find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Islam And Democracy: Kya Islam me Jamhuriyat (Democracy) Ki koi Gunzaish hai?

Islam aur Western Rulling System Democracy.

Kya Islam me Democracy ka koi tasawwur hai?
Islami Democracy aur Western Democracy kya hai?

Sawal: Islam me Jamhuriyat (Democracy) Ki koi Gunzaish hai ya nahi..?  Kyunke mere mutabik Democracy Ki hukumat me Aazad khyali aur Lafz Aazadi ki wazah se Musalman tamam hado ko par kar jate hai. Jabki deen Ghar tak mahdud ho jata hai. Islam n ek Be Mishal Mazhab hai balki is me Khuda ke Kanoon nafij hai aur Islam me ek Hadd me rahte hue Aazadi bhi di gayi hai. Baraye Meharbani Jawab inayat farmaye.

Education ke nam par Europe ka Culture Dron.

Hollywood ki "Sex Symbol" ke aakhiri waqt ke Jumle.

Musalman jaise Parinde aur European Shikari.

Islam and Homosexuality: Kya ladki Ladki se SHADI kar sakti hai?

Europe ki Aazadi aur Quran ki Be hurmati. Quran burning is freedom.

New World order ya Zewish World Order.

Parda aur Hijab: Ghar me Sharai Parda kis se aur Kaise kare? Na Mehram & Mehram.

इस दुनिया मे हर शख्स उतना ही परेशान है,
जितना उसकी नजर मे दुनिया की अहमियत।

मगरिब् को असल खतरा यह है के कहीँ लोग इस्लाम की तरफ न देखने लगे वह इसलिए के हर रोज यूरोप मे आलिम, मुफक्कीर्, फलसाफि, मुवास्सिर् कुरान व् हदीस पढ़ कर इस्लाम कुबूल कर रहा है....  लेकिन मुस्लिम घरानो मे बे हया, बेशर्म और बे गैरत बनने को ही असल तरक्की समझा जा रहा है। अगर हम अंग्रेजी कल्चर (मागरिबि ) के पीछे पीछे चलते रहे तो तबाही व् बर्बादी हमारे घरों का रूख जरूर करेगी। अगर कौम के लोग कुर्सी, पैसे और इक्तदार  के लिए दिन और तहजीब का मज़ाक बनाने और मुस्लिम खवातीन अंग्रेजी भेड़ियों के बहकावे मे गुमराह होती रही तो आने वाली नस्ल भेड़िया से ज्यादा डरपोक और खिंजीर से भी ज्यादा बे हया बन जायेगी।

Islamic System vs European System

“جمہوریت” اس دور کا صنمِ اکبر

سوال … میری ایک اُلجھن یہ ہے کہ: “اسلام میں جمہوریت کی گنجائش ہے یا نہیں؟” کیونکہ میری ناقص رائے کے مطابق “جمہوریت” کی حکومت میں آزاد خیالی اور لفظِ “آزادی” کی وجہ سے مسلمان تمام حدوں سے تجاوز کر جاتے ہیں، جبکہ دین “گھر” تک محدود ہوجاتا ہے، حالانکہ “اسلام” نہ صرف ایک بے مثال مذہب ہے بلکہ اس میں خدا کے مستند قوانین سموئے ہوئے ہیں، اور اسلام میں ایک حد میں رہتے ہوئے آزادی بھی دی گئی ہے۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب … بعض غلط نظریات قبولیتِ عامہ کی ایسی سند حاصل کرلیتے ہیں کہ بڑے بڑے عقلاء اس قبولیتِ عامہ کے آگے سر ڈال دیتے ہیں، وہ یا تو ان غلطیوں کا ادراک ہی نہیں کرپاتے یا اگر ان کو غلطی کا احساس ہو بھی جائے تو اس کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتے۔ دُنیا میں جو بڑی بڑی غلطیاں رائج ہیں ان کے بارے میں اہلِ عقل اسی المیے کا شکار ہیں۔ مثلاً “بت پرستی” کو لیجئے!

خدائے وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر خود تراشیدہ پتھروں اور مورتیوں کے آگے سر بسجود ہونا کس قدر غلط اور باطل ہے، انسانیت کی اس سے بڑھ کر توہین و تذلیل کیا ہوگی کہ انسان کو - جو اَشرف المخلوقات ہے-
بے جان مورتیوں کے سامنے سرنگوں کردیا جائے اور اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ مخلوق کو شریکِ عبادت کیا جائے۔ لیکن مشرک برادری کے عقلاء کو دیکھو کہ وہ خود تراشیدہ پتھروں، درختوں، جانوروں وغیرہ کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔
تمام تر عقل و دانش کے باوجود ان کا ضمیر اس کے خلاف احتجاج نہیں کرتا اور نہ وہ اس میں کوئی قباحت محسوس کرتے ہیں۔

اسی غلط قبولیتِ عامہ کا سکہ آج “جمہوریت” میں چل رہا ہے، جمہوریت دورِ جدید کا وہ “صنمِ اکبر” ہے جس کی پرستش اوّل اوّل دانایانِ مغرب نے شروع کی، چونکہ وہ آسمانی ہدایت سے محروم تھے اس لئے ان کی عقلِ نارسا نے دیگر نظام ہائے حکومت کے مقابلے میں جمہوریت کا بت تراش لیا اور پھر اس کو مثالی طرزِ حکومت قرار دے کر اس کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ پوری دُنیا میں اس کا غلغلہ بلند ہوا یہاں تک کہ مسلمانوں نے بھی تقلیدِ مغرب میں جمہوریت کی مالا جپنی شروع کر دی۔

کبھی یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ “اسلام جمہوریت کا عَلم بردار ہے” اور کبھی “اسلامی جمہوریت” کی اصطلاح وضع کی گئی، حالانکہ مغرب “جمہوریت” کے جس بت کا پجاری ہے اس کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی ضد ہے، اس لئے اسلام کے ساتھ “جمہوریت” کا پیوند لگانا اور جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کرنا صریحاً غلط ہے۔

سب جانتے ہیں کہ اسلام، نظریہٴ خلافت کا داعی ہے جس کی رُو سے اسلامی مملکت کا سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی زمین پر اَحکامِ الٰہیہ کے نفاذ کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

چنانچہ مسند الہند حکیم الاُمت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ، خلافت کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

“مسئلہ در تعریف خلافت: ھی الریاسة العامة فی التصدی لاقامة الدین باحیاء العلوم الدینیة واقامة ارکان الاسلام والقیام بالجھاد وما یتعلق بہ من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلة واعطائھم من الفییٴ والقیام بالقضاء واقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنھی عن المنکر نیابة عن النبی صلی الله علیہ وسلم۔”

(ازالة الخفاء ص:۲)

ترجمہ:… “خلافت کے معنی ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں دِین کو قائم (اور نافذ) کرنے کے لئے مسلمانوں کا سربراہ بننا۔ دِینی علوم کو زندہ رکھنا، ارکانِ اسلام کو قائم کرنا، جہاد کو قائم کرنا اور متعلقاتِ جہاد کا انتظام کرنا، مثلاً: لشکروں کا مرتب کرنا، مجاہدین کو وظائف دینا اور مالِ غنیمت ان میں تقسیم کرنا، قضا و عدل کو قائم کرنا، حدودِ شرعیہ کو نافذ کرنا اور مظالم کو رفع کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔”

اس کے برعکس جمہوریت میں عوام کی نمائندگی کا تصوّر کار فرما ہے، چنانچہ جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے:

“جمہوریت وہ نظامِ حکومت ہے جس میں عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کی اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت حکومت چلاتی ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔”

گویا اسلام کے نظامِ خلافت اور مغرب کے تراشیدہ نظامِ جمہوریت کا راستہ پہلے ہی قدم پر الگ الگ ہوجاتا ہے، چنانچہ:

Y:… خلافت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا تصوّر پیش کرتی ہے، اور جمہوریت عوام کی نیابت کا نظریہ پیش کرتی ہے۔

Y:… خلافت، مسلمانوں کے سربراہ پر اِقامتِ دِین کی ذمہ داری عائد کرتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کا دِین قائم کیا جائے، اور اللہ کے بندوں پر، اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے مقرّر کردہ نظامِ عدل کو نافذ کیا جائے، جبکہ جمہوریت کو نہ خدا اور رسول سے کوئی واسطہ ہے، نہ دِین اور اِقامتِ دِین سے کوئی غرض ہے، اس کا کام عوام کی خواہشات کی تکمیل ہے اور وہ ان کے منشاء کے مطابق قانون سازی کی پابند ہے۔

Y:… اسلام، منصبِ خلافت کے لئے خاص شرائط عائد کرتا ہے، مثلاً: مسلمان ہو، عاقل و بالغ ہو، سلیم الحواس ہو، مرد ہو، عادل ہو، اَحکامِ شرعیہ کا عالم ہو، جبکہ جمہوریت ان شرائط کی قائل نہیں، جمہوریت یہ ہے کہ جو جماعت بھی عوام کو سبز باغ دِکھا کر اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کرلے اسی کو عوام کی نمائندگی کا حق ہے۔ جمہوریت کو اس سے بحث نہیں کہ عوامی اکثریت حاصل کرنے والے ارکان مسلمان ہیں یا کافر، نیک ہی یا بد، متقی و پرہیزگار ہیں یا فاجر و بدکار، اَحکامِ شرعیہ کے عالم ہیں یا جاہلِ مطلق اور لائق ہیں یا کندہ ناتراش، الغرض! جمہوریت میں عوام کی پسند و ناپسند ہی سب سے بڑا معیار ہے اور اسلام نے جن اوصاف و شرائط کا کسی حکمران میں پایا جانا ضروری قرار دیا، وہ عوام کی حمایت کے بعد سب لغو اور فضول ہیں، اور جو نظامِ سیاست اسلام نے مسلمانوں کے لئے وضع کیا ہے وہ جمہوریت کی نظر میں محض بے کار اور لایعنی ہے، نعوذ باللہ!

Y:… خلافت میں حکمران کے لئے بالاتر قانون کتاب و سنت ہے، اور اگر مسلمانوں کا اپنے حکام کے ساتھ نزاع ہوجائے تو اس کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رَدّ کیا جائے گا اور کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جائے گا، جس کی پابندی راعی اور رعایا دونوں پر لازم ہوگی۔ جبکہ جمہوریت کا “فتویٰ” یہ ہے کہ مملکت کا آئین سب سے “مقدس” دستاویز ہے اور تمام نزاعی اُمور میں آئین و دستور کی طرف رُجوع لازم ہے، حتیٰ کہ عدالتیں بھی آئین کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کرسکتیں۔

لیکن ملک کا دستور اپنے تمام تر “تقدس” کے باوجود عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ کا کھلونا ہے، وہ مطلوبہ اکثریت کے بل بوتے پر اس میں جو چاہیں ترمیم و تنسیخ کرتے پھریں، ان کو کوئی روکنے والا نہیں، اور مملکت کے شہریوں کے لئے جو قانون چاہیں بنا ڈالیں، کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ یاد ہوگا کہ انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے دو مردوں کی شادی کو قانوناً جائز قرار دیا تھا اور کلیسا نے ان کے فیصلے پر صاد فرمایا تھا، چنانچہ عملاً دو مردوں کا، کلیسا کے پادری نے نکاح پڑھایا تھا، نعوذ باللہ!

حال ہی میں پاکستان کی ایک محترمہ کا بیان اخبارات کی زینت بنا تھا کہ جس طرح اسلام نے ایک مرد کو بیک وقت چار عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے، اسی طرح ایک عورت کو بھی اجازت ہونی چاہئے کہ وہ بیک وقت چار شوہر رکھ سکے۔

ہمارے یہاں جمہوریت کے نام پر مرد و زن کی مساوات کے جو نعرے لگ رہے ہیں، بعید نہیں کہ جمہوریت کا نشہ کچھ تیز ہو جائے اور پارلیمنٹ میں یہ قانون بھی زیر بحث آجائے۔ ابھی گزشتہ دنوں پاکستان ہی کے ایک بڑے مفکر کا مضمون اخبار میں شائع ہوا تھا کہ شریعت کو پارلیمنٹ سے بالاتر قرار دینا قوم کے نمائندوں کی توہین ہے، کیونکہ قوم نے اپنے منتخب نمائندوں کو قانون سازی کا مکمل اختیار دیا ہے۔ ان صاحب کا یہ عندیہ “جمہوریت” کی صحیح تفسیر ہے، جس کی رُو سے قوم کے منتخب نمائندے شریعتِ الٰہی سے بھی بالاتر قرار دئیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں “شریعت بل” کئی سالوں سے قوم کے منتخب نمائندوں کا منہ تک رہا ہے لیکن آج تک اسے شرفِ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکا، اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلام، مغربی جمہوریت کا قائل ہے؟

Y:… تمام دُنیا کے عقلاء کا قاعدہ ہے کہ کسی اہم معاملے میں اس کے ماہرین سے مشورہ لیا جاتا ہے، اسی قاعدے کے مطابق اسلام نے انتخابِ خلیفہ کی ذمہ داری اہلِ حل و عقد پر ڈالی ہے، جو رُموزِ مملکت کو سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس کے لئے موزوں ترین شخصیت کون ہو سکتی ہے، جیسا کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا:

“انما الشوریٰ للمھاجرین والأنصار۔”

ترجمہ:… “خلیفہ کے انتخاب کا حق صرف مہاجرین و انصار کو حاصل ہے۔”

لیکن بت کدہٴ جمہوریت کے برہمنوں کا “فتویٰ” یہ ہے کہ حکومت کے انتخاب کا حق ماہرین کو نہیں بلکہ عوام کو ہے۔ دُنیا کا کوئی کام اور منصوبہ ایسا نہیں جس میں ماہرین کے بجائے عوام سے مشورہ لیا جاتا ہو، کسی معمولی سے معمولی ادارے کو چلانے کے لئے بھی اس کے ماہرین سے مشورہ طلب کیا جاتا ہے، لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ حکومت کا ادارہ (جو تمام اداروں کی ماں ہے اور مملکت کے تمام وسائل جس کے قبضے میں ہیں، اس کو) چلانے کے لئے ماہرین سے نہیں بلکہ عوام سے رائے لی جاتی ہے، حالانکہ عوام کی ننانوے فیصد اکثریت یہی نہیں جانتی کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے؟

اس کی پالیسیاں کیسے مرتب کی جاتی ہیں؟ اور حکمرانی کے اُصول و آداب اور نشیب و فراز کیا کیا ہیں․․․؟

ایک حکیم و دانا کی رائے کو ایک گھسیارے کی رائے کے ہم وزن شمار کرنا، اور ایک کندہ ناتراش کی رائے کو ایک عالی دماغ مدبر کی رائے کے برابر قرار دینا، یہ وہ تماشا ہے جو دُنیا کو پہلی بار “جمہوریت” کے نام سے دِکھایا گیا ہے۔

درحقیقت “عوام کی حکومت، عوام کے لئے اور عوام کے مشورے سے” کے الفاظ محض عوام کو اُلُّو بنانے کے لئے وضع کئے گئے ہیں، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت میں نہ تو عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور نہ عوام کی اکثریت کے نمائندے حکومت کرتے ہیں، کیونکہ جمہوریت میں اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی کہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کون کون سے نعرے لگائے جائیں گے اور کن کن ذرائع کو استعمال کیا جائے گا؟

عوام کی ترغیب و تحریص کے لئے جو ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جائیں، ان کو گمراہ کرنے کے لئے جو سبز باغ بھی دِکھائے جائیں اور انہیں فریفتہ کرنے کے لئے جو ذرائع بھی استعمال کئے جائیں وہ جمہوریت میں سب روا ہیں۔

اب ایک شخص خواہ کیسے ہی ذرائع اختیار کرے، اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے، وہ “عوام کا نمائندہ” شمار کیا جاتا ہے، حالانکہ عوام بھی جانتے ہیں کہ اس شخص نے عوام کی پسندیدگی کی بنا پر زیادہ ووٹ حاصل نہیں کئے بلکہ روپے پیسے سے ووٹ خریدے ہیں، دھونس اور دھاندلی کے حربے استعمال کئے ہیں اور غلط وعدوں سے عوام کو دھوکا دیا ہے، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود یہ شخص نہ روپے پیسے کا نمائندہ کہلاتا ہے، نہ دھونس اور دھاندلی کا منتخب شدہ اور نہ جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی کا نمائندہ شمار کیا جاتا ہے، چشمِ بد دُور! یہ “قوم کا نمائندہ” کہلاتا ہے۔

انصاف کیجئے! کہ “قوم کا نمائندہ” اسی قماش کے آدمی کو کہا جاتا ہے؟ اور کیا ایسے شخص کو ملک و قوم سے کوئی ہمدردی ہو سکتی ہے․․․؟

عوامی نمائندگی کا مفہوم تو یہ ہونا چاہئے کہ عوام کسی شخص کو ملک و قوم کے لئے مفید ترین سمجھ کر اسے بالکل آزادانہ طور پر منتخب کریں، نہ اس اُمیدوار کی طرف سے کسی قسم کی تحریص و ترغیب ہو، نہ کوئی دباوٴ ہو، نہ برادری اور قوم کا واسطہ ہو، نہ روپے پیسے کا کھیل ہو، الغرض اس شخصیت کی طرف سے اپنی نمائش کا کوئی سامان نہ ہو اور عوام کو بے وقوف بنانے کا اس کے پاس کوئی حربہ نہ ہو۔ قوم نے اس کو صرف اور صرف اس بنا پر منتخب کیا ہو کہ یہ اپنے علاقے کا لائق ترین آدمی ہے، اگر ایسا انتخاب ہوا کرتا تو بلاشبہ یہ عوامی انتخاب ہوتا اور اس شخص کو “قوم کا منتخب نمائندہ” کہنا صحیح ہوتا، لیکن عملاً جو جمہوریت ہمارے یہاں رائج ہے، یہ عوام کے نام پر عوام کو دھوکا دینے کا ایک کھیل ہے اور بس․․․!

کہا جاتا ہے کہ: “جمہوریت میں عوام کی اکثریت کو اپنے نمائندوں کے ذریعہ حکومت کرنے کا حق دیا جاتا ہے” یہ بھی محض ایک پُرفریب نعرہ ہے، ورنہ عملی طور پر یہ ہو رہا ہے کہ جمہوریت کے غلط فارمولے کے ذریعہ ایک محدود سی اقلیت، اکثریت کی گردنوں پر مسلط ہوجاتی ہے! مثلاً: فرض کر لیجئے کہ ایک حلقہٴ انتخاب میں ووٹوں کی کل تعداد پونے دو لاکھ ہے، پندرہ اُمیدوار ہیں، ان میں سے ایک شخص تیس ہزار ووٹ حاصل کرلیتا ہے، جن کا تناسب دُوسرے اُمیدواروں کو حاصل ہونے والے ووٹوں سے زیادہ ہے، حالانکہ اس نے صرف سولہ فیصد حاصل کئے ہیں، اس طرح سولہ فیصد کے نمائندے کو ۸۴ فیصد پر حکومت کا حق حاصل ہوا۔ فرمائیے! یہ جمہوریت کے نام پر ایک محدود اقلیت کو غالب اکثریت کی گردنوں پر مسلط کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے․․․؟
چنانچہ اس وقت مرکز میں جو حکومت “کوس لمن الملک” بجا رہی ہے، اس کو ملک کی مجموعی آبادی کے تناسب سے ۳۳ فیصد کی حمایت بھی حاصل نہیں، لیکن جمہوریت کے تماشے سے نہ صرف وہ جمہوریت کی پاسبان کہلاتی ہے بلکہ اس نے ایک عورت کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا ہے۔

الغرض! جمہوریت کے عنوان سے “عوام کی حکومت، عوام کے لئے” کا دعویٰ محض ایک فریب ہے، اور اسلام کے ساتھ اس کی پیوندکاری فریب در فریب ہے، اسلام کا جدید جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں، نہ جمہوریت کو اسلام سے کوئی واسطہ ہے، “ضدان لا یجتمعان” (یہ دو متضاد جنسیں ہیں جو اکٹھی نہیں ہوسکتیں)۔

آپکے مسائل اور انکا حل جلد 8
مولانا یوسف لدھیانوی شہید رح

Share:

Muslim ladakiya na kisi Gair ko apne dil me basati hai aur na Basti hai?

Momin Ladkiyaan Na kisi ko mayel karti hai aur nahi Kisi se mayel hoti hai?
Bagair nikah ke kisi na mehram ka dil se talluq hona kaisa hai?

مومنات نہ مائل ہونے والی ہوتی ہیں اور نہ ہی مائل کرنے والی ہوتی ہیں۔۔۔!!✨
انکا اندازِ گفتگو ، انکی چال ڈھال، انکا لباس ، انکی نظریں اور انکے معاملات سب حیا کے دائرے میں ہوتے ہیں.

وہ نہ ہی ہر غیر محرم کے دل میں بسنے والی ہوتی ہیں...‏اور نہ ہی ہر ایک کو اپنے دل میں بسانے والی ہوتی ہیں۔۔۔!!

یہ کردار صرف مومن عورتوں کیلیے ہی نہیں بلکہ مومن مردوں کا بھی یہی کردار ہوتا ہے.🎀                                                                   #حوا_کی_بیٹیاں

Aaj kal Mislim ladke ladkiya ishq baji me Diploma Kiye hue hai?

Islam aur Homosexuality: kya Koi Aurat Dusri Aurat se Shadi kar sakti hai?

Kya Ek Aurat Apne sath Char Mardo ko Jahannum  me le jayegi?

Ghar me Sharai parda Kaise kare aur Kis se Kare?

Muslim Ladkiya Gair Muslim ladko ke sath bhag kar Kyu court Marriage kar rahi hai?

السلام علیکم ورحمةاللہ ۔۔۔۔۔

بغرض نکاح نامحرم سے دل کا معلق ہونا کوئی حرج کی بات نہیں ہے بشرطیکہ شرعئی حدود و قیود کی پابندی کی جائے اور نکاح کے لیے کوشش کی جائے ۔

اور جو مرد عورت کو چھپ چھپ کر یا تنہائی میں ملنے پر ابھارے ، تو عورت کو جان لینا چاہیے وہ اللہ کی حدود کو توڑ رہا ہے ، ایسا مرد خود بھی آگ پر چلتا ہے اور عورت کو بھی آگ کے راستے پر چلاتا ہے ۔

پس نادان ہیں اور عظیم خسارے میں ہیں وہ دونوں مرد و عورت جو عارضی دنیا کے وقتی مزوں کی خاطر آگ کو اپنے اوپر حلال کر لیتے ہیں ۔ اور بے شک ہر جن و انس کو عنقریب اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے ، جہاں اگر باز پرس ہوگئی تو خسارہ ہی خسارہ ہے ، اور بے شک جہنم کا ٹھاٹیں مارتا آگ کا سمندر اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے لیے تیار کیا ہے جو اللہ کی بنائی ہوئی حدودوں کو تجاوز کرتے ہیں ۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہم مسلمان تو بن گئے ہیں لیکن اللہ ہمیں مومن بھی بنادے جو گناہوں سے ڈرنے والا متقی اور پرہیزگار ہوتا ہے ۔۔۔۔

آمین یارب العالمین
🖊: مسز انصاری

Share:

Qayamat ke Kareeb Laundiya Apne Malik ko Janm degi.

Qayamat ki nishaniyo me se Sab se badi nishaniyan kya hai?
Qayamat ke kareeb Laundiyo ki tadad kitni hogi?

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ ۔۔۔۔۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لونڈیوں کی کثرت ہو جائے گی حتیٰ کہ مملوکہ اپنی مالکہ کو جنم دے گی۔ یعنی لونڈی اپنے آقا سے جب حاملہ ہوگی تو وہ اپنی مالکہ کو جنم دے گی کیونکہ مالک کی بیٹی مالکہ اور مالک کا بیٹا مالک ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب
[ دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد :۴/صفحہ : ١١۴ ]

Share:

Kya Aadam Alaihe Salam ki Dua Mohammad Sallahu Alaihe wasallam ke waseele se Qubool hui?

Kya Aadam Alaihe Salam ki tauba Allah ke aakhiri Nabi Ke waseele se Qubool hui thi?

سلسلہ سوال و جواب -185″
سوال_کیا آدم علیہ السلام کی توبہ محمد ﷺ کے وسیلے سے قبول ہوئی تھی؟

Published Date:8-1-2019
جواب:
الحمدللہ:

*کچھ جھوٹ لوگوں نے ایسے گھڑ رکھیں ہیں اور ان جھوٹوں کو اس قدر گھڑ گھڑ کے سچ بنا کے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ لوگوں میں سچ بن کر سرائیت کر جاتا ہے،یہی کچھ حال آدم علیہ السلام کی توبہ والے قصے کا ہے،کہ نام نہاد کم علم لوگوں نے من گھڑت اور جھوٹے قصے مشہور کر کر کے یہ بات لوگوں میں سچ بنا کر مشہور کر دی ہے کہ آدم علیہ السلام کی توبہ محمدﷺ کے وسیلے سے قبول ہوئی تھی،جب کہ یہ بات سفید جھوٹ اور سرا سر قرآن کے خلاف ہے*

*آدم علیہ السلام کی توبہ کیسے قبول ہوئی*

سیدنا آدم و حواء علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کے ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ شیطان کے بہکاوے میں آ کر دونوں نے وہ پھل کھا لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور انہیں جنت سے نکال دیا۔ دونوں اپنے اس کیے پر بہت نادم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کو ان پر ترس آیا اور انہیں وہ کلمات سکھا دیے جنہیں پڑھنے پر ان کی توبہ قبول ہوئی،

*اس قصے کی تفصیل قرآن خود بیان کرتا ہے،ملاحظہ فرمائیں سورہ البقرہ آئیت نمبر 34 سے 37 تک!!*

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

🌹وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓٮِٕكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡٓا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ اَبٰى وَاسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ الۡكٰفِرِيۡنَ،(34)
ترجمہ:
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں سے ہوگیا۔

🌹وَقُلۡنَا يٰٓـاٰدَمُ اسۡكُنۡ اَنۡتَ وَزَوۡجُكَ الۡجَـنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ(35)
ترجمہ:
اور ہم نے کہا اے آدم ! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور دونوں اس میں سے کھلا کھاؤ جہاں چاہو اور تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم دونوں ظالموں سے ہوجاؤ گے۔

🌹فَاَزَلَّهُمَا الشَّيۡطٰنُ عَنۡهَا فَاَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيۡهِ‌ وَقُلۡنَا اهۡبِطُوۡا بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَـكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيۡنٍ(36)
ترجمہ:
تو شیطان نے دونوں کو اس سے پھسلا دیا، پس انھیں اس سے نکال دیا جس میں وہ دونوں تھے اور ہم نے کہا اتر جاؤ، تمہارا بعض بعض کا دشمن ہے اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے

🌹فَتَلَقّٰٓى اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏(37)
ترجمہ:
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اس نے اس کی توبہ قبول کرلی، یقینا وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ “
یہ کلمات کیا تھے؟

🌹اس آئیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں،

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے ۔
( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ )
( الاعراف:23 )
یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقینا ہم نقصان والے ہو جائیں گے،

امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے،
(تفسیر ابن کثیر)

🌹نیز مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے باسند صحیح یوں ثابت ہے :
﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ قال : أي رب ! ألم تخلقني بيدك ؟ قال : بلى، قال : أي رب ! ألم تنفخ في من روحك ؟ قال : بلى , قال : أي رب ! ألم تسكني جنتك ؟ قال : بلى، قال : أي رب ! ألم تسبق رحمتك غضبك ؟ قال : بلى، قال : أرأيت إن أنا تبت وأصلحت، أراجعي أنت إلى الجنة ؟ قال : بلى، قال : فهو قوله : ﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ (سورة البقرة أية 37)
”آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی“۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : میرے رب ! کیا تو نے مجھ میں اپنی طرف سے روح نہیں پھونکی ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : اے رب ! کیا تو نے مجھے جنت میں نہیں بسایا تھا ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : میرے رب ! کیا تیری رحمت تیرے غضب پر غالب نہیں ہے ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : اگر میں توبہ کروں اور نیک بن جاؤں تو کیا تو مجھے دوبارہ جنت میں جگہ دے گا ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔۔۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : یہی اس آیت کی تفسیر ہے۔“ . (المستدرك علي الصحيحين للحاكم: 594/2، ح:4002 وسنده صحيح)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا حديث صحيح الإسناد. ’’ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔“

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔

🌹اس آیت کریمہ کی یہی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد، مشہور تابعی امام اسماعیل بن عبدالرحمٰن سدی (م : ۱۲۷ھ) نے بھی کی ہے۔
(التفسير من سنن سعيد بن منصور:186، وسنده صحيح)

*صحابی رسول کی اس صحیح و ثابت تفسیر کو چھوڑ کر من گھڑت، باطل اور ضعیف روایات سے آیت کریمہ کی تفسیر کرنا قرآن کریم کی معنوی تحریف کے مترادف ہے*

*یعنی آدم و حواء علیہا السلام نے اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت مغفرت و رحمت کا واسطہ دیا جس سے انکی توبہ قبول ہوئی یہ تو تھا قرآن کریم کا بیان،*

________&_______

*لیکن بعض لوگ اس قرآنی بیان کے خلاف جھوٹی اور نامعلوم و مجہول لوگوں کی بیان کردہ نامعقول اور باہم متصادم داستانیں بیان کرتے اور ان پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے نظر آتے ہیں۔ کسی داستان میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دیا، کسی میں ہے کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کا واسطہ دیا اور کسی میں مذکور ہے کہ ان کو سیدنا علی و سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کے طفیل معافی ملی*

یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کی شان میں غلوّ ہے، جو کہ سخت منع ہے۔

یہی بات نصاریٰ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی غلطی عیسیٰ علیہ السلام کے طفیل معاف ہوئی۔

🚫علامہ ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی (م : ۵۴۸ھ) نصاریٰ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والمسيح عليه السلام درجته فوق ذلك، لأنه الإبن الوحيد، فلا نظير له، ولا قياس له إلی غيره من الأنبياء، وھو الذي به غفرت زلة آدم عليه السلام.
’’مسیح علیہ السلام کا مقام و مرتبہ اس سے بہت بلند ہے، کیونکہ وہ اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کی کوئی مثال نہیں، نہ انہیں دیگر انبیائے کرام پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ انہی کی بدولت آدم علیہ السلام کی خطا معاف ہوئی تھی۔ “ (الملل والنحل:62/2، وفي نسخة:524/1)

*آدم علیہ السلام کے وسیلے پر بہت سی من گھڑت روایات پیش کی جاتی ہیں،اختصار کے باعث ان میں سے مشہور ایک دو روایات کا ہم جائزہ یہاں پہش کرتے ہیں،*

تجزیہ دلیل _1

🚫سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (اے اللہ !) میں بحق محمد تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : محمد کون ہیں ؟ سیدنا آدم نے عرض کی : (اے اللہ !) تیرا نام پاک ہے۔ جب تو نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تھا۔ وہاں میں نے لا إله الا الله محمد رسول الله لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ اے آدم ! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل میں سے آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔ “
(المعجم الصغير للطبراني:182/2، ح:992، وفي نسخة:82/2، المعجم الأوسط للطبراني:6502)

تبصرہ: اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو واقعی نیک لوگوں کی ذات اور شخصیت کے وسیلے پر دلیل بنتی اور فوت شدگان اولیا و صالحین کا وسیلہ بالکل مشروع ہو جاتا لیکن کیا کریں کہ یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے، اسی لیے بعض لوگوں کے حصے میں آ گئی ہے۔

(۱) اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف و متروک“ ہے،
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قال الذھبي: ضعفه الجمھور. ’’علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (البدرالمنير:449/1)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والأكثر علي تضعيفه. ’’جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں۔ “ (مجمع الزوائد:21/2)

حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (خلاصة البدر المنير:11/1)

اسے امام احمد بن حنبل، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی، امام دارقطنی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابوزرعہ الرازی، امام ابن سعد، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ساجی، امام طحاوی حنفی، امام جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہم نے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔

امام بزار رحمہ اللہ (م : ۲۹۲ھ) فرماتے ہیں :
وعبدالرحمن بن زيد قد أجمع أھل العلم بالنقل علي تضعيف أخباره التي رواھا…
’’فن حدیث کے ماہر ائمہ کا عبدالرحمٰن بن زید کی بیان کردہ روایات کو ضعیف قرار دینے پر اتفاق ہے۔ “ (مسند البزار:8763)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
أجمعوا على ضعفه. ’’اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔ “ (تھذيب التھذيب لابن حجر:178،179/6)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :
ضعيف باتفاقھم، يغلط كثيرا. ’’باتفاقِ محدثین ضعیف ہے، بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ “ (التوسل والوسيلة:167)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
عبدالرحمن، متفق على تضعيفه. ’’عبدالرحمٰن بن زید کو ضعیف قرار دینے پر اہل علم کا اجماع ہے۔ “ (اتحاف المھرة: 97/12، ح15163)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي عن أبيه أحاديث موضوعة. ’’اس نے اپنے باپ سے منسوب کر کے موضوع (من گھڑت) احادیث روایت کی ہیں۔
(المدخل الي كتاب الا كليل:154)

امام ابونعیم الاصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث عن أبيه، لا شيىء. ’’اس نے اپنے والد سے روایات بیان کی ہیں۔ یہ چنداں قابل اعتبار نہیں۔ “ (الضعفاء:122)

عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے یہ حدیث بھی چونکہ اپنے باپ ہی سے روایت کی ہے، لہٰذا یہ بھی موضوع (من گھڑت) ہے۔

(۲) امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ محمد بن داود بن عثمان صدفی مصری کی توثیق مطلوب ہے۔
(۳) اس کے راوی احمد بن سعید مدنی فہری کی بھی توثیق چاہیے۔

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل:
تجزیہ دلیل _2

🚫سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دعائیہ کلمات کے بارے میں پوچھا، جو سیدنا آدم علیہ السلام کو ربّ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سأل بحق محمد وعلي و فاطمة والحسن والحسين، إلا تبت علي، فتاب عليه.
’’آدم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے وسیلے سے دعا کر کے اللہ سے عرض کی کہ میری توبہ قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کر لی۔ “
(الموضوعات لابن الجوزي:398/1، الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوكاني، ص:395،394)

تبصره: یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے اور عمرو بن ثابت بن ہرمز ابوثابت کوفی راوی کی گھڑنت ہے۔ یہ راوی کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہو سکتا، جیسا کہ :

(۱) علی بن شقیق کہتے ہیں :
سمعت عبدالله بن المبارك، يقول على رؤوس الناس: دعوا حديث عمرو بن ثابت، فإنه كان يسب السلف.
’’میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو سرعام یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمرو بن ثابت کی بیان کردہ روایات کو چھوڑ دو، کیونکہ وہ اسلاف امت کو گالیاں بکتا تھا۔ “ (مقدمة صحيح مسلم، ص:11، طبع دارالسلام)

(۲) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بثقة ولا مأمون. ’’یہ قابل اعتبار راوی نہیں۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:223/6، وسنده حسن)

نیز انہوں نے اسے ’’ضعیف“ بھی کہا ہے۔ (تاريخ يحيی بن معين:1624)

(۳) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بالقوي عندھم. ’’یہ راوی محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔ “ (كتاب الضعفاء والمتروكين، ص:87)

(۴) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف و متروک راویوں میں شمار کیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:401)

(۵) امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث، يكتب حديثه، كان رديىء الرأي، شديد التشيع.
’’اس کی حدیث ضعیف ہے، اسے (متابعات و شواہد میں) لکھا جا سکتا ہے۔ یہ برے عقائد کا حامل کٹر شیعہ تھا۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:233/6)

(۶) امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث. ’’اس کی حدیث ضعیف ہے۔ “ (الجرح و التعديل:323/6)

(۷) امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:45)

(۸) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان ممن يروي الموضوعات، لا يحل ذكره إلا علي سبيل الاعتبار.
’’یہ من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث کو صرف (متابعات و شواہد) میں ذکر کرنا جائز ہے۔ “ (كتاب المجروحين:76/2)

(۹) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والضعف علي رواياته بين. ’’اس کی روایات میں کمزوری واضح ہے۔ “ (الكامل في ضعفاء الرجال:132/5)
_________&______

*یہ دونوں جھوٹی روایتیں قرآن کریم کے بھی خلاف ہے۔ ديكھيں :
(سورة الاعراف:23)

*ان روایات کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا قرآن کریم کے خلاف ان من گھڑت روایات پر اعتماد کرنا کسی مسلمان کو زیب دیتا ہے؟*

اللہ تعالیٰ صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،
آمین

(مآخذ:  توحید ڈاٹ کام)
(از ابو عبداللہ صارم)

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Khana khane se pahle kaun si Dua Padhe, Sirf Bismillah padhe ya pura Bismillah padhe.

Khana khane se pahle Kaun Si Dua Padhe?
Khane se pahle "Bismilla" kahe ya "Bismillah hi Rahman i raheem" Padhe?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-209"
سوال_کھانے کھاتے ہوئے پوری تسمیہ پڑھیں یا صرف "بسم اللہ" کہنی چاہیے؟ اور بسم اللہ پڑھنے کی فضیلت کیا ہے؟ نیز جب کوئی بچہ وغیرہ گرنے لگے تو بسم اللہ کہنا چاہیے یا کچھ اور..؟؟

Published Date:17-2-2019

جواب:
الحمدللہ:

*کھانا کھائیں یا پانی پیئیں کپڑے پہنیں یا جوتا پہنیں، حتیٰ کہ کوئی بھی اچھا اور جائز کام کرنے لگیں تو اسکے شروع میں اللہ کا نام لیں اس میں بہت برکت اور خیر ہے*

*کھانا کھاتے ہوئے تسمیہ کے مسنون الفاظ*

کھانا کھاتے ہوئے تسمیہ پڑھنے کے شرعی الفاظ: "بسم اللہ" ہیں؛

📚عمر بن ابی سلمہ رض سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں میں بچہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا اور ( کھاتے وقت ) میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا۔

اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! "بسم اللہ" پڑھ لیا کرو، داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور برتن میں وہاں سے کھایا کرو جو جگہ تجھ سے نزدیک ہو۔ چنانچہ اس کے بعد میں ہمیشہ اسی ہدایت کے مطابق کھاتا رہا.

(صحیح بخاری حدیث نمبر-5376)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1857)

📚 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ فَإِنْ نَسِيَ فِي أَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ

جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو
"بسم اللہ" کہے اور اگر شروع میں کہنا بھول جائے تو (جب کھانے کے درمیان میں یاد آئے) پھر کہے:  بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ [میں اللہ کا نام لیتا ہوں ابتدا اور انتہا میں ]
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1858)

البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

ان احادیث سے پتا چلا کہ کھانا وغیرہ کھانے سے پہلے "بسم اللہ " کے الفاظ کہنا سنت طریقہ ہے،

*اور اگر کوئی شخص "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پورا پڑھ دے تو اس بارے میں علمائے کرام کی مختلف آرا ہیں، تاہم اکثر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے*

📚چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کھانا کھاتے ہوئے "بسم اللہ الرحمن الرحیم"  پورا پڑھ لے تو یہ اچھا ہے؛ کیونکہ اس میں زیادہ کمال [کے ساتھ توصیف الہی بیان ہوئی ]ہے"
(الفتاوى الكبرى" (5/480)

📚اسی طرح : "الموسوعة الفقهية" (8/92) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ کھانا کھاتے وقت تسمیہ پڑھنا سنت ہے، اور اس کے الفاظ: "بسم اللہ " اور اسی طرح "بسم اللہ الرحمن الرحیم"  ہیں۔۔۔"

📚اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تسمیہ کے الفاظ کے متعلق معرفت بہت اہمیت کی حامل ہے۔۔۔ بہتر اور افضل یہ ہے کہ : "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کہے تاہم اگر کوئی "بسم اللہ " پر اکتفا کرے تو کافی ہے، اس سے سنت پر عمل ہو جاتا ہے"
("الأذكار" (1/231)

📚تاہم امام نووی کی اس بات پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"مجھے امام نووی کے دعوائے افضلیت کی کوئی خاص دلیل  نہیں ملی"
(ماخوذ از: فتح الباری)

📚شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"میرے نزدیک یہ ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، کیونکہ سب سے بہترین طریقہ  سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ ہے، لہذا اگر کھانا کھاتے وقت تسمیہ کے لیے صرف "بسم اللہ" پڑھنا ہی ثابت ہے تو اس لیے اس سے زیادہ پڑھنا جائز نہیں ہے؛ چہ جائیکہ زیادہ پڑھنے کو افضل کہہ دیا جائے؛ کیونکہ افضلیت کا دعوی  ہماری ذکر کردہ حدیث سے متصادم ہے، اور یہ بات مسلمہ ہے کہ بہترین طریقہ کار سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ ہے۔"
(دیکھیں: سلسلہ صحیحہ: (1/343)

📚اپنی فتاویٰ کی ویبسائٹ پر سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ دلائل کی بنا پر افضل یہی ہے کہ کھانا کھاتے وقت صرف "بسم اللہ " پڑھنے پر ہی اکتفا کیا جائے، اور اس سے زیادہ مت پڑھیں، تاہم اگر کوئی زیادہ پڑھتے ہوئے "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پوری پڑھ لیتا ہے تو اکثر علمائے کرام کے ہاں اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے،
(الاسلام سوال جواب/نمبر_163573)

___________&_______

*بسم اللہ پڑھنے کی فضیلت​ میں بہت ساری احادیث موجود ہیں ان میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں*

*بسم اللہ پڑھنے سے کھانے میں برکت*

📚حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا '' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کھانا کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے ۔ ''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا '' شائد تم لوگ الگ الگ کھانا کھاتے ہو ؟ '' انہوں نے عرض کیا '' ہاں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' کھانا اکھٹے کھایا کرو اور اس پر (بسم اللہ)
اللہ کا نام لے لیا کرو اللہ تعالی تمھارے کھانے میں برکت ڈال دیں گے ۔'
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-3286)
(الألباني صحيح ابن ماجه ٢٦٧٤• حسن)
إسناده ضعيف[ثم تراجع الشيخ وحسنه في"صحيح الترغيب والترهيب"رقم :2128 ]

📚حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''
جس کھانے پر بسم اللہ نہ پڑھی جائے شیطان اس کھانے میں شریک یا داخل ہو جاتا ہے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3766)

*بسم اللہ پڑھنے سے شیطان گھر سے بھاگ جاتا ہے*

📚جابر بن عبداللہ رض بیان کرتے ہیں،
انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور گھر میں داخل ہوتے اور کھانا شروع کرتے وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان ( اپنے چیلوں سے ) کہتا ہے: نہ یہاں تمہارے لیے سونے کی کوئی جگہ رہی، اور نہ کھانے کی کوئی چیز رہی، اور جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے: چلو تمہیں سونے کا ٹھکانہ مل گیا، اور جب کھانا شروع کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے: تمہیں سونے کی جگہ اور کھانا دونوں مل گیا
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3765)

*بسم اللہ پڑھ کر بند کیا دروزاہ شیطان نہیں کھولتا*

📚حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''( رات سونے سے قبل ) بسم اللہ پڑھ کر دروازے بند کیا کرو کیونکہ بسم اللہ پڑھ کر بند کیے گئے دروازے شیطان کھول نہیں سکتا ۔''
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3304)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3731)

📚سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اپنا دروازہ بند کر اور(بسم اللہ کہو) اللہ کا نام لے ، بلاشبہ شیطان بند دروازہ نہیں کھول سکتا ۔ اپنا چراغ بجھا اور (بسم اللہ کہو) اللہ کا نام لو ۔ اپنا برتن ڈھانپ کر رکھ خواہ اس میں کوئی لکڑی آڑے طور پر رکھ دے اور (بسم اللہ کہہ) اللہ کا نام لے ۔ اور اپنے مشکیزے کا تسمہ باندھ کر رکھ اور (بسم اللہ کہہ) اللہ کا نام لے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3731)

*جب سواری سے گرنے لگیں یا کوئی بچہ گر جائے تو بسم اللہ کہنی چاہیے*

📚ابو الملیح ایک شخص سے روائیت کرتے  ہیں، اس نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، کہ آپ کی سواری پھسل گئی، میں نے کہا: شیطان مرے، تو آپ نے فرمایا: یوں نہ کہو کہ شیطان مرے اس لیے کہ جب تم ایسا کہو گے تو وہ پھول کر گھر کے برابر ہو جائے گا، اور کہے گا: میرے زور و قوت کا اس نے اعتراف کر لیا، بلکہ یوں کہو:
(بسم اللہ ) اللہ کے نام سے
اس لیے کہ جب تم یہ کہو گے تو وہ پچک کر اتنا چھوٹا ہو جائے گا جیسے مکھی،
(سنن ابو داؤد ،حدیث نمبر-4982)
حدیث صحیح

*بسم اللہ کہنا پردے کا باعث ہے*

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنوں کی آنکھوں اور انسان کی شرمگاہوں کے درمیان کا پردہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی لباس اتارے تو وہ بسم اللہ کہے
(المعجم الاوسط للطبراني :7066)
صححه الالباني

*بسم اللہ کے بغیر وضو بھی نہیں ہوتا*

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جس کا وضو نہیں، اور اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضو کے شروع میں «بسم الله»نہیں کہا“۔
( سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-399)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-101)

*یعنی کہ ہر اچھے کام سے پہلے بِسْمِ اللہِ پڑھنا باعث برکت ورحمت ہے۔کہ اس سے اُخروی ثواب کے ساتھ ساتھ دنیوی برکتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔لیکن اس کے برعکس اچھے کام سے پہلے بِسْمِ اللہ نہ پڑھنا بے برکتی و محرومی کا سبب ہو سکتا ہے*

🚫جیسا کہ”
حضورصلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر اہم کام جو اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع نہ کیا جائے وہ ادھورا یا ناقص رہتا ہے۔
( مسند أحمد حدیث نمبر-8712)
( أخرجه أبو داود (4840)
( السنن الكبرى» (10328)
(ابن ماجه (1894)
(کنز العمال ،2491)
*سند کے لحاظ سے یہ حدیث ضعیف ہے،اگرچہ کچھ علماء نے حسن لغیرہ بھی کہا ہے*
(واللفظ لهوضعفه الزيلعي في " تخريج الكشاف " (1/24)
وضعفه الشيخ الألباني في إرواء الغليل (1/29-32)
(كما ضعفه المحققون في طبعة مؤسسة الرسالة)

العلة الأول:
ضعف قرة بن عبد الرحمن ، قال أحمد بن حنبل : منكر الحديث جدا . وقال يحيى بن معين : ضعيف الحديث . وقال أبو زرعة : الأحاديث التى يرويها مناكير 
(تهذيب التهذيب" (8/373)

العلة الثانية :
أنه قد رجح بعض أهل العلم أن الصواب فيه : عن الزهري مرسلا ، ـ والمرسل من أقسام الحديث الضعيف ـ .

*لہذا کھانے، کھلانے،پینے پلانے،رکھنے اُٹھانے، دھونے پکانے ، پڑھنے پڑھانے، چلنے (گاڑی وغیرہ) چلانے ، اُٹھنے، اٹھانے، بیٹھنے بٹھانے۔۔۔۔۔الغرض ہر جائز کام کے شروع میں بِسْمِ اللہِ کہنے کی عادت بنا لیں*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS