find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts sorted by relevance for query Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. Sort by date Show all posts
Showing posts sorted by relevance for query Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. Sort by date Show all posts

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 01)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.

Tarik Bin Jeyad Kaun they aur unhone Musalmanon ke liye kya kiya?


          طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين
    قسط نمبر 1__________________Part 1

طارق بن زیاد بَربَر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلم سپہ سالار اور بَنو اُمیّہ کے جرنیل تھے ،جنہوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اُموی صوبے کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے ،جنہوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ طارق بن زیاد نے مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے عظیم علاقے اسپین کو فتح کیا اور یہاں دینِ اسلام کا عَلم بلند کیا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پر اسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے، جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔ طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کے زیر نگرانی ہوئی تھی، جو ایک ماہرِ حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔اسی لیے طارق بن زیاد نے فن سپہ گری میں جلد ہی شہرت حاصل کرلی۔ ہرطرف اُن کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔ طارق بن زیاد بن عبداللہ نہ صرف دُنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے بل کہ وہ متّقی، فرض شناس اور بلندہمت انسان بھی تھے۔ اُن کے حُسنِ اَخلاق کی وجہ سے عوام اور سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ افریقا کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوّت سے خطرہ لاحق تھا، جب کہ اندلس کے عوام کا مطالبہ بھی تھا۔ اسی لیے گورنر موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکام کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض مؤرخین کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دے کر اُنہیں ہسپانیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ 30 اپریل 711ء کو اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اُترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے ،جو بعد میں طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلایا۔ طارق بن زیاد نے جنگ کے لیے محفوظ جگہ منتخب کی۔ اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اور کہا کہ ہمارے سامنے دشمن اور پیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل اُنہوں نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بددِل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دیں یا اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیں۔ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔ 7 ہزار کے مختصر اسلامی لشکر نے پیش قدمی کی اور عیسائی حاکم کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا، گھمسان کا رَن پڑا، آخر کار دشمن فوج کو شکست ہوئی اور شہنشاہ راڈرک مارا گیا، بعض روایتوں کے مطابق وہ بھاگ نکلا تھا ،جس کے انجام کا پتا نہ چل سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانیوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی۔ فتح کے بعد طارق بن زیاد نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ طارق بن زیاد کو ہسپانیہ کا گورنر بنا دیا گیا۔ طارق بن زیاد کی کامیابی کی خبر سُن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اور خود طارق بن زیاد سے آملے۔ دونوں نے مل کر مزید کئی علاقے فتح کیے۔ اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوا لیا اور یوں طارق بن زیادہ کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا جب کہ اسلامی دُنیا کے اس عظیم فاتح نے 720ء وفات پائی۔ زیر نظر کتابچہ ’’ طارق بن زیاد ‘‘ فاتح اندلس طارق بن زیاد ہی کے متعلق ہے ۔جو کہ اپنے موضوع میں ہر لحاظ سے مکمل اور معلوماتی ہے ۔
سورج کی کرنیں دن بھر سفر کرنے کے بعد تھک کر سمٹنے لگی تھی اور شام کے سائے اپنے پر پھیلانے لگے تھے ۔
شمعیں  جلنے لگی تھی اور پرندے دن بھر اڑنے اور دانہ چگنے کے بعد اپنے اپنے مسکن کی طرف لوٹ رہے تھے۔
شام کے اس سائے میں دو سائے طنجہ  شہر کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ان کے قدم کبھی تیزی اور کبھی آہستہ آہستہ آٹھ رہے تھے۔
شکل سے یہ دونوں راہب لگتے تھے۔ چلتے چلتے یہ لوگ طنجہ شہر جانے والے راستے پر پہنچ گے ۔وہاں ان کی ملاقات چوکی پر موجود سپاہیوں سے ہوئی ۔ان دونوں نے سپاہیوں  کو سلام کیا ۔
اور کہا کہ وہ والیے طنجہ طارق بن زیاد سے ملاقات ہونا چاہتے ہیں  ۔سپاہیوں  نے ملاقات  کی وجہ پوچھی جو ان راہبوں نے بتا دی
ان میں  سے ایک سپاہی ان لوگوں کے ساتھ ہو لیا ۔اور وہ شہر کی طرف روانہ ہو گے۔ مغرب  کا وقت تھا جب یہ لوگ
شہر پہنچ گے اور شہر کی جامع مسجد کے باہر جا کر کھڑے ہو گے۔ تھوڑی دیر کے بعد  مسجد سے طارق بن زیاد اور ظریف بن مالک نماز پڑھ کر باہر نکلے تو دیکھا کے ایک سپاہی کے ساتھ دو راہب کھڑے  ہیں ۔انہوں نے سلام کیا تو سپاہی نے کہا کہ یہ دونوں راہب آپ سے ملنا چاہتے تھے۔ تو میں ان کو اپنے ساتھ یہاں لے آیا۔
طارق بن زیاد نے راہبوں کو ملاقات کی وجہ پوچھی  ۔تو ان میں  سے ایک راہب جس کا نام کونٹجولین تھا نے کہا کہ
ہم الویرا کے علاقہ سے آئے ہیں  اور وہ علاقہ آپ کی عملداری میں آتا ہے
ہمارے چرچ کی راہبہ جس کا نام لوسیہ ہے کو ہسپانیہ ایک شخص اٹھا کر لے گیا ہے اور وہ طاقتور خاندان سے تعلق رکھتا ہے ہم شکایت لے کر وہاں کے حاکم کے پاس گئے۔ مگر اس نے ہماری فریاد نہیں سنی اس کے بعد ہم آپ کے پاس آئے ہیں ۔
طارق نے کہا اب آپ لوگ کیا چاہتے ہے، تو راہب نے کہا کہ ہماری راہبہ کو ہمیں واپس دلوایا جائے ۔
جاری  ہے......
--------------------------------------
واضح رہے کہ یہ فتح اندلس اور طارق بِن زِیاد کی چالیس قسطیں ہے، اس موضوع کا یہ پہلا قسط ہے، اگر آپ دوسری تیسری اور آخری قسط تک پڑھنا چاہتے ہیں تو سرچ باکس میں

( Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. )

ٹائپ کریں، یہ تحریر اردو زبان میں لکھا ہوا ہے مگر اسکا ٹائٹل رومن اردو میں اس لیے ہے کے آپ سب کو سرچ کرنے میں آسانی ہو اور جلد ہی اگلے قسط کو پڑھا جا سکے، سارے تحریر اردو میں ہے صرف اور صرف اسکا ٹائٹل رومن میں ہے لہذا اس سے پریشان نہیں ہوں، اسکا مکمل (40) قسط سایہ کیا جا چکا ہے۔
اللہ ہم مسلمانوں کو دین پے چلنے کی توفیق دے، جیتنے بھی لوگ گنہگار ہے یہ اللہ تو انہیں معاف کر اور اُن سارے لوگو کو ہدایت کی روشنی و اخلاق کی پاکیزگی سے نواز، اللہ تو ہمیں کافروں کے سازش سے بچا اور جو لوگ مسلمانوں میں فحاشی پھیلانے میں لگے ہے تو اس پے اپنا عذاب نازل کر۔ آمین ثمہ آمین

امت مسلمہ جب جہاد سے غافل ہوئی....مسلمان نوجوانوں کے دلوں سے شہادت کی تمنا ختم ہوئی...جہاد کا جذبہ جب دل سے نکل گیا...تو اس کا نتیجہ پھر یہ ہوا کہ کفار ہم پر غالب آگئے...کفار ہمارے خلاف جمع ہونے لگے اور ان کی حالت بالکل شیروں جیسی ہوگئی اور مسلمانوں کی حالت بالکل لونڈیوں کی سی ہوگئی.........

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 03)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.


तारिक बिन जियाद बरबर नस्ल से ताल्लुक रखने वाले मुस्लिम सिपेसलार् और बनू उमैय्या के ज़रनेल थे, जिन्होंने 711 मे हिस्पानिया (स्पेन) मे ईसाई हुकूमत को खत्म कर इस्लामी हुकूमत नाफ़िज की.. 
गरनाता से बाहर आँसूओ की वह पहाड़ी है जहाँ खड़े होकर स्पेन के आखिरी बादशाह अबू अब्दुल्ला ने अल्हमरा की तरफ देखा और वह अपने आँसू न संभाल सके। 
जब हिस्पानिया के आखिरी मुसलमान बादशाह अबू अब्दुल्ला को सुकूत ए गरनाता के बाद वहाँ से निकाल दिया गया तो एक पहाड़ की चोटी पर खड़े होकर गरनाता पर आखिरी नज़र डालते हुए रोने लगे। उस वक़्त उनकी वालिदा ने उन्हे यह तरिखि जुमले कहे थे। 
"उसके लिए तुम औरतों की तरह मत रो जिसके लिए तुम मर्दो की तरह लड़ नही सके"
येरुशलम को यहूदियों का दारुल हुकुमत् बनते देख कर दुनिया भर के मुसलमानो की दुहाई पर बादशाह ए गरनाता के वालिदा के जुमले याद आगये  , के आज का मुसलमान किस कदर यहूदियों और ईसाइयों का रखैल बनकर रह गया है, उसके बनाये हुए निजाम को अपनाने के लिए मरे मिटे जा रहे है... ये वो दौर है जब मुसलमान ईसाइयों के लौंडी बने हुए है। 

ऐ गुलिस्तां ए अंदलस वह दिन है याद तुझको
था तेरी डालियों मे जब आशियाना हमारा 
2 जनवरी 1492 सुकुत ए गरनाता

          طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين
       قسط نبمر 3_________________Part 3

وہ سب اس_کو دیکھ اور اس کا خواب سن رہے تھے-
جب وہ خاموش ہوا تو موسی نے کہا! "
عجیب خواب دیکھا ہے تم نے-"
جولین نے کہا ہاں عجیب خواب ہے زرا ایک بات تو بتائیں؟ "
عبد العزیز؟ "
جولین کیا آپ کبھی اندلس گئے ہیں؟
عبد العزیز:کبھی نہیں گیا-
موسی:آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟ "
جولین:اس لیے کہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اندلس کی سر زمین کے متعلق ہے-"
موسی:کیا وہاں کے پہاڑ اور میدان سر سبز ہیں؟ "
جولین:جی ہاں حقیقت میں اندلس بہشت کا نمونہ ہے-
قدرت نے دنیا کے مختلف حصوں میں جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب اندلس کو بخش دی ہیں-
وہ پھلوں کی بہتات اور آسمان کے صاف رہنے کے لحاظ سے ملک شام ہے-
آب و ہوا کی عمدگی کے خیال سے یمن یا عرب کا نخلستان ہے-
میوں کی کثرت کی وجہ سے اور تازگی کے اعتبار سے حجاز ہے
زرخیزی اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کے انداز سے ہندوستان ہے-
بیش قیمت کانوں کے باعث کیٹے ہے-
نیز سمندر کے ساحلوں کی خوش قطع اور فائدہ رسانی کے میں عدن ہے-"
موسی:آپ نے تو اس کی بڑی تعریف کر ڈالی ہے-
جولین:وہ ملک ہی تعریف کے قابل ہے مگر آپ کے صاحبزادے نے جو خواب دیکھا ہے، اس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے-
موسیٰ:کیوں؟ "
جولین: اس لیے کہ انہوں نے کبھی اندلس نہیں دیکھا مگر خواب میں اندلس پہنچ گئے جس بت کا انہوں نے بتایا ہے وہ مریڈا کے کھنڈرات میں ہے نہایت مشہور ہے-
اس کا نام" گلیشا" ہے دنیا بھر میں اتنا بڑا اور اچھا بت کہیں نہیں ہے-
موسی: اور وہ عورت؟
جولین: جس عورت کو انہوں نے خواب میں دیکھا وہ شاہ رازرق کی بیوی نائلہ ہے-
اس کا طوق دنیا بھر میں بے نظیر ہے اور وہ حسین بھی ایسی ہے کہ جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے سارے اندلس میں وہ طوق والی حسینہ کے نام سے مشہور ہے-
موسی: تعجب ہے میرے بیٹے خواب میں اندلس ہو آئے ہیں-
عبد العزیز: کیا آپ مجھے بیداری میں اندلس جانے کی اجازت دیں گے؟
موسی: نہیں میں نے اس مہم کے لیے اور ہی بہادر کو منتخب کر لیا ہے-
عبد العزیز: نے مایوسی سے کہا اور وہ کون ہے؟
موسی: جب دربار خلافت سے اجازت آ جائے گی تو اس وقت تمہیں اور سب مسلمانوں کو معلوم ہو جائے گا-"
اس وقت ایک خادم نے آ کر اطلاع دی حضور قاصد دمشق سے واپس آ گیا ہے سب یہ خبر سن کر خوش ہو گئے-
موسی نے کہا جلدی سے اسے اندر بلاو-"
خادم واپس چلا گیا اور سب بے چینی سے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے-"
_____________
_______جب قاصد کے آنے میں زرا دیر ہوئی تو ان لوگوں میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں-
جولین نے کہا کیا آپ کے خیال میں اعلی حضرت خلیفہ المسلمین نے لشکر کشی کی اجازت دے دی ہو گی؟ "
موسی: میں صحیح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ایک مہم ہندوستان پر بھیجی جا رہی ہے اور وہ اشد ضروری ہے-
جولین: کیوں؟ .موسی: اس لئے کہ سندھ کے مغرور و متکبر راجہ نے چند مسلمانوں کو قید کر لیا ہے-
انہیں چھڑانے کے لیے ہندوستان پر لشکر کشی ضروری ہو گئی ہے-
جولین: آپ مسلمانوں میں بڑا اتفاق ہے و اتحاد ہے-
موسی: کیوں نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے
کل مومن اخواہ
تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں-"
جب ایک بھائی پر مصیبت آئے تو یا اسے تکلیف ہو تو دوسرا بھائی اس سے متاثر نہ ہو گا؟ "
اور اگر مسلمان کسی مسلمان کو تکلیف اور پریشانی میں دیکھے گا تو اس کی مدد نہیں کرتا تو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم دونوں ناخوش ہوتے ہیں-
یہی وجہ ہے کہ ہر5 مسلمان دوسرے مسلمان کی ہر ممکن امداد کرنے پر مجبور ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں یگانگت اور بھائی چارہ ہے-
جولین: ٹھیک فرما رہے ہیں آپ جو محبت جو خلوص اور جو پیار مسلمانوں میں ہے وہ تمام دنیا میں کہیں بھی کسی قوم میں نہیں.
اتنے میں قاصد اندر آ گیا-
اس نے بلند آواز میں کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ-"
موسی نے و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا-
وہ ایک طرف بیٹھ گیا-
موسی نے دریافت کیا-"
کہو اعلی حضرت خلیفہ المسلمین بخیریت ہیں؟ "
قاصد: جی ہاں اللہ کے فضل و کرم سے.
موسی: اور دوسرے حکومت کے اکابرین ملت-
قاصد: سب خیریت سے ہیں اور سب نے سلام کہا ہے-
موسی: و علیکم السلام اور عام مسلمان؟
قاصد: وہ بھی اچھی طرح ہیں مگر ادنی مسلمانوں سے لے کر اعلی تک حتی کہ خلیفہ بھی ان مسلمانوں کی وجہ سے جنہیں ہندوستان کے مغرور راجہ داہر نے قید کر لیا ہے سخت پریشان اور بے قرار ہیں اور سب کی نگاہیں اس مہم پر لگی ہوئی ہیں جو کہ وہاں بھیجی جا رہی ہے-
موسی: اچھا میری عرض داشت کا جواب ملا؟
قاصد: جی ہاں-"
موسی: لاو !
قاصد نے خلیفہ کا مراسلہ نکال کر پیش کیا-
موسی نے لے کر اول اسے چوما اور پھر کهول کر پڑھا لکھا تھا:::
منجانب ولید بن عبدالملک خلیفہ المسلمین از دمشق بجانب موسیٰ بن نصیر وائسرائے بلاد مغرب:
السلام علیکم و رحمۃ بعد از حمد و صلوٰۃ کے قلمی ہے کہ اسلام اور مسلمان دنیا سے فسق و فجور بدکاری بد امنی کو دور کرنے آئے ہیں اگرچہ ہندوستان کی مہم در پیش ہے مگر اس مہم کی وجہ سے کونٹ جولین کی مدد سے باز نہیں رہ سکتے-
وہ مظلوم ہیں اور مظلوم کی حمایت کرنا مسلمان کا اولین فرض ہے-
ہم اس مہم کا کلی اختیار تم کو دیتے ہیں تم نہایت ہوشیاری سے اسے شروع کرو-
یہاں تجربہ کار لوگوں کو اندلس بھیجو اور کسی ایسے افسر کا انتخاب کرو جو اس مہم کے لیے مناسب اور موزوں ہو-
اول اول زیادہ لشکر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے-
تھوڑا سا لشکر بھیجو ضرورت لاحق ہو تو کچھ اور لشکر بھیج دینا-
فقط والسلام و رحمۃ اللہ.
اس شاہی مراسلہ کو پڑھ کر اتنی مسرت موسی کو نہ ہوئی ہو گی جتنی یہ سن کر کونٹ جولین اور راہب کو ہوئی-"
راہب نے کہا کہیے اب تو دربار خلافت سے بھی اجازت مل گئی ہے اب کیا ارادہ ہے آپ کا؟ "
موسی: مجھے صرف اسی کا انتظار تھا خلیفہ نے میری عرض داشت منظور کر لی ہے اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے پرسوں جمعہ کی نماز کے بعد ان شاءالله لشکر روانہ ہو جائے گا-"
*جاری ہے.....
..

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 04)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.

      طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين
       قسط نمبر 4___________________Part 4

راہب اور کونٹ جولین دونوں آداب کر کے اٹھ کر چلے.
موسی نے اسی روز سات ہزار آزمودہ کار اور شیر دل نوجوانوں کا انتخاب کر کے انہیں تیاری کا حکم دیا-
اندلس کی مہم پر جانے کے لیے ہزاروں آدمی تیار بیٹھے تھے-
سب کا خیال تھا کہ کم سے کم پندرہ بیس ہزار لشکر تو بھیجا ہی جائے گا مگر ان کی حیرت اور مایوسی کی کوئی حد نہ رہی، جب انہوں نے دیکھا کہ صرف سات ہزار لشکر بھیجا جانا منظور ہوا ہے جو منتخب ہو گئے انہوں نے خوش ہو کر تیاریاں شروع کر دیں اور منتخب نہ ہوئے وہ ان کی خدمت کرنے لگے-
صرف ایک ہی دن درمیان میں تھا-
آنکھ جھپکتے ہی وہ بھی گزر گیا اور جمعہ کا وہ روز سعید آ گیا جب اندلس پر جانے والا لشکر روانہ ہونے والا تھا-"
حسب معمول مسلمان غسل کر کے اور نئے کپڑے پہن کر مسجد کی طرف جانے لگے-
نماز کے وقت سے بہت پہلے مسجد پر ہو گئی-

وقت پر اذان ہوئی نماز ہوئی اور سنتوں وغیرہ سے فارغ ہو کر موسی مکبر پر آئے-
انہیں دیکھتے ہی سب لوگ اس قدر خاموش ہو گئے کہ سانس لینے کی آواز صاف طور پر سنائی دینے لگی:
موسی نے کہا: مسلمانو قابل تعریف وہی ذات ہے جس نے یہ دنیا بنائی ہے-
جسے ہم دیکھتے ہیں اور وہ عالم جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے، وہ بنائے ہیں-
وہ خالق کل ہے اور قادر مطلق! نہ اسے نیند آتی ہے نہ تهکان محسوس ہوتی ہے، وہ اکیلا ہے، اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے-
وہ ہمیشہ سے ہے اس وقت سے جب کوئی بھی نہ تھا اسی نے سب کچھ بنایا اور وہ ہمیشہ رہے گا، یعنی اس وقت بھی جب کہ تمام عالم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے-
زمین پهٹ جائے گی اور آسمان ٹکرے ٹکڑے ہو جائے گا-
سیاروں کا وجود باقی نہ رہے گا وہی عبادت کے لائق ہے اور یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم مسلمان اس کی عبادت کرتے ہیں-
یاد رکھو میں صرف مسلمان ہی توحید کے حامل اور مبلغ ہیں اور اب قیامت تک توحید مسلمانوں ہی میں رہے گی-
چونکہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، اس لیے یہی شریعت یہی قرآن شریف اور یہی مزہب توحید کا علمبردار رہے گا-
گزشتہ کتابوں یعنی توریت انجیل اور زبور وغیرہ میں بھی تحریفیں ہوتی رہیں-
انسان ان میں ردو بدل کرتے رہے-
قرآن مجید میں ایک نقطہ اور زیر زبر اور پیش کا بھی فرق نہیں آ سکے گا-
یہ اس لیے کہ اللہ نے خود اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے-
اللہ رب العزت قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے:
ان نحن نزلنا الذکر و انا له لحفظون.
ترجمہ: بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (سورۃ الحجر آیت نو)
خیال کرو اللہ سے زیادہ حفاظت کرنے والا کون ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس میں ایک نقطے کا فرق نہیں آیا اور نہ آئندہ آ سکتا ہے-
اس کے بعد قابل تعریف باعث تخلیق عالم فخر بنی آدم احمد مجتبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی ہے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہزاروں صعوبتیں، لاکھوں تکلیفیں برداشت کیں اور دنیا کے سامنے بے ڈهڑک ہو کر اللہ کا پیغام پہنچا دیا-
ہمیں فخر ہے کہ ہم اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی امت ہیں جو اللہ کا لاڈلا ہے-
فرشتوں کا حبیب ہے، دنیا والوں کا پیارا ہے-
ان پر درود سلام ایک بار نہیں ہزار بار نہیں لاکھوں بار ان گنت درود سلام-
اسلام کے بہادر فرزندو : دربار خلافت پر کونٹ جولین فریادی بن کر آئے ہیں-
اعلی حضرت خلیفہ المسلمین نے ان کی فریاد سن کر ان کی مدد کرنے کا وعدہ کر لیا ہے اور آج لشکر روانہ ہونے والا ہے جو اندلس سے بدکاری عیش پرستی بد امنی اور انسان پرستی مٹا دے گا-
دعا کرو کہ پروردگار عالم مجاہدین کو فتح عطا فرمائے-"
تمام مسلمانوں نے ہاتھ اٹھا کر نہایت خلوص اور سچے دل سے دعا مانگی-
اب موسی نے کہا:"
غالباً سب لوگوں کو اس بات کے معلوم کرنے کا اشتیاق ہو گا کہ اندلس جانے والے لشکر پر افسر یا سپہ سالار کس کو مقرر کیا جائے گا-
میرے پاس سینکڑوں درخواستیں تحریری اور زبانی آئی ہیں-
ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے یہ اعزاز حاصل ہو-
اس میں میرا بیٹا عبد العزیز بھی ہے لیکن میں نے ایسے افسر کا انتخاب کیا ہے جو اس مہم کے لیے ہر طرح سے موزوں اور مناسب ہے-
وہ ایک بربری غلام ہے لیکن میں نے اسے آزاد کر دیا ہے-
اس کا نام طارق ہے"-
طارق بربر کا رہنے والا تھا- جب مسلمانوں نے بربر پر لشکر کشی کی تو وہ اپنے ملک کی حفاظت میں نہایت شجاعت و بسالت سے لڑا اور لڑتے لڑتے گرفتار ہو گیا،
چونکہ جو لوگ لڑائی میں گرفتار ہوتے ہیں وہ غلام بنا لئے جاتے ہیں، اس لیے طارق بھی غلام بن گیا اور موسی کے پاس رہنے لگا،
مسلمانوں کی ہم نشینی نے اسے مسلمان ہونے پر برانگنختہ کر دیا اور وہ مسلمان ہو گیا-
موسی نے اسے فورا آزاد کر کے مراکش کا گورنر بنا دیا-
دنیا کی کوئی قوم بھی ایسے ایثار ایسی مساوات کا مظاہرہ نہیں کرتی کہ ادنیٰ درجہ کے شخص کو جو اچھوت تھا مسلمان ہوتے ہی جلیل القدر عہدہ دے دیا گیا ہو-

ہندوستان میں تو اچھوتوں کی یہ حالت زار ہے کہ مجال نہیں وہ کسی مندر شوالہ اور دهارمک عمارت میں چلے جائیں-
       جاری ہے.......

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 19)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.

      طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين
     قسط نمبر 19__________________Part 19

ان پریشان کن اور ہولناک واقعات کو دیکھ کر رازرق اور اس کے ساتھی نہایت خوفزدہ ہو گئے -
جب انہوں نے گنبد کو جلتے اور اس کی دیواروں کو چٹختے ہوئے دیکھا تو وہ پہلے سے خوفزدہ بد حواس ہو گئے -
انہیں یہ اندیشہ ہو گیا کہ کہیں پتهر کا ٹکڑا ان میں سے کسی کے اوپر آ کر نہ پڑے اور وہ ان کو کو بھی خس و خاشاک کی طرح سے تباہ و برباد نہ کر دے-
اس لئے وہ نہایت تیزی سے گھوڑے ڈورا کر چل پڑے-"
رات کافی ہو چکی تھی اور ہر طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا -
اس وجہ سے ان کے گھوڑے تهوکڑے کھاتے چل رہے تھے -
ان لوگوں کے گھوڑے ان سے بھی زیادہ خوف زدہ اور ان پریشان کھاتے ہوئے چل رہے تھے -
وہ بغیر کسی قسم کے اشارے کے خود ہی اپنی رفتار سے بھاگ رہے تھے -
آخر اللہ اللہ کر کے درہ ختم ہوا اور وہ نشیبی گھاٹی کی طرف چلے-
غرض کہ جوں توں کر کے وہ پہاڑ سے نیچے اترے اور سراسیمگی کے عالم میں طلیطلہ کی جانب روانہ ہوئے-
جب قلعہ قریب آ گیا اور انہیں اطمینان ہو گیا کہ اب کوئی اندیشہ باقی نہیں ہے تو انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا انہیں اس جگہ جہاں گنبد جل رہا تھا آسمان پر روشنی نظر آئی-
رازرق کس قدر دہشت ناک منظر تهے؟
وزیر:وحشت ناک بھی اور عجیب و غریب بهی-
رازرق:دراصل میں نے اسے خزانہ سمجھا تھا -
وزیر: لیکن میں نے حضور سے عرض کیا تھا کہ خزانہ نہیں ہے وہاں-
رازرق: کاش اس منحوس گنبد کو میں نے کھولا ہی نہ ہوتا-
وزیر:مگر ہونا تو یہی تھا -
رازرق: یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ پتہ نہ چلا کہ یہ کون لوگ تھے جو کہ اس فیتے میں نظر آئے؟
وزیر: میرے خیال میں وہ عرب تهے -

رازرق مسلمان عرب؟
وزیراعظم جی ہاں!
رازرق نے افسوس ناک لہجے میں کہا-"
تو کیا اندلس پر حملہ کریں گے مسلمان؟
وزیر میرا خیال ہے کہ جن لوگوں نے آپ کے سپہ سالار کو ہزیمت دی ہے وہ مسلمان ہی ہیں-"
رازرق اور یہ خیال صحیح ہے کیونکہ جس لباس اور صورت کے آدمی ہم نے دیکهے ہیں گنبد میں ایسے ہی تدمیر نے اپنے مراسلے میں لکھا تھا -
وزیر اور حضور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ کمبخت مسلمان جس علاقے پر حملہ کرتے ہیں اسے فتح کئے بغیر نہیں چھوڑتے-
رازرق ہاں یہی بات سنی ہے،
ان بد بختوں کو کونٹ جولین ہم پر چڑھا لایا ہے؟
وزیر اس نے نہایت نا عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے-
وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ نہیں جانتا کہ اگر انہوں نے اندلس کو فتح کر لیا تو سیوطا کو کیوں چھوڑ دیں گے -
رازرق افسوس یہ ہے کہ اس نے عیسائی ہوتے ہوئے بھی ملک و قوم سے غداری کی ہے-
وزیر لیکن جولین اس قماش کا آدمی نہیں تھا اسے ضرور کوئی ایسا رنج پہنچا ہے جس سے کہ وہ ایسی نازیبا حرکت کر بیٹھا ہے-
رازرق رنج اسے بھی کیا کم ہے کہ اس کا خسر ڈنرا تخت سے محروم ہو گیا ہے-"
وزیر بے شک ٹھیک فرمایا ہے آپ نے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معزول بادشاہ ڈنرا بھی اس کا شریک کار ہے-
رازرق یقیناً لیکن ان دونوں بد بختوں نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ مسلمان اندلس پر قبضہ کر کے کسی کو بھی تخت پر بیٹھنے دیں گے -
وزیر یہ ان کی بڑی کم فہمی ہے-
اب یہ سب قلعہ کے دروازے میں داخل ہوئے اور خاموش ہو گئے - رازرق چالاک تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ لوگوں کو اصل حال معلوم نہ ہو کیونکہ اس میں اس کی بھی رسوائی تهی -
وہ سارا الزام ڈنرا اور جولین کے ذمہ اس لیے تھوپ رہا تھا تا کہ عوام الناس کے خیالات ان دونوں کی طرف سے خراب ہو جائیں گے اور وہ انہیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھنے لگیں-
قلعے کے اندر پہنچتے ہی وہ شاہی قصر کی جانب چلے وہاں پہنچ کر رازرق گھوڑے سے اتر کر محل میں داخل ہو گیا اور باقی لوگ واپس چلے گئے-
جس وقت رازرق اپنے کمرے میں پہنچا تو نائلہ کو بیٹھے ہوئے دیکھا-
وہ گنبد کے واقعات دیکھ کر کچھ ایسا خوف زدہ ہو گیا تھا کہ اب تک بھی پریشانی اور فکر کی علامات اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھیں _
نائلہ نے اسے دیکھتے ہی کہا کہیے خزانہ دریافت ہوا؟
رازرق نے بیٹھتے ہوئے کہا وہاں خزانہ تها ہی نہیں.
نائلہ اور کیا تھا؟
رازرق کچھ بھی نہیں ۔ ایک شعبدہ بازی تهی جادو نگاری تهی -
اس کے بعد اس نے تمام وہ واقعات جو اس نے گنبد میں دیکهے تهے بیان کر دئیے نائلہ ان واقعات کو سن کر حیران ہو رہی تھی -
جب وہ سب کچھ سنا چکا تو نائلہ نے کہا -
دیکھئے آپ نے ضد کر کے کیسی بڑی غلطی کر دی ہے-
رازرق ہاں مجھے بھی افسوس ضرور ہے کہ ایک تاریخی عمارت جل کر راکھ ہو گئ-
نائلہ اور یہ مطلق خیال نہیں ہے کہ جو کچھ وہاں دیکھا وہ سچ مچ پیش نہ آ جائے.
رازرق اس کا میں قائل نہیں ہوں!
کمرے میں روشنی ہو رہی تھی - اس روشنی میں خود نائلہ کا چہرہ مہ کامل کی طرح چمک رہا تھا وہ بے حد حسین تهی. تیز روشنی کے عکس نے اسے پہلے سے زیادہ حسین بنا دیا تھا -
نائلہ کیا تدمیر کو کسی دشمن کے مقابلہ میں شکست ہو گئی ہے؟
رازرق ہاں عجیب بات ہے کہ جیسے لوگ میں
: نے گنبد میں دیکهے تهے ویسے ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسے شکست دی ہے میں ان سے لڑنے کے لیے عنقریب جانے والا ہوں-
نائلہ ان لوگوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے رازرق وہ مسلمان ہیں اور ان سے جنگ کرنا ہنسی کھیل نہیں ہے -
نائلہ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا مسلمان ہیں؟
رازرق ہاں! !!!
نائلہ جب تو ملک اور قوم کا اللہ ہی حافظ ہے آہ آپ نے ایسیب غلطی کیوں کر دی-"
رازرق میں نے غلطی کی؟
نائلہ آپ نے کونٹ جولین کو ناراض کر دیا ہے
رازرق میں بتا چکا ہوں کہ وہ سرا سر جھوٹا ہے بات کچھ اور تھی اور اس نے کچھ اور______"-
نائلہ نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا بس معاف کیجئے اور ہاں میں اس گفتگو کو طول نہیں دینا چاہتی.
اس وقت میں اس لئے آئی تھی کہ آپ سے دریافت کروں کہ خزانہ دستیاب ہوا کہ نہیں اب میں جا رہی ہوں-
نائلہ اٹهہ کر فوراً چلی گئی رازرق کو اسے روکنے کی جرات نہ ہوئی اس کی بے رخی دیکھ کر اسے لگا کہ اسے فلورنڈا کا صحیح واقعہ معلوم ہو گیا ہے-"
آج صبح ہوتے ہی وہ سخت پریشان تھا جو واقعات بھی آج رونما ہوئے وہ ایک سے ایک تکلیف دہ تهے -
اس نے کهانا بھی نہیں کھایا اور سیدھا اپنی خواب گاہ میں چلا گیا-
صبح بیدار ہوتے ہی اس نے اپنے سپہ سالار کو بلا کر کوچ کی تیاری کا حکم دیا سپہ سالار نے حکم سنتے ہی اسی روز سامان حرب نیز تھوڑا تھوڑا لشکر بھی بھیجنا شروع کر دیا -
چند روز کے بعد رازرق معہ اپنے مشیروں اور بہادروں کے روانہ ہوا اسے اس کی رعایا نے نہایت جوش و خروش کے ساتھ روانہ کیا اور پورے نوے ہزار لشکر لے کر شیران اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے قرطبہ کی طرف روانہ ہوا________
       جاری ہے......

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 13)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.
          فاتح اندلس
        طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين

     قسط نمبر 13_______________Part 13

____تدمیر کا قاصد نہایت تیزی سے چلا جا رہا تھا -
اسے دارالسلطنت طلیطلہ میں پہنچنا تھا -
چونکہ وہ راستوں سے بخوبی واقف تھا، اس لیے اس نے ایسا راستہ اختیار کیا تھا جو نہایت مختصر تها_
وہ قرمونہ سے ہوتے ہوئے وادی الکبیر کو عبور کر کے قرطبہ کو دائیں ہاتھ چھوڑ کر سیدھا طلیطلہ کی جانب روانہ ہو لیا، چونکہ اسے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ جلد از جلد بادشاہ کے حضور میں پہنچ جائے، اس لیے نہایت تیزی سے رات اور دن چلا جا رہا تھا -
فقط تهوڑی دیر قیام کرتا تھا-
کوچ و قیام کرتے ہوئے وہ کوہ طلیطلہ پر جا پہنچا اور اس کے دروں اور گھاٹیوں کو طے کرتے ہوئے دریائے ٹیگس کے کنارے پر جا کھڑا ہوا-
یہاں سے طلیطلہ کی سر بفلک عمارتیں اور فلک بوس فصیل سب نظر آ رہی تھی-"
طلیطلہ نہایت وسیع قلعہ تھا -
یہ چٹانوں پر آباد تھا اور اگر سچ پوچھیں تو موٹی موٹی چٹانوں کو تراش کر ہی فصیل بنا لی گئی تھی-
اس قلعہ کے چاروں طرف دریائے ٹیگس بہتا تھا -
پل جو کہ اس دریا پر بنایا گیا تھا، نہایت اونچا اور بڑا شاندار تها-
اہل اندلس نے اس کی صناعی میں اپنی حرفت ختم کر دی تھی اس قاصد نے پل کو عبور کیا اور قلعے کے سامنے والا میدان طے کر کے قلعہ کے دروازے پر پہنچا-
اس قلعہ کے چاروں طرف چار دروازے تھے اور چاروں دروازوں کے سامنے اچھے خاصے میدان پڑے تھے -
دروازے نہایت بلند اور شاندار تهے -
ہر دروازے پر سپاہی رہتے تھے قاصد دروازے سے گزر کر قلعہ میں داخل ہوا-"
قلعہ اندر سے بھی نہایت شاندار تها-
نہایت اونچی اونچی اور خوبصورت عمارتیں بنی ہوئی تھیں-
اس نے دیکھا کہ تمام قلعہ خوب آراستہ کیا گیا ہے، مکانات اور بازار سب سجائے گئے ہیں، اس نے ایک شخص سے دریافت کیا کہ یہ سجاوٹ کیوں ہو رہی ہے -
اسے بتایا گیا کہ آج جشن نو روز منایا جا رہا ہے - "
وہ جس طرف سے بھی گزرا اس کے کانوں میں شادیانوں کی آوازیں آتی رہیں-
کہیں کہیں رقص و سرور کی محفلیں بھی گرم ہو رہی تھیں _
لوگ اچھی پوشاکیں پہنے خوش ہوتے اور ہنستے پھر رہے تھے - "
قاصد سیدھا دربار عام میں پہنچا-
آج دربار کی عمارت دلہن کی طرح بنا دی گئی تھی-
خوب اچھی طرح سے سجاوٹ کی گئی تھی-
دربار لگا ہوا تھا اور اراکین سلطنت اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے - "
شاہ رازرق ایک اونچے چبوترے پر چاندی کے تخت پر بیٹھا تھا-
کئی حسین اور نوخیز لڑکیاں اس کے پیچھے کھڑی مگسرانی کر رہی تھیں اور بہت سی پری زاد رقاصائیں چبوترہ کے نیچے قالین کے فرش پر ناچ رہی تھیں _
ایک تو وہ سب سے حسین تهیں دوسرے نہایت اچھی ریشمی پوشاکیں اور سونے چاندی کے زیورات پہنے اور بھی حسین معلوم ہو رہی تھیں _
سب مست شباب تهیں -
ناچنا گانا خوب جانتی تھیں-
لہذا نہایت دل فریب طریقے سے ناچ رہی تھیں _
سارے درباری اراکین سلطنت اور بادشاہ تمام نہایت غور سے ناچ دیکھ کر داد دے رہے تھے -
قاصد ایک طرف کھڑا اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ ناچ ختم ہو اور موقع ملے تو تدمیر کا عریضہ بادشاہ حضور کو پیش خدمت کرے-"
ناچ کے فوراً بعد ہی گانا شروع ہو گیا باجے نہایت دلکش انداز میں بجنے لگیں گانے والیوں کی سریلی آوازوں نے تمام درباریوں کو بے خود کر دیا -
حتی کہ بادشاہ بھی محو و بے خود ہو گیا -
کچھ عرصے کے بعد، گانا ختم ہوا اور پری جمال گانے والیاں دو قطاروں میں کھڑی ہو گئیں-
ان کی جھلمل جھلمل کرن پوشاکوں پر نظر نہ جمتی تهی - "
ہر شخص ان کے لباس اور چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا _
قاصد کو موقع ملا وہ ناچنے گانے والیوں کے بیچ میں سے گزرتا ہوا چبوترہ کے قریب جا پہنچا-
رازرق نے غضبناک نگاہوں سے قاصد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بد بخت انسان کون ہے تو؟ "
اس کی ڈاڑھی کے بال بلکل سفید ہو گئے تھے ستر پچھتر سال کی عمر ہو گی لیکن بد قسمتی سے اپنے آپ کو جوان سمجھتا تھا اور جوانوں جیسی حرکتیں کرتا تھا نہایت ہوس پرست اور عیش کوش تھا -
ہر وقت حسین و جمیل لڑکیوں اور عورتوں سے اختلاط کرتا رہتا تھا-"
قاصد اسے پر غضب دیکھ کر ڈر گیا-
اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں بادشاہ اس سے ناراض ہو کر اس کے قتل کا حکم نہ دے دے-"
قاصد فوراً سجدے میں گر گیا اور کهڑا ہو کر نہایت ادب سے بولا-
حضور میں قاصد ہوں-"
رازرق نے غصہ اور حیرت بهری مخلوط آواز میں کہا - "
قاصد؟ "
قاصد جی ہاں رازرق نے پوچھا کس کے؟
قاصد تدمیر کا
اب رازرق کا غصہ دور ہو گیا اور چہرہ سے کچھ مسرت و انبساط کی علامات ظاہر ہوئیں-
اس نے کہا کیا اس نے بلقیس کو گرفتار کر لیا؟ "
قاصد جی ہاں!
رازرق تم نے بلقیس کو دیکھا ہے؟
قاصد دیکھا ہے حضور! !!!
رازرق کیا وہ بہت زیادہ خوبصورت ہے؟
قاصد جی ہاں وہ ماہ شب چہارم دہم سے بھی زیادہ حسین ہے، رازرق ٹھیک ہے وہ کہاں ہے؟
قاصد تدمیر کے پاس ہے، رازرق کو پهر غصہ آ گیا اس نے کہا! اس نے یہ حماقت کیوں کی؟ "
قاصد نہ سمجھ سکا کہ بادشاہ کا مطلب ہے اور اسے کیا جواب دینا چاہیے، وہ چپ رہ گیا رازرق کو آور بھی غصہ آ گیا-
اس نے خشونت کے انداز میں کہا - "
احمق قاصد اس نے اسے اپنے پاس کیوں ٹھہرایا ہے؟ "قاصد حضور اس حور کو بھیجنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملا رازرق کیوں؟
قاصد کچھ عجیب سے لوگ اچانک آ گئے، رازرق کہاں آ گئے؟
قاصد جہاں سپہ سالار کا لشکر تها-
رازرق انہوں نے آ کر کیا کہا!
قاصد حضور انہوں نے آتے ہی جنگ شروع کر دی رازرق نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا-"
جنگ! _____؟"
قاصد جی ہاں!
اب اس نے جنگ کے تمام واقعات سنا دیے-
ہر شخص نے نہایت حیرت و استعجاب سے ان واقعات کو سنا رازرق نے دریافت کیا!
آخر کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ "
قاصد حضور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں - ان کے لباس دامن نہایت چوڑے چوڑے ہیں داڑھیاں لمبی لمبی ہیں چہروں سے نور برس رہا ہے یوں تو فرشتے معلوم ہوتے ہیں-"
رازرق عجیب بات ہے-
قاصد نے بڑھ کر عریضہ پیش کیا رازرق نے لے کر وزیر اعظم کو دیا-
اس نے پڑھنا شروع کیا-"
شہنشاہ جہانبائی فرمانروائے اسپین! !!!
ہمارے ملک پر ایک عجیب قوم نے حملہ کر دیا ہے ان کی پوشاک شاید سارے زمانے سے
نرالی ہے کم از کم میں نے تو ایسا لباس کہیں نہیں دیکھا-
لمبے لمبے ٹخنوں تک جبے ہیں -
چوڑے چوڑے دامن ہیں چوڑی آستینیں ہیں -
سروں پر بہت سے کپڑے باندھ لیتے ہیں اور ان کپڑوں پر ایک بڑا سا رومال ڈال لیتے ہیں جو دونوں کانوں کے برابر سے آ کر سینے تک لٹکنے لگتا ہے-
داڑھیاں لمبی لمبی اور صورتیں نورانی ہیں مگر جب لڑتے ہیں تو خونخوار شیر بن جاتے ہیں کم بخت ایسا جی توڑ کر لڑتے ہیں کہ کوئی قوم بھی ان کے سامنے نہیں ٹهہر سکتی-
میں حیران ہوں کہ یہ کہاں سے آ گئے ہیں-
آیا آسمان سے اترے ہیں یا زمین سے نکل آئے ہیں -
ہمارا ان سے مقابلہ ہوا ہم نے پورے جوش و شجاعت سے کام لیا-
بڑی جانبازی سے لڑے مگر تمام کوششوں اور سب جانثاروں کا انجام ناکامی ہی ثابت ہوا-
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم بخت مرنا نہیں جانتے بلکہ صرف مارنا جانتے ہیں-
وہ پیچھے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتے اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے آتے ہیں-
ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اگر ان کے قدم جم گئے تو سارے اندلس کو تباہ و برباد کر ڈالیں گے -
اس بلائے عظیم کو دور کرنے کے لیے عظیم الشان لشکر لے کر حضور خود تشریف لائیں ورنہ ان کی جانب سے خطرہ ہے-
میں نے ان کا ایک آدمی گرفتار کر لیا ہے اور بلقیس بھی میرے پاس ہے-"
(وفادار جاں نثار تدمیر)
رازرق اور تمام درباری اس خط کو سن کر نہایت متحیر ہوئے-
ابهی ان کی حیرت دور نہ ہوئی تھی کہ کچھ کھٹکا ہوا-
بادشاہ اور درباریوں نے نظریں اٹها اٹھا کر دیکھا-
دو بوڑھے آدمی پادریوں جیسا لباس پہنے چاندی کے عصا ہاتهوں میں لیے بڑھے چلے آ رہے تھے -
انہیں دیکھتے ہی بادشاہ اور درباریوں کو حیرت ہوئی اور سب ان کو ٹکٹکی لگائے ہوئے دیکھنے لگے__________
   جاری ہے......

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 06)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.
         طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين

      قسط نمبر 6______________Part 6

_____امامن :جو انسان انسانیت رکھتے ہیں ضرور ان پر اثر ہوتا ہے_______ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جب بھیڑیوں نے میری بیٹی کو پکڑا اس نے میری طرف دیکھا تو میں ضبط نہ کر سکا اور پارہ دل کو چھڑانے کو آگے بڑھا، مگر ان میں سے دو خونخوار انسانوں نے مجھے پکڑ اس زور دھکا دیا کہ میں گر پڑا اور گرتے وقت میرا سر دروازہ کے سنگی بازو سے ٹکرایا اور میں بے ہوش ہو گیا_________طارق نے دانت پیستے ہوئے کہا" بے درد انسان"-
امامن: آہ انہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے-
وہ بھیڑیے ہیں بهیڑیئے بے رحم و سفاک اور خونخوار-
طارق: اللہ انہیں غارت کرے انہیں سزا دے گا.
امامن:ہزاروں ستم زدہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں کوس رہے ہیں! !!!
طارق: اچھا جب تم ہوش آئے______؟
امامن: جب میں ہوش میں آیا وہ اسے لے جا چکے تھے اور چونکہ میں بے ہوش ہوگیا تھا اور کوئی ان کو روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا، اس لیے انہوں نے میری ساری دولت بھی لوٹ لی اور چلے گئے مگر____مجھے دولت کی پرواہ نہیں جو کچھ بھی میرے پاس تھا سب لے جاتے ہیں مگر میری بچی کو چھوڑ جاتے مگر وہ دولت بھی لے گئے اور میرے دل کے ٹکڑے کو بھی لے گئے، مجھ پر اس واقعہ ایسا اثر ہوا کہ میں نیم پاگل ہو گیا-
ایک کمرے سے دوسرے میں دوسرے تیسرے میں بھاگا پھرنے لگا-
دیر تک میری یہی حالت رہی یہاں تک کہ رات ہو گئی اور تهک کر چور ہو گیا
نیند تو کیا آتی شاید ضعف طاری ہو گیا تھا یا پھر صدمہ کا اثر بھی باقی تھا جس کے سبب مجھے غش آ گیا-
اسی عالم میں میں نے ایک سفید پوش بزرگ کو دیکھا جو کہ مجھے تسلی دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر تیری بیٹی محفوظ ہے اور اسے چھڑانے والے بھی آ گئے ہیں-
جزیرہ خضر میں جا! !!!!
وہ تجھے وہاں ملیں گے-میں نے دریافت کیا-
حضور میں انہیں کیسے پہنچانوں گا؟ ؟"انہوں نے جواب دیا -"
ان کی سفید اور سادہ پوشاک اور چوڑے چوڑے دامنوں سے پہچاننا-
وہ سب عمامے باندھے ہوں گے ان کو دنیا مسلمان کے نام سے پکارتی ہے"-
سب کو اس سے یہ سن کر کمال کا تعجب ہوا لیکن تعجب کے ساتھ ساتھ ان سب کو اس بات کا بھی یقین ہو گیا کہ وہ ان شاءالله اندلس کی موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دیں گے-"
امامن نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہا"-
میں فورا اٹھ کھڑا ہوا صبح ہو گئی تھی میں نے مکان بند کیا اور آپ کی تلاش یہاں چلا آیا اللہ کا شکر ہے کہ آپ مل گئے-"
طارق:اور یہ واقعہ کب کا ہے؟ "
امامن: ایک مہینے کا ذکر ہے حضور-
طارق:تمہاری لڑکی کا نام کیا ہے؟
امن:بلقیس ہے حضور-
طارق:مگر یہودیوں میں تو ایسا نام نہیں رکھا جاتا-
امامن:حضور یہ بات بہت مشہور ہے کہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیوی نہایت حسین و جمیل تھی-
میری بیٹی بھی بہت حسین ہے اس لیے اس کا نام بلقیس رکھا تھا-
طارق: اچھا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ وہ بلقیس کو کہا لے کر گئے ہیں؟ "
امامن:حضور اتفاق سے ایک عیسائی مل گیا تھا اور وہ ان سپاہیوں میں سے تھا جو کہ اسے پکڑ کر لے گئے تھے-
اس سے میں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ بلقیس تدمیر کے لشکر میں ہے-
طارق: اور تدمیر کہاں ہے؟ "
امامن: قریب ہی ہے شاید یہاں سے چار پانچ میل ہو گا-"
طارق: پھر تو یہ مناسب ہو گا کہ ہم آج یہیں ٹھہریں اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کر دیں-"
امامن: حضور چونکہ میرے دل میں آتش انتقام بھڑک رہی ہے اس لیے میں تو یہی کہوں گا کہ اسی وقت ان بھیڑیوں پر حملہ کر دیں لیکن صحیح رائے یہی ہے کہ آج یہاں قیام کیجئے اور صبح ہوتے ہی حملہ کر دیجئے-
مغیث الرومی اور دوسرے افسروں نے بھی یہی مشورہ یہی دیا-
چنانچہ اسی جگہ رات بسر کرنے کے ارادے سے اسی جگہ لشکر مقیم ہو گیا اور چونکہ مسلمان خیمے نہیں لائے تھے نہ گھوڑے اس لیے کھلے آسمان تلے ہی سایہ رات بسر کرنے کی ٹھان لی-
رات کو انہوں نے کھانا تیار کر کے کھایا-
امامن کو کھلایا اور عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے صبح بیدار ہوئے-
ضروریات سے فراغت حاصل کرنے کے بعد وضو کیا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی گئی-
جب وہ نماز پڑھتے تھے تو امامن ان کو حیرت سے دیکھ رہا تھا ان کی خدا ترسی کا اس کے دل پر گہرا اثر ہوا تھا-
اس نے ایک ہی شب ان کے ساتھ رہ کر دیکھ لیا تھا کہ یہ لوگ فضول تکلفات اور بے ہودہ باتوں سے کوسوں دور ہیں-
ان کا مشغلہ اللہ کی عبادت ہے خوش اخلاق ایسے ہیں کہ اس نے آج سے پہلے ایسے خوش خلق لوگ نہ دیکھے تھے-
نماز پڑھتے ہی ہر مجاہد نے اپنا اپنا بستر اور تھوڑی تھوڑی رسد باندھ کر اپنی اپنی کمر سے لگائی اور نہایت اطمینان سے صف در صف کھڑے ہو کر روانہ ہو گئے-
اگرچہ طارق لشکر کے سپہ سالار تھے اور ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا مگر وہ اپنا بستر کمر سے باندھے ہوئے تھا اور طارق اپنا-
یہ مساوات دیکھ کر امامن کے دل پر گہرا اثر پڑا-
اسلامی لشکر نہایت اطمینان اور استقلال سے چل پڑا یہ مساوات دیکھ کر امامن کے دل پر گہرا اثر پڑا-
اسلامی لشکر نہایت اطمینان اور استقلال سے چل پڑا اور اب ان کا ہر قدم جزیرہ سبز سے آگے بڑھنے لگا تھا- مسلمان خوب جانتے تھے اس جزیرہ کے اختتام پر تدمیر سے مقابلہ ہو گا-
انہیں اس مقابلہ کی بڑی مسرت تھی اور فرط انبساط سے قدم بڑھائے چلے جا رہے تھے-
ابھی آفتاب نصف النهار کے قریب بھی نہیں پہنچا تھا کہ جزیرہ سبز سے باہر نکل آئے-
انہوں نے کچھ ہی دور جا کر عیسائی لشکر کو دیکھا جو خیموں میں پڑا سو رہا تھا-
انہیں مطلق خبر نہیں تھی کہ ان کی موت ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے-
مسلمانوں نے اس میدان میں جاتے ہی اللہ اکبر کے غلغلہ کا پر ذور نعرہ لگایا-
عیسائیوں نے اس نعرے کی آواز کو سنا اور گھبراتے ہوئے خیموں سے باہر آئے اور حیرت سے لشکر اسلام کو دیکھنے لگے__________________
اندلس کی پہلی جنگ________یہ لشکر تدمیر کا تھا خیموں میں دور تک چهولداریاں تھیں اور ان کے پیچھے گھوڑے بندھے ہوئے تھے-
جن حیران کن متعجب نظروں سے وہ مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے اس سے صاف پتہ لگ رہا تھا کہ وہ انتہائی متعجب ہوئے ہیں-"
تدمیر جوان تھا اور نہایت چالاک تجربہ کار اور بہادر اس نے فوراً ہی اپنے لشکر کو مسلح ہو کر مجاہدین اسلام سے مقابلے کے لیے نکلنے کا حکم دیا-
اندلس کے
عیسائیوں نے اس سے پہلے کسی مسلمان کو نہیں دیکھا تھا اس لیے انہوں رہ رہ کر حیرت ہو رہی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آ گئے ہیں لیکن جب تدمیر نے انہیں مقابلے کا حکم دیا تو وہ فوراً اپنے خیموں میں گھسے اور تیار ہو کر اپنے گھوڑوں پر سوار ہو میدان جنگ میں نکلنے لگے-'
طارق نے فوراً ہی فوج کو صف بستہ شروع کر دیا ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے وہ پیدل تھے نیز گھوڑا تو گھوڑا مجاہدین اسلام کے پاس ہتھیار بھی پورے نہیں تھے زرہ بگتروں کا تو جواب ہی کیا-
اکثر لوگوں کے پاس نیزے اور تلواریں کچھ لوگوں کے پاس خالی تیر کمان اور کچھ خالی جڑی لاٹھیاں تھیں.
طارق نے انہیں اس طرح صف بستہ کیا کہ اگلی صف میں ہر چار آدمی ایسے تھے جن کے پاس تلواریں اور نیزے تھے بیچ میں ایک کمان والے کو کھڑا کر دیا اور دوسری اور تیسری صفوں میں صرف تلوار اور نیزے والے تھے اور پانچویں صف میں تیر انداز کھڑے کئے ان کے پیچھے لاٹھیوں والے صف بستہ کئے جس وقت انہوں نے اس ترتیب سے شیران اسلام کی صف بندی کی تو اس وقت تدمیر بھی اپنے لشکر کو صف بستہ کر چکا تھا-
اس کے تمام سپاہی لوہے کی زرہ بکتر پہنے گھوڑوں پر سوار بڑی شان و شوکت سے کھڑے ہوئے تھے ان کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ بےسروساماں مجاہدین کو حقیر اور ناتواں سمجھ رہے ہیں-
تدمیر اپنے لشکر کی صفوں سے باہر نکلا اور چند قدم آگے بڑھا کر بلند آواز میں پوچھنے لگا اے لوگوں کیا تم بتا سکتے ہو کہ تم کون ہو؟ "
چونکہ تدمیر نے اپنی زبان میں بات کی تھی اس لیے کوئی مسلمان اس کی بات کو نہ سمجھ سکا چنانچہ طارق نے امامن کو بلا کر دریافت کیا تم اسے جانتے ہو یہ کون ہے؟ "
جی ہاں یہ تدمیر ہے عیسائی لشکر کا سپہ سالار ہے.
طارق: اس سے دریافت کرو کہ یہ کیا کہتا ہے طارق امامن کے ساتھ بڑھ کر صفوں سے باہر نکلا-
تدمیر نے امامن کو دیکھا تو غضب میں آ کر کہا آو شیطان یہودی تو بھی ان کے ساتھ ہے-
تیری اس نازیبا حرکت سے پتہ چلا ہے کہ تم یہودی لوگ ان سے ملے ہوئے ہو تم ہی انہیں کہیں سے پکڑ کر ہمارے مقابلے کے لیے لائے ہو-
امامن نے اطمینان و سنجیدگی سے جواب دیا ہم نہیں لائے بلکہ تمہاری قوم ہی انہیں تم پر حملہ کرنے کے لیے لائی ہے-"
تدمیر نے غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا کون ہے وہ بد بخت؟ "
امامن: کونٹ جولین اور سیوطا کا گورنر-
امامن کو تمام واقعات معلوم ہو چکے تھے کیونکہ وہ یہودی تجارت کی غرض سے حجاز جاتے رہتے تھے:
       جاری......

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS