find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Qurbani ka Gost kitne dino tak rakh kar Kha Sakte hai, kya Jyada dino tak istemal karne se Qurbani jayez nahi hota?

Kya Qurbani ka Gost 4-5 dino tak jama kar sakte hai?

Kya Qurbani ka Gost Jyada dino tak Freeze me ya kisi tarah rakh kar istemal karne se Qurbani jayez nahi hoga?

Sawal: Qurbani ka Gost jyada se jyada kitne dino tak istemal kar sakte hai? Kya Qurbani ka Gost 3 din se jyada Istemal karne se Pyare Nabi Sallahu Alaihe wasallam ne mana farmaya tha?

" मै इतने पैसे लगाकर कुर्बानी नही करूँगा बल्कि इसी पैसे से किसी गरीब की मदद कर दूंगा .

Aqeeqa ke liye Cow aur Camel me kitne baccho ka aqeeqa ho sakta hai?

Eid Ki Namaj padhne ka Sunnat tarika?

Kya Aeibdar Janwaro ki Qurbani Ho sakti hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-345"

سوال- قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ کتنے دن تک استعمال کر سکتے ہیں؟ نیز کیا قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ استعمال کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تھا؟

Published Date 7-8-2020

جواب..!
الحمدللہ..!

*کچھ لوگ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں، یا برا محسوس کرتے ہیں، اور دلیل دیتے ہیں کہ صاحب شریعت نے اس سے منع کیا تھا،جب کہ وہ ممانعت وقتی تھی، بعد میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اسکی اجازت دے دی تھی ، کہ قربانی کا گوشت کھاؤ بھی اور صدقہ بھی کرو اور  ذخیرہ بھی کرو، پھر اس حکم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قربانی کے گوشت کو کئی کئی دنوں اور مہینوں تک ذخیرہ کرتے اور کھاتے تھے*

دلائل درج ذیل ہیں..!

صحیح بخاری
کتاب: قربانیوں کا بیان
باب: قربانی کا گوشت کس قدر کھایا جائے اور کس قدر جمع کیا جاسکتا ہے
حدیث نمبر: 5569
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا، ‏‏‏‏‏‏وَادَّخِرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا.
ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن الاکوع ؓ نے بیان کیا کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔  (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں) ۔ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

صحیح مسلم
کتاب: قربانی کا بیان
باب: ابتدائے اسلام میں تین دن کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے کی ممانعت اور پھر اس حکم کے منسوخ ہونے اور پھر جب تک چاہئے قربانی کا گوشت کھاتے رہنے کے جواز کے بیان میں
حدیث نمبر: 1971
(اسلام360 حدیث نمبر-5103)
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ نَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَکْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِعَمْرَةَ فَقَالَتْ صَدَقَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَی زَمَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادَّخِرُوا ثَلَاثًا ثُمَّ تَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ النَّاسَ يَتَّخِذُونَ الْأَسْقِيَةَ مِنْ ضَحَايَاهُمْ وَيَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاکَ قَالُوا نَهَيْتَ أَنْ تُؤْکَلَ لُحُومُ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ فَقَالَ إِنَّمَا نَهَيْتُکُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَکُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا
ترجمہ:
اسحاق بن ابرہیم حنظلی، روح، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، عبداللہ بن واقد ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن واقد نے سچ کہا ہے میں نے حضرت عائشہ ؓ کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں عیدالاضحی کے موقع پر کچھ دیہاتی لوگ آگئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قربانیوں کا گوشت تین دنوں کی مقدار میں رکھو پھر جو بچے اسے صدقہ کردو پھر اس کے بعد صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ لوگ اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیزے بناتے ہیں اور ان میں چربی بھی پگھلاتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اور اب کیا ہوگیا ہے؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا آپ ﷺ نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے ان ضرورت مندوں کی وجہ سے جو اس وقت آگئے تھے تمہیں منع کیا تھا لہذا اب کھاؤ اور کچھ چھوڑ دو اور صدقہ کرو۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح کرتے ہیں ہوئے کہتے ہيں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :
( میں نے تو تمہيں ان آنے والوں کی وجہ سےروکا تھا ) یہاں پران کمزور اورغریب دیھاتی لوگوں کی غمخواری کرنے کے لیے روکنا مراد ہے ،
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ( میں نے توتمہيں ان آنےوالوں کی وجہ سے روکا تھا جوآئے تھے لھذا کھاؤ اور ذخیرہ کرو اورصدقہ بھی کرو ) یہ قربانی کا گوشت تین دن سے زيادہ جمع کرنے کی ممانعت ختم ہونے کی صراحت ہے ، اور اس میں کچھ گوشت صدقہ کرنے اورکھانے کا بھی حکم ہے ۔
(شرح مسلم للنووی )

جامع ترمذی
کتاب: قربانی کا بیان
باب: تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 1510
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ،‏‏‏‏ وَغَيْرُ وَاحِدٍ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  كُنْتُنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ لِيَتَّسِعَ ذُو الطَّوْلِ عَلَى مَنْ لَا طَوْلَ لَهُ،‏‏‏‏ فَكُلُوا مَا بَدَا لَكُمْ وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَنُبَيْشَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَقَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَأُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  میں نے تم لوگوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا تھا تاکہ مالدار لوگ ان لوگوں کے لیے کشادگی کردیں جنہیں قربانی کی طاقت نہیں ہے، سو اب جتنا چاہو خود کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ اور  (گوشت)  جمع کر کے رکھو ١ ؎۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
١ - بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
٢ - اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے،  ٣ - اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، نبیشہ، ابوسعید، قتادہ بن نعمان، انس اور ام سلمہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔  
تخریج دارالدعوہ:
صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧/١٠٦)، والأضاحي ٥ (٩٧٧/٣٧)،
سنن ابی داود/ الأشربة ٧ (٣٦٩٨)،
سنن النسائی/الجنائز ١٠٠ (٢٠٣٤)،
سنن ابی داود/ الأضاحي ٣٦ (٤٤٣٤، ٤٤٣٥)، والأشربة ٤٠ (٥٦٥٤- ٥٦٥٦) (تحفة الأشراف: ١٩٣٢)، و مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٦١) (صحیح  )  
وضاحت: ١ ؎:
کیونکہ اب اللہ نے عام مسلمانوں کے لیے بھی کشادگی پیدا کردی ہے اور اب اکثر کو قربانی میسر ہوگئی ہے لہذا گوشت ذخیرہ کر سکتے ہو،
قال الشيخ الألباني:  صحيح، الإرواء (4 / 368 - 369)  
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1510

صحیح بخاری
کتاب: کھانے کا بیان
باب: اگلے لوگ اپنے گھروں اور سفر میں کسی قسم کا کھانا اور گوشت وغیرہ ذخیرہ کر کے رکھتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اور اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کے لئے ایک سفرہ (توشہ دان) بنایا تھا
حدیث نمبر: 5423
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَائِشَةَ:‏‏‏‏ أَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَهُ إِلَّا فِي عَامٍ جَاعَ النَّاسُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَادَ أَنْ يُطْعِمَ الْغَنِيُّ الْفَقِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنَّا لَنَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَنَأْكُلُهُ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ مَا اضْطَرَّكُمْ إِلَيْهِ ؟ فَضَحِكَتْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ. وَقَالَ ابْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ بِهَذَا.
ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ  میں نے عائشہ ؓ سے پوچھا کیا نبی کریم  ﷺ  نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نبی کریم  ﷺ  نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ صرف ایک سال اس کا حکم دیا تھا جس سال قحط پڑا تھا۔ نبی کریم  ﷺ  نے چاہا تھا  (اس حکم کے ذریعہ)  کہ جو مال والے ہیں وہ  (گوشت محفوظ کرنے کے بجائے)  محتاجوں کو کھلا دیں اور ہم بکری کے پائے محفوظ رکھ لیتے تھے اور اسے پندرہ پندرہ دن بعد کھاتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کرنے کے لیے کیا مجبوری تھی؟ اس پر ام المؤمنین ؓ ہنس پڑیں اور فرمایا آل محمد  ﷺ  نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر کبھی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔ اور ابن کثیر نے بیان کیا کہ ہمیں سفیان نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی

سنن ابن ماجہ
کتاب: کھانوں کے ابواب
باب: دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت
حدیث نمبر: 3313
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْعَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَقَدْ كُنَّا نَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَيَأْكُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْأَضَاحِيِّ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ  ہم لوگ قربانی کے گوشت میں سے پائے اکٹھا کر کے رکھ دیتے پھر رسول اللہ ﷺ پندرہ روز کے بعد انہیں کھایا کرتے تھے۔  
تخریج دارالدعوہ:
صحیح البخاری/الأطعمة ٢٧ (٥٤٢٣)،
( سنن الترمذی/الأضاحي ١٤ (١٥١١)،
(تحفة الأشراف: ١٦١٦٥)،
وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/١٢٨، ١٣٦)، (حدیث مکرر ہے، دیکھے: ٣١٥٩) (صحیح  )

صحیح بخاری
کتاب: کھانے کا بیان
باب: اگلے لوگ اپنے گھروں اور سفر میں کسی قسم کا کھانا اور گوشت وغیرہ ذخیرہ کر کے رکھتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اور اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کے لئے ایک سفرہ (توشہ دان) بنایا تھا
حدیث نمبر: 5424
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا نَتَزَوَّدُ لُحُومَ الْهَدْيِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ. تَابَعَهُ مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَطَاءٍ:‏‏‏‏ أَقَالَ حَتَّى جِئْنَا الْمَدِينَةَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا.
ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے عطاء نے اور ان سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ  (مکہ مکرمہ سے حج کی)  قربانی کا گوشت ہم نبی کریم  ﷺ  کے زمانہ میں مدینہ منورہ لاتے تھے۔ اس کی متابعت محمد نے کی ابن عیینہ کے واسطہ سے اور ابن جریج نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کیا جابر ؓ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ آگئے؟ انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا۔

حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي يَزِيدَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنِ امْرَأَتِهِ ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : قَدِمَ عَلَيْنَا عَلِيٌّ مِنْ سَفَرٍ فَقَدَّمْنَا إِلَيْهِ مِنْهُ، فَقَالَ : لَا آكُلُهُ حَتَّى أَسْأَلَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَتْ : فَسَأَلَهُ عَلِيٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كُلُوهُ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ إِلَى ذِي الْحِجَّةِ ".
۔ یزید بن ابی یزید انصاری اپنی بیوی سے بیان کرتے ہیں کہ اس نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے قربانیوں کے گوشت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کسی سفر سے ہمارے پاس واپس آئے، ہم نے ان کو قربانی کا گوشت پیش کیا، انھوں نے کہا: میں اس وقت تک یہ نہیں کھاؤں گا، جب تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھ نہیں لوں گا، پھر جب انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس گوشت کو ایک ذوالحجہ سے دوسرے ذوالحجہ تک کھا سکتے ہو،
(مسند احمد حدیث نمبر-25218)
یہ سند ضعیف ہے مگر روائیت حسن ہے،
(شعيب الأرنؤوط تخريج المسند 25218 • حسن )
(والطحاوي في شرح معاني الآثار6282)
(صحیح ابن حبان حدیث نمبر-5933)
(الألبانی السلسلة الصحيحة ٧‏/٢٩٨ • إن كان يزيد سمعه من عائشة فصحيح وإلا فحسن لغيره)
(حكم الحديث: صحیح او حسن لغیرہ)

*مذکورہ تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت بندہ خود بھی کھائے دوست ، احباب کو تحفہ بھی دے اور صدقہ بھی کرے۔ ذخیرہ بھی کرے، وہ ذخیرہ تین دن کے لیے کرے یا تین مہینے کے لیے یا سال کیلئے کرے جائز ہے،*

*لیکن ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے آس پاس لوگوں کی ضروریات کو دیکھ لے اگر لوگ قربانیاں کم کرتے ہیں اور ضرورت مند زیادہ ہیں تو بہتر ہے زیادہ تر صدقہ کرے، لیکن اگر قربانیاں کرنے والے زیادہ ہیں اور محتاج کم ہیں تو جتنے دن کیلئے چاہے جتنا چاہے ذخیرہ کر سکتا ہے،اس میں کوئی گناہ اور کوئی حرج نہیں،*

*قربانی کا گوشت تھوڑا یا زیادہ خود کھانا یا ذخیرہ کرنا جائز ہے لیکن بہتر ہے کہ تین حصے کرے اور پھر اپنا حصہ جتنے دن مرضی کھائے اور ذخیرہ کرے*

 امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں:
ہم عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث کا مذھب رکھتے ہيں جس میں ہے ( وہ خود ایک تہائي کھائے اورایک تہائي جسے چاہے کھلائے ، اورایک تہائي مساکین وغرباء پرتقسیم کردے ) ۔
اسے ابوموسی اصفہانی نے الوظائف میں روایت کیا ہے اوراسے حسن کہا ہے ، اورابن مسعود ، ابن عمررضي اللہ تعالی عنہم کا قول بھی یہی ہے ، اورصحابہ کرام میں سے کوئي ان دونوں کا مخالف نہيں ۔
(دیکھیں : المغنی ( 8 / 632 )

*بعض لوگ بلاوجہ گوشت ذخیرہ کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں، اور لطیفے بناتے ہیں، یہ سرا سر جہالت ہے*

جب قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے مستحب ہیں، اور  پھر اپنا حصہ چاہے تو سال بھر کھائے یا چاہے تو ایک دن میں کھا لے، اس پر بلا وجہ کا اعتراض نہیں کرنا چاہیے،

اور آخری بات کہ گوشت ذخیرہ وہی کرتے ہیں ، جو درمیانے طبقے کے لوگ ہیں، جو بازار سے خرید نہیں سکتے،اور ان درمیانے طبقہ کے لوگوں اور حالیہ دور کے غرباء اور مساکین میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہے،

فرق اتنا ہے کہ فقیر /غرباء مہینے میں ایک بار گوشت کھاتے ہونگے

تو یہ درمیانے طبقے والے ہفتے میں ایک بار،۔

 غرباء پاؤ خریدتے ہیں تو وہ کلو خرید لیتے ہونگے، بس...؟

لیکن سچ یہ ہے کہ غرباء اور مساکین کی طرح قربانی کرنے والے اکثر درمیانے طبقے کے  لوگ بھی سال بعد قربانی پر ہی جی بھر کے گوشت کھاتے ہیں، اور وہ بھی اپنے تیسرے حصے کا، حالانکہ اس تیسرے حصے میں سے بھی وہ کچھ حصہ ان لوگوں کو بانٹ دیتے ہیں جو مساکین گوشت لینے دیر سے پہنچتے ہیں،
لہذا گوشت ذخیرہ کرنے والوں پر بلاوجہ تنقید نہیں کرنی چاہیے،

سوال_ اونٹ اور گائے کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنے لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟ اور اگر حصہ داروں میں سے کوئی شخص بے نماز یا مشرک ہو یا اسکی آمدن حرام کی ہو یا حصے داروں میں سے کسی ایک شخص کی قربانی کی بجائے صرف گوشت کی نیت ہو تو کیا اسکی وجہ سے باقی لوگوں کی قربانی بھی نہیں ہو گی؟

نوٹ_

*یاد رہے کہ پوسٹ کا اصل مقصد گوشت کو ذخیرہ کرنے کی ترغیب دینا نہیں، بلکہ  مقصد ان لوگوں کے اعتراض کا جواب دینا ہے جو بلاوجہ قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے منع کرتے ہیں.

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

((قربانی کے گوشت کی تقسیم کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر-75))

(قربانی کے باقی تمام مسائل کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-59 سے 77 تک))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Jab Bagdad ke Khalifa ne apne Bete ki Shadi ke liye pure Shahar me Hafija ladki ki talash karwa diya.

Aaj ki Khawateen ne Deen se doori ikhtiyaar ki to use Deen se door kar diya gaya.
Jin Auraton ne Sahi raste se Bhatakna chaha unhe gumrah Kar diya gaya.

آج کی عورت نے بھٹکنا پسند کیا تو اسے بھٹکا دیا گیا ہے*...

بغداد کے ایک خلیفہ کو اپنےبیٹوں بیٹے کی شادی کرنا تھی... انہوں نے پورے شہر میں اعلان کروا دیا کہ جس گھر میں جوان لڑکی ہے اور قرآن کی حافظہ ہے... وہ اپنے گھر کی کھڑکی میں رات کو ایک شمع روشن کر دے... اس رات پورے شہر کی کھڑکیوں میں شمعیں روشن تھیں...

ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا... اگلے دن اعلان کروایا کہ جس گھر میں موجود لڑکی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ موطا امام مالک کی بھی حافظہ ہے... وہ رات کو اپنے گھر کی کھڑکی میں شمع روشن کرے...

اور اس رات بھی آدھے سے زیادہ شہر کی کھڑکیوں پہ شمعیں روشن تھیں...

کتنا حسین منظر ہو گا نا... ہر گھر میں کھڑکی پہ روشن شمع صرف روشنی کی نوید نہیں سنا رہی تھیں بلکہ بتا رہی تھیں کہ اسلام کا مستقبل بھی بہت روشن ہے...

وہ شمعیں اس بات کی نوید تھیں کہ ایک بہترین نسل کو پروان چڑھانے کے لیے مناسب اور بہترین تعلیم دی جا چکی ہے... ان تمام جلنے والی روشنیوں کے لرزتے شعلوں میں ایک مضبوط اسلامی معاشرے کی جھلک نمایاں ہو رہی تھی...

آج اگر ایسا اعلان کر دیا جائے تو بہت کم گھروں میں شمع روشن ہو گی اور اگر دوسرے اعلان والی شرط ساتھ رکھ دی جائے تو یقینا پورا شہر ہی تاریک پڑا ہو گا...

پتا ہے ایسا کیوں ہوا ہے... کیونکہ آج ہمیں فضول اور بے بنیاد تعلیم کے چکروں میں پھنسا دیا گیا ہے ... آج کی عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے خواب دکھا کر اسے حساب کتاب کے بھنور میں دھنسا دیا گیا ہے...

آج کی عورت کو ایک مضبوط کردار کی حامل نسل کی تربیت اور ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد میں اہم کردار ادا کرنے جیسے اہم مقاصد سے بھٹکا دیا گیا ہے...

آج کی عورت کو ٹی وی پہ بیٹھ کے مارننگ شوز میں فضول عنوانات پہ مباحث اور فضول اور بےمقصد کاموں کی طرف اپنی ہی جیسی عورتوں کو راغب کرنے پر لگا دیا گیا ہے...

آج کی عورت کو انعامی مقابلوں میں چھینا جھپٹی کر کے دو ٹکے کے تحفے حاصل کرنے پر لگا دیا گیا ہے...

آج کی عورت نے بھٹکنا پسند کیا تو اسے بھٹکا دیا گیا ہے۔

Share:

Liberal Gang ka byan: Mai Qurbani Nahi karunga balki Usi Paiso se Kisi Gareeb ki madad karunga.

Waise log jo Qurbani Par Tankeed karte hue kahte hai ke Itne paise kharch karne se kya fayeda, Isi paiso se kisi Gareeb ko madad kiya jaye.

Kya yah Aazad khyal logo ke yaha Ghar me kam karne wale jise Naukar kahte hai, unka kitna khyal rakhte hai?

Itni Hi Gareebo ki fikr hai to fir aap jo bhi khate hai aur pehante hai waisa hi kisi gareeb ko Khana kyu nahi khilate aur Kapda (clothes) pahnate hai?

Apne partiyo me itne paise barbad kar dete hai, Shadiyo me Itne fijul kharchi karte hai, apne level ke logo ko bulaya jata magar kisi Gareeb ko invite kyu nahi karte, us paise se kisi Gareeb ki madad kyu nahi karte, Partiyo me khana itna nuksan ho jata hai magar pas me kitne Gareeb log Bhukhe so rahe hai iski khabar bhi nahi hogi in logo ko.

میں قربانی کا جانور لینے کا پروگرام بنا رہا تھا کہ فیس بک پر ایک لبرل صاحب نے پوسٹ ماری ہوئی تھی کہ میں قربانی نہیں کروں گا بلکہ ان پیسوں سے واٹر کولر خرید کر گھر کے باہر لگاؤں گا.

وجہ۔۔۔؟

غریب آدمی کو قربانی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا مگر میرے کولر سے غریب ٹھنڈا پانی پئیں گے

اچھا۔۔۔؟

ہم قربانی کا جانور لینے منڈی پہنچے منڈی میں گھاس پھوس اور چارہ بیچنے والے کون۔۔۔؟

غریب لوگ جن کی خوب بکری ہو رہی تھی

رسیاں زنجیریں اور کلے (کندے) بیچنے والے کون۔۔۔؟

غریب لوگ جن کی خوب کمائی ہو رہی تھی.

جس بیوپاری سے جانور خریدا وہ بھی ایک غریب تھا جسکا ذریعہ معاش جانور بیچنا تھا کہہ رہا تھا اس بار ان پیسوں سے بیٹی کی شادی کرنے کے قابل ہو جاؤں گا

لو جی ایک غریب کی بیٹی بیاہی جائے گی یہ سوچ کر دل خوش ہوا

گرمی بہت تھی منڈی کے باہر جوس شربت اور ٹھیلوں والے اپنی جیبیں گرم کر رہے تھے کیونکہ لوگ گلاسوں پہ گلاس پی رہے تھے یہ بھی غریب لوگ تھے جنکی بکری ہو رہی تھی ہم نے بھی املی آلو بخارے کا شربت پیا اور ایک لوڈر رکشا میں جانور لادا رکشے والا بھی غریب بندہ جنکی آج کل ڈیمانڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے صحیح کمائی ہورہی تھی.

گھر آئے تو جانور کا چارہ یاد آیا وہ بھی ایک غریب سے خریدا عید والے دن قربانی بھی ایک قصائی نے کی جو کہ غریب آدمی اس نے ایک دن میں اچھا خاصا کما لیا.

آخر گوشت کے تین شرعی حصے کئے اور تیسرا حصہ کئی غربا میں تقسیم کیا جن کو سارا سال گوشت میسر نہیں آیا.

قربانی کی کھال ایک مدرسے کو ہدیہ کی جہاں غریب بچوں کو مفت کھانا اور رہائیش ملتی ہے.

کولر والے بھائی۔ !!

دیکھ لو میرے ایک جانور نے کتنے غریبوں کو معاشی فائدہ پہنچایا۔ اور تیرے کولر سے پہلے بھی وہ لوگ پانی پی کر زندہ ہیں۔

اگر غریبوں کا اتنا احساس ہے تو جو کھانا خود کھاتے ہو وہی غریب کو کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو وہ بھی اسے پہناؤ اپنی دیگر فضول خرچیاں ختم کر کے غربا پر خرچ کرو اسلامی احکامات پر بلاوجہ تنقید اور بحث سے گریز کرو قربانی حکم خدا ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں۔

Share:

Kya Qurbani ke Janwar Ka khoon ka Pahla Qatra (boond) girne se Sara Gunah maaf ho jata hai?

Kya Qurbani ka khoon girne se Pichhle Gunah maaf ho jata hai?

Sawal: Social Media par ek riwayat forward kiya ja raha hai ke Qurbani ke Janwar ke Khoon (Blood) ka Pahla Qatra girte hi pichhle gunah maaf ho jate hai... yah riwayat sahi hai? Tafseel se bataye.

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-270”
سوال_ سوشل میڈیا پر ایک روایت گردش کر رہی ہے کہ قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔۔! کیا یہ روایت صحیح ہے ؟ مکمل تخریج بیان کریں؟

Published Date 28-7-2019

جواب:
الحمدللہ:

*سوال میں ذکر کردہ حدیث کہ ”قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی قربانی کرنے والے کے گناہوں کی مغفرت ہو جاتی۔۔یہ روایت تین طرح کے طرق سے مروی ہے مگر تینوں کے تینوں طرق ضعیف اور موضوع ہیں،جنکا ضعف بتلائے بغیر آگے پھیلانا یا بیان کرنا گناہ ہے اور یہ گناہ کرنے/ پھیلانے میں عبقری نامی پیج سر فہرست ہے جو اپنی پبلسٹی اور بزنس کے لیے من گھڑت وظائف،اور کمپیوٹرائزڈ عبادات شئیر کرتا رہتا ہے۔۔اللہ انہیں ہدائیت دے آمین*

اوپر ذکر کردہ روایات کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں!!

پہلی روائیت

📚امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا فَاطِمَةُ، قُومِي فَاشْهَدِي أُضْحِيَّتَكِ، فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ، وَقُولِي: إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. قَالَ عِمْرَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَكَ وَلِأَهْلِ بَيْتِكَ خَاصَّةً، فَأَهْلُ ذَاكَ أَنْتُمْ، أَوْلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟ قَالَ: بَلْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً
ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! تم کھڑی ہو اور اپنی قربانی (کے جانور) کا مشاہدہ کرو کیونکہ اسکے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے تمہارے گناہ جو تم نے کئے ہیں معاف ہو جائیں گے اور تم یہ کہو ”بیشک میری صلاۃ، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے“ عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ آپ اور آپکی آل کے لئے خاص ہے یا عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے.
تخریج:
(معجم الکبیر للطبرانی: ١٨/٢٣٩، )
(معجم الاوسط للطبرانی: ٣/٦٩ (٢٥٠٩)
( الدعاء للطبرانی: ١/١٢٤٤ (٩٤٧)،
( مسند الرویانی: ١/١٣٤ (١٣٨)،
(مستدرک حاکم: ٤/٣٤٨ (٧٦٠٤)،
(سنن الکبریٰ للبیہقی: ١٩/٣٢٦ (١٩١٩١)
( شعب الایمان للبیہقی: ٩/٤٥٢ (٦٩٥٧)
(فضائل الاوقات للبیہقی، صفحہ: ١٠٨ (حدیث: ٢٥٥) (الکامل لابن عدی: ٨/٢٦٧)

*اس حدیث کا مدار ابو حمزة الثُّمالی پر ہے اور وہ سعید بن جبیر سے روایت کرنے میں منفرد ہیں. ابو حمزة الثُّمالی کا نام ثابت بن ابی صفیہ دینار الثُّمالی ہے جو کہ ضعیف الحدیث ہے*

🚫امام الذهبي (٧٤٨ هـ) المهذب ٨/٣٨٦٩ • میں کہتے ہیں إسناده واهٍ (یعنی اسکی سند بہت زیادہ کمزور ہے،

🚫علامہ الهيثمي (٨٠٧ هـ)، مجمع الزوائد ٢٠-٤ • میں فرماتے ہیں ،
فيه أبو حمزة الثمالي وهو ضعيف

🚫الذهبي (٧٤٨ هـ)، المهذب ٤/١٩٩٨ • فيه ثابت بن أبي صفية أبو حمزة الثمالي ضعيف جداً، وسعيد عن عمران منقطع و يروى عن عمرو بن قيس عن عطية العوفي أحد الضعفاء – عن أبي سعيد الخدري مرفوعاً نحوه

🚫امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضعيف الحديث ليس بشيء

🚫اسی طرح یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ليس بشيء

🚫امام دارقطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضعیف. ومرۃ: متروك

🚫امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بثقة

(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
سؤالات البرقانی للدارقطنی: ٢٠،)
( الضعفاء والمتروکین للنسائی: ٦٩، )
(الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی: ١/١٥٨) (تہذیب الکمال للمزی: ٤/٣٥٧، )
(تہذیب التہذیب لابن ججر: ١/٢٦٤،)
( میزان الاعتدال للذہبی: ١/٣٦٣)

*اسی طرح ابو حمزة الثُّمالی سے روایت کرنے والے دوسرے راوی نضر بن اسماعیل البجلی بھی ضعیف راوی ہیں*

🚫یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ليس بشيء

🚫نسائی اور ابو زرعہ رحمہما اللہ کہتے ہیں: ليس بالقوى

(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
(میزان الاعتدال للذہبی: ٤/٢٥٥،)
( تہذیب الکمال للمزی: ٢٩/٣٧٢،)
( تہذیب التہذیب لابن حجر: ٤/٢٢١،)
( تقریب التہذیب لابن حجر: ٧١٣٠)

*لہٰذا یہ حدیث ابو حمزة الثُّمالی اور نضر بن اسماعیل البجلی کی وجہ سے ضعیف ہے*

🚫تنبیہ: امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اگرچہ صحیح کہا ہے لیکن یہاں ان سے سہو ہوا ہے. اسی لئے علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تعاقب کیا ہے، کہتے ہیں:
فيه أبو حمزة الثُّمالي، وهو ضعيف جدا
ترجمہ: اس کی سند میں ابو حمزة الثُّمالی ہے جو کہ سخت ضعیف ہے.

________&&&&_________

*اس حدیث کے دو شواہد بھی ہیں، ان میں سے ایک حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور دوسری علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے لیکن دونوں احادیث سخت ضعیف ہیں بلکہ ان میں سے ایک (یعنی حدیث علی) موضوع ہے جنکی تفصیل آگے آ رہی ہے*

_______&__________

دوسری روایت

📚حدیث ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – لِفَاطِمَةَ (عَلَيْهَا الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ): قُومِي إِلَى أُضْحِيَّتِكَ فَاشْهَدِيهَا فَإِنَّ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا يُغْفَرُ لَكِ مَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوبُكَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ خَاصَّةً أَوْ لَنَا وَلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟، قَالَ: بَلْ لَنَا وَلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً
ترجمہ: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! تم اپنی قربانی (کے جانور) کے پاس کھڑی ہو جاؤ اور اسکا مشاہدہ کرو (یعنی قربان ہوتے ہوئے دیکھو) کیونکہ اسکے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی تمہارے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے. فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ ہم اہل بیت لئے خاص ہے یا ہمارے اور عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ یہ ہمارے اور عام مسلمانوں کے لئے ہے.

(اس کو امام حاکم رحمہ اللہ نےمستدرک حاکم: ٤/٣٤٨ (٧٦٠٥) میں) (ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے علل الحدیث: ٤/٤٩٥ میں)
(اور امام عقیلی رحمہ اللہ نےالضعفاء الکبیر: ٢/٣٧ میں) «داود بن عبد الحميد عن عمرو بن قيس الملائي عن عطية عن أبي سعيد الخدري رضي اللّه عنه» کے طریق سے نقل کیا ہے

🚫اس سند میں دو علتیں ہیں:

1_ عطیہ یہ ابن سعد الکوفی ہے اور یہ ضعیف راوی ہے.
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
(تہذیب الکمال للمزی: ٢٠/١٤٥،)
( سیر اعلام النبلاء للذہبی: ٥/٣٢٥،)
( میزان الاعتدال للذہبی: ٣/٧٩،)
( تہذیب التہذیب لابن حجر: ٣/١١٤)

2_ داؤد بن عبدالحمید.
ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حديثه يدل على ضعفه

🚫عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روى عن عمرو بن قيس الملائي أحاديث لا يتابع عليها، منها: عن الملائي عن عطيةعن أبي سعيد يا فاطمة قومي إلى أضحيتك فاشهديها

🚫الألباني (١٤٢٠ هـ)، السلسلة الضعيفة ٦٨٢٨ • ضعيف

🚫ابن الملقن (٧٥٠ هـ)، البدر المنير ٩/٣١٣ • ضعيف

(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
میزان الاعتدال للذہبی: ٢/١١،)
( المغنی فی الضعفاء للذہبی: ١/٣١٩، )
(لسان المیزان لابن حجر: ٣/٤٠٣)

🚫امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق اپنے والد محترم ابو حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ حدیث منکر ہے.
(علل الحدیث لابن ابی حاتم: ٤/٤٩٥)

*لہٰذا یہ حدیث اس سند سے سخت ضعیف ہے*

______&_______

تیسری روایت

📚حدیث علی رضی اللہ عنہ:
[عن علي بن أبي طالب:] يا فاطِمةَ ! قُومِي فاشْهَدِي أُضْحِيَتَكِ؛ فإِنَّ لكِ بِأوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ من دَمِها مَغفِرةً لِكُلِّ ذَنْبٍ، أما إِنَّه يُجاءُ بِدَمِها ولِحْمِها فيُوضَعُ في مِيزانِكَ سَبعِينَ ضِعفًا فقال أبو سَعيدٍ: يا رسولَ اللهِ ! هذا لِآلِ مُحمدٍ خاصَّةً؛ فإِنَّهمْ أهْلٌ لِما خُصُّوا به من الخَيرِ، أو لِآلِ مُحمدٍ ولِلمُسلِمينَ عامَّةً؟
قال: لِآلِ مُحمدٍ خاصَّةً، ولِلمسلِمينَ عامَّةً
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا اے فاطمہ تو اپنی قربانی کے پاس حاضر رہ، بے شک اسکے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے، بے شک وہ لایا جائے گا(قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ اور رکھا جائے گا تمہارے میزان میں ستر گنا (بڑھا کر)ابو سعید خدری رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ آل محمد کے لیے خاص ہے بے شک وہ اسکے اہل ہیں جو انکو خصوصیت ملی ہے خیر کے ساتھ،
یا یہ آل محمد اور عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ آل محمد کا خاصہ بھی ہے اور عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے،

(اس کو عبد بن حمید نے اپنی مسند (المنتخب): ١/١١٩ ٧٨) میں) ( امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن الکبریٰ: ١٩/٣٢٦ (١٩١٩٠) میں( اور امام ابو قاسم اصبہانی رحمہ اللہ نے الترغیب والترھیب: ١/٢٤١ (٣٥٥) میں «سعيد بن زيد أخي حماد بن زيد عن عمرو بن خالد عن محمد بن علي عن آبائه عن علي رضي اللّه عنه»کے طریق سے مرفوعا بیان کیا ہے)

🚫یہ حدیث اس سند سے موضوع ہے.کیونکہ اس میں ایک راوی عمرو بن خالد (ابو خالد القرشی) ہے. اس پر سخت جرح کی گی ہے. کئی محدثین نے اسے کذاب کہا ہے.
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:
(تہذیب التہذیب لابن حجر: ٣/٢٦٧، )
(تہذیب الکمال للمزی: ٢١/٦٠٣)

🚫امام الذهبي (٧٤٨ هـ) المهذب ٨/٣٨٦٨ •
میں فرماتے ہیں، کہ
فيه عمرو كذاب ( اس میں عمرو کذاب راوی ہے

🚫علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو منکر کہا ہے.
(ضعیف الترغیب: ٦٧٤)

🚫الألباني (١٤٢٠ هـ)،
(السلسلة الضعيفة ٦٨٢٩ • موضوع )

*لہذا قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے مغفرت والی تینوں روایات ہی صحیح سند سے ثابت نہیں*

مآخذ محدث فورم
(تخریج از عمر اثری)

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

📚سوشل میڈیا پر احادیث کو بغیر تحقیق کے آگے شئیر کرنا اور علماء کا جھوٹی روایات بیان کرنا شرعی طور پر کیسا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ -242))

📚قربانی کے مسائل کے بارے پڑھنے کے لیے دیکھیں
( سلسلہ - 59 سے 78 تک)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Ek Haseen O Jameel Ladki jo hamesha Gareebo ki mazak Banaya karti thi, Allah ka azab kaise aaya us par?

Ek Chand jaisi khubsurat o ghamandi Ladki ka waqya.
Ek Haseen o jameel Ladki ka waqya jo Shadi karna hi nahi chahati thi.

چاند جیسی خوبصورت ذہین لڑکی ڈاکٹر بننے کے بعد بھی رشتے سے محروم رہ گئی ۔۔!

حضرت حافظ ذوالفقار احمد صاحب نے اپنے وعظ میں فرمایا کہ :

ہمارے ایک دوست تھے ، انہوں نے اپنی بیٹی کا واقعہ سنایا ، جو چاند جیسی خوبصورت تھی ، ذہین اتنی کہ میڈیکل کی ڈاکٹر بن گئی ۔

سینکڑوں رشتے اسکے آئے ، مگر اس میں تکبر تھا ، جو آتا اس کو حقارت سے ٹھکرا دیتی ، اس کی کہیں نظر جمتی ہی تھی ، نیک رشتے بھی آئے ، مال والے رشتے بھی آئے ، ذرا ماں باپ نے رشتے کی بات کی ، وہ اس میں دس عیب نکالتی کہ یہ بھی کوئی رشتہ ہے ، آ جاتے ہیں ٹکے ٹکے کے لوگ ، ہمیشہ تکبر کی بات کرتی ۔

ماں باپ اسے سمجھاتے ، بیٹی نعمت کی ناقدری نہ کرو ، اتنے رشتے ، جہاں تمہارا دل مطمئن ہوتا ہے ، بتاؤ ، ہم تمہارا رشتہ کر دیں گے ۔

اسے کوئی پسند ہی نہیں آیا ، خوبصورت سے خوبصورت نوجوان ، نیک سے نیک نوجوان ، بڑی عزت والی فیملی کے نوجوان ، ہر ایک کو حقارت سے ٹھکرا دیا ۔

حافظ ذوالفقار کہتے ہیں کہ میرے یہ دوست خود کہتے تھے :

میری بیٹی پر اللہ کی پکڑ آگئی ، اللہ کی پکر کیسی آئی کہ :

ایک مرتبہ اس نے کوئی آپریشن کیا تو اس آپریشن تھیٹر میں پتہ نہیں کیا ہوا کہ اس کے ہاتھ کی انگلیوں کی جلد مردہ ہونی شروع ہوگئی ۔

ایک دو مہینہ کے اندر دونوں ہاتھوں کی جلد مردہ ہوکر بوڑھوں جیسی ہوگئی ، اب ایسی حور پری ، لیکن ہاتھ دیکھو تو بوڑھوں والے ، ہر وقت ہاتھ چھپائے رکھتی ، دستانے پہنے رکھتی ، اب رشتے بھی آنے بند ہوگئے ، جو عورت آتی ، اسے دیکھتی ، اس کے ہاتھ دیکھتی اور کہتی مجھے اپنے بیٹے کیلئے یہ رشتہ نہیں لینا ۔

انتظار کرتے کرتے عمر بتیس سال ہوگئی ، اب اس کو پتہ چلا کہ اب میرا رشتہ کوئی نہیں آرہا ، اب وہ چاہتی کہ اب میرا کہیں رشتہ ہوجائے اور رشتہ کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا ، جتنا تکبر کرتی تھی ، اللہ نے اتنی ہی ناک رگڑوائی، اب نمازیں پڑھتی ہے ، اب سجدے کرتی ہے ، اب روتی ے ، اب دعائیں کرتی ہے ، اب اس کا رشتہ کرنے والا کوئی نہیں ، اس کے والد کوئی عمل ( وظیفہ ذکر ) پوچھنے آئے اور آ کر انہوں نے یہ خود تفصیل بتائی ۔

کہنے لگے : میری بیٹی اتنی پریشان ہے ، کہتی ہے کہ دنیا میں اللہ نے میری زندگی کو نشان ِ عبرت بنادیا ، اللہ نے حسن وجمال دیا تھا ، دماغ خراب ہوگیا ۔

جب اللہ تعالی نعمت دے تو انسان نعمت کی قدر کرے ، اللہ کے سامنے جھکے ۔

دیکھئے اللہ تعالی نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا تو کئی مرتبہ سزا ایسے ملتی ہے کہ بندے کو پتہ بھی نہیں چلتا ، اللہ تعالی ہمیں دنیا وآخرت کی رسوائی سے بچائے ۔ آمین ۔ ( خطبات فقیر )

عجیب و غریب واقعات ، ص : 195

Share:

Aaj kal 90% Ladkiyo se Muhabbat ke Wade aur Qasmein Khaye jate hai fir unhen Dhokha kyu milta hai?

Muhabbat aur Hawas Me kya fark hai?

Aaj kal takriban 90% Ladkiyo se Muhabbat ke wade aur Qasmein Khaye jate hai magar bad me unhe iske badle Dhoka milta hai.
Kya Parda karna Koi Fashion hai ya Choice?

Waisi Ladkiyaa Jo Halal rishto ko chhod kar Haram rishte me padi hui hai?

Aaj Muslim Khawateen ke Sar se Dupatta Kisne Hataya?

آج کی نواجوان نسل محبت اور حوس میں فرق کرنا نہیں جانتی ۔

سنو ! تم تو جانتی ہو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں اور یہ محبت میں تم سے مرتے دم تک کروں گا، مگر ہماری سچی محبت کے سفر میں شاید منزل ممکن نہیں۔ میرے لاکھ منانے کے باوجود میرے گھر والے ہماری شادی کے لئے نہیں مان رہے، اس لئے مجبور ہوں میں تم سے شادی نہیں کر سکتا، مگر ہم اپنے اس تعلق کو دوستی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ہم اچھے دوست بھی تو بن سکتے ہیں ناں۔

یہ وہ وعدے، قسمیں اور وہ تسلیاں ہیں جو  تقریبا 90 فیصد لڑکیوں کو کئی عرصے تک ایک بے نام رشتے میں منسلک ہونے کے بعد لڑکوں سے اکثر سننے کو ملتے ہیں۔

کبھی ذات کو بہانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی فیملی اسٹیٹس کو، کبھی ملازمت نہ ہونے کا بہانہ چلتا ہے تو کبھی تعلیم مکمل ہونے تک کا انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے اور کھبی بہتر مستقبل کے لئے بیرون ممالک جانا مجبوری بن جاتا ہے۔

لڑکی ایک طویل عرصہ تک ماں باپ کو دھوکہ دے کر چھپ چھپ کر اپنے محبوب سے ملنے کی كوشش کرتی ہے۔ کبھی کسی پارک میں تو کبھی کسی ریسٹورنٹ میں پیار کے دو پنچھی محبت کے گیت گنگناتے نظر آتے ہیں۔

محبت کے اقرار اور وفاؤں کے وعدے کیے جاتے ہیں۔

قربتیں بڑھتی ہیں اور محبت ایک خواہش کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ محبت کا یقین کرنے اور کرانے کے لیے تصویروں کا سہارا لیا جاتا ہے اور جب عاشق محبت اور محبوب کے ان امتحانات میں کامیاب ہوتے ہیں تو بات ہوٹل کے کمروں تک پہنچ جاتی ہے اور دونوں اس بے نامی رشتہ اور جھوٹی محبت میں ساری حدیں عبور کرتے جاتے ہیں۔

صیح کہتے ہیں محبت میں مبتلا افراد ہوش و حواس سے عاری ہوتے ہیں۔

میری تحریر پر آپ کے اعتراضات ممکن ہیں مگر کیا کریں بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔

آج کل کے دور میں ہر چیز ایڈوانس اور تیز رفتار ہوگئی ہے اور موبائل فونز نے تو ویسے ہی نام نہاد عاشقوں کے کام آسان کر دیئے ہیں۔

کبھی سوچا ہے کہ آج سے پندرہ بیس سال قبل محبت کیسی ہوا کرتی ہوگی؟؟

بچارے عاشق نا جانے کن کن مشکلات سے گزر کر اپنے محبوب تک پہنچتے تھے، رابطوں کے لئے خطوط کا سہارا لیا جاتا تھا اور اس پر ہر وقت خطوط کے پکڑے جانے کا خوف طاری رہتا ہوگا۔ کتنا مشکل تھا نا اس وقت محبت کا حصول اور جیسے کوئی خط پکڑا جاتا تو ایک قیامت صغریٰ برپا ہوجاتی اور نتیجتا دو ٹوٹے دلوں کی سسکیوں کے بیچ شادی کے نغمے شروع ہوجاتے۔

آج کل موبائل فون اور پرائیویسی نام کی ایک چیز نے ماں باپ سے اولاد سے کوئی سوال کرنے کا حق بھی چھین لیا ہے۔

آج کل کی نسل کو تو محبت میں بھی بہت آسائشیں میسر ہیں۔ ابھی پہلی محبت جاری ہے اور سوشل میڈیا پر ایک سے بڑھ کرایک آپشن بھی بیک اپ میں موجود ہے۔ زرا سی تکرار پر رشتہ ختم اور اگلی محبت تیار۔ اس دور میں محبت کے بھی اپنے اپنے تقاضے ہیں۔ پیسہ، خوبصورتی، عہدہ، طاقت مختصر یہ کہ اگر ان میں سے کوئی ایک خوبی بھی کسی شخص میں نہیں تو اسے کسی اور میں تلاش کر لیا جاتا ہے۔

محبت اور ہوس کی تمیز نہیں

اور شہر بھرا ہے ہیر رانجھوں سے

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ جاننا اہم ہی نہیں رہا کہ محبت میں شرم و حیا اور لحاظ کا عنصر ہمارے مہذب معاشرے کی بقا کے لئے کتنا ضروری ہے۔

اسلام کی نظر میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے تکمیل ہیں اور اللہ نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لیئے پیدا کیا ہے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون کا سبب ہیں۔ انہیں گمراہ ہونے اور گناہوں سے بچانے کے لیے رشتہ ازدواج یعنی نکاح کا طریقہ کار بنایا ہے اور ان کے درمیان ہر قسم کا رابطہ انہی حدود میں ممکن بنایا ہے۔

آخر میں یہ کہنا ضروری سمجھتی ہوں کہ ہماری نوجوان نسل محبت کے مطلب سے بالکل ناواقف ہیں۔

محبت تو ایک پاکیزہ جذبہ کا نام ہے۔ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے۔ محبت کے نام پر آزمائش میں محبوب کی زندگی برباد نہیں کرتا۔ مرد جب کسی عورت کو سچے دل سے چاہتا ہے تو وہ اپنے گھر والوں سے ہی نہیں بلکہ معاشرے سے بھی لڑجاتا ہے۔ محبت ایک ایسا رشتہ ہے جو حسن اور جسم سے نہیں روح اور دل کا ہوتا ہے۔

لوگ اپنی جسمانی خواہشات کی تکمیل کو محبت کا نام دیتے ہیں۔ محبت ایمان کی طرح ہے اور محبت روح کی غذا کی طرح ہوتی ہے جبکہ حوس نفس کی غذا ہے۔ حوس انسان کی زندگی برباد کر دیتی ہے۔

محبت وہ جذبہ ہے جو دل کی زمین پر ایک لرزہ طاری کر دے۔ وہ مرض جو ایک بار لگ جائے تو لاعلاج ہو جائے۔ جب محبت حوس کی شکل اختیار کرتی ہے تو انسان غلط طریقے اپناتا ہے اور پھر معاشرے میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت شرما جاتی ہے اور حیا کی آنکھیں ندامت سے جھک جاتی ہیں۔

کاش! ہم نادان لوگ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے، صبر اور استقامت کا راستہ اپنا لیں تو معاشرے سے اس حوس نام کے لفظ کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس لفظ کو رشتوں سے ہٹا دیا جائے تو زندگی میں سکون اور اطمینان ممکن ہے۔

کالی رنگ کی لڑکی سے محبت کرنے والا شوہر

جوان لڑکے لڑکیوں کا inbox میں گفتگو کرنا حرام یا حلال ؟؟

سوشل میڈیا پر مسلم لڑکیوں کی برباد ہوتی زندگیاں.

Share:

Qurbani ke Gaye (cow) me Kitne log Shamil ho sakte hai, Haram tarike se kamane walo ki Us hisse me Qurbani hogi ya nahi?

Gaye ki Qurbani me kitne log Shamil ho sakte hai?

Kya 7 logo ka aqeeqa Ek gaye me ho sakta hai , jaise Qurbani me Saat log sharik hote hai?

Kaise Janwar ki Qurbani jayez hai?

Qurbani ka tarika, Kin logo par Qurbani wazib hai?

Sawal: oont (Camel) aur Gaye ki Qurbani me Jyada se jyada Aur kam se kam kitne log Shamil ho sakte hai? Agar hissedaro me se koi Shakhs Be Namaji ya Mushrik ho, Aamdani (Income) haram ki ho, Hissedaro me se kisi ek shakhs ki Qurbani ke bajaye Sirf Gost ki niyat ho to kya uski wajah se baki logo ki Qurbani bhi jayez hogi?


"سلسلہ سوال و جواب نمبر-67"

سوال_ اونٹ اور گائے کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنے لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟ اور اگر حصہ داروں میں سے کوئی شخص بے نماز یا مشرک ہو یا اسکی آمدن حرام کی ہو یا حصے داروں میں سے کسی ایک شخص کی قربانی کی بجائے صرف گوشت کی نیت ہو تو کیا اسکی وجہ سے باقی لوگوں کی قربانی بھی نہیں ہو گی؟

Published Date- 31-7-2019

جواب..!!
الحمدللہ!!

*اگر اونٹ يا گائے كى قربانى ہو تو اس ميں ایک سے زائد لوگوں کا حصہ ڈالا جا سكتا ہے، ليكن اگر بكرى اور بھيڑ يا دنبہ كى قربانى كى جائے تو پھر اس ميں حصہ نہيں ڈالا جا سكتا،اور ايک گائے ميں سات حصہ دار شريک ہو سكتے ہيں اور ایک اونٹ میں سات یا دس لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں.

صحابہ كرام رضى اللہ عنہم سے حج يا عمرہ كى ھدى ميں ايک اونٹ يا گائے ميں سات افراد كا شريک ہونا ثابت ہے،

امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نے حديبيہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ايک اونٹ اور ايک گائے سات سات افراد كى جانب سے ذبح كى تھى "
(صحيح مسلم حديث نمبر_1318 )

اور ابو داود كى روايت ميں ہے ،

جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں،
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حج تمتع کرتے تو گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرتے تھے، اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے، ہم سب اس میں شریک ہو جاتے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2807)

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:  گائے سات افراد كى جانب سے ہے، اور اونٹ سات افراد كى جانب سے "
(سنن ابو داود حديث نمبر_ 2808 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ صحیح مسلم كى شرح ميں رقمطراز ہيں:
" ان احاديث ميں قربانى كے جانور ميں حصہ ڈالنے كى دليل پائى جاتى ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ بكرے ميں حصہ ڈالنا جائز نہيں، اور ان احاديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ ايك اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہوگا، اور گائے بھى سات افراد كى جانب سے، اور ہر ايك سات بكريوں كے قائم مقام ہے، حتى كہ اگر محرم شخص پر شكار كے فديہ كے علاوہ سات دم ہوں تو وہ ايك گائے يا اونٹ نحر كر دے تو سب سے كفائت كر جائيگا " انتہى مختصرا.

اور مستقل فتوى كميٹى سے قربانى ميں حصہ ڈالنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" ايك اونٹ اور ايك گائے سات افراد كى جانب سے كفائت كرتى ہے، چاہے وہ ايك ہى گھر كے افراد ہوں، يا پھر مختلف گھروں كے، اور چاہے ان كے مابين كوئى قرابت و رشتہ دارى ہو يا نہ ہو؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو ايك گائے اور ايک اونٹ ميں سات افراد شريک ہونے كى اجازت دى تھى، اور اس ميں كوئى فرق نہيں كيا " انتہى.
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 401 )

*گائے اور اونٹ میں سات سات لوگوں کے شریک ہونے کا اصول ہدی کے جانوروں کے لیے ہے، یعنی حاجی جو منی میں قربانی کرتے ہیں وہاں اونٹ ہو یا گائے سات سات لوگ ہی شریک ہو سکتے ہیں،لیکن عام جگہ پر جو قربانی کرتے ہم یہاں اونٹ کی قربانی میں دس لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں*

جیسا کہ سنن ترمذی کی حدیث میں ہے!

سیدنا ابن عباس سے رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ شریک ہوئے اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-905)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3131)
اس حدیث کو امام (ابنِ حبان_4007)نے ''صحیح'' اور امامِ حاکم نے ''امام بخاری کی شرط پر صحیح ''کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے،

لہذا_ اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ کی قربانی میں دس افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں
_______&________

*ایک سے زائد قربانیان کرنا جائز ہے اور اسی طرح بڑے جانور میں سات سے کم لوگ شریک ہو سکتے ہیں ،یعنی کوئی دو حصے رکھ لے یا تین رکھ لے مگر کوئی بھی سوا ،ڈیڑھ یا ڈھائی قربانی نہیں کر سکتا*

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا اسلام نے عید کے دن قربانی کرنے کی تعداد مقرر کی ہے؟ اور کی ہے تو یہ کتنی تعداد ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اسلام میں قربانی کی تعداد کیلئے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو  قربانیاں کیا کرتے تھے، ایک اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے اور دوسری امت محمدیہ میں سے موحدین کی طرف سے، چنانچہ اگر کوئی شخص ایک، یا دو ، یا اس سے بھی زیادہ قربانیاں کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک بکری ذبح کرتے تھے، اور پھر اسی سے خود بھی کھاتے اور لوگوں کو بھی کھلاتے، اس کے بعد لوگوں نے اسے فخر کا ذریعہ  بنا لیا"، خلاصہ یہ ہے کہ: اگر کوئی انسان اپنے گھر میں اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی بکری ذبح کر دے تو اس طرح اس کا سنت پر عمل ہو جائے گا، اور اگر کوئی دو ، تین، چار،  یا گائے ، یا اونٹ کی قربانی کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔" انتہی
(ماخوذ از ویب سائٹ شیخ ابن باز رحمہ اللہ:)
http://www.binbaz.org.sa/mat/11662

یعنی ایک بڑے جانور مثلا گائے، اونٹ میں سات قربانیاں ہوتی ہیں۔ سات افراد ایک ایک حصہ ڈال لیں یا پھر سات سے کم لوگ ہوں تو وہ قربانی کے اعتبار سے حصے اس طرح ڈالیں کہ ایک بندہ ایک حصہ، دو حصے یا تین حصے یا چار حصے یا پانچ حصے یا چھ حصے یا پھر پورا جانور یعنی چھ لوگ کر رہے ہیں تو ایک بندہ دو حصے ڈال لے اور باقی ایک ایک تاکہ کوئی حصہ ساتویں (1/7) سے کم نہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ کوئی سوا، ڈیڑھ یا پونے دو قربانیاں نہیں کرے گا۔ جو بھی کرے مکمل ایک، دو یا اس سے زائد قربانیاں کرے۔ اسی طرح ایک بڑے جانور میں پانچ بندے حصہ ڈالیں تو ایک ایک تو سب کو مکمل قربانی آ جائے گی باقی دو سب پر تقسیم نہیں کی جائیں گی۔ ان دو کو کسی ایک کے ذمہ لگا دیں یا دو بندے دو دو کر لیں۔ اسی طرح ایک بڑے جانور کو دو بندے مل کر قربانی کریں تو ایک بندہ چار حصے کر لے ایک تین، ساڑھے تین تین نہیں کریں گے۔ المختصر یہ کہ جو بھی کرے مکمل قربانیاں کرے، ایک، دو یا زیادہ جتنی بھی،

________&_________

*گائے میں سات سے زیادہ اور اونٹ میں دس سے زائد حصے دار نہیں بن سکتے*

سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اپنی ویبسائٹ(islamqa) پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ،
کسی قربانی کرنے والے کیلیے ساتویں حصے سے کم حصہ جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی محض گوشت ہی حاصل کرنا چاہتا ہے قربانی  نہیں کرنا چاہتا تو پھر کوئی حرج نہیں ہے کہ جتنا مرضی حصہ لے لے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "أحكام الأضحية"  میں کہتے ہیں کہ:
"ایک بکری ایک شخص کی جانب سے قربانی میں کافی ہوگی، اور اسی طرح گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ  بھی ایک بکری کی طرح ایک شخص کی جانب سے قربانی میں کافی ہو گا۔۔۔

اور اگر [بکری کی] قربانی میں ایک سے زیادہ افراد مالک  ہوں تو پھر اس کی قربانی نہیں ہو گی، اونٹ اور گائے کی مشترکہ قربانی  میں سات سے زائد حصے دار شریک نہیں ہو سکتے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی عبادت  اور قرب الہی کا ذریعہ ہے چنانچہ اس عبادت کا طریقہ کار وہی ہو گا جو شریعت نے بتلایا ہے اس میں وقت، تعداد اور کیفیت ہر چیز کا خیال رکھا جائے گا" ختم شد
("رسائل فقهية"_ص 58، 59)

*اور اگر کوئی قربانی کرنے والا شخص ساتویں حصے سے بھی کم حصہ ملائے تو اس کی قربانی صحیح نہیں ہوگی، تاہم اس کی وجہ سے دوسروں کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ ایک گائے میں ساتواں حصہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے ان میں سے کچھ قربانی کریں یا صرف گوشت حاصل کرنے کیلیے حصہ ڈال رہے ہوں*

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اونٹ يا گائے ميں قربانى كے ليے سات افراد حصہ ڈال سكتے ہيں، چاہے وہ سب ايك ہى خاندان سے تعلق ركھتے ہوں يا پھر مختلف خاندانوں سے، يا ان ميں سے بعض افراد صرف گوشت چاہے ہوں تو قربانى كرنے والے كى طرف سے قربانى ہو جائيگى، چاہے وہ قربانى نفلى ہو يا پھر نذر مانى ہوئى ہو، ہمارا يہى مسلك ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور علماء كرام كا بھى يہى قول ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 372 )

 ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہے، اور اسى طرح گائے بھى اكثراہل اعلم كا قول يہى ہے...
پھر اس كے بعد اس كى دليل ميں كچھ احاديث ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر چاہے حصہ دار ايك ہى گھر سے تعلق ركھتے ہوں، يا پھر مختلف گھرانے سے تعلق ركھنے والے ہوں، يا پھر ان كى قربانى فرضى ہو يا نفلى، يا ان ميں سے بعض اللہ كا قرب حاصل كرنے والے ہوں، يا بعض افراد صرف گوشت حاصل كرنا چاہيں تو سب برابر ہيں؛ كيونكہ ان ميں سے ہر ايك انسان كى جانب سے اس كا حصہ كفائت كرے گا، اس ليے كسى كى نيت دوسرے كى نيت كو نقصان نہيں دےگى " انتہى.
(ديكھيں: المغنى ابن قدامہ_ 13 / 363 )

نوٹ_

*اس سے یہ بھی پتا چلا کہ اگر کوئی بے نمازی،مشرک آدمی یا حرام کمائی والا شخص قربانی میں حصے دار ہے تو اسکی نیت یا اسکا عمل  باقیوں کی قربانی پر اثر انداز نہیں ہو گا،کیونکہ سب کی اپنی اپنی نیت ہے جس نے جس نیت سے یا جس مال سے قربانی کی ہے اللہ اسکو جانتا ہے،کچھ علماء کا یہ فتویٰ دینا کہ بے نماز یا مشرک یا حرام مال والے حصے دار سے باقیوں کی قربانی بھی ضائع ہو جائے گی یہ بات بے معنی اور بے دلیل ہے اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو کوئی بھی اجتماعی عبادت قبول نا ہو،۔۔۔ لہذا دلیل کے بنا ہم اس فتویٰ کو تسلیم نہیں کرتے،ہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہتر ہے کہ تمام لوگ موحد اور نمازی پرہیزی قربانی میں شریک ہوں ،کیونکہ مشرک/بے نماز کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور اس لیے بھی تا کہ بے نماز اور مشرک کی حوصلہ شکنی ہو اور انکو دعوت ملے کہ انکے  برے عمل کی وجہ سے کوئی انکو قربانی میں بھی شریک نہیں کر رہا۔۔*

(((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

قربانی کے مسائل کے بارے مزید پڑھنے کے لیے دیکھیں
( سلسلہ نمبر- 59 سے 78 تک)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS