find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts sorted by relevance for query talaq. Sort by date Show all posts
Showing posts sorted by relevance for query talaq. Sort by date Show all posts

Ek Majlis ki tin talaq ki Sharai haisiyat.

Ek Majlis ki tin talaq Kya Ek talaq hi mani jayegi?
Ek Majlis Ki tin talakein (talaq, talaq, talaq) ki Sharai haisiyat.

*ایک مجلس کی تین طلاقیں*

*شرعی فتوی*

الحمد للہ ۔
اس مسئلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ جب آدمی اپنی عورت کو ایک یہ کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دے دے تواسے ایک طلاق شمار کیا جائے گاکیونکہ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریمﷺکے عہد (زمانے ) میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے عہد میں اورحضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہدخلافت کے ابتدائی دوسالوں تک تین طلاقوں کو ایک ہی قراردیا جاتا تھا،حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں نے اس مسئلہ میں جلد بازی سے کام لینا شروع کردیا ہے،جس میں ان کے لئے مہلت تھی لہذا اس کو اگر ہم نافذ کردیں تو؟۔۔۔۔چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کردیا ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگردوں اوردیگر اہل علم نے اسی بات کو اختیار کیا ہے ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ثابت ہے ۔سیرت نگارامام محمد بن اسحاق کا بھی یہی قول ہے اوریہی قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اوران کے شاگرد علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے۔

شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو بھی اختیار کیا ہے کہ دوسری اورتیسری طلاقیں نکاح یا رجعت کے بعد ہی واقع ہوں گی اورپھر اس کے انہوں نے کئی اسباب ذکر کئے ہیں،لیکن میرے علم کے مطابق آپ کے اس دوسرے قول کی ادلہ شرعیہ میں سے کسی دلیل سے تائید نہیں ہوتی ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی کا قول اس کی تائید میں نہیں ہے لہذاصحیح بات بس یہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی ،باقی رہی حدیث رکانہ تووہ اس مسئلہ میں صریح نہیں ہے،اس حدیث کی سند میں بھی کلام ہے کیونکہ اسے داودبن حصین نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اوراس روایت کو محدثین کی ایک جماعت نے ضعیف قراردیا ہےجیسا کہ ‘‘تقریب’’ ‘‘تہذیب’’اوردیگر کتابوں میں داودمذکورکے ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے ۔

مقالات وفتاویٰ ابن باز
صفحہ 347
محدث فتویٰ

Share:

Teen Talaq Ka Masla Shariyat Me Kaisa Hai?

TEEN TALAQ : AUR 1400 SAAL QABL NABWI ADALAT KA  FAISLA
TEHREER :- Shaikh Kifayatullah Sanabili
Teen Talaq ka masla ahad risalat me bhi pesh achuka hai aur adalat nabwi me is ka fesla bhi ho Chuka hai.Nabwi adalat se barh kar na koi adalat hai aur na koi Rasulullah ﷺ se behtar fesla kar sakta hai .
Hadees :- Abdullah Bin Abbaas رضي الله عنه rivayat karte hai ki Rukana bin Abd Yazeed ne apni biwi ko ek hi majlis me teen talaaq de di phir us par unhone shadeed ranj/afsos hua , to Allah ke Nabi ﷺ ne unse pucha : *tum ne kese talaaq di ? Unhone kaha : mene teen talaq de di. Allah ke Nabi ﷺ ne pucha : Kya ek hi majlis me ? unhone jawab diya: jee haa..!!! To fr Aaap ﷺ ne farmaya :- phir yeh ek hi talaq hai tum chaho to apni biwi ko wapas lelo* chunanche unhone apni biwi ko wapas le liya.
IS HADEES KI BINAH PAR IBN ABBAS FATWA DETE KI TALAAQ ALAG ALAG TEHAR ME HI MO'ATBAR HOGI.
*Ref:- Musnad Ahmed 2387 )*
*Allah ke Nabi ﷺ ne Halala karne aur karwane wale par lanat bheji hai*
Hadees :-
Sahabi Rasool Abu Huraira رضي الله عنه se rivayat hai ki Allah ke Rasoolﷺ ne *Halala karne wale aur  halala karwane wale par la'anat bheji hai.*
*Ref :- (Musannaf Ibn Aby shayba 4/296)*
*Halali jode 20 saal tak bhi ek sath rahe to bhi zina kaar honge*
Hadees :-
Abdullah bin shareek kehte hai ki mene suna ki ibn Umar se sawal kiya gaya ki *ek shaqs ne apni biwi ko 3no talaq de diya phir sharminda hua aur irada kiya ke koi dusra shaqs us aurat se shadi karke uske liye halaal karde to uss ka kya hukm hai?*
_Ibn umar رضي الله عنه ne farmaya :- *Dono zina karne wale honge agarche 20 saal tk ek sath baqi rahe*_
*Ref:- Musannaf Abdur razzaq 6/266).
Share:

Gusse ki halat me talaq ka hukm, Gusse me talak ka lafj istemal karne se talaq ho jati hai?

Agar koi Shakhs apni Biwi ko talaq de de gusse me to kya talaq ho jayegi?
kya Gusse me di hui talaq talaq mani jayegi?
Gusse ki halat me talaq ka hukm.
गुस्से की हालत में तलाक़ का हुक्म क्या है?
अगर कोई शख्स अपनी बीवी को गुस्से में तलाक़ का लफ्ज़ अपनी जुबान से निकलता है तो क्या तलाक़ हो जाएगी?
क्या गुस्से में दी हुई तलाक़ तलाक़ होती है?
गुस्से में दी हुई, होस में ना होने की वजह से, अपने आप को कंट्रोल में ना रखने की वजह से, बद कलामी की वजह से अगर कोई शख्स अपनी बीवी को तलाक़ देता है तो वह तलाक़ जायज नहीं होगी, मतलब तलाक़ होगी ही नहीं। तफसील से जानने के लिए नीचे पढ़े।

Sawal: Dear 1 Sawal tha Ke agar koi aadami apni Biwi ko Gusse men talaaq ka lafz bol De to kya talaaq Ho jayegi?

جواب تحریری: غصہ كى حالت ميں طلاق كا حكم*

الحمد للہ

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر كسي شخص كو اس كى بيوى اس كے ساتھ برا سلوك كرے اور اسے گالياں دے، اور غصہ كى حالت ميں بيوى كو طلاق دے دے تو اس كا حكم كيا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" اگر تو مذكورہ طلاق شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں ہوئى ہے، اور بيوى كى بدكلامى اور گاليوں كى بنا آپ اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھتے تھے اور اپنے اعصاب كے مالك نہ تھے، اور آپ نے شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں طلاق دى اور بيوى بھى اس كا اعتراف كرتى ہے، يا پھر عادل قسم كے گواہ ہيں جو اس كى گواہى ديتے ہوں تو پھر طلاق واقع نہيں ہوئى.

كيونكہ شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شدت غضب ـ اور اگر اس ميں شعور اور احساس بھى جاتا رہے ـ ميں طلاق نہيں ہوتى.

ان دلائل ميں مسند احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اغلاق كى حالت ميں نہ تو غلام آزاد ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق ہوتى ہے "

اہل علم كى ايك جماعت نے " اغلاق " كا معنى يہ كيا ہے كہ اس سے مراد اكراہ يعنى جبر يا غصہ ہے؛ يعنى شديد غصہ، جسے شديد غصہ آيا ہو اس كا غصہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول نہيں كرنے ديتا، اس ليے شديد غصہ كى بنا پر يہ پاگل و مجنون اور نشہ كى حالت والے شخص كے مشابہ ہوا، اس ليے اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.

اور اگر اس ميں شعور و احساس جاتا رہے، اور جو كچھ كر رہا ہے شدت غضب كى وجہ سے اس پر كنٹرول ختم ہو جائے تو طلاق واقع نہيں ہوتى.

غصہ والے شخص كى تين حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

جس ميں احساس و شعور جاتا رہے، اسے مجنون و پاگل كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.

دوسرى حالت:

اگرچہ شديد غصہ ہو ليكن اس كا شعور اور احساس نہ جائے بلكہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول ہو اور عقل ركھتا ہو، ليكن غصہ اتنا شديد ہو كہ اس غصہ كى بنا پر اسے طلاق دينے پر مجبور ہونا پڑے، صحيح قول كے مطابق اس شخص كى بھى طلاق واقع نہيں ہوگى.

تيسرى حالت:

عام قسم كا غصہ ہو اور بہت شديد اور زيادہ نہ ہو، بلكہ عام سب لوگوں كى طرح غصہ ہو تو يہ ملجئ نہيں كہلاتا اور اس قسم كى سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جائيگى " انتہى

ديكھيں: فتاوى الطلاق جمع و ترتيب ڈاكٹر عبد اللہ الطيار اور محمد الموسى صفحہ ( 19 - 21 ).

شيخ رحمہ اللہ نے دوسرى حالت ميں جو ذكر كيا ہے شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ كا بھى يہى اختيار ہے، اور پھر ابن قيم رحمہ اللہ نے اس سلسلہ ميں ايك كتابچہ بھى تاليف كيا ہے جس كا نام " اغاثۃ اللھفان في حكم طلاق الغضبان " ركھا ہے، اس ميں درج ہے:

غصہ كى تين قسميں ہيں:

پہلى قسم:

انسان كو غصہ كى مباديات اور ابتدائى قسم آئے يعنى اس كى عقل و شعور اور احساس ميں تبديلى نہ ہو، اور جو كچھ كہہ رہا ہے يا كر رہا ہے اس كاادراك ركھتا ہو تو اس شخص كى طلاق واقع ہونے ميں كوئى اشكال نہيں ہے، اور اس كے سب معاہدے وغيرہ صحيح ہونگے.

دوسرى قسم:

غصہ اپنى انتہائى حد كو پہنچ جائے كہ اس كا علم اور ارادہ ہى كھو جائے اور اسے پتہ ہى نہ چلے كہ وہ كيا كر رہا ہے اور كيا كہہ رہا ہے، اور وہ كيا ارادہ ركھتا ہے، تو اس شخص كى طلاق نہ ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں.

چنانچہ جب اس كا غصہ شديد ہو جائے چاہے وہ علم بھى ركھتا ہو كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو اس حالت ميں بلاشك و شبہ اس كے قول كو نافذ نہيں كيا جائيگا، كيونكہ مكلف كے اقوال تو اس صورت ميں نافذ ہوتے ہيں جب قائل كى جانب سے صادر ہونے اور اس كے معانى كا علم ركھتا ہو، اور كلام كا ارادہ ركھتا ہو.

تيسرى قسم:

ان دو مرتبوں كے درميان جس كا غصہ ہو، يعنى مباديات سے زيادہ ہو ليكن آخرى حدود كو نہ چھوئے كہ وہ پاگل و مجنون كى طرح ہو جائے، تو اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے.

شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ اس كى طلاق اور آزاد كرنا اور معاہدے جن ميں اختيار اور رضامندى شامل ہوتى ہے نافذ نہيں ہونگے، اور يہ اغلاق كى ايك قسم ہے جيسا كہ علماء نے شرح كى ہے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ

منقول از: مطالب اولى النھى ( 5 / 323 ) اور زاد المعاد ( 5 / 215 ) ميں بھى اس جيسا ہى لكھا ہے.

خاوند كو چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے اور طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرے، تا كہ اس كے گھر كى تباہى نہ ہو اور خاندان بكھر نہ جائے.

اسى طرح ہم خاوند اور بيوى دونوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے حدود اللہ كا نفاذ كريں اور يہ ہونا چاہيے كہ كوئى ايسى نظر ہو جو ديكھے كہ خاوند كى جانب سے بيوى كے معاملہ ميں جو كچھ ہوا ہے كيا وہ عام غصہ كى حالت ميں ہوا ہے يعنى تيسرى قسم ميں جس ميں سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جاتى ہے.

اور انہيں اپنے دينى معاملہ ميں احتياط سے كام لينا چاہيے اور يہ مت ديكھيں كہ دونوں كى اولاد ہے، جس كى بنا پر يہ تصور كر ليا جائے كہ جو كچھ ہوا وہ غصہ كى حالت ميں ہوا اور فتوى دينے والے كو اس كے وقوع پر آمادہ كر دے ـ حالانكہ دونوں يعنى خاوند اور بيوى كو علم تھا كہ يہ اس سے كم درجہ ركھتا تھا ـ.

اس بنا پر اولاد كا ہونا خاوند اور بيوى كو طلاق جيسے الفاظ ادا كرنے ميں مانع ہونا چاہيے، يہ نہيں كہ اولاد ہونے كى وجہ سے وہ شرعى حكم كے بارہ ميں حيلہ بازي كرنا شروع كر ديں اور طلاق واقع ہو جانے كے بعد اس سے كوئى مخرج اور خلاصى و چھٹكارا حاصل كرنے كى كوشش كريں، اور فقھاء كرام كى رخصت كو آلہ بنا ليں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو دين كے شعائر اور قوانين ميں بصيرت سے نوازے.

واللہ اعلم .

Share:

Halala Karna Aur Karwana Kaisa Hai Islam Me.

Halala Karna Haraam Wa Batil Hai.

Halala Kya Hai? ISLAM me Iski Haisiyat
Halala Karna Aur Halala Karwana Kaisa Hai?
Teen Talaq Se Halala Ka Kya Talluq Hai?
Halala Haram ya Halal Hai Shariyat Ki Raushani Me?
Jab koi shakhs apni biwi ko teesri Talaq bhi de de to woh uske liye haraam ho jati hai aur us waqt tak halal nahi hogi jab tak woh kisi aur khawind(shauhar) se nikah na kar le, kyunki Allah Subhanahu Ta'ala ka farmaan hai :_
"Aur agar woh usey ( teesri ) Talaq de de to ab uske liye halal nahi jab tak woh aurat uske alawa kisi dusre se nikah na kar le."
Surat ul Baqara : 230
Aur is nikah mein jo usey apne pehle khawind ke liye halal karega shart yeh hai ke woh nikah sahih ho, chunanche waqti aur kuch muddat ke liye nkah ( jise Nikah Muta'h bhi kaha jata hai ) ya phir pehle khawind ke liye biwi ko halal karne ke liye nikah kar ke phir Talaq de dena ( ya'ni nikah halala ) yeh dono haraam aur baatil hain, aam ahel ilm ka yahi qoul hai, aur is se aurat apne pehle khawind ke liye halal nahi hogi ._
Al Mughni : 10/49-50
________________________________
Nikah Halala ki hurmat Nabiﷺ Ki sahih ahadees se saabit hai.
_Abu Dawood me hadees marvi hai ke :_
*Nabiﷺ ne farmaya :
" Allah Ta'ala halala karne aur halala karwane wale par laanat kare "
Abu Dawood: 2076_
Is hadees ko Allamah Albani Rahimahullah ne sahih Sunan Abu Dawood mein sahih qarar diya hai.
Aur Sunan Ibn majah mein Uqbah bin Aamir Raziallahu anhu se marvi hai ke Nabiﷺ ne farmaya :_
"Kya mein tumhe kiraye ya Aarayta liye gaye saandh(borrowed billy- goat) ke mutaliq na bataun❓
Sahaba Kiram ne arz kiya : Kyun nahi Ai Allah Ke Rasool aap zaroor batayen ._
Toh Rasoolﷺ ne farmaya :
" Woh halala karne wala hai, Allah Ta'ala halala karne aur halala karwane wale par laanat kare "
Sunan Ibn Majah hadees number ( 1936 ) Allamah Albani Rahimahullah ne sahih sunan Ibn Majah mein isey Hasan qarar diya hai .
_Aur Abdul Razzaq ne musannif Abdul Ar Razzaq mein Umar bin khattab Raziallahu anhu se rivayet kiya hai ke unhone ne logon ko khutba dete hue farmaya :
"Allah ki Qasam mere paas jo halala karne aur halala karwane wala laya gaya Mai usey Rajam(to stone them) kar dunga "
Musannif Abdul Razzaq ( 6 / 265 ) ._
_*Yeh sab barabar hai aur koi farq nahi ke Aqd nikah ke waqt is maqsad ki Sarahat(clear kiya gaya ho) ki gayi ho aur us par shart rakhi gayi ho ke jab isne usey uske  pehle khawind ke liye halal kar diya to woh usey Talaq de ga, ya iski shart na rakhi ho, balke unhon ne apne dil mein hi yeh niyat kar rakhi ho, yeh sab barabar hai .
Imam Hakim Rahimahullah ne Naafi' se rivayet kiya hai ke ek shakhs ne Ibn Umar Raziallahu anhuma se arz kiya :_
Ek aurat se nikah is liye kiya ke usey pehle khawind ke liye halal karun na to is ne mujhe Hukm diya aur na woh jaanta hai, to Ibn Umar kahne lagey :_
Nahi!!! , Nikah to raghbat(dilchaspi/khwahish) ke sath hai, agar woh  tujhe achhi lagey aur pasand ho to usey rakhe, aur agar usey napasand karo to is ko chhodh do .
Woh bayan karte hain : hum to Rasoolﷺ Ke daur mein usey zina shumaar karte they ._
Aur unka kahna tha : woh zaani(Adulterers) hi rahenge chahe bees baras tak ikathhe rahen .
_______________________________
Aur Imam Ahmed Rahimahullah se dariyaft kiya gaya ke :
Ek shakhs ne kisi aurat se shadi ki aur uske dil mein tha ke woh is aurat ko apne pehle khawind ke liye halal karega, aur is ka aurat ko ilm na tha.
_To Imaam Ahmed Rahimahullah ne jawab diya :_
"Yeh Halala karne wala hai, jab woh is se Halala ka iradah rakhe to woh mal'oon(lanat zada) hai "
is bina par aapke liye is aurat se pehle khawind ke liye halal karne ki niyat se nikah karna jayez nahi, aur aisa karna Kabira gunah ho ga, aur yeh nikah sahih nahi balke zina hai, Allah is se mehfooz rakhe
_wallahualam.
                                  Aalim-E-Deen Se Shadi KArne Ke Fawaid
                                    Muslim Bahno Ke Liye Chalaye Ja RAhe Ek Fitna.
Share:

Halala Karne ki Ijazat kya Islam deta Hai? Halala kya hai Aur Talak Kya Hai?

HALAALA AUR USKI SHA’RAI HAISIYAT

Kyon behki behki baatei’n kar rahe ho…?
Agar koi shaqs Ahsan ki Niyyat se Talaq yafta aurat se nikah kar ke phir sohbat ke baad aurat ko talaq de de taa ke Wo aurat apne pehle shohar ke liye halal ho jaaye to isme Koi Gunah nahi lekin Shart hai ke Uski Ye Niyyat kisi doosre shaqs ko pata na ho…
Sawaab isi Ahsaan ka milega…
Talaq ki niyyat se nikah karna to jamhoor ulema ke nazdeek sahih hai
Answer
Kya Kahenge In Aalim Sahab Ke Bare Me Yani Inhoe Qbul Kia Halala Krna Jaiz Hi Sawab Ka Kam Ahnaf Ke Yaha
.Halala Aise Nikah Ko Kahte Hai Jis Me Koi Admi 3 Talaq Wali Se Sirf Talaq Ki Niyat Se Nikah Wa Mubashart Karta H Taki Wah Aurat Pahle Shauhar Ke Liye Halal Ho Jaye Ise Mansha Se Nikah Ko Halala Kahte Hai
.
YANI GALTI MARD KARE AUR SAZA AURAT BHUGTE HAI HANFIYO YE KUNSA DEEN HAI??
.
Rasulullah ka Farman
.
Rasulullah s.a.w Ne Halala Karne Wale Aur Jis Ke Liye Halala Kiya Jaye Dono Par Lanat Farmai
.
Tirmizi 894, Nasai, Darmi Baiheqi , Ahmad
.
Rasul s.a.w Ne Farmaya Me Tumhe Udhar Ke Sand Ki Khabr Na Du Sahaba Ne Kaha Q Nahi To Ap Ne Farmaya Wah Halala Karne Wala Hai Allah Ne Halala Karne Wale Aur Jis Ke Liye Halala Kiya Jaye Dono Par Lanat Farmai
.
Ibne Majah 1936, Dare Kutani 3/251, Hakim, Baiheqi
.
Note:- Ye Hadis Halala Haram Hone Ki Dalil Hai Kyo Ki Lanat Sirf Haram Karne Par Hoti Haram Kam Mana Hota Aur Har Mana Kam Aqd Ke Nirast Hone Ka Haqdar Hai
.
Subulssalam 3/1336
.
Hazrat Umar r.a Farmate Hai Ahade Risalat Me Log Halale Ko Badkari Kaha Karte The
.
Hakim 2/199 Tabrani Ausat Kama Fil Majma 4/264 Imam Haismi rh Ne Is Rijal Ko Sahi Rijal Kaha Hai
.
Hazrat Ibne Umar r.a Se Halale Ke Bare Pucha To Unhone Kaha Dono Badkar Hai
.
Ibne Abi Sheeba 4/294 Shaikh Sabahee Hallaq Ne Ise Sahi Kaha
Attaleeq Alrauztunndiya 2/38
.
Hazrat Umar r.a Ne Farmaya Mere Pas Halala Karne Wala Jiske Liye Halala Kia Jaye Dono Laye Gaye To Me Dono Ko Rajam Kar Dunga
.
Ibne Abi Sheeba 4/294, Abudurrajzak 6/218
.
Bhaisb Ne Jhuth Mara Ki Jamhoor Ke Nazdik Halala Jaiz Hai Jb ki Jamhoor Ke Nazdik Halala Haram Hai
.
Ibne Taiymmiya rh – Halale Ke Nikah Ke Jhuthlane Par Par Ummat Ka Ijma Hai
.
Fatawa Annisa Li Ibne Taiymmiya Page 242
.
Ibne Qayyim Rh Halala Karne Wale Ka Nikah Kisi Deen Me Kabhi Bhi Jaiz Nahi Hua Aur Na Hi Kisi Ek Sahabi Ne Aisa Kia Aur Na In Me Se Kisi Ne Iska Fatwa Dia
.
Aalamul Moqieen 3/41-43
.
Ab Padhe Sabse Anokha Fatwa Jesa Ki Deobndi Shaikh Ne Upar Khud Qbul Kia Ki Ye Ahsan Hai
.
Ahnaf:- Halala Jaiz Hai Yaha Tak Ki In Ki Kuch Kitabo Me Aise Sakhs Ko Sawab Ka Haqdar Bhi Kaha Gaya Hai
.
Tohfatul Ahwazee 4/281, Nayl Al Awtar 4/218
___________________________________________
Share:

Gusse Me Talaq Dene Se kya Talaq ho Jayegi?

Gusse me Talaq De dena ya Dar aur khauf paida Karne ke liye ya Sharab piker Nashe me Talaq De dene se Kya Talaq Ho jati Hai?

غصہ كى حالت ميں طلاق كا حكم
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كسي شخص كو اس كى بيوى اس كے ساتھ برا سلوك كرے اور اسے گالياں دے، اور غصہ كى حالت ميں بيوى كو طلاق دے دے تو اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" اگر تو مذكورہ طلاق شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں ہوئى ہے، اور بيوى كى بدكلامى اور گاليوں كى بنا آپ اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھتے تھے اور اپنے اعصاب كے مالك نہ تھے، اور آپ نے شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں طلاق دى اور بيوى بھى اس كا اعتراف كرتى ہے، يا پھر عادل قسم كے گواہ ہيں جو اس كى گواہى ديتے ہوں تو پھر طلاق واقع نہيں ہوئى.
كيونكہ شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شدت غضب ـ اور اگر اس ميں شعور اور احساس بھى جاتا رہے ـ ميں طلاق نہيں ہوتى.
ان دلائل ميں مسند احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:
Triple Talaq Aur Shariyat 
 عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اغلاق كى حالت ميں نہ تو غلام آزاد ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق ہوتى ہے "
اہل علم كى ايك جماعت نے " اغلاق " كا معنى يہ كيا ہے كہ اس سے مراد اكراہ يعنى جبر يا غصہ ہے؛ يعنى شديد غصہ، جسے شديد غصہ آيا ہو اس كا غصہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول نہيں كرنے ديتا، اس ليے شديد غصہ كى بنا پر يہ پاگل و مجنون اور نشہ كى حالت والے شخص كے مشابہ ہوا، اس ليے اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
اور اگر اس ميں شعور و احساس جاتا رہے، اور جو كچھ كر رہا ہے شدت غضب كى وجہ سے اس پر كنٹرول ختم ہو جائے تو طلاق واقع نہيں ہوتى.
غصہ والے شخص كى تين حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
جس ميں احساس و شعور جاتا رہے، اسے مجنون و پاگل كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
دوسرى حالت:
اگرچہ شديد غصہ ہو ليكن اس كا شعور اور احساس نہ جائے بلكہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول ہو اور عقل ركھتا ہو، ليكن غصہ اتنا شديد ہو كہ اس غصہ كى بنا پر اسے طلاق دينے پر مجبور ہونا پڑے، صحيح قول كے مطابق اس شخص كى بھى طلاق واقع نہيں ہوگى.
تيسرى حالت:
عام قسم كا غصہ ہو اور بہت شديد اور زيادہ نہ ہو، بلكہ عام سب لوگوں كى طرح غصہ ہو تو يہ ملجئ نہيں كہلاتا اور اس قسم كى سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جائيگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق جمع و ترتيب ڈاكٹر عبد اللہ الطيار اور محمد الموسى صفحہ ( 19 - 21 ).
شيخ رحمہ اللہ نے دوسرى حالت ميں جو ذكر كيا ہے شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ كا بھى يہى اختيار ہے، اور پھر ابن قيم رحمہ اللہ نے اس سلسلہ ميں ايك كتابچہ بھى تاليف كيا ہے جس كا نام " اغاثۃ اللھفان في حكم طلاق الغضبان " ركھا ہے، اس ميں درج ہے:
غصہ كى تين قسميں ہيں:
پہلى قسم:
انسان كو غصہ كى مباديات اور ابتدائى قسم آئے يعنى اس كى عقل و شعور اور احساس ميں تبديلى نہ ہو، اور جو كچھ كہہ رہا ہے يا كر رہا ہے اس كاادراك ركھتا ہو تو اس شخص كى طلاق واقع ہونے ميں كوئى اشكال نہيں ہے، اور اس كے سب معاہدے وغيرہ صحيح ہونگے.
دوسرى قسم:
غصہ اپنى انتہائى حد كو پہنچ جائے كہ اس كا علم اور ارادہ ہى كھو جائے اور اسے پتہ ہى نہ چلے كہ وہ كيا كر رہا ہے اور كيا كہہ رہا ہے، اور وہ كيا ارادہ ركھتا ہے، تو اس شخص كى طلاق نہ ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں.
چنانچہ جب اس كا غصہ شديد ہو جائے چاہے وہ علم بھى ركھتا ہو كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو اس حالت ميں بلاشك و شبہ اس كے قول كو نافذ نہيں كيا جائيگا، كيونكہ مكلف كے اقوال تو اس صورت ميں نافذ ہوتے ہيں جب قائل كى جانب سے صادر ہونے اور اس كے معانى كا علم ركھتا ہو، اور كلام كا ارادہ ركھتا ہو.
تيسرى قسم:
ان دو مرتبوں كے درميان جس كا غصہ ہو، يعنى مباديات سے زيادہ ہو ليكن آخرى حدود كو نہ چھوئے كہ وہ پاگل و مجنون كى طرح ہو جائے، تو اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے.
شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ اس كى طلاق اور آزاد كرنا اور معاہدے جن ميں اختيار اور رضامندى شامل ہوتى ہے نافذ نہيں ہونگے، اور يہ اغلاق كى ايك قسم ہے جيسا كہ علماء نے شرح كى ہے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ
منقول از: مطالب اولى النھى ( 5 / 323 ) اور زاد المعاد ( 5 / 215 ) ميں بھى اس جيسا ہى لكھا ہے.
خاوند كو چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے اور طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرے، تا كہ اس كے گھر كى تباہى نہ ہو اور خاندان بكھر نہ جائے.
اسى طرح ہم خاوند اور بيوى دونوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے حدود اللہ كا نفاذ كريں اور يہ ہونا چاہيے كہ كوئى ايسى نظر ہو جو ديكھے كہ خاوند كى جانب سے بيوى كے معاملہ ميں جو كچھ ہوا ہے كيا وہ عام غصہ كى حالت ميں ہوا ہے يعنى تيسرى قسم ميں جس ميں سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جاتى ہے.
اور انہيں اپنے دينى معاملہ ميں احتياط سے كام لينا چاہيے اور يہ مت ديكھيں كہ دونوں كى اولاد ہے، جس كى بنا پر يہ تصور كر ليا جائے كہ جو كچھ ہوا وہ غصہ كى حالت ميں ہوا اور فتوى دينے والے كو اس كے وقوع پر آمادہ كر دے ـ حالانكہ دونوں يعنى خاوند اور بيوى كو علم تھا كہ يہ اس سے كم درجہ ركھتا تھا ـ.
اس بنا پر اولاد كا ہونا خاوند اور بيوى كو طلاق جيسے الفاظ ادا كرنے ميں مانع ہونا چاہيے، يہ نہيں كہ اولاد ہونے كى وجہ سے وہ شرعى حكم كے بارہ ميں حيلہ بازي كرنا شروع كر ديں اور طلاق واقع ہو جانے كے بعد اس سے كوئى مخرج اور خلاصى و چھٹكارا حاصل كرنے كى كوشش كريں، اور فقھاء كرام كى رخصت كو آلہ بنا ليں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو دين كے شعائر اور قوانين ميں بصيرت سے نوازے.
واللہ اعلم .
Share:

Ek Majlis Ki Tin Talaq Ek mani jayegi ya tin, Halala ki Haqeeqat?

Islam Me Talaq dene ka kaisa tarika hai?
Ek Martaba me agar ham tin talaq de de to kya talaq ho jayegi?
Ek Majlis Me agar tin talaq de to talaq ho jati hai?
Shariyat-E-Islamia me talaq dene ka Sahi Tarika kya hai?
इसलाम में तलाक़ देने का क्या तरीका है?
एक मजलिस की तीन तलाक़ एक मानी जाएगी या तीन?
तलाक़ और हलाला क्या है , क्या इसलाम हालाला करने या करवाने की अनुमति देता है?
سوال: ایک مجلس میں اگر تین طلاق دیں تو طلاق ہو جاتی؟
جواب تحریری
طلاق دینے کا صحیح طریق کار:
شریعت اسلامیہ میں طلاق دینے کا صحیح شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ

1۔ بیوی کو ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جائے۔

2۔ اور یہ طلاق بھی حالت طہر میں ہو۔

2۔ اور اس طہر میں ہو کہ جس میں بیوی سے مباشرت یا تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو۔

پس ایسے طہر میں کہ جس میں بیوی سے مباشرت نہ کی ہو، ایک طلاق دینا طلاق سنی کہلاتا ہے جبکہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا یا حیض و نفاس کی حالت میں طلاق دینا یا جس طہر میں بیوی سے تعلق قائم کیا ہو، اس میں طلاق دینا ، طلاق بدعی ہے یعنی سنت کے مطابق نہیں ہے اور بدعت ہے۔

جب عورت کو حالت طہر میں ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے تو یہ طلاق، طلاق رجعی کہلاتی ہے اور اس کی عدت تین حیض ہے۔(البقرۃ : ۲۲۸) اگر اس عد ت میں خاوند رجوع کر لے توعورت اس کے نکاح میں باقی رہے گی ۔ اور اگر خاوند حالت طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد رجوع نہ کرے تو عدت گزرنے کے بعد عورت اپنے خاوند سے جدا ہو جاتی ہے لیکن اس صورت میں عورت کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں :

1۔ چاہے تواپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کر لے۔

2۔ اگر چاہے تو کسی اور مرد سے نکاح کر لے۔

طلاق کی یہ صورت طلاق احسن کہلاتی ہے کہ جس میں ایک طلاق کے ذریعے دوران عدت رجوع نہ کر کے بیوی کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس میں آپس میں دوبارہ نکاح کا آپشن بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں جہالت کے سبب سے عوام، بلکہ عرضی نویس اور وکلاء تک بھی اپنے کلائنٹ (client)  ذریعے ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کے تحریری نوٹس بھجوا دیتے ہیں حالانکہ یہ طرزعمل سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

محمود بن لبید قال : أخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال : أیلعب بکتاب اللہ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال : یا رسول اللہ ألاأقتلہ۔(سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعۃومافیہ من التغلیظ)

’’ محمود بن لبید﷜  سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کو ایک شخص کے بارے خبر دی گئی کہ جس نے ایک ہی ساتھ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپﷺ  (یہ سن کر ) غصے سے کھڑے ہو گئے اور آپﷺ نے فرمایا : کیا کتاب اللہ کو کھیل تماشہ بنا لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ (اللہ کے رسول ﷺ  کو اس قدر شدید غصے میں دیکھ کر حاضرین مجلس میں سے) ایک شخص نے کہا: کیا میں اسے (یعنی ایک ساتھ تین طلاقیں دینے والے کو) قتل کر دوں؟‘‘

اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :

الطلاق مرتان (البقرۃ : ۲۲۹)

’’ طلاق دو مرتبہ ہے۔ ‘‘

اس آیت مبارکہ میں’طلقتان‘ یعنی دو طلاقیں نہیں کہا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے یعنی ایک بار ایک طلاق ہے اور پھر دوسری بار کسی دوسرے وقت میں دوسری طلاق ہو گی۔ پس ایک وقت میں ایک ہی طلاق جائز ہے ۔(تفسیر احسن البیان : ص ۹۴، مولانا صلاح الدین یوسف، مطبع شاہ فہد کمپلیکس، مدینہ منورہ، مملکت سعودی عرب)

ایک وقت کی تین طلاقوں کاشرعی حکم:
ایک وقت کی تین طلاقوں کے بارے اہل علم میں اختلاف ہے ۔ بعض اہل علم کے نزدیک ایک وقت کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور پاکستان میں عام طور حنفی علما کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا ،طلاق بدعی ہے اور ایسا کرنے والا گنا گار ہے لیکن تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی جبکہ اہل علم کی ایک دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں ، طلاق بدعی ہیں اوراس کا مرتکب گناہ گار ہو گا لیکن یہ تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی۔ پاکستان میں بعض حنفی علما اور عام طور اہل حدیث علما کا یہی موقف ہے۔ ہماری رائے میں دوسرا موقف ہی راجح ، کتاب وسنت اور مقاصد شریعت کے مطابق ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

عن ابن عباس قال طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بن مطلب امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا، قال : فسألہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :کیف طلقتھا ؟ قال : طلقتھا ثلاثا، قال : فقال : فی مجلس واحد ؟ قال : نعم ، قال : فانما تلک واحدۃ، فارجعھا ان شئت، قال : فرجعھا، فکان ابن عباس یری انما الطلاق عند کل طھر ۔(مسند احمد : ۴؍۲۱۵، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

’’حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید  نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور اس پر شدید غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان صحابی سے دریافت فرمایا : تم نے اپنی بیوی کو کیسے طلاق دی ہے؟ حضرت رکانہ نے عرض کیا : میں نے اسے تین طلاقیں دی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کیا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں ؟ رکانہ نے عرض کی : جی ہاں ! اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : یہ صرف ایک ہی طلاق ہے۔ پس اگر تو چاہتا ہے تو اپنی بیوی سے رجوع کر لے۔ پس رکانہ ﷺ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ ابن عباس  کا کہنا تھا کہ ہر طہر میں ایک طلاق ہو گی۔ (یعنی خاوند نے اگر تین طلاقیں دینی ہو تو ایک ساتھ دینے کی بجائے ہر طہر میں ایک طلاق دے گا یعنی ایک ایک مہینے کے وقفے کے ساتھ دوسری اور تیسری طلاق دے گا)۔‘‘

اللہ کے رسول ﷺ  کی زندگی میں ،حضرت ابو بکر  کی خلافت اور حضرت عمر  کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک ہی وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ حضرت عمر کے زمانے میں ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کا رجحان بہت بڑھ گیا تو حضرت عمر نے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ ایسے شخص کی کیا سزا تجویز کرنی چاہیے جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دیتا ہے جبکہ شریعت نے سختی سے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہؓ  کی باہمی مشاورت سے یہ طے پایاکہ ایسے شخص کی سزا یہ ہے کہ اس پر تین طلاقیں قانوناً نافذ کر دی جائیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال کان الطلاق علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر وسنتین من خلافۃ عمر، طلاق الثلاث واحدۃ۔ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی أمر قد کانت لھم فیہ أناۃ فلوأمضیناھ علیہ فأمضاہ علیھم۔(صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)

’’حضرت عبد اللہ بن عباس  سے روایت سے اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ، حضرت ابو بکر ﷜  کے دور خلافت اور حضرت عمر  کے دورخلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پس حضرت عمر نے کہا کہ لوگوں نے طلاق کے معاملے میں جلدی کی ہے(یعنی ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے لگے ہیں) حالانکہ انہیں اس بارے مہلت دی گئی تھی( کہ وہ تین طہر یا تین مہینوں میں تین طلاقیں دیں)۔ پس اگر ہم ایسے لوگوں پر تین طلاقیں جاری کر دیں۔ پس حضرت عمر ﷜ نے انہیں تین طلاقوں کے طور جاری کر دیا۔‘‘

پس اس وقت سے اہل علم میں یہ اختلاف چلا آ رہا ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی یا تین۔ حنفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ (judgement) اگرچہ سیاسی اور قانونی نوعیت کا تھا لیکن چونکہ اس میں صحابہؓ  کی ایک بڑی جماعت کی مشاورت بھی شامل تھی لہذا ہمارے لیے حضرت عمر کا فیصلہ حجت (binding) ہے جبکہ اہل علم کی دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر کا یہ فیصلہ سیاست و قضا سے تعلق رکھتا ہے جو اس وقت کے لوگوں کے لیے تو بطور قانون، لازمی امر(binding) کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بعد میں آنے والے علما، مفتیان کرام اور جج حضرات کے لیے اس فیصلے کی حیثیت ایک عدالتی نظیر (precedent) سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور جب یہ عدالتی فیصلہ اصل قانون (primary source of islamic law)سے ٹکرا رہا ہو گا تو اس صورت میں اصل قانون کو ترجیح دی جائے گی یعنی حدیث رکانہ کو ترجیح ہو گی۔ اور اس فیصلہ (judgement) کی یہ توجیح کی جائے گی کہ یہ فیصلہ ضرورت کے نظریہ کے تحت عبوری اور وقت دور کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس (ordinance) کی حیثیت رکھتا تھا۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہؓ  میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، زبیر بن عوامؓ، عبد الرحمن بن عوفؓ، ایک روایت کے مطابق حضرت علیؓ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کابھی یہی فتویٰ ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ تابعین میں سے حضرت عکرمہ، طاؤس اور تبع تابعین میں محمدبن اسحاق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داؤد بن علی اور بعض اہل ظاہر، بعض مالکیہ، بعض حنفیہ اور بعض حنابلہ کا بھی یہی موقف رہاہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔(اعلام الموقعین : ۳؍۴۴، اغاثۃ اللھفان : ۱؍۳۳۹۔۳۴۱)

یہ بیان کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ 1929ء میں مصر میں حنفی، مالکی، شافعی او رحنبلی اہل علم کی ایک جماعت کی سفارشات پر وضع کیے جانے والے ایک قانون کے ذریعے ایک وقت کی متعدد طلاقوں کو قانوناً ایک ہی طلاق شمار کیاجاتا ہے۔ اسی قسم کا قانون سوڈان میں 1935ء میں، اردن میں 1951ء میں، شام میں 1953 ء میں، مراکش میں 1958ء میں، عراق میں 1909ء میں اور پاکستا ن میں 1961ء میں نافذ کیا گیا۔(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل :ص ۲۱۹، مطبع دار السلام، لاہور)

ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے والوں میں معاصر حنفی علما میں معروف دیوبندی عالم دین مولانا سعید احمد اکبر آبادی (انڈیا)، مولانا عبد الحلیم قاسمی (جامعہ حنفیہ گلبرگ، لاہور) اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل بریلوی حنفی عالم دین مولانا پیر کرم شاہ (سابق جج سپریم اپیلیٹ شریعت بنچ، پاکستان) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ معاصر علمائے عرب میں شیخ ازہر شیخ محمود شلتوت حنفی (جامعہ ازہر، مصر) ، ڈاکٹر وہبہ الزحیلی شافعی (دمشق، شام) ، شیخ جمال الدین قاسمی ،شیخ سید رشید رضا مصری اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے بھی ایک وقت کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا ہے۔ ان اہل اعلم کے تفصیلی فتاویٰ جات کے لیے درج ذیل کتاب کی طرف رجوع کریں:

(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل ، حافظ صلاح الدین یوسف، مشیر وفاقی شرعی عدالت، پاکستان، مطبع دار السلام، لاہور)

حلالہ کی شرعی حیثیت:
ضمنی فائدہ کے طور پر ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک ہی وقت کی تین طلاقوں کی صورت میں پہلے سے طے شدہ حلالہ کا مروجہ طریق کار یا حیلہ ،شرعاً ناجائز اور نکاح باطل (void) ہے کیونکہ یہ وقتی نکاح ہے اور وقتی نکاح اسلام میں جائز نہیں ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

عقبۃ بن عامر قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ألاأخبرکم بالتیس المستعار؟ قالوا : بلی یا رسول اللہ ! قال : ھو المحلل ، لعن اللہ المحلل والمحلل لہ۔(سنن ابن ماجۃ، کتاب النکاح، باب المحلل والمحلل لہ)

’’حضرت عقبہ بن عامر ﷜ سے روایت کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں کرائے کے سانڈ کے بارے خبر نہ دوں۔ صحابہ نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ ! ٓپﷺ نے فرمایا : وہ حلالہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالی حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت فرمائے۔‘‘

حضر ت عمر ﷜سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:

لا أوتی بمحلل و لا محلل لہ الا رجمتھا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الرد علی ابی حنیفۃ، باب لعن المحلل)

’’ اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کروانے والے کو لایا گیا تو میں انہیں سنگسار کر دوں گا۔‘‘

خلاصہ کلام:
ایک مجلس کی تین طلاقیں راجح اور مستند موقف کے مطابق شرعاً ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اور اس صورت میں شوہر کے پاس دوران عدت اپنی بیوی سے رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔

وبالله التوفيق
فتویٰ کمیٹی

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS