find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Husn Akhlaq Kaisi Ho?

Character Kaisi Ho?

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ ؟ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ ؟ عَلَى كُلِّ قَرِيبٍ هَيِّنٍ سَهْلٍ   ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
Nabi-E-Akram kareem ne farmaya: kya main tumhe aise logon ki khabar nah dun jo jahannum ki aag par ya jahannum ki aag un par haram hai? jahannum ki aag logon ke qareeb rehne walay, aasani karne walay, aur naram Akhlaq walay par haraam hai.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے۔
The Prophet said: Shall I not inform you of whom the Fire is unlawful and he is unlawful for the Fire? Every person who is near(to people), amicable, and easy(to deal with).
Wazahat:* yani jo apne husn akhlaq aur husn muamley se logo ke dilon mein aur duniyawi muamlat mein dusron ke saath asani, narmi, tawaze, aur khush khalaq tarz apnane wala hai, iske liye jahannum ki aag haraam hai. Ek hadees mein Nabi kareem ﷺ ne farmaya: *qayamat ke din bande ke mizaan (tarazu) mein sab se bhari chiz husn akhlaq hoga* [Tirmidhi: 2002].
Jamiat Tirmidhi: jild 4, kitab sifat Al Qiyamah wa ar riqaq wa al wara 37, hadith no. 2488  Grade: Hasan
Share:

Kya Koi Musalman Hote Hue Chori Aur Sharab Pi Sakta Hai?

Kya Koi Musalman Momeen Rahte Hue Sharab Ya Zena Kar Sakta Hai

  Hadith When An Adulterer Commits illegal Sexual intercourse, Then He Is Not a Believer At The Time,
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم

"لاَ يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهْوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهْوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهْوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهْوَ مُؤْمِنٌ ‏"

‏ وَعَنْ سَعِيدٍ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ إِلاَّ النُّهْبَةَ‏.‏
` ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان ، ان سے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے ، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا ۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا ۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا ۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کر سکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو ، سعید اور ابوسلمہ کی بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح روایت ہے ۔ البتہ ان کی روایت میں لوٹ کا تذکرہ نہیں ہے ۔
___________________________________
Narrated Abu Huraira: The Prophet Said
"When An Adulterer Commits illegal Sexual intercourse, Then He Is Not a Believer At The Time, He Is Doing It, And When a Drinker Of An Alcoholic Liquor Drinks It, Then He Is Not a Believer At The Time Of Drinking It, And When a Thief Steals, Then He Is Not a Believer At The Time Of Stealing, And When a Robber Robs, And The People Look At Him, Then He Is Not a Believer At The Time Of doing Robbery.
Reference : Sahih Al-Bukhari 2475, In-Book Reference : Book 46, Hadith 36.
Share:

Jazak Allah Khair Kahne Ke Tarike Aur Iske Fawaid.

Jazak Allah Khair Kahne ke Fayde

 جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا  کچھ اصطلاحات کی مفیدمعلومات★
نوٹ : میمبرز ضرور اس پوسٹ کو شئیر کریں ، کیونکہ اس میں بہت معلومات ہے ۔جزاکم اللہ خیر
⛔جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا ‘‘۔۔ ایک عظیم تحفہ
ہم اللہ کے عاجز بندوں کیلئے اکثر اپنے محسن کے احسان کا بدلہ اتارنا ممکن نہیں ہوتا لیکن ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں وہ طریقہ بتا دیا ہے جس پر عمل کرکے ہم اپنے محسن کا بدلہ ادا کر سکتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے اور وہ احسان کرنے والے کے حق میں یہ دعا کرے’’ جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اس کا بہتربدلہ دے) تو اس نے اپنے محسن کی کامل تعریف کی ۔(مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عطایا کا بیان ۔ حدیث 239)
کامل تعریف کرنے کا مطلب ہے کہ بندہ اپنے محسن کا بدلہ اتارنے اور اس کی تعریف کرنے میں اپنے آپ کو عاجز اور مجبور قرار دیتے ہوئے ’’ جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا ‘‘ کہہ کر اپنے تئیں اس کے شکر کا حق ادا کر دیا کیونکہ اسنے اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ پر سونپ دیا کہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں بہترین اجر عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ سے بہتر اجر کون دے سکتا ہے کیونکہ للہ تعالٰی جب اجر دے گا تو اپنی شان کے مطابق دے گا ۔
ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک موقعے پر انصار کی تعریف کی اور ’’ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيرًا‘‘ (پس اللہ تم لوگوں کو جزائے خیر دے) کے الفاظ سے انہیں دعا دی۔ رواه ابن حبان (7277) والحاكم (4/79)
ایک حدیث میں ہے کہ جب آیتِ تیمم نازل ہوئی، اسید بن حضیرؓ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: ’’ جَزَاکِ اللَّهُ خَيْرًا‘‘، اللہ کی قسم! آپ پر کوئی ایسی پریشانی نہیں آئی جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ پر سے ٹال نہ دیا ہو اور اس میں مسلمانوں کے لئے برکتو سہولت نہ رکھ دیا ہو۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب میرا باپ یعنی حضرت عمرؓ کو زخمی کیا گیا تو میں اس وقت موجود تھا لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہنے لگے ’’ جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا ‘‘ تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں اللہ سے رحمت کی امید کرنے والا اور اس سے ڈرنے والا ہوں۔ (صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ امارت اور خلافت کا بیان ۔ حدیث ۔216)
حضرت عمر بن الخطابؓ نے فرمایا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی جان لے کہ اپنے بھائی کو ’’ جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا ‘‘ کہنے کا اجر کیا ہے تو تم سب ایک دوسرے کو یہی دعا دو۔ (مصنف ابن أبي شيبة 5/322)
ایک موقعے پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص تمہارے ساتھ (قولی یا فعلی) احسان کرے تو تم بھی اس کا بدلہ دو (یعنی تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی احسان کرو) اور اگر تم مال و زر نہ پاؤ کہ اس کا بدلہ چکا سکو تو اپنے محسن کے کے لئے دعا کرو جب تک کہ تم یہ جان لو کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ (احمد، ابوداؤد، نسائی)
حضرت عائشہؓ کا معمول تھا کہ جب کوئی سائل ان کیلئے دعا کرتا تو وہ بھی پہلے اسی طرح اس کیلئے دعا کرتیں پھر اسے صدقہ دیتیں، لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اس کیلئے دعا نہ کروں تو اس کا حق اور میرا حق برابر ہو جائے گا کیونکہ جب اس نے میرے لئے دعا کی اور میں نے اسے صرف صدقہ دے دیا (تو اس طرح دونوں کے حسنات برابر ہو گئے) ۔ لہٰذا میں بھی اس کے لئے دعا کردیتی ہوں تاکہ میری دعا تو اس کی دعا کا بدلہ ہو جائے اور جو صدقہ میں نے دیا ہے وہ خالص رہے (اس طرح دونوں کا حق برابر نہیں رہتا بلکہ میری نیکیاں بڑھ جاتی ہیں)۔ تشریح: مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ بہترین صدقہ کا بیان ۔ حدیث 442
آج بھی عرب اسی طرح دعاؤں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جب بھی کسی سے ملتے ہیں سلام کے ساتھ ایک دوسرے کو دعاؤں کا تحفہ دینے میں کوتاہی نہیں کرتے لیکن ہم عجمی لوگ اور خاص کر برصغیر کے مسلمان دین اسلام کی اس خوبصورت تحفے سے ناوقف ہیں اور اگر واقف بھی ہیں تو اکثر کوتاہی کرتے ہیں۔
جس نے’’ جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا‘‘کہا اسنے اپنے محسن کو ایک عظیم تحفہ دیا اور اپنے لئے اور اپنے محسن کیلئے دنیا و آخرت کی عظیم خیر و برکت حاصل کرلیا کیونکہ اس دعا کا بدلہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ جب بدلہ دے گا تواپنی شان کےمطابق دےگا اور محسن اور احسان مند دونوں کو دےگا۔ان شاءاللہ
اس دعا کو ہم اپنی زبان میں بھی ’’ اللہ آپ کو جزائے خیر دے یا اللہ آپ کو بہترین اجر دے‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے دے سکتے ہیں۔
اور عربی میں اس دعا کے الفاظ ہیں:
➖ ایک مرد کیلئے : جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا ۔۔۔۔۔( ک پر زبر لگا کر پڑھیں)
➖ اگر کسی خاتون کو مخاطب کر کے مذکورہ دعائیہ کلمات کہے جائیں تو اس کے لیے مؤنث ہی کی ضمیر کا استعمال کرتے ہوئے جزاکِ اللہ ''ک'' کے زیر کے ساتھ کہا جائے، یہی بہتر ہے۔ یعنی جَزَاکِ اللَّهُ خَيْرًا ۔۔۔۔۔( ک پر زیر لگا کر پڑھیں)
➖ جمع کا صیغہ : جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيرًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ک اور میم پر پیش لگا کر پڑھیں)
یہ دعا مسلم اور غیر مسلم کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے۔

ہمیں اس دعا کے ساتھ ساتھ دیگر دعا دینے کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔
ہمیں اپنے گھروں میں کام کرنے والے ملازم ‘ ڈرائیور‘ مالی‘ دودھ پہنچانے والے‘ کچڑا اٹھانے والے وغیرہ کو بھی ’’ جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا‘‘ کہنا چاہئے اس سے ہمارے دلوں سے تکبر نکلے گا۔ ہمیں اپنی بیوی بچوں کو ہر چھوٹے بڑے کام پر یہ دعا دینے کا اہتمام کرنا چاہئے اور انہیں بھی یہ دعا دینا سکھانا چاہئے۔
⛔ جزاک اللہ خیرا کی حقیقت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے ساتھ کوئی نیکی کا سلوک کیا گیا اور اس نے اس نیکی کرنے والے سے جزاك الله خيراً ”اللہ تعالیٰ تم کو بہتر بدلا دے“ کہا اس نے اس کی پوری پوری تعریف کر دی“
جامع ترمذی جلد ١ / ٢١٠١ -( حسن )
عمر‌ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر لوگوں کو جزاك الله خيراً کہنے کا ثواب معلوم ہو جائے تو وہ ایک دوسرے کو یہ بہت زیادہ کہنے لگ جائے
مصنفه ابنُ أبي شيبة ٢٦٥١٩
ایک بار اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جزاك الله خيراً یعنی الله آپ کو اچّھا صلہ عطا فرماۓ کہا تو ان کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے *وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا* یعنی "آپ کو بھی، الله آپ کو بھی اچّھا صلہ عطا فرماۓ” کہا
صحيح ابن حبان ٧٤٣٦-حسن
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا اللہ کا ( بھی ) شکر ادا نہیں کرتا ۔
سنن ابی داؤد جلد ۳ ۱۳۸۳ صحیح
⛔ ڈاکٹر عبدالمحسن بن حمد العباد کا فتوی
"جزاک اللہ خیرا کے جواب میں وایاک کہنے میں کوئی حرج نہیں اس کا مطلب ہے آپ کو بھی اللہ جزا دے۔ یہ درست بات ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ "
حوالہ: http://ar.islamway.net/…/حكم-قول-وإياك-للقائل-جزاك-الله-خيرا
⛔ شیخ عبدالرحمن بن عبداللہ السحیم کاتفصیلی فتوی 
ہ: http://ar.islamway.net/…/حكم-قول-وإياك-للقائل-جزاك-الله-خيرا
⛔ شیخ عبدالرحمن بن عبداللہ السحیم کاتفصیلی فتوی  وایاک کہنا بدعت نہیں۔
http://www.almeshkat.net/vb/showthread.php?t=137692
مزید http://majles.alukah.net/t109856/
وأما وُرود بعض الأحاديث ليس فيها ذِكْر قول بعد قول : جزاك الله خيرا ، ونحوه ، فلا يدلّ على منع قول ذلك ، ولا يدلّ على أن قول : وإياك ونحوه بدعة .
بل غاية ما في الأمر أنه سُكِت عنه ، وقد يكون مَطْوِيًّا في الرواية ، وهذا أمر معروف عند أهل الحديث .
⛔ "جزاک اللہ خیرا" کے جواب میں "وایاکم" کہتے ہیں۔اس کامطلب اور دلیل
یہ لفظ عرب میں مستعمل ہے
وایاک، وایاکم ، وایاکما وغیرہ ـ
اس کا مطلب ہے اور تمہیں بھی (اللہ جزائے خیردے )
حدیث میں یہ لفظ آیا ہے ـ جیسے :
إياكم , ومحدثات الأمور،فإن شر الأمور محدثاتها، وإن كل محدثة بدعة، وإن كل بدعة ضلالة) . رواه ابن ماجة.
اب اگر کوئی کہے کہ یہ اس معنی میں نہیں تو ہم یہ کہیں گے کہ پھر" جزاک اللہ خیرا کے جواب میں کیا کہا جائے ، اور اس کی قرآن وحدیث سے دلیل بھی فراہم کی جائے !!
⛔ عربی اصطلاحات اور انکے معنیٰ
➖ ممنون ہونے کا اظہار کرتے وقت : جزاك الله خيرا.
اور اگر کوئی آپ کو جزاک اللہ کہے تو : واياك .
➖ بارک اللہ فیک کے جواب میں : وفیک بارک اللہ
➖ چھینک آئے تو الحمدللہ کہا جائے...کوئ دوسرا چھنکے تو یرحمک اللہ کہا جائے ۔ اور یرحمك الله کے جواب میں یهدیکم اللہ کہتے هیں
➖ جب کسی کو خوش آمدید کہنا ہو : اھلا و سھلا و مرحبا
اس کا جواب اللہ یسعدك ..اللہ آپ کو خوش رکهے
➖ کسی کو ہنستے دیکھ کر : اضحک اللہ سنک
یعنی اللہ آپ کو خوش رکھے
​➖ بلندی کیطرف یعنی اوپر چڑھتے ہوئے اللہ اکبر اور نیچے آتے ہوئے سبحان اللہ ــــــ ـــــ ــــــــ کہا جائے.
➖ اگر کوئی چیز گر جائے تو ''بسم اللہ '' کہ کرفورا اٹھا لینا چاہے
➖ حیاک اللہ یا حیاک اللہ وبیاک دعا ہے ، جواب میں وایاک یا جزاک اللہ خیرا کہ سکتے ہیں ـ حیاک اللہ کا جواب یہاں عام طور پر "الله يحييك" سے دیا جاتا ہے ۔
حیاک اللہ کا جواب؟
یہاں عام طور پر "الله يحييك" کہا جاتا ہے۔
ملتقی اہل الحدیث میں ایک اس بارے میں سوال کیا گیا:
اہل الحدیث میں ایک اس بارے میں سوال کیا گیا:
بسم الله الرحمن الرحيم
السلام عليكم و رحمة الله و بركـاته ..
أخواني في الله :
حينما يقول الشخص مرحبا : حيـــاك الله
و أجد في بعض الردود : الله يحييــــك و " يبقيـــــك "
فهل يجوز قول كلمــة " يبقيــــك " ؟
وجزاكم الله خيرا .
اس کا جواب کچھ ایسے دیا گیا :
يحييك ويبقيك معناهما واحد أو متقارب لأن التحية مشتقة من الدعاء للمخاطب بطول الحياة أو البقاء. وهو بقاء نسبي وليس مطلق
یاد رہے کہ یہ دعا ہے ، بعض لوگ اس کو سلام کے متبادل سمجھتے ہیں جو کہ درست نہیں ـ
➖ لبیک یا رسول اللہ کہنا
کلمہ لبیک شارٹ فارم ہے الب لک البانین ( مفعول مطلق برائے کثرت )
ترجمہ ہے : میں بار بار حاضر ہوں ، میں باربار آپ کی خدمت کیلئے تیار ہوں
رسول کی زندگی مبارک میں تو صحابہ کرام سے اس قسم کے کلمات کہنے کا ثبوت ملتا ہے لیکن بعد ازوفات کو کوئی ثبوت نہیں ملتا لہذا اس قسم کے الفاظ کہنے سے احتیاط کرے کیوں کہ اس سے گمراہ فرقے کی من گھڑت عقیدے کی بھی غمازی ہوتی ہے اگر متکلم کی نیت رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کا عہد وپیمان ہے تو اس کیلئے عملا کچھ کر دکھانے کی ضرورت نہ کہ ترانے یا نشید پڑھنے کی ۔
➖ اکثر کسی کو اللہ حافظ کہا جائے تو کہتے ہیں کہ اللہ حافظ نہیں اللہ حفیظ کہنا چاہئے کیونکہ حفیظ اللہ سبحان و تعالی کی صفت ہےجبکہ حافظ رسولﷺ کی ۔ تفصیل ملاحظہ کیجیے
سنت طریقہ یہ ہے کہ گفتگو کا آغاز سلام سے اور اختتام بھی سلام سے کرنا چاہیے تاہم اللہ حافظ بھی ایک اچھی دعا ہے جس میں حرج نہیں۔
تبصرہ :
سورةالیوسف میں آیت ہے
فَاللَّـهُ خَيْرٌ‌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْ‌حَمُ الرَّ‌احِمِينَ ﴿٦٤﴾
بس اللہ ہی بہترین محافظ ہے اور وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔
إِن كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ کے بارے میں تفسیر قرطبی میں حافظ کے معنی میں دیگر معنوں کے ساتھ یہ بھی لکھا گیا ہے: وقيل : الحافظ هو الله سبحانه فلولا حفظه لها لم تبق ۔
تفسیر قرطبی میں اس آیت کی تفسیر میں خلاصہ پر ذکر ہے:
قلت : العقل وغيره وسائط ، والحافظ في الحقيقة هو الله جل وعز قال الله - عز وجل - : فالله خير حافظا ، وقال : قل من يكلؤكم بالليل والنهار من الرحمن . وما كان مثله
➖ چھینک کا جواب
صحیح بخاری :
ادب کا بیان :
باب: جب کوئی چھینکے تو اسے کس طرح جواب دیا جائے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے تو الحمد للہکہے اور اس کا بھائی یا ساتھی یرحمک اللہ کہے تو اور جب اس نےيَرْحَمُکَ اللَّهُ کہا (تو چھینکنے والا) َيَهْدِيکُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَکُمْ بالکم(یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت کرے اور تمہارے دل کی اصلاح کرے) کہے۔
دیکھیں فتاوی ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ ( 13 / 342 )
➖ ''صدق الله العظيم'' ''اللہ تعالٰی نے سچ فرمایا'' کہنا کیسا ؟
قاری حضرات کی عادت ہے کہ وہ عام طور پر قرات قرآن کے اختتام پر صدق الله العظيم کا فقرہ کہتے ہیں ـ حالانکہ یہ قفرہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ـ
قرآت قرآن عبادات کے زمرے میں آتی ہے ، اور عبادات میں کسی چیز کا اضافہ جائز نہیں ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور ہر فرمایا ؛
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
رواه البخاري ومسلم
جو کوئی ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرتا ہے جو کہ اس میں نہ ہو وہ مردود ہے ـ
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے جب اس کے معتلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے ـ اس بدعت کی بدولت ایک سنت پر عمل متروک ہو گیا ہے ـ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ::
جو کوئی قرآن پڑھتا ہے وہ قرآن کے وسلیے سے اللہ سے سوال کرے (ترمذی ـــ حسن )
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
الشيخ ابن باز -فتاوى إسلامية
Share:

Mehndi Se Balon Ko Colour Karna.

Kya Safed bal Ko Mehndi Se Rung Sakte Hai?
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ:::‎
کیا سفیدریش کو مہندی کے علاوہ اور بھی رنگوں سے رنگا جا سکتا ہے? برائےکرم رہنمائی فرمائےجزاك اللهُ‎
۔................................................................
جی ہاں برادر محترم بارق بلال ! مرد وعورت کالے رنگ کے علاوہ ہر رنگ سے بال رنگ سکتے ہیں ۔خالص سياه رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ جیسے گولڈن،براؤن اور سنہری وغیرہ سے رنگنا جائز ہے بشرطیکہ اس کی تہہ نہ جمتی ہو البتہ آج کل مروجہ فیشنی رنگوں سے بچنا چاہیے کہ فساق فجار اور فیشن پرست لوگوں کے ساتھ مشابہت لازم نہ آئے.
کما فی الصحیح لمسلم:عن ابی ھریرة رضی اللہ تعالی عنه ان النبی صلی الله عليه وسلم قال:”ان اليھود والنصاری لا يصبغون فخالفوهم.”
وقال ایضا:”اجتنبوا السواد.”(2/199)
واضح رہے دوسرے رنگ وہ منتخب کرے جس میں سیاہی کی طرف رجحان ہو.

Share:

Jo Log Deen Ki Baton Ko Apni Jati Fayde Ke Liye Najer Andaaj Karte Unka Hasher.

Jo Log Deen Ki Baton Ko Chhupate Ya Fir Yah Kahte Hai ke Hme to isse Kya Matlab Uska Hasher Kya Hoga?
السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ!!!
جو لوگ دین کی بات نہیں سننا چاہتے اور انہیں صرف اپنے قیاصوں پر ایمان ہوتا ہے ، اور وہ دوسروں کی حق تلفیاں کرتے رہتے ہیں ، تو کیا وہ اس بات پر بچ جائیں گے قیامت میں کہ ہمیں تو کچھ پتا نہیں تھا ؟ جبکہ دنیا میں کہتے ہیں کہ ہمیں سب پتا ہے ہمارا فلاں بھی بہت نمازی ، پردے دار تھا ، ایسے لوگوں کی خیر خواہی کرنی چاہیئے یا حال پر چھوڑدیں انکے؟؟
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
اللہ تعالیٰ کا دین جب ساتویں آسمان سے زمین پر اتر سکتا ہے تو زمینی وسائل تو پھر بہت آسان ہیں کہ انسان دین کا شعور و آگہی سے واقف ہو ۔ دین آج سے چودہ سو سال پہلے مشکل تھا تو صحابہ نے ان مشکلات سے مقابلہ کیا کہ ایک حدیث کے لیے میلوں کا سفر کیا ، اور آج اللہ تعالیٰ نے اونٹوں اور خچروں پر کئی کئی دنوں کے میلوں کا سفر ایک کلک پر محیط کر دیا کہ انسان ایک کلک کرتا ہے تو سات سمندر پار کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کر لیتا ہے ، زمین کا کوئی حصہ نہیں جہاں علماء کی رسائی نہیں، جدید سہولیات نے انسان کے لیے علماء سے استفادہ اتنا آسان کر دیا ہے کہ اس سے زیادہ آسانی کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔
مگرافسوس کہ آج امت کا ایک گروہ جزوی طور پر اس فارمولہ پر عمل پیرا ہے کہ ہم جانتے ہی نہیں ، ہمیں تو علم نہیں ، ہم کوئی عالم تو نہیں ۔ ایسے لوگ دراصل اغیار کی نصرت و حمایت کے حصول کی خاطر اللہ کی نصرت تائید کاسودا کررہے ہیں ۔ نظر دوڑائیے تو ہر جگہ اسلام سے بے اعتنائی ملے گی
👈کوئی سزائے رجم کا انکار رہاہے۔
👈کوئی بے پردگی کی حمایت کررہاہے۔
👈کوئی قربانی کے خلاف احتجاج کررہاے۔
👈کوئی شاتمین رسول کے تحفظ پر کتابیں لکھ رہاہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یقینا جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹہرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے
البقرة: 174، 176)۔)
اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کا بیان ہواہے جو حق جاننے کے باوجود محض دنیاوی مفاد کی خاطر واضح غلطیوں بلکہ گمراہیوں پربھی سمجھوتہ کرلیتے تھے۔ اور وسائل کے ہوتے ہوئے بھی حق کے متلاشی نہیں بنتے ۔ قیامت والے دن ایسے لوگوں کا عذر کام نہیں آئے گا اِلاّٙ مٙاشٙاءاللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے افکاراورایسے افکارکے حامل افراد کے شرسے بچائے ، آمین۔۔۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Masjid Ke Loudspeaker Se Kis Chij Ki Khaber Diya Ja Sakta Hai?

Masjid Me Kis Chij Ki Alounce Kar Sakte Hai Aur Kis Bat Ko Nahi?
السلام وعلیکم ورحمةاللہ وبرکاة۔
سوال: کیا کسی کے موت کا اعلان مسجد میں اسپئیکر پر دیا جاسکتا ہے۔ ؟
جزاکم اللہ وخیر۔
۞ابن عمر۞
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
جی ہاں  اس میں کوئی حرج نہیں کہ محض جنازے کی اطلاع دے دی جائے۔ لیکن طریقہ جہالت"نعی" ممنوع ہے
عربی زبان میں موت کی اطلاع دینے یا اعلان کرنے کے لیے لفظ نعی استعمال ہوتا ہے ۔
[ القاموس المحیط/ صفجہ 1726/ البھایةلابن الاثیر ( 86 - 85/5 ) ]
حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کہ
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ الْعَبْسِيُّ، عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَى الْعَبْسِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا مِتُّ فَلَا تُؤْذِنُوا بِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنِ النَّعْيِ . هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انہوں نے کہا: جب میں مر جاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بات «نعی» ہو گی۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «نعی» سے منع فرماتے سنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حسن : صحیح الترمذی :786 /کتاب الجنائز
ترمذی : 986
احمد : 406/5
ابن ماجہ : 1476
بیھقی : 74/4
ابن ابی شیبہ : 274/3
واضح رہے کہ جس نعی سے شریعت نے منع کیا ہے وہ اہل جاہلیت کا طریقہ ہے ، جس کی صورت یہ تھی کہ لوگ موت کی اطلاع دینے والوں کو بھیجتے جو گھروں کے دروازوں اور بازاروں میں اعلان کرتے ( اس میں نوحہ ہوتا اور میت کے افعالِ حمیدہ کا بیان ہوتا ) علاوہ ازیں محض کسی کی وفات کی اطلاع دینا مباح و درست ہے ۔
جنازے کی کتاب / حافظ عمران ایّوب لاہوری حفظہ اللہ
پہلی بات یہ ہے کہ: میت کی موت کا اعلان نعی (موت کی خبر کا ممنوعہ طریقہ) کی شکل میں دینا جائز نہیں ہے، اگر رشتہ داروں اور احباب ومتعلقین کو نماز جنازہ پڑھنے اور تدفین وغیرہ میں شریک ہونے کے لئے خبر دی جائے تو یہ جائز ہے، یہ ممنوع نعی میں سے نہیں ہے، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے نجاشی کی موت کی خبر دی اور نماز جنازہ بھی پڑھی۔دوسری بات یہ ہے کہ: موت وغیرہ کے اعلان کے لئے مسجد کے اندر مخصوص بورڈ بنانا مناسب نہیں ہے، کیونکہ مسجدیں ان چیزوں کے لئے نہیں بنائی جاتیں۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⛔ چیز یا بچے یا جانور کا اعلان
چیز یا بچے یا جانور کا اعلان مسجد میں کرنا شرعاً درست نہیں ہے ۔اور نہ اشیاء کی خریدوفروخت کا اعلان مسجد میں کرنا جائز ہے۔حدیث میں ہے کہ''اگر کوئی شخص مسجد میں اپنی گم شدہ چیز کا اعلان کرتا ہے۔تو اس کا جواب بایں طور پر دیا جائے کہ:
''اللہ سے تیرے پاس واپس نہ کرے''ا س کی وجہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ:
''مساجد اس کام کے لئے نہیں بنائی گئیں۔''(مسلم کتاب المساجد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جو لوگوں سے اپنے گم شدہ اونٹ کے متعلق دریافت کررہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اللہ کرے تو اپنے اونٹ کو نہ پائے کیونکہ مساجد جن مقاصد کے لئے بنائی گئی ہیں۔انہیں کے لئے ہیں۔''(صحیح مسلم کتاب المساجد)
بلکہ واضح طور پر اس کے متعلق حکم امتناعی وارد ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گم شدہ اشیاء (حیوانات وغیرہ) کو مساجد میں تلاش کرنے اور اس کے متعلق دریافت کرنے سے منع فرمایا ہے۔(ابن ماجہ کتاب المساجد)
حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں خریدوفروخت کرتا ہے تو اس کے حق میں یہ خریدوفروخت سو د مند نہ ہونے کی بد دعا کی جائے اسی طرح اگر کوئی مسجد میں اپنی گم شدہ چیز کے متعلق اعلان یا دریافت کرتا ہے۔تو اسے کہا جائے کہ اللہ کرے تجھے وہ و اپس نہ ملے۔
ان احادیث میں اگرچہ لفظ''ضالۃ'' استعمال ہوا ہے۔جو صرف گمشدہ حیوانات کے لئے ہے۔ لیکن اس کے منع ہونے کی جو علت بیان کی گئی ہے۔اس کے پیش نظر امتناعی حکم ہر گم شدہ چیز کے لئے خواہ وہ جانور ہو یابچہ وغیرہ البتہ جنازہ کا اعلان مسجد میں کیا جاسکتا ہے۔کیوں کہ یہ اعلام ہے۔یعنی دوسروں کو اطلاع دینا ہے۔اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ یہ اطلاع ایک دفعہ کردی جائے بار بار پورے شجر ونسب کے ساتھ اعلان کرنا درست نہیں اسی طرح اگر کوئی چیز مسجد کے اندر گم ہوجائے یا کسی کو ملے تو اس کا اعلان مسجد کے نمازیوں میں کیا جائے۔
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد 1/ صفحہ 90
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی اشیاء کا اعلان کرنا جو احاطہ مسجد سے باہر گم ہوئی ہوں
مسجد میں بذریعہ لاؤڈ سپیکر ایسی اشیاء کا اعلان کرنا جو احاطہ مسجد سے باہر گم ہوئی ہوں/ یا اگر مسجد کے احاطہ میں بذریعہ لاؤڈ سپیکر کوئی دکاندار اپنی اشیاء فروخت کرنے کا اعلان کرنا /اور اس طرح اعلان کرانے کا ہدیہ وصول کیا جائے
حدیث میں (ضالَّه) (گم شدہ جانور) کا اعلان مسجد میں کرنا صراحتا ً منع فرمایا ہے اور لُقطہ یعنی غیر جاندار گم شدہ چیز کا ذکر حدیث میں صراحتا ً نہیں، لیکن جو چیز مسجد سے باہر گم ہوئی ہو مسجد میں اس کے اعلان کا وہی حکم ہے جو (ضالَّه) کا ہے۔ کیوں کہ مسجد میں (ضالَّه) کا اعلان منع ہونے کی وجہ حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں ہیں، یہ وجہ غیر جاندار میں بھی موجود ہے۔ ہاں جو چیز مسجد میں گم ہوئی ہو، اس کے متعلق غالب ظن یہی ہوتا ہے۔ کہ مسجد کے نمازیوں میں سے کسی کے ہاتھ آئی ہو گی۔ اور اعلان خواہ لاؤڈ سپیکر پر ہو یا اس کے بغیر اس سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، یعنی اعلان بغیر لاؤڈ سپیکر کے ناجائز ہے وہ لاؤڈ سپیکر پر بھی ناجائز ہے۔ جب (ضالَّه) اور لُقطہه جو مسجدسے باہر ہو اس کا اعلان مسجد میں ناجائز ہے تو فروختگی اشیاء کا اعلان مسجد میں کیسے جائز ہو گا؟ اور جب اعلان ناجائز ہوا تو اس پر کرایہ لینا اور اس کو مسجد پر صرف کرنا بھی ناجائز ہوگا۔
ہاں اس کی یہ صورت ہو سکتی ہے۔ کہ لاؤڈ سپیکر یا مسجد کی کوئی چیز، شامیانہ وغیرہ باہر لے جا کر کرایہ پر استعمال کرے اور وہ کرایہ مسجد پر صرف کیا جائے ۔ تو کوئی حرج نہیں۔
(نوٹ) یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فروختنی اشیاء دو طرح کی ہیں۔ ایک دینی اور ایک دنیوی۔ جیسے کوئی بات لکھے اور اس کا اعلان مسجد میں کر دے تو یہ دینی تبلیغ ہے۔ اس کی اجازت ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ مسجدیں دین کے لیے ہیں۔ چنانچہ آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی فوج وغیرہ بھیجنی ہوتی یا اور کسی قسم کا کوئی دینی کام ہوتا، تو اس کا اعلان مسجد میں خطبہ کے اندر فرما دیتے۔
صرف یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس میں اپنا ذاتی مفاد بھی ہے۔ مگر یہ مفاد بالتبع ہے۔ اصل مقصد نہیں۔ اس کو ایسا ہی سمجھنا چاہیے، جیسے جنگ میں مالِ غنیمت یا دیگر مفادات کی
امید رکھی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد اعلاء کلمۃ اللّٰہ ہے اور مال کی امید بالتبع ہے۔ اس لیے یہ چیز نقصان دہ نہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل/جلد 02

Share:

Facebook Ya Diger Social Media Pe Apni Tasweer lagana kaisa hai?

Facebook Pe DP/Profile pic/Apni Tasweer lagana kaisa hai Iska kya hukm Hai islam Me?

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ کی رو سے کسی بھی جان دار کی تصویر بنانا ، دیکھنا اور دکھانا سب ناجائز ہے، حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے دربار میں سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا، ایک اور حدیث میں ہے کہ جس گھر میں کسی جان دار کی تصویر ہو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے؛ اس لیے واٹس ایپ اکاؤنٹ کی پروفائل میں کسی بھی جان دار کی تصویر لگانا جائز نہیں ہے

Share:

Maut Ke Bad Kya Marne wale ke taraf Se Sadqa Kiya Ja Sakta Hai?

 Faut Hone Wale Ki Taraf Se Sadqa Dene Ka Sawab Kya Unhe Milta Hai

جیسا کہ حدیث میں مذکور ھے کہ مرنے کے بعد اعمانامہ بند ھو جاتا ھے سوائے 3 چیزوں کے۔
صدقہ جاریہ۔ صالح اولاد۔نافع علم
اب گزارش یہ ھے کہ آپ نے فرمایا ھے کہ اپنی والدہ محترمہ کیلئے کنواں کھدوالیں تاکہ ان کیلئے صدقہ جاریہ ھو۔  اولاد کا مرحوم والدین کیلئے صدقہ جاریہ کرنے کی دلیل درکار ھے.
اللہ آپکو جزائے خیر دے
___________________________
فوت شدگان کی طرف سے صدقے کا فوت شدہ کو ثواب پہنچتا ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔
مسلم: (1630) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا: "میرا باپ فوت ہو گیا ہے، اور اس کے ترکے میں مال موجود ہے، لیکن کسی قسم کی کوئی وصیت نہیں کی، تو کیا اگر میں انکی طرف سے صدقہ کروں تو انکے گناہ مٹ جائیں گے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں)
➖ اسی طرح مسلم: (1004) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "میری والدہ اچانک فوت ہو گئیں ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہیں کچھ بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا مجھے اس میں سے ثواب ملے گا، اگر میں انکی طرف سے صدقہ کروں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں)
➖ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا:
’’ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ، وَلَمْ تُوصِ، أَفَيَنْفَعُهَا أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا؟، قَالَ: نَعَمْ، وَعَلَيْكَ بِالْمَاءِ‘‘
(یا رسول اللہ! میری والدہ وفات پاگئیں مگر کوئی وصیت نہ کر پائیں، اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو وہ انہيں فائدہ دے گا؟ فرمایا: ہاں، اور تم پانی کو لازم پکڑو(یعنی پانی پلانے کے ذریعے صدقہ کرو))۔
اسے الطبرانی نے الاوسط میں روایت کیا اور الالبانی نے الصحیحۃ 2615 میں اسے صحیح فرمایا۔
➖ اسی طرح سے سیدنا سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ، فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَاءُ، قَالَ: فَحَفَرَ بِئْرًا، وَقَالَ: هَذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ‘‘
(یا رسول اللہ! ام سعد فوت ہوگئيں، پس ان کی طرف سے کون سا صدقہ افضل ہوگا؟ فرمایا: پانی۔ راوی کہتے ہیں: پھر انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور فرمایا کہ: یہ ام سعد کے لیے ہے)۔
اسے ابو داود نے روایت کیا اور الالبانی صحیح ابی داود 1681 میں فرماتے ہیں یہ حسن لغیرہ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
Share:

Kisi Ke Maut Pe Barish Ka Hone Ki Alamat.

Kya Kisi Ke Maut Pe Barish Hona uske Nek Hone Ki Nishaniyo Me Se Ek Hai

 ا لسلام علیکم..حضرت سعد رضی الله عنه کی موت پر عرش کا ہلنا.اور عذاب قبر کا هونا پهر هلکا هونا...اسکے متعلق مکمل معلمومات چاهئے.کیا کسی کی موت پر بارش کا هونا نیکی کی علامت ہے...شکریه
_________________________________
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
بھائی کے سوال کا پہلا حصہ 
⬅حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا فَضْلُ بْنُ مُسَاوِرٍ خَتَنُ أَبِي عَوَانَةَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَعَنْ الْأَعْمَشِ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ فَقَالَ رَجُلٌ لِجَابِرٍ فَإِنَّ الْبَرَاءَ يَقُولُ اهْتَزَّ السَّرِيرُ فَقَالَ إِنَّهُ كَانَ بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَيَّيْنِ ضَغَائِنُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ
➖ صحیح البخاری/رقم الحدیث : 3803
➖ کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ
➖ بَابُ مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ؓ
ترجمہ : مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہاہم سے ابوعوانہ کے داماد فضل بن مساور نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے ، ان سے ابوسفیان نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ۔ آپ نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش ہل گیا اور اعمش سے روایت ہے ، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ، ایک صاحب نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ براءرضی اللہ عنہ تو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ چار پائی جس پر معاذ رضی اللہ عنہ کی نعش رکھی ہوئی تھی ، ہل گئی تھی ، حضرت جابررضی اللہ عنہ نے کہا ان دونوں قبیلوں ( اوس اور خزرج ) کے درمیان ( زمانہ جاہلیت میں ) دشمنی تھی ، میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش رحمن ہل گیا تھا ۔
صحیح بخاری / حدیث : 3803
کتاب: انصار کے مناقب
باب :حضرت سعد بن معاذ ؓ کے فضائل کابیان
⬅سنن ترمذی میں حدیث ہے:
﴿جابر بن عبداللہ t یقول: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول و جنازة سعد بن معاذ بین ایدیھم اھتزلہ عرش الرحمن ﴾
(سنن الترمذی مع تحفة الاحوذی، ج ۱۰، رقم ۳​۸۵۷)​
ترجمہ: (جابر بن عبداللہ t نے فرمایا کہ سعد بن معاذ t کا جنازہ موجود تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سعد بن معاذ کی موت پر رحمن کا عرش ہل گیا۔ )
یہ حدیث سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ، یہ حدیث درج ذیل کتب میں دیکھی جا سکتی ہے۔
صحیح مسلم ۴/۱۹۱۵ کتاب الفضائل الصحابة۔ سنن الترمذی کتاب المناقب رقم ۳۸۵۸ والبیھقی فی اثبات عذاب القبر ۱۱۳، معجم الکبیر للطبرانی ۵۳۳۲،۵۳۳۳،۵۳۳۴،۵۳۳۵،۵۳۳۶،۵۳۳۷، شرح السنة للبغوی، ج ۵ ص ۳۳۷، رواہ عبدالرزاق رقم ۶۷۴۷، مجمع الزوائد ۹/۳۰۹، مسند احمد ، ج ۲۳، رقم ۱۴۸۷۳۔ ۱۴۵۰۵۔
لہٰذا یہ حدیث کثرت طرق سے ثابت ہے اس کا انکار جائز نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ قد جاء حدیث اھتز العرش ’’سعد بن معاذ‘‘ عن عشرة من
الصحابة اٴو اکثر وثبت فی الصحیحین فلا معنی لانکارہ﴾
(فتح الباری ، ج ۷، ص ۱۵۶)
ترجمہ: (یقیناً یہ حدیث ’’عرش ہلنا‘‘ سعد بن معاذ کے موت پر دس صحابہ سے مروی ہے ، یہ حدیث صحیحین میں بھی موجود ہے، پس اس کا انکار کرنا کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔)
⛔رحمن کا عرش ہلنا اس سے کیا مراد ہے:
کئی علماء نے اس کی مختلف تعبیر دی ہیں۔ مختصر یہ کہ حدیث کے الفاظ سے عرش کا ہلنا ہی ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے عرش کے ہلنے سے مراد جنازے کے بعد سریر کا ہلنا مراد لیا ہے۔ جس کے بارے میں عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں
’’ھذا لاقول باطل‘‘
یہ قول باطل ہے ،
جس کا رد صریح احادیث جو مسلم میں موجود ہیں وہ کرتی ہیں۔
(تحفة الاحوذی ج ۱۰، ص ۳۶۰)
بھائی کے سوال کا دوسرا حصہ 
موت کے بعد ایسی کوئی قوی علامت ثابت نہیں معزز بھائی جو بندے کے صالح اور متقی ہونے کو ظاہر کرے ، تاہم کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک ،یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں ، یہ بات واضح رہے کہ یہ اس وقت ہے جب اس شخص کو زندگی میں لوگوں کے درمیان اچھے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہو، تاہم اس بارے میں کوئی یقینی اور ٹھوس بات نہیں کی جا سکتی۔
لہٰذا اگر مرنے والا بندہ اپنی زندگی میں نیکی و تقوی میں مشہور تھا، پھر اسکی موت کے بعد اس کا چہرہ خوبصورتی سے چمک اٹھا تو یہ ایسی علامت ہے جس سے اچھا تاثر لیا جاسکتا ہے اور اس پر خیر کی امید کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مرنے کے بعد لوگ اس کی تعریف کریں، اور اس کے لئے دعائیں کریں تو یہ اس کے نیک ہونے کی نشانی ہے، اسی طرح زندگی میں اچھے لوگوں کی صحبت بھی انسان کے نیک ہونے کی نشانی ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُا
Share:

Quran ko Apne Pichhe Ki Taraf Karke Baitna Kaisa Hai?

Quran Ki Taraf Pusht Karna Kaisa Hai Namaji ke Aage Se Gujarna Ya Fir Aage Table Wagairah Rakh Dene Ka Tarika

⬅ قرآن کی طرف پشت کرنا
⬅ قرآن نیچے اور کوئی شخص اوپر
⬅ قرآن کے سامنے نمازی کی پشت
➊ سوال : اگر کوئی شخص قُرآن پاک پڑھ رہا ہو۔جیسے مسجد میں‌ پڑھتے ہیں‌ لوگ،اگر کوئی انسان اُس کے آگے آکر نماز پڑھنا شروع کر دے اس طرح‌کہ نماز پڑھنے والے کی پُشت قُرآن پاک کی طرف ہو جائے تو کیا اس سے کوئی گُناہ ملتا ہے؟
➖ جواب :
اس عمل سے قرآن پڑھنے والے یا نماز پڑھنے والے کو کوئی نہیں گناہ نہیں ملے گا ۔
➋ سوال :
اگر گھر میں‌کوئی بیڈ روم کی زمین پر بیٹھ کر تلاوت کرنا شروع کر دے اور سامنے بیڈ پر آکر کوئی بیٹھ جائے تو کہتے ہیں‌ نیچے اُٹھ جانا چاہیے کیونکہ قُرآن نیچے کی طرف ہو جاتا ہے کیا ایسا کچھ ہے کہ نہیں؟
➖ جواب :
ایسا ہی کرنا چاہیے , کیونکہ اللہ تعالى کافرمان ہے :
ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ [الحج : 32]
یہ بات خوب سمجھ لو ,اور جو اللہ تعالى کی نشانیوں کی
تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کےتقوى کی نشانی ہے
➌ سوال :
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کئی لوگ گھر کے کسی بھی درمیانی والی جگہ پر نماز شروع کر دیتے ہیں‌اور اپنے آگے کُرسی یا کچھ اور رکھ دیتے ہیں‌۔ اگر کوئی آگے سے گزر جائے تو کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔کیا اس طرح‌آگے کی طرف کچھ رکھ کر نماز پڑھ لی جائے تو اس میں‌کچھ مسئلہ تو نہیں؟
➖ جواب :
اسے سترہ کہتے ہیں , ایسا ہی کرنا چاہیے کہ نمازی یا تو دیوار یا ستون کے قریب ہو جائے یا پھر اپنے آگے کم از کم ڈیڑھ فٹ اونچی کوئی چیز رکھ لیے , اسکے آگے سے جو چاہے گزر جائے کوئی گناہ نہیں لیکن اس سترے اور نمازی کے درمیان سے اگر کوئی گزرے تو اس پر گناہ ہے ۔
الشیخ عبدالرحمٰن رفیق طاہر حفظہ اللہ
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
Share:

Kafir Ko Cheenk Ka Jawab kaise Diya Jaye?

Kafir Ko Salam Ka Jawab Dena Ya Cheenk Aane Pe Kya Kahna Chahiye

ذمی کافر کو چھینک کا جواب کیسے دیں ؟
سنن ابوداؤد:  ادب کا بیان :
باب :ذمی کافر کو چھینک کا جواب کیسے دیا جائے۔
سیدناابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر چھینکتے اس امید پر کہ آپ انہیں يَرْحَمُکُمْ اللَّهُ کہیں گے لیکن آپ انہیں يَهْدِيکُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَکُمْ کہتے۔
فائدہ : غیر مسلم کو چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کی بجائے یھدیکم اللہ و یصلح بالکم کہنا چاہیئے جیسے کہ اسے السلام علیکم کہنے میں ابتدا نہیں کی جاسکتی اور وہ کہے تو جواباً صرف'' علیکم '' کہا جاتا ہے ۔ (ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ)
Share:

Islamic Bank Me Paisa Jma Karne Ke Masail.

Mera sawal ye hai ke Kya jo log Islamic banks Mai Paisay fix karwate hain 3 ya 5 saal k liye ...or phir us se jo monthly profit lete hain Kya wo jayez hai. jab ke bank walon k pass bahut Se fatawe Bhi hain ke ye paise jayez hain Kyu Ke  profit or loss dono Me shareek hota hai Paisy fix karwane wala..... Bahut Se log aajkal Aeisa kar rahe hain to Kya ye paise Sood ke zimray Me Nahi Aatey?
یاد رکھیے سسٹر کہ FIXED ACCOUNT کا مقصد ہی سود کھانا ہوتا ہے ۔ بینک والوں کے یہ جھوٹے فتوے اور اپنے کاروبار کی خاطر حیلے بہانے اور فنکاریاں درست نہیں ہیں ۔
بینک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اپنے کاروبار میں نفع و نقصان کی شرائط پر شریک نہیں کرتا، بلکہ وہ انھیں اُن کی جمع شدہ رقوم پر متعین مدت میں، متعین اضافہ کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اسی کو سود اور ربا کہتے ہیں۔
بینک کے دیوالیہ ہو جانے پر اکاؤنٹ ہولڈرز کی رقموں کا ٹوٹ جانا یا ان کو نقصان ہو جانا یا اس طرح کی بعض دوسری صورتوں میں انھیں گھاٹا پڑنا، کاروبار کا نفع و نقصان نہیں ہے، بلکہ یہ بینک سے متعلق افراد پر آفات و حوادث کی صورت میں ہونے والے اثرات ہیں۔ بینک بہرحال، سودی نظام پر مبنی ادارہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت کیا ہوتی ہے۔ وہ نفع و نقصان کی شرائط پر لوگوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرتا، بلکہ سود کے اصول پر ان سے رقوم لیتا اور انھیں دیتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں سے خود کو دھوکا نہیں دیناچاہیے
____________________________

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS