Masjid Me Kis Chij Ki Alounce Kar Sakte Hai Aur Kis Bat Ko Nahi?
السلام وعلیکم ورحمةاللہ وبرکاة۔
سوال: کیا کسی کے موت کا اعلان مسجد میں اسپئیکر پر دیا جاسکتا ہے۔ ؟
جزاکم اللہ وخیر۔
۞ابن عمر۞
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
جی ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ محض جنازے کی اطلاع دے دی جائے۔ لیکن طریقہ جہالت"نعی" ممنوع ہے
عربی زبان میں موت کی اطلاع دینے یا اعلان کرنے کے لیے لفظ نعی استعمال ہوتا ہے ۔
[ القاموس المحیط/ صفجہ 1726/ البھایةلابن الاثیر ( 86 - 85/5 ) ]
حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے کہ
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ الْعَبْسِيُّ، عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَى الْعَبْسِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: إِذَا مِتُّ فَلَا تُؤْذِنُوا بِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنِ النَّعْيِ . هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انہوں نے کہا: جب میں مر جاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بات «نعی» ہو گی۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «نعی» سے منع فرماتے سنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حسن : صحیح الترمذی :786 /کتاب الجنائز
ترمذی : 986
احمد : 406/5
ابن ماجہ : 1476
بیھقی : 74/4
ابن ابی شیبہ : 274/3
واضح رہے کہ جس نعی سے شریعت نے منع کیا ہے وہ اہل جاہلیت کا طریقہ ہے ، جس کی صورت یہ تھی کہ لوگ موت کی اطلاع دینے والوں کو بھیجتے جو گھروں کے دروازوں اور بازاروں میں اعلان کرتے ( اس میں نوحہ ہوتا اور میت کے افعالِ حمیدہ کا بیان ہوتا ) علاوہ ازیں محض کسی کی وفات کی اطلاع دینا مباح و درست ہے ۔
جنازے کی کتاب / حافظ عمران ایّوب لاہوری حفظہ اللہ
پہلی بات یہ ہے کہ: میت کی موت کا اعلان نعی (موت کی خبر کا ممنوعہ طریقہ) کی شکل میں دینا جائز نہیں ہے، اگر رشتہ داروں اور احباب ومتعلقین کو نماز جنازہ پڑھنے اور تدفین وغیرہ میں شریک ہونے کے لئے خبر دی جائے تو یہ جائز ہے، یہ ممنوع نعی میں سے نہیں ہے، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے نجاشی کی موت کی خبر دی اور نماز جنازہ بھی پڑھی۔دوسری بات یہ ہے کہ: موت وغیرہ کے اعلان کے لئے مسجد کے اندر مخصوص بورڈ بنانا مناسب نہیں ہے، کیونکہ مسجدیں ان چیزوں کے لئے نہیں بنائی جاتیں۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⛔ چیز یا بچے یا جانور کا اعلان
چیز یا بچے یا جانور کا اعلان مسجد میں کرنا شرعاً درست نہیں ہے ۔اور نہ اشیاء کی خریدوفروخت کا اعلان مسجد میں کرنا جائز ہے۔حدیث میں ہے کہ''اگر کوئی شخص مسجد میں اپنی گم شدہ چیز کا اعلان کرتا ہے۔تو اس کا جواب بایں طور پر دیا جائے کہ:
''اللہ سے تیرے پاس واپس نہ کرے''ا س کی وجہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ:
''مساجد اس کام کے لئے نہیں بنائی گئیں۔''(مسلم کتاب المساجد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جو لوگوں سے اپنے گم شدہ اونٹ کے متعلق دریافت کررہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اللہ کرے تو اپنے اونٹ کو نہ پائے کیونکہ مساجد جن مقاصد کے لئے بنائی گئی ہیں۔انہیں کے لئے ہیں۔''(صحیح مسلم کتاب المساجد)
بلکہ واضح طور پر اس کے متعلق حکم امتناعی وارد ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گم شدہ اشیاء (حیوانات وغیرہ) کو مساجد میں تلاش کرنے اور اس کے متعلق دریافت کرنے سے منع فرمایا ہے۔(ابن ماجہ کتاب المساجد)
حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں خریدوفروخت کرتا ہے تو اس کے حق میں یہ خریدوفروخت سو د مند نہ ہونے کی بد دعا کی جائے اسی طرح اگر کوئی مسجد میں اپنی گم شدہ چیز کے متعلق اعلان یا دریافت کرتا ہے۔تو اسے کہا جائے کہ اللہ کرے تجھے وہ و اپس نہ ملے۔
ان احادیث میں اگرچہ لفظ''ضالۃ'' استعمال ہوا ہے۔جو صرف گمشدہ حیوانات کے لئے ہے۔ لیکن اس کے منع ہونے کی جو علت بیان کی گئی ہے۔اس کے پیش نظر امتناعی حکم ہر گم شدہ چیز کے لئے خواہ وہ جانور ہو یابچہ وغیرہ البتہ جنازہ کا اعلان مسجد میں کیا جاسکتا ہے۔کیوں کہ یہ اعلام ہے۔یعنی دوسروں کو اطلاع دینا ہے۔اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ یہ اطلاع ایک دفعہ کردی جائے بار بار پورے شجر ونسب کے ساتھ اعلان کرنا درست نہیں اسی طرح اگر کوئی چیز مسجد کے اندر گم ہوجائے یا کسی کو ملے تو اس کا اعلان مسجد کے نمازیوں میں کیا جائے۔
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد 1/ صفحہ 90
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی اشیاء کا اعلان کرنا جو احاطہ مسجد سے باہر گم ہوئی ہوں
مسجد میں بذریعہ لاؤڈ سپیکر ایسی اشیاء کا اعلان کرنا جو احاطہ مسجد سے باہر گم ہوئی ہوں/ یا اگر مسجد کے احاطہ میں بذریعہ لاؤڈ سپیکر کوئی دکاندار اپنی اشیاء فروخت کرنے کا اعلان کرنا /اور اس طرح اعلان کرانے کا ہدیہ وصول کیا جائے
حدیث میں (ضالَّه) (گم شدہ جانور) کا اعلان مسجد میں کرنا صراحتا ً منع فرمایا ہے اور لُقطہ یعنی غیر جاندار گم شدہ چیز کا ذکر حدیث میں صراحتا ً نہیں، لیکن جو چیز مسجد سے باہر گم ہوئی ہو مسجد میں اس کے اعلان کا وہی حکم ہے جو (ضالَّه) کا ہے۔ کیوں کہ مسجد میں (ضالَّه) کا اعلان منع ہونے کی وجہ حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں ہیں، یہ وجہ غیر جاندار میں بھی موجود ہے۔ ہاں جو چیز مسجد میں گم ہوئی ہو، اس کے متعلق غالب ظن یہی ہوتا ہے۔ کہ مسجد کے نمازیوں میں سے کسی کے ہاتھ آئی ہو گی۔ اور اعلان خواہ لاؤڈ سپیکر پر ہو یا اس کے بغیر اس سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، یعنی اعلان بغیر لاؤڈ سپیکر کے ناجائز ہے وہ لاؤڈ سپیکر پر بھی ناجائز ہے۔ جب (ضالَّه) اور لُقطہه جو مسجدسے باہر ہو اس کا اعلان مسجد میں ناجائز ہے تو فروختگی اشیاء کا اعلان مسجد میں کیسے جائز ہو گا؟ اور جب اعلان ناجائز ہوا تو اس پر کرایہ لینا اور اس کو مسجد پر صرف کرنا بھی ناجائز ہوگا۔
ہاں اس کی یہ صورت ہو سکتی ہے۔ کہ لاؤڈ سپیکر یا مسجد کی کوئی چیز، شامیانہ وغیرہ باہر لے جا کر کرایہ پر استعمال کرے اور وہ کرایہ مسجد پر صرف کیا جائے ۔ تو کوئی حرج نہیں۔
(نوٹ) یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فروختنی اشیاء دو طرح کی ہیں۔ ایک دینی اور ایک دنیوی۔ جیسے کوئی بات لکھے اور اس کا اعلان مسجد میں کر دے تو یہ دینی تبلیغ ہے۔ اس کی اجازت ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ مسجدیں دین کے لیے ہیں۔ چنانچہ آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی فوج وغیرہ بھیجنی ہوتی یا اور کسی قسم کا کوئی دینی کام ہوتا، تو اس کا اعلان مسجد میں خطبہ کے اندر فرما دیتے۔
صرف یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس میں اپنا ذاتی مفاد بھی ہے۔ مگر یہ مفاد بالتبع ہے۔ اصل مقصد نہیں۔ اس کو ایسا ہی سمجھنا چاہیے، جیسے جنگ میں مالِ غنیمت یا دیگر مفادات کی
امید رکھی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد اعلاء کلمۃ اللّٰہ ہے اور مال کی امید بالتبع ہے۔ اس لیے یہ چیز نقصان دہ نہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل/جلد 02