find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Mehman Nawaji Ke Mutalluq Kuchh Zaeef Hadees

Mehman Nawaji Ke Mutalliq Kucch Mangharat Hadees

ایک عورت رسول کے پاس آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کی کہ وہ بہت زیادہ اپنے دوستوں کو گھر دعوت دیتا رہتا ہے اور وہ تھک جاتی ہے کھانے بنا بنا کے اور ان کی مہمانداری میں ۔
رسول ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا اور وہ عورت واپس چلی گئی ۔
کچھ دیر بعد رسول ﷺ نے اس عورت کے شوہر کو بلوایا اور فرمایا ، " آج میں تمہارا مہمان ہوں ۔" وہ آدمی بہت خوش ہوا اور گھر جا کے اپنی بیوی کو بتایا کہ رسول الله ﷺ آج ہمارے مہمان ہیں " اس کی بیوی بیحد خوش ہو گئی اور وقت لگا کر محنت سے ہر اچھی چیز تیار کرنے جوٹ گئی اپنے سب سے معزز مہمان رسول ﷺ کے لئے ۔
اس زبردست پر تکلف دعوت کے بعد رسول ﷺ نے اس شخص سے کہا کہ 'اپنی بیوی سے کہنا کہ اس دروازے کو دیکھتی رہے جس سے میں جاوں گا '۔ تو اس کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور دیکھتی رہی کہ کس طرح رسول ﷺ کے گھر سے نکلتے ہی آپ کے پیچھے بہت سے حشرات ، بچھو اور بہت سے مہلک حشرات بھی گھر سے باہر نکل گئے اور یہ عجیب و غریب منظر دیکھ کر وہ بے ہوش ہو گئی ۔
جب وہ رسول ﷺ کے پاس آئی تو آپ نے فرمایا کہ " یہ ہوتا ہے جب تمہارے گھر سے مہمان جاتا ہے ، تو اپنے ساتھ ہر طرح کے خطرات ، مشکلات اور آزمائشیں اور مہلک جاندار گھر سے باہر لے جاتا ہے ، اور یہ اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ جو تم محنت کر کے اس کی خدمت مدارت کرتی ہو ۔"
جس گھر میں مہمان آتے جاتے رہتے ہیں الله اس گھر سے محبت کرتا ہے ۔
اس گھر سے بہتر اور کیا ہو کے جو ہر چھوٹے بڑے کے لے کھلا رہے۔ ایسے گھر پر الله کی رحمت اور بخشیش نازل ہوتی رہتی ہیں ۔
رسول ﷺ نے فرمایا ، "جب الله کسی کا بھلا چاہتے ہیں تو ، اسے نوازتا ہے , انہوں نے پوچھا ، " کس انعام سے ؟ اے الله کے رسول ﷺ ؟" آپ نے فرمایا ، " مہمان اپنا نصیب لے کر آتا ہے ، اور جاتے ہوئے گھر والوں کے گناہ اپنے ساتھ لے جاتا ہے ۔ "
میرے عزیزو ! جان لو کہ مہمان جنت کا راستہ ہے ۔ رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ ، " جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کے ساتھ بے لوث ہو ۔"
یہ جھوٹی اور منگھڑت وڈیو ملاحظہ فرمائیے
اس وڈیو میں مذکور واقعہ بے اصل و بے سند ہے ۔ اسکی کوئی حقیقت نہیں اور ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ علماء کرام نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے ۔ نیز یہ واقعہ اپنے مفہوم میں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
مہمان کی عزت و تکریم کے حوالے سے صحیح حدیث موجود ہے
سنن ترمذي /حدیث نمبر: 1967
كتاب البر والصلة عن رسولﷺ / نیکی اور صلہ رحمی
باب مَا جَاءَ فِي الضِّيَافَةِ وَغَايَةِ الضِّيَافَةِ كَمْ هُوَ/مہمان نوازی کا ذکر اور اس کی مدت کا بیان۔
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي شريح العدوي، انه قال:‏‏‏‏ ابصرت عيناي رسول الله صلى الله عليه وسلم وسمعته اذناي حين تكلم به، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته "، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ وما جائزته؟ قال:‏‏‏‏ " يوم وليلة، ‏‏‏‏‏‏والضيافة ثلاثة ايام، ‏‏‏‏‏‏وما كان بعد ذلك فهو صدقة، ‏‏‏‏‏‏ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليسكت "، ‏‏‏‏‏‏قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح.
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث بیان فرما رہے تھے تو میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا اور کانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے“، صحابہ نے عرض کیا، مہمان کی عزت و تکریم اور آؤ بھگت کیا ہے؟➊ آپ نے فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات، اور مہمان نوازی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ صدقہ ہے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے“ ۔➋
سنن ترمذي /حدیث نمبر: 1967
كتاب البر والصلة عن رسولﷺ / نیکی اور صلہ رحمی
باب مَا جَاءَ فِي الضِّيَافَةِ وَغَايَةِ الضِّيَافَةِ كَمْ هُوَ/مہمان نوازی کا ذکر اور اس کی مدت کا بیان۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۳۱ (۶۰۱۹) و ۸۵ (۶۱۳۵)، والرقاق ۲۳ (۶۴۷۶)، صحیح مسلم/الإیمان ۱۹ (۴۸)، سنن ابی داود/ الأطعمة ۵ (۳۷۴۸)، سنن ابن ماجہ/الأدب ۵ (۳۶۷۵) (تحفة الأشراف: ۱۲۰۵۶)، وط/صفة النبي ﷺ ۱۰ (۲۲)، و مسند احمد (۴/۳۱)، و (۶/۳۸۴)، وسنن الدارمی/الأطعمة ۱۱ (۲۰۷۸) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3675)
◈ وضاحت:
➊ یعنی کتنے دن تک اس کے لیے پرتکلف کھانا بنایا جائے۔
➋اس حدیث میں ضیافت اور مہمان نوازی سے متعلق اہم باتیں مذکور ہیں، مہمان کی عزت و تکریم کا یہ مطلب ہے کہ خوشی سے اس کا استقبال کیا جائے، اس کی مہمان نوازی کی جائے، پہلے دن اور رات میں اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کیا جائے، مزید اس کے بعد تین دن تک معمول کے مطابق مہمان نوازی کی جائے، اپنی زبان ذکر الٰہی، توبہ و استغفار اور کلمہ خیر کے لیے وقف رکھے یا بےفائدہ فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے اسے خاموش رکھے۔
لہٰذا ایسی بے سند اور سنی سنائی باتوں کو اختیار کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے ۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے۔‘‘
( صحیح مسلم، مقدمہ )
فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Aurat Aur Mard Ke Mutalliq Hadees
Share:

Ghar Ki Burai Ko Na Rokne Walo Ka Anjaam.

Kaunse Teen Logo Par Jannat Haram Hai?
بسْــــــــــــــمِﷲِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
Hadith Aisa Mard Jo Apne Ghar Ke Andar Burayee Ko Nahin Rokta Hai Us Par Jannat Haram Hai.
Rasoollallah Sαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм Ne farmaya
Teen (3) Tarah Ke Logon Par Allah Subhanahu Ne Jannat Haram Kar Diya Hai,
1. Sharab Ka Aadi,
2.  Waledain (Maa-Baap) Ka Nafarman, Aur
3 Wo Dayyus Jo Apne Ghar Ke Andar Burayee Ko Nahin Rokta Hai
📚Musnad Ahmad : 9975 Sahih
___________________________________
رسول الله صلی علیہ وسلم نے فرمایا  تین افراد ہیں، اللہ سبحانه نے ان پر جنت کو حرام قرار دیا ہے، شراب پر ہمیشگی اختیار کرنے والا، والدین کا نافرمان اور وہ دیوث جو اپنے گھر کے اندر برائی کو نہیں روکتا ہے- 
📚مسند احمد ٩٩٧٥-صحیح 
Rasoollallah Sαℓℓαℓℓαнυ αℓαyнє ωαѕαℓℓαм Said.
Three Types Of People Allah Subhanahu Have Forbidden From Entering Paradise,
1. Addicted To Alcohol,
2. Disobeying His Parents And,
3  (Dayooth) The One Accepting And Happy With (Evil Deeds) In His Household.
📚Musnad Ahmad : 9975 Sahih

Share:

Hmne To Apne Baap Dada Ko Aeise Hi Karte Dekha (Mushrikeen-E-Makka)

"Hum Tou Baap-Dada Ke Deen Par Hi Chalenge." Iss bahaney Se Mushrikaan-e-Makkah Allah Ki Hidayat Ko Thukra Detey They.
__________________
Allah Raabul Izzat Mushriko Ki Hatdharmi bayan Karte hue Quraan Me Farmata Hai,
“Aur Jab Mushriko se Kaha Jaye Ki Allah Ke Utare(Hidayat) Par Chalo Tou Kahenge: Hum Tou usi pe Chalenge Jis Par Humne Apne Baap-Dada ko Paya, Agar Che unke Baap-Dada Na Kuch Aqal Rakhte Ho Na Hidayat."

[Surah(2)Baqrah; Aayat-170]

Afsos Ki Baat Hai Ke Aaj Humara Bhi Muamla Bhi Kuch Aisa Hi Hai Ke –
– Hum Bhi Apne Aaba-o-Azdad Ke Tareeko ko Kitabo Sunnat Par Tarzi De rahe Hai,
– Humse Bhi Jab Koi Kitabo Sunnat ki Baat Karta hai Tou Uska Mazak Udaya Jata hai,

Allah Ke Liye Jab Koi Quran-o-Hadees Ki Taraf Hume Bulaye tou Bagour uski Baate Suney
*Warna La-ilmi me Kahi Hum Uski Mukahliafat me iss Hadd Tak Aagey Na Badh Jaye
Jo Humari Musibat-Wa-Barbadi ka Bayis ho..!

Jiske Talluk Allah Rabbul Izzat nei Quraan Me Wajahat farmata Hai Ke:

“Aur Tum Par Jo Museebat Aati hai Wo Tumhare Hi Haatho ke Kiye huye Kaamo se Aati hai Jabki wo(Allah) Bahut se Gunaah Muaf Bhi Farma Deta hai.”
(Surah(42)Ash-Shura; Aayat-30)
Tou Behrhaal Jab Bhi Koi Kitabo-Sunnat Ki Hume Dawat Dey
Tou Hume Chahiye Ke Uspe Gour Kare
Aur Tassuf Ke Chasme Utaar Kar Mehaz Haq Ki Taraf Ruzu Karey.

In’sha’Allah-Ul-Azeez

Allah Ta’ala Hume Haq Sun’ne, Samjhne Aur Uss Par Amal Ki Taufiq Dey,

Humey Kitabo-Sunnat ka Muttabey Banaye,

Jab Tak Hume Zinda Rakhey Islam Aur Imaan Par Zinda Rakhye,

Khatma Humara Imaan Par Ho.
Aameen Yaa Musawwir

Wa Akhiru Dawana Anilhamdulillahe Rabbil A’lameen.

Share:

Musalman Bhai Ki Madad Karne Ki Fazilat

Musalman ki madad karne ki fazilat
Rasool-Allah ﷺ ne farmaya Jo shaksh apne bhai ki zarurat puri kare Allah subhanahu uski zarurat puri karega. Jo shaksh kisi musalman ki ek museebat ko dur kare Allah taala uski Qayamat ki museebaton mein se ek badi museebat ko dur farmayega, aur jo shaksh kisi musalman ke Aib ko chupaye to Allah taala Qayamat mein uskey aib ko chupayega.
📘Sahih Bukhari,Vol.3, 2442

Abdullah bin Umar Radi Allahu Anhu se rivayat hai Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi Wasallam ne farmaya agar main kisi musalman bhai ke Sath uski zarurat puri karne ke liye chalu to ye mujhe iss Masjid (Masjid e Nabwi) mein ek mahina Eitkaf mein baithne se zyada Mehboob hai.
📘Al-Slisila-As-Sahiha #209-Part 2

     ▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬
Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo
Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare.
JazakAllah  Khaira Kaseera

Share:

Jise Arabic Nahi Aati Ho wo Namaj Ager Padhna Chahe To Kaise Namaj Padhega?

Koi Gair Muslim Islam Qabool kare Aur use Arabic Juban Nahi Aati Ho To Wah Kaise Namaj Padhega.

نماز میں سجدہ میں دعا مانگتے ہیں۔ کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے کہ کہ عربی کے علاوہ کسی زبان میں دعا مانگ سکیں؟ اور حالت سجدہ مین نماز کے اندر کوئی بھی دعا مانگ سکتے ہیں؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ سسٹر میرا سوال ہے کہ کیا نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا کرنا جائز ہے
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ اپنے رب سے سجدہ میں قریب ہوتا ہے اس وقت رب سے کثرت سے مانگو
اب اگر کسی کو دعائیں عربی میں یاد نا ہوں تو وہ اپنی ربان میں دعا مانگ سکتا ہے ۔
اگر نہیں مانگ سکتا تو بھی وضاحت کریں
اگر مانگنے کا جواز ہے تو کیا فرض میں بھی یا نوافل میں ۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ معزز سسٹر اینڈ برادر
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ کے قریب ترین ہوتا ہے اور یہ موطن الاجابہ بھی ہے یعنی ایسی حالت ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے، ارشاد نبوی ہے:
عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: ''اقرب ما یکون العبد من ربہ و ھو ساجدفاکثروا الدعاء ''
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''بندہ اپنے رب کے قریب ترین اسوقت ہوتا ہے جسوقت وہ سجدے کی حالت میں ہولہذا سجدے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو''
صحیح مسلم، کتاب الصلاة باب ما یقال فی الرکوع و السجود رقم الحدیث :١١١١
ایک دوسری راویت میں ان الفاظ کی زیادتی بھی ہے:
''و اما السجود فاجتھدوا فی الدعاء فقمن ان یستجاب لکم''
ترجمہ: ''سجدے میں زیادہ سے زیادہ دعا کی کوشش کرو عین ممکن ہے کہ تمہاری دعا قبول ہو جائے''
صحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، باب النھی عن قراء ة القرآن فی الرکوع و السجود ، رقم الحدیث:١١٠٢
باقی رہا یہ مسئلہ کہ اپنی زبان میں دعا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس ضمن میں الشیخ مقبول احمدسلفی حفظہ اللہ کہتے ہیں 
سجدۂ نماز میں عربی کے علاوہ کسی بھی زبان میں دعاء بھی نہیں کرسکتا۔عربی زبان میں دعا کیلئے بہتر اور افضل عمل یہی ہے کہ نماز میں بھی اپنی حاجات کو انہی دعاوں کی صورت میں اللہ کے حضور پیش کیاجائےجو سنت میں موجود ہوں۔بعض اہل علم نے کہا کہ جنہیں دعائیں وغیرہ یاد نہ ہو وہ فرض نماز کے سجدوں میں بھی اپنی زبان میں دعا مانگ سکتے مگر افضل یہی ہے کہ فرض نماز میں عربی کےعلاوہ غیر زبان میں دعا نہ مانگے جنہیں دعا یاد نہ ہو وہ یاد کرے اور یاد ہونے تک مندرجہ ذیل حدیث کے اذکار پڑھے
ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا: ميں قرآن مجيد سے كچھ ياد نہيں كرسكتا، لہذا آپ مجھے كوئى ايسى چيز ياد كرائيں جو ميرے ليے اس سے كفائت كر جائے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اكبر، لاحول ولاقوۃ الا باللہ .. كہو"(ابوداؤد)
لیکن اگر نفل نماز ہو تو سجدے کی حالت میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگ سکتے ہیں اور سجدے کی حالت میں دعا کا خاص اہتمام کرنا چاہئے ۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
فأما الركوع فعظموا فيه الرب واما السجود فاجتهدوا في الدعاء فقمن أن يستجاب لكم۔
جہاں تک رکوع کا معاملہ ہے تو اس میں اپنے رب کی تعظیم بیان کرو اور جہاں تک سجدے کی بات ہے تو اس میں دعا میں اہتمام کرو پس قریب و لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کی جائے گی۔
٭ اس روایت کو شیخ البانی نے صحیح الجامع :2746 میں ذکر کیا ہے
❖ • ─┅━━━━┅┄ • ❖
✍نماز کے اذکار و دعائیں مسنون پڑھنا افضل ہے ۔ لیکن اگر عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں دعاء کی جائے، تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی ہے، اور انسان کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں کی جانے والی جو دعائیں منقول ہیں ان کو تلاش کرے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ان دعاؤں کو ان کے اپنے اپنے مقام پر پڑھے
بہرحال وہ شخص جو عربی پڑھنے پر قدرت نہ رکھے تو وہ مذکورہ چیزیں سوائے فاتحہ کو اپنی زبان میں کہتا ہے کیونکہ فاتحہ اور قرآن کو عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں پڑھنا صحیح نہیں ہے، لہذا ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اس کی جگہ ( فاتحہ) سبحان اللہ الحمد للہ اور اللہ اکبر کہتا ہے؛ حديث عبد اللہ بن ابو اوفى رضی الله عنه کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ:
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا یا رسول اللہ! میں کچھـ بھی قرآن یاد نہیں کر سکتا اس لئے مجھـ کو کوئی ایسی چیز بتا دیجئے جو اس کے بدلہ میں میرے لئے کافی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پڑھو سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة الا بالله العلی العظيم۔
سنن نسائی،الافتتاح (924) ، سنن أبو داود،الصلاة (832) ، مسند أحمد بن حنبل (4/353)
اس حدیث کو احمد اور ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو ابن حبان اور دارقطنی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے،
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی/ فتاوی نمبر 5782/ 4211
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب لوگوں کو چاہیے کہ کتاب و سنت میں آنے والی دعاؤں کو اپنی دعا کا حصہ بنائیں؛ کیونکہ ان دعاؤں کی فضیلت، خوبصورتی اور ان کے صراطِ مستقیم پر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، علمائے کرام نے اور ائمہ دین نے شرعی دعائیں تفصیل سے بیان کرتے ہوئے بدعتی الفاظ والی دعاؤں کو مسترد کر دیا ہے اس لیے ان کی بتلائی ہوئی دعاؤں کو اپنی دعاؤں میں شامل کرنا چاہیے"
" مجموع الفتاوى " ( 1 / 346 - 348 )
لیکن خارج از نماز کسی بھی زبان میں دعا مانگی جا سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ اپنی مادری زبان میں دعا مانگنے پر دل و دماغ بھی دعا میں حاضر ہوں گے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دعا عربی یا غیر عربی زبان میں مانگنا جائز ہے، اللہ تعالی دعا مانگنے والے کے ارادے اور مقصد کو جانتا ہے، اگر دعا مانگنے والے کی زبان ہی سیدھی نہیں ہے تو اللہ تعالی آوازوں کے شور وغل میں مختلف زبانوں والوں کی الگ الگ ضروریات مانگنے کو بھی جانتا ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 22 / 488 – 489 )
اس سلسلہ میں الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ کہتے ہیں
اگر کوئی شخص قدرت نہ ركھے، يا پھر وقت نكل جانے كا خدشہ ہو اور اسے سورۃ فاتحہ كى ايك ہى آيت آتى ہو تو وہ اسے سات بار دھرائے كر نماز ادا كرلے.
اور اسى طرح اگر اسے اس سے زيادہ آيات ياد ہوں تو اس كى مقدار ميں دھرائے، اور يہ بھى محتمل ہے كہ وہ اس سورۃ كے علاوہ كسى اور سورۃ كى آيات پڑھ لے.
ليكن اگر اسے آيت كا كچھ حصہ ياد ہو تو اسے بار بار اور تكرار سے پڑھنا لازم نہيں، بلكہ وہ اسے چھوڑ كر كسى اور كو پڑھ لے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص كو جسے نماز صحيح طرح پڑھنى نہيں آتى تھى كو فرمايا كہ وہ " الحمد للہ " وغيرہ كہے، اور يہ آيت كا كچھ حصہ ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے يہ تكرار كے ساتھ پڑھنے كا حكم نہيں ديا.
اور اگر اسے سورۃ فاتحہ ميں سے كچھ بھى ياد نہ ہو، بلكہ قرآن كى كوئى اور سورۃ آتى ہو اگر طاقت ركھے تو اسى كو سورۃ فاتحہ كے حساب سے پڑھ لے، اس كے علاوہ كسى اور كو كافى نہيں ہوگا.
اس كى دليل ابو داود رحمہ اللہ تعالى كى درج ذيل حديث ہے:
رفاعہ بن رافع بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تو نماز كھڑا ہو، اگر كچھ قرآن ياد ہو تو وہ پڑھ لو، وگرنہ اللہ كى حمد بيان كرو، الحمد للہ، اور اس كى وحدانيت بيان كرتے ہوئے لا الہ الا اللہ كہو، اور اس كى تكبير بيان كرتے ہوئے اللہ اكبر كہو "
اور اس ليے بھى كہ يہ اس كى جنس سے ہے، تو يہ بالاولى پڑھا جا سكتا ہے، اور سورۃ فاتحہ كى آيات كى تعداد كے برابر پڑھنا واجب ہے...
نو مسلم خاتون کیلئے سورہ فاتحہ پڑھنا مشکل ہے، کیا کرے؟
سوال: میں انگلش زبان بولتی ہوں اور یہی میری مادری زبان ہے، میں عربی زبان سیکھ رہی ہوں اور میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد سورہ فاتحہ بھی سیکھ لی ہے ، لیکن پھر بھی کچھ حروف کی ادائیگی مجھے سے نہیں ہوتی، اور کچھ کا تلفظ غلط ہے، میں نے کسی فقہی کتاب میں پڑھا ہے کہ جو نماز کے کسی ایک حرف میں غلطی کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے، میں اپنی تلاوت درست کرنے کیلئے ریکارڈ شدہ تلاوت سنتی ہوں، لیکن اس کے باوجود میں غلطی کرتی ہوں، اب یہاں تک بات پہنچ چکی ہے کہ میں بہت پریشان ہوں، نماز میں کئی بار رک کر صحیح تلفظ ادا کرنے کی کوشش کرتی ہوں، اور متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ میں سورہ فاتحہ کو ایک سے زائد بار پڑھتی ہوں، مجھے کیا کرنا چاہے؟
جواب کا متن
الحمد للہ:
1- علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق سورہ فاتحہ کی تلاوت نماز کا رکن ہے، اور سورہ فاتحہ کی تلاوت امام، مقتدی، اور منفرد سب پر واجب ہے۔
چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص نماز پڑھتے ہوئے ام القرآن[سورہ فاتحہ کا نام] نہ پڑھے تو اسکی نماز ناقص ہے-آپ نے یہ بات تین بار فرمائی –ناقص ہے مکمل نہیں ہے)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں[تو کیا کریں؟] تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اپنے دل میں سورہ فاتحہ پڑھو"؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: میں نے نماز اپنے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے، اور میرے بندے کیلئے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے ، چنانچہ جب بندہ کہتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری حمد بیان کی"، اور جب بندہ کہتا ہے: اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری ثنا بیان کی"، اور جب بندہ کہتا ہے: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی -راوی کہتا ہے کہ(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ) ایک بار یہ بھی کہا:" میرے بندے نے سب معاملے میرے سپرد کر دیے"-، اور جس وقت بندہ کہتا ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے، اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو یہ مانگے گا"، پھر جب بندہ کہتا ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 8* صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ میرے بندے کی [فریاد ]ہے، اور میرے بندے کیلئے وہ سب کچھ ہے جو اس نے مانگا)مسلم: (395)
خداج کے معنی ناتمام کے ہیں اور نمازی کیلئے عربی زبان میں صحیح انداز سے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے؛ کیونکہ ہمیں قرآن مجید ایسے ہی پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے نازل ہوا ہے۔
2- جس کیلئے زبان میں کسی مسئلہ کی وجہ سے یا عجمی ہونے کی وجہ سے صحیح تلفظ ادا کرنا مشکل ہو تو ایسا شخص اپنی استطاعت کے مطابق عربی زبان سیکھے، اور تلفظ درست کرے۔
اور جو شخص ایسا کرنے کی استطاعت نہ رکھے تو اس سے یہ عمل ساقط ہو جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ کسی کام کا حکم نہیں دیتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اللہ تعالی کسی جان کو اسکی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں بناتا[البقرة : 286]
3- اور جو شخص بالکل سورہ فاتحہ نہیں پڑھ سکتا، یا سیکھنا اس کیلئے مشکل ہے، یا پھر ابھی اسلام قبول کیا اور نماز کا وقت ہوگیا ، اور اتنا وقت نہیں ہے کہ سورہ فاتحہ سیکھ لے، تو ایسے شخص کیلئے وضاحت حدیث کی روشنی میں درج ذیل ہے:
عبد اللہ بن ابو اوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:"اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی چیز سیکھا دیں جو میرے لئے قرآن کے بدلے میں کافی ہو، کیونکہ مجھے پڑھنا نہیں آتا"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ) [ترجمہ: اللہ پاک ہے، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں، اور اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، نیکی کرنے کی طاقت ، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر بالکل نہیں ہے]تو اس پر اس آدمی نے ہاتھ پکڑ کر کہا: "یہ تو سب میرے رب کیلئے ہے! میرے لئےکیا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم کہو: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي،وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِيْ) [یا اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے رزق عطا فرما، اور عافیت سے نواز]تو اس پر اس شخص نے دوسرے ہاتھ کیساتھ سہارا لیا اور کھڑا ہوکر چل دیا۔
نسائی: (924) ، ابو داود :(832)، اس حدیث کو منذری نے "الترغيب والترهيب" ( 2 /430 ) میں جید کہا ہے، اور "التلخيص الحبير" ( 1/236 ) میں حافظ ابن حجر نے اس کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر قرآن مجید صحیح طرح نہیں پڑھ سکتا ، اور نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے اسے سیکھانا بھی ممکن نہیں ، تو ایسے شخص پر " سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ " کہنا لازمی ہے ؛ کیونکہ ابو داود نے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:"اللہ کے رسول! میں قرآن مجید یاد نہیں کر سکتا، مجھے کوئی ایسی چیز سیکھا دیں جو میرے لئے قرآن کے بدلے میں کافی ہو"، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ) تو اس پر اس آدمی نے کہا: "یہ تو اللہ کیلئے ہے! میرے لئےکیا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم کہو: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَارْزُقْنِي، وَاهْدِنِي ، وَعَافِنِيْ)
پہلے پانچ کلمات سے زیادہ پڑھنا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی پانچ کلمات پر اکتفا کیا تھا، اور مزید کلمات اسے تب سیکھائے جب اس نے مزید سیکھانے کا مطالبہ کیا" انتہی
اوراگرسورہ فاتحہ کا کچھ حصہ پڑھ سکتا ہو، اور کچھ نہ پڑھ سکے تو جتنی سورہ فاتحہ آتی ہے، اتنی پڑھنا ضروری ہے، اور جتنی سورہ فاتحہ آتی ہے اسے اتنی بار دہرائے کہ سورہ فاتحہ کی سات آیات کے برابر ہوجائے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات کا بھی احتمال ہے کہ صرف " اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " کہنا ہی کافی ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اگر تمہیں قرآن یاد ہو تو اسے پڑھ لو، وگرنہ " اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " ہی کہہ دو) ابو داود"
" المغنی " ( 1 / 289 ، 290 )
اگر سورةالفاتحہ پڑھنے سے عاجز ہو تو کیا کرے ؟
آپ نے سورہ فاتحہ کے کسی حرف میں غلطی پر نماز کے باطل ہوجانے کے بارے میں پڑھا ہے، تو اس کے بارے میں شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ کی وضاحت یہ ہےکہ سورہ فاتحہ کی ہر غلطی سے نماز باطل نہیں ہوتی، چنانچہ نماز اسی وقت باطل ہوگی جب سورہ فاتحہ کا کوئی لفظ چھوڑ دیا، یا اعراب تبدیل کردیا جس سے معنی بدل جائے، مزید برآں نماز کے باطل ہونے کا حکم ایسے شخص کے بارے میں جو سورہ فاتحہ کی صحیح تلاوت کرسکتا ہو، یا صحیح تلاوت سیکھ سکتا ہو، لیکن پھر بھی وہ نہ سیکھے تو اسکی نماز باطل ہوگی۔
تاہم اپنی تلاوت کو درست کرنے سے عاجز شخص اپنی استطاعت کے مطابق سورہ فاتحہ پڑھے ، چنانچہ کسی غلطی کی صورت میں اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی جان کو اسکی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں دیتا، اور اہل علم کے ہاں یہ اصول مشہور و معروف ہے کہ عاجز شخص سے واجب ساقط ہو جاتا ہے"
دیکھیں: "المغنی": (2/154)
چنانچہ ایسی حالت میں اپنی استطاعت کے مطابق سورہ فاتحہ پڑھے، اورپھر اس کے بعد " سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ للَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكبَرُ " کہے تا کہ سورہ فاتحہ کا جو حصہ رہ گیا ہے اسکا عوض ہوجائے۔ دیکھیں: المجموع (3/375)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جو شخص سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے غلطیاں کرے تو کیا اس کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے ایسی غلطی کرنا جس سے معنی تبدیل نہ ہو تو ایسے شخص کی نماز چاہے وہ امام ہویا منفرد درست ہوگی۔۔۔ اور اگر ایسی غلطی ہو جس سے معنی تبدیل ہوجائے، اور غلطی کرنے والے شخص کو غلطی کا علم بھی ہو، مثلاً: صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتُ عَلَيْهِمْ [انعمت کی ت پر پیش پڑھے، اس سے معنی یہ ہوگا کہ: جن پر میں تلاوت کرنے والے نے انعام کیا] اور غلطی کرنے والے شخص کو معلوم ہو کہ [ت پر پیش پڑھنے سے ضمیر متکلم بن جاتی ہے] ، تو ایسی صورت میں اسکی نماز درست نہیں ہوگی، اور اگر غلطی کرنے والے کو علم نہیں ہے کہ اس سے معنی تبدیل ہو رہا ہے، اور اسکا نظریہ یہی ہے کہ "ت" پر زبر کیساتھ ضمیر مخاطب کی ہے، تو ایسے شخص کی نماز کے بارےمیں اختلاف ہے، واللہ اعلم"انتہی
مجموع الفتاوى (22/443)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Share:

Namaj Kaise Padha Jaye?

Namaj Kaise Padhe?
🍂🌿🍂🌿    ﷽    🌿🍂🌿🍂
Muhammad Sallallahu álayhi wa sallam ne farmaya!
Tum is tarah namaz padho jis tarah tum ne muhje namaz padhte deykha hai.

English
Messenger of Allah (ﷺ) said:

offer your prayers in the way you saw me offering my prayers,

[ Sahih al-Bukhari: 6008 ]
--------------------------------

Share:

Walid (Father) Ko Khush Rakhna Kaisa hAi?

WALID KI KHUSHI ME ALLAH KI KHUSHI Hai
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی نے فرمایا: والد کی خوشنودی میں رب کی خوشنودی ہے اور والد کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی ہے.

Abdullah bin Umar raziyallahu anhuma se riwayat hai ke Allah ke Nabi ne farmaya: walid ki khushi me Rab (Allah) ki khushi hai aur walid ki narazgi me Rab ki narazgi hai .
📚 TIRMIZI: 1899 📖
✅ SAHEEH HADESS

Share:

Aeise Momeen Ke Liye Dua Jisko Hmne Bura Kaha Ho.

Aise Momeen ke liye dua jisko humne kabhi bura kaha ho ya takleef di ho.
Abu Huraira Radi Alalhu Anhu se rivayat hai ki RasoolAllah Sallallahu Alaihi Wasallam ne is tarah dua farmayee

اللَّهُمَّ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
Allahumma Fa-Ayyuma Mumineen Sabbatuhu Faj'al Zalika Lahu Qurbatan ilaika Yaum-Al-Qayamah.

Eh Allah maine jis momeen ko bhi bura kaha ho (ya taklif di ho)  tu us baat ko uske liye Qayamat ke din apne qareeb hone ka  jariya bana de
Sahih Bukhari, Jild 7, Hadith 6361
------------
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دعا فرمائی

*اللَّهُمَّ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ*
اے اللہ میں نے جس مومن کو بھی برا کہا ہو  (یا تکلیف دی ہو) تو اس بات کو اس  کے لیے قیامت کے دن اپنے قریب ہونے  کا ذریعہ بنا دے۔
صحیح بخاری جلد ٧ حدیث  ٦٣٦١
-----------
اللَّهُمَّ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ*
Narrated Abu Huraira Radi Alalhu Anhu that he heard the Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi Wasallam said this supplication

*اللَّهُمَّ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ*
Allahumma fa Ayyuma Mumineen Sabbatuhu Faj'al Zalika Lahu Qurbatan ilaika Yaum-Al-Qayamah.

✦ O Allah  If I should ever abuse (or hurt) a believer, please let that be a means of bringing him near to You on the Day of Resurrection.
Sahih Bukhari, Book 75, Hadith 372
    ▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬
Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo.
Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare.
  🌹JazakAllah  Khaira Kaseera🌹

Share:

India Ke Musalmano ki Maji Aur Mustakbil.

Indian Muslim's Ke Haalat (Maji Aur Mustakbil Me)

مجہےرہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
✍ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
(تازہ ترین نیوزگروپ)
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم۔ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب"
ہمیں خود احتسابی سے کام لینا چاہئے ہم نے قومی اور ملی تاریخ میں کئی بھیانک غلطیاں کی ہیں اور ٹھوکریں کھائی ہیں ، اگر علت ومعلول کے درمیان تعلق درست ہے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی زار وزبوں حالت ان ہی غلطیوں کی وجہ سے ہوئی ہے جو ہم نے ماضی میں کی تھیں ،غلطیوں کا تذکرہ اگر چہ خوشگوار نہیں لیکن یہ آتش خانہ دل کی گرمی ہے جو فکر کو پگھلاکر روشنائی بنادیتی ہے اور پھریہ روشنائی کاغذ پر پھیل جاتی ہے ،خون دل کی روشنائی سے مضامین نقطہ نظر کو بدلنے کے لئے یا ان میں اصلاح کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ فکر جب تک درست نہیں ہوگی ہماری کوششوں کا رخ صحیح نہیں ہوگا۔ اچھے کردار کے سوتے ہمیشہ صحیح نقطہ نظرسے پھوٹتے ہیں، اس لئے اجتماعی معاملات میں اپنے نقطہ نظر کو درست رکھنا بہت ضروری ہے۔اگر ہم صرف ایک صدی کی غلطیوں کی بے حد مختصر فہرست بندی کریں گے تو ہمیں چار مہلک غلطیاں نظر آئیں گی ، پہلے نمبر پرپاکستان کی تشکیل کو رکھنا پڑے گا۔ اگر چہ اس غلطی میں برادران وطن کی غلطیوں اور ناروا سلوک کا بھی ہاتھ ہے *لیکن مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے آیا تھا* اور وہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’ شامل ہے مرا خون جگر تیری حنا میں ‘‘جنہوں نے پاکستان بنایا تھا وہ پاکستان جاچکے ، اب یہ قصہ ماضی ہے۔ لیکن برادران وطن کے دلوں میں اس کا زخم تازہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی دیوار اب بھی حائل ہے۔اور اس دیوار کے اذیت ناک سایے آج بھی مسلمانوں پر پڑتے ہیں اور اذیت پہونچاتے ہیں۔
*دوسری مہلک غلطی جو مسلمانوں نے کی وہ بابری مسجد کی بازیابی سے متعلق تھی* بابری مسجد کا مسئلہ ۱۹۹۰ کے آس پاس کوہ آتش فشاں بن گیا تھا اور اب بھی ہم کوہ آتش فشاں کے دہانے پر ہیں ، اس کے سلسہ میں مولانا علی میاں اور مولانا عبد الکریم پاریکھ اور یونس سلیم صاحب سابق گورنربہار غیر مسلموں اور برادران وطن کے مذہبی قائدین سے مل کر مسئلہ کے حل تک پہونچ گئے تھے مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے مسٹر چندر شیکھر کے کہنے پرمولانا علی میاں کا نام تجویز ہوا تھاجنہوں نے پورے ملک میں پیام انسانیت کی تحریک چلائی تھی، ہندو اکثریت کی نمائندگی کے لئے کانچی پورم کے شنکر آچاریہ کا نام تجویز کیا گیا تھا وی پی سنگھ نے زمین کے سلسلہ میں آرڈننس پاس کردیا تھا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا ، آندھرا پردیِش کے گورنر کرشن کانت صاحب جو بعد میں نائب صدر جمہوریہ ہوئے اور جینی مذہب کے سوشیل منی اور ہندووں کے سب سے بڑے گرو شنکر آچاریہ آنند سرسوتی نے حل کو منظور ی دے دی تھی *اور حل یہ تھا کہ بابری مسجد اپنی جگہ پر رہے گی,کچھ عرصہ کے بعد مورتیاں ہٹائی جائیں گی، اسے نماز کیلئے کھول دیا جائے گا مسجد کے چاروں طرف تیس فٹ کا تالاب رہے گا اور اس کے بعد ریلنگ ہو گی اور ضرورت پڑنے پر اس پر کرنٹ دوڑایا جائے گا ۔ اس کے بعد جو بابری مسجد وقف کی زمین ہو گی اس پر رام مندر تعمیر کرلیا جائے گا اور مسلمان اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ لیکن لکیر کے فقیر علماء نے اور بابری مسجد ایکشن کیمیٹی نے اس حل پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مجبور"ا مولانا علی میاں اور مولانا پاریکھ صاحب کو صلح کے فارمولے سے دستبردار ہوجانا پڑا،شور و غوغا کرنے والوں میں وہ جامد الفکر اور بے شعور متصلب علماء تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم وقف کی ایک انچ زمین رام مندر کے حوالہ نہیں کرسکتے ہیں اوروہ اصول فقہ کے حوالے دے رہے تھے جیسے کہ ہم بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد میں جی رہے ہوں،اور کسی دار الاسلام میں رہتے ہوں، حالانکہ دعوتی نقطہ نظر سے باہمی احترام واعتماد کی فضا پیدا کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کے علماء فقہ الاقلیات سے متعلق اپنی رائے میں لچک رکھتے ہیں اور جو ملک دار الاسلام نہ ہو وہاں کے بعض فقہی مسائل میں دفع مضرت کے تحت نرمی اختیار کرنے کے قائل ہیں*
آج بابری مسجد کا وجود ختم ہوچکا ہے اور آئندہ اس کی تعمیر کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ، اور اس کے لئے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
*کوئی بتائے کہ آخر یہ خون دوعالم کس کی گردن پر ہے؟*
مسلم قیادت کی تیسری غلطی تین طلاق سے متعلق ہے۔ماضی بعید اور ماضی قریب کی غلطیوں کے ذکر کے بعد اب حال کی غلطی پرسنجیدگی اور غیر جانب داری کے ساتھ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تین طلاق کے سلسلہ میں بورڈ کے اسٹینڈکے خلاف آیاہے۔ بورڈ سے یہاں بھی غلطی سرزد ہوئی ہے۔بورڈ کے صدر عالی مقام اپنی متانت اور شرافت اور مرنجان مرنج طبیعت کی وجہ سے بورڈ کے عہدہ داران کی غلطیوں کو نظر اندازکرتے ہیں وہ ملک کے صدر جمہوریہ کے مانند ہیں جو عام طور پر حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے صدرکی نرم مزاجی اور تحمل کی وجہ سے بورڈاکثر وہ فیصلے کرلیتا ہے جس سے صدر کو اتفاق نہیں ہوتا ہے۔ بورڈ کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ *جب بورڈ کے دامن اجتماعیت میں مختلف مسلک ومشرب کے لوگ ہیں تو آخر بورڈ کو کورٹ میں حنفی مسلک کے وکیل اور ترجمان بننے کی کیا ضرورت تھی* اگر بورڈ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ملک میں غالب اکثریت اہل سنت والجماعت کی ہے اور حنفی مسلک والوں کی ہے تو یہی دلیل تو بی جے پی کے پاس ہے کہ چونکہ ہندووں کی اکثریت ہے اس لئے یہ ملک ہندووں کا ہے اور ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کو مسلط کرنا درست ہے۔ بورڈ کا موقف اس بارہ خاص میں قرین عقل بھی نہیں ہے اور قرین انصاف بھی نہیں ہے آخر یہ کیسا انصاف ہے جس میں ظالم کوکوڑے نہیں مارے جاتے جیسا کہ حضرت عمر مارتے تھے اور نہ اس میں مظلوم کی جراحت دل کے لئے کوئی پرسش غم ہے اور اس پر تین طلاق کا یہ فیصلہ سامان صد ہزار نمک داں سے کم نہیں۔ اسی لئے ہندوستان کا جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقہ بورڈ کے موقف سے بہت زیادہ غیر مطمئن ہے ان میں بہت سے لوگوں کے ہاتھ میں سنگ ملامت ہے اوربہت سے حلقوں میں طعنوں کا شور ہے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔اس کا بھی اندیشہ ہے کہ آگے چل کر ہاتھ اور گریباں کا فاصلہ بھی کم ہوجائے یا ختم ہوجائے ، اس لئے بورڈ کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے شاہ بانو کیس میں جس طرح تمام مسلمان بورڈ کی تائید میں تھے اس بار ایسا نہیں ہے *لوگ کہتے ہیں کہ بورڈ کو حنفیت کا نمائندہ نہیں بننا چاہئے تھا اور اس کا موقف یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس بارے میں مسلمانوں میں چونکہ مسلک کا اختلاف ہے اسلئے بورڈ اپنا کوئی موقف نہیں رکھتا ہے*
ا ور اگر بورڈ کو لازماََکوئی موقف اختیار کرنا ہی تھا تو شر سے بچنے کے لئے اور پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ کا سد باب کرنے کے لئے تین طلاق کو ایک طلاق ماننے کا موقف اختیار کرنا چاہئے تھا یہ فیصلہ زیادہ دانشمندانہ اورمجتہدانہ ہوتا اب پارلیامنٹ کو قانون سازی کا حق مل گیا ہے اب جو طلاق کا قانون بنے گا اس میں تا زندگی نفقہ مطلقہ کو شامل کرنے کا امکان موجود ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے *"دستور کا آرٹیکل ۵ ۲ مذہبی آزادی ضرور دیتا ہے لیکن وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مذہبی آزادی پبلک آرڈر صحت اخلاقیات مساوات اور دیگر مساوی حقوق سے متصادم نہ ہو"*
یہ الفاظ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کے اشارے دیتے ہیں کل حکومت میراث کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتی ہے کہ اسلامی قانون صنفی مساوات کے خلاف ہے
*اگر بورڈ نے حنفیت کے موقف میں شدت نہ اختیار نہ کی ہوتی تو پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن ملت کے قائدین نے پاسبان عقل کو بہت دور چھوڑ دیا تھا*
اصول یہ ہے کہ اس موقف کو اختیار کرناچاہئے جس میں خطرہ سب سے کم ہو ۔ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دینے کی گنجائش موجو ہے، اگر یہ موقف اختیار کیا جاتا تو حکومت کومداخلت کا موقع نہیں ملتا ۔ مولانا سید سلیمان ندوی بہت بڑے عالم دین تھے۔ ان کے پاس ایک نومسلم آیا اور اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی۔ سید صاحب نے کہا کہ اس نے تو ابھی اسلام قبول کیا ہے وہ نہ حنفی ہے نہ شافعی نہ مالکی انہوں نے اس کیلئے تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیا اور اسے رجوع کرنے کا حق دیا۔ اگر سرے سے گنجاش نہیں ہوتی اور یہ حرام کاری ہوتی توسید صاحب جیسا عالم دین یہ فیصلہ نہیں کرتا ۔ ائمہ اربعہ کاقول نہ سہی امام ابن تیمیہ اور ابن قیم کا یہی مسلک ہے اور اس سے پہلے صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عباس زبیر بن عوام اور عبد الرحمن بن عوف اور دیگر کئی صحابہ کا یہی موقف رہا ہے,تابعین کی جماعت میں بہت سے اہل علم اسی موقف کے قائل رہے ہیں اس دور میں فاضل دیوبند مولانا سعید احمد اکبرابادی ( ہند وستان) سید رشید رضا ( مصر) ڈاکٹر وہبہ زحیلی ( شام) علامہ یوسف القرضاوی
( قطر) شیخ الازہر شیخ محمد شلتوت ( جامع ازہر مصر) اور کئی علماء کا یہ مسلک رہا ہے اور انہوں نے حنفی ہونے کے باوجود علماء کی بند گلیوں سے باہر نکلنا ضروری سمجھا ہے اور پھر مصر سوڈان اردن شام مراکش عراق اور پاکستان میں کچھ علماء کے اختلاف کے باوجود *یہی قانون یعنی ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک ماننے کا قانون نافذ ہے*
مسلم قیادت کی چوتھی غلطی بھی علماء دین کی قیادت کی غلطی ہے *جو فکر کے جمود سے عبارت ہے* آزادی سے پہلے جو غلطی ہوئی اس کا تعلق علماء سے نہیں تھا وہ سیاسی غلطی تھی اور اس میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ آگے تھا۔ ہجرت کے مقدس نام پر پاکستان جانے کے بعد ہندوستان میں مسلمان کمزور اور بے یار ومددگار رہ گئے اور ان کی قیادت علماء دین کے حصہ میں آئی جو بوجوہ باہمی تعصب، تنگ نظری,گروہ بندی,کا شکار رہے ان میں وسعت نظری اور سیر چشمی کی کمی رہی اور تخلیقی ذہن کی آبیاری کے سوتے خشک ہوگئے تھے ۔لیکن اس کے باوجود آزادی کے بعد کے دور میں علماء کی حیثیت یہ رہی کہ کسی کوشش کو معتبریت اس وقت ملتی جب علماء بھی اس کے ہم سفر اور ہم صفیر ہوں۔ علماء کی تمام کوششوں کا محور مسلمان تھے اور صرف مسلمان ۔ برادران وطن ان کے دائرہ کار سے باہر رہے۔ یہ سیرت طیبہ کا جزوی اور ناقص اتباع تھا۔ البتہ بعض جماعتوں نے غیر مسلموں کے لئے اسلامی لٹریچر بھی تیار کیا اور بعض افراد نے برادران وطن کو خطاب کرنے کے لئے پیام انسانیت کی تحریک بھی چلائی۔ لیکن تبلیغی جماعت اور تحریک مدارس کے عالی مقام ذمہ داروں کے ذہن میں دور دورتک غیر مسلم نہیں تھے۔ اس ملک میں سیکڑوں دینی مدارس قائم ہوئے اور ان مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں علماء نکلے لیکن ان میں سے کوئی *ایک بھی لسان قوم میں بات کرنے والا عالم دین نہیں تھا* اور لسان قوم وہ کہلاتی ہے جسے ۸۰ فی صدی آبادی بولتی ہے اور لسان قوم میں ہی رسول، پیغمبر اور نبی بات کرتے ہیں، لیکن ان مدارس کے علماء اور نائبین رسول لسان قوم میں بات کرنے کے اہل نہیں تھے۔ جب کہ اس ملک کو ایسے علماء کی شدید ضرورت تھی جو ہندووں کے مذہب سے واقف ہوں اور ان سے ڈائلاگ کرسکتے ہوں اور اعتراضات کا جواب دے سکتے ہوں اور انہیں دین اسلام سمجھا سکتے ہوں مدرسوں سے جو بھی فارغ ہو کر نکلتا وہ صرف مسلمانوںکے سامنے خطابت کا جوہر دکھانے کے لائق ہوتا ۔
مستقبل میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے علماء دین کی بھی ضرورت ہے جو ہندو مذہب وتہذیب سے پورے طور پر واقف ہوں اور ان کی زبان میں ،ہندی اور انگریزی میں ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرسکتے ہوں اور ’’لسان قوم‘‘ میں بات کرسکتے ہوں۔ ان کے مجمع کو خطاب کرسکتے ہوں ان کے دل میں اتر سکتے ہوں ، اور یہ کام دینی مدارس کے نصاب میں انقلابی تبدیلی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ اسپین میں جہاں سے مسلمانوں کو نکالا گیا مسلمانوں اورمفتوح غیر مسلموں کے درمیان رابطہ اور تعلقات اور زبان کی خلیج حائل تھی جو غلطی مسلمانوں نے اسپین میں کی تھی وہی ہندوستان میں دہرائی گئی ہے، مدارس کے ذمہ داروں کواور علماء کی قیادت کو اب بھی اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے ، ہر عالم دین جومدرسہ سے پڑھ کر نکلتاہے وہ نہ تو ہندی سے واقف ہوتا ہے نہ ہندو سے واقف ہوتا ہے نہ برادران وطن کے درمیان دین وشریعت کی ترجمانی کا اہل ہوتا ہے۔ وہ پہلے سے موجود اس خلیج میں اضافہ کا سبب بنتا ہے جو مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان میں ہے جس کے نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ موجودہ ہندوستان پر علماء کسی فوج کشی کے بغیر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ دلوں پر قبضہ کرنا ہے ’ جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ‘‘ اور دلوں کو فتح کر نے کے لئے خلیج کو پاٹنا ضروری ہے اور خلیج کو پاٹنے کے لئے یہاں کی زبان کا ماہر بننا ضروری ہے اور ان کی مذہبی نفسیات کا جاننا ضروری ہے ۔
آئندہ ہندوستان کے اسٹیج پر اسلام اپنا رول ادا کرسکے گا یا نہیں اس کا تعلق علماء دین کے صحیح کردار سے ہے۔ علماء دین اور علماء دیوبند کی قیادت کو نہ صرف یہ کہ اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے بلکہ وہ ابھی تک باہمی نفرت اور تعصب اور تنگ نظری اور متشدد ذہنیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اتحاد پارہ پارہ ہے ۱۸ کروڑ مسلمانوں کی دینی قیادت کے پاس عصری آگہی نہیں ہے,غیر مسلموں سے خطاب کرنے والی زبان نہیں ہے اور پھر وہ آپس میں متحد بھی نہیں ہیں۔ وہ بڑے اخلاص کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ زمانہ کی گمراہیوں سے بچنے کے لئے ماضی کے بزرگوں کی تقلید صحیح راہ ہے اور جس طرح بزرگوں کے پاس عصری آکہی کم تھی یہی فقدان بصیرت موجودہ علماء میں بھی پایا جاتا ہے انہیں نہیں معلوم کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کے امپاورمنٹ کا طریقہ کیا ہے۔ وہ بزرگوں کے بنائے ہوے راستہ سے ذرہ برابر ہٹنے کے لئے تیار نہیں وہ بزرگوں کی بنائی ہوئی ہر لکیر کو پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ لکیر کے فقیر کے بجائے لکیر کے امیر بن گئے ہیں۔ ہندوستان کے سب سے بڑے دار العلوم کے ویبسائٹس پر جا کر نئے فتوے دیکھ لیجئے آپ کو آج بھی 2017ء میں اس طرح کے فتوے مل جائیں گے کہ غیر مقلدوں کا شمار فرقہ ضالہ میں ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ کسی شخص کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ اور ان لوگوں سے شادی بیاہ کا رشتہ قائم نہیں کرنا چاہئے۔ ان علماء کے اندر تعصب بقول مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس لئے پایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے مسلک یا جماعت کی کتابیں پڑھتے ہی نہیں اگر وہ ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے تو علمی اختلاف تو کرتے لیکن ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے اور معتدل رویہ اختیار کرتے۔
*یہی ہندوستانی علماء ہیں جن کے اندر کشادہ دلی نہیں ہے دینی تقاضوں کا فہم نہیں ہے ، دور بینی نہیں ہے اورجنہیں مستقبل کے خطرات کا احساس نہیں ہے جو منجمدبھی ہیں متصلب بھی ہیں متعصب بھی ہیں اور طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں اور جن کے بارے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
نہ جانے کتنے سفینے ڈبو چکی اب تک
فقیہ و صوفی وملا کی نا خوش اندیشی_
Share:

Insano ki Soch Kaisi Bn Gayi Hai?

Insaan Ko Soch Dusre Ke Liye

صدائے دل ندائے وقت
میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں
دنیا میں انسان کی آمد ہو یا اس کی موت، روزی روٹی ہو یا عزت و احترام۔ دولت ہو یا فقر و فاقہ ان سب کا مالک صرف وہی خدا عزوجل ہے، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ انسان مکلف ہے کہ حالات سے جوجھ کر اپنی زندگی کی لہروں کو موڑ دے، اٹھتے طوفان اور امنڈتے سمندر کا رخ پھیر دے، لیکن یہ سب اسی حد تک ہے جب تک خدا کی مرضی اور اس کا حکم ساتھ دے، ورنہ ایسا نہیں کہ کوئی مالک الملک کی سلطنت کا کوئی دانہ بھی ادھر سے ادھر کر دے، ہر ایک کی اپنی زندگی بساط بھر ہے، ہر ایک کا دائرہ کار بھی خاص ہے، اور یہ سمجھنا بھی بھول ہے؛ کہ اعلی مقام والا ہی دنیا کا سرتاج اور ادنی حیثیت والا دنیا کا خوار ہے؛ بلکہ یہاں سبھی دنیا کے حسن کا حصہ ہیں، ایک آسمان کے سبھی چمکتے ستارے ہیں، کسی باغ کے سبھی خوشبودار پھول ہیں یا کم سے سے کم اس کی زیب و زینت ہیں، نہ کسی رنگ کو فضیلت حاصل ہے، اور نہ کسی ہنر کو بلکہ جو بھی ہے، جیسا بھی سبھی اپنے مخصوص ہنر و کاز کے ساتھ نگینہ عالم ہیں، وہ ہے تو زندگی ہے، وہ ہے تو عالم ہے وہ ہے۔*
     ان سب حقیقتوں کے باوجود آج اکثر و بیشتر افراد کا ذہن اپنے رب حقیقی کی جانب کم رب حقیقی کے مخلوق کی جانب زیادہ ہے، وہ بھی اس اعتبار سے کہ ان کی نظر عیب جوئی و تماشہ بینی پر مرکوز ہے، وہ باغ کے اگرچہ پھول ہیں لیکن انہیں کیچڑ کی بو زیادہ عزیز ہے، وہ کسی دیوس جانور کی طرح برائیوں کی جستجو اور برائیوں کے تتبع میں لگے رہتے ہیں، وہ انسانیت کا دل ناپنے لگے ہیں، وہ انسانوں کی جفاکشی اور ان کی تگ و دو سے نظریں پھیر لیتے ہیں؛ لیکن ان کو کم حیثیت و کم مایہ گرداننے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں، خدا نے جسے عالم کا امتیاز بنایا تھا وہی شیطان کی خباثت اور اس کی غلاظت کا تودہ بن گیا ہے، جس طرح اس نے آدم کو جنت سے نکلوانے کیلئے حربے استعمال کئے تھے اور جس طرح اس نے چال بازیاں کی تھیں، جس کی وجہ بنی نوع انسان دنیا کی سطح پھر پھینک دیا گیا اور اس کے مقدر میں تا قیامت کشمکش و ہیجان رکھ دی گئی، وہی عادتیں آج انسانوں کا لازمہ ہیں، ایک دوسرے کی برادری کا ہونے کے باوجود آپس میں ڈسنے کی عادت پال لی ہے، شاید یہ پہلا حیوان (ناطق) ہے جو اپنی ہی برادری کو زخمی آلود کر دینے پر بیتاب ہے۔
    *انسانوں کا کمال ان ہی کے دبیز پردوں میں پوشیدہ ہوگیا ہے، وہ اشرف المخلوقات کے ساتھ ساتھ اشرف العیار کا بھی مقام پا چکے ہیں، وہ ایک دوسرے کی کامیابی و کامرانی اور صلاحیت و قابلیت کو ہضم نہیں کر پاتے، بلکہ ایسوں کو دیکھ کر انہیں بد ہضمی ہوجاتی ہے، اس سلسلہ میں صاحب علم و غیر علم ہر ایک برابر ہے، البتہ موزانہ کیا جائے تو پھلدار شاخ ہی زیادہ زہر آلود ہے، بلکہ اس ٹہنی کا ہر ایک پتہ اپنے وجود کو ثابت کرنے کیلئے اسے کھانے یا اسے پت جھڑ کے حوالے کر دینے کو تیار ہے، ہر ایک اپنے آپ میں سمندر بننے کی تمنا رکھتا ہے، اور سنیکڑوں ندیوں کو اپنے اندر جذب کر لینا چاہتا ہے، لیکن وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ تم کتنا ہی عظیم سمندر ہوجاو، کیوں نا تمہارے ٹھاٹھے سے زمانہ کانپنے لگ جائے لیکن اتنا یاد رکھو! کسی خشک گلے کو تر کر نے سے عاجز ہو، تم میں سکتا نہیں کہ کسی کی پیاس بجھانے سکو، کسی تڑپتے ہوئے دل اور سسکتے ہوئے انسان کا گلہ ڈھنڈا کر سکو، پھر کیا فائدہ اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے سے؟ اپنی عبادات و ریاضت خاک میں ملانے سے؟ ہر ایک اپنی قبر کا جوابدہ ہے پھر کیوں ہر ایک اپنی اصلاح و صلاح پر دھیان نہیں دیتا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ قبر میں بھی اپنے ساتھ کسی معاون کو لے جانے یا منکر نکیر کو رشوت دیدینے یا اپنی چالاکی و مکاری سے دھول چٹا دینے کا گمان پال لیا یے؟
     ✍ *محمد صابر حسین ندوی
Share:

Deobandi Hazrat Ke Wali Apne Aap ko Madina ka Kutta Bnne ki Khawahish Rakhte Hai.

Sgane Madina Kahne Par Aeitraz Karne Wale Jara GAur Farmaye

سگ مدینہ کہنے پر اعتراض کرنے والوں کے لئے غور کا مقام
1) اشرف علی تھانوی:
میں تو اپنے کو کتوں اور سوروں سے بھی بدتر سمجھتا ہوں اگر کسی کو یقین نہ ہو تو میں اس پر حلف اٹھا سکتا ہوں. (اشرف السوانح،جلد سوم چہارم، ص57)
2) یعقوب نانوتوی:
یہ شیخ زادہ کی قوم بڑی خبیث ہے پھر بےساختہ فرمایا کہ میں بھی خبیث ہوں. (ملفوظات حکیم الامت، جلد 6، ص 300)
3)مسیح الدیوبند:
فرمایا میں تو خنزیر سے بھی حقیر ہوں. (فیضان معرفت، جلد 1، ص 77)
4) حسین احمد ٹانڈوی:
میں اتنا بڑا پیٹ کا کتّا ہوں کہ دینی خدمات دنیا کے بدلہ میں کرتا ہوں (آداب الاختلاف، ص 174)
5) خلیل احمد انبیٹھوی:
میں اپنے آپ کو آپ (گنگوہی) کی روٹیوں پر پلنے والے کتے سے بھی بدتر سمجھتا ہوں. (اکابر کا مقام تواضع، ص168)
6) فضل علی قریشی:
میں تو اس در (خانقاہ موسی زئی) کا کتا ہوں مجھے جوتوں کے قریب بیٹھنا چاہیے. (اکابر کا مقام تواضع، ص 189)
7) عبدالعفور مدنی:
حضرت یہ لوگ مجھے پہچانتے ہیں اس لئے گدھا کہتے ہیں. (اکابر کا مقام تواضع، ص355)
8) قاسم نانوتوی:
امیدوں لاکھوں ہیں میری مگر بڑی ہے یہ
کہ ہو سگان مدینہ میں میرا نام شمار
جیوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینے کے مجھ کو مرغ ومار
(قصائد قاسمی، 5)
بانی فرقہ دیوبند کہتے ہیں یوں تو لاکھوں خواہشیں ہیں لیکن سب سے بڑی یہ خواہش ہے کہ میں گنتی مدینے کے کتوں میں ہو، کتوں کے ساتھ جیوں اور پھروں اور مر جاؤں تو مدینے کے مرغ اور چیونٹیاں مجھ کو کھا جائیں
تبصرہ : بانی دیوبند کی یہ خواہش تو پوری نہیں ہوئی البتہ انہوں نے عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈال کر خود کو جھنمی مرغ و مار کے حوالے کر دیا.
آمین ثم آمین
آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم
آمین یارب العالمین وبجاہ سیدالمرسلین
Share:

Kya Deobandi Ahle Sunnat Me Se Hai?

دیوبندی اہل سنت میں سے ہیں؟ اور کیا وہ دائرہ اسلام میں ہیں؟
دیوبندی مسلمان جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے، اور  انڈیا کے  جامعہ دار العلوم دیوبند کی طرف منسوب ہے، یہ   ایک نظریاتی، اور مضبوط بنیادوں پرمبنی ادارہ  ہے، جس نے اپنے ہر فاضل پر  خاص علمی مہر ثبت کی ہے، یہی وجہ ہے  کہ یہاں کے فاضل  اسی نسبت سےپہچانے جاتے ہیں۔

قیام  اور قابل ذکر شخصیات:
متعدد علمائے کرام کی  طرف سے جامعہ دیوبند  کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا جب 1857 ء میں انگریزوں نے  مسلمانوں کی تحریک ِآزادیِ  ہند کو  سبوتاژ کیا  ، چنانچہ  جامعہ دیوبند  نے  بر صغیر پر مغربی  یلغار ، اور مادی  تہذیب کے اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ایک مضبوط ردّ عمل پیش کیا ، خصوصی طور پر    دہلی میں جو کہ دار الحکومت تھا؛  اسلامی تحریکوں کے کچلے جانے کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، اور انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا تھا، تو اس  موقع پرعلما ء کو بے دینی اور الحاد کا خدشہ لاحق ہوا، چنانچہ  شیخ امداد اللہ مہاجر مکی، انکے شاگرد شیخ محمد قاسم نانوتوی اور انکے رفقائے کرام نے اسلامی تعلیمات ، اور اسلام کی حفاظت کیلئے  منصوبہ بندی کی اوراس کا حل یہ سوچا کہ دینی مدارس اور اسلامی مراکز قائم کئے جائیں۔  اس طرح سے  برطانوی دورِ حکومت ہی میں دیوبند کے علاقے میں ایک  اسلامی عربی  مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، جس نے ہندوستان میں دینی اور شرعی  مرکز کا کردار ادا کیا۔

اس نظریاتی ادارے کی قابل ذکر شخصیات  یہ ہیں:

1- مولانامحمد قاسم

2- مولانا رشید احمد گنگوہی

3- مولاناحسین احمد مدنی

4- مولانامحمد انور شاہ کشمیری

5- مولانا ابو الحسن ندوی

6- محدث حبیب الرحمن اعظمی

نظریات و عقائد:

- یہ لوگ اصول یعنی: عقائد میں ابو منصور ماتریدی  کے مذہب  پر ہیں۔

- اور فقہی اور فروعی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب  پر ہیں۔

- سلوک اور اتباع  میں صوفیت کے طُرق: نقشبندی، چشتی، قادری، اور سہروردی  پر چلتے ہیں۔

دیوبند کےنظریات اور  اصول و ضوابط  کوخلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جا سکتاہے:

- اسلام کا پرچار، اور مشنری  و   باطل  مذاہب کا  مقابلہ

- اسلامی ثقافت کا  پھیلاؤ، اور انگریزی ثقافت  کا قلع قمع

- عربی زبان کی ترویج کیلئے کوششیں ، کیونکہ  عربی زبان کی موجودگی میں  ہی اسلامی وشرعی  مصادر سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

- قلب و عقل ، اور علم و روحانیت کو یکجا جمع کرنا
دیکھیں: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب "(1/308)

دیوبندیت چونکہ  ماتریدی مذہب  پر قائم ہے اس لئے ماتریدی  مذہب کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھی ضروری ہے:

ماتریدیت ایک  بدعتی فرقہ ہےجو کہ اہلِ کلام  کی کوششوں کا نتیجہ ہے ،اس کا نام ابو منصور ماتریدی کی نسبت  سے ہے۔آپ اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے  معتزلی اور جہمیوں وغیرہ کے مقابلہ کرتے اور  عقلی و کلامی دلائل پر انحصار کرتے تھے۔

ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین(عقائد) کی ماٰخذ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:

1- الٰہیات (عقلیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیاد ی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ  شامل ہیں۔

2- شرعیات (سمعیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے نفی یا اثبات میں قطعی  فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّت، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّت کوبھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا بیان میں بالکل واضح طور پر منہج اہل السنۃ و الجماعۃ کی مخالفت پائی جاتی ہے؛ اس لئے کہ اہل السنۃ کے ہاں قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ ہی مصادر اور مآخذ ہیں،

اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرنا ایک نئی بدعت کا اضافہ تھا۔ یہ تقسیم ایک بے بنیاد نظریے پر کی گئی جسے فلسفیوں نے گھڑا تھا، اور وہ اسطرح کہ انہیں اس مفروضہ نے ،کہ دینی نصوص  عقل سے متصادم ہیں، اس بات پر مجبور کیا کہ عقل اور دینی نصوص کو قریب تر لانے کوشش کیجائے، لہٰذا   انہوں نے عقل کو وہاں تک گُھسا دیا جہاں عقل کا کوئی کام ہی نہیں ہے۔اور ایسے باطل احکامات  صادر کئے جو کہ شریعت سے بالکل متصادم تھے، پھراسی تضاد و تصادم  کو انہوں نے تفویض اور تأویل  کاجامہ پہنا دیا، حالانکہ اہل السنۃ و الجماعۃ   کے ہاں عقلِ سلیم  اور صحیح ثابت شدہ نصوص میں کوئی تصادم ہے ہی نہیں"

مزید کیلئے دیکھئے: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب المعاصرة "(1/99)

اہل سنت کا  "ماتریدیہ" کے بارے میں موقف:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ  یہ امت تہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقے کے علاوہ سب کے سب فرقے  جہنم میں جائیں گے،  اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی بتلا دیا کہ کامیاب ہونے والا یہ فرقہ  ہی [اصل] جماعت ہوگی، اور یہ جماعت  اس [منہج] پر ہوگی جس پر  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام  تھے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اہل السنۃ و الجماعۃ کتاب و سنت پر علمی اور عملی  ہر اعتبار سے  ڈٹے ہوئے ہیں، اور یہی لوگ فرقہ ناجیہ میں شمار ہونگے، کیونکہ  اِنہی میں کامیابی کا وصف پایا جاتا ہے، اور وہ ہے:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ، اور آپکے صحابہ کرام کے منہج  کو علمی اور عملی ہر اعتبار سے  اپنانا۔

چنانچہ  کسی فرد یا جماعت کے فرقہ ناجیہ میں شامل ہونے کیلئے نام ہی کی نسبت کافی نہیں ہے، خواہ وہ عملی طور پر  صحابہِ کرام اور تابعینِ عظام  کے منہج  کی  مخالفت کرتے ہوں؛ بلکہ  علم و عمل ، تصور  و سلوک ہر طرح سے انہی کے منہج کو اپنایا جائے۔

چنانچہ ماتریدی ایسا گروہ ہے جن کے نظریات میں حق و باطل ، اور سنت کی مخالفت سب کچھ ہے۔ یہ بات ظاہرہے کہ فرقے حق  سے قریب اور بعید ہونے میں یکساں نہیں ہوتے، اس لئے جو کوئی فرقہ  سنت کے زیادہ قریب ہوگا، وہی حق اور درست سمت میں ہوگا،اس بنا پر دیکھیں توان میں سے کچھ ایسے  ہیں جنہوں نے بڑے بڑے مسائل میں اہل ِسنت   کے مخالف موقف اپنایا، اور کچھ ایسے بھی ہیں  جنہوں  نے باریک جزوی مسائل میں  مخالفت کی ہے،  اور بعض وہ بھی ہیں جنہوں  نے  منہج ِحق سے اپنے سے زیادہ دور فرقے کا رد کیا ہے،  توا یسی شخصیات یقینا باطل کی تردید  اور حق گوئی پر قابل تعریف   ہیں، لیکن باطل کا ردّ کرتے ہوئے    انصاف  کی حدتجاوزکرے اس طور پر کہ بعض حق باتوں کا انکار ،اور بعض باطل باتوں کا اقرار کرےتو یہ درست نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی  بڑی  بدعت  کو چھوٹی بدعت سے بدل  دے یا اور  کمزور باطل سے قوی باطل پر وار کرے۔ یہی حالت  اہل سنت و جماعت کی طرف منسوب بہت سے اہل کلام کی  ہے ۔۔۔" انتہی
" فتاوى شيخ الاسلام ابن تیمیہ"(1/348)

اب یہاں ایک اہم مسئلہ باقی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ماتریدی گروہ کے بارے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ یا دیوبندیوں کی طرح انکے نظریات اپنانے والے  لوگوں کے ساتھ ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہئے؟

تو اسکا جواب ہر شخص کے بارے میں الگ ہوگا:

چنانچہ جو شخص  اپنے غلط نظریات پر  بضد قائم رہے، اور اپنے خود ساختہ نظریات  کی ترویج  کرے تو اس کے بارے میں لوگوں کو باخبر کرنا، اور اسکی گمراہی و انحراف بیان  کرنا ضروری ہے، اور جو شخص  اپنے نظریات کی ترویج نہ کرے، اسکے قول و فعل سے  تلاش ِحق آشکار ہو تو اسے نصیحت کی جائے، عقائد میں موجود خامی کی نشاندہی کی جائے، اور اس کیلئے  اچھا انداز اپنایا جائے، امید واثق ہے کہ اللہ تعالی اسے قبولِ حق کی توفیق دے گا۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان  ہے: (دین نصیحت کا نام ہے) ہم نے کہا کس کیلئے؟ آپ نے فرمایا: (اللہ کیلئے، اللہ کی کتاب کیلئے، اللہ کے رسول کیلئے، مسلم حکمرانوں کیلئے، اور عام لوگوں کیلئے) مسلم: (55)
واللہ اعلم.
ماخوذ از شیخ صالح المنجد، معروف سعودی عالم دین کی ویب سائٹ سے،

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS