find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Mariz ko Khoon dene se ya Blood Test karwane se roza tootega ya nahi?

Hijama kya hai aur ise lagwane se kya Roza toot jata hai?

Kya Kisi Mariz (Patient) ko khoon se ya Khoon (blood) test karwane se roza toot jata hai?

Sawal: Roze ki haalat me Hijama lagwane, mariz ko khoon dene ya blood test karwane se Roza toot jata hai ya nahi?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-247"
سوال_روزے کی حالت میں حجامہ لگوانے یا کسی مریض کو خون دینے یا خون ٹیسٹ کروانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟

Published Date: 22-5-2019

جواب:
الحمدللہ:

*اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے،کچھ علماء کے ہاں روزہ کی حالت میں خودبخود خون نکلنے سے تو روزہ نہیں ٹوٹتا مگر جان بوجھ کر زیادہ خون نکلوانے سے روزہ ٹوٹ جائے گاجیسے کسی مریض کو خون دینے یا حجامہ لگوانے سے، یہ مؤقف سعودی علماء شیخ ابن باز رحمہ اللہ وغیرہ اور انکی فتاویٰ کمیٹی کا ہے*

*جب کہ صحابہ کرام، سلف صالحین اور ہمارے برصغیر کے کئی علماء کے ہاں خودبخود خون نکلنے یا نکلوانے سے روزے کی حالت پر کوئی اثر نہیں ہوتا*

*اور ہمارے علم کے مطابق بھی دوسرا موقف راجح اور درست ہے کہ روزے کی حالت میں جسم سے خون خودبخود نکلنے سے یا جان بوجھ کر نکلوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، پھر چاہے وہ خون تھوڑی مقدار میں نکلے/نکلوائیں یا زیادہ مقدار میں*

دلائل ملاحظہ فرمائیں:

📚حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِم
ترجمہ : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں حجامہ(سینگی) لگوائی،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1939)

📚انس بن مالک رض سے پوچھا گیا کہ،
کیا آپ لوگ روزہ کی حالت میں حجامہ(سینگی) لگوانے کو مکروہ سمجھا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ نہیں البتہ کمزوری کے خیال سے ( روزہ میں نہیں لگواتے تھے ) شبابہ نے یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ( ایسا ہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ( کرتے تھے )
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1940)

*امام بخاری رحمہ اللہ نے روزہ کی حالت میں سینگی( حجامہ )لگوانے پر باب باندھا ہے*

صحيح البخاری
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان

بَابُ الْحِجَامَةِ وَالْقَيْءِ لِلصَّائِمِ:
باب: روزہ دار کا حجامہ(سینگی،پچھنے) لگوانا اور قے کرنا

📚نیچے امام بخاری معلق روائیت کرتے ہیں کہ!
حضرت ابن عباس اور عکرمہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ روزہ ان چیزوں سے ٹوٹتا ہے جو اندر جاتی ہیں ان سے نہیں جو باہر آتی ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی روزہ کی حالت میں پچھنا لگواتے تھے، لیکن بعد میں دن کو اسے ترک کر دیا تھا اور رات میں پچھنا لگوانے لگے تھے اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی پچھنا لگوایا تھا اور سعد بن ابی وقاص اور زید بن ارقم اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا، بکیر نے ام علقمہ سے کہا کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں (روزہ کی حالت میں) پچھنا لگوایا کرتے تھے اور آپ ہمیں روکتی نہیں تھیں،
(صحیح بخاری ،قبل الحدیث-1938)

*امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں باقاعدہ روزہ کی حالت میں سینگی لگوانے کے جواز پر باب باندھا ہے*

سنن أبي داود | كِتَابٌ : الصَّوْمُ  |
بَابٌ : فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
ترجمہ_ باب روزے کی حالت میں سینگی لگوانے کی اجازت کا بیان

📚عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی (پچھنا)لگوایا اور آپ روزے سے تھے
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-2372)

📚انس رضی اللہ عنہ نے کہا:
ہم روزے دار کو صرف مشقت کے پیش نظر سینگی ( پچھنا ) نہیں لگانے دیتے تھے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2375)

📚امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح کا باب باندھا ہے کہ،
سنن الترمذي | أَبْوَابُ الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  |
بَابٌ : مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
روزے کی حالت میں سینگی لگوانے کی رخصت کا بیان

پھر نیچے وہی احادیث بیان کی ہیں جو اوپر ہم پڑھ چکے

*روزے کی حالت میں حجامہ لگوانے سے روزہ ٹوٹنے والی روایت کی تشریح*

جس حدیث میں سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹنے کی بات ہے وہ یہ حدیث ہے!

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی ( پچھنا ) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ نہیں رہا“
(سنن ترمذی حدیث نمبر-774) صحیح
(مسند احمد حدیث نمبر-15828)

📚امام ترمذی اس حدیث کے نیچے لکھتے ہیں کہ ،
شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا“، اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور اگر کوئی روزہ دار پچھنا لگوا لے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا،
بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہو گئے تھے اور روزہ دار کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے
(سنن ترمذی،تحت الحدیث_774)

یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کا مؤقف یہ تھا کہ سینگی لگوانے سے  روزہ ٹوٹنے والی روایت منسوخ ہو گئی،

 📚امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ صائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، اور شافعی کا بھی یہی قول ہے
(سنن ترمذی  تحت الحدیث -777)

📚شارح صحیح بخاری علامہ احمد بن محمدقسطلانی (المتوفی 923ھ)
اوپر شروع میں بیان کردہ بخاری کی حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی حالت میں حجامہ لگوایا۔۔۔کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
 وهذا ناسخ لحديث "أفطر الحاجم والمحجوم" لأنه جاء في بعض طرقه أن ذلك كان في حجة الوداع 
یہ حدیث جس میں پچھنا لگانے کا ذکر یہاں آیا ہے یہ دوسری حدیث جس میں ہے پچھنا لگوانے اور لگانے والے ہر دو کا روزہ ٹوٹ گیا کی ناسخ ہے۔ اس کا تعلق فتح مکہ سے ہے اور دوسری ناسخ حدیث کا تعلق حجۃ الوداع سے ہے جو فتح مکہ کے بعد ہوا لہٰذا امر ثابت اب یہی ہے جو یہاں مذکور ہوا کہ روزہ کی حالت میں پچھنا لگانا جائز ہے۔
( إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري )

*لہذا ان تمام احادیث، صحابہ کرام اور سلف صالحین کی وضاحت  سے یہ بات ثابت ہوئی کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوانے یعنی خون نکلوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا،اور جس حدیث میں روزہ ٹوٹنے کی بات ہے وہ حکم یا تو منسوخ ہو گیا ہے یا پھر وہ کراہت کے لیے ہے کیونکہ روزہ کی حالت میں سینگی لگوانے یا خون نکلوانے سے انسان کو کمزوری ہو جاتی ہے اور ممکن ہے وہ روزہ توڑ دے یا اسے روزہ توڑنا پڑ جائے،اس لیے کچھ صحابہ رات کو حجامہ لگواتے تھے،لہذا کوشش کریں کہ مریض کو خون دیتے وقت رات کو خون نکلوائیں یا اگر مجبوراً روزے  میں بھی نکلوانا پڑے تو ان شاءاللہ روزے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا*

📚آخر پر سعودی مفتی شیخ خالد المصلح کا جواب ملاحظہ کریں:

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ما حكم الحجامة في نهار رمضان؟

الحمد لله، وصلى الله وسلم وبارك على رسول الله، وعلى آله وصحبه.
أما بعد:
فإجابة على سؤالك نقول وبالله تعالى التوفيق:
الحجامة هي إخراجُ الدم من البدن بطريقة مُعيَّنة فيها تشريطٌ ومص للدم، لإخراج الدم الفاسد، وهذه العملية ورد فيها أحاديث من الشريعة، كحديث شدَّاد بنِ أوس، وثوبان: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أفطر الحاجم والمحجوم»، وهو أصحّ ما ورد في ذلك. وأخذ جماعة من أهل العلم من هذا الحديث أن الحجامة مُفطِّرة.
وجاء في صحيح البخاري من حديث عبد الله بن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم وهو صائم محرم، فأخذ منه بعض أهل العلم أن الحجامة ليست ممنوعة؛ لهذه الرواية، حيث إن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم وهو صائم، كما جاء في حديث ابن عباس، ولو كان مما يفسد الصوم لما احتجم صلى الله عليه وسلم وهو صائم.
فصار للعلماء في ذلك مسلكاً بناءً على ورود الأحاديث المختلفة، فمنهم من قال: بأن الحجامة مُحرَّمة، وأن رواية: «وهو صائم» ليست محفوظة، وإنما المحفوظ: وهو مُحرِم، ولذلك هذه اللفظة: «احتجم وهو محرم» هي التي رواها الشيخان: البخاري ومسلم، وانفرد البخاري بزيادة: «وهو صائم».
وقال آخرون: إن حديث ابن عباس يدل على الإذن، وأنه ناسخ لأحاديث: «أفطر الحاجم والمحجوم» حيث إن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم، لكن هذا الوجه ليس بقوي، لأنه ليس هناك في الأحاديث تاريخ حتى يقال: هذا متقدم على هذا، فالنسخ يحتاج إلى تاريخ، وليس ثَمَّة تاريخ.
والمسلك القويم في هذا الحديث وأمثاله، في مثل هذه المسائل: أن يُحمَل فعل النبي صلى الله عليه وسلم على الإذن للحاجة، وعلى المنع للكراهة، فيكون «أفطر الحاجم والمحجوم» محمول على الكراهة، وأما فعله فهو يدل على أنه مأذون بالحجامة للحاجة، وعليه؛ فالراجح من قولي العلماء هو ما ذهب إليه جمهور الفقهاء من الحنفية والمالكية والشافعية من أن الحجامة لا تفطر، لكنها مكروهة، وهذا هو الصحيح، ويلحق به تحليل الدم والتبرع بالدم وكل أوجه إخراج الدم ينبغي تجنبها للصائم، لكن لو وقعت منه أو فعلها فإنه لا يؤثر في صحة صومه.
وعلى القول بالتحريم بأنها لا تجوز وأنها مفطرة، فمن فعلها وهو جاهل، فهذا أيضاً لا يؤثر، حتى على القول بأنها مفطرة؛ لأن الأحكام تتبع العلم، فالراجح أنها لا تفطِّر.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
رمضان کے دنوں میں پچھنہ لگوانے کا کیا حکم ہے؟

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

حجامہ (سینگی لگوانا) ​

یہ بدن سے کسی خاص طریقے سے خون نکلوانا ہوتا ہے جس میں چمڑے کو زخمی کرکے اس سے گندا خون چوسنا ہوتا ہے اور اس عمل کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہے جیسے کہ شداد بن اوسؓ اور ثوبانؓ کی حدیث ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: (پچھنا لگانے والا اور جس کا لگوایا گیا دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) اور یہ صحیح ترین روایت ہے جو اس بارے میں آئی ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے اس حدیث سے یہ بات ثابت کی ہے کہ پچنہ روزے کو توڑنے والا ہے ۔

اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث ہے: (نبیﷺنے پچھنا لگوایا اس حال میں کہ وہ روزے سے تھے اور احرام میں تھے) اس سے بعض اہل علم نے یہ لیا ہے کہ پچھنا لگوانا منع نہیں ہے کیونکہ نبیﷺنے سینگی لگوائی اور آپ ﷺروزے کی حالت میں تھے جیسا کہ حدیث ابن عباسؓ میں ہے اور اگر یہ روزے کو فاسد کرنے والا ہوتا، تو آپﷺپچنہ نہ لگواتے اس حال میں کہ آپ روزے سے تھے ۔

لہذا علماء کے اس میں کچھ مذاہب بن گئے کیونکہ اس بارے میں مختلف قسم کی احادیث آئی ہیں ۔ بعض نےکہا کہ پچھنے لگوانا روزے کو توڑنے والا ہے اور وہ روایت جس میں (آپ ﷺروزے سے تھے) آیا ہے وہ غیر محفوظ ہے اور محفوظ یہ ہے (آپﷺحالت احرام میں تھے) اوراس وجہ سے یہ لفظ کہ (آپﷺنے پچنہ لگوایا اور آپﷺحالت احرام میں تھے) یہ وہی ہے جس کو شیخین نے روایت کیا ہے یعنی بخاری و مسلم نے اور امام بخاری اس زیادتی میں منفرد ہے: (آپﷺروزے کی حالت میں تھے) ۔

اور دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کی حدیث اجازت دینے پر دلالت کرتی ہے ۔ اور یہ ان احا دیث کو منسوخ کرنے والی ہے جس میں ہے کہ (پچھنے لگانے والے اور جو لگوا رہا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) کیونکہ نبیﷺنے پچھنا لگوایا ۔ لیکن حدیث کی یہ توجیہ قوی نہیں ہے کیونکہ ان آحادیث میں تاریخ نہیں ہے یہاں تک کہ یہ کہا جائے یہ اس حدیث سے مقدم ہے، اور نسخ تاریخ کا محتاج ہے اور یہاں کوئی تاریخ نہیں ۔

اور اصل طریقہ ان آحادیث اور مسائل میں یہ ہے کہ نبیﷺکے فعل کو حاجت کی وجہ سے اجازت دینے پرمحمول کیا جائے گا اور روکنے کو کراہت پر محمول کیا جائے گا ۔ لہذا یہ حدیث: (پچنہ لگانے والے اور جو لگوا رہا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) کراہت پر محمول ہوگا ۔ اور جہاں تک آپ ﷺکا فعل ہے تو وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اجازت ضرورت کی وجہ سے دی گئی ہے ۔ لہذا علماء کے اقوال میں سے راجح اور جس کی طرف جمہور فقہاء حنفیہ اور شافعیہ اور مالکیہ گئے ہیں وہ یہ کہ پچنہ لگوانا روزے کونہیں توڑتا البتہ یہ مکروہ ہے اور یہی صحیح ہے اور یہی حکم خون لگانے اور خون دینے میں بھی لگایا جائے گا اور خون نکالنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں تواس سے روزہ دار کے لئے بچنا ضروری ہے لیکن اگراس میں کوئی صورت واقع ہوگئی یا اس نے کرلی تو اس سے روزے کی صحت ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔

اور حرمت کا قول والوں کےمطابق یہ جائز نہیں ہوگا اور یہ روزے کو توڑنے والا ہوگا، تو اگر کسی کو اس مسئلے کا علم نہ ہو اس سے بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ حتی کہ ان کے ہاں بھی جو یہ کہتے ہیں کہ پچھنا لگوانا روزے کو توڑ دیتا ہے ۔ کیونکہ احکام جاننے کے تابع ہوتے ہیں، لہذا راجح یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا.

https://www.almosleh.com/ar/ar/16770
(الشیخ ڈاکٹر خالد المصلح)

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📚حجامہ لگوانے کا شرعی حکم؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-203

📚کن کن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور کن چیزوں سے نہیں ٹوٹتا؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-113

📚کیا خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-195

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Auraton ka Khubsurat Chehra Mardo ke liye Kitna khatarnaak hai?

Tarikh Gawah hai Husn bade bade Badshaho tak ko aPane kadmo me jhhooka diya hai?

Auraton Ki be pardagi Aur Mardo ki Hawas Bhari Nigahen.

#हुस्न है तो #हया भी, ज़रूरी है ऐ #नाज़नीन__
नगीनों को भी, #डिब्बियों में #सजाया जाता है!

" आपकी बीवी आपकी जन्नत " कैसे है?

"मेरा जिस्म मेरी मर्जी" का नारा लगाने वाले कौन लोग है?

"मेरा जिस्म मेरी मर्ज़ी" वाले के लिए एक बहन का पैगाम।

यूरोप मुस्लिम महिलाओं को बिकनी इस छोटे कपड़े पेहनाकर क्या साबित करना चाहता है?

आखिर मेरी तलाक तक कैसे नौबत आई?

जब शौहर ने अदालत मे बीवी के नकाब उतरवाने के फैसले को मानने से इंकार कर दिया।

क्यों डॉक्टर इसरार अहमद के चैनल को यहूदि के कहने पर यूटूब ने हटा दिया ?

‏اپنی اور اپنی اولاد کی حفاظت خود کریں
اپنی بیٹیوں کو بچپن سے ہی ننگے لباس نہ پہناٸیں تا کہ ان کو بعد میں Light نہ لگے

بیٹی چھوٹی ہو یا بڑی
بیٹی، بیٹی ہی ہوتی ہے
پورا لباس ایک ایسی حیا ہے
جسے آپ بچپن سے ہی اس کے خمیر میں ڈال کے قدرت کے سامنے سرخرو ہو جاتے ہیں.

تاریخی شہادتیں موجود ہیں کہ کچھ خوبصورت عورتوں کے حسین و جمیل چہروں کی بے پردگی،کیسی کیسی قیامتیں ڈھا چکی ہیں، حالانکہ وہ دور انتہائی پاکیزہ تھا، تو ذرا اس بے پردگی کے مفاسد کے حجم کا آج کے دور میں تصور کیجیے، وہ دور جو معصیتوں اور رذالتوں کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے۔

عبید بن عمیر کے دور میں، مکہ مکرمہ کی ایک خوبصورت عورت نے آئینہ دیکھا، اور اپنے شوہر سے کہا:
"کیا تم سمجھتے ہو کہ کوئی بھی مرد، میرے اس خوبصورت چہرے کو دیکھےاور مبتلاۓ فتنہ نہ ہو سکے؟(گویا خواتین بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ چہرہ ہی مردوں کو فتنے میں گرفتار کرتا ہے)

عشاق ہمیشہ اپنے محبوبوں کے چہروں کے حسن کے سحر میں گرفتار ہوتے ہیں اور انہی چہروں کی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں، جیساکہ ایک شاعر نے کہا:
   ان تقتلیہ وتذھبی بحیاتہ
  فبحسن وجھک لا بحسن صنیعک
تیراحسین چہرہ ہی فلاں شخص کو موت کے گھاٹ اتار دینے کےلئے کافی ہے، کسی اور معاملے کی ضرورت ہی نہیں۔

ایک اور شاعر کا شعر ہے:
لو أبصرالوجہ منھاوھو منھزم
لیلا وأعداء ہ من خلفہ وقفا
اگر وہ شخص شکست خوردہ ہونے کے باوجود، رات کی تاریکی میں بھی،جبکہ دشمن بھی پیچھے کھڑا ہو( میرے ممدوح کا) خوبصورت چہرہ دیکھ لے(تو دیکھتاہی رہ جائےگا،)
جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان پر کتنا ہی مشکل اور نازک وقت ہو، مگر ایسے وقت میں بھی اگر کسی خوبصورت عورت کا چہرہ اس کے سامنے آ جائے تو وہ وقت کی تمام نزاکتیں فراموش کرکے، اسی کی سوچ میں ڈوب جائے گا اور اگر ایک فارغ البال اور خوش خرم انسان دیکھ لے تو اس کی کیفیت کیا ہو گی؟)

خوبصورت چہرہ ،آنکھوں اور دلوں کےلئے مقناطیسی کشش رکھتا ہے، اسے عقول و قلوب پر اپنا اثر جمانے کی پوری پوری قوت و صلاحیت حاصل ہے، جب یہ بات معلوم ہے اور اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی پیش نظر ہے : (و خُلِقَ الاِ نسَانُ ضَعِیقًا) انسان تو بہت کمزور پیدا کیا گیا ہے۔تو اس کی تفسیر میں امام طاؤوس اور دیگر علماءِ سلف کا یہ قول ضرور مدِ نظر رہنا چاہیئے.
وہ فرماتے ہیں: (انسان اس قدر کمزور پیدا کیا گیا ہے) کہ جب کسی عورت کو دیکھے گا تو صبر نہیں کر سکے گا ۔
ان تمام حقائق کی معرفت کے بعد بھی اگر کوئی شخص عورت کے لئے چہرے کو کھلا رکھنے کی اباحت کا قول اختیار کرے گا ،تو اس کا یہ قول فتنوں کے دروازےکھول دے گا، لہذا فتنوں کو ٹالنے کےلئےاس قسم کے قول کو چھوڑنا ہی بہتر ہے.

امام ابن القیم رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: "شریعت نے عورتوں کو، مردوں سے اپنا چہرہ ڈھانپنے اور چھپائے رکھنے کا حکم دیا ہے؛ کیونکہ چہرے کی بے پردگی ان کے تمام محاسن کھول دے گی، جس سے بڑے بڑے فتنے جنم لیں گے۔"
امام الحرمین اور ابن رسلان نے عورتوں کے کھلے چہرے کے ساتھ نکلنے کے ممنوع ہونے پر، مسلمانوں کا اجماع نقل فرمایا ہے۔ اور ابن رسلان نے یہ بھی کہا ہے کہ" اس وقت تو یہ ممانعت اور شدت اختیار کر جائے گی،جب معاشرے میں فساق و فجار کی کثرت ہو ۔"
ہمارے شیخ سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: "علماءِ سلف کا اس بات پر اجماع قائم ہے کہ مسلمان عورت کیلئے ،اپنے چہرے کو ڈھانپنا فرض ہے، اس کا چہرہ ایک ایسا پردہ ہے ،جسے محرم کے علاوہ ہمیشہ پردے میں ہی رہنا چاہیئے۔"

شریعت کا ایک انتہائی پختہ اور محکم قاعدہ ہے کہ شر کی طرح، اس کے تمام ذرائع، اسباب اور مقدمات بھی ممنوع ہیں۔

Share:

Youtube Yahudiyo ke Propganda ko failane ke liye Dr Israr Ahmed ka Channel delete kiya?

रूस के खिलाफ हिंसा को बढ़ावा देने वाला अमेरिकन सोशल मीडिया फेसबुक डॉक्टर इसरार अहमद के चैनल को यूटूब से क्यों हटाया गया है?

यूटूब ने क्यों डॉक्टर इसरार अहमद पर लगाया बैन और उनके ऑफिशियल चैनल को रिमूव कर दिया है?

आमतौर पर ऐसा कहा जाता है के हर दुनिया मे सबसे ज्यादा उदार और आज़ाद ख्याल शासन व्यवस्था है तो वह यूरोप का है।
लेकिन क्या सच मे ऐसा ही है या फिर दिखावे वाली शान है?

फ्रांस मे चार्ली हेब्दो हर साल और हमेशा मुसलमानो के आखिरी नबी मोहम्मद सल्लाहु अलैहे वसल्लम पर कार्टून तैयार करता है ( नजोबिल्लाह) और इसे यूरोप दुनिया के सामने अभिवायक्ति की आज़ादी यानी बोलने की आज़ादी (फ्रीडम ऑफ एक्सप्रेसन) का नाम दिया जाता है।

यूरोप हमेशा इस्लाम उसके रसूल और मुसलमानो के ईमान ओ अक़ीदा की बेहूर्मति करके दुनिया के सामने उदार सिस्टम साबित करता है।

जब भी कोई इस्लाम या गुस्ताख ए रसूल पर  कुछ बोलता है या किताब लिखता है तो अमेरिका, इंग्लैंड उसे नोबेल पुरस्कार देकर उसकी हौसला अफ़ज़ाई करता है।

इस तरह इस्लाम के खिलाफ जितनी भी साजिशें की जाती है या मुसलमानो को जलील करने के लिए उनके तहजीब का मज़ाक बनाया जाता है वह सब यूरोपियन शासन व्यवस्था( यहूदि व नसरानी) मे उदार सिस्टम कहलाता है। यानी जितना आप इस्लाम विरोधी कंटेंट पब्लिश (प्रकाशित) करेंगे उतना ही आप उदार, आज़ाद ख्याल और आधुनिक कहलाएंगे।

सलमान रुश्दी, तारेक फतेह, तस्लीमा नसरीन जैसे गुस्ताख ए रसूल लोग यूरोप के सबसे बड़े सेलिब्रेटीज है।

फिलिस्तीन (Palestine) जिंस पर इंग्लैड ने जबरदस्ती मुसलमानो के ज़मीन पर यहूदियों का देश बना दिया जिसे इसराइल कहते है।

आज वही फिलिस्तिनि दर दर भटक रहे है, अपने ही देश मे पराये बन गए, कभी जिनका अपना देश हुआ करता था आज वही लोग गुलामो से बदतर शरणार्थी वाली जिंदगी जी रहे है।

यह है यूरोप का वह धुंधला उदार सिस्टम जिसे दुनिया गले लगा रही है।

आज वही इसराइल वहाँ के मुसलमानो पर बम गिरा रहा है, ड्रोन से हमला कर रहा है और वहाँ पर यहूदियों को दुनिया के  कोने कोने से लाकर बसा रहा है।

लेकिन इन सारे मामले पर अमेरिका जो लोकतंत्र और मनवाधिकार का ठीकेदार है पूरी तरह से खामोश तमाशा देख रहा है और इसराइल को हथियार और आर्थिक मदद कर रहा है।

न्यूज़ीलैंड के अल नूर मस्जिद मे एक ईसाई ने जुमे के दिन बंदूक से 50 से ज्यादा नमाजियो को आँख बंद करके मौत के नींद सुला दिया मगर मनवाधिकार के ठिकेदारो की आवाज़ भी नही निकली।

नार्वे मे लोगो की भीड़ ने कुरान को आग मे जलाने की साजिश की और मुसलमानो के खिलाफ खुलेआम नफरत का इज़हार किया तब भी लोकतंत्र का गहवारा कहे जाने वाले इंग्लैंड और यूरोप खामोश रहा।

लाखो मुसलमानो को सीरिया और इराक मे हवाई हमला, ड्रोन और मिसाइल से मारने वाला अमेरिका खुद को इंसानियत का मसीहा कहता है।

अफगानिस्तान मे 20 सालों तक अफ़्ग़ानियो का खून बहाने वाला अमेरिका और उसका नाटो खुदको क्रांतिकारी और अफगानी जो अपने वतन की आज़ादी के लिए लड़ रहा था उस आतंकवादी (दहशतगर्द) कहा गया। दुनिया अफ़्ग़ानियो को ज़ालिम, कट्टरपंथी, राक्षस, क्रूर, दकियानुसी, चरमपंथी और पुराने ख्यालो वाला कहती थी।

सिर्फ इतना ही नही अगर कोई उन वतन परस्त अफ़्ग़ानियो जो अपने मुल्क की खातिर बाहरी दुश्मनो से लड़ रहे थे उनके हिमायत मे या तारीफ मे कोई कुछ बोल देता या सोशल मीडिया पे पोस्ट करता तो उस हेट स्पीच और दहशतगर्द बता कर उसे हटा दिया जाता था।

क्या यह उन, लोगो की आज़ादी नही थी?

क्या किसी वतन परस्त की तारीफ करने से दहशत गर्द हो जाता है?

क्या यह फ्रीडम और स्पीच के दायरे मे नही आता था?
क्या यह अमेरिका और यूरोप तय करेगा के मुसलमानो को क्या बोलना चाहिए और क्या नही?

क्या अब फेसबुक और दूसरे सोशल मीडिया प्लेटफॉर्मस् मुसलमानो के लिए रूल बनायेगा के उस क्या पोस्ट करना है?

जब युक्रेन पर रूस ने हमला किया तो युक्रेन वाले रूस के खिलाफ लड़ने लगे तो इस तरह से युक्रेनि भी तो आतंकवादी हुए।

फिर फेसबुक और सिलिकॉन वेली से दूसरे सोशल मीडिया वाले यह क्यों कहने लगे के " अगर कोई रूस के खिलाफ दूसरे लोगो को हिंसा करने के लिए कहता है, हिंसक बयां देता है, हिंसक पोस्ट करता है तो फेसबुक उसे स्पोर्ट करेगा" ?

क्या यह इससे आतंकवाद नही फैलता है?
क्या यह भड़काऊ भाषण से सामाजिक सौहाद्र नही बिगड़ेगा?
क्या फेसबुक इसलिए युक्रेन के समर्थन मे बोल रहा ही क्योंके वह एक ईसाई देश है?
इस तरह से
अफगानिस्तान मे अपने मुल्क के लिए लड़ने वाले क्रांतिकारी और फ्रीडम फाइटर क्यों नही हो सकते है?

फेसबुक क्यों इनके हिमायत वाले कंटेंट को ब्लॉक करता है?

इसी तरह इस्लामी विद्वान डॉक्टर इसरार अहमद के ऑफिशियल चैनल को क्यों ब्लॉक किया गया?

क्या फेसबुक मुसलमानों के साथ भेदभाव करता है?
अगर नही तो युक्रेन के समर्थन मे रूस के लिए हिंसक पोस्ट करने की इजाज़त क्यों?

जबकि एक आलिम के ब्यान मे इसे हिंसा नजर आती है ऐसा क्यो?

एक स्कॉलर के बयान मे ऐसा क्या है जिससे ब्लॉक करना पड़ा जबकि दुनिया मे सबसे जयादा दहशत फैलाने वाला अमेरिका आज दुसरो को इंसानियत का दर्स देता है?

इंसानियत का खून करने वाला आज मुसलमानो को मानवता का पाठ पढ़ा रहा है?

दुनिया मे सबसे जयादा दहशत फैलाने वाला अमेरिका आज मुसलमानो को दहशत गर्द साबित कर रहा है?

उदार सिस्टम का समर्थक और इज़हार ए ख्याल पर बोलने वाला यूरोप डॉक्टर इसरार अहमद के जुबान को क्यों बंद करना चाहता है?

Share:

Wah Kaun kaun se kam hai jisse Roja toot jata hai aur kin kin kamo se Roza (fast) nahi Toot ta hai

Kya Galati se khana kha lene ya Pani pi lene se roja toot jata hai?

Sawal: wah kaun kaun se kam hai jisse roja toot jata hai aur kin kamo se roja nahi toot ta hai..? Quran o hadees ki raushni me jawab dein.

 


"سلسلہ سوال و جواب نمبر-113"
سوال_کن کن امور سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور کن امور سے روزہ نہیں ٹوٹتا..؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں..!

Published Date: 25-5-2018

جواب..!
الحمدللہ..!

*اللہ پاک قرآن میں روزہ کی حدود کے بارے فرماتے ہیں..!*

القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 187

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اُحِلَّ لَـکُمۡ لَيۡلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمۡ‌ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّکُمۡ كُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنۡكُمۡۚ فَالۡــئٰنَ بَاشِرُوۡهُنَّ وَابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَـكُمُ الۡخَـيۡطُ الۡاَبۡيَضُ مِنَ الۡخَـيۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ‌ؕ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيۡلِ‌ۚ وَلَا تُبَاشِرُوۡهُنَّ وَاَنۡـتُمۡ عٰكِفُوۡنَ فِى الۡمَسٰجِدِؕ تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ فَلَا تَقۡرَبُوۡهَا ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُوۡنَ ۞

ترجمہ:
تمہارے لیے روزے کی رات اپنی عورتوں سے صحبت کرنا حلال کردیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ اللہ نے جان لیا کہ بیشک تم اپنی جانوں کی خیانت کرتے تھے تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی اور تمہیں معاف کردیا، تو اب ان سے مباشرت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھا ہے اور کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ تمہارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہوجائے، پھر روزے کو رات تک پورا کرو اور ان سے مباشرت مت کرو جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں، سو ان کے قریب نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ بچ جائیں۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ابتدا میں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو روزہ افطار کرنے سے لے کر صرف نماز عشاء تک کھانا پینا اور عورت سے صحبت جائز تھی، اگر کسی شخص نے عشاء کی نماز پڑھ لی، یا وہ اس سے پہلے سو گیا تو اس کا روزہ شروع ہوجاتا تھا، پھر اگلے روز افطار یعنی سورج غروب ہونے تک کھانا پینا اور جماع اس پر حرام ہوتا تھا، بعض لوگ ضبط نہ کرسکے اور رات کو بیویوں سے صحبت کر بیٹھے۔
( تفسیر ابن کثیر )

تفصیل ان احادیث میں ملاحظہ فرمائیں:

 سنن ابوداؤد
کتاب: روزوں کا بیان
باب: روزہ کی فرضیت
حدیث نمبر: 2313
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَبُّوَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ سورة البقرة آية 183، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّوْا الْعَتَمَةَ حَرُمَ عَلَيْهِمُ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ وَالنِّسَاءُ، ‏‏‏‏‏‏وَصَامُوا إِلَى الْقَابِلَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَانَ رَجُلٌ نَفْسَهُ فَجَامَعَ امْرَأَتَهُ وَقَدْ صَلَّى الْعِشَاءَ وَلَمْ يُفْطِرْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَجْعَلَ ذَلِكَ يُسْرًا لِمَنْ بَقِيَ وَرُخْصَةً وَمَنْفَعَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ سُبْحَانَهُ:‏‏‏‏ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ سورة البقرة آية 187 الْآيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ هَذَا مِمَّا نَفَعَ اللَّهُ بِهِ النَّاسَ وَرَخَّصَ لَهُمْ وَيَسَّرَ.
ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ  یہ آیت کریمہ  يا أيها الذين آمنوا کتب عليكم الصيام کما كتب على الذين من قبلکم  اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دئیے گئے تھے   (سورۃ البقرہ: ١٨٣)   نازل ہوئی تو نبی اکرم  ﷺ  کے زمانے میں عشاء پڑھتے ہی لوگوں پر کھانا، پینا اور عورتوں سے جماع کرنا حرام ہوجاتا، اور وہ آئندہ رات تک روزے سے رہتے، ایک شخص نے اپنے نفس سے خیانت کی، اس نے اپنی بیوی سے صحبت کرلی حالانکہ وہ عشاء پڑھ چکا تھا، اور اس نے روزہ نہیں توڑا تو اللہ تعالیٰ نے باقی لوگوں کو آسانی اور رخصت دینی اور انہیں فائدہ پہنچانا چاہا تو فرمایا: علم الله أنكم کنتم تختانون أنفسکم  اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے   (سورۃ البقرہ: ١٨٧)   یہی وہ چیز تھی جس کا فائدہ اللہ نے لوگوں کو دیا اور جس کی انہیں رخصت اور آسانی دی۔  
تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١٦٢٥٤) (حسن صحیح  )

 صحیح بخاری
کتاب: روزے کا بیان
باب: باب: اللہ عزوجل کا فرمانا کہ حلال کر دیا گیا ہے تمہارے لیے رمضان کا راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ نے معلوم کیا کہ تم چوری سے ایسا کرتے تھے، سو معاف کر دیا تم کو اور درگزر کی تم سے پس اب صحبت کرو ان سے اور ڈھونڈو جو لکھ دیا اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں (اولاد سے)۔
حدیث نمبر: 1915 
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْرَائِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا فَحَضَرَ الْإِفْطَارُ فَنَامَ قَبْلَ أَنْ يُفْطِرَ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَأْكُلْ لَيْلَتَهُ وَلَا يَوْمَهُ حَتَّى يُمْسِيَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ صَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا حَضَرَ الْإِفْطَارُ أَتَى امْرَأَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا:‏‏‏‏ أَعِنْدَكِ طَعَامٌ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ أَنْطَلِقُ فَأَطْلُبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَوْمَهُ يَعْمَلُ فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَتْهُ امْرَأَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ خَيْبَةً لَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّهَارُ غُشِيَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ:‏‏‏‏ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ سورة البقرة آية 187، ‏‏‏‏‏‏فَفَرِحُوا بِهَا فَرَحًا شَدِيدًا، ‏‏‏‏‏‏وَنَزَلَتْ:‏‏‏‏ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187.
ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء ؓ نے بیان کیا کہ  (شروع اسلام میں)  محمد  ﷺ  کے صحابہ ؓ جب روزہ سے ہوتے اور افطار کا وقت آتا تو کوئی روزہ دار اگر افطار سے پہلے بھی سو جاتا تو پھر اس رات میں بھی اور آنے والے دن میں بھی انہیں کھانے پینے کی اجازت نہیں تھی تاآنکہ پھر شام ہوجاتی، پھر ایسا ہوا کہ قیس بن صرمہ انصاری ؓ بھی روزے سے تھے جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا  (اس وقت کچھ)  نہیں ہے لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لاؤں گی، دن بھر انہوں نے کام کیا تھا اس لیے آنکھ لگ گئی جب بیوی واپس ہوئیں اور انہیں  (سوتے ہوئے)  دیکھا تو فرمایا افسوس تم محروم ہی رہے، لیکن دوسرے دن وہ دوپہر کو بیہوش ہوگئے جب اس کا ذکر نبی کریم  ﷺ  سے کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی   حلال کردیا گیا تمہارے لیے رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا   اس پر صحابہ ؓ بہت خوش ہوئے اور یہ آیت نازل ہوئی   کھاؤ پیو یہاں تک کہ ممتاز ہوجائے تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری  (صبح صادق)  سیاہ دھاری  (صبح کاذب  )  سے۔
(سنن ابو داؤدٗد،حڈیث نمبر_2314)

تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ۭ )
یہ احکام یعنی صبح صادق تک مباشرت اور کھانے پینے کا جائز ہونا،
فجر سے سورج غروب ہونے تک ان چیزوں کی ممانعت اور اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت کی ممانعت، یہ کام اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں، ان کی سختی سے پابندی کرو۔
( ابن کثیر)
________&______

*جن جن امور سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے*

1_ جان بوجھ کر کھانے پینے سے،
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَـكُمُ الۡخَـيۡطُ الۡاَبۡيَضُ مِنَ الۡخَـيۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ‌ؕ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيۡلِ‌ۚ‘‘
یعنی تم کھاتے پیتے رہو ، یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے پھر رات تک روزے کو پورا کروکرو،
(سورہ البقرہ-187)

2_بیوی سے جماع یعنی ہمبستری کرنے سے،
ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔۔۔۔۔۔انتہی
(بخاری،1936)

3_جان بوجھ کر  قے (الٹی) کرنے سے،
سنن ابن ماجہ
کتاب: روزوں کا بیان
باب: روزہ دار کو قے آ جائے
حدیث نمبر: 1676

ترجمہ:

ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:  جسے خود بہ خود قے آجائے اس پر روزے کی قضاء نہیں، اور جس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر روزے کی قضاء ہے ۔  
تخریج دارالدعوہ: 
سنن ابی داود/الصوم ٣٢ (٢٣٨٠)، سنن الترمذی/الصوم ٢٥ (٧٢٠)، (تحفة الأشراف: ١٤٥٤٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٤٩٨)، سنن الدارمی/الصوم ٢٥ (١٧٧٠) (صحیح  )

4_حیض و نفاس کا خون آنے سے,
فرمان نبویﷺ
عورتو صدقہ کیا کرو، میں نے جہنم میں تمہاری تعداد زیادہ دیکھی ہے۔۔۔۔۔۔انتہی
تم لعن تعن بہت کرتی ہو، شوہروں کی نا شکری کرتی ہو، عقل اور دین میں ناقص ہو۔۔۔۔۔۔۔انتہی
پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_304)

5_(استمناء  )یعنی  ہاتھ یا کسی اور طرح شہوت سے منی خارج کرنے سے انسان کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے روزے دار کے بارے میں
ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے
وہ (روزے دار)کھانا ،پانی اور شہوت کو میرے لئے ترک کرتا ہے…
(صحیح بخاری؍حدیث نمبر_1894)
بلاشبہ استمناء شہوت کا حصہ ہے جسے ہر روزے دار پر چھوڑنا ضروری ہے۔

6_ان چیزوں کا استعمال جن پر کھانے یا پینے کا اطلاق ہوتا ہے یا جو کھانے پینے کے مفہوم میں ہوں:
 اس میں دو طرح کی چیزیں شامل ہیں
پہلی چیز یہ ہے کہ روزے دار کو خون چڑھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،
اس وجہ سے کہ کھانے اور پینے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ انسان کے جسم میں خون ہو، جس سے کی اس کی توانائی میں اضافہ ہو اور وہ اچھے ڈھنگ سے چل پھر سکے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ غذائی یا آبی انجکشن کا استعمال جس کے استعمال سے انسان کوکھانے پینے کی ضرورت نہ پڑے۔اس وجہ سے کہ یہ کھانے اور پینے کے درجے ہی میں ہیں۔(مجالس شھر رمضان للشیخ ابن عثیمین ،ص؍70)

7_کسی دوسرے کی تھوک نگلنے سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا،یعنی بیوی کے ہونٹ یا زبان چوستے ہوئے اگر اسکی تھوک نگل لی تو روزہ ٹوٹ جائے گا،
(المغنی جلد3، صفحہ-17)
(شیخ صالح المنجد، islamqa.info/سوال49005)

______&_____

*وہ امور جن سے روزہ نہیں ٹوٹ*

1_جب قے( الٹی) خود بخود آ جائے،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جسے قے (خودبخود) آ جائے اس پر روزے کی قضاء لازم نہیں،
اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے روزے کی قضاء کرنی چاہیئے“
(ابن خزیمہ،حدیث نمبر_1960)
( ترمذی،حدیث نمبر_720)

2_بھول کر کھانے پینے سے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہئے کہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_1933)

3_سینگی لگوانے یعنی جسم سے خون نکلوانے سے ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں پچھنا (سینگی ) لگوائی،
(صحیح بخاری، حدیث نمبر_1939)

4_سرمہ لگانے سے،
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرمہ لگاتے تھے اور وہ روزہ سے ہوتے تھے،
(ابو داؤد،حدیث نمبر_2378) حسن موقوف
اعمش کہتے ہیں ،
میں نے اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی روزے دار کے سرمہ لگانے کو ناپسند کرتے نہیں دیکھا اور ابراہیم نخعی روزے دار کو «صبر» ( ایک قسم کا سرمہ ہے ) کے سرمے کی اجازت دیتے تھے۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_2389) حسن

5_پیاس یا گرمی سے سر پر پانی ڈالنے سے،
ابوبکر کہتے ہیں: مجھ سے بیان کرنے والے نے کہا کہ میں نے مقام عرج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سر پر پیاس سے یا گرمی کی وجہ سے پانی ڈالتے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_2365)

7_بیوی کو بوسہ دینے اور گلے لگانے سے،
اگر اپنے نفس پر قابو رکھ سکے تو،

عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ سے ہوتے اور اپنی ازواج کا بوسہ لے لیتے اور انکے ساتھ مباشرت(جسم سے جسم لگا لیتے) کر لیتے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم میں سے سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے،
(صحیح بخاری،1927)
(صحیح مسلم،1106)

8_  مسواک کرنے سے:
روزے کی حالت میں مسواک کا استعمال جائز عمل ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کا حد درجہ اہتمام کیا کرتے تھے،

بلکہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ چیز میری امت کے لئے مشقت کا سبب نہ ہوتی تو میں ہر وضو کے وقت اپنی امت کو مسواک کا حکم دیتا(صحیح بخاری_887)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے ، جس میں روزے دار اور غیر روزے دار دونوں شامل ہیں، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں روزے دار یاغیر روزے دار کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

اور امام بخاری نے ان لوگوں کے رد کیلئے جو کہتے کہ روزے میں مسواک جائز نہیں ،

اپنی صحیح بخاری میں یوں باب قائم کیا..

(صحيح البخاري | كِتَابٌ : الصَّوْمُ.  | بَابُ سِوَاكِ الرَّطْبِ وَالْيَابِسِ لِلصَّائِمِ.  روزہ دار کے لیے خشک اور تازی مسواک کرنے کا باب)

اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
مسواک منہ کی صفائی اور رب کی رضا مندی ہے،

9_ غسل کرنے سے،
عائشہ رضی اللہ عنہا  نے خبر دی کہ ( بعض مرتبہ ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ (رات گزارنے کی وجہ سے) جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے،
( صحیح بخاری،1926)

10_ استحاضہ کا خون آنے سے،
وہ خون جو عورتوں کو حیض کے علاوہ دنوں میں بیماری سے آتا ہے،
 ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سات سال تک مستحاضہ رہیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ رگ ( کی وجہ سے بیماری ) ہے۔ پس ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔
(بخاری حدیث-327)
یعنی استحاضہ کے خون سے نماز روزہ چھوڑنا جائز، نہیں اور نا استحاضہ کے خون سے روزہ ٹوٹے گا،

11_عورتوں کو حیض کے علاوہ زرد یا مٹیالے رنگ کا پانی آنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا،
نا ایسی صورت میں نماز، روزہ چھوڑنا جائز ہے، کیونکہ
ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،کہ ہم (حیض کے علاوہ دنوں میں) زرد اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-326)

*ان کے علاوہ  بہت ساری ایسی چیزیں ہیں ، جن کے بارے میں اسلاف سے مروی ہے کہ ان کو کرنے سے انسان کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔۔۔!
جیسے!!*

12_تیل۔لگانے سے،
13_مہندی لگانے سے،
14_خوشبو لگانے سے،
15_کھانے کا ذائقہ چکھ کر تھوکنے سے..!
16_آنکھ ،کان ناک میں دوا کے قطرے ڈالنے سے،
17_ سانس میں دشواری کے لیے آکسیجن وغیرہ کا آلہ استعمال کرنے سے،
18_ضرورت کے تحت بیماری کے علاج کے لیے انسولین یا بنسولین انجکشن لگوانے سے چاہے وہ رگ میں یا عضلات میں یا  جسم کے کسی حصے پر لگوائیں، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا،
19_نیند میں احتلام آنے سے،
20_برش کرنے سے,
21_زیرناف یا بغلوں کے بال مونڈنے سے،
22_ناخن کاٹنے سے،
23_اپنی تھوک یا بلغم وغیرہ نگلنے سے،
24_مذی وغیرہ کے قطرے نکلنے سے،
25_کلی کرتے وقت اگر غلطی سے پانی حلق سے نیچے چلا جائے تو بھی روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ یہ جان بوجھ کر نہیں کیا اس نے،
26_دانتوں سے خون بہنے یا نکسیر پھوٹنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا
27_گالی نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ روزہ کا اجر ضائع ہوسکتا ہے،
28_میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو ہاتھ وغیرہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر یہ کام رات کے وقت کرنا زیادہ بہتر ہے، قریب ہے کہ وہ صبر نا کر سکیں اور روزہ توڑ بیٹھیں۔۔۔۔۔!!

(فتاویٰ اسلامیہ جلد 2_صفحہ 173 سے 190 تک)
(شیخ صالح المنجد، islamqa.info)
(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء10 /252 )

*یہ تمام امور  اور دیگر ایسے اعمال جنکا کھانے پینے سے یا شہوت ساتھ کوئی تعلق نا ہو ان امور  کے کرنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا،
کیونکہ زیادہ تر روزہ ٹوٹنے کا جو تعلق ہے وہ کھانے پینے یا شرمگاہ والے معاملات سے ہے*

*ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روزے کے دوران ان تمام امور سے پرہیز کریں جن سے روزہ ٹوٹے یا ٹوٹنے کا امکان ہو،اور ہمارا روزہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوسکے،
اور اسی طرح سے جن چیزوں کو روزے کی حالت میں انجام دینے کی اجازت ہے ، ہم انہیں انجام دیں اور اپنی جانوں پر بے جا تشدد اور سختی نہ کریں کیونکہ دینی معاملات میں تشدد اور بے جا سختی اسلامی اسپرٹ اور مزاج کے خلاف ہے*

اللہ پاک ہمیں توفیق  عطا فرمائے، آمین

----------------------------------
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج

//https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Ramzan ya kisi Dusre Islamic mahine ki mubaarak dene se Jannat wazib ho jati hai?

Kya Ramzan ki khushkhabari dene se ya kisi Islamic mahine ki Mubaarak dene se Jannat wazib ho jati hai?

Sawal: Social Media par ahadees ko bagair tahqeeq (Refrence/Research) ke Share karna kaisa hai? Kya ramzan, rabiawwal ya kisi aur islami mahine ki mubaarak dene se jannat wazib ho jati hai?


Kya Ramzan ki khush khabri dene se jannat wazib ho jati hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر_242"

سوال_ سوشل میڈیا پر احادیث کو بغیر تحقیق کے شئیر کرنا کیسا ہے؟ اور کیا رمضان، ربیع الاول یا کسی اور اسلامی مہینے کی مبارک دینے سے جنت واجب ہو جاتی ہے؟

Published Date: 3-5-2019

جواب:
الحمدللہ:

*تمام قارئین سے گزارش ہے کہ جب بھی آپ کسی عالم کسی مولوی کا کوئی بیان سنیں،یا کوئی میسج کوئی پوسٹ یا کوئی عبارت کہیں دیکھیں تو اس میں موجود احادیث کی مکمل تخریج کریں ،اسکا حوالہ طلب کریں، اسکو چیک کریں، جب یقین ہو جائے کہ یہ واقع حدیث ہے اور صحیح حدیث ہے تو اس پر عمل کریں اور شئیر بھی کریں یہ آپکے لیے صدقہ جاریہ ہو گا، لیکن اگر کوئی پوسٹ کوئی میسج بغیر ریفرنس کے یا غلط ریفرنس کے ساتھ لکھا پائیں یا کسی بیان میں ایسی کوئی بات  سنیں جسکا کوئی حوالہ نا ہو یا ضعیف روایت ہو تو اس پر کبھی اعتبار نہ کریں،کیونکہ آجکل یہ اشو بہت عام ہو گیا ہے کی ہم جہاں بھی کوئی اسلام کے متعلقہ پوسٹ دیکھتے ہیں یا کوئی کلپ دیکھتے ہیں تو سبحان اللہ پڑھ کر یا استغفرُللہ پڑھ کر بغیر تحقیق کے ثواب سمجھ کر اسکو شئیر کر دیتے ہیں، حالانکہ اس دور میں تو احادیث کی تخریج بہت زیادہ ضروری ہو گئی ہے کہ کیونکہ آج کل لوگ اپنی یا اپنے پیج وغیرہ کی تشہیر اور انرٹینٹ سے ڈالرز کمانے کے لیے لوگوں کے پسندیدہ لطیفوں،کہانیوں کو دین بنا کر پیش کر دیتے ہیں جس سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسکو پسند کرتے ہیں، جبکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ دین اسلام کا کس قدر نقصان کر رہے،مثال کے طور پر آپ عبقری والوں کو دیکھ لیں کہ کس طرح وہ لوگوں کی پریشانیوں کو ذریعہ بنا کر پہلے فری میں من گھڑت وظائف بتلاتے ہیں، پھر اپنے پیر صاحب کی حکمت کے فضائل اور پھر دواخانے کی برانچیں پورے ملک اور پوری دنیا میں بنا دیں،اور اسی طرح کے اور بھی لاکھوں کروڑوں لوگ دین اسلام کو سیڑھی بنا کر ہمارے کمزور عقائد، ہماری پریشانیوں اور ہمارے شارٹ کٹ میں امیر بننے اور جنتی بننے کی خواہش کو وہ کیش کر رہے ہیں*

*اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے*

فرمان باری ہے: 

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَتَبَـيَّـنُوۡا وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَ لۡقٰٓى اِلَيۡكُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا‌ ۚ تَبۡـتَـغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا فَعِنۡدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِيۡرَةٌ‌ ؕ كَذٰلِكَ كُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيۡكُمۡ فَتَبَـيَّـنُوۡا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب تم اللہ کے راستے میں سفر کرو تو خوب تحقیق کرلو اور جو تمہیں سلام پیش کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔ تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں، اس سے پہلے تم بھی ایسے ہی تھے تو اللہ نے تم پر احسان فرمایا۔ پس خوب تحقیق کرلو، بیشک اللہ ہمیشہ اس سے جو تم کرتے ہو، پورا باخبر ہے۔
(سورہ نساء آئیت نمبر-94)

نیز فرمایا:

 يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَكُمۡ فَاسِقٌ ۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِيۡبُوۡا قَوۡمًا ۢ بِجَهَالَةٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو ، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہوجاؤ۔
(سورہ الحجرات، آئیت نمبر 6)

*ہمیں دین اسلام میں کوئی بات بغیر تحقیق (اور حوالے) کے خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی ہو، اسے ماننے اور اسے آگے پھیلانے سے منع کیا گیا ہے،بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اسکی تحقیق کریں اور اگر ہمیں سمجھ نا آئے تو ہم اسے علماء کے سامنے پیش کر کے اس کا حکم معلوم کریں۔*

فرمان باری تعالیٰ ہے:

 وَاِذَا جَآءَهُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَـوۡفِ اَذَاعُوۡا بِهٖ‌ ۚ وَلَوۡ رَدُّوۡهُ اِلَى الرَّسُوۡلِ وَاِلٰٓى اُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡهُمۡ لَعَلِمَهُ الَّذِيۡنَ يَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَهٗ مِنۡهُمۡ‌ؕ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّيۡطٰنَ اِلَّا قَلِيۡلًا ۞
ترجمہ:
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
(سورہ نساء آئیت نمبر-83)

نیز فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
 كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ  (صحيح مسلم حدیث نمبر_5)
کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘

ایک جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ
کہ تمہارے لیے سنی سنائی باتوں کو ناپسند کیا گیا ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر_5975)

تو خلاصہ یہ ہے کہ ایسی کسی بات کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے جب تک کوئی شخص اپنی بات کو قرآن کریم یا صحیح حدیث مبارکہ کے ریفرنس سے ثابت نہ کرے۔اور یہ بات تو سب کو علم ہے کہ ضعیف روایات بھی ہوتی ہیں اور موضوع بھی۔ اور خاص کر آجکل سوشل میڈیا کے دور میں اس طرح کی من گھڑت باتوں کا طوفان برپا ہے،

محدثین کرام اور صحابہ کرام حدیث کے بارے میں بڑی احتیاط کرتے تھے،
امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح مسلم میں سب سے پہلے باقاعدہ  اس بارے باب باندھا ہے کہ احادیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے،اور ضعیف راویوں سے بچنا چاہیے اور اس میں کچھ روایات بھی لائیں ہیں،

حضرت عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ نے فرمایا : بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے ، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ ( پر مبنی ) کوئی حدیث سناتا ہے ، پھر وہ بکھر جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے : میں نے ایک آدمی سے ( حدیث ) سنی ہے ، میں اس کا چہرہ تو پہنچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا ، وہ حدیث سنا رہا تھا
(صحيح مسلم | الْمُقَدِّمَةُ :  | بَابٌ :
النَّهْيُ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنِ الضُّعَفَاءِ وَالْاحْتِيَاطُ فِي تَحَمُّلِهَا، حدیث نمبر_1)

محمد بن ابی عتاب نے کہا :
مجھ سے عفان نے محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے حدیث بیان کی ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، کہا : ہم نے نیک لوگوں( صوفیا) کو حدیث سے بڑھ کر کسی اور چیز میں جھوٹ بولنے والا نہیں پایا ۔ ابن ابی عتاب نے کہا : میں محمد بن یحییٰ بن سعید قطان سے ملا تو اس ( بات کے ) بارے میں پوچھا ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا : تم اہل خیر ( زہد و ورع والوں ) کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹا نہیں پاؤ گے
(صحیح مسلم،مقدمہ حدیث نمبر-1)

آج بھی یہی حال ہے کہ کچھ علماء ویسے جھوٹ بولنے سے بہت پرہیز کرتے ہیں مگر احادیث بیان کرنے میں خوب تحقیق سے کام نہیں لیتے، من گھڑت ضعیف روایات بیان کرتے چلے جاتے ہیں،

میری رائے میں کسی بھی بات کو وحی یا شریعت سمجھ کر قبول نہیں کرنا چاہئے خواہ اس کے سامنے (قرآن) یا (حدیث) ہی کیوں نہ لکھا ہو، جب تک اصل سورس کا حوالہ نہ دیا جائے اور اگر وہ بات قرآن یا صحیحین کے علاوہ ہے تو جب تک محدثین سے اس کی صحت اور ضعف کا نقل نہ کیا جائے۔تب تک اسکو تسلیم نا کریں اور جب تسلی کر لیں تو اس پر عمل بھی کریں اور شئیر بھی کریں،

*آج کل رمضان کی آمد آمد ہے اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر یہ خبر عام کی جا رہی ہے اور اسے رمضان المبارک کا مبارک میسج سمجھ کر عوام بھی بڑے پیمانے پر شیئرکرتی جارہی ہے*

↩وہ میسج اس طرح سے ہے ۔ 

(( *مبارک ہو مئی کی فلاں تاریخ کو رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے* ۔ 
*حضرت محمدؐ نے ارشاد فرمایا ! جس نے سب سے پہلے کسی کو رمضان کی مبارک دی اس پر جنت واجب ہو گئی ایک بار درود پاک پڑھ کر آگے شیئرزکریں*  ))

یہ  میسیج لوگوں میں اس قدر شیئر کیا گیا کہ عربی بولنے والے بھی اس سے متاثر ہوگئے اور عربی زبان میں بھی اس کا مفہوم بیان ہونے لگا

،وہ اس طرح سے ہے
(( *من أخبر بخبر رمضان أولا حرام عليه نار جهنم* ))
یعنی جس نے سب سے پہلے رمضان کی خبر دی اس پر جہنم کی آگ حرام ہوگئی ۔ 

 اس عربی عبارت کو لوگوں نے حدیث رسول سمجھ لیا جبکہ کسی نے وہی اردو والی بات عربی میں ترجمہ کردیا تھا یا یہ بھی ممکن ہو کہ کسی عربی بولنے والے نےپہلے عربی زبان میں اس بات کو گھڑ کر پھیلایا ہو اور پھر اسے اردو ہندی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہو
بہرکیف!
اتنا تو طے ہے کہ یہ میسج بہت ہی گردش میں ہے تبھی تو کئی زبانوں میں یہ بات مشہور ہوگئ،

اس میسج کے متعلق ہم لوگوں کو چند باتوں کی خبر دینا چاہتے ہیں

*پہلی بات*
  یہ میسج جھوٹا ہے اسے کسی بے دین ملحد نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے اور ہمارے ایمان وعقیدے کو خراب کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان شیئر کررہاہے ۔

یاد رکھئے جو کوئی نبی ﷺ کی طرف جھوٹی بات گھڑ کر منسوب کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے

نبی ﷺ کا فرمان ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میرے متعلق کوئی جھوٹی بات کہنا عام لوگوں سے متعلق جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے،
*مَنْ كَذَبَ عَلَي مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ* جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے
(صحیح البخاري:1291)
(صحیح مسلم:933)

اور جو کوئی کہے کہ جی
مجھے تو پتا نہیں تھا میں نے کونسا جان بوجھ کر جھوٹ پھیلایا،

تو اسکے لیے یہ ہے کہ
جو بلاتحقیق کوئی بات آنکھ بند کرکے شیئر کرتے چلے جاتے ہیں وہ بھی اس جھوٹے کے جھوٹ میں شامل ہوجاتے ہیں۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے :​
كفى بالمرءِ كذبًا أن يُحَدِّثَ بكلِّ ما سمِع(صحيح مسلم ،5)
ترجمہ: کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے

اس لئے مسلمانوں کو سوشل میڈیا پہ آئی چیزوں کی پہلے تحقیق کرلینی چاہئے پھر اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہئے کہ آیا یہ خبر سچی یا جھوٹی ؟ تحقیق سے جو بات سچی ثابت ہوجائے اسے ہی شیئر کریں اور جس کے متعلق آپ کو معلوم نہیں یا تحقیق سے جھوٹا ہونا ثابت ہوگیا تواسے ہرگز ہرگز کسی کو نہ بھیجیں،

*دوسری بات*
 دین کے متعلق خوشخبری سنانے والا صرف اور صرف اللہ کے پیغمبر ہیں اور پیغمبر ہی کسی کو ڈراسکتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے،
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (الاحزاب:45)
ترجمہ: اے نبی ! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے ۔

اس لئے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کوئی بات گھڑ کر اس پر خوشخبری سنائے ۔ بہت سارے میسج میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ میسج بیس لوگوں کو بھیجو تو مالا مال ہو جاؤ گے اور اگر نہیں بھیجا تو فقیر بن جاؤگے ۔ دوسرا فقیر ہو نہ ہو جھوٹا میسج گھڑنے والا نیکی ضائع کرکے خود فقیر و قلاش ہوگیا۔ ایسے فقیروں کا میسج بھیج آپ بھی فقیر نہ بنیں ۔ اور آج سے یہ طے کرلیں کہ بیس آدمی ،تیس آدمی کو بھیجنے والی ہربات جھوٹی ہے،

*تیسری بات* :
جنت وجہنم اللہ کی طرف سے ہے ، نبی ﷺ صرف ہمیں خبر دینے والے تھے جو بذریعہ وحی آپ کے پاس آتی تھی کہ فلاں جنتی ہے ، فلاں کام کرنے پر جنت ہے ، فلاں کام کرنے والا جہنم رسید ہوگا ۔ جب نبی ﷺ کو یہ اختیار نہیں تھا تو جو لوگ جھوٹی بات گھڑ پر جنت کی بشارت یا جہنم کی خبر دیتے ہیں کتنے بڑے مجرم ہیں ؟ آپ ایسے مجرموں کی جھوٹی خبریں شائع کرکے اس کے بدترین جرم میں شمولیت اختیار نہ کریں ۔ 

*چوتھی بات*
آج کل سوشل میڈیا پہ اسلام کی غلط ترجمانی کی جارہی ہے ، طرح طرح سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کئے جارہے ہیں ،قرآن وحدیث کا نام لیکر ہمیں دھوکا دیا جارہاہے ، جھوٹی باتوں کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرکے پھیلائی جارہی ہیں،اس لئے ہمیں بہت محتاط رہنا ہے اور اسلام کے خلاف ہو رہی غلط ترجمانیوں کا سد باب کرنا ہے ۔ ہم سدباب کرنے کے بجائے پروپیگنڈے کو مزید ہوا دینے لگ جاتے ہیں۔ نبی ﷺ کی طرف منسوب کوئی خبر یا اسلام اور قرآن وحدیث سے متعلق کوئی بھی بات بغیر تحقیق کے آگے شیئر نہ کریں اور نہ ہی آپ کوئی ایسی بات اپنی طرف سے لکھ کر پھیلائیں جس کے متعلق آپ کو صحیح سے معلوم نہیں ،وہی بات لکھیں جو متحقق طور پر آپ کو معلوم ہے اور ساتھ میں مکمل حوالہ درج کریں تاکہ دوسروں کے لئے اس بات کی تحقیق کرنا آسان رہے،

*پانچویں بات*

آج سوشل میڈیا پر لوگ ہر پیغام اور خبر کو کو بغیر سوچے سمجھے صرف کلک کر کر کے شیئر کرتے رہتے ہیں جو کہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے کا ہی ایک قسم ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنی کلک کی حفاظت کرنی چاہئے کہ کہیں ہم بھی جھوٹوں میں شامل نہ ہوجائیں

اور پھر جھوٹ‘ جعلی خبریں اور افواہیں پھیلانا مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے،

 آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں‘‘ ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-10)

لہذا ہر مسلمان کو بذات خود یا حکومتی و مذہبی ذمہ دار افراد یا قابل اعتماد ذرائع ابلاغ وغیرہ کے ذریعے تحقیق و تصدیق کا ٹھوس موقف اپنانا چاہئے اور کسی بھی خبر یا پیغام کو شیئر کرنے میں جلد بازی سے بچنا چاہئے

کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
’’ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے ‘‘
(الحجرات : 6)​

اور آپ ﷺ نے بھی جلد بازی کے بارے میں فرمایا:
التَّأَنِّي مِنَ اللهِ والعَجَلَةُ مِنَالشيطانِ،
 ’’ کہ متانت (سوچ سمجھ کر کام کرنا)  اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے‘‘۔
(الألباني صحيح الترغيب 2677 • حسن)

لہذا کتاب و سنت کی اِن تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بغیر سوچے سمجھے کسی بھی خبر یا پیغام ( خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی ہو) کو کلک کرکے شیئر کرنے کی جلد بازی سے بچنا چاہئے‘ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور سچے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہئے کیونکہ یہی اللہ کا حکم ہے:

’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہمیشہ سچے لوگوں کے ساتھ رہو ‘‘
(التوبة : 119)​

ہر مسلمان کو ہر وقت اللہ سبحانہ و تعالٰی کی اس وعید کو یاد رکھنا چاہئے:

اللہ فرماتے ہیں
’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے
(الإسراء : 36)​

اسی طرح’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اور سچ بولنے کو لازم کر لو اس لیے کہ سچ بھلائی اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4989)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6094)

اور یہ بھی فرمانِ باری تعالی ہے:
وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (فرشتہ لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے ‘‘
(سورہ ق آئیت نمبر : 18)

پس اگر ہر مسلمان یہ یقین کر لے کہ اس کے ہر قول و فعل کو لکھنے والا ایک نگہبان تیار رہتا ہے تو وہ کوئی بھی گناہ کا کام نہ کرے‘کوئی بھی خبر یا پیغام بغیر تحقیق و تصدیق کے شیئرکرکے جھوٹا نہ بنے۔

*جھوٹی خبر پھیلانے کا عذاب*

نبی رحمت ﷺ کو خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک شخص گدی کے بل چت لیٹا ہوا ہے اور ایک دوسرا شخص لوہے کا آ نکڑا لئے اسکے جبڑے کو ایک طرف چیرتا ہے یہاں تک کہ گدی تک چیر دیتا ہے اور اسکے نتھنے اور آنکھ کو بھی گدی تک چیر دیتا ہے پھر وہ اسکے چہرے کی دوسری جانب آتا ہے اور وہی عمل کرتا ہے جو اس نے پہلی جانب کیا تھا ، ابھی وہ ایک جانب سے فارغ نہیں ہوتا کہ پہلی جانب پہلے کی طرح صحیح ہو جاتی ہے ، وہ پھر اسکی طرف آتا ہے اور وہی کچھ کرتا ہے جو پہلی مرتبہ میں کیا تھا ۔ جب آپ ﷺ نے اس دردناک سزا کا سبب دریافت کیا تو بتایا گیا کہ یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور جھوٹ بولتا جسے لوگ نقل کرتے اور وہ دنیا کے کنارے تک پہنچ جاتی ، بس اس شخص کے ساتھ قیامت کے دن تک یہ معاملہ کیا جاتا رہے،
( صحیح بخاری حدیث نمبر-7047)

*لہذا اس فتنے کے دور مین فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی جھوٹ‘ جعلی خبروں اور افواہوں جیسے فتنوں سے اور ان فتنوں کی وجہ سے پھیلنے والے جھوٹ، فحاشی‘ فسادات‘ بغاوت و دہشتگردی وغیرہ سے اپنے آپ کو‘ اپنے اہل و عیال کو اور ملک و ملت کو بچانے کیلئے کتاب و سنت کی ان جامع تعلیمات کو سیکھنے‘ سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے*

*اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں اسلام کی ہر تعلیمات کو سیکھنے‘ سمجھنےاور ان پر عمل کرنے کی توفیق دیں،آمین*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//

https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS