Pakistani Movies Joyland Liberals ke Khauf se Dubara Release kar diya gaya.
जम्हूरियत वह अज़्दाहा है जिसने मुसलमानो के खून के रिश्तों को भी तार तार कर दिया, आपसी भाई चारे और मुहब्बत को सियासी जमातो के बोझ ने निगल गया।
बेहयाई, बे पर्दगी और हमजिंसीयत का नंगा नाच हो रहा है, यूरोप के चंदे पर बने हमजिंसीयत फिलम जॉयलैंड, अमेरिकी चंदे पर पल रहे मुल्क पाकिस्तान मे रिलीज़ कर दिया गया है।
जॉयलैंड मूवी और पाकिस्तानी रहनुमाओ का रवैय्या.... यूरोप के लोकतंत्र जाल मे फंसा पाकिस्तान की मजबूरी।
Joyland Pakistani movies me kam karne walo ka talluq kaise ajenciyo se hai?
Kya kabhi Koi Gair Muslim liberals ke Hatho Islam qubool kiya hai?
Quran and Science aur Muslim Liberals and Leftist tabka.
Khawaja Sira kaun hai?, Transgender ke bare me Islam kya kahta hai?
Pakistan me Transgender kitne Percent hai jiske liye Kanoon banaya gaya?
Waise Musalmano ka anjaam jo Muslamano ke andar Behyayi failana chahate hai?
Islamic Parde ke Khilaf Liberals ka Propganda.
Aaj ke daur me Europe kaise Musalmano ke Andar Liberals ke jariye "Cultural war" Kar raha hai?
Wah Jumle jise Sun kar Leftist, Liberals, European Ajent, Americi Product ke Hosh ood Gaye.
इस दुनिया मे हर शख्स उतना ही परेशान है
जितना उसकी नजर मे दुनिया की अहमियत
मगरिब् को असल खतरा यह है के कहीँ लोग इस्लाम की तरफ न देखने लगे वह इसलिए के हर रोज यूरोप मे आलिम, मुफक्कीर्, फलसाफि, मुवास्सिर् कुरान व् हदीस पढ़ कर इस्लाम कुबूल कर रहा है.... लेकिन मुस्लिम घरानो मे बे हया, बेशर्म और बे गैरत बनने को ही असल तरक्की समझा जा रहा है। अगर हम अंग्रेजी कल्चर (मागरिबि ) के पीछे पीछे चलते रहे तो तबाही व् बर्बादी हमारे घरों का रूख जरूर करेगी। अगर कौम के लोग कुर्सी, पैसे और इक्तदार के लिए दिन और तहजीब का मज़ाक बनाने और मुस्लिम खवातीन अंग्रेजी भेड़ियों के बहकावे मे गुमराह होती रही तो आने वाली नस्ल भेड़िया से ज्यादा डरपोक और खिंजीर से भी ज्यादा बे हया बन जायेगी।।
جوائے لینڈ ایک پاکستانی ڈائریکٹر صائم صادق کی بنائی ہوئی پنجابی فلم ہے، انہی صاحب نے اس کی کہانی بھی لکھی ہے اور اس کی ایڈیٹنگ میں بھی شامل رہے ہیں۔ بیشتر فنکار پاکستانی ہیں۔ مرکزی کردار علی جونیجو نے ادا کیا دوسرا مرکزی کردار الینہ خان نامی ایک ٹرانس جینڈر نے ادا کیا ہے ،جبکہ ٹی وی کی معروف اداکارہ ثانیہ سعید اور ثروت گیلانی کے بھی اہم کردار ہیں، راستی فاروق نے بھی اہم کام کیا۔
اس کے پروڈیوسروں کی اچھی خاصی طویل فہرست ہے۔ نو دس لوگ ہیں۔ سرمد کھوسٹ، اپوروا گروچارن (یہ لانس اینجلس میں مقیم انڈین نژاد امریکی پروڈیوسر ہیں)، ثناجعفری، اولیوررج، لارن مان، کیتھیرین برنسٹ، رمن بہرانی وغیرہ ۔عام طور پر کسی فلم کے پروڈیوسر اتنے لوگ نہیں ہوتے ،سرمد کھوسٹ تو خیر پاکستانی اداکار اور ہدایت کار ہیں، منٹو فلم انہوں نے بنائی تھی۔
دیگر پروڈیوسرز میں سے بعض عالمی سطح پر اچھے خاصے معروف ہیں۔ حیران کن طور پر یہ سب معروف لوگ اس چھوٹی سی پاکستانی پنجابی فلم کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں، جس کی زبان بھی وہ نہیں سمجھ سکتے۔
لگتا ہے ان سب نے ”نیکی “کا کام سمجھ کر اس فلم میں حصہ ڈالا۔
خبروں کے مطابق ملالہ یوسف زئی نے بھی اس فلم کے حوالے سے اپنا کردار ادا کیا۔ وہ ایگزیکٹو پروڈیوسر کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔
یہ فلم پاکستان میں نومبر کے دوسرے عشرے میں سینما ہاﺅسز میں لگانی تھی۔ فلم کے خلاف احتجاج کی ایک لہر سوشل میڈیا پر اٹھی ، تنقید ہوئی تو مرکزی سنسر بورڈ نے خلاف رائے دی اور حکومت نے پابندی لگا دی۔ گزشتہ روز خبر آئی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس کا جائزہ لینے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا دی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ کمیٹی میں ایک بھی پروفیشنل یا ٹیکنیکل آدمی نہیں، وزرا ہیں یا پیمرا وغیرہ کے سربراہ، ایک وزیر برائے سرمایہ کاری بھی ممبر ہیں۔
ٹرانس جینڈر فلم لگانے یا نہ لگانے سے سرمایہ کاری وزارت کا کیا تعلق؟
جب حکومت پابندی لگا چکی تھی تو پھر اس پر نظرثانی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ مختلف این جی اوز کے دباﺅ اور لبرل عناصر کی کمپین کے نتیجے میں اس فلم کو نمائش کی اجازت دینے کا راستہ نکالا جا رہا ہے۔
یہ فلم بنیادی طور پر ایک ایل جی بی ٹی پلس (LGBT+)فلم ہے۔ جو لوگ اس اصطلاح کو نہیں جانتے، وہ سمجھ لیں کہ اس سے مراد لیزبین ، گے ، بائی سیکشویل، ٹرانس جینڈر ہے، اب اس ترکیب میں اضافہ ہوچکا ہے،Q سے مراد کوئیر(Queer)ہے۔
آسان لفظوں میں کوئیر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی جسمانی روپ سے مطمئن نہیں۔ قدرت نے انہیں مرد بنایا مگر خود کو عورت سمجھتے ہیں اور کسی مرد سے محبت کرنے اور تعلق رکھنے کے قائل ہیں اسی طرح کہیں پر عورت ہے مگر وہ خود کو مرد سمجھتی اور جسمانی طور پر بھی ویسا بننا چاہتی ہے۔
فلم کی جھلک، موضوع اور فنکاروں کے انٹرویوز سے صاف ظاہر ہے کہ زیادہ فوکس ایک ٹرانس جینڈر کی لو لائف اور سیکشوئل لائف پر ہی ہے۔
فلم میں ایک روایتی گھرانہ دکھایا ، جس کا سربراہ ایک معذور مگر سخت گیر رجعت پسند والد رانا امان اللہ ہے۔
عثمان پیرزادہ کے بھائی سلمان پیرزادہ نے یہ کردار ادا کیا۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کے بیٹے جلد اسے پوتے کا تحفہ دیں۔ رانا امان کا چھوٹا بیٹا حیدر (اداکار علی جونیجو)شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک ٹرانس جینڈر (خواجہ سرا ڈانسر) پر عاشق ہوجاتا ہے۔
یوں فلم اس ٹرانس جینڈر (الینہ خان)بکے مسائل، اس کی لو لائف اور ہیرو کے ساتھ اس کے (فزیکل) رومانس کے گرد گھومتی ہے۔
کہانی میں دیگر خواجہ سراﺅں کے کردار ، ان کی آپس کی لڑائیاں، چشمک وغیرہ بھی دکھائی گئی ۔
کانز فلم فیسٹول میں اسے کوئیر پام ایوارڈ ملا ہے۔ یہ ایوارڈ ہم جنس پرستی/مخنث/ٹرانس جینڈر موضوعات پر فلموں کو دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا دیا جانا بذات خود اس کا ثبوت ہے کہ یہ ایل جی بی ٹی فلم ہے اور یہ مین سٹریم موضوع کی فلم نہیں۔
میرے خیال میں فلم جوائے لینڈ کی پاکستانی سینما ہاﺅسز میں نمائش پر پابندی لگنی چاہیے ۔ یہ فلم اپنے موضوع اور ٹریٹمنٹ کی بنا پر ایسی نہیں کہ اسے سینماﺅں میں لگایا جائے۔ اس کی دو تین وجوہات ہیں۔
یہ فلم اور اس کا موضوع پاکستانی سماج کے بنیادی فیبرک کے خلاف ہے۔
ہمارا سماج ایک مشرقی اسلامی (Eastern Islamic) مزاج رکھتا ہے۔ اس کے کچھ تقاضے ہیں۔
یہاں بعض چیزیں معروف ہیں، عرب جسے عرف کہتے ہیں۔ اسلام، مشرقی تہذیب، شرم و حیا، تحفظ فروج (عصمت کی حفاظت) ہماری تہذیب کے بنیادی اجزا ہیں۔ حیا ویسے بھی حدیث مبارکہ کے مطابق اسلامی تہذیب کا جوہر ہے۔
ہمارے ہاں ہم جنس پرستی سخت غیر اخلاقی بات سمجھی جاتی ہے اور قانونی طور پر جرم ہے۔ مغربی تہذیب اور اب بھارتی تہذیب میں ہم جنس پرستی، اپنی مرضی سے جسمانی تعلق قائم رکھنا، ماورائے شادی جسمانی تعلق ، کسی قانونی بندھن کے بغیر اکھٹا رہنا (Live in Relation) عام ہے۔
وہاں قانون سازی کے بعد یہ سب فطری اور نارمل چیزیں بنا دی گئی ہیں۔ بھارت میں چند سال پہلے تک ہم جنس پرستی پر سزا تھی، اب وہاں قانون بدل گیا ہے، کوئی پابندی نہیں رہی۔
پاکستان میں ایسا نہیں۔ ہمارا مذہب اس حوالے سے بہت واضح اور غیر مبہم ہے، یہ سب غیر فطری اور گناہ کبیرہ کے درجے میں ہیں۔ ہمارے سماج میں اس کے لئے سخت مزاحمت موجود ہے۔
ایسا نہیں کہ ہمارا معاشرہ فرشتوں کا ہے، بہرحال یہاں انسان رہتے ہیں۔ گناہ بھی ہوتے ہیں، قوانین کی خلاف ورزی بھی ، مگر یہ حدود و قیود برقرار ہیں اور انہیں رہنا چاہیے۔
اگر ختم ہوئیں تو یہ برائیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔
سماج میں یہ رکاوٹ یا بیرئر کا کام دے رہی ہیں۔ہمارے ہاں غیر فطری تعلق قائم ہونے کے بعض واقعات ہوتے ہیں ، مگر ان کی نوعیت مختلف ہے، یہ مغرب کے ”گے کلچر“جیسی ہرگز نہیں ۔ سماج مجموعی طور پر اسے غلط سمجھتا ہے۔
پاکستان ایک بڑی آبادی والا ملک ہے۔ اتنے بڑے ملک میں ٹرانس جینڈر ، خواجہ سرا وغیرہ بمشکل چند ہزار ہوں گے، یہ ایک فیصد بھی نہیں بنتا۔ اس لئے ٹرانس جینڈر رائٹس اور ایشوز وغیرہ محض این جی اوز کا ایجنڈہ اور فارن فنڈنگ جسٹی فائی کرنے کا ایک طریقہ ہی ہے۔
لوگوں کے بڑے مسائل دوسرے ہیں، مگر چونکہ ان کے لئے فارن فنڈنگ میسر نہیں، اس لئے ہماری انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ذہین دماغ ادھر آنے کی زحمت نہیں کرتے۔ جیسے یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ کئی ملین بلکہ کروڑوں میں بچے ناکافی غذا ملنے کے باعث دماغی طور پر کمزور اور سلو ہوچکے ہیں۔ اتنے بڑے ایشو پر کبھی کوئی ڈرامہ یا فلم نہیں دیکھیں گے، حالانکہ اس پر آگہی بڑھانے سے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔
ہمارے ہاں خواجہ سراﺅں کے لئے جینوئن ہمدردی پیدا ہوچکی ہے۔
الخدمت، اخوت، غزالی ٹرسٹ سکول جیسی معروف سماجی تنظیمیں جن کی قیادت مذہبی لوگ ہی کر رہے ہیں، وہ خواجہ سراﺅں کے لئے کئی پراجیکٹ شروع کر چکے ہیں۔
ان کے لئے قانون سازی ہوئی ہے۔افسوس کہ مغربی سٹائل کی ٹرانس جینڈر موومنٹ والے اپنے الٹرا لبرل ایجنڈے کے باعث حقیقی خواجہ سرا کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
جوائے لینڈ جیسی فلم نام نہاد ٹرانس جینڈرز کی سوچ کی نمائندہ ہے جو اپنی جنسی خواہشات سے مغلوب ہو کر سب کچھ تلپٹ کرنا چاہتے ہیں۔
ویسے بھی جوائے لینڈ ایک آف بیٹ (Off Beat) فلم ہے، اس کا موضوع اور ٹریٹمنٹ مین سٹریم نہیں اور نہ ہی یہ عام فلم بینوں کے لئے ہے۔
قوی امکانات ہیں کہ سینما ہاﺅسز میں اس کی نمائش شدید عوامی ردعمل کا باعث بنے ۔ایسی کلٹ فلمیں محدود حلقے کے لئے ہوتی ہیں، دلچسپی رکھنے والے اسے اوٹی ٹی فورم پر یا یوٹیوب وغیرہ کے ذریعے دیکھ لیں گے۔
انہیں سینما ہاﺅس میں لگانے کی اجازت دینا LGBT کے پورے تصور اور” کوئیر“ موضوعات کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔
جوائے لینڈ جیسی فلمیں دراصل سماج میں موجود بیرئر توڑنے کے لئے بنائی جاتی ہیں ۔ سینما میں نمائش اس موضوع کو نارمل اور عام بنانے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔
فلم دیکھنے والے جانتے ہیں کہ اسی انداز میں برسوں پہلے بھارت میں ایک فلم فائر بنائی گئی، شبانہ اعظمی نے اس میں کام کیا ۔پھر مشہور پروڈیوسر کرن جوہر نے جو خود مبینہ طور پر ”گے “ہے، اس نے ان موضوعات پر کئی فلمیں بنائیں ، ٹی وی ڈرامے بھی۔
بھارتی سماج میں بیرئر ٹوٹتے گئے ، حتیٰ کہ آج وہاں یہ سب نارمل، عام اور قانونی طور پر جائز ہوچکا ہے۔
ہر وہ شخص جو پاکستان میںLGBT اور ٹرانس جینڈرز کے بڑھتے رجحان کے آگے بند باندھنا چاہتا ہے۔
وہ سماج میں موجود بیرئرز برقرار رکھنے کا خواہش مند ہے، اسے جوائے لینڈ کی نمائش کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
وزیراعظم شہباز شریف کو عوامی جذبات اور عوامی ردعمل کا اندازہ لگا کر پابندی برقرار رکھنی چاہیے۔ مسلم لیگ ن میں موجود لبرل کیمپ پچھلے چند برسوں میں زیادہ طاقتور ہوا ہے، ن لیگ کو مگر ووٹ عوام سے لینے ہیں، ان لبرلز سے نہیں۔ اپنی سیاست کو اپنے ہاتھوں دفن نہ کریں۔
تحریک انصاف کو بھی عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔ عمران خان جس ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، اس میں جوائے لینڈ جیسی ایل جی بی ٹی /کوئیر فلموں کی کوئی گنجائش نہیں۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان نے پہلے بھی بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی، انہیں پھر متحرک ہونا پڑے گا۔ ویسے یہ کسی ایک جماعت کا نہیں، ہم عوام کا مشترکہ مسئلہ ہے، اس کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اپنے بچوں کو بہت اور پاک صاف معاشرہ دینے کے لئے۔
{سہیل حنیف آرائیں}