Mera sawal ye hai ke Kya jo log Islamic banks Mai Paisay fix karwate hain 3 ya 5 saal k liye ...or phir us se jo monthly profit lete hain Kya wo jayez hai. jab ke bank walon k pass bahut Se fatawe Bhi hain ke ye paise jayez hain Kyu Ke profit or loss dono Me shareek hota hai Paisy fix karwane wala..... Bahut Se log aajkal Aeisa kar rahe hain to Kya ye paise Sood ke zimray Me Nahi Aatey?
یاد رکھیے سسٹر کہ FIXED ACCOUNT کا مقصد ہی سود کھانا ہوتا ہے ۔ بینک والوں کے یہ جھوٹے فتوے اور اپنے کاروبار کی خاطر حیلے بہانے اور فنکاریاں درست نہیں ہیں ۔
بینک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اپنے کاروبار میں نفع و نقصان کی شرائط پر شریک نہیں کرتا، بلکہ وہ انھیں اُن کی جمع شدہ رقوم پر متعین مدت میں، متعین اضافہ کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اسی کو سود اور ربا کہتے ہیں۔
بینک کے دیوالیہ ہو جانے پر اکاؤنٹ ہولڈرز کی رقموں کا ٹوٹ جانا یا ان کو نقصان ہو جانا یا اس طرح کی بعض دوسری صورتوں میں انھیں گھاٹا پڑنا، کاروبار کا نفع و نقصان نہیں ہے، بلکہ یہ بینک سے متعلق افراد پر آفات و حوادث کی صورت میں ہونے والے اثرات ہیں۔ بینک بہرحال، سودی نظام پر مبنی ادارہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت کیا ہوتی ہے۔ وہ نفع و نقصان کی شرائط پر لوگوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرتا، بلکہ سود کے اصول پر ان سے رقوم لیتا اور انھیں دیتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں سے خود کو دھوکا نہیں دیناچاہیے
____________________________
Islamic Bank Me Paisa Jma Karne Ke Masail.
Qist Pe Udhar Ya Nakad Saman Kharidna Jabke Dono Surat Me Keemat Alag Ho.
Qist Pe Saman Kharidne Ke Masail
میں ایک گاڑی لینا چاھتا ھوں۔جس کی قیمت 70000روپے ھے
لیکن میں ابھی 70000 افورڈ نہیں کرسکتا ۔وھی گاڑی ایک کمپنی مجھے 10000روپے ادا کرنے پر دے رھی ھے
اور باقی کی قیمت 3500روپے ھر مہینے کی قسط وار ادا کرنے ھوں گیں
ساری قسطیں ادا کرنے کے بعد گاڑی کی قیمت تقریباً 85000 روپے بنے گی
تو کیا جو اضافی 15000بنتے ھیں وہ سود یا رباع کے زمرے میں تو نہیں آ ئیں گیں
مہربانی فرما کر رھنمائی فرمائیں شکریہ
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
دور حاضر میں جن معاملات کووسیع پیمانے پر فروغ حاصل ہوا ہے ان میں قسطوں پر خرید و فروخت بھی شامل ہے اس کو عربی میں البيع بالتقسيط کہا جاتا ہےجس کا مفہوم یہ ہے کہ چیز تو فورا مشتری کےحوالے کردی جائے مگر اس کی قیمت طے شدہ اقساط میں وصول کی جائےبعض لوگ اس کو موجودہ دور کی ایجاد سمجھتے ہیں جو درست نہیں اس کا رواج تو عہد رسالت و صحابہ میں بھی موجود تھا جیساکہ ذیل میں دلیل سے ثابت ہوتا ہے ۔
(قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: إِنَّ بَرِيرَةَ دَخَلَتْ عَلَيْهَا تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَعَلَيْهَا خَمْسَةُ أَوَاقٍ نُجِّمَتْ عَلَيْهَا فِي خَمْسِ سِنِينَ )) (صحيح البخاري رقم 2560 ، كتاب المكاتب )
'' عروہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس اپنی مکاتبت میں مدد کے سلسلے میں حاضر ہوئی اس کے ذمہ پانچ اوقیہ چاندی تھی جو اس نے پانچ سالانہ اقساط میں ادا کرنا تھی ۔ ''
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری میں اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :
((بَابُ المُكَاتِبِ، وَنُجُومِهِ فِي كُلِّ سَنَةٍ نَجْمٌ))
'' مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان ، ہر سال میں ایک قسط ۔ ''
قسطوں پر خریداری کی صورتیں :
1۔ نقد اور ادھار دونوں صورتوں میں ایک ہی قیمت ہو ۔ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے ۔ تاہم اس کے جواز میں کوئی کلام نہیں ۔
2۔ ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت وصول کی جائے ۔ مثلا یوں کہا جائے کہ یہ چیزنقد سو روپے کی اور ادھار ایک سو دس کی ہوکی ۔ اس کے بارہ میں تین نقطہ نظر ہیں
(1) ➖ جمہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کی رائے میں یہ جائز ہے ۔ چنانچہ امام شوکانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
( و قالت الشافعیة والحنفية و زيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور إنه يجوز )
( نيل الأوطار ج 8 ص 201 )
➖اهل حديث علماء میں سے سید نذیر حسین محدث دہلوی ، نواب صدیق حسن خان اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ جمیعا بھی اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ ( فتاوی نذیریہ ج 2 ص 162 و الروضۃ الندیۃ ج 2 ص 89 و فتاوی اہل حدیث ج 2 ص 663 ، 664 )
➖ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی اس کے جواز کے حامی ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
'' قسطوں کی بیع میں کوئی حرج نہیں جب کہ مدت اور قسطیں معلوم ہوں خواہ قسطوں کی صورت میں قیمت نقد قیمت سے زیادہ ہو کیونکہ قسطوں کی صورت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ بائع زیادہ قیمت سے اور مشتری مہلت سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ '' ( فتاوی اسلامیہ ج 2 ص 445 )
➖ اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے بھی اپنے چھٹے اور ساتویں اجلاس میں جو بالترتیب سترہ تا تیس شعبان 1410 ھ اور سات سے بارہ ذیقعدہ 1412 ھ کو جدہ میں ہوئے ، اس کو جائز قرار دیا ہے ۔ چھٹے اجلاس کی قرار داد کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں :
(( تجوز الزيادة في الثمن المؤجل عن الثمن الحال كما يجوز ذكر ثمن المبيع نقدا و ثمنه بالأقساط بمدة معلومة )) ( موسوعة القضايا الفقهية المعاصرة والاقتصاد الإسلامي للدكتور على أحمد سالوس )
'' ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت جائز ہے ۔ جس طرح چیز کی قیمت نقد اور متعینہ اقساط میں ذکر کرنا جائز ہے ۔ ''
ساتویں اجلاس کے الفاظ یوں ہیں :
( البيع بالتقسيط جائز شرعا و لو زاد فيه ثمن المؤجل على المعجل )) ( أيضا )
'' بیع قسط شرعا جائز ہے خواہ اس میں ادھار قیمت نقد سے زیادہ ہو ۔ ''
(2)امام ابن حزم ، امام ابن سیرین اور زین العابدین عدم جواز کے قائل ہیں ۔
محدث البانی رحمہ اللہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں ۔ ( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )
(3)حضرات طاؤس ، ثوری ، اور اوزاعی کی رائے میں یہ ہے تو ناجائز لیکن اگر بائع اس طرح ہونے کے بعد دو قیمتوں میں سے کم یعنی نقد والی قیمت وصول کرے تو جائز ورنہ نا جائز ۔
( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )
Kya Gair Muslim Ko Unke Apne Andaaj Me Salam Kiya Ja Sakta Hai?
Kya Hm Sikh,Ya Isai Ko Unke Andaaj Me Salam Kar Sakte Hai
سوال صحیح مسلم ومسند احمد میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’تم یہود ونصاریٰ کو سلام کی ابتداء نہ کرو۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’یہاں نہی تحریم کیلئے ہے لہٰذا انہیں سلام کی ابتداء کرنا حرام ہے۔‘‘
جو حضرات جواز کے قائل ہیں ان دلیل قرآن کریم میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کو ’سلام علیک‘ کہنا ہے۔ اسی طرح فرمانِ باری ہے: ’’اے نبی! ان سے در گزر کریں اور انہیں سلام کہیں۔‘‘
بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ کفار کو کسی ضرورت کی بناء پر سلام کرنا جائز ہے۔ اور اگر وہ سلام کرے تو جواب میں صرف ’’وعلیکم‘‘کہہ دیا جائے
Kafir Ko Salam Ka Jawab Dena Ya Cheenk Aane Pe Kya Kahna Chahiye
سنن ابوداؤد:
ادب کا بیان :
باب :ذمی کافر کو چھینک کا جواب کیسے دیا جائے۔
سیدناابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر چھینکتے اس امید پر کہ آپ انہیں يَرْحَمُکُمْ اللَّهُ کہیں گے لیکن آپ انہیں يَهْدِيکُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَکُمْ کہتے۔
فائدہ : غیر مسلم کو چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کی بجائے یھدیکم اللہ و یصلح بالکم کہنا چاہیئے جیسے کہ اسے السلام علیکم کہنے میں ابتدا نہیں کی جاسکتی اور وہ کہے تو جواباً صرف'' علیکم '' کہا جاتا ہے ۔ (ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ)
Khatne Ke Mauke Pe Dawat Pe Khana Khilana Kaisa Hai?
Khatne Ki Dawat Ya Imtihan Me Kamyab Hone Pe Logo Ko Dawat Dekar Khana Khilana Kaisa Hai
ختنہ کی دعوت کہانا کیسا ہے ہمارے ہاں جب بچوں کا ختنہ کیا جاتا ہے تو لوگ ولیمہ کی طرح لوگوں میں کارڈ بانٹتے ہیں اور لوگوں کو بلاتے ہیں کہھانے پے۔۔؟؟ جزاک اللہ خیرا کثیرا
۔.........................................................................
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
ختنہ کے موقع پراللہ کے نام پر ذبیحہ کرکے دوست و احباب اور اعزاء و اقرباء کی دعوت (جس کو طعام الغدیرہ یا طعام الختان بھی کہتے ہیں) کے اہتمام اور فقراء و مساکین میں اس کا صدقہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"ولیمہ کے علاوہ باقی تمام دعوتیں ،مثلاً : ختنے کی دعوت ،جس کا نام "إعذار" یا " عذیرۃ "، رکھتے ہیں ، اسی طرح بچے کی پیدائش پر کی جانے والی دعوت:"خرس" یا "خرسۃ" ہے، مکان کی تعمیر کی دعوت "الوکیرۃ" ، اور لا پتہ فرد کی واپسی پر دعوت "النقيعة" ، بچے کے کسی کام میں ماہر ہونے پر دعوت "الحذاق" ،اور کسی بھی عام دعوت"مأدبة" کہتے ہیں خواہ کسی سبب سے ہو یا بغیر کسی سبب کے ،یہ تمام دعوتیں مستحب ہیں ،کیونکہ اس میں کھانا کھلایا جاتا ہے اور نعمت کا اظہار کیا جاتا ہے، لیکن ان دعوتوں میں ولیمے کی دعوت کی طرح شرکت ضروری نہیں ہے "
واضح ہو کہ ختنہ کی تقریب کو ولیمہ کی طرح منعقد کرنا تو یہ غلط ہے ۔ ہند و پاک میں غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں بچہ کے ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر بعض بُری رسومات دیکھنے میں آتی ہیں۔مثلاً ناچ رنگ و ڈھول، گانے باجے یا مجلس میلاد کا اہتمام، گھوڑے پر بچہ کو سوار کرا کر کسی مسجد یا بزرگ کے مزار تک لے جانا، بچہ کے سر پر پھول و سہرا باندھنا، نظر بد سے بچانے کے لیے اس کے چہرے پرکالا ٹیکہ لگانا، منت کے طور پر لڑکے کے کان چھیدنا، سرخ و پیلے رنگ یا کالے رنگ کا دھاگا گلے میں لٹکانا یا بازو اور کمر پرباندھنا، کوئی سکہ یا ہڈی کا ٹکڑا یا لوہے یا چاندی یاسونے کا چاقو گلے میں لٹکانا، بچہ کے سر کے چاروں طرف روپیہ کئی بار گھما کر اس کا صدقہ اور بلائیں اتارنا، بچہ کے بازو پر امام ضامن باندھنا، کمر میں پٹہ اور تلوار لٹکانا، نیاز و فاتحہ کرنا اور اس کی شیرینی تقسیم کرنا وغیرہ، یہ سب غیر شرعی اور جاہلانہ رسوم و اختراعات ہیں۔ ان سے خود بچنا اور دوسروں کو بھی روکنا چاہیے
Washroom Me wuzu Ke Dua Padhne Ke Masail.
Toilet me wuzu Ke Dua Padhna Kaisa Hai
شیخ محترم اور مسز اے انصاری بہن
سوال
واشروم میں وضو کرتے وقت زبان سے بسم اللہ کے الفاظ ادا کیے جا سکتے؟
۔.........................................................................
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
عمومًا ہمارے جدت پسند معاشرے میں جو سٹائل عام ہے، اس کے مطابق غسل خانہ اور ٹوائلٹ ایک ساتھ بنائے جاتے ہیں یعنی ان کا داخلہ ایک ہوتا ہے لیکن ان کی جگہ یا مقام الگ الگ ہوتے ہیں لہذا غسل کرنے اور وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رہا مسئلہ وضو سے قبل بسم اللہ پڑھنے کا تو اگر وہاں ہی دل میں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر زبان سے پڑھنی ہے تو باہر آ کر پڑھے۔
Hafij E Quran Ke Gharwale Ki Fazilat.
Hafiz e Quran ki Kya fazilat Hai aur Hafiz e Quran k parents ki Kya fazilat Hai
جو شخص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعداس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالی اسے اجر عظیم سے نوازتے ہیں ۔اور اسے اتنی عزت وشرف سے نوازا جاتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کو جتنا پڑھتا ہے اس حساب سے اسے جنت کے درجات ملتے ہیں ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( صاحب قرآن کوکہا جاۓ گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے آج بھی پڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھوگے وہی تمہاری منزل ہوگي ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2914 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1464 ) اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے سلسلۃ احادیث صحیحۃ میں ( 5 / 281 ) حدیث نمبر ( 2240 ) صحیح کہنے کے بعد یہ کہا ہے :
یہاں حفظ قرآن کریم کی فضیلت میں وارد ایک ضعیف حدیث کی آگاہی ضروری ہے کہ :
( وہ حافظ قرآن جواس کی حلال کردہ اشیاء کوحلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام کرتا ہے وہ اپنے گھرانے کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی سفارش کرے گا ) امام بیھقی نے اسے شعب الایمان میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔
لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے ضعیف الجامع میں ضعیف کہا ہے ۔
جبکہ حافظ قرآن کے والدین کے بارے میں دلیل ملتی ہے کہ حافظ قرآن کے والدین کو دو لباس پہنائے جائیں گے جن کی قیمت دنیا وما فیہا بھی نہیں ہے، اس لیے کہ حافظ قرآن کے والدین نے اپنے بچے کی خوب محنت کے ساتھ پرورش کی اور اسے تعلیم دلوائی
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قیامت کے دن متغیر رنگت والے آدمی کی شکل میں قرآن مجید آ کر قرآن پڑھنے والے سے کہے گا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں ہی ہوں وہ جو تمہیں راتوں کو جگاتا تھا اور گرمی کے دنوں میں [روزے رکھوا کر ] پیاس برداشت کرواتا تھا۔ ہر تاجر کے سامنے اس کی تجارت ہوتی ہے اور میں آج تمہارے لیے کسی بھی تاجر سے پیش پیش ہوں گا، تو وہ حافظ قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہی دے گا اور بائیں ہاتھ میں سرمدی زندگی دے گا، اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ دنیا و مافیہا بھی اس کے برابر نہیں پہنچ سکتے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمارے لیے کہاں سے ؟ تو انہیں کہا جائے گا: تم نے اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی اس کے عوض ۔ طبرانی نے اسے معجم الاوسط: (6/51) میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص قرآن کریم پڑھے اور پھر اس کے احکام سیکھے نیز اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالی اس کے والدین کو نور کا تاج پہنائے گا، اس کی روشنی سورج جیسی ہو گی، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ پوری دنیا بھی اس کے برابر نہ پہنچ سکے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمیں کس کے عوض پہنایا گیا؟ تو انہیں کہا جائے گا: تمہارے بچوں کے قرآن سیکھنے کی وجہ سے۔) حاکم (1/756)نے اسے روایت کیا ہے۔
یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کو حسن درجے تک پہنچا دیتی ہیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے سلسلہ صحیحہ (2829) کا مطالعہ کیا جائے۔ میسز اے انصاری
Qaber Pe Pani Dalne Ke Masail.
Maiyyat ki Qaber Par Kitne Dino Tak Pani Dal Sakte Hai?
میت کی قبر پر پانی ڈالنا کیسا ہے
کیا میت کی قبر پر چالیس دن تک پانی ڈال سکتے ہیں
اس کا کوی جواز حدیث سے ثابت ہے
جواب ارسال کریں.
الجواب بعون رب العباد:
تحریر:ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
میت کے دفن کرنے کے بعد اسکی قبر پر پانی چھڑکنا جائز اور مستحب ہے۔
اہل علم نے میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر پانی ڈالنے کو مستحب قرار دیا ہے۔
پانی چھڑکنے کی کئی علتیں بیان کی گئی ہیں:
نمبر ایک:پانی ڈالنے سے میت کی قبر کی مٹی اور اسکا گردا دب جاتا ہے تاکہ ہوا وغیرہ سے وہ مٹی اڑ نہ جائے۔
نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے ابراھیم رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکا تھا۔
شیخ زکریا انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت کو دفن کرنے کے بعد اسکی قبر پر پانی چھرکنا مستحب ہے تاکہ ہوا سے قبر کی مٹی اڑ نہ جائے اور نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قبر پر ایسا کیا۔[رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ في أسنى المطالب329/1]۔
علامہ منصور بھوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت کے دفن کرنے کے بعد اسکی قبر پر پانی چھڑکنا سنت ہے تاکہ قبر کی مٹی اسے دب جائے اور مٹی محفوظ رہے ، اور نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قبر پانی چھڑکا ہے اور پہر نبی علیہ السلام نے اس قبر پر ایک پتھر بھی رکھا۔[كشاف القناع 139/2]۔
علامہ شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ میت کے دفن کے بعد ہی قبر پر پانی چھڑکا جائے ، لیکن اگر اسکے بعد بھی کبھی پانی چھڑکنے ضرورت پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
حاشية الرملي الكبير میں ہے کہ دفن کرنے کے بعد ہی قبر پر پانی چھڑکنا مستحب ہے لیکن اگر اسکے بعد بھی کبھی ضرورت پڑے تو اسوقت بھی جائز ہے جیساکہ ہمارے شیخ نے کہا ہے۔[حاشية الرملي الكبیر328/1]۔
شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رہا مسئلہ کہ کوئی شخص بغیر کسی سبب کے ہر زیارت پر قبر پر پانی چھڑکے ایسا کرنا نبی مکرم علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے اور نہ ایسا کرنا کسی صحابی سے ثابت ہے اسلئے ایسا کرنا صحیح نہیں بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔[فتاوی للشيخ صالح المنجد].
موسوعہ فقہیہ میں ہے کہ ایمہ شوافع، موالک اور حنفیہ کے نزدیک میت کو دفنانے کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا مشروع اور سنت ہے اسلئے کہ نبی علیہ السلام نے سعد بن معاذ کی قبر پر پانی چھڑکا ، اسی طرح سے نبی مکرم علیہ السلام نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم فرمایا۔
ائمہ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک میت کے دفن کے بعد اسکی قبر پر چھوٹا سا پتھر رکھنا بھی مشروع ہے اسلئے کہ نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے ابراھیم رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکا اور پہر اس پر ایک چھوٹا سا پتھر رکھا۔[الموسوعة الفقهية250/32 ، تبيين الحقائق 246/1 ، أسنى المطالب 328/1 ، كشاف القناع 138/2].
علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبر پر پانی چھڑکنے کے بارے میں کثرت سے احادیث موجود ہیں لیکن وہ احادیث علت سے خالی نہیں ہیں جیساکہ میں إرواء الغليل میں بیان کردیا ہے۔[الإرواء 205/3]۔
البتہ مجھے اوسط طبرانی میں ایک حدیث ملی جوکہ سند کے لحاظ سے قوی ہے کہ نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے ابراھیم رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکا ، میں اسے کتاب من سلسلة الأحاديث الصحيحة میں نکالاہوں۔[سلسلة الأحاديث الصحيحة 3045 ، سلسلة الأحاديث الضعيفة 994/13].
البتہ بعض لوگوں کا یہ اعتقاد رکھنا کہ میت کی قبر پر پانی چھڑکنے سے میت کا کچھ فائدہ پہنچتا ہے ایسا اعتقاد رکھنا باطل ہے اسکی کوئی اصل نہیں ہے۔
علامہ شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت کی قبر پر پانی چھڑکنے سے میت کو کوئی نفع نہیں ہوتا جو لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ میت کی قبر پر پانی چھڑکنے سے اسے کوئی نفع پہنچتا ہے ایسا عقیدہ رکھنا صحیح نہیں ہے ، میت کے دفن کے بعد اسکی قبر پر پانی چھڑکنے سے اس مٹی محفوظ رہتی ہے اسی لئے اس پر پانی چھڑکنا مستحب ہے۔[فتاوى ورسائل للشيخ ابن عثيمن ، ور على الدرب].
................................................
خلاصہ کلام:میت کی قبر پر اس پر مٹی کو روکنے اور محفوظ کرنے کے لئے اس پر پانی چھڑکنا جائز اور مستحب ہے البتہ یہ اعتقاد رکھنا کہ اسے میت کو کوئی فائدہ اور نفع پہنچتا ہے ایسا عقیدہ باطل اور فاسد عقیدہ ہے۔
سائل نے ذکر کیا ہے کہ چالیس دن تک جی ایسا کرنا کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں ہے البتہ میت کے دفن کرنے کے بعد قبر پر پانی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح اگر اسکے بعد بھی کبھی ضرورت پیش آئے مثلا قبر پر نئی مٹی ڈالی وغیرہ اس مٹی کو دبانے اور محفوظ رکھنے کے لئے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر کوئی اس اعتقاد سے پژی چھڑکے کہ اسے میت کو کوئی نفع پہنچتا ہے ایسا اعتقاد رکھنا باطل ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.
Kya Biwi Apne Nam Ke Sath Apne Khawind Ka Nam Lga Sakti Hai?
Kya Biwi Apne Nam Ke Sath Apne Mahboob (Shauhar) Ka Nam Lga Sakti Hai?
عام معمول تو یہ ہے کہ نام کے ساتھ اپنے باپ کا نام لکھا ہوتا ہے۔ لیکن بیوی اگر اپنے نام کے ساتھ میاں کا نام کسی بھی وجہ سے لکھ دیتی ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ والی بات نہیں۔اور اگر ایک عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام نہیں بھی لگاتی تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں
الشیخ محمد عبدالرحمن رفیق طاہر حفظہ اللہ کہتے ہیں
شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا شرعا ممنوع نہیں ہے بلکہ ایسا ہوا ہے کہ شوہر کا نام عورت اپنے نام کے ساتھ لگائے یا کوئی اور اسکا نام لیتے ہوئے شوہر کے نام کو ساتھ ذکر کرے, بالخصوص امہات المؤمنین کے ناموں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ "زوجۃ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم " کا لاحقہ انکے ناموں کے ساتھ لگتا ہے کتب احادیث میں اسکی بے شمار مثالیں ہیں ۔
اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارہ میں پوچھا کہ کون سی زینب ہے تو بتانے والے بتایا " امرأۃ ابن مسعود " یعنی ابن مسعود کی بیوی ہے ۔ یعنی باپ کے نام کی بجائے اس زینب کے شوہر کا نام ذکر کیا گیا ۔ اسی کلمہ " امرأۃ ابن مسعود " کو آج لوگ مسز ابن مسعود کہہ دیں تو کیا عار ہے ؟؟؟
⬅مزید:
راقم کے خیال میں عورت جب اپنے شوہر کا نام اپنے ساتھ لگاتی ہے تو اس سے مراد نسبت ابوت نہیں ہوتی لہذا جائز ہے اور اس نسبت کی ممانعت کے جتنے بھی دلائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں نسبت ابوت کے لیے غیر کا نام ساتھ لگانے کی ممانعت ہے ورنہ تو سلف صالحین یا امت مسلمہ کی ١٤ سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ لوگوں کے عرفی نام ان کے شہروں ، علاقوں، قبیلوں، مسالک اور باپ کے علاوہ دادا یا دادی یا پردادا یا پردادی وغیرہ کی طرف بھی نسبت سے معروف ہوئے ہیں اور کسی نے ان کے استعمال پر اعتراض نہیں کیا ہےکیونکہ وہ نسبت ابوت نہیں ہے اور یہ سب کو معلوم ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عرفی نام میں باپ کی طرف نسبت کہاں موجود ہے اور نسل مرد کی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی اور میرے علم میں تو اس پر کوئی اعتراض دیکھنے میں نہیں آیا ہے ۔ اور جہاں تک مغرب کی مشابہت کا معاملہ ہے تو تو یہ ایسی مشابہت ہی ہے جیسی میز اور کرسی کے استعمال میں مشابہت ہے یعنی جب کوئی عمل مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف عام بن جائے تو پھر اگر وہ عمل شریعت کے خلاف نہ ہو تو صرف اس بنیاد پر مرودو نہیں ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں تو آپ اپنے رجحان کے مطابق کسی پر بھی رائے پر عمل کر سکتے ہیں.
"الشیخ ابوالحسن علوی"
⬅مزید:
عورت اپنے شوہر کی طرف اپنے نام کی نسبت کر سکتی یا نہیں تو اس بارے شیخ صالح المنجد کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ باپ کے علاوہ کی طرف نسبت سے قرآن نے منع کیا ہے۔ شیخ پر یہ اعتراض ہوا کہ باپ کے علاوہ جس نسبت سے منع کیا گیا ہے وہ تو ابوت یعنی باپ ہونے کی نسبت ہے جبکہ شوہر کی طرف یہ نسبت نہیں کی جاتی لہذا آپ کی دلیل درست نہیں ہے تو شیخ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ چودہویں صدی کا رواج کہ جس میں درمیان میں سے بن یا بنت کا لفظ نکال دیا گیا ہے ورنہ تو کوئی نام ساتھ لگانے سے مراد بن فلاں یا بنت فلاں ہی ہوتا ہے..شیخ کا کلام ختم ہوا
پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام بطور شوہر کے ہی لگاتی ہے تو کوئی حرج نہیں..ان شاء اللہ!
⬅اس بارے میں دیوبند کا موقف
آج کل سوشل میڈیا پر ایک بات کثرت سے پھیلائی جارہی ہے کہ بیوی کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا حرام ہے لیکن یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے کیونکہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے جو دلائل دیئےپیش کئے جارہے ہیں ان کا مذکورہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسے شخص کے بارے میں ممانعت آئی ہے جو اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرے
عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وآلہ وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» صحيح البخاري (8/ 156)
ترجمہ: "جس شخص نے اپنے آپ کو (حقیقی والد کے علاوہ) کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے.."
قرآن و حدیث کے مذکورہ اور دیگر دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو حقیقی باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کا بیٹا ظاہر کرنا ناجائز و حرام ہے..
جبکہ کسی لڑکی کا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنا والد تبدیل کررہی ہے اور اپنے آپ کو کسی اور کی بیٹی ثابت کررہی ہے بلکہ یہ بات تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی..حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی عورت کیلئے تعارف کے طور پراپنے نام کے ساتھ والد یا شوہر کا نام لکھنا شرعاً ضروری نہیں.. صرف تعارف کے لئے والد یا شوہر کا نام لکھا جاتا ہے.. عام طور پر شادی سے پہلے والد کانام لکھتے ہیں اور اس میں اثبات ِ نسب ہے جو شریعت کے مطابق ہے اور شادی کے بعد شوہر کا نام لکھتے ہیں اور چونکہ تعارف کیلئے شوہر کا نام لکھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے اس لئے یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی عورت کا نسب مشتبہ نہ ہو ( متخصص فی الافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی،پاکستان)
واللہ اعلم!"
Kya Rooh Nikalne Wale Farishte Ko Izarail Ke Nam Se Pukara Ja Sakta Hai?
Kya Mulkul Maut Ko Izarail Ke Nam Se Pukar Sakte Hai?
شیخ ناصر الالبانی اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ کی طرف سے جواب:
شیخ الالبانی رحمہ اللہ العقیدہ الطحاویہ کی کتاب میں مولف کے اس قول [ہم ملک الموت پر ایمان لاتے ہیں جو تمام مخلوق کی روحیں قبض کرنے پر مقرر ہیں] پر تعلیق میں فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ یہ نام قرآن میں موجود ہے، جہاں تک عزرائیل نام کا تعلق ہے جو کہ لوگوں کے درمیان پھیلا ہے اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ وہ اسرائیلیات میں سے ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ملک الموت جن کا نام لوگوں کے درمیان عزرائیل کے نام سے مشہور ہے یہ صحیح نہیں ہے بلکہ یہ اسرائیلی روایات میں وارد ہوا ہے، ہمارے اوپر لازم نہیں کہ ہم اس نام پر ایمان لائیں۔ لہذا جو موت پر مقرر ہے ان کو ہم ملک الموت کا نام دیتے ہیں جیسے کہ اللہ تعالی نے ان کو اس نام سے یاد کیا: قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ(سورة السجدة: 11)
فتاوى ابن عثيمن رحمه الله [ 3/161]
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Dada Ke Faut Ho Jane Ke Bad Pota-Poti Waris Bn Sakta Hai?
Kya Dada Ke Bad Pota-Poti Waris Bn Sakte Hai
سوال یہ ھے کہ پوتا دادا کی جائیداد کا وارث بن سکتا ھے شریعت کیا حکم دیتی ھے اور یتیم کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کیا فرمایا ھے
______________
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
اگر دادا دادی فوت ہوجاتے ہیں اور ان کی اپنی اولاد (بیٹا، بیٹی) موجود ہوں تو پوتا پوتی شرعاً وارث نہ ہوں گے۔ الا یہ کہ وہ ان کے لئے کچھ وصیت کر جائیں۔‘
اس ضمن میں مملکت سعودیہ عریبیہ کی فتوی کمیٹی سے یہی سوال پوچھا گیا تو فتوی کمیٹی کمیٹے نے جواب دیا
موجودہ دور میں وراثت کے متعلق جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے پوتی اور نواسے نواسی کی میراث کا مسئلہ ہے۔ اس کی بے چارگی اور محتاجی کو بنیاد بنا کر اسے بہت اچھالا گیا ہے، حالانکہ اس مسئلے میں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ دادا یا نانا کے انتقال پر اگر اس کا بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے یا بیٹی کی اولاد کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
اس مسئلے میں نہ صرف مشہور فقہی مذاہب، حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نیز شیعہ، امامیہ، زیدیہ اور ظاہریہ سب متفق ہیں بلکہ غیر معروف ائمہ و فقہا کا بھی اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں، البتہ حکومت پاکستان نے 1961ء میں مارشل لاء کا ایک آرڈیننس جاری کیا، جس کے تحت یہ قانون نافذ کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے پیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی کی اولاد چھوڑ جائے جس نے اس کی زندگی میں وفات پائی ہو تو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو پانے کی حقدار ہو گی جو ان کے باپ یا ماں کو ملتا، اگر وہ اس شخص کی وفات کے وقت زندہ ہوتے۔
پاکستان میں اس قانون کے خلافِ شریعت ہونے کے متعلق عظیم اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطہ نظر کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:
’’اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے۔ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں کے برابر ہے۔‘‘النساء 11:4
اس آیتِ کریمہ میں لفظ اولاد، ولد کی جمع ہے جو جنے ہوئے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں لفظ ولد دو طرح سے مستعمل ہے:
1۔حقیقی، جو بلاواسطہ جنا ہوا ہو، یعنی بیٹا اور بیٹی۔
2۔مجازی، جو کسی واسطے سے جنا ہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔
بیٹیوں کی اولاد، یعنی نواسی اور نواسے اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہی نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سے ملتا ہے۔ اس بنا پر نواسا اور نواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہو گا مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی مراد نہیں لیے جا سکتے، لہٰذا آیتِ کریمہ کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حقیقی بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے پوتی کا کوئی حق نہیں ہے، خواہ وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔
اس کے متعلق امام جَصّاص اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’امت کے اہلِ علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں صرف اولاد مراد ہے اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پوتا، حقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہے اور نہ اس میں اختلاف ہے کہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو اس سے مراد بیٹوں کی اولاد ہے بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لیے ہے اور جب صلبی نہ ہو تو بیٹے کی اولاد اس میں شامل ہے۔ أحکام القرآن: 96/2
ا س سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
ترجمہ:
’’وراثت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچ جائے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مذکر کے لیے ہے۔‘‘صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث الولد من أبیہ وأمِّہٖ، حدیث: 6732
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقررہ حصہ لینے والوں کے بعد وہ وارث ہو گا جو میت سے قریب تر ہو گا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں بیٹا وارث ہو گا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے واضح طور پر فرمایا کہ پوتا بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہو گا۔ اس پر امام بخاری نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
ترجمہ:
’’پوتے کی وراثت جبکہ بیٹا موجود نہ ہو۔‘‘ صحیح البخاري، الفرائض، باب : 7
شریعت نے وراثت کے سلسلے میں الأقرب فالأ قرب کے قانون کو پسند کیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:
’’ہر ایک کے لیے ہم نے اس ترکے کے وارث بنائے ہیں جسے والدین اور قریب تر رشتہ دار چھوڑ جائیں۔‘‘ النساء 33:4
اس آیتِ کریمہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہو گا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے سلسلے میں رشتہ داروں کے فقر و احتیاج اور ان کی بے چارگی کو بنیاد نہیں بنایا جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق اس قسم کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ان کی ذمہ داری کو بنیاد قرار دیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتا تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی مال و دولت کی زیادہ حاجت مند ہے اور اس کی بے چارگی کے سبب میت کے مال میں اسے زیادہ حقدار قرار دیا جانا چاہیے تھا، جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندی، عدمِ کسب معاش یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے۔
البتہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا ہے کہ مرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے یتیم پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں اور دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکہ سے کی وصیت کر جائے۔ اگر کوئی یتیم پوتے پوتیوں کے موجود ہوتے ہوئے دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارے کے لیے وصیت کرتا ہے تو حاکمِ وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اسے ان کے حق میں کالعدم قرار دے کر حاجت مند یتیم پوتے، پوتیوں کے حق میں اس وصیت کو نافذ قرار دے۔ ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے پوتیوں کو بذریعہ ہبہ ترکے کا کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہے تو اس صورت میں وصیت کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اسے عملاً نافذ کر دیا جائے۔
فتوی کمیٹی
واللہ تعالیٰ اعلم
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
Balon ke Masail aur Unka Hal (Part 2)
Balon Ke Mofassal Ahkamat Part 2 by Mrs J Ansari
➊ جب بچہ سات دن کا ہوجائے تو ساتویں دن بچے کے سر بال منڈانے چاہئیں۔ [منتقيٰ ابن الجارود : 910 و سنده حسن، رواية الحسن عن سمرة كتاب والا حتجاج بالكتاب صحيح والحمدلله]
➋ جو بال ساتویں دن اتارے جائیں تو ان کے برابر وزن کرکے چاندی صدقہ کی جائے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 304/9 و سنده حسن]
➌ بالوں کو تھوڑا سا چھوڑ کر باقی منڈوا دینا منع ہے۔
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القزع ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا۔“ [صحيح البخاري : 5920، صحيح مسلم : 2120]
قزع کی چار قسمیں ہیں :
① سر کے بال سارے نہ مونڈنا بلکہ جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے بادلوں کی طرح، ٹکڑیوں میں مونڈنا۔
② درمیان سے سر کے بال مونڈنا اور اطراف میں بال چھوڑ دینا۔
③ اطراف مونڈنا اور درمیان سے سر کے بال چھوڑ دینا۔
④ آگے سے بال مونڈنا اور پیچھے سے چھوڑ دینا۔
 علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی کمال محبت و شفقت ہے۔ انسانی جسم میں بھی عدل کا خیال رکھا کہ سر کا بعض حصہ مونڈ کر اور بعض حصہ ترک کرکے سر کے ساتھ بے انصافی نہ کی جائے۔ بالوں سے کچھ حصہ سر کا ننگا کر دیا جائے اور کچھ حصہ ڈھانک دیا جائے یہ ظلم کی ایک قسم ہے۔“ [تحفة المودود بأ حكام المولود ص 69]
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے سر کا کچھ حصہ منڈا ہوا تھا اور بعض چھوڑا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسا کرنے سے روکا اور فرمایا : احلقوه كله أو اتركوه كله تم اس کا سارا سر مونڈو یا سارا سر چھوڑو۔ [ ابوداود : 4195 و سنده صحيح]
➖ اس حکم میں جوان اور بڑے مرد بھی شامل ہیں اور صرف بچوں کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
➍ مسلمان عورت کے سر کے بال
① عورت اپنے سر کے بال نہیں کٹوا سکتی کیونکہ اس سے مردوں کی مشابہت لازم آتی ہے۔ لہٰذا منع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لعن الله المشتبهين من الرجال بالنساء و المشتبهات من النساء بالرجال ”اللہ لعنت کرے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور [اللہ لعنت کرے] ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔“[صحيح بخاري : 5885]
➖ آج کی جدت پسند عورت ہر کام میں اپنے آپ سے مردوں کو حقیر سمجھتی ہیں۔ اللہ نے عورت کو جو مقام دیا ہے وہ اس سے زیادہ کی امنگ لیے ہوئے ہے اسی لئے وہ ذلیل بنتی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ عورت کی عزت اور مقام اسی میں ہے کہ وہ مردوں کی مشابہت بالکل اختیار نہ کرے۔
➖ اللہ کی لعنت کی مستحق ہے وہ عورت جو اپنے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے کے لئے سر کے بالوں کو کٹواتی ہے۔
② حج اور عمرہ کے موقع پر جب وہ عورت احرام کھولے تو سر کے بالوں کو (آخر سے تقریبا ایک انچ تک) کتروانا چاہئے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ليس على النساء الحلق إنما على النساء التقصير (حج یا عمرہ سے احرام کھولنے کے بعد) ”عورتوں پر سر منڈوانا نہیں بلکہ بال کتروانا ہے۔“ [ابوداود 1985، الدارمي : 1911و سنده حسن، و حسنه ابن حجر فى التلخيص الحبير 261/2]
③ عورت کا اپنے سر کے بال منڈوانا حرام ہے۔ دلیل کے لئے دیکھئے فقرہ سابقہ : 2
④ عورت مجبوری (شدید بیماری) کی حالت میں اپنے سر کے بال منڈوا سکتی ہے۔
⑤ فوت شدہ عورت کے بالوں کو تین حصوں میں گوند کر پیچھے ڈال دینا چاہئے۔
❀ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی وفات پاگئیں….. ”ہم نے (غسل دینے کے بعد) اس کے بال تین حصوں میں گوند کر پیچھے ڈال دیئے ” [صحیح بخاری : 1263]
⑥ جنبی عورت کا غسل جنابت میں اپنے سر کے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں ہے بلکہ اسی طرح اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالے۔ [صحیح مسلم : 330]
⑦ اگر عورت نے حیض (ماہواری کا خون) یا نفاس (وہ خون جو بچے کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک جاری رہتا ہے) کے ختم ہونے پر غسل کرنا ہے تو پھر سر کے بالوں کا کھولنا ضرور ی ہے۔ [صحيح البخاري : 317]
فائدہ : نفاس اور حیض کا ایک ہی حکم ہے۔ دیکھیں صحیح البخاری [298]
⑧ حیض (یا نفاس) سے نہاتے وقت بالوں میں کنگھی کرنی چاہئے۔ [صحيح بخاري : 316]
⑨ نماز پڑھتے وقت بالغ عورت اپنے سر کے بالوں کو چادر سے ڈھانپ کر نماز پڑھے ورنہ نماز نہیں ہوتی۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لا يقبل الله صلاة حائض إلابخمار جس عورت کو حیض آتا ہے (جو بالغہ ہے ) اللہ تعالیٰ اس کی نماز ڈوپٹہ کے بغیر قبول نہیں کرتا۔ [ابوداود : 641، الترمذي : 377، ابن ماجه 655المعجم لابن الاعرابي 325، 326/2 ح 1996 و هو حديث صحيح]
تنبیہ : اگر سر پر اتنا باریک کپڑا ہے جس سے سر کے بال نظر آرہے ہیں تو اس میں بھی نماز صحیح نہیں ہوگی کیونکہ عورت کو سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔
⑩ عورت کے لئے حرام ہے کہ وہ اپنے بال غیر محرموں کے سامنے کھلے چھوڑے کیونکہ غیر محرم سے عورت کا پردہ کرنا فرض ہے۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾ ”اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔ اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ستایا نہ جائے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔“ [الاحزاب : 59]
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے ﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ﴾ کی تفسیر کے متعلق عبیدہ السلمانی سے سوال کیا تو انہوں نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانپ لیا اور اپنی بائیں آنکھ ظاہر کی۔ [تفسير ابن جرير 33/22 و سنده صحيح، من طريق ابن عون عن محمد بن سيرين به]
➖ یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ اگر انگریز کافر عورت کی طرح پردہ کو مسلمان عورت نے بھی دور کردیا تو کل قیامت کے دن انہی کافر عورتوں کی صف میں کھڑی ہو گی۔
⑪ درج ذیل مسئلوں میں عورت کے سر کے بالوں کے احکام مرد کی طرح ہیں مثلا :
➊ بال پاک ہیں۔
➋ بالوں کی خرید و فروخت کرنا نا جائز ہے۔
➌ بالوں کوکنگھی کرنا۔
➍ کنگھی دائیں سے شروع کرنا۔
➎ مانگ تالو سے نکالنا۔
➏ بالوں میں تیل لگانا۔
➐ بالوں کو گوند کر یا چوٹی بنا کر نماز نہ پڑھنا۔
➑ بالوں کو کسی چیز سے چپکانا۔
➒ سفید بالوں کو اکھیڑنا حرام ہے۔
➓ سفید بالوں کو کالے رنگ کے علاوہ مہندی یا زرد رنگ یا کسی اور رنگ سے رنگنا۔
⓫ مصنوعی بال (وگ) لگانا حرام ہے۔
⓬ وضو میں سر کا مسح کرنا۔
⓭ غسل جنابت کے وضو میں سر کا مسح کرنے کے بجائے تین چلو ڈالنا یا مسح کرنا۔
مذکورہ تمام احکام کی تفصیل (مسلمان مرد کے بالوں کے احکام ) میں گزر چکی ہے۔
⛔➋ ابرؤوں (ابرواں) کے بالوں کے احکام (یہ احکام عورت کے ساتھ خاص ہیں)
ابروؤں کے بال اتارنا یا باریک کرنا حرام ہیں۔
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ”گودنے والی اور خوبصورتی کے لئے ابروؤں کے بال اتارنے والی (یا باریک کرنے والی) دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہو جو اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں یہ حدیث بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی اس کی کنیت ام یعقوب تھی وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی : مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ تم نے ایسی ایسی عورت پر لعنت کی ہے ؟ انہوں نے کہا : بے شک میں تو ضرور اس پر لعنت کروں گا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور اللہ کی کتاب میں اس پر لعنت آئی ہے۔ وہ عورت کہنے لگی : میں نے تو سارا قرآن دو تختیوں کے درمیان پڑھا ہے اس میں تو کہیں ان عورتوں پر لعنت نہیں آئی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تو قرآن کو (غور و فکر اور سمجھ کر) پڑھتی تو ضرور یہ مسئلہ پا لیتی کیا قرآن میں تو نے یہ نہیں پڑھا کہ پیغمبر جس بات کا تم کو حکم دے اس پر عمل کرو اور کس بات سے منع کرے اس سے باز رہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں یہ آیت تو قرآن میں ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں سے منع کیا ہے۔ وہ عورت کہنے لگی : تمہاری بیوی بھی تو یہ کرتی ہے، انہوں نے کہا : جا دیکھ جب وہ گئی وہاں کوئی بات نہ پائی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر میری بیوی ایسے کام کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی“ [صحيح بخاري : 4886]
➖ اللہ ہماری مسلمان ماؤں اور بہنوں کو اس لعنت کے مستحق عمل سے محفوظ فرمائے۔
فائدہ ① : چہرے کے بالوں کو نوچنا خوبصورتی کے لئے حرام ہے۔
یہ عورتوں کے ساتھ خاص ہے۔ دلیل (ابرؤوں کے بالوں کے احکام میں گزر چکی ہے۔ )
فائدہ ② : عورت کا اپنے چہرے کے غیر عادی بالوں (داڑھی یا مونچھیں) کو زائل کرنا درست ہے۔
◈ حافظ ابن حجر نے امام نووی کا قول نقل کیا ہے کہ ”چہرے سے بال نوچنے سے داڑھی، مونچھیں یا بچہ داڑھی مستثنیٰ ہیں عورت کا انہیں زائل کرنا حرام نہیں بلکہ مستحب ہے“ پھر حافظ ابن حجر نے کہا : کہ ”س قول کو مفید کہا : جائے گا کہ وہ عورت اپنے خاوند سے اجازت لے کہ میں اپنی داڑھی یا مونچھیں یا بچہ داڑھی زائل کرلوں یا اسے اس کا علم ہونا چاہئے ورنہ خاوند کو دھوکا رہتا ہے۔“ [فتح الباري 462/10]
◈ شیخ محمد بن الصالح العیثمین لکھتے ہیں : ”ایسے بال جو جسم کے ان حصوں میں اگ آئیں جہاں عادتا بال نہیں اگتے مثلا عورت کی مونچھیں اگ آئیں یا رخساروں پر آجائیں تو ایسے بالوں کو اتارنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ خلاف عادت اور چہرے کے لئے بدنمائی کا باعث ہیں۔“
[فتاويٰ برائے خواتين : ص 342- 343]
⛔➌ رخساروں کے بالوں کے احکام (یہ مردوں کے ساتھ خاص ہیں۔ )
اللحية (داڑھی) کی تعریف لغت میں ہے کہ ”دونوں رخساروں اور ٹھوڑی کے بال“ [القاموس الوحيد ص 1462]
فائدہ : بچہ داڑھی بھی داڑھی میں شامل ہے۔
عنفقه (نچلے ہونٹ اور تھوڑی کے درمیان کے بال) بھی داڑھی میں شامل ہے جو اسے خارج سمجھتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ جو بال نیچے کے چپاڑے پر ہیں ان کے داڑھی میں داخل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ [فتاويٰ اهلحديث 273/1 بحواله فتاويٰ ثنائيه مدنيه 57/1]
فائدہ : گھنڈی اور گردن کے بال داڑھی میں شامل نہیں، ان کو لینا جائز ہے۔
[فتاويٰ ثنائيه مدنيه : 782/1]
⛔➍ داڑھی کے احکام
➊ داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عشر من الفطرة قص الشارب و اعفاء اللحية ”دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں جن میں سے مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا بھی ہے۔“ [صحيح مسلم : 261]
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خالفوا المشركين وفروا اللحي واعفو الشوارب ”مشرکوں کی مخالفت کرو داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو پست کرو۔“ [صحيح بخاري : 5892، صحيح مسلم : 259]
❀ صحیح بخاری [5893] میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ انهكوا الشوارب و اعفوا اللحي ”داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو۔“
❀ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم] اہل کتاب داڑھیوں کو کاٹتے ہیں اور مونچھوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”تم مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔“ [مسند احمد : 264/5 و سنده حسن، حسنه ابن حجر فتح الباري 354/10]
➖ معلوم ہوا کہ داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔
◈ حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”کچھ لوگوں نے یہ مسئلہ بنایا ہے کہ داڑھی رکھنا سنت ہے، فرض نہیں۔ عام لوگوں کا یہ ذہن ہے اس کو سنت سمجھتے ہیں۔ یہ نظریہ بھی غلط ہے۔ داڑھی رکھنا بڑھانا سنت نہیں بلکہ فرض ہے، واجب ہے اور داڑھی کٹانا فرض اور واجب کی خلاف ورزی ہے، نافرمانی ہے، حرام ہے اور گناہ ہے“ [مقالات نور پوري : ص 278]
تنبیہ : جن احادیث میں داڑھیاں چھوڑنے، معاف کرنے اور بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے، ان کے راویوں میں سے ایک راوی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ دیکھئے صحیح بخاری [5892، 5893] و صحیح مسلم [259]
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ حج اور عمرے کے وقت اپنی داڑھی کا کچھ حصہ (ایک مشت سے زیادہ کو) کاٹ دیتے تھے۔ دیکھئے [ صحيح بخاري 5892، و سنن ابي داود 2357، و سنده حسن و حسنه الدارقطني 182/2 و صححه الحاكم 422/1 وو افقه الذهبي]
➖ کسی صحابی سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پر اس سلسلے میں انکار ثابت نہیں ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت صحابی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنیں اور پھر خود ہی اس کی مخالفت بھی کریں۔
❀ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ایک آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں : والأخذ من الشارب و الأظفار و اللحية ”مونچھوں، ناخنوں اور داڑھیوں میں سے کاٹنا۔“ [مصنف ابن ابي شيبه 85/4 ح 15668 و سنده صحيح، تفسير ابن جرير 109/17 و سنده صحيح]
◈ محمد بن کعب القرظی (تابعی، ثقہ عالم) بھی حج میں داڑھی سے کچھ کاٹنے کے قائل تھے۔ [تفسير ابن جرير 109/17 و سنده حسن]
◈ ابن جریح بھی اس کے قائل تھے۔ [تفسير طبري 110/17 و سنده صحيح]
◈ ابراہیم [نخعی] رخساروں کے بال کاٹتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 375/8 ح 25473 وسنده صحيح]
◈ قاسم بن محمد بن ابی بکر بھی جب سر منڈاتے تو اپنی مونچھوں اور داڑھی کے بال کاٹتے تھے۔ [ابن ابي شيبه : ح 25476 و سنده صحيح]
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 375/8 ح 25479 و سنده حسن]
➖ اس کے راوی عمرو بن ایوب کو ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے [225، 224/7] اور اس سے شعبہ بن الحجاج نے روایت لی ہے۔ شعبہ کے بارے میں یہ عمومی قاعدہ ہے کہ وہ (عام طور پر) اپنے نزدیک ثقہ راوی سے ہی روایت کرتے تھے۔ دیکھئے تہذیب التہذیب [5، 4/1] اس عمومی قاعدے سے صرف وہی راوی مستثنیٰ ہوگا جس کے بارے میں صراحت ثابت ہو جائے یا جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہو۔
ان دو توثیقات کی وجہ سے عمرو بن ایوب حسن درجے کا راوی قرار پاتا ہے۔
طاوس (تابعی) بھی داڑھی میں سے کاٹنے کے قائل تھے۔ [الترجل للخلال : 96 و سنده صحيح، هارون هو ابن يوسف بن هارون بن زياد الشطوي]امام احمد بن حنبل بهي اسي جواز كے قائل تهے۔ [كتاب الترجل : 92]
➖ ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کاٹنا اور رخساروں کے بال لینا جائز ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ داڑھی کو بالکل قینچی نہ لگائی جائے۔ واللہ اعلم
➖ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صحابی کا عمل دلیل ہے یا نہیں ؟ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کا کون سا فہم معتبر ہے۔ وہ فہم جو چودھویں پندرھویں ہجری کا ایک عالم پیش کر رہا ہے یا وہ فہم یا جو صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور محدثین کرام سے ثابت ہے۔ ؟ !
➖ ہم تو وہی فہم مانتے ہیں جو صحابہ، تابعین، تبع تابعین و محدثین اور قابل اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے۔ ہمارے علم کے مطابق کسی ایک صحابی، تابعی، تبع تابعی، محدث یا معتبر عالم نے ایک مٹھی سے زیادہ داڑھی کو کاٹنا حرام یا ناجائز نہیں قرار دیا۔ حافظ عبداللہ رو پڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”خلاصہ یہ ہے ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں کیونکہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے ….“[فتاويٰ اهل حديث 1 ص 111] / زع ]
③ سفید داڑھی کو رنگنا بھی چاہئے۔
❀ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے سر کے بالوں کو مہندی لگائی ہوئی تھی۔“ [مسند احمد 163/4 ح 17498 و سنده صحيح]
④ مونچھوں کے احکام
➊ مونچھوں کو ترشوانا چاہئے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عشر من الفطرة قص الشارب…. ”دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں (جن میں) مونچھیں تراشنا بھی ہیں۔“ [صحيح مسلم : 261]
➋ مونچھوں کو ترشوانے میں چالیس دن سے تاخیر نہ کرے۔
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وقت لنا فى قص الشارب و تقليم الأظفار و نتف الإبط و حلق العانة أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة ”ہمارے لئے وقت مقرر کیا گیا کہ ہم مونچھوں کو ترشوانا، ناخنوں کو اتارنا، بغلوں کے بال نوچنا اور زیر ناف بال مونڈھنے کو چالیس دنوں سے زیادہ تاخیر نہ کریں۔“ [صحيح مسلم : 129/1 ح 258]
➖ ساری مونچھوں (یا بعض مونچھوں) کو قینچی سے کاٹنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من لم يأخذ من شاربه فليس منا ”جو شخص مونچھوں میں سے نہ لے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ [السنن الكبريٰ للنسائي : 9293 و سنده صحيح]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مونچھیں اتنی کاٹتے کہ ان کی (سفید) جلد نظر آتی تھی۔ [صحيح البخاري قبل ح : 5888 تعليقا، رواه الاثرم كمافي تغليق التعليق 72/5 و سنده حسن، الطحاوي فى معاني الآثار 231/4 و سنده صحيح]
❀ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بعض اوقات مونچھوں کو تاؤ دیتے تھے۔ [ديكهئے كتاب العلل و معرفة الرجال للامام احمد 261/1 ح 1507 و سنده صحيح]
➖ امام مالک رحمہ اللہ کی بھی باریک سروں والی لمبی مونچھیں تھیں۔ [حوالہ مذکور : 1507 و سندہ صحیح]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی لمبی مونچھوں کو مسواک سے کاٹا (یا کٹوایا) تھا۔ [ديكهئے سنن ابي داود : 188 و سنده صحيح]
➖ امام سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ نے (ایک دفعہ) اپنی مونچھوں کو استرے سے منڈوایا تھا۔ دیکھئے التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ
[ص 160 ح 311 و سندہ صحیح]
➖ معلوم ہوا کہ مونچھیں کاٹنا اور منڈانا دونوں طرح جائز ہیں تاہم بہتر یہی ہے کہ مونچھیں استرے کی بجائے قینچی سے کاٹی جائیں۔
⛔➏ بغلوں کے بالوں کے احکام
➊ بغلوں کے بالوں کو نوچنا بھی فطرت سے ہے۔ [صحیح مسلم : 261]
جو شخص بغلوں کے بالوں کو اکھاڑنے پر قادر نہ ہو تو انہیں مونڈ سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿اتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ ”اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھتے ہو۔“ [التغابن : 16] نیز دیکھئے کتاب الترجل [ص 150] و المجموع [288/1]
➋ بغلوں کے بالوں کو نوچنے میں چالیس دن سے تاخیر نہ کرے۔ [صحیح مسلم : 129/1ح 258]
فائدہ : مونچھوں کو کٹوانا افضل ہے اور منڈوانا بھی جائز ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیں
[زادالمعاد : 178/1- 182]
⛔➐ زیر ناف بالوں کے احکام :
➊ زیر ناف بالوں کو مونڈنا فطرت سے ہے۔ [صحيح مسلم : 26]
➋ زیر ناف بالوں کے مونڈھنے میں چالیس دن سے تاخیر نہ کرے۔ [صحیح مسلم : 129/1 ح 258]
فائدہ : فوت شدہ کے زیر ناف بالوں کو مونڈھنا بھی درست ہے اور نہ مونڈھنا بھی دونوں طرح کے آثار سلف صالحین سے مروی ہیں۔ [مصنف ابن ابي شيبه ح : 10945، 10954، 10974، الاوسط : 328/5، 329 مسائل احمدلابي داود : ص 141] لیکن بہتر یہی ہے کہ بال نہ مونڈے جائیں۔
⛔➑ (کانوں کے اندرونی) سینہ، کمر، بازؤوں، پشت، ٹانگوں، رانوں، ہاتھوں اور پاؤں پر اگے ہوئے بالوں کے احکام
➖ جسم پر اگے ہوئے بالوں کی بعض اقسام کے احکام قرآن و حدیث نے بیان کردیئے ہیں اور بعض کے نہیں بیان کئے یعنی ان سے خاموشی اختیار کی ہے جس چیز سے شریعت نے خاموشی اختیار کی ہو ا(ور دوسرے قرائن سے اس کی نفی بھی نہ ہو رہی ہو تو) اس کا کرنا جائز ہو تا ہے معلوم ہوا کہ سینہ، کمر اور بازؤوں کے بال کاٹنا اور مونڈنا جائز ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
⛔➒ ناک میں اگے ہوئے بالوں کو اکھیڑنا :
➖ اس کے متعلق بھی شریعت خاموش ہے ان کا اکھیڑنا بھی جائز ہے۔
نوٹ : اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو فضول نہیں بنایا ناک میں اگے ہوئے بالوں اور اس سے پہلی قسم کے بالوں کے اگانے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہیں جو ہم پر (علم نہ ہونے کی وجہ سے) مخفی ہیں لہٰذا ان کو اپنی حالت میں چھوڑنا ہی بہتر ہے۔
⛔➓ کنپٹی کے بالوں کے احکام
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنپٹی کے چند بال سفید تھے۔ [صحيح بخاري : 3550 و صحيح مسلم : 231]
➋ جس روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے وقت کنپٹیوں کا مسح کیا تھا۔ [سنن ابي داود : 129 و سنن الترمذي : 34]
➖ اس کی سند عبداللہ بن محمد بن عقیل (ضعیف) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
─┅━━━━─━══★◐★══━─━━━━┅┄
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
الشیخ ابراہیم بن بشیر الحسینوی
Balon Se Joodi Masail Aur Unka Hal. (Part 1)
Balon Ko Kale Khijab Se Rungne Ke Masail
Balon Ke Mofassal Ahkamat Part 1
➊ سر کے بالوں کے احکام
➋ ابرؤوں (ابرواں) کے بالوں کے احکام
➌ رخساروں کے بالوں کے احکام
➍ داڑھی کے احکام
➎ مونچھوں کے احکام
➏ بغلوں کے بالوں کے احکام
➐ زیر ناف بالوں کے احکام
➑ (کانوں کے اندرونی) سینہ، کمر، بازوؤں، ٹانگوں، رانوں، ہاتھوں اور پاؤں پر اگے ہوئے بالوں کے احکام
➒ ناک میں اگے ہوئے بالوں کے احکام
➓ کنپٹی کے بالوں کے احکام۔
——————
⛔➊ سر کے بالوں کے احکام :
یہ چار قسموں پر مشتمل ہوتے ہیں :
◈ مسلمان مرد کے بالوں کے احکام
◈ نومسلم کے بال
◈ بچوں کے بال
◈ مسلمان عورت کے بال
① مسلمان مرد کے بالوں کے احکام
مسلمان مرد کے بال پاک ہیں خواہ وہ زندہ ہو یا مرا ہوا، اس کے دلائل درج ذیل ہیں :
❀ جب محمد بن سیرین نے عبیدہ سے کہا: کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ہیں جو ہمیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کی طرف سے پہنچے ہیں، تو عبیدہ نے یہ ( سن کر ) فرمایا کہ لأن تكون عندي شعرة منه أحب إلى من الدنيا و مافيها ”میرے پاس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال (بھی) ہوتا تو یہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تھا۔ [صحيح البخاري : 170]
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالوں کو منڈوایا تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو لیا تھا۔ [صحيح البخاري 171]
 ان دونوں احادیث پر امام بخاری نے یہ باب باندھا ہے :
باب الماء الذى يغسل به شعر الإنسان
باب : اس پانی کے بارے میں جس میں انسان کے بالوں کو دھویا جاتا ہے۔ [کتاب الوضوء باب 33]
 حافظ ابن حجر ترجمۃ الباب کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أن الشعر طاهر و إلا لما حفظوه ولا تمني عبيدة أن يكون عنده شعرة واحدةمنه، وإذا كان طاهرا فالماء الذى يغسل به طاهر
یعنی بال پاک ہیں وگرنہ وہ [صحابۂ کرام] ان کی حفاظت نہ کرتے اور عبیدہ (تابعی) تمنا بھی نہ کرتے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال ہوتا، جب بال پاک ہیں تو جس پانی میں بالوں کو دھویا گیا ہے وہ بھی پاک ہے۔“ [فتح الباري 363/1]
 حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں :
جمہور علماء بھی بالوں کو پاک سمجھتے ہیں اور یہی ہمارے نزدیک صحیح ہے۔“ [فتح الباري 364/1]
❀ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے جسے انہوں نے ایک چھوٹے پیالے میں رکھا ہوا تھا۔ یہ بال مہندی کی وجہ سے سرخ تھے۔ جب کسی شخص کو نظرلگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ اپنا پانی کا برتن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیتا۔ (آپ رضی اللہ عنہ اس برتن کے پانی میں وہ بال ڈبو دیتیں۔ ) [صحيح البخاري : 5896، فتح الباري 353/10]
① معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے تبرک حاصل کرنا جا ئز ہے۔
② انسانی بالوں کی خرید و فروخت ناجائز ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ولقد كرمنا بني اٰدم﴾ اور ہم نے آدم (علیہ السلام ) کی اولاد کو عزت دی [بنیٓ اسرآئیل : 70] کے خلاف ہے۔
③ انسانی بالوں کی خرید و فروخت میں انسان کی تکریم نہیں رہتی بلکہ تذلیل ہے۔
④ بالوں کی تکریم کرنا ضروری ہے [ديكهئے سنن ابي داؤد : 4163 و سنده حسن] ، اسے ابن حجر نے فتح الباری 368/10 میں حسن کہا ہے۔
بالوں کی تکریم درج ذیل چیزیں آتی ہیں :
① پہلی دائیں طرف سے کنگھی کرنا اور یہ بہت زیادہ مستحب ہے۔
② ایک دن چھوڑ کر کنگھی کی جائے۔
کنگھی کرنے کے آداب
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن فى تنعله و ترجله
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے میں اور کنگھی کرنے میں دائیں طرف کو پسند فرماتے۔ [صحيح البخاري : 5926]
❀ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [النسائي 132/8 ح 5061 و سنده صحيح]
فائدہ : حائضہ عورت اپنے خاوند کی کنگھی کر سکتی ہے۔ امام بخاری رحمه الله نے باب قائم کیا ہے : باب ترجيل الحائض زوجها “ [كتاب اللباس قبل ح : 5925]
③ بالوں میں مانگ نکالنی چاہئے اور یہ مستحب ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کو چھوڑا کرتے تھے اور مشرکین اپنے بالوں میں مانگ نکالتے تھے جبکہ اہل کتاب اپنے بالوں کو چھوڑا کرتے تھے۔ جس کام میں آپ کو کوئی حکم نہیں دیا جاتا تھا تو آپ اس میں اہل کتاب کی موفقت پسند کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد مانگ نکالی۔ [صحيح بخاري : 3558، صحيح مسلم : 2336]
① مانگ تالو سے نکالنی چاہئے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ”جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بالوں میں مانگ نکالتی“ صدعت الفرق من يافوخه و أرسل ناصيته بين عينيه تالو سے (بالوں کے دو حصے کر کے) مانگ چیرتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کے بال دونوں آنکھوں کے درمیان چھوڑتی۔ [ ابوداود : 4189 و سنده حسن]
تنبیہ : ٹیڑھی مانگ اور انگریزی حجامت سے ہر صورت بچنا ضروری ہے کیونکہ اس سے کفار سے مشابہت ہو جاتی ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من تشبه بقوم فهو منهم ”جو شخص کسی قسم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں ہوگا۔“ [ابوداود 4031 و سنده حسن، و الطحاوي فى مشكل الآثار 88/1]
② بالوں میں تیل لگانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بالوں میں تیل لگاتے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو چند سفید بال تھے نظر نہیں آتے تھے اور جب تیل نہ لگاتے تو یہ بال نظر آتے تھے۔ [صحیح مسلم : 2344]
 اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کبھی تیل لگانا چاہئے اور کبھی نہیں لگانا چاہئے۔
 اگر ضرورت ہو تو دن میں دو دفعہ بھی بالوں میں تیل لگایا جاسکتا ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بعض اوقات دن میں دو دفعہ تیل لگاتے تھے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ 392/8 ح 25549 و سندہ صحیح]
③ بالوں میں خوشبو لگانا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں :
كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم بأطيب مايجد….
”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے بالوں) میں سب سے اچھی خوشبو لگاتی جو آپ کو دستیاب ہوتی۔“ [صحيح البخاري : 5923]
 اس حدیث پر امام بخاری رحمه الله نے یہ باب باندھا ہے کہ باب الطيب فى الرأس و اللحية یعنی ”سر اور داڑھی میں خوشبو لگانے کا باب“
فائدہ : اگر کوئی شخص کسی کو خوشبو دے تو اسے واپس نہیں کرنی چاہئے بلکہ خوشبو لے لینی چاہئے۔ [صحيح بخاري : 5929]
④ بالوں کی چوٹی بنا کر یا انہیں گوندھ کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن حار ث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور ان کا سر پیچھے سے گوندھا ہوا تھا۔ آپ کھڑے ہوئے اور اس کو کھول دیا۔ جب عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے نماز مکمل کرلی تو آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہا: آپ کو کیا ہے میرے سر کے (بالوں کے) بارے میں ؟ تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بالوں کو گوندھنے والے آدمی کے بارے میں) فرماتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا : إنما مثل هٰذا مثل الذى يصلي وهو مكتوف ”یہ تو اس آدمی کی طرح لگ رہا ہے جسے باندھا گیا ہو۔“ [صحيح مسلم : 492]
فائدہ : اس روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض علماء نے كف الشوب ”کپڑا لپیٹنے“ سے ممانعت والی حدیث [البخاري : 809، 810 ومسلم : 490] سے یہ استدلال کیا ہے کہ آستینیں چڑھا کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے کیونکہ اس سے كف الشوب لازم آتا ہے۔
⑤ بال درج ذیل طریقوں سے رکھنا جائز ہیں
◈ نصف کانوں تک۔
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كان شعر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى نصف أذنيه ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نصف کانوں تک تھے۔“[صحيح مسلم : 2338]
◈ کندھوں سے اوپر اور کانوں کی لو سے نیچے تک
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن غسل کرلیا کرتے تھے۔
وكان له شعر فوق الجمة و دون الوفرة
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کندھوں کے اوپر اور کانوں کی لو سے نیچے تھے۔ [ ابوداود : 4187 و سندہ حسن]
 اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمه الله نے فرمایا : حسن صحیح غریب۔ [1755]
◈ کانوں کی لو کے برابر
❀ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد درمیانہ تھا، دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ عظيم الجمة إليٰ شحمة أذنيه ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بہت لمبے تھے جو کانوں کی لو تک پڑتے تھے۔“ [صحيح البخاري 3551، صحيح مسلم : 2337 و اللفظ له]
⑥ بالوں کو کسی چیز سے چپکانا (بھی) صحیح ہے
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ملبدا ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو لیس دار چیز یا گوند سے چپکا ہوا دیکھا۔“ [صحيح البخاري : 5914] اور یہ حج کا موقع تھا۔ [صحيح البخاري : 5915]
⑦ درج ذیل صورتوں میں سر کے تمام بال منڈوانا جائز ہے
➊ جب کوئی کافر مسلمان ہو (تفصیل بعد میں آئے گی انشاء اللہ)
➋ جب بچہ پیدا ہو تو پیدائش کے ساتویں دن (تفصیل بعد میں آئے گی انشاء اللہ)
➌ بطور ضرورت
❀ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جعفر کی اولاد کو (ان کے شہید ہونے کے بعد) تین دن مہلت دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آج کے بعد میرے بھائی (جعفر رضی اللہ عنہ) پر مت رونا۔ پھر فرمایا کہ میرے بھتیجوں کو میرے پاس لے کر آؤ چنانچہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے اور اس وقت ہم چوزوں کی طرح (بہت کم سن) تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ“ بال مونڈنے والے کو بلا کر میرے پاس لاؤ ”(جب وہ آگیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ہمارے بال) مونڈنے کا حکم دیا اور اسی نے ہمارے سروں کو مونڈا۔“ [ ابوداود : 4194، و سنده صحيح و صححه النووي فى رياض الصالحين : 1642 عليٰ شرط البخاري و مسلم، النسائي : 5229]
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کا آدھا سر مونڈا ہوا تھا اور آدھا نہیں مونڈا ہواتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احلقوه كله أو اتركوه كله ”اس کے سر کے سارے بالوں کو مونڈ دو یا سارے بال چھوڑ دو۔“[ابوداود : 4195 و سنده صحيح]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سر کے تمام بالوں کو بطور ضرورت مونڈنا صحیح ہے .
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے میدنے میں قربانی کی اور اپنا سر مونڈا یعنی مونڈوایا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 237/3 ح 13888 وسنده صحيح، طبعة دار الكتب العلمية بيروت لبنان]
 بہتر یہی ہے کہ حج اور عمرے کے علاوہ عام دنوں میں سر نہ منڈایا جائے لیکن اگر کوئی بیماری یا عذر ہو تو ہر وقت سر منڈوانا جائز ہے۔ جو کام بچوں کے لئے جائز ہے وہ کام بڑوں کے لئے بھی جائز ہے الا یہ کہ کوئی صریح و خاص دلیل مردوں کو اس سے خارج کردے۔ خوارج کے ساتھ خشوع نماز، قرأت قرآن اور سر منڈانے میں مشابہت کا یہ مطلب غلط ہے کہ یہ افعال ناجائز ہیں۔
➍ حج اور عمرہ کے موقع پر
✿ قرآن مجید میں ہے ﴿لتدۡخلن الۡمسۡجد الۡحرام انۡ شآء اللٰه اٰمنيۡن ۙ محلقيۡن رءوۡسكمۡ و مقصريۡن ۙ لا تخافوۡن ؕ﴾ تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہوگے ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سر منڈائے اور بال ترشوائے ہوگے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ [الفتح : 27]
❀ حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : حلق رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجته ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر اپنے سر کے بال منڈوائے۔“ [صحيح البخاري : 1726]
 تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح البخاری [1726۔ 1730]
◈ جانور ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوایا جائے تو بھی صحیح ہے [صحيح بخاري : 1721]
◈ عمرہ کے بعد سر کے بال منڈوانا صحیح ہے۔ [صحيح البخاري : 1731]
◈ حج یا عمرہ میں بالوں کو کٹوانا بھی صحیح ہے۔ [صحیح البخاری : 1727، 1731]
فائدہ ① مذکورہ صورتوں میں بالوں کا مونڈنا تو ثابت ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مونڈنے سے منع بھی نہیں فرمایا جس کام میں خاموشی ہو اس کا کرنا جائز ہے چنانچہ سر کے تمام بالوں کو مونڈنا جائز ہے مگر افضل و سنت یہی ہے کہ بال وفره، جمه، لمه رکھے جائیں کیونکہ احرام کھولنے کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے۔ [ديكهئے احكام و مسائل شيخ نور پوري531/1]
فائدہ ② سر کے بال قینچی سے کٹوانا بھی جائز ہے۔
✿ قرآن مجید میں ہے کہ ﴿لتدۡخلن الۡمسۡجد الۡحرام انۡ شآء اللٰہ اٰمنیۡن ۙ محلقیۡن رءوۡسکمۡ و مقصریۡن ۙ لا تخافوۡن ؕ﴾ تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہوگے ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سر منڈائے اور بال ترشوائے ہوگے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ [الفتح : 27]
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے اللہ رحمت کر سر منڈوانے والوں پر، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اور بال ترشوانے والوں پر اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ رحمت کر سر منڈوانے والوں پر، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اور بال ترشوانے والوں پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور بال ترشوانے والوں پر۔“ [صحيح البخاري : 1727]
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت نے سر منڈوایا اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بال ترشوائے۔ [صحيح البخاري : 1729]
فائدہ ③ کاٹے ہوئے بالوں کو دفن کرنا ضروری نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر نے صحیح بخاری کی [5938] حدیث سے یہ استدلال کیا ہے۔ [فتح الباری 461/1]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ و ہ بالوں ( اور ناخنوں] کو (زمین میں) دفن کر دیتے تھے۔ [كتاب الترجل للخلال : 146 وسنده حسن، عبدالله بن عمر العمري حسن الحديث عن نافع و ضعيف الحديث عن غيره، و محمد بن لي هو حمدان بن على بن عبدالله بن جعفر : ثقة]
◈ امام احمد رحمه الله بھی انہیں دفن کرنے کے قائل تھے۔ [الترجل : 146 و سنده صحيح]
◈ قاسم بن محمد بن ابی بکر اپنے بال منیٰ میں دفن کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 417/8 ح 25654 و سنده صحيح]
معلوم ہوا کہ بالوں کو دفن کرنا جائز یا بہتر ہے اور اگر نہ کئے جائیں تو بھی بہتر اور جائز ہے۔
اعتراض کا جواب : بعض کہتے ہیں کہ سر منڈانا منع ہے کیونکہ حدیث میں آتا ہے سر منڈانا خارجیوں کی علامت ہے۔ حالانکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو خارجی ہے وہ سر منڈاتا ہے یہ مقصود نہیں ہے کہ جو سر منڈاتا ہے وہ خارجی ہے۔ [ديكهئے احكام و مسائل للشيخ نورپوري 531/1]
فائدہ ④ دائیں طرف سے پہلے بالوں کو کٹوائیں۔ تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں فتح الباری [364/1]
⑨ سفید بالوں کے احکام : اس کی درج ذیل صورتیں ہیں :
◄ سفید بالوں کو اکھیڑنا
◄ سفید بالوں کو رنگ کرنا۔
◄ سفید بالوں کو اکھیڑنا حرام ہے
❀ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تنتفوا الشيب فإنه نور المسلم إلخ سفید بالوں کو نہ اکھیڑو کیونکہ بڑھاپا (بالوں کا سفید ہونا) مسلمان کے لئے نور ہے جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے (جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے) تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے۔“ [ابوداود : 4202 و سنده حسن، ابن عجلان صرح بالسماع]
 امام ترمذی [2821] نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
◄ سفید بالوں کو رنگنا
بالوں کو رنگنا خضاب کہلاتا ہے اور اس کی درج ذیل صورتیں اور قسمیں ہیں :
① رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو رنگنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غير و الشيب ولا تشبهوا باليهود بڑھاپے (بالوں کی سفیدی) کو (خضاب کے ذریعے) بدل ڈالو اور (خضاب نہ لگانے میں) یہودیوں کی مشابہت نہ کرو۔ [الترمذي : 1752 و قال : حسن صحيح وسنده حسن]
❀ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہودی اور نصرانی (عیسائی) خضاب نہیں لگاتے لہٰذا تم ان کے خلاف کرو (تم خضاب لگاؤ ) [صحيح البخاري : 5899، صحيح مسلم : 2103]
② مہندی کا خضاب (رنگ) لگانا یا مہندی میں کوئی چیز ملا کر سفید بالوں کو رنگین کرنا بھی جائز ہے۔
③ زرد خضاب لگانا بھی ٹھیک ہے۔
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دباغت دیئے ہوئے اور بغیر بال کے چمڑے کا جوتا پہنتے تھے اور اپنی ریش مبارک (داڑھی) پر آپ ورس (ایک گھاس جو یمن کے علاقے میں ہوتی تھی) اور زعفران کے ذریعے زرد رنگ لگاتے تھے۔ [ابوداود : 4210 وسنده حسن، النسائي : 5246]
 احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ سرخ اور زرد خضاب لگایا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی لگایا۔ نیز دیکھئے فتح الباری [354/10]
 شیخ نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
”احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو رنگنے کا بھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کا بھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے رنگنے سے تعلق امرندب پر محمول ہے البتہ کل کے کل بال سفید ہو جائیں کوئی ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزید تاکید ہے۔“ [احكام و مسائل شيخ نورپوري 531/1]
④ سفید بالوں میں سیاہ خضاب (رنگ) لگانا درج ذیل دلائل کی روشنی میں حرام ہے :
❀ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو لایاگیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غير واهذا بشيئ و اجتنبوا السواد اس کا رنگ بدلو اور کالے رنگ سے بچو۔ [صحيح مسلم : 5509/2102]
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ایسی قومیں آخر زمانہ میں آئیں گی جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح کالے رنگ کا خضاب کریں گی وہ جنت کی خوشبوتک نہ پائیں گی۔ “ [ابوداود : 4212 وسنده صحيح، النسائي : 5078]
اس کا راوی عبدالکریم الجزری (مشہور ثقہ) ہے۔ دیکھئے [شرح السنہ للبغوی 92/12 ح 3180]
درج ذیل علامء نے بھی کالے خضاب کو دلائل کی روشنی میں حرام قرار دیا ہے :
➊ امام نووی [شرح مسلم : 199/2]
➋ حافظ ابن حجر [فتح الباري : 576/6]
➌ ابوالحسن سندھی [حاشيه ابن ماجه : 169/4]
➍ عبدالرحمٰن مبارکپوری [تحفة الاحوذي : 57/3]
تفصیل کے لئے دیکھیں [سياه خضاب كي شرعي حيثيت از امام بديع الدين شاه راشدي]
⑩ مصنوعی بال (وگ) لگانا حرام ہے
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعن الله الواصلة والمستوصلة…. اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو بال جوڑنے اور جڑوانے والی پر۔ [صحيح البخاري : 5933]
 امام بخاری رحمه الله اس مسئلے میں بہت سی احادیث لائے ہیں تفصیل کے لئے دیکھیں۔ [صحیح البخاری : 5932- 5938 اور 5940- 5943]
⑪ وضو میں سر کا مسح کرنا :
❀ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مسنون وضو کا طریقہ خود عمل کر کے دکھلایا۔ اس میں آپ نے سر کا مسح اس طرح کیا کہ ”دونوں ہاتھ سر کے اگلے حصہ سے شروع کر کے گدی تک پیچھے لے گئے پھر پیچھے سے آگے اسی جگہ لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔“ [صحيح بخاري : 185، صحيح مسلم : 235]
❀ مکمل سر کا مسح کرنا چاہئے۔ قرآن مجید میں ہے ﴿وامسحوا برء وسكم﴾ ”اور تم مسح کرو اپنے سروں کا۔“ [المآئدة : 6]
❀ حمران مولیٰ عثمان رحمہ اللہ نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، حمران بیان کرتے ہیں کہ ثم مسح برأسه”پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے سر کا مسح کیا۔“ [صحيح البخاري : 159]
❀ اور سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی یہی گزرا ہے۔
❀ امام بخاری نے باب قائم کیا ہے : باب مسح الراس كله ”مکمل سر کا مسح کرنا۔“ [صحيح بخاري قبل ح : 185]
❀ سر کا مسح ایک دفعہ ہی کرنا چاہئے۔ [صحيح بخاري : 186، صحيح مسلم : 235]
❀ صحیح بخاری : 192 میں سر پر ایک مرتبہ مسح کرنے کا ذکر ہے اور اس حدیث پر باب باندھا ہے باب المسح الرأس مرة ”سر پر ایک مرتبہ مسح کرنا ہے۔“
◈ امام ابن القیم لکھتے ہیں :
والصحیح أنہ لم یکرر مسح رأسہ
”صحیح بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکرار مسح الراس نہیں کیا۔“ [ابن القيم]
◈ مزید لکھتے ہیں کہ ”تکرار مسح کے بارے میں جو احادیث آتی ہیں اگر کوئی صحیح ہے تو وہ صریح نہیں ہے اور اگر صریح ہے تو وہ صحیح نہیں ہے۔“ [زاد المعاد : 93/1]
 تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں عون المعبود [93/1 ط دار احياء التراث] اور تحفة الاحوذي [44/1- 46]
 صحیح مسلم [123/1] میں بھی سر پر ایک مرتبہ مسح کرنے کا ذکر ہے۔ امام ابوداود نے بھی سر پر ایک دفعہ مسح کرنے کو ترجیح دی ہے۔[ابوداود تحت ح : 108] نیز دیکھئے سنن ترمذی [قبل ح : 34]
⟐ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ صرف چوتھائی سر کا مسح فرض ہے، یہ بالکل غلط بات ہے۔
⟐ پگڑی پر مسح کرنا صحیح ہے۔
❀ جعفر بن عمرو اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمامہ مبارک پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحیح بخاری : 205]
⟐ پیشانی اور پگڑی دونوں پر بھی مسح کرنا صحیح ہے۔
❀ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، آپ نے اپنی پیشانی، اپنی پگڑی اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ [صحيح مسلم : 273]
⟐ سر پر مسح کے لئے نیا پانی لینا چاہئے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسح برأسه بماء غير فضل يده ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک کا مسح تازہ پانی لے کر کیا۔“ [صحيح مسلم : 123/1 درسي ح : 236]
⟐سر کے مسح کے لئے نیا پانی نہ لینا اور صرف ہاتھوں پر موجود تری سے مسح کرنا بھی صحیح ہے۔
❀ مشہور تابعی عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ (وضو کے دوران میں) ہاتھوں پر بچے ہوئے پانی سے مسح کرتے تھے۔ [ابن ابي شيبه 21/1ح 212 و سنده صحيح]
تنبیہ : بہتر یہی ہے کہ سر اور کانوں کے مسح کے لئے تازہ پانی لیا جائے۔
⟐ غسل جنابت سے وضو میں سر کا مسح کرنے کے بجائے پانی سر پر ڈالنا چاہئے۔
❀ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا ارادہ فرمایا…. ثم أفاض عليٰ رأسه الماء ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر پر پانی ڈالا۔“ [صحيح بخاري : 274]
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل جنابت کے متعلق سوال کیا …. حتيٰ إذا بلغ رأسه لم يمسح وأفرغ عليه الماء ”جب آپ وضو کرتے ہوئے سر تک پہنچے تو آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ سر پر پانی ڈالا۔“ [سنن النسائي : 422 و سنده صحيح غريب]
 اس حدیث پر امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے باب ترك مسح الرأس فى الوضوء من الجنابة ”جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا۔“ [205/1 قبل ح 422]
① سر پر تین بار پانی ڈالنا چاہئے۔
❀ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ وغسل رأسه ثلاثا ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو تین بار دھویا۔“[صحيح البخاري : 265]
❀ سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتا ہوں۔“ [صحيح البخاري : 254]
 امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے کہ ”جس آدمی نے اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالا“ اس کے تحت اور بھی احادیث لائے ہیں۔
◈ سر پر پہلے دائیں طرف پانی ڈالیں پھر بائیں طرف۔ [صحيح البخاري : 258]
◈ غسل جنابت کے وضو میں سر کا مسح کرنا بھی صحیح ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے پہلے آپ اپنے ہاتھوں کو دھوتے“ ثم توضأ كما يتوضأ للصلوٰة ”پھر آپ وضو کرتے جس طرح نماز کے لئے وضو کرتے۔“ [صحيح البخاري : 248]
◈ جب ہم نماز کا وضو کرتے ہیں تو اس میں سر کا مسح کرتے ہیں۔
② نو مسلم کے بال
◈ نو مسلم کے سر کے بالوں کے بھی وہی احکام ہیں جو عام مسلم کے احکام ہیں۔
تنبیہ : سنن ابی داود [356] مستدرک الحاکم [570/3 ح 6428] اور المعجم الکبیر للطبرانی [14/19 ح 20] کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر مسلمان ہونے کے بعد سر کے بال منڈوائے گا۔ یہ ساری روایات ضعیف و مردود ہیں اور انہیں حسن قرار دینا غلط ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔Balon Ke MAsail (Last Part Part 2)
الشیخ ابراہیم بن بشیر الحسینوی
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه