find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Balon Se Joodi Masail Aur Unka Hal. (Part 1)

Balon Ko Kale Khijab Se Rungne Ke Masail

  Balon Ke Mofassal Ahkamat Part 1 

by Mrs Jarjis Ansari
ہمارے پیارے دین اسلام کا موضوع انسان ہے۔ مکمل اسلام انسان کی اصلاح کے لئے ہے مگر افسوس ! جس مسلمان نے پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے امن کا گہوارہ بنانا تھا وہ مسلمان اپنی اصلاح نہ کر سکا۔ انسان کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنے جسم کے تمام اعضاء کو اسلامی احکامات کے تابع نہ کر لیں اور ایسا کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ (انسانی اعضاء کے احکام و مسائل) سے واقف نہ ہو جائے۔ اس موضوع پر ہم نے ایک مستقل کتاب لکھ رکھی ہے جس میں ایک فصل ہدیۂ قارئین پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ والحمدلله عليٰ ذلك انہی بہت سے مسائل میں سے ایک مسئلہ ”انسانی بالوں“ کا ہے۔ انسان کے مختلف اعضاء پر اگے ہوئے بالوں کی مختلف قسمیں ہیں ہم نے اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر عضو کے بالوں کے احکام جو درج ذیل ہیں، الگ الگ بیان کیا ہے۔
➊ سر کے بالوں کے احکام
➋ ابرؤوں (ابرواں) کے بالوں کے احکام
➌ رخساروں کے بالوں کے احکام
➍ داڑھی کے احکام
➎ مونچھوں کے احکام
➏ بغلوں کے بالوں کے احکام
➐ زیر ناف بالوں کے احکام
➑ (کانوں کے اندرونی) سینہ، کمر، بازوؤں، ٹانگوں، رانوں، ہاتھوں اور پاؤں پر اگے ہوئے بالوں کے احکام
➒ ناک میں اگے ہوئے بالوں کے احکام
➓ کنپٹی کے بالوں کے احکام۔

——————
⛔➊ سر کے بالوں کے احکام :
یہ چار قسموں پر مشتمل ہوتے ہیں :
◈ مسلمان مرد کے بالوں کے احکام
◈ نومسلم کے بال
◈ بچوں کے بال
◈ مسلمان عورت کے بال
① مسلمان مرد کے بالوں کے احکام
مسلمان مرد کے بال پاک ہیں خواہ وہ زندہ ہو یا مرا ہوا، اس کے دلائل درج ذیل ہیں :
❀ جب محمد بن سیرین نے عبیدہ سے کہا: کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ہیں جو ہمیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کی طرف سے پہنچے ہیں، تو عبیدہ نے یہ ( سن کر ) فرمایا کہ لأن تكون عندي شعرة منه أحب إلى من الدنيا و مافيها ”میرے پاس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال (بھی) ہوتا تو یہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تھا۔ [صحيح البخاري : 170]
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالوں کو منڈوایا تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو لیا تھا۔ [صحيح البخاري 171]
 ان دونوں احادیث پر امام بخاری نے یہ باب باندھا ہے :
باب الماء الذى يغسل به شعر الإنسان
باب : اس پانی کے بارے میں جس میں انسان کے بالوں کو دھویا جاتا ہے۔ [کتاب الوضوء باب 33]
 حافظ ابن حجر ترجمۃ الباب کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أن الشعر طاهر و إلا لما حفظوه ولا تمني عبيدة أن يكون عنده شعرة واحدةمنه، وإذا كان طاهرا فالماء الذى يغسل به طاهر
یعنی بال پاک ہیں وگرنہ وہ [صحابۂ کرام] ان کی حفاظت نہ کرتے اور عبیدہ (تابعی) تمنا بھی نہ کرتے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال ہوتا، جب بال پاک ہیں تو جس پانی میں بالوں کو دھویا گیا ہے وہ بھی پاک ہے۔“ [فتح الباري 363/1]
 حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں :
جمہور علماء بھی بالوں کو پاک سمجھتے ہیں اور یہی ہمارے نزدیک صحیح ہے۔“ [فتح الباري 364/1]
❀ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے جسے انہوں نے ایک چھوٹے پیالے میں رکھا ہوا تھا۔ یہ بال مہندی کی وجہ سے سرخ تھے۔ جب کسی شخص کو نظرلگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ اپنا پانی کا برتن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیتا۔ (آپ رضی اللہ عنہ اس برتن کے پانی میں وہ بال ڈبو دیتیں۔ ) [صحيح البخاري : 5896، فتح الباري 353/10]
① معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے تبرک حاصل کرنا جا ئز ہے۔
② انسانی بالوں کی خرید و فروخت ناجائز ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ولقد كرمنا بني اٰدم﴾ اور ہم نے آدم (علیہ السلام ) کی اولاد کو عزت دی [بنیٓ اسرآئیل : 70] کے خلاف ہے۔
③ انسانی بالوں کی خرید و فروخت میں انسان کی تکریم نہیں رہتی بلکہ تذلیل ہے۔
④ بالوں کی تکریم کرنا ضروری ہے [ديكهئے سنن ابي داؤد : 4163 و سنده حسن] ، اسے ابن حجر نے فتح الباری 368/10 میں حسن کہا ہے۔
بالوں کی تکریم درج ذیل چیزیں آتی ہیں :
① پہلی دائیں طرف سے کنگھی کرنا اور یہ بہت زیادہ مستحب ہے۔
② ایک دن چھوڑ کر کنگھی کی جائے۔
کنگھی کرنے کے آداب
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن فى تنعله و ترجله
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے میں اور کنگھی کرنے میں دائیں طرف کو پسند فرماتے۔ [صحيح البخاري : 5926]
❀ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [النسائي 132/8 ح 5061 و سنده صحيح]
فائدہ : حائضہ عورت اپنے خاوند کی کنگھی کر سکتی ہے۔ امام بخاری رحمه الله نے باب قائم کیا ہے : باب ترجيل الحائض زوجها “ [كتاب اللباس قبل ح : 5925]
③ بالوں میں مانگ نکالنی چاہئے اور یہ مستحب ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کو چھوڑا کرتے تھے اور مشرکین اپنے بالوں میں مانگ نکالتے تھے جبکہ اہل کتاب اپنے بالوں کو چھوڑا کرتے تھے۔ جس کام میں آپ کو کوئی حکم نہیں دیا جاتا تھا تو آپ اس میں اہل کتاب کی موفقت پسند کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد مانگ نکالی۔ [صحيح بخاري : 3558، صحيح مسلم : 2336]
① مانگ تالو سے نکالنی چاہئے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ”جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بالوں میں مانگ نکالتی“ صدعت الفرق من يافوخه و أرسل ناصيته بين عينيه تالو سے (بالوں کے دو حصے کر کے) مانگ چیرتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کے بال دونوں آنکھوں کے درمیان چھوڑتی۔ [ ابوداود : 4189 و سنده حسن]
تنبیہ : ٹیڑھی مانگ اور انگریزی حجامت سے ہر صورت بچنا ضروری ہے کیونکہ اس سے کفار سے مشابہت ہو جاتی ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من تشبه بقوم فهو منهم ”جو شخص کسی قسم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں ہوگا۔“ [ابوداود 4031 و سنده حسن، و الطحاوي فى مشكل الآثار 88/1]
② بالوں میں تیل لگانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بالوں میں تیل لگاتے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو چند سفید بال تھے نظر نہیں آتے تھے اور جب تیل نہ لگاتے تو یہ بال نظر آتے تھے۔ [صحیح مسلم : 2344]
 اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کبھی تیل لگانا چاہئے اور کبھی نہیں لگانا چاہئے۔
 اگر ضرورت ہو تو دن میں دو دفعہ بھی بالوں میں تیل لگایا جاسکتا ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بعض اوقات دن میں دو دفعہ تیل لگاتے تھے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ 392/8 ح 25549 و سندہ صحیح]
③ بالوں میں خوشبو لگانا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں :
كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم بأطيب مايجد….
”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے بالوں) میں سب سے اچھی خوشبو لگاتی جو آپ کو دستیاب ہوتی۔“ [صحيح البخاري : 5923]
 اس حدیث پر امام بخاری رحمه الله نے یہ باب باندھا ہے کہ باب الطيب فى الرأس و اللحية یعنی ”سر اور داڑھی میں خوشبو لگانے کا باب“
فائدہ : اگر کوئی شخص کسی کو خوشبو دے تو اسے واپس نہیں کرنی چاہئے بلکہ خوشبو لے لینی چاہئے۔ [صحيح بخاري : 5929]
④ بالوں کی چوٹی بنا کر یا انہیں گوندھ کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن حار ث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور ان کا سر پیچھے سے گوندھا ہوا تھا۔ آپ کھڑے ہوئے اور اس کو کھول دیا۔ جب عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے نماز مکمل کرلی تو آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہا: آپ کو کیا ہے میرے سر کے (بالوں کے) بارے میں ؟ تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بالوں کو گوندھنے والے آدمی کے بارے میں) فرماتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا : إنما مثل هٰذا مثل الذى يصلي وهو مكتوف ”یہ تو اس آدمی کی طرح لگ رہا ہے جسے باندھا گیا ہو۔“ [صحيح مسلم : 492]
فائدہ : اس روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض علماء نے كف الشوب ”کپڑا لپیٹنے“ سے ممانعت والی حدیث [البخاري : 809، 810 ومسلم : 490] سے یہ استدلال کیا ہے کہ آستینیں چڑھا کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے کیونکہ اس سے كف الشوب لازم آتا ہے۔
⑤ بال درج ذیل طریقوں سے رکھنا جائز ہیں
◈ نصف کانوں تک۔
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كان شعر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى نصف أذنيه ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نصف کانوں تک تھے۔“[صحيح مسلم : 2338]
◈ کندھوں سے اوپر اور کانوں کی لو سے نیچے تک
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن غسل کرلیا کرتے تھے۔
وكان له شعر فوق الجمة و دون الوفرة
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کندھوں کے اوپر اور کانوں کی لو سے نیچے تھے۔ [ ابوداود : 4187 و سندہ حسن]
 اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمه الله نے فرمایا : حسن صحیح غریب۔ [1755]
◈ کانوں کی لو کے برابر
❀ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد درمیانہ تھا، دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ عظيم الجمة إليٰ شحمة أذنيه ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بہت لمبے تھے جو کانوں کی لو تک پڑتے تھے۔“ [صحيح البخاري 3551، صحيح مسلم : 2337 و اللفظ له]
⑥ بالوں کو کسی چیز سے چپکانا (بھی) صحیح ہے
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ملبدا ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو لیس دار چیز یا گوند سے چپکا ہوا دیکھا۔“ [صحيح البخاري : 5914] اور یہ حج کا موقع تھا۔ [صحيح البخاري : 5915]
⑦ درج ذیل صورتوں میں سر کے تمام بال منڈوانا جائز ہے
➊ جب کوئی کافر مسلمان ہو (تفصیل بعد میں آئے گی انشاء اللہ)
➋ جب بچہ پیدا ہو تو پیدائش کے ساتویں دن (تفصیل بعد میں آئے گی انشاء اللہ)
➌ بطور ضرورت
❀ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جعفر کی اولاد کو (ان کے شہید ہونے کے بعد) تین دن مہلت دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آج کے بعد میرے بھائی (جعفر رضی اللہ عنہ) پر مت رونا۔ پھر فرمایا کہ میرے بھتیجوں کو میرے پاس لے کر آؤ چنانچہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے اور اس وقت ہم چوزوں کی طرح (بہت کم سن) تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ“ بال مونڈنے والے کو بلا کر میرے پاس لاؤ ”(جب وہ آگیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ہمارے بال) مونڈنے کا حکم دیا اور اسی نے ہمارے سروں کو مونڈا۔“ [ ابوداود : 4194، و سنده صحيح و صححه النووي فى رياض الصالحين : 1642 عليٰ شرط البخاري و مسلم، النسائي : 5229]
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کا آدھا سر مونڈا ہوا تھا اور آدھا نہیں مونڈا ہواتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احلقوه كله أو اتركوه كله ”اس کے سر کے سارے بالوں کو مونڈ دو یا سارے بال چھوڑ دو۔“[ابوداود : 4195 و سنده صحيح]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سر کے تمام بالوں کو بطور ضرورت مونڈنا صحیح ہے .
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے میدنے میں قربانی کی اور اپنا سر مونڈا یعنی مونڈوایا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 237/3 ح 13888 وسنده صحيح، طبعة دار الكتب العلمية بيروت لبنان]
 بہتر یہی ہے کہ حج اور عمرے کے علاوہ عام دنوں میں سر نہ منڈایا جائے لیکن اگر کوئی بیماری یا عذر ہو تو ہر وقت سر منڈوانا جائز ہے۔ جو کام بچوں کے لئے جائز ہے وہ کام بڑوں کے لئے بھی جائز ہے الا یہ کہ کوئی صریح و خاص دلیل مردوں کو اس سے خارج کردے۔ خوارج کے ساتھ خشوع نماز، قرأت قرآن اور سر منڈانے میں مشابہت کا یہ مطلب غلط ہے کہ یہ افعال ناجائز ہیں۔
➍ حج اور عمرہ کے موقع پر
✿ قرآن مجید میں ہے ﴿لتدۡخلن الۡمسۡجد الۡحرام انۡ شآء اللٰه اٰمنيۡن ۙ محلقيۡن رءوۡسكمۡ و مقصريۡن ۙ لا تخافوۡن ؕ﴾ تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہوگے ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سر منڈائے اور بال ترشوائے ہوگے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ [الفتح : 27]
❀ حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : حلق رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجته ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر اپنے سر کے بال منڈوائے۔“ [صحيح البخاري : 1726]
 تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح البخاری [1726۔ 1730]
◈ جانور ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوایا جائے تو بھی صحیح ہے [صحيح بخاري : 1721]
◈ عمرہ کے بعد سر کے بال منڈوانا صحیح ہے۔ [صحيح البخاري : 1731]
◈ حج یا عمرہ میں بالوں کو کٹوانا بھی صحیح ہے۔ [صحیح البخاری : 1727، 1731
]
فائدہ ① مذکورہ صورتوں میں بالوں کا مونڈنا تو ثابت ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مونڈنے سے منع بھی نہیں فرمایا جس کام میں خاموشی ہو اس کا کرنا جائز ہے چنانچہ سر کے تمام بالوں کو مونڈنا جائز ہے مگر افضل و سنت یہی ہے کہ بال وفره، جمه، لمه رکھے جائیں کیونکہ احرام کھولنے کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے۔ [ديكهئے احكام و مسائل شيخ نور پوري531/1]
فائدہ ② سر کے بال قینچی سے کٹوانا بھی جائز ہے۔
✿ قرآن مجید میں ہے کہ ﴿لتدۡخلن الۡمسۡجد الۡحرام انۡ شآء اللٰہ اٰمنیۡن ۙ محلقیۡن رءوۡسکمۡ و مقصریۡن ۙ لا تخافوۡن ؕ﴾ تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہوگے ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سر منڈائے اور بال ترشوائے ہوگے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ [الفتح : 27]
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے اللہ رحمت کر سر منڈوانے والوں پر، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اور بال ترشوانے والوں پر اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ رحمت کر سر منڈوانے والوں پر، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اور بال ترشوانے والوں پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور بال ترشوانے والوں پر۔“ [صحيح البخاري : 1727]
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت نے سر منڈوایا اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بال ترشوائے۔ [صحيح البخاري : 1729]
فائدہ ③ کاٹے ہوئے بالوں کو دفن کرنا ضروری نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر نے صحیح بخاری کی [5938] حدیث سے یہ استدلال کیا ہے۔ [فتح الباری 461/1]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ و ہ بالوں ( اور ناخنوں] کو (زمین میں) دفن کر دیتے تھے۔ [كتاب الترجل للخلال : 146 وسنده حسن، عبدالله بن عمر العمري حسن الحديث عن نافع و ضعيف الحديث عن غيره، و محمد بن لي هو حمدان بن على بن عبدالله بن جعفر : ثقة]
◈ امام احمد رحمه الله بھی انہیں دفن کرنے کے قائل تھے۔ [الترجل : 146 و سنده صحيح]
◈ قاسم بن محمد بن ابی بکر اپنے بال منیٰ میں دفن کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 417/8 ح 25654 و سنده صحيح]
معلوم ہوا کہ بالوں کو دفن کرنا جائز یا بہتر ہے اور اگر نہ کئے جائیں تو بھی بہتر اور جائز ہے۔
اعتراض کا جواب : بعض کہتے ہیں کہ سر منڈانا منع ہے کیونکہ حدیث میں آتا ہے سر منڈانا خارجیوں کی علامت ہے۔ حالانکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو خارجی ہے وہ سر منڈاتا ہے یہ مقصود نہیں ہے کہ جو سر منڈاتا ہے وہ خارجی ہے۔ [ديكهئے احكام و مسائل للشيخ نورپوري 531/1]
فائدہ ④ دائیں طرف سے پہلے بالوں کو کٹوائیں۔ تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں فتح الباری [364/1]
⑨ سفید بالوں کے احکام : اس کی درج ذیل صورتیں ہیں :
◄ سفید بالوں کو اکھیڑنا
◄ سفید بالوں کو رنگ کرنا۔
◄ سفید بالوں کو اکھیڑنا حرام ہے
❀ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تنتفوا الشيب فإنه نور المسلم إلخ سفید بالوں کو نہ اکھیڑو کیونکہ بڑھاپا (بالوں کا سفید ہونا) مسلمان کے لئے نور ہے جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے (جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے) تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے۔“ [ابوداود : 4202 و سنده حسن، ابن عجلان صرح بالسماع]
 امام ترمذی [2821] نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
◄ سفید بالوں کو رنگنا
بالوں کو رنگنا خضاب کہلاتا ہے اور اس کی درج ذیل صورتیں اور قسمیں ہیں :
① رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو رنگنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غير و الشيب ولا تشبهوا باليهود بڑھاپے (بالوں کی سفیدی) کو (خضاب کے ذریعے) بدل ڈالو اور (خضاب نہ لگانے میں) یہودیوں کی مشابہت نہ کرو۔ [الترمذي : 1752 و قال : حسن صحيح وسنده حسن]
❀ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہودی اور نصرانی (عیسائی) خضاب نہیں لگاتے لہٰذا تم ان کے خلاف کرو (تم خضاب لگاؤ ) [صحيح البخاري : 5899، صحيح مسلم : 2103]
② مہندی کا خضاب (رنگ) لگانا یا مہندی میں کوئی چیز ملا کر سفید بالوں کو رنگین کرنا بھی جائز ہے۔
③ زرد خضاب لگانا بھی ٹھیک ہے۔
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دباغت دیئے ہوئے اور بغیر بال کے چمڑے کا جوتا پہنتے تھے اور اپنی ریش مبارک (داڑھی) پر آپ ورس (ایک گھاس جو یمن کے علاقے میں ہوتی تھی) اور زعفران کے ذریعے زرد رنگ لگاتے تھے۔ [ابوداود : 4210 وسنده حسن، النسائي : 5246]
 احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ سرخ اور زرد خضاب لگایا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی لگایا۔ نیز دیکھئے فتح الباری [354/10]
 شیخ نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
”احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو رنگنے کا بھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کا بھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے رنگنے سے تعلق امرندب پر محمول ہے البتہ کل کے کل بال سفید ہو جائیں کوئی ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزید تاکید ہے۔“ [احكام و مسائل شيخ نورپوري 531/1]
④ سفید بالوں میں سیاہ خضاب (رنگ) لگانا درج ذیل دلائل کی روشنی میں حرام ہے :
❀ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو لایاگیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غير واهذا بشيئ و اجتنبوا السواد اس کا رنگ بدلو اور کالے رنگ سے بچو۔ [صحيح مسلم : 5509/2102]
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ایسی قومیں آخر زمانہ میں آئیں گی جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح کالے رنگ کا خضاب کریں گی وہ جنت کی خوشبوتک نہ پائیں گی۔ “ [ابوداود : 4212 وسنده صحيح، النسائي : 5078]
اس کا راوی عبدالکریم الجزری (مشہور ثقہ) ہے۔ دیکھئے [شرح السنہ للبغوی 92/12 ح 3180]
درج ذیل علامء نے بھی کالے خضاب کو دلائل کی روشنی میں حرام قرار دیا ہے :
➊ امام نووی [شرح مسلم : 199/2]
➋ حافظ ابن حجر [فتح الباري : 576/6]
➌ ابوالحسن سندھی [حاشيه ابن ماجه : 169/4]
➍ عبدالرحمٰن مبارکپوری [تحفة الاحوذي : 57/3]
تفصیل کے لئے دیکھیں [سياه خضاب كي شرعي حيثيت از امام بديع الدين شاه راشدي]
⑩ مصنوعی بال (وگ) لگانا حرام ہے
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعن الله الواصلة والمستوصلة…. اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو بال جوڑنے اور جڑوانے والی پر۔ [صحيح البخاري : 5933]
 امام بخاری رحمه الله اس مسئلے میں بہت سی احادیث لائے ہیں تفصیل کے لئے دیکھیں۔ [صحیح البخاری : 5932- 5938 اور 5940- 5943]
⑪ وضو میں سر کا مسح کرنا :
❀ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مسنون وضو کا طریقہ خود عمل کر کے دکھلایا۔ اس میں آپ نے سر کا مسح اس طرح کیا کہ ”دونوں ہاتھ سر کے اگلے حصہ سے شروع کر کے گدی تک پیچھے لے گئے پھر پیچھے سے آگے اسی جگہ لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔“ [صحيح بخاري : 185، صحيح مسلم : 235]
❀ مکمل سر کا مسح کرنا چاہئے۔ قرآن مجید میں ہے ﴿وامسحوا برء وسكم﴾ ”اور تم مسح کرو اپنے سروں کا۔“ [المآئدة : 6]
❀ حمران مولیٰ عثمان رحمہ اللہ نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، حمران بیان کرتے ہیں کہ ثم مسح برأسه”پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے سر کا مسح کیا۔“ [صحيح البخاري : 159]
❀ اور سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی یہی گزرا ہے۔
❀ امام بخاری نے باب قائم کیا ہے : باب مسح الراس كله ”مکمل سر کا مسح کرنا۔“ [صحيح بخاري قبل ح : 185]
❀ سر کا مسح ایک دفعہ ہی کرنا چاہئے۔ [صحيح بخاري : 186، صحيح مسلم : 235]
❀ صحیح بخاری : 192 میں سر پر ایک مرتبہ مسح کرنے کا ذکر ہے اور اس حدیث پر باب باندھا ہے باب المسح الرأس مرة ”سر پر ایک مرتبہ مسح کرنا ہے۔“
◈ امام ابن القیم لکھتے ہیں :
والصحیح أنہ لم یکرر مسح رأسہ
”صحیح بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکرار مسح الراس نہیں کیا۔“ [ابن القيم]
◈ مزید لکھتے ہیں کہ ”تکرار مسح کے بارے میں جو احادیث آتی ہیں اگر کوئی صحیح ہے تو وہ صریح نہیں ہے اور اگر صریح ہے تو وہ صحیح نہیں ہے۔“ [زاد المعاد : 93/1]
 تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں عون المعبود [93/1 ط دار احياء التراث] اور تحفة الاحوذي [44/1- 46]
 صحیح مسلم [123/1] میں بھی سر پر ایک مرتبہ مسح کرنے کا ذکر ہے۔ امام ابوداود نے بھی سر پر ایک دفعہ مسح کرنے کو ترجیح دی ہے۔[ابوداود تحت ح : 108] نیز دیکھئے سنن ترمذی [قبل ح : 34]
⟐ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ صرف چوتھائی سر کا مسح فرض ہے، یہ بالکل غلط بات ہے۔
⟐ پگڑی پر مسح کرنا صحیح ہے۔
❀ جعفر بن عمرو اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمامہ مبارک پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحیح بخاری : 205]
⟐ پیشانی اور پگڑی دونوں پر بھی مسح کرنا صحیح ہے۔
❀ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، آپ نے اپنی پیشانی، اپنی پگڑی اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ [صحيح مسلم : 273]
⟐ سر پر مسح کے لئے نیا پانی لینا چاہئے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسح برأسه بماء غير فضل يده ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک کا مسح تازہ پانی لے کر کیا۔“ [صحيح مسلم : 123/1 درسي ح : 236]
⟐سر کے مسح کے لئے نیا پانی نہ لینا اور صرف ہاتھوں پر موجود تری سے مسح کرنا بھی صحیح ہے۔
❀ مشہور تابعی عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ (وضو کے دوران میں) ہاتھوں پر بچے ہوئے پانی سے مسح کرتے تھے۔ [ابن ابي شيبه 21/1ح 212 و سنده صحيح]
تنبیہ : بہتر یہی ہے کہ سر اور کانوں کے مسح کے لئے تازہ پانی لیا جائے۔
⟐ غسل جنابت سے وضو میں سر کا مسح کرنے کے بجائے پانی سر پر ڈالنا چاہئے۔
❀ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا ارادہ فرمایا…. ثم أفاض عليٰ رأسه الماء ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر پر پانی ڈالا۔“ [صحيح بخاري : 274]
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل جنابت کے متعلق سوال کیا …. حتيٰ إذا بلغ رأسه لم يمسح وأفرغ عليه الماء ”جب آپ وضو کرتے ہوئے سر تک پہنچے تو آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ سر پر پانی ڈالا۔“ [سنن النسائي : 422 و سنده صحيح غريب]
 اس حدیث پر امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے باب ترك مسح الرأس فى الوضوء من الجنابة ”جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا۔“ [205/1 قبل ح 422]
① سر پر تین بار پانی ڈالنا چاہئے۔
❀ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ وغسل رأسه ثلاثا ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو تین بار دھویا۔“[صحيح البخاري : 265]
❀ سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتا ہوں۔“ [صحيح البخاري : 254]
 امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے کہ ”جس آدمی نے اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالا“ اس کے تحت اور بھی احادیث لائے ہیں۔
◈ سر پر پہلے دائیں طرف پانی ڈالیں پھر بائیں طرف۔ [صحيح البخاري : 258]
◈ غسل جنابت کے وضو میں سر کا مسح کرنا بھی صحیح ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے پہلے آپ اپنے ہاتھوں کو دھوتے“ ثم توضأ كما يتوضأ للصلوٰة ”پھر آپ وضو کرتے جس طرح نماز کے لئے وضو کرتے۔“ [صحيح البخاري : 248]
◈ جب ہم نماز کا وضو کرتے ہیں تو اس میں سر کا مسح کرتے ہیں۔
② نو مسلم کے بال
◈ نو مسلم کے سر کے بالوں کے بھی وہی احکام ہیں جو عام مسلم کے احکام ہیں۔
تنبیہ : سنن ابی داود [356] مستدرک الحاکم [570/3 ح 6428] اور المعجم الکبیر للطبرانی [14/19 ح 20] کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر مسلمان ہونے کے بعد سر کے بال منڈوائے گا۔ یہ ساری روایات ضعیف و مردود ہیں اور انہیں حسن قرار دینا غلط ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
Balon Ke MAsail (Last Part Part 2)
  وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ        ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
الشیخ ابراہیم بن بشیر الحسینوی
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Share:

Allah Ko Aap ya Tu Kah Kar Pukarna.

Allah Subhanahu Tala Ko "Aap" ya "Too" Kahna Kaisa Hai?
اللہ کو آپ یا تُو کہنا
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ اکیلا ہے ،اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ۔اگر ہم احتراماً تم کہتے ہیں تو عقیدہ کے خلاف ہے کیونکہ تم بہت سے لوگوں کے لئے مستعمل ہے ۔ اگر آپ کہتے ہیں تو یہ بھی جہاں ایک کے لئے استعمال ہوتا ہے وہیں جمع کے لئے بھی رائج ہے ۔ گویا اللہ کے لئے تم اور آپ کے استعمال سے عقیدے کے لخاظ سے عیب پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالی شرکت سے پاک ہےاور ہرعیب سے پاک وصاف ہے ۔ تو اللہ کے لئے کامل احترام لفظ تو کے استعمال میں ہی پایا جاتا ہے ۔ اس لئے متقدمین ومتاخرین علماء نے اللہ کے لئے "تو" کا استعمال کیا ہے اور یہی عوام میں رائج بھی ہے ۔ بعض لوگ اللہ سے شدید محبت واحترام میں آپ یااس کے مشابہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو اصل میں مذکورہ بالا حقیقت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی نے مختلف انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیم کا قول ذکرکیا ہے جس میں انہوں نے واحد کا ضیغہ استعمال کیا ہے ۔ مثلا ابراہیم علیہ السلام کی اپنے رب سے دعا:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ (ابراهيم :35)
ترجمہ: (ابراہیم کی یہ دعابھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے ۔
نبی کریم ﷺ کا اپنے رب سے خطاب :
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان:30)
ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
( الشیخ مقبول احمدسلفی حفظہ اللہ)

Share:

Kya Namaj Ki Halat Me Cheenk Aane Pe Alhamdulillah Kah Sakte Hai?

Namaj Ki Halat Me Cheenk Ka Jawab Dena.
جب نمازی کو چھینک آئے تو کیا وہ الحمد للہ کہے ؟
شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :
جب نمازی کوچھینک آئے تووہ المحد للہ کہے گا ، اس لیے کہ اس کا ثبوت سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالی عنہ کے قصہ میں ملتا ہے :
سیدنا معاویہ بن حکم رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے توایک شخص نے چھینک لی اورالحمدللہ کہا تواس کے جواب میں معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ نے يرحمك الله کہا تولوگ انہيں گھور گھور کردیکھنے لگے کہ اس نے غلط کام کیا ہے ، توانہوں نے کہا کہ ان کے مائیں گم پائيں تووہ لوگ اپنی رانوں پرہاتھ مارنے لگے تا کہ وہ خاموش ہوجائيں تووہ خاموش ہوگیا ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو انہیں بلایا معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں اللہ کی قسم نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹا اورنہ ہی مارا اورنہ برا بھلا کہا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
نماز میں لوگوں سے باتیں کرنا صحیح نہيں بلکہ اس میں تو تسبیح وتحمید اورتکبیر اورقرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 537 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 930 ) ۔
اس قصہ سے پتہ چلتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینک کے بعد الحمدللہ کہنے والے کو کچھ نہيں کہا جو اس بات کی دلیل ہے کہ نمازمیں جب انسان کو جب چھینک آئے تو اسے الحمدللہ کہنا چاہیے کیونکہ یہاں ایسا سبب پایا جاتا ہے جو الحمد للہ کہنے کا متقاضی ہے ، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ ہر وہ سبب جس کی بنا پر کوئي دعا ہو وہ بھی نماز میں کہنا جائز ہے ۔

Share:

Mehar Larke Wale Tay Karenge Ya Larki Wale.

Haque Mehar Kitni Honi chahiye Kya Yah Larki Wale Mukarrar Karenge Ya Larke Wale.
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
حق مہر لڑکی والے اپنی مرضی سے مقرر کرسکتے ہیں یا پہر جو لڑکے والے مقرر کردیں وہ صحیح ہوگا...
جزاکم الله خیرا
۔.........................................................................
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
حق مہر کی ادائیگی نکاح کی شرائط میں سے ایک ہے لیکن حق مہر معجل اور غیر معجل یعنی مؤجل دونوں طرح ہو سکتا ہے یعنی نکاح کے موقع پر بھی دیا جا سکتا ہے اور زوجین کی باہمی رضامندی سے بعد میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ پس حق مہر شوہر کے ذمہ قرض رہتا ہے جو وقت مقررہ یا عند الطلب یعنی بیوی کے مطالبہ کے وقت واجب الادا ہے۔
فتاویٰ علمائے حدیث
اس حق میں لڑکی والوں کا مہر کی رقم عائد کرنا اور شوہر کو جکڑدینا جائز نہیں نہ ان جیسی شرائط سے اصلاح ہوتی ہے، اگر ہوتی ہوئی نظر بھی آتی ہے تو عارضی ہوتی ہے، بغیر کسی وجہ شرعی کے طلاق پر اقدام کرنا انتہائی ناپسند اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے حد مبغوض حرکت ہے، اللہ پاک اس حرکت سے ناراض اور شیطان خوش ہوتا ہے ۔
اور یہ سوچ بھی صریحًا غلط ہے کہ شریعت نے عورت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ حق مہر کے نام پر مرد سے جو چاہے مانگ سکتی ہے چا ہے تو سونے کا پہاڑ مانگ لے اور مرد کو عورت کی یہ ڈیمانڈ ہر حال میں پوری کرنا ہو گی۔ یہ بات جان لی جائے کہ مہر کوئی یک طرفہ چیز نہیں ہے کہ لڑکی والے جتنا کہہ دیں وہ مہر بن جائے؛ بلکہ یہ لڑکے کی رضامندی پر موقوف ہے ۔ فریقین کی باہمی رضامندی سے عورت کا حق مہر نکاح کے وقت ادا کرنا ( مہرِ معجّل ) یا مئوخر کرنا (مہرِمئوجّل ) دونوں جائز ہیں ۔ واضح رہے کہ نکاح کے وقت فریقین اگر حق مہر طے نہ کر سکیں تو نکاح کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اور یہ تصور بھی غلط ہے کہ بغیر مہر کی ادائیگی ہمبستری زنا میں شمار ہوگی ۔ اگر مہر معجل کی ادائیگی سے پہلے بیوی سے ہمبستری کی جائے تو وہ ناجائز یا زنا نہ ہوگی ۔

Share:

Kya Chaliswa, Tija, Khatm Quran Ke Mauke Pe Khana Khaya Ja Sakta Hai?

Kya Khatm-E-Quran Ya Chaliswa ka khana Kha Sakte Hai?
سوال یہ ہے کہ یہ جو لکھ درود شریف ختم قرآن چالیسواں وغیرہ پےکھانا پکاتے ہیں کیا یہ کھایا جاسکتا ہے اگرکوئی کھا لے تو کیا کرے کوئی کہے کہ یہ اللہ کے نام سے پکایا ہے
۔.........................................................................
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں ، لکھ درود شریف ختم قرآن , چالیسواں یا چہلم کا کھانا جائز نہیں. کیونکہ یہ بدعت ہے اور یہ کھانا کھانا انکی بدعت میں تعاون ہے
اللہ تعالی کا حکم ہے:
ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان
گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔
اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، میت کو دفنانے کے بعد اسکے گھر میں جمع ہونے اور جمع شدہ لوگوں کے لیے کھانا پکانے کو نوحہ سمجھا جاتا تھا.
سنن ابن ماجہ
اور نوحہ کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے
کیونکہ غیر اللہ کے نام کا کھانا بہت سخت حرام ہے ، اس سے کم درجہ کے حرام کو کھانے پینے پر چالیس دن کی نماز قبول نہ ہونے کا فرمان مصطفی ﷺ
موجود ہے ،
عن عبد الله بن عمرو رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"لا يشرب الخمر رجل من أمتي فيقبل الله منه صلاة أربعين يوما"
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : ”میری امت کا کوئی شخص شراب نہ پیئے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا“ )) أخرجه النسائى وصححه الألبانى.
** عن بعض أزواج النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال :"من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلة" رواه مسلم.
اور جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی غیب دان کے پاس گیا اور اس سے سوال کیا ( اور اسکی تصدیق کی ) تو اسکی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہونگی ‘‘
"والذي نفس محمد بيده إن العبد ليقذف اللقمة الحرام في جوفه ما يتقبل منه عمل أربعين يوماً" قال الألبانى ضعيف جدا.
اور سنداً ضعیف روایت میں ہے کہ :
لقمہ حرام کھانے والے کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی ‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم

Share:

Islam Me Kin Halat Me Jhoot Bolna Sahi Krar Diya Hai?

Jhoot Bolne ke Bare Me Mofassal Maloomat by Mrs Jarjis Ansari
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال: اسلام نے ہمیں کب اور اور کس موقع پر جھوٹ بولنا جائز قرار دیا ہے تفصیلا بتا دیجئیے۔؟؟
_______________________________
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
حدثنا الربيع بن سليمان الجيزي حدثنا ابو الاسود عن نافع يعني ابن يزيد عن ابن الهادي ان عبد الوهاب بن ابي بكر حدثه عن ابن شهاب عن حميد بن عبد الرحمن عن امه ام كلثوم بنت عقبة قالت : ‏‏‏‏ ”ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يرخص فى شيء من الكذب إلا فى ثلاث كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ‏‏‏‏ لا اعده كاذبا : ‏‏‏‏ الرجل يصلح بين الناس، يقول القول ولا يريد به إلا الإصلاح والرجل يقول فى الحرب والرجل يحدث امراته والمراة تحدث زوجها.
[ابوداؤد حديث 4921، تحفة الأشراف : 18353 و قال الشيخ الألباني صحيح]
ترجمہ : ”ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے نہیں سنا، سوائے تین باتوں کے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : میں اسے جھوٹا شمار نہیں کرتا، ایک یہ کہ کوئی لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور کوئی بات بنا کر کہے، اور اس کا مقصد اس سے صرف صلح کرانی ہو، دوسرے یہ کہ ایک شخص جنگ میں کوئی بات بنا کر کہے، تیسرے یہ کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کوئی بات بنا کر کہے اور بیوی اپنے شوہر سے کوئی بات بنا کر کہے۔“
ابن شھاب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لوگ جسے جھوٹ كہتے ہيں ميں نے انہيں تين جگہوں پر بولنے كى رخصت دى گئى ہے: جنگ ميں، اور لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے، اور آدمى كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنے ميں "
خاوند اور بيوى كا آپس ميں جھوٹ بولنے سے مقصود يہ ہے كہ: آپس ميں محبت و مودت اور دائمى الفت پيدا كرنے كے ليے جھوٹ بولنا تا كہ خاندان كا شيرازہ نہ بكھرے.
مثلا خاوند اپنى بيوى سے كہتا ہو: تم تو ميرے ليے بہت قيمتى ہو.
يا پھر كہتا ہو: ميرے ليے تو تجھ سے زيادہ كوئى اور پيارا نہيں ہے.
يا پھر يہ كہے: ميرے ليے تو تم ہى سب عورتوں سے زيادہ خوبصورت ہو، اس طرح كے الفاظ كہے.
اس سے وہ جھوٹ مراد نہيں ہے جس حقوق مارنے كا باعث بنتا ہو، يا پھر واجبات و فرائض سے فرار ہونے كا باعث بنتا ہو.
امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابو سليمان خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں: ان امور ميں بعض اوقات انسان كو زيادہ بات كہنے كى ضرورت پيش آ جاتى ہے، اور سلامتى حاصل كرنے اور ضرر و نقصان كو دور كرنے كے ليے سچائى و صدق سے تجاوز كرنا پڑ جاتا ہے.
بعض حالات ميں تھوڑے اور قليل سے فساد كى اجازت دى گئى ہے، كيونكہ اس سے اصلاح كى اميد ہوتى ہے، چنانچہ دو اشخاص كے مابين صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا: يعنى ايك شخص كى جانب سے دوسرے شخص كے سامنے اچھى بات كہنا، اور اسے اچھى بات پہنچانا جائز ہے، چاہے اس نے وہ بات اس شخص سے نہ تو سنى ہو اور نہ ہى اس نے كہى ہو اس سے وہ ان دونوں ميں اصلاح كرانا چاہتا ہے.
اور جنگ ميں جھوٹ بولنا يہ ہے كہ: وہ اپنى جانب سے قوت و طاقت ظاہر كرے، اور ايسى بات چيت كرے جس سے اس كے ساتھى اور فوجى طاقتور ہو جائيں، اور اپنے دشمن كے خلاف تدبير كرے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" الحرب خدعۃ "
جنگ دھوكے كا نام ہے "
ديكھيں: شرح السنۃ ( 13 / 119 ).
اور خاوند كا اپنى بيوى كے ساتھ جھوٹ يہ ہے كہ وہ بيوى سے وعدہ كرے اور اسے اميد دلائے، اور اپنے دل ميں موجود محبت سے بھى زيادہ محبت كا اظہار كرے تا كہ ان دونوں كى زندگى صحيح بسر ہو سكے، اور اس طرح وہ بيوى كے اخلاق كى بھى اصلاح كر سكے "
فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share:

Jahannum Me Jane Se Panah Maango.

Jahannum Me Jane Se Bacho.
Adi bin Hatim raziyallahu anhu ne kaha ke:
Nabi (ﷺ) ne farmaya: jahañnam se bacho,phir aap ne chehrah pehr liya,phir farmaya ke jahañnam se bacho aur uske baad chehrah mubarak pehr liya,phir farmaya jahañnam se bacho - tiin martaba Aap (ﷺ) ne aise hi kiya - ham ne is se ye khayaal kiya ke Aap jahañnam deykh rahe hain - phir farmaya ke jahañnam se bacho chahe khajoor ke ek tukde hi ke zarye hosaka aur jise ye bhi na mile to ose (logo me) kisi acchi baat kehne ke zarye se hi (jahañnam se) bachne ki kosish karni chahiye.

English
Narrated `Adi bin Hatim:
The Prophet (ﷺ) said, "Protect yourself from the Fire." He then turned his face aside (as if he were looking at it) and said again, "Protect yourself from the Fire," and then turned his face aside (as if he were looking at it), and he said so for the third time till we thought he was looking at it. He then said, "Protect yourselves from the Fire, even if with one half of a date and he who hasn't got even this, (should do so) by (saying) a good, pleasant word.'
[ Sahih al-Bukhari: 6540 ]

Share:

Kya Joote ki Halat Me Namaj Ho Sakti hai?

Joote Pahan kar Namaj Padhne Ka Hukm.
جوتے پہن کر نماز پڑھنا کا کیا حکم ھے۔؟
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ :
{لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً }الأحزاب21
یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے

1- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سوال کیا گیا ؟
أكان النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ يصلي في نعليه؟ قال: (( نعم )) [ رواه البخاري: 386 ]
’’کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے ، کہنے لگے ہاں۔‘‘

2- سیدنا ابوسعیدالخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بأصحابه إذ خلع نعليه فوضعهما عن يساره فلما رأى ذلك القوم ألقوا نعالهم فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاته قال ما حملكم على إلقاء نعالكم قالوا رأيناك ألقيت نعليك فألقينا نعالنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن جبريل صلى الله عليه وسلم أتاني فأخبرني أن فيهما قذرا أو قال أذى وقال إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذرا أو أذى فليمسحه وليصل فيهما
ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ علیھم اجمعین کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک نعلین مبارک اتار کر بائیں طرف رکھ دیں ـ یہ دیکھتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے جوتے اتار دئیے ـنماز ختم ہونے پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :''آپ کو کون سی چیز نے جوتے اتارنے پر آمادہ کیا ہے ؟'' عرض کرنے لگے ـ'' ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھا ، آپ نے اپنےجوتے مبارک اتار دیے ہیں تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیے ''تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :'' کہ مجھے جبریل نے آکر بتایا ہے کہ آپ کے جوتوں کے نیچے گندگی لگی ہے ـ''(تو میں نے جوتے اتار دیے )پھرفرمایا :'' جب بھی تم میں سے کوئی مسجد کو آئے ، تو اپنے جوتے دیکھ لے ـ اگر کوئی گندگی وغیرہ لگی ہو تو صاف کرلے! اور جوتوں کے ساتھ نماز پڑھ لے ـ ''
صحيح سنن أبي داود

اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ اگر جوتے صاف ہوں تو نماز پڑھنے کی اجازت ہے ، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم مسجد میں جوتے پہن کر جماعت کرایا کرتے تھے ـ
3-سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
(خَالِفُوا الْيَهُودَ فَإِنَّهُمْ لَا يُصَلُّونَ فِي نِعَالِهِمْ وَلاَخِفَافِهِم)
یہودیوں کی مخالفت کرو ! وہ جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے "
صحيح سنن أبي داود
4-عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
رأيت رسول ﷲ يصلي حافيا منتعلاً
’’ میں نے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کو ننگے پاؤں اور جوتے سمیت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘
صحيح سنن أبي داود
ان احادیث سے ثابت ہوا ہے کہ جوتوں میں نماز پڑھ سکتے ہیں ـ صاف جوتوں میں نماز جائز ہے تو طواف اور صفا مروہ کی سعی بھی کر سکتے ہیں‌۔ بعض مذاہب میں ہے کہ حالت جنگ اور ایمرجنسی میں جوتے پہن کرنمازپڑھ سکتے ہیں ورنہ نہیں ـ یہ شرط صحیح نہیں ـ احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں بھی جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے ـ
اللہ اعلم ـ

Share:

Aadam Alaihe Salam Ki Nabi Sallahu Alaihe Wasallam Ke waseele Se Dua Ki Haqeeqat.

Kya Aadam Alaihe Salam Ne Allah Se Nabi-E-Akram Sallahu Alaihe Wasallam ke Waseele Se Dua Ki Thi

حدیث یہ ہے !( جب آدم علیہ السلام نے غلطی کا ارتکاب کیا توکہنے لگے : اے میرے رب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے معاف کردے ، تواللہ تعالی نے فرمایا اے آدم علیہ السلام تونے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوکیسے جان لیا حالانکہ میں نےابھی تک اسے پیدا بھی نہیں کیا ؟
توآدم علیہ السلام کہنے لگے اے رب اس لیے کہ جب تونے مجھے اپنے ھاتھ سے بنا کرروح پھونکی تومیں نے اپنا سراٹھایا توعرش کے پایوں پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا تومجھے علم ہوگيا کہ تو اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ہی لگاتا ہے جوتیری مخلوق میں سے تجھے سب سے زيادہ محبوب ہو، تواللہ تعالی نے فرمایااے آدم توسچ کہہ رہا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہیں ، مجھے اس کے واسطے سے پکاروتومیں تجھے معاف کرتا ہوں ،اوراگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تومیں تجھے بھی پیدا نہ کرتا ) ۔__
جواب :: الشیخ صالح المنجد __
الحمدللہ
یہ حدیث موضوع ہے ، اسے امام حاکم نے عبداللہ بن مسلم الفھری کے طریق سے بیان کرتے ہیں : حدثنا اسماعیل بن مسلمۃ انبا عبدالرحمن بن زيد بن اسلم عن ابیہ عن جدہ عن عمربن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : جب آدم علیہ السلام نے غلطی کا ارتکاب کیا ۔۔۔ پھر حدیث کو انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے جوکہ سائل نے ذکرکیے ہیں ۔
امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے ۔ اھـ
امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کا علماء کرام کی کثرت نے تعاقب کیا اور اس حدیث کی صحت کا انکار کیا ہے اور اس حدیث پرحکم لگایا ہے کہ یہ حدیث باطل اورموضوع ہے ، اوریہ بیان کیا ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ تعالی خود بھی اس حديث میں تناقض کا شکار ہیں ۔
علماء کے کچھ اقوال پیش کیے جاتے ہیں :
امام حاکم رحمہ اللہ کی کلام کا امام ذھبی رحمہ اللہ تعاقب کرتے ہوۓ کہتے ہیں : بلکہ یہ حديث موضوع ہے اور عبدالرحمن واہی ہے اور عبداللہ بن مسلم کا مجھے علم ہی نہیں وہ کون ہے ۔ اھـ
اورمیزان الاعتدال میں امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس طرح لکھتے ہیں یہ خبر باطل ہے ۔ اھـ
اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے لسان المیزان میں اسی قول کی تائيد کی ہے ۔
اورامام بیھقی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اس طریق سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے یہ روایت متفرد بیان کی ہے اور عبدالرحمن ضعیف ہے اورحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے اسی قول کو صحیح کہا ہے دیکھیں البدایۃ والنھایۃ ( 3 / 323 ) ۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے الضعیفۃ میں اسے موضوع قرار دیا ہے دیکھیں السلسلۃ الضعیفۃ ( 25 ) ۔ ا ھـ
اورامام حاکم - اللہ تعالی انہیں معاف فرماۓ – نے خود بھی عبدالرحمن بن زيد کومتھم بوضع الحدیث کہا ہے ، تواب اس کی حدیث صحیح کیسے ہوسکتی ہے ؟ !
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی " القاعدۃ الجلیۃ فی التوسل والوسیلۃ ص ( 69 ) " میں کہتے ہیں :
اورامام حاکم کی روایت انہیں روایات میں سے جس کا ان پرانکار کیا گیا ہے ، کیونکہ انہوں نے خود ہی کتاب " المدخل الی معرفۃ الصحیح من السقیم " میں کہا ہے کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع احادیث روایت کی ہیں جوکہ اہل علم میں سے غوروفکر کرنے والوں پرمخفی نہيں اس کا گناہ اس پر ہی ہے ، میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم بالاتفاق ضعیف ہے اوربہت زيادہ غلطیاں کرتا ہے ۔ ا ھـ دیکھیں " سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی رحمہ اللہ ( 1 / 38 - 47 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .
حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اہلیہ کو معافی اس دعا سے ملی __
سورہ البقرہ __
فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴿37﴾
[حضرت] آدم [علیہ السلام] نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بےشک وہی توبہ قبول کرنے واﻻ اور رحم کرنے واﻻ ہے.
جو کلمات آدم علیہ السلام نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے۔ آیت  «قَالَا  رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ» (7-الأعراف:23) یعنی ان  دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقیناً ہم نقصان والے ہو جائیں گے۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:543/1) سیدنا ابن  عباس رضی اللہ عنہما سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ علیہ السلام نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی؟ میرے چھینکنے پر «یرحمک اللہ» نہیں کہا؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کر گئی؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی؟ جواب ملا کہ ہاں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:543/1) یہ سب میں نے  کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ علیہ السلام نے اللہ سے سیکھ لیں۔      
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS