find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Asal Badshah kaun hai Ulema ya Aaj ke Hukmaran? Kaun Izzat ke layek hai?

Aasal Badshah kaun hai ye Aaj ke Ulema ya Hukmaran.
Ulema Ki Tankhwah aur Unke Zindagi jine ke tarike.

عباسی دور میں علماء و فقہاء کی تنخواہ کروڑوں میں تھی

طریقِ علم نجاتِ دارین 46

عباسی دور میں علماء و فقہاء کی تنخواہیں سن کر بندہ حیران رہ جاتا ہے.

مؤذن کی تنخواہ ایک ہزار سونے کے سکے سالانہ تھی
یاد رکھیں ایک سونے کا سکہ تقریباً چار ماشے کا اور 250 سونے کے سکے ہوں تو ایک کلو بنتا ہے
اس لحاظ سے تقریباً چار کلو سونا ایک اذان دینے والے مؤذن کی تنخواہ تھی یعنی آج کے آٹھ کروڑو کے قریب!

قرآن کریم سکھانے والوں کی تنخواہ دو ہزار سونے کے سکے
اور علماء و فقہاء کی تنخواہ چار ہزار سونے کے سکے سالانہ تنخواہ تھی یعنی ایک سال میں تقریبا بیس کروڑ سے زائد تھی
( النفقات و اداراتھا فی الدولۃ العباسیہ للضیف الله یحیی الزھرانی )

یہی وجہ تھی وہ دور سنہرا دورِ اسلام کہلاتا تھا جب علماء و فقہاء اس قدر معزز تھے کیوں نہ ہوں جنہوں نے حکومت و حکام کو چلانا ہے جنہوں نے آخرت کی طرف لے جانا ہے وہ کیوں نہ اس قدر عزت افزائی کے مستحق ہوں
بغداد میں بیت الحکمت ہو یا مدرسہ نظامیہ سائنس دان علماء تبھی تیار ہوتے ہیں جب فکرِ معاش سے آزاد رکھے جائیں.

آج نظام الٹ کر دیا گیا

جمہوری نظامِ حکومت اور میکالے کا نظامِ تعلیم اس وجہ سے مسلط کیا گیا ہے تاکہ دجالی نظام کی حوصلہ افزائی اور دینی نظام و تعلیم کی حوصلہ شکنی کی جائے.
نوکریاں و مراعات انہی کو دی جاتی ہیں جو جمہوری غلاظت کو چاٹتے اور میکالی تعلیم کو پیتے ہیں

مگر آفرین ہے ان ماں باپ پر جو مادیت کے اس دور میں اور پیسے کی دوڑ میں بچوں کو دینی تعلیم دلواتے ہیں اور یقین سے بیٹھتے ہیں کہ جس رب کا دین پڑھ رہے ہیں وہی دولت و عزت دے گا۔
یہی وجہ ہے کھرب پتی مالدار حتی کہ وزیر اعظم بھی ہو تو صرف اس کے منہ پر تعریف اور عزت کی جاتی ہے
مگر محلے کے امام اور عالمِ دین کے ہاتھ چومے جاتے ہیں اور ان کو دعاؤں کا کہا جاتا ہے۔

ہارون رشید نے بھی یہی کہا تھا
اصل بادشاہ تو یہ علماء ہیں"
ہماری عزت تو ہمارے خوف سے کی جاتی ہے.

علمِ دین حاصل کریں دین و دنیا میں معزز ہوں گے- مال کی طلب میں نہ کریں نہ عزت کی خواہش میں کریں رضائے الٰہی کے لیئے کریں وہ اتنا نوازے گا کہ تاحشر کام و نام باقی رہے گا۔

(سید مہتاب عالم)

-------------------------------------------------

Share:

Quran o Hadees ki Raushani me Aurat ka Ghar ki namaj me Chehre ka Parda karna kaisa hai?

Kya Aurat Masjid me Namaj padhne ja sakti hai?
Namaj ke Dauran Khawateen chehre ke alawa kin hisso ki Parda karegi?
Ghar me Agar Na mehram ho to Aurat kaise Namaj Padhegi?
Shariyat ki raushani se Aurat ka Ghar ki Namaj me Chehare ka Parda.

السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

شریعت کی رُو سے عورت کا گھر کی نماز میں چہرے کا ستر
۔┄┅════════════════┅┄
🖋: مسز انصاری

صحیح احادیث کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ نے عورت کی خیر و عافیت اور عفت و عصمت  کی حفاظت اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے مساجد کے مقابلہ میں گھر میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا ۔ اور گھر میں نماز کے لیے بھی عورت گھر کا پوشیدہ حصہ یا اندرونی کوٹھری کو ترجیح دے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صلاةُ المرأةِ في بيتِها أفضلُ من صلاتِها في حجرتِها وصلاتُها في مَخدعِها أفضلُ من صلاتِها في بيتِها
(صحيح أبي داود : ۵٧٠)

عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے ( اندرونی ) کوٹھری میں زیادہ افضل ہے ۔

گھر میں نماز ادا کرنا عورت کو نماز کا وہی اجر وثواب دے گا جو وہ کسی مسجد میں باجماعت ادا کرے ۔ یاد رہے مسجد میں باجماعت نماز ادا نا کرنے سے عورت اس فضیلت سے محروم نہیں ہوتی جو فضیلت مردوں کو باجماعت نماز کی ادائیگی سے حاصل ہوتی ہے سوائے دو مساجد مسجد حرام یا مسجد نبویﷺ کے ، اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: ما صلّت المرأۃ فی مکان خیر لھا من بیتھا الّا أن تکون المسجد الحرام أو مسجد النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم الّا امرأۃ تخرج فی منقلیھا یعنی خفّیھا۔

‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، عورت کے لیے نماز کی کوئی بھی جگہ اپنے گھر سے بہتر نہیں، ہاں! اگر مسجد حرام یا مسجد نبوی ﷺ ہو اور عورت موزے پہن کر نکلے( تو بہترہے)۔’’

(المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۹۳/۹)

تاہم عورت کا مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں صحابیات جمعةالمبارک کی نماز میں بھی شریک ہوتی تھیں ، صحیح احادیث کی روشنی میں پیارے نبیﷺ نے عورت کو مسجد جانے کی اجازت فرمائی ہے تاہم گھر کی نماز کو افضل قرار دیا ہے ، آپﷺ نے فرمایا :
لا تمنعوا نساءَكمُ المساجدَ وبيوتُهنَّ خيرٌ لَهنَّ
(صحيح أبي داود: ۵٦٧)
اپنی عورتوں کو مساجد سے مت روکو ، مگر ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔

رہی بات گھروں میں نماز پڑھنے کے لیے عورت کے ستر کی تو نا محرم کے لیے عورت پوری کی پوری واجب الستر ہے ، اور نامحرم کی غیر موجودگی میں عورت کا چہرہ واجب الستر نہیں ، جیسے اپنے گھر میں اپنے محرموں کے سامنےعورت بغیر اوڑھنی کے بھی رہ سکتی ہے ، تاہم گھر میں نامحرم کی موجودگی میں وہ مکمل ستر کے ساتھ رہے گی ۔

نماز کے لیے اگر عورت تنہا ہے یا صرف اس کے محرم ہی موجود ہیں تو اس صورت میں چہرے کے علاوہ پورے بدن کا ستر عورت کے لیے واجب ہے ، بصورتِ دیگر اگر وہ گھر میں نماز ادا کر رہی ہے اور نامحرم بھی گھر میں موجود ہیں تو اس صورت میں عورت کے لیے پورے بدن کے ستر کے ساتھ چہرہ بھی واجب الستر ہوگا ۔

اس بارے میں الشیخ ابن جبرین فرماتے ہیں :
نماز کے دوران عورت کے لئے پورے بدن کو ڈھکنا ضروری ہے۔ چہرے کے علاوہ اس کا پورا جسم واجب الستر ہے۔ اگر اس کے پاس محرم موجود ہوں یا وہ تنہا نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران چہرے پر پردہ نہیں کرے گی۔
اگر وہ غیر محرم مردوں کی موجودگی میں نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران اور نماز علاوہ بھی چہرے کا پردہ کرے گی۔ کیونکہ چہر ہ واجب الستر ہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]

دورانِ نماز عورت کا دستانے پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں الشیخ ابن جبرین کہتے ہیں

دستانہ ہاتھ کی جراب ہے لہٰذا اگر عورت احرام کی حالت میں ہوتو اس کے لئے اسے پہننا ناجائز ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

’’لاتنتقب المرأۃ ولا تلبس القفازین‘‘۔

’’عورت نقاب بھی نہ لے اوردستانے بھی نہ پہنے ‘‘۔ المعجم الأوسط لطبرانی (5/10) حدیث : (6420) اسنادہ ضعیف ، فیہ عمر بن صہبان ، ضعیف ، (التقریب ) وانظر مجمع الزوائد (3/222) قلت فی الصحیح بعضہ ، ابو داود (1825) (صحیح ) صحیح البخاری ، حدیث : (1838) جزء من الحدیث۔

لہٰذا احرام کے دوران عورت کے لئے دستانے پہنناحرام ہے۔

البتہ اگر عورت احرام کی حالت میں نہ ہو اورنمازپڑھ رہی ہو اور اس کے نزدیک غیر محرم مرد بھی نہ ہوں تو اس کے لئے بہتر اورافضل یہ ہے کہ وہ دستانے کو ہاتھ سے اتارکر نمازپڑھے تاکہ اس کے ہاتھ جائے نماز کوبراہ راست لگیں۔ اسی طرح اگر اس کے آس پاس غیر محرم مردموجود ہوں اور اس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوتو اسے سجدہ کرتے وقت اپنے چہرے سے کپڑا ہٹالینا چاہیئے کیونکہ جسم پر پہنے ہوئے کسی کپڑے مثلاً :رومال ، دوپٹہ ، لباس وغیرہ پرسجدہ مجبوری کے بغیر کرنا مکروہ ہے۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ :

’’ہم نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گرمی کے موسم میں نماز پڑھاکرتے تھے۔ اگر کسی شخص کے لئے زمین پرپیشانی کولگانا ممکن نہ ہوتا تو وہ کپڑا بچھا کر اس کے اوپرسجدہ کرلیتا‘‘۔ --- سنن ابوداود، کتاب الصلاۃ ، باب الرجل یسجد علی ثوبہ ، حدیث : (660) (صحیح ) ---

اس میں پیشانی پر کپڑا لگنے کوعدم استطاعت کے ساتھ مشروط قراردیاگیاہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]

دورانِ نماز پاوں ڈھانپنے کے بارے میں علماء کی دو رائے ہیں ، افضل اور راجح یہی ہے کہ پاوں کو بھی ڈھانپا جائے ۔ اس بارے میں الشیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں

" ہاتھوں اور پائوں کو نماز کے دوران ہرصورت میں ڈھکنا ضروری ہے خواہ غیر محرم مرد موجود ہوں یا نہ ہوں۔ کیونکہ نماز کے دوران چہرے کے علاوہ عورت کاپورا جسم واجب الستر ہے ۔"

اس بارے میں علامہ محمد بن صالح العثیمینؒ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :

اگر نماز میں عورت کے دونوں ہاتھ اور پاؤں ننگے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے ۔جب کہ وہاں کوئی نہ ہو اور عورت اپنے گھر میں نماز ادا کررہی ہو؟

الجواب ــــــــــــــــــــــ​

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حنابلہ ۔کے مذہب میں مشہور قول یہ ہے کہ نماز میں آزاد اور بالغ عورت کا چہرے کے سوا سارا جسم پردہ ہے۔ لہذا اس کے لئے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگاکرنا جائز نہیں لیکن بہت سے اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ عورت کے لئے نماز میں ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا رکھنا جائز ہے۔جب کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن فرض کیا کہ اگر عورت نے نماز میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا کرلیا اور پھر وہ اس سلسلے میں فتویٰ طلب کرے تو کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی نماز کو دوہرائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ/جلد : ١ /صفحہ : ٣٨١

والله ولي التوفيق
وَالسَّــــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

Share:

Loot Alaihe Salam Ki Qaum Ko Allah ne Kaise Barbad kiya? Homosexuality Aur aaj ka Modern Daur.

Loot Alaihe Salam ki Qaum par kis Gunah ka Ajaab aaya?
Qaum-E-Loot par Allah ke taraf se kaise Sja nazil hui?
Homosexuality Kya hai? Kya yah Insani huqooq ke zimre me aata hai?
Islam me Homosexuality Kyo haram haj?

قوم لوط علیہ السلام
‏سب سے زیادہ بےحیا قوم لوط علیہ سلام کی قوم تھی یہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں میں دلچسپی رکھتے تھے.
خاص کر مسافروں میں سے کوئی خوبصورت لڑکا ہوتا تو یہ لوگ اسے اپنا شکار بنا لیتے طلموت میں لکھا ہے
کہ اہل سدوم اپنی روز مرہ کی زندگی میں سخت ظالم دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے.
کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہیں گزر سکتا تھا
کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔
کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا تھا اور یہ لوگ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا
۔ جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ اعلانیہ بد کاریاں کرتے تھے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور بدکاری کے اس گھناونے عمل سے توبہ کرنے کا حکم دیا۔
حضرت لوط نے کہا تم  یہ کیوں کرتے ہو کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت حاصل کرنے کے لیے مرد کی طرف مائل ہوتے ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔ تو پھر حضرت لوط اہل سدوم کو دن رات وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ لیکن اس قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔

بلکہ وہ بدنصیب بہت فخریہ انداز میں یہ کام کرتے تھے انہیں حضرت لوط کا سمجھانا بھی برا لگتا تھا
لہذا انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم ہمیں اسی طرح بھلا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے
تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ حضرت لوط نے نصیحت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔
لہذا ایک دن اہل سدوم نے خود ہی عذاب الہی کا مطالبہ کر دیا۔
اللہ تعالی نے اب تک ان کے اس بدترین عمل فحاشی اور بدکاری کے باوجود ڈھیل دے رکھی تھی۔
لیکن جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے ایک دن کہا
کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔
لہذا ان پر عذاب الہی کا فیصلہ ہوگیا۔
اللہ نے اپنے خاص فرشتوں کو دنیا کی طرف روانہ کر دیا۔ یہ فرشتے دراصل حضرت میکائیل، اور جبرائل  علیہ السلام تھے.

پھر یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر تشریف لے آئے۔

حضرت لوط نے جب ان خوبصورت نوعمر لڑکوں کو دیکھا تو سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔
انہیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اگر ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں دیکھ لیا۔
تو نہ جانے وہ انکے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ حضرت لوط کی بیوی کا نام وائلہ تھا .

اس نے آپ پر ایمان نہیں لایا تھا.

اور وہ دراصل منافقہ تھی۔ وہ کافروں کے ساتھ تھی لہذا اس نے جاکر اہل سدوم کو یہ خبر دے دی۔
کہ لوط کے گھر دو نوجوان لڑکے مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں.
یہ سن کر بستی والے دوڑتے ہوئے۔ حضرت لوط کے گھر پہنچے.
حضرت لوط نے کہا کہ یہ جو میری قوم کی لڑکیاں ہیں
یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں اللہ سے ڈرو مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔

کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں،؟
حضرت لوط علیہ السلام کی بات سن کر وہ لوگ بولے
تم بخوبی واقف ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی حاجت نہیں
اور جو ہماری اصل چاہت ہے اس سے تم بخوبی واقف ہو۔
قوم لوط کے اس شرم سار جواب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
کہ وہ فعل بد میں کس حد تک مبتلا ہو چکے تھے
جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ان کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی آئی تو حضرت لوط نے گھر کے دروازے بند کر دیے اور ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں چھپا دیا۔

ان بدکار لوگوں نے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا
اور ان میں سے کچھ گھر کے دیوار پر بھی چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے.

حضرت لوط علیہ السلام اپنے مہمانوں کی عزت کے خیال سے بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے فرشتے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے جب انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی اور پریشانی کا یہ عالم دیکھا۔ تو حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے یوں فرمایا۔

اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں
یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے.
۔ ابھی کچھ رات باقی ہے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو .

اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔
اہل سدوم حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا دروازہ توڑنے پر بضد تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے گھر سے باہر نکل کر اپنے پر کا ایک کونا انہیں مارا۔
جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے
اور بصارت ظاہر ہوگئی.

یہ خاص عذاب ان لوگوں کو پہنچا۔ جو حضرت لوط کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام حقیقت حال جان کر مطمئن ہو گئے
اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کو ہی نکل کھڑے ہوئے۔
لیکن پھر بھی ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی لیکن کچھ دور جا کر وہ واپس اپنے قوم کی طرف پلٹ گئی اور قوم کے ساتھ جہنم واصل ہو گئی۔

صبح کا آغاز ہوا تو اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل نے بستی کو اوپر سے اکھاڑ دیا اور پھر اپنے بازو پر رکھ کر آسمان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ آسمان والوں نے بستی۔۔۔
‏کے کتے کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں.
۔ پھر اس بستی کو زمین پر دے مارا جس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔
ہر پتھر پر مرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا۔
جب یہ پتھر ان کو لگتے تو ان کے سر پاش پاش ہوجاتے۔
صبح سویرے شروع ہونے والا
یہ عذاب اشراک تک پوری بستی کو نیست و نابود کر چکا تھا .

قوم لوط کی ان خوبصورت بستیوں کو اللہ نے ایک انتہائی بد بو دار
اور سیاہ جیل میں تبدیل کر دیا۔ جس کے پانی سے رہتی دنیا تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔

سمندر کے اس حصے میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اسے ڈیڈ سی یعنی بحرے مردار کہا جاتا ہے

جو اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع ہے۔ ماہرین آثار نے دس سالوں کی تحقیق و جستجو کے بعد اس تباہ شدہ شہر کو دریافت کیا تھا۔
تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ اس شہر میں زندگی بالکل ختم ہو چکی ہے۔
شہر کے راستے اور کھنڈرات کو دیکھ کر ارکلوجسٹ نے یہ اندازہ لگایا
کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت لوگ روزمرہ کے معاملات اور کاموں میں مشغول تھے
اور یہاں زندگی اچانک ختم ہو گئی تھی.

اہل سدوم جنہیں پتھر بنا دیا گیا تھا۔ ان کے بت ابھی تک بحیرہ مردار کے پاس موجود ہیں جو لوگوں کے لیے ایک عبرت ہے.

آج یورپی ممالک میں انسانی آزادی کے نام پر اس بدکاری کی اجازت دی جاتی ہے.
اور اس فحش عمل کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے
  روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیطان سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین عمل کیا ہے ابلیس بولا جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے!

اور مجھے شرم آتی ھے یہ کہتے ھوئے کہ
آج ھمارے معاشرے میں یہی سب چل رہا ہے بلکہ اس قبیح کام کو قانون کی سر پرستی حاصل ہے ۔۔۔
اللہ ھماری دنیاوی اور اخروی زندگی کو بہتر بنانے کی عقل و عمل عطاء فرمائے ۔۔۔

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS