find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

India Ke Musalmano ki Maji Aur Mustakbil.

Indian Muslim's Ke Haalat (Maji Aur Mustakbil Me)

مجہےرہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
✍ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
(تازہ ترین نیوزگروپ)
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم۔ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب"
ہمیں خود احتسابی سے کام لینا چاہئے ہم نے قومی اور ملی تاریخ میں کئی بھیانک غلطیاں کی ہیں اور ٹھوکریں کھائی ہیں ، اگر علت ومعلول کے درمیان تعلق درست ہے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی زار وزبوں حالت ان ہی غلطیوں کی وجہ سے ہوئی ہے جو ہم نے ماضی میں کی تھیں ،غلطیوں کا تذکرہ اگر چہ خوشگوار نہیں لیکن یہ آتش خانہ دل کی گرمی ہے جو فکر کو پگھلاکر روشنائی بنادیتی ہے اور پھریہ روشنائی کاغذ پر پھیل جاتی ہے ،خون دل کی روشنائی سے مضامین نقطہ نظر کو بدلنے کے لئے یا ان میں اصلاح کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ فکر جب تک درست نہیں ہوگی ہماری کوششوں کا رخ صحیح نہیں ہوگا۔ اچھے کردار کے سوتے ہمیشہ صحیح نقطہ نظرسے پھوٹتے ہیں، اس لئے اجتماعی معاملات میں اپنے نقطہ نظر کو درست رکھنا بہت ضروری ہے۔اگر ہم صرف ایک صدی کی غلطیوں کی بے حد مختصر فہرست بندی کریں گے تو ہمیں چار مہلک غلطیاں نظر آئیں گی ، پہلے نمبر پرپاکستان کی تشکیل کو رکھنا پڑے گا۔ اگر چہ اس غلطی میں برادران وطن کی غلطیوں اور ناروا سلوک کا بھی ہاتھ ہے *لیکن مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے آیا تھا* اور وہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’ شامل ہے مرا خون جگر تیری حنا میں ‘‘جنہوں نے پاکستان بنایا تھا وہ پاکستان جاچکے ، اب یہ قصہ ماضی ہے۔ لیکن برادران وطن کے دلوں میں اس کا زخم تازہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی دیوار اب بھی حائل ہے۔اور اس دیوار کے اذیت ناک سایے آج بھی مسلمانوں پر پڑتے ہیں اور اذیت پہونچاتے ہیں۔
*دوسری مہلک غلطی جو مسلمانوں نے کی وہ بابری مسجد کی بازیابی سے متعلق تھی* بابری مسجد کا مسئلہ ۱۹۹۰ کے آس پاس کوہ آتش فشاں بن گیا تھا اور اب بھی ہم کوہ آتش فشاں کے دہانے پر ہیں ، اس کے سلسہ میں مولانا علی میاں اور مولانا عبد الکریم پاریکھ اور یونس سلیم صاحب سابق گورنربہار غیر مسلموں اور برادران وطن کے مذہبی قائدین سے مل کر مسئلہ کے حل تک پہونچ گئے تھے مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے مسٹر چندر شیکھر کے کہنے پرمولانا علی میاں کا نام تجویز ہوا تھاجنہوں نے پورے ملک میں پیام انسانیت کی تحریک چلائی تھی، ہندو اکثریت کی نمائندگی کے لئے کانچی پورم کے شنکر آچاریہ کا نام تجویز کیا گیا تھا وی پی سنگھ نے زمین کے سلسلہ میں آرڈننس پاس کردیا تھا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا ، آندھرا پردیِش کے گورنر کرشن کانت صاحب جو بعد میں نائب صدر جمہوریہ ہوئے اور جینی مذہب کے سوشیل منی اور ہندووں کے سب سے بڑے گرو شنکر آچاریہ آنند سرسوتی نے حل کو منظور ی دے دی تھی *اور حل یہ تھا کہ بابری مسجد اپنی جگہ پر رہے گی,کچھ عرصہ کے بعد مورتیاں ہٹائی جائیں گی، اسے نماز کیلئے کھول دیا جائے گا مسجد کے چاروں طرف تیس فٹ کا تالاب رہے گا اور اس کے بعد ریلنگ ہو گی اور ضرورت پڑنے پر اس پر کرنٹ دوڑایا جائے گا ۔ اس کے بعد جو بابری مسجد وقف کی زمین ہو گی اس پر رام مندر تعمیر کرلیا جائے گا اور مسلمان اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ لیکن لکیر کے فقیر علماء نے اور بابری مسجد ایکشن کیمیٹی نے اس حل پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مجبور"ا مولانا علی میاں اور مولانا پاریکھ صاحب کو صلح کے فارمولے سے دستبردار ہوجانا پڑا،شور و غوغا کرنے والوں میں وہ جامد الفکر اور بے شعور متصلب علماء تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم وقف کی ایک انچ زمین رام مندر کے حوالہ نہیں کرسکتے ہیں اوروہ اصول فقہ کے حوالے دے رہے تھے جیسے کہ ہم بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد میں جی رہے ہوں،اور کسی دار الاسلام میں رہتے ہوں، حالانکہ دعوتی نقطہ نظر سے باہمی احترام واعتماد کی فضا پیدا کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کے علماء فقہ الاقلیات سے متعلق اپنی رائے میں لچک رکھتے ہیں اور جو ملک دار الاسلام نہ ہو وہاں کے بعض فقہی مسائل میں دفع مضرت کے تحت نرمی اختیار کرنے کے قائل ہیں*
آج بابری مسجد کا وجود ختم ہوچکا ہے اور آئندہ اس کی تعمیر کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ، اور اس کے لئے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
*کوئی بتائے کہ آخر یہ خون دوعالم کس کی گردن پر ہے؟*
مسلم قیادت کی تیسری غلطی تین طلاق سے متعلق ہے۔ماضی بعید اور ماضی قریب کی غلطیوں کے ذکر کے بعد اب حال کی غلطی پرسنجیدگی اور غیر جانب داری کے ساتھ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تین طلاق کے سلسلہ میں بورڈ کے اسٹینڈکے خلاف آیاہے۔ بورڈ سے یہاں بھی غلطی سرزد ہوئی ہے۔بورڈ کے صدر عالی مقام اپنی متانت اور شرافت اور مرنجان مرنج طبیعت کی وجہ سے بورڈ کے عہدہ داران کی غلطیوں کو نظر اندازکرتے ہیں وہ ملک کے صدر جمہوریہ کے مانند ہیں جو عام طور پر حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے صدرکی نرم مزاجی اور تحمل کی وجہ سے بورڈاکثر وہ فیصلے کرلیتا ہے جس سے صدر کو اتفاق نہیں ہوتا ہے۔ بورڈ کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ *جب بورڈ کے دامن اجتماعیت میں مختلف مسلک ومشرب کے لوگ ہیں تو آخر بورڈ کو کورٹ میں حنفی مسلک کے وکیل اور ترجمان بننے کی کیا ضرورت تھی* اگر بورڈ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ملک میں غالب اکثریت اہل سنت والجماعت کی ہے اور حنفی مسلک والوں کی ہے تو یہی دلیل تو بی جے پی کے پاس ہے کہ چونکہ ہندووں کی اکثریت ہے اس لئے یہ ملک ہندووں کا ہے اور ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کو مسلط کرنا درست ہے۔ بورڈ کا موقف اس بارہ خاص میں قرین عقل بھی نہیں ہے اور قرین انصاف بھی نہیں ہے آخر یہ کیسا انصاف ہے جس میں ظالم کوکوڑے نہیں مارے جاتے جیسا کہ حضرت عمر مارتے تھے اور نہ اس میں مظلوم کی جراحت دل کے لئے کوئی پرسش غم ہے اور اس پر تین طلاق کا یہ فیصلہ سامان صد ہزار نمک داں سے کم نہیں۔ اسی لئے ہندوستان کا جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقہ بورڈ کے موقف سے بہت زیادہ غیر مطمئن ہے ان میں بہت سے لوگوں کے ہاتھ میں سنگ ملامت ہے اوربہت سے حلقوں میں طعنوں کا شور ہے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔اس کا بھی اندیشہ ہے کہ آگے چل کر ہاتھ اور گریباں کا فاصلہ بھی کم ہوجائے یا ختم ہوجائے ، اس لئے بورڈ کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے شاہ بانو کیس میں جس طرح تمام مسلمان بورڈ کی تائید میں تھے اس بار ایسا نہیں ہے *لوگ کہتے ہیں کہ بورڈ کو حنفیت کا نمائندہ نہیں بننا چاہئے تھا اور اس کا موقف یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس بارے میں مسلمانوں میں چونکہ مسلک کا اختلاف ہے اسلئے بورڈ اپنا کوئی موقف نہیں رکھتا ہے*
ا ور اگر بورڈ کو لازماََکوئی موقف اختیار کرنا ہی تھا تو شر سے بچنے کے لئے اور پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ کا سد باب کرنے کے لئے تین طلاق کو ایک طلاق ماننے کا موقف اختیار کرنا چاہئے تھا یہ فیصلہ زیادہ دانشمندانہ اورمجتہدانہ ہوتا اب پارلیامنٹ کو قانون سازی کا حق مل گیا ہے اب جو طلاق کا قانون بنے گا اس میں تا زندگی نفقہ مطلقہ کو شامل کرنے کا امکان موجود ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے *"دستور کا آرٹیکل ۵ ۲ مذہبی آزادی ضرور دیتا ہے لیکن وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مذہبی آزادی پبلک آرڈر صحت اخلاقیات مساوات اور دیگر مساوی حقوق سے متصادم نہ ہو"*
یہ الفاظ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کے اشارے دیتے ہیں کل حکومت میراث کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتی ہے کہ اسلامی قانون صنفی مساوات کے خلاف ہے
*اگر بورڈ نے حنفیت کے موقف میں شدت نہ اختیار نہ کی ہوتی تو پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن ملت کے قائدین نے پاسبان عقل کو بہت دور چھوڑ دیا تھا*
اصول یہ ہے کہ اس موقف کو اختیار کرناچاہئے جس میں خطرہ سب سے کم ہو ۔ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دینے کی گنجائش موجو ہے، اگر یہ موقف اختیار کیا جاتا تو حکومت کومداخلت کا موقع نہیں ملتا ۔ مولانا سید سلیمان ندوی بہت بڑے عالم دین تھے۔ ان کے پاس ایک نومسلم آیا اور اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی۔ سید صاحب نے کہا کہ اس نے تو ابھی اسلام قبول کیا ہے وہ نہ حنفی ہے نہ شافعی نہ مالکی انہوں نے اس کیلئے تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیا اور اسے رجوع کرنے کا حق دیا۔ اگر سرے سے گنجاش نہیں ہوتی اور یہ حرام کاری ہوتی توسید صاحب جیسا عالم دین یہ فیصلہ نہیں کرتا ۔ ائمہ اربعہ کاقول نہ سہی امام ابن تیمیہ اور ابن قیم کا یہی مسلک ہے اور اس سے پہلے صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عباس زبیر بن عوام اور عبد الرحمن بن عوف اور دیگر کئی صحابہ کا یہی موقف رہا ہے,تابعین کی جماعت میں بہت سے اہل علم اسی موقف کے قائل رہے ہیں اس دور میں فاضل دیوبند مولانا سعید احمد اکبرابادی ( ہند وستان) سید رشید رضا ( مصر) ڈاکٹر وہبہ زحیلی ( شام) علامہ یوسف القرضاوی
( قطر) شیخ الازہر شیخ محمد شلتوت ( جامع ازہر مصر) اور کئی علماء کا یہ مسلک رہا ہے اور انہوں نے حنفی ہونے کے باوجود علماء کی بند گلیوں سے باہر نکلنا ضروری سمجھا ہے اور پھر مصر سوڈان اردن شام مراکش عراق اور پاکستان میں کچھ علماء کے اختلاف کے باوجود *یہی قانون یعنی ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک ماننے کا قانون نافذ ہے*
مسلم قیادت کی چوتھی غلطی بھی علماء دین کی قیادت کی غلطی ہے *جو فکر کے جمود سے عبارت ہے* آزادی سے پہلے جو غلطی ہوئی اس کا تعلق علماء سے نہیں تھا وہ سیاسی غلطی تھی اور اس میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ آگے تھا۔ ہجرت کے مقدس نام پر پاکستان جانے کے بعد ہندوستان میں مسلمان کمزور اور بے یار ومددگار رہ گئے اور ان کی قیادت علماء دین کے حصہ میں آئی جو بوجوہ باہمی تعصب، تنگ نظری,گروہ بندی,کا شکار رہے ان میں وسعت نظری اور سیر چشمی کی کمی رہی اور تخلیقی ذہن کی آبیاری کے سوتے خشک ہوگئے تھے ۔لیکن اس کے باوجود آزادی کے بعد کے دور میں علماء کی حیثیت یہ رہی کہ کسی کوشش کو معتبریت اس وقت ملتی جب علماء بھی اس کے ہم سفر اور ہم صفیر ہوں۔ علماء کی تمام کوششوں کا محور مسلمان تھے اور صرف مسلمان ۔ برادران وطن ان کے دائرہ کار سے باہر رہے۔ یہ سیرت طیبہ کا جزوی اور ناقص اتباع تھا۔ البتہ بعض جماعتوں نے غیر مسلموں کے لئے اسلامی لٹریچر بھی تیار کیا اور بعض افراد نے برادران وطن کو خطاب کرنے کے لئے پیام انسانیت کی تحریک بھی چلائی۔ لیکن تبلیغی جماعت اور تحریک مدارس کے عالی مقام ذمہ داروں کے ذہن میں دور دورتک غیر مسلم نہیں تھے۔ اس ملک میں سیکڑوں دینی مدارس قائم ہوئے اور ان مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں علماء نکلے لیکن ان میں سے کوئی *ایک بھی لسان قوم میں بات کرنے والا عالم دین نہیں تھا* اور لسان قوم وہ کہلاتی ہے جسے ۸۰ فی صدی آبادی بولتی ہے اور لسان قوم میں ہی رسول، پیغمبر اور نبی بات کرتے ہیں، لیکن ان مدارس کے علماء اور نائبین رسول لسان قوم میں بات کرنے کے اہل نہیں تھے۔ جب کہ اس ملک کو ایسے علماء کی شدید ضرورت تھی جو ہندووں کے مذہب سے واقف ہوں اور ان سے ڈائلاگ کرسکتے ہوں اور اعتراضات کا جواب دے سکتے ہوں اور انہیں دین اسلام سمجھا سکتے ہوں مدرسوں سے جو بھی فارغ ہو کر نکلتا وہ صرف مسلمانوںکے سامنے خطابت کا جوہر دکھانے کے لائق ہوتا ۔
مستقبل میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے علماء دین کی بھی ضرورت ہے جو ہندو مذہب وتہذیب سے پورے طور پر واقف ہوں اور ان کی زبان میں ،ہندی اور انگریزی میں ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرسکتے ہوں اور ’’لسان قوم‘‘ میں بات کرسکتے ہوں۔ ان کے مجمع کو خطاب کرسکتے ہوں ان کے دل میں اتر سکتے ہوں ، اور یہ کام دینی مدارس کے نصاب میں انقلابی تبدیلی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ اسپین میں جہاں سے مسلمانوں کو نکالا گیا مسلمانوں اورمفتوح غیر مسلموں کے درمیان رابطہ اور تعلقات اور زبان کی خلیج حائل تھی جو غلطی مسلمانوں نے اسپین میں کی تھی وہی ہندوستان میں دہرائی گئی ہے، مدارس کے ذمہ داروں کواور علماء کی قیادت کو اب بھی اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے ، ہر عالم دین جومدرسہ سے پڑھ کر نکلتاہے وہ نہ تو ہندی سے واقف ہوتا ہے نہ ہندو سے واقف ہوتا ہے نہ برادران وطن کے درمیان دین وشریعت کی ترجمانی کا اہل ہوتا ہے۔ وہ پہلے سے موجود اس خلیج میں اضافہ کا سبب بنتا ہے جو مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان میں ہے جس کے نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ موجودہ ہندوستان پر علماء کسی فوج کشی کے بغیر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ دلوں پر قبضہ کرنا ہے ’ جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ‘‘ اور دلوں کو فتح کر نے کے لئے خلیج کو پاٹنا ضروری ہے اور خلیج کو پاٹنے کے لئے یہاں کی زبان کا ماہر بننا ضروری ہے اور ان کی مذہبی نفسیات کا جاننا ضروری ہے ۔
آئندہ ہندوستان کے اسٹیج پر اسلام اپنا رول ادا کرسکے گا یا نہیں اس کا تعلق علماء دین کے صحیح کردار سے ہے۔ علماء دین اور علماء دیوبند کی قیادت کو نہ صرف یہ کہ اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے بلکہ وہ ابھی تک باہمی نفرت اور تعصب اور تنگ نظری اور متشدد ذہنیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اتحاد پارہ پارہ ہے ۱۸ کروڑ مسلمانوں کی دینی قیادت کے پاس عصری آگہی نہیں ہے,غیر مسلموں سے خطاب کرنے والی زبان نہیں ہے اور پھر وہ آپس میں متحد بھی نہیں ہیں۔ وہ بڑے اخلاص کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ زمانہ کی گمراہیوں سے بچنے کے لئے ماضی کے بزرگوں کی تقلید صحیح راہ ہے اور جس طرح بزرگوں کے پاس عصری آکہی کم تھی یہی فقدان بصیرت موجودہ علماء میں بھی پایا جاتا ہے انہیں نہیں معلوم کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کے امپاورمنٹ کا طریقہ کیا ہے۔ وہ بزرگوں کے بنائے ہوے راستہ سے ذرہ برابر ہٹنے کے لئے تیار نہیں وہ بزرگوں کی بنائی ہوئی ہر لکیر کو پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ لکیر کے فقیر کے بجائے لکیر کے امیر بن گئے ہیں۔ ہندوستان کے سب سے بڑے دار العلوم کے ویبسائٹس پر جا کر نئے فتوے دیکھ لیجئے آپ کو آج بھی 2017ء میں اس طرح کے فتوے مل جائیں گے کہ غیر مقلدوں کا شمار فرقہ ضالہ میں ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ کسی شخص کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ اور ان لوگوں سے شادی بیاہ کا رشتہ قائم نہیں کرنا چاہئے۔ ان علماء کے اندر تعصب بقول مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس لئے پایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے مسلک یا جماعت کی کتابیں پڑھتے ہی نہیں اگر وہ ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے تو علمی اختلاف تو کرتے لیکن ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے اور معتدل رویہ اختیار کرتے۔
*یہی ہندوستانی علماء ہیں جن کے اندر کشادہ دلی نہیں ہے دینی تقاضوں کا فہم نہیں ہے ، دور بینی نہیں ہے اورجنہیں مستقبل کے خطرات کا احساس نہیں ہے جو منجمدبھی ہیں متصلب بھی ہیں متعصب بھی ہیں اور طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں اور جن کے بارے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
نہ جانے کتنے سفینے ڈبو چکی اب تک
فقیہ و صوفی وملا کی نا خوش اندیشی_
Share:

Insano ki Soch Kaisi Bn Gayi Hai?

Insaan Ko Soch Dusre Ke Liye

صدائے دل ندائے وقت
میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں
دنیا میں انسان کی آمد ہو یا اس کی موت، روزی روٹی ہو یا عزت و احترام۔ دولت ہو یا فقر و فاقہ ان سب کا مالک صرف وہی خدا عزوجل ہے، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ انسان مکلف ہے کہ حالات سے جوجھ کر اپنی زندگی کی لہروں کو موڑ دے، اٹھتے طوفان اور امنڈتے سمندر کا رخ پھیر دے، لیکن یہ سب اسی حد تک ہے جب تک خدا کی مرضی اور اس کا حکم ساتھ دے، ورنہ ایسا نہیں کہ کوئی مالک الملک کی سلطنت کا کوئی دانہ بھی ادھر سے ادھر کر دے، ہر ایک کی اپنی زندگی بساط بھر ہے، ہر ایک کا دائرہ کار بھی خاص ہے، اور یہ سمجھنا بھی بھول ہے؛ کہ اعلی مقام والا ہی دنیا کا سرتاج اور ادنی حیثیت والا دنیا کا خوار ہے؛ بلکہ یہاں سبھی دنیا کے حسن کا حصہ ہیں، ایک آسمان کے سبھی چمکتے ستارے ہیں، کسی باغ کے سبھی خوشبودار پھول ہیں یا کم سے سے کم اس کی زیب و زینت ہیں، نہ کسی رنگ کو فضیلت حاصل ہے، اور نہ کسی ہنر کو بلکہ جو بھی ہے، جیسا بھی سبھی اپنے مخصوص ہنر و کاز کے ساتھ نگینہ عالم ہیں، وہ ہے تو زندگی ہے، وہ ہے تو عالم ہے وہ ہے۔*
     ان سب حقیقتوں کے باوجود آج اکثر و بیشتر افراد کا ذہن اپنے رب حقیقی کی جانب کم رب حقیقی کے مخلوق کی جانب زیادہ ہے، وہ بھی اس اعتبار سے کہ ان کی نظر عیب جوئی و تماشہ بینی پر مرکوز ہے، وہ باغ کے اگرچہ پھول ہیں لیکن انہیں کیچڑ کی بو زیادہ عزیز ہے، وہ کسی دیوس جانور کی طرح برائیوں کی جستجو اور برائیوں کے تتبع میں لگے رہتے ہیں، وہ انسانیت کا دل ناپنے لگے ہیں، وہ انسانوں کی جفاکشی اور ان کی تگ و دو سے نظریں پھیر لیتے ہیں؛ لیکن ان کو کم حیثیت و کم مایہ گرداننے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں، خدا نے جسے عالم کا امتیاز بنایا تھا وہی شیطان کی خباثت اور اس کی غلاظت کا تودہ بن گیا ہے، جس طرح اس نے آدم کو جنت سے نکلوانے کیلئے حربے استعمال کئے تھے اور جس طرح اس نے چال بازیاں کی تھیں، جس کی وجہ بنی نوع انسان دنیا کی سطح پھر پھینک دیا گیا اور اس کے مقدر میں تا قیامت کشمکش و ہیجان رکھ دی گئی، وہی عادتیں آج انسانوں کا لازمہ ہیں، ایک دوسرے کی برادری کا ہونے کے باوجود آپس میں ڈسنے کی عادت پال لی ہے، شاید یہ پہلا حیوان (ناطق) ہے جو اپنی ہی برادری کو زخمی آلود کر دینے پر بیتاب ہے۔
    *انسانوں کا کمال ان ہی کے دبیز پردوں میں پوشیدہ ہوگیا ہے، وہ اشرف المخلوقات کے ساتھ ساتھ اشرف العیار کا بھی مقام پا چکے ہیں، وہ ایک دوسرے کی کامیابی و کامرانی اور صلاحیت و قابلیت کو ہضم نہیں کر پاتے، بلکہ ایسوں کو دیکھ کر انہیں بد ہضمی ہوجاتی ہے، اس سلسلہ میں صاحب علم و غیر علم ہر ایک برابر ہے، البتہ موزانہ کیا جائے تو پھلدار شاخ ہی زیادہ زہر آلود ہے، بلکہ اس ٹہنی کا ہر ایک پتہ اپنے وجود کو ثابت کرنے کیلئے اسے کھانے یا اسے پت جھڑ کے حوالے کر دینے کو تیار ہے، ہر ایک اپنے آپ میں سمندر بننے کی تمنا رکھتا ہے، اور سنیکڑوں ندیوں کو اپنے اندر جذب کر لینا چاہتا ہے، لیکن وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ تم کتنا ہی عظیم سمندر ہوجاو، کیوں نا تمہارے ٹھاٹھے سے زمانہ کانپنے لگ جائے لیکن اتنا یاد رکھو! کسی خشک گلے کو تر کر نے سے عاجز ہو، تم میں سکتا نہیں کہ کسی کی پیاس بجھانے سکو، کسی تڑپتے ہوئے دل اور سسکتے ہوئے انسان کا گلہ ڈھنڈا کر سکو، پھر کیا فائدہ اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے سے؟ اپنی عبادات و ریاضت خاک میں ملانے سے؟ ہر ایک اپنی قبر کا جوابدہ ہے پھر کیوں ہر ایک اپنی اصلاح و صلاح پر دھیان نہیں دیتا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ قبر میں بھی اپنے ساتھ کسی معاون کو لے جانے یا منکر نکیر کو رشوت دیدینے یا اپنی چالاکی و مکاری سے دھول چٹا دینے کا گمان پال لیا یے؟
     ✍ *محمد صابر حسین ندوی
Share:

Deobandi Hazrat Ke Wali Apne Aap ko Madina ka Kutta Bnne ki Khawahish Rakhte Hai.

Sgane Madina Kahne Par Aeitraz Karne Wale Jara GAur Farmaye

سگ مدینہ کہنے پر اعتراض کرنے والوں کے لئے غور کا مقام
1) اشرف علی تھانوی:
میں تو اپنے کو کتوں اور سوروں سے بھی بدتر سمجھتا ہوں اگر کسی کو یقین نہ ہو تو میں اس پر حلف اٹھا سکتا ہوں. (اشرف السوانح،جلد سوم چہارم، ص57)
2) یعقوب نانوتوی:
یہ شیخ زادہ کی قوم بڑی خبیث ہے پھر بےساختہ فرمایا کہ میں بھی خبیث ہوں. (ملفوظات حکیم الامت، جلد 6، ص 300)
3)مسیح الدیوبند:
فرمایا میں تو خنزیر سے بھی حقیر ہوں. (فیضان معرفت، جلد 1، ص 77)
4) حسین احمد ٹانڈوی:
میں اتنا بڑا پیٹ کا کتّا ہوں کہ دینی خدمات دنیا کے بدلہ میں کرتا ہوں (آداب الاختلاف، ص 174)
5) خلیل احمد انبیٹھوی:
میں اپنے آپ کو آپ (گنگوہی) کی روٹیوں پر پلنے والے کتے سے بھی بدتر سمجھتا ہوں. (اکابر کا مقام تواضع، ص168)
6) فضل علی قریشی:
میں تو اس در (خانقاہ موسی زئی) کا کتا ہوں مجھے جوتوں کے قریب بیٹھنا چاہیے. (اکابر کا مقام تواضع، ص 189)
7) عبدالعفور مدنی:
حضرت یہ لوگ مجھے پہچانتے ہیں اس لئے گدھا کہتے ہیں. (اکابر کا مقام تواضع، ص355)
8) قاسم نانوتوی:
امیدوں لاکھوں ہیں میری مگر بڑی ہے یہ
کہ ہو سگان مدینہ میں میرا نام شمار
جیوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینے کے مجھ کو مرغ ومار
(قصائد قاسمی، 5)
بانی فرقہ دیوبند کہتے ہیں یوں تو لاکھوں خواہشیں ہیں لیکن سب سے بڑی یہ خواہش ہے کہ میں گنتی مدینے کے کتوں میں ہو، کتوں کے ساتھ جیوں اور پھروں اور مر جاؤں تو مدینے کے مرغ اور چیونٹیاں مجھ کو کھا جائیں
تبصرہ : بانی دیوبند کی یہ خواہش تو پوری نہیں ہوئی البتہ انہوں نے عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈال کر خود کو جھنمی مرغ و مار کے حوالے کر دیا.
آمین ثم آمین
آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم
آمین یارب العالمین وبجاہ سیدالمرسلین
Share:

Kya Deobandi Ahle Sunnat Me Se Hai?

دیوبندی اہل سنت میں سے ہیں؟ اور کیا وہ دائرہ اسلام میں ہیں؟
دیوبندی مسلمان جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے، اور  انڈیا کے  جامعہ دار العلوم دیوبند کی طرف منسوب ہے، یہ   ایک نظریاتی، اور مضبوط بنیادوں پرمبنی ادارہ  ہے، جس نے اپنے ہر فاضل پر  خاص علمی مہر ثبت کی ہے، یہی وجہ ہے  کہ یہاں کے فاضل  اسی نسبت سےپہچانے جاتے ہیں۔

قیام  اور قابل ذکر شخصیات:
متعدد علمائے کرام کی  طرف سے جامعہ دیوبند  کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا جب 1857 ء میں انگریزوں نے  مسلمانوں کی تحریک ِآزادیِ  ہند کو  سبوتاژ کیا  ، چنانچہ  جامعہ دیوبند  نے  بر صغیر پر مغربی  یلغار ، اور مادی  تہذیب کے اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ایک مضبوط ردّ عمل پیش کیا ، خصوصی طور پر    دہلی میں جو کہ دار الحکومت تھا؛  اسلامی تحریکوں کے کچلے جانے کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، اور انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا تھا، تو اس  موقع پرعلما ء کو بے دینی اور الحاد کا خدشہ لاحق ہوا، چنانچہ  شیخ امداد اللہ مہاجر مکی، انکے شاگرد شیخ محمد قاسم نانوتوی اور انکے رفقائے کرام نے اسلامی تعلیمات ، اور اسلام کی حفاظت کیلئے  منصوبہ بندی کی اوراس کا حل یہ سوچا کہ دینی مدارس اور اسلامی مراکز قائم کئے جائیں۔  اس طرح سے  برطانوی دورِ حکومت ہی میں دیوبند کے علاقے میں ایک  اسلامی عربی  مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، جس نے ہندوستان میں دینی اور شرعی  مرکز کا کردار ادا کیا۔

اس نظریاتی ادارے کی قابل ذکر شخصیات  یہ ہیں:

1- مولانامحمد قاسم

2- مولانا رشید احمد گنگوہی

3- مولاناحسین احمد مدنی

4- مولانامحمد انور شاہ کشمیری

5- مولانا ابو الحسن ندوی

6- محدث حبیب الرحمن اعظمی

نظریات و عقائد:

- یہ لوگ اصول یعنی: عقائد میں ابو منصور ماتریدی  کے مذہب  پر ہیں۔

- اور فقہی اور فروعی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب  پر ہیں۔

- سلوک اور اتباع  میں صوفیت کے طُرق: نقشبندی، چشتی، قادری، اور سہروردی  پر چلتے ہیں۔

دیوبند کےنظریات اور  اصول و ضوابط  کوخلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا جا سکتاہے:

- اسلام کا پرچار، اور مشنری  و   باطل  مذاہب کا  مقابلہ

- اسلامی ثقافت کا  پھیلاؤ، اور انگریزی ثقافت  کا قلع قمع

- عربی زبان کی ترویج کیلئے کوششیں ، کیونکہ  عربی زبان کی موجودگی میں  ہی اسلامی وشرعی  مصادر سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

- قلب و عقل ، اور علم و روحانیت کو یکجا جمع کرنا
دیکھیں: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب "(1/308)

دیوبندیت چونکہ  ماتریدی مذہب  پر قائم ہے اس لئے ماتریدی  مذہب کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھی ضروری ہے:

ماتریدیت ایک  بدعتی فرقہ ہےجو کہ اہلِ کلام  کی کوششوں کا نتیجہ ہے ،اس کا نام ابو منصور ماتریدی کی نسبت  سے ہے۔آپ اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے  معتزلی اور جہمیوں وغیرہ کے مقابلہ کرتے اور  عقلی و کلامی دلائل پر انحصار کرتے تھے۔

ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین(عقائد) کی ماٰخذ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:

1- الٰہیات (عقلیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیاد ی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ  شامل ہیں۔

2- شرعیات (سمعیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے نفی یا اثبات میں قطعی  فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّت، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّت کوبھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا بیان میں بالکل واضح طور پر منہج اہل السنۃ و الجماعۃ کی مخالفت پائی جاتی ہے؛ اس لئے کہ اہل السنۃ کے ہاں قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ ہی مصادر اور مآخذ ہیں،

اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرنا ایک نئی بدعت کا اضافہ تھا۔ یہ تقسیم ایک بے بنیاد نظریے پر کی گئی جسے فلسفیوں نے گھڑا تھا، اور وہ اسطرح کہ انہیں اس مفروضہ نے ،کہ دینی نصوص  عقل سے متصادم ہیں، اس بات پر مجبور کیا کہ عقل اور دینی نصوص کو قریب تر لانے کوشش کیجائے، لہٰذا   انہوں نے عقل کو وہاں تک گُھسا دیا جہاں عقل کا کوئی کام ہی نہیں ہے۔اور ایسے باطل احکامات  صادر کئے جو کہ شریعت سے بالکل متصادم تھے، پھراسی تضاد و تصادم  کو انہوں نے تفویض اور تأویل  کاجامہ پہنا دیا، حالانکہ اہل السنۃ و الجماعۃ   کے ہاں عقلِ سلیم  اور صحیح ثابت شدہ نصوص میں کوئی تصادم ہے ہی نہیں"

مزید کیلئے دیکھئے: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب المعاصرة "(1/99)

اہل سنت کا  "ماتریدیہ" کے بارے میں موقف:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ  یہ امت تہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقے کے علاوہ سب کے سب فرقے  جہنم میں جائیں گے،  اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی بتلا دیا کہ کامیاب ہونے والا یہ فرقہ  ہی [اصل] جماعت ہوگی، اور یہ جماعت  اس [منہج] پر ہوگی جس پر  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام  تھے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اہل السنۃ و الجماعۃ کتاب و سنت پر علمی اور عملی  ہر اعتبار سے  ڈٹے ہوئے ہیں، اور یہی لوگ فرقہ ناجیہ میں شمار ہونگے، کیونکہ  اِنہی میں کامیابی کا وصف پایا جاتا ہے، اور وہ ہے:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ، اور آپکے صحابہ کرام کے منہج  کو علمی اور عملی ہر اعتبار سے  اپنانا۔

چنانچہ  کسی فرد یا جماعت کے فرقہ ناجیہ میں شامل ہونے کیلئے نام ہی کی نسبت کافی نہیں ہے، خواہ وہ عملی طور پر  صحابہِ کرام اور تابعینِ عظام  کے منہج  کی  مخالفت کرتے ہوں؛ بلکہ  علم و عمل ، تصور  و سلوک ہر طرح سے انہی کے منہج کو اپنایا جائے۔

چنانچہ ماتریدی ایسا گروہ ہے جن کے نظریات میں حق و باطل ، اور سنت کی مخالفت سب کچھ ہے۔ یہ بات ظاہرہے کہ فرقے حق  سے قریب اور بعید ہونے میں یکساں نہیں ہوتے، اس لئے جو کوئی فرقہ  سنت کے زیادہ قریب ہوگا، وہی حق اور درست سمت میں ہوگا،اس بنا پر دیکھیں توان میں سے کچھ ایسے  ہیں جنہوں نے بڑے بڑے مسائل میں اہل ِسنت   کے مخالف موقف اپنایا، اور کچھ ایسے بھی ہیں  جنہوں  نے باریک جزوی مسائل میں  مخالفت کی ہے،  اور بعض وہ بھی ہیں جنہوں  نے  منہج ِحق سے اپنے سے زیادہ دور فرقے کا رد کیا ہے،  توا یسی شخصیات یقینا باطل کی تردید  اور حق گوئی پر قابل تعریف   ہیں، لیکن باطل کا ردّ کرتے ہوئے    انصاف  کی حدتجاوزکرے اس طور پر کہ بعض حق باتوں کا انکار ،اور بعض باطل باتوں کا اقرار کرےتو یہ درست نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی  بڑی  بدعت  کو چھوٹی بدعت سے بدل  دے یا اور  کمزور باطل سے قوی باطل پر وار کرے۔ یہی حالت  اہل سنت و جماعت کی طرف منسوب بہت سے اہل کلام کی  ہے ۔۔۔" انتہی
" فتاوى شيخ الاسلام ابن تیمیہ"(1/348)

اب یہاں ایک اہم مسئلہ باقی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ماتریدی گروہ کے بارے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ یا دیوبندیوں کی طرح انکے نظریات اپنانے والے  لوگوں کے ساتھ ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہئے؟

تو اسکا جواب ہر شخص کے بارے میں الگ ہوگا:

چنانچہ جو شخص  اپنے غلط نظریات پر  بضد قائم رہے، اور اپنے خود ساختہ نظریات  کی ترویج  کرے تو اس کے بارے میں لوگوں کو باخبر کرنا، اور اسکی گمراہی و انحراف بیان  کرنا ضروری ہے، اور جو شخص  اپنے نظریات کی ترویج نہ کرے، اسکے قول و فعل سے  تلاش ِحق آشکار ہو تو اسے نصیحت کی جائے، عقائد میں موجود خامی کی نشاندہی کی جائے، اور اس کیلئے  اچھا انداز اپنایا جائے، امید واثق ہے کہ اللہ تعالی اسے قبولِ حق کی توفیق دے گا۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان  ہے: (دین نصیحت کا نام ہے) ہم نے کہا کس کیلئے؟ آپ نے فرمایا: (اللہ کیلئے، اللہ کی کتاب کیلئے، اللہ کے رسول کیلئے، مسلم حکمرانوں کیلئے، اور عام لوگوں کیلئے) مسلم: (55)
واللہ اعلم.
ماخوذ از شیخ صالح المنجد، معروف سعودی عالم دین کی ویب سائٹ سے،

Share:

Jannat Aeisi Ke Jiska Kabhi Dil Ne Tassawur Bhi Nahi Kiya Hoga.

JANNAT KA BAYAN

Arabic
   ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ ""أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ"".
  Roman Urdu
  Nabi Kareem sallallahu alaihi wasallam ne farmaya " Allah ta"ala ka farman hai ke Maine apne nek bandon ke liye woh cheezen taiyyar kar rakhi hain, jinhen na aankhon ne dekha, na kaanon ne suna aur na Kisi Insan ke Dil mein un ka kabhi khayal guzra hai. Agar ji chahe to yeh Aayat padh lo
《 فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ""》.
{ pus koi shakhs nahi jaanta ke uss ki aankhon ki thandak ke liye kya kya cheezen chupa kar rakhi gayi hain."(32.17)
Urdu
  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو
《فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين》
{ پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ }“ (32.17)
English
  Rasoolullah sallallahu alaihi wasallam said" Allah ta"ala said, I have prepared for My Pious slaves things which have never been seen by an eye, or heard by an ear, or imagined by a human being. If you wish, you can recite this Verse from the Holy Qur'an
《 فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ""》.
{ No soul knows what is kept hidden for them, of joy as a reward for what they used to do}. (32.17)
Sahih Bukhari
Hadith # 3244
     ▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬
Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo
Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare
JzakAllah  Khaira Kaseera
Share:

Kya Islam Me Khudkush (Suicide) Karna Jayez Hai?

Kya Khudkush (Suicide) karna Sahi Hai

کافر دشمنوں کو قتل کرنے کیلئے اپنے آپکو بم دھماکے سے اڑاناعام طور پر خودکش حملہ کہا جاتا ہے جو کہ قرآن و حدیث کی رو سے ایک حرام عمل ہے ۔
وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ﴿سورة النساء /۲۹﴾
اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالٰی تم پر نہایت مہربان ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے اپنےآپکو تیز دھار آلے سے قتل کیا، تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کیلئے یہی تیز دھاری آلہ ہاتھ میں لیکر اپنے پیٹ پر وار کرتا رہے گا)
بخاری ( 5442 ) اورمسلم ( 109 ) نے اسے روایت کیا ہے۔
خودکش حملہ کیا ہے ؟
یعنی کسی کو مارنے سے پہلے خود کو مارنا۔۔۔۔۔
دین میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔۔۔
اور جو لوگ خودکش حملوں کے فدائی ہونے کا شائبہ ڈالتے ہیں انکو معلوم ہونا چاہیئے کہ
فدائی حملہ میں پہلے کافر کو مارا جاتا ہے اور پھر اس کے ہاتھوں قتل ہوا جاتا ہے مگر خودکش حملہ میں کافر مرے یا نہ مرے بندہ خود کو مار ڈالے۔۔۔۔جسے دین میں واضح طور پر خودکشی کہا جاتا ہے۔
جب دین میں فدائی حملے موجود ہیں تو پھر خود سے ایک ایسی قسم ایجاد کرنا کہ جس کے جائز ہونے میں ہی اشکالات و شکوک وشبہات ہوں اور دلائل باوجود تراش خراش کے بھی نہ بن پا رہے ہوں تو اس عمل کا کیا فائدہ؟؟؟
اور اللہ قرآن میں واضح منع فرماتا ہے کہ:
ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة ( البقرة/ 195)،
" اپنی جان کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو"۔
تو پھر خودکش ہو یا خودکشی ایک ہی بات ہے۔۔۔
کثیر علماء سلف اسے حرام قرار دیتے ہیں
اور جو اس کے جواز کی راہ نکالتے ہیں وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اس کا جواز تب بنے گا جب :
➖ ا۔ انتہائی مجبور ہو اور کفار کو نقصان پہنچانے کو کوئی اور ذریعہ نہ بچا ہو۔۔۔
➖ ب۔ یہ مسلم ممالک میں مسلمان معاشروں میں نہیں بلکہ حربی کفار کے خلاف صرف میدان جہاد میں ہو۔۔
➖ ج۔ ا س سے بہت بڑا نقصان متوقع ہو نہ کہ ایک دو بندے مارنا جیسا کہ آجکل رواج بن چکا ہے، کوئی انڈر ویئر میں ڈالتا ہے کوئی پیٹ میں نگل کر، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
➖ د۔ ا س کو کراہت سمجھ کر کرنا نہ کہ اپنے جہاد کا شعار بنا لینا۔۔جیسا کہ آجکل عام ہے اور کچھ جہادی تنظیمیں صرف اپنے اسی عمل کی وجی سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں
➖ ر۔ اس کو معمول بنانے کی بجائے ، صرف ناگزیر حالات میں اختیار کرنا۔۔
لیکن جواز اس رائے کہ باوجود ، باکثرت علماء اس کے مجبوری میں بھی حرام اور ناجائز ہونے کے قائل ہیں ۔
علماء کے مطابق ، اگر جہاد میں کسی مجبوری کی حالت میں خودکشی جائز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان جہاد میں کفار کے خلا ف اس شخص کو خودکشی کرنے پر جہنم کی وعید نہ سناتے کہ جس نے اپنے زخموں سے تنگ ہو کر اور مجبور ہو کر خود ہی اپنے آپ کو مار لیا تھا ۔
اور یہ کام ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ جب کوئی خودکش بمبار فوج یا پولیس کے درمیان گھر جاتا ہے تو وہ گرفتاری کے ڈر سے خود کو اڑا لیتا ہے جو کہ واضح خودکشی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
اس ضمن میں آپکے سامنے دو جیّد علماء کرام رحمہ اللہ کے فتاوی پیش کیے جاتے ہیں ملاحظہ کیجیے 
⛔فتوی نمبر / 1
علامہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو کچھ یہودیوں کو قتل کرنے کیلئے اپنے آپکو دھماکے سےاُڑائے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"میری نظر میں یہ کام درست نہیں ہے، اور کئی بار اس کے متعلق متنبہ بھی کرچکا ہوں، کیونکہ یہ قتل کے مترادف ہے، اور اللہ تعالی فرماتا ہے: (ولا تقتلوا أنفسكم) [یعنی اپنی جان کو قتل مت کرو] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے اپنی جان کو کسی بھی چیز سے قتل کیا ،قیامت کے دن اسی چیز کیساتھ اسے عذاب دیا جائے گا)[ بخاری( 5700 ) ومسلم ( 110 )]۔۔۔ اور اگر شرعی جہاد شروع ہوجائے تو مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرے، چنانچہ اگر قتل ہوجائے تو الحمد للہ، لیکن بارودی مواد اپنے ساتھ رکھ کر خود کش حملہ کرے اور انہی یہودیوں کے ساتھ !مارا جائے تو یہ غلط ہے، جائز نہیں"
⛔فتوی نمبر / 2
اسی طرح فقیہ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے خود کش حملوں کے بارے میں پوچھا گیا:
تو انہوں نے جواب دیا: "ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جن خود کش حملوں میں موت یقینی ہو تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی ہے کہ : (جس نے دنیا میں کسی چیز کے ساتھ اپنے آپکو قتل کیا قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب دیا جائے گا) [بخاری ( 5700 ) اورمسلم ( 110 )] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی چیز کو مستثنی نہیں کیا، اس لئے یہ حکم عام ہے؛ اور اس لئے بھی خود کش حملہ حرام ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت ہے؛ جبکہ یہ خود کش حملہ آور آپنے آپکو دھماکے سے اُڑا کر مسلمانوں کے ایک فرد کو کم کر رہا ہے، مزید برآں کہ اُسکی وجہ سے دوسروں کا بھی نقصان ہوتا ہے؛کیونکہ دشمن پھر ایک کے بدلے ایک نہیں بلکہ بسا اوقات پوری قوم کو بھی تباہ کرسکتا ہے؛ اسی طرح ایک خود کش حملہ جسکی وجہ سے دس یا بیس یا تیس یہودی قتل ہوں اسکی وجہ سے مسلمانوں کو انتہائی شدید تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور سنگین نقصان ہوتاہے، جیسے کہ آج فلسطینیوں کا یہود کے ساتھ معاملہ [ہمارے سامنے ]ہے۔
اور جو شخص اس کے بارے میں جواز کا قائل ہے، اسکی یہ بات بے بنیاد ہے، بلکہ اسکی یہ بات فاسد رائے پر قائم ہے؛ اس لئے کہ خود کش حملہ کے رد عمل میں حاصل ہونیوالے نقصانات اسکے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں، اور یہ براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ (جنگ یمامہ کے موقع پر انہوں اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ انہیں قلعے کی فصیل کے اندر پھینک دیں، تو وہ انکے لئے دروازہ کھول دینگے)کو دلیل بھی نہیں بنا سکتا،کیونکہ براء بن مالک کے واقعہ میں موت یقینی نہیں تھی، اسی لئے وہ ناصرف بچ بھی نکلے اور دروازہ کھولنےمیں بھی کامیاب رہے، جسکی بنا پر لوگ قلعہ میں داخل ہوئے"
ماخوذ از: "مجموع فتاوى ورسائل عثيمين" (25/ 358)
واللہ تعالیٰ اعلم
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
Share:

Masjid Me Gair Muslimon Ka Jana Kaisa Hai?

Kya Masjid Me Koi Kafir Dakhil Ho Sakta Hai

 واضح رہے کہ سوائے بیت الحرام کے اسلام میں کسی غیر مسلم کو مسجد میں داخلے سے منع نہیں کیا گیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غیر مسلم وفود مسجد میں ہی ٹھہرتے تھے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی غیر مسلم آُپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کو آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہوتے ، تو وہ مسجد میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتا تھا۔
چنانچہ ہمیں متعصبانہ رویہ اختیار کرنا لائق نہیں کہ کسی غیر مسلم کو بغرض ناگزیر جائز وجوہات کے باعث مسجد میں داخل ہونے سے روک دیں ۔ جہاں تک مسجد کے تقدس کا معاملہ ہے تو مسجد کا تقدس ہر حال میں قائم رکھنا چاہیے چاہے وہ مسلم کے لیے ہو یا غیر مسلم کے لیے ، اللہ کے گھروں میں پاکیزگی اور قرآن و شریعت کے دائرے کو مدعوکار رکھتے ہوئے داخل ہونا چاہیے
اور یہ بھی جان لیجیے کہ شریعت میں دعوت دین کے لیے کافر سے حسن ظن رکھنے کا حکم ہے ۔ چناچہ اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لیے کسی کافر کو مسجد میں داخل کرنا ، اور رکھنا جائز ہے ۔ اسی طرح مسلمان امام ، یا قاضی سے اپنے فیصلے کروانے کے لیے کافر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے ۔ نیز مسلمان امام ، یا قاضی ، یا حاکم سے ملاقات کے لیے کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے ۔
لیکن اس بات کی ہر حال میں احتیاط کی جانی چاہیے کہ وہ کافر اپنے کفر کی نجاست کے ساتھ کسی ایسی حالت میں نہ ہوں جس حالت میں مسلمان کو بھی مسجد میں داخل ہونے کی، یا وہاں رکنے اور بیٹھنے کی اجازت نہیں، یعنی جنابت یا حیض کی حالت میں نہ ہوں ۔
اس سلسلے میں علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی کا فتوی ملاحظہ فرمائیے⏬
مسلمانوں کے لئےکسی بھی کافرکو مسجد حرام یا اس کے آس پاس کےعلاقہ میں داخل ہونے کی اجازت دینا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا.
’’اے ایمان والو ! مشرک نرے ناپاک ہیں، تو اس سال (سن 9 ھ) کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں‘‘۔
التوبه، 9 : 28
جہاں تک دوسری مساجد کا تعلق ہے ۔ تو کچھـ فقہاء امت نے جائز بتایا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور کچھـ ائمہ کا کہنا ہے کہ جائز نہیں ہے، یہ لوگ دیگر مساجد کو مسجد حرام پر قیاس کرتے ہیں۔
اور صحیح بات یہ ہے کہ: شرعی مصلحتوں کے پیش نظر یا ضرورت پڑنے پرغیرمسلموں کا داخل ہونا جائز ہے: مثلا اسلام کی دعوت اور پیغام سننے یا مسجد کا پانی پینے یا اس جیسی مصلحتوں کے پیش نظرجائز ہے، اور اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال الحنفی کو اسلام لانے سے قبل مسجد میں باندھا تھا، اسی طرح ثقیف کا وفد اور نجران کے عیسائیوں کا وفد مسلمان ہونے سے قبل مسجد نبوی میں ٹهہرايا گیا تھا، کیونکہ اس میں بہت سار ےفوائد مضمر تھے، مثلا یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ اور آپ کی وعظ ونصیحت سنتے، نمازیوں اور قراء حضرات کو قرآن پڑھتے دیکھتےوغیرہ وغیرہ بہت سے فوائد ہیں، جو مسجد میں ٹہرنے والے کو حاصل ہوتے ہیں۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی/فتوی نمبر:2922
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
Share:

Mard Ke Liye Sone Aur Chandi Ka Istemal Karna Kaisa Hai?

مرد کے کیے سونا اور زیورات کا جواز

اکثر سوال پوچھا جاتا ہے کہ مرد کے لیے سونا تو حرام ہے لیکن کیا چاندی اجازت ہے ؟ تو اس سوال کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مرد کو چاندی یا کتنی چاندی اجازت ہے ، اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ مرد کو کن صورتوں میں چاندی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
مثال کے طور پر چاندی انگوٹھی کی صورت میں مرد کے لیے جائز ہے کیونکہ یہ اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے فعل سے ثابت ہے ۔ لیکن کیا مرد کو اس بات کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ چاندی کو ہاتھ میں بھی پہنے ، چاندی کے کنگنوں اور کڑوں کی صورت میں کلائی میں پہنے ، گلے میں زنجیروں کی صورت استعمال کرے ، کانوں میں چاندی کی بالیاں پہنے ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ عورتوں کے لیے خاص کیا گیا ہے اس لیے مرد پر حرام ہے اور عورت ساتھ مشابہت ہے اور عورتوں سے مشابہت سے مردوں کو منع کیا گیا ہے۔
بتقاضہ فطرتِ انسانی مرد اپنی مردانگی اور عورتیں اپنی نسوانیت کو برقرار رکھیں۔ یہ مغرب زدہ معاشرے کی ایک سنگین خرابی ہے کہ مرد صفاتِ نسواں اختیار کرتے ہیں' مثلاً عورتوں کی طرح لمبے بال رکھنا اور انہیں عورتوں کی طرح سنوارا بھی جاتا ہے ' کانوں میں بالیاں اور ہاتھوں میں کڑے پہننا گردن میں لاکٹ پہننا اور داڑھی منڈوانا۔ جبکہ عورتیں مردانہ صفات اختیار کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں' مثلاً بال چھوٹے رکھنا' شلواروں کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا اور مردوں کے لباس پہننا وغیرہ۔ اللہ کے رسولۖ نے ایسے مردوں اور عورتوں پر لعنت کی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ الْمُتَشَبِّھِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاء وَالْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاء بِالرِّجَالِ (١٣)
''اللہ کے رسولۖ نے اُن مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں اور اسی طرح آپۖ نے اُن عورتوں پر بھی لعنت کی ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں۔''
اسی طرح آپۖ نے ایسے مردوں اور عورتوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو کہ جنس مخالف کا لباس پہنتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں :
((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ لَعَنَ الرَّجُلَ یَلْبَسُ لُبْسَةَ الْمَرْأَةِ وَالْمَرْأَةُ تَلْبَسُ لُبْسَةَ الرَّجُلِ)) (١٤)
''اللہ کے رسولۖ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کے لباس جیسا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کے لباس جیسا لباس پہنتی ہے۔'
⛔ فتوی
۔─━══★◐★══━─
لوہے یا پیتل وغیرہ کی انگوٹھی پہننا بعض روایات میں منع آیا ہے اگرچہ روایت میں کلام ہے :(باب ماجاء فی خاتم الحدید سنن ابو دائود ) (صححه الالباني صحيح ابي دائود كتاب الخاتم باب ماجاء في خاتم الحديد (٤٢٢٥) والنسائي (٥٢١٢-5210)
صاحب عون المعبود فرماتے ہیں:
’’ والحديث يدل علي كراهة لبس خاتم الحديد ’’ (٤/١٤٤)
انگوٹھی میں موتی یا ہیرا وغیرہ جڑوانا بظاہر جائز ہے حدیث میں ہے:
’’ كان خاتم النبي صلي الله عليه وسلم من ورق فصه حبشي ’’(صحيح مسلم كتاب اللباس باب في خاتم الورق قصه حبشي (٥٤٨٧) ابو دائود (٤٢١٦) والمشكاة (٤٣٨٨) (سنن ابی دائود ماجاء فی اتخاد الخاتم )
یعنی '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی انگوٹھی میں نگینہ حبشی تھا۔''
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ اي كان حجرا من بلاد الحبشة او علي لون الحبشة او كان جزعا او عقيقا لان ذلك قد يوتي من بلاد الحبشة ’’ (فتح الباري 10/322)
یعنی '' نگینہ ملک حبشہ کے پتھر یا حبشی رنگ یا منکے یا عقیق پتھر کا تھا کیونکہ اسے ملک حبشہ سے برآمد کیا جاتا تھا۔''
فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ
⛔ هل صحيح أنه لا تجوز الصلاة بخواتم وسلاسل النحاس؟
کیا یہ بات صحیح ہے کہ : تانبے اور لوہے کی چین یا انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں ؟
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
نہیں یہ بات صحیح نہیں ،اور عورت کیلئے سونے کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ،اور چاندی اور لوہے کی انگوٹھی پہن کر کسی
کیلئے بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اس(لوہے کی انگوٹھی ) کی حرمت میں وارد حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،اور نبی کریم ﷺ نے شادی کے خواہش مند ایک شخص کو جس کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں تھا اسے فرمایا تھا کہ جا تلاش کر اگر لوہے کی لوہے انگوٹھی ہی مل جائے (تو مہر میں وہی دے دے )یہ حدیث لوہے کی انگوٹھی پہننے کے جواز میں دلیل ہے
(( مکمل حدیث یہ ہے :
ترجمہ :
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی۔ اتنے میں ایک مرد نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میں دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دو گے تو تمہارے پاس پہننے کے لیے تہمد بھی نہیں رہے گا۔ کوئی اور چیز تلاش کر لو۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو، ایک لوہے
کی انگوٹھی ہی سہی! اسے وہ بھی نہیں ملی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں! فلاں فلاں سورتیں ہیں، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں۔
وأما الحديث الذي فيه أنه رأى على إنسان خاتما من حديد فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل النار؟، ورأى آخر عليه خاتم من صفر قال: ما لي أجد منك ريح الأصنام؟ ( أخرجه الترمذي في كتاب اللباس، باب ما جاء في الخاتم الحديد، برقم (1785)، وأبو داود أول كتاب الخاتم، باب ما جاء في خاتم الحديد، برقم (4223)، والنسائي في المجتبى في كتاب الزينة مقدار ما يجعل في الخاتم من الفضة، برقم (5195)، واللفظ للترمذي)» فهو حديث ضعيف شاذ مخالف للأحاديث الصحيحة.
اور وہ حدیث جو سیدنا بریدہ رضی الله عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہو؟“ پھر وہ آپ کے پاس پیتل کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بدبو آ رہی ہے؟ پھر وہ آپ کے پاس سونے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جنتیوں کا زیور پہنے ہو؟ اس
نے پوچھا: میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ آپ نے فرمایا: ”چاندی کی اور (وزن میں) ایک مثقال سے کم رکھو“۔
یہ حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ۳- عبداللہ بن مسلم کی کنیت ابوطیبہ ہے اور وہ عبداللہ بن مسلم مروزی ہیں۔
اور یہ حدیث سنن ابی داود/ الخاتم ۴ (۴۲۲۳)، سنن النسائی/الزینة ۴۶ (۵۱۹۸)، (تحفة الأشراف : ۱۹۸۲)، و مسند احمد (۵/۳۵۹)
(اس کے راوی عبداللہ بن مسلم ابو طیبہ حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اکثر وہم ہو جایا کرتا تھا)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4396) ، آداب الزفاف (128)
فتاوی نور علی الدرب / الشیخ ابن باز رحمہ اللہ
⛔ مرد كے ليے پلاٹين كى بنى ہوئى انگوٹھى پہننا
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
يہ سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كے سامنے پيش كيا گیا تو ان كا جواب تھا:
يہ دو شرطوں كے ساتھ مشروط ہے:
پہلى شرط:
اس ميں اسراف اور فضول خرچى نہ ہو، وہ اس طرح كہ مرد اس طرح كا لباس پہننے كا اہل ہى نہ ہو اور وہ اسے پہنے۔
دوسرى شرط:
اس سے فتنہ و خرابى پيدا نہ ہو، مثلا وہ نوجوان ہو اور اس سے لوگوں كو فتنہ ميں پڑنے كا خدشہ ہو۔
يہ اس ليے كہ لباس ميں اصل تو اباحت ہى ہے، صرف سونے كى انگوٹھى مرد كے ليے پہننا حرام ہے، اور يہ چيز معروف بھى ہے۔
الشيخ محمد صالح العثيمين
⛔ مرد کے لیے سونا حرام  احادیث کی روشنی میں
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
➖ 1 سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار کر پھینک دیا ، اور فرمایا تم میں سے کوئی آگ کے انگارے کا قصد و ارادہ کرتا ہے کہ اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیتا ہے ( یعنی مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی وغیرہ کو آگ کے انگارے سے تعبیر کیا ہے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لے جانے کے بعد اس آدمی کو کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے فائدہ حاصل کرو ، تو اس نے کہا ، نہیں ، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھینک دیا ہے ، میں یہ کبھی بھی نہیں لوں گا ۔ ( صحیح مسلم : 2090 )
➖ 2 سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلا یلبس حریرا ولا ذھبا ( مسند الامام احمد : 261/5 وسندہ حسن )
” جو ( مرد ) اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ ریشم اور سونا مت پہنے ۔ “
حافظ منذری رحمہ اللہ ( الترغیب ) اور حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کے راویوں کو ” ثقہ “ کہا ہے ۔ ( مجمع الزوائد : 174/5 )
➖ 3 سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجران سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا اور فرمایا کہ تم میرے پاس آئے ہو ، جبکہ آپ کے ہاتھ میں آگ کا انگارا ہے ۔ ( نسائی : 5191 ، مسند الامام احمد : 14/3 وسندہ حسن )
امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 5489 ) نے اسے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس کا راوی ابوالنجیب المصری ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ ( 1669 ) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 5489 ) نے اس کو ” ثقہ “ قرار دیا ہے ۔ امام ابن یونس المصری کہتے ہیں ۔ کان احد الفقہاءفی ایامہ
➖ 4 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سونے کی انگوٹھی ( منسوخیت و حرمت سے پہلے ) پہنتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ میں یہ کبھی بھی نہیں پہنوں گا ، لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 5865 ، صحیح مسلم : 53/2091 )
➖ 5 سیدنا براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں سے منع فرمایا ، ان میں ایک سونے کی انگوٹھی ( وغیرہ ) تھی ۔ ( صحیح بخاری : 5863 )
➖ 6 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنے دوست ( مرد ) کو آگ کا کڑا پہنانا پسند کرتا ہے ، چاہئیے کہ وہ اسے سونے کا کڑا پہنائے ۔ جو اپنے دوست کو آگ کا طوق پہنانا پسند کرتا ہے ۔ وہ اسے سونے کا طوق ( زنجیر ) پہنائے جو اپنے دوست کو آگ کے کنگن پہنانا پسند کرتا ہے ، وہ اسے سونے کا کنگن پہنائے ۔ چاندی ہی استعمال کرو ( سونے کی طرف تجاوز مت کرو ) اس کے ساتھ کھیلو ( یعنی جو چیز چاہو بنالو ) ( ابوداود : 4236 ، مسند الامام احمد : 378, 334/2 وسندہ حسن )
حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند تو ” صحیح “ کہا ہے ۔ ( الترغیب والترہیب : 273/1 )
➖ 7 سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ مبارک میں ریشم اور بائیں میں سونا پکڑ کر فرمایا :
ان ھذان حرام علی ذکور امتی
” یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ۔ “ ( ابوداؤد : 4057 ، نسائی : 160/8 ، ابن ماجہ : 3595 ، مسند الامام احمد : 115/1 وسندہ حسن )
حافظ عبدالحق الاشبیلی رحمہ اللہ نے اپنی ” احکام “ میں اس حدیث کے بارے میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں :
حدیث حسن رجالہ معروفون
” اس کا راوی ابو افلح کو امام عجلی رحمہ اللہ نے ” ثقہ “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صدوق “ کہا ہے ۔ ( الکاشف : 271/3 )
عبداللہ بن زریر کو امام ابن سعد رحمہ اللہ ، امام عجلی رحمہ اللہ ، ابن حبان رحمہ اللہ اور ابن خلفون رحمہ اللہ نے ” ثقہ “ کہا ہے ۔ عبدالعزیز بن ابی الصعبہ کو امام ابن حبان نے ” ثقہ “ اور امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے لیس بہ باس معروف کہا ہے ۔ کمامر
➖ 8 مسلمہ بن مخلد رحمہ اللہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کھڑے ہو جائیے ، جو بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ، اس کے بارے میں لوگوں کو خبر دیں ، تو انہوں نے کہا کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار
” جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔ “
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی حلال لاناثھم
” ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے ، عورتوں کے لئے حلال ہے ۔ “
( المعرفۃ والتاریخ یعقوب بن سفیان الفسوی : 506/2 ، بیہقی : 276, 75/3 ، شرح معانی الآثار للطحاوی : 251/4 وسندہ حسن )
یحییٰ بن ایوب اور الحسن بن ثوبان دونوں حسن الحدیث میں ، ہشام بن ابی رمیۃ کو امام ابن حبان اور یعقوب بن سفیان نے ثقہ کہا ہے ۔ مسلمہ بن مخلد کوجمہور محدثین نے صحابہ میں شمار کیا ہے ۔
➖ 9 سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مردوں ) کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کر دیا ۔ “
( صحیح بخاری : 5864 ، صحیح مسلم : 2089 )
➖ 10 نجاشی ( بادشاہ ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے میں کچھ زیور بھیجا ، اس میں سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی ، جس پر حبشی نگینہ جڑا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انگوٹھی سے اعراض برتتے ہوئے لکڑی یا اپنی انگلی سے پکڑا ۔ پھر ( اپنی نواسی ) امامہ بنت زینب کو بلایا اور فرمایا ، بیٹی! یہ پہن لو ۔ “ ( ابوداؤد : 4235 ، ابن ماجہ : 3644 وسندہ حسن )
⏸اس ممانعت کے باوجود بتقاضہ کیفیتِ اضطراری مرد کے لئے سونے کے استعمال کا جواز ملتا ہے ۔ مثلاً سونے کا ناک لگوانا ، دانت یا داڑھ میں سونا بھرنا ، دانتوں کو سونے کی تار سے جوڑنا جائز ہے ۔ جیسا کہ عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
” یوم الکلاب میں ان کی ناک کٹ گئی ، انہوں نے چاندی کی ناک لگوائی ، جو بدبو دار ہو گئی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سونے کی ناک لگوانے کا حکم صادر فرمایا ۔
( مسند الامام احمد : 23/5 ، ابوداؤد : 4232 ، ترمذی : 1770 نسائی : 5164 ، وسندہ حسن )
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن “ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ 5462 نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس کے راوی عبدالرحمن بن طرفہ کو امام عجلی رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے ” ثقہ “ کہا ہے لہٰذا یہ ” حسن الحدیث “ ہے ۔
لیکن واضح رہے کہ بعض لوگ شوقیہ طور پر سونے کا خول چڑھا لیتے ہیں ، یہ قطعی طور پر جائز نہیں ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Share:

Kya Ghore Ki Qurbani Ho Sakti Hai?

Kya Ghora Ka Ghost Jayez Hai?
انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے گھوڑے کا گوشت حلال ثابت کیا ہے کیا یہ صحیح ہے اب سوال یہ ہے کہ
سوال =اگر گھوڑا حلال ہے تو آج تک کسی نے گھوڑے کی قربانی کی ہے یا نہیں اگر نہیں تو کیو ؟
گھوڑا حلال جانور ہے ۔ نیز گھوڑے کی حرمت کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
جبکہ اللہ تعالى نے واضح طور پر فرمایا ہے :
وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ [الأنعام : 119]
اور یقینا ہم نے حرام چیزیں تمہارے لیے تفصیل سے بیان کر دی ہیں ۔
اور اس تفصیل میں گھوڑے کا ذکر نہیں ھے
نیز اللہ تعالى کا فرمان ہے :
أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى علیکم
[المائدة : 1]
تمہارے لیے پالتو چوپائے حلال کر دیے گئے سوائے ان کے جو تم پر تلاوت کر دیے گئے ہیں ۔
ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ جس جانور کی حرمت پردلیل نہ ہو وہ حرام نہیں بلکہ حلال ہوتا ہے۔
گھوڑوں کی حلت سے متعلق روایت 👇
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ وَرَخَّصَ فِي لُحُومِ الْخَيْلِ
سلیمان بن حرب، حماد، عمرو بن دینار، محمد بن علی، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ
ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن گدھوں کے گوشت
سے منع فرمایا اور ہمیں گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں اجازت دیدی۔
صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید باب فی لحوم الخیل ح ۵۵۲۰
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 396 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 19
نیز جس حديث سے حرمت كا استدلال كرتے ہيں وہ درج ذيل ہے:
خالد بن وليد رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گھوڑے اور خچر اور گدھے
اور ہر كچلى والے وحشى جانور كے گوشت سے منع فرمايا "
اسے ابو داود نسائى اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.
➖ يہ حديث ضعيف ہے،
➖ علامہ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف سنن ابو داود ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
➖ حافظ موسى بن ہارون كہتے ہيں: يہ حديث ضعيف ہے.
➖ امام بخارى كا كہنا ہے: اس حديث ميں نظر ہے.
➖ امام بيھقى كہتے ہيں: يہ سند مضطرب ہے، اور پھر سند ميں اضطراب كے ساتھ ساتھ يہ ثقات كى احاديث كے بھى مخالف ہے، يعنى گھوڑے كے گوشت كى اباحت والى صحيح احاديث كے.
➖ خطابى كہتے ہيں: اس كى سند ميں نظر ہے.
➖ ابو داود كہتے ہيں: يہ حديث منسوخ ہے.
➖ امام نسائى كہتے ہيں: اباحت والى احاديث زيادہ صحيح ہيں، وہ كہتے ہيں: اور شبہ ہے اگر يہ حديث صحيح بھى ہو تو يہ منسوخ ہو گى، كيونكہ صحيح حديث ميں يہ قول ہے:
" گھوڑے كے گوشت ميں اجازت دى " اس نسخ كى دليل ہے. انتہى.
ديكھيں: المجموع ( 9 / 5 - 7 ).
⬅باقی رہا سوال کہ اگر گھوڑا حلال ہے تو آج تک کسی نے گھوڑے کی قربانی کی ہے یا نہیں اگر نہیں تو کیو ؟
جان لیجیے کہ قربانی ایک سنت ہے جسکے لیے تعینِ انعام قرآن سے ثابت ہیں ۔ لہٰذا یہ قربانی کی شروط سے نہیں ہے کہ ہر حلال جانور کی قربانی کی جائے , قربانی کے لیے اللہ تعالى نے درج ذیل جانور مختص فرمائے ہیں :
1۔ اونٹ
2۔ بھيڑ ، دنبہ، چھترا
3۔ بکري اور
4۔ گائے کي ہي کي جاسکتي ہے۔
کيونکہ اللہ رب العالمين نے فرمايا ہے :
[[وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ (الحج، 34)]]
اور ہم نے ہر امت کے ليے قرباني کي جگہ مقرر کي تاکہ جو مويشي جانور اللہ نے ان کو ديئے ہيں ان پر اللہ کا نام ذکر کريں۔
اس آيت ميں قرباني کے جانور بھيمۃ الأنعام مقرر کيے گئے ہيں۔ اور بھيمۃ الأنعام کي وضاحت خود اللہ تعاليٰ نے فرمائي ہے:
وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّفَرْشًا ۭكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭاِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ 142؀ۙ ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۭقُلْ ءٰۗالذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَيَيْنِ اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَيْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ ۭ نَبِّـــــُٔـوْنِيْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 143؀ۙوَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۭقُلْ ءٰۗ الذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَيَيْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ ( ………الآية، (الأنعام،142-144)]]
اور "انعام"(چوپايوں)ميں سے بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمين سے لگے ہوئے ۔ کھاؤ اس ميں سے جو اللہ نے تمھيں رزق ديا اور شيطان کے قدموں کے پيچھے نہ چلو ، يقيناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ آٹھ اقسام ، بھيڑ ميں سے دو اور بکري ميں سے دو، کہہ ديجئے! کيا اس نے دونوں نرحرام کيے يا دونوں مادہ يا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہيں؟ مجھے کسي علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں ميں سے دو اور گائيوں ميں سے دو, کہہ ديجئے! کيا اس نے دونوں نرحرام کيے يا دونوں مادہ يا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہيں؟ ۔۔۔۔۔الخ
لہٰذا ان آٹھ جانوروں (1،2بکري نرومادہ، 3 ،4بھيڑ نرومادہ، 5 ،6اونٹ نرو مادہ، 7 ،8گائے نرومادہ) کے علاوہ ديگر حلال جانور (پالتو ہوں يا غير پالتو) کي قرباني کتاب وسنت سے ثابت نہيں ۔
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
سلسلہ تقلید
۔ ─━══★◐★══━─
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS