find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Aazab-E-Qaber Haque Hai. (Part 1)

Aazab-E-Qaber HAque Hai

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
عذاب ِقبر حق ہے ┈┈┈┈ پارٹ 1
عذا ب قبر حق ہے۔ قرآن کریم، احادیث متواترہ اور اجماع امت اس کی دلیل ہے، جب کہ ائمہ سلف کی تصریحات اس پر شاہد ہیں، ہدایت قرآن و حدیث کی پیروی کا نام ہے۔ ائمہ سلف اسی پر گامزن تھے۔ سلف کی مخالفت در حقیقت ہوائے نفس کی پیروی ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَا ہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ . (القَصَص : ٥٠)
”جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت چھوڑ کر ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے، اس سے بڑا گمراہ کون ہوگا۔”
شیخ الاسلا م، امام اہل سنت، محمد بن مسلم بن شہاب زہری رحمہ اللہ (م : ١٢٥ھ) فرماتے ہیں:
مِنَ اللّٰہِ الْعِلْمُ وَعَلَی الرَّسُولِ الْبَلَاغُ .
”علم اللہ کی طرف سے ہے اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تبلیغ ہے۔”
(الجامع لأخلاق الراوي للخطیب : ١/١١ح : ١٣٣٣، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (٧٣١۔٧٩٢ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذَا کَلَامٌ جَامِعٌ نَّافِعٌ .
”یہ انتہائی جامع اور نفع مند کلام ہے۔”
(شرح عقیدہ الطحاویۃ : ٢١٩)
1 امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ (١٥٠۔٢٠٤ھ) فرماتے ہیں:
وَأَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ وِّمَسْأَلَۃُ أَہْلِ الْقُبُورِحَقٌّ .
”عذاب قبر حق ہے، قبر میں سوال وجوا ب بھی حق ہے۔”
(مَناقب الشافعي للبَیْہَقِي : ١/٤١٥)
2 شیخ الاسلام امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (١٦٤۔٢٤١ھ) فرماتے ہیں:
عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ لَا یُنْکِرُہ، إِلَّا ضَالٌّ أَوْ مُضِلٌّ .
”عذاب قبر حق ہے۔ اس کا انکار کوئی گمراہ اور گمراہ گر ہی کر سکتا ہے۔”
(الروح لابن القیم الجوزیۃ، ص : ٥٧)
3 علامہ ابو بکر بن مجاہد رحمہ اللہ (م : ٣٦٦ھ) فرماتے ہیں:
أَجْمَعَ أَہْلُ السُّنَّۃِ أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَأَنَّ النَّاسَ یُفْتَنُونَ فِي قُبُورِہِمْ بَّعْدَ أَنْ یُحْیَوْا فِیہَا وَیُسْأَلُوا فِیہَا، وَیُثَبِّتُ اللّٰہُ مَنْ أَحَبَّ تَثْبِیتَہ، مِنْہُمْ .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذا ب قبر حق ہے۔ انسان قبروں میں زندہ کئے جانے کے بعد، سوال و جواب کی آزمائش سے گزارے جائیں گے، پھراللہ جسے اللہ چاہیں گے، ثابت قدم رکھیں گے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بَطّال : ١٠/١٥٤)
امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ (م : ٢٨٧ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي الْمُسَائَلَۃِ أَخْبَارٌ ثَابِتَۃٌ، وَالْـأَخْبَارُ الَّتِي فِي الْمُسَائَلَۃِ فِي الْقَبْرِ مُنْکَرٌ وَّنَکِیرٌ أَخْبَارٌ ثَابِتَۃٌ تُوجِبُ الْعِلْمَ .
”قبر میں منکر نکیرکے سوال و جواب کے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں۔ یہ علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔”
(السّنّۃ : ٢/٣٩٥)
مورخ اسلام ،محدث کبیر الشان، امام ابو جعفر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠) لکھتے ہیں:
…تَظَاہُرُ الْـأَخْبَارِ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٖ، مَعَ جَوَازِہٖ فِي الْعَقْلِ وَصِحَّتِہٖ فِیہِ، وَذٰلِکَ أَنَّ الْحَیَاۃَ مَعْنیً وَالْـآلَامَ وَاللَّذَّاتِ وَالْمَعْلُومَ مَعَانٍ غَیْرُہ، وَغَیْرُ مُسْتَحِیلٍ وُّجُودُ الْحَیَاۃِ مَعَ فَقْدِ ہٰذِہِ الْمَعَانِي، وَوُجُودُ ہٰذِہِ الْمَعَانِي مَعَ فَقْدِ الْحَیَاۃِ، لَا فَرْقَ بَیْنَ ذٰلِکَ .
”عذاب قبر کی وضاحت احادیث سے ہوتی ہے،عقل بھی اسے درست تسلیم کرتی ہے،یہ زندگی معنوی چیز ہے اور تکالیف و لذات اور معلومات وغیرہ بھی معنوی چیزیں ہیں، جو زندگی کے علاوہ ہیں۔ ان کے بغیر زندگی کا اور زندگی کے بغیر ان کا وجود ناممکن نہیں۔”
(التبصیر في معالم الدین، ص : ٢١٣)
امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ (م : ٣٢١ھ) لکھتے ہیں:
فَکَانَ ہٰذَا الْحَدِیثُ فِیہِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَقَدْ رُوِیَتْ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارٌ بِّاسْتِعَاذَتِہٖ مِنْہُ مُتَوَاتِرَۃٌ .
”اس حدیث سے عذاب قبر کا اثبات ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب ِقبر سے پناہ کے بارے متواتر احادیث آئی ہیں۔”
(شرح مشکل الآثار : ١٣/٩٨)
4 ابو عثمان بن حداد رحمہ اللہ (٢١٩۔٣٠٢ھ) فرماتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَنْکَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ وَالْـأَصَمُّ وَضِرَارٌ .
”عذاب قبر کا انکار بشر مریسی، اصم اور ضرار نے کیا ہے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بَطَّال : ١٠/١٥٤)
5 قاضی ابو بکر باقلانی رحمہ اللہ (م : ٤٠٣ھ) وغیرہ کہتے ہیں:
قَدْ وَرَدَ الْقُرْآنُ بِتَصْدِیقِ الْـأَخْبَارِ الْوَارِدَۃِ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ تَعَالٰی : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (غافر : ٤٦) وَقَدِ اتَّفَقَ الْمَسْلِمُونَ أَنَّہ، لَا غُدْوَۃَ وَلَا عَشِيَّ فِي الْـآخِرَۃِ، وَإِنَّمَا ہُمَا فِي الدُّنْیَا، فَہُمْ یُعْرَضُونَ مَمَاتَہُمْ عَلَی النَّارِ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَدْخُلُونَ أَشَدَّ الْعَذَابِ، قَالَ تَعَالٰی : (وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ)
(غافِر:٤٦)
”قرآن میں عذاب قبر سے متعلق روایات کی تصدیق موجود ہے، اللہ فرماتے ہیں:(اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) ‘یہ لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ مسلمان متفق ہیں کہ آخرت میں دن ہوگا نہ رات، تو اس سے ثابت ہو اکہ دن رات جو عذا ب ان پر پیش کئے جاتے ہیں، وہ آخرت سے پہلے کی دنیا ہے، آخرت کے بارے تو یہ حکم ہے: (وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذََابِ) ‘روز قیامت حکم ہوگا فرعونیوں کو، سخت ترین عذاب سے دوچار کردو۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ١٥٤، ١٥٥)
علامہ، ابوبکر جصاص حنفی رحمہ اللہ (٣٠٥۔٣٧٠) لکھتے ہیں:
وَہٰذَا یُبْطِلُ قَوْلَ مَنْ یُّنْکِرُ عَذَابَ الْقَبْرِ .
”اس سے ثابت ہوا کہ منکرین ِعذاب ِقبر کا مذہب باطل ہے۔”
(أحکا م القرآن للجصّاص : ١/١١٣)
6 علامہ ابومطرف قنازعی رحمہ اللہ (٣٤١۔٤١٣ھ) فرماتے ہیں:
ثُمَّ یُضْرَبُ ضَرْبَۃً تَفْتَرِقُ أَوْصَالُہ،، وَہٰذَا أَصْلٌ صَحِیحٌ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ لَا یَخْتَلِفُونَ فِیہِ، وَمَنْ قَالَ بِخِلاَفِہٖ فَہُو کَاذِبٌ مُُفْتَرٍ .
”پھر فرشتہ اس زور سے مارے گا کہ اس کے جوڑ کھل جائیں گے۔ یہ حدیث باجماع اہل سنت ”صحیح” ہے۔ جو اس کے خلاف کہتا ہے، وہ جھوٹا بہتان باز ہے۔”
(تفسیر الموطّأ، ص : ٢٣٣)
علا مہ ،ابو عمر و دانی (٣٧١۔٤٤٤ھ) کہتے ہیں:
وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْ نَصِّ التَّنْزِیلِ قَوْلُہ، عَزَّ وَجَلَّ : (سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلٰی عَذَابٍ عَظِیمٍ)، یَعْنِي عَذَابَ الدُّنْیَا بِالْقَتْلِ وَغَیْرِہٖ وَعَذَابَ الْقَبْرِ، وَقَوْلُہ، : (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِي الْـآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِینَ) وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْـأَسَانِیدِ الصَّحِیحَۃِ أَنَّہ، قَالَ : نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ .
”قرآن کی یہ آیت : (سُنَعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلٰی عَذَابٍ عَظِیمٍ) ‘ہم انہیں دو ہراعذاب دیں گے، پھر بڑے عذاب سے دوچار کر دیں گے۔’ مراد دنیا میں قتل وغیرہ کا عذاب اور عذاب قبر ہے۔ فرمان ِباری تعالی ہے: (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِي الْـآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِینَ) ‘اللہ ایمان والوں کو دنیا و آخرت میں کلمہ توحید پر قائم رکھے گا اور ظالموں کو پھسلا دے گا۔’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسناد سے ثابت ہے کہ یہ آیت عذاب قبر کے ثبوت میں نازل ہوئی۔”
(الرسالۃ الوافیۃ لمذہب أہل السّنۃ في الاعتقادات وأصول الدیانات : ١/١٩٩)
7 حافظ ِمغرب، ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ الْإِقْرَارُ بِعَذَابِ الْقَبْرِ وَلَا خِلَافَ بَیْنَ أَہْلِ
السُّنَّۃِ فِي جَوَازِ تَصْحِیحِہٖ وَاعْتِقَادِ ذٰلِکَ وَالْإِیمَانِ بِہٖ .
”اس حدیث میں عذاب ِقبر کا اثبات ہے۔ اہل سنت متفق ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔”
(التمہید لِمَا في الموطّأ من المعاني و الأسانید : ١٢/١٨٦)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ مُصَدِّقُونَ بِفِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ لِتَوَافُرِ الْـأَخْبَارِ بِذٰلِکَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”اہل سنت فتنہ عذاب قبر کو تسلیم کرتے ہیں، کیوں کہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں۔”
(الِاسْتِذْکَا ر : ٢/٣٣٩)
مزید فرماتے ہیں:
فَرَدُّوا الْـأَحَادِیثَ الْمُتَوَاتِرَۃَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَتِہٖ .
”گمراہوں نے عذاب ِقبر اور فتنہ قبر کی متواتر احادیث رد کر دی ہیں۔”
(جامع بَیان العلم وفضلہ : ٢/١٠٥٢)
علامہ سرخسی حنفی (م : ٤٨٣ھ) لکھتے ہیں:
دَلِیلٌ لِّـأَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَلٰی أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ .
”یہ اہل سنت کی دلیل ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔”
(شرح السیر الکبیر، ص : ٨)
8 علامہ مازری رحمہ اللہ (٤٥٣۔٥٣٦ھ) لکھتے ہیں:
عَذَابُ الْقَبْرِ ثَابِتٌ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَقَدْ وَرَدَتْ بِہِ الْـآثَارُ وَقَالَ تَعَالٰی : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ) وقال : (قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ) وَلَا یَبْعُدُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ الْبَارِي الْحَیَاۃَ فِي بَعْضِ أَجْزَاءِ الْجَسَدِ وَلَا یُدْفَعُ ہٰذَا بِالِاسْتِبْعَادِ لِمَا بَیَّنَّاہُ وَلَا بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی (لَا یَذُوقُونَ فِیہَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَۃَ الْـأُولٰی) لِـأَنَّہ، یَحْتَمِلُ أَنْ یُّرِیدَ الْمَوْتَۃَ الَّتِي فِیہَا جُرَعٌ وَّغُصَصٌ، وَّمَوْتَۃُ الْقَبْرِ لَیْسَتْ کَذٰلِکَ وَیَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنْ یُّرِیدَ جِنْسَ الْمَوْتِ وَلَمْ یُرِدْ مَوتَۃً وَّاحِدۃً وَّإِذَا احْتَمَلَ لَمْ یُرَدَّ بِہٖ مَا قَدَّمْنَاہُ مِنَ الظَّوَاہِرِ وَالْـأَخْبَارِ .
”اہل ِسنت کا مذہب ہے کہ عذاب ِقبر ثابت ہے۔ بے شمار احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (غافر : ٢٥) ‘وہ صبح و شام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ اسی طرح فرمان ہے : (قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ) ‘کہیں گے : ہمارے رب تو نے ہمیں دو زندگیاں اور دو موتیں دیں۔’ یہ بات عقلا بعید نہیں کہ اللہ تعالی بدن کے بعض اجزاء میں زندگی لوٹا دے، اسے ناممکن کہہ کر ٹھکرایا نہیں جا سکتا، نہ ہی قرآن کی یہ آیت : (لَا یَذُوقُونَ فِیہَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَۃَ الْـأُولٰی) ‘انہیں صرف ایک ہی موت آئے گی۔’ منکرین عذا ب قبر کی دلیل بن سکتی ہے، کیوں کہ اس میں احتمال ہے کہ ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ قبر میں وہ موت نہیں آئے گی، جس میں تکلیف اور غصہ شامل ہو تا ہے۔ اس موت سے جنس موت بھی مراد ہو سکتی ہے، لہٰذا اس محتمل دلیل کی بنا پر واضح احادیث ٹھکرائی نہیں جا سکتیں ۔”
(المعلم بفوائد مسلم : ٣/٣٦٥)
9 علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (٣٨٤۔٤٥٦ھ) لکھتے ہیں:
ذَہَبَ ضِرَارُ بْنُ عَمْرٍو الْغَطَفَانِيُّ أَحَدُ شُیُوخِ الْمُعْتَزِلَۃِ إِلٰی إِنْکَارِعَذَابِ الْقَبْرِ وَہُوَ قَوْلُ مَنْ لَّقِینَا مِنَ الْخَوَارِجِ وَذَہَبَ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَبِشْرُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ وَالْجُبَائِيُّ وَسَائِرُ الْمُعْتَزِلَۃِ إِلٰی الْقَوْلِ بِہٖ وَبِہٖ نَقُولُ لِصِحَّۃِ الْآثَارِ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٖ .
”معتزلی عالم ضرار بن عمرو غطفانی نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے، خوارج بھی یہی کہتے ہیں۔ اہل سنت، بشر بن معتمر، جبائی معتزلی اور معتزلہ عذاب قبر کے قائل ہیں۔ صحیح احادیث نبویہ کی وجہ سے ہم بھی اسی کے قائل ہیں۔”
(الفصل في الملل والأہواء والنّحل : ٤/٥٤۔٥٥)
0 قاضی عیاض رحمہ اللہ (٤٧٦۔٥٤٦ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَّرٰی مِنْ ہٰذَا فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِیہِ أَنَّ الْـأَرْوَاحَ بَاقِیَۃٌ لَّاتَفْنٰی، فََیُنْعَمُ الْمُحْسِنُ وَیُعَذِّبُ الْمُسِيْءُ کَمَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ وَالْـاْثَارِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، خِلَافاً لِّغَیْرِہِمْ مِّنْ أَہْلِ الْبِدَعِ الْقَائِلِینَ بِفَنَائِہَا .
”یہاں عذاب قبر کے بارے میں روایات بھی موجود ہیں۔ انہی روایات میں ہے کہ روح باقی رہتی ہے، کبھی فنا نہیں ہوتی۔ نیکو کار کو نعمتیں اور گنہگار کو عذاب دیا جاتا ہے۔ یہی اہل ِسنت کا مذہب ہے، جب کہ اہل ِبدعت اس کے مخالف ہیں، وہ روح کے فنا کے قائل ہیں۔”
(إکمال المعلم بفوائد مسلم : ٦/٣٠٦)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ تَصْحِیحُ ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ وِإِمْرَارُہَا عَلٰی وَجْہِہَا لِصِحَّۃِ طُرُقِہَا وَقُبُولِ السَّلَفِ لَہَاخِلَافًا لِّجَمِیعِ الْخَوَارِجِ، وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَۃِ، وَبَعْضِ الْمُرْجِئَۃِ؛ إِذْ لَا اسْتِحَالَۃَ فِیہَا وَلَا رَدَّ لِلْعَقْلِ .
”اہل سنت ان احادیث کو صحیح مانتے ہیں اور جس طرح وارد ہوئی ہے، اسی طرح قبول کرتے ہیں، کیوں کہ اس کی اسانیدصحیح ہیں اور سلف نے انہیں قبول کیا ہے۔ خوار ج، اکثر معتزلہ اور بعض مرجیہ عذاب قبر کے قائل نہیں، حالاں کہ اس میں کوئی عقلی بُعد نہیں۔”
(إکمال المعلم بفوئد مسلم : ٨/٤٠١)
قوام السنۃ، ابو قاسم، اسماعیل بن محمد اصبہانی رحمہ اللہ (٤٥٧۔٥٣٥ھ) لکھتے ہیں:
وَأَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَضَغْطَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ .
”عذاب قبر حق ہے اور قبر کا جھٹکا بھی حق ہے۔”
(الحجۃ في بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ أہل السنۃ : ١/٢٤٩)
! علامہ ابوبکر بن العربی (٤٦٨۔٥٤٣ھ) لکھتے ہیں:
فِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ حَقٌّ لَّا رَیْبَ فِیہِ، وَقَدِ اصْطَفَقَتْ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَالدَّلِیلُ عَلَیْہِ الْحَدِیثُ الصَّحِیحُ وَالْقُرْآنُ الْفَصِیحُ أَمَّا الْـأَحَادِیثُ، فَہِيَ کَثِیرَۃٌ لَّا تُحْصٰی، وَأَبْیَنُ وَأَشْہَرُ مِنْ أَنْ تُسْتَقْصٰی .
”اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فتنہ قبر بلا شک و شبہ حق ہے، اہل سنت و الجماعت کا اس پر اجماع ہے۔ ان کے دلائل بے شمار احادیث صحیحہ اور آیات قرآنیہ ہیں۔ احادیث تو لاتعداد، واضح اور مشہور ہیں۔”
(المسالک في شرح الموطّأ : ٣/٢٩٧)
علامہ حسین بن حسین حلیمی رحمہ اللہ (٣٣٨۔٤٠٣ھ) لکھتے ہیں:
وَلَمْ یُعْلَمْ أَہْلُ السُّنَّۃِ خِلَافًا أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ .
”عذاب قبر کو حق ماننے میں اہل سنت کے ہاں کوئی اختلاف معلوم نہیں۔”
(المنہاج في شعب الإیمان : ١/٤٨٩)
محمد بن حسین، ابو عبد الرحمن السلمی رحمہ اللہ (م : ٤١٢ھ) لکھتے ہیں:
أَمَّا الْـأَخْبَارُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ فَبَالِغَۃٌ مَبْلَغَ الِاسْتِفَاضَۃِ .
”عذاب ِقبر کے متعلق روایات حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔”
(فیض القدیر للمناوي : ٥/٣٣٢)
شارح صحیح بخاری، علا مہ ابن بطال (م : ٤٤٩ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، یَجِبُ الْـإِیمَانُ بِہٖ وَالتَّسْلِیمُ لَہ،، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”عذاب قبر حق ہے۔ اس پر ایمان لانا اور اسے درست تسلیم کرنا واجب ہے۔ اہل ِسنت کا یہی مذہب ہے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ١/٣٢٤)
نیز فرماتے ہیں:
وَفِیہِ : أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَأَہْلُ السُّنَّۃِ مُجْمِعُونَ عَلَی الْـإِیمَانِ بِہٖ وَالتَّصْدِیقِ، وَلَا یُنْکِرُہ، إِلَّا مُبْتَدِعٌ .
”اس حدیث کا مستفاد ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ اہل سنت اس پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے پر متفق ہیں۔ اس کا منکر بدعتی ہی ہو سکتا ہے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ٣/٣٨)
علامہ، ابو المظفر اسفرایینی رحمہ اللہ (م : ٤٧١ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَدْ بَلَغَتِ الْـأَخْبَارُ حَدَّ التَّوَاتُرِ فِي الْمَعْنٰی وَإِنْ کَانَ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْہَا لَمْ یَبْلُغْ حَدَّ التَّوَاتُرِ فِي اللَّفْظِ فَأَنْکَرُوا مَا فِي ذٰلِکَ مِنْ نُّصُوصِ الْقُرْآنِ .
”عذاب قبر کی احادیث لفظی تو نہیں، البتہ معنوی تواتر کو ضرور پہنچتی ہیں۔ اہل بدعت نے تو اس بارے نصوص قرآنیہ بھی ٹھکرا دی ہیں۔”
(التبصیر في الدین وتمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفرق الہالکین، ص : ٦٧)
نیز فرماتے ہیں:
وَلَا یُنْکِرُ مَا اسْتَفَاضَ بِہِ الْـأَخْبَارُ وَنَطَقَتْ بِہِ الْآیَاُت مِنَ الْـأَحْیَاءَ فِي الْقَبْرِ إِلَّا مَنْ یُّنْکِرُ عُمُومَ قُدْرَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَنْ أَنْکَرَ عُمُومَ قُدْرَتِہٖ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی کَانَ خَارِجًا عَنْ زُمْرَۃِ أَہْلِ الْإِسْلَامِ .
”قرآنی آیات اور احادیث نبویہ پڑھنے والا قبر میں زندگی دئیے جانے کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے، جو اللہ کو ہر چیز پر قادر نہ مانتا ہو اور جو اللہ کو قادر نہیں مانتا، وہ زمرہ مسلماناں سے خارج ہے۔”
(التبصیر في الدین وتمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفِرَق الہالکین، ص : ١٧٧)
علامہ ابو مظفر سمعانی رحمہ اللہ (٤٢٦۔٤٨٩)لکھتے ہیں:
نَحْنُ إِذَا تَدَبَّرْنَا عَامَّۃَ مَا جَاءَ فِي أَمْرِ الدِّینِ مِنْ ذِکْرِ صِفَاتِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا تَعَبَّدَ النَّاسُ بِہٖ مِنِ اعْتِقَادِہٖ وَکَذٰلِکَ مَا ظَہَرَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ وَتَدَاوَلُوہُ بَیْنَہُمْ وَنَقَلُوہُ عَنْ سَلَفِہِمْ إِلٰی أَنْ أَسْنَدُوہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذِکْرِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَسُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ وَالْحَوْضِ وَالْمِیزَانِ وَالصِّرَاطِ وَصِفَاتِ الْجَنَّۃِ وَصِفَاتِ النَّارِ وَتَخْلِیدِ الْفَرِیقَیْنِ فِیہِمَا أُمُورٌ لَّا نُدْرِکُ حَقَائِقَہَا بِعُقُولِنَا وَإِنَّمَا وَرَدَ الْـأَمْرُ بِقُبُولِہَا وَالْإِیمَانِ بِہَا . فَإِذَا سَمِعْنَا شَیْئًا مِنْ أُمُورِ الدِّینِ وَعَقَلْنَاہُ وَفَہِمْنَاہُ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ فِي ذٰلِکَ وَالشُّکْرُ وَمِنْہُ التَّوْفِیقُ وَمَا لَمْ یُمْکِنَّا إِدْرَاکَہ، وَفَہْمَہ، وََلَمْ تَبْلُغْہُ عُقُولُنَا آمَنَّا بِہٖ وَصَدَّقْنَا وَاعْتَقَدْنَا أَنَّ ہٰذَا مِنْ قِبَلِ رُبُوبِیَّتِہٖ وَقُدْرَتِہٖ وَاکْتَفَیْنَا فِي ذٰلِکَ بِعِلْمِہٖ وَمَشِیئَتِہٖ وَقَالَ تَعَالٰی فِي مِثْلِ ہٰذَا (وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِیتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا) وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (وَلَا یُحِیطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلَّا بِمَا شَائَ) ثُمَّ نَقُولُ لِہٰذَا الْقَائِلِ الَّذِي یَقُولُ بُنِيَ دِینُنَا عَلَی الْعَقْلِ وَأُمِرْنَا بِاتِّبَاعِہٖ أَخْبَرْنَا إِذَا أَتَاکَ أَمْرٌ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی یُخَالِفُ عَقْلَکَ فَبِأَیِّہِمَا تَأْخُذُ بِالَّذِي تَعْقِلُ أَوْ بِالَّذِي تُؤْمَرُ فَإِنْ قَالَ بِالَّذِي أَعْقِلُ فَقَدْ أَخْطَأَ وَتَرَکَ سَبِیلَ الْإِسْلَامِ وَإِنْ قَالَ إِنَّمَا آخُذُ بِالَّذِي جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَقَدْ تَرَکَ قَوْلَہ، وَإِنَّمَا عَلَیْنَا أَنْ نَّقْبَلَ مَا عَقَلْنَاہُ إِیمَانًا وَّتَصْدِیقًا وَّمَا لَمْ نَعْقِلْہُ قَبِلْنَاہُ وَتَسْلِیمًا وَاسْتِسْلَامًا . وَہٰذَا مَعْنٰی قَوْلِ الْقَائِلِ مِنْ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِنَّ الْإِسْلَامَ قَنْطَرَۃٌ لَا تُعْبَرُ إِلَّا بِالتَّسْلِیمِ فَنَسْأَلُ اللّٰہَ التَّوْفِیقَ فِیہِ وَالثُّبَاتَ عَلَیْہِ وَأَنْ یَّتَوَفَّانَا عَلٰی مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَنِّہٖ وَفَضْلِہٖ .
”جب ہم اللہ کی صفات یا اعتقادات میں غور وفکر کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی متفقہ نقل اور متواتر سند سے منقول مسئلہ عذاب ِقبر، سوالات منکر نکیر، حوض، میزان، پل صراط، جنت و جہنم کی صفات اور فریقین کا جنت و جہنم میں ہمیشہ رہنا، ایسے امور ہیں کہ عقل ان کے حقائق کے ادراک سے قاصر ہے، قرآنی حکیم انہیں قبول کرنے اور ان پر ایمان لانے کا کہتا ہے۔ اگر ہم کسی دینی حکم کو سمجھ لیتے ہیں توالحمد للہ، اگر نہ سمجھ پائیں، ہماری عقل قاصر رہ جائے، تو بھی اس پر ایمان و اعتقاد لازم ہے۔ ہم تسلیم کریں گے کہ یہ اس کی شان ربوبیت اور اس کی قدرت ہے، ہمیں اس کا علم ہوا اتنا ہی کافی ہے، اللہ فرماتے ہیں: (وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِیتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلٌ) ‘میرے محبوب! لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے! کہ روح میرے رب کا امر ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔’ اسی طرح فرمان باری تعالی ہے : (وَلَا یُحِیطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلَّا بِمَا شَائَ) ‘یہ صرف اتنا علم رکھتے ہیں، جتنا اللہ نے انہیں دیا ہے۔’ جو کہتا ہے کہ دین کا ہر معاملہ عقل میں آنے والا ہے، ہمیں عقل ہی کے اتباع کا حکم ہے، ہم اس سے سوال کریں گے کہ اگر قرآن و سنت میں کوئی چیز آپ کی عقل کے خلاف آئے تو کیا کریں گے آپ؟ قرآن و سنت مانیں گے یا عقل؟ اگر تو اس نے کہا کہ عقل کی مانوں گا تو یہ اس کی خطا ہو گی ، گویا اسلا م کے راستے کو چھوڑ چکا اور اگر اس نے کہا کہ قرآن و سنت کی مانوں گا تو عر ض کریں گے کہ آپ تو کہتے تھے کہ عقل ہی میزان ہے، اب عقل کو چھوڑا کیوں ؟ ہم پر لازم ہے کہ ہم وہ حکم بھی مانیں، جسے عقل تسلیم کرتی ہے، وہ بھی مانیں، جسے تسلیم نہیں کرتی۔ اہل سنت کا کہنا ہے کہ اسلام پل ہے، اسے عبور کرنا ہے تو تسلیم ورضا کا پیکر بننا ہو گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیںاپنے فضل و احسان سے ملت رسول عربی پر موت نصیب کرے ۔”
(الانتصار لأصحاب الحدیث : ٨١۔٨٣)
علامہ غزالی (٤٥٠۔٥٠٥) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا عَذَابُ الْقَبْرِ فَقَدْ دَلَّتْ عَلَیْہِ قَوَاطِعُ الشَّرْعِ إِذْ تَوَاتَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَنِ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ بِّالِاسْتِعَاذَۃِ مِنْہُ فِي الْـأَدْعِیَۃِ، وَاشْتَہَرَ قَوْلُہ، عِنْدَ الْمُرُورِ بِقَبْرَیْنِ إِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَدَلَّ عَلَیْہِ قَوْلُہ، تَعَالٰی وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءَ الْعَذَابِ . النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا الْـآیَۃَ، وَہُوَ مُمْکِنٌ، فَیَجِبُ التَّصْدِیقُ بِہٖ وَوَجْہُ إِمْکَانِہٖ ظَاہِرٌ، وَإِنَّمَا تُنْکِرُہُ الْمُعْتَزِلَۃُ مِنْ حَیْثُ یَقُولُونَ إِنَّا نَرٰی شَخْصَ الْمَیِّتِ مُشَاہَدَۃً وَّہُوَ غَیْرُ مُعَذَّبٌ وَإِنَّ الْمَیِّتَ رُبَمَا تَفْتَرِسُہُ السِّبَاعُ وَتَأْکُلُہ،، وَہٰذَا ہَوَسٌ؛ أَمَّامُشَاہَدَۃُ الشَّخْصِ فَہُوَ مُشَاہَدَۃٌ لِّظَوَاہِرِ الْجِسْمِ، وَالْمُدْرِکُ لِلْعِقَابِ جُزْءٌ مِّنَ الْقَلْبِ أَوْ مِنَ الْبَاطِنِ کَیْفَ کَانَ وَلَیْسَ مِنْ ضُرُورَۃِ الْعَذَابِ ظُہُورُ حَرَکَۃٍ فِي ظَاہِرِ الْبَدَنِ، بَلِ النَّاظِرُ إِلٰی ظَاہِرِ النَّائِمِ لَا یُشَاہِدُ مَا یُدْرِکُہُ النَّائِمُ مِنَ اللَّذَّۃِ عِنْدَ الِاحْتِلَامِ وَمِنَ الْـأَلَمِ عِنْدِ تَخَیُّلِ الضَّرْبِ وَغَیْرِہٖ، وَلَوِ انْتَبَہَ النَّائِمُ وَأَخْبَرَ عَنْ مُّشَاہَدَاتِہٖ وَآلَامِہٖ وَلَذَّاتِہٖ مَنْ لَّمْ یَجْرِ لَہ، عَہْدٌ بِّالنَّوْمِ لَبَادَرَ إِلَی الْـإِنْکَارِ اغْتِرَاراً بِّسُکُونِ ظَاہِرِ جِسْمِہٖ، کَمُشَاہَدَۃِ إِنْکَارِ الْمُعْتَزِلَۃِ لِعَذَابِ الْقَبْرِ وَأَمَّا الَّذِي تَأْکُلُہُ السِّبَاعُ فَغَایَۃُ مَا فِي الْبَابِ أَنْ یَّکُونَ بَطْنُ السَّبُعِ قَبْرًا، فَإِعَادَۃُ الْحَیَاۃِ إِلٰی جُزْءٍ یُّدْرِکُ الْعَذَابَ مُمْکِنٌ، فَمَا کُلُّ مُتَأَلِّمٍ یُّدْرِکُ الْـأَلَمَ مِنْ جَمِیعِ بَدَنِہٖ، وَأَمَّا سُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فَحَقٌّ، وَالتَّصْدِیقُ بِہٖ وَاجِبٌ لِّوُرُودِ الشَّرْعِ بِہٖ وَإِمْکَانِہٖ .
”عذاب قبر پر شریعت کے قطعی دلائل موجود ہیں، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر سے پناہ کی دعائیں متواتر منقول ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا : انہیں عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ حدیث مشہور ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : (وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ، النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِّیًا) ‘آل فرعون کو برے عذاب نے گھیرلیا، وہ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ ایسا ہونا ممکن ہے اور اس پر ایمان واجب ہے۔ معتزلہ عذاب قبر کے منکر ہیں، کہتے ہیں : ہم میت کو دیکھتے ہیں، ہم نے آج تک مشاہدہ نہیں کیا کہ کسی کو قبر میں عذاب دیا جا رہا ہو، میت کو درندے نوچ لیتے ہیں۔ یہ معتزلہ کا پاگل پن ہے ۔ حالاں کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ جس کا آپ مشاہدہ کرتے ہیں، وہ ظاہری جسم ہے۔ جب کہ عذاب کا تعلق دل اور جسم کے باطنی حصہ سے ہے، تو آپ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ جسم کے اندر عذاب ہو رہا ہو، تو جسم کو حرکت دینے کی حاجت ہی نہیں۔ آپ ظاہری آنکھ سے وہ کچھ نہیں دیکھ سکتے، جو سونے والا خواب میں دیکھتا ہے۔ معتزلہ کو چاہئے کہ جب سونے والا اپنے نیند کے مشاہدے میں احتلام یا تکلیف وغیرہ کی خبر دے، تو انکار کر دیجئے گا کہ ہم نے تو نہیں دیکھا۔ قبر میں مشاہدہ نہیں ہوتا یا درندے کھا لیتے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں اللہ اس کے ہر جزو میں زندگی بھر کر اسے عذاب دے سکتا ہے، منکر نکیر کے سوال و جواب حق ہیں اور ان پر ایمان واجب ہے۔”
(الاقتصاد في الاعتقاد، ص : ١١٧، ١١٨)
علامہ ابو یعلی رحمہ اللہ (م : ٥٢١ھ) لکھتے ہیں:
ثُمَّ الْـإِیمَانُ بِعَذَابِ الْقَبْرِ، وَبِمُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (فَإِنَّ لَہ، مَعِیشَۃً ضَنْکاً)(طہٰ : ٢٤) قَالَ أَصْحَابُ التَّفْسِیرِ عَذَابُ الْقَبْرِ…..مَنْ أَنْکَرَ ذٰلِکَ فَہُوَ کَافِرٌ .
”پھر عذاب قبر اور منکر نکیر پر ایمان بھی واجب ہے، اللہ فرماتے ہیں: (فَإِنَّ لَہ، مَعِیشَۃً ضَنْکًا) ‘اس کی قبر تنگ کر دی جائے گی۔’ مفسرین کہتے ہیں : اس سے مراد عذابِ قبر ہے۔ جو اس کا انکار کرتا ہے، وہ کافر ہے۔”
(الاعتقاد : ٣٢)
ابو الحسین، یحییٰ بن ابی الخیر یمنی شافعی رحمہ اللہ (م : ٥٥٨ھ) لکھتے ہیں:
وَأَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَأَنَّ مَسْأَلَۃَ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فِي الْقَبْرِ حَقٌّ .
”عذاب قبر حق ہے اور قبر میں منکر نکیر کے سوال و جوا ب بھی حق ہیں۔”
(الانتصار في الرد علی المعتزلۃ القدریۃ الأشرار : ١/١٠٠)
$ شارح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ دَلَائِلُ الْکِتَا بِ وَالسُّنَّۃِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) الْـآیَۃَ، تَظَاہَرَتْ بِہِ الْـأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ رِّوَایَۃِ جَمَاعَۃٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ فِي مَوَاطِنَ کَثِیرَۃٍ وَّلَایَمْتَنِعُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ وَیُعَذِّبُہ، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ الشَّرْعُ بِہٖ وَجَبَ قَبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَقَدْ ذَکَرَ مُسْلِمٌ ہُنَا أَحَادِیثَ کَثِیرَۃً فِي إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَسَمَاعِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَوْتَ مَنْ یُعَذَّبُ فِیہِ وَسَمَاعِ الْمَوْتٰی قَرْعَ نِعَالِ دَافِنِیہِمْ وَکَلَامِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِـأَہْلِ الْقَلِیبِ وَقَوْلِہٖ مَا أَنْتُمْ بِّأَسْمَعَ مِنْہُمْ وَسُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ الْمَیِّتَ وَإِقْعَادِہِمَا إِیَّاہُ وَجَوَابِہٖ لَہُمَا وَالْفَسْحِ لَہ، فِي قَبْرِہٖ وَعَرْضِ مَقْعَدِہٖ عَلَیْہِ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ وَسَبَقَ مُعْظَمُ شَرْحِ ہٰذَا فِي کِتَابِ الصَّلَاۃِ وَکِتَابِ الْجَنَائِزِ وَالْمَقْصُودُ أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ کَمَا ذَکَرْنَا خِلَافًا لِّلْخَوَارِجِ وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَۃِ وَبَعْضِ الْمُرْجِئَۃِ .
”اہل سنت عذاب قبر کا اثبات کرتے ہیں۔ اس پر کتا ب و سنت سے واضح دلائل موجود ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں : (النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) ‘وہ صبح و شام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ اثبات عذاب قبر کی روایات بہت سی کتابوں میں بہت سے علاقوں میں موجود صحابہ سے مروی ہیں۔ اللہ بدن کے کسی جزء میں زندگی لٹانے پہ قادر ہے، اس میں کوئی عقلی بُعد نہیں، جب بُعد نہیں اور نصوص شریعت بھی اس کی موید ہیں تو واجب ہوا کہ اثبات عذاب قبر کا عقیدہ رکھا جائے۔ امام مسلم رحمہ اللہ عذاب قبر کے بارے میں بہت سی روایات لائے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحب قبر کی آواز سننا، جب اسے عذاب دیا جا رہا تھا، مردوں کا دفنا نے والوں کے قدموں کی چاپ سننا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل قلیب سے گفتگو کرنا اور فرمانا کہ اب یہ آپ سے زیادہ سن رہے ہیں، فرشتوں کا مرنے والے سے سوال کرنا، اسے بٹھانا، میت کا سوالات کے جوابات دینا، قبر کا کشادہ ہونا، صبح و شام اس کا ٹھکانہ دکھایا جانا، یہ سب کچھ شریعت میں موجود ہے۔ جن پر تفصیلی بحث کتاب الصلاۃ اور کتاب الجنائز میں گزر چکی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عذاب قبر کا اثبات اہل سنت کا مذہب ہے، جب کہ خوارج، اکثر معتزلہ اور بعض مرجیہ اس کے منکر ہیں۔”
(شرح صحیح مسلم ١٧/٢٠٠، ٢٠١)
% علامہ ابن قدامہ مقدسی (٥٤١۔٦٢٠ھ) لکھتے ہیں:
وَعَذَابُ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ حَقٌّ وَّقَدِ اسْتَعَاذَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ، وَأَمَرَ بِہٖ فِي کُلِّ صَلَاۃٍ وَّفِتْنَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَسُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیْرٍ حَقٌّ .
”عذاب قبر اور اس کی نعمتیں حق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر سے پناہ مانگی ہے اور ہر نماز میں پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ فتنہ قبر حق ہے۔ منکر ونکیر کا سوال جواب کرنا حق ہے۔”
(لمعۃ الاعتقاد، ص : ٣١)
^ علامہ مفسر ابو حیان ، اندلسی (٦٥٤۔٧٤٥ھ) لکھتے ہیں:
وَأَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْکَرَّامِیَّۃُ أَثْبَتُوہ، بِلَا خِلَافٍ بَّیْنَہُمْ، إِلَّا أَنَّ أَہْلَ السُّنَّۃِ یَقُولُونَ یَحْیَا الْمَیِِّتُ الْکَافِرُ فَیُعَذَّبُ فِي قَبْرِہٖ، وَالْفَاسِقُ یَجُوزُ أَنْ یُّعَذَّبَ فِي قَبْرِہٖ، وَالْکَرَّامِیَّۃُ تَقُولُ یُعَذَّبُ وَہُوَ مَیِِّتٌ وَّالْـأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ قَدِ اسْتَفَاضَتْ بِعَذَابِ الْقَبْرِ، فَوَجَبَ الْقَوْلُ بِہٖ وَاعْتِقَادُہ، .
”اہل ِسنت اور کرامیہ بلا اختلاف عذاب قبر کا اثبات کرتے ہیں، ہاں! اہل سنت کہتے ہیں کہ کافر کی میت زندہ ہو گی، اسے عذاب دیا جائے گا۔ فاسق کو بھی عذاب ہو سکتا ہے اور کرامیہ کہتے ہیں کہ اسے مردہ حالت ہی میں عذاب دیا جائے گا۔ احادیث صحیحہ سے عذاب قبر کا اثبات ہو تا ہے، اس کا اقرار و اعتقاد واجب ہے۔”
(البحرالمحیط في التفسیر : ١/٢١١)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فَاعْلَمْ أَنَّ مَذْہَبَ سَلَفِ الْـأَمَّۃِ وَأَئِمَّتِہَا أَنَّ الْمَیِّتَ إذَا مَاتَ یَکُونُ فِي نَعِیمٍ أَوْ عَذَابٍ، وَأَنَّ ذٰلِکَ یَحْصُلُ لِرُوحِہٖ وَلِبَدَنِہٖ .
”جان لیجئے! سلف اور ائمہ کا مذہب ہے کہ انسان مرنے کے بعد نعمتوں میں ہوتا ہے یا عذاب میں اور یہ عذاب و نعم روح و بدن دونوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٤/٢٦٦)
& شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذَا کَمَا أَنَّہ، مُقْتَضَی السُّنَّۃِ الصَّحِیحَۃِ فَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ بَیْنَ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”صحیح احادیث اسی کا تقاضہ کرتی ہیں۔ یہ اہل سنت کا اجماعی مذہب ہے۔”
(الروح، ص : ٥٧)
نیز لکھتے ہیں:
فَالْـأَخْبَارُ الْوَارِدَۃُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَالشَّفَاعَۃِ وَالْحَوْضِ وَرُؤْیَۃِ الرَّبِّ تَعَالٰی وَتَکْلِیمِہٖ عِبَادَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَأَحَادِیثُ عُلُوِّہٖ فَوْقَ سَمَاوَاتِہٖ عَلٰی عَرْشِہٖ، وَأَحَادِیثُ إِثْبَاتِ الْعَرْشِ، وَالْـأَحَادِیثُ الْوَارِدَۃُ فِي إِثْبَاتِ الْمَعَادِ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ نَحْوُ ذٰلِکَ مِمَّا یُعْلَمُ بِالِاضْطِرَارِ أَنَّ الرَّسُولَ جَاءَ بِہَا کَمَا یُعْلَمُ بِالِاضْطِرَارِ أَنَّہ، جَاءَ بِالتَّوْحِیدِ وَفَرَائِضِ الْإِسْلَامِ وَأَرْکَانِہٖ، وَجَاءَ بِإِثْبَاتِ الصِّفَاتِ لِلرَّبِّ تَعَالٰی، فَإِنَّہ، مَا مِنْ بَّابٍ مِّنْ ہٰذِہِ الْـأَبْوَابِ إِلَّا وَقَدْ تَوَاتَرَ فِیہِ الْمَعْنَی الْمَقْصُودُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَاتُرًا مَّعْنَوِیًّا لِّنَقْلِ ذٰلِکَ عَنْہُ بِعِبَارَاتٍ مُّتَنَوِّعَۃٍ مِّنْ وُّجُوہٍ مُّتَعَدِّدَۃٍ یَّمْتَنِعُ فِي مِثْلِہَا فِي الْعَادَۃِ التَّوَاطُؤُ عَلَی الْکَذِبِ عَمْدًا أَوْ سَہْوًا، وَإِذَا کَانَتِ الْعَادَۃُ الْعَامَّۃُ وَالْخَاصَّۃُ الْمَعْہُودَۃُ مِنْ حَالِ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ وَخَلَفِہَا تَمْنَعُ
التَّوَاطُؤَ عَلَی الِاتِّفَاقِ عَلَی الْکَذِبِ فِي ہٰذِہِ الْـأَخْبَارِ، وَیَمْتَنِعُ فِي الْعَادَۃِ وُقُوعُ الْغَلَطِ فِیہَا، أَفَادَتِ الْعِلْمَ وَالْیَقِینَ .
”عذاب قبر، حوض، شفاعت، جنت میں رؤیت خدا وندی، اللہ کا بندوں سے کلام کرنا، احادیث علو، اللہ کا آسمانوں پر بلند ہونا، اثبات ِعرش اورجنت و جہنم وغیرہ کی احادیث، ان احادیث میں سے ہیں، جن کے متعلق یہ یقین ہو کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین عالیہ ہیں، جیسا کہ یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم توحید، فرائض اسلام، ارکان اسلام اور اثبات صفات کرنے کے لیے تشریف لائے۔ ان میں سے ہر مسئلہ میں مروی احادیث متواتر معنوی کے درجہ کی ہیں، کیوں کہ یہ مختلف متون اور متنوع اسانید و طرق سے وارد ہوئی ہیں۔ ایسی صورت میںجان بوجھ کر یا بھولے سے جھوٹ پر متفق ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ جب ایک چیز اتنی عام ہے کہ سلف سے اب تک مسلسل اس پر گفتگو ہو رہی ہے، تو اس صورت میں جھوٹ پر سب کا اتفاق کیسے ہو سکتا ہے؟ اس میں غلطی کا وقوع عادتا محال ہو گا، لہٰذا یہ احادیث علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔”
(مختصر الصواعق المرسلۃ علی الجہمیۃ و المعطلۃ، ص : ٥٤٨)
علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ (٧٤١۔٧٩٢ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ تَّوَاتَرَتِ الْـأَخْبَارُ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي ثُبُوتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ لِمَنْ کَانَ لِذٰلِکَ أَہْلًا، وَسُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ، فَیَجِبُ اعْتِقَادُ ثُبُوتِ ذٰلِکَ وَالْإِیمَانُ بِہٖ، وَلَا یَتَکَلَّمُ فِي کَیْفِیَّتِہٖ، إِذْ لَیْسَ لِلْعَقْلِ وُقُوفٌ عَلٰی کَیْفِیَّتِہٖ، لِکَوْنِہٖ لَا عَہْدَ لَہ، بِہٖ فِي ہٰذِہِ الدَّارِ، وَالشَّرْعُ لَا یَأْتِي بِمَا تُحِیلُہُ الْعُقُولُ، وَلٰکِنَّہ، قَدْ یَأْتِي بِمَا تَحَارُ فِیہِ الْعُقُولُ : فَإِنَّ عَوْدَ الرُّوحِ إِلَی الْجَسَدِ لَیْسَ عَلَی الْوَجْہِ الْمَعْہُودِ فِي الدُّنْیَا، بَلْ تُعَادُ الرُّوحُ إِلَیْہِ إِعَادَۃً غَیْرَ الْإِعَادَۃِ الْمَأْلُوفَۃِ فِي الدُّنْیَا .
”قبر میں عذاب و ثواب اور فرشتوں کے سوال و جواب کے ثبوت پرمتواتر احادیث موجود ہیں۔ انہیں ثابت سمجھنا اور ایمان لانا واجب ہے۔ اس کی کیفیت نہیں پوچھی جائے گی۔ عقل اس کے ادراک سے قاصر ہے، کیوں کہ یہ عقل کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ شریعت کا کوئی حکم خلاف عقل نہیں، لیکن شریعت بعض ایسی چیزیں ضرور بیان کرتی ہے، جن سے عقل حیران ہو جاتی ہے۔ قبر میں روح لوٹائے جانے کی کیفیت دنیا جیسی نہیں، بل کہ اس کی اپنی ایک خاص ہیئت ہے۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص : ٣٩٩)
نیز فرماتے ہیں:
وَذَہَبَ إِلٰی مُوجَبِ ہٰذَا الْحَدِیثِ جَمِیعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَدِیثِ، وَلَہ، شَوَاہِدُ مِنَ الصَّحِیحِ .
”اس حدیث (اثبات عذاب قبر) کو تمام اہل سنت و الحدیث مانتے ہیں۔ صحیح احادیث میں اس کے شواہد بھی موجو د ہیں۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص : ٣٩٨)
نیز لکھتے ہیں:
وَلَیْسَ السُّؤَالُ فِي الْقَبْرِ لِلرُّوحِ وَحْدَہَا، کَمَا قَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَّغَیْرُہ،، وَأَفْسَدُ مِنْہُ قَوْلُ مَنْ قَالَ إِنَّہ، لِلْبَدَنِ بِلَا رُوحٍ وَّالْـأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ تَرُدُّ الْقَوْلَیْنِ وَکَذٰلِکَ عَذَابُ الْقَبْرِ یَکُونُ لِلنَّفْسِ وَالْبَدَنِ جَمِیعًا، بِاتِّفَاقِ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، تَنْعَمُ النَّفْسُ وَتُعَذَّبُ مُفْرَدَۃً عَنِ الْبَدَنِ وَمُتَّصِلَۃً بِّہٖ . وَاعْلَمْ أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ ہُوَ عَذَابُ الْبَرْزَخِ، فَکُلُّ مَنْ مَّاتَ وَہُوَ مُسْتَحِقٌّ لِّلْعَذَابِ نَالَہ، نَصِیبُہ، مِنْہُ، قُبِرَ أَوْ لَمْ یُقْبَرْ، أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ أَوِ احْتَرَقَ حَتّٰی صَارَ رَمَادًا وَُنُسِفَ فِي الْہَوَائِ، أَوْ صُلِبَ أَوْ غَرِقَ فِي الْبَحْرِ وَصَلَ إِلٰی رُوحِہٖ وَبَدَنِہٖ مِنَ الْعَذَابِ مَا یَصِلُ إِلَی الْمَقْبُورِ وَمَا وَرَدَ مِنْ إِجْلَاسِہٖ وَاخْتِلَافِ أَضْلَاعِہٖ وَنَحْوِ ذٰلِکَ فَیَجِبُ أَنْ یُّفْہَمَ عَنِ الرَّسُولِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرَادُہ، مِنْ غَیْرِغُلُوٍّ وَّلَا تَقْصِیرٍ، فَلَا یُحَمَّلُ کَلَامُہ، مَا لَا یَحْتَمِلُہ،، وَلَا یُقَصَّرُ بِہٖ عَنْ مُّرَادِہٖ وَمَا قَصَدَہ، مِنَ الْہُدٰی وَالْبَیَانِ، فَکَمْ حَصَلَ بِإِہْمَالِ ذٰلِکَ وَالْعُدُولِ عَنْہُ مِنَ الضَّلَالِ وَالْعُدُولِ عَنِ الصَّوَابِ مَا لَا یَعْلَمُہ، إِلَّا اللّٰہُ بَلْ سُوءُ الْفَہْمِ عَنِ اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ أَصْلُ کُلِّ بِدْعَۃٍ وَّضَلَالَۃٍ نَّشَأَتْ فِي الْإِسْلَامِ، وَہُوَ أَصْلُ کُلِّ خَطَأٍ فِي الْفُرُوعِ وَالْـأُصُولِ، وَلَا سِیَّمَا إِنْ أُضِیفَ إِلَیْہِ سُوءُ الْقَصْدِ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ . فَالْحَاصِلُ أَنَّ الدُورَ ثَلَاثٌ، دَارُ الدُّنْیَا، وَدَارُ الْبَرْزَخِ، وَدَارُ الْقَرَارِ، وَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ دَارٍ أَحْکَامًا تَخُصُّہَا، وَرَکَّبَ ہٰذَا الْإِنْسَانَ مِنْ بَّدَنٍ وَّنَفْسٍ، وَجَعَلَ أَحْکَامَ الدُّنْیَا عَلَی الْـأَبْدَانِ، وَالْـأَرْوَاحُ تَبَعٌ لَّہَا، وَجَعَلَ أَحْکَامَ الْبَرْزَخِ عَلَی الْـأَرْوَاحِ، وَالْـأَبْدَانُ تَبَعٌ لَّہَا، فَإِذَا جَاءَ یَوْمُ حَشْرِ الْـأَجْسَادِ وَقِیَامِ النَّاسِ مِنْ قُبُورِہِمْ صَارَ الْحُکْمُ وَالنَّعِیمُ وَالْعَذَابُ عَلَی الْـأَرْوَاحِ وَالْـأَجْسَادِ جَمِیعًا فَإِذَا تَأَمَّلْتَ ہٰذَا الْمَعْنٰی حَقَّ التَّأَمُّلِ، ظَہَرَ لَکَ أَنَّ کَوْنَ الْقَبْرِ رَوْضَۃً مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ أَوْ حُفْرَۃً مِّنْ حُفَرِ النَّارِ مُطَابِقٌ لِّلْعَقْلِ، وَأَنَّہ، حَقٌّ لَّا مِرْیَۃَ فِیہِ، وَبِذٰلِکَ یَتَمَیَّزُ الْمُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ مِنْ غَیْرِہِمْ وَیَجِبُ أَنْ یُّعْلَمَ أَنَّ النَّارَ الَّتِي فِي الْقَبْرِ وَالنَّعِیمَ، لَیْسَ مِنْ جِنْسِ نَارِ الدُّنْیَا وَلَا نَعِیمِہَا، وَإِنْ کَانَ اللّٰہُ تَعَالٰی یَحْمِي عَلَیْہِ التُّرَابَ وَالْحِجَارَۃَ الَّتِي فَوْقَہ، وَتَحْتَہ، حَتّٰی یَکُونَ أَعْظَمَ حَرًّا مِّنْ جَمْرِ الدُّنْیَا، وَلَوْ مَسَّہَا أَہْلُ الدُّنْیَا لَمْ یُحِسُّوا بِہَا بَلْ أَعْجَبُ مِنْ ہٰذَا أَنَّ الرَّجُلَیْنِ یُدْفَنُ أَحَدُہُمَا إِلٰی جَنْبِ صَاحِبِہٖ، وَہٰذَا فِي حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ، وَہٰذَا فِي رَوْضَۃٍ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ . لَا یَصِلُ مِنْ ہٰذَا إِلٰی جَارِہٖ شَيْءٌ مِّنْ حَرِّ نَارِہٖ، وَلَا مِنْ ہٰذَا إِلٰی جَارِہٖ شَيْءٌ مِّنْ نَعِیمِہٖ، وَقُدْرَۃُ اللّٰہِ أَوْسَعُ مِنْ ذٰلِکَ وَأَعْجَبُ، وَلٰکِنَّ النُّفُوسَ مُولَعَۃٌ بِّالتَّکْذِیبِ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ عِلْمًا وَّقَدْ أَرَانَا اللّٰہُ فِي ہٰذِہِ الدَّارِ مِنْ عَجَائِبِ قُدْرَتِہٖ مَا ہُوَ أَبْلَغُ مِنْ ہٰذَا بِکَثِیرٍ وَّإِذَا شَاءَ اللَّہُ أَنْ یُّطْلِعَ عَلٰی ذٰلِکَ بَعْضَ عِبَادِہٖ أَطْلَعَہ، وَغَیَّبَہ، عَنْ غَیْرِہٖ، وَلَوْ أَطْلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْعِبَادَ کُلَّہُمْ لَزَالَتْ حِکْمَۃُ التَّکْلِیفِ وَالْإِیمَانِ بِالْغَیْبِ، وَلَمَا تَدَافَنَ النَّاسُ، کَمَا فِي الصَّحِیحِ عَنْہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنْ لَّا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَا أَسْمَعُ ......جاری ہے
-------------✧ ✧------------------✦✦✦----------------
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلةالشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Azaab-E-Qaber Kya Hai Iska Talluq Jism Se HAi YA Rooh Se

Azab E Qaber Kya HAi

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 عذابِ قبر کیا ہے
👆 اس مضمون کو سمجھنے سے پہلے چند سوالات اور انکے جوابات 👇 :
⏪ ۱۔ عذابِ قبر سےکیا مراد ہے ؟ اس کا تعلق روح سے ہوتا ہے یا بدن بھی ملوث ہوتا ہے؟
⏪ ۲۔ اگر قبر میں جسم کو بھی عذاب ہوتاہے تو پھر اُخروی عذاب کے کیا معنی ہیں؟
⏪ ۳۔ازروئے قرآن زندگیاں دو ہیں، دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی۔ پھر برزخی زندگی کیا ہے ؟ موت کو زندگی کا نام دینا میرے فہم سے بالا تر ہے۔
⏪ ۴۔ مُردہ تو سننے سے قاصر ہوتا ہے۔ پھر انہ یسمع قرع نعا لھم کا کیا مطلب ہے۔ آخر قرآن ہی تو کہتا ہے ﴿اَمْ لَھُمْ اذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَاط﴾ ؟
⏪ ۵۔ روح اور جسم کا باہمی ملاپ کا نام زندگی ہے۔ پھر فیعاد روحہ فی جسدہ سے کیا مراد ہے؟ کئی لوگوں کی نعشیں (جیسے لندن میں فرعون کی اور چین میں ماوزسے تنگ کی) باہر سامنے پڑی ہیں لیکن ان میں اعادہ روح کے کوئی آثا ر نظر نہیں آتے مزید یہ کہ جب مردے زندہ ہونگے تو وہ قبروں سے باہر نکل پڑینگے؟
⏪ ۶۔ حدیث میں ہے : مستحق عذاب (کافر یا مشرک ) کو فرشتے مارتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی چیخ سوائے جن و انس کے تمام مخلوق سنتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے حضرت محمد ﷺ کا خچر تو بدک گیا مگر ہمارے ریوڑ کے ریوڑ قبرستانوں میں چرتے ہیں اور کبھی ان کے ڈرنے کا واقعہ نہیں سناگیا؟ آپ ﷺ کے خچر کا بدکنا تو خرقِ عادت تھا اور اس کو معجزہ کہیں گے۔
⏪ ۷۔ عالمِ خواب میں فوت شدگان کی روحیں اپنے لواحقین سے آکر ملتی ہیں یا یہ محض تخیل ہوتا ہے؟
(
الجواب : الشیخ محترم حافظ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ
سوالات کے مختصر جوابات پیشِ خدمت ہیں۔👇
⚪ ۱۔ عذابِ قبر سے مراد وہ عذاب ہے جو میت کو قبر میں دیا جاتاہے ۔ اور قرآن و حدیث کی واضح نصوص سے ثابت ہے کہ قبر زمین میں ہوتی ہے اور قیامت کے دن انسانوں کو اسی ارضی قبر سے زندہ کر کے اٹحایا جائے گا ۔ ارضی قبر کے علاوہ کسی دوسری فرضی قبر کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور اس عذاب کا تعلق جسد یعنی میت سے ہوتاہے اور روح جنت یا جہنم میں ہوتی ہے ۔(دیکھئے سورۃ نوح آیت: ۲۵ التحریم: ۱۰) نبی اکرم ﷺ عذابِ قبر اور عذابِ جہنم دونوں سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے :
“المیت یعذب فی قبرہ بمانیح علیھا”
میت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اس پر نوحہ کے سبب سے (بخاری : ۱۲۹۲ و مسلم : ۹۲۷)
یہ حدیث قبر میں میت (بدن) کے عذاب پر بالکل واضح ہے۔
لہذا ثابت ہوا کہ عذاب کا تعلق جسم سے بھی ہے اور روح کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ موت روح اور جسم کی جدائی کا نام ہے اور قیامت ہی کے دن روح اور جسم آپس میں دوبارہ ملیں گے۔
⚪ ۲۔ قبر میں جسم کو عذاب ہوتاہے اور قیامت کے دن بھی عذاب ہوگا۔ آپ کایہ اعتراض کہ پھر اخروی عذاب کا کیا مطلب ہے ؟ تو قرآنِ کریم سے ثابت ہے کہ قبض روح کے وقت کافروں کو عذاب دیا جاتا ہے ۔ دیکھئے سورۃ الانعام ۹۳، الانفال آیت ۵۔ آپ سے بھی یہی سوال ہے کہ جب قبضِ روح کے وقت کافروں کو عذاب دیا جاتا ہے تو پھر اُخروی عذاب کے کیا معنی ہیں؟ اَب جوجواب آپ کا ہوگا، وہی ہمار ا بھی ہے ۔
⚪ ۳۔ دو زندگیوں کا مطلب یہ ہے کہ آج دنیا میں جیسی زندگی ہمیں حاصل ہے اسی طرح کی محسوس اور ظاہری زندگی قیامت کے دن بھی حاصل ہوگی اور مرنے کے بعد حالتِ موت میں بھی عذاب اور راحت کو میت اور روح محسوس کرتی ہیں۔ قرآن نے ضِعْفَ الْمَمَاتِ کے ساتھ حالتِ موت میں عذاب کا ذکر کیا ہے ۔ دیکھئے بنی اسرائیل آیت ۷۵۔ علمائے اسلام نے موت کے بعد ثواب اور عذاب کی کیفیت کو سمجھانے کے لئے برزخی زندگی کا نام دیاہے بہرحال نام چھوڑیں اصل حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
⚪ ۴۔ آپ کہتے ہیں کہ مردہ سننے سے قاصر ہوتا ہے، قرآن کی کونسی آیت ہے یا کسی حدیث میں ایسا کوئی مضمون آیاہے کہ مردہ سننے سے قاصر ہے ؟ البتہ قرآن کریم میں یہ الفاظ آئے ہیں:
وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ ﴿۲۲﴾اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنادے اور (اے نبی ﷺ) آپ ان لوگوں کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سناسکتے (فاطر: ۲۲)
اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنا سکتاہے۔ البتہ نبی اکرم ﷺ یا کوئی دوسرا مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ یعنی نبی کے اختیار میں مردوں کوسنانا نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب سنانا چاہتا ہے تو قلیب بدر والوں کو نبی ﷺ کا فرمان سنا دیا (بخاری: ۱۳۷۱، ۱۳۷۲ مسلم : ۹۳۲)
میت واپس جانے والوں کی جوتیوں کی چاپ سنتی ہے (بخار ی: ۱۳۳۸) میت سے قبر میں سوالات کئے جاتے ہیں: مَنْ رَبُّکَ، تیرا رب کون ہے ؟ مَا تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الْرَّجْلِ، تُو اس شخص کے بارے میں کیا جانتاہے ؟ یہ تمام باتیں میت کو اللہ تعالیٰ سنا تا ہے۔ آپ نے جو آیت نقل کی ہے وہ بے موقع ہے ۔ آپ اس سلسلہ میں تحقیق کریں۔
⚪ ۵۔ فَتُعَادُ رُوْحُہٗ فِیْ جَسَدِہٖکا کیا مطلب ہے کہ سوال و جواب کے وقت روح کو میت میں لوٹایا جاتا ہے اور یہ آخرت کا معاملہ ہے اور آخرت کے معاملات کو عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاسکتا۔ پھر یہ غیب کا معاملہ ہے ۔الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ایمان والے اِن اَن دیکھی حقیقتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ایسی حقیقتیں کہ جو پردہ غیب میں ہیں، ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ نظر کیوں نہیں آتیں تو یہ طرزِ عمل کفارو مشرکین کا تھا۔ اور اگر آپ اِن حقیقتوں کو دیکھنے کے متمنی ہیں تو پھر کچھ انتظار کرلیں موت کے وقت یہ تمام حقائق آپ کو معلوم ہوجائیں گے۔
⚪ ۶۔ جب میت کو عذاب دیا جاتا ہے تو جنوں اور انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق اِن کے چیخنے چلانے کی آواز سُنتی ہے۔ ایک حدیث میں “یعذبون حتی تسمع البھائم کلھا“ (بخاری : ۶۳۶۶ ومسلم : ۵۸۶)“تمام چوپائے میت کی آواز کوسنتے ہیں” ایک حدیث میں “یسمع من یلیہ” قریب کی ہر چیز میت کی آواز کو سنتی ہے ۔ (بخاری : ۱۳۳۸) میت کے چیخنے چلانے کی آواز ہر چیز سنتی ہے ، سوائے انسان کے اور اگر انسان ان کو سن لے تو بے ہوش ہوجاتا ہے۔ (بخاری: ۱۳۷۴)
اِن احادیث سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ میت کے چیخنے چلانے کی آواز ہر چیز اور تمام جانور سنتے ہیں لیکن انسان اور جنات اسے نہیں سن سکتے ۔ جہاں تک بات نبی اکرم ﷺ کے خچر کے بدکنے کا معاملہ ہے تو یقیناً وہ بھی اس اچانک آواز سے بدک گیا تھا۔ دنیا میں جانور بھی دو قسم کے ہیں ایک وہ شہری جانور جو سڑک پر سائرن کی زبردست آواز سے بھی متحرک نہیں ہوتے۔ دوسرے تھر پاکر کے علاقے کے جانور جو دُور کسی کار کی آواز سن کر ہی ایسے بدحواس ہو کر اور گھبرا کر بھاگتے ہیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے ۔ لہذا قبر کی آواز سے بھی ڈھیٹ قسم کے جانور نہیں بدکتے بلکہ یہ آوازیں اِس کی روزمرہ کا معمول اور فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہیں جبکہ حساس قسم کے جانور اس سے بدکتے ہیں۔
اور نبی اکرم ﷺ کا عذابِ قبر کو سننا آپ کے نبی ہونے کی وجہ سے تھا ۔ اور آپ ﷺ کے خچر کا عذاب کی آواز سے بدکنا تو اِسے معجزہ کا نام دینا غلط بلکہ جہالت ہے کیونکہ تمام ہی جانور عذابِ قبر کی آواز کو سنتے ہیں۔ لہذا عثمانی فلسفہ کے بجائے قرآن و حدیث پر سچے دل سے ایمان لے آئیں۔
⚪ ۷: خواب میں بعض دفعہ مرنے والے سے ملاقات ہوجاتی ہے جس سے اس کی حالت کا پتہ چل جاتا ہے ۔ جس طرح طفیل بن عمرو ؓنے اپنے ساتھ ہجرت کرنے والے ساتھی کو خودکشی کے بعد خواب میں دیکھا جس نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی اکرم ﷺ کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے بخش دیا ہے لیکن فرمایا کہ جس چیز کو یعنی ہاتھ کی انگلیوں کو تو نے خود خراب کیاہے میں انہیں ٹھیک نہیں کروں گا۔ نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر دعا فرمائی کہ اللہ اس کی انگلیوں کو بھی معاف فرما دے ۔ (مسلم: ۱۱۶)
نبی کریم ﷺ نے سیدنا جعفر الطیار ؓ کو خواب میں دیکھا تھا، ان کے دو پر تھے جن پر خون لگا ہوا تھا دیکھئے المستدرک للحاکم (۲۱۲/۳ ح ۴۹۴۳ وسندہ حسن) ابو الصبھاء صلہ بن اشیم العدوی (ثقہ تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے (سیدنا ) ابو رفاعہ العدوی ؓ کو ان کی شہادت کے بعد (خواب میں) دیکھا، وہ ایک تیز اونٹنی پر جا رہے تھے۔ إلخ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۸۴/۱۱ ،۸۵ ح ۳۰۵۲۳ وسندہ صحیح)
الشیخ حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ
🌏 عذاب قبر زمینی قبر میں
اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں کہ عذاب اور نعمتیں بدن اور روح دونوں کو ہوتی ہے روح کو بدن سے جدا ہونے کی شکل میں بھی عذاب اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بدن سے متصل ہونے کی شکل میں بھی تو بدن سے روح کے متصل ہونے کی شکل میں روح کو عذاب اور نعمت کا اس حالت میں حصول دونوں کو ہوتا ہے جس طرح کہ روح کا بدن سے منفرد ہونے کی شکل میں ہے ۔
⚪ ائمہ سلف کا مذہب :
مرنے کے بعد میت یا تو نعمتوں میں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے ۔ جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتا ہے روح بدن سے جدا ہونے کے بعد یا تو نعمتوں میں اور یا عذاب میں ہوتی اور بعض اوقات بدن کے ساتھ ملتی ہے تو بدن کے ساتھ عذاب اور نعمت میں شریک ہوتی اور پھر قیامت کے دن روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا تو وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جسموں کا دوبارہ اٹھنا اس میں مسلمان اور یہودی اور عیسائی سب متفق ہیں- الروح ( ص / 51- 52)
علماء اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ انسان خواب میں بعض اوقات یہ دیکھتا ہے کہ یہ کہیں گیا اور اس نے سفر کیا یہ پھر اسے سعادت ملی ہے حالانکہ وہ سویا ہوا ہے اور بعض اوقات وہ غم وحزن اور افسوس محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ پر دنیا میں ہی موجود ہے تو بزرخی زندگی بدرجہ اولی مختلف ہو گي جو کہ اس زندگی سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اسی طرح آخرت کی زندگی میں بھی ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اگر یہ کہا جائے کہ میت کو قبر میں اپنی حالت پر ہی دیکھتے ہیں تو پھر کس طرح اس سے سوال کیا جاتا اور اسے بٹھایا اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے بلکہ اس کی مثال اور نظیر عام طور پر نیند میں ہے کیونکہ سویا ہوا شخص بعض اوقات کسی چیز پر لذت اور یا پھر تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح بیدار شخص جب کچھ سوچ رہا ہوتا یا پھر سنتا ہے تو اس کی لذت اور یا تکلیف محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے اور انہیں وحی کی خبر دیتے تھے لیکن حاضرین کو اس کا ادراک نہیں ہوتا تھا تو یہ سب کچھ واضح اور ظاہر ہے – شرح مسلم ( 71/ 201)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے :
اور سوئے ہوئے شخص کو اس کی نیند میں لذت اور تکلیف ہوتی ہے جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتی ہے حتی کہ یہ ہوتا ہے کہ نیند میں اسے کسی نے مارا تو اٹھنے کے بعد اس کی درد اپنے بدن میں محسوس کرتا ہے اور نیند میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کوئی اچھی سی چیز کھائی ہے تو اس کا ذائقہ اٹھنے کے بعد اس کے منہ میں ہوتا ہے اور یہ سب کچھ پایا جاتا اور موجود ہے ۔
تو اگر سوۓ ہوئے شخص کے بدن اور روح کو یہ نعمتیں اور عذاب جسے وہ محسوس کرتا ہے ہو سکتیں ہیں اور جو اس کے ساتھ ہوتا ہے اسے محسوس تک نہیں ہوتا حتی کہ کبھی سویا ہوا شخص تکلیف کی شدت یا غم پہنچنے سے چیختا چلاتا بھی ہے اور جاگنے والے اس کی چیخیں سنتے ہیں اور بعض اوقات وہ سونے کی حالت میں باتیں بھی کرتا ہے یا قرآن پڑھتا اور ذکر واذکار اور یا جواب دیتا ہے اور جاگنے والا یہ سب کچھ سنتا اور وہ سویا ہوا اور اس کی آنکھیں بند ہیں اور اگر اسے مخاطب کیا جائے تو وہ سنتا ہی نہیں ۔
تو اس کا جو کہ قبر میں ہے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے اور فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں ؟
اور دل قبر کے مشابہ ہے تو اسی لۓ غزوہ خندق کے دن جب عصر کی نماز فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھرے گا اور دوسری روایت کے لفظ ہیں < ان کے دلوں اور قبروں کو آگ سے بھرے > اور ان کے درمیان اس قول میں تفریق کی گئی ہے ۔
< جب قبروں جو ہے نکال لیا جائے گا اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی >
اور اس کے امکان کی تقریر اور تقریب ہے ۔
یہ کہنا جائز نہیں کہ جو کچھ میت عذاب اور نعمتیں کو حاصل کرتی ہے وہ اسی طرح کہ سونے والا حاصل کرتا ہے بلکہ یہ عذاب اور نعمتیں اس سے زیادہ کامل اور حقیقی ہیں لیکن یہ مثال امکانی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور اگر سائل یہ کہے کہ میت قبر میں حرکت تو کرتی نہیں اور نہ ہی مٹی میں تغیر ہوتا ہے وغیرہ حالانکہ یہ مسئلہ تفصیل اور شرح چاہتا ہے یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔
اور اللہ تعالی زیادہ علم رکھتا ہے ۔
اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے – آمین
مجموع الفتاوی ( 4/ 275 – 276 )
الشیخ محمد صالح المنجد

🌏 ارضی قبر میں عذاب کا ثبوت :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دو قبروں پر سے گذرے ۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں ایسی چیز میں عذاب نہیں دیا جا رہا کہ جس سے بچنا ان کے لئے کوئی بڑی بات تھی بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھا (اور مسلم: ۲۹۲کی ایک روایت میں لا یستنرہ من البول کے الفاظ ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھتا تھا۔
اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی لی اور اسے درمیان میں سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہو جائیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کر دے گا‘‘۔
(بخاری و مسلم۔ مشکاۃ المصابیح باب آداب الخلاء)۔ (بخاری رقم:۲۱۶، ۲۱۸، ۱۳۶۱، ۱۳۷۸، ۶۰۵۲، ۶۰۵۵۔ مسلم:۲۹۲)۔
صحیح مسلم میں جناب جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب قبر میں کمی نبی ﷺ کی دعا اور شفاعت کے ذریعے ہوئی تھی۔
(صحیح مسلم۔ ۲/۴۱۸عربی حدیث:۳۰۱۲)
بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ لوگ ان گناہوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بڑے گناہ ہیں۔ بعض منکرین عذاب قبر نے اس روایت کی بڑی عجیب توجیہہ بیان کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ان قبر والوں کو یہاں نہیں بلکہ برزخی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا لیکن یہ حدیث ان کی اس باطل تأویل کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ صحیح بخاری کی بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
اما ھذا فکان لا یستتر من بولہ و اما ھذا فکان یمشی بالنمیمۃ
رہا یہ شخص تو پس یہ پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھااور رہا یہ شخص پس یہ چغل خوری کیا کرتا تھا۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب الغیبۃ)۔
اس روایت کے اگلے الفاظ یہ ہیں:
ثم دعا بعسیب برطب فشقہ باثنین فغرس علی ھذا واحدا و علی ھذا واحدا … (بخاری ۶۰۵۲)
پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی منگوائی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا پھر ایک ٹہنی کو اس (قبر) پر اور دوسری ٹہنی کو اس (دوسری قبر) پر گاڑھ دیا۔
ایک روایت میں آخری الفاظ اس طرح ہیں:
فجعل کسرۃ فی قبر ھذا و کسرۃ فی قبر ھذا (بخاری:۶۰۵۵، کتاب الادب)
پس آپ ﷺ نے ایک ٹکڑے کو اس قبر پر اور دوسرے کو اس (دوسری) قبر پر گاڑھ دیا۔
اس حدیث میں اسم اشارہ قریب ’’ھذا‘‘ کا استعمال کر کے آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ان دونوں قبر والوں کو انہی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے اور اس کی وضاحت سے ڈاکٹر عثمانی کی باطل تاویلات بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
اس حدیث میں دونوں اشخاص کے لئے ھذا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ھذا اسم اشارہ قریب کے لئے آتا ہے یعنی اس شخص کو اور اس شخص کو! اس اس بنا پر عذاب ہو رہا ہے۔ اور دوسری حدیث کے مطابق ٹہنی کا ایک حصہ اس قبر پر اور دوسرا اس قبر پر۔ لہٰذا ان احادیث کی بناء پر منکرین کے تمام شبہات غلط ثابت ہوجاتے ہیں اور پھر برزخی قبر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے لہٰذا حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو کون تسلیم کرے گا؟
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ
Share:

Qyamat Ke Din Nabi Ke Sbse Jyada KArib Kaun Hoga?

Akhlaq-E-Hasna Ki Targiib

🌷اخلاق حسنہ کی ترغیب
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک آدمی حسن اخلاق کے ذریعے رات کو قیام کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے کا درجہ پا لیتا ہے۔
( مسند احمد حدیث 9159 )
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو اس شخص کے بارے میں بتلا دوں جو روزِ قیامت مجھے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب ہو گا؟ لوگ خاموش رہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو تین دفعہ اسی بات کو دوہرایا، پھر لوگوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔
( مسند احمد حدیث 9157 )
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک مجھے اس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اخلاقِ صالحہ کی تکمیل کروں۔
(مسند احمد حدیث9155 )
Share:

Salam Karne Ka Sunnat Tarika.

Salam Karne Ke Aadab. 

ﺍﻟﺴَّـــــــﻼَﻡُ ﻋَﻠَﻴــْــﻜُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُ ﺍﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛـَـﺎﺗُﻪ

ﻧﺎﻣﺤﺮﻡ ﻣﺮﺩ ﻭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎﺍﯾﮑﺪﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮﺳﻼﻡ :
ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﺎ ﮈﺭ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﻡ ﮨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔
‏« ﺍﺗﻴﺖ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻫﻮ ﻳﻐﺘﺴﻞ ﻓﺴﻠﻤﺖ ﻋﻠﻴﻪ
" ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ ﺁﭖ ﻏﺴﻞ ﻓﺮﻣﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ۔ "
ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﺍﻟﻤﺴﺎﻓﺮﻳﻦ ﺑﺎﺏ ﺍﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﻀﺤﻲٰ ‏( ١٦٦٩ ‏)
ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺩﻭﻥ ﺯﻛﺮ ﺍﻟﺴﻼﻡ ‏( 1103 ‏)
‏( ﯾﺎ ﺩ ﺭﮨﮯ ﺍﻡ ﮨﺎﻧﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﭼﭽﺎ ﺯﺍﺩ ﺑﮩﻦ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
‏« ﻳﺎ ﻋﺎﺋﺸﺔ ! ﻫﺬﺍ ﺟﺒﺮﻳﻞ ﻳﻘﺮﺍ ﻋﻠﻴﻚ ﺍﻟﺴﻼﻡ ‏» ﻗﺎﻟﺖ : ﻗﻠﺖ : ﻭﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻭﺭﺣﻤﺔ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺑﺮﻛﺎﺗﻪ
ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻻﺳﺘﺌﺬﺍﻥ ﺡ ‏( ٦٢٤٩ ‏)
ﺍﮮ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﯾﮧ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻭ ‏( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧؓ ﻧﮯﮐﮩﺎ ‏) ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻭﺭﺣﻤﺔﺍﻟﻠﮧ ﻭﺑﺮﮐﺎﺗﮧ
ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﯿﮟ ﺑﺎ ﯾﮟ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺗﺒﻮ ﯾﺐ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﮨﮯ ۔
‏« ﺑﺎﺏ ﺗﺴﻠﻴﻢ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﻭﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ‏» ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻻﺳﺘﺌﺬﺍﻥ ﺭﻗﻢ ﺍﻟﺒﺎﺏ ‏( ١٦ ‏)
ﯾﻌﻨﯽ " ﻣﺮﺩ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ۔ "
ﭘﮭﺮ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﻼﻡ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﺏ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﺷﺎﺭﺡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺍﺑﻦ ﺑﻄﺎﻝ ﻧﮯ ﺍﻟﻤﮩﻠﺐ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔
‏« ﺳﻼﻡ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﻭﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﺟﺎﺋﺰ ﺍﺫﺍ ﺍﻣﻨﺖ ﺍﻟﻔﺘﻨﺔ ‏»
" ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺟﺎ ﺋﺰ ﮨﮯ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﺎ ﮈﺭ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔ " ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺯ ﻋﺎﻡ ﮨﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﺴﯽ ﻣﺠﻤﻊ ﺳﮯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﻘﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﺎ ﮈﺭﻧﮧ ﮨﻮ۔
‏( ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ : 11/24 ‏)
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺛﻨﺎﺋﯿﮧ ﻣﺪﻧﯿﮧ / ﺟﻠﺪ /1 ﺻﻔﺤﮧ 816
ﻧﺎﻣﺤﺮﻡ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﺎ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﻨﺎ :
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺤﺮﻣﺎﺕ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻼﺋﮯ ﯾﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﮮ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺣﺮﺍﻡ، ﻓﺘﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺍﺣﺶ ﮐﮯ ﻇﮩﻮﺭ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺣﺪﯾﺚ ﺟﺴﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﻧﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﻨﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭـ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﯿﻤﮧ ﺑﻨﺖ ﺭﻗﯿﻘﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻬـ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﻲ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﺮﯾﮟ، ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻋﮩﺪ ﻟﯿﺎ ۔۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ : ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ : ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮭـ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ؟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭـ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﻴﺴﮯ ﺍﻳﮏ ﺳﻮﻋﻮﺭﺕ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ۔
ﻣﺴﻨﺪﺍﺣﻤﺪ 270,163/6
ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ / ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ / 7214,4891,41814180
ﺷﺮﺡ ﻧﻮﻭﯼ 10/13 - ﺳﻨﻦ ﺗﺮﻣﺬﯼ -3306 ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ 2875
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
ﺍﻟﻠﻪ ﻛﻰ ﻗﺴﻢ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭـ ﻧﮯ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭـ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﯾﺎ، ﺍﻥ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﯿﻌﺖ ﻟﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﯿﻌﺖ ﻟﯽ ﮨﮯ۔
ﻣﺴﻨﺪﺍﺣﻤﺪ -6/357 ﺍﻟﻤﻮﻃﺎ -2/982 ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ 2874
ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﺤﺮﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﺗﻮ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﯼ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭼﭽﺎ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﮨﻤﺴﺎﺋﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺟﻤﺎﻉ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺮﺍﻡ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻭﺳﯿﻠﮧ ﮨﮯ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﮨﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﯼ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻗﺎﺭﺏ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺮﺩ ﯾﺎ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﯾﺎ ﺍﮨﻞ ﻭﻃﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﻮﮞ ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮈﺭﺍﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﯾﺎ ﺑﻮﺳﮧ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺻﺮﻑ ﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻼﻡ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼ ﺑﻦ ﺑﺎﺯ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ / ﺟﻠﺪﺍﻭﻝ / ﺻﻔﺤﮧ 186
ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﻟﻎ ﺑﯿﭩﯽ ‏( ﺧﻮﺍﮦ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﮨﻮﯾﺎﻏﯿﺮﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ‏) ﮐﻮﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﻨﺎ :
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍٓﺩﻣﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﯾﺎ ﺑﮍﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺑﭽﯽ ﺑﮍﯼ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺭﺧﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖؓ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﺨﺖ ﺟﮕﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧؓ ﮐﮯ ﺭﺧﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﻨﺴﯽ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﻮ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮩﺘﺮ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻧﺎﮎ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﺷﮩﻮﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﻮﺳﮧ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﺍﻭﺭ ﻓﺤﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﺳﺪﺑﺎﺏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺳﻼﻣﯿﮧ ﺟﻠﺪ /3 ﺻﻔﺤﮧ 92
. ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﮐﺎﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﮐﻮﺳﻼﻡ،ﺑﻮﺳﮧ ﯾﺎﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﺎ :
ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻃﻠﺒﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ، ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﺪﺭﺳﮧ ﻣﯿﮟ، ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻃﻠﺒﮧ ﻭ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺍﺧﺘﻼﻁ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﺭﭘﮯ ﮨﻮﻧﺎ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻧﮧ ﮨﻮ، ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻃﻠﺒﮧ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻼﻡ ﺩﻭﺭ ﮨﯽ ﺳﮯ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ، ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻓﺘﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭﯼ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﻮﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺟﺘﻨﺎﺏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﻭﮦ ﺷﺮﻋﯽ ﺳﻼﻡ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﻨﮧ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﯾﺎ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﮐﺎ ﺳﻼﻡ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﻮ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺷﮩﻮﺕ ﯾﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﺭﻏﺒﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻋﺎً ﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺳﻼﻣﯿﮧ / ﺟﻠﺪ /3 ﺻﻔﺤﮧ 83
ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﯾﺎ ﺟﻮﺍﺏ :
ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮐﺎﻓﺮ ﯾﺎ ﻣﺸﺮﮎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﯿﮏ ﯾﺎ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﻭﺭﻧﮧ ﻭﻋﻠﯿﮏ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﯾﺎ ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﮔﺮ ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮐﺎﻓﺮ ﯾﺎ ﻣﺸﺮﮎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ۔
ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻭﻣﺴﺎﺋﻞ
ﺟﻠﺪ 01 / ﺻﻔﺤﮧ /532 ﻣﺤﺪﺙ ﻓﺘﻮﯼٰ
ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ :
ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﻨﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻼﻡ ﮐﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮ ﺧﻮﺍﮦ ﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﮐﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺸﺎﺑﮩﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﻣﻘﺮﺭﮐﺮﺩﮦ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺧﻼﻑ ﮨﮯ۔
ﮨﺎﮞ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﮔﺮ ﺩﻭﺭﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﮧ ﺩﮮ ﺍﻭﺭﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮮﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﮮ ﺗﺎﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺩﻟﯿﻞ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ،ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢﷺﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ۔
ﻣﻘﺎﻻﺕ ﻭﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺑﻦ ﺑﺎﺯ
ﺻﻔﺤﮧ /411 ﻣﺤﺪﺙ ﻓﺘﻮﯼٰ
ﺩﻭﺭﺍﻥِ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺁﻧﮯﻭﺍﻟﮯﺷﺨﺺ ﮐﺎﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭﺣﺎﻟﺖِ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ :
ﻧﻤﺎﺯﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﯾﺎ ﺑﺎﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﻮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﮐﮩﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺻﺤﺎﺑﯽ﷢ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮍﯼ ﭼﻮﭨﯽ ﮐﺎ ﺯﻭﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﴿ﺇِﻥَّ ﺃَﻧْﮑَﺮَ ﺍﻟْﺎَﺻْﻮَﺍﺕِ ﻟَﺼَﻮْﺕُ ﺍﻟْﺤَﻤِﯿْﺮِ)﴾ﻟﻖﻣﺎﻥ 19 ‏) ’’ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﮔﺪﮬﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﮯ ‘‘ ﺭﮨﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﺎﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ۔ ‏( ﺍﺑﻮﺩﺍﻭﺩ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ﺑﺎﺏ ﺭﺩ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﯽ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ، ﺗﺮﻣﺬﯼ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ۔ ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻹﺷﺎﺭۃ ﻓﯽ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ‏)
ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻭ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺑﯿﺎﻥ / ﺟﻠﺪ /1 ﺻﻔﺤﮧ 160
ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﻢ ﺟﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﮯ ﺗﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺘﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﮯ۔ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
'' ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻼﻝ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﺐ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ؟ ﺑﻼﻝ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‏( ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ ﻭﻗﺎﻝ ﺣﺴﻦ ﺻﺤﯿﺢ ‏)
ﻋﻼﻣﮧ ﻧﺎﺻﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻻ ﻟﺒﺎﻧﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻭ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﮨﮯ ۔
‏( ﻣﺸﮑﻮۃ ﺟﻠﺪ۱، ﺻﻔﺤﮧ۳۱۴ ‏)
ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺧﻮﺍﮦ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ۔ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺧﻮﺩ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺩﯾﺘﮯ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺘﮯ۔ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺣﺒﺸﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮨﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺣﺒﺸﮧ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ۔ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
)) ﺃﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻳﺤﺪﺙ ﻣﻦ ﺍﻣﺮﻩ ﻣﺎ ﻳﺸﺎﺀ ﻭ ﺇﻥ ﻣﻤﺎ ﺃﺣﺪﺙ ﺃﻥ ﻻ ﺗﺘﻜﻠﻤﻮﺍ ﻓﻰ ﺍﻟﺼﻠﻮﺓ ((. ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺑﻮ ﺩﺍﺅﺩ ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺒﺎﻧﻰ ﺣﺴﻦ ‏)
'' ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﭘﻨﺎ ﺟﻮ ﺣﮑﻢ ﻧﯿﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺩﮮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﻡ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ '' ۔
ﺍﻥ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺭﺳﻮﻝ ﺍ ﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ۔ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ۔
ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺣﻞ / ﺟﻠﺪ /1 ﻣﺤﺪﺙ ﻓﺘﻮﯼٰ
ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺟﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﺎ ﺧﺸﻮﻉ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ،ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﺾ ﮐﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﻤﺎ ﺯ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ ﮨﮯ،ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﭽﮫ ﮐﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﺪﺗﮏ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﮐﺎ ﺧﺸﻮﻉ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺍﺣﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺗﮭﯽ ،ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺩﯾﺎﮔﯿﺎ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩؓ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺟﺐ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﺒﺸﮧ ﮐﮯﻓﺮﻣﺎﻧﺮﻭﺍ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺠﺎﺷﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺍٓﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﮐﻮ ﺣﺴﺐ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯﻣﺘﻌﻠﻖ ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﺍٓﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺟﺐ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍٓﭖ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ۔ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ‘‘: ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ’’
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ،ﺍﻟﻤﺴﺎﺟﺪ : ۱۲۰۱ ‏)
ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ : ۱۲۰۵ ‏)
ﺍﻥ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺳﮯﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﺽ ﮐﺎ ﺗﺎﺭﮎ ﻗﺮﺍﺭ ﭘﺎﺋﮯ،ﺍ ﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﺎٓﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﺳﻼﻡ ‘‘ ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﮯ ’’ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺷﺎﺋﺴﺘﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺍٓﮨﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯﺳﻼﻡ ﮐﮩﮯ۔ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﮩﻨﺎ ﺩﻭﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ۔
‏( ۱ ‏) ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﮐﮯﺑﻌﺪ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﮮ، ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩؓ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﮐﻮ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﮐﮯﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﯼ۔
‏( ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ،ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ : ۹۴۲ ‏)
‏( ۲ ‏) ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯﺍﺷﺎﺭﮦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮؓ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﻗﺒﺎﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯﮔﺌﮯ۔ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻘﯿﻢ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﮐﮯﮨﻤﺮﺍﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﮩﯿﺐ ؓ ﺗﮭﮯ،ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﯿﺴﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍٓﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
‏( ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ،ﺍﻗﺎﻣۃ ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ : ۱۰۱۷ ‏)
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮؓ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼ ﻝ ؓ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﮩﯿﺐ ؒ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
‏( ﺟﺎﻣﻊ ﺗﺮﻣﺬﯼ،ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ : ۳۶۸ )
ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝ ؓ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﻼ ﮐﺮ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‏( ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ،ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ : ۹۲۷ ‏)
ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺣﺴﻦ ﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﻋﻤﻞ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺟﻮﺍﺯ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮐﮧ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﻮﻧﮯﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﮐﺮﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﻣﺴﻨﻮﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ،ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺍٓﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺭﮐﻮﻉ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺑﺎٓﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ‘‘ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﺗﺤﻤﯿﺪ ’’ ﺍﺩﺍ ﮐﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺧﻼﺹ ﮐﮯﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺤﺴﯿﻦ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻋﻤﻞ ﺑﺠﺎﻻﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ،ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻗﺒﯿﻞ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﺍﺯﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ،ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﻮﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺍﻓﻀﻞ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺳﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﺠﺎﻻﺗﮯ ،ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﮐﺎﺑﺮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ؓ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ۔ﭘﮭﺮ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺻﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺻﺮﻑ ﺟﻮﺍﺯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ
ﺟﻠﺪ /2 ﺻﻔﺤﮧ 11
ﺩﻭﺭﺍﻥِ ﺍﺫﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻼﻡ ﻭ ﺟﻮﺍﺏ :
ﺍﺫﺍﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔
‏( ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ‏) ﺛﻨﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ، ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺛﻨﺎﺋﯿﮧ ﺟﻠﺪ ﺍﻭﻝ ﺹ ۳۲۳ ‏)
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ / ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻼۃ
ﺟﻠﺪ 1 / ﺻﻔﺤﮧ 159
ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﮐﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺒﮧ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺍٓﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﻤﺎﻉ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ، ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﻮٔﺫﻥ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ۔ ‏( ﺗﻨﻈﯿﻢ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﺟﻠﺪ ﻧﻤﺒﺮ ۶ ﺷﻤﺎﺭﮦ ﻧﻤﺒﺮ ۱۷ ‏)
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ / ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻼۃ
ﺟﻠﺪ 1 / ﺻﻔﺤﮧ 159
ﺩﻭﺭﺍﻥِ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻼﻡ :
ﺍﻧﺴﺎﻥ ‏( ﺟﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ‏) ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻄﺒﮧ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮨﻠﮑﯽ ﭘﮭﻠﮑﯽ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺘﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﻧﮧ ﮐﮩﮯ۔ ﺍﺱ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ :
‏« ﺇِﺫَﺍ ﻗُﻠْﺖَ ﻟِﺼَﺎﺣِﺒِﮏ ﺍٔﻧﺼﺖَ ﻳَﻮْﻡَ ﺍﻟْﺠُﻤُﻌَﺔِ ﻭَﺍﻟْﺈِﻣَﺎﻡُ ﻳَﺨْﻄُﺐُ ﻓَﻘَﺪْ ﻟَﻐَﻮْﺕَ ‏» ﻭﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ، ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺑﺎﺏ ﺍﻻﻧﺼﺎﺕ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺍﻻﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ، ﺡ : ۹۳۴، ﻭﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ، ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺑﺎﺏ ﻓﯽ ﺍﻻﻧﺼﺎﺕ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﯽ ﺍﻟﺨﻄﺒﺔ، ﺡ : ۸۵۱ ‏( ۱۱ ‏) ﻭﺍﻟﻠﻔﻆ ﻟﻤﺴﻠﻢ۔
’’ ﺟﺐ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺧﻄﺒﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﻮ ﮐﮧ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻟﻐﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ۔ ‘‘
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
‏« ﻭَﻣَﻦْ ﻣَﺲَّ ﺍﻟْﺤَﺼٰﯽ ﻓَﻘَﺪْ ﻟَﻐَﺎ ‏» ﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﻭﺩ، ﺍﻟﺼﻼﺓ، ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺡ : ۱۰۵۰، ﻭﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ، ﺍﻟﺼﻼﺓ، ﺑﺎﺏ ﻣﺎﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻟﻮﺿﻮﺀ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺡ : ۴۹۸۔
’’ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻨﮑﺮﯼ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﺍ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﻐﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ۔ ‘‘
ﺍﺱ ﻟﻐﻮ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﻤﻌﮯ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﺧﺘﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ :
‏« ﻭَﻣَﻦْ ﻟَﻐَﺎ ﻓﻼ ﺟﻤﻌﺔ ﻟﻪ ‏» ﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﻭﺩ، ﺍﻟﺼﻼﺓ، ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺡ : ۱۰۵۱۔
’’ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻟﻐﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ، ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﻮﺟﻤﻌﮧ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ۔ ‘‘
ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﻭ، ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺳﮯ ﻭﻋﻠﯿﮏ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮧ ﮐﮩﻮ، ﺧﻮﺍﮦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮏ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮩﮯ ﮨﻮﮞ، ﺍﻟﺒﺘﮧ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺑﻌﺾ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻨﺪﮦ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺏ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺏ ﺳﮯ ﻣﻘﺪﻡ ﮨﮯ، ﭘﮭﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﮮ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻨﻨﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻄﺒﮧ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﺍﺳﻼﻡ / ﻧﻤﺎﺯﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ
ﻭﺑﺎﻟﻠﮧ ﺍﻟﺘﻮﻓﯿﻖ
ﮬٰﺬﺍ ﻣﺎﻋﻨﺪﯼ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻋﻠﻢ ﺑﺎﻟﺼﻮﺍﺏ
ﻭٙﺍﻟﺴَّـــــــﻞﺍَﻡُ ﻋَﻠَﻴــْــﻜُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُ ﺍﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛـَـﺎﺗُﻪ
Share:

Apne Aap Ko Pahle Dekhe Saudi Arabia Ko Nahi.

Apne aapko pahle dekhe Saudia ko nahi.
Allama Iqbal ne kaha.
Apne qiradar pe daal kar parda Iqbal,
Har shaksh kah raha hai zamana kharab hai.
Naujwano ko Saudia ki bahas (argument) me fasa kar Faraiz  or sunnat masail se door kiya jata hai.
Naujawan *Saudia or foreign policy ko janne me lage huye hain lekin ye bhool gye hain, ki hme apne aapko pahle janna chahiye Jo hamare upar Faraiz hain or jo sunnat hain.*

👉kya hamari Ebadat ka tariqa  Rasoolullah ﷺ ki trah hai bhi ya nhi?
👉Hamare akhlaq kaise hain or kaise hone chahiye?
👉ham jis amal ko kar rahe hn wo gunah to nahi hai?
wagaira wagaira..

Aaj kal *Naujwano ko Saudia ki bahas (argument) me fasa kar Faraiz  or sunnat masail se door kiya jata hai.*
👉kyi baar aisa kuch *Aalim bhi karte hain taaki log esi bahas me fas kar apne Faraiz ko jane hi na, kyuki agr Hadees ka Tahqeeq krne lga to hm se daleel mangega, or fir hamari bezzati hogi un masail ko batane me, jiski daleel Rasoolullah ﷺ se sabit hi nhi hai, ya jisme Fiqhi masail me uljha kr rakha hua hai.*

👉 *Hamare liye Allah ne Rasoolullah ﷺ ko Namoona bna ke bheja hai, na ki kisi country ko,
hme achaai dekhni hoto kisi country se achaa hai ham Rasoolullah ﷺ or sahaba (r) ki achaai ko dekhe.*

👉 *Allah ki baat mano or Allah ke ke Rasool ﷺ ki baat mano*
📚 [Surah An-Nisa', Ayah 59]

👉Ham *Naujawano ko chahiye ki ham pahle apne Faraiz or gunah ko jane or uspe Amal kre Foreign policy ko baad me jane.

👉🔴kyuki *Qayamat ke din ham se Foreign policy baad me poochi jayegi pahle hamare Faraiz or sunnat ki pooch hogi.*
Bahhut sare log *Saudia ki baat karte hain or bura bhala kahte hain, kyi baar esme kuch Aalim bhi shamil hote hain jo Saudia ko bura bhala kahte hain,

Sabse pahli baat ye hai ki kisi ko bura bhala kahne se pahle hme apne aapko dekhna chahiye ki hum apne level pe (jitni hamari hasiyat hai) us level pe ham kya kr rahe hain, Deen-islam ke liye ,apne liye, Ebadat ka sahi tareeqa janne ke liye ham kya kar rahe hain, ham apne parosi ke sath kisa sulook kar rahe hain ,hamare akhlaq kaise hain*. wagaira wagira.....

Yaad Rahe agar hamari Ebadat Rasoolallah ﷺ ki tarh na hui to qubool hi nhi hogi to koi fayda nhi aisi ebadat ka.

Allah ham sab Naujawano ko Deen ke sahi ilm or Uspe amal ki taufeeq de *(Aameen).

Khamosh Mizaji Tumhe Jeene Nahi Degi.
*Is Daur Mein Jeena Hai To ISLAM Batado.
Jazakallahu-khairan-kaseere

Share:

Neki Aur Gunah Me Fark.

Neki Aur Gunah Me Fark.
Hazrat Nawwas Bin Saman Ansari Raziyallahu Anhu farmaate hain ke maine Rasulullah ﷺ se naiki aur gunah ke baare mein poocha: Rasulullah ﷺ ne irshaad farmaaya: Naiki achchhe aklaaq ka naam hai aur gunah wo hai jo tumhare dil mein khatke aur tumhe ye baat na pasand ho ke logon ko iski khabar ho. (Muslim: 6516)

Share:

Raste (Roads) Pe Chalne Ka Haque Ada Karo.

Raasto (roads) Ka Haq Ada Karo
Abu Saeed Khudri Radhi Allahu Anhu Se Riwayat Hai Ki Nabee Kareem Sal-Allahu Alaihi Wasallam Ne Farmaya.

Raaston Par Baithne Se Bacho, Sahaba Ne Arz Kiya Ya Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi Wasallam Hamari Ye Majlis To Bahut Zaruri Hai Hum Wahan Par Roz Hone Wali Guftgu (Baatein) Kiya Karte Hain Aap Sal-Allahu Alaihi Wasallam Ne Farmaya Achcha, Agar Tum in Majlis Mein Baithna Hi Chahte Hoto Raaste Ka Haq Ada Kiya Karo

Sahaba Ne Arz Kiya Raaste Ka Haq Kya Hai To Aap Sal-Allahu Alaihi Wasallam Ne Farmaya Nazar Neechi Rakhna, Raahgeeron (Guzarne Walon) Ko Na Satana, Salam Ka Jawab Dena, Bhalaii Ka Hukm Dena Aur Buraii Se Rokna Hai.

*📚{Sahih Bukhari, Vol :  7, 6229}
__________________________________

ENGLISH TRANSLATION

Narrated Abu Said Al-Khudri: The Prophet Sal-Allahu Alaihi Wasallam said:

"Beware ! Avoid Sitting On The Roads." The (the People) Said, "O Allah's Apostle Sal-Allahu Alaihi Wasallam ! We Can't Help Sitting (on the roads) As These Are (Our Places) Here We Have Talks." The Prophet Sal-Allahu Alaihi Wasallam Said, ' if You Refuse But To Sit, Then Pay The Road its Right '

The Said, "What is The Right Of The Road, O Allah's  Apostle ?" He Said, 'Lowering Your Gaze, Refraining From Harming Others, Returning Greeting, And Enjoining What is Good, And Forbidding What Is Evil."

{Sahih Bukhari, Vol 8, Book 74, No. 248}
____________________________________

Hadith :Raaste Mein Takleef Dene Wali Cheezon Ko Hatane Ka Sawab

*1) Abu Huraira Radi Allahu Anhu Se Riwayat Hai Ki Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi Wa Sallam Ne Farmaya:

Ek Shakhs Raaste Par Chal Raha Tha Ki Usne Wahan Kaante Daar Daali Dekhi, Usne Usko Hata Diya To Allah Subhanahu Ne Uska Ye Amal Qubul Kiya Aur Uski Magfirat Farma Di.

*📚Sahih Bukhari, Jild 3, 2472

*2) Abu Hurairah Radi Allahu Anhu Se Riwayat Hai Ki Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi Wasallam Ne Farmaya:-_

Maine Jannat Mein Ek Shaksh Ko Maze Karte Huye Dekha Jisne Ek Aise Darakht Ko Raah Mein Se Kaat Diya Tha Jis Se Logon Ko Takleef Hoti Thi.

*📚Sahih Muslim, Vol 6, 6671
___________________________________
ENGLISH TRANSLATION
*1).Narrated Abu Huraira Radi Allahu anhu Allah's Messenger May Peace Be Upon Him Said:-_

"While a Man Was On The Way🛣, He Found A Thorny Branch Of a Tree There On The Way And Removed it. Allah Thanked Him For That Deed And Forgave Him."

Sahih Bukhari, Book 43, Hadith 652

*2) Abu Huraira Reported Allah's Messenger May Peace Be Upon Him Said.

That I Saw a Person Enjoying Himself in Paradise Because Of The Tree That He Cut From The Path Which Was A Source Of inconvenience To The People.
📚Sahih Muslim, Book 32, 6341..

Share:

Chhoti Si Zindagi me Logo Se Kaise Mohabbat Kare.

Mukhtaser Si Zindagi Me Khushiyan Hasil Kare.

مختصر سی زندگی میں خوشیوں کا انبار سمیٹنے میں بہت تگ و دو نہیں ہوتی بس دلوں کا ملنا شرط ہے ۔ ایکدوسرے سے دل مل جائیں تو زبان کی کڑواہٹ بھی سماعت
میں زہر نہیں گھول سکتی اور زبان کی شیرینی میں بھی مزید مٹھاس کی تشنگی باقی رہتی ہے ، اور سچ پوچھیے تو یہی تشنگی ہمیں ایکدوسرے سے ناراض نہیں ہونے دیتی ، یہاں تک کہ ہماری زندگیوں میں اگر کوئی سوئے ظن رکھنے والا دوست داخل ہوجاتا ہے تو یہی تشنگی رنج و مسرت کے درمیان حائل ہو جاتی ہے جو کسی دل کو گھائل نہیں ہونے دیتی ۔ ۔ خوش رہیے ، ایسے لوگوں میں سے ہر گز نہ بنیے جن کا دور جانا سکون کا باعث بن جائے بلکہ خلقِ اللہ عزوجل کے ساتھ ایسے رہیں کہ آپ کا دور جانا سب کو رُلا دے ، آپ سے ملنے کے لیے سب کو بے چین کردے ، آپ کی شخصیت کو رول ماڈل بنادے ، آپ ہنسیں تو سب ہنسیں ، آپ روئیں تو سب رو پڑیں ، آپ چلیں تو آپ میں وہ وقار ہو جسکی زبان ہو ، وہ شرافت ہو جس میں رعب ہو ، وہ نفاست ہو جو قابل رشک ہو ۔۔۔ جب آپ کسی پر صلہ کی امید کے بغیر احسان کریں گے تو یقین جانیے دنیا سمیٹ لیں گے اور اگر کسی پر احسان آپ کی زبان سے بار بار سامنے والے کے دل پر ہتھوڑے برسائے تو یقین کیجیے بھری دنیا میں آپ سمٹ جائیں گے ، تنہا رہ جائیں گے ۔ ہم اس وقت میں جی رہے ہیں جسے ہم فتنہ کہتے ہیں لیکن جان لیجیے کہ ہماری نسلوں کے لیے یہ بہترین وقت ہوگا ، تو فتنوں کے سمندر سے عافیت آپ کی اس طرح سے ضرورت ہونی چاہیے جیسے کسی جسم کو جینے کے لیے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اپنی زبان سے وہ زہرِ ھلاہل مثل ان قدموں کے نہ ادا کیجیے جو ریت پر اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں ، ریت پر تو پھر بھی سمندر کی لہریں نقوش مٹا دیتی ہیں لیکن دلوں پر ثبت ہونے والے نقوش کے لیے آج وہ سمندر کہیں نہیں ملے گا جسکی لہریں ہمارے دلوں کو صاف کر دیں ۔ ایکدوسرے کو تکلیف پہنچانا چھوڑ دیجیے ، کسی کے آنسووں میں اپنی خوشیاں تلاش کرنا چھوڑ دیجیے ۔۔۔۔ آپکی آنکھیں کسی کو روتا ہوا دیکھنے کی متلاشی نہ ہوں ، کسی کی آہ و بکا جب آپکے کانوں کے راستے دل تک پہنچے تو انہیں دروازہ مقفل نہ ملے ۔۔۔ وسعتِ دل کے ساتھ انسانوں کے درد کو محسوس کیجیے ، جب بھی کسی کے لیے برا سوچنے یا برا کرنے کی غلطی کربیٹھیں تو اسکی جگہ اپنے آپ کو بٹھادیں ، جب بھی ترش لفظوں کو کسی کی طرف روانہ کریں تو اسکی جگہ پر اپنے آپ کو کھڑا کردیں ۔ اللہ تعالیٰ ہماری مختصر سی زندگی سے رنجشوں اور عداوتوں کو دور فرمائے ۔ ہم جب تک جییں تو ایسے جییں کہ لوگ ہم سے ملنے کے لیے بے قرار رہیں ، اور جب ہماری روح قفصِ عنصری سے پرواز کر جائے اور لوگوں کے کاندھے ہمیں ہماری منزل تک پہنچادیں تو لوگ ہماری یاد میں بے اختیار رو پڑیں ۔
وٙالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
سب کے درد میرے دل کا درد بنادے مولا !
کوئی دشمن بھی دستک دے تو مسیحائی ملے!
فرعون کی مثل ہے وہ منافقت کے لباس میں !!
جب درویش کو محسوس ہو بلند ہے مقام اسکا

ایڈمنز !
تحریر  شیخ جرجیس انصاری حفظہ           مسزانصاری
Share:

zuban Ka Istemal Kaise aur Kis Tarah Karni Chahiye.

ZUBAN TALWAR SE BI ZIYADA KHATARNAK HAI

Allama Saleh Al Fawzan HAFIZAHULLAH Farmate Hain:-

ZUBAN Intehaai Khatarnak Hai, Zuban Talwar Se Bi Ziyada Shadeed Hai.

Talwar Se Mumkin Hai Ek Ya Do Aadmi Ka Qatl Kiya Ja Sake.

Lekin ZUBAN Ke Zariye Poori Ummat ka Qatl Kiya Jata sakta Hai.

Sharhu Kitabul Hawadis[238]

Note. Lehaza Hme iska Istemal Soch Samjhkar Karni Chahiye.

Share:

Logon Me Sabse Jyada Kise Aazmaish Me Dala Jata Hai?

LOGON MEIN SAB SE ZYAADA AAZMAAISH KA SHIKAAR KAUN HOTA HAI ?
Sa'd Bin Abu Waqqaas (RaziyAllaahu Anhu) kehte hain ke, Mai ne arz kiya,
Aye Allaah ke Rasool (Sallallaahu Alaihi Wa Sallam) ! logon mein sab se zyaada Museebat aur Aazmaaish ka shikaar kaun hota hain ?
Nabi (Sallallaahu Alaihi Wa Sallam) ne farmaaya: "Ambiyaa (Prophets), phir unke ba'd jo martabey mein hai, phir jo unke ba'd hain.
Bandey ki Aazmaaish Uske Deen ke mutaabiq hoti hai, agar woh Deen mein sakht aur pukhta hai tou Aazmaaish bhi sakht hogi, aur agar Deen mein Naram aur Dheela hai tou museebat bhi usi andaaz se Naram hogi.
Museebaton se bandey ke gunaahon Ka kaffaara hota rehta hai yahaan tak ke bandah ruye zameen par is haal mein Chalta hai ke us par koi gunaah nahi rehta."
-
[Sunan Ibn Maajah, Hadees (Saheeh) : 4023 ; At-Tirmizee : 2398]
-
VAZAAHAT: Maloom hua ke jo bandah apne Eemaan mein jis qadar mazboot hoga usi qadar uski ibtelaa wa Aazmaaish bhi hogi.
Lekin is ibtelaa wa Aazmaaish mein uske liye ek bhalaayi ka bhi pehlu hai ke isse uske gunaah muaaf hote rahengey, aur bandah Allaah se is haal mein milega ke us par koi gunaah nahi hoga.

Share:

Ek Khawind Ki Apne Biwi Se Chaar Nasihatein.

Shauhar Ka Apni Biwi Se 4 Ilteja

خاوند کی اپنی بیوی کو 4 نصیحتیں..
ﺍﯾﮏ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﯽ۔ ﮐﮧ ﭼﺎﺭ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ : ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻧﮧ ﻟﮕﺘﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﮨﯽ ﻧﮧ ﻻﺗﺎ۔ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﻻﻧﺎ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ﺗﺎ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﻮﮞ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭼﺸﻢ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﮐﻮﺗﺎﮨﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﮬﻮﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﮧ ﺑﺠﺎﻧﺎ۔ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ﮐﯿﺎ ﻣﻄﻠﺐ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﺐ ﺑﺎﻟﻔﺮﺽ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﯾﻨﺎ۔ ﻣﺮﺩ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ ﺑﮩﺖ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﻣﺮﺩ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺗﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﻭﺍﺋﮉ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻔﺮﺽ ﻋﻮﺭﺕ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺍﺋﮉ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﻏﺼﮧ ﺁ ﺟﺎﻧﺎ ﯾﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﯽ ﮐﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻨﭽﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺭﺳﯽ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻨﭽﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮈﮬﯿﻼ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﻮﭨﺘﯽ ﺍﮔﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﮭﭻ ﭘﮍﻧﮯ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺭﺳﯽ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺭﺍﺯ ﻭ ﻧﯿﺎﺯ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﮕﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﮑﻮﮮ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﺋﯿﺘﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺍﺭ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﻧﻨﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﺎﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ، ﯾﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺯﮨﺮ ﮔﮭﻮﻝ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺷﮑﻮﮮ ﺷﮑﺎﺋﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻤﮑﻨﮧ ﺣﺪ ﺗﮏ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺩﻝ ﺍﯾﮏ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ۔ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﺧﻼﻑِ ﺍﺻﻮﻝ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﺑﺮﯼ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﻃﺮﯾﻖ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﻭﺳﻮﺳﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﻔﺮﺗﯿﮟ ﮔﮭﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺘﮯ ہیں
Share:

Kya Panch Saal ke Mre Hue Bacche Ka Janaze ka Namaj Padha Ja Sakta Hai?

سوال: کیا پانچ ماہ کے بچے پر جو مرا ہوا پیدا ہوا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے اور اس کے کفن دفن کا طریقہ کیا ہوگا
جزاکم اللہ خیرا. سائل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
الجواب بعون بعون رب العباد:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتبہ:ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
تخصص:فقہ واصولہ:
بی اے بی ایڈ ، ایم اے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد!
چھوٹا بچہ جو ماں کے پیٹ میں چار ماہ کا ہو اور وہ مراہوا پیدا ہوجائے اس پر نماز جنازہ پڑھا جائے  اور اسکا کفن بھی پہنایا جائے۔
اسی طرح جو بچہ چار ماہ کی عمر میں مرجائے اس پر نماز جنازہ پڑھا جائے گا اور اس کا غسل بھی دیا جائے گا۔
دلیل1⃣:حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جو بچہ ماں کے پیٹ میں مرجائے اس پر نماز جنازہ پڑھا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔[رواه أبوداود  والترمذي ،  مسند أحمد17468 ، بحوالہ:فتاوی لجنہ دائمہ 406/8  ،  والطيالسي 737 والبيهقي في السنن الكبرى 6866  ، قال الترمذيُّ حسنٌ صحيح، وحسَّن إسنادَه ابنُ باز في التعليق على فتح الباري 24/3 ،  وصحَّحه الألباني في صحيح سنن أبي داود ، 3180]۔
دوسری دلیل2⃣:مغیرہ بن شعبہ ہی سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بچہ کا نماز جنازہ پڑھا جائے۔[أحمد والنسائي والترمذي ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح کہا ہے ، دیکھئے:شرح المهذب217/5 ، یہ حدیث صحیح ہے]۔
اہل علم کی آراء مع ادلہ:
1⃣:شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ نے ایک سوال کے جواب فرمایا ہے کہ جو بچہ چار ماہ بعد مرا ہوا پیدا ہوجائے اسکا نام رکھا جائے اور غسل دیا جائے ، کفن پہنایا جائے اور اس کا نماز جنازہ بھی پڑھا جائے اور اسے مسلمان قبرستان میں دفن کیا جائے اور اسکی طرف سے عقیقہ بھی کیا جائے گا اسی پر ہمارے مشائخ کا فتوی ہے۔[فتاوى شيخ صالح المنجد].
2⃣:علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ بچہ جو مرا ہوا ماں کے بطن سے پیدا ہوجائے اسکا نماز جنازہ پڑھنا مشروع ہے اسلئے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ بچہ کا نماز جنازہ پڑھا جائے اور اسکے والدین کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا مانگی جائے۔
اس معاملے میں یہی صحیح ہے کہ جو بچہ چار ماہ سے زائدہ کا پیدا ہوجائے اس كا نماز جنازہ پڑھا جائے اور جو اسے کم كا ہو اسکا نماز جنازہ نہ پڑھا جائے۔[احکام الجنائز ص نمبر:80]۔
3⃣:علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں چار ماہ کے بچے کا نماز جنازہ پڑھا جائے اسلئے اس میں روح پہونکی گئی ہے جیساکہ حدیث ابن ۔مسعود رضی اللہ عنہ میں ہے۔ ۔ ۔ ۔[نیل الاوطار53/4]۔
جو بچہ چار سے کم کا ہو اسکا نہ نماز جنازہ ہے اور نہ اسے غسل دیا جائے گا اور نہ اسکا نام اورنہ  اسکی طرف سے عقیقہ کیا جائے۔ ۔ [فتاوی لجنہ دائمہ408/8]۔
4⃣:علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو بچہ چار ماہ سے کم کا ہو اور وہ مرجائے اسکو نہ غسل دیا جائے اور نہ اس پر نماز جنازہ پڑھا جائے لیکن جو بچہ چار ماہ یا اسے زائد کا ہو اسکا غسل دیا جائے گا اور اس کا نماز جنازہ بھی  پڑھا جائے گا اور صحیح رائے کے مطابق اسکی طرف سے عقیقہ بھی کیا جائے گا۔[أسئلة الباب المفتوح السؤال نمبر:653]۔
چار ماہ کے بعد پیدا ہونے والے بچے کا نماز جنازہ پڑھا جائے گا اور اسے غسل بھی دیا جائے۔
5⃣:علامہ ابن منذر اور ابن قدامہ رحمھما  اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔[المغني328/2 ، بدائع الصنائع302/1 ،
اسکے متعلق بعض آثار بھی ہیں:
جلیل القدر صحابی ابن عمر رضی اللہ نے اپنے بیٹی کے بیٹے کا نماز جنازہ پڑھایا جب کہ وہ مراہوا پیدا ہوا تھا۔[عمدة القاري  كتاب الجنائز باب نمبر:79 ، ص نمبر:23].
6⃣:علامہ ابن سیرین ، امام ابن مسیب ، اسحاق اور امام احمد بن حنبل رحمھم بھی اسکے قائل ہیں کہ چار ماہ کے بچے کا نماز جنازہ پڑھا جائے چاھئے وہ پیدا ہوتے وقت چلا یا نہ چلائے۔[المجموع217/5].
خلیفہ اول ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چار ماہ زائد مردہ بچے کا نماز جنازہ پڑھا جائے اسلئے کہ اس میں روح پہونکی گئی ہے وہ اس بچہ کے حکم میں جو مرنے کے وقت چیخے ،کیونکہ نبی اکرم علیہ السلام نے خبر دی کہ چار ماہ کے بچے میں روح پہونک دی جاتی ہے۔ حدیث ابن مسعود۔[أخرجه البيهقي في باب السقط يغسل ويكفن ويصلى عليه إن استهل وعرفت حياته ، كتاب الجنائز ، السنن الكبرى9/4 ، مصنف عبد الرزاق 532/3 ، باب الصلاة على الصغير والسقط وميراثه ، كتاب الجنائز ، حديث ابن مسعود في صحيح البخاري ، كتاب بدء الوحي135/4 ، وهذا الحديث موجود أيضا في كتاب التوحيد لصحيح البخاري ، ومسلم236/4 وغيرهما].
ابن ھانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابو عبد اللہ سے سوال کیا کہ ایک عورت نے چار ماہ کے مرے ہوئے بچے کو جنا اس کا کیا جائے؟
7⃣:ابو عبد اللہ یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ جس بچے کی ماں کے پیٹ میں روح پہونکی گئی ہو اسکا جنازہ پڑھا جائے۔[مسائل الإمام أحمد برواية ابن هانی193/1 ،  نمبر: 963]۔
8⃣:امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسکا جنازہ پڑھا جائے گا اور اسے بالغ شخص کی طرح تین کپڑوں میں دفن کیا جائے گا۔[المجموع للنووي210/5].
9⃣:ائمہ حنابل کا بھی یہی مسلک ہے کہ چار ماہ سے زائد نوزاید بچہ کا نماز جنازہ پڑھا جائے گا۔[كشاف القناع للبهوتي 101/2 ، المغني لابن قدامة 389/2]۔
✔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی قول بہت سے محدثین کا ہے کہ چار ماہ سے زائد بچہ کا نماز جنازہ پڑھا جائے گا۔[(شرح النووي على مسلم48/7]۔
:علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔[مجموع فتاوى ابن باز164/13]۔
قیاس:جس بھی بچہ کے اندر جائے ڈالی جائے اسکا نماز جنازہ پڑھنا مشروع ہے۔[كشاف القناع للبهوتی101/2]۔
بعض علماء اس چیز کے قائل ہیں کہ جو بچہ چار ماہ کے بعد پیدا ہوجائے اور پیدا ہوتے  وقت چیخے اور پہر مرجائے اسکا نماز جنازہ پڑھا جائے گا
یہی دلیل ائمہ حنفیہ وغیرہ کی ہے انہوں نے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنھما کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جو پیدا ہوتے وقت چیخے اسکا غسل دیا جائے اور اسکا نماز جنازہ پڑھا جائے۔[رواه الترمذي والنسائي وابن ماجه والحاكم والبيهقي ، امام نووی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے:دیکھئے: المجموع للنووي 255/5].
شیخ البانی رحمہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور ضعیف حدیث سے احتجاج کرنا جائز اور صحیح نہیں ہے۔[أحكام الجنائز ص نمبر:81].
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
خلاصہ کلام: چار ماہ یا اسے زائد  بچے کا نماز جنازہ پرھا جائے گا اور اسکا غسل بھی دیا جائے گا اور  اگر بچہ نر ہے تو بالغ مرد کی طرح اور اگر بچی ہے تو بالغ عورت کی طرح اسکی تجھیز وتکفین کی جائے گی۔
اس بارے میں ائمہ احناف یا باقی کچھ ائمہ کی رائے ہے کہ جو بچہ مرایوا پیدا ہوجائے اسکا نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ان کی رائے صحیح اور اصوب نہیں ہے اسلئے کہ انہوں نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے وہ احادیث صحیح نہیں ہے اور جو علماء چار ماہ کے بچے کے نماز جنازہ پڑھنے کے قائل ہیں انہوں نے جن احادیث اور آثار سے استدلال کیا ہے وہ احادیث صحت کے اعتبار سے صحیح ہے جیساکہ اوپر ہم نے کسی حد تک یہ کوشش کی کہ حدیث کی صحت کو بیان کیا جائے ، ثابت ہوا کہ چار ماہ کے ماہ مرے ہوئے بچے کا نماز جنازہ پڑھنا جائز اور مشروع ہے اسلئے کہ ایسا کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
********************************
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحابته أجمعين.
رقم التواصل:
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS