find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Namaj me Kalin par Sajda karna jaruri hai? Kya Zamin par Namaz padhna Jaruri hai?

Kya Namaz me Zamin par Sajda karna jaruri hai ya kalin par Namaj padh sakte hai?
Kya Lakri ke bane mej, rooui ke bane gadde ya kalin wagairah par Namaj padh sakte hai?
Aajkal bahut sare Masajid me aur Gharo me aeise Kaleen ya Gadde rakhe hote hai jo mote aur Narm (Soft) hote hai kya unpar Namaj padhna Durust hai.?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر -384"
سوال_  کیا نماز میں زمین پر سجدہ کرنا ضروری ہے؟ اور لکڑی کے تختے/ روئی کے گدے یا قالین وغیرہ پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ آجکل بہت سی مساجد اور گھروں میں ایسے قالین یا گدے بچھائے ہوتے ہیں جو موٹے اور نرم ہوتے ہیں کیا ان پر نماز پڑھنا درست ہے؟ برائے مہربانی مدلل جواب دیں.!

Published Date: 6-1-2024

جواب .!
الحمدللہ..!

*رسول اللہﷺ سے لکڑی کے تختے ، روئی کی چٹائیوں، بستروں اور کھجوروں کے پتوں کی صفوں پر نماز پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے،*

*چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ان کے جواز پر الگ الگ باب باندھے ہیں، اور ان میں احادیث لائے ہیں،*

احادیث ملاحظہ فرمائیں..!

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
18. بَابُ الصَّلاَةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ:
18. باب: چھت، منبر اور لکڑی پر نماز پڑھنے کے بارے میں۔

قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَلَمْ يَرَ الْحَسَنُ بَأْسًا أَنْ يُصَلَّى عَلَى الْجُمْدِ وَالْقَنَاطِرِ وَإِنْ جَرَى تَحْتَهَا بَوْلٌ أَوْ فَوْقَهَا أَوْ أَمَامَهَا إِذَا كَانَ بَيْنَهُمَا سُتْرَةٌ، وَصَلَّى أَبُو هُرَيْرَةَ عَلَى سَقْفِ الْمَسْجِدِ بِصَلَاةِ الْإِمَامِ، وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ عَلَى الثَّلْجِ.
‏‏‏‏ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتداء میں نماز پڑھی (اور وہ نیچے تھا) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے برف پر نماز پڑھی۔ 
[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/قبل الحدیث:377]

📚حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ، فَهَذَا شَأْنُهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ، قَالَ: لَا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا۔ کہا کہ لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی سے پوچھا کہ منبرنبوی کس چیز کا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب (دنیائے اسلام میں) اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ منبر غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا۔ فلاں عورت کے غلام فلاں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ تیار کر کے (مسجد میں) رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور آپ نے قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور تکبیر کہی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں اور رکوع کیا۔ آپ کے پیچھے تمام لوگ بھی رکوع میں چلے گئے۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ پھر زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر دوبارہ تشریف لائے اور قرآت رکوع کی، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قبلہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے پیچھے لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ یہ ہے منبر کا قصہ۔
[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 377]

*منبر پر سجدہ کی جگہ نہیں تھی لہذا آپ نے نیچے اتر کر سجدہ کیا،*

📚حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ، فَجُحِشَتْ سَاقُهُ أَوْ كَتِفُهُ وَآلَى مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، فَجَلَسَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ دَرَجَتُهَا مِنْ جُذُوعٍ، فَأَتَاهُ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ، فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا وَهُمْ قِيَامٌ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَنَزَلَ لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ: إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ"

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا کہ کہا ہم سے یزید بن ہارون نے، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (5 ھ میں) اپنے گھوڑے سے گر گئے تھے۔ جس سے آپ کی پنڈلی یا کندھا زخمی ہو گئے اور آپ نے ایک مہینے تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی۔ آپ اپنے بالاخانہ پر بیٹھ گئے۔ جس کے زینے کھجور کے تنوں سے بنائے گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم مزاج پرسی کو آئے۔ آپ نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور وہ کھڑے تھے۔۔۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتیس دن بعد نیچے تشریف لائے، تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے تو ایک مہینہ کے لیے قسم کھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔
(صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 378)

*یہاں ثابت ہوا کہ لکڑی کے تختے یا درختوں جھاڑیوں کی چھت وغیرہ پر نماز پڑھ سکتے،*

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
22. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْفِرَاشِ:
22. باب: بچھونے پر نماز پڑھنا (جائز ہے)۔

وَصَلَّى أَنَسٌ عَلَى فِرَاشِهِ، وَقَالَ أَنَسٌ: كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْجُدُ أَحَدُنَا عَلَى ثَوْبِهِ.
‏‏‏‏ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے بچھونے پر نماز پڑھی اور فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے پھر ہم میں سے کوئی اپنے کپڑے پر سجدہ کر لیتا تھا۔ 
[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/قبل الحدیث382]

📚حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ عِرَاكٍ، عَنْ عُرْوَةَ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَعَائِشَةُ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ عَلَى الْفِرَاشِ الَّذِي يَنَامَانِ عَلَيْهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے حدیث بیان کی یزید سے، انہوں نے عراک سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچھونے پر نماز پڑھتے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ رضی اللہ عنہا سوتے اور عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان اس بستر پر لیٹی رہتیں۔
 [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 384]

*اس حدیث سے ثابت ہوا کہ روئی دھاگے وغیرہ کے بستر پر نماز پڑھ سکتے ہیں*

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
23. بَابُ السُّجُودِ عَلَى الثَّوْبِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ:
23. باب: سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا (جائز ہے)۔

وَقَالَ الْحَسَنُ: كَانَ الْقَوْمُ يَسْجُدُونَ عَلَى الْعِمَامَةِ وَالْقَلَنْسُوَةِ وَيَدَاهُ فِي كُمِّهِ.
‏‏‏‏ اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ عمامہ اور کنٹوپ پر سجدہ کیا کرتے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ آستینوں میں ہوتے۔
 [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: قبل الحدیث 385]

📚حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنِي غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ،
کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ پھر سخت گرمی کی وجہ سے کوئی کوئی ہم میں سے اپنے کپڑے کا کنارہ سجدے کی جگہ رکھ لیتا۔
 [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 385]

*اس سے پتہ چلا کہ کپڑے ،چادر وغیرہ پر سجدہ کر سکتے ہیں کوئی حرج نہیں*

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
20. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْحَصِيرِ:
20. باب: بورئیے پر نماز پڑھنے کا بیان۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ لَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: «قُومُوا فَلِأُصَلِّ لَكُمْ» قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا، قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ وَاليَتِيمَ وَرَاءَهُ، وَالعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری نانی ملیکہ نے نبیﷺ کو کھانے کی دعوت پر بلایا۔ آپ جب کھانا تناول فرما چکے تو فرمایا چلو میں تم کو نفل نماز پڑھا دوں۔ ہمارا بوریہ (چٹائی) کثرت استعمال کی وجہ سے میلی ہوچکی تھی، میں نے اسے پانی کے چھینٹے لگا دیے۔ آپ اس پر کھڑے ہو گئے، میں اور یتیم (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور بڑی بی (ملیکہ رضی اللہ عنہا) ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور یوں آپ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی۔‘‘
(صحیح بخاری _380)

*امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح مسلم میں اس حدیث نمبر 658 اور 660 پر باب باندھا ہے کہ  نفلی نماز کی جماعت کا جواز اور چٹائی پر نماز کے جائز ہونے کا بیان،*

📙امام نووی ؒ اس حدیث سے مسائل کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فِيهِ جَوَازُ الصَّلَاةِ عَلَى الْحَصِيرِ وَسَائِرِ مَا تُنْبِتُهُ الْأَرْضُ وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ وَمَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ خِلَافِ هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّوَاضُعِ بِمُبَاشَرَةِ نَفْسِ الْأَرْضِ۔ (نووی: ص۲۳۴ج۱)
’’اس حدیث میں چٹائی پر اور ہر اس چیز پر نماز پڑھنے کا جواز ہے جسے زمین اگاتی ہے اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہے اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے مٹی پر سجدہ کو ضروری قرار دینے کی بات تواضع اور عاجزی پر محمول ہے۔‘‘

*شریعت کے ماہرین پر یہ بات مخفی نہیں کہ گدا روئی اور کپڑے کے مجموعہ سے بنتا ہے۔
تاہم دونوں اپنی اصلیت کے لحاظ سے زمین ہی کی پیداوار ہیں۔ جب زمین سے اگنے والی دوسری تمام چیزوں پر نماز جائز ہے تو پھر گدے پرکیوں نماز جائز نہ ہوگی۔*

📚عَن عبداللہ بن شداد عَن میمونة قالت کان النبیﷺ یصلی علی الخمرة۔
(صحیح بخاری:381)
’’ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔‘‘

📔حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَالْخُمْرَةُ بِضَمِّ الْخَاءِ الْمُعْجَمَةِ وَسُكُونِ الْمِيمِ قَالَ الطَّبَرِيُّ هُوَ مُصَلًّى صَغِيرٌ يُعْمَلُ مِنْ سَعَفِ النَّخْلِ سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِسَتْرِهَا الْوَجْهَ وَالْكَفَّيْنِ مِنْ حَرِّ الْأَرْضِ وَبَرْدِهَا فَإِنْ كَانَتْ كَبِيرَةً سُمِّيَتْ حَصِيرًا۔
(تحفة الاحوذی: ص۲۷۲ج۱، فتح الباری: ص۳۲۴ج۱)
’’خمرہ خا پر پیش اور میم ساکن کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ طبری لکھتے ہیں یہ کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے، چونکہ یہ چہرے اور ہتھیلیوں کو زمین کی گرمی اور سردی سے ڈھانپتی اور بچاتی ہے۔ اس لیے اس کو خمرہ (کڑی) کہتے ہیں۔ اگر یہ بڑی ہو تو حصیر کہلاتی ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ چٹائی پر نماز پڑھنے کی علت زمین کی گرمی اور سردی سے بچاؤ ہے اور مسجدوں میں سردیوں کے موسم میں گرم قالین اور گدے صرف اس لیے بچھائے جاتے ہیں کہ زمین کی سردی سے بچا جائے، لہٰزا ان پر نماز جائز ہے کیونکہ کھجور کی چٹائی اور گدے کی علت غائی ایک ہی ہے۔

*اگرچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابراہیم نخعی، امام اسود اور ان کے اصحاب، طنافس (روئی دار چٹائیوں جو کہ فلالین اور تولیہ جیسی ہوتی ہیں) پر نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے ہیں اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی ان کے ہمنوا ہیں*

*تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نہ صرف کپڑوں پر سجدہ کرنا ثابت ہے بلکہ ان سے عمامہ پگڑیوں اور ٹوپیوں پر بھی سجدہ کرنا ثابت ہے*

📚جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
باب السجود علی الثوب وقال الحسن کان القوم یسجدون عَلَی الْعَمَامَةِ وَالْقَلَنسوة وَیَدَاہُ فِی کُمه (ص۵۶ج۱)
کپڑے پر سجدہ کرنے کا بیان اور حسن بصریؒ کہتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پگڑی اور ٹوپی پر سجدہ کر لیتے تھے اور ہاتھ آستین میں ہوتے۔
اسکے بعد امام بخاری یہ حدیث لائے ہیں:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:
«كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّة الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ» (صحیح بخاری_385)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کرتا۔‘‘

📔حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ اسْتِعْمَالِ الثِّيَابِ وَكَذَا غَيْرُهَا فِي الْحَيْلُولَةِ بَيْنَ الْمُصَلِّي وَبَيْنَ الْأَرْضِ لِاتِّقَاءِ حَرِّهَا وَكَذَا بَرْدُهَا وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ مُبَاشَرَةَ الْأَرْضِ عِنْد السُّجُود هُوَ الأَصْل لِأَنَّهُ عَلَّقَ بَسْطَ الثَّوْبِ بِعَدَمِ الِاسْتِطَاعَةِ۔ (فتح الباری: ص۴۱۴ج۱، طبع جدید ص۶۵۰ج۱)
’’اس حدیث کے مطابق زمین کی گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے کپڑے اور اسی طرح کسی اور چیز پر سجدہ کرنا جائز ہے، تاہم اس حدیث میں یہ بھی اشارہ ہے کہ سجدے کا اصل حکم یہ ہے کہ بلا کسی حائل کے زمین کی دھوڑی پر سجدہ کیا جائے ورنہ جملہ (من شدۃ الحر یعنی گرمی کیوجہ سے) کا کوئی مفاد نہیں رہتا۔

📚 وعن أبی الدرداء قال أبالی لوصلیت علی خمس طنافس۔
رواہ البخاری فی تاریخه و رواہ ابن ابی شیبة عنه بلفظ ست طنافس بعضھا فوق بعض۔
(نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں پانچ یا چھ روئیں وار (فلالین اور تولیہ کی قسم کی) چادروں کے تھان پر نماز پڑھ لوں تو میری نماز پھر بھی ادا ہوجائے گی۔

📚وَرَوَی ابن ابی شیبه عَن ابن عباس أَنه صَلّیٰ عَلیٰ طَنْفُسة۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روئی دار چادر پر نماز پڑھی تھی۔ اسی طرح حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ، حسن بصریؒ، مرۃ الہمدانیؒ اور قیس بن عبادہ وغیرہ سے مروی ہے۔ ((نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲))

📔امام شوکانی فرماتے ہیں:
وَإِلَى جَوَازِ الصَّلَاةِ عَلَى الطَّنَافِسِ ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ وَالْفُقَهَاءُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْبُسُطِ۔(نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۱)
’’جمہور علماء اور فقہاء طنافس (روئی دار چادروں) پر نماز کے جواز کی طرف گئے ہیں۔‘‘

*جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث اور حضرت ابوالدرداء، حضرت ابن عباس، حضرت ابو وائل اور حضرت حسن بصریؒ کے فتویٰ کے مطابق کپڑوں، فلالین اور تولیہ کی قبیل کی چادروں اور پھر مرہ ہمدانی اور قیس بن عباد کے مطابق روئی کے نمدوں پر نماز جائز ہے تو روئی کے گدے پر بھی جائز ہوگی۔ کیونکہ روئی دار گدا اپنی علت غائی کے لحاظ سے روئی دار چادروں کے تھان کے حکم میں ہے،*
*یعنی جس طرح روئیں دار چادروں کا تھان نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ زمین کی سردی سے بچاتا ہے، روئی کا گدا بھی نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ سردی سے بچاتا ہے۔ اور روئی کے نمدے اور گدے کا تو یکجان دو قالب والا معاملہ ہے۔ لہٰذا ان آثار کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ روئی کے گدے پر بھی نماز جائز ہے۔*

_____&______

*رہی بات جامع ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے:*

📚جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں پھونکیں مارنا مکروہ ہے
حدیث نمبر: 381
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، أَخْبَرَنَا مَيْمُونٌ أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا لَنَا يُقَالُ لَهُ أَفْلَحُ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا سَجَدَ نَفَخَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  يَا أَفْلَحُ تَرِّبْ وَجْهَكَ 
ترجمہ:
ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے ہمارے  (گھر کے)  ایک لڑکے کو دیکھا جسے افلح کہا جاتا تھا کہ جب وہ سجدہ کرتا تو پھونک مارتا ہے، تو آپ نے فرمایا:  افلح! اپنے چہرے کو گرد آلودہ کر،
(یعنی زمین پر سجدہ کرو،)

🚫تو اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ اس کا راوی میمون ابو حمزہ الاعور ہے جسے امام بخاری نے لیس بالقوی، امام احمد بن حنبلؒ نے متروک، امام نسائی نے لیس بثقۃ اور امام دار قطنی نے ضعیف کہا ہے۔ کذا فی المیزان والتقریب، ص۳۵۴
(تحفة الاحوذی: ص۲۹۷جلد۱)
اور دوسرا راوی ابو صالح ہے جو متکلم فیہ ہے۔
لہٰذا یہ روائیت ہی ضعیف ہے،
قال الشيخ الألباني:  ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 193)، المشکاة (1002)، الضعيفة (5485) // ضعيف الجامع الصغير (6378)

📔دوسرا جواب یہ ہے:
قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَالْجَوَابُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمْ يَأْمُرْهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى التُّرَابِ وَإِنَّمَا أَرَادَ بِهِ تَمْكِينَ الْجَبْهَةِ مِنْ الْأَرْضِ، وَكَأَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي وَلَا يُمَكِّنُ جَبْهَتَهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِذَلِكَ، لَا أَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي عَلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِنَزْعِهِ۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ نبیﷺ نے اس کو مٹی پر سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ پیشانی کو اچھی طرح زمین پر رکھو۔ گویا آپ نے دیکھا کہ وہ اپنی پیشانی کو اچھی طرح زمین پر نہیں رکھتا تھا، تو آپﷺ نے اس کو یہ ہدایت فرمائی تھی، آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ جس چیز پر نماز پڑھ رہا ہے اسے نیچے سے نکال دے۔‘‘

*خلاصہ کلام یہ کہ اگرچہ تواضع کے طور پر زمین کی دھوڑی پر سجدہ کرنا افضل ہے، تاہم سردی سے بچنے کے لیے روئی کے ہلکے پھلکے گدے پر نماز پڑھنا اور اس پر سجدہ کرنا جائز ہے۔*

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
(مآخذ فتاویٰ محمدیہ/ج1ص387)
محدث فتویٰ

__________&________

ایک اور فتویٰ ملاحظہ فرمائیں!

📔سوال-
میں نے ایک حدیث میں پڑھا تھا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دفعہ کسی صحابی کی تیمارداری کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے تودیکھا کہ وہ تکیے پرسجدہ کررہے تھے آپ نے تکیہ دورپھینک دیا فرمایا: ’’سجدہ زمین پر کرنا چاہیے‘‘ اس حدیث کی روشنی میں میرا سوال ہے کہ تخت پوش پرنماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

📚الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ میں قائم کیاہے ’’چھت ،منبر اور لکڑی پرنماز پڑھنے کا بیان‘‘  اس عنوان کے تحت امام بخاری  رحمہ اللہ نے بہت سے اہم مسائل کی طرف اشارات کئے ہیں ،چنانچہ چھت اور منبر کے ذکر سے اونچی جگہ پرنماز پڑھنے اور پڑھانے کاجواز ثابت کیا ہے، یعنی اگر امام یا مقتدی عام لوگوں سے اونچا ہو تو ان کی نماز ہوجائے گی اسی طرح لکڑی پرنماز پڑھنے کی وضاحت سے یہ ثابت کیا ہے کہ جس طرح مٹی پرنماز پڑھی جاتی ہے اورسجدہ کیا جاتاہے ،اسی طرح لکڑی (تخت پوش) وغیرہ پر بھی نماز ہوسکتی ہیں اور ان پرسجد ہ بھی کیاجاسکتا ہے ۔امام بخاری  رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا  ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ برف پرنماز پڑھی تھی ،اس سے معلوم ہوا کہ ہر اس چیز پرسجدہ کیاجاسکتا ہے جہاں پیشانی اچھی طرح ٹک جائے اور اس کی سختی محسوس ہو کیونکہ سجدہ میں پوری طرح سر کو جائے سجدہ پرڈال دینا شرط ہے ،ہمارے نزدیک فوم کے گدے پربھی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔اسی طرح مسجد میں کارپٹ پرنماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، ہاں ایسی جگہ جس پر پیشانی اچھی طرح نہ جم سکے اور اس کی سختی محسوس نہ ہو، اس پرسجدہ کرناصحیح نہیں ہے ۔امام بخاری  رحمہ اللہ نے بستر پرنماز پڑھنے کاعنوان بھی قائم کیا ہے اورحضرت انس  رضی اللہ عنہ  کے متعلق روایت ذکر کی ہے کہ وہ اپنے بچھونے پرنماز پڑھ لیا کرتے تھے۔سخت گرمی کے دنوں میں اپنے کپڑوں پرسجدہ کرنے کاذکر بھی احادیث میں ملتا ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ نمازپڑھتے تھے ہم میں سے کچھ لوگ گرمی کی شدت کی بنا پر سجدہ کی جگہ پراپنے کپڑے بچھالیتے تھے ۔[صحیح بخاری ،حدیث نمبر:۳۸۵]

سوال میں ذکر کردہ حدیث کامطلب یہ ہے کہ بیمار آدمی تکیہ اٹھاکر اپنے سر کے قریب کرتااور اس پر سر رکھ کرسجدہ کرتا تھا، اس لئے آپ   نے اسے منع فرمایا اور زمین پرسجدہ کرنے کی تلقین فرمائی ۔     [و اللہ اعلم]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد:2 صفحہ:118)

__________&________

*اوپر فتویٰ میں جس حدیث کے متعلق پوچھا گیا ہے ہم اسکو یہاں مکمل بیان کرتے ہیں،*

📚عاد ﷺ مريضًا فرآه يصلي على وسادةٍ، فأخذها فرمى بها، فأخذ عودًا ليصلي عليه، فأخذه فرمى به، وقال: صلِّ على الأرضِ إن استطعت، وإلا فأوم إيماءً، واجعل سجودَك أخفضَ من ركوعِك،
أخرجه البزار كما في ((مجمع الزوائد)) للهيثمي (٢/١٥١)، وأبو يعلى (١٨١١)، والبيهقي (٣٨١٩) 
( الألباني، صفة الصلاة (٧٨) • إسناده صحيح)

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مریض کی عیادت کے لیے آئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ تکیے پر نماز پڑھ رہا ہے، آپﷺ نے وہ تکیہ لیا اور اس کو پھینک دیا، اس نے لکڑی پکڑی تاکہ اس پر نماز پڑھے۔ آپ ﷺ نے اس کو بھی لیا اور پھینک دیا اور فرمایا: اگر استطاعت ہے تو زمین پر نماز پڑھو ورنہ اشارے سے پڑھ لو اور سجدے میں رکوع کی نسبت زیادہ جھکو۔ 

وضاحت:
اس حدیث میں مریض کی نماز کی ادائیگی کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے کہ مریض شخص زمین پر جھک نہیں سکتا تھا تو وہ سجدے رکوع میں خود جھکنے کی بجائے تکیہ اٹھا کر اسکو پیشانی پر لگا لیتا کہ سجدہ ہو گیا، جب آپ نے تکیہ پھینک دیا تو اس نے سوچا شائید یہ نرم چیز ہے اس لیے آپ نے پھینکا تو اس نے لکڑی اٹھا کہ اسکو پیشانی پر لگا لیا کہ سجدہ ہو جائیگا تو آپ نے وہ بھی پھینک دی، اور فرمایا کہ اگر کوئی پیشانی کو زمین پر رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا جو کہ نماز میں حسبِ استطاعت زمین پر رکھنی واجب ہے تو وہ رکوع اور سجود میں اشارے سے کام لے، نا کہ کوئی چیز اٹھا کر پیشانی پر لگائے،
اور جب سجدہ میں جائے تو رکوع کی نسبت جھکاؤ زیادہ ہونا چاہیے،

اس مکمل حدیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اس روایت میں نرم چیز پر سجدہ کرنے کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ مریض کیلئے طریقہ بتلانا مقصود تھا کہ وہ اگر زمین پر مکمل جھک کر سجدہ زمین پر نہیں کر سکتا تو بس اشارے سے تھوڑا جھک جائے ، کوئی چیز اٹھا کر پیشانی پر لگانے کی ضرورت نہیں ،

*لہٰذا اوپر ذکر کردہ تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مساجد کے قالین , صاف بستر،  روئی کے گدے ، موٹے قالین، یا لکڑی کے تختے وغیرہ پر نماز پڑھنا جائز ہے،*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

📓سلسلہ کے باقی تمام سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں، آفیشل واٹس ایپ چینل جوائن کریں،
یا ہمارا آفیشل فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل واٹس ایپ چینل//
https://whatsapp.com/channel/0029VaDnmps7T8bQ5k02LT0e

Share:

Hind ke Musalman itne Zahil (uneducated) aur Pichhde (Dropdown classes) kyo hai?

India ke Musalmano ka Maujuda Hal byaan karti yah Tahrir.

Hindustan ke Musalmano ki Khamiyaa aur Kamzoriya.


हिंद के मुसलमानो का ज़वाल लेकिन ज़िम्मेदार कौन?
मै मुसलमान हूँ, प्रधान मंत्री नही बन सकता, वज़ीर ए आला नही बन सकता इसलिए के मुझे कोई वोट नही देगा, मुझे कोई स्पोर्ट नही करेगा इसलिए के मेरी तादाद कम है और यहाँ जात परस्ती और धर्म के नाम पर सियासत होता है। यहाँ मुसलमान मुखालिफ् नारे लगाय जाते है और कानून बनाई जाती है जिससे गैर कौम खुश होकर वैसे शख्स को वज़ीर ए आज़म बनाता है जो मुसलमानो के खिलाफ काम करने वाला हो ... लेकिन पुलिस, कलेक्टर, कमिस्नॉर् और टीचर क्यों नही बन सकते है?

Urdu ka Zawal lekin Mujrim kaun?

इससे किस ने रोका, पिछले 150 सालों मे मुसलमानो ने सबसे पिछडा हुआ रहने का रिकॉर्ड बनाया है। सारी दुनिया के मुसलमानो का आज यही हाल है लेकिन हिंद के मुसलमानो तो सबसे बुरा हाल है।

इसलिए के मै बेकार हूँ, मै घंटो पढाई नही कर सकता, अगर पढाई शुरू कर दूँ तो चौराहे की खूबसूरती खतम हो जायेगी, जो मै होने नही दूंगा।

अगर पढाई करूँगा तो उसके लिए मुझे वक़्त निकालना होगा इसलिए खेल तमाशा के लिए वक़्त मिलेगा नही, जो मै होने नही दूंगा।

अगर पढ़ता हूँ तो गुटका और जूवा छोड़ना होगा जो मै होने नही दूंगा।

पढाई करता हूँ तो मुहल्ले की रौनक खत्म हो जायेगी, मै दिन भर इसी मुहल्ले मे घूमता रहता हूँ।

हां मुझे कोई काम नही है, और पैसे कमाने की बात है तो बाहर जाकर कोई काम सिख लूंगा फिर पैसे कमाने लगूँगा.. कोई पढाई करने वाला पढ़ते ही रहेगा जबतक मै पैसे कमाना शुरू कर दूंगा इससे मेरा घरवाला भी पढाई का न सोच कर कमाने बाहर भेज देगा।

हां मै मुसलमान हूँ और मेरी पैदाइश के वक़्त मेरी तकदीर पर मुहर लग गयी थी के मै टायर फिट्टर बनूँगा, पंक्चर की दुकान खोल कर बैठ जाऊंगा या गाड़ियों की मरम्मत करूँगा नही तो गाड़ी चलाना सिख लूंगा जिससे दो वक़्त की रोटी मिल जायेगी।

हाँ मै पैदाइशी मुसलमान हूँ, जाहिल रहना मेरा काम है पैसे किसी तरह कमा लूंगा और भाईयो की टाँगे  खींचना और गैरो का मुसाबिहात् इख़्तियार करना मेरा फ़र्ज़ है।

मैने पढाई क्यो नही की? या पढाई क्यों नही कर सका?

ऐसा सवाल मेरे ख्याल मे आया भी नही और मेरे बच्चे होंगे वह भी ऐसे ही करते जायेगा, इसमे कोई शक नही के मै अनपढ़ हूँ और मेरे बच्चे भी मुझ जैसा अनपढ़ होगा। लेकिन दुसरो का कल्चर और रिवायत कॉपी करना मेरा सबसे अहम काम होगा।

मै हिंदुस्तान का 30 करोड़ मुसलमानो का ही हिस्सा हूँ, ज्यादतर गरीब और कच्ची आबादियों मे रहता हूँ। मै चाहता हूँ के हुकूमत मेरे घर मे फर्श पर झाड़ू देने आये।
मै मुसलमान हूँ मेरा काम दुसरो का नकल करना और दुसरो की बुराई करना है, मै किसी अच्छे कामो मे शामिल नही हो सकता और न वह काम होने दूंगा बल्कि मेरा इलाका पिछडा है और रहेगा। 15 फिट सड़को को 8 फिट करने का माहिर हूँ, 8 फिट सड़क को मजिद कम करना मेरा हक है।

मै मुसलमान हूँ, जिसका दिन सबसे पहले "इकरा" से शुरू होता है, तालीम हासिल करने को कहता है लेकिन इसपर मैने कभी अमल कीया नही अगर किया भी तो गैरो के नरसरी के पालतू बन गए।

मै हमेशा सऊदी अरब और दूसरे मुल्को की बात करके अपनी तारीफ करता हूँ लेकिन अपने इस हाल पर कभी सोचा नही?

खुद का मुहासबा किया नही?

आखिर हुकुमत तो हमारी ही थी फिर खतम कैसे हुई?
हमारे अंदर क्या कमिया थी और आज हैं, इतने जलील वे रुस्वा क्यो हो रहे है?
हां मै मुसलमान हूँ। मै अनपढ़ हूँ, इसलिए के मेरे माँ बाप मुझे बचपन मे गैरेज मे काम करने के लिए भेज दिये और मै गरीब घराने से हूँ।
वालिदैन के पास बेहतर तालीम देने के पैसे नही थे,और मेरे समाज तालीम से ज्यादा दिखावा और शौक पर खर्च करने मे यकीं रखता है। क्योंके यह अमीर ही नही और गरीब दिखना नही चाहते बल्कि नवाबों के जैसा दिखना चाहते है चाहे कर्ज क्यो न लेना पड़े, गरीबो की मदद करने के बजाए उसको जलील करने और मज़ाक बनाने पर फ़ख़्र समझती है।

मै मुसलमान हूँ। अपने भाईयो को नीचा दिखाने मे और खुद को बड़ा साबित करने मे कोई मौका नही छोड़ता, दुसरो को ज़ालिल करना अपना फन समझता हूँ। रीकशा चलता हूँ, दूध बेचता हूँ, वेल्डिंग और प्लंबिंग का काम करता हूँ.. गैरेज मे गाड़ियां बनाता हूँ, चौराहे पर बैठे कर सिग्रेट पिता हूँ, ताश खेलता हूँ और जो कोई नही खेलना जानता उसे फ्री कोचिंग भी देता हूँ। क्योंके यह मेरा फर्ज़ है।

इसलिए के मै  ना ख्वांदा हूँ। सिर्फ दो वज़हो से।
वालिदैन की गफलत और मुआशरे के दनिश्वरो की गफलत।
मेरे वालिदैन बेबस थे लेकिन मेरा मुआशेरा बेबस नही था और नही है।
मैने अपने आँखो से लाखो रुपये शादियों मे फिज़ूल खर्ची करते देखा है।

मुशायरे और कौवालियो पर पैसों की बारिश करते देखा है,
गली मुहल्ले मे अपनी मौजूदगी ज़ाहिर करने के लिए पानी के जैसे पेट्रोल खर्च करते देख है,
दिखावे और यहूद व नसारा के नकश् ए कदम पर चलते हुए खुद को कूल व मॉडर्न साबित करने के लिए पार्टिया और यौम ए पैदाइश मनाते देखा है।

शादियों मे नाच गाने और आर्केस्ट्रा मंगाने वाला गरीब कैसे हो सकता है? इसे यह साबित होता है के हमे किसकी जरूरत है और कैसा बनना है?

अगर सिर्फ मेरे वालिदैन और मेरा समाज तालीम/शिक्षा को लेकर फ़िक्रमंद होती तो आज वज़ीर ए आज़म और वज़ीर  ए आला नही होता लेकिन IPS और IAS जरूर होता। वोट लिए बगैर भी मै सुरखुरु होता, या कम अज कम डॉक्टर, इंजीनियर, वकील और दीनदार शख्स जरूर होता। लेकिन बचपन से ही मेरे ज़ेहन मे यह डाल दिया गया के बड़ा होकर सिर्फ पैसे कमाना है और पढ़े लिखे लोगो के जैसे दिखावा करना है क्योंके हम उनके लायक है नही इसलिए सिर्फ ज़हिरी तौर पर उसके जैसा बनना है।

ये मुसलमां है जिसे देख शर्माए यहूद।

Share:

Mani Aur Maji kya hai? Mani ya Maji khariz ho jane se Ghusal wazib hai ya nahi? Napaki aur Ghusl ke Masail.

Mard ya Aurat Napak Kaise Ho jate hai?

Mani aur Maji me fark kya hai?
Inke khariz hone se Jism aur Kapdo ki taharat ka kya hukm hai?
Kya mani khariz Hone se Sirf Ghusal karna hoga ya kapde bhi tabdil karna jaruri hai?
Kya Maji khariz hone se bhi Ghusal farj hota hai?

#NAPAKI KE masail, #ghusl ki dua, #ghusl ki dua after sex, #ghusl ki dua after periods, #how to perform ghusl, #ghusl ki duwa in english, #ghusl steps, #ghusl ke faraiz, #how to do ghusl after period, #ghusl janabat ki dua, #ghusl after sex for female dua, #ghusl after periods in islam, #ghusl after delivery,
Mani aur Maji kya hai? Mani nikalne se kya Napak Ho jayenge?

“سلسلہ سوال و جواب -37″
سوال_منی، اور مذی میں کیا فرق ہے؟
انکے خارج ہونے سے جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہے؟ کیا منی خارج ہونے سے صرف غسل کرنا پڑے گا یا کپڑے بھی تبدیل کرنا ضروری ہیں؟نیز کیا مذی خارج ہونے سے بھی غسل فرض ہو جاتا ہے..؟

جواب۔۔!!

الحمدللہ۔۔

تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو ضرور پڑھیں، کیونکہ ہمارے ہاں پاکیزگی اور طہارت بہت اہمیت کی حامل ہے، جب تک ہم ٹھیک سے طہارت نہیں حاصل کر لیتے ہماری عبادات بھی درست نہیں ہوتیں، چونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے ہم اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے  مختلف سوالوں کی شکل دیتے ہیں، جو اکثر اوقات مرد و خواتین شرم کی وجہ سے کسی سے پوچھ نہیں پاتے.

#سوال_1
منی اور مذی کسے کہتے ہیں۔۔؟

جواب_

منی
وہ گھاڑھا مادہ جو میاں بیوی کے جماع کے دوران یا احتلام کے وقت مرد و خواتین کی شرمگاہ سے نکلتا ہے، اسے منی کہتے ہیں،

مذی
وہ پتلا لیس دار مادہ جو میاں بیوی کے بوس و کنار کے وقت یا رومانوی قصے کہانیاں اور جنسی ویڈیوز وغیرہ دیکھنے سے مرد و خواتین کی شرمگاہ  سے نکلتا ہے،
اسے مذی کہتے ہیں،
_______&&&&&________

#سوال_2
ہمیں کس طرح پتا چلے گا کہ خارج ہونے والی چیز منی ہے۔۔۔۔؟ اور مرد و خواتین کی منی کی علامات کیا ہیں۔۔؟؟

جواب_
مرد كا مادہ منويہ گاڑھا اور سفيد ہوتا ہے، ليكن عورت كى منى پتلى اور زرد رنگ كى ہوتى ہے.

اس كى دليل درج ذیل احادیث ہیں،

ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے پوچھا کہ اگر عورت خواب میں وہی دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو کیا اس پر بھی غسل فرض ہو جائے گا؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب عورت ايسا خواب ميں ديكھے تو وہ غسل كرے ”
ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں: ـ مجھے اس سے شرم آ گئى ـ اور ميں نے عرض كيا،
كيا ايسا ہوتا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تو پھر مشابہت كس طرح ہوتى ہے ؟ بلا شبہ مرد كا مادہ گاڑھا اور سفيد، اور عورت كا مادہ پتلا اور زرد ہوتا ہے، دونوں ميں سے جو بھى اوپر ہو جائے، يا سبقت لے جائے اس كى مشابہت ہو جاتى ہے ”
(ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ- ﻛﺘﺎﺏ اﻟﺤﻴﺾ – ﺑﺎﺏ ﻭﺟﻮﺏ اﻟﻐﺴﻞ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺑﺨﺮﻭﺝ اﻟﻤﻨﻲ ﻣﻨﻬﺎ، حدیث _311)
(سلسلہ احادیث الصحیحہ، حدیث _453)

صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قولہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم:
” مرد كا مادہ منويہ گاڑھا سفيد ہوتا ہے، اور عورت كا پانى پتلا زرد ہوتا ہے ”
يہ منى كى صفت كے بيان ميں عظيم دليل ہے، تندرستى اور عام حالات ميں منى كى حالت اور صفت يہى ہے.

علماء كرام كا كہنا ہے: تندرستى اور صحت كى حالت ميں مرد كى منى گاڑھى سفيد ہوتى ہے اور اچھل اچھل كر خارج ہوتى ہے، اور اس كے خارج ہوتے وقت لذت آتى ہے، اور جب منى خارج ہو چكے تو خارج ہونے كے بعد فتور اور ٹھراؤ پيدا ہوتا اور اس كى بو تقريبا كھجور كے شگوفہ اور گوندھے ہوئے آٹے كى بو كى طرح ہوتى ہے…

( بعض اوقات كسى سبب كے باعث منى كى رنگت تبديل ہو جاتى ہے مثلا ) بيمار ہو تو اس كى پانى پتلى زرد ہو گى، يا پھر منى والى جگہ ميں استرخاء( يعنى ڈھيلا پن ) پيدا ہو جائے تو بغير لذت اور شہوت ہى خارج ہونا شروع ہو جاتى ہے، يا پھر جماع كثرت سے كيا جائے تو منى سرخ ہو كر گوشت كے پانى كى طرح ہو جاتى ہے، اور بعض اوقات تو تازہ خون ہى خارج ہوتا ہے…

*پھر منى  كے تين خواص ہيں جس سے منى با اعتماد شمار ہوتی ہيں یعنی یہ یقین کیا جاتا یے کہ یہ واقع ہی منی خارج ہوئی، ان علامتوں سے آپ منی کہ پہچان کر سکتے ہیں*

#پہلا خاصہ:
شہوت سے خارج ہونا، اور بعد ميں فتور یعنی ڈھیلا پن،سستی پيدا ہو جانا

#دوسرا خاصہ:
اس كى بو كھجور كے شگوفہ كى طرح ہوتى ہے جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے.

#تيسرا خاصہ:
اچھل كر خارج ہونا.

ان تين علامتوں ميں سے كسى ايک علامت كا پايا جانا منى ہونے كے ليے كافى ہے،
تينوں كا بيک وقت پايا جانا شرط نہيں،
اور اگر ان تينوں ميں سے كوئى بھى نہ ہو تو پھر وہ منى نہيں ہو گى، اور ظن غالب كا ہونا بھى منى كے ثبوت كے ليے كافى نہيں،
يہ سب باتیں  تو مرد كى منى كے متعلقہ تھیں،

رہا عورت كى منى كا مسئلہ تو وہ پتلى زرد ہوتى ہے.

اور بعض اوقات اس كى قوت و طاقت بڑھ جانے كى بنا پر سفيد بھى ہو جاتى ہے، اس كے دو خاصے ہيں، اگر ان ميں سے كوئى ايك بھى ہو تو وہ منى شمار ہو گى:

#پہلا:
اس كى بو مرد كى منى جيسى ہو گی (یعنی کجھور کے شگوفے یا گندھے آٹے کی بو جیسی ہو گی،)
#دوسرا:
خارج ہوتے وقت لذت آئے، اور بعد ميں فتور (ڈھیلا پن) پيدا ہو.

ديكھيں:
(شرح مسلم للنووى ( 3 ج/ 222 ص)

*یہ تو تھیں مرد و عورت کی منی کی علامات، کہ ان علامتوں سے ہم یہ پہچان سکتے ہیں کہ نکلنے والا مادہ  منی ہی تھا یا کچھ اور ؟

________&&&________________

#سوال_3
*اگر منی خارج ہو جائے تو پھر جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہو گا..؟

جواب_
اگر منی خارج ہو جائے، وہ خواب میں احتلام کی صورت میں خارج ہو یا بیوی سے ہمبستری کے ذریعے یا مشت زنی وغیرہ کے ذریعے کوئی خارج کرے تو اس پر غسل واجب ہو جائے گا،

اسی طرح اگر احتلام کے بعد کپڑوں پر منی کی نشان نظر آئیں تو غسل فرض ہو گا ، اگرچہ اسے احتلام یاد نا بھی ہو،

لیکن اگر خواب میں احتلام دیکھا مگر کپڑوں پر منی کے نشانات نظر نہیں آئے تو پھر غسل واجب نہیں ہو گا،

جیسا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو (کپڑوں پر)  تری دیکھے لیکن اسے احتلام یاد نہ آئے،
آپ نے فرمایا: ”وہ غسل کرے“
اور اس شخص کے بارے میں ( پوچھا گیا ) جسے یہ یاد ہو کہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن وہ تری نہ پائے تو آپ نے فرمایا: ”اس پر غسل نہیں“
ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول!
کیا عورت پر بھی جو ایسا دیکھے غسل ہے؟
آپ نے فرمایا: عورتیں بھی ( شرعی احکام میں ) مردوں ہی کی طرح ہیں۔
(سنن ترمذی، حدیث _113) صحیح
(سنن ابو داؤد،حدیث _236)حسن

*اور کپڑوں پر جس جگہ منی لگی ہو اگر وہ خشک ہے تو اسکو کھرچ لینا کافی ہے، اگر گیلی ہے تو کپڑے کو اس جگہ سے دھو لینا کافی ہے،سارے کپڑے تبدیل کرنا ضروری نہیں*

جیساکہ،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس منی کے بارے میں پوچھا گیا جو کپڑے کو لگ جائے۔
تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں منی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کا نشان ( یعنی کپڑے کو دھونے سے ) پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں باقی ہوتے۔
(صحیح بخاری،حدیث _230)

اور ایک روایت میں یہ بات ملتی ہے کہ،
ام المؤمنین  عائشہ رضی الله عنہا کے ہاں ایک مہمان آیا تو انہوں نے اسے ( اوڑھنے کے لیے ) اسے ایک زرد چادر دینے کا حکم دیا۔
وہ اس میں سویا تو اسے احتلام ہو گیا،
ایسے ہی بھیجنے میں کہ اس میں احتلام کا اثر ہے اسے شرم محسوس ہوئی، چنانچہ اس نے اسے پانی سے دھو کر بھیجا،
تو عائشہ رضی الله عنہا نے کہا:
اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کر دیا؟
اسے اپنی انگلیوں سے کھرچ دیتا، بس اتنا کافی تھا، بسا اوقات میں اپنی انگلیوں سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے اسے کھرچ دیتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ کپڑے پر منی لگ جائے تو اسے کھرچ دینا کافی ہے، اگرچہ دھویا نہ جائے،
(سنن ترمذی،حدیث _116)
(سنن ابن ماجہ، حدیث _538)
(صحیح مسلم،کتاب الطہارہ، حدیث _288)

ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ،

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے كپڑوں سے اذخر كے تنكوں كے ساتھ (گیلی) منى كو پونچھ ديا كرتے تھے، اور پھر اسى لباس ميں نماز ادا كرتے، اور اپنے كپڑوں سے خشك منى كو كھرچ كے نماز ادا كرتے تھے ”
(مسند احمد، ج6/ص243)
(صحيح ابن خزيمہ،حدیث _288)
(علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے
ارواء الغليل ( 1 / 197 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے)

*ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ منی لگے کپڑے کو تبدیل کرنا یا دھونا واجب نہیں، اگر خشک اور موٹی تہہ ہو تو خرچ کر صاف کر دے پھر اسی میں نماز پڑھ سکتا اور اگر گیلی ہو تو کسی چیز سے صاف کر دے یا کھرچنے کے قابل نا ہو تو پھر وہاں سے اتنا حصہ دھو لے جہاں منی لگی ہو ، اور اسی کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے،اکثر مرد و خواتین صحبت یا احتلام کے بعد کپڑے تبدیل کرنا فرض سمجھتے ہیں ،جب کہ کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں،*

________________&&&&&____________

#سوال_4
*مذی کی پہچان کیا ہے؟*

جواب:
مذى سفيد رنگ كا ليس دار مادہ ہوتا ہے، جو میاں بیوی کے گلے لگنے ،یا بوس و کنار کرنے سے یا  جماع كى سوچ يا اردہ كے وقت خارج ہوتا ہے،
یا بعض اوقات رومانوی قصے کہانیاں پڑھنے اور فحش ویڈیوز وغیرہ دیکھنے سے خارج ہوتا ہے،
یہ اچھل کر خارج نہیں ہوتا ہے،اور نہ ہى نكلنے كے بعد فتور پيدا ہوتا ہے، يعنى جسم ڈھيلا نہيں پڑتا.
اور مرد و عورت دونوں سے ہى مذى خارج ہوتى ہے، ليكن مردوں كى بنسبت عورتوں ميں زيادہ یہ مسئلہ ہوتا ہے.۔.!
(ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 213 )

__________&&&__________

#سوال_5
*اگر مذی خارج ہو جائے تو جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہے؟*

جواب_
مذى خارج ہونے سے شرمگاہ کو دھو کر صرف وضو ہى كرنا ہو گا، اس سے غسل فرض نہیں ہوتا،
اس كى دليل على رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے،

علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ،
مجھے مذی بکثرت آتی تھی، چونکہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ( فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا ) تھیں۔ اس لیے میں نے(شرم کی وجہ سے) ایک شخص ( مقداد بن اسود اپنے شاگرد ) سے کہا کہ وہ آپ ﷺ  سے اس مذی کے متعلق مسئلہ معلوم کریں انہوں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مذی نکلنے پر شرمگاہ کو دھو لو اور وضو کرو،
(صحیح بخاری، حدیث _269)

*یعنی مذی خارج ہونے سے غسل کرنا واجب نہیں ، بلکہ صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے،*

ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ” المغنى ” ميں علماء كرام كا اجماع نقل كيا ہے كہ مذى خارج ہونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے.
(ديكھيں:
(المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 1 / 168 )

*يہاں ايک چيز پر متنبہ رہنا ضرورى ہے كہ مذى نجس اور پليد ہے اس ليے بدن كو جہاں لگے اسے دھونا ہو گا،جیسا کہ اوپر والی حدیث میں یہ بات ذکر ہوئی، ليكن لباس كو جہاں لگے تو اسے پاک كرنے كے ليے شريعت مطہرہ نے مشقت دور كرتے ہوئے تخفيف كى ہے كہ صرف اتنا ہى كافى ہے كہ آپ ايک چلو پانى لے كر مذى لگنے والى جگہ پر چھڑک ديں تو وہ كپڑا پاک ہو جائيگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مذى لگے ہوئے كپڑے كو پاک كرنے كى كيفيت بيان فرمائی ہے،*

سھل بن حنيف رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
مجھے بہت زيادہ مذى آتى اور ميں كثرت سے غسل كيا كرتا تھا، چنانچہ ميں نے اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” آپ كو اس سے وضوء كرنا كافى ہے ”
ميں نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے لباس ميں جہاں لگى ہوئى ہو اسے كيا كروں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” آپ كے ليے اتنا ہى كافى ہے كہ چلو بھر پانى لے كر جہاں لگى ہو اس پر چھڑك دو ”
(سنن ترمذی،حدیث _115)
(سنن ابو داؤد،حدیث _210)
(سنن ابن ماجہ،حدیث _506)

تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
اس حدیث سے يہ ستدلال كيا جاتا ہے كہ اگر كپڑے كو مذى لگ جائے تو اس پر پانى چھڑكنا كافى ہے، اور دھونا واجب نہيں.
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( ص1 / 373ج )

*اگر کوئی کپڑا بھی دھونا چاہے تو دھو لے اسکی مرضی ہے*

*اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں قرآن و حدیث کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثم آمین*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

کیا مرد و خواتین کیلئے جنابت کی حالت میں غسل کے بنا سونا،کھانا پینا یا روزہ رکھنا جائز ہے؟ نیز کیا غسل جنابت سے پہلے عورت کھانا وغیرہ بنا سکتی اور بچے کو دودھ پلا سکتی؟
((دیکھیں سلسلہ -55))

کیا بے وضو، حائضہ اور جنبی کیلئے قرآن مجید کو چھونا اور پڑھنا جائز ہے؟
((دیکھیں سلسلہ -94))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

22 January aur 6 December: Musalmano ko 22 December ko kya karna Chahiye?

Musalman 22 January ko kya kare?

6 December 1992 ko Babri Masjid jab Shaheed kar diya gaya tab Secular Hukumat thi, Jab Babri maszid me Boot rakha gaya tab Nehru ka daur tha.


22جنوری کو مسلمان کیا کریں ؟

❶ مسلمان اس دن اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو بابری مسجد کی تاریخ یاد کرائیں.

اپنے بچوں کو بتائیں کہ اس جگہ بابری مسجد تھی جسے ہندتوا غنڈوں نے منہدم کرکے مندر بنایا ہے،

❷ توحید پر مبنی قرآنی آیتوں اور کلمہءشہادت کو دن بھر پڑھتے رہیں،

❸ رام مندر سے متعلق کسی بھی پروگرام کسی بھی نعرہ بازی میں شریک نہ ہوں، اپنے بچوں کے اسکولوں پر نظر رکھیں کہ کہیں انہیں اسکولوں میں رام مندر کےنام پر ہندوانہ عقائد اور ہندو رسومات کی عادت تو نہیں ڈلوائی جارہی؟
اگر ایسا ہو تو بچوں کو گھروں پر سمجھائیں کہ اسلام کا نظریہ ایمان اور توحید ہے جو کسی بھی طرح سے دوسرے مذاہب کی عبادت، نعروں اور رسومات میں شرکت سے منع کرتا ہے اگر ہم رام۔مندر سے متعلقہ کسی بھی پروگرام میں شرکت کریں گے یا ۲۲ جنوری کو دیپ جلائیں گے تو اللہ ہم سے ناراض ہوگا اور ہم اسلام سے بھی خارج ہو سکتے ہیں، مسلمان اپنی جان تو دےسکتا ہے لیکن ایمانی عقائد سے دستبردار ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
شری رام ہوں یا کوئی بھی شخصیت جن کی عبادت ہمارے ملک کے ہندو کرتے ہیں ہم ان کی بےتوقیری نہیں کرتے ہم ان کے مذہب کا بھی احترام کرتے ہیں یعنی ان کی توہین نہیں کرتے لیکن ہم ان کی مذہبی رسومات میں جیسے رام مندر کےنام پر ہونے والی تقریبات میں کسی بھی طرح سے شرکت نہیں کر سکتے ہیں، کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں کرسکتا ہے_

❹: رام مندر چونکہ ہماری بابری مسجد توڑ کر بابری مسجد کی جگہ پر بنائی گئی ہے جس میں سینکڑوں مسلمانوں کا خون بھی بہایا گیا رام مندر کےنام پر رتھ یاترا کے نام پر جو فسادات مسلمانوں کےخلاف کیے گئے اس میں ہمارے معصوموں کا خون بہا ہے، اس لیے بھی اس تقریب میں مسلمانوں کی شرکت مزید ناجائز اور ملّت سے غدّاری کہلائے گی_

❺: مسلمان اپنے اپنے مقام پر اپنی مقامی مسجدوں کو آباد کرنے کا عہد کریں، مسلمان ویسے بھی مسجد جاتے ہیں اب مزید عہد کریں اور پہلے سے زیادہ مسجدوں میں جائیں،

❻: مسلمان آپسی اتحاد کو ہرسطح پر بڑھائیں، اور سب مل کر اس ملک میں ہندوتوا طاقتوں کے ظلم و ستم کو بند کروانے کے لیے متحدہ محاذ بنائیں، اس ملک میں قانون و انصاف کی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے اور ہندوتوا کے ظالمانہ پنجوں سے مسلمانوں کو بچنا ہے تو چند کام ضروری ہیں.

ایک۔  ایمان سے سمجھوتہ کبھی نہیں کرنا ہے، ایمانی نظریات سے کوئی کمپرومائز ہرگز نہیں۔
۲۔ مسلکی زنجیروں سے اوپر اٹھ کر اتحاد کریں ہر کلمہ پڑھنے والے سے اتحاد کریں، آپس میں مسلک کی وجہ سے لڑنا جھگڑنا چھوڑ دیجیے،
۳۔ ظلم پر خاموش نہ رہیں، مسلمان تاجروں، انجینئروں اور سیاستدانوں کی حمایت کریں انہیں مضبوط بنائیں۔۔
4. اپنی قوت کو یکجا کریں،
۲۲ جنوری کو یہ عہد سماجی میدانوں میں اتارنے کا سب سے اچھا دن ہے_

Share:

Rooh Kabz hone ka Bayan Quran O Hadees me, Rooh kaise Kabz karte hai Farishte?

Quran o Hadees me Marne wale ki Rooh kabz hone ka bayan.

Jis Shakhs ki maut hoti hai uske Rooh kabz hone ka Zikr Quran o Hadees me.


قرآن و حدیث میں مرنے والے کی روح کے قبض ہونے کا بیان:
…ﷲ تعالیٰ انسانوں کی موت کے وقت روح قبض کرنے کیلئے فرشتے بھیجتا ہے، وہ اس کی روح قبض کرکے اﷲ تعالیٰ کی طرف لے جاتے ہیں۔
( الانعام : ۶۱۔۶۲)

…فرشتے انسان کے جسم میں تیرتے ہوئے، ڈوب کر آگے بڑھ کر اس کی روح کھینچ لیتے ہیں۔
( نازعات: ۱ تا ۴)

ظالم لوگوں کی روح نکالتے ہوئے فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں نکالو اپنی روحوں کو۔ مرنے والے کی روح یہ جسم و دنیا سب کچھ چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کے پاس چلی جاتی ہے۔
( الانعام: ۹۳۔۹۴)

جان کنی کے وقت جان گلے تک پہنچ جاتی ہے، پنڈلی سے پنڈلی مل جاتی ہے جان لیاجاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت ہے اپنے رب کے پاس جانے کا وقت ہے۔
(القیامۃ:۲۶۔۳۰)

جب روح گلے میں آپہنچتی ہے انسان اس حالت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن بے بس ہوتے ہیں۔
( الواقعہ: ۸۳ تا ۸۷)

نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا:
…جب روح نکلتی ہے تو بصارت اس کے پیچھے نکل جاتی ہے۔ 
( مسلم۔ کتاب
الجنائز)

Share:

Aurat Ke liye Bazaro me Dance karna hai aur Kya Biwi apne Shauhar Ke Samne Raks kar sakti hai?

Kya Koi Aurat Apne Shauhar ke Samne Raksh (Dance) kar sakti hai?

Kya Koi Aurat Kahi par Dance kar sakti hai?


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

عورت کا اپنے خاوند کےسامنے رقص کرنا :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

: مســــــــــز انصــــــــــاری

اپنے شوہر کے سامنے، چاہے شوہر مطالبہ کرے یا نا کرے عورت کا رقص کرنے میں کوئی گناہ یا عیب کی بات نہیں ہے ، بلکہ یہ خوش طبعئی کا ایسا انداز ہے جس سے خاوند كا دل خوش ہوگا، اس کے دل میں بیوی کی محبت بڑھے گی اور اپنی بیوی سے فائدہ اٹھانے کی رغبت بڑھے گی اور بیوی کے دل میں بھی اپنے خاوند کے لیے محبت میں اضافہ ہوگا ۔

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

عورت كا اپنے خاوند كے سامنے ناچنا اور رقص كرنا جبكہ ان دونوں كے پاس كوئى اور نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ ہو سكتا ہے ايسا كرنا خاوند كے ليے اپنى بيوى ميں اور زيادہ رغبت كا باعث ہو، اور ہر وہ كام جو خاوند كے ليے اپنى بيوى ميں رغبت كا باعث بنے وہ اس وقت تك مطلوب ہے جب تك وہ بعينہ حرام نہ ہو.
اسى بنا پر خاوند كے ليے عورت كا بناؤ سنگھار اور بن سنور كر سامنے آنا مسنون ہے، اسى طرح خاوند كے ليے بھى مسنون ہے جس طرح بيوى اس كے ليے بناؤ سنگھار كرتى ہے وہ بھى بيوى كے ليے كرے " انتہى
[ ديكھيے : اللقاء الشھرى ١٢ |سوال : ۹ ]

علامہ ناصر الدين البانى رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا بيوى كا خاوند كے سامنے تھيٹروں ميں ناچنے اور گانے واليوں جيسا لباس پہننے ميں ان كے عمل سے محبت اور جو وہ كرتى ہيں اس كا اقرار نہيں ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اگر تو يہ چيز صرف خاوند اور بيوى ميں ہو اور انہيں كوئى دوسرا نہيں ديكھ رہا تو جائز ہے.
شيخ رحمہ اللہ نے بيان كيا كہ يہ لباس مذموم تشبہ ميں شامل نہيں ہوگا، اور وہ ناچنے گانے والياں تو اعلانيہ طور پر دوسرے غير محرم لوگوں كے سامنے ناچتى ہيں، ليكن يہ عورت تو صرف اپنے خاوند كے سامنے ہے، ان دونوں ميں بہت فرق ہے.
[ دیکھیے : سلسلۃ " الھدى والنور " | كيسٹ نمبر( ٨١۴) ]

البتہ کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے

✦- اس رقص ميں موسيقى اور آلات موسيقى استعمال نہ كيے جائيں، موسیقی کے آلات اور سازوں کے ساتھ گانا حرام ہے ، یہ شیطان کے باجے ہوتے ہیں ، چاہے گانے والا مرد ہو یا عورت، اور مجلس میں گائے یا تنہائی میں، بیوی شوہر کے سامنے گائے یا شوہر بیوی کے سامنے ، آلاتِ موسیقی سے اجتناب ضروری ہے۔ آیات قرانیہ اور احادیث نبویﷺ میں گانے بجانے اور آلات موسیقی کے استعمال کی مذمت کی گئی ہے ، ان کا استعمال اسباب ضلالت اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے،ارشاد باری تعالی ہے،
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ‌ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾... سورة لقمان
’’اور لوگوں میں بعض ایسا  ہے جو بے حودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ [لوگوں] کو بغیر علم کے اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزاء کرے یہی وہ لوگ ہیں جنکو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔‘

ليكوننَّ من أمتي أقوامٌ يستحِلُّونَ الحِرَ والحريرَ والخمرَ والمعازفَ ولَينزلنَّ أقوامٌ إلى جنبِ عَلَمٍ يروحُ عليهم بسارحةٍ لهم تأتيهم الحاجةُ فيقولون ارجعْ إلينا غدًا فيُبَيِّتُهم اللهُ ويضعُ العِلمَ ويَمسخُ آخرين قِردةً وخنازيرَ إلى يومِ القيامةِ

الراوي : أبو مالك الأشعري | المحدث : ابن القيم | المصدر : تهذيب السنن | الصفحة أو الرقم : 10/153 | خلاصة حكم المحدث : صحيح | التخريج : أخرجه البخاري موصولا وصورته معلقاً بصيغة الجزم (5590) باختلاف يسير

   صحیح حدیث میں ہے :

لَيَكونَنَّ مِن أُمَّتي أقْوامٌ يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ والحَرِيرَ، والخَمْرَ والمَعازِفَ، ولَيَنْزِلَنَّ أقْوامٌ إلى جَنْبِ عَلَمٍ، يَرُوحُ عليهم بسارِحَةٍ لهمْ، يَأْتِيهِمْ -يَعْنِي الفقِيرَ- لِحاجَةٍ، فيَقولونَ: ارْجِعْ إلَيْنا غَدًا، فيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ، ويَضَعُ العَلَمَ، ويَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وخَنازِيرَ إلى يَومِ القِيامَةِ.
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عن قریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم ،شراب اور باجوں کو حلا ل سمجھیں گے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں عن قریب میری امت کے کچھ لوگ شراب پییں گے اور اس کا نام بد ل دیں گے ۔ ان کے سروں پر ناچ گا نے ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو خنزیر  اور بندر بنا دے گا ۔

الراوي : أبو مالك الأشعري | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري | الصفحة أو الرقم: 5590 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح] | التخريج : أخرجه البخاري موصولا وصورته معلقاً بصيغة الجزم (5590) ]

نوٹ : یاد رہے یہاں مراد لھوالحدیث نہیں ہے ، واضح رہے کہ لہو الحدیث سے مراد گانا بجانا ہوتا ہے ، ناہی مراد وہ عشقیہ کفریہ اور شرکیہ گانے ہیں جو منکر ہیں اور معصیت کی رغبت دلاتے ہیں ، بلاشبہ جدید ترین ایجادات ریڈیو ٹی وی وغیرہ یا ویڈیو فلموں وغیرہ سے بے راہ روی کا درس لینا اپنی عاقبت کو خراب کرنا ہے ، کیونکہ فلمی گانے یا دوسرے بیہودہ گانے درست نہیں ہوتے ، البتہ اگر اظہار محبت پر مشتمل کوئی اشعار غزل ہو تو وہ میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے گا سکتے ہیں، اسی کو گانا کہاگیا ہے ۔
لہٰذا بلاکفریہ اور شرکیہ کلمات کے گیت اور غزل اختیارکرتے ہوئے اپنے شوہر کے لیے گنگنانے یااشعار کہنے  میں فی نفسہ  کوئی قباحت نہیں،بشرطیکہ ان اشعار میں شریعت کے خلاف کوئی  مضمون نہ ہو ۔
جیسے شادی وغیرہ میں عام گانا جس میں کسی حرام چیز کی دعوت نہ ہو نہ اس میں کسی حرام چیز کی مدح ہو، تو ایسے گانے گانا اور دف بجانا مشروع ہے ۔

✦- بشمول گانے کے رقص میں خیال رکھا جائے کہ بعض اشعار کفریہ اور شرکیہ ہوتے ہیں جو بےحیائی اور گناہ و معصیت کی دعوت دیتے ہیں، ایسے کفریہ و شرکیہ اشعار اسی طرح گناہ ہیں جس طرح آلاتِ موسیقی حرام ہے ۔

✦- اپنی اولاد کے سامنے یہ خوش طبعئی نا کی جائے، والدین بچوں کے لیے نقشِ پا ہوتے ہیں، زندگی کے پیچ و خم پر روانی سے چلنے کے لیے والدین اولاد کے لیے رول ماڈلز ہوتے ہیں، مبادا ان کے کچے ذہنوں پر منفى اثر پڑے اور ناصرف وہ اپنے والدین كى تعظيم اور قدر کھو دیں بلکہ رقص و موسیقی کے غلط استعمال کی طرف بھی راغب ہوسکتے ہیں، والدین کے کچھ مباح امور ہرگز یہ معنی نہیں رکھتے کہ انہیں اولاد كے سامنے کیا جائے ۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Shamshi Calender (Angrezi Saal) Kab se Shuru hua aur Iske mahino ke Naam kaise Pada? New Year Ki shuruwat kab se hui?

Shamshi Calender ki tarikh.

Angrezi Mahino ke Naam kab aur kaise Pada?
1January Ya New Year Kab se Shuru hua?

Kisi Musalman ke liye Angrezi ya Arabi saal ki pahli tarikh par Jashn manana kaisa hai? 

1 January ko Naya Saal ka jashn manana aur Mubarakbad dena Musalman ke liye Jayez nahi. 

Sari Duniya angrezi saal ke aamad me jashn mana rahi hai Aatishbazi kar ke jabki Gaza me Salebi o Sahyuni Bombari karke Jashn mana raha hai?. 

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

شمسی تقویم، تاریخ کے تناظر میں ::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مســــزانصــــاری

ہر عیسوی سال کے آغاز میں مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ فکر جب ہجری تقویم کی افادیت اور اہمیت اجاگر کرتا ہے تو چند بے وقوف عیسوی سال کی حمایت میں مختلف دلائل دیتے نظر آتے ہیں ، یہ کہ شمس و قمر اللہ ہی کے ہیں تو شمسی تقویم میں برائی کیا ہے، کیا گریگورین کیلنڈر کے آزادانہ استعمال کے حق میں دلائل دینے والے یہ بے عقل لوگ جانتے ہیں کہ یہ عیسوی تقسیم گریگورین کیلنڈر کے نام سے پوپ گریگوری ہشتم نے متعارف کرایا تھا اور کیتھولک ممالک میں یکم جنوری کو نئے سال کے طور پر از سر نو بحال کیا گیا۔
گریگورین کیلنڈر کے زیادہ تر مہینوں کے نام رومی دیوتاؤں کے ناموں اور اعزازوں میں مقرر کیے گئے۔

❶- جنوری :
جنوری کا ماخذ آگے پیچھے دو چہرے والے ایک رومن دیوتا کا نام ”جانوس“(Janus)ہے۔
(دنیائے معلومات / صفحہ : ١۶۰)

❷- فروری :
قدیم رومن باشندے 15فروری کو گناہوں سے بخشش کا دن مناتے تھے۔ اسی دن یا تہوار کا نام فیبروور(Februare) تھا۔ اسی تہوار کی نسبت سے اس کا نام فیبروری(February)پڑ گیا ۔

❸- مارچ :
مارچ کا نام قدیم رومی دیوتا مارس(Mars)کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔

❹- اپریل :
قدیم رومی زبان میں اپریل اپریلیس کہلاتا ہے جس کا منبع ایپرائر(Aperire) ہے جس کے معنی کھلنا(open) کے ہیں۔ چونکہ اپریل میں بہار آتی ہے اسی لیے اس مہینے کا نام اپریل رکھا گیا۔

❺- مئی :
مئی کا نام قدیم روم کی دیوی میا(Maia) کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ جو دیوتا جیوپیٹر(Jupiter) کی بیوی تھی ۔

❻- جون :
جون قدیم روم کی سب سے بڑی دیوی کے نام پر رکھا گیا جس کا نام جونو تھا ۔

❼- جولائی :
قیصرِ روم " جولیس سیزر " 44قبل مسیح میں پیدا ہوا چنانچہ اس کے نام کے نسبت سے اس مہینے کا نام جولائی رکھ دیا گیا۔

❽- اگست :
قدیم روم میں اگست کا نام سکسٹیلیس (Sextilis) تھاجسے 8قبل مسیح میں تبدیل کرکے اس وقت کے رومی حکمران آگسٹس سیزر(قیصر روم آگسٹس) کے نام پر آگسٹ کر دیا گیا ۔

❾- ستمبر :
ستمبر لاطینی لفظ سیپٹیم(Septem)سے ماخوذ ہے۔اس مہینے میں جولیس سیزر کی حکومت قائم ہوئی تھی۔

❿- اکتوبر :
اکتوبر لاطینی لفظ اوکٹو(Octo)سے ماخوذ ہے جس کے معنی 8کے ہیں ۔

⓫- نومبر :
نومبر لاطینی لفظ نویم(Novem) سے نکلا ہے جس کے معنی 9کے ہیں ۔

⓬- دسمبر :
اکتوبر اور نومبر کی طرح دسمبرکا منبع بھی لاطینی لفظ ڈیسیم(Decem) ہے جس کے معنی 10کے ہیں۔

اسلامی ہجری تقویم میں ہفتہ کے ایام کے ناموں میں شرک، نجوم پرستی یا بت پرستی نہیں پائی جاتی جبکہ عیسوی اور دوسری تقویم میں مہینوں اور دنوں کے نام دیوتاؤں کی دیوتائی اور سیاروں کی فرمانروائی کی یاد تازہ کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
سن ہجرت کی ابتداءکے متعلق قاضی سلیمان منصور پوری، علامہ شبلی نعمانی سے کچھ اختلافات رکھتے ہیں ” رحمة للعالمین“ میں لکھتے ہیں

” اسلام میں سنہ ہجرت کا استعمال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جاری ہوا، جمعرات 30 جمادی الثانی 17 ہجری: مطابق 9/12 جولائی 638ءحضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے محرم کو حسب دستور پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔

مزید تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ ہجرت سے سنین کے شمار کی ابتداءاس سے بھی بہت پہلے ہو چکی تھی۔ ( تاریخ ابن عساکر جلد اول رسالہ التاریخ للسیوطی بحوالہ تقویم تاریخ )

ڈاؤنلوڈ کیجیے :
شمسی تقویم، تاریخ کے تناظر میں

https://articles.rasailojaraid.com/Resources/ArticleFiles/11/737/13449.pdf

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS