Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.
Tarik Bin Jeyad Kaun they aur unhone Musalmanon ke liye kya kiya?
طارق بِن زِیاد
تحریر:- صادق حسين
قسط نمبر 1__________________Part 1
طارق بن زیاد بَربَر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلم سپہ سالار اور بَنو اُمیّہ کے جرنیل تھے ،جنہوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اُموی صوبے کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے ،جنہوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ طارق بن زیاد نے مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے عظیم علاقے اسپین کو فتح کیا اور یہاں دینِ اسلام کا عَلم بلند کیا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پر اسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے، جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔ طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کے زیر نگرانی ہوئی تھی، جو ایک ماہرِ حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔اسی لیے طارق بن زیاد نے فن سپہ گری میں جلد ہی شہرت حاصل کرلی۔ ہرطرف اُن کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔ طارق بن زیاد بن عبداللہ نہ صرف دُنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے بل کہ وہ متّقی، فرض شناس اور بلندہمت انسان بھی تھے۔ اُن کے حُسنِ اَخلاق کی وجہ سے عوام اور سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ افریقا کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوّت سے خطرہ لاحق تھا، جب کہ اندلس کے عوام کا مطالبہ بھی تھا۔ اسی لیے گورنر موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکام کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض مؤرخین کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دے کر اُنہیں ہسپانیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ 30 اپریل 711ء کو اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اُترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے ،جو بعد میں طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلایا۔ طارق بن زیاد نے جنگ کے لیے محفوظ جگہ منتخب کی۔ اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اور کہا کہ ہمارے سامنے دشمن اور پیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل اُنہوں نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بددِل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دیں یا اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیں۔ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔ 7 ہزار کے مختصر اسلامی لشکر نے پیش قدمی کی اور عیسائی حاکم کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا، گھمسان کا رَن پڑا، آخر کار دشمن فوج کو شکست ہوئی اور شہنشاہ راڈرک مارا گیا، بعض روایتوں کے مطابق وہ بھاگ نکلا تھا ،جس کے انجام کا پتا نہ چل سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانیوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی۔ فتح کے بعد طارق بن زیاد نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ طارق بن زیاد کو ہسپانیہ کا گورنر بنا دیا گیا۔ طارق بن زیاد کی کامیابی کی خبر سُن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اور خود طارق بن زیاد سے آملے۔ دونوں نے مل کر مزید کئی علاقے فتح کیے۔ اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوا لیا اور یوں طارق بن زیادہ کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا جب کہ اسلامی دُنیا کے اس عظیم فاتح نے 720ء وفات پائی۔ زیر نظر کتابچہ ’’ طارق بن زیاد ‘‘ فاتح اندلس طارق بن زیاد ہی کے متعلق ہے ۔جو کہ اپنے موضوع میں ہر لحاظ سے مکمل اور معلوماتی ہے ۔
سورج کی کرنیں دن بھر سفر کرنے کے بعد تھک کر سمٹنے لگی تھی اور شام کے سائے اپنے پر پھیلانے لگے تھے ۔
شمعیں جلنے لگی تھی اور پرندے دن بھر اڑنے اور دانہ چگنے کے بعد اپنے اپنے مسکن کی طرف لوٹ رہے تھے۔
شام کے اس سائے میں دو سائے طنجہ شہر کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ان کے قدم کبھی تیزی اور کبھی آہستہ آہستہ آٹھ رہے تھے۔
شکل سے یہ دونوں راہب لگتے تھے۔ چلتے چلتے یہ لوگ طنجہ شہر جانے والے راستے پر پہنچ گے ۔وہاں ان کی ملاقات چوکی پر موجود سپاہیوں سے ہوئی ۔ان دونوں نے سپاہیوں کو سلام کیا ۔
اور کہا کہ وہ والیے طنجہ طارق بن زیاد سے ملاقات ہونا چاہتے ہیں ۔سپاہیوں نے ملاقات کی وجہ پوچھی جو ان راہبوں نے بتا دی
ان میں سے ایک سپاہی ان لوگوں کے ساتھ ہو لیا ۔اور وہ شہر کی طرف روانہ ہو گے۔ مغرب کا وقت تھا جب یہ لوگ
شہر پہنچ گے اور شہر کی جامع مسجد کے باہر جا کر کھڑے ہو گے۔ تھوڑی دیر کے بعد مسجد سے طارق بن زیاد اور ظریف بن مالک نماز پڑھ کر باہر نکلے تو دیکھا کے ایک سپاہی کے ساتھ دو راہب کھڑے ہیں ۔انہوں نے سلام کیا تو سپاہی نے کہا کہ یہ دونوں راہب آپ سے ملنا چاہتے تھے۔ تو میں ان کو اپنے ساتھ یہاں لے آیا۔
طارق بن زیاد نے راہبوں کو ملاقات کی وجہ پوچھی ۔تو ان میں سے ایک راہب جس کا نام کونٹجولین تھا نے کہا کہ
ہم الویرا کے علاقہ سے آئے ہیں اور وہ علاقہ آپ کی عملداری میں آتا ہے
ہمارے چرچ کی راہبہ جس کا نام لوسیہ ہے کو ہسپانیہ ایک شخص اٹھا کر لے گیا ہے اور وہ طاقتور خاندان سے تعلق رکھتا ہے ہم شکایت لے کر وہاں کے حاکم کے پاس گئے۔ مگر اس نے ہماری فریاد نہیں سنی اس کے بعد ہم آپ کے پاس آئے ہیں ۔
طارق نے کہا اب آپ لوگ کیا چاہتے ہے، تو راہب نے کہا کہ ہماری راہبہ کو ہمیں واپس دلوایا جائے ۔
جاری ہے......
--------------------------------------
واضح رہے کہ یہ فتح اندلس اور طارق بِن زِیاد کی چالیس قسطیں ہے، اس موضوع کا یہ پہلا قسط ہے، اگر آپ دوسری تیسری اور آخری قسط تک پڑھنا چاہتے ہیں تو سرچ باکس میں
( Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. )
ٹائپ کریں، یہ تحریر اردو زبان میں لکھا ہوا ہے مگر اسکا ٹائٹل رومن اردو میں اس لیے ہے کے آپ سب کو سرچ کرنے میں آسانی ہو اور جلد ہی اگلے قسط کو پڑھا جا سکے، سارے تحریر اردو میں ہے صرف اور صرف اسکا ٹائٹل رومن میں ہے لہذا اس سے پریشان نہیں ہوں، اسکا مکمل (40) قسط سایہ کیا جا چکا ہے۔
اللہ ہم مسلمانوں کو دین پے چلنے کی توفیق دے، جیتنے بھی لوگ گنہگار ہے یہ اللہ تو انہیں معاف کر اور اُن سارے لوگو کو ہدایت کی روشنی و اخلاق کی پاکیزگی سے نواز، اللہ تو ہمیں کافروں کے سازش سے بچا اور جو لوگ مسلمانوں میں فحاشی پھیلانے میں لگے ہے تو اس پے اپنا عذاب نازل کر۔ آمین ثمہ آمین
امت مسلمہ جب جہاد سے غافل ہوئی....مسلمان نوجوانوں کے دلوں سے شہادت کی تمنا ختم ہوئی...جہاد کا جذبہ جب دل سے نکل گیا...تو اس کا نتیجہ پھر یہ ہوا کہ کفار ہم پر غالب آگئے...کفار ہمارے خلاف جمع ہونے لگے اور ان کی حالت بالکل شیروں جیسی ہوگئی اور مسلمانوں کی حالت بالکل لونڈیوں کی سی ہوگئی.........