کیا تقلید ضروری ہے؟
میں کچھ عرصہ قبل تقلید کی پرخار اندھیری وادی میں بھٹک رہا تھا‘ بفضل تعالیٰ دل میں جستجو حق کی کرن طلوع سحر میں تبدیل ہوگئی‘ صراط مستقیم میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئیں‘ تقلید کے سیاہ بادل چھٹ گئے اور ہر طرف روشنی ہوگئی‘ قرآن و حدیث کے مطالعے سے تقلید (جہالت) سے دامن چھوٹ گیا‘ میں نے ماضی میں دوران تحقیق جب اپنے حنفی علماء سے پوچھا ۔
ہم حنفی کیوں ہیں؟
کہاگیا ہم چوں کہ امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں اس لئے حنفی کہلاتے ہیں۔
میں نے پوچھا ہم مقلد کیوں ہیں؟
کہا گیا قرآن و حدیث سے لاعلمی کی وجہ سے۔
میں نے پوچھا قرآن و حدیث سے لاعلمی کی وجہ؟
کہا گیا قرآن کو سمجھنا بہت مشکل ہے اور احادیث میں اختلاف ہے۔ اسی لئے ہم ایک امام کی تقلید کے قائل ہیں۔
میں نے کہا بقول آپ کے قرآن مشکل اور احادیث میں اختلاف کی وجہ سے حنفی مذہب اختیار کیا گیا ہے ‘ لیکن حنفی مذہب میں جو شدید اختلافات ہیں تو پھر اب کون سا مذہب اختیار کیا جائے؟ اور حنفی مذہب میں آپ کی طرح دیگر علماء بھی حنفی مذہب کے مقلد ہیں‘ تو یہ علماء حنفی مذہب کے عالم تو ہوئے کیا انہیں عالم دین بھی کہا جاسکتا ہے؟
اگر حنفیت ہی دین ہے تو باقی تین مذاہب کیا ہیں؟ اگر یہ بھی دین ہیں تو دین کے چار حصے کیوں؟ اور ان میں زبردست اختلافات کیوں؟ دین تو 10 ہجری کو کامل ہوگیا تھا‘ جب کہ ان چاروں مذاہب کا وجود بھی نہیں تھا۔
میں نے مزید پوچھا امام (مجتہد) سے خطا ہوتی ہے یا نہیں؟ امام نے خود تقلید کی ہے یا نہیں؟ امام نے اپنی تقلید سے متعلق کچھ کہا ہے یا نہیں؟ اور امام صاحب کی اپنی لکھی ہوئی کوئی کتاب دنیا میں موجود ہے یا نہیں؟
بس دوران تحقیق چند سوالات کرنے کی دیر تھی پھر جو جوابات ملے سوالات کے نہیں بلکہ سوالات کرنے پر کہ تم غیر مقلد ہو‘ گستاخ ہو‘ وہابی ہو‘ اور مزید عزت افزائی کی گئی۔ جو میں لکھنے سے معذرت خواہ ہوں۔ آپ مذکورہ بالا سوالات ان سے کیجئے۔ تقلید کی کیا حیثیت ہے معلوم ہوجائے گا۔ اور عزت افزائی؟ بھی خوب ہوگی۔
یاد رہے قرآن کو سمجھنا مشکل نہیں ہے اور نا ہی احادیث میں اختلاف ہے۔ آپ فہم قرآن و حدیث کے لئے کوشش تو کریں چند مسائل میں اگر مشکل پیش آئے تو علمائے اہل حدیث سے رجوع کریں‘ ان شاء اللہ وہ مشکل بھی حل ہوجائے گی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا (اور کوشش کی) ہم انہیں ضرور سیدھے راستے کی ہدایت دیں گے‘ اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
(سورۃ العنکبوت)
مقلدین کہتے ہیں قرآن کو سمجھنا بہت مشکل ہے
جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’بلاشبہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان بنایا ہے‘ تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے‘‘ (سورۃ القمر)
شریعت میں کوئی الجھن نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’کیا تم اس طرح الجھن میں مبتلا ہو‘ جس طرح یہود و نصاریٰ‘ تحقیق میں تمہارے لئے روشن و صاف شریعت لے کر آیا ہوں‘‘ (مسند احمد۔ ابن ماجہ)
شریعت میں الجھن کے وجود کو تسلیم کرنا ہی خلاف شریعت ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم میں نے تمہیں روشن شریعت پر چھوڑا ہے‘ اس کی رات اور اس کا دن دونوں روشنی میں برابر ہیں‘‘(مسند احمد۔ ابن ماجہ)
قرآن و حدیث میں شک و شبہ مومن کی صفت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک و شبہ میں نا پڑے۔‘‘ (سورۃ الحجرات)
جب کہ تقلید کرنے سے شک واقع ہوتا ہے
‘ حنفی مذہب کی معتبر کتاب مسلم الثبوت میں مرقوم ہے ’’یعنی علمی دلائل کو چھوڑ کر تقلید کی طرف جانا معقولات کے برخلاف ہے‘ کیسے خلاف نا ہو تقلید کرنے سے شک واقع ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جس چیز میں شک ہو‘ اس کو ترک کردو اور جو یقینی بات ہو اس پر عمل کرو۔‘‘ (مسلم الثبوت)
امام ابوحنیفہ کی ولادت 80 ہجری اور انتقال 150 ہجری کو ہوا۔ امام صاحب نے خود کوئی کتاب نہیں لکھی ۔ امام ابوحنیفہ فرماتے تھے ’’کہ لوگ ہدایت پر رہیں گے جب تک کہ ان میں حدیث کے طلباء ہوں گے جب حدیث چھوڑ کر اور چیزیں طلب کریں گے تو بگڑ جائیں گے۔‘‘ (میزان شیرانی)
حنفی مذہب ہزاروں افراد کی رائے قیاس اور کئی مذاہب کا مجموعہ ہے جسے حنفی مقلدین بڑے فخر سے امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ لیکن سنداً ثابت کرنا ان کے بس کا روگ نہیں۔ حنفی مذہب کی جن کتابوں پر دن رات حنفیوں کا عمل ہے دیکھتے ہیں وہ کب لکھی گئیں۔
قدوری ۔ پانچویں صدی ہجری
ہدایہ۔ قاضی خاں۔ دلواجیہ ۔ چھٹی صدی ہجری
منیہ۔ قنیۃ ۔ ساتویں صدی ہجری
طحطاوی ۔ شرح وقایہ۔ نہایہ۔ کنز۔ عنایہ۔ جامع الرموز ۔ آٹھویں صدی ہجری
فتح القدیر ۔ بذازیہ ۔ حلیہ ۔ خلاصہ کیلانی ۔ نویں صدی ہجری
فتاویٰ خیریہ ۔ درمختار۔ گیارہویں صدی ہجری
فتاویٰ عالمگیری ۔ بارہویں صدی ہجری
ملابد ۔ عمدۃ الرعایہ ۔ مراقی الفلاح ۔ تیرہویں صدی ہجری
حنفی مذہب ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’آج میں نے تمہارا دین کامل کردیا‘ اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی‘ اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا‘‘ (سورۃ المائدہ)
عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں ’’کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی اس کے بعد حلال و حرام کو کوئی حکم نہیں اترا۔‘‘
اب چند سوالات درج ذیل ہیں۔
امید ہے طالب حق مقلدین تلاش حق میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کریں گے‘ اور حق (قرآن و حدیث) کو فراخ دلی سے قبول کریں گے ۔ (آمین)
کیا یہ صحیح ہے کہ قرآن و حدیث میں تقلید سے متعلق منع کیا گیا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اثبات تقلید کی دلیل دیجیئے‘ لیکن مقلد تو اپنے امام کے قول کی دلیل دیکھنے کا بھی مجاز نہیں تو امام کی تقلید سے متعلق کیسے دلیل دے سکتا ہے؟ جب کہ چاروں امام نے اپنی اور دوسروں کی تقلید کرنے سے سخت منع کیا ہے۔ بالفرض آپ کی پیش کردہ دلیل تسلیم کرلی جائے تب بھی کسی امام کی تقلید ثابت نہیں ہوتی۔
آپ کی پیش کردہ دلیل مدنظر رکھی جائے تو زیادہ سے زیادہ صحابہ کرام کی تقلید ثابت ہوگی‘ وہ بھی وقتی اور مطلق جامد نہیں۔ اور یہاں سوال تقلید جامد (شخصی) کا ہے‘ مطلق کا نہیں۔ لیکن صحابہ کرام کا مقلد تو کوئی بھی نہیں‘ آپ بھی نہیں‘ کیا صحابہ کرام کی تقلید منسوخ ہوچکی ہے؟ اگر بقول مقلدین صحابہ کرام کی تقلید منسوخ ہوچکی ہے تو اس کی کیا دلیل اور اگر نہیں ہوئی تو پھر ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟ اور ان چاروں امام سے قبل و بعد جو ہزاروں امام و مجتہدین گزرے ہیں ان کی تقلید مشروع ہے یا ممنوع؟ اگر مشروع ہے تو ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر ممنوع ہے تو اس کی کیا دلیل؟ اور ان چاروں امام کی تقلید کس دلیل کی بنیاد پر کی جاتی ہے؟ مناسب ہوگا وہ دلائل جس سے بقول مقلدین صحابہ کرام کی تقلید ثابت ہوتی ہے‘ آپ چوں کہ چار امام کی تقلید کے قائل اور ایک امام کے مقلد ہیں‘ اور آپ صحابہ کرام کی تقلید کے قائل نہیں اور نا ہی کسی ایک صحابی کے مقلد ہیں۔ اس لئے بہت ضروری ہے صرف وہ دلائل دیجیئے جس سے صرف ان چار امام کی تقلید واضح طور پر ثابت ہوجائے اور پھر چار امام میں سے تین کو شجر ممنوعہ سمجھ کر ان سے اجتناب اور ایک امام کی تقلید جامد کیوں؟ اور کس دلیل کی بنیاد پر؟ کیا مقلدین کی طرف سے پیش کردہ اثبات تقلید سے متعلق دلائل سے علاوہ ان چار مذاہب کے دیگر مذاہب کے مقلدین بھی استفادہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟‘ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر کرسکتے ہیں تو پھر ’’چاروں مذاہب برحق‘‘ کا نقارہ بند تو نہیں ہوجائے گا؟ بقول مقلدین چاروں مذہب برحق ہیں‘ تو کیا مقلد مجتہد بھی ہوسکتا ہے؟ اگر ہوسکتا ہے تو پھر تقلید کی کیا ضرورت؟ اگر صرف مقلد (جاہل) ہے تو اس لاعلم کو علمی بحث سے سخت اجتناب کرنا چاہیئے‘ جب منہ میں دانت نہیں تو اخروٹ کھانے کی ضد اچھی بات نہیں۔
چاروں امام کا قول ہے ’’صحیح حدیث میرا مذہب ہے‘‘ (میزان شعرانی)
اور مروجہ ایک مذہب مکمل حق نہیں ہوسکتا ‘ یہی وجہ ہے کہ ان چاروں امام نے اپنے سے افضل کی بھی تقلید نہیں کی۔ بلکہ بعد والوں کو اپنی اور دوسروں کی تقلید سے سخت منع کیا ہے۔ ثابت ہوا ان کی تقلید تحقیق ہے تقلید نہیں۔
سمجھ سے بالاتر ہے اگر تقلید مطلق کی جائے تو کس مسئلے میں کس کی؟ اور کس مسئلے میں کس کی؟
کیا مقلد اپنے امام سے بڑھ کر اجتہاد کے اعلیٰ منصب پر فائز ہے؟ کہ وہ یہ معلوم کرسکے کہ کس امام سے کس مسئلے میں اجتہاد میں خطا ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر تقلید جامد کی جائے تو افضل کی یا مفضول کی؟ افضل تو صحابہ کرام تھے ‘ جب ان کی تقلید مقلدین نے منسوخ کردی تو مفضول کی اب تک کیوں؟ کیا تقلید انتقال پذیر ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو صحابہ کرام کی تقلید کیوں انتقال پذیر ہوگئی؟ اگر ہوتی ہے تو ان چاروں امام کی تقلید کیوں جامد ہوگئی؟
مقلدین ان چاروں امام کی تقلید کو فرض اور واجب کہتے ہیں جب کہ یہی مقلدین صحابہ کرام کی تقلید کو فرض کہتے ہیں اور نا ہی واجب ۔ اگر تقلید فرض یا واجب ہے تو کس کی اور کیوں؟ جامد یا مطلق دلیل دیجیئے۔
اور دین میں تحقیق کرنے والے غیر مقلدین کے لئے قرآن و حدیث میں کیا وعید آئی ہے اس کی دلیل ضرور‘ مگر سمجھ کر دیجیئے گا؟؟؟؟
قرآن و حدیث میں تقلید کا لفظ انسانوں کے لئے نہیں بلکہ جانوروں کے لئے آیا ہے۔ اگر اب بھی تقلید کے سوا چارہ نہیں تو پھر امام کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ ناممکن ہے۔ اب درپیش مسائل میں قرآن و حدیث والوں (اہل حدیث) کی طرف کیوں نا رجوع کیا جائے کیوں کہ مقلد تو کہتے ہی اسے ہیں جو صرف اپنے امام کے قول کا پابند ہو‘ قرآن و حدیث سے دلیل دینا تو درکنار اپنے امام کے قول کی دلیل کا مطالبہ تک نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ تقلیدی مذہب میں دلیل کا تقاضا مقلد کو دائرہ تقلید سے خارج کردیتا ہے۔ اور تقلید کہتے ہیں کسی کی بات عدم علم اور تحقیق کے مان لینا ‘ اگر دلیل دی تو (مسئلہ ثابت ہوا یا نہیں) تقلید کہاں رہی۔ اگر مقلدین کو علم و تحقیق کی جستجو ہوتی تو ’’ تق ۔ لید‘‘ میں پھنستے ہی کیوں؟ مقلدین اثبات تقلید سے متعلق قرآن و حدیث سے جو دلائل دیتے ہیں کیا آپ کے امام نے بھی ان دلائل کی روشنی میں اثبات تقلید سے متعلق کچھ کہا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر کہا ہے تو کیا کہا ہے؟
اگر مقلدین امام ابوحنیفہ کا باسند قول اثبات تقلید سے متعلق ان کی اپنی دلیل سے ثابت نہیں کرسکے تو مقلدین کی طرف سے اثبات تقلید سے متعلق دلائل کا کیا مفہوم سمجھا جائے؟ قرآن و حدیث پر افتراء یا اپنے امام اعظم پر فضیلت؟
کہا جاتا ہے چاروں مذاہب برحق ہیں‘ جب کہ چاروں مذہب میں شدید اختلافات ہیں۔ ایک مذہب کہتا ہے یہ چیز حلال تو دوسرا مذہب کہتا ہے حرام ۔ ایک مذہب کہتا ہے یہ جائز دوسرا مذہب کہتا ہے ناجائز۔ ایک مذہب کہتا ہے اس طرح طلاق ہوگئی تو دوسرا مذہب کہتا ہے نہیں ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ اسلام کے ایک اہم رکن نماز سے متعلق ایک مذہب کہتا ہے اس طرح نماز ہوگئی تو دوسرا مذہب کہتا ہے نہیں ہوئی۔ مقلدین کو حق کہنے کا حق تو نہیں پھر بھی مقلدین جسے حق کہتے ہیں اگر یہی حق ہے تو عجیب حق ہے بیک وقت حلال بھی حق‘ حرام بھی حق‘ جائز بھی حق ناجائز بھی حق‘ طلاق ہوگئی حق‘ نہیں ہوئی حق‘ نماز ہوگئی حق‘ نہیں ہوئی حق۔ چاروں تقلیدی مذاہب کے ہزاروں اختلافی مسائل میں اگر یہ بھی حق اور وہ بھی حق اور حق تو ہے ہی حق اگر اس کی ضد باطل بھی حق تو میرا یہ حق ہے کہ مجھے کسی پاگل خانہ میں جمع کرادو۔
بھائیو! حق تو یہ ہے کہ حق ادا نا ہوا ۔ کاش مقلدین اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرلیتے تو یہ سنگین صورت حال پیدا نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
’’ اور جب تم میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول (قرآن و حدیث) کی طرف لوٹائو‘‘ (سورۃ النسائ)
تین مذاہب مالکی‘ شافعی اور حنبلی تو درکنار خود فقہ حنفی میں امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں میں ہزاروں مسائل میں زبردست اختلافات موجود ہیں۔ بلکہ متعدد مسائل میں امام ابوحنیفہ کے کئی کئی اقوال موجود ہیں۔ مقلدین کا حق ہے کہ وہ اپنے مقلد ؟ علماء سے وضاحت طلب کریں یہ سب کیوں اور کیا ہے؟ حق پرستی ہے یا اکابر پرستی‘ صراط مستقیم ہے یا فرقہ پرستی؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’تو قسم ہے تیرے رب کی (اے پیارے رسول) نہیں ایمان لائیں گے یہاں تک کہ اپنے باہمی جھگڑوں میں آپ کو حاکم نا بنائیں‘ پھر آپ جو فیصلہ صادر فرما دیں اس سے اپنے دلوں میں کچھ تنگی نا پائیں بلکہ بسر و چشم تسلیم کرلیں‘‘ (سورۃ النساء)
مقلدین ضمیر کو‘ نہیں ہے تو چھوڑیں‘ ہے تو جھنجھوڑیں۔ اپنے تقلیدی مذہب پر ہی جمے رہنا ہے یا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت (قرآن و حدیث) کے سامنے سر جھکانا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں‘ ظالم ہیں‘ فاسق ہیں‘‘ (سورۃ المائدہ)
جب چاروں امام کا قول ہے ’’صحیح حدیث میرا مذہب ہے‘‘ تو ان کا مذہب تو کتب حدیث کی صحیح احادیث میں ملے گا نا کہ سینکڑوں سال بعد ہزاروں افراد کی لکھی گئی رائے و قیاس پر مشتمل کتب فقہ میں‘ کیا مکمل شریعت کے بعد رائے قیاس بھی حجت ہے؟ اگر نہیں تو چھوڑا کیوں نہیں جاتا‘ اگر حجت ہے تو یہ شریعت سازی ہے یا نہیں؟ اور شریعت سازی شرک ہے یا نہیں؟ امام (مجتہد) کا اجتہاد اگر درست ہے تو دو اجر‘ اگر اجتہاد میں خطا ہوجائے تو ایک اجر (کوشش کی وجہ سے) مگر مجتہد کی خطا میں اندھی تقلید کرنے والوں کے لئے خسارہ ہے‘ ثواب نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور رسول کی طرف تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے وہ آپ سے روگردانی کرتے ہیں‘‘ (سورۃ النساء)
اگر اب بھی بچکانہ ضد کہ چاروں مذاہب برحق ہیں اور ایک مذہب کی تقلید ناگزیر ہے تو امام سے خطا کی صورت میں انتقال مذہب کی اجازت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو تقلید گئی ‘ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اس کی کیا دلیل ہے؟ اور ایک عامی (جاہل) کے لئے انتخاب مذہب کی کیا دلیل ہے؟ کرہ ارض کے تمام مقلدین عامی ہو یا مفتی سب کے سب اپنے آبائواجداد کے طریقے پر گامزن ہیں۔ جو باپ کا مذہب وہی بیٹے کا مذہب‘ آپ اپنے کسی بھی عالم سے پوچھیں کیا آپ نے تحقیق کرکے یہ مذہب اختیار کیا ہے؟ اگر وہ کہے ’’نہیں‘‘ تو میں سچا‘ اگر وہ کہے ’’ہاں‘‘ تو وہ جھوٹا۔
اس لئے اگر وہ مقلد (جاہل) ہے تو عالم نہیں‘ اگر عالم (علم والا) ہے تو مقلد نہیں۔ اگر کہا جائے ’’مقلد عالم‘‘ تو مقلد (جاہل) عالم (علم والا) یعنی پڑھا لکھا جاہل؟
صد افسوس
عقل کے اندھوں کو کچھ کا کچھ نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے‘ لیلیٰ نظر آتا ہے
اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے یا بند؟ اگر کھلا ہے تو تقلید کی کیا ضرورت‘ اگر بند ہے تو کس نے کیا؟ مقلدین یا مجتہدین نے فرد واحد یا اجماع نے دلیل یا رائے قیاس سے اور یہ سانحہ عظیم کب‘ کیوں اور کہاں ہوا؟ جب اجتہاد کا دروازہ چاروں امام کے بعد بند کیا گیا ہے تو کیا بعد والے اجتہاد میں ان چاروں امام سے بھی افضل تھے؟ اگر تھے تو ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر مفضول تھے تو مسئلہ اجتہاد میں ان کی تقلید کیوں کی جاتی ہے؟ بلکہ جو کام خلفائے راشدین‘ صحابہ کرام‘ تابعین‘ ہزاروں امام و مجتہدین نے نہیں کیا تو بعد والوں کو یہ حق کس نے اور کیوں دیا کہ وہ اجتہاد کا دروازہ بند کردیں۔ بقول مقلدین اگر اس میں حکمت تھی تو کیا اس حکمت سے (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ واقف نہیں تھا‘ اجتہاد کا دروازہ بند کرنے کی کوئی دلیل ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کون سی ‘ اگرنہیں تو ثابت ہوا اجتہاد کا دروازہ محض رائے قیاس سے بند کیا گیا ہے۔ اور شریعت میں کسی کی رائے قیاس حجت نہیں ‘ اگر مقلدین کے نزدیک رائے قیاس بھی حجت ہے تو کیا اس کی کوئی دلیل ہے؟ اگر ہے تو کون سی؟ اگر نہیں تو صرف قرآن و حدیث کو دین اور حجت ماننے والوں (اہل حدیث) کی طرف آیئے‘ حق روشنی تو ادھر ہے آپ اتنے عرصے سے تقلید کی اندھیری گھاٹی میں کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟
اللہ تعالی کا ارشاد ہے
’’سو یہی ہے اللہ تمہارا حقیقی پروردگار پس حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا ہے سو تم کدھر کو پھرے چلے جا رہے ہو‘‘ (سورۃ یونس)
یہ بتائیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور ایک سائل کے درمیان کون سا امام واسطہ بننے کا زیادہ مستحق ہے کیوں کہ امام (مجتہد) سے بھی خطا ہوتی ہے‘ تو ایسے وقت مقلد کو قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے یا نہیں ‘ اگر مقلد اب بھی تقلید کا قلادہ (پٹہ) اپنی گردن سے نہیں اتارے تو اس نے اپنے امام کو شارع یا شارح کی حیثیت تو نہیں دے دی‘ جب کہ اللہ تعالیٰ شارع بھی ہے اور شارح بھی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’ اللہ نے تمہارے لئے دینی شریعت بنائی ہے اور ارشاد فرمایا پھر اس وحی کی تشریح کرنا ہمارا ذمہ ہے‘‘ (سورۃ القیامۃ)
اب مقلدین اپنے امام کو شارع یا شارح سمجھیں تو یہ شرک ہوا یا نہیں۔ اگر مقلدین امام کو شارع یا شارح نہیں سمجھتے تو سمجھائیں کہ وہ یا سمجھتے ہیں؟ اور آپ کا امام کے نام سے منسوب ہونا کیا سمجھا جائے؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’کیا انہوں نے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں جو ان کے لئے دینی قوانین بناتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی‘‘ (سورۃ شوریٰ)
یاد رکھیں ! گذشتہ قومیں اللہ تعالیٰ کے احکامات جس کی رسول تبلیغ کرتے تھے نظرانداز کرکے اپنے علماء اور مشائخ کی بے سند اور جھوٹی باتوں کو ہی دین اور راہ نجات سمجھنے لگیں‘ تحقیق چھوڑ کر تقلید اور آبائواجداد کے طریقوں کو پکڑ لیا ‘ اور گمراہ ہوگئیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا‘‘ (سورۃ توبہ)
اس آیت کی تفسیر میں جو حدیث ہے وہ صرف یہی ہے کہ یہود و نصاریٰ اپنے علماء و مشائخ کی حلال و حرام میں پیروی کرتے تھے اور اسی کو رسول اللہ ﷺ نے ان کی عبادت فرمایا تھا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’اور یہی ان کی عبادت تھی‘‘ (ترمذی)
ممکن ہے آپ کے مقلد علماء فرمائیں کہ یہ آیت تو یہود و نصاریٰ سے متعلق ہے‘ آپ حیران ہوکر ان سے پوچھیں کیا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شریعت سازی کی اجازت دے دی ہے؟
واضح رہے علت دونوں جگہ ایک ہی ہے یعنی غلطی میں کسی کی پیروی کرنا انسانی صفت تقلید نہیں تحقیق ہے تو پھر آپ تحقیق کریں آپ وہی خطا تو نہیں کر رہے جو گذشتہ گمراہ قوموں نے کی تھی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’سو نصیحت کرتے رہو تم جہاں تک نصیحت نفع دے ضرور نصیحت قبول کرے گا وہ جسے خوف ہے (اللہ کا) اور گریز کرے گا اس سے جو ہوگا انتہائی بدبخت وہ جو جا پڑے گا بڑی آگ میں پھر نا موت آئے گی اسے اس میں اور نا زندہ ہی ہوگا‘‘ (سورۃ الاعلیٰ)
مقلدین ایک بات کے قائل ہیں کہ تقلید ظن (عدم یقین) کی بنیاد پر کی جاتی ہے‘ اور چاروں امام نے اپنے قول پر عدم دلیل کے فتویٰ دینا حرام کہا ہے۔ جب تقلید کی بنیاد ہی عدم دلیل پر قائم ہے تو کیا مقلد مفتی فتویٰ دینے کا مجاز ہے؟ یا نہیں اگر نہیں تو فتویٰ کیوں دیتا ہے؟ اگر مجاز ہے تو کیا عدم دلیل کے فتویٰ دینا جائز ہے؟
اب مقلد مفتی عدم دلیل کے فتویٰ دے تو بقول امام صاحب کے حرام کا مرتکب‘ اگر فتویٰ دلیل سے دے تو اپنے تقلیدی مذہب سے خارج۔ مقلد مفتی دلیل سے فتویٰ دے تو مفتی تو رہے گا سچ بتائیں کیا مقلد بھی رہے گا؟
آج حنفی ہونے پر بڑا فخر کیا جاتا ہے‘ جب کہ اصلی حنفی اسے کہتے ہیں جو امام ابوحنیفہ کی تقلید کرے اور تقلید کرنے والے کو مقلد کہتے ہیں اور مقلد صرف اپنے امام کے قول کا پابند ہوتا ہے دلیل دینا تو مجتہد (غیر مقلد) کا کام ہے‘ مقلد کا نہیں۔ اگر حنفی حضرات صرف امام صاحب کے باسند قول پر عدم دلیل کے فتویٰ دیں تب تو آپ یقیناً حنفی ہیں اگر قرآن حدیث سے دلیل دی پھر تو یہ اطاعت کہلائے گی اور تقلید غائب ہوجائے گی‘ باقی کیا رہ جائے گی؟ ظاہر ہے قول امام دلیل کے تابع ہے‘ دلیل امام کے قول کے تابع نہیں‘ اب حنفی کہلانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ دلیل پر قول امام کو ترجیح؟
جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں جو نہیں جانتے وہ جاننے کی کوشش کریں‘ مقلدین کہتے ہیں حدیث کے صحیح اور غیر صحیح ہونے میں احتمال ہوتا ہے اور اس قسم کے دوسرے شکوک پیدا ہوتے ہیں لہذا براہ راست حدیث پر عمل کرنا ٹھیک نہیں۔ جب مقلد مفتی امام کے قول پر فتویٰ دیتا ہے تو امام کے قول میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے۔ صحیح ہے یا غیر صحیح ۔ حدیث کے مطابق ہے یا مخالف‘ سنداً ثابت ہے یا نہیں‘ قول قدیم ہے یا جدید اور اس کا مفہوم ہم تک صحیح پہنچا ہے یا نہیں؟ اگر مقلد مفتی امام صاحب کے کسی شاگرد کے قول پر فتویٰ دے تو امام صاحب کے شاگردوں نے ہزاروں مسائل میں اپنے امام سے سخت اختلاف کیا ہے۔ معلوم نہیں امام صاحب کا قول صحیح ہے یا شاگرد کا‘ اور شاگرد کے قول میں بھی مذکورہ بالا شبہات ہوسکتے ہیں۔
بھائیو! آنکھ بند ہونے سے پہلے کھول لیں۔ بعد مرنے کے حسرت اور افسوس لاحاصل ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے حسرت اور افسوس سے کہیں گے کاش ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے اور کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی بات مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکادیا پروردگار تو انہیں دوگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما‘‘ (سورۃ الاحزاب)
آپ صراط مستقیم کا تعین کریں (تقلیدی مذہب) جس مذہب میں مقلد کو علم سے لاعلم رکھنا فرض اور واجب بتایا جاتا ہے اور دین میں تحقیق و بحث کرنے اور مذہب کے عالم سے سوالات کرنے سے منع کیا جاتا ہے اور مقلد کو امام کے قول کی سند اور اس کی دلیل کا مطالبہ کرنے پر مذہب سے خارج کردیا جاتا ہے اور اسے لامذہب‘ بے ادب‘ گستاخ اور دیگر برسے القاب سے نوازا جاتا ہے‘ اہل حدیث پر جھوٹے الزامات اور برے القاب سے پکارنے کی اصل وجہ بھی صرف اور صرف یہی ہے یا مسلک قرآن و حدیث جس کسی کی بات مطابق قرآن و حدیث ہو سر آنکھوں پر اگر خلاف ہو تو رد کردی جائے‘ یہی مذہب خلفائے راشدین‘ صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین‘ آئمہ اربعہ‘ محدثین‘ مجتہدین اور تمام اولیاء اللہ کا تھا‘ صرف یہی صراط مستقیم ہے۔
اسی کو اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اتباع اور اطاعت کہتے ہیں اور اسی میں اللہ کی رضا اور ہماری نجات ہے‘ آپ دوران تحقیق چند لوگوں کی جہالت کی پرواہ نا کریں بلکہ روزمحشر اللہ رب العالمین کے سامنے اکیلے اپنے اعمال کی جواب دہی کو مدنظر رکھیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’اے نبی کہہ دے میں اللہ کے دین کی طرف دلائل واضح سے بلاتا ہوں اور جو شخص میرا تابعدار ہے اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں‘‘ (سورۃ یوسف)
اس آیت کی تفسیر میں تفسیر حنفی مدارک‘ تفسیر کبیر‘ تفیسر خازن‘ تفسیر بیضاوی اور تفیسر ابن کثیر کی عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ارشاد ہوتا ہے کہ آپﷺ فرما دیجیئے کہ میں تم کو اللہ کے دین کی طرف بلادلیل نہیں بلاتا بلکہ جج و براہین واضح کے ساتھ بلاتا ہوں جس کے ذریعے تم حق اور باطل میں تمیز کرسکتے ہو۔ یہ آیات قرآنی و اقوال مفسرین صاف دلالت کررہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنا تقلید میں داخل نہیں ہے۔ کیوں کہ اتباع نبویﷺ بالدلائل ہے اور تقلید کی بنیاد عدم دلیل پر قائم ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی‘‘ (بخاری ۔ مسلم ۔ ابن ماجہ۔ دارمی)
جس طائفہ منصورہ کی حقیقت و فضیلت رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمارہے ہیں مروجہ تقلیدی مذاہب ارواح (حنفی‘ مالکی‘ شافعی‘ حنبلی) کا سلسلہ چوں کہ زمانہ خیر القرون کے بعد کا ہے اس لئے ان کا آپﷺ کی اس بشارت کا حق دار ہونا محل نظر ہے‘ ان کے تقلیدی مذاہب کا وجود رسول اللہﷺ ‘ صحابہ کرام‘ تابعین و تبع تابعین کے مبارک زمانے میں نہیں تھا یہ بات مقلد بھی جانتے ہیں کہ مقلدین سے افضل امام تھے اور امام سے افضل تابعین تھے اور تابعین سے افضل صحابہ کرام تھے ظاہر ہے جب افضل تھے تو مقلد نہیں تھے۔ جب مقلد نہیں تھے تو پھر غیر مقلد ہوئے تو پھر ہمیشہ حق پر قائم رہنے والی جماعت سے تعلق غیر مقلدین کا ہوا یا نہیں؟
مقلدین کہاں کھڑے ہیں؟ اس کا تعین مقلدین خود کریں۔ مقلدین تقلید کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث سے چند دلائل دیتے ہیں جب مقلدین کو قرآن مشکل اور احادیث میں اختلاف نظر آتا ہے تو کیا تقلید کو ثابت کرتے وقت قرآن آسان اور احادیث میں اختلاف دور ہوجاتا ہے؟
’’ٹب میں نہانے والوں کو سمندر میں نہانے کا دعویٰ زیب نہیں دیتا۔‘‘
کیا تمام مقلدین ایک آیت یا ایک صحیح حدیث دکھا سکتے ہیں جس میں غیر مقلد یعنی دین میں تحقیق اور اجتہاد کرنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہو؟
آپ ان سے پوچھیں جب تقلید کی بنیاد ہی عدم دلیل پر قائم ہے تو تقلید کو دلیل سے ثابت کرکے آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟ عدم دلیل کے تقلید باطل ‘ تقلید پر دلیل دیں پھر بھی تقلید باطل۔
مقلدین تقلید کو ثابت کرتے وقت اپنے مذہب کے اصول اور اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ چاروں امام غیر مقلد تھے ‘ اگر قرآن و حدیث میں اثبات تقلید سے متعلق ایک بھی دلیل ہوتی تو چاروں امام اس دلیل کی روشنی میں اپنے سے افضل کی تقلید کرتے اور بعد والوں کو اپنی تقلید سے متعلق ضرور کچھ کہتے‘ لیکن چاروں امام نے نا اپنے سے افضل کی تقلید کی اور نا ہی اپنی تقلید کرنے کو کہا۔ بلکہ دوسروں کی تقلید سے بھی سخت منع کرگئے۔ مقلدین اتنی عام فہم بات سمجھنے سے بھی قاصر ہیں‘ کہ ان کی تقلید ہی یہ ہے کہ تقلید نہیں تحقیق کی جائے۔ مناسب ہوگا مقلدین لوگوں کو غیرمقلدوں سے بدظن نا کیا کریں‘ اور نا ہی برے القاب سے پکارا کریں آپ چوں کہ مقلد (لاعلم) ہیں اور بات کہاں تک پہنچ جاتی آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا۔
افسوس مقلد بے سمجھ کو بے سمجھوں نے جو سمجھایا وہ اسی کو دین سمجھ بیٹھے ان بے سمجھوں کو کون سمجھ دار سمجھائے کہ قرآن و حدیث میں اثبات تقلید سے متعلق ایک بھی دلیل نہیں اسی وجہ سے کسی امام نے بھی اپنی تقلید و پیروی کا نہیں کہا۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے
’’جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی ہے پیروی کرنے والوں سے صاف الگ ہوجائیں گے اور سب عذاب کا مشاہدہ کرلیں گے اور ان کے تمام تعلقات منقطع ہوجائیں گے اور پیروی کرنے والے کہیں گے ہمیں ایک بار دنیا میں لوٹا دیا جائے تو ہم ان سے صاف الگ ہوجائیں گے جیسے وہ ہم سے الگ ہوئے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو حسرتیں بنا کر دکھائے گا اور آگ سے ہرگز نہیں نکلیں گے‘‘ (سورۃ البقرۃ)
اہل حدیث ......آئو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف
مقلدین ...... آئو ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں کی طرف
اہل حدیث ...... آئو اطاعت (وحی) کی طرف
مقلدین ...... آئو تقلید (جہالت) کی طرف
اہل حدیث ...... آئو قرآن و حدیث کی طرف
مقلدین ...... آئو ہدایہ و فتاویٰ عالمگیری کی طرف
اہل حدیث ...... آئو صراط مستقیم کی طرف
مقلدین ...... آئو فرقہ واریت کی طرف
اہل حدیث ...... آئو مکہ مدینہ کی طرف
مقلدین ...... آئو کوفہ بغداد کی طرف
برا نا منائیں اتنا جان جائیں جدھر بھی جائیں تحقیق کرکے جائیں۔ تاکہ روزمحشر نا پچھتائیں۔ اللہ تعالی سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ (آمین)