find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Music Sunna, Dance Karna Aur Hall Me movie Dekhne Jana Kaisa Hai?

Islam Me Gana bjana,Music Sunna, Dance Karna Kaisa Hai?

السلام علیکم محترم ایڈمنز مجھے میوزک. سازو آواز بجانے والوں کے لیے احکام الٰہی اور احادیث رسول اکرم درکار ھیں کیونکہ میرا سامنا میوزیکل گروپ سے هو گیا ھے. ....اللہ تعالٰی آپ کا حامی وناصر هو
─┅━━━━━━━━━━━━━━━┅┄
Taken From
شیخ جرجیس انصاری ،میسیز اے انصاری
─━══★ گانا بجانا اِسلام کی نظرمیں ★══━─
آج دنیا میں جگہ جگہ گانے بجانے کا شوروغل برپاہے۔ شہر،بازار،گلی کوچے اس ہڑبونگ سے دوچار ہیں۔ ناچنے ،گانے والے اور میراثی اب گلوکار، ادکار،موسیقار اور فنکار کہلاتے اورفلمی سٹار، فلمی ہیرو جیسے دل فریب مہذب ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں۔مردوزَن کی مخلوط محفلوں کا انعقاد عروج پر ہے۔ بڑے بڑے شادی ہال، کلب،بازار، انٹرنیشنل ہوٹل اور دیگر اہم مقامات ا ن بیہودہ کاموں کے لئے بک کر دیئے جاتے ہیں جس کے لئے بھاری معاوضے ادا کئے جاتے اور شو کے لئے خصوصی ٹکٹ جاری ہوتے ہیں۔ چست اور باریک لباس، میک اَپ سے آراستہ لڑکیاں مجرے کرتی ہیں جسے ثقافت اور کلچر کا نام دیا جاتا ہے۔عاشقانہ اَشعار، ڈانس میں مہارت، جسم کی تھرتھراہٹ اور آوازکی گڑگڑاہٹ میں ڈھول باجوں اور موسیقی کی دھن میں کمال دکھانے والوں اور کمال دکھانے والیوں،جنسی جذبات کو اُبھارنے والوں کو خصوصی ایوارڈز سے نوازا جاتاہے
دوسری طرف نظر دوڑائیں تو دین کے نام پر بھی یہی بے ہنگم کاروبار جار ی ہے۔دین کے تاجر بڑی بڑی زلفوں، مونچھوں والے، داڑھی سے عاری، ڈرؤانی شکل وصورت میں نشے سے دھت قوال اور گویے مخصوص انداز اور تالیوں، چمٹوں کے شور میں جگہ جگہ محفلیں جمائے ہوئے ہیں۔قبروں، مزاروں، خانقاہوں پر ٹولیوں کی شکل میں بھیک کے کشکول اٹھائے ہوئے، ڈھول کی تھاپ پر باجوں گاجوں پر رقص وسرور کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔زبانوں سے نازیب اور گستاخانہ کلمات نکالتے ہیں۔ ربّ ِذوالجلال، حضر ت محمدﷺ،حضرت علیؓ حسنؓ وحسینؓ اور فاطمہ زہراؓ اور دیگر اولیاء اللہ کے نام لے کر چیختی اور دھمالیں ڈالتے اور جو جی میں آئے گاتے ہیں ۔مثال کے طور پر "عصمت ِکعبہ کو ٹھکرانے کا موسم آگیا "..." میں کیا جانوں رام ، تم ایک گورکھ دھندہ، سو میں شرابی شرابی!" (نعوذ باللہّٰ) ... اس پر طرہ یہ کہ نعت ِرسولﷺ اور اسلامی ترانوں کو بھی میوزک او ر نسوانی آوازوں کے ساتھ مزین کرنے کا کام زوروں پر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے گانوں بجانوں کے بارے میں قرآن وحدیث کی تعلیم کیا ہے؟ صحابہ کرام اور اکابرین اُمت کی رائے کیا ہے؟ ان کا نقصان کیا ہے؟کیا ایسی مجالس ومحافل میں شرکت جائز ہے؟ گانا بجانا کن لوگوں کا مشغلہ ہے ؟کیا گانے بجانے روح کی غذا ہیں؟ مسلمان کی روح کی غذا کیاہے او ر کون سے اَشعار لے اور ُسرکے ساتھ پڑھے جاسکتے ہیں؟
اِسلام کی رو سے گانا بجانا حرام ہے !
گانے بجانے کی حرمت کے بارے میں قرآن مجید میں ارشادِباری ہے :
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ‌ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ٦ ﴾...... سورة القمان
" لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو لغو باتو ں کو مول لیتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے مذاق بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کن عذاب ہے"
جمہور صحابہؓ وتابعین اور عام مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے جس سے مراد گانا بجانا اور اس کا ساز وسامان ہے او ر سازو سامان، موسیقی کے آلات او رہر وہ چیزجو انسان کو خیر او ربھلائی سے غافل کر دے اور اللہ کی عبادت سے دور کردے۔ اس میں ان بدبختوں کا ذکر ہے جو کلام اللہ سننے سے اِعراض کرتے ہیں اور سازو موسیقی ، نغمہ وسرور او رگانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد بھی یہی ہے کہ آلات ِطرب وشوق سے اپنے گھروں میں لاتے ہیں اور پھر ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں- لہو الحدیث میں بازاری قصے کہانیاں ، افسانے ، ڈرامے، ناول اورسنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بے حیائی کے پر چار کرنے والے اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات، ریڈیو، ٹی وی،وی سی آر ، ویڈیو فلمیں ،ڈش انٹینا وغیرہ بھی۔
⛔ گانا بجانا قرآن کی نظر میں :
(۲) گانا بجانا شیطان کی آواز ہے...ارشادِ باری تعالیٰ ہے
﴿وَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنهُم بِصَوتِكَ.......٦٤ ﴾....... سورة الاسراء
" اور اے شیطان! تو جسے بھی اپنی آ واز سے بہکا سکے، بہکا لے"
آواز سے مراد پر فریب دعوت یا گانے موسیقی اور لہو ولہب کے دیگر آلات ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں:
"اس سے مراد صوت المزامیر یعنی شیطان کی آواز ،گانے بجانے ہیں۔"
ابن عباس  فرماتے ہیں"گانے اور ساز لہوولہب کی آوازیں یہی شیطان کی آوازیں ہیں جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو حق سے قطع کرتا ہے" (قرطبی) اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کے راستوں کی پیروی سے روکا ہے کیونکہ اس کے سارے ہتھکنڈے بے حیائی اور برائی کے داعی ہیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّبِعوا خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ ۚ وَمَن يَتَّبِع خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ فَإِنَّهُ يَأمُرُ‌ بِالفَحشاءِ وَالمُنكَرِ‌......٢١ ﴾...... سورة النور
"اے ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم مت چلو جو شخص شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا۔"
فاحشة کے معنی بے حیائی کے ہیں۔ شیطان کے پاس بے حیائی کی طرف مائل کرنے کی بہت راہیں ہیں۔ فحش اخبارات ، ریڈیو، ٹی وی ، فلمی ڈراموں کے ذریعہ جو لوگ دن رات مسلم معاشرے میں بے حیائی پھیلا رہے ہیں اور گھر گھر اس کو پہنچا ر ہے ہیں، یہ سب شیطانی جال ہیں۔ اس آیت سے ما قبل وہ آیات ہیں جن میں حضرت عائشہ  پرلگائی تہمت کا ذکر ہے کہ "جن لوگوں نے آپ پر فحش کا الزام لگایا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس جھوٹی خبر کو صریح بے حیائی قرار دیا اور اسے دنیا و آخرت میں عذابِ الیم کا باعث قرار دیا ہے" لیکن جو لوگ ان آلات حرب کے چینل چلا نے والے اور ان اداروں کے ملازمین ہیں تو وہ اللہ کے ہاں کتنے بڑے مجرم ہیں جو آئندہ نسلوں کی تباہی کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔
(۳) ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿أَفَمِن هـٰذَا الحَديثِ تَعجَبونَ ٥٩ وَتَضحَكونَ وَلا تَبكونَ ٦٠ وَأَنتُم سـٰمِدونَ ٦١ ﴾...... سورة النجم
"پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو اور بطورِ مذاق ہنستے ہو اور روتے نہیں ہوبلکہ گانے گاتے ہو"
حضرت عبداللہ بن عباس  فرماتے ہیں:«نداء السمود هو الغناء في لغة الحجر»یعنی حجر قبیلہ کی زبان میں سُمود سے مراد گانا ہے... حضرت عکرمہ فرماتے ہیں:
"کفارِ مکہ کی بھی عاد ت تھی کہ وہ قرآن کریم سننے کی بجائے گانے گاتے تھے"
(۴) مخلوط مجالس کا انعقاد ناجائز ہے ، ان مجالس میں عورت تقریر کرسکتی ہے، نہ گا سکتی ہے اور نہ ہی لباس اور زیور کا اظہار کرسکتی ہے ، نہ جسم کو عریاں اور نمایاں کرسکتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ ۚ إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَ‌ضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعر‌وفًا ٣٢ وَقَر‌نَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّ‌جنَ تَبَرُّ‌جَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ ۖ وَأَقِمنَ الصَّلو‌ٰةَ وَءاتينَ الزَّكو‌ٰةَ وَأَطِعنَ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ........٣٣ ﴾..... سورة الاحزاب
"اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کے مثل نہیں ہو اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو نرم انداز سے گفتگو نہ کرو کہ جس کے دل میں کوئی بیماری ہو وہ کوئی براخیال کرے،ہاں قاعدے کے مطابق بات کرو اور اپنے اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانہ کی طرح اپنے بناؤ سنگار کا اظہارنہ کرو ، نماز ادا کرتی اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور ا س کے رسول کی اطاعت گزاری کرتی رہو۔"
اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لیے کشش رکھی ہے، اس کی حفاظت کے لیے خصوصی ہدایات بھی دی ہیں تاکہ عورت مرد کے لئے فتنے کا باعث نہ بنے،اس طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہےجو مرد کے اندر جاذبیت پیدا کرتی ہے ۔ چنانچہ عورت کی آوازکے لیے بھی یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ مرد وں سے گفتگو کرتے وقت قصداً نرم لب ولہجہ اختیار نہ کیاجائے ۔نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو تاکہ کوئی بدباطن نرم کلامی کی وجہ سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو سکے اور ساتھ ہی واضح کرو یاکہ زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جومعروف قاعدے اور اَخلاق کے منافی ہو اور ﴿إِنِ اتَّقَيتُنَّ﴾کہہ کر اشارہ کردیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات جو آگے آرہی ہیں، وہ پرہیز گار عورتوں کیلئے ہیں کیونکہ انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہو جائے۔ جن کے دل خوفِ الٰہی سے عاری ہیں، انہیں ہدایات سے کیا تعلق ہے!
دوسری ہدایت یہ ہے کہ گھروں میں ٹک کر رہو، بغیر ضروری حاجت کے گھروں سے باہر نہ نکلو۔ اس میں وضاحت کردی گئی ہے کہ عورت کا دائرئہ عمل سیاسی اورمعاشی نہیں بلکہ گھر کی چاردیواری کے اندر اُمورِخانہ داری سر انجام دینا ہے۔ اگر بوقت ِضرورت گھر سے باہر نکلنا پڑ جائے توبناؤسنگار کرکے یا ایسے اندازسے جس سے بناؤ سنگار ظاہر ہوتا ہو، مت نکلے یعنی بے پردہ ہو کر عورتوں کا نکلنا منع ہے جس سے ان کا سر، چہرہ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے بلکہ سادہ لباس میں ملبوس ہو کر باپردہ خوشبو لگائے بغیر باہر نکلے۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو کتنی پاکیزہ تعلیم دی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِ‌هِنَّ وَيَحفَظنَ فُر‌وجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ‌ مِنها ۖ وَليَضرِ‌بنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ.....٣١ ﴾..... سورة النور
"اے نبی ﷺ! مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہوجائے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں"
افسوس صد افسوس کہ مخلوط مجالس میں آزادیٴ نسواں نے کیا کیا گل کھلا رکھے ہیں۔ آواز ہے تو وہ بھی گونج دار اور سریلی طرز وناز ، تالیوں کی چٹاک اور قدموں کی کڑ اکڑ اور جسم کی کروٹوں سے عورتیں نوجوانوں کو کس طرح دعوتِ نظارہ دے کر خوش ہوتی ہیں۔ اہل مجالس جھوم جھوم اُٹھتے ہیں، شرم وحیاکی تمام حدیں پارہوجاتی ہیں ،شراب وکباب اور نوٹوں کی بارش ہوتی ہے۔بے پردگی کا یہ عالم ہے کہ سر سے پاوٴں تک میک اَپ سے مزین ہوتی ہیں اور زمانہ جاہلیت کو بھی مات کر جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورت ایک کھلونا بن کر یا کمپنیوں کے اشتہار کا ٹریڈ مارک بن کررہ گئی ہے۔
⛔ احادیث میں گانے بجانے کی حرمت :
 (۱) میری امت میں کچھ گروہ ساز باجوں کو حلال سمجھیں گے :
ابوعامر یا ابو مالک الاشعری  فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
" میری اُمت میں سے کچھ گروہ اٹھیں گے، زنا کاری اور ساز باجوں کو حلال سمجھیں گے۔ ایسے ہی کچھ لوگ پہاڑ کے دامن میں رہا ئش پذیر ہوں گے۔ شام کے وقت ان کے چرواہے مویشیوں کو لیکر انکے ہاں واپس لوٹیں گے۔ ان کے پاس ایک محتاج آدمی اپنی حاجت لے کر آئے گا تو وہ اس سے کہیں گے: کل آنامگرشام تک ان پر عذاب نمودار ہوگا اور اللہ ان پر پہاڑگرادے گا جو انہیں کچل دے گا اور دوسرے لوگوں کی شکل وصورت تبدیل کرکے قیامت تک بندر اور خنزیر بنادے گا (بخاری)
  (۲) گانے بجا نے کے رواج پانے سے آسمان سے پتھروں کی بارش:
حضرت عبدالرحمن بن ثابت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
" ایک وقت آئے گا کہ میری امت کے کچھ لوگ زمین میں دَب جائیں گے، شکلیں بدل جائیں گی اور آسمان سے پتھروں کی بارش کا نزول ہوگا۔ فرمایا اللہ کے رسول ﷺ! کیا وہ کلمہ گوہوں گے جواب دیا: ہاں ،جب گانے، باجے اور شراب عام ہوجائے گی اور ریشم پہنا جائے گا" (ترمذی)
  (۳)گانے والی (مُغنّیات) عام ہوں گی :
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول ﷺنے فرمایا
"میری امت میں لوگ زمین میں دھنسیں گے، شکلیں تبدیل ہوں گی اور پتھروں کی بارش ہوگی حضرت عائشہ  نے پوچھاکہ وہ لاالہ الااللہ کہنے والے ہوں گے، آپ انے فرمایا :جب مغنیات (گانے والیوں) کا عام رواج ہوگا، سود کا کاروبار خوب چمک پر ہوگا اور شراب کا رواج عام ہوگا اور لوگ ریشم کو حلال سمجھ کر پہنیں گے" (ابن ابی الدنیا)
عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا
"اس امت میں زمین میں دھنسا نا، صورتیں بدلنا اور پتھروں کی بارش جیسا عذاب ہوگا تو مسلمانوں میں سے ایک مرد نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ کیسے ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا: جب گانے والیاں اور باجے گاجے ظاہر ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی" (ترمذی)
  (۴) حضور انے ساز کی آواز سے کانوں میں اُنگلیاں ڈال لیں :
نافع ؓ مولیٰ ابن عمر ؓفرماتے ہیں کہ
"عبداللہ بن عمرؓ نے ساز بانسری کی آواز سنی تو انہوں نے اپنے کانوں میں اُنگلیاں دے دیں اور راستہ بدل لیا، دور جاکر پوچھا: نافع کیا آواز آرہی ہے؟ تو میں نے کہا: نہیں، تب انہوں نے انگلیاں نکال کر فرمایا کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھا، آپ نے ایسی ہی آواز سنی تھی اور آواز سن کر میری طرح آپ ا نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں تھیں" (احمد،ابوداود،ابن حبان)
  (۵) آپﷺ کا ساز اور باجے کی کمائی سے منع کرنا :
حضرت ابوہریرہؓ نے ساز باجے کی کمائی سے منع فرمایا ہے ۔
(اخرجہ ابوعبید فی غریب الحدیث)
  (۶) ریڈیو ،ٹی وی اور بذریعہ کیسٹس گانا سننا حرام ہے :
حضور اکرم ا جس طرح بتوں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے، اسی طرح ساز باجوں سے بھی نفرت کرتے تھے۔ جس طرح بتوں کی پرستش حرام گردانتے تھے، اسی طرح ساز باجوں کو سننا بھی حرام قرار دیتے تھے جیسا کہ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا کہ
"مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ بتوں اور ساز باجوں کو مٹا ڈالوں" (مسند احمد)
  (۷) ڈھول باجے شراب کی طرح حرام ہیں :
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:
" میں ساز باجے اور ڈھولک کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں" (الفوائد)
ایسے ہی حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
" بلاشبہ اللہ نے شراب، جوا او ر ڈھولک حرام فرمائے ہیں اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے"
(مسنداحمد)
  (۸) گانا سننے کی سزا :
حضرت انسؓ بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "جو شخص کسی گلو کارہ کی مجلس میں بیٹھا اور اس نے گانا سنا، قیامت کے روز اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا" (قرطبی)
جس طرح کسی گلوکارہ کے شو میں بیٹھ کر گانا سننا حرام ہے ، اسی طرح ریڈیو،ٹی وی ،وی سی آر اور کیسٹوں کے ذریعہ گانا سننا بھی حرام ہے کیونکہ دونوں دراصل ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔
  (۹) جس آدمی کے پاس گانے والی عورت ہو، اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے!
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا
"جو شخص اس حالت میں فوت ہوا کہ اس کے پاس گلوکارہ ہے، اس کا جنازہ مت پڑھو"(قرطبی)
  (۱۰) گانے والیوں کی خرید وفروخت اور ان کی کمائی حرام ہے !
حضرت ابی امامہؓ سے روایت ہے
" محمد ا نے مغینات(گانا گانے والیوں) کی خریدوفروخت اور ان کی کمائی سے منع فرمایا "
(ابن ماجہ: ۲/۷۳۳)
  (۱۱) گھنٹیاں شیطانی ساز ہے!
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ گھنٹیاں شیطانی ساز ہیں (مسلم)۔ اسی طرح آپ نے جنگ ِبدر کے موقعہ پر اونٹوں کی گردنوں سے گھنٹیاں الگ کردینے کا حکم دیا تھا۔
  (۱۲) جھانجن (پاؤں کا زیور جس میں آواز ہوتی ہے) بھی شیطانی ساز ہے!
اُمّ المومنین حضرت ام سلمیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے سنا ،آپ نے فرمایا
"جس گھر میں جھانجن یا گھنٹی ہو، اس میں فرشتے نہیں آتے" (نسائی)
حضرت عائشہؓ نے فرمایا: میرے پاس ایک لڑکی لائی گئی جس کے پاؤں میں جھانجیں تھیں جو کہ آواز دیتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: اسے میرے پاس نہ لاؤ جب تک اس کی جھانجیں کاٹ نہ د و اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا:
"جس گھر میں جھانجیں ہوں، وہاں (رحمت کے ) فرشتے نہیں آتے" (ابوداود )
  (۱۳)گانے ساز باجوں اور گانے والیوں کی وجہ سے مسلمان مصیبتوں میں گھر جائیں گے!
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب میری اُمت پندرہ کام کرنے لگے گی تو اس پر مصائب ٹوٹ پڑیں گے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ کون سے کام ہیں آپﷺنے فرمایا:
" جب مالِ غنیمت تمام حق داروں کو نہیں ملے گا، امانتیں ہڑپ کرلی جائیں گی ، زکوٰة تاوان سمجھی جائے گی، خاوند بیوی کا فرمانبردار ہوگا ، بیٹا ماں کی نافرمانی کرے گا، اپنے دوست سے نیک سلوک اور باپ سے جفا سے پیش آئے گا، مسجدوں میں لوگ زور زور سے بولیں گے ، انتہائی کمینہ ذلیل شخص قوم کا سربراہ ہوگا ، کسی آدمی کی شر سے بچنے کے لئے اس کی عزت کی جائے گی ، شراب نوشی عام ہوگی ، ریشم پہنا جائے گا ، گانے والی عورتیں عام ہوجائیں گی، ساز باجوں کی کثرت ہوگی اور آنے والے لوگ پہلے لوگوں پر طعن کریں گے" (ترمذی)
⛔ صحابہ کرامؓ اور کابرین اُمت کے ارشادات :
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ.......٧ ﴾..... سورة لقمان" کے بارے میں عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں
"اس سے مراد گانا بجانا ہے اور تین بار قسم اُٹھا کر اس بات کودہرایا کہ اس سے مراد گانا بجانا ہے" (ابن جریر ، ابن ابی شیبہ)
  حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :
"باجے ،گانے بجانے کے آلات اور ڈھول اور ساز وغیرہ حرام ہیں" (بیہقی)
  عبد اللہ بن عمرؓ کا گزر ایک ایسے قافلہ سے ہوا جو اِحرام کی حالت میں حج کے لیے جارہے تھے۔ ان میں ایک شخص گا رہا تھا ۔آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول نہ کرے (ابن ابی الدنیا)
  اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ نے ایک عورت کو گھر پر دیکھا جو گارہی تھی اور اپنے سر کو خوشی سے گھمارہی تھی اور بڑے بڑے بال رکھے ہوئے تھے۔حضرت عائشہؓ نے فرمایا:
" اُف یہ تو شیطان ہے ،اس کو نکالو ،اس کو نکالو ،اس کو نکالو" (بخاری )
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ فرماتے ہیں: راگ گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے (تلبیس ابلیس۲۸۰)
  امام تبعی جنہوں نے کثیر صحابہؓ سے علم حدیث حاصل کیا، فرماتے ہیں:
"گانے والے اور جس کے لئے گایا گیا دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو!" (تلبیس ابلیس،ص ۲۷۹)
  فقہاءِ ائمہ اربعہ امام ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہم اللہ سب گانے بجانے کی حرمت کے قائل ہیں ۔
  جناب احمد رضا خان بریلوی سے کسی نے پوچھا کہ ایک دوست مجھے عرس پر لے گیا، وہاں گانے کے ساتھ ساز اور ڈھول بج رہے تھے، میں نے پوچھا: کیا یہ ناچ شریعت میں حرام ہے، کیا اس طرح رسول اکرمﷺاور اولیاءِ کرام خوش ہوتے ہیں یا ناراض ؟جناب بریلوی نے جواب دیاکہ
"ایسی قوالی حرام ہے اور حاضرین سب گناہوں کے مرتکب ہیں، ان سب حاضرین کا گناہ عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے" (احکامِ شریعت)
مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عورت گائے یا مرد، قوالی کرنے والے مرد ہوں یا عورتیں، الگ الگ مجرہ کریں یا اجتماعی، گانے والا ایک ہو یا جتھا، گانے بجانے، رقص وناچ اور نسوانی جسم کی نمائش کی سب صورتیں ناجائز اورحرام ہیں، ایسے کاموں میں زندگی گزارنے والوں کو فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور توبہ کرنی چاہئے ۔معاشرے کی اَخلاقی پستی وتباہی کا سبب دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ گانے بجانے والے پیشہ وَر بھی ہیں جن میں قوال سر فہرست داخل ہیں ۔
مشرکین مکہ بھی عبادت کی خاطر بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور طواف کے دوران منہ میں اُنگلیاں ڈال کر سیٹیاں اور ہاتھوں سے تالیاں بجاتے تھے، اس کو وہ عبادت اور نیکی کا نام دیتے تھے۔ بعینہ جس طرح مسجدوں ،آستانوں ،مقبروں ،مزاروں پر جاہل لوگ رقص کرتے، ڈھول پیٹتے، دھمالیں ڈالتے، ہیرون او ر چرس بھی سرعام پیتے ہیں۔کیا یہی ہماری نماز اور عبادت ہے !! (نعو ذ بالله من ذلک)
قرآن و حدیث کے دلائل ، صحابہ کرام اور علماءِ امت کے اَقوال اور احمد رضا خان کے فتوؤں پر اس قبیل کے لوگ غور کریں اور سوچیں کہ ہم کیسے وادیٴ گناہ میں آنکھیں بند کیے کھچےکھچے جارہے ہیں !!
ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم :
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
الشیخ عبدالرزاق عفیف حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Roze ki Halat Me Hame Kis Bat Ka Khyal Rakhna Chahiye?

WHAT YOU SHOULD KNOW ABOUT FASTING


1. When the month of Ramadan starts, the gates of paradise are opened, the gates of hell are closed and the devils are chained.  (Al-Bukhari 1898, Muslim 1079)
2. Every Muslim must make intention before fajr to fast (for an obligatory fast). Intention is not uttered. It is determination in the mind and should not be done with audible wordings.
(Al Bukhari 1, Abu Dawood 2454)
3. Fasting is NOT just abstaining from eating and drinking, it is also refraining from vain speech and foul language. If one is verbally abused, he should say 'I am fasting'.  (Muslim 1151)
4. Taking the pre-dawn meal (Sahuur) is a BLESSING. Every Muslim is expected to take the meal EVEN if with a mouthful of water.
(Al Bukhari 1923, Ahmad 44)
5. It is the Sunnah to DELAY the Sahuur and HASTEN to break the fast as soon as the sun sets.
(Al Bukhari 1921, Muslim 1099)
6. If one hears the call to prayer WHILE still eating the Sahuur, he should not stop eating, rather he should finish his food.
(Abu Dawud 2350)
7. Whosoever does not give up speaking falsely and acting on lies and evil actions, Allah (swt) does not care for his abstaining from eating and drinking.
(Al Bukhari 1903)
8. The Prophet of Allah used to break his fast BEFORE magrib prayer with 3 fresh dates, if there were no fresh dates, he would eat 3 dry dates, if there were no dry dates, he would take 3 draughts of water.
(Abu Dawud 2349)
9. Whoever provides a fasting person something with which to break his fast, he will earn the same reward as the person without the person's reward being reduced.
(At-tirmidhi 807)
10. It is PERMISSIBLE for a fasting person to bath or pour over his head to relief him of the hotness of the sun or of thirst.
(Abu dawud 2365)
11. If somebody eats or drinks FORGETFULLY while fasting, he should complete his fast, for what he has eaten or drunk been given to him by Allah.
(Al Bukhari 1933, Muslim 1155)
12. Zakaatul fitr is OBLIGATORY on every Muslim, old and young, slave and free, male and female.
One Sa'a (approx. 3kg) of food items should be given out before people go out for the 'Eid prayer.
(Al Bukhari 579/2, Muslim 2159)
13. The Prophet of Allah never proceeded (for prayer) on the day of 'Eid ul fitr unless he had eaten some odd number of dates.
(Al Bukhari 73/2)
14. We should put on our BEST garments and chant Adhkaar TO and FRO the Eid ground.  (Al Bukhari 88, 89, 102/2)
15. On the day of Eid, the Prophet of Allah used to return (after offering the Eid prayer) through a way DIFFERENT from that by which he went.
(Al Bukhari 102/2).
16. Whoever observes fast in Ramadan and also fasts for six days in Shawwal, the reward of a whole year fast is recorded for him.  (Muslim 2614/6)

DON'T THANK ME.. JUST SHARE FOR THE SAKE OF ALLAH AS SADAQAH

Share:

Hme Kiski Ibadat Karni Chahiye?

Hmara Mabood Kaun Hai?
कह दो मुझे यही हुक्म हुआ है कि मैं अल्लाह की बन्दगी करू और उसके साथ किसी को शरीक न बनाऊ। मैं उसकी तरफ बुलाता हूं और उसी की तरफ मुझे लोटना है।'' (रअद 36)
इस आयते मुबारका से साफा वाजेह है कि इबादत सिर्फ अल्लाह ही की करनी है और उसकी इबादत में किसी को शरीक (हिस्सेदार) नहीं बनाना।
मअबूद के मानी हैं ‘‘जिसकी इबादत की जाए'' पस अल्लाह तआला ही अकेला और हकीकी (सच्चा) मअबूद है। आबिद के मानी हैं इबादत करने वाला। तमाम अम्बिया अलैहिस्सलाम और उनके फरमाबरदार अल्लाह के “आबिद (इबादत करने वाले हैं।
लिहाजा हमें ऐसे नाम रखना चाहिए जो अल्लाह की बन्दगी को जाहिर करते हों। किसी मखलूक की बन्दगी को जाहिर करने वाले नाम रखना शिर्क फील अस्मा (नामों में शिक) कहलाता है। लिहाजा अपने आपको अल्लाह के सिवा किसी और का बन्दा कहना अल्लाह के साथ शिर्क है। पास आबिद हुसैन, अब्दुलरसूल, अब्दुल मुस्तफा अब्दुल हुसैन वगैरा नाम रखना शिर्क है क्योंकि इन नामों से अल्लाह के बजाऐ मखलूक की बन्दगी जाहिर होती है।
┄════❁✿❁════
इल्म हासिल करना हर एक मुसलमान मर्द-और-औरत पर फर्ज़ हैं.

Share:

Ramzan Ke Mahine Me Gareebo Ki Madad Kiya Kare.

Ramzan Ki Taiyyari Kaise Kare?

1. Namazo'n Ki Pabandi Kare.
2. Jhoot Bolne Se Parhez Kare.
3. Qur'ān Ki Tafseer Mangalijiye Taake Ap Ramadhan Me Zyada Waqt Padh Sakho.
4. Roze Ke Ahkam O Masael Janiye Taake Aap Ko Ramadhan Me Pareshani Na Ho.
5. Ulema Se Jude Rahiye Ya YouTube Ya Kisi Aur Zariye Ramadhan Ke Talluq Se Ulema Ke Bayan Sunte Rahiye.
6. Gareeb Aur Yateemo Ka Khayal Rakhe.
8. Ramadhan Ke Talluq Se Jhoote Msgs Forward Karne Se Bache.
9. Ho Sakhe To Social Networking Sites Se Door Rahiye.
10. Jinki Sahri Nahi Hopati Unke Liye Intezam Kiya Kare Jo Apse Ho Sakhe Utna.
Share:

Namaj Me Quran Ke Akhiri Ya Bich Se Padhne Ke Masail.

Kya Namaj Me Quran Ki Kisi Aayat Ko Shuruwat,Akhiri Ya Bich Se Padh Sakte Hai?

سوال. کیا نماز میں قرآن  کے کسی سورت کی آخری آیات  یا بیچ کی آیات پڑھ سکتے ہیں؟
الجواب بعون رب العباد: نماز میں ترتیب مصحف سے پڑھنا ضروری نہیں بلکہ جس طرح امام نمازی منفرد ہو یا امام دونوں ہی کو جہاں سے چاھے قرآن میں پڑھ سکتا ہے چاھئے سورت کے ابتداء سے ہو یا کسی سورت کے وسط سے ہو یا کسی سورت کی آخری آیات ہوں ہر صورت میں جائز ہے۔  بعض لوگ جو ہمارے ملکوں میں اعتراض کرتے ہیں کہ سورت کے وسط یا اواخر سے پڑھنا جائز نہیں انکا یہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔
بلکہ قرآن کریم میں جہاں سے آسان لگے نماز چاھئے فرائض ہوں یا نوافل دونوں ہی طریقہ سے پڑھنا جائز ہے۔  دلیل:اللہ کا فرمان:(فاقرؤا ماتيسر من القرآن ) [سورة المزمل ايت نمبر:20].
جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لئے آسان ہو اتنا ہی پڑھ لیا کرو۔ یہ آیت مبارکہ عموم پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فرض ہو یا نفل جو کچھ آسان لگے پڑھ لیا کرو۔
دوسری دلیل:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہوجاو تو تکبیر کھو اور قرآن میں سے جو کچھ آسان لگے پڑھ لیا کرو۔[بخاری ، صحیح مسلم  في الصلاة باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة. حدیث نمبر: 397]۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نمازی قرآن کی جس بھی سورت اور جہاں سے بھی چاھئے پڑھ سکتا ہے۔
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام سے فرائض نماز میں ثابت نہیں کہ آپ علیہ السلام نے سورت کے بیچ سے قرآن پڑھا ہو البتہ نبی علیہ السلام سے سورت کے اوائل اور اواخر سے پڑھنا ثابت ہے جیساکہ آپ علیہ السلام نے سورہ اعراف دو رکعتوں میں پڑھا ہے۔
اسی طرح آپ علیہ السلام نے سورہ مومنون دو رکعتوں میں نماز میں پڑھا ہے۔البتہ بیچ سورت سے نبی علیہ السلام سے پڑھنا ثابت نہیں اسلئے بعض اہل علم  فرائض میں بیچ سورت سے پڑھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں ، لیکن صحیح یہی ہے کہ قرآن میں کسی بھی سورت سے چاھئے شروع سورت سے ہو یا وسط سے یا اواخر سے ہر صورت میں جائز ہے۔
یاد رہے شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ نے  مذکورہ آیت اور مذکورہ حدیث بطور دلیل پیش کی ہے۔[فتاوی نور علی الدرب114/19]۔
ایک اور جگہ علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سورت کے وسط سے اور آخری سورت سے پڑھنا جائز ہے ایسا ممنوع نہیں ہے۔
دلیل:نبی علیہ السلام نماز فجر کی دو سنتوں کی پہلی رکعت میں سورہ بقرہ آیت نمبر: 136(قولوا آمنا باللہ وماأنزل إلينا). اور دوسری رکعت میں سورہ آل عمران آیت نمبر64(فل ياأهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم). پڑھا کرتے تھے۔
اور بعض اوقات سورہ کافروں پہلی رکعت میں اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔
اسی طرح نبی علیہ السلام فرائض میں بھی شروع سورہ اور آخری سورہ سے پڑھا کرتے تھے
اس سے ثابت ہوا کہ فرائض ونوافل دونوں ہی میں سورہ کے شروع اور سورت کے آخر سے پڑھنا جائز ہے۔[الشرح الممتع260/3].
علامه امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام  سنت فجر کی پہلی رکعت میں قولوا آمنا اور دوسری رکعت میں قل ياأهل الكتاب تعالوا إلى كلمة پڑھا کرتے تھے.
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں سورت وسط سے یا یا کسی سورت کے آخر سے پڑھنا جائز ہے۔[نيل الأوطار 255/2]۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک نماز میں اواخر السورو یا وسط سورہ پڑھنا مکروہ نہیں ہے یعنی جائز ہے اسے اہل علم کی ایک جماعت نے ان سے نقل کیا ہے۔
دلیل:اللہ کا ارشاد گرامی ہے:(فاقرأوا ما تيسر من القرآن).[سورہ مزمل آیت نمبر:20]۔۔
قرآن میں جو آسان لگے اسے پڑھو۔
بعض آثار:حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم کیا گیا کہ ہم سورہ فاتحہ کے برڈ جو کچھ قرآن میں آسان لگے وہ پڑھیں۔ ۔ ۔[ابو داود بات من ترك القراءة في صلاته بفاتحة الكتاب ، كتاب الصلاة188/1 ، مسند احمد جلد3 ص نمبر:3 ، 45 ، 97]۔
امام خلال رحمہ اللہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ صبح کی نماز سورہ آل عمران اور سورہ فرقان کے اوخر میں سے پڑھتے تھے۔[مرعاة المفاتيح جلد3 ص نمبر:144،  كتاب الصلاة ،  حاشية الروض المربع جلد2 ص نمبر:110 ، كتاب المقنع والشرح الكبير والانصاف جلد 3/ص نمبر:620 ، النور الساري من فيض صحيح الإمام البخاري رحمه الله جلد 2 ص نمبر: 594،  المغني لابن قدامه مسئلة نمبر: 684 جلد1 ، كتاب الصلاة باب صفة الصلاة].
ابراھیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض اصحاب نماز میں قرآن کی بعض آیات پڑھتے تھے۔[حواله:المغني كما سبق].
ابوبرزہ بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نماز میں ساٹھ آیات سے لیکر سو آیات تک پڑھاکرتے تھے۔[بخاری جلد 1/ص نمبر:143،  155 ، صحیح مسلم کتاب المساجد447/1 ، ابو داود 196/1 ، کتاب الصلاة].
اسے ثابت ہوا کہ اواخر السورہ سے بعض آیات کے پڑھنے میں یا وسط سورہ سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سورت کے وسط سے یا سورت کے آخری آیات میں سے نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ایک روایت کے مطابق اسے جائز قرار دیا ہے۔[المغني لابن قدامه].
شيخ صالح الفوزان حفظه الله فرماتے ہیں کہ کسی سورت کے آخری آیات میں سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے میں جواز ہے۔ ۔ ۔ [دروس لشيخ صالح الفوزان حفظه الله تعالى].
مذکورہ تمام ادلہ اور اہل علم کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ کسی سورت کے اواخر سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
.  کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض۔    تخصص/فقہ واصولہ۔
Share:

Hme Kaun Rizk Deta Hai?

Rizk Dene wala Razik Kaun Hai?

“ऐ लोगो! अल्लाह के अहसान जो तुम पर हैं उनको याद करो। क्या अल्लाह के सिवा कोई ऐसा खालिक है जो तुम्हें आसमान और जमीन से रोज़ी पहुँचाऐ, उसके सिवा कोई मजबूद नहीं फिर तुम कहाँ बहके चले जा रहे हो ।” (फातिर 3)
अल्लाह सुब्हानहु व तआला ने कुरआन मजीद में जा बजा वाजेह फरमा, दिया है कि रिज्क अल्लाह के कब्जे में है वह अपनी तमाम मख्नूक को रिज्क देता है। किसी को कम किसी को ज्यादा। यह घटना बढ़ाना भी उसके इख्तियार में है और वही बेहतर जानता है कि किसको कितना रिज्क देना है। लिहाजा तंगदस्ती हो या खुशहाली, हर हाल में अल्लाह का शुक्र अदा करना चाहिए और उसीसे रिज्क मांगना चाहिऐ।
सोचे! अगर अल्लाह किसी का रिज्क तंग कर दे तो और कौन सी हस्ती अल्लाह से बढ़ कर जोरावर है जो अल्लाह के कम किए हुऐ रिज्क को बढ़ा सके। अगर लोग यह बात समझ लें तो रिज्क में इजाफे के लिए सिर्फ और सिर्फ अल्लाह के दरबार का ही रूख करें। उसीके आगे हाथ फैलाएँ और उसी से मांगें।
बाकी तमाम सरकारों और दरबारों से मुँह मोड़ लें कि वह ज़री बराबर भी इख्तियार नहीं रखते। लोग जिन दरगाहों, मज़ारों और दरबारों पर जा कर सज्दा करते, मनते मांगते और रिज्क में इजाफे की लिए दुहाइयां देते हैं, वह तो खूद अल्लाह के मुहताज हैं किसी को क्या देंगे। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फरमाया ‘‘रिज्क तुम्हें ऐसे ढुढे लेता है जैसे मौत।" यानी जिस तरह मौत अपने मुकर्ररा वक्त पर बन्दे को आ लेती है ख्वाह कहीं भी हो। इसी तरह अल्लाह तआला ने जिस बन्दे के लिऐ जो रिज्क लिखा है।
वह उसे पहुँच जाता है ख्वाह वह कहीं भी हो। इसलिऐ हमें नाम रखते वक्त यह ख्याल रखना चाहिए कि उन नारों से अल्लाह तआला का राजिक होना जाहिर हो। लिहाजा राजि हुसैन, इमदाद अली, मुहम्मद रज्जाक, वगैरा नाम रखना भी अल्लाह के साथ शिर्क है।
इस तरह यह समझना कि अगर ग्यरहवीं न दी तो कारोबार तबाह हो जाऐगा, “मज़ार'' पर दूध का नज़राना न दिया तो भैंसें सूख जाऐंगी, इस किस्म की बातों का मतलब उन मजारों को अपना राजिक (रिज्क देने वाला) समझना है जो अल्लाह के साथ शिर्क और जुल्मे अजीम है।
Share:

Kahi Hm Apne Bacho ko Abujahal Ke School Me To Nahi Bhej Rahe hai?

Hm Apne Bacho Ko Talim Ke Liye Aaj Kaha Bhej Rahe Hai Abujahal Ke School Me Ya Nabi-E-Akram Sallahu Alaihe Wasallam Ki Seerat Ka Dars Dene walo ke yaha
 ایک ماہر تعلیم نے بڑی زبردست بات کی. فرماتے ہیں،
"اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ابوجہل کوئی سکول کھولتا تو آپکے خیال میں کتنے صحابہ اپنے بچے اسکے سکول میں داخل کرواتے؟..... اور ایک ہم ہیں کہ ابوجہل کی فکر کو پروموٹ کرنے والے سکولوں میں شوق شوق سے جوق در جوق اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں."
ایک وضاحت:
یہ عام غلط فہمی ہے کہ بدر کے قیدی کفار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی"تعلیم" کا فدیہ لیا. انہوں نے علم نہیں دیا تھا، محض پڑھنا لکھنا سکھایا تھا.
" علم دینے" اور "پڑھانے لکھانے" کا فرق اس مثال سے سمجھیں کہ ایک غیر مسلم اگر کتے کے بارے میں "پڑھائے" گا تو یہ بتائے گا کہ لفظ کتا لکھنا کیسے ہے اور پڑھنا کیسے ہے، یعنی املاء اور ہجے وغیرہ. اور جب کتے کے بارے میں "علم" دے گا تو بتائے گا کہ کتا انسان کا دوست اور وفادار جانور ہے. اس سے محبت کرنی چاہیے اسے اپنے بستر میں بھی سلا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ.
جبکہ ایک دیندار مسلمان کتے کے بارے میں "پڑھائے" گا تو غیر مسلم کی طرح ہی، البتہ جب "علم" دے گا تو بتائے گا کہ کتا، انسان کی اور اسکی بھیڑ بکریوں کی حفاظت کے کام آتا ہے، شکار بھی کر سکتا ہے لیکن ہے یہ ناپاک جانور. اسے گھر کے اندر رکھنے سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور اگر کسی برتن میں منہ مار دے تو سات بار پانی سے اور ایک بار مٹی سے صاف کئیے بغیر پاک نہیں ہوتا... وغیرہ وغیرہ
یہی فرق ہے "تعلیم" کا ابوجہل کے سکول میں اور کسی محمدی سکول میں.
(ماخوذ از ورکشاپ برائے "والدین کی ذمہ داریاں"، از مرشدی، ابو حسان، سلمان سلیم صاحب، حفظہ اللہ)
نوٹ:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی "امی" اسی تناظر میں تھے کہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے. باقی عالم تو ان سے بڑا اس دنیا میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا
Share:

Bimari ki wajah Se Jo Roze Nahi Rakh Sakte Use Kya Karna Chahiye?

Aeise Shakhs Jo Roza Nahi Rakh Sakte Kisi Bimari ki wajah Se To Use Kya Karna Chahiye?

سوال:جو شخص کسی بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ پائے کیا وہ کفارہ ادا کرسکتا ہے قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں ؟
الجواب بعون رب العباد:
کتبہ:أبوزهير محمد يوسف بٹ بزلوی ریاضی.
خریج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب
جو شخص وقتی طور کسی مرض میں مبتلا یعنی اسکو ایسی تکلیف ہو جو علاج وغیرہ کرنے کے بعد ٹھیک ہوجائے ایسا شخص ٹھیک ہوجائے کے بعد ان روزوں کی قضاء کرے اسکے لئے جائز نہیں کہ کفارہ دے بلکہ اس پر قضاء واجب اور ضروری هے.
دلیل: اللہ کا ارشاد گرامی ہے:فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر. [سورة البقرة آيت185].
اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اسکی قضاء کرے.
اس میں استدلال کیا گیا ہے کہ جو شخص انتہائی مریض ہو جو کہ بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ پائے اس شخص کے لئے مشروع یہی ہے کہ وہ ٹھیک ہونے کے بعد ان چھوٹے ہوئے دنوں کی قضاء کرلے اسی طرح اگر کوئی شخص سفر میں ہے اور سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے ایسا شخص گھر واپس آنے کے بعد ان دنوں کی قضاء کرلے.
لیکن جو شخص ایسا بیمار شخص ہو کہ اسکے ٹھیک ہونے کے امکانات نہیں ہے تو ایسا شخص ان روزوں کے بدلے فدیہ یعنی ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھائے.
دلیل: رب کریم عزوجل کا فرمان ہے:(وعلى الذين يطيقون فدية طعام مسكين).[البقرة 184].
اور اسکی  طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں.
یعنی جو شخص بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے جس شفایابی کی امید نہ ہو اور ایسے اشخاص روزہ رکھنے میں تکلیف محسوس کریں وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلادیں.
ابتداء اسلام میں طاقت والے شخص کو بھی اجازت تھی کہ وہ  چاہئے روزہ رکھیں یا اسکے بدلے ہر دن کے بدلے فدیہ دیں لیکن پہر یہ حکم منسوخ ہوگیا یعنی طاقت والا شخص پر روزہ رکھنا فرض ہے لیکن جو بیمار یا بوڑھا شخص جسے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو اسکے لئے اب بھی یہی حکم ہے کہ ایسا شخص روزہ کی طاقت نہ رکھنے کی صورت میں ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھائے.
مفسر قرآن جلیل القدر صحابی ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ بوڑھے مرد اور عورت کے لئے رخصت تھی کہ جنہیں طاقت ہو روزہ رکھنے کی کہ وہ روزہ کے بدلے ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائیں.[ رواه أبودود 2318 , امام نووی رحمہ اللہ نے اسکی سند کو حسن کہا ہے].
امام نووی رحمہ اللہ امام شافعی اور اصحاب شوافع کا قول نقل کرتے ہیں کہ بہت بوڑھا شخص اور دائمی بیمار جنکے لئے روزہ رکھنا مشکل ہو اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ان پر روزہ نہیں ہے ، علامہ ابن منذر رحمہ اللہ نے اس ہر اجماع نقل کیا ہے.
اور اس بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ ان پر فدیہ واجب ہے.[المجموع للنووي262/60].
علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ بوڑھی عورت جسے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو وہ کیا کرے؟
آپ نے جواب دیا کہ اس پر واجب ہے کہ وہ ہر دن کے دن چاول کھجور وغیرہ میں سے نصف صاع یعنی تقریباً ڈیڈ کیلو کے برابر مسکین کو کھانا کھلائے جیساکہ صحابہ کی ایک جماعت نے اسی کا فتوی دیا ہے ، ان میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہیں.
آگے فرماتے ہیں کہ اگر عورت غریب محتاج ہے اور اسے مسکین کو کھانا کھانے کی طاقت نہ ہو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے.
اور کفارہ کو دینا ایک مسکین یا کئی مساکین کو مہینہ کے شروع یا بیچ ماہ میں بھی جائز ہے.[مجموع الفتاوى203/15].
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:(وعلى الذين يطيقونه فدية)
کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ جو بوڑھا بوڑھی عورت روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ دونوں مسکین کو ہر دن کے بدلے کھانا کھلائیں.[صحيح البخاري 4505].
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف اور رائے ہے. [المغني396/4].
ائمہ حنفیہ ، شوافع حنابکہ وغیرہ کا اس ہر اتفاق ہے کہ جب کوئی بوڑھا بوڑھی یا کوئی دائمی بیمار جنہیں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو وہ روزہ کے بدلے ہر دن کا فدیہ ادا کرے جیساکہ سورہ بقرہ کی آیت:(وعلى الذين بطيقونه فدية).
اسے مراد ہے کہ جن پر روزہ رکھنا مشکل ہوتا ہو.[الموسوعة الفقهية117/5].
اس بارے میں علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ کا بھی یہی فتوی موجود ہے.[فتاوى الصيام ص نمبر:111].
خلاصہ کلام: جو بزرگ شخص بڑھاپے کی وجہ سے یا ایسا مریض جسے ٹھیک ہونے کی توقع نہ ہو یعنی اگر ایسے لوگ روزہ رکھیں تو اسے انہیں تکلیف پہنچ سکتی ہے تو انکے لئے جائز ہے کہ وہ رمضان میں روزہ نہ رکھیں اور روزہ کے بدلے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھلائیں اور اگر اسے فدیہ دینے کی طاقت نہ ہو تو اس صورت میں اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے.
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.
Share:

Deen-E-Islam Aur Uske Manne Wale Kaun Hai?

Islam Kya Hai Aur Musalman Kaun Hai

اسلام اور مسلمان
اللہ تعالی کی توحید کے اقرار اوراس کی اطاعت کرتے ہوۓ اپنے آپ کواللہ تعالی کے سپرد کردینے اورشرک اورمشرکوں سے برات کانام اسلام ہے ۔
اوردین اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے :
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
بلاشبہ اللہ تعالی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے  آل عمران ( 199 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پراللہ تبارک وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
اورجوشخص بھی دین اسلام کے علاوہ کو‏ئ اوردین  تلاش کرے گا اس کا وہ دین قبول نہیں کیا جاۓ گا ، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا  آل عمران ( 855 ) ۔
جوبھی اسلام میں داخل ہوا اسے مسلمان کہا جاۓ گا اس لیے کہ اس نے ہرچيزکو اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع اورسپرد کردیا اورجواحکام اللہ اور اس کے رسول سے آۓ ہیں ان پرعمل کیا اسی بنا پراسے مسلمان کہا جاتا ہے ۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
دین ابراہیمی سے تووہی بے رغبتی کرتا ہے جوبے  وقوف ہو ، ہم نے تو اسے میں بھی برگزیدہ بنایا تھا اورآخرت میں بھی وہ صالحین میں سے ہے ، جب کبھی بھی ان کے رب نے انہیں کہا کہ فرمانبردار بن جاؤ انہوں نے کہا میں نے رب العالمین کی فرمانبرداری کی  البقرۃ ( 130 - 1311 ) ۔
اورایک درسرے مقام پراللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
سنو ! جوبھی اپنے آپ کواخلاص کے ساتھ اللہ تعالی  کے سامنے جھکا دے ، بے شک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا ، اس پر نہ تو کوئ خوف ہوگا اور نہ ہی کو‏ئ غم اور اداسی چھاۓ گی  البقرۃ ( 1122 )
Share:

Ramzan Ka Mahina Magfirat Ka Mahina Hai. (Part 05)

Ramzan Ke Mahine Ki Shuruwaat.
RAMZAN - PART 5 Mah-e -Ramadhan ki ibtida wo inteha aur chand ka bayan.
Mah-e -Ramadhan ki shuruaat is maah ka chand dekhne yaa uske dikhne ki
shahadat milne yaa maahe shabaan ke 30 din pure hone se hogi.

1. Chand ki ruyat yaa shabaan ke 30 din pure karne ke ba`az dalail:

Abu Hurairah (R.A) ne kaha ke Nabi kareem sallallahu alaihi wa sallam ne farmaya: Chand hi dekh kar roze shuru Karo aur Chand hi dekh kar roze mauqoof karo aur agar badal ho jaye to shabaan ke 30 din pure Karo.
📒 (Sahih Bukhari ,hadith no :1909, Sahih Muslim hadith no :1081)
Rasoolullah sallalahu alaihi wa sallam ne farmaya :
Mahina aisa aisa aisa yaani 30 din ka hota hai phir farmaya aur kabhi aisa aisa aisa yaani 29 ka, kabhi 30 aur kabhi 29 kahte rahe.
📒(Bukhari :5302, Muslim :1080: ibn Umar (R. A.))
2. Kya ek jagah ki ruyat tamaam duniya ke liye kaafi hogi yaa ikhtilaafe mataley ka etebar hoga?

Is silsile me ulama ke kai aqwaal hain jinme do aqwaal mashoor hain.

1. Agar ek mulk yaa shaher me chand nazar aagaya to digar mumalik aur ilaaqo ke log bhi roza rakhenge. Yeh jumhur hanafiya.
(Badayeyus Sanaye, Al-Kasani: 2/83,fatahul Qadir, Ibnul humaam:2/313),Hanabila(Al insaaf, Al mardawi :3/193
Almubde’, Ibnemuflih:3/7) aur maalikiya (Al-taaj wal Ikleel :2/381, Az zakhirah, Al Qarafi: 2/490) ka qaul hai.
Dalail:
Qur'an se : Allah tala ka farman : (Al Baqarah :185)
Wajhe istedlaal : ye khitab puri Ummat ke liye hai isliye agar kisi ek jagah chand
nazar aa jaye to tamaam musalmano ko roza rakhna hoga.
📒(Majmoo fatawa wo rasayel, Ibne Uthaymeen :19/44)
Sunnat se : Allah ke Rasool sallallahu alaihi wa sallam ne farmaya: (Sahih Bukhari :1909, sahih Muslim :1081)
Chand dekh Kar roza rakho.
Wajhe istedlaal : Allah ke Rasool sallallahu alaihi wa sallam ne tamaam musalmano par chand dekhne par roza rakhna wajib qarar diya hain aur kisi khaas jagah ki tayyun nahi kia hai.
📒 (Majmoo fatawa wa rasayel Ibne Uthaymeen :19/44)
To Be Continued

Share:

Nabi Sallahu Alaihe Wasallam Ke Duniya Se Rukhsat Ke Waqt.

Nabi-E-Akram Sallahu Alaihe Wasallam Ke Judai Ke Lamhaat

رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے لمحات

جب مدینہ منورہ کے درودیوار سوگوار تھے صحابہ کرام رضوان اللہ  علیھم اجمعین خون کے آنسو رورہے تھے صدمہ ناقابل برداشت تھا
میرے اور آپ کے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی آخری وصیتیں اور آخری لمحات پر یہ پوسٹ ہے، اس کا ترجمہ بھیج رہا ہوں، یہ عام پوسٹ نہیں جس کی عمر ایک دن سے زیادہ نہ ہو، یہ پندرہ صدیوں سے ابھی تک تازہ اور ایمان کو گرما دینے والی تحریر ہے، اس کے بعض الفاظ کا ترجمہ کماحقہ تو نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جگر پارہ پارہ کردینے والے الفاظ ہیں۔ یکسوئی سے پڑھیں۔
جزاکم اللہ خیرا
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری وصیتیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال سے کچھ عرصہ قبل حجة الوداع کا موقع تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی
(اليوم أكملت لكم دینکم..... الخ)
ترجمہ:
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین کے  (ہمیشہ کے لیے) پسند کر لیا۔"
یہ آیت سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے۔۔۔
لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ اے ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی دیگر آیتوں کی طرح یہ بھی ایک آیت ہی ہے، پھر آپ اس طرح کیوں رو رہے ہیں؟؟
سیدنا ابو بکر رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا:
"یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے 9 روز قبل قرآن مجید کی آخری آیت نازل ہوئی
(واتقوا یوما ترجعون فیه الی الله....الخ)
ترجمہ:
"اور ڈرو اس دن سے جب تم سب اللہ کے پاس لوٹ کر جاؤ گے، پھر ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا ہے پورا پورا دیا جائے گا، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔"
پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کرب کے آثار ظاہر ہونے لگے۔۔۔
فرمایا کہ میں شہدائےاُحد کی زیارت کرنا چاہتا ہوں۔
شہدائے احد کے پاس تشریف لے گئے اور قبورِشہداء پر کھڑے ہو کر فرمایا:
"تم پر سلامتی ہو اے احد کے شہیدو۔۔۔! تم ہم سے پہلے جانے والے ہو اور ہم ان شاءالله تم سے آ ملیں گے، اور میں ان شاءالله تم سے ملنے والا ہوں۔"
اُحد سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زارو قطار رو دیے۔
وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ
"میری بیویوں کو جمع کرو۔"
تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
"کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟"
سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔
پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔
اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔
اور فرماتی ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔"
مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم
سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ
"لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔"
اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔
نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:
"یہ کیسی آوازیں ہیں؟
عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔
پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔
فرمایا:
" اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟"
سب نے کہا:
"جی ہاں اے اللہ کے رسول"
ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں،
اے لوگو۔۔۔!
مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ  (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔"
پھر مزید ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔"
(یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔)
پھر فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔"
مزید فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے"
اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔
جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔
"ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....."
روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا  دفاع ان الفاظ میں فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد  (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔"
آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔
اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:
"اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔"
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔
اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی،  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔
فرماتی ہیں:
" آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔"
أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں:
"پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔"
پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ!  "قریب آؤ۔۔۔"
دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ
پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔
جس پر میں رو دی۔۔۔۔"
جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے:
"فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"
جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:
"عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:
مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)
صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
"میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔"
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
"یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔"
آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔"
ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا:
"السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟"
فرمایا:
"مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔"
ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
"اے پاکیزہ روح۔۔۔!
اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!
الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!
راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!"
سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں:
پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔  مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔
"رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!"
مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔
ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے  پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔
ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔
اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
"خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔"
اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔
کہہ رہے تھے:
وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه
(ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:
"یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔"
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا:
"جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔"
سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔
عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:
پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا  بیٹھ کر روؤں۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟"
پھر کہنے لگیں:
"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه."
(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
Share:

Masjid Me Dakhil Hote Waqt Padhi Jane wali Namaj Ke Masail.

Tahiyatul Masjid Ke Masail

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــاتُه

─━══★سببی نماز " تحیةالمسجد " ★══━─
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ مسجد میں جب باجماعت نماز پڑھنے کے لیے آتے ہیں تو وقت کی تنگی کی وجہ سے کھڑے رہتے ہیں چاہے ان کو مشقت ہی کیوں نا ہو رہی ہو۔حتی کہ اگر کسی بیٹھے ہوئے بھائی سے بات کرنی پڑے تو صحیح طرح بیٹھتے بھی نہیں بلکہ اکڑوں ہو کر (یعنی پنجوں کے پر وزن ڈال کر) بیٹھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مسجد میں تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھنا منع ہے ۔
⛔ تحیۃ المسجد کی تعریف اور حکم:
تحیۃ المسجد دو رکعات نمازہے جس کو نمازی مسجد میں داخل ہوتے وقت ادا کرتا ہے۔اور یہ نماز مسجد میں داخل ہونے والے ہر شخص کے حق میں بالاجماع سنت ہے ۔[فتح الباری:۲/۴۰۷]
⛔ تحیۃ المسجد سے مستثنی لوگ:
مسجد کا خطیب تحیۃ المسجد سے مستثنی ہے ،جب وہ خطبہ جمعہ کے لئے مسجد میں داخل ہوتو دو رکعات تحیۃ المسجد نہیں پڑھے گا۔اسی طرح مسجد کا متولی بھی مستثنی ہے ،کیونکہ اس کا بار بار مسجد میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور تحیۃ المسجد کی ان رکعات کو بار بار پڑھنے سے مشقت پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح وہ شخص بھی مستثنی ہے جو مسجد میں داخل ہوا تو امام فرض نماز پڑھا رہا تھا یا فرض نماز کی اقامت ہو چکی تھی،کیونکہ فرض نماز کی موجودگی تحیۃ المسجد سے مستغنی کر دیتی ہے۔[سبل السلام:۱/۳۲۰]
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد کا تکرار مستحب ہے ،جب بھی کوئی مسجد میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد پڑھے۔یہ قول امام نووی ؒ کا ہے اور اسی کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیا ہے اور حنابلہ کی کلام کا ظاہر بھی یہی ہے۔[المجموع:۴/۵۷]
امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ ظاہر حدیث سے تحیۃ المسجد مشروع ہے اگرچہ کثرت دخول ہی کیوں نہ ہو۔[نیل الأوطار:۳/۷۰]
⛔ تحیۃ المسجد کی حکمت:
تحیۃ المسجد پڑھنے سے دل میں مسجد کا احترام پیدا ہوتاہے ،یہ بمنزل سلام کے ہے کہ آدمی جب کسی کے گھر جاتا ہے تو گھر والے کوملتے وقت سلام کہتا ہے۔امام نووی ؒفرماتے ہیں :کہ بعض نے تحیۃ المسجد کو مسجد کے رب کو سلام قرار دیا ہے ،کیونکہ اس کامقصدحصول قرب الہی ہے نہ کہ حصول قرب مسجد، جیسا کہ بادشاہ کے گھر میں داخل ہونے والا بادشاہ کو سلام عرض کرتا ہے نہ کہ اس کے گھر کو۔
[حاشیہ ابن قاسم: ۲/ ۲۵۲]
⛔ تحیۃ المسجد سے متعلق مسائل
➖ مسئلہ ➊
تحیۃ المسجد تمام اوقات میں مشروع ہے،کیونکہ یہ ایک سببی نماز ہے کہ جب بھی آپ مسجد میں داخل ہوں تحیۃ المسجد ادا کریں۔اس کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیاہے۔[الفتاوی لابن تیمیہ]اور شیخ صالح العثیمین ؒ وشیخ ابن بازؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ [الشرح الممتع لابن عثیمین:۴/۱۷۹،وفتاوی مھمۃ تتعلق بالصلاۃلابن باز ؒ]
➖ مسئلہ ➋
تحیۃ المسجد کی نماز مسجد میں داخل ہوتے وقت بیٹھنے سے پہلے پہلے ادا کی جائے گی ،اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بیٹھ گیا تو اس کے لئے اس کی مشروعیت ختم ہو جائے گی کیونکہ بیٹھ جانے سے اس کا وقت ہی فوت ہو گیا۔
➖ مسئلہ ➌
جو شخص جہالت کی وجہ سے یا بھول کر بیٹھ گیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اٹھ کر دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کرے کیونکہ وہ معذور ہے ۔بشرطیکہ بیٹھنے کا فاصلہ زیادہ لمبا نہ ہوا ہو۔[فتح الباری:۲/۴۰۸]
➖ مسئلہ ➍
تحیۃ المسجد ادا کرنا سنت ہے ،واجب نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔اس کے سنت ہونے پر امام نووی ؒنے اجماع نقل کیا ہے ۔ [نیل الاوطار:۳/۶۸]
➖ مسئلہ ➎
جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور مؤذن اذان دے رہا ہو تو بہتر یہی ہے کہ پہلے اذان کا جواب دیا جائے پھر تحیۃ المسجد ادا کی جائے تاکہ اذان کے جواب کی فضیلت کو بھی حاصل کیا جا سکے۔ہاں البتہ جمعہ کے دن اگر خطبہ کی اذان ہو رہی ہے تو بہتر یہی ہے کہ اذان کا جواب دینے کی بجائے تحیۃ المسجد ادا کر لی جائے کیونکہ خطبہ جمعہ سننا زیادہ اہم ہے۔[الانصاف:۱/۴۲۷]
➖ مسئلہ ➏
جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور خطیب خطبہ جمعہ دے رہا ہو تو اس کے لئے تحیۃ المسجد ادا کرنا مسنون ہے ،اور ترک کر دینا مکروہ ہے ۔[الفتاوی لابن تیمیہؒ:۲۳/۲۱۹]؛کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ:((فلا یجلس حتی یصلی رکعتین)) [بخاری،مسلم]’’وہ دو رکعات ادا کرنے سے پہلے نہ بیٹھے۔‘‘دوسری حدیث میں ہے:((فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما)) [بخاری،مسلم]’’اس کو چاہئیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں ادا کرے ۔‘‘اگر خطیب آخر خطبہ میں ہو اور غالب گمان یہی ہو کہ تحیۃ المسجد ادا کرنے سے فرض نماز کا شروع حصہ نہیں پا سکے گا ،تو نماز قائم ہونے تک کھڑا ہو جائے اور بیٹھے نہیں تا کہ فرض نماز ہی تحیۃ المسجدکے قائم مقام ہو جائے۔
➖ مسئلہ ➐
مسجد حرام کا تحیۃ اکثر فقہاء کے نزدیک طواف ہے ۔امام نووی ؒ فرماتے ہیں:((تحیۃ المسجد الحرام الطواف فی حق القادم ،أما المقیم فحکم المسجد الحرام وغیرہ فی ذلک سوائ))[فتح الباری:۲/۴۱۲]’’باہر سے آنے والے کے لئے مسجد حرام کا تحیۃ طواف ہے۔جب کہ مقیم کے لئے مسجد حرام اور باقی مساجد سب کا ایک ہی حکم ہے۔‘‘شاید امام نووی ؒ کی مراد وہ شخص ہو جو طواف کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔البتہ جو شخص طواف کرنا چاہتاہے اس کو یہ طواف تحیۃ المسجدکی دو رکعات سے مستغنی کر دے گا۔اور یہی درست ہے۔[حاشیہ ابن قاسم:۲/۴۸۷]
➖ مسئلہ ➑
نمازوں سے پہلے کی سنن تحیۃ المسجد سے کفایت کر جائیں گی،کیونکہ تحیۃ المسجد کا مقصود مسجد میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلا کام نماز ادا کرنا ہے ،جو ان سنن کی ادائیگی سے پورا ہو جاتاہے۔اور اگر کوئی شخص سنن یا فرائض کے ساتھ ساتھ تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لیتا ہے تو دونوں ہی حاصل ہو جائیں گی۔امام نووی ؒ نے اس کو بلا اختلاف نقل کیا ہے۔[کشاف القناع:۱/۴۲۳]
➖ مسئلہ ➒
تحیۃ المسجد ایک رکعت اداکرنے یا نماز جنازہ پڑھنے یا سجدہ سہو وسجدہ شکر اد اکرنے سے حاصل نہیں ہو گی۔[کشاف القناع ]
➖ مسئلہ ➓
اگر امام مسجد فرض نماز کا ٹائم ہو جانے کی وجہ سے فرض نماز کے ساتھ تحیۃ المسجد سے کفایت کرنا چاہے تو اس کو یہی کافی ہو جائے گا۔[سبل السلام :۱/۳۲۹]’’حضرت جابرسے روایت ہے کہ بلال سورج ڈھل جانے پر اذان کہہ دیا کرتے تھے اور اس وقت تک اقامت نہیں کہتے تھے جب تک نبی کریم ﷺ کو دیکھ نہ لیتے ،جب اللہ کے نبی ﷺ گھر سے نکلتے تو وہ اقامت کہہ دیتے۔‘‘[مسلم ]اور اگر امام بیٹھنے کی نیت سے آئے تو اس کے حق بھی میں حدیث کے عموم کی وجہ سے تحیۃ المسجد مشروع ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((اذا دخل أحد کم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتین))[بخاری ،مسلم]’’تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘صحراء میں نماز کے وقت تحیۃ نہیں ہے۔[الفواکہ العدیدیہ:۱/۹۹]الا یہ کہ راستے پر موجود مسجد میں آپ نماز پڑھ رہے ہوں تب تحیۃ المسجد ادا کیجائے گی۔فرض نماز کے ساتھ اگر تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لی جائے تو کافی ہوجائے گا۔
➖ مسئلہ ⓫
امام کے لئے جمعہ اور نماز عید سے پہلے تحیۃ المسجد مشروع نہیں ہے ،بلکہ جمعہ کو خطبہ اور عید کے دن نماز عید سے ابتداء کرے گا۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا۔لیکن مقتدی کے لئے بیٹھنے سے پہلے پہلے تحیۃ المسجد مشروع ہے ۔اگر نماز عید دیوار سے باہر ادا کی جارہی ہے تو تحیہ مشروع نہیں ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللّٰہ عنھا فرماتی ہیں کہ:((أمرنا أن نخرج العواتق،والحیض فی العیدین ،یشھدن الخیر ودعوۃ المسلمین ،ویعتزل الحیض المصلی))[بخاری ،مسلم]’’ہمیں حکم دیا گیا کہ سب عورتوں کو عید گاہ کی طرف نکالیں حتی کہ حیض والیوں کو بھی ،تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو سکیں،لیکن حکم دیا گیا کہ حیض والی عورتیںعید گاہ سے دور رہیں۔‘‘یہی مذہب امام شافعی ؒکا بھی ہے اور اسی کو شیخ صالح العثیمین ؒنے اختیار کیا ہے ۔
➖ مسئلہ ⓬
اگر کسی شخص نے فرض نماز ادا کر لی ہو اور پھر وہ کسی مسجد میں حاضر ہوا تو وہاں فرض نماز کھڑی تھی تو اس کے لئے اس فرض نماز میں داخل ہو جانا مسنون ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ثابت ہے:((اذا صلیتما فی رحالکما ثم أتیتما مسجد جماعۃ فصلیا معھم ، فانھا لکما نافلۃ))[رواہ الترمذی]’’جب تم دونوں نے اپنی رہائش پر نماز پڑھ لی پھر مسجد میں آئے تو ان مسجد والوں کے ساتھ بھی نماز پڑھو،یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔‘‘
⛔ فجر کی اذان کے بعد نوافل اور تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم

فجر کی اذان اور اقامت میں کافی وقت ہوتا ہے اس لئے مسجد میں پہلے حاضر ہونے والے نمازی سنت کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھنا چاہتے ہیں اورسوال کرتے ہیں کہ کیا فجر کی اذان کے بعد اگر ہم سنت ادا کرلیں تو نوافل ادا کرسکتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل صرف دو رکعت سنت پڑھنا منقول ہے ۔ اس لئے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل دو رکعت فجر کی سنت کے علاوہ نوافل پڑھنا مکروه ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے : لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ (سنن الترمذي:427)
ترجمہ: طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی صلاۃ نہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی صلاۃ نہیں۔
اس حدیث کو شیخ البانی ، احمد شاکر اور شعیب ارناؤط نے صحیح کہا ہے ۔
صحیح مسلم میں حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں:كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ، إذا طلع الفجرُ ، لا يُصلِّي إلا ركعتَينِ خفيفتَينِ .(صحيح مسلم:723)
ترجمہ: جب فجر طلوع ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ صرف دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی اذان کے بعد فرض سے پہلے صرف دو رکعت سنت ادا کرنا چاہئے اورنبی ﷺ صحابہ کرام کو دو سے زائد رکعت پڑھنے سے منع کیا کرتے تھے ۔ جناب یسار مولیٰ ابن عمر کہتے ہیں :
رآني ابنُ عمرَ وأنا أصلِّي ، بعدَ طلوعِ الفجرِ ، فقالَ : يا يَسارُ ، إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ خرجَ علينا ونحنُ نصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ ، فقالَ : ليبلِّغ شاهدُكم غائبَكم ، لا تصلُّوا بعدَ الفجرِ إلَّا سجدتينِ( صحيح أبي داود:1278)
ترجمہ:سیدنا ابن عمر ؓ نے مجھے دیکھا کہ میں طلوع فجر کے بعد نماز پڑھ رہا تھا تو انہوں نے فرمایا : اے یسار ! رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم یہ نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا :تمہارا حاضر ( موجود ) شخص اپنے غائب کو بتا دے کہ سوائے دو رکعتوں کے طلوع فجر کے بعد نماز نہ پڑھا کرو ۔
عبداللہ بن بحینہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مرَّ برجُلٍ يصلِّي . وقد أُقيمت صلاةُ الصبحِ . فكلَّمه بشيءٍ ، لا ندري ما هو . فلما انصرفْنا أَحطْنا نقول : ماذا قال لك رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ؟ قال : قال لي " يوشِكُ أن يُصلِّيَ أحدُكم الصبحَ أربعًا " (صحيح مسلم:711)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرے جونمازپڑھ رہاتھا جبکہ فجرکی نمازکی اقامت ہوچکی تھی پس آپ نے کچھ کہا مگر پتہ نہیں کیا کہا۔ جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو سارے اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور پوچھ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہیں کیا کہا؟توانہوں نے کہاکہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھناچاہئے سوائے فرض کے کیونکہ نبی ﷺ نے اس صحابی کو منع کیا جو اقامت کے بعد بھی نماز ادا کررہے تھےاور اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ فرض سے پہلے صرف دو رکعتیں ہیں۔
شیخ البانی ارواء الغلیل میں فرمایا ہیں کہ صحیح سند کے ساتھ بیہقی نے روایت ہے :
عن سعيد بن المسيب أنه رأى رجلا يصلي بعد طلوع الفجر أكثر من ركعتين يكثر فيها الركوع والسجود فنهاه فقال : يا أبا محمد ! أيعذبني الله على الصلاة ؟ ! قال : لا ولكن يعذبك على خلاف السنة(إرواء الغليل :2 / 236)
ترجمہ: سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو فجر کے طلوع ہونے کے بعد دو رکعتوں سے زیادہ رکوع اور سجود کرتے دیکھا تو اس کو منع کیا ۔اس شخص نے کہا کہ اسے ابومحمد! کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا ؟ تو ابن مسیب نے کہا کہ نہیں ، لیکن سنت کی مخالفت پر اللہ تمہیں عذاب دے گا۔
شیخ البانی نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ ابن المسیب ایسے بدعتیوں کے لئے مضبوط ہتھیار تھے جو نماز وروزہ سے متعلق بدعتیوں کو اچھا کرپیش کرتے تھے ۔
ان تمام ادلہ سے معلوم ہوگیا کہ جنہوں نے فجر کی اذان کے بعد سنت کی ادائیگی کرلی ہو وہ مزید کوئی نفل نہ پڑھے بلکہ فجر کی جماعت کا انتظار کرے یہاں تک کہ فجر پڑھ لے ۔ امام ترمذی نے اذان فجر کے بعد نوافل کی ادائیگی پر کراہت لکھا ہے بلکہ اس کراہت پر اجماع ذکر کیا ہے اور صاحب تحفہ نے بھی کہا کہ اس باب میں صراحت کے ساتھ احادیث کی دلالت کی وجہ سے میری نظر میں ان لوگوں کا قول راحج ہے جو مکروہ قرار دیتے ہیں ۔
یہاں ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جنہوں نے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلی ہو اور مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی جماعت میں کچھ وقت باقی ہے کیا وہ تحیہ المسجد پڑھ سکتا ہے ؟
فجر کی اذان کے بعد دو رکعت سنت کے علاوہ عام نفلی نماز نہیں ادا کرسکتے ہیں مگر تحیۃ المسجد سبب والی نماز ہے جنہوں نے گھر میں سنت ادا کرلی ہو وہ مسجد آئے اور دو رکعت پڑھنے کا وقت پائے تو تحیۃ المسجد ادا کرے گا ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا دخَل أحدُكمُ المسجدَ، فلا يَجلِسْ حتى يصلِّيَ ركعتينِ(صحيح البخاري:1167)
ترجمہ: تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔
اس حدیث کی روشنی میں علماء نے ممنوع اوقات میں بھی تحیۃ المسجد پڑھنا جائز کہا ہے لہذا جو آدمی گھر میں فجر کی سنت پڑھ چکا ہو وہ مسجد میں تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھ کر بیٹھے گا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لو صلى الراتبة في بيته صلى سنة الفجر في بيته ثم جاء إلى المسجد قبل أن تقام الصلاة؛ فإنه يصلي تحية المسجد حينئذ قبل أن يجلس؛ لأنه حينئذ ليس عنده سنة الفجر قد صلاها في بيته، فيصلي تحية المسجد ثم يجلس.(موقع شیخ ابن باز)
ترجمہ: اگر کوئی اپنے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلے پھر مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی نماز کھڑی ہونے میں وقت ہے تو وہ اس وقت بیٹھنے سے قبل تحیۃ المسجد پڑھے گا اس لئے کہ اس وقت اس پرفجر کی سنت پڑھنا باقی نہیں ہے کیونکہ اس نے گھر میں ادا کرلیا ہے پس وہ تحیۃ المسجد ادا کرے گا پھر بیٹھے گا۔
⛔ اوقاتِ ممنوعہ میں تحیةالمسجد
اس مسئلہ ميں اہل علم كے درميان اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن صحيح يہ ہے كہ سب اوقات ميں تحيۃ المسجد كى ادائيگى مشروع ہے، حتى كہ فجر اور عصر كى نماز كے بعد بھى اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث كا عموم ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى مسجد ميں جائے تو دو ركعت ادا كرنے سے قبل نہ بيٹھے"
متفق عليہ
اور اس ليے بھى كہ اسباب كى بنا پر ادا كى جانے والى نماز مثلا طواف كى دو ركعات، اور صلاۃ خسوف جو سورج گرہن كے وقت ادا كى جاتى ہے، اس ميں صحيح يہى ہے كہ ممنوعہ اوقات ميں يہ نمازيں ادا كى جائينگى، جس طرح كہ فرضى فوت شدہ نماز كى قضاء ادا كى جاتى ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طواف كى دو ركعتوں كے متعلق فرمان ہے:
" اے بنى عبد مناف اس گھر كا طواف كرنے والے كو نہ روكو، وہ جس وقت چاہے طواف كرے اور دن يا رات ميں جب چاہے نماز ادا كرے"
اسے امام احمد نے اور اصحاب سنن نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سورج گرہن كى نماز كے متعلق فرمايا:
" بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالى كى نشانيوں ميں سے دو نشانياں ہيں يہ كسى كى موت يا پيدا ہونے سے گرہن زدہ نہيں ہوتے"
۔( 1 / 332 )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ    ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
الشیخ قاری مصطفیٰ راسخ حفظہ اللہ
الشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
الشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS