find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label nikah. Show all posts
Showing posts with label nikah. Show all posts

Islam aur Homosexuality: Mai Ek Ladki hoo aur Ek Ladki se Shadi karna chahati hoo, kya Islam iski ijazat deta hai?

Kya Aurat  Aurat se aur Mard Mard se Shadi kar sakti hai?

Islam me Bisexuality aur Homosexuality ka kya Hukm hai?
Sawal: Mai Ek Ladki hoo. Aur mai ek Ladki me involve hoo. Mai us se Shadi karna Chahati hoo, mai janti hoo ke mera Mazhab is chij ki ijazat  nahi deta.... Kya koi aur tarika ban sakta hai..?
Islam aur Western Culture ke manane wale Musalman.

Mastrubation karne ke Gunah aur Uske Nuksanat.

Naw jawano me Failti ja rahi in buraiyo ka ilaaz kya hai?

Joy land movie aur Pakistani Rahnuma.

Jab Misr ki Mallika ne Europe ki Pairawi karte hue hijab Utar di.

Education ke nam par Magribi Prast log Muslim Ladkiyo ko Be Parda karna chahate hai?

Kya Musalman Ladki Apni marzi se Shadi kar sakti hai?

Musalman ladke aur Ladkiya Magrib ke raste par chal rahe hai?

A RESPECTED MUSLIMA

Assalam o alaikum wrhmtulhi wabbraktu..

مجھے آپ سے کچھ سوال پوچھنا ہے.

میں لڑکی ہوں. اور میں ایک لڑکی میں انوالو ہوں.
میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں. میں جانتی ہوں کہ میرا مذہب اس چیز کی اجازت نہیں دیتا. کیا کوئی اور طریقہ بن سکتا ہے..؟
کیا جنس بدل کر شادی کی جا سکتی ہے؟ پلیز رہنمائ فرمائیے. میں اس آزمائش سے نکل نہیں پا رہی. جزاک اللہ خیرا کثیرا. 

=====================

وَعَلَيــْــكُم السَّـــــلاَم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

 : مسزانصاری

جنسی روابط دو مخالف جنس میں ہونا ایک فطری عمل ہے جسے شرعئی حدود و قیود کے ساتھ عمل میں لانا گناہ نہیں ۔ لیکن دورِ حاضر میں یورپ کے کلچر کی پیداوار آزادی نسواں کے نظریات کے حامی طبقے اور ان نظریات سے نکلتی گناہوں کی راہوں پر چلنے والے مرد و زن میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کا سبب محض ان کا دین سے دور ہونا ہے ۔

جس طرح قومِ لوط میں یہ قبیح فعل پایا جاتا تھا کہ مرد مرد کے ساتھ غیر شرعئی اور جنسی تسکین تلاش کرے ، اسی طرح آج مغرب میں ایک گندہ اور غلیظ فعل پروان چڑھ رہا ہے جس نے مسلم معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، اور وہ ہے ہم " جنس پرستی " ۔ یعنی ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ ہمبستری کرے ، اپنی نفسانی شہوت کو دوسری عورت کے ساتھ پوری کرے ۔

عبد الکریم زیدان المفصل في أحكام المرأة میں رقمطراز ہیں :

جیسے مردوں کے درمیان غیر اخلاقی جنسی تعلقات پائے جاتے ہیں ایسے ہی خواتین کے درمیان بھی پائے جاتے ہیں جسے مسلم فقہائے کرام "سحاق" کہتے ہیں اور اسکی وضاحت میں کہتے ہیں کہ: ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ ہمبستری کرے۔ ( المفصل في أحكام المرأة : زيدان 5/450 )

فی زمانہ مسلمان طبقہ کا ایک قابلِ ذکر طبقہ ہم جنس پرستی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جسے مغرب زدہ لوگ ہی فروغ دے رہے ہیں ۔

لواطت (ہم جنس پرستی) انسان کی شہوت کو تسکین پہنچانے کا بدترین راستہ ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو تجاوز کرنا ہے ۔ یہ بدترین لوگوں کا بہترین شغل ہے جس پر دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور آخرت میں بھی اس کی دردناک سزا ہے ۔

یہ وہ گناہ ہے جو قومِ لوط میں پایا گیا تھا کہ مرد مرد کے ساتھ غیر شرعئی اور جنسی تسکین تلاش کرے ، اللہ تعالیٰ نے اسی گناہ کی وجہ سے قوم لوط کو تباہ و برباد کر دیا تھا اور ادنیا میں ان کی سزا یہ تھی کہ ان کے گھروں کو الٹ کر تہہ و بالا کر دیا گیا اور ان پر پتھروں کی بارش کر دی گئی ۔

جس وقت کوئی کسی کی ذات میں دلچسپی رکھتا ہو اور کھنچتا چلا آئے ، پھر یہ دلچسپی خاص حد سے تجاوز کر جائے جیسا کہ فی زمانہ لڑکیاں آپس میں بڑھ جاتی ہیں اور آپس میں ہمبستری کی طرف مائل ہوجاتی ہیں ، یہ ایک بھیانک گناہ ۔ قرآن میں اس کی سخت وعید ہے "

وَ الّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ فَاسۡتَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِنَّ اَرۡبَعَۃً مِّنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَاَمۡسِکُوۡ ہُنَّ فِی الۡبُیُوۡتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ یَجۡعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا ﴿سورة النساء/۱۵﴾

اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے پھر اگر وہ گواہی دے دیویں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھروں میں یہاں تک کہ اٹھا لیوے ان کو موت یا مقرر کر دے اللہ ان کے لئے کوئی راہ

وَ الَّذٰنِ یَاۡتِیٰنِہَا مِنۡکُمۡ فَاٰذُوۡہُمَا ۚ فَاِنۡ تَابَا وَ اَصۡلَحَا فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿سورة النساء/۱۶﴾

اور جو دو مرد کریں تم میں سے وہی بدکاری تو ان کو ایذا دو پھر اگر وہ دونوں توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان کا خیال چھوڑ دو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے.

قَالَ رَسُولُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ

نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو قوم لوط جیسا عمل کرتے پائو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔

ترمذي، السنن، 4: 57، رقم: 1456، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

لواطت کی سزا کے بارے میں حضرات صحابہ کرامؓ سے یہ وارد ہے کہ جو شخص یہ کام كرے یا جس کے ساتھ کیا جائے دونوں کو قتل کر دیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے‘ یا رجم کر دیا جائے یا کسی بلند پہاڑ کی چوٹی سے گرا دیا جائے اور پھر پتھروں سے مار دیا جائے کیونکہ اس میں بے حد اخلاقی خرابی بھی ہے اور یہ فطرت کے خلاف بھی ہے‘ یہ کام کرنے والے شرعی شادی سے روگردانی کرتے ہیں اور مفعول بہ عورت سے بھی کم تر حالت اختیار کر لیتا ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ/جلد : ٣/صفحہ : ۴٠٩ )

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:

خواتین کا چپٹی کھیلنا (خواتین کا ہم جنسی عمل) اور ہاتھ سے منی خارج کرنے کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب  دیا کہ:

"لڑکیوں کا آپس میں جنسی عمل حرام ہے، بلکہ کبیرہ ترین گناہوں میں شامل ہے؛ کیونکہ یہ عمل اللہ تعالی کے اس فرمان سے متصادم ہے: (وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ * إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ * فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ)

ترجمہ: اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ٭ ماسوائے اپنی بیویوں  اور لونڈیوں کے ، تو وہ قابل ملامت نہیں ہیں ٭ پس جو شخص بھی ان کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرے تو یہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔[المؤمنون:5 – 7]

نیز اسی آیت کی رو سے جلق [ہاتھ سے منی کا اخراج] بھی منع ہے؛ کیونکہ یہ بھی سنگین نتائج کا باعث ہے۔

شیخ عبد العزیز بن باز، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد اللہ غدیان، شیخ عبد اللہ قعود۔
فتاوی دائمی کمیٹی (22/68)

 : اے مسلمان سائلہ بہن !! ذرا سی لذت کی وجہ سے ابدی زندگی میں دردناک عذاب کا سودا نا کریں ، اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود میں انسان کی سلامتی ہے ، خیر ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے ۔

اگر آپ دین سے ہٹ کر بھی تدبر کریں تو انسانی فطرت سلیمہ بھی حیاتِ انسانی کی اقدار اور نظام کی پاسدار ہوا کرتی ہیں ۔ مسلمان کی فطرت کا حسن اسلامی قوانین پر چلنے میں ہوتا ہے ۔

مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے ، اسی اللہ کے دین پر نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق چلتا ہے تو مسلمان سے مومن بن جاتا ہے ، مومن مرد و عورت کی فطرتِ سلیمہ کبھی بھی برائی ، فحاشی ، بے حیائی اور منکرات کو قبول نہیں کرتیں ۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے نہایت عالی و پاکیزہ دین سے نوازا ہے ، آپ خوش نصیب ہیں کہ اس امت میں سے ہیں جس کے امتی کو اگر جہنم میں غوطہ بھی دیا گیا تو خاص وقت کے بعد نکال لیا جائے گا تب وہ جنت کے حسین اور دلفریب محلات کا مالک بن جائے گا ، آپ کیوں تباہی اور بربادی کے راستے پر چل پڑی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی جنت کو کون ٹھکرانا پسند کرتا ہے ، وہی پسند کرتا ہے میری مسلمہ بہن جو اللہ تعالیٰ کے منع کردہ کاموں کو اختیار کرتا ہے ، انسان کا وہ عمل جنت کو ٹھکرانے کے مترادف ہوتا ہے جس میں منکرات اور شہوات میں انسان اپنے آپ کو بے لگام چھوڑ دیتا ہے ۔
ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا یہ کبیرہ ترین گناہ آپ کو دردناک جہنم کی جھلسا دینے والی آگ میں ڈال دے گا ۔

اللہ تعالیٰ سے ڈریے اور بچیے اس دن سے جب آپ کو جہنم کے فرشتوں سے کوئی نہیں چھڑا پائے گا ، آپ کو جہنم کی طرف کھینچا جائے گا ، وہ جہنم جس کے نظارے سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ، وہ جہنم جس کی ہولناکی سے حمل والیاں اپنے حمل گرادیں گی ، وہ جہنم جس کی ہیبت جوان کو بوڑھا کر دے گی اور وہ جہنم جس کے خوف سے پسینہ گردنوں تک لوگوں کو ڈبو دے گا ۔

اس کام سے سچی توبہ کیجیے ،  اس کام سے دور رہنے کی فکر جب آپ میں جا گزیں ہوگی تو اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا ، آپ اس لڑکی کی دوستی چھوڑ دیجیے جس نے آپ کو غلط کام چھوڑنے پر کبھی نصیحت نہیں کی ۔

انسان کا بہترین دوست وہ ہوتا ہے میری سسٹر جو اپنے دوست کے قدم برائی کی طرف اٹھنے سے روک لے ، جو اپنے دوست کو اللہ کے عذابوں سے ڈرائے اور اسکی جنت کی رغبت دلائے ۔

آپ کی یہ دوست آپکی دوست نہیں بلکہ وہ سواری ہے جس پر بیٹھ کر آپ جہنم کی طرف رختِ سفر باندھے ہوئے ہیں ۔ لوٹ آئیے اللہ کی طرف ، اللہ تعالیٰ کی رحمت آپ کو بلا رہی ہے کہ :

قُلْ يٰعِبَادِىَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۗ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ

(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے ۔

اے ہماری مسلمہ بہن !! روئے زمین پر بعد از انبیاء و رسل ، اللہ تعالیٰ کا کوئی ایک بندہ بھی ایسا نہیں جس  کے نفس پر اور قلب و ذہن پر دنیا کی گہما گہمی ، چمک دمک اور رنگ رلیوں کی آڑ میں شیطان نے نقب نا لگائی ہو ، ہر انسان پر ہر جہت سے شیطانی حملے ہوئے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہوکر گناہ اور قصور کر بیٹھتے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ اسے توبہ کی طرف مائل کیا ، قرآن کھولیے آپ کو جگہ جگہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی نوید دے رہا ہے :

وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف:87)

ترجمہ:اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقینا رب کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔

وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ(الحجر:56).

ترجمہ : اپنے رب تعالی کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں ۔

لا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (زمر : ۵٣)

اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے

پس آپ اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے توبہ کیجیے اور نیکی پر استقامت کی مدد طلب کیجیے ۔ اور یقین رکھیے کہ وہ عزتوں والا رب نا صرف آپ کو معاف فرما دے گا بلکہ آپ کو برائی سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے گا ۔۔۔۔

میں اس تحریر پڑھنے والے ہر بہن بھائی سے دردمندانہ درخواست کرتی ہوں کہ اپنی بہن کو اپنی عبادتوں میں یاد رکھیے ، اللہ تعالیٰ سے اس کی ہدایت کی دعا کیجیے ، بھلا اگر آپ کی بچی یا آپکی بہن اس فعل میں مبتلا ہو جائے تو ایمانداری سے بتائیے کہ کس کرب سے آپ گزریں گے ؟

اسی کرب کو محسوس کر کے اس بچی کے لیے صدق دل سے دعا کیجیے ، ان شاءاللہ آپ سب کی غائبانہ دعائیں خود آپ کی بہنوں بیٹیوں کی شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بن جائیں گی ۔

ALQURAN O HADITHS♥ ➤WITH MRS.ANSARI

وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ․
اللہ عز و جل اھل توحید کو شیاطین کے شر سے محفوظ رکھے.
اللهم آمين آمين آمين يارب انت الحي الذي لا يموت أبداً
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْـكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Share:

Kya Baap ke Saali se Bete ka Nikah ho sakta hai, Koi Ladka Khala se nikah kar sakta hai?

Kya koi Ladka apne walid ki Sali se shadi kar Sakta hai?
Kya Baap ki Saali se Bete ka Nikah jayez hai?

Shama Khalid
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سسٹر کسی نہ سوال پوچھا ہے کہ باپ کی شادی جہاں ہوٸی ہے۔۔۔۔اسی کے بیٹے کا نکاح یعنی باپ کی سالی سے جاٸز ہے یا نہیں۔ مطلب باپ بیٹے کی ساس ایک ہی ہو!!

۔.............................................................

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ معزز و مکرم اختی ۔۔۔۔

آپ نے سوال میں یہ نہیں بتایا اختی کہ باپ اور بیٹے کا نسبی رشتہ کون سا ہے ، بیٹا علاتی ہے ، اخیافی ہے یا عینی ہے ؟

واضح ہو کہ ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک سے تعلق رکھنے والے بہن بھائی نسبی بہن بھائی کہلاتے ہیں ۔ نسبی بہن بھائی تین ہیں.

١- اخیافی
٢- عینی
٣- علاتی

1- اخیافی بہن بھائیوں کی ماں ایک ہوتی ہے لیکن باپ دوسرا ہوتا ہے ۔
2- عینی بہن بھائی ایک ہی ماں اور ایک ہی باپ کے سگے بہن بھائی ہوتے ہیں ۔
3- علاتی بہن بھائیوں کا باپ ایک ہوگا مگر ماں دوسری ہوگی ۔

اگر تو سوال میں مذکور بیٹا عینی یا اخیافی بیٹا ہے تو ان دونوں صورتوں میں باپ کی سالی اس بیٹے کی ماں کی بہن اور اس کی خالہ ہے ، اور ازروئے شریعئت خالہ محرم ہوتی ہے ، خالہ سے نکاح جائز نہیں ۔

بصورتِ دیگر اگر بیٹا علاتی ہے اور باپ کا سالی سے مزید کوئی دوسرا رکاوٹی رشتہ نہیں ہے تو پھر باپ کا اس علاتی بیٹے کا جس کی ماں دوسری ہو ، اپنی سالی سے نکاح کرانا جائز ہوگا ۔

نوٹ : درج بالا تفصیل کو بغور پڑھا جائے ۔۔۔۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Kya Ladki Apni Marzi se Nikah kar sakti hai, Ya Apne Maa Baap ki marzi se?

Kya Ladki Apni Marzi Se Shadi kar sakti hai ya Maa Baap ki marzi se?

Kya Islam Pasand ki Shadi karne se rokta hai?
Kya koi Ladki Apni Marzi se Shadi kar sakti hai? Urdu

#शोबिज और आज के #मॉडर्न दौर ने औरतो को खिलौना बना दिया है, ज़ुल्म देखो... मर्द पूरे कपड़े पहन रखे है मगर बेचारी औरत को #फैशन के नाम पर इस मॉडर्न सोच और #आज़ादी के नारे ने बीच मैदान मे नंगा बैठाया हुआ है।*

तुम कोई चॉकलेट या आइस क्रीम नही हो जो हर किसी को अपना मिठास देती रहोगी।

किस हाथ मे अंगूठी पहनना चाहिए?
*शादी मे engagement की अंगूठी कि उंगली मे पहनना चाहिए?*

शिक्षा (तालीम) के नाम पर मुसलमान लड़कियो को बे पर्दा करने का रिवाज बढ़ता जा रहा है।*

एक #खुतबा जुमा के मौके पर खतीब से "परदा खतम कर देने" का ऐलान करवाया गया तो फ़ौरन एक नवजवान औरत ने माइक  के जरिये #बुर्का निकाल देने का एलान किया।*

MRS.ANSARI
A respected muslima ,

Assalam u alaikum
Sawal: Aapi kya Larki apne pasand pe Shadi Kar Sakti hai ya Sirf Ammi Abu ki pasand pe Kar ?
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ پیاری اختی ۔۔۔

فطری اعتبار سے لڑکے لڑکی کا نکاح ہمیشہ پسند سے ہی ہوتا ہے ، اور اسلام نے بھی اس پسند اور نا پسند کا خیال رکھا ہے ، اسلام نے لڑکی کی پسند کا بھی لحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

لَا تُنْکَحُ الْأَيِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْکُتَ (بخاری کتاب النکاح)

ثیبہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ باکرہ کا بغیر اس کی اجازت کے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! باکرہ کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے، فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔

یہ روایت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ عورت کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا نکاح کیا جائے ، لیکن یاد رہے کہ عادتا اور غالب طور پر والدین ہی اپنی بیٹی کے لیے زيادہ مناسب رشتہ تلاش کر سکتے ہیں ، لہٰذا لڑکی کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی اطاعت کرے کیونکہ وہ اس کی مصلحت کو زيادہ جانتے ہیں ۔۔۔۔
مذيد تفسیلات کے لیے یہاں کلیک کرے ۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

مجھے یہ حقیقت کہنے میں کوئی مزاحمت حائل نہیں کہ آپ کی نسوانیت سوشل میڈیا کے مرد حضرات کے لیے ایک مقناطیسی کشش کی حیثیت رکھتی ہے.

Share:

Agar Ladki Deen Dar aur Shariyat ke mutabik Shadi karna Chahati ho magar Ghar wale Razi nahi hai to kya Nikah jayez ho sakta hai?

Kya Koi Ladki Apni Marzi se Shadi kar sakti hai?

Agar Ladki Deen dar ho, Shariyat ke mutabik Zindagi jine wali ho aur Wah Waise hi Deen dar ladke ko Pasand karti hai, usse Shadi karna chahti hai magar uske Ghar wale Razi nahi ho rahe hai to kya Wah Bagair Wali ke Nikah kar sakti hai?
तुम कोई चॉकलेट या आइस क्रीम नही हो जो हर किसी को अपना मिठास देती रहोगी।

किस हाथ मे अंगूठी पहनना चाहिए?
*शादी मे engagement की अंगूठी कि उंगली मे पहनना चाहिए?*

एक #खुतबा जुमा के मौके पर खतीब से "परदा खतम कर देने" का ऐलान करवाया गया तो फ़ौरन एक नवजवान औरत ने माइक  के जरिये #बुर्का निकाल देने का एलान किया।*

शिक्षा (तालीम) के नाम पर मुसलमान लड़कियो को बे पर्दा करने का रिवाज बढ़ता जा रहा है।*

عبدالرحمٰن پاکستانی

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

سسٹر مسز ارشد انصاری العالمہ سے ایک سوال ہے کہ ایک لڑکی شرعی طالبہ ایک لڑکے شرعی طالب علم سے بہت محبت کرتی ہے ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں شرعی حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ ہر غلطی سے محفوظ ہیں ایک بار دیکھنے کے بعد ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے نا بات چیت کرتے ہیں پس ایک دوسرے سے اللہ کی رضا کے لئے محبت کرتے ہیں۔

اب لڑکی کے گھر والے لڑکی کو زبردستی کہیں اور جگہ نکاح طے کروا رہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ لڑکی کی مرضی بلکل بھی نہیں ہے اور لڑکی کی مرضی وہاں کے لئے بلکل بھی نہیں ہے وہ بلکل بھی نہیں مانتی ہے یہاں تک کہ وہ اس وجہ سے اس فکر سے بیمار ہے اور بہت پریشان ہے۔

لیکن گھر والے جبرا کہیں اور کے لئے کہ رہے ہیں اس کو عام لڑکے کے لئے کہ رہے ہیں جبکہ وہ عالمہ ہے اور وہ جس کے ساتھ محبت کرتی ہے وہ عالم ہے اس لڑکی کی بے حد مرضی ہے اس عالم کے لئے اسے اپنا ہمسفر بنانا چاہتی ہے۔

لیکن گھر والے زبردستی کرتے ہیں مسئلہ ابھی چل رہا ہے لڑکی کی بلکل مرضی نہیں ہے غیر عالم کے لئے اب اس سورت حال میں والدین کو کیا کرنا چاہئے وہ والدین جاننے کے باوجود لڑکی کی مرضی کے خلاف کر رہے ہیں حالانکہ لڑکی کی مرضی کے خلاف ۔۔۔۔۔
اب آپ ولی کی شرعی حیثیت اور اس کی زمہ داری اور اس کو کتنا حق ہے کیا ولی لڑکی کے مرضی کے خلاف اسکا نکاح کر سکتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ لڑکی کے قابل نہیں ہے وہ لڑکا نا لڑکی کی مرضی ہے ۔۔۔۔۔۔اس حال میں کہ لڑکی شرعی طالبہ ہے ہم سفر میں اپنا جیسا چاہتی ہے۔

جواب تحریر میں مددل عنایت فرمائیں۔۔۔

لڑکی کی مرضی بلکل بھی نہیں ہے کیوں کہ وہ اس عالم کو ہمسفر بنانا چاہتی ہے۔۔۔۔
جواب مددل ومفصل ۔۔۔
جزاکم اللہ خیراً کثیرا

بِسْـــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَعَلَيــْـــكُم السَّـــــلاَم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــــاتُه

✍ تحریر : مسزانصاری

اسلام میں پسند کی شادی کی ممانعت نہیں ، بلکہ اسلام نے طرفین کے دلوں میں محبت پیدا کرنے کے لیے مرد و عورت کو شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت دی ہے ۔
فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ
جو تمہیں پسند آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار کے ساتھ نکاح کرو،
(سورہ نساء ،آئیت نمبر_3)

لڑکی کے ولی کی بقائمیٔ ہوش و حواس بلاجبر و
اکراہ اجازت و رضا اور لڑکی کی بقائمیٔ ہوش و حواس بلاجبر و اکراہ اجازت و رضا ، تکمیلِ نکاح کے اہم عناصر ہیں ۔

رہی بات پسند کی شادی پر لڑکی کا ولی کے خلاف جانا ، تو اسلام نے عورت پر کسی بھی معاملے میں ظلم نہیں کیا ہے اور نا ہی والدین کو اجازت دی ہے کہ وہ نکاح کے معاملے میں اپنی اولاد کی پسند یا نا پسند کو نظر انداز کر کے مئوجبِ ظلم بنیں ۔ اگر لڑکی کی پسند شرعئی اصولوں سے متصادم ہو اور والدین دینی اور عقلی اعتبار سے معتبر ہوں تو لڑکی کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں کی رائے سے باہر نہ جائے بلکہ ان کی رائے قبول کرلے ، لیکن اگر عورت کے ولی بغیر کسی صحیح سبب کے رشتہ رد کریں یا ان کا رشتہ اختیار کرنے میں معیار ہی غیر شرعی ہو مثلا اگر وہ صاحب دین اور اخلاق والے شخص پر کسی مالدار فاسق کو مقدم کریں ۔

تو بالغ لڑکی اپنے ولی کے بہ نسبت اپنی ذات کے متعلق زیادہ حقدار ہے ، اس صورت میں لڑکی کے لیے جائز‌ ہے کہ وہ اپنا معاملہ شرعی قاضی تک لے جائے تا کہ اسے شادی سے منع کرنے والے ولی کی ولایت ختم کرکے کسی اور کو ولی بنایا جائے ۔

یہ فطری بات ہے کہ انسان اپنی ہر چیز کو پسند کر کے ہر طرح سے جانچ کر لیتا ہے ، جوتے سے لے کر لباس تک میں اسکی پسند کا بہت دخل ہوتا ہے ، آپ ایک وقت کا ناپسندیدہ کھانا خوش ہو کر نہیں کھا سکتے تو اگر ساری زندگی آپ کو وہ کھانا اور ضروریاتِ زندگی میں شامل ا شیاء آپکی پسند کے بر خلاف دے دی جائیں تو ایمانداری سے بتائیے کہ آپکی زندگی جو آپ کے رب نے ایک ہی بار دی عذاب نہیں بن جائے گی ؟؟؟

اسی انسانی فطرت کو اللہ تعالیٰ کے کامل دین نے بھی اہمیت دی اور مرد و عورت کی پسند کو ایجاب و قبول کے لیے ناگزیر قرار دیا ، اور اسی فطرت کی وجہ سے اللہ نے مردوں کو نکاح کے لیے فرمان ہی یہ نازل کیا کہ

فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ
جو تمہیں پسند آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار کے ساتھ نکاح کرو،

اور یاد رکھیے کہ فطرت میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر انسان اپنی پسندیدہ چیز کو بار بار دیکھنا ،کھانا پسند کرتا ہے اور نا پسندیدہ چیز وہ انسان ہو یا کھانا اسے بار بار دیکھنا، کھانا پسند نہیں کرتا ۔
جب کسی عورت یا مرد کی شادی اس فطرت کے مطابق ناپسند کی ہوگی تو انکی ساری زندگی کا اندازہ لگائیے کہ کس کرب و بلا سے معمور ہوگی ۔ اور اس کرب و بلا کے ایک ایک لمحے کا وبال ان والدین کی گردنوں پر ہوگا جنہوں نے اپنی اولاد کی جائز پسند کو بڑی بے رحمی سے اپنی پسند اور مرضی کے فیصلوں سے روند ڈالا ، ایسے والدین اللہ تعالیٰ کے دربار میں اللہ تعالیٰ کی سخت باز پرس کے لیے تیار رہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں،
جمیلہ بنت سلول رضی اللہ عنہا،
نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
آ کر عرض کیا:
اللہ کی قسم میں ( اپنے شوہر ) ثابت پر کسی دینی و اخلاقی خرابی سے غصہ نہیں کر رہی ہوں، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر ( شوہر کی ناشکری ) کو ناپسند کرتی ہوں، میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی کیونکہ شکل و صورت سے وہ مجھے ناپسند ہیں،
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا ان کا دیا ہوا (حق مہر) باغ واپس لوٹا دو گی ؟ انہوں نے کہا: ہاں میں لوٹا دوں گی،( بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اس سے بھی زیادہ لوٹا دوں گی،)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو حکم دیا کہ اپنی بیوی جمیلہ سے اپنا باغ لے لیں، اور زیادہ نہ لیں (اور اسے آزاد کر دیں)
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر_2056)
حکم الحدیث صحیح

درج بالا حدیث میں یہ بات ثابت ہے کہ صحابیہ کو انکا شوہر پسند نہیں تھا، وہ انکے ساتھ رہ کر انکو خوش نہیں رکھ سکتی تھیں، کیا صحابیات اور صحابہ کرام سے بڑھ کوئی نیک ہو گا؟

مگر غور کریں، وہ کوشش کے باوجود بھی اپنے شوہر کو خوش نہیں رکھ سکیں، ان سے محبت نہیں کر سکیں،
اور وہ نہیں چاہتی تھیں کہ یہ عمل مجھے شوہر کا نافرمان بنا دے اور پھر اللہ بھی ناراض ہو،
اب اگر نکاح کے وقت ان سے پوچھا جاتا تو یہ طلاق لینے کی نوبت نا آتی،
دین داری ، سمجھ بوجھ اپنی جگہ، مگر پسند نا پسند اپنی جگہ ۔

بلا شبہ شادی کے معاملے میں اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی اطاعت کرے ، والدین کی اطاعت کا حکم ہمارے رب نے حقوق اللہ کے فورًا بعد حقوق العباد میں سرِ فہرست رکھا ہے ، کیونکہ وہ اس کی مصلحت کو زيادہ جانتے ہیں ، وہ صرف یہ چاہتے ہيں کہ ہماری بیٹی یا ہمارا بیٹا اپنے زوج کے ساتھ آسودہ اور سعادت کی زندگی بسر کرے جو اس کی حرمت کا خیال رکھے اور اس کے حقوق کی بھی پاسداری کرنے والا ہو ۔

اللہ تعالیٰ نے ولایت کا بار اسی لیے قریب کے رشتہ داروں پر ڈالا کیونکہ قریب کے رشتہ داروں میں لڑکی کے لیے بہ نسبت دور کے رشتہ داروں کے زیادہ محبت ہوتی ہے ، جو سرپرست رشتہ کے اعتبار سے جتنا قریب ترین ہوگا اتنا ہی اس کے دل میں اپنے زیر سرپرست کے لیے شفقت و ہمدردی زیادہ ہوگی اور وہ اس کے مفادات کا اتنا ہی زیادہ دلجمعئی سے تحفظ کرے گا ۔
یہی وجہ ہے کہ باپ کو اس معاملہ میں اولیت حاصل ہے کیونکہ باپ کے دل میں موجزن بیٹی کی محبت کے سمندر کی گہرائی اور وسعت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔

یہاں ایک بڑا افسوسناک پہلو میں بیان کروں گی کہ ایک لڑکی کا والد یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ میری بیٹی میری ولایت کی عدم موجودگی میں نکاح نہیں کر سکتی ۔ اللہ تعالیٰ کے دیے گئے اس حق پر وہ باپ جو شریعت کا وفادار ہے ، اللہ تعالیٰ کی جہنم سے ڈرتا ہے ، اور ڈرتا ہے اس بات سے کہ اگر میں نے زمین پر عدل نہیں کیا تو جس روز آسمان پر اللہ تعالیٰ اپنی عدالت لگائے گا اس روز میرا جرم میری ہلاکت کا باعث بنے گا ، تو ایسا باپ اپنی بیٹی کی جائز پسند پر اپنی جائز پسند کو قربان کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتا ، مگر وہ باپ جس پر بیٹی کی شرعًا درست پسند پر انا سوار ہوجائے اور اسکی پدرانہ شفقت پر اس کا آمرانہ روپ غالب آجائے تو وہ سخت خسارے میں ہے :

إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض‘‘

"جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد برپا ہو گا"

- سنن ترمذی (ابواب النکاح،بَابُ مَا جَاءَ إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ فَزَوِّجُوهُ،نمبر ،امام ۱۰۸۵)

امام البانی رحمہ اللہ نے اس کو حسن لغیرہ کہا ہے ۔

صحابیات سے پسند کی شادی ثابت ہے

ہم سائل عبدالرحمٰن پاکستان کے سوال میں مذکورہ سائلہ کے والدین کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تو آپ کی بیٹی اپنے شریکِ حیات کے انتخاب میں شرعئی اصولوں پر پوری اترتی ہے اور آپ اپنی لختِ جگر پر اسکی نا پسند کو مسلط کرنے میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اسکے ان آنسووں سے چشم پوشی کر رہے ہیں جو اسکی آنکھوں سے نکل کر بتقاضہ فرمانبرداری اور اطاعتِ والدین باہر نہیں بلکہ اسکے دل میں گر کر اسے آزردہ اور زود رنج کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے ڈر جائیے ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ولایت کا حق ضرور دیا ہے لیکن آپ کو ولی بنا کر اللہ تعالیٰ آپکی بچی کی اعانت سے دستبردار نہیں ہوا ہے ، جب آپ اپنی لختِ جگر کے لیے مہر و وفا ، پدرانہ شفقت کے جذبات اور ولایت کے شرعئی تقاضوں سے عاری ہوجائیں گے تو دراصل آپ اپنی بچی کے مفاد کی محافظت کے فریضے سے دستبردار ہو رہے ہیں ۔

آپ کو شریعت نے حقِ ولایت ضرور دیا ہے لیکن اسکی حدود بیان کر دی گئی ہیں ، ان حدود کے مطابق آپکو اتنے کھلے اختیارات نہیں دئیے گئے کہ آپ جہاں چا ہے اپنی بچی کا نکاح کر دیں ، اور نہ ہی آپ کی بچی کو شریعت کھلی آزادی دیتی ہے کہ وہ جہاں چاہے والدین کی مرضی کے بغیر نکاح کرے ، بلکہ شریعت کی بہترین تعلیمات ایک دوسرے کے جذبات کا احترا م کرتے ہوئے ہمدردی اور شفقت کی فضا میں نکاح کے فریضے کی انجام دہی کی طرف رغبت دلاتی ہیں ۔

یاد رکھیے کہ جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس سے اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نےکسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں ، اعتبار تو دین اور اخلاق کا ہے ۔

اے بچی کے ولی ! آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے متعلق علم ہونا چاہیے :
دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ۔

سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

آپ کو ہم آپکی انا اور ضد کے برخلاف عدل اور شریعت کی پاسداری کی نصیحت کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا اور نا ہی اپنے بندوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی دوسرے بندے پر ناجائز حاکمیت مسلط کر کے ظلم کے مرتکب بنیں ۔

ہم آپ کے شفقتِ پدرانہ کے سمندر میں آپکی آغوشِ محبت میں پل بڑھ کر بالغ ہونے والی بچی کے لیے جنبش پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ للہ اپنی معصوم بچی پر جو آپکی کمزور رعایا میں سے ہے ظلم نا کیجیے ، باپ اپنی بچی کے لیے ہر مصیبت کی گھڑی میں وہ واحد پناہ گاہ ہوتا ہے جہاں پہنچ کر بچی تمام فکرات اور خوف سے آزاد ہو جاتی ہے ، اس پناہ گاہ سے اپنی بچی کا اعتماد نا اٹھنے دیجیے ، آپکی بچی آپ کو اپنے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتی ہے ، اسکے دل کی گہرائیوں میں جھانکیے تو آپ کو ایک چھوٹی سی سلطنت نظر آئے گی جس کے مسند پر آپ اور اسکی ماں بادشاہ اور ملکہ کی طرح براجمان ہیں ، اپنی بچی کی اس محبت کی سلطنت کو نفرتوں کی آندھیوں سے برباد نا کیجیے ۔

ہم نے بے شمار ہنستے بستے گھروں کو اجڑتے دیکھا ہے جہاں باپ کے آمرانہ فیصلوں سے بچیاں زندہ درگور ہوئیں تب باپ کے سینے میں موجزن محبت کے سمندر کا سکوت اس طرح ٹوٹا کہ باپ بھی خوش نا رہ سکا ، دل کے دورے سے گزر گیا یا مجسمہ رنج و الم بن گیا ۔
آپ کو ہماری التجا ہے کہ للہ اللہ تعالیٰ کے قانون سے نا ٹکرائیے اور شیطان کے ہاتھوں کا کھلونا نا بنیے جو آپکے گھر کو ماتم کدہ بنانے کے تانے بانے بُن رہا ہے ۔

اگر تو طرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اور محبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا تو محبت کی شادی جائز ہے ، امید کی جاسکتی ہے کہ آپکی بچی کی ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگی ، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائي ہے ۔اپنی بچی کی پسند کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھیے اور اپنی بچی کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیجیے تاکہ اس معصوم کلی پر بہار کی خوشگوار ہوائیں اسے یقین دلائیں کہ تیرے باپ کے لیے تیری خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ، اسے یقین دلائیے کہ اے میری بچی تیری جوانی تک کے سفر میں تجھے دھوپ کی تمازت اور طوفانوں کے جھکڑوں سے بکھرنے نہیں دیا تھا تو آج بھی تیری معصوم خواہش کو اپنی انا کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا ۔

اے بچی کے ولی !! آپ کو اللہ تعالیٰ نے آپکے گھر کی حاکمیت عطا فرمائی ، یاد رکھیے اللہ تعالیٰ ہر حاکم سے باز پرس فرمائے گا ، اپنی رعایا پر جانے انجانے میں ظلم نا کیجیے ، صورتِ مسئولہ میں لڑکی حق بجانب ہے ، اگر آپ نے اسکے حق کو تسلیم نہیں کیا اور ازروئے شریعت فیصلہ نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ سننے والا دیکھنے والا اور مخفی و اعلانیہ باتوں کو جاننے والا ہے ۔

ALQURAN O HADITHS♥ ➤WITH MRS.ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
نسأل اللہ العافیۃ والسلامۃ
ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم
وَالسَّـــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

مجھے یہ حقیقت کہنے میں کوئی مزاحمت حائل نہیں کہ آپ کی نسوانیت سوشل میڈیا کے مرد حضرات کے لیے ایک مقناطیسی کشش کی حیثیت رکھتی ہے

Share:

Shadi ke ek Din Pahle Khana khilane ko Walima kah sakte hai, Kya Nikah se Pahle walima ho sakta hai?

Kya Shadi se Pahle walima ho sakta hai?
Aisa dekha jata hai ke log Ladka ya Ladki ki Shadi ke ek Din Pahle Logo ko khane ki Dawat dete hai, aiese me kya yah walime me Shumar hoga? Bahut jagah ke Musalman Shadi se ek pahle khana khilane ki Rasm ko "Mehndi wale din ki roti", " Mel ki Roti" ,  India me "Matkor" Kahte hai iski Islam me haisiyat hai aur Kya yah walima Me Shumar hoga?

کیا شادی سے پہلے ولیمہ ہو سکتا ہے۔ چند سال پہلے میں نے دیہاتوں میں چند ایسی شادیوں میں شرکت کی تھی جوکہ بارات کے دن سے ایک دن پہلے جب مہمان اکٹھے ہوتے ہیں تو انکو جو کھانا کھلایا جاتا ہے اُسی کو ولیمہ کی روٹی کہتے ہیں ۔ چونکہ وہ غریب لوگ تھے اس لئے کفایت شعاری کے لئے ایسا کرتے تھے۔
ہم لوگ اس کھانے کو میل کی روٹی کہتے ہیں ۔ جبکہ آج کل اسکو مہندی والے دن کی روٹی کہتے ہیں۔

السلام علیکم ورحمةاللہ ۔۔۔

نکاح سے پہلے ولیمہ مسنون یا مشروع نہیں ہے ۔

لغت میں ولیمے کا معنی اجتماعیت ہے ، یعنی میاں بیوی کا جمع ہونا ، اس لحاظ سے اہل علم کی آراء کے مطابق ولیمہ کے تین اوقات ہیں
- نکاح کے بعد ، یعنی ولیمے کےاہتمام میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ نکاح کا اعلان عام ہو۔
- دلہن کی رخصتی سے پہلے
- دلہن کی رخصتی کے بعد جب کہ ازدواجی تعلق قائم ہوچکا ہو.

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Shadi kis se kare, Nikah kab karni chahiye, Kya Nikah karne se Gareebi Khatam ho jati hai?

Kya Shadi karne se Garibi door ho jati hai?

Sawal: Nikah karne se tangdasti kaise door hoti hai? Ek Hadees me hai ke agar kisi ko Nikah ki istaa'at ho to wah Shadi kar le, iska matlab yah hai ke Gareeb aadami jiske pas Istaa'at nahi hai to wah Shadi na kare? Kya Allah ke Nabi ne ek Shakhs se farmaya ke Nikah kar lo Gareebi door ho jayegi?

Kya Is Actress ko Tarakki nahi karna hai jo Filmi duniya chhod Allah ka hukm manne lagi hai?

Mai Mardo se Nafrat karti hoo isliye kabhi Shadi nahi karungi.

Nikah karne ki asal wazah, Shadi karne ka sahi tarika.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-289"

سوال_نکاح کرنے سے تنگدستی کیسے دور ہوتی ہے؟ اور ایک حدیث میں ہے کہ (جس کے پاس نکاح کی استطاعت ہو تو وہ شادی کر لے) تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ غریب آدمی جسکے پاس استطاعت نہیں تو وہ شادی نا کرے؟ نیز کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا کہ نکاح کرو تنگدستی ختم ہو جائے گی؟

Published Date: 28-9-2019

جواب:
الحمدللہ:

*پہلی بات تو یہ جان لیجئے کہ نکاح بھی ان اسباب میں سے ایک ہے جن سے فقر و تنگدستی دور ہوتی ہے*

📚اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ)
(سورہ النور آئیت_32 )
ترجمہ:
اور تم میں سے جو لوگ مجرد ( بغیر شوہر یا بیوی کے) ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا علم والا ہے۔ ٌ

تفسیر :
اس آیہ مبارکہ میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی محض بیواؤں کے نہیں ہیں بلکہ ان مردوں اور عورتوں کے ہیں جو مجرد ہوں یعنی وہ مرد جن کی بیویاں نہ ہوں اور وہ عورتیں جن کے شوہر نہ ہوں:

اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ :

عام طور پر غربت کو مرد کے نکاح کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے کہ جب اس کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو بیوی کو کہاں سے کھلائے گا، اس لیے غریب کو کوئی رشتہ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس خیال کی تردید کی اور فرمایا کہ تم مجرد لوگوں کا نکاح کر دو ، اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں غنی کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پاس غیب سے غنی کردینے کا اختیار ہے،
یعنی نکاح کے معاملہ میں تنگ دستی مانع نہیں ہونی چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے اس مبارک کام کو انجام دینا چاہیے۔

جو شخص اللہ کے حکم کی تعمیل کرے گا اللہ اسے ضرور اپنے فضل سے نوازے گا،

اور اسباب کے لحاظ سے بھی بیوی آنے کے بعد وہ کمائی کے لیے زیادہ جدو جہد کرے گا، یعنی یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی کے بعد کتنے ہی غریبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور کتنے ہی لوگ خوشحال ہو گے ہیں۔

 بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری طرح محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا۔

کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلہ میں اس کی ممد و معاون بن جاتی ہے۔ کبھی بیوی کے کنبہ والے اس سلسلہ میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کبھی مرد کے لئے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں۔ جس کا اسے پہلے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا گویا پیدا ہونے والے بچے اپنا رزق اپنے ساتھ لاتے ہیں جس کا ذریعہ ان کا والد بنتا ہے۔

اور پھر کھانا تو پہلے وہ خود بھی کھاتا ہے، اگر مزید کمائی نہ بھی کرے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق، ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔

📚 چنانچہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں: 
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، 

۲- جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کو کفایت کر جائے گا، دو آدمی کا کھانا چار آدمیوں کو کفایت کر جائے گا اور چار آدمی کا کھانا آٹھ آدمیوں کو کفایت کر جائے گا“، 
۳- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1820)
تخریج الحدیث:
(صحیح البخاری حدیث نمبر_5392)
(صحیح مسلم/الأشربة_2058)،
(مسند احمد (2/407) (صحیح)

پہلے یہ اکیلا کمائی کرتا تھا، بیوی آنے کے بعد اس کی کمائی کی استعداد دو گنا ہی نہیں بلکہ مشہور عام قول کے مطابق گیارہ گنا ہوجائے گی۔ بیوی اس کا ہاتھ بٹائے گی، ہوسکتا ہے کہ بیوی کو اللہ تعالیٰ نے کوئی ہنر عطا کر رکھا ہو، یا وہ بہتر مشورے دے کر خاوند کی بہترین مشیر ثابت ہو، یا بیوی کے رشتہ داروں کے تعاون سے حالت بدل جائے۔ علاوہ ازیں اولاد ہونے کے بعد عین ممکن ہے کہ وہ اتنی کمائی کریں کہ پورا کنبہ ہی اغنیاء میں شامل ہوجائے،

📒امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک حدیث پر عنوان لکھتے ہوئے کہا ہے:
"باب ہے تنگ دست کی شادی کے متعلق؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ)
اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔"

📒حافظ ابن حجر اس کے تحت لکھتے ہیں کہ: "(إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔
یہ در حقیقت عنوان کا سبب اور علت ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اگر ابھی فی الوقت مال میسر نہیں ہے تو یہ شادی کے لیے مانع نہیں؛ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ بعد میں انہیں دولت مل جائے" ختم شد

📚علی بن ابو طلحہ  اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "اللہ تعالی نے جوانوں کو  شادی کی ترغیب دلائی  اور آزاد و غلام سب کو شادی کا حکم دیا اور پھر شادی پر انہیں دولت مند کرنے کا وعدہ بھی دیا، اور فرمایا: (إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا ۔"

ایسے ہی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "نکاح کے ذریعے دولت تلاش کرو"
("تفسیر ابن كثیر"(6 /51)

📚اس بارے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں غیر شادی شدہ نیک اور صالح مرد و خواتین  کی شادی کرنے کا حکم دیا ہے، اور پھر یہ خبر دی ہے  جبکہ اللہ کی خبریں سچی ہوتی ہیں کہ شادی غریب لوگوں پر اللہ کے فضل کا باعث ہے، اللہ تعالی نے خبر اس لیے دی ہے  کہ خاوند اور لڑکی کے سرپرست  مطمئن رہیں کہ غربت کی وجہ سے شادی نہیں روکنی چاہیے، بلکہ یہ تو رزق اور تونگری کے اسباب میں سے ہے۔" ختم شد
"فتاوى إسلامية" (3 /213)

اس کے برعکس اگر کسی غنی کو لڑکی دے گا تو ہوسکتا ہے کسی آزمائش میں وہ فقیر ہوجائے۔

📚 اللہ نے فرمایا :
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ _ تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۡ وَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ ۡ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
[سورہ  آل عمران : آئیت26٫27 ]
ترجمہ:
” کہہ دے اے اللہ ! بادشاہی کے مالک ! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور تو دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور تو مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور تو جسے چاہے کسی حساب کے بغیر رزق دیتا ہے۔ “

یہ سب کچھ عام مشاہدے میں آتا رہتا ہے، دولت دھوپ چھاؤں کی طرح آج یہاں ہے تو کل وہاں، بلکہ دولت کا معنی ہی گھومنا ہے، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحابی کا نکاح بھی کر دیا تھا جس کے پاس ایک چادر کے سوا کچھ نہیں تھا، حتیٰ کہ لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی۔

📚حدیث میں آتا ہے کہ،

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: "اللہ کے رسول! میں اپنے آپ کو  آپ کے حوالے کرنے آئی ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی جانب اوپر سے نیچے دیکھا  پھر اپنا سر جھکا دیا، تو جب خاتون نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر صحابہ کرام میں سے ایک آدمی اٹھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس میں چاہت نہیں ہے تو پھر میری شادی اس سے کر دیجیے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارے پاس [حق مہر کے لیے ]کچھ ہے؟)  تو اس نے کہا: "نہیں اللہ کے رسول میرے پاس کچھ نہیں ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ گھر جا کر دیکھو کوئی چیز مل جائے) تو وہ آدمی چلا گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا: "نہیں اللہ کے رسول! مجھے کچھ نہیں ملا" آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ جا کر دیکھو چاہے کوئی لوہے کی انگوٹھی ہی ہو) تو وہ آدمی پھر جا کر واپس آ گیا اور کہنے لگا: " نہیں اللہ کے رسول! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، البتہ میری یہ لنگی ہے-حدیث کے راوی سہل کہتے ہیں ان کے پاس اوپر والی چادر نہیں تھی اور انہوں نے کہا اس میں سے آدھی اسے دیے دیتا ہوں" تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اپنی لنگی سے کیا کرو گے، اگر تم پہنو گے تو اس کے تن پر کچھ نہیں ہوگا اور اگر  وہ پہنے گی تو تمہارے تن پر کچھ نہیں ہو گا) یہ سن کر آدمی کافی دیر تک بیٹھا رہا ، پھر وہ کھڑا ہوا  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دیکھا کہ وہ جا رہا ہے  تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلانے کا حکم دیا ، جب وہ  قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارے پاس قرآن کتنا  ہے؟) تو وہ شخص سورتیں گنوانے لگا کہ فلاں فلاں سورتیں ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا یہ تمام سورتیں زبانی  پڑھتے ہو؟) تو اس نے کہا: جی ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس سے تمہیں یاد قرآن کے بدلے میں کر دیا ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5030)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خیال ہی نہیں فرمایا کہ یہ بیوی کو کھانا کہاں سے کھلائے گا کہ جسکے پاس چادر یا لوہے کی انگوٹھی تک ہی نہیں۔۔۔۔ اس لیے اہل علم نے دولت مند بننے کے اسباب میں سے نکاح کو بھی ایک سبب قرار دیا ہے،

مگر موجودہ دور کے نوجوانوں کا حال بھی عجیب ہے جو جدید تہذیب کے زیر اثر ازدواج کی ذمہ داریوں سے کتراتے رہتے ہیں۔

پچیس سال کی عمر تک تو وہ حصول تعلیم میں مشغول رہتے ہیں اس کے بعد پانچ سال معاشی جدوجہد میں اس طرح صرف کرتے ہیں کہ ان کا معیار زندگی قائم ہوجائے اور اتنا پیسہ  ہو کہ وہ ٹھاٹ باٹ سے شادی کر سکیں۔

اس طرح ان کی جوانی کنوارے پن میں گزرتی ہے اور آدھی عمر کے بعد وہ رشتہ تلاش کرتے ہیں۔

تہذیب جدید نے ایک طرف نا بالغوں کو بالغ بنا دینے والا ہیجان انگیز ماحول بنایا ہے اور دوسری طرف شادی کی ذمہ داریوں سے کترانے کا رجحان پیدا کردیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ بیشتر نوجوان بری طرح جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں کو رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی شادی کی عمریں ضائع ہو رہی ہیں اور زیادہ عمر کی وجہ سے رشتے ہوتے نہیں اور ہو جائیں تو اولاد نہیں ہوتی اور پھر سے طلاق وغیرہ کے مسائل شروع ہو جاتے ہیں، یہ صورتِ حال اصلاح طلب ہے اور قرآن کی ہدایت پر عمل کی متقاضی ہے،

اور یاد رہے کہ اللہ بڑی وسعت والا ہے اس لیے اس سے امید رکھو کہ وہ رزق میں کشائش اور فراخی پیدا کرے گا۔ وہ علم والا ہے اس لیے وہ جانتا ہے کہ کون عفت کی زندگی چاہتا ہے اور تنگ دست ہونے کے باوجود ازدواج کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گا،

📚اور رسول مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :
(ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمْ : الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ)
ترجمہ :
تین آدمیوں کی مدد اللہ کے ذمہ ہے ،
(1) مجاہد فی سبیل اللہ
(2)وہ غلام جس نے اپنے آقا سے آزادی کیلئے معاہدہ کر رکھا ہو ،
(3 ) اور وہ شادی کرنے والا جس کا نکاح کرنے کا مقصد پاکدامنی ہو "
(سنن ترمذي حدیث نمبر_1655)
(وصححه ابن العربي في "عارضة الأحوذي" (5/3) ، وحسنه الألباني في "صحيح الترمذي"

_______&________

*لہذا تمام نوجوانوں کو چاہیے کہ پاکدامنی کی نیت سے جلد سے جلد نکاح کریں،اور بلاوجہ نکاح میں تاخیر نا کریں، کیونکہ جوانی میں تنہا رہنے سے گناہ میں پڑنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے اور جو کسی جائز عذر جیسے رشتہ وغیرہ نا ملنے یا شادی وغیرہ کے لیے معقول خرچ بھی نا ہونے کی وجہ سے نکاح نا کر سکے اسے چاہیے کہ تب تک کثرت سے نفلی روزے رکھے*

📚چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی،
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لیے فرمایا،
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ ، مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ ،
کہ اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کی استطاعت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی استطاعت نا رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5066)

وجاء کا معنی فحاشی سے بچاؤ ہے ،

علماء کرام رحمہ اللہ تعالی کے " الباءۃ " معنی میں دو قول ہیں :

کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اس سے نکاح کرنے کی قدرت اورخرچہ مراد ہے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ : اس سے جسمانی طاقت مراد ہے کہ اس میں جماع کرنے کی طاقت ہونی چاہیے ۔

توان دونوں معانی میں سے کوئ ایک دوسرے کے منافی نہیں ، تواس حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ جونوجوان بھی جماع کی قدرت اورنکاح کا خرچہ رکھتا ہے وہ شادی کرے ۔

📒امام نووی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
علماء کرام باءۃ کے معنی میں دو قول ذکر کرتے ہیں ، جوکہ ایک ہی معنی پرلوٹتے ہیں ان میں صحیح یہ ہے کہ : اس سے لغوی معنی یعنی جماع مراد ہے ، تواس طرح حدیث کا معنی یہ ہے ہوگا : تم میں سے جوبھی نکاح کے لوازمات کی قدرت سے جماع کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کرے ، اورجومالی طاقت سے عاجزہو وہ روزے رکھے تاکہ اپنی شہوت کنٹرول اور منی کے شرکوختم کرسکے جس طرح کہ ڈھال بچاؤ کرتی ہے ۔ ا ھـ
( شرح مسلم ( 9 / 173 )

📒اور ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
باءۃ کی تفسیر وطئ بھی کی گئ ہے اورمئونہ نکاح بھی ، توپہلی تفسیر منافی نہیں اس لیے کہ اس کا معنی باءۃ کے لوازمات ہیں ۔
دیکھیں : روضۃ المحبین ص ( 219 )

📒اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
استطاعت نکاح ہی قدرت مئونہ ہے نہ کہ قدرت وطئ کیونکہ حدیث میں خطاب ہی اسے ہے جووطئ کے فعل پرقادر ہو ، اور اس لیے ہی جویہ استطاعت نہیں رکھتا اسے روزے کا حکم دیا گيا ہے کیونکہ یہ اس کے لیے بچا‎ؤ ہے ۔ ا ھـ
(الفتاوی الکبری ( 3 / 134 )

📒شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
للہ یہ دونوں حدیثیں آپس میں متناقض نہیں ہیں، بلکہ ہر حدیث اپنے خاص سیاق اور تناظر میں آئی ہے؛ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ  کی حدیث تمام نوجوانوں اور دیگر شادی کی رغبت رکھنے والوں کے کیلیے عمومی خطاب ہے  اور اس خطاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شادی کے لیے اخراجات کی استطاعت لازمی ہیں تا کہ خاوند اپنے کندھوں پر نفقہ، لباس اور رہائش کی صورت میں پڑنے والی ذمہ داری کو اچھے انداز سے نبھا سکے۔

حدیث کے عربی الفاظ میں لفظ: "الباءة" سے مراد شادی کی ضروریات ہیں، تو صاحب شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اصول کو بیان کیا ہے کہ شادی محض ایک  بندھن نہیں ہے کہ حلال طریقے سے اپنی شہوت پوری کی جائے اور بس ، بلکہ شادی ایک ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کا بوجھ  مردوں کی عورتوں پر سرپرستی کی صورت میں ہوتا ہے۔
"نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص نکاح کرنے سے عاجز ہو تو وہ روزے رکھے؛ کیونکہ روزہ  شہوت کم کر دیتا ہے اور شیطان  کی چالوں کو کم کرتا ہے، لہذا روزہ بھی عفت اور آنکھیں جھکا کر رکھنے کے اسباب میں شامل ہے"
مجموع فتاوى ابن باز" (3 /329)

📒دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"شادی کے اخراجات اٹھانے اور ازدواجی حقوق ادا کرنے کی استطاعت رکھنے والے شخص کے لیے فوری شادی کرنا سنت ہے " انتہی
("فتاوى اللجنة الدائمة" (18 /6)

📒سعودی فتاویٰ کمیٹی ایک جگہ پر اوپر ذکر کردہ احادیث کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ:
اور شادی کی استطاعت رکھنے والے شخص کو شادی کی ترغیب دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ استطاعت نہ رکھنے والے کو شادی سے منع کر دیا گیا ہے، اور عدم ممانعت اس وقت مزید پختہ ہو گی جب غریب شخص کا برائی میں پڑنے کا خدشہ ہو۔پھر شادی کی استطاعت نہ رکھنے والے شخص کو روزوں کا مشورہ اس لئے ہے  تا کہ اس کی شہوت ٹوٹ جائے اور اس میں ٹھہراؤ آئے ، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ شادی کے لیے کوشش نہ کرے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ اسے شادی کے لیے تعاون کرنے والا مل جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے کوئی ایسا شخص مل جائے اس کی دینداری اور صلاحیتوں کا معترف ہو جائے تو یہ سب امور انفرادی معاملات ہیں جو کہ حالات اور رسم و رواج کے اعتبار سے الگ الگ ہو سکتے ہیں۔جبکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں ایک عمومی حکم ہے، نیز شادی کی استطاعت نہ رکھنے والے لوگوں کو روزوں کے ذریعے تحفظ دینے کی بات کی  گئی ہے۔لہذا اگر کسی شخص کو شادی کے اسباب مہیا ہو جائیں تو اس کے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ شادی کی ترغیب دلائی جائے گی اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب فرمایا: (اور جو استطاعت نہ رکھے) تو یہ نہیں کہا کہ وہ شادی نہ کرے، بلکہ فرمایا: (تو وہ روزوں کی پابندی کرے) تا کہ گناہ میں ملوث نہ ہو جائے۔لیکن اگر شادی کی استطاعت ہو چاہے اس کیلیے اسے کچھ تکلیف اور مشقت اٹھانی پڑے تو اس میں بلا شک و شبہ کوئی حرج نہیں ہے،کیونکہ روزوں کا مشورہ اس وقت دیا گیا ہے جب استطاعت نہ ہو لیکن اگر استطاعت تو ہے لیکن تھوڑی سی مشقت برداشت کرنی پڑے گی تو شادی کرنا زیادہ بہتر ہے،

(https://islamqa.info/ur/answers/181556/)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*غربت دور کرنے کے لیے شادی  کرنے کے حوالے سے چند مشہور ضعیف روایات کی حقیقت*

جو حدیث اوپر  سوال میں پوچھی گئی ہے وہ تاریخ بغداد میں درج ذیل الفاظ سے مروی ہے :

🚫( أخبرنا محمد بن الحسين القطان، قال: حدثنا عبد الباقي بن قانع، قال: حدثنا محمد بن أحمد بن نصر الترمذي، قال: حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا سعيد بن محمد مولى بني هاشم، قال: حدثنا محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو إليه الفاقة، فأمره أن يتزوج " 
یعنی سیدنا جابر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا ،اور اس نے اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کی ،تو آپ نے اسے شادی کرنے کا حکم دیا "

🚫تو واضح رہے کہ یہ روایت انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ،کیونکہ اس کا راوی " سعید بن محمد " ناکارہ راوی ہے

🚫علامہ الذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
قال أبو حاتم: ليس حديثه بشئ.
وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج به.
آگے انہوں اس کی یہی مذکورہ حدیث نقل فرمائی ہے،

______&_______

📚اسی طرح حافظ ابن کثیر (رح) نے فرمایا : ” بعض لوگ ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” فقیری میں بھی نکاح کیا کرو، اللہ تمہیں غنی کر دے گا۔ “

🚫میری نگاہ سے تو یہ روایت نہیں گزری، نہ کسی قوی سند سے، نہ ضعیف سند سے اور نہ ہمیں اس مضمون کے لیے ایسی بےاصل روایت کی کوئی ضرورت ہے، کیونکہ قرآن کی یہ آیت اور (لوہے کی انگوٹھی تک نہ رکھنے والے سے نکاح والی) حدیث اس کے لیے کافی ہے۔ (وللہ الحمد) “
(سورہ النور آئیت_32/تفسیر ابن کثیر)

_____&_____

📚ایسی ہی ایک روایت عام مشہور ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فقر کی شکایت لے کر آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نکاح کرلو۔ “ اس نے نکاح کرلیا مگر غربت بدستور مسلط رہی، وہ پھر شکایت لے کر آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر نکاح کا حکم دیا۔ اس نے دوسرا نکاح کرلیا، پھر بھی وہی حال رہا تو وہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر نکاح کا حکم دیا۔ تیسرے نکاح پر بھی غربت دور نہ ہوئی تو اس نے پھر آ کر شکایت کی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوتھے نکاح کا حکم دیا، اس نے اس پر عمل کیا تو اس کی غربت دور ہوگئی۔،

🚫 یہ روایت بہت تلاش کی مگر کسی معتبر کتاب میں نہیں ملی اور نہ یہ روایت نقل کرنے والے کسی صاحب نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ ایسی باتوں کا بےسروپا ہونا خود اس کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے فقیر کو یکے بعد دیگرے چار بیویاں ملتے چلے جانے کی کوئی مثال مشکل ہی سے ملے گی، لہذا اس روایت کی بھی کوئی حقیقت نہیں،
_________&__________

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS