Balon Ko Kale Khijab Se Rungne Ke Masail
Balon Ke Mofassal Ahkamat Part 1
➊ سر کے بالوں کے احکام
➋ ابرؤوں (ابرواں) کے بالوں کے احکام
➌ رخساروں کے بالوں کے احکام
➍ داڑھی کے احکام
➎ مونچھوں کے احکام
➏ بغلوں کے بالوں کے احکام
➐ زیر ناف بالوں کے احکام
➑ (کانوں کے اندرونی) سینہ، کمر، بازوؤں، ٹانگوں، رانوں، ہاتھوں اور پاؤں پر اگے ہوئے بالوں کے احکام
➒ ناک میں اگے ہوئے بالوں کے احکام
➓ کنپٹی کے بالوں کے احکام۔
——————
⛔➊ سر کے بالوں کے احکام :
یہ چار قسموں پر مشتمل ہوتے ہیں :
◈ مسلمان مرد کے بالوں کے احکام
◈ نومسلم کے بال
◈ بچوں کے بال
◈ مسلمان عورت کے بال
① مسلمان مرد کے بالوں کے احکام
مسلمان مرد کے بال پاک ہیں خواہ وہ زندہ ہو یا مرا ہوا، اس کے دلائل درج ذیل ہیں :
❀ جب محمد بن سیرین نے عبیدہ سے کہا: کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ہیں جو ہمیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کی طرف سے پہنچے ہیں، تو عبیدہ نے یہ ( سن کر ) فرمایا کہ لأن تكون عندي شعرة منه أحب إلى من الدنيا و مافيها ”میرے پاس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال (بھی) ہوتا تو یہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تھا۔ [صحيح البخاري : 170]
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالوں کو منڈوایا تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو لیا تھا۔ [صحيح البخاري 171]
 ان دونوں احادیث پر امام بخاری نے یہ باب باندھا ہے :
باب الماء الذى يغسل به شعر الإنسان
باب : اس پانی کے بارے میں جس میں انسان کے بالوں کو دھویا جاتا ہے۔ [کتاب الوضوء باب 33]
 حافظ ابن حجر ترجمۃ الباب کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أن الشعر طاهر و إلا لما حفظوه ولا تمني عبيدة أن يكون عنده شعرة واحدةمنه، وإذا كان طاهرا فالماء الذى يغسل به طاهر
یعنی بال پاک ہیں وگرنہ وہ [صحابۂ کرام] ان کی حفاظت نہ کرتے اور عبیدہ (تابعی) تمنا بھی نہ کرتے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال ہوتا، جب بال پاک ہیں تو جس پانی میں بالوں کو دھویا گیا ہے وہ بھی پاک ہے۔“ [فتح الباري 363/1]
 حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں :
جمہور علماء بھی بالوں کو پاک سمجھتے ہیں اور یہی ہمارے نزدیک صحیح ہے۔“ [فتح الباري 364/1]
❀ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے جسے انہوں نے ایک چھوٹے پیالے میں رکھا ہوا تھا۔ یہ بال مہندی کی وجہ سے سرخ تھے۔ جب کسی شخص کو نظرلگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ اپنا پانی کا برتن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیتا۔ (آپ رضی اللہ عنہ اس برتن کے پانی میں وہ بال ڈبو دیتیں۔ ) [صحيح البخاري : 5896، فتح الباري 353/10]
① معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے تبرک حاصل کرنا جا ئز ہے۔
② انسانی بالوں کی خرید و فروخت ناجائز ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ولقد كرمنا بني اٰدم﴾ اور ہم نے آدم (علیہ السلام ) کی اولاد کو عزت دی [بنیٓ اسرآئیل : 70] کے خلاف ہے۔
③ انسانی بالوں کی خرید و فروخت میں انسان کی تکریم نہیں رہتی بلکہ تذلیل ہے۔
④ بالوں کی تکریم کرنا ضروری ہے [ديكهئے سنن ابي داؤد : 4163 و سنده حسن] ، اسے ابن حجر نے فتح الباری 368/10 میں حسن کہا ہے۔
بالوں کی تکریم درج ذیل چیزیں آتی ہیں :
① پہلی دائیں طرف سے کنگھی کرنا اور یہ بہت زیادہ مستحب ہے۔
② ایک دن چھوڑ کر کنگھی کی جائے۔
کنگھی کرنے کے آداب
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن فى تنعله و ترجله
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے میں اور کنگھی کرنے میں دائیں طرف کو پسند فرماتے۔ [صحيح البخاري : 5926]
❀ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [النسائي 132/8 ح 5061 و سنده صحيح]
فائدہ : حائضہ عورت اپنے خاوند کی کنگھی کر سکتی ہے۔ امام بخاری رحمه الله نے باب قائم کیا ہے : باب ترجيل الحائض زوجها “ [كتاب اللباس قبل ح : 5925]
③ بالوں میں مانگ نکالنی چاہئے اور یہ مستحب ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کو چھوڑا کرتے تھے اور مشرکین اپنے بالوں میں مانگ نکالتے تھے جبکہ اہل کتاب اپنے بالوں کو چھوڑا کرتے تھے۔ جس کام میں آپ کو کوئی حکم نہیں دیا جاتا تھا تو آپ اس میں اہل کتاب کی موفقت پسند کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد مانگ نکالی۔ [صحيح بخاري : 3558، صحيح مسلم : 2336]
① مانگ تالو سے نکالنی چاہئے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ”جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بالوں میں مانگ نکالتی“ صدعت الفرق من يافوخه و أرسل ناصيته بين عينيه تالو سے (بالوں کے دو حصے کر کے) مانگ چیرتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کے بال دونوں آنکھوں کے درمیان چھوڑتی۔ [ ابوداود : 4189 و سنده حسن]
تنبیہ : ٹیڑھی مانگ اور انگریزی حجامت سے ہر صورت بچنا ضروری ہے کیونکہ اس سے کفار سے مشابہت ہو جاتی ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من تشبه بقوم فهو منهم ”جو شخص کسی قسم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں ہوگا۔“ [ابوداود 4031 و سنده حسن، و الطحاوي فى مشكل الآثار 88/1]
② بالوں میں تیل لگانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بالوں میں تیل لگاتے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو چند سفید بال تھے نظر نہیں آتے تھے اور جب تیل نہ لگاتے تو یہ بال نظر آتے تھے۔ [صحیح مسلم : 2344]
 اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کبھی تیل لگانا چاہئے اور کبھی نہیں لگانا چاہئے۔
 اگر ضرورت ہو تو دن میں دو دفعہ بھی بالوں میں تیل لگایا جاسکتا ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بعض اوقات دن میں دو دفعہ تیل لگاتے تھے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ 392/8 ح 25549 و سندہ صحیح]
③ بالوں میں خوشبو لگانا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں :
كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم بأطيب مايجد….
”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے بالوں) میں سب سے اچھی خوشبو لگاتی جو آپ کو دستیاب ہوتی۔“ [صحيح البخاري : 5923]
 اس حدیث پر امام بخاری رحمه الله نے یہ باب باندھا ہے کہ باب الطيب فى الرأس و اللحية یعنی ”سر اور داڑھی میں خوشبو لگانے کا باب“
فائدہ : اگر کوئی شخص کسی کو خوشبو دے تو اسے واپس نہیں کرنی چاہئے بلکہ خوشبو لے لینی چاہئے۔ [صحيح بخاري : 5929]
④ بالوں کی چوٹی بنا کر یا انہیں گوندھ کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن حار ث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور ان کا سر پیچھے سے گوندھا ہوا تھا۔ آپ کھڑے ہوئے اور اس کو کھول دیا۔ جب عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے نماز مکمل کرلی تو آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہا: آپ کو کیا ہے میرے سر کے (بالوں کے) بارے میں ؟ تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بالوں کو گوندھنے والے آدمی کے بارے میں) فرماتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا : إنما مثل هٰذا مثل الذى يصلي وهو مكتوف ”یہ تو اس آدمی کی طرح لگ رہا ہے جسے باندھا گیا ہو۔“ [صحيح مسلم : 492]
فائدہ : اس روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض علماء نے كف الشوب ”کپڑا لپیٹنے“ سے ممانعت والی حدیث [البخاري : 809، 810 ومسلم : 490] سے یہ استدلال کیا ہے کہ آستینیں چڑھا کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے کیونکہ اس سے كف الشوب لازم آتا ہے۔
⑤ بال درج ذیل طریقوں سے رکھنا جائز ہیں
◈ نصف کانوں تک۔
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كان شعر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى نصف أذنيه ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نصف کانوں تک تھے۔“[صحيح مسلم : 2338]
◈ کندھوں سے اوپر اور کانوں کی لو سے نیچے تک
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن غسل کرلیا کرتے تھے۔
وكان له شعر فوق الجمة و دون الوفرة
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کندھوں کے اوپر اور کانوں کی لو سے نیچے تھے۔ [ ابوداود : 4187 و سندہ حسن]
 اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمه الله نے فرمایا : حسن صحیح غریب۔ [1755]
◈ کانوں کی لو کے برابر
❀ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد درمیانہ تھا، دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ عظيم الجمة إليٰ شحمة أذنيه ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بہت لمبے تھے جو کانوں کی لو تک پڑتے تھے۔“ [صحيح البخاري 3551، صحيح مسلم : 2337 و اللفظ له]
⑥ بالوں کو کسی چیز سے چپکانا (بھی) صحیح ہے
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ملبدا ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو لیس دار چیز یا گوند سے چپکا ہوا دیکھا۔“ [صحيح البخاري : 5914] اور یہ حج کا موقع تھا۔ [صحيح البخاري : 5915]
⑦ درج ذیل صورتوں میں سر کے تمام بال منڈوانا جائز ہے
➊ جب کوئی کافر مسلمان ہو (تفصیل بعد میں آئے گی انشاء اللہ)
➋ جب بچہ پیدا ہو تو پیدائش کے ساتویں دن (تفصیل بعد میں آئے گی انشاء اللہ)
➌ بطور ضرورت
❀ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جعفر کی اولاد کو (ان کے شہید ہونے کے بعد) تین دن مہلت دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آج کے بعد میرے بھائی (جعفر رضی اللہ عنہ) پر مت رونا۔ پھر فرمایا کہ میرے بھتیجوں کو میرے پاس لے کر آؤ چنانچہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے اور اس وقت ہم چوزوں کی طرح (بہت کم سن) تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ“ بال مونڈنے والے کو بلا کر میرے پاس لاؤ ”(جب وہ آگیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ہمارے بال) مونڈنے کا حکم دیا اور اسی نے ہمارے سروں کو مونڈا۔“ [ ابوداود : 4194، و سنده صحيح و صححه النووي فى رياض الصالحين : 1642 عليٰ شرط البخاري و مسلم، النسائي : 5229]
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کا آدھا سر مونڈا ہوا تھا اور آدھا نہیں مونڈا ہواتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احلقوه كله أو اتركوه كله ”اس کے سر کے سارے بالوں کو مونڈ دو یا سارے بال چھوڑ دو۔“[ابوداود : 4195 و سنده صحيح]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سر کے تمام بالوں کو بطور ضرورت مونڈنا صحیح ہے .
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے میدنے میں قربانی کی اور اپنا سر مونڈا یعنی مونڈوایا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 237/3 ح 13888 وسنده صحيح، طبعة دار الكتب العلمية بيروت لبنان]
 بہتر یہی ہے کہ حج اور عمرے کے علاوہ عام دنوں میں سر نہ منڈایا جائے لیکن اگر کوئی بیماری یا عذر ہو تو ہر وقت سر منڈوانا جائز ہے۔ جو کام بچوں کے لئے جائز ہے وہ کام بڑوں کے لئے بھی جائز ہے الا یہ کہ کوئی صریح و خاص دلیل مردوں کو اس سے خارج کردے۔ خوارج کے ساتھ خشوع نماز، قرأت قرآن اور سر منڈانے میں مشابہت کا یہ مطلب غلط ہے کہ یہ افعال ناجائز ہیں۔
➍ حج اور عمرہ کے موقع پر
✿ قرآن مجید میں ہے ﴿لتدۡخلن الۡمسۡجد الۡحرام انۡ شآء اللٰه اٰمنيۡن ۙ محلقيۡن رءوۡسكمۡ و مقصريۡن ۙ لا تخافوۡن ؕ﴾ تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہوگے ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سر منڈائے اور بال ترشوائے ہوگے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ [الفتح : 27]
❀ حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : حلق رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجته ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر اپنے سر کے بال منڈوائے۔“ [صحيح البخاري : 1726]
 تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح البخاری [1726۔ 1730]
◈ جانور ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوایا جائے تو بھی صحیح ہے [صحيح بخاري : 1721]
◈ عمرہ کے بعد سر کے بال منڈوانا صحیح ہے۔ [صحيح البخاري : 1731]
◈ حج یا عمرہ میں بالوں کو کٹوانا بھی صحیح ہے۔ [صحیح البخاری : 1727، 1731]
فائدہ ① مذکورہ صورتوں میں بالوں کا مونڈنا تو ثابت ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مونڈنے سے منع بھی نہیں فرمایا جس کام میں خاموشی ہو اس کا کرنا جائز ہے چنانچہ سر کے تمام بالوں کو مونڈنا جائز ہے مگر افضل و سنت یہی ہے کہ بال وفره، جمه، لمه رکھے جائیں کیونکہ احرام کھولنے کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے۔ [ديكهئے احكام و مسائل شيخ نور پوري531/1]
فائدہ ② سر کے بال قینچی سے کٹوانا بھی جائز ہے۔
✿ قرآن مجید میں ہے کہ ﴿لتدۡخلن الۡمسۡجد الۡحرام انۡ شآء اللٰہ اٰمنیۡن ۙ محلقیۡن رءوۡسکمۡ و مقصریۡن ۙ لا تخافوۡن ؕ﴾ تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہوگے ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سر منڈائے اور بال ترشوائے ہوگے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ [الفتح : 27]
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے اللہ رحمت کر سر منڈوانے والوں پر، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اور بال ترشوانے والوں پر اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ رحمت کر سر منڈوانے والوں پر، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اور بال ترشوانے والوں پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور بال ترشوانے والوں پر۔“ [صحيح البخاري : 1727]
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت نے سر منڈوایا اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بال ترشوائے۔ [صحيح البخاري : 1729]
فائدہ ③ کاٹے ہوئے بالوں کو دفن کرنا ضروری نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر نے صحیح بخاری کی [5938] حدیث سے یہ استدلال کیا ہے۔ [فتح الباری 461/1]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ و ہ بالوں ( اور ناخنوں] کو (زمین میں) دفن کر دیتے تھے۔ [كتاب الترجل للخلال : 146 وسنده حسن، عبدالله بن عمر العمري حسن الحديث عن نافع و ضعيف الحديث عن غيره، و محمد بن لي هو حمدان بن على بن عبدالله بن جعفر : ثقة]
◈ امام احمد رحمه الله بھی انہیں دفن کرنے کے قائل تھے۔ [الترجل : 146 و سنده صحيح]
◈ قاسم بن محمد بن ابی بکر اپنے بال منیٰ میں دفن کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 417/8 ح 25654 و سنده صحيح]
معلوم ہوا کہ بالوں کو دفن کرنا جائز یا بہتر ہے اور اگر نہ کئے جائیں تو بھی بہتر اور جائز ہے۔
اعتراض کا جواب : بعض کہتے ہیں کہ سر منڈانا منع ہے کیونکہ حدیث میں آتا ہے سر منڈانا خارجیوں کی علامت ہے۔ حالانکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو خارجی ہے وہ سر منڈاتا ہے یہ مقصود نہیں ہے کہ جو سر منڈاتا ہے وہ خارجی ہے۔ [ديكهئے احكام و مسائل للشيخ نورپوري 531/1]
فائدہ ④ دائیں طرف سے پہلے بالوں کو کٹوائیں۔ تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں فتح الباری [364/1]
⑨ سفید بالوں کے احکام : اس کی درج ذیل صورتیں ہیں :
◄ سفید بالوں کو اکھیڑنا
◄ سفید بالوں کو رنگ کرنا۔
◄ سفید بالوں کو اکھیڑنا حرام ہے
❀ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تنتفوا الشيب فإنه نور المسلم إلخ سفید بالوں کو نہ اکھیڑو کیونکہ بڑھاپا (بالوں کا سفید ہونا) مسلمان کے لئے نور ہے جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے (جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے) تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے۔“ [ابوداود : 4202 و سنده حسن، ابن عجلان صرح بالسماع]
 امام ترمذی [2821] نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
◄ سفید بالوں کو رنگنا
بالوں کو رنگنا خضاب کہلاتا ہے اور اس کی درج ذیل صورتیں اور قسمیں ہیں :
① رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو رنگنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غير و الشيب ولا تشبهوا باليهود بڑھاپے (بالوں کی سفیدی) کو (خضاب کے ذریعے) بدل ڈالو اور (خضاب نہ لگانے میں) یہودیوں کی مشابہت نہ کرو۔ [الترمذي : 1752 و قال : حسن صحيح وسنده حسن]
❀ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہودی اور نصرانی (عیسائی) خضاب نہیں لگاتے لہٰذا تم ان کے خلاف کرو (تم خضاب لگاؤ ) [صحيح البخاري : 5899، صحيح مسلم : 2103]
② مہندی کا خضاب (رنگ) لگانا یا مہندی میں کوئی چیز ملا کر سفید بالوں کو رنگین کرنا بھی جائز ہے۔
③ زرد خضاب لگانا بھی ٹھیک ہے۔
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دباغت دیئے ہوئے اور بغیر بال کے چمڑے کا جوتا پہنتے تھے اور اپنی ریش مبارک (داڑھی) پر آپ ورس (ایک گھاس جو یمن کے علاقے میں ہوتی تھی) اور زعفران کے ذریعے زرد رنگ لگاتے تھے۔ [ابوداود : 4210 وسنده حسن، النسائي : 5246]
 احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ سرخ اور زرد خضاب لگایا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی لگایا۔ نیز دیکھئے فتح الباری [354/10]
 شیخ نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
”احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو رنگنے کا بھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کا بھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے رنگنے سے تعلق امرندب پر محمول ہے البتہ کل کے کل بال سفید ہو جائیں کوئی ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزید تاکید ہے۔“ [احكام و مسائل شيخ نورپوري 531/1]
④ سفید بالوں میں سیاہ خضاب (رنگ) لگانا درج ذیل دلائل کی روشنی میں حرام ہے :
❀ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو لایاگیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غير واهذا بشيئ و اجتنبوا السواد اس کا رنگ بدلو اور کالے رنگ سے بچو۔ [صحيح مسلم : 5509/2102]
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ایسی قومیں آخر زمانہ میں آئیں گی جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح کالے رنگ کا خضاب کریں گی وہ جنت کی خوشبوتک نہ پائیں گی۔ “ [ابوداود : 4212 وسنده صحيح، النسائي : 5078]
اس کا راوی عبدالکریم الجزری (مشہور ثقہ) ہے۔ دیکھئے [شرح السنہ للبغوی 92/12 ح 3180]
درج ذیل علامء نے بھی کالے خضاب کو دلائل کی روشنی میں حرام قرار دیا ہے :
➊ امام نووی [شرح مسلم : 199/2]
➋ حافظ ابن حجر [فتح الباري : 576/6]
➌ ابوالحسن سندھی [حاشيه ابن ماجه : 169/4]
➍ عبدالرحمٰن مبارکپوری [تحفة الاحوذي : 57/3]
تفصیل کے لئے دیکھیں [سياه خضاب كي شرعي حيثيت از امام بديع الدين شاه راشدي]
⑩ مصنوعی بال (وگ) لگانا حرام ہے
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعن الله الواصلة والمستوصلة…. اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو بال جوڑنے اور جڑوانے والی پر۔ [صحيح البخاري : 5933]
 امام بخاری رحمه الله اس مسئلے میں بہت سی احادیث لائے ہیں تفصیل کے لئے دیکھیں۔ [صحیح البخاری : 5932- 5938 اور 5940- 5943]
⑪ وضو میں سر کا مسح کرنا :
❀ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مسنون وضو کا طریقہ خود عمل کر کے دکھلایا۔ اس میں آپ نے سر کا مسح اس طرح کیا کہ ”دونوں ہاتھ سر کے اگلے حصہ سے شروع کر کے گدی تک پیچھے لے گئے پھر پیچھے سے آگے اسی جگہ لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔“ [صحيح بخاري : 185، صحيح مسلم : 235]
❀ مکمل سر کا مسح کرنا چاہئے۔ قرآن مجید میں ہے ﴿وامسحوا برء وسكم﴾ ”اور تم مسح کرو اپنے سروں کا۔“ [المآئدة : 6]
❀ حمران مولیٰ عثمان رحمہ اللہ نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، حمران بیان کرتے ہیں کہ ثم مسح برأسه”پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے سر کا مسح کیا۔“ [صحيح البخاري : 159]
❀ اور سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی یہی گزرا ہے۔
❀ امام بخاری نے باب قائم کیا ہے : باب مسح الراس كله ”مکمل سر کا مسح کرنا۔“ [صحيح بخاري قبل ح : 185]
❀ سر کا مسح ایک دفعہ ہی کرنا چاہئے۔ [صحيح بخاري : 186، صحيح مسلم : 235]
❀ صحیح بخاری : 192 میں سر پر ایک مرتبہ مسح کرنے کا ذکر ہے اور اس حدیث پر باب باندھا ہے باب المسح الرأس مرة ”سر پر ایک مرتبہ مسح کرنا ہے۔“
◈ امام ابن القیم لکھتے ہیں :
والصحیح أنہ لم یکرر مسح رأسہ
”صحیح بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکرار مسح الراس نہیں کیا۔“ [ابن القيم]
◈ مزید لکھتے ہیں کہ ”تکرار مسح کے بارے میں جو احادیث آتی ہیں اگر کوئی صحیح ہے تو وہ صریح نہیں ہے اور اگر صریح ہے تو وہ صحیح نہیں ہے۔“ [زاد المعاد : 93/1]
 تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں عون المعبود [93/1 ط دار احياء التراث] اور تحفة الاحوذي [44/1- 46]
 صحیح مسلم [123/1] میں بھی سر پر ایک مرتبہ مسح کرنے کا ذکر ہے۔ امام ابوداود نے بھی سر پر ایک دفعہ مسح کرنے کو ترجیح دی ہے۔[ابوداود تحت ح : 108] نیز دیکھئے سنن ترمذی [قبل ح : 34]
⟐ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ صرف چوتھائی سر کا مسح فرض ہے، یہ بالکل غلط بات ہے۔
⟐ پگڑی پر مسح کرنا صحیح ہے۔
❀ جعفر بن عمرو اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمامہ مبارک پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحیح بخاری : 205]
⟐ پیشانی اور پگڑی دونوں پر بھی مسح کرنا صحیح ہے۔
❀ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، آپ نے اپنی پیشانی، اپنی پگڑی اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ [صحيح مسلم : 273]
⟐ سر پر مسح کے لئے نیا پانی لینا چاہئے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسح برأسه بماء غير فضل يده ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک کا مسح تازہ پانی لے کر کیا۔“ [صحيح مسلم : 123/1 درسي ح : 236]
⟐سر کے مسح کے لئے نیا پانی نہ لینا اور صرف ہاتھوں پر موجود تری سے مسح کرنا بھی صحیح ہے۔
❀ مشہور تابعی عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ (وضو کے دوران میں) ہاتھوں پر بچے ہوئے پانی سے مسح کرتے تھے۔ [ابن ابي شيبه 21/1ح 212 و سنده صحيح]
تنبیہ : بہتر یہی ہے کہ سر اور کانوں کے مسح کے لئے تازہ پانی لیا جائے۔
⟐ غسل جنابت سے وضو میں سر کا مسح کرنے کے بجائے پانی سر پر ڈالنا چاہئے۔
❀ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا ارادہ فرمایا…. ثم أفاض عليٰ رأسه الماء ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر پر پانی ڈالا۔“ [صحيح بخاري : 274]
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل جنابت کے متعلق سوال کیا …. حتيٰ إذا بلغ رأسه لم يمسح وأفرغ عليه الماء ”جب آپ وضو کرتے ہوئے سر تک پہنچے تو آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ سر پر پانی ڈالا۔“ [سنن النسائي : 422 و سنده صحيح غريب]
 اس حدیث پر امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے باب ترك مسح الرأس فى الوضوء من الجنابة ”جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا۔“ [205/1 قبل ح 422]
① سر پر تین بار پانی ڈالنا چاہئے۔
❀ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ وغسل رأسه ثلاثا ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو تین بار دھویا۔“[صحيح البخاري : 265]
❀ سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتا ہوں۔“ [صحيح البخاري : 254]
 امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے کہ ”جس آدمی نے اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالا“ اس کے تحت اور بھی احادیث لائے ہیں۔
◈ سر پر پہلے دائیں طرف پانی ڈالیں پھر بائیں طرف۔ [صحيح البخاري : 258]
◈ غسل جنابت کے وضو میں سر کا مسح کرنا بھی صحیح ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے پہلے آپ اپنے ہاتھوں کو دھوتے“ ثم توضأ كما يتوضأ للصلوٰة ”پھر آپ وضو کرتے جس طرح نماز کے لئے وضو کرتے۔“ [صحيح البخاري : 248]
◈ جب ہم نماز کا وضو کرتے ہیں تو اس میں سر کا مسح کرتے ہیں۔
② نو مسلم کے بال
◈ نو مسلم کے سر کے بالوں کے بھی وہی احکام ہیں جو عام مسلم کے احکام ہیں۔
تنبیہ : سنن ابی داود [356] مستدرک الحاکم [570/3 ح 6428] اور المعجم الکبیر للطبرانی [14/19 ح 20] کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر مسلمان ہونے کے بعد سر کے بال منڈوائے گا۔ یہ ساری روایات ضعیف و مردود ہیں اور انہیں حسن قرار دینا غلط ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔Balon Ke MAsail (Last Part Part 2)
الشیخ ابراہیم بن بشیر الحسینوی
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه