25 December ko Hi christmas day kyu manaya jata hai?
kYa 25 December se din badhna shuru ho jata hai?25December ko bara Din kyu kahte hai?
Christmas day kab se manane jane laga?
Christmas tree ki asal hakikat kya hai?
Christmas day Manane ke piche ki kahani.
کرسمس کی حقیقت
(Christmas)
کرسمس در اصل دو لفظوں یعنی کرائسٹ (Christ) اور ماس (Mass)کا مجموعہ ہے۔کرائسٹ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور ماس کے معنی ہیں اجتماع کے، اورعیسائیوں کے دعویٰ کے مطابق 25/ دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی، لہٰذا کرسمس کا مفہوم ہے : یوم میلاد مسیح۔اس لفظ کا چلن چوتھی صدی عیسوی سے شروع ہوا،اور چونکہ حضرت عیسیٰ کی ولادت کا دن بہت ہی اہم اور مقدس دن تھا اس لیے اسے ’’بڑا دن‘‘ بھی کہتے ہیں۔
یہ تو ہوا ظاہری سبب جو کرسمس کے سلسلہ میں بیان کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عیسائیوں کو حضرت عیسیٰ کا یوم ولادت تو دور کی بات ان کا سن ولادت بھی نہیں معلوم۔اور اس سلسلہ میں ان کے یہاں اختلافات موجود ہیں، چنانچہ مشرقی آرتھوڈکس کلیسا کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا یوم ولادت 6جنوری ہے، جبکہ آرمینی کلیسا 19جنوری کو یوم ولادت مناتا ہے۔
25دسمبر کاآغازشاہ قسنطین نے 325ء میں کیا جس نے بت پرستی ترک کرکے عیسائیت اختیار کی تھی، اور عیسائیت کو پہلی بار حکومت کی سرپرستی حاصل ہوئی تھی۔لیکن اس وقت بھی اس دن کو تہوار کے طور پرتسلیم نہیںکیا گیا۔
530ء میں روم(اٹلی) نے اس سلسلہ میں خاصی دلچسپی لی، اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کی تحقیق وتعین کی ذمہ داری سیتھیا اکسیگزنامی ایک راہب کو دی گئی جو کہ علم نجوم میں بھی ماہر تھا۔چنانچہ اس نے 25دسمبرکو حضرت عیسیٰ کی ولادت کی تاریخ مقرر کردی،جس کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ یہ دن حضرت عیسیٰ کی ولادت سے قبل نہایت بابرکت اور رومیوں کے مذہبی تہوار کے طور پر مشہور تھا، یہ دن بہت سے دیوتاؤں کا یوم پیدائش بھی تھا اور سورج کے راس الجدی پر پہنچنے کا وقت بھی جس کی وجہ سے اس تہوار کو ’’جشن زحل‘‘ (Saturnalia) کہتے تھے، اس دن خوب رنگ رلیاں منائی جاتی تھیں،دیوتاؤں کی اور خاص کر سورج کی پرستش کی جاتی تھی، چنانچہ راہب نے آفتاب پرست ا ورمشرک قوم میں عیسائیت کومقبول بنانے کے لیے 25دسمبر کی تاریخ متعین کردی، اورپھر یہیں سے اس مذہبی رسم کا آغاز ہوا۔
قرآن مجیدکے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ 25دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم ولادت تسلیم کرنا بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن مجید میں اس کی وضاحت ہے حضرت مریم جب درد زہ میں مبتلا ہوئی تھیں تو ایک کھجور کے پیڑ کے نیچے پہنچی تھیں اور اس میںپکی کھجوریں لگی ہوئی تھیں۔
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بیت اللحم شہر میں ہوئی تھی ، اور اس علاقہ میں جولائی واگست کا مہینہ ہی ایسی گرمی کا مہینہ ہے جس میں کھجوریں پکتی ہیں۔چنانچہ یہی حقیقت ہے کہ 25دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا دن نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں پرانا رومی تہوار کا دن ہے جس میں شرک وبت پرستی ہوتی تھی،اخلاق سوز حرکتیں اور خرافات ہوتی تھیں جسے عیسائیوں نے چالاکی سے اپنے مذہبی تہوار کے طور پر اختیار کرلیا۔
مغربی معاشرہ میں جب ڈراموں کو مقبولیت حاصل ہوئی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے منظر کو بھی پیش کیا جانے لگاجس کا واحد مقصد عیسائیت کا تعارف اور اس کی اشاعت ہوتا تھا، اس ڈرامہ کوملک میں رائج ’’رام لیلا‘‘ کے ڈرامہ سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے،اس میں حضرت مریم علیہا السلام کی تکلیفوں، تنہائیوں اور پرشیانیوں کو بیان کیا جاتا، پورے ڈرامہ میں اسٹیج پر ایک درخت بھی بنایا جاتا جسے حضرت مریم کے ساتھی کے طور پر پیش کیا جاتا ، حضرت مریم اس درخت کے پاس بیٹھ کر اپنی تنہائی اور اداسی کے ایام گذارتیں، ڈرامہ کے اختتام پر عقیدت مند اس درخت کے پتے اور ٹہنیاں توڑکر اپنے ساتھ لے جاتے اور اپنے گھروں میں تبرک کے طور پر رکھ لیتے، یہ رسم آہستہ آہستہ اس تہوار کا ایک حصہ بن گیا اور کرسمس ٹری (Christmas-Tree) کا اضافہ ہوگیا۔لوگوں نے اپنے گھروں میں بھی کرسمس ٹری منانے اور سجانے شروع کردیے، اس ارتقائی عمل کے دوران کسی من چلے نے کرسمس ٹری پر بچوں کے لیے کچھ تحفے بھی لگا دیے جو کہ آگے چل کر اس کا حصہ بن گئے۔
کرسمس ٹری کا آغاز جرمنی سے ہوا تھا،پھرجب 1847ء میں برطانوی ملکہ وکٹوریہ کا خاوند جرمنی دورے پر گیا ،اور اسے وہیں کرسمس کا تہوار منانا پڑاتو اس نے پہلی مرتبہ لوگوں کو کرسمس ٹری بناتے اور سجاتے دیکھا، اسے یہ رسم بہت پسند آئی، چنانچہ واپسی میں وہ اپنے ساتھ ایک ٹری بھی لے گیا،پھر اگلے سال 1848ء میں پہلی مرتبہ لندن میں کرسمس ٹری بنایا گیا، یہ ایک دیو ہیکل ٹری تھا جو شاہی محل کے باہر آویزاں کیا گیا تھا،اسے دیکھنے کے لیے ایک بھیڑ امنڈ پڑی، لوگ بڑی دیر تک اسے حیرت سے دیکھتے رہے اور تالیاں بجاتے رہے، اس کے بعد سے پورے یورپ میںبلکہ ہر عیسائی گھر میں کرسمس ٹری کا چلن ہوگیا، اور آج پوری عیسائی دنیا بڑے دھوم دھام سے کرسمس ٹری کے ساتھ ہی کرسمس ڈے مناتی ہے۔
کرسمس کے اس تہوار کا مقصد عیسائیت کا فروغ اور لوگوں میں مذہبی رجحان پیدا کرنا تھالیکن کرسمس ٹری کے ساتھ ہی اس میں فضول خرچیاں بھی شامل ہوگئیں، صرف برطانیہ میں کرسمس ٹری پر ہر سال کروڑوںپاؤنڈ خرچ ہوتے ہیں۔پھرلوگوں کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے اس میں رقص و موسیقی بھی شامل کردی گئی جو کہ مغربی تہذیب کا ایک حصہ بھی ہے۔ حضرت عیسیٰ سے عقیدت کے اظہار اور چرچوں میں بندگی کے وقت ایک خاص سماں پیدا کرنے کے لیے ہلکی روشنی کا نظم کیا جانے لگا جس کے لیے موم بتی کا استعمال عام ہوتا گیا، اور آج یہ موم بتی بھی کرسمس ڈے کا ایک اہم جزء ہے۔ یہاںتک تو ساری باتیں قابل برداشت تھیں لیکن جب اس میں شراب بھی شامل ہوگئی تو یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیار کرگیا، اور اس کے نتیجہ میں جو تباہی برپا ہوئی اس سے خود مغربی معاشرہ کی بنیادیں ہل گئیں اور حکومت کو ایسے قوانین وضع کرنے پڑے جن کی بنیاد پر شہریوں سے کہا جاتا ہے کہ کرسمس کے موقع پر اپنے گھروں سے قریب چرچ جائیں اور وہاں عبادت کریں، اور اگر شراب پینے کی خواہش ہو تو اپنے گھروں میں ہی شراب پئیں، شراب پی کر گھر سے باہر نہ نکلیں۔
25/ دسمبر کا یہ دن جس کی نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب کی جاتی ہے آج عیاشی اور ہر طرح کی اخلاقی وقانونی آزادی کا دن شمار کیا جاتا ہے، اس دن مغربی ممالک میں کئی ارب کی شراب پی جاتی ہے اور کروروں کا جوا کھیلا جاتا ہے، اس کے بعد لڑائی جھگڑوں اور مارکاٹ کے ہزاروں واقعات درج ہوتے ہیں،ٹریفک نظام معطل سا ہوجاتاہے، عزتیں پامال ہوتی ہیں، جنسی زیادتی کے سیکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں،اس پر طرفہ یہ کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس دن کو آمدنی کا بہترین ذریعہ بنا لیا ہے،جس کی وجہ سے بداخلاقی اور بے حیائی کو خوب فروغ حاصل ہوتا ہے۔یقینا عیسائی دنیا میں کرسمس سے بڑھ کر اس قدر حیا سوز ، اخلاق سوز اور انسانیت سوزکوئی اور دن نہیں ہوگا! جبکہ خود انجیل کی تعلیمات ان بد اخلاقیوں کے سخت خلاف ہیں ۔
اسلامی تعلیمات ایسی’’ نام نہاد خوشی‘‘ میں شریک ہونے کی قطعاً اجازت نہیں دیتیں، اور نہ اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ایسے اخلاق وحیاسوز تہوار کی مبارک دی جائے،کیونکہ یہ وہ دن ہے جس میں سور ج ،ستارہ اور بتوں کے کی پرستش کی جاتی تھی اور ان کے نام پر جشن منایا جاتا تھا،اس کے علاوہ آج اس دن کی نسبت ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب کی جاتی ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ خود عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کی تاریخ پیدائش کی سن پیدائش میں بھی زبردست اختلاف ہے، ان سب کے باوجود اگر ہم مان لیں کہ اسی دن حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی تھی تو یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ حضرت عیسیٰ نعوذ باﷲ اﷲ کے بیٹے تھے، کیونکہ عیسائیوں کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ اﷲ کے بیٹے تھے اور اپنی جان کے بدلہ انھوں نے پوری عیسائی دنیا کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا، اور آج عیسائی دنیا کرسمس میں اﷲ کے نبی کی ولادت کا جشن نہیں مناتی بلکہ’’اﷲ کے بیٹے‘‘ کی ولادت کا جشن مناتی ہے جو اسلام کی نظر میں کھلا ہوا شرک ہے، اورایسے شرکیہ تہوار میں شرکت کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔اس لیے مسلمانوں کو نہ صرف اس دن کی حقیقت سے باخبر ہونا ضروری ہے بلکہ ہر طرح کے تحفے تحائف لینے دینے،پارٹیوں میں اور مجلسوں میں شرکت کرنے اور مبارک بادیوں سے گریز کرنا چاہیے تاکہ سنگین گناہوں سے بچنا آسان ہو۔ واﷲ ہو الموفق۔
Nafees Nadwi
No comments:
Post a Comment