find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Roze Ki Niyat Ke Masail ~ Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ka Byan

Roze Ki Niyat Ke Masail, Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ki Azan Aur Waqt, Roza Ke Liye Sehri Khana Sunnat Hai, Sehri Der Se Khana

Roze Ki Niyat Ke Masail, Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ki Azan Aur Waqt, Roza Ke Liye Sehri Khana Sunnat Hai, Sehri Der Se Khana

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Roze Ki Niyat Ke Masail, Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ki Azan Aur Waqt, Roza Ke Liye Sehri Khana Sunnat Hai, Sehri Der Se Khana
Roze Ki Niyat Ke Masail ~ Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ka Byan

◆ روزے کی نیت کے مسائل :
رمضان کے آغاز میں پورے مہینے کے لیے ایک ہی نیت کافی ہے کیونکہ روزہ دار اگر ہر رات ہر روزے کی نیت نہ بھی کرے، تو اس نے مہینے کے شروع سے اس کی نیت کر رکھی ہے۔ اگر اس نے مہینے کے درمیان سفر یا مرض وغیرہ کی وجہ سے کچھ روزے چھوڑدیئے، تو پھر اسے دوبارہ نیت کرنی چاہیے اس لئے کہ اس نے سفر و مرض وغیرہ کی وجہ سے روزے چھوڑ کر نیت کو توڑ دیا تھا۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ :380
روزے دو طرح کے ہوتے ہیں۔فرض روزہ:جیسے رمضان کاروزہ،نذر کاروزہ،کفارہ کاروزہ وغیرہ۔فرض روزے کے لیے رات کو نیت کرناضروری ہے،اس کاطریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے والا رات کے وقت  اپنے دل میں ارادہ کرے کہ وہ صبح رمضان یانذر یاکفارہ یا قضاء کاروزہ رکھے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے:
"جس شخص نے طلوع فجر سے پہلے رات کو روزہ رکھنے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔"
بیہقی ،ص:203،ج:4۔
یہ حدیث بھی اس امر کا ثبوت ہے:"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔"
صحیح بخاری بدء الوحی:1۔
ان روایات کی روشنی میں فرض روزے کی نیت رات کوکرنا ضروری ہے اگر کوئی دن چڑھے بیدار ہو اور اس نے طلوع فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا پھر اس نے روزے کی نیت کرلی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا،کیونکہ رات کے وقت طلوع  فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری تھا۔
1۔روزہ کی دوسری قسم  نفلی روزہ ہے،اس کی نیت دن چڑھے بھی کی جاسکتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا بیان ہے کہ ایک روز میرے  پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اور پوچھا:"کیا تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟"میں نےعرض کیاجی نہیں،آپ نےفرمایا:"تب میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔"
صحیح مسلم الصیام:1154
اس حدیث سےثابت ہوا کہ آپ پہلےبحالت روزہ نہ تھے کیونکہ آپ نے کھانا طلب کیا،اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفلی روزے کی نیت میں دن چڑھے تک تاخیر کرنا جائزہے ،واضح رہے کہ نفلی  روزے کی نیت دن میں اس وقت جائز ہے جب نیت سے پہلے روزے کے منافع کام یعنی فجر ثانی کے بعدکچھ کھایا پیا نہ ہو،بصورت دیگر روزہ صحیح نہ ہوگا۔
واضح رہے کہ نیت محض دل کے ارادے کا نام ہے،اس لیے زبان سے کوئی الفاظ ادا کرنا شرعاً ثابت نہیں ہیں،اس بنا پر ہمارے ہاں مشہور نیت جو سوال میں ذکر کی گئی ہے خود ساختہ اور بے اصل ہے،یہ الفاظ بنانے والے نے عقل سے کام نہیں لیا،کیونکہ اس میں کل کے روزے کی نیت کا ذکر ہے جبکہ روزہ آج رکھا جارہاہوتا ہے،بہرحال روزےکے کے زبان سے مخصوص الفاظ ادا کرنا شرعاً ثابت نہیں ہیں۔
دیکھیے :فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد3/صفحہ/239
✵ہرروزہ کی علیحدہ نیت :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پورے رمضان کے روزوں کے لئے ایک ہی نیت کافی ہے اورہرروزہ کے لئے الگ الگ نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ ہردن ہرروزہ کی الگ الگ نیت کرنی ضروری ہے،دلائل ملاحظہ ہوں:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یَقُول لَا یَصُومُ ِلَّا مَنْ أَجْمَعَ الصِّیَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ(موطأ مالک رقم ٦ واسنادہ صحیح)۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ روزہ صرف وہی رکھے جوفجرسے پہلے اس کی نیت کرلے۔
اماں حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
لَا صِیَامَ لِمَنْ لَمْ یُجْمِعْ قَبْلَ الْفَجْرِ(سنن النسائی رقم ٢٣٣٦واسنادہ صحیح )۔
معلوم ہواکہ ہرروزے کے لئے الگ سے نیت ضروری ہے۔
✵ نیت کا وقت
ہرروزہ کی نیت کا جووقت ہے وہ مغرب بعدسے لیکرفجرتک ہے ،بہتریہ ہے کہ ہرآدمی شام کوسونے سے پہلے اپنے روزے کی نیت کرلے ، لیکن اگرشام کو نیت نہیں کرسکاتو صبح سحری کے وقت بہرحال نیت کرلینی چاہئے اورسحری کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جوشخص شام کی نیت کرنا بھول جاتاہے اسے سحری کے وقت نیت کا موقع مل جاتاہے ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ سحری کی برکت اوراس کے فوائدکا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَتَدَارُکُ نِیَّةِ الصَّوْمِ لِمَنْ أَغْفَلَہَا قَبْلَ أَنْ یَنَامَ (فتح الباری لابن حجر:١٤٠٤تحت الرقم ١٩٢٣)۔
یعنی سحری کی برکت اوراس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جوشخص سونے سے قبل نیت کرنا بھول جاتاہے وہ سحری کے وقت روزہ کی نیت کرلیتاہے۔
الغرض روزے کی نیت کا وقت یہ ہے کہ شام کو سونے سے پہلے نیت کرلی جائے لیکن اگرشام کو نیت نہ ہوسکے توصبح سحری کے وقت فجرسے پہلے ہرحال میں نیت لازمی ہے۔
✵ نیت کا طریقہ
نیت کا مطلب دل سے کسی کام کے کرنے کا عزم وارادہ کرنا ہے،یعنی یہ دل کا کام ہے ، جیساکہ ہم ہرکام کے لئے دل میں پہلے عزم وارادہ کرتے ہیں پھر ہمارے ذریعہ وہ کام عمل میں آتاہے ۔
عزم وارادہ ، یہ کام ''دل '' سے ہوتاہے ،لہٰذا یہ کام زبان سے نہیں ہوسکتا،جس طرح سننا یہ کام '' کان'' کا ہے اب کوئی زبان سے نہیں سن سکتا، سونگھنا یہ کام ''ناک '' کا ہے اب کوئی زبان سے نہیں سن سکتاہے،اسی طرح ارادہ نیت کرنا یہ کام بھی ''دل '' کا ہے زبان سے ارادہ ونیت بے معنی ہے ۔
مزید یہ کہ زبان سے نیت کرنے سے متعلق کوئی موضوع اورمن گھڑت روایت تک نہیں ملتی اورلوگ''نویت بصوم غد من شھر رمضان'' یا اس جیسے جو الفاظ بطورنیت پڑھتے ہیں یہ لوگوں کی اپنی ایجاد ہے کسی صحیح تو درکنا ر ضعیف اورموضوع روایت میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔
دراصل زبان سے چندالفاظ اداکرنے کا نیت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، غورکیجئے کہ جوشخص روزہ کا ارادہ نہ رکھے وہ بھی زبان سے یہ الفاظ ادا کرسکتاہے گرچہ اس کے دل کا ارادہ کچھ اورہی ہو، دریں صورت اس کاکوئی فائدہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک لغوچیزاوربدعت ضلالت ہے۔
خلاصہ کلام:
یہ کہ روزہ داروں کو چاہئے کہ ہرروزہ کی الگ الگ نیت کریں۔
نیت ہررات شام ہی کو کرلیں اگربھول جائیں تو فجرسے قبل لازما نیت کرلیں۔
نیت کامطلب دل میں روزہ رکھنے کا عزم وارادہ ہے۔جس طرح ہرکام کیلئے ہم دل سے عزم وارادہ کرتے ہیں۔
( ابوالفوزان الشیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ)
 ◆ سحری کی اذان اور وقت
«عن عائشة إن بلالا کان یؤذن بلیل، فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم کلوا واشربوا حتی یؤذن ابن امّ مکتوم فانه یوذن حتی یطلع الفجر» البخارى كتاب الصوم
عائشہ کہتی ہیں: حضرت بلال رات کے وقت اذان دیا کرتے تھے۔ پس رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: تم سحری کے وقت کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ مؤذن ابن ام مکتوم اذان دے۔ وہ طلوع فجر سے پہلے اذان نہیں دیا کرتے تھے۔
اس صحیح حدیث (قطعی الثبوت، قطعی الدلالت) سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہیں۔
 (الف) عہدِ نبویﷺ میں دو مؤذن مسجد نبویﷺ میں مقرر تھے؛ ایک بلال۔۔۔ جو سحری کے وقت اذان کہتے تھے، دوسرے ابن ام  مکتوم ۔۔۔۔ جو طلوعِ فجر پر اذان دیا کرتے تھے۔
(ب) فجر سے پہلے سحری کے وقت اذان کہنا مسنون ہے اور یہ بھی کہ یہ تعامل عہدِ نبویؐ میں جاری رہا کیوں کہ لفظ ''کان یؤذن'' ماضی استمراری ہے۔
 (ج) سحری کی اذان کے وقت روزہ رکھنے والے کو کھانا پینا درست ہے جب کہ فجر کی اذان سے کھانا پینا بند ہو جاتا ہے۔
 (د) مسجد میں دو مؤذن (عن ابن عمر قال كان لرسول الله مؤذنان : بلال و ابن أم مكتوم-مسلم 1/125-12منه)مقرر کرنے مسنون ہیں؛ ایک سحری کے وقت اذان دینے والا، دوسرا فجر طلوع ہونے پر اذان دینے والا۔ یہ اس لئے ہے کہ دو مختلف آوازوں سے اذانِ سحری اور فجر کا امتیاز ہو جائے۔
  «عن عبد اللّٰه بن عمر قال سمعت رسول اللّٰه (ﷺ) یقول: إن بلالا یؤذن بلیل فکلوا واشربوا حتی تسمعوا أذان ابن أم مکتوم»مسلم249/1
ابن عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ بلالؓ تورات کے وقت اذان دیتا ہے اس لئے تم کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔
  « عن ابن مسعود عن النبیﷺ قال: إن بلالا یؤذن بلیل لیوقظ نائمکم ولیرجع قائمکم»امام محمد بن الحسن الشیبانی (موطا امام محمد مترجم:138) اور حافظ ابن حزم المحلی 117/2) نے وضاحت کی ہے کہ بلال﷜ سحری کے وقت اذان دیتے تھے ۔ النسائی1075/1
ابن مسعودؓ نے آپﷺ سے روایت کیا ہے کہ بلالؓ رات کو اذان کہتا ہے تاکہ سونے والے کو بیدار کرے اور قیام کرنے والا واپس لوٹ جائے۔
اس حدیث میں اذانِ سحری کا مقصد بیان کیا ہے۔
  «عن عائشۃ قالت: قال رسول اللّٰه ﷺ: إذا أذن بلال فکلوا واشربوا حتی یؤذن ابن أم مکتوم قالت: ولم یکن بینھما إلا ینزل ھذا ویصعد ھذا» النسائى 74/1
عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مؤذن اذان کہہ کر اترتا تھا تو دوسرا اذان کے لئے چڑھ جاتا تھا۔
اِس حدیث میں دو اذانوں کا درمیانہ وقفہ (مبالغۃً) ذکر ہے۔ وقت کے اندازہ سے مقصد یہ ہے کہ نبیﷺ اور ان کے صحابہؓ سحری دیر سے کھاتے تھے۔ یعنی پہلی اذان پر کھانا شروع کرتے جب کہ فوری طور پر دوسری اذانِ فجر ہو جاتی۔
  «عن سمرة بن جندب قال: قال رسول اللّٰه (ﷺ) لا یمنعکم من سحورکم أذان بلال ولا الفجر المستطیل ولکن الفجر المستطیر في الأفق»مسند احمد’ مسلم
رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ تم کو سحری کھانے سے بلال کی اذان اور صبح کاذب جس میں سفیدی بلندی کی طرف اُٹھنے والی ہوتی ہے۔۔۔۔ نہ روکے لیکن وہ صبح۔۔۔۔۔ جس میں سفیدی دائیں بائیں پھیلتی ہے۔۔۔۔ سحری کھانے سے مانع ہے۔
اس حدیث پر امام احمدؒ نے یوں عنوان لکھا ہے۔ باب وقت السحور واستحباب تاخیرہٖ۔ یعنی سحری کا وقت اور اس کو دیر سے کھانے کا استحباب۔ اور موطا میں امام مالکؒ نے ایک باب یوں باندھا ہے۔ قدر السحور من النداء یعنی اذان کے ذریعہ سے سحری کا اندازہ۔
خبیب بن عبد الرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میری پھوپھی۔۔۔۔ نے بیان کیا:۔
  «کان بلال وابن أم مکتوم یؤذنان للنبي (ﷺ) فقال رسول اللہ ﷺ إن بلا لا یؤذن بلیل، فکلوا واشربوا حتی یؤذن ابن أم مکتوم؛ فکنا نحبس ابن أم مکتوم عن الأذان، فنقول کما أنت حتی نتسحر ولم یکن بین أذا نیھما إلا أن ینزل ھذا ویصعد ھذا»مسند ابى داؤد الطيالسى185/1
نبیﷺ نے دو شخص مؤذن مقرر کر رکھے تھے (جواپنے اپنے وقت پر اذان دیا کرتے تھے۔) ایک بلالؓ اور دوسرا ابن ام مکتومؓ۔ نبیؐ نے فرمایا: بلالؓ رات کو (سحری کے وقت) اذان دیتا ہے۔ تم اس وقت تک کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دے۔ ہم ابن ام مکتوم سے کہتے، ٹھہر جا! کہ ہم سحری کھا لیں۔ دونوں اذانوں کے درمیان اتنا تھوڑا وقفہ ہوتا تھا کہ ایک اترتا تو دوسرا چڑھ جاتا۔
مولانا عبد الجلیل صاحب جھنگوی نے اپنے رسالہ اذا ن سحور کے ص ۱۰ میں امام نوویؒ سے نقل کیا ہے کہ:۔
''علما کرام نے اس کی صورت یہ بتائی ہے کہ حضرت بلالؓ فجر سے پہلے سحری کی اذان دے کر ذکر دعا وغیرہ میں مشغول رہتے تھے۔ جب دیکھتے کہ فجر ہونے کے قریب ہے تو اتر آتے اور ابن ام مکتوم کو اطلاع دیتے جو پوہ پھٹنے پر اذان دیتے۔''
پھر مولانا موصوف نے حجۃ اللہ البالغہ / ۱۹۲:۱ سے نقل کیا ہے کہ:
''امام دو مؤذن ایسے مقرر کرے جن کی آواز لوگ پہنچانتے ہوں اور لوگوں کے لئے امام اس کا تفصیلاً اعلان کر دے۔'' (ملخصاً)
  «عن أبی محذورۃ قال: قال رسول اللّٰه (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) أمناء المسلمین علی صلاتھم وسحورھم المؤذنون»السنن الكبرى للبيهقى426/1 ایک اور روایت میں ہے کہ«ألمؤذنون أمناء الله على فطرهم وسحورهم» مجمع الزوائد143/1 اور مشکوۃ میں ہے «عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خصلتان معلقتان في أعناق المؤذنين للمسلين صيامهم وصلوتهم » رواه ابن ماجه وقال القارى سنده صحيح یہ دونوں حدیثیں ۔
رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ مسلمانوں کی نمازوں اور سحریوں پر امین ان کے مؤذن ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اذانِ نماز کی طرح اذانِ سحری کے لئے بھی مؤذن مقرر ہوتا ہے1، جیسا کہ عہدِ نبوی میں تھا اور یہی عمل مسنون ہے۔
عبدالقادر عارف حصاری
◆  روزہ رکھنے کے لیے سحری کھانا سنتِ رسول ہے
سحری سے مراد وہ کھانا ہوتا ہے جو انسان رات کے آخری حصے میں تناول کرتا ہے، اور اسے سحری اس لیے کہا گیا ہے کہ رات کے آخری حصے کو سحر کہتے ہیں اور یہ کھانا اسی وقت میں کھایا جاتا ہے۔
دیکھیں: " لسان العرب " (4/ 351)
سحری کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (سحری کرو؛ کیونکہ سحری میں برکت ہوتی ہے) بخاری: (1923) ، مسلم (1095)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ( سحری تناول کرنا  ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق   ہے) مسلم : (1096)
اور ایک حدیث میں ہے کہ: ( بیشک اللہ تعالی سحری کرنے والوں  پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے  ان کیلیے  رحمت کی دعا کرتے ہیں)احمد : (11086) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے  صحیح قرار دیا ہے جبکہ البانی نے اسے "سلسلہ صحیحہ " (1654) میں حسن کہا ہے۔
ان احادیث میں  سحری سے مراد وہ کھانا ہے جو روزے دار اس وقت میں کھاتا ہے؛ کیونکہ سحری کھانے سے روزہ دار  کو روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے اور سارا دن آسانی سے گزر جاتا ہے؛ نیز سحری تناول کرنا ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کا باعث ہے، اہل علم کی سحری کو بابرکت بنائے جانے سے متعلق گفتگو سے یہی معلوم ہوتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا سحری کے مستحب ہونے پر اجماع ہے اور یہ کہ سحری کرنا واجب نہیں، سحری میں برکت کا معاملہ بھی واضح ہے؛ کیونکہ سحری کرنے سے روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے اور سارا دن جسم توانا رہتا ہے، اور چونکہ سحری کھانے کی وجہ سے روزہ میں مشقت کا احساس کم ہو جاتا ہے ، اس کی بنا پر مزید روزے رکھنے کو بھی دل کرتا ہے، لہذا سحری کے بابرکت ہونے کے متعلق یہی معنی اور مفہوم صحیح ہے" انتہی
" شرح مسلم  " از نووی:  (7/ 206)
اسی طرح مناوی رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (بیشک اللہ تعالی سحری کرنے والوں  پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے  ان کیلیے  رحمت کی دعا کرتے ہیں) کا معنی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"یعنی وہ لوگ جو روزے میں معاونت کی غرض سے سحری تناول کرتے ہیں، کیونکہ روزے کی وجہ سے پیٹ اور شرمگاہ کی شہوت کمزور پڑتی ہے اور یوں  دل  صاف ہوتاہے،   روحانیت کا غلبہ بڑھتا ہے جو کہ اللہ تعالی کے قرب کا موجب بنتی ہے، اسی لیے سحری کرنے کیلیے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے" انتہی
" فيض القدير " (2/ 270)
اور اسی طرح : " الموسوعة الفقهية " (24/ 270) میں ہے کہ:
"روزے دار کیلیے سحری کرنا سنت ہے، ابن منذر نے اس کے مستحب ہونے پر اجماع نقل کیا ہے" انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"روزے دار کیلیے طلوعِ فجر سے پہلے سحری کرنا مستحب ہے؛ کیونکہ سحری کرنے سے روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة " (9/ 26)
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سحری میں برکت ہے؟ یہ برکت کیسے ہے؟ [اس کا جواب یہ ہے کہ] سحری سراپا برکت ہے، سب سے پہلے تو یہ عبادت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ہے، جہنمیوں کی  مخالفت ہے، سحری سے روزہ رکھنے میں معاونت ملتی ہے، انسانی جان کو اس کا حق ملتا ہے کیونکہ انسان نے اس کے بعد کافی دیر تک کھانے پینے سے رکے رہنا ہے، چنانچہ سحری کھانے سے انسان  سارا دن روزہ  -جو کہ اللہ تعالی کی بہت بڑی عبادت ہے -رکھنے کی طاقت حاصل کر لیتا ہے ، بلکہ سحری روزے کا ابتدائی حصہ بھی ہے۔" انتہی
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تَسَحَّرُوۡ وَ لَوۡ بِجُزۡ عَةٍ مِّنۡ مَّاءٍ
سحری کھاؤ اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ سے ہو
(موارد الظمان ،٨٨٤ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سحری کھانے کےلیے بیدار ہونا ضروری ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
فَصۡلُ مَا بَیۡنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ اَھۡلِ الۡکتِابِ اکۡلَةُ السَّحَرِ
ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق سحری کا ہے۔
( مسلم ، کتاب الصیام ،باب فضل السحور وتاکید استحبابہ (١٠٩٦ )
سحری میں اللہ تعالیٰ نے برکت بھی رکھی ہوئی ہے۔جیسا کہ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا
تَسَحَّرُوۡ فَاِنَّ فِیۡ السُّحُوۡرِبَرَکَةُ
سحری کھاؤ اسلیے کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔
(بخاری ،کتاب الصوم ،باب برکة السحور من غیرِ ایجاب ،١٩٢٣ )
حضرت عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے
دَعَانِیۡ رَسُوۡ لُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ اِلَی السُّحُوۡرِ فِیۡ رَمَضَانۡ فَقَالَ ھَلُمَّ اِلَی الۡغَدَاءِ الۡمبَارَکِ
” مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں سحری کھانے کی
 دعوت دی توآپ نے فرمایا صبح کے بابرکت کھانے کی طرف آؤ۔“
(اباداؤد ،کتاب الصیام ،ح٢٣٤٤ ۔نسائی،ح٢١٦٤ ۔مواردالظمان،٨٨٢۔نیل المقصود،٢٣٤٤)
( سیدنا ابو درداء سے اس حدیث کاشاہد حسن سند کےساتھ صحیح ابن حباب میں موجود ہے
مواردالظمان ٨٨١ ،١٨٤/٣ )
سحری کی برکت سے شرعئی اور بدنی برکت مرادہے۔شرعئی برکت تو یہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی فرمانبرداری اور آپؐ کی اقتداء ہے۔اور بدنی برکت سے مراد یہ ہے کہ سحری سے بدن کو غذا ملتی ہے اور روزہ کے لیے تقویت نصیب ہوتی ہے
یہاں ایک بات تذکرہ کردیں کہ اگر سحری میں ایک دو منٹ کی تا خیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سےمروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا
” جب تم میں سے کوئی آذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ
اس برتن کو حاجت پوری کرنے سے پہلے نہ رکھے ۔“
( ابو داؤد ، کتاب الصوم ،ح ٢٣٥٠ ۔مستدرک حاکم ٤٢٦/١
 بیہقی٢١٨/٤ ، دارقطنی،٢١٦٢ باب فی وقت السحر)
◆   سحری دیر سے کھانا  
  عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”  یقینًا ہم نبیوں علیھم السلام کا گروہ ہیں ۔ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنی سحری میں
تاخیرکریں اور افطاری جلدی کریں۔اور اپنی نمازمیں دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھیں “
( مواردالظمان،٨٨٥ ۔ طبرانی کبیر،  ١٩٩/١١ ( ١١٤٨٥ )
اسکی سند صحیح ہے اور اس کے کئی ایک شواہد بھی موجود ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سےمروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا
” جب تم میں سے کوئی آذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ
اس برتن کو حاجت پوری کرنے سے پہلے نہ رکھے ۔“
( ابو داؤد ، کتاب الصوم ،ح ٢٣٥٠ ۔مستدرک حاکم ٤٢٦/١
 بیہقی٢١٨/٤ ، دارقطنی،٢١٦٢ باب فی وقت السحر)
علامہ عبیداللہ مبارکپوریؒ فرماتےہیں
”  اس حدیث میں فجر کی آذان سنتے وقت اس برتن سے کھانے اور پینے کی اباحت معلوم ہوتی ہے
جو اس کے ہاتھ میں ہے۔اور یہ کہ وہ اسے اپنی حاجت پوری کرنے سے پہلے نہ رکھے۔“
(مسند احمد٣٤٨/٣ ) میں جابر ؓ سے اس حدیث کا ایک شاہد بھی ہے۔جسے علامہ ہیثمیؒ نے حسن قراردیاہے۔
(مرعاة المفاتیح ٤٨٠/٦ )
فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشّر احمد ربّانی
آپکے مسائل اورانکا حل(جلد سوم)
احکام و مسائل
فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمة اللہ علیہ
فتاویٰ اسلامیہ / جلد دوم
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
 وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه


Share:

Iftar Ka Waqt Aur Uske Masail~ Iftar Ki Dua, Iftar Ka Sahih Waqt

Roza Iftar Ka Waqt, Iftar Aur Sehri Ki Kuchh Biddaten, Kis Chij Se Roza Ifttar Karen, Iftar Ki Dua, Iftar Ki Dua Ki Haqeeqat

Roza Iftar Ka Waqt, Iftar Aur Sehri Ki Kuchh Biddaten, Kis Chij Se Roza Ifttar Karen, Iftar Ki Dua, Iftar Ki Dua Ki Haqeeqat

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه


Roza Iftar Ka Waqt, Iftar Aur Sehri Ki Kuchh Biddaten, Kis Chij Se Roza Ifttar Karen, Iftar Ki Dua, Iftar Ki Dua Ki Haqeeqat
Iftar Ka Waqt Aur Uske Masail

◆ روزہ افطار کا وقت :
حدیث کےمطابق افطاری کا وقت غروب آفتاب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے
2 : سورة البقرة 187
 اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ َ ﴿۱۸۷﴾
  پھر رات تک روزے کو پورا کرو 
یعنی رات ہوتےہی روزہ افطار کردوتاخیر نہ کرو۔رات(لیل) کی ابتداغروب آفتاب سے ہوتی ہے۔علامہ محمدبن یعقوب فیروز آبادی رقمطراز ہیں”رات غروب شمس سےلےکرفجرصادق کےطلوع ہونےتک یاطلوع شمس تک ہے۔(القاموس المحیط١٤٦٤)
علامہ ابن منظورالافریقی فرماتےہیں”رات کی ابتداءغروب شمس سےہے“(لسان العرب٣٧٨/١٢۔المعجم الاوسط٨٥٠ ) آئمہ لغات کی توضیع سے معلوم ہواکہ لیل کی ابتداء غروب آفتاب سےہوتی ہے۔لہٰذاجوں ہی سورج غروب ہو روزہ افطار کرلیاجائے۔تاخیر نہ کی جائے۔کیونکہ تاخیر سے روزہ افطارکرنا یہودونصاریٰ کا کام ہے۔نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا
” دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتےرہیں گے
    کیونکہ یہودونصاریٰ افطاری کرنےمیں تاخیرکرتےہیں “
(ابو داؤد ،کتاب الصوم ،باب مایستحب من تعجیل الفطر،ح ٢٣٥٣ ۔ ابن ماجہ ، کتاب الصیام ، باب
ما جاء فی تعجیل الافطار، ح ١٦٩٨ ۔ابن خزیمہ ٢٠٦٠ ۔ابن حبان ٨٨٩ ۔حاکم ٤٣١/١ )
اس صحیح حدیث سےمعلوم ہواکہ روزہ دیر سےکھولنا یہودونصاریٰ کا کام ہے۔اورموجودہ دور میں انکے متبعین کاروزہ بھی مسلمانوں سےدس یا پندرہ منٹ بعدکھلتا ہے۔وہ افطاری کے لیے سائرن کا انتظارکرتےرہتے ہیں ،اور سائرن بھی غروب آفتاب کے بعد بجایا جاتا ہے ۔سائرن کے بارےمیں بھی ہم معلومات دینا ضروری سمجھتےہیں کہ عبادات کے لیے سائرن بجانا یہود و نصاری کا عمل ہے ۔اہل اسلام کی عبادات کےساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔بلکہ غروب آفتاب کےساتھ ہی روزہ دار کو روزہ کھول دینا چاہیے ۔
سیدنا سہلؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” جب تک لوگ روزہ افطارکرنےمیں جلدی کرتےرہیں گے بھلائی سےرہیں گے “
(بخاری ،کتاب الصوم ١٩٥٧ ۔مسلم ،کتاب الصیام ١٠٩٨ )
سیدنا سہل بن سعد نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” میری امت ہمیشہ میری سنت پررہےگی جب تک روزے کی افطاری
    کےلیے ستاروں کا انتظار نہیں کرے گی ۔
( موارد الظمان ، ٨٩ )
فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشّراحمدربّانی
احکام ومسائلِ رمضان
◆ افطار و سحر کی کچھ بدعتیں
جب رمضان المبارک، ابن آدم کیلئے اس قدر سود مند ہے توپھر اس کا ازلی دشمن ابلیس کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ ابن آدم اس ماہ سے بہرہ ورہو،لہذا ابلیس ،ابن آدم کو اس ماہ مبارک کی برکات سے محروم کرنے کیلئے، اس طریق سے حملہ آور ہوا کہ ابن آدم مطمئن بھی رہا اور اجروثواب سے محروم بھی ہوگیا۔
مطمئن اس طرح کہ معمولاتِ رمضان ،سحری، افطاری، تراویح، تلاوت وغیرہ کی پابندی کرتا رہا اور محروم یوں کہ ابلیس نے اسے رمضان المبارک ہی کے حوالہ سے مختلف بدعات کاعادی بنادیا۔ جبکہ بدعت ان اعمال میں سرفہرست ہے جو انسان کیلئے اعمالِ صالحہ کے اجروثواب سے محرومی کاباعث ہیں، چنانچہ صحیح مسلم میں اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث ہے:من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد.
یعنی: جس نے ہمارے اس دین میں(کوئی) ایسی چیز شامل کی جو اس میںنہیں ) تو وہ مردود ہے۔
ابلیس نے ابن آدم کو رمضان المبارک کے اجروثواب سے محروم کرنے کیلئے جو بدعات جاری کیں ان میں سے چند ایک کاتذکرہ کرتے ہیں:
1روزانہ سحری کے وقت بذریعہ وضع کردہ الفاظ، روزہ کی نیت کرنا، یعنی :وبصوم غدم نویت من شھر رمضان.
2عوام الناس کو سحری کیلئے بیدار کرنے کیلئے مساجد سے سائرن بجانا اور ڈھو لچیوں کاگلی محلہ میں ڈھول اور بانسری بجانا حالانکہ اس کا نبوی طریقہ اذان تھی۔
3سحری نہ کھانا۔ رات بھرفٹبال، کرکٹ،تاش کھیلتے رہنا، اور مختلف اشیاء کھاتے پینے رہنا اور عین سحری کے وقت سوجانا۔
4افطار میں تاخیر اور سحری میں جلدبازی۔ اس کیلئے باقاعدہ میڈیا پرزور دیاجاتاہے کہ افطار ؍وقت مقررہ سے تین منٹ بعد کرنی چاہئے اور سحری تین منٹ قبل ختم کردینی چاہئے اور اسے احتیاط کا نام دیا جاتاہے۔
5رمضان کے مختلف اوقات میں ادعیہ غیرمسنونہ کا اہتمام کرنا مثلاہر دو رکعت تروایح کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے ،صحیح احادیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں، اسی طرح افطار کے وقت :اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت.دعاپڑھی جاتی ہے جوکہ سنداً ضعیف ہے۔
یہ اور ان جیسے کئی امور ابلیس نے رائج کردیئے تاکہ ان بدعات کا ارتکاب کرکے ابن آدم رمضان المبارک کی خیر وبھلائی سے محروم ہوجائے۔
شیخ ابوعمیر حزب اللہ بلوچ حفظہ اللہ
◆   کس چیزسےروزہ افطارکرناچاہیے   
سیدنا سلمان بن عامرؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” جب تم میں سےکوئی روزہ کھولےتو وہ کھجورسےکھولے کیونکہ اس میں برکت ہے۔
   اگرکھجورنہ پائےتوپانی سےکھولے،اس لیے کہ وہ پاک کرنے والا ہے ۔“
( ترمذی ،کتاب الزکوة ٦٥٨ ۔ابو داؤد کتاب الصیام،باب ما یفطر علیہ ٢٣٥٥
احمد ١٨٬١٧/٤ ۔ابن ماجہ ١٦٩٩ ۔ دارمی ١٧٠٨ ۔ مواردالظمان ٨٩٤ )
سیدنا انسؓ بیان کرتےہیں
” رسول اللہ نماز پڑھنےسےپہلےچندکھجوریں کھا کر روزہ افطار کرتے تھے ۔
   اگرتازہ کھجوریں دستیاب نہ ہوتیں تو خشک کھجوریں کھاکرافطارکرتے ۔
   اگر وہ بھی نہ ملتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے “
(ابوداؤد،کتاب الصیام ٢٣٥٦ ۔ترمذی کتاب الصوم ٢٩٢
دارقطنی ١٨٥/٢١ ۔ مستدرک حاکم ٤٣٢/١ )
مندرجہ بالا صحیح احادیث سےمعلوم ہواکہ کھجور کےساتھ روزہ کھولنابہتر ہےاور اگر کھجور میسرنہ ہوتو پانی سے افطار کرلیں۔روزے کی وجہ سے جسم میں نقاہت وکمزوری محسوس ہوتی ہے ۔کھجور سے جسم کو تقویت ملتی ہے ۔کیونکہ کھجور نہایت
مفید اور مقوی غذا ہے ۔
فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشّر احمد ربّانی
احکام و مسائلِ رمضان
◆  افطار میں اسراف  
افطاری کے کھانوں کی تیاری میں اسراف سے روزے کے ثواب پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔یہاں تک کہ روزہ ختم ہو جانے کے بعد اگر انسان کوئی حرام کام کا ارتکاب کرتا ہے تو اس سے روزے کے ثواب میں کمی نہیں ہوتی ۔ہاں البتہ افطاری میں اسراف درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں داخل ہے۔
  وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا  تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا  یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ 
 اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو ۔  بیشک اللہ تعالٰی
 حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا  ۔ ﴿الاعراف ٪ ۳۱﴾
لہٰذا اسراف بجائے خود ممنوع ہے۔جبکہ کھانے پینے میں اعتدال اختیار کرنا تو نصف معیشت ہے۔اگر کسی کےپاس رزق کی فراوانی ہو تو اسے چاہیے کہ اسراف کے بجائے صدقہ کردے کیونکہ یہ ایک افضل عمل ہے۔
فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ
فتاوی اسلامیہ
جلد ۔دوم
◆ افطار کی مروجہ دعا کی تحقیق :
معاذ بن زہرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب افطار کرتے تھے تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے ھے:
اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.
” اے اللہ! تیرے ہی لیے میں نے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے سے افطار کیا۔“
(سنن أبي داود کتاب الصیام باب القول عند الإفطار: ۲۳۵۸)
ضعیف: یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ؛
۱: اس کا راوی معاذ بن زہرہ مجہول ہے۔
۲: نیز سند مرسل (ضعیف)ہے۔ کیونکہ تابعی (معاذ بن زہرہ رحمہ اللہ) ڈائریکٹ نبیٔ اکرم ﷺ سے روایت کررہے ہیں۔
تنبیہ: روزہ افطار کرتے وقت کی دعا: ”اللَّهُمَّ اِنِّى لَكَ صُمْتُ وَبِكَ امنْتُ [وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ] وَعَلَى رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ“ جو عوا م میں بہت مشہور ہے اور جو تقریباً ہر ٹی وی چینل پر افطار کے وقت چلائی جاتی ہے۔
اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے، یعنی یہ روایت احادیث کی کتب میں نہیں ملتی۔
روزہ افطار کرتے وقت کی صحیح دعا کی موجودگی میں اس من گھڑت دعا کو پڑھنے کا اہتمام بالکل بھی نہ کریں۔
◆ روزہ افطار کرنے کی صحیح دعا
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، جب نبی ﷺ روزہ افطار کرتے تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
”پیاس جاتی رہی، رگیں تر ہوگئیں اور ثواب لازم و ثابت ہوگیا، اگر اللہ نے چاہا۔“
(سنن أبی داود: کتاب الصیام باب القول عند الإفطار: ۲۳۵۷ وسندہ حسن
❓ یہ دعا " ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ " بسم اللہ پڑھ کر کھجور کھانے سے پہلے پڑھنی ہے یا پانی پی کر بعد میں، کیونکہ افطار کی دعا تو پہلے پڑھنی چاہئے، لیکن اس دعا کا عربی متن دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس دعا کو پانی پینے کے بعد پڑھنا چاہئے، اس کے متعلق بتائیں۔
روزہ صرف بسم اللہ سے کھولا جائے گا
افطار سے قبل حسب موقع دعائیں شوق و اہتمام سے کیا جائے
پھر بسم اللہ پڑھ کر افطار کریں ،اور افطار کرنے کے بعد کھانا کھانے کی دعاء
« الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا الطَّعَامَ، وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ »
اور یہ دعاء پڑھ لیں :
« ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ »
اکثر لوگوں کو یہ سوال پریشان کرتا ہے کہ دعا " ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ " بسم اللہ پڑھ کر کھجور یا دیگر افطار کے لوازمات کھانے سے پہلے پڑھنی ہے یا بعد میں ؟
کیونکہ افطار کی دعا تو پہلے پڑھنی چاہئے، لیکن اس دعا کا عربی متن دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس دعا کو پانی پینے کے بعد پڑھنا چاہئے۔ 👇👇👇
 اس سوال کا جواب علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ دیتے ہیں :
السؤال
فضيلة الشيخ: للصائم دعوة مستجابة عند فطره، فمتى يكون محل هذه الدعوة: قبل الفطر أم في أثناءه أم بعده؟ وهل من دعوات وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أو من دعاء تشيرون به في مثل هذا الوقت؟
سوال :
شیخ محترم : افطار کے وقت روزہ دار کی دعاء قبول ہوتی ہے ، آپ یہ بتائیں کہ یہ دعاء کس وقت کی جائے ،کیا روزہ افطار کرنے سے پہلے یا افطار کرنے کے بعد ؟
اور ایسے مواقع کیلئے نبی کریم ﷺ سے کوئی مخصوص دعائیں منقول ہیں ، یا آپ نشاندہی فرماسکتے ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب
الدعاء يكون قبل الإفطار عند الغروب؛ لأنه يجتمع في حقه انكسار النفس والذل لله عز وجل وأنه صائم وكل هذه من أسباب الإجابة، أما بعد الفطر فإن النفس قد استراحت وفرحت، وربما يحصل غفلة، لكن ورد ذكر إن صح عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم فإنه يكون بعد الإفطار: (ذهب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله) هذا لا يكون إلا بعد الفطر، ‘‘
جواب :
روزہ دار کیلئے قبول ہونے والی دعاء کا وقت افطار سے قبل غروب آفتاب کے وقت ہے ، کیونکہ اس وقت روزہ دار کیلئے انکسار نفس ،اور اللہ کے حضور تواضح ،جمع ہوجاتی ہیں ، اور وہ روزے کی حالت میں ہوتا ہے (اور یہ امور قبولیت دعاء کیلئے بہت مؤثر ہیں )
اور افطار کے بعد تو راحت وفرحت حاصل ہوتی ہے ، اور کبھی کبھی غفلت بھی طاری ہوجاتی ہے ،
لیکن :۔ وہ دعاء جو نبی مکرم ﷺ سے افطار کے وقت منقول ہے : (ذهب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله)
تو یہ دعاء افطار کے بعد پڑھی جائے گی ‘‘
’’ اللقاء الشهري ‘‘ 8/ 25
المؤلف : محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى : 1421هـ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ ( مرعاۃ المفاتیح ) میں لکھتے ہیں :
قوله: (إذا أفطر) من صومه (قال) أي بعد الإفطار (ذهب الظمأ) بفتحتين فهمز أي العطش أو شدته
یعنی یہ دعاء افطار کے بعد پڑھی جائے گی ‘‘
شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں
عمر رضي اللہ تعالی فرماتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے :
( ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله ) پیاس تی رہی ، اوررگیں تر ہوگئيں ، اوران شاء اللہ اجرثابت ہوگيا ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2357 )
سنن الدار قطنی حدیث نمبر ( 25 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے التلخيص الحبیر ( 2 / 202 ) میں کہا ہے کہ دارقطنی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
لیکن وہ دعا جو اس وقت لوگوں میں عام ہے اورافطاری کے وقت مندرجہ ذيل دعا پڑھی جاتی ہے وہ صحیح نہیں وہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے : یعنی 👇
( اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت ) اے اللہ میں نے تیرے لیے ہی روزہ رکھا اورتیرے رزق پر ہی افطار کیا ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2358 )
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ضعیف سنن ابو داود ( 510 ) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
لھذا اس دعا کے بدلے میں دوسری دعا جواس سے پہلے بیان کی گئی ہے وہ پڑھی جائے گی کیونکہ وہ صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے ۔
اورعبادات بجالانے کےبعد دعا کرنا شریعت اسلامیہ میں اصل چيز ہے مثلا فرض نمازوں کےبعد دعا کرنا ، اوراسی طرح مناسک حج وعمرہ ادا کرنے کے بعد دعا اسی طرح روزہ بھی ان شاء اللہ دعا سے باہر نہیں رہتا ، بلکہ اللہ تعالی نے روزں کا ذکر کرتےہوئے درمیان میں ہی دعا کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے میں اس کی پکار قبول کرتا ہوں ، اس لیے لوگوں کو بھی چاہۓ کہ وہ میری بات مان لیا کریں ، اورمجھ پر ایمان رکھیں ، یہی ان کی بھلائي کا باعث ہے } البقرۃ ( 186 ) ۔
اس آیت میں اس ماہ مبارک میں دعا کرنے کی اہمیت واضح ہورہی ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتےہیں :
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے قریب ہے اوردعا کرنے والے کی دعا کوسنتا ہے وہ جب بھی پکارے اللہ تعالی اسے قبول کرتا ہے ، اس میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو ربوبیت کی خبردے رہا ہے اورانہيں اس کا سوال اوران کی دعا کی قبولیت کا شرف بخش رہا ہے کیونکہ جب بندے اپنے رب سے دعا کرتے ہيں تو وہ اس کی ربوبیت پر ایمان لا کرایسا کرتے ہیں ۔۔۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ فرمایا کہ :
{ اس لیے انہیں بھی چاہۓ کہ وہ بھی میری بات تسلیم کریں اورمجھ پر ایمان لائيں تا کہ وہ راہ راست پر آجائيں } البقرۃ ( 186 ) ۔
توپہلی بات یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے عبادت واستعانت میں جس چيز کا حکم دیا ہے وہ اس میں اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس کی بات تسلیم کریں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ : اللہ تعالی کی ربوبیت اوراس کی الوھیت پر ایمان ، اوریہ ایمان رکھنا کہ وہ ان کا رب ہے الہ ہے ، اوراسی لیے کہا جاتا ہے کہ : دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب اعتقاد صحیح ہو اوراطاعت بھی مکمل پائي جاتی ہو ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے دعا کی آيت کے آخر میں اسے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے :
{ لھذا انہيں چاہۓ کہ وہ میری بات تسلیم کریں اورمجھ پر ایمان لائيں }
 دیکھیں مجموع الفتاوی ( 14 / 33 ) ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
 وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه


Share:

Musaafir Ke Roze Ke Ahkaam Aur Masail

Roza Aur Musafir, Safar Ki Aasani Me Roza Rakhna Afzal Hai, Musafir Ke Roze Ke Ahkaam 

Roza Aur Musafir, Safar Ki Aasani Me Roza Rakhna Afzal Hai, Musafir Ke Roze Ke Ahkaam 



بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Roza Aur Musafir, Safar Ki Aasani Me Roza Rakhna Afzal Hai, Musafir Ke Roze Ke Ahkaam
Musaafir Ke Roze Ke Ahkaam Aur Masail

◆ مسافر اور روزہ
جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے اس میں مسافر کے لیے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے، خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ اور خواہ سفر میں ایسی تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی ہو، خواہ سفر میں بھول پیاس لگتی ہو یا نہ لگتی ہو۔ کیونکہ شریعت نے اس سفر میں نماز قصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلقا اجازت دی ہے اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔ حضرات صحابہ کرام نے رمضان میں جہاد کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ سفر کیا تو بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ اور اس کے بارے میں کسی ایک نے بھی دوسرے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ ہاں البتہ اگر گرمی کی شدت، راستہ کی دشواری، دوری اور مسلسل سفر کی وجہ سے روزہ میں تکلیف ہو تو پھر مسافر کے لیے تاکید کے ساتھ حکم یہ ہے کہ وہ سفر میں روزہ نہ رکھے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ہم میں سے بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا، روزہ نہ رکھنے والے ہشاش بشاش تھے اور انہوں نے کام کیا جب کہ روزہ رکھنے والے کمزور ہو گئے تھے اور وہ بعض کام نہ کر سکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ذهب المفطرون اليوم بالاجر) (صحيح البخاري‘ الجهاد‘ باب فضل الخدمة في الغزو‘ ح: 2890 وصحيح مسلم‘ الصيام‘ باب اجر المفطر في السفر...الخ‘ ح: 1119)
"آج تو روزہ نہ رکھنے والوں نے اجروثواب حاصل کر لیا۔"
کبھی کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے یہ واجب بھی ہو جاتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کیا اور جب ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(انكم قد ذنوبكم من عدوكم‘ والفطر اقوي لكم)
"تم اپنے دشمن کے بہت قریب ہو گئے ہو اور روزہ چھوڑ دینا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا۔"
یہ ایک رخصت تھی اس لیے ہم میں سے کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہ رکھا، پھر ہم نے جب ایک دوسری منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا:
(انكم مصبحو عدوكم‘ والفطر اقوي لكم‘ فافطروا) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب اجر المفطر في السفر اذا تولي العمل‘ ح: 1120)
"تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی ہے، روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا، لہذا روزہ چھوڑ دو۔"
چونکہ آپ کی طرف سے یہ ایک تاکیدی حکم تھا اس لیے ہم سب نے روزہ چھوڑ دیا، راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزے رکھے بھی تھے۔
اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک آدمی کو دیکھا جس پر لوگ جمع ہوئے تھے اور اس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک روزے دار ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ليس من البر ان تصوموا في السفر)
صحيح مسلم‘ باب جواز الصوم والفطر في شهر رمضان...الخ‘ ح: 1115)
"یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم سفر میں روزہ رکھو۔"
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/ جلد : ٢
◆ اگر سفر میں مشقت زیادہ ہو تو روزہ نہ رکھنا افضل ہے
ایسی مشقت جو ناقابل برداشت ہو، اس کے ساتھ روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو دیکھا تھا، جس پر سایہ کیا گیا تھا اور جس کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ایک روزہ دار ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
«لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ» صحيح البخاری، الصوم، باب قول النبی لمن ظلل عليه واشتد الحر: ’’ليس من البر الصيام فی السفر‘‘ ح: ۱۹۴۶ وصحيح مسلم، الصيام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافرين من غير معصية، ح: ۱۱۱۵)
’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔‘‘
اور اگر روزہ رکھنے میں شدید مشقت ہو تو پھر واجب یہ ہے کہ روزہ نہ رکھا جائے کیونکہ ایک سفر میں جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں عرض کیا کہ روزہ ان کے لیے بہت مشکل ہوگیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے روزہ افطار کر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا گیا کہ بعض لوگوں نے ابھی تک روزہ رکھا ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
«اُولٰئِکَ الْعُصَاةُ اُولٰئِکَ الْعُصَاةُ» صحيح مسلم، الصيام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافر من غير معصية، ح: ۱۱۱۴۔
’’یہ لوگ نافرمان ہیں، یہ لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
جن لوگوں کے لیے روزہ رکھنا مشکل نہ ہو، ان کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا میں روزہ رکھیں کیونکہ آپ روزہ رکھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابوالدردائ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے:
«کْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ فِی حَرِّ شَدِيْدٍ- وَمَا مْنَا صَائِمٌ اِلاَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَعَبْدُاللّٰهِ بْنُ رَوَاحَةَ» صحيح البخاری، الصوم، باب بعد باب: اذا صام اياما من رمضان ثم سافر، ح: ۱۹۴۵ وصحيح مسلم، الصيام، باب التخيير فی الصوم والفطر فی السفر، ح: ۱۱۲۲ واللفظ له۔
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ماہ رمضان میں سخت گرمی کے موسم میں نکلے‘‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ  کے سوا اور کوئی روزہ دار نہ تھا۔‘‘
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ374
◆ اگر سفر میں آسانی اور سہولت ہو توروزہ رکھنا افضل ہے
مسافر روزہ رکھ سکتا ہے اور چھوڑ بھی سکتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ...﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
’’اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (روزہ رکھ کر) ان کا شمار پورا کر لے۔‘‘
حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سفر کرتے تو ان میں سے بعض روزہ رکھ لیتے اور بعض روزہ نہ رکھتے لیکن ان میں سے کوئی کسی پر عیب نہ لگاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سفر میں روزہ رکھ لیا کرتے تھے۔ حضرت ابوالدردائ رضی اللہ عنہ  نے بیان کیا ہے:
«سافرنا مَعَ النبی فِی شَهْرِ رَمَضَانَ فِی حَرِّ شَدِيْدٍ-  وَمَا منَا صَائِمٌ اِلاَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَعَبْدُاللّٰهِ بْنُ رَوَاحَةَ» صحيح البخاری، الصوم، باب بعد باب: اذا صام اياما من رمضان ثم سافر، ح: ۱۹۴۵ وصحيح مسلم، الصيام، باب التخيير فی الصوم والفطر فی السفر، ح: ۱۱۲۲ واللفظ له۔
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ماہ رمضان میں سخت گرمی کے موسم میں نکلے‘‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ  کے سوا اور کوئی روزہ دار نہ تھا۔‘‘
مسافر کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ اسے روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے بارے میں اختیار ہے اگر روزہ رکھنے میں مشقت نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا افضل ہے کیونکہ اس میں درج ذیل تین فوائد ہیں:
(۱)       اس میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا ہے۔
(۲)       اس میں سہولت ہے کیونکہ انسان جب دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر روزہ رکھے تو اس میں آسانی ہوتی ہے۔
(۳)      اس سے انسان جلد بریٔ الذمہ ہو جاتا ہے اور اگر روزہ رکھنے میں دشواری ہو تو نہ رکھے کیونکہ اس حالت میں سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب ایک شخص کو دیکھا کہ اس پر سایہ کیا گیا ہے اور لوگوں کا اس پر ہجوم ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ صحابہ نے بتایا کہ ایک روزہ دار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
«لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ» صحيح البخاری، الصوم باب قوم النبی لمن ظل عليه واشتد الحر: ’’ليس من البر الصيام فی السفر‘‘ ح: ۱۹۴۶ وصحيح مسلم، الصيام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافرين من غير معصية، ح: ۱۱۱۵۔
’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔‘‘
اس عموم کو ایسے شخص پر محمول کیا جائے گا جسے روزہ رکھنا بہت گراں محسوس ہوتا ہو، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ عصر حاضر میں سفر آسان ہے، جیسا کہ سائل نے کہا اور اکثر و بیشتر صورتوں میں روزہ گراں محسوس نہیں ہوتا، لہٰذا افضل یہ ہے کہ روزہ رکھ لیا جائے۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ377
◆ مسافر کے روزے کے احکام
 فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ فرماتے ہیں
آئمہ اربعہ اورجمہور صحابہ کرام اورتابعین کا مسلک ہے کہ سفر میں روزہ جائزاورصحیح ہے اوراگر مسافر روزہ رکھ لے تو وہ ادا ہوجائے گا ۔ دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 73 ) ۔
لیکن افضلیت میں تفصیل ہے :
 پہلی حالت :
جب سفرمیں روزہ رکھنا اورچھوڑنا برابر ہو ، یعنی مسافر پر روزہ اثر انداز نہ ہو تواس حالت میں مندرجہ ذيل دلائل کے اعتبار سے روزہ رکھنا افضل ہوگا :
 ا – ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم رمضان کے مہینہ میں سخت گرمی کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ سفر پر نکلے اورگرمی کی وجہ سے اپنے ہاتھ سر پر رکھتے تھے ، اورہم میں نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم اورعبداللہ بن رواحہ کے علاوہ کسی اورشخص کا روزہ نہیں تھا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 18945 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1122 ) ۔
 ب - نبی صلی اللہ علیہ وسلم بری الذمہ ہونے میں جلدی کرتے تھے ، کیونکہ قضاء میں تاخیر ہوتی ہے ، اوررمضان کے روزوں کی ادائيگی کو مقدم کرنا چاہیے ۔
 ج - مکلف کے لیے اغلب طور پر یہ زيادہ آسان ہے ، اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ ہی روزہ رکھنا اورافطار کرنا دوبارہ نئے سرے سے روزے شروع کرنے سے زيادہ آسان ہے ۔
 د - اس سے فضیلت کا وقت پایا جاسکتا ہے ، کیونکہ رمضان باقی مہینوں سے افضل ہے اورپھریہ وجوب کا محل بھی ہے ۔
ان دلائل کی وجہ سے امام شافعی کاقول راجح ہوتا ہے کہ جس مسافر کے لیے روزہ رکھنا اورافطار کرنا برابر ہوں اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے ۔
 دوسری حالت :
روزہ چھوڑنے میں آسانی ہو ، تویہاں ہم یہ کہيں گے کہ اس کے لیے روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے ، اورجب اسے سفرمیں روزہ رکھنا کچھ مشقت دے تواس کا روزہ رکھنا مکروہ ہوگا ، کیونکہ رخصت کےہوتے ہوئے مشقت کا ارتکاب کرنا صحیح نہيں اوریہ اللہ تعالی کی رخصت قبول کرنے سے انکار ہے ۔
 تیسری حالت :
اسے روزہ کی بنا پرشدید مشقت کا سامنا کرنا پڑے جسے برداشت کرنا مشکل ہو توایسی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہوگا ۔
اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث میں پائی جاتی ہے :
امام مسلم نے جابر رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام الفتح میں مکہ کی طرف رمضان المبارک کے مہینہ میں نکلے اورروزہ رکھا جب کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے ، تولوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اوراوپر اٹھایا حتی کہ لوگوں نے دیکھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا ، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ بعض لوگوں نے ابھی تک روزہ رکھا ہوا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : یہی نافرمان ہیں یہی نافرمان ہیں ۔
اورایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزے کی وجہ سے مشقت ہو رہی ہے اوروہ اس انتظار میں ہيں کہ آپ کیا کرتے ہيں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1114 ) ۔
لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقت کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کو نافرمان قرار دیا ۔
دیکھیں الشرح الممتع للشیخ محمدابن عثیمین رحمہ اللہ ( 6 / 355 ) ۔
امام نووی اورکمال بن ھمام رحمہم اللہ تعالی کہتے ہیں :
سفرمیں روزہ نہ رکھنے کی افضلیت والی احادیث ضرر پر محمول ہیں کہ جسے روزہ رکھنے سے ضررپہنچے اس کے حق میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے ، اوربعض احادیث میں تو اس کی صراحت بھی موجود ہے ۔
احادیث میں جمع اور تطبیق دینے کے لیے یہ تاویل کرنا ضروری ہے کیونکہ کسی ایک حدیث کے اھمال یا بغیرکسی قطعی دلیل کے منسوخ کے دعوی سے یہ زيادہ بہتر ہے ۔
اورجن لوگوں نے سفرمیں روزہ رکھنا اورنہ رکھنا دونوں کو برابر قرار دیا ہے وہ مندرجہ ذيل حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے استدلال کرتے ہيں :
حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ أخبرنا مالك،‏‏‏‏ عن هشام بن عروة،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن حمزة بن عمرو الأسلمي قال للنبي صلى الله عليه وسلم أأصوم في السفر وكان كثير الصيام‏.‏ فقال ‏"‏ إن شئت فصم،‏‏‏‏ وإن شئت فأفطر
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ حمزہ بن عمرو الاسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں سفرمیں روزہ رکھ لوں ( کیونکہ وہ بہت زيادہ روزے رکھا کرتے تھے ) ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں جواب میں ارشاد فرمایا :
اگرچاہو تو روزہ رکھ لو ، اوراگر چاہوتو نہ رکھو ۔ متفق علیہ ۔ .
فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشر احمدربانی احکام و مسائل میں فرماتے ہیں ۔
 سفر خواہ ہوائی جہاز کا ہو یا گاڑی کا ،ایسے شخص کےلیے روزہ ترک کرنا جائز ہے۔کیونکہ روزہ ترک کرنےکی وجہ سفر کی مشقت نہیں ہے بلکہ سفرہے۔سفر خواہ با مشقت ہو یا سہولت والا ہو،روزہ ترک کرنا اسکے لیے جائزہے۔قرآن وحدیث کے عمومی دلائل اس پر موجود ہیں۔چنانچہ سورة البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ  ﴿۱۸۴﴾
 گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا
سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے 
اس آیت کریمہ میں سفرکی وجہ سے روزہ ترک کرنے کا جواز ملتا ہے۔اس میں مشقت کا ذکر نہیں ہے۔نیز ایک صحیح حدیث میں ہے کہ محمد بن کعبؓ فرماتے ہیں
حدثنا علي بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ عن أبي إسحاق الشيباني،‏‏‏‏ سمع ابن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فقال لرجل ‏"‏ انزل فاجدح لي ‏"‏‏.‏ قال يا رسول الله الشمس‏.‏ قال ‏"‏ انزل فاجدح لي ‏"‏‏.‏ قال يا رسول الله الشمس‏.‏ قال ‏"‏ انزل فاجدح لي ‏"‏‏.‏ فنزل،‏‏‏‏ فجدح له،‏‏‏‏ فشرب،‏‏‏‏ ثم رمى بيده ها هنا،‏‏‏‏ ثم قال ‏"‏ إذا رأيتم الليل أقبل من ها هنا فقد أفطر الصائم ‏"‏‏.‏ تابعه جرير وأبو بكر بن عياش عن الشيباني عن ابن أبي أوفى قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے (روزہ کی حالت میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابھی تو سورج باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول لے، اب کی مرتبہ بھی انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابھی سورج باقی ہے لیکن آپ کا حکم اب بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا جب تم دیکھو کہ رات یہاں سے شروع ہو چکی ہے تو روزہ دار کو افطار کر لینا چاہئے۔ اس کی متابعت جریر اور ابوبکر بن عیاش نے شیبانی کے واسطہ سے کی ہے اور ان سے ابواوفی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا۔
صحیح البخاری /کتاب الصیام /حدیث نمبر: 1941
(ترمذی ، کتاب الصوم ،باب ما جاء فیمن اکل ثم خرج برید سفرا ،٨٠٠٬٧٩٩۔بیہقی٢٤٨/٤)
اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذیؒ نے صحیح قراردیاہے اور علامہ ناصرالدین البانیؒ نے بھی اسے صحیح الترمذی(٧٩٩) میں ذکر کیا ہے۔انس بن مالکؓ اپنے گھر میں کوچ کرنے سے قبل ہی روزہ نہیں رکھ رہے۔حالانکہ انہیں ابھی کوئی مشقت بھی نہیں پہنچی
اور اس عمل کو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کررہے ہیں۔
امام ترمذیؒ یہ حدیث درج کرنے کے بعد رقمطرازہیں کہ اکثراہل علم نے اس حدیث کو دلیل بنا کریہ فرمایا ہےکہ مسافر کے لیے درست ہےکہ وہ گھر سے نکلنے سے پہلےہی روزہ افطار کرے ، مگر نماز اپنےشہر یا بستی سے نکلنے سے قبل قصر نہیں کرسکتا
یہی مذہب اسحاق بن ابراہیم الحنظلی یعنی اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔
عبید بن جبیرؒ فرماتے ہیں !
”  میں صحابی رسول ابو بصرہ غفاریؓ کے ساتھ ماہ رمضان میں کشتی میں سوار تھا
    کہ انہوں نے کشتی روکی پھر انکے لیے کھانا لایا  گیا ۔حالانکہ ابھی ہم  گھروں
   سےزیادہ دورنہیں گئے تھے۔ابوبصرہ غفاریؓ نےدسترخوان منگواکرکہا”قریب
   آ جاؤ “ میں نے کہا آپ گھروں کو نہیں دیکھ  رہے (یعنی ہم ابھی زیادہ  دور
   نہیں آئے ) ؟ تو ابو بصرہ ؓ نے جواب دیا ” کیا تورسول اللہ کی سنت سے بے
   رغبتی کرتا ہے؟ پھر انہوں نے کھانا کھا لیا ۔
( مسند احمد ، ٤٨٨/١٨ ۔ بیہقی ، ٢٤٦/٤ )
ابو بصرہ غفاریؓ نےکشتی میں سوار ہوتے ہی روزہ افطار کرلیا اور سفر کی مشقت کا بھی انتظار نہیں کیا ۔ پس ان دلائل سے ثابت ہوا کہ سفر میں مشقت و تکلیف کا کوئی اعتبار نہیں اور شارع نے سفر میں افطار کرنے کا یہ وصف بیان نہیں کیا۔نیز صحابہ اکرامؓ سفر کرتے تو ان میں سے بعض کا روزہ ہوتا اور بعض روزہ نہیں رکھتے تھے۔لیکن کوئی بھی ایکدوسرے پر نکتہ چینی نہیں کرتا تھا ،کیونکہ سفر میں روزہ سے رخصت ہے ۔اب جس نے روزہ رکھ لیا اس نے بھی درست کام کیا ، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ رخصت قبول کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو پسند فرماتا ہے۔جس طرح کے وہ دیگر عطا کردہ امور پر عمل کو پسند فرماتا ہے ۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی کا فتوی ہے کہ 👇👇👇
مسافر کے لئے رمضان میں روزہ نہ رکھنا اور چار رکعت والی نمازوں میں قصر کرنا جائز ہے، اور روزہ رکھنے یا پوری نماز پڑھنے کی بہ نسبت یہی افضل بھی ہے، اور اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت یہ حدیث ہے:
بےشک اللہ جس طرح عزیمت پر عمل کو پسند کرتا ہے،
مسند أحمد بن حنبل (2/108).
اسی طرح رخصت پر عمل کو بھی پسند کرتا ہے۔ اور اس لئے بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں۔
مسند أحمد 3 / 299، 317، 319، 352، 399، 5 / 434،
صحیح بخاري 2 / 238،
صحیح مسلم 2 / 786 حدیث نمبر (1115)،
سنن أبو داود 2 / 796 حدیث نمبر (2407)،
سنن نسائي 4 / 175، 177 حدیث نمبر (2255- 2258، 2260- 2262)،
سنن ابن ماجہ 1 / 532 حدیث نمبر (1664، 1665)،
سنن دارمي 2 / 9،
مصنف ابن أبوشيبہ 3 / 14،
صحیح ابن حبان 2 / 70- 71، 8 / 317، 320، 321- 322، 322 حدیث نمبر (355، 3548، 3552، 3553، 3554)،
منتقی بن جارود ،
(غوث المكدود.) 2 / 46 حدیث نمبر (399)،
سنن بیہقی 4 / 242، 243. سفر میں
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
 وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه



Share:

Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat

Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat, Pregnet Aurat Ka Roza, Kya Pregnet Aurat Roza Rakh Sakti Hai, Kya Doodh Pilane Wali Aurat Roza Rakh Sakti Hai, Roza Aur Aurton Ke Masail


 Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat, Pregnet Aurat Ka Roza, Kya Pregnet Aurat Roza Rakh Sakti Hai, Kya Doodh Pilane Wali Aurat Roza Rakh Sakti Hai, Roza Aur Aurton Ke Masail

 بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه :
Ramzan Ka Byan, Ramzan Ke Masail, Ramzan Me Periods, Ramzan Me Ehtalam, Ramzan Aur Aurton Ke Masail, Pregnet Aurat Roza Rahegi Ya Nahi, Ramzan Urdu  Sawal Jawab, Roman Islamic Urdu Post
 Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat

◆  حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے روزہ کے احکامات :
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَغَدَّى، فَقَالَ: " ادْنُ فَكُلْ "، قُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: " اجْلِسْ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّوْمِ، أَوِ الصِّيَامِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ شَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْمُسَافِرِ، وَالْحَامِلِ، وَالْمُرْضِعِ الصَّوْمَ، أَوِ الصِّيَامَ "، وَاللَّهِ لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلْتَاهُمَا، أَوْ إِحْدَاهُمَا، فَيَا لَهْفَ نَفْسِي، فَهَلَّا كُنْتُ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی عبدالاشہل کے اور علی بن محمد کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عبداللہ بن کعب کے ایک شخص نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ دوپہر کا کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب آ جاؤ اور کھاؤ“ میں نے کہا: میں روزے سے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھو میں تمہیں روزے کے سلسلے میں بتاتا ہوں“ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے، اور مسافر، حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی) سے روزہ معاف کر دیا ہے، قسم اللہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں باتیں فرمائیں، یا ایک بات فرمائی، اب میں اپنے اوپر افسوس کرتا ہوں کہ میں نے آپ کے کھانے میں سے کیوں نہیں کھایا ۔
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابی داود/الصوم ۴۳ (۲۴۰۸)،
سنن الترمذی/الصوم ۲۱ (۷۱۵)،
سنن النسائی/الصوم ۲۸ (۲۲۷۶)، ۳۴ (۱۳۱۷)،
(تحفة الأشراف: ۱۷۳۲)، وقد أخرجہ:
مسند احمد (۴/۳۴۷، ۵/۲۹) (حسن صحیح)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
 وضاحت: : اگر حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے روزہ رکھنے سے پیٹ کے بچہ کو یا دودھ پینے والے بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں، اور بعد میں ان کی قضا کریں۔
✵ اس بارے میں فتوی کمیٹی کا کہنا ہے :
 سب سے صحیح رائے کے مطابق حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون کا حکم بیمار عورت کی طرح ہوگا اور اسے روزہ نہ رکھنےکی اجازت ہے اسے صرف بعد میں روزوں کی گنتی پوری کرنی ہوگی اگر وہ خود کی یا بچےکی صحت کا خوف محسوس کرے ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ و سلّم نے فرمایا : "الله نے مسافر کو روزہ موخر کرنے اور نصف نماز ادا کرنیکی رخصت دی ہے جبکہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون کو روزہ موخر کرنیکی رخصت دی ہے"- (ترمذ ی ، ٣/٨٥ ، اسے امام ترمذی نے حسن کہا ہیں-)
اگر حاملہ خاتون کو روزہ رکھنے کے بعد خون آئے تب بھی اسکا روزہ صحیح ہوگا اور اسے اسکے روزے پر کچھ بھی اثر نہیں ہوگا- (فتاوى اللجنة الدائمة ، ١٠/٢٢٥
اب اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دو سالوں کے روزے اکٹھے کسی وقت قضا کر لے۔
۔|
فتوی کمیٹی
 ✵ فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ کہتے ہیں :
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی عذر کے بغیررمضان کے روزے چھوڑیں ۔اور اگر کسی عذر کی وجہ سے انہیں رمضان کے روزے چھوڑنا پڑیں توان دنوں کی قضا لازم ہوگی جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ َ ﴿۱۸۴﴾(البقرہ )
پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے
اور یہ دونوں قسم کی عورتیں مریض کے حکم میں ہیں اور اگر ان کا عذر یہ ہو کہ وہ روزے کی وجہ سے بچے کی صحت کے بارے میں خائف ہوں تو پھر قضا کے ساتھ ساتھ ان پر فدیہ بھی لازم ہوگا۔فدیہ یہ ہے کہ ہرروز ایک مسکین کو گندم یا چاول ،کھجور یا جولوگوں کی خوراک ہو سو وہ دی جائے۔لیکن بعض علماء کے بقول حاملہ اور مرضعہ پرہرحال میں صرف قضا ہی لازم ہے۔کیونکہ وجوبِ فدیہ کی کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں ہے۔اوراصول یہ ہے کہ جب تک وجوب کی دلیل نہ ہو اس وقت تک آدمی بری الذمہ ہے۔امام ابو حنیفہؒ کا بھی یہی مذہب ہے ۔اور یہی مذہب قوی ہے ۔
فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ
فتاویٰ اسلامیہ/جلد دوم
✵ حاملہ عورت کو اگر رمضان میں روزہ رکھنے کی وجہ سےاپنے یا اپنے بچے کے بارے میں نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھے اور اس کے ذمہ صرف قضا ہوگی کیونکہ اس کی حالت اس انسان جیسی ہے جسے روزے کی طاقت ہی نہ ہو یا روزہ رکھنے سے اسے نقصان ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ َ ﴿۱۸۴﴾(البقرہ )
پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے
اسی طرح اگر مرضعہ عورت کو رمضان میں بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ ہو یا روزہ رکھنے کی وجہ سے بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتووہ بھی روزہ چھوڑ دے اور رمضان کے بعد صرف قضا دے لے۔
فتاویٰ کمیٹی/ فتاویٰ اسلامیہ:جلد دوم
✵ احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا میں مذکور ہے :
حمل والی یا دودھ پلانے والی عورت کے لیے رمضان کا روزہ چھوڑنا حلال نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ واقعی معذور ہو۔ اگر عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑے تو اسے ان دنوں کی قضا دینی واجب ہے اور اتنے ہی دنوں کے روزے رکھے جتنے اس نے چھوڑے ہوں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے مریض کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ... ﴿١٨٥﴾... سورةالبقرة
"اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔"
اور یہ دونوں مریض کے حکم میں ہیں۔ اور اگر انہیں بچے کا خوف ہو اور اس کی وجہ سے روزہ چھوڑیں، تو انہیں قضا دینے کے ساتھ ساتھ ہر روزے کے بدلے ایک ایک مسکین کا کھانا بھی دینا چاہئے، گندم، چاول یا کھجور وغیرہ جو غلہ بھی بالعموم کھایا جاتا ہو۔
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ ان پر ہر صورت میں سوائے قضا روزے کے اور کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ کھانا کھلانے کے وجوب کی قرآن و سنت سے کوئی دلیل ثابت نہیں ہے، اور اصل چیز ذمیہ فرض کی ادائیگی ہی ہے، حتیٰ کہ مزید کے لیے کوئی دلیل ثابت ہو اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہی ہے اور یہی قوی ہے۔
(محمد بن صالح عثیمین)
احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیاصفحہ نمبر 351
✵ فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ کہتے ہیں :
دودھ پلانے والی اور اسی طرح حاملہ عورت کی دوحالتیں ہیں :
① پہلی حالت :
روزہ اس پر اثرانداز نہ ہو ، اورنہ ہی اسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو اورنہ ہی اسے اپنے بچے کا خدشہ ہے ، ایسی عورت پرروزہ رکھنا واجب ہے اوراس کے لیے جائز نہیں کہ وہ روزہ ترک کرے ۔
② دوسری حالت :
عورت کواپنے آپ یا پھر بچے کونقصان نہ خدشہ ہو ، اوراسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو توایسی عورت کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے لیکن وہ بعد میں اس کی قضاء میں چھوڑے ہوئے روزے رکھے گی ۔
اس حالت میں اس کے لیے روزہ نہ رکھنا افضل اوربہتر ہے بلکہ اس کے حق میں روزہ رکھنا مکروہ ہے ، بلکہ بعض اہل علم نے تویہ کہا ہے کہ اگر اسے اپنے بچے کا خطرہ ہو تو اس پر روزہ ترک کرنا واجب اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔
مرداوی رحمہ اللہ تعالی " الانصاف " میں کہتے ہیں :
ایسی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔۔۔ اورابن عقیل رحمہ اللہ تعالی نے ذکرکیا ہے کہ : اگر حاملہ اوردودھ پلانے والی کوحمل کا بچے کو نقصان ہونے کا خطرہ ہو تواس کے لیے روزہ رکھنا حلال نہیں ، اوراگر اسے خدشہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا حلال ہے ۔ ا ھـ اختصار کے ساتھ ۔
دیکھیں : الانصاف للمرداوی ( 7 / 382 ) ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل 👇 سوال کیا گيا :
جب حاملہ اوردودھ پلانے والی قوی اورچوک وچوبند اور بغیر کسی عذر کے روزہ نہ رکھے اورنہ ہی وہ روزے سے متاثر ہوتواس کیا حکم ہوگا ؟
حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لیے بغیر کسی عذر کے روزہ ترک کرنا جائے نہيں ، اوراگر وہ کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھیں توان پر بعد میں ان روزوں کی قضاء کرنا واجب ہوگی ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اورجوکوئي مریض ہویا پھر مسافر اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا ہوگي } ۔
یہ دونوں عورتیں بھی مریض کی مانند ہی ہیں ، اور جب ان کا عذر ہو کہ روزہ رکھنے سے انہیں بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہو تووہ روزہ نہ رکھیں اوربعد میں ان ایام کی قضاء کرلیں اوربعض اہل علم قضاء کے ساتھ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو گندم یا چاول یا کھجور وغیرہ بھی دینا ہوگي ۔
اوربعض علماء کرام کہتے ہیں کہ : ہرحال میں انہيں روزوں کی قضاء کرنا ہوگي ، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں اس لیے کہ کتاب وسنت میں کھانا کھلانے کی کوئي دلیل نہیں پائي جاتی ، اوراصل توبری الذمہ ہونا ہے ، یہاں تک کہ اس سے کوئي دلیل مشغول کردے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے اورقوی بھی یہی ہے ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 161 ) ۔
شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے یہ بھی پوچھا گيا کہ :
اگرحاملہ عورت کواپنے آپ یا اپنے بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہوتواس کے روزہ افطار کرنے کا حکم کیا ہے ؟
توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
ہم اس کے جواب میں کہيں گے کہ حاملہ عورت دوحالتوں سے خالی نہيں:
پہلی حالت : عورت قوی اورچست ہو روزہ رکھنے سے اسے کوئي مشقت نہ ہو اورنہ ہی اس کے بچے پر اثرانداز ہو، توایسی عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، اس لیے کہ روزہ ترک کرنے کے لیے اس کے پاس کوئي عذر نہيں ۔
دوسری حالت : حاملہ عورت جسمانی کمزوری یا پھر حمل کے بوجھ کی وجہ وغیرہ سے روزہ رکھنے کی متحمل نہ ہو ، تواس حالت میں عورت روزہ نہيں رکھے گی ، اورخاص کرجب بچے کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تواس وقت بعض اوقات روزہ چھوڑنا واجب ہوجاتا ہے ۔
اگروہ روزہ نہ رکھے تو وہ بھی دوسرے ‏عذر والوں کی طرح عذر ختم ہونے کے بعد روزہ قضاء کرے گی ، اورجب ولادت سے فارغ ہوجائے تونفاس کے غسل کے بعد اس پران روزوں کی قضاء واجب ہے ، لیکن بعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حمل سے فارغ ہو تواسے کوئي اورعذر درپیش ہوجائے مثلا دودھ پلانا ، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کھانے پینے کی محتاج ہوتی ہے اور خاص کر گرمیوں کے لمبے دنوں اورشدید گرمی میں تواسے روزہ نہ رکھنے کی ضرورت ہوگي تاکہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاسکے ۔
تو اس حالت میں بھی ہم اسے یہ کہيں گے کہ آپ روزہ نہ رکھیں بلکہ جب عذر ختم ہوجائے توترک کیے ہوئے روزوں کی قضاء کرلیں ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 162 ) ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہنا ہے :
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ترک کرنے کی اجازت دی ہے :
انس بن مالک کعنبی کی حدیث ، جسے احمد اوراہل سنن نےصحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو روزہ چھوڑے کی رخصت دی اورانہیں مسافرکی مانند قرار دیا ہے ۔
تواس سے یہ علم ہوا کہ وہ دونوں بھی مسافر کی طرح روزہ ترک کرکے بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراہل علم نے یہ ذکر کیا ہے کہ یہ دونوں روزہ اس وقت نہيں رکھیں گی جب انہيں مریض کی طرح روزہ رکھنا مشکل ہواور اس میں مشقت ہویا پھر وہ دونوں اپنے بچے کا خطرہ محسوس کریں ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ اھـ
دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 15 / 224 ) ۔
اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے :
حاملہ عورت پر حمل کی حالت میں روزے رکھنا واجب ہیں لیکن جب اسے روزہ رکھنے کی بنا پر اپنے آپ یا بچے پرخطرہ ہو توروزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ، لیکن اسے ولادت اورنفاس کےبعد چھوڑے ہوئے روزے بطور قضاء رکھنا ہونگے ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 226 ) ۔
✵ أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا الله عنہ کہتے ہیں
اللہ تعالى نے حاملہ اور مرضعہ کے لیے رخصت رکھی ہے کہ وہ اگر مشقت محسوس کریں اور روزہ نہ رکھ سکیں تو رمضان میں روزہ نہ رکھیں , پھر جب انہیں سہولت میسر آئے تو اس وقت روزہ رکھ کر رمضان کے روزے مکمل کر لیں ۔
اللہ تعالى کا فرمان ہے : فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضاً
أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
[البقرة : 185]
تم میں سے جو بھی اس (رمضان کے ) مہینے کو پا لے وہ اسکا روزہ رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو تو وہ بعد کے دنوں میں تعداد مکمل کر لے ۔ اللہ تعالى تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے تنگی نہیں کرنا چاہتا ۔ اور یہ بھی چاہتا ہے کہ تم روزوں کی تعداد مکمل کر لو اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اسکی بڑائی بیان کرو اور شکر گزار بن جاؤ
عورت کو دودھ پلانے اور حمل کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے۔ لیکن انہیں روہ معاف نہیں ہے۔ ان ایام میں اگر یہ روزہ نہیں رکھ سکتیں تو نہ رکھیں لیکن بعد میں انہیں روزوں کی قضاء دینا ہوگی۔ انکا حکم بھی بیمار والا ہی ہے۔ اور بیمار کے بارہ میں اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
 فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ
بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
تم میں سے جو بھی رمضان کے مہینے کو پائے اس پہ لازم ہے کہ وہ روزہ رکھے۔ اور جو بیمار
ہو یا سفر پہ ہو تو بعد کے دنوں میں(روزوں کی) گنتی پوری کرنا ہے۔ اللہ تعالى تمہارے ساتھ
آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ اور تاکہ تم تعداد مکمل کرو اور اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ
اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور تاکہ تم شکرگزار بنو۔
سورۃ البقرۃ: 185
حاملہ عورت اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو روزے کہ رخصت کے بارے میں غلام مصطفی ظہیر امن پوری کہتے ہیں
✵  بچے کو دودھ پلانے والی عورت روزہ کے دوران بچے کو دودھ پلا سکتی ہے❓
اگر بچے کو دودھ پلانے والی عورت رمضان کا روزہ رکھتی ہے اور بچے کو دودھ بھی پلاتی ہے تو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
وقال ابن عباس وعکرمۃ رضی اللہ عنھما "الصوم مما دخل و لیس مما خرج”
حضرت ابن عباس اور عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ روزہ دار کے معدہ میں کسی چیز کے
داخل ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا۔
(صحیح بخاری)
اور ماں کا دودھ خارج ہوتا ہے لہذا روزے میں دودھ پلانے سے کوئی حرج نہیں ہے
(تفہیم المسائل جلد 6، صفحہ 204)
✵ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حظہ اللہ کہتے ہیں :
حاملہ عورت اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو یہ رخصت عنائت فرمائی ہے کہ کہ اگر وہ اپنی جسمانی کمزوری یا اپنے بچے کی کمزوری یا دودھ میں نقصان کا خدشہ محسوس کریں تو روزہ نہ رکھے ، بلکہ ہرروزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے ، اس پر قضاء بھی نہیں ہے ، جیسا کہ سیدنا انس بن مالک الکعبی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أغارت علینا خیل رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم فأتیت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فوجدتّہ یتغدّی ، فقال : ادن ، فکل ، فقلت : انّی صائم ، فقال : ادن أحدّثک عن الصّوم أو الصّیام ، انّ اللّٰہ تعالیٰ وضع عن المسافر الصّوم وشطر الصّلاۃ ، وعن الحامل أو المرضع الصّوم أو الصّیام ، واللّٰہ ! لقد قالھما النّبیّ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم کلتیھما أو احداھما ، فیا لھف نفسی ! أن لا أکون طعمت من طعام النّبیّ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”ہم پر اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے چڑھ آئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے ، آپ نے فرمایا ، قریب ہو اور کھا ، میں نے عرض کی ، میں روزے دار ہوں ، فرمایا ، قریب ہو جا کہ میں تجھے روزے یا روزوں کے بارے میں بتاؤں ، یقینا اللہ تعالیٰ نے مسافر کوروزہ اور آدھی نماز معاف کر دی ہے ، نیز حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کو بھی روزہ یا روزے معاف کر دئیے ہیں ، اللہ کی قسم ! نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں کلمات (روزہ یا روزے) کہے یا ان دونوں میں سے ایک کہا ، افسوس کہ میں نے نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا نہ کھایا !”
(سنن ابی داو،د : ٢٤٠٨، سنن النسائی : ٢٢٧٩، سنن الترمذی : ٧١٥، واللفظ لہ ، سنن ابن ماجہ : ١٦٦٧، حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی  رحمہ اللہ نے ”حسن” اور امام ابنِ خزیمہ  رحمہ اللہ ن(٢٠٤٤)نے”صحیح” کہا ہے ۔
 سیدنا عبداللہ بن عمر  سے ایسی حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا جسے اپنے بچے کے نقصان کا خطرہ ہو ، آپ نے فرمایا ، وہ روزہ چھوڑ دے ، اس کے بدلے میں ایک مسکین کو ایک ”مد ”(تقریباً نصف کلو گرام)گندم دے دے ۔
(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٤/٢٣٠، وسندہ، صحیح سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے ایک حاملہ عورت نے روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :         أفطری ، وأطعمی عن کلّ یوم مسکیناً ولا تقضی ۔
”تو روزہ چھوڑ دے اور ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے ، پھر قضائی نہ دے ۔”
(سنن الدارقطنی : ١/٢٠٧، ح : ٢٣٦٣، وسندہ، صحیح)
نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر کی ایک بیٹی ایک قریشی کے نکاح میں تھی ، وہ حاملہ تھی ، رمضان میں اس نے پیاس محسوس کی تو آپ نے اسے حکم دیا کہ روزہ چھوڑ دے ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے ۔(سنن الدارقطنی : ١/٢٠٧، ح : ٢٣٦٤، وسندہ، صحیح)
 سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرمانِ باری تعالیٰ ( وعلی الّذین یطیقونہ فدیۃ )(البقرۃ : ١٨٤)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :      أثبتت للحبلٰی والمرضع ۔ ”یہ آیت حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے ثابت (غیر منسوخ) رکھی گئی ہے ۔”(سنن ابی داو،د : ٣٢١٧، وسندہ، صحیح)
 عظیم تابعی سعید بن جبیر  رحمہ اللہ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت جو اپنے بچے کے حوالے سے خائف ہو ، کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ، چھوڑے ہوئے روزے کی قضائی بھی ان دونوں پر نہیں ہے ۔
(مصنف عبد الرزاق : ٤/٢١٦، ح : ٧٥٥٥، وسندہ، صحیح)
بعض اہل علم کا یہ کہنا کہ یہ دونوں روزے کی قضائی بھی دیں گی ، بے دلیل ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے ۔
الحاصل :  حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ، ان پر کوئی قضائی نہیں ۔
✵ اس بارے میں علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی کا فتویٰ ہے
رمضان کے مہینے میں اگر حاملہ عورت اپنے اپ پر یا اپنے بچے پر خوف رکھتے ہوئے روزہ چھوڑ دے تو اس عورت پر صرف ان روزوں کی قضا لازم ہے، اس کی مثال اس مسئلہ میں اس مریض کی سی ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو یا روزے کی وجہ سے اپنے آپ پر نقصان کا اندیشہ رکھتا ہو،
الله تعالى نے فرمايا:
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
ﮨﺎﮞ ﺟﻮ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮔﻨﺘﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﻛﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ
سورۃ البقرۃ: 185
اور اسی طرح دودھ پلانے والی عورت اگر اپنے آپ پر اپنے بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے خوف رکھے، یا اپنے بچے پر خوف رکھے کہ اگر اس نے روزہ رکھا تو اپنے بچے کو دودھ نہ پلا پائے گی اور اس نے روزہ چھوڑ دیا تو اس عورت پر صرف قضا لازم ہوگی۔
اس مفہوم کی ایک سخت ضعیف حدیث قابل تحریر ہے
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحُبْلَى الَّتِي تَخَافُ عَلَى نَفْسِهَا أَنْ تُفْطِرَ، وَلِلْمُرْضِعِ الَّتِي تَخَافُ عَلَى وَلَدِهَا ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کو جسے اپنی جان کا ڈر ہو، اور دودھ پلانے والی عورت کو جسے اپنے بچے کا ڈر ہو، رخصت دی کہ وہ دونوں روزے نہ رکھیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۴۰) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں ربیع بن بدر متروک راوی ہیں)
حدیث نمبر: 1668
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
 وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

 


Share:

Online Islamic Help ask about Islam

 Online Islamic Help, ask about Islam, ask your issue about islam annonymously, islamic instagram helper

Asslamu Alaikum Wa Rahmatullahi Wa Barkatohu ...
Ramzan ul Mubarak Ko Dekhte Huye Maine Ek Instagram Page Banaya Hai islamichelper
 Jiska Maqsad Ye Hai Ke
Aaapko Deen Ki Sahih Jaankari Dii Jaye Aap Sharayi Masail Ya Kisi Bhi Tarah Ka Islam Se Jura Hua Koi Sawal Ho..
Masalan Ramzan Ul Mubark, Sehri, Iftaar Ke Time Aur Inke Masail, Yaa Ulema Ke Bayanat,  Ya Kisi Bhi Tarah Ka Madad Ho Deen Sikhne Ke Liye to Aap Hamen Message Kar Sakte Hain,, Hum Jawab Audio, Video, Text, Link, Pdf Book, Image, Facebook Post Aur Dusri Shaklon(formats) Me Dene Ki Koshish Karenge...
Hamara Maqsad Hai Aap Tak Khaalis Deen Pahunchana...Aap Soch Rahe Honge Hum Google Aur Youtube Se Bhi Help Le Sakte Hain,, Beshak Aap Help Le Sakte Hain Lekin Wahan Par Har Tarah Ke Content Milenge Jisme Shirkiya Aur Kufriya Videos Aur Dusre Material Bhi Maujud Hain... Isliye Aap Kisi Bhi Ulema Ka ya Kisi  Kitab Ko Deen Samjah Kar Amal Na Karen.. Isi Chij Se Aapko Bachaane  Ke Liye Hamne Ye Page Banaya Hai Taaki Aapko Deen Ke Silsile Se Sahih Jaankari Mil Sake.
instagram Par Aap Search Kar Sakte Hain islamichelper
Jazakallah Shukran! Waslamu Alaikum Wa Rahmatullahi Wa Barkatohu
Hamaare Platforms:-
Instagram:- 𝐢𝐬𝐥𝐚𝐦𝐢𝐜𝐡𝐞𝐥𝐩𝐞𝐫
Facebook- 𝐚𝐡𝐥𝐞𝐡𝐚𝐝𝐞𝐞𝐬𝐦𝐟𝐩
telegram channel:- 𝐫𝐞𝐚𝐥𝐭𝐮𝐛𝐞𝟓𝟏
Islamic Post Ke Liye Website:- https://www.findmrf.blogspot.com
Islmic Sawal Jawab Ke Liye Youtube Channel:- https://www.Youtube.com/darkfacts
Islamic Videos Ke Liye Facebook Page:- 𝐫𝐞𝐚𝐥𝐭𝐮𝐛𝐞𝟓𝟏
Islamic Post ke liye instagram page:- 𝐝𝐚𝐫𝐤𝐦𝐞𝐬𝐬𝐚𝐠𝐞𝐬𝟏
Humara Telegram Number:- +𝟏𝟑𝟏𝟓𝟑𝟎𝟓𝟏𝟖𝟖𝟏
Email:- realtube@protonmail.com
ask about islam, best islamic website, roman quran wo hadees, ask islamic q a, women issue in ramadan, the way of salafiyah
Islamic Helper Instagram

Share:

Mohammad Saw and Hinduism Scriptures in Hindi, हज़रत मुहम्मद ﷺऔर भारतीय धर्म-ग्रन्थ

The Last Meesanger Of Islam Mohammad SAllahu Alaihe wasallam in Hinduism.

हज़रत मुहम्मद ﷺ और भारतीय धर्म-ग्रन्थ

Mohammad Saw and Hinduism Scriptures in Hindi

who is Prophet Mohammad , About Prophet in Hindi, Prophecy of Mohammad prophet in Indian Scriptures, Islam and Hinduism , last avatar of Hindu religion, about islam in Hindi, relity of prphet Mohammad(P.B.U.H)
अंतिम बुद्ध मैत्रेय की इनके अलावा अन्य विशेषताएं भी हैं। मैत्रेय के दयावान होने और बोधि वृक्ष के नीचे सभा का आयोजन करनेवाला भी बताया गया है। इस वृक्ष के नीचे बुद्ध को ज्ञान प्राप्ति होती है।
डा. वेद प्रकाश उपाध्याय ने यह सिद्ध किया है ये सभी विशेषताएँ मुहम्मद (सल्ल.) के जीवन में मिलती है। तथा अंतिम बुद्ध मैत्रेय हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) ही हैं। डा. उपाध्याय द्वारा इस विषय में प्रस्तुत तथ्य यहाँ ज्यों के त्यों प्रस्तुत किए जा रहे हैं-
‘कुरआन में मुहम्मद साहब के ऐश्वर्यवान और धनवान होने के विषय में यह ईश्वरीय वाणी है कि ‘तुम पहले निर्धन थे, हमने तुमको धनी बना दिया।’ मुहम्मद साहब ऋषि पद प्राप्त करने के बहुत पहले धनी हो गए थे। (‘व-व-ज-द-क- आ-इलन फ़-अग़्ना’) (और तुमको निर्धन पाया, बाद में तुमको धनी कर दिया) मुहम्मद साहब के पास अनेक घोड़े थे। उनकी सवारी के रूप में प्रसिद्ध ऊंटनी ‘अल-कुसवा’ थी, जिस पर सवार होकर मक्का से मदीना गए थे और बीस की संख्या में ऊंटनियां थीं, जिसका दूध मुहम्मद साहब और उनके बाल-बच्चों के पीने के लिए पर्याप्त था, साथ ही साथ सभी अतिथियों के लिए भी पर्याप्त था। ऊंटनियों का दूध ही मुहम्मद साहब व उनके बाल-बच्चों का प्रमुख आहार था। मुहम्मद साहब के पास सात बकरियां थीं, तो दूध का साधन थीं। मुहम्मद साहब दूध की प्राप्ति के लिए भैंसे नहीं रखते थे, इसका कारण यह है कि अरब में भैंसे नहीं होती। (Life of Mohomet-Sir William Muir ‘Cambridge, Edition P. 545-54) उनकी सात बाग़ें खजूर की थीं जो बाद में धार्मिक कार्यों के लिए मुहम्मद साहब द्वारा दे दी गई थीं।
मुहम्मद साहब के पास तीन भूमिगत सम्पत्तियां थीं, जो कई बीघे के क्षेत्रा में थीं। मुहम्मद साहब के अधिकार में कई कुएं भी थे। इतना स्मरणीय है कि अरब में कुआँ का होना बहुत बड़ी सम्पत्ति समझी जाती थी, क्योंकि वहां रेगिस्तानी भू-भाग है। मुहम्मद साहब की 12 पत्नियां, चार लड़कियां और तीन लड़के थे। बुद्ध के अंतर्गत पत्नी और संतान का होना द्वितीय गुण है। मुहम्मद साहब के पूर्ववर्ती भारतीय बुद्धों में यह गुण नाम मात्र को पाया जाता था, परन्तु मुहम्मद साहब के पास उसका 12 गुना गुण विद्यमान था। (Life of Mahomet-Sir William Muir (Cambridge Edition) P. 547)
मुहम्मद साहब ने शासन भी किया। अपने जीवनकाल में ही उन्होंने बड़े-बड़े राजाओं को पराजित करके उनपर अपना प्रभुत्व स्थापित किया। अरब के सम्राट होने पर भी उनका भोज्य पदार्थ पूर्ववत् था। (The fare of the desert seemed most congenial to hi, even when he was sovereign of Arabia.)
मुहम्मद साहब अपनी पूर्ण आयु तक जीवित रहे। अल्पायु में उनका देहावसान नहीं हुआ और न तो वे किसी के द्वारा मारे गए।
मुहम्मद साहब अपना काम स्वयं कर लेते थे। उन्होंने जीवन भर धर्म का प्रचार किया। उनके धर्म प्रचारक स्वरूप की पुष्टि अनेक इतिहासकारों ने भी की है। (Mohammad and Mohammadenism by Bosworth smith, P. 98)
मुहम्मद साहब ने भी अपने पूर्ववर्ती ऋषियों का समर्थन किया, इस बात के लिए आप पूरा कुरआन देख सकते हैं। उदाहरण के रूप में कुरआन में दूसरी सूरा में उल्लेख है-
‘‘ऐ आस्तिको! (मुसलमानों) तुम कहो कि हम ईश्वर पर पूर्ण आस्था रखते हैं और जो पुस्तक हम पर अवतीर्ण हुई, उसपर और जो-जो कुछ इब्राहीम, इसमाईल और याकूब पर और उनकी संतान (ऋषियों) पर और जो कुछ मूसा और ईसा को दी गई उन पर भी और जो कुछ अनेक ऋषियों को उनके पालक (ईश्वर) की ओर से उपलब्ध हुई, उन पर भी हम आस्था रखते हैं और उन ऋषियों में किसी प्रकार का अंतर नहीं मानते हैं, और हम उसी एक ईश्वर के माननेवाले हैं।’’ (कुरआन, सूरा-2, आयत 236)
मुहम्मद साहब ने अपने अनुयायियों को शैतान से बचने की चेतावनी बार-बार दी थी। कुरआन में शैतान से बचने के लिए यह कहा गया है कि जो शैतान को अपना मित्र बनाएगा, उसे वह भटका देगा और नारकीय कष्टों का मार्ग प्रदर्शित करेगा। (कुरआन, सूरा-22, आयत 4)
मुहम्मद साहब के अनुयायी कभी भी मुहम्मद साहब के बताए हुए मार्ग से विचलित न होते हुए उनकी पक्की शिष्यता अथवा मैत्री में आबद्ध रहते हैं। मुहम्मद साहब के अनुयायियों ने आमरण उनका संग नहीं छोड़ा, भले ही उन्हें कष्टों का सामना करना पड़ा हो। संसार में जिस समय मुहम्मद साहब बुद्ध थे, उस समय किसी भी देश में कोई अन्य बुद्ध नहीं था। मुहम्मद साहब के बुद्ध होने के समय सम्पूर्ण संसार की सामाजिक और आर्थिक स्थिति बहुत ही खराब थी।
मुहम्मद साहब का कोई भी गुरु संसार का व्यक्ति नहीं था। मुहम्मद साहब पढ़े-लिखे भी नहीं थे, इसीलिए उन्हें, ‘उम्मी’ भी कहा जाता है।
श्वर द्वारा मुहम्मद साहब के अंतःकरण में उतारी गई आयतों की संहिता कुरआन है। प्रत्येक बुद्ध के लिए बोधिवृक्ष का होना आवश्यक है। किसी बुद्ध के लिए बोधिवृक्ष के रूप में अश्वत्थ (पीपल), किसी के लिए न्यग्रोध (बरगद) तथा किसी बुद्ध के लिए उदुम्बर (गूलर) प्रयुक्त हुआ है। बुद्ध के लिए जिस बोधिवृक्ष का होना बताया गया है, वह कड़ी और भारयुक्त काष्ठवाला वृक्ष है (According to some of the modern Buddhist Scholars the Bo-tree of the Buddha Maierya is the Iron wood-tree (Mohammad in the Buddhist scriptures. P. 64) ।
हज़रत मुहम्मद साहब के लिए बोधिवृक्ष के रूप में हुदैबिया स्थान में एक कड़ी और भारयुक्त काष्ठवाला वृक्ष था, जिसके नीचे मुहम्मद साहब ने सभा भी की थी।
‘मैत्रेय’ का अर्थ होता है-दया से युक्त। 16 अक्तूबर सन् 1930 ‘लीडर’ पृ. 7 कालम 3 में एक बौद्ध ने ‘मैत्रेय’ का अर्थ ‘दया’ किया है। मुहम्मद साहब दया से युक्त थे। इसी कारण मुहम्मद साहब को ‘‘रहमतुललिल आलमीन’’ कहा जाता है। (वमा अर्सल्ना-क-इल्ला रहमतल्लिल आलमीन) (कुरआन, सूरा-11, आयत 107) (ऐ मुहम्मद! हमने तुमको सारी दुनिया के लिए दया बनाकर भेजा।) जिसका अर्थ है-‘समस्त संसार के लिए दया से युक्त।’ (‘नराशंस और अंतिम ऋषि’ पृष्ठ 54 से 58)
स्वर्गीय बोधिवृक्ष बहुत ही विस्तृत क्षेत्र में है। कहा गया है कि बुद्ध स्थिर दृष्टि से उस बोधिवृक्ष को देखता है। हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) ने भी जन्नत में एक वृक्ष देखा था, जो ईश्वर के सिंहासन के दाहिनी ओर विद्यमान था। यह वृक्ष इतने बड़े क्षेत्र में था जिसे एक घुड़सवार लगभग सौ वर्षों में भी उसकी छाया को पार नहीं कर सकता (In Paradise there is a tree (such) that a rider can not cross its shade in hundred years.(Mohammad in the Buddhist Scriptures, Page 79)। हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) ने भी स्वर्गीय वृक्ष को आँख गड़ाए हुए देखा था।
मैत्रेय के बारे में यह भी कहा गया है कि किसी भी तरफ़ मुड़ते समय वह अपने शरीर को पूरा घुमा लेगा। मुहम्मद साहब भी किसी मित्र की ओर देखते समय अपने शरीर को पूरा घुमा लेते थे (If the turned in conversation towards a friend he turned not partially but with his full face and his whole body. (Ther Life of Mahommad by William Muir, Page 511, 512)। इस प्रकार यह सिद्ध होता है कि बौद्ध ग्रन्थों में जिस मैत्रेय के आने की भविष्यवाणी की गई है वह हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) ही हैं।

╭•┅═❁:diamonds::hearts::diamonds:❁═┅•╮​
:fountain:⚖ डा. एम. ए. श्रीवास्तव ⚖:fountain:
╰•┅═❁:diamonds::hearts::diamonds:❁═┅•╯
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS