Indian Muslim's Ke Haalat (Maji Aur Mustakbil Me)
(تازہ ترین نیوزگروپ)
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم۔ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب"
ہمیں خود احتسابی سے کام لینا چاہئے ہم نے قومی اور ملی تاریخ میں کئی بھیانک غلطیاں کی ہیں اور ٹھوکریں کھائی ہیں ، اگر علت ومعلول کے درمیان تعلق درست ہے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی زار وزبوں حالت ان ہی غلطیوں کی وجہ سے ہوئی ہے جو ہم نے ماضی میں کی تھیں ،غلطیوں کا تذکرہ اگر چہ خوشگوار نہیں لیکن یہ آتش خانہ دل کی گرمی ہے جو فکر کو پگھلاکر روشنائی بنادیتی ہے اور پھریہ روشنائی کاغذ پر پھیل جاتی ہے ،خون دل کی روشنائی سے مضامین نقطہ نظر کو بدلنے کے لئے یا ان میں اصلاح کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ فکر جب تک درست نہیں ہوگی ہماری کوششوں کا رخ صحیح نہیں ہوگا۔ اچھے کردار کے سوتے ہمیشہ صحیح نقطہ نظرسے پھوٹتے ہیں، اس لئے اجتماعی معاملات میں اپنے نقطہ نظر کو درست رکھنا بہت ضروری ہے۔اگر ہم صرف ایک صدی کی غلطیوں کی بے حد مختصر فہرست بندی کریں گے تو ہمیں چار مہلک غلطیاں نظر آئیں گی ، پہلے نمبر پرپاکستان کی تشکیل کو رکھنا پڑے گا۔ اگر چہ اس غلطی میں برادران وطن کی غلطیوں اور ناروا سلوک کا بھی ہاتھ ہے *لیکن مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے آیا تھا* اور وہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’ شامل ہے مرا خون جگر تیری حنا میں ‘‘جنہوں نے پاکستان بنایا تھا وہ پاکستان جاچکے ، اب یہ قصہ ماضی ہے۔ لیکن برادران وطن کے دلوں میں اس کا زخم تازہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی دیوار اب بھی حائل ہے۔اور اس دیوار کے اذیت ناک سایے آج بھی مسلمانوں پر پڑتے ہیں اور اذیت پہونچاتے ہیں۔
آج بابری مسجد کا وجود ختم ہوچکا ہے اور آئندہ اس کی تعمیر کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ، اور اس کے لئے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
*کوئی بتائے کہ آخر یہ خون دوعالم کس کی گردن پر ہے؟*
ا ور اگر بورڈ کو لازماََکوئی موقف اختیار کرنا ہی تھا تو شر سے بچنے کے لئے اور پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ کا سد باب کرنے کے لئے تین طلاق کو ایک طلاق ماننے کا موقف اختیار کرنا چاہئے تھا یہ فیصلہ زیادہ دانشمندانہ اورمجتہدانہ ہوتا اب پارلیامنٹ کو قانون سازی کا حق مل گیا ہے اب جو طلاق کا قانون بنے گا اس میں تا زندگی نفقہ مطلقہ کو شامل کرنے کا امکان موجود ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے *"دستور کا آرٹیکل ۵ ۲ مذہبی آزادی ضرور دیتا ہے لیکن وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مذہبی آزادی پبلک آرڈر صحت اخلاقیات مساوات اور دیگر مساوی حقوق سے متصادم نہ ہو"*
یہ الفاظ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کے اشارے دیتے ہیں کل حکومت میراث کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتی ہے کہ اسلامی قانون صنفی مساوات کے خلاف ہے
*اگر بورڈ نے حنفیت کے موقف میں شدت نہ اختیار نہ کی ہوتی تو پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن ملت کے قائدین نے پاسبان عقل کو بہت دور چھوڑ دیا تھا*
اصول یہ ہے کہ اس موقف کو اختیار کرناچاہئے جس میں خطرہ سب سے کم ہو ۔ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دینے کی گنجائش موجو ہے، اگر یہ موقف اختیار کیا جاتا تو حکومت کومداخلت کا موقع نہیں ملتا ۔ مولانا سید سلیمان ندوی بہت بڑے عالم دین تھے۔ ان کے پاس ایک نومسلم آیا اور اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی۔ سید صاحب نے کہا کہ اس نے تو ابھی اسلام قبول کیا ہے وہ نہ حنفی ہے نہ شافعی نہ مالکی انہوں نے اس کیلئے تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیا اور اسے رجوع کرنے کا حق دیا۔ اگر سرے سے گنجاش نہیں ہوتی اور یہ حرام کاری ہوتی توسید صاحب جیسا عالم دین یہ فیصلہ نہیں کرتا ۔ ائمہ اربعہ کاقول نہ سہی امام ابن تیمیہ اور ابن قیم کا یہی مسلک ہے اور اس سے پہلے صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عباس زبیر بن عوام اور عبد الرحمن بن عوف اور دیگر کئی صحابہ کا یہی موقف رہا ہے,تابعین کی جماعت میں بہت سے اہل علم اسی موقف کے قائل رہے ہیں اس دور میں فاضل دیوبند مولانا سعید احمد اکبرابادی ( ہند وستان) سید رشید رضا ( مصر) ڈاکٹر وہبہ زحیلی ( شام) علامہ یوسف القرضاوی
( قطر) شیخ الازہر شیخ محمد شلتوت ( جامع ازہر مصر) اور کئی علماء کا یہ مسلک رہا ہے اور انہوں نے حنفی ہونے کے باوجود علماء کی بند گلیوں سے باہر نکلنا ضروری سمجھا ہے اور پھر مصر سوڈان اردن شام مراکش عراق اور پاکستان میں کچھ علماء کے اختلاف کے باوجود *یہی قانون یعنی ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک ماننے کا قانون نافذ ہے*
مستقبل میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے علماء دین کی بھی ضرورت ہے جو ہندو مذہب وتہذیب سے پورے طور پر واقف ہوں اور ان کی زبان میں ،ہندی اور انگریزی میں ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرسکتے ہوں اور ’’لسان قوم‘‘ میں بات کرسکتے ہوں۔ ان کے مجمع کو خطاب کرسکتے ہوں ان کے دل میں اتر سکتے ہوں ، اور یہ کام دینی مدارس کے نصاب میں انقلابی تبدیلی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ اسپین میں جہاں سے مسلمانوں کو نکالا گیا مسلمانوں اورمفتوح غیر مسلموں کے درمیان رابطہ اور تعلقات اور زبان کی خلیج حائل تھی جو غلطی مسلمانوں نے اسپین میں کی تھی وہی ہندوستان میں دہرائی گئی ہے، مدارس کے ذمہ داروں کواور علماء کی قیادت کو اب بھی اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے ، ہر عالم دین جومدرسہ سے پڑھ کر نکلتاہے وہ نہ تو ہندی سے واقف ہوتا ہے نہ ہندو سے واقف ہوتا ہے نہ برادران وطن کے درمیان دین وشریعت کی ترجمانی کا اہل ہوتا ہے۔ وہ پہلے سے موجود اس خلیج میں اضافہ کا سبب بنتا ہے جو مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان میں ہے جس کے نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ موجودہ ہندوستان پر علماء کسی فوج کشی کے بغیر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ دلوں پر قبضہ کرنا ہے ’ جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ‘‘ اور دلوں کو فتح کر نے کے لئے خلیج کو پاٹنا ضروری ہے اور خلیج کو پاٹنے کے لئے یہاں کی زبان کا ماہر بننا ضروری ہے اور ان کی مذہبی نفسیات کا جاننا ضروری ہے ۔
*یہی ہندوستانی علماء ہیں جن کے اندر کشادہ دلی نہیں ہے دینی تقاضوں کا فہم نہیں ہے ، دور بینی نہیں ہے اورجنہیں مستقبل کے خطرات کا احساس نہیں ہے جو منجمدبھی ہیں متصلب بھی ہیں متعصب بھی ہیں اور طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں اور جن کے بارے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
فقیہ و صوفی وملا کی نا خوش اندیشی_