Hijama kya hai aur ise lagwane se kya Roza toot jata hai?
Kya Kisi Mariz (Patient) ko khoon se ya Khoon (blood) test karwane se roza toot jata hai?
Sawal: Roze ki haalat me Hijama lagwane, mariz ko khoon dene ya blood test karwane se Roza toot jata hai ya nahi?
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-247"
سوال_روزے کی حالت میں حجامہ لگوانے یا کسی مریض کو خون دینے یا خون ٹیسٹ کروانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟
Published Date: 22-5-2019
جواب:
الحمدللہ:
*اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے،کچھ علماء کے ہاں روزہ کی حالت میں خودبخود خون نکلنے سے تو روزہ نہیں ٹوٹتا مگر جان بوجھ کر زیادہ خون نکلوانے سے روزہ ٹوٹ جائے گاجیسے کسی مریض کو خون دینے یا حجامہ لگوانے سے، یہ مؤقف سعودی علماء شیخ ابن باز رحمہ اللہ وغیرہ اور انکی فتاویٰ کمیٹی کا ہے*
*جب کہ صحابہ کرام، سلف صالحین اور ہمارے برصغیر کے کئی علماء کے ہاں خودبخود خون نکلنے یا نکلوانے سے روزے کی حالت پر کوئی اثر نہیں ہوتا*
*اور ہمارے علم کے مطابق بھی دوسرا موقف راجح اور درست ہے کہ روزے کی حالت میں جسم سے خون خودبخود نکلنے سے یا جان بوجھ کر نکلوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، پھر چاہے وہ خون تھوڑی مقدار میں نکلے/نکلوائیں یا زیادہ مقدار میں*
دلائل ملاحظہ فرمائیں:
📚حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِم
ترجمہ : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں حجامہ(سینگی) لگوائی،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1939)
📚انس بن مالک رض سے پوچھا گیا کہ،
کیا آپ لوگ روزہ کی حالت میں حجامہ(سینگی) لگوانے کو مکروہ سمجھا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ نہیں البتہ کمزوری کے خیال سے ( روزہ میں نہیں لگواتے تھے ) شبابہ نے یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ( ایسا ہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ( کرتے تھے )
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1940)
*امام بخاری رحمہ اللہ نے روزہ کی حالت میں سینگی( حجامہ )لگوانے پر باب باندھا ہے*
صحيح البخاری
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
بَابُ الْحِجَامَةِ وَالْقَيْءِ لِلصَّائِمِ:
باب: روزہ دار کا حجامہ(سینگی،پچھنے) لگوانا اور قے کرنا
📚نیچے امام بخاری معلق روائیت کرتے ہیں کہ!
حضرت ابن عباس اور عکرمہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ روزہ ان چیزوں سے ٹوٹتا ہے جو اندر جاتی ہیں ان سے نہیں جو باہر آتی ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی روزہ کی حالت میں پچھنا لگواتے تھے، لیکن بعد میں دن کو اسے ترک کر دیا تھا اور رات میں پچھنا لگوانے لگے تھے اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی پچھنا لگوایا تھا اور سعد بن ابی وقاص اور زید بن ارقم اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا، بکیر نے ام علقمہ سے کہا کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں (روزہ کی حالت میں) پچھنا لگوایا کرتے تھے اور آپ ہمیں روکتی نہیں تھیں،
(صحیح بخاری ،قبل الحدیث-1938)
*امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں باقاعدہ روزہ کی حالت میں سینگی لگوانے کے جواز پر باب باندھا ہے*
سنن أبي داود | كِتَابٌ : الصَّوْمُ |
بَابٌ : فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
ترجمہ_ باب روزے کی حالت میں سینگی لگوانے کی اجازت کا بیان
📚عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی (پچھنا)لگوایا اور آپ روزے سے تھے
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-2372)
📚انس رضی اللہ عنہ نے کہا:
ہم روزے دار کو صرف مشقت کے پیش نظر سینگی ( پچھنا ) نہیں لگانے دیتے تھے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2375)
📚امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح کا باب باندھا ہے کہ،
سنن الترمذي | أَبْوَابُ الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ |
بَابٌ : مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
روزے کی حالت میں سینگی لگوانے کی رخصت کا بیان
پھر نیچے وہی احادیث بیان کی ہیں جو اوپر ہم پڑھ چکے
*روزے کی حالت میں حجامہ لگوانے سے روزہ ٹوٹنے والی روایت کی تشریح*
جس حدیث میں سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹنے کی بات ہے وہ یہ حدیث ہے!
📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی ( پچھنا ) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ نہیں رہا“
(سنن ترمذی حدیث نمبر-774) صحیح
(مسند احمد حدیث نمبر-15828)
📚امام ترمذی اس حدیث کے نیچے لکھتے ہیں کہ ،
شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا“، اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور اگر کوئی روزہ دار پچھنا لگوا لے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا،
بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہو گئے تھے اور روزہ دار کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے
(سنن ترمذی،تحت الحدیث_774)
یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کا مؤقف یہ تھا کہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹنے والی روایت منسوخ ہو گئی،
📚امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ صائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، اور شافعی کا بھی یہی قول ہے
(سنن ترمذی تحت الحدیث -777)
📚شارح صحیح بخاری علامہ احمد بن محمدقسطلانی (المتوفی 923ھ)
اوپر شروع میں بیان کردہ بخاری کی حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی حالت میں حجامہ لگوایا۔۔۔کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
وهذا ناسخ لحديث "أفطر الحاجم والمحجوم" لأنه جاء في بعض طرقه أن ذلك كان في حجة الوداع
یہ حدیث جس میں پچھنا لگانے کا ذکر یہاں آیا ہے یہ دوسری حدیث جس میں ہے پچھنا لگوانے اور لگانے والے ہر دو کا روزہ ٹوٹ گیا کی ناسخ ہے۔ اس کا تعلق فتح مکہ سے ہے اور دوسری ناسخ حدیث کا تعلق حجۃ الوداع سے ہے جو فتح مکہ کے بعد ہوا لہٰذا امر ثابت اب یہی ہے جو یہاں مذکور ہوا کہ روزہ کی حالت میں پچھنا لگانا جائز ہے۔
( إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري )
*لہذا ان تمام احادیث، صحابہ کرام اور سلف صالحین کی وضاحت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوانے یعنی خون نکلوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا،اور جس حدیث میں روزہ ٹوٹنے کی بات ہے وہ حکم یا تو منسوخ ہو گیا ہے یا پھر وہ کراہت کے لیے ہے کیونکہ روزہ کی حالت میں سینگی لگوانے یا خون نکلوانے سے انسان کو کمزوری ہو جاتی ہے اور ممکن ہے وہ روزہ توڑ دے یا اسے روزہ توڑنا پڑ جائے،اس لیے کچھ صحابہ رات کو حجامہ لگواتے تھے،لہذا کوشش کریں کہ مریض کو خون دیتے وقت رات کو خون نکلوائیں یا اگر مجبوراً روزے میں بھی نکلوانا پڑے تو ان شاءاللہ روزے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا*
📚آخر پر سعودی مفتی شیخ خالد المصلح کا جواب ملاحظہ کریں:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ما حكم الحجامة في نهار رمضان؟
الحمد لله، وصلى الله وسلم وبارك على رسول الله، وعلى آله وصحبه.
أما بعد:
فإجابة على سؤالك نقول وبالله تعالى التوفيق:
الحجامة هي إخراجُ الدم من البدن بطريقة مُعيَّنة فيها تشريطٌ ومص للدم، لإخراج الدم الفاسد، وهذه العملية ورد فيها أحاديث من الشريعة، كحديث شدَّاد بنِ أوس، وثوبان: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أفطر الحاجم والمحجوم»، وهو أصحّ ما ورد في ذلك. وأخذ جماعة من أهل العلم من هذا الحديث أن الحجامة مُفطِّرة.
وجاء في صحيح البخاري من حديث عبد الله بن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم وهو صائم محرم، فأخذ منه بعض أهل العلم أن الحجامة ليست ممنوعة؛ لهذه الرواية، حيث إن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم وهو صائم، كما جاء في حديث ابن عباس، ولو كان مما يفسد الصوم لما احتجم صلى الله عليه وسلم وهو صائم.
فصار للعلماء في ذلك مسلكاً بناءً على ورود الأحاديث المختلفة، فمنهم من قال: بأن الحجامة مُحرَّمة، وأن رواية: «وهو صائم» ليست محفوظة، وإنما المحفوظ: وهو مُحرِم، ولذلك هذه اللفظة: «احتجم وهو محرم» هي التي رواها الشيخان: البخاري ومسلم، وانفرد البخاري بزيادة: «وهو صائم».
وقال آخرون: إن حديث ابن عباس يدل على الإذن، وأنه ناسخ لأحاديث: «أفطر الحاجم والمحجوم» حيث إن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم، لكن هذا الوجه ليس بقوي، لأنه ليس هناك في الأحاديث تاريخ حتى يقال: هذا متقدم على هذا، فالنسخ يحتاج إلى تاريخ، وليس ثَمَّة تاريخ.
والمسلك القويم في هذا الحديث وأمثاله، في مثل هذه المسائل: أن يُحمَل فعل النبي صلى الله عليه وسلم على الإذن للحاجة، وعلى المنع للكراهة، فيكون «أفطر الحاجم والمحجوم» محمول على الكراهة، وأما فعله فهو يدل على أنه مأذون بالحجامة للحاجة، وعليه؛ فالراجح من قولي العلماء هو ما ذهب إليه جمهور الفقهاء من الحنفية والمالكية والشافعية من أن الحجامة لا تفطر، لكنها مكروهة، وهذا هو الصحيح، ويلحق به تحليل الدم والتبرع بالدم وكل أوجه إخراج الدم ينبغي تجنبها للصائم، لكن لو وقعت منه أو فعلها فإنه لا يؤثر في صحة صومه.
وعلى القول بالتحريم بأنها لا تجوز وأنها مفطرة، فمن فعلها وهو جاهل، فهذا أيضاً لا يؤثر، حتى على القول بأنها مفطرة؛ لأن الأحكام تتبع العلم، فالراجح أنها لا تفطِّر.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
رمضان کے دنوں میں پچھنہ لگوانے کا کیا حکم ہے؟
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
حجامہ (سینگی لگوانا)
یہ بدن سے کسی خاص طریقے سے خون نکلوانا ہوتا ہے جس میں چمڑے کو زخمی کرکے اس سے گندا خون چوسنا ہوتا ہے اور اس عمل کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہے جیسے کہ شداد بن اوسؓ اور ثوبانؓ کی حدیث ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: (پچھنا لگانے والا اور جس کا لگوایا گیا دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) اور یہ صحیح ترین روایت ہے جو اس بارے میں آئی ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے اس حدیث سے یہ بات ثابت کی ہے کہ پچنہ روزے کو توڑنے والا ہے ۔
اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث ہے: (نبیﷺنے پچھنا لگوایا اس حال میں کہ وہ روزے سے تھے اور احرام میں تھے) اس سے بعض اہل علم نے یہ لیا ہے کہ پچھنا لگوانا منع نہیں ہے کیونکہ نبیﷺنے سینگی لگوائی اور آپ ﷺروزے کی حالت میں تھے جیسا کہ حدیث ابن عباسؓ میں ہے اور اگر یہ روزے کو فاسد کرنے والا ہوتا، تو آپﷺپچنہ نہ لگواتے اس حال میں کہ آپ روزے سے تھے ۔
لہذا علماء کے اس میں کچھ مذاہب بن گئے کیونکہ اس بارے میں مختلف قسم کی احادیث آئی ہیں ۔ بعض نےکہا کہ پچھنے لگوانا روزے کو توڑنے والا ہے اور وہ روایت جس میں (آپ ﷺروزے سے تھے) آیا ہے وہ غیر محفوظ ہے اور محفوظ یہ ہے (آپﷺحالت احرام میں تھے) اوراس وجہ سے یہ لفظ کہ (آپﷺنے پچنہ لگوایا اور آپﷺحالت احرام میں تھے) یہ وہی ہے جس کو شیخین نے روایت کیا ہے یعنی بخاری و مسلم نے اور امام بخاری اس زیادتی میں منفرد ہے: (آپﷺروزے کی حالت میں تھے) ۔
اور دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کی حدیث اجازت دینے پر دلالت کرتی ہے ۔ اور یہ ان احا دیث کو منسوخ کرنے والی ہے جس میں ہے کہ (پچھنے لگانے والے اور جو لگوا رہا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) کیونکہ نبیﷺنے پچھنا لگوایا ۔ لیکن حدیث کی یہ توجیہ قوی نہیں ہے کیونکہ ان آحادیث میں تاریخ نہیں ہے یہاں تک کہ یہ کہا جائے یہ اس حدیث سے مقدم ہے، اور نسخ تاریخ کا محتاج ہے اور یہاں کوئی تاریخ نہیں ۔
اور اصل طریقہ ان آحادیث اور مسائل میں یہ ہے کہ نبیﷺکے فعل کو حاجت کی وجہ سے اجازت دینے پرمحمول کیا جائے گا اور روکنے کو کراہت پر محمول کیا جائے گا ۔ لہذا یہ حدیث: (پچنہ لگانے والے اور جو لگوا رہا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) کراہت پر محمول ہوگا ۔ اور جہاں تک آپ ﷺکا فعل ہے تو وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اجازت ضرورت کی وجہ سے دی گئی ہے ۔ لہذا علماء کے اقوال میں سے راجح اور جس کی طرف جمہور فقہاء حنفیہ اور شافعیہ اور مالکیہ گئے ہیں وہ یہ کہ پچنہ لگوانا روزے کونہیں توڑتا البتہ یہ مکروہ ہے اور یہی صحیح ہے اور یہی حکم خون لگانے اور خون دینے میں بھی لگایا جائے گا اور خون نکالنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں تواس سے روزہ دار کے لئے بچنا ضروری ہے لیکن اگراس میں کوئی صورت واقع ہوگئی یا اس نے کرلی تو اس سے روزے کی صحت ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔
اور حرمت کا قول والوں کےمطابق یہ جائز نہیں ہوگا اور یہ روزے کو توڑنے والا ہوگا، تو اگر کسی کو اس مسئلے کا علم نہ ہو اس سے بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ حتی کہ ان کے ہاں بھی جو یہ کہتے ہیں کہ پچھنا لگوانا روزے کو توڑ دیتا ہے ۔ کیونکہ احکام جاننے کے تابع ہوتے ہیں، لہذا راجح یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا.
https://www.almosleh.com/ar/ar/16770
(الشیخ ڈاکٹر خالد المصلح)
(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
📚حجامہ لگوانے کا شرعی حکم؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-203
📚کن کن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور کن چیزوں سے نہیں ٹوٹتا؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-113
📚کیا خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-195
🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/