find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Saudi Arab me Tablighi jamat par Pabandi Sahi ya Galat?

Janiye Saudi Arabia ne kyu Tablighi jamat par pabandi lagaya?

Tablighi Jamat par pabandi Sahi ya Galat?
سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی صحیح یا غلط؟

سعودی عرب مغربی ایشیا کا ایک عظیم ملک ہے جو کہ جزیرہ نمائے عرب کی وسیع اکثریت پر پھیلا ہوا ہے،یہ مشرق وسطی (Middle East ) کا سب سے بڑا ملک اور عالم عرب کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے،موجودہ سعودی ریاست کا ظہور ۱۷۵۰ء میں شیخ محمد بن سعود اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کی قیادت میں شروع ہوا تھا،اگلے ڈیڑھ سو سالوں میں آل سعود کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے اور بعد ازاں شاہ عبدالعزیز المعروف بسلطان ابن السعود کے ہاتھوں اسکا باقاعدہ قیام عمل میں آیا،شاہ عبدالعزیز نہایت پارسا اور باحوصلہ انسان تھے،انہوں نے حرمین شریفین پر قبضہ کرنے کے بعد ۱۳ تا ۱۹ مئی 1926ء کے درمیان پوری دنیا کے مسلم رہنماؤں پر مشتمل ایک موتمر اسلامی طلب کی جس میں ۱۳ اسلامی ملکوں نے شرکت کی،خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد اتحاد اسلامی کی یہ پہلی سعی تھی یہی وجہ ہے کہ اسلامی ہند کے وفد کی سب سے ممتاز شخصیت محمد علی جوہر نے کہا تھا کہ اس موتمر کو تحریک اسلامی اتحاد کی راہ میں ایک سنگ میل کی حیثیت قرار دیا جاسکتا ہے،

ابن سعود اور انکے ہمنوا چونکہ وہابی تحریک کے پیرو تھے لہذا انہوں نے اپنی حکومت کی بنیاد توحید خالص اور اسلامی تعلیمات پر رکھی، قرآن کو ملک کا آئین بنایا اور اپنے تمام اعمال کو انجام دینے کے لئے علماء موحدین کی ایک مجلس قائم کی،چنانچہ وہ تمام غیر اسلامی اعمال جو ترکوں کے عہد سے جاری تھے ان پر یک لخت پابندی عائد کردی گئی مثال کے طور شراب کی خرید وفروخت،قبر پرستی،حجاج کرام سے بیجا ٹیکس لینا وغیرہ،شیخ ابن سعود کے ان اقدامات کے سبب ملک میں اسلامی تہذیب وتمدن کا رواج ہوا اور غیر اسلامی افعال جیسا کہ شرک،بت پرستی اور بدعات وخرافات کا خاتمہ ہوا، 

شیخ محمد بن عبدالوہاب کی جماعت کی بنیادی دعوت چونکہ توحید خالص،شرک کے مراسم سے دوری،قبر پرستی سے بیزاری اور بدعات وخرافات سے تنفر پر تھی جو کہ تمام انبیاء ورسل کی دعوت ہوا کرتی ہے لہذا دنیا کے مختلف خطوں میں بدعتی گروہوں اور منحرف فرقوں نے اس جماعت کو سرے سے خارج از اسلام قرار دے دیا،ظاہر سی بات تھی کہ مملکت توحید کو بھی اس عتاب کی زد میں آنا تھا لہذا از ابتدا یہ حکومت تمام فرق ضالہ کے لعن طعن کا شکار رہی،اور اس آگ پر مزید گھی ڈالنے کا کام مملکت توحید کے تبلیغی جماعت پر پابندی لگانے کے حالیہ فیصلہ نے کیا،حالانکہ اہل بصیرت سے یہ مخفی نہیں ہے کہ تبلیغی جماعت پر پابندی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ تمام ائمہ مساجد کو اس جماعت کے خلاف خطبات کی ہدایت دراصل پرانی پابندی کا اعادہ ہے،اور اس ماجرے کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں سعودی عرب میں جاری نظام کو سمجھنا ہوگا جو مختصرا یہ ہے کہ چونکہ اس ملک میں ملوکیت قائم ہے اس وجہ سے کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت کو قانون کے تحت کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے،بلکہ حکومت کی جانب سے ایک ادارہ" وزارة الشؤون الإسلامية والدعوة والإرشاد"اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے مختص کیا گیا ہے،جو ملک کے تمام مذہبی امور کی نگرانی کرتا ہے اور دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دیتا ہے،مگر تبلیغی جماعت نے اس عام حکمنامہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں خفیہ طریقہ سے جماعتی سرگرمیوں کو پھیلانا شروع کردیا تھا اور اور حکام کی نظر سے بچنے کے لئے تبلیغی جماعت کے بجائے "احباب "کا نام اختیار کرلیا تھا، علاوہ ازیں ایسی تنظیمیں جن پر سعودی عرب نے پابندی عائد کر رکھی ہے وہ بھی تبلیغی جماعت یا احباب کے نام سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے تھیں،جیسا کہ محمد سرور زین العابدین کی تنظیم"السلفیۃ السروریۃ " (جس پر اسی سال اکتوبر کے اواخر میں پابندی لگائی گئی ہے) سے وابستہ بعض افراد کے سلسلہ میں حکومت کو یہ اطلاع ملی کہ یہ جماعت "الاحباب" میں شامل ہوگئے ہیں،اسی طرح الاخوان المسلمون کا معاملہ سامنے آیا، ان تمام معاملات سے اگر چشم پوشی کربھی لی جائے پھر بھی تبلیغی جماعت کی جو گمراہیاں اور ضلالتیں ہیں وہ قطعا اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ کسی توحید پرست ملک میں یہ جماعت پھلے پھولے اور نہ صرف یہ کہ عوام الناس کے صحیح عقائد واعمال میں فساد پیدا کرے،بلکہ باطل تصوف اور رہبانیت کی جانب لوگوں کے ذہنوں کو مائل کرے،اگرچہ اس سے متعلق تمام اعمال اسلام ہی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں،مگر درحقیقت یہ اسلام کے نام پر بدترین دھوکہ ہے،مسلمانوں میں شرک و بدعت کو رواج دینا اور انکے عقیدہ و اعمال میں فساد پیدا کرنا دشمنان اسلام کی سوچی سمجھی سازش ہے، جسکا واحد مقصد اس امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا وجود ختم کر دینا ہے۔

   حافظ عبدالسلام ندوی
Share:

Shadi se Pahle apni betiyo ko Taharat ke Masail Jarur Samjhaye.

Shadi se Pahle Apni betiyo ko Taharat ke masail jarur samjhaye.

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

وقت نکال کر ضرور پڑھیں!

اپنی بیٹیوں کو شادی سی پہلے طہارت کے مسائل سکھا کر رخصت کریں.
 
ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے ان پڑھوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آۓروز ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد کٸی لوگوں کی شادیاں ہوتی ہیں اورکئی لڑکیاں نیل پالش لگائے ہوئے غسل کر لیتی ہیں۔ جب کہ کئی کئی دن وہ ناپاک رہتی ہیں، اور کچھ نے تو آرٹیفشل نیلز فکس کروائے ہوتے ہیں جو ایک یا دو دن کے لیے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پاک ہی نہیں ہوتیں.
 ماؤں کا فرض بنتا ہے انہیں یہ سب کچھ شادی سے پہلے سکھا کر شوہر کے گھر بھیجیں. 
شادی کی تیاری میں آپ کو کلر کنڑاسٹ سے لےکر ہر بوتیک، ہر برانڈ اور اچھا پارلر سب یاد رہتا ہے. پوری دیانت داری سے اپنا وقت کپڑوں اور جیولری سلیکشن میں صرف کرتی ہیں۔ اپنے مطلب کی ایک ایک چیز ڈھونڈنے میں پورے دن کا ضیاع بھی گوارا ہے. میچنگ کے چکر میں گھنٹوں برباد ہوں تو خیر ہے۔۔۔۔ مگر وقت نہیں تو دین کے چند بنیادی مساٸل سیکھنے کا۔۔۔۔ طہارت کے مساٸل جاننے کا۔۔۔ 

 یادرکھیں:
ظاہری طہارت کی بھی تین قسمیں ہیں۔ ایک نجاست سے طہارت، دوسرے حدث و جنابت سے طہارت اور تیسرے ان چیزوں سے طہارت جو بدن میں بڑھ جاتی ہیں، جیسے ناخن اور ناپسندیدہ بال وغیرہ۔

پہلی قسم ظاہری نجاست اور پلیدگی سے جسم، لباس اور جگہ کو پاک و صاف کرنا ہے۔ دوسری قسم جن حالتوں میں غسل یا وضو واجب ہے، ان حالتوں میں غسل یا وضو کرکے شرعی طہارت و پاکیزگی حاصل کرنا ہے۔ اور تیسری قسم جسم کے مختلف حصوں میں جو گندگی اور میل پیدا ہوتا رہتا ہے اس کی صفائی کرنا ہے، جیسے ناک، دانتوں اور ناپسندیدہ بالوں کی صفائی۔

اسلامی عقائد میں جو اہمیت توحید کی ہے وہی حیثیت عبادت میں طہارت کی ہے۔ جیسے توحید کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہو سکتا، ویسے ہی طہارت کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوسکتی۔ جس طرح ہم توحید کو مذہبی اعتقادات کا اصل الاصول سمجھتے ہیں اسی طرح طہارت پر اپنی عبادات کا دار و مدار بھی مانتے ہیں۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ " (مسلم)
ترجمہ:
"اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا ہے۔"

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے طہارت کا باب پڑھایا جاتاہے۔کیونکہ طہارت نماز کی کنجی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی متعدد مقامات پر تعریف کی ہے جوصفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔اس صفائی کی وجہ سے اللہ ان سے محبت بھی کرتا ہے۔

اللہ فرماتا ہے :
{إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَo} [سورةالبقرہ:٢٢٢]
ترجمہ:
"بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"

اللہ تعالیٰ ہمیں عقائد و اعمال کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی ہر قسم کی نجاستوں سے طہارت و پاکیزگی اختیار کرنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین

جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء 

اے ماؤں۔۔۔!
اللہ کے لئےکچھ وقت نکال کر اپنی بیٹیوں کو جنابت و طہارت کے مسائل بھی سکھادیا کریں۔
نقل کیا ہوا۔
┄┄┅┅✪❂✵✵❂✪┅┅┄┄
Share:

Comparative Estimate of the Battles of Plassey and Buxar.

Plassey  aur Buxar ki ladai me kaun jayada khatarnak tha.
Plassey aur Buxar ki ladai ko ek dusre se compare karein.
Comparative estimate of the Battles of Plassey and Buxar.


प्लासी और बक्सर के युद्धों का तुलनात्मक मूल्यांकन कीजिए।

प्लासी और बक्सर के युद्ध में से कौन ज्यादा निर्णायक साबित हुए?

प्लासी और बक्सर के युद्ध में से कौन ज्यादा महत्वपूर्ण है?

प्लासी और बक्सर के युद्धों के कारणों और परिणामों की व्याख्या करें।
---------------------------------
प्लासी और बक्सर की लड़ाई भारतीय इतिहास में बहुत ही अहमियत रखता है। इन युद्धों के फलस्वरूप ही बंगाल का हरा भरा धनी प्रांत अंग्रेजो के चंगुल में फैंस गया। जिसको आधार बनाकर अंग्रेज भारत के भाग्यविधाता बन गए। दोनो ही युद्ध का अपना अपना महत्व है। एक ने बंगाल में अंग्रेजो को पैर पसारने का मौका दे दिया तो दूसरे ने अंत में कंपनी के शासन की बेरियो को बंगाल पर जकड़ दिया।

इन दोनो युद्धों का तुलनात्मक मूल्यांकन युद्धों के स्वरूप, लड़ाई में शामिल होने वाली ताकतें और नतीजे को देखते हुए किया जा सकता है।

दोनो युद्धों का स्वरूप: बहुत से विद्वानों ने तो प्लासी के युद्ध को युद्ध माना ही नही है। एक विद्वान के अनुसार , " प्लासी की घटना एक हुल्लड़ और भगदड़ थी, युद्ध नही "  इस कथन में बहुत कुछ सत्यता प्रतीत होती है। नवाब सिराजुदौला एक साजिश का शिकार बना था। अगर मीर जाफर ने ईमानदारी से नवाब का साथ दिया होता और मदद की होती तो भारत का इतिहास ही कुछ अलग होता। अंग्रेजो ने इस लड़ाई को अपने बहादुरी और ताकत से नही जीता था , बल्कि मीर जाफर और रायदुर्लभ जैसे गद्दारों की वजह से जीता था।

अगर मीरमदन युद्ध में वीरगति प्राप्त नहीं करता तो युद्ध का नतीजा दूसरा भी हो सकता था, क्योंकि उनकी मौत के बाद युद्ध का संचालन गद्दारों के द्वारा होने लगा और उनलोगो ने नवाब के साथ धोखा किया। इसके विपरित बक्सर का युद्ध  एक वास्तविक युद्ध था जिसमे विपक्षी सेनाएं बहादुरी से लड़ी, यद्यपि अंग्रेजी सेना तादाद में बहुत कम थी फिर भी भारतीय सेना अंग्रेजो की कुशल एवं प्रशिक्षित सेना और सेनापतित्व के सामने नहीं टिक सकी।

वैसे इस लड़ाई में मुगल बादशाह शाह आलम ने पूरा सहयोग नही दिया , फिर भी बंगाल और अवध की सेनाओं ने भीषण युद्ध किया , लेकिन उनकी हार हुई । अतः सैनिक दृष्टिकोण से बक्सर का युद्ध ज्यादा महत्वपूर्ण था।

दोनो युद्धों में भाग लेने वाली शक्तियां: प्लासी का युद्ध बंगाल के दुर्बल शासक सिराजुदौला और ईस्ट इंडिया कम्पनी के बीच लड़ा गया था। सिराजुदौला असहाय था क्योंकि उसका सेनापति मीर जाफर और दूसरे प्रमुख लोग पहले से ही अंग्रेज से मिल गए थे।
नवाब युद्ध करने के लिए तैय्यार नही था , बल्कि इसे अंग्रेजो ने उसपर जबरदस्ती थोप दिया था। दूसरी तरफ बक्सर के युद्ध में अंग्रेजो के खिलाफ संयुक्त मोर्चा बनाकर  उत्तरी भारत की महत्वपूर्ण हस्तियां - बंगाल , अवध का नवाब और मुगल सम्राट लड़ रही थी।

यह युद्ध जल्दी से और बिना सोचे समझे नही लड़ा गया था बल्कि पूरे तैयारी के साथ ही दोनो दल मैदान में उतरे हुए थे।
इस तरह प्लासी के लड़ाई में जहां अंग्रेजो को सिर्फ बंगाल के नवाब का ही सामना करना पड़ा था जो युद्ध के लिए तैयार नहीं था, वहीं बक्सर के युद्ध में उन्हें तीनों शक्तियों से मुकाबला करना पड़ा था और इसमें वे विजयी रहें। छल, कपट, धोखा और गद्दारी के मुकाबले बक्सर का युद्ध सैनिक कुशलता द्वारा लड़ा गया ।

दोनो युद्धों के परिणाम: दोनो युद्धों के परिणाम भी एक दूसरे से अलग थे। प्लासी के युद्ध का असर सिर्फ बंगाल पर ही पड़ा ।
सिराजुदौला की जगह मीर जाफर बंगाल का नवाब बन गया और अंग्रेजो का सीधा हस्तक्षेप बंगाल की राजनीति में हो गया।

एक विद्वान ने ठीक ही लिखा है की " प्लासी का युद्ध केवल उसके बाद होने वाली घटनाओं के कारण ही महत्वपूर्ण है। बंगाल अंग्रेजो के अधीन हो गया और फिर कभी आजाद न हो सका"
प्लासी के बाद अंग्रेज व्यापारिक एकाधिकार से राजनीति एकाधिकार की तरफ बढ़े, लेकिन बक्सर के युद्ध के परिणाम ज्यादा व्यापक निकलें।

रमजे म्योर के अनुसार , " बक्सर के युद्ध ने अंततः कंपनी के शासन की बेड़ियों को बंगाल पर जकड़ दिया।"
इतिहासकार सरकार और दत्त भी मानते हैं के "........ प्लासी की लड़ाई के मुकबले बक्सर के फल ज्यादा निर्णायक हुए ...... अगर प्लासी में बंगाल के नवाब की हर हुई तो बक्सर में अवध की बड़ी शक्तियों और मुगल बादशाह की शक्ति के हार की घोषणा की।"
प्लासी के युद्ध ने सिर्फ बंगाल के राजनीति को ही प्रभावित किया , लेकिन बक्सर के युद्ध ने पूरे उत्तरी भारत की राजनीति ही बदल दिया। बंगाल युद्ध के नतीजे के बाद अवध का नवाब और मुगल बादशाह भी अंग्रेजो के रहम ओ करम पर जीने लगे ।
अब अंग्रेज वास्तविक अर्थ में शासक बन बैठे।

उपरोक्त विवेचना से यह स्पष्ट हो जाता है की प्लासी के युद्ध की अपेक्षा बक्सर का युद्ध ज्यादा निर्णायक साबित हुआ और इसका अंजाम भी ज्यादा खतरनाक हुए।

प्लासी के युद्ध ने जिस घटनाक्रम को शुरू किया था बक्सर ने उसे पूरा कर दिया।
एक ने अंग्रेजो को भारतीय राजनीति में पैर पसारने का मौका दिया तो दूसरे ने उसे भाग्यविधाता (शासक) बना दिया।
बेशक बक्सर का युद्ध ज्यादा महत्वपूर्ण था , लेकिन इससे प्लासी के युद्ध का महत्व कम नहीं हो जाता है। वस्तुतः दोनो ही एक दूसरे के पूरक थे।
अगर दोनो युद्धों में से एक भी अंग्रेजो के विपक्ष में गया होता यानी दोनो में से कोई एक भी युद्ध हरा होता तो भारतीय इतिहास का रूप ही दूसरा होता।

प्लासी का युद्ध     23 जून 1757
बक्सर युद्ध        23 अक्टूबर 1764

Share:

Kya Shauhar Apni Biwi ko Sasural me rakh sakta hai?

Kya Shauhar apni Biwi ko Uske Maike me rahne ko kah sakta hai?

Kya Khawind apni Biwi ko Sasural me rakh sakta hai?

Sawal- Agar kisi Shadi Shuda Aurat ka Shauhar bagair kisi wajah ke use Apne Maa Baap ke pas Chhor de jabki Maa Baap Sehatmand aur Jawan ho , unki ek bahu aur Shadi Shuda Beta bhi Ghar me Maujood ho. Jabki Shauhar ke pas Wasail bhi Maujood ho apni Biwi ko sath rakhne ke liye, lekin wah Rishtedaron ke tano se bachne ke liye Apni Biwi ko Sasural me chhor dein jabki wah apni Biwi se Mohabbat ke Dawe bhi karta hai.
Islam iske bare me kya Kahta hai?

کیا شوہر اپنی بیوی کو اسکے میکے میں رکھ سکتا ہے؟
Umme Ayesha

السلام علیکم:
سوال - اگر کسی شادی شدہ عورت کا شوہر بلاوجہ اسے اپنے ماں باپ کے پاس چھوڑ دے جب کہ ماں باپ صحت مند اور جوان ہوں اور انکی ایک بہو اور شادی شدہ بیٹا بھی گھر پر موجود ہو۔ جب کہ شوہر کے پاس وسائل بھی موجود ہوں اپنی بیوی کو ساتھ رکھنے کے لئے۔ لیکن وہ رشتے داروں کے طعنوں سے بچنے کے لئے اپنی بیوی کو سسرال میں چھڑ دے جب کہ وہ بیوی سے محبت کے دعوے بھی کرتا ہے۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے ۔ جزاکِ اللہ
۔----------------------------------

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

بلاشبہ دنیاوی زندگی میں خواہشات کی بہتات ہے ، اور انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان مختلف انواع و اقسام کے طریقے استعمال کرتا ہے ، اس لیے خاوند پر واجب ہے کہ وہ اس میں احتیاط سے کام لے۔

اللہ تعالیٰ نے بیوی اور اولاد کے بارے میں مرد پر بہت ہی اہم ذمہ داری ڈالی ہے اور ان کے نان نفقہ اور حفاظت و تربیت کا معاملہ بھی اسی کے سپرد کیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔

"كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْؤولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ ومَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، -قَالَ: وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ: وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ- وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"

"تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا ۔ امام نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔

مرد اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگران ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔

( بخاری 893۔کتاب الجمعہ باب الجمعہ فی القری والمدن مسلم 1829۔کتاب الامارۃ باب فضیلۃ الامیر العادل و عقوبۃ الجائز والحث علی الرفق بالرعیہ ترمذی 1705کتاب الجہاد باب ماجاء فی الامام نسائی فی السنن الکبری 9173/5۔عبدالرزاق 20649الادب المفرد للبخاری 214 ،بیہقی 287/6)

مسلمان خاوند کو جائز نہیں کہ وہ صرف دنیا کمانے کے لیے ہی زندگی بسر کرے اور اس حد تک اپنے کام کو ترجیح دے کہ بیوی کے حقوق ہی بھلا بیٹھے ۔

اگر چہ مال کی خواہش بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن جو چیز اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ زیادہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے لہٰذا اسے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے لیے بھی وقت نکال سکے اور ان کا خیال اور تربیت کر سکے۔

: صورت مسئولہ میں شوہر کا بیوی کو اپنے سے دور کر دینا جبکہ وہ قربت کے وسائل بھی رکھتا ہے نہایت غلط ہے ۔

اگر شادی کے بعد گھر سے دور رہنے میں بیوی کی حق تلفی ہوتی ہو یا اس کی عزت و ناموس اور اس کی حفاظت کا انتظام نہ ہو، یا شوہر کے دور ہونے کی وجہ سے اس کے گناہ اور فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے بیوی کو ایسی حالت میں تنہا چھوڑ کر شہر سے دور ملازمت کرنا درست نہیں ہے، اور اگر یہ اندیشہ نہ ہو تو پھر شہر سے دور ملازمت کرنا جائز ہے، لیکن اس صورت میں بیوی کی رضامندی کے بغیر چار مہینہ سے زیادہ گھر سے دور رہنا درست نہیں ہے، اس میں بیوی کی حق تلفی ہے

ھٰذا واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

BRABU examination 2021 Questions History honours Paper viii

BRABU examination 2021 BA  Part iii

History honours Paper viii
The History of America
Most Important Questions


(1) अमेरिकी स्वतंत्रता संग्राम के क्या कारण थे। संयुक्त राज्य अमेरिका की स्थापना कैसे हुई?
या
अमेरिकी स्वतंत्रता संग्राम का वर्णन करें।

(2) जैक्सन के जनतंत्र के प्रमुख पक्षों का परीक्षण करें।

(3) गृहयुद्ध के प्रभाव और परिणामों की विवेचना करें।

(4) अब्राहम लिंकन पर एक टिप्पणी लिखें।

(5) अमेरिका में गृहयुद्ध के बाद पुनर्निर्माण के कार्यों का वर्णन करें।

(6) पॉपुलिस्ट आंदोलन पर एक निबंध लिखें।
या
जनप्रिय आंदोलन पर टिप्पणी प्रस्तुत करें।

(7) स्पेन युद्ध के कारणों और परिणामों की विवेचना करें।

(8) थियोडोर रूजवेल्ट की विदेश नीति का परीक्षण करें।

(9) राष्ट्रपति विल्सन की भूमिका प्रथम विश्व युद्ध में क्या थी?

(10) विल्सन की गृहनीति की  विवेचना करें।

(11) पेरिस शांति सम्मेलन में अमेरिका की भूमिका  की विवेचना करें।

(12) फ्रैंकलिन डिलानो रूजवेल्ट के " न्यु डील " पर निबंध लिखें।

(13) दो विश्व युद्ध के बीच अमेरिकी विदेश नीति का परीक्षण करें।

(14) अमेरिकी साम्राज्यवाद पर एक निबंध लिखें।

Other Important Questions

(15) विश्व शक्ति के रूप में अमेरिका के उदय का विवरण दीजिए।

(16) 1919 से 1939 के युद्ध के बीच अमेरिकी पृथकतावादी नीति का परीक्षण करें।

(17) निम्नलिखित पर टिप्पणी लिखें।
(i) वर्जीनिया की योजना
(ii) जैक्सन की कैबिनेट ( मंत्रिमंडल )
(iii) लूट प्रणाली ( इनामी प्रणाली )
(iv) मुक्तद्वार की नीति
(v) पेरिस की संधि ( 1783 )

Share:

BRABU examination 2021 Questions Part iii History honours Paper vi

BRABU EXAMINATION Part iii History honours 2021

भारतीय इतिहास का अध्ययन 1858 - 1947 तक।

History hons Paper vi
1858-1947

(1) आंगल बर्मा संबंधों की विवेचना करें।

(2) अपने अध्ययन काल में आंगल - पर्शिया (फारस) संबंधों की विवेचना करें।

(3) अपने अध्ययन काल में आंगल - नेपाल संबंधों का परीक्षण करें।

(4) 1909 के मार्ले - मिंटो सुधार की विशेषताओं का परीक्षण करें।

(5) लिंटन के प्रशासनिक कार्यों का आलोचनात्मक विवरण प्रस्तुत करें।

(6) लॉर्ड रिप्पन के प्रशासनिक कार्यकलापों की विवेचना करें।

(7) भारतीय स्वतंत्रता आंदोलन में उदारवादियों की भूमिका का विश्लेषण करें।

(8) भारतीय राष्ट्रीय आंदोलन में गर्म दल की भूमिका की विवेचना करें।

(9) भारतीय राष्ट्रीय आंदोलन में महात्मा गांधी की भूमिका श्रेष्ठ थी। विवेचना करें।

(10) खिलाफत आन्दोलन के कारण और प्रभाव की विवेचना करें।

(11) 1935 के भारत सरकार अधिनियम की मुख्य विशेषता की विवेचना करें।

(12) कैबिनेट मिशन योजना के मुख्य प्रावधानों का विश्लेषण करें।

(13) भारत छोड़ो आन्दोलन पर एक लेख लिखें।

(14) भारत विभाजन के कौन कौन से कारण थे?

(15) टिप्पणी लिखें।
           होमरुल लीग - 41,  पूना समझौता - 1992
लखनऊ पैक्ट - 92, बंगाल विभाजन - 28

     Other Important Questions

(16) स्वराज्य पार्टी पर निबंध लिखें।

(17) वे कौन से हालत थे जिनके चलते पाकिस्तान की मांग हुई?

(18) 1885 में भारतीय राष्ट्रीय कांग्रेस की स्थापना की व्याख्या करें।

(19) 1947 के भारतीय स्वतंत्रता अधिनियम कानून की मुख्य विशेषताएं एवम प्रावधानों की विवेचना करें।

Share:

BRABU Part iii examination questions History honours Paper v.

BRABU examination Guess paper questions.
History honours Part iii 2021

2021 पार्ट iii में आने वाले महत्वपूर्ण प्रश्न
विषय - इतिहास ऑनर्स पेपर v
इतिहास 1757- 1857 (Paper v)

(1) 18 वी सदी में भारत की सामाजिक और आर्थिक स्थिति को रेखांकित कीजिए।

(2) बक्सर के युद्ध के कारणों और महत्त्व का वर्णन करें.

(3) अंगल मराठा संबंधों पर टिप्पणी लिखें।

(4) वारेन हेस्टिंग्स की मराठा नीति का मूल्यांकन करें।

(5) बेसिन की संधि पर नोट लिखें।

(6) प्रथम आगंल मराठा युद्ध का वर्णन करें
या
आंगल मराठा युद्ध के कारण और परिणाम का वर्णन करें.

(6) मराठा साम्राज्य के पतन के क्या कारण थे?

(7) हैदर अली के जीवन एवं उपलब्धियों पर प्रकाश डालें।

(8) मैसूर के लिए किए गए टीपू सुलतान की देनो को रेखांकित करें।

(9) महाराजा रणजीत सिंह के कार्यों को रेखांकित करें।

(10) सिंध के विलय पर एक संछिप्त निबंध लिखे।

(11) 1857 की क्रांति के क्या कारण थे?

(12) वारेन हेस्टिंग्स के सुधारो का वर्णन करें।

(13) कार्नवालिस के स्थाई शासन प्रबंध को समझाए।
या
भारत में स्थाई बंदोबस्त के गुण - दोषों का मूल्यांकन करें.

(14) डलहौजी के प्रशासनिक नीतियों की विवेचना करें।

(15) आंगल शिक्षा के विकास पर एक टिप्पणी लिखें।

(16) भारतीय उद्योगों के पतन के कारणों का परीक्षण करें।

other Important questions

(1) बक्सर के युद्ध तक ईस्ट इण्डिया कम्पनी के विस्तार की विवेचना करें।

(2) प्लासी और बक्सर के युद्धो के तुलनात्मक महत्व का आलोचनात्मक परीक्षण करें।

(3) द्वितीय आंगल मराठा युद्ध पर एक संक्षिप्त टिप्पणी लिखें।

(4) आंगल मैसूर संबंध पर एक टिप्पणी लिखें।

(5) टीपू सुल्तान के उपलब्धियों पर प्रकाश डालें।

(6) मराठा के पतन का उल्लेख करें।

Share:

Kya Shauhar Apni Biwi ko Parda karne se Mana kar sakta hai?

Agar Shauhar apni Biwi ko Khandan walo se Parda karne se mana kare to biwi ko kya karna chahiye?

सवाल - अगर शौहर सिर्फ खानदान वालो से पर्दा करनेे से मना करे वह भी सिर्फ चेहरे का पर्दा न करे ?
अगर वह परदे करती है तो वह उस पर सख्ती करता है, बात तलाक तक भी पहुंच सकती है। इतनी मजबूर होकर अगर वह चेहरे का पर्दा ना करे तो मजबूरी के तहत शरीयत क्या कहती है?

जानिए दुनिया में बुत परस्ती की शुरुआत कैसे हुई?

जब एक गैर मुस्लिम लड़की ने एक बा पर्दा खातून के नकाब को गलत बताया।

जब इंग्लैंड में एक अरब मुस्लिम लड़की ने कुरान की तिलावत की।

بِـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

برادر Muhammad Ayoub Salafi

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال۔کا جواب مل گیا تھا الحمدللہ لیکن اس میں مزید کچھ اشکال ہوئی جو آپ سے پوچھ رہا ہوں

شیخ محترم اور مسز اے انصاری

اگر شوہر صرف خاندان والوں سے پردہ کرنے سے منع کرے وہ بھی صرف چہرے کا پردہ نہ کرے ؟
اگر وہ پردے کرتی ہے تو وہ اس پر سختی کرتا ہے بات طلاق تک بھی پہنچ سکتئ ہے
اتنی مجبور ہو کر اگر وہ چہرے کا پردہ نہ کرے تو مجبوری کے تحت شریعت کیا کہتی ہے ؟؟؟

┅━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

✍ بلا شبہ اسلام عورت کو شوہر کی مکمل فرمانبرداری کا حکم دیتی ہے، شوہر کا بیوی کو کسی بات سے منع کر دینا بیوی کے لیے ماننا لازم ہے، حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔
لیکن شوہر اگر بیوی کو کسی معصیت کا حکم کرے، تو بیوی کے لیے اس کی بات ماننا جائز نہیں ہے ۔
لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق
اگر شوہر طلاق دیتا ہے تو وہ اللہ کے حکم سے متصادم ہو رہا ہے ۔ وہ طلاق دیتا ہے دینے دیا جائے لیکن اللہ کی اطاعت کے سامنے اسکی معصیت قبول نہیں کی جائے گی ۔ اور ایسی صورت میں شرعاً بیوی شوہر کی نافرمان نہیں کہلائے گی۔
عن أبی ہریرة، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لو کنت آمرا أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجہا (جامع الترمذي: ۱/۲۱۹، أبواب الرضاع والطلاق، باب ما جاء في حق الزوج علی المرأة) وعن النواس بن سمعان رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق․ (مشکاة المصابیح، ص: ۳۲۱، کتاب الإمارة والقضا، الفصل الثانی)
واللہ تعالیٰ اعلم
( مسزانصاری )

✍شیخ بن باز رحمہ اللہ سے ایک عورت نے یہی سوال پوچھا کہ شوہر خاندان سے پردہ پر مخالفت کرتا ہے اور چہرہ کھلا رکھنے کا حکم دیتا ہے اور طلاق دینے کی دھمکی دیتا ہے ۔ تو الشیخ رحمہ اللہ نے کہا

مرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے اجنبی مردوں سے بے پردگی کا موقع فراہم کرے ۔اور اسکو یہ بھی زیب نہیں دیتا کہ اس حد تک کمزور اور متساہل ہو کہ اسکی بیوی اسکے بھائیوں ( دیوروں اور جیٹھوں ) یا اسکے چچاوں یا اسکی بہن کے خاوند یا عورت اپنے چچاوں کے بیٹوں وغیرہ جو اسکے محرم رشتہ دار نہیں ہیں انکے سامنے اپنا چہرہ کھولے ۔
پس یہ قطعًا جائز نہیں ہے ، اور نہ ہی اس مسئلے میں عورت کے لیے مرد کی اطاعت کرنا واجب ہے۔

اطاعت تو صرف خیر و بھلائی کے کاموں میں ہوتی ہے ۔ بلکہ عورت پر لازم ہے کہ وہ حجاب اور پردہ اختیار کرے چاہے اسکا خاوند اسے طلاق دے دے ۔اگر اس کا شوہر اسے طلاق دے گا تو ان شاءاللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ اسکو اس سے بہتر شوہر عطا فرمائے گا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَاِنۡ یَّتَفَرَّقَا یُغۡنِ اللّٰہُ کُلًّا مِّنۡ سَعَتِہٖ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیۡمًا ﴿سورة النساء/۱۳۰﴾

اور اگر میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالٰی اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا ، اللہ تعالٰی وسعت والا حکمت والا ہے ۔

اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا ﴿سورةالطلاق / ۴﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر ) کام میں آسانی کر دے گا ۔

اور خاوند کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو جبکہ وہ پردہ کرے جو پاکدامنی اور سلامتی کے اسباب میں سے ہے ، تو وہ اسے طلاق کی دھمکی دے ، ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طلبگار ہیں ۔
( سماحةالشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ )

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْـــــكُم وَرَحْمَــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــاتُه

Share:

Agar Biwi Apne Shauhar se Hemesha Jhhagra karti ho to Shauhar ko kya karna chahiye?

Agar Biwi Shauhar ki Nafarmani kare to Shauhar ko kya karna chahiye.

بِسْـــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

برادر Rehman Ali

وَعَلَيــْـــــــكُم السَّــــلاَم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــاتُه

معزز بھائی ہم آپکو آپکے سوال کی نوعیت پر ہی جواب دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ بات آپکو معلوم ہونا چاہیے کہ فریقین کی باتوں کو سن کر ہی کسی بات کا فیصلہ کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔

کسی ایک فریق کا مئوقف سن کر کوئی حتمی فیصلہ کرنا ، غالب گمان ہے کہ بگاڑ پیدا کرے ، اسی لیے ہم نے آپ سے آپکے سوال کی وضاحت چاہی تھی ۔

ہم آپکے سوال کا جواب محض ایک فریق کے بیان پر دے رہے ہیں ، اگر فریق ثانی یعنی آپکے دوست کی بیوی معصوم ہوئی اور آپکا دوست تنازعہ کا بڑا سبب ہوا تو ہم اپنے جواب سے بری الذمہ ہونگے ، اور وبال آپکے سر پر ہو گا ، کیونکہ آپ ہی ہمارے اور دوست کے بیچ ذریعہ بنے ہو ، لہٰذا ہم اپنے بھائی کو انتباہ کرتے ہیں کہ اس جواب کو دوست تک پہنچانے سے پہلے حتی المقدور کوشش کریں کہ دوست اور اس کی بیوی کے مابین تنازعات میں کون زیادہ قصوروار ہے ۔
جب آپ مطمئین ہو جائیں کہ حقیقتًا آپکا دوست معصوم ہے تب آپ اللہ سے اعانت طلب کر کے ہمارا جواب دوست تک پہنچائیے ۔

✍ کسی تنازعہ میں کبھی بھی کسی ایک فریق کی غلطی نہیں ہوتی ، یقینًا مخالف فریق بھی کسی نہ کسی اعتبار سے اس بدمزگی کا ذمہ دار ہوتا ہے ، ہماری زندگی کے معاملات ایک صورت میں گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتے کہ جب کسی ایک فریق میں قوتِ برداشت اس لیول تک ہو جو معاملے کو سنبھال کر ٹھنڈا کر دے ، لیکن قوتِ برداشت جب اپنی حدود سے تجاوز کر جاتی ہے تو گھروں کی دیواروں کو بھی زبانیں مل جاتی ہیں ۔ فریقین میں بیوی وہ فریق ہے جس کو قوت برداشت کا زیادہ مظاہرہ کرنا چاہیے ، شوہر کی اطاعت گزاری اور فرمانبرداری میں ہی عورت کی جنت ہے ۔

امام ابوبکر ابن ابی شیبہؒ (المتوفی 235ھ) نے اپنی عظیم کتاب " المصنف " میں روایت کیا ہے کہ :
حدثنا جعفر بن عون، قال: أخبرنا ربيعة بن عثمان، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن نهار العبدي وكان من أصحاب أبي سعيد الخدري، عن أبي سعيد، أن رجلا أتى بابنة له إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن ابنتي هذه أبت أن تتزوج، قال: فقال لها: «أطيعي أباك» قال: فقالت: لا، حتى تخبرني ما حق الزوج على زوجته؟ فرددت عليه مقالتها قال: فقال: «حق الزوج على زوجته أن لو كان به قرحة فلحستها، أو ابتدر منخراه صديدا أو دما، ثم لحسته ما أدت حقه» قال: فقالت: والذي بعثك بالحق لا أتزوج أبدا قال: فقال: «لا تنكحوهن إلا بإذنهن»

ترجمہ :

سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی اپنی بیٹی کو لے کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ میری یہ بیٹی شادی کرنے سے انکار کررہی ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی سے فرمایا کہ اپنے باپ کی بات مان لو۔
اس لڑکی نے کہا کہ میں اس وقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک آپ مجھے یہ نہ بتادیں کہ بیوی پر خاوند کا کیا حق ہے ؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوی پر خاوند کا حق یہ ہے کہ اگر خاوند کو جسم میں زخم یا پھوڑا ہو اور اس کی بیوی اس پھوڑے کو چاٹے یا اس سے پیپ اور خون نکلے اس کی بیوی اس کو چاٹے تو پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا۔ اس پر اس لڑکی نے کہا کہ پھر تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں کبھی شادی نہیں کروں گی۔
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے باپ سے ) فرمایا کہ عورتوں کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر نہ کرو۔"

رواه ابن أبي شيبة في " المصنف " (3/556)، والنسائي في "السنن الكبرى" (3/283)، والبزار – كما في " كشف الأستار " (رقم/1465) - وابن حبان في " صحيحه " (9/473)، والحاكم في " المستدرك " (2/205)، وعنه البيهقي في " السنن الكبرى " (7/291)
یہ حدیث صحیح ہے ۔علامہ ناصر الدین الالبانی ؒؒ نے اسے ۔حسن صحیح ۔کہا ہے۔۔حسن صحيح - ((التعليق الرغيب))
اور علامہ شعیب ارناوط نے صحیح ابن حبان کی تعلیق و تخریج میں اسے ’‘ حسن ’‘قرار دیا ہے ،لکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے اوپر نہیں جاتی ۔ ایک اپنے آقا سے بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ وہ واپس آ جائے ۔ اور دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو یہاں تک کہ وہ اس کی فرمانبردار بن جائے

( السلسلة الصحيحة : 288 ، ،
صحيح الجامع : 136)
( الألباني: حسن صحیح)​

دو قسم کے لوگوں کی نماز اُن کے سر سے اوپر نہیں تجاوز کرتی (یعنی قبولیت کی طرف نہیں جاتی) (،،، ، ،، ، ، ، ، ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ) ان میں سے ایک وہ عورت ہے جو اپنے خاوند کی
نا فرمانی کرے ، یہاں تک کہ وہ نا فرمانی سے باز آجائے

(فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)​

(الترغيب والترهيب : 3/82 ، ، 3/103 ، ، الزواجر : 2/83 ، ،
صحيح الترغيب : 1948 ، ، 1888 ، ، مجمع الزوائد : 4/316 ، ،
السلسلة الصحيحة : 288 ، ، صحيح الجامع : 136)​

--------------۔

جو عورتیں اپنے شوہروں کو تکلیف دیتی ہیں ، نافرمانی کرتی ہیں ، شوہر کے حکم کا خلاف کرتی ہیں انکی احساس برتری ضد کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدامات کرنے کی اجازت دی ہے ۔

1 اسے نرمی سے سمجھایا جائے کہ اس کے موجودہ رویہ کا انجام برا ہو سکتا ہے ۔

2 اگر وہ اس کا اثر قبول نہ کرے تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرہ میں سونا شروع کر دے ۔

3 اگر وہ سرد جنگ کو نہیں چھوڑتی تو اسے ہلکی پھلکی مار دی جائے ، اس مار کی چند شرائط ہیں کہ اس مار سے ہڈی پسلی نہ ٹوٹے اور چہرے پر نہ مارے ، اگر یہ تمام حربے ناکام ہو جائیں تو طلاق سے قبل فریقین اپنے اپنے ثالث مقرر کریں جو اصلاح کی کوشش کریں ۔

اور اگر اس طرح اصلاح نہ ہو سکے تو آخری حربہ طلاق دینے کا ہے ۔ صورت مسؤلہ میں اگر بیوی نافرمان اور ضدی ہے تو مذکورہ بالا اقدامات سے اصلاح کی جائے بصورت دیگر طلاق دے کر اسے فارغ کر دیا جائے ۔

اللہ تعالیٰ ہر عورت کو اپنے شوہر کا فرمانبردار بنائے ۔ اللہ تعالیٰ بہنوں کو شوہر کا مقام شناس بنائے ۔۔۔
آمین ثم آمین

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

— with Shaikh Jarjees Ansari.

Share:

Biwi ko Kis ki Baat manani Chahiye Shauhar ki ya Maa Baap ki?

Kisi Aurat par Sabse Jyada Haque kiska hai Shauhar ka ya Waldain ka?
Kya Khawind ki Itaaat Behan aur bhaiyo ki Itaaat par Muqdam hai?
Biwi ko Kis ki Baat manani Chahiye shauhar ki ya Maa Baap ki?



بِسْـــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــلاَم عَلَيـــــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

خاوند كى اطاعت والدين اور بھائيوں كى اطاعت پر مقدم ہے :
﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌

كتاب و سنت كے دلائل سے ثابت ہوتا ہے كہ خاوند كو اپنى بيوى پر بہت زيادہ حق حاصل ہے، اور بيوى كو خاوند كى اطاعت كرنے اور خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كا حكم ديا گيا ہے، بيوى كو اپنے والدين اور بہن بھائيوں سے بھى اپنے خاوند كو مقدم ركھنے كا حكم ہے، بلكہ خاوند تو بيوى كى جنت اور جہنم ہے، ان دلائل ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى شامل ہے:

{ مرد عورتوں پر نگران و حكمران ہيں، اس ليے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس ليے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں }
   النساء ( 34 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے خاوند كى موجودگى ميں ( نفلى ) روزہ ركھے، اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے گھر ميں كسى كو ( آنے كى ) اجازت نہ دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4899 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ اس حديث پر تعليقا رقمطراز ہيں:
" جب عورت پر قضائے شہوت ميں اپنى خاوند كى اطاعت كرنا واجب ہے كہ وہ خاوند كى شہوت پورى كرے تو پھر بالاولى يہ واجب ہے كہ اس سے بھى اہم چيز يعنى خاوند كى اولاد كى تربيت ميں خاوند كى اطاعت كرے، اور اپنے گھر كى اصلاح ميں خاوند كى بات مانے، اور اس طرح دوسرے حقوق اور واجبات ميں بھى خاوند كى اطاعت كرے "
ماخوذ از: آداب الزفاف ( 282 ).

ابن حبان نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب عورت اپنى پانچ نمازيں ادا كرے، اور رمضان كے روزے ركھے اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت كرتى ہو تو اسے كہا جائيگا: تم جنت كے جس دروازے سے بھى چاہو جنت ميں داخل ہو جاؤ "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 660 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن ابى اوفى سے بيان كيا ہے كہ جب معاذ رضى اللہ تعالى عنہ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سجدہ كيا چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

معاذ يہ كيا ؟ تو انہوں نے جواب ديا: ميں جب شام گيا تو انہيں ديكھا كہ وہ اپنے پادريوں اور بشپ كو سجدہ كرتے ہيں تو ميرے دل ميں آيا كہ ہميں تو ايسا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ كرنا چاہيے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم ايسا مت كرو، اگر ميں كسى كو حكم ديتا كہ وہ غير اللہ كو سجدہ كرے تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كيا كرے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے عورت اس وقت تك اپنے پروردگار كا حق ادا نہيں كر سكتى جب تك كہ وہ اپنے خاوند كا حق ادا نہ كر دے، اگر خاوند اسے بلائے اور بيوى پالان پر بھى ہو تو اسے انكار نہيں كرنا چاہيے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1853 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مسند احمد اور مستدرك حاكم ميں حصين بن محصن ؓ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى پھوپھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس كسى ضرورت كے تحت گئى جب اپنے كام اور ضرورت سے فارغ ہوئيں  تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے دريافت كيا:

كيا تمہارا خاوند ہے ؟

تو انہوں نے جواب ديا: جى ہاں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اس كے ليے كيسى ہو ؟

تو انہوں نے عرض كيا: ميں اس كے حق ميں كوئى كمى و كوتاہى نہيں كرتى، مگر يہ كہ ميں اس سے عاجز آ جاؤں اور نہ كر سكوں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم خيال كرو كہ تم اپنے خاوند كے متعلق كہاں ہو، كيونكہ وہ تمہارى جنت اور جہنم ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 19025 ) امام منذرى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ميں اس كى سند كو جيد قرار ديا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1933 ) ميں اسے جيد كہا ہے.

اس حديث كا معنى يہ ہے كہ: بيوى اگر خاوند كا حق ادا كرتى ہے تو خاوند بيوى كے جنت ميں داخل ہونے كا سبب ہوگا اور اگر خاوند كے حقوق ميں كوتاہى كرے گى تو خاوند اس كے ليے آگ ميں جانے كا سبب ہوگا.

جب خاوند كى اطاعت والدين كى اطاعت سے معارض ہو تو اس صورت ميں خاوند كى اطاعت مقدم ہوگى، امام احمد رحمہ اللہ نے ايسى عورت جس كى والدہ بيمار تھى كے متعلق كہا:
اس پر ماں كى بجائے اپنے خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہے، ليكن اگر خاوند اسے اجازت ديتا ہے تو پھر نہيں "
ديكھيں: منتہى الارادات ( 3/ 47 ).

اور الانصاف ميں مذكور ہے كہ:
" خاوند سے طلاق لینے کے حکم ميں عورت پر اپنے والدين كى اطاعت لازم نہيں، اور نہ ہى ملاقات وغيرہ، بلكہ خاوند كى اطاعت زيادہ حق ركھتى ہے "
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 362 ).

اس سلسلہ ميں مستدرك حاكم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ايك حديث بھى مروى ہے:

سیدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا:
عورت كے ليے لوگوں ميں حق كے اعتبار سے كون زيادہ حقدار ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" اس كى والدہ "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے علامہ البانى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ( 1212 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے اور امام منذرى رحمہ اللہ نے بھى.
الاسلام سوال و جواب

ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم
وَالسَّــــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

Share:

Kya Aurat apne Shauhar ke Bagair Apni Behan ke Ghar rat gujar sakti hai?

Kya Shauhar Apni Biwi ko uske Maike ya Behan ke Ghar jane se Rok sakta hai?

                  Rehman Ali
Sawal: Agar Shauhar apni Biwi par pabandi Lagaye ke wah apni Behan ke Ghar raat nahi Gujar sakti , kya yah Pabandi Sharan Jayez hai?

Kya Aurat ka apne Shauhar ke Bagair apni Behan aur Bahnoi ki Maujudgi me Bagair kisi Majburi ke un ke Ghar Rat gujarna Munasib hai?

السلام عليكم

اگر شوھر اپنی بیوی پر پابندی لگائے کہ وہ اپنی بہن کے گھر رات نہیں گذار سکتی کیا یہ پابندی شرعاً جائز ھے۔
کیا عورت کا اپنے شوھر کے بغیر اپنی بہن اور بہنوئی کی موجودگی میں بغیر کسی مجبوری کے ان کے گھر رات گذارنا مناسب ھے ؟
رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ

۔--------------------------------

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

: مسز انصاری

جی ہاں شرعًا یہ جائز ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کی بہن کے گھر رات گزارنے سے روک دے ، بلکہ ماں باپ کے گھر سے بھی روکنے کا شوہر کو شرعًا حق حاصل ہے ۔ وہ اس لیے کیونکہ مرد کی اطاعت عورت پر واجب ہے ، اور اس لیے کہ مرد کو عورت پر زیادہ فضیلت حاصل ہے ، گو کہ عورتوں اور مردوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے مرد کے عورت پر حقوق زیادہ رکھے ہیں ، لیکن مردوں کو عورتوں پر بلند مرتبہ اور فضیلت حاصل ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ
﴿سورة البقرة/ ٢٢٨﴾

اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں معروف طریقے پر ، ہاں مردوں کو ان عورتوں پر درجہ اور فضیلت حاصل ہے ۔

مرد عورتوں پر قوام ہیں ، کیونکہ مرد اپنے اہل و عیال پر مال خرچ کرتے ہیں اور ان کے رہنما ہوتے ہیں ،
جس طرح حکمران اپنی رعایا پر حکمرانی کرتے ہیں اسی طرح مرد کی اپنے اہل و عیال پر حاکمیت ہوتی ہے اور حاکم کا حکم ماننا واجب ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے مرد کو کچھ جسمانی اور عقلی خصائص سے بھی نوازا ہے ، اور اس پر مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿الرِّ‌جالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَمو‌ٰلِهِم ۚ
﴿سورة النساء/ ٣٤﴾

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضيلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں .

بلا شبہ خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ، بلکہ شافعیہ اورحنابلہ کے مطابق عورت اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی ، اور خاوند کو اسے روکنے اور منع کرنے کا مکمل حق حاصل ہے ۔ اس لیے کیونکہ خاوند کی اطاعت بیوی پر واجب ہے تو واجب کو ترک کرکے غیر واجب کام کرنا جائز نہيں ۔

بیوی پر اس کے شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اس شخص کو داخل نہ ہونے دے جسے اس کا شوہر ناپسند کرتا ہے ۔ ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اور کسی کو بھی اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں لیکن اس کی اجازت ہو تو پھر داخل کرے )
[ صحیح البخاری حدیث : ۴٨٩٩/ صحیح المسلم حدیث : ١٠٢٦ ]

لہٰذا اے سائل بھائی ، خوب جان لیجیے کہ عورت اپنے شوہر کے حکم سے اپنے عزیز و اقارب کے ہاں جانے سے رک جائے گی ، ہر اس حکم کو ماننا اس پر واجب ہوگا جس میں معصیت کا حکم نا دیا گیا ہو ۔جب اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے اس کے شوہر کی فرمانبرداری اس کے والدین کی فرمانبرداری پر مقدم کر دی تو اب شوہر کی اطاعت سے سرکشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ، اگر عورت شوہر کی حکم عدولی کرے گی تو وہ گناہ کا کام کرے گی ۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :

کسی آدمی کیلئے درست نہیں ہے کہ وہ کسی آدمی کو سجدہ کرے ، اگر کسی آدمی کا کسی آدمی کیلئے سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اسلئے کہ اسکا حق بہت بڑا ہے ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شوہر کے سر سے پیر تک زخم ہو جس سے خون و پیپ بہہ رہا ہو ، پھر عورت آگے بڑھکر اسے اپنی زبان سے صاف کرے تو بھی اسکے حق کو ادا نہ کر پائے گی.

(صحيح الجامع : ٧٧٢۵)

فقط اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 16 Bedi Se Interview Question Answer | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 16 Bedi Se Interview | |Question Answer | Bihar Board Urdu Question Answer | Class 10 Urdu Question Answer  | Bihar Board Urdu Sawal Jawab | Bedi Se Interview | Bihar Board 10th Urdu Question Answer Chapter 16

#BSEB #10th #Urdu #GuessPaper #UrduGuide #BiharBoard #SawalkaJawab #اردو #مختصر_سوالات #معروضی_سوالات #بہار#  بیدی# اردو_سوال_جواب | Bihar Board 10th Urdu question Answer, 

Bihar 10th ka Math kaise banaye?

Matrice ka OMR Sheet kaise Bharein exam me?

BSEB 10th urdu Darakhashan Sawal o Jawab lesson 16.
BSEB 10th urdu Darakhashan Sawal o Jawab lesson 16.

بہار بورڈ درخشاں اردو سوال و جواب
بیدی سے انٹرویو 16

مختصر ترین سوالات۔

(1) انٹرویو لینے والوں کے نام بتائیے۔
جواب - عصمت چغتائی اور فیاض رفعت

(2) کس کا انٹرویو لیا گیا ہے؟
جواب - راجندرا سنگھ بیدی کا

(3) راجندرا سنگھ بیدی کس شہر میں پیدا ہوئے؟
جواب - لاہور

(4) بیدی کے پہلے افسانہ کا نام کیا ہے؟
جواب - مہارانی کا تحفہ

(5) بیدی کی موت کب ہوئی؟
جواب - 11 نومبر 1984 کو

(6) راجیندر سنگھ بیدی کی پیدائش کہاں ہوئی؟
جواب - ایک ستمبر 1915 کو لاہور میں

مختصر سوالات۔

(1) راجیندر سنگھ بیدی کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟
جواب - راجیندر سنگھ بیدی کی پیدائش یکم ستمبر 1915 کو لاہور میں ہوئی۔

(2) بیدی نے کن کن دفاتر میں کام کیے ؟
جواب - راجیندر سنگھ بیدی درج ذیل دفاتر میں کام کیے۔
آل انڈیا ریڈیو
اسٹیشن ڈائریکٹر
پوسٹ آفس

(3) بیدی لاہور کے کس محکمہ میں کام کرتے تھے؟
جواب - پوسٹ آفس

(4) عصمت آپا کی شخصیت پر پانچ جملے لکھیے۔
جواب - عصمت چغتائی اردو ادب کی مشہور و ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار ہے۔ وہ مشہور مزاح نگار عظیم بیگ چغتائی کی بہن تھی۔ اُن کی شاہکار کہانیوں اور ناولوں نے اردو ادب کے سرمایہ میں کافی اضافہ کیا ہے۔ دونوں اصناف میں فنی اعتبار سے اُن کا مرتبہ و مقام خاصا بلند ہے۔

(5) بیدی اور کرشن چندر میں پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟
جواب - پنجاب پبلک لائبریری میں

نوٹ۔ دسویں  جماعت کے اردو ( درخشاں ) کا سوال و جواب پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ یہاں ہر مضمون پر تحریر پوسٹ کی جاتی ہے۔

Aashiyana-E-Haqeeqat

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS