ کَانَ لِذٰلِکَ أَہْلًا، وَسُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ، فَیَجِبُ اعْتِقَادُ ثُبُوتِ ذٰلِکَ وَالْإِیمَانُ بِہٖ، وَلَا یَتَکَلَّمُ فِي کَیْفِیَّتِہٖ، إِذْ لَیْسَ لِلْعَقْلِ وُقُوفٌ عَلٰی کَیْفِیَّتِہٖ، لِکَوْنِہٖ لَا عَہْدَ لَہ، بِہٖ فِي ہٰذِہِ الدَّارِ، وَالشَّرْعُ لَا یَأْتِي بِمَا تُحِیلُہُ الْعُقُولُ، وَلٰکِنَّہ، قَدْ یَأْتِي بِمَا تَحَارُ فِیہِ الْعُقُولُ : فَإِنَّ عَوْدَ الرُّوحِ إِلَی الْجَسَدِ لَیْسَ عَلَی الْوَجْہِ الْمَعْہُودِ فِي الدُّنْیَا، بَلْ تُعَادُ الرُّوحُ إِلَیْہِ إِعَادَۃً غَیْرَ الْإِعَادَۃِ الْمَأْلُوفَۃِ فِي الدُّنْیَا .
”قبر میں عذاب و ثواب اور فرشتوں کے سوال و جواب کے ثبوت پرمتواتر احادیث موجود ہیں۔ انہیں ثابت سمجھنا اور ایمان لانا واجب ہے۔ اس کی کیفیت نہیں پوچھی جائے گی۔ عقل اس کے ادراک سے قاصر ہے، کیوں کہ یہ عقل کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ شریعت کا کوئی حکم خلاف عقل نہیں، لیکن شریعت بعض ایسی چیزیں ضرور بیان کرتی ہے، جن سے عقل حیران ہو جاتی ہے۔ قبر میں روح لوٹائے جانے کی کیفیت دنیا جیسی نہیں، بل کہ اس کی اپنی ایک خاص ہیئت ہے۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص : ٣٩٩)
نیز فرماتے ہیں:
وَذَہَبَ إِلٰی مُوجَبِ ہٰذَا الْحَدِیثِ جَمِیعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَدِیثِ، وَلَہ، شَوَاہِدُ مِنَ الصَّحِیحِ .
”اس حدیث (اثبات عذاب قبر) کو تمام اہل سنت و الحدیث مانتے ہیں۔ صحیح احادیث میں اس کے شواہد بھی موجو د ہیں۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص : ٣٩٨)
نیز لکھتے ہیں:
وَلَیْسَ السُّؤَالُ فِي الْقَبْرِ لِلرُّوحِ وَحْدَہَا، کَمَا قَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَّغَیْرُہ،، وَأَفْسَدُ مِنْہُ قَوْلُ مَنْ قَالَ إِنَّہ، لِلْبَدَنِ بِلَا رُوحٍ وَّالْـأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ تَرُدُّ الْقَوْلَیْنِ وَکَذٰلِکَ عَذَابُ الْقَبْرِ یَکُونُ لِلنَّفْسِ وَالْبَدَنِ جَمِیعًا، بِاتِّفَاقِ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، تَنْعَمُ النَّفْسُ وَتُعَذَّبُ مُفْرَدَۃً عَنِ الْبَدَنِ وَمُتَّصِلَۃً بِّہٖ . وَاعْلَمْ أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ ہُوَ عَذَابُ الْبَرْزَخِ، فَکُلُّ مَنْ مَّاتَ وَہُوَ مُسْتَحِقٌّ لِّلْعَذَابِ نَالَہ، نَصِیبُہ، مِنْہُ، قُبِرَ أَوْ لَمْ یُقْبَرْ، أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ أَوِ احْتَرَقَ حَتّٰی صَارَ رَمَادًا وَُنُسِفَ فِي الْہَوَائِ، أَوْ صُلِبَ أَوْ غَرِقَ فِي الْبَحْرِ وَصَلَ إِلٰی رُوحِہٖ وَبَدَنِہٖ مِنَ الْعَذَابِ مَا یَصِلُ إِلَی الْمَقْبُورِ وَمَا وَرَدَ مِنْ إِجْلَاسِہٖ وَاخْتِلَافِ أَضْلَاعِہٖ وَنَحْوِ ذٰلِکَ فَیَجِبُ أَنْ یُّفْہَمَ عَنِ الرَّسُولِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرَادُہ، مِنْ غَیْرِغُلُوٍّ وَّلَا تَقْصِیرٍ، فَلَا یُحَمَّلُ کَلَامُہ، مَا لَا یَحْتَمِلُہ،، وَلَا یُقَصَّرُ بِہٖ عَنْ مُّرَادِہٖ وَمَا قَصَدَہ، مِنَ الْہُدٰی وَالْبَیَانِ، فَکَمْ حَصَلَ بِإِہْمَالِ ذٰلِکَ وَالْعُدُولِ عَنْہُ مِنَ الضَّلَالِ وَالْعُدُولِ عَنِ الصَّوَابِ مَا لَا یَعْلَمُہ، إِلَّا اللّٰہُ بَلْ سُوءُ الْفَہْمِ عَنِ اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ أَصْلُ کُلِّ بِدْعَۃٍ وَّضَلَالَۃٍ نَّشَأَتْ فِي الْإِسْلَامِ، وَہُوَ أَصْلُ کُلِّ خَطَأٍ فِي الْفُرُوعِ وَالْـأُصُولِ، وَلَا سِیَّمَا إِنْ أُضِیفَ إِلَیْہِ سُوءُ الْقَصْدِ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ . فَالْحَاصِلُ أَنَّ الدُورَ ثَلَاثٌ، دَارُ الدُّنْیَا، وَدَارُ الْبَرْزَخِ، وَدَارُ الْقَرَارِ، وَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ دَارٍ أَحْکَامًا تَخُصُّہَا، وَرَکَّبَ ہٰذَا الْإِنْسَانَ مِنْ بَّدَنٍ وَّنَفْسٍ، وَجَعَلَ أَحْکَامَ الدُّنْیَا عَلَی الْـأَبْدَانِ، وَالْـأَرْوَاحُ تَبَعٌ لَّہَا، وَجَعَلَ أَحْکَامَ الْبَرْزَخِ عَلَی الْـأَرْوَاحِ، وَالْـأَبْدَانُ تَبَعٌ لَّہَا، فَإِذَا جَاءَ یَوْمُ حَشْرِ الْـأَجْسَادِ وَقِیَامِ النَّاسِ مِنْ قُبُورِہِمْ صَارَ الْحُکْمُ وَالنَّعِیمُ وَالْعَذَابُ عَلَی الْـأَرْوَاحِ وَالْـأَجْسَادِ جَمِیعًا فَإِذَا تَأَمَّلْتَ ہٰذَا الْمَعْنٰی حَقَّ التَّأَمُّلِ، ظَہَرَ لَکَ أَنَّ کَوْنَ الْقَبْرِ رَوْضَۃً مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ أَوْ حُفْرَۃً مِّنْ حُفَرِ النَّارِ مُطَابِقٌ لِّلْعَقْلِ، وَأَنَّہ، حَقٌّ لَّا مِرْیَۃَ فِیہِ، وَبِذٰلِکَ یَتَمَیَّزُ الْمُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ مِنْ غَیْرِہِمْ وَیَجِبُ أَنْ یُّعْلَمَ أَنَّ النَّارَ الَّتِي فِي الْقَبْرِ وَالنَّعِیمَ، لَیْسَ مِنْ جِنْسِ نَارِ الدُّنْیَا وَلَا نَعِیمِہَا، وَإِنْ کَانَ اللّٰہُ تَعَالٰی یَحْمِي عَلَیْہِ التُّرَابَ وَالْحِجَارَۃَ الَّتِي فَوْقَہ، وَتَحْتَہ، حَتّٰی یَکُونَ أَعْظَمَ حَرًّا مِّنْ جَمْرِ الدُّنْیَا، وَلَوْ مَسَّہَا أَہْلُ الدُّنْیَا لَمْ یُحِسُّوا بِہَا بَلْ أَعْجَبُ مِنْ ہٰذَا أَنَّ الرَّجُلَیْنِ یُدْفَنُ أَحَدُہُمَا إِلٰی جَنْبِ صَاحِبِہٖ، وَہٰذَا فِي حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ، وَہٰذَا فِي رَوْضَۃٍ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ . لَا یَصِلُ مِنْ ہٰذَا إِلٰی جَارِہٖ شَيْءٌ مِّنْ حَرِّ نَارِہٖ، وَلَا مِنْ ہٰذَا إِلٰی جَارِہٖ شَيْءٌ مِّنْ نَعِیمِہٖ، وَقُدْرَۃُ اللّٰہِ أَوْسَعُ مِنْ ذٰلِکَ وَأَعْجَبُ، وَلٰکِنَّ النُّفُوسَ مُولَعَۃٌ بِّالتَّکْذِیبِ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ عِلْمًا وَّقَدْ أَرَانَا اللّٰہُ فِي ہٰذِہِ الدَّارِ مِنْ عَجَائِبِ قُدْرَتِہٖ مَا ہُوَ أَبْلَغُ مِنْ ہٰذَا بِکَثِیرٍ وَّإِذَا شَاءَ اللَّہُ أَنْ یُّطْلِعَ عَلٰی ذٰلِکَ بَعْضَ عِبَادِہٖ أَطْلَعَہ، وَغَیَّبَہ، عَنْ غَیْرِہٖ، وَلَوْ أَطْلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْعِبَادَ کُلَّہُمْ لَزَالَتْ حِکْمَۃُ التَّکْلِیفِ وَالْإِیمَانِ بِالْغَیْبِ، وَلَمَا تَدَافَنَ النَّاسُ، کَمَا فِي الصَّحِیحِ عَنْہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنْ لَّا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَا أَسْمَعُ ......جاری ہے
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلةالشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه