Kya Aurat Masjid me Namaj padhne ja sakti hai?
Namaj ke Dauran Khawateen chehre ke alawa kin hisso ki Parda karegi?
Ghar me Agar Na mehram ho to Aurat kaise Namaj Padhegi?
Shariyat ki raushani se Aurat ka Ghar ki Namaj me Chehare ka Parda.
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه
شریعت کی رُو سے عورت کا گھر کی نماز میں چہرے کا ستر
۔┄┅════════════════┅┄
🖋: مسز انصاری
صحیح احادیث کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ نے عورت کی خیر و عافیت اور عفت و عصمت کی حفاظت اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے مساجد کے مقابلہ میں گھر میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا ۔ اور گھر میں نماز کے لیے بھی عورت گھر کا پوشیدہ حصہ یا اندرونی کوٹھری کو ترجیح دے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صلاةُ المرأةِ في بيتِها أفضلُ من صلاتِها في حجرتِها وصلاتُها في مَخدعِها أفضلُ من صلاتِها في بيتِها
(صحيح أبي داود : ۵٧٠)
عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے ( اندرونی ) کوٹھری میں زیادہ افضل ہے ۔
گھر میں نماز ادا کرنا عورت کو نماز کا وہی اجر وثواب دے گا جو وہ کسی مسجد میں باجماعت ادا کرے ۔ یاد رہے مسجد میں باجماعت نماز ادا نا کرنے سے عورت اس فضیلت سے محروم نہیں ہوتی جو فضیلت مردوں کو باجماعت نماز کی ادائیگی سے حاصل ہوتی ہے سوائے دو مساجد مسجد حرام یا مسجد نبویﷺ کے ، اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: ما صلّت المرأۃ فی مکان خیر لھا من بیتھا الّا أن تکون المسجد الحرام أو مسجد النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم الّا امرأۃ تخرج فی منقلیھا یعنی خفّیھا۔
‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، عورت کے لیے نماز کی کوئی بھی جگہ اپنے گھر سے بہتر نہیں، ہاں! اگر مسجد حرام یا مسجد نبوی ﷺ ہو اور عورت موزے پہن کر نکلے( تو بہترہے)۔’’
(المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۹۳/۹)
تاہم عورت کا مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں صحابیات جمعةالمبارک کی نماز میں بھی شریک ہوتی تھیں ، صحیح احادیث کی روشنی میں پیارے نبیﷺ نے عورت کو مسجد جانے کی اجازت فرمائی ہے تاہم گھر کی نماز کو افضل قرار دیا ہے ، آپﷺ نے فرمایا :
لا تمنعوا نساءَكمُ المساجدَ وبيوتُهنَّ خيرٌ لَهنَّ
(صحيح أبي داود: ۵٦٧)
اپنی عورتوں کو مساجد سے مت روکو ، مگر ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔
رہی بات گھروں میں نماز پڑھنے کے لیے عورت کے ستر کی تو نا محرم کے لیے عورت پوری کی پوری واجب الستر ہے ، اور نامحرم کی غیر موجودگی میں عورت کا چہرہ واجب الستر نہیں ، جیسے اپنے گھر میں اپنے محرموں کے سامنےعورت بغیر اوڑھنی کے بھی رہ سکتی ہے ، تاہم گھر میں نامحرم کی موجودگی میں وہ مکمل ستر کے ساتھ رہے گی ۔
نماز کے لیے اگر عورت تنہا ہے یا صرف اس کے محرم ہی موجود ہیں تو اس صورت میں چہرے کے علاوہ پورے بدن کا ستر عورت کے لیے واجب ہے ، بصورتِ دیگر اگر وہ گھر میں نماز ادا کر رہی ہے اور نامحرم بھی گھر میں موجود ہیں تو اس صورت میں عورت کے لیے پورے بدن کے ستر کے ساتھ چہرہ بھی واجب الستر ہوگا ۔
اس بارے میں الشیخ ابن جبرین فرماتے ہیں :
نماز کے دوران عورت کے لئے پورے بدن کو ڈھکنا ضروری ہے۔ چہرے کے علاوہ اس کا پورا جسم واجب الستر ہے۔ اگر اس کے پاس محرم موجود ہوں یا وہ تنہا نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران چہرے پر پردہ نہیں کرے گی۔
اگر وہ غیر محرم مردوں کی موجودگی میں نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران اور نماز علاوہ بھی چہرے کا پردہ کرے گی۔ کیونکہ چہر ہ واجب الستر ہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]
دورانِ نماز عورت کا دستانے پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں الشیخ ابن جبرین کہتے ہیں
دستانہ ہاتھ کی جراب ہے لہٰذا اگر عورت احرام کی حالت میں ہوتو اس کے لئے اسے پہننا ناجائز ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
’’لاتنتقب المرأۃ ولا تلبس القفازین‘‘۔
’’عورت نقاب بھی نہ لے اوردستانے بھی نہ پہنے ‘‘۔ المعجم الأوسط لطبرانی (5/10) حدیث : (6420) اسنادہ ضعیف ، فیہ عمر بن صہبان ، ضعیف ، (التقریب ) وانظر مجمع الزوائد (3/222) قلت فی الصحیح بعضہ ، ابو داود (1825) (صحیح ) صحیح البخاری ، حدیث : (1838) جزء من الحدیث۔
لہٰذا احرام کے دوران عورت کے لئے دستانے پہنناحرام ہے۔
البتہ اگر عورت احرام کی حالت میں نہ ہو اورنمازپڑھ رہی ہو اور اس کے نزدیک غیر محرم مرد بھی نہ ہوں تو اس کے لئے بہتر اورافضل یہ ہے کہ وہ دستانے کو ہاتھ سے اتارکر نمازپڑھے تاکہ اس کے ہاتھ جائے نماز کوبراہ راست لگیں۔ اسی طرح اگر اس کے آس پاس غیر محرم مردموجود ہوں اور اس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوتو اسے سجدہ کرتے وقت اپنے چہرے سے کپڑا ہٹالینا چاہیئے کیونکہ جسم پر پہنے ہوئے کسی کپڑے مثلاً :رومال ، دوپٹہ ، لباس وغیرہ پرسجدہ مجبوری کے بغیر کرنا مکروہ ہے۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ :
’’ہم نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گرمی کے موسم میں نماز پڑھاکرتے تھے۔ اگر کسی شخص کے لئے زمین پرپیشانی کولگانا ممکن نہ ہوتا تو وہ کپڑا بچھا کر اس کے اوپرسجدہ کرلیتا‘‘۔ --- سنن ابوداود، کتاب الصلاۃ ، باب الرجل یسجد علی ثوبہ ، حدیث : (660) (صحیح ) ---
اس میں پیشانی پر کپڑا لگنے کوعدم استطاعت کے ساتھ مشروط قراردیاگیاہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]
دورانِ نماز پاوں ڈھانپنے کے بارے میں علماء کی دو رائے ہیں ، افضل اور راجح یہی ہے کہ پاوں کو بھی ڈھانپا جائے ۔ اس بارے میں الشیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں
" ہاتھوں اور پائوں کو نماز کے دوران ہرصورت میں ڈھکنا ضروری ہے خواہ غیر محرم مرد موجود ہوں یا نہ ہوں۔ کیونکہ نماز کے دوران چہرے کے علاوہ عورت کاپورا جسم واجب الستر ہے ۔"
اس بارے میں علامہ محمد بن صالح العثیمینؒ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :
اگر نماز میں عورت کے دونوں ہاتھ اور پاؤں ننگے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے ۔جب کہ وہاں کوئی نہ ہو اور عورت اپنے گھر میں نماز ادا کررہی ہو؟
الجواب ــــــــــــــــــــــ
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حنابلہ ۔کے مذہب میں مشہور قول یہ ہے کہ نماز میں آزاد اور بالغ عورت کا چہرے کے سوا سارا جسم پردہ ہے۔ لہذا اس کے لئے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگاکرنا جائز نہیں لیکن بہت سے اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ عورت کے لئے نماز میں ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا رکھنا جائز ہے۔جب کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن فرض کیا کہ اگر عورت نے نماز میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا کرلیا اور پھر وہ اس سلسلے میں فتویٰ طلب کرے تو کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی نماز کو دوہرائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ/جلد : ١ /صفحہ : ٣٨١
والله ولي التوفيق
وَالسَّــــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه