Kya Zina Qarz hai aur Yah Ghar ke dusre logo se chukaya jayega?
Kya Zina ka Badla Uski beti ya ghar ke kisi dusre Shakhs se pura kiya jayega.
Kya Zina ka badla Ghar ke diwaro se bhi chukaya jayega.
Facts check. Tum Pak daman raho tumhari Auraten bhi Pak Daman Rahengi.
An Australian Lady Journalist Accepted Islam In Taliban Rulling Afghanistan.
Muhabbat ke Dhoka Khane wali Ladkiyo ke liye Ek Khas Paigham.
Kya Masjid me Auraten nahi Ja sakti?
Modern Daur me Ladkiyo par kiye ja rahe Zulm ka Zimmedar kaun hai?
“سلسلہ سوال و جواب نمبر-316”
سوال_ سوشل میڈیا پر اس طرح کی بہت سی باتیں حدیث کے نام سے مشہور ہیں کہ تم پاکدامن رہو تمہاری عورتیں پاکدامن رہیں گی، اور یہ کہ زنا قرض ہے جو اسکے گھر والے چکاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ.! کیا یہ باتیں کسی صحیح حدیث سے ثابت ہیں؟
Published Date: 16-2-2020
جواب:
الحمدللہ:
*اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے،جسکے کرنے والے کے متعلق شریعت میں کافی سخت وعید بھی موجود ہے*
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں،
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِيۡنَ لَا يَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَلَا يَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِىۡ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالۡحَـقِّ وَلَا يَزۡنُوۡنَ ۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ يَلۡقَ اَثَامًا ۞ يُضٰعَفۡ لَهُ الۡعَذَابُ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَيَخۡلُدۡ فِيۡهٖ مُهَانًا ۞
ترجمہ:
اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں،
اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔اس کے لیے قیامت کے دن عذاب دگنا کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل کیا ہوا رہے گا،
(سورہ الفرقان آئیت نمبر-68٫69)
*اور قرآن نے اس زنا کو روکنے کیلئے اسکی طرف لے جانے والے تمام افعال یعنی بدنظری اور بے پردگی وغیرہ تک سے منع فرما دیا اور انکے لیے بھی مرد و عورت کو الگ الگ مخاطب کر کے سخت احکامات اتارے*
اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں،
قُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَغُـضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِهِمۡ وَيَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَهُمۡ ؕ ذٰ لِكَ اَزۡكٰى لَهُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ ۞
ترجمہ:
مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بیشک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔
(سورہ نور آئیت نمبر-30)
اگلی آئیت میں عورتوں کو مخاطب کیا اور فرمایا
وَقُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنٰتِ يَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِهِنَّ وَيَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَهُنَّ وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَا وَلۡيَـضۡرِبۡنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوۡبِهِنَّۖ وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اٰبَآئِهِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِهِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِهِنَّ اَوۡ بَنِىۡۤ اِخۡوَانِهِنَّ اَوۡ بَنِىۡۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوۡ نِسَآئِهِنَّ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيۡنَ غَيۡرِ اُولِى الۡاِرۡبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِيۡنَ لَمۡ يَظۡهَرُوۡا عَلٰى عَوۡرٰتِ النِّسَآءِۖ وَلَا يَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِهِنَّ لِيُـعۡلَمَ مَا يُخۡفِيۡنَ مِنۡ زِيۡنَتِهِنَّ ؕ وَتُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِيۡعًا اَيُّهَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور مومن عورتوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے، یا اپنے باپوں، یا اپنے خاوندوں کے باپوں، یا اپنے بیٹوں، یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں، یا اپنے بھائیوں، یا اپنے بھتیجوں، یا اپنے بھانجوں، یا اپنی عورتوں (کے لیے) ، یا (ان کے لیے) جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں، یا تابع رہنے والے مردوں کے لیے جو شہوت والے نہیں، یا ان لڑکوں کے لیے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے واقف نہیں ہوئے اور اپنے پاؤں (زمین پر) نہ ماریں، تاکہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں اور تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اے مومنو ! تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
(سورہ نور آئیت نمبر-31)
*لیکن ہمارے ہاں بہت ساری مشکلات میں سے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ شریعت نے جس عمل کیلئے جو حکم یا درجہ مقرر کیا ہوتا ہے ہم اس حکم اور درجے پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کچھ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس عمل سے شریعت کا فائدہ ہونے کے بجائے خود شریعت کو نقصان پہنچتا ہے،اسی سلسلے میں ہر عمل کیلئے صحیح احادیث کی بجائے موضوع اور من گھڑت روایتوں کا سہارا لےکر اس کو منبروں پر بیٹھ کر عام کیا جاتا ہے، اور بدلے میں عوام کی واہ واہ حاصل کی جاتی ہے*
*یہی سلسلہ زنا کے متعلق بھی ہے، کہ جانے انجانے میں کچھ علماء کے کلپس اور من گھڑت روایات کو پوسٹوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے،آج کے سلسلے میں ہم ان شاءاللہ زنا کے متلعق پھیلائی گئی تمام باتوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں گے*
________________&___________
*زنا کے متعلق کچھ مشہور باتوں کی حقیقت*
بہت عرصے سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب یہ قول انٹرنیٹ پر گردش کرتا ملتا رہا ہے کہ:
“پاک دامن رہو ، تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی، بیشک زنا قرض ہے ، اگر تو نے اسے لیا تو ادا تیرے گھر والوں سے ہوگی، اے شخص تو عقلمند ہے تو اس کو جان لے بس!۔”
امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب اس قول کی جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ
یہ بات دراصل امام شافعی رحمہ اللہ کے اشعار میں مذکور ہے جو دیوان امام شافعی میں درج ہیں،
عفوا تعف نساوٴکم في المحرم وتجنبوا ما لا یلیق بمسلم إن الزنا دین فإن أقرضتہ کان الوفا من أھل بیتک فاعلم“
پاک دامن رہو ، تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی، بیشک زنا قرض ہے ، اگر تو نے اسے لیا تو ادا تیرے گھر والوں سے ہوگی، اے شخص تو عقلمند ہے تو اس کو جان لے بس!۔
*لیکن یاد رہے یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں ہے البتہ اس شعر میں جس روایت کی طرف اشارہ ملتا ہے انکی تفصیل ہم نیچے ذکر کر رہے ہیں،*
*پہلی بات*
عِفُّوا تَعِفُّ نِساؤُكُمْ
کہ تم پاک دامن رہو تو تمہاری عورتیں بھی پاک دامن رہیں گے,
اس سلسلے کی کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے۔کئی طرق اور کئی صحابہ سے یہ روایت منقول ہے مگر سب کی سب ضعیف اور موضوع ہیں،اس روایت کے دو طرق ضعیف جبکہ باقی طرق موضوع ہیں،
پہلی سند:
وأخرجه أبونعيم أيضاً في المرجع السابق (2/285) من طريق الوليد بن مسلم، ثنا صدقة بن يزيد، ثنا العلاء بن عبدالرحمن، عن أبيه، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
“عفوا تعف نساؤكم”.
اس سند کو اگرچہ امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے لیکن امام ذہبی نے سوید کو ضعیف قرار دیا ہے.
الحديث صححه الحاكم، وتعقبه الذهبي بقوله: “بل سويد ضعيف”.
قلت: سويد هذا هو ابن إبراهيم الجَحْدَري، أبوحاتم الحنّاط، وهو صدوق، إلا أنه سيىء الحفظ، له أغلاط.
( الكامل لابن عدي (3/1257، 1259)، (والتقريب (1/340 رقم 593)،
( والتهذيب (4/270 رقم 467)
دوسری سند:
اس سند میں صدقہ بن یزید ضعیف راوی ہے.
وأما الطريق التي رواها أبونعيم، عن الوليد بن مسلم، ففي سندها شيخ الوليد، وهو صدقة بن يزيد الخراساني، الشامي، ضعفه أحمد، وابن عدي، وأبوحاتم، وعده ابن الجارود، والساجي، والعقيلي في الضعفاء.
– وقال البخاري: منكر الحديث. ووثقه أبوزرعة الدمشقي، ودحيم.
قلت: ولعل الأرجح من حاله أنه: صدوق يخطيء.
______&_____
*اس مضمون کی دیگر موضوع روایات*
1-حضرت عائشہ (رض) کی روایت:
اس میں خالد بن یزید العمری جھوٹا راوی ہے.
عن الزبير، عن عائشة، عن النبي صلَّى الله عليه وسلم قال: “عفوا تعف نساؤكم، وبروا آباءكم تبركم أبناؤكم، ومن اعتذر إلى أخيه المسلم من شيء بلغه عنه، فلم يقبل عذره، لم يرد عليّ الحوض”.
( قال الهيثمي في “المجمع” (8/81 و 139): فيه خالد بن يزيد العمري وهو كذاب.
2- حضرت انس (رض)کی روایت:
اس میں ابراہیم بن ہدبة الفارسی البصری ہے جس کو خبیث جھوٹا قرار دیا گیا ہے.
وأما حديث أنس رضي الله عنه فقال السيوطي في الموضع السابق: قال ابن عساكر في سباعياته: أخبرني أبوالقاسم هبةالله بن عبدالله بن أحمد الواسطي، الشروطي، أنبأ أبوبكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب، أنبأ أبوسعيد أحمد بن محمد بن عبدالله الماليني، سمعت أبابكر المفيد، سمعت الحسن بن عبدالله العبدي، سمعت أباهدبة يحدث عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “بروا آباءكم تبركم أبناؤكم، وعفوا تعف نساؤكم، ومن لم يقبل متنصلاً صادقاً أو كان كاذباً فلا يرد على الحوض”.
: والحديث بهذا الإسناد موضوع.
أبوهدبة الراوي للحديث عن أنس اسمه إبراهيم بن هدبة الفارسي، البصري، وهو كذاب خبيث، كذبه ابن معين، وعلي بن ثابت، وأبوحاتم.
وقال ابن حبان: دجال من الدجاجلة. اهـ. من المجروحين (1/114 -115)، واللسان (1/119 – 120 رقم: 370).
3- ابن عباس (رض) کی سند:
اس میں بھی اسحاق بن نجیح الملطی جھوٹا ہے.
وأما حديث ابن عباس رضي الله عنهما فأخرجه ابن عدي في الكامل (1/324) من طريق إسحاق بن نجيع الملطي، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “عفوا تعف نساؤكم”.
ومن طريق ابن عدي أخرجه ابن الجوزي في “الموضوعات” (3/106).
وهذا أيضاً موضوع بهذا الإسناد في سنده إسحاق بن نجيح الملطي وقد كذبوه. (الكامل: 1/323 – 325) والتقريب،
*لہذٰا پتہ یہ چلا کہ اس موضوع کی کوئی روائیت کسی بھی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں*
_____________&__________
*دوسری مشہور بات*
زنا ایک قرض ہے، اگر باپ لےگا تو بیٹی کو ادا کرنا پڑےگا،
یہ بات سند کے لحاظ سے بھی درست نہیں اور نہ ہی عقلا اور نقلا اسکا کوئی ثبوت ہے،
________&________
*تیسری مشہور بات*
ما زنی عبد قط فادمن علی الزنا إلا ابتلى فی اهل بیته”.
اگر کوئی بندہ زنا کا عادی بنتا ہے تو اس کی سزا کے طور پر اس کے گھر والوں کو اس عمل میں مبتلا کردیا جاتا ہے،
یہ روایت من گھڑت ہے اسکی کوئی اصل نہیں،اس میں اسحاق بن نجیح روایات گھڑنے والا راوی ہے.
ھذا الحدیث موضوع.
رواه ابن عدي (15/2) وأبونعيم في “أخبار أصبهان” (1/278)
عن إسحاق بن نجيح عن ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس رضی اللہ عنهما مرفوعا، وقال ابن عدي: “وإسحاق بن نجيح بين الأمر في الضعفاء، وهو ممن يضع الحديث”.
(وأورده السيوطي في “ذيل الأحاديث الموضوعة” (ص: 149 رقم: 728) وقال: “إنه من أباطيل إسحاق بن نجيح”.
_________&_________
*چوتھی مشہور بات*
من زنی زنی به ولو بحیطان دارہ”.
جو شخص زنا کرتا ہے اس کے ساتھ زنا کیا جائےگا اگرچہ اس کے گھر کی دیواروں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو.
یہ روایت بھی من گھڑت ہے.
اس میں قاسم الملطی جھوٹا راوی ہے،
ھذا الحدیث موضوع.
رواه ابن النجار بسنده عن القاسم بن إبراهيم الملطي: أنبأنا المبارك بن عبدالله المختط: حدثنا مالك عن الزهري عن أنس رضی اللہ عنه مرفوعا، قال ابن النجار: “فيه من لا يوثق به”. قلت: وهو القاسم الملطي كذاب. [كذا في “ذيل الأحاديث الموضوعة” للسيوطي (ص 134) و”تنزيه الشريعة” لابن عراق (316/1)]،
___________&______________
*اور پھر یہ تمام باتیں اللہ کے قانون کے ہی خلاف ہیں کہ گنا کوئی اور کرے اور بھگتے کوئی اور، یہ کیسا انصاف ہوا؟ کہ ایک شخص خود بدکار ہے، اسکی بیوی نیک سیرت اور پاکدامن ہے،تو اللہ اس کی بیوی کو سزا کیوں دے گا؟ ایک باپ بدکار ہے اور اسکی بیٹی نیک سیرت اور پاکدامن ہے تو اللہ اسکی بیٹی کو کیوں سزا دے گا؟*
جبکہ فرمان بارى تعالى ہے!
وَلَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَـفۡسٍ اِلَّا عَلَيۡهَاۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰى ۚ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمۡ مَّرۡجِعُكُمۡ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡـتُمۡ فِيۡهِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور کوئی جان کمائی نہیں کرتی مگر اپنے آپ پر اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ اٹھائے گی،
(سورہ الانعام،آئیت نمبر- 164)
اسی طرح ایک اور جگہ پر بھی یہی بات بیان فرمائی ہے،
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰىۙ ۞
ترجمہ:
کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی،
(سورہ النجم، آئیت -38)
*لہذا یہ کہنا کہ زنا قرض ہے اور گھر والے یہ قرض اتارتے ہیں سرا سر غلط ہے، جو گناہ کرے گا وہ خود ہی اسکی سزا بھگتے گا،کیونکہ کسی کی سزا کسی دوسرے کو دینا ظلم ہے اور اللہ رب العزت ظالم نہیں اور نہ ہی کسی ایک شخص کے گناہوں کی سزا دوسروں کو دینگے، البتہ علمائے کرام یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کھلم کھلا زنا کرے اور اپنے اس فسق اور گناہ پر اصرار کرتا رہے تو یقینا اس کے گھر والے جو اس کو یہ عمل کرتے دیکھ رہے ہونگے، اور اسکو منع بھی نہیں کریں گے ،تو انکے دلوں سے بھی آہستہ آہستہ اس گناہ کی برائی ختم ہوجائےگی اور قریب ہے کہ وہ بھی اس گناہ میں مبتلا ہو جائیں،کیونکہ جیسی سربراہ کی تربیت ہوتی ،جیسا گھر کا ماحول ہوتا ویسا ہی گھر والوں کا کردار ہوتا، لیکن اگر کوئی شخص کسی غلطی کو کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنے عمل پر شرمندہ ہو تو انشاءاللہ اس کی مغفرت اور رحمت بہت وسیع ہے، اور اللہ رب العزت جس عمل کو خود ناپسند فرماتے ہیں اس عمل میں اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کو سزا کے طور پر کیوں مبتلا فرمائینگے؟ جبکہ انکا کوئی قصور بھی نہیں!*
___________&________
*سعودی فتاویٰ ویبسائٹ الاسلام سوال و جواب پر اسی طرح کا ایک سوال کیا گیا جسکو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں،*
*کیا زانی حوروں سے محروم رہے گا ؟ اور مندرجہ ذیل حدیث کا حکم کیا ہے ( جوزنا کرے اس کے ساتھ بھی زنا ہوگا ) ؟*
فتویٰ _ 22769
سوال
کیا زانی آخرت میں حوروں سے محروم رہے گا اورمندرجہ ذیل حديث کا معنی کیا ہے ، اوراگر اس کا معنی یہ ہے کہ اس کے محارم کے ساتھ یہ کام ہوگا توپھر ان کا قصور کیا ہے ؟
( اس کے ساتھ بھی زنا ہوگا اگر اس کے گھر کی چاردیواری میں ہی کیوں نہ ہو )
جواب:
الحمد للہ :
زانی اوردوسرے گناہ کرنے والے اگر اللہ تعالی کے ہاں سچی توبہ کریں تواللہ تعالی ان کی توبہ قبول اور ان کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے ، قرآن مجید اور سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دلائل سے بھرے پڑے ہیں :
اسی کے بارہ میں اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے :
آپ میرے ان بندوں کوجنہوں نے اپنے اوپر زيادتی وظلم کیا ہے یہ کہہ دیں کہ تم اللہ تعالی کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ یقینا اللہ تعالی سب کے سب گناہ معاف فرما دیتا ہے بلاشبہ وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے
(سورہ الزمر،آئیت _ 53)
بلکہ اگر اس نے خلوص دل اور سچائي کے ساتھ توبہ کی تواللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے ان گناہوں کو نیکیوں میں بدل کر رکھ دیتا ہے اور اللہ تعالی کی رحمت اور فضل تو بہت ہی زيادہ وسیع ہے،
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
اور وہ لوگ جو اللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا ،اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا، سواۓ ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائيں اور نیک و صالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے،
(سورہ الفرقان_ 68 – 70 )
اس لیے اللہ تعالی کا گناہوں کا بخشنا اورتوبہ قبول کرنے کا تقاضا ہے کہ وہ توبہ کے بعد ان گناہوں کی سزا نہ دے،
لیکن وہ شخص جواپنے ان گناہوں اور زنا پر اصرار کرے اور پھر اس سے توبہ بھی نہ کرے اسے دنیا میں بھی مختلف سزاؤں اور اسی طرح قبر اور آخرت میں بھی سزا سے دوچار ہونا پڑے گا ، لیکن ہمیں اس بات کی کوئی نص نہيں ملی کہ وہ آخرت میں حوروں سے محروم رہے گا،
لیکن بعض علماء کرام نے اسے شرابی اور ریشم کا لباس پہننے والے پر قیاس کیا ہے کہ جوشخص شراب نوشی کرتا ہے اور اس سے توبہ نہيں کرتا اسے آخرت میں شراب نہيں ملے گی اوراسی طرح دنیا میں ریشم کا لباس پہننے والے کوآخرت میں ریشم کا لباس نہیں پہنایا جاۓگا،
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی زنا کا ارتکاب کرنے اور اس سے توبہ نہ کرنے والے پر مرتب ہونے والی سزاؤں کا ذکر کرتے ہوۓ لکھتے ہيں : اگروہ توبہ نہ کرے تو اسے مختلف سزائيں ملتی ہیں :
ایک سزا تویہ ہے کہ : وہ ہمیشگی والی جنتوں میں حوروں کا نفع حاصل کرنے سے محروم رہے گا ، جب اللہ تعالی نے دنیا میں ریشمی لباس زيب تن کرنے والے کوآخرت میں ریشمی لباس سے اورشراب نوشی کرنے والے کوجنت کی شراب سے محروم رکھا ہے ۔
تواسی طرح دنیا میں جوشخص حرام تصاویر دیکھتا ہے بلکہ جوکوئی بھی دنیامیں حرام کام کا ارتکاب کرتا ہے اسے روز قیامت اس طرح کی چيز سے محروم ہونا پڑے گا ۔
(دیکھیں روضۃ المحبین تالیف ابن قیم رحمہ اللہ تعالی ( 365 – 368 )
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے بھی زنا کیا اس سے بھی زنا کیا جاۓ گا اگرچہ اس کے گھر کی چاردیواری میں ہی ) ۔
یہ ایک موضوع حدیث ہے جس کی کوئی اصل نہیں ملتی ، حافظ عراقی اورعلامہ سیوطی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے اور
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے
(السلسلۃ الضعیفۃ 2 / 155 ) میں بھی موضوع قرار دیا ہے ،
*تو اس بنا پر جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اس کی کوئ وجہ نہيں اورنہ ہی کوئی اعتراض ہی ہوسکتا ہے ، اور اگر حدیث کو صحیح بھی مان لیا جاۓ تو اسے صحیح معنی پر محمول کرتے ہوۓ یہ کہا جاسکتا ہے :
جوشخص زنا کا مرتکب ہو اور اس گناہ پر مصر رہے وہ فاسق و فاجر اور فسادی ہے اور یہ فساد اس کے اہل و عیال کی طرف بھی منتقل ہوگا ، اس لیے کہ اختلاط اثرانداز ہوتا ہے، جب گھر کا سربراہ اپنے آپ کو ضائع کرنے والا ہو تو بالاولی اپنے اہل وعیال کو بھی ضائع کرے گا ، نہ تو وہ ان کی تربیت دین کے مطابق کرے گا اور نہ ہی اصلاح، لہذا یہ کوئی بعید نہيں کہ اس کے اہل وعیال ایمان کی کمزوری کے سبب اس گناہ اور معصیت میں مبتلا ہوں جس میں وہ خود مبتلا ہوا ہے،تو اس طرح یہ اسکے لیے ایک سزا بھی ہو گی۔۔۔۔انتہی*
( ماخذ الاسلام سوال جواب )
(((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))))
سوشل میڈیا پر بغیر تحقیق کے احادیث کو شئیر کرنے کے بارے شرعی احکامات کیا ہیں؟
((دیکھیں سلسلہ -242))
اگر کوئی مرد و عورت زنا کر لیں تو کیا انکا آپس میں نکاح جائز ہے؟
((دیکھیں سلسلہ -106))
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/