find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Shadishuda Zindagi Me Ek Dusre Ko Kaise Khush Rakhe?

Azdwaji Zindagi Me Ek Dusre Ko khush Rakhna.
محبت ازل سے انسانوں کے درمیان اہم ترین جذبہ رہا ہے۔ عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے ایسی کشش محسوس کرتے ہیں جس کے سامنے بعض اوقات ہر چیز ہیچ ہوجاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان میں بھوک کے بعد دوسری طاقت ور جبلت جنس ہے جس کا اظہار محبت کے جذبے میں ہوتا ہے۔ انسانوں نے بے شمار لازوال کہانیاں، اشعار اس موضوع پر تخلیق کیے ہیں لیکن یہ جذبہ ہمیشہ کی طرح آج بھی تر و تازہ ہے اور دنیا کے بہترین ذہنوں کو تخلیقی طور پر ابھارتا رہتا ہے۔
جدید زندگی میں جہاں انسان کی نفسیات میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں وہاں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ محبت بھی پہلے کی نسبت کچھ عارضی نوعیت کی چیز بنتی جارہی ہے۔ جدید انسان اپنی ہی ذات میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے فرد کو اہمیت دینے کو تیار نہیں اور چوں کہ وہ کسی دوسرے کو اہمیت نہیں دیتا اس لیے اسے جواباً اہمیت ملتی بھی کم ہے۔ یوں آپس کے تعلقات مضبوط روابط میں نہیں ڈھل پاتے۔ شادی جو دو انسانوں کو ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ جوڑنے والا ادارہ ہے اور جو ہماری جنسی جبلت اور محبت کے جذبے کی تسکین کادرست اور اخلاقی اعتبار سے معاشرے کا پسندیدہ راستہ ہے یہ بھی دو انسانوں کے درمیان قربت پیدا کرنے میں زیادہ کام یاب نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر جوڑے یہ شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ دوسرا فرد ان کی بات نہیں سمجھتا یا انھیں اہمیت نہیں دیتا۔ اس کا حل کیا ہے اور کیا ماہرین نفسیات روز مرہ زندگی کے ایسے مسائل کو بھی حل کرسکتے ہیں؟ اس معاملے میں بڑے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسے طریقے موجود ہیں جو شادی شدہ جوڑوں کے درمیان اچھے روابط استوار کرنے اور موجودہ روابط کو مضبوط کرنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔
شادی شدہ جوڑوں کے درمیان معمولی نوک جھوک کوئی پریشان کن بات نہیں بلکہ یہ ازدواجی زندگی کے معمول کا حصہ ہے۔ اصل پریشانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب یہ معمولی تکرار جھگڑے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ دونوں افراد ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے لگتے ہیں۔ سخت جملوں اور تلخ باتوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور بعض اوقات بات جسمانی لڑائی تک پہنچ جاتی ہے۔ ان حالات میں بعض اوقات دونوں یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک طرح کے جہنم میں رہ رہے ہیں، لیکن وہ اس بات کے بارے میں کم ہی غور کرتے ہیں کہ موجودہ حالت تک کیسے پہنچے۔ یہ بات بھی روز مرہ مشاہدے میں آتی ہے کہ عموماً شادی شدہ جوڑے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز خوش گوار انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور نیک خواہشات موجود ہوتی ہیں۔ مشاہدے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عموماً مسائل کا آغاز نہایت معمولی باتوں سے ہوتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ منفی محسوسات کو کیسے اپنے قابو میں رکھا جائے؟ دو افراد کے درمیان ایسی باتوں کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جو ناخوش گوار ہو۔ بعض اوقات شادی کے ابتدائی دنوں میں جو باتیں دل چسپ معلوم ہوتی ہیں کچھ مدت گزرنے کے بعد وہی ناپسندیدہ ٹھہرتی ہیں۔

ماہرین نفسیات نے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے اور زیادہ تر ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایسے جوڑوں کو کسی نفسیاتی علاج سے زیادہ اچھی تعلیم اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ انھیں اس بات کو جاننا چاہیے کہ تعلقات کس طرح بنتے، پروان چڑھتے اور کمزور یا طاقتور ہوتے ہیں؟ اچھے تعلقات بنانا اور قائم رکھنا ایک مہارت ہے جسے ہر کوئی سیکھ سکتا ہے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو حسب منشا استوار کرسکتا ہے۔ شادی شدہ جوڑوں کو یہ بات سیکھنا ضروری ہے کہ وہ کیسے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کی موجودگی میں خوش گوار زندگی گزار سکتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کی سوچ میں آنے والی اس تبدیلی نے کہ مسائل کا شکارشادی شدہ جوڑوں کو نفسیاتی طریقہ علاج کی نہیں بلکہ شعور کی ضرورت ہے۔ ذہنی صحت کے شعبے میں اہم تبدیلی پیدا کی ہے۔ اس سلسلے میں ضروری بات یہ ہے کہ لوگوں کو ضروری نفسیاتی مہارتیں سکھائی جائیں۔ جسے آپ نفسیاتی تعلیم کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ نفسیاتی تعلیم سے مراد ہے لوگوں کو ایسا علم دینا جس کی بنا پر وہ اپنی مدد آپ کرسکیں۔ اس بات نے علاج سے پرہیز بہتر ہے کہ کہاوت کو مزید بامعنی بنا دیا ہے۔

شادی شدہ جوڑوں کے بارے میں جو تحقیقات کی گئی ہیں وہ یہ بتاتی ہیں کہ اکثر جوڑے شادی کے ابتدائی برسوں میں اپنی ازدواجی زندگی میں الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اکثر جوڑے ازدواجی زندگی کے حقائق کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور ایک طرح کی رومانوی فضا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے یہی کافی ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ ازدواجی زندگی صرف محبت کے سہارے نہیں گزر سکتی اس میں بہت سی دوسری باتیں بھی اہم ہوتی ہیں۔ شادی شدہ جوڑوں کو یہ مہارت سیکھنا ہوتی ہے کہ آپس کے اختلافات پر کیسے قابو پانا ہے ا

Share:

Zindagi me Ek Dusre Ki Galtiyon Ko NajerAndaaj Karna Sikhe.

ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ
ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺴﮯ ﻭﮦ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ- ﯾﮧ ﺍﯾﮏ
ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻓﻨﮑﺸﻦ ﺗﮭﺎ- ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ
ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ
ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ- ﯾﮧ ﺩﻥ ﺍﻥ ﺳﺐ
ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ- ﻭﮦ
ﻟﮍﮐﯽ ﻻﻝ ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ
ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ- ﻟﮍﮐﺎ ﺑﮭﯽ
ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﻟﯽ ﺷﯿﺮﻭﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺩﻟﮑﺶ
ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ- ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ
ﺍﭼﮭﮯ ﻟﮓ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ- ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﺎ
ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﯿﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﺑﮩﺖ ﺳﭽﺎ ﺗﮭﺎ-
ﮐﭽﮫ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ
ﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﮕﺰﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺑﻨﺎﯾﺎ
ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ- ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﺴﭧ ﺗﯿﺎﺭ
ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ،ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ
ﮐﯽ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻟﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯼ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ- ﺍﻭﺭ
ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﮐﺲ
ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺣﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮔﺰﺍﺭ
ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ- ﺍﺳﮑﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ-
ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻟﮓ
ﺍﻟﮓ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ
ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺧﻔﺎ
ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ- ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﺍ
ﺩﻥ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﻧﮭﯿﮟ
ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮔﺌﮯ-
ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺻﺒﺢ ﻧﺎﺷﺘﮯ ﮐﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺍﻧﮭﻮﮞ
ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﺴﭧ
ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ- ﺍﺳﮑﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ
ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ- ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﻟﺴﭧ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﯼ
ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺗﮭﯿﮟ- ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﭘﺮ
ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﺎﺩﺗﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺩﯼ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺳﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﯽ ﺑﺮﯼ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ-
ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ
ﺷﮑﺎﯾﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﮦ ﻟﺴﭧ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﯽ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﮯ- ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ
ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ
ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ
ﻟﺴﭧ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﺭﮨﮯ- ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﮔﺌﯽ
ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺻﻔﺤﺎﺕ
ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺳﻨﺎ ﺩﺋﯿﮯ-
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ
ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ-ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ
ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﺴﭧ ﭘﮍﮬﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ
ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﺴﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺑﺎﺗﻮﮞ
ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﺴﺌﻠﻮﮞ
ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺣﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ- ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻢ
ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ
ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮ- ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ
ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺑﺪﻟﻮ- ﺗﻢ ﺑﮩﺖ
ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﺳﯿﺮﺕ ﮨﻮ- ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺪﻟﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ
ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ-
ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﯽ ﭘﺮ ﺧﻠﻮﺹ
ﻣﺤﺒﺖ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ
ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﻣﺘﺎﺛﺮ
ﮨﻮﺋﯽ- ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺟﮭﮏ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﻭﮦ ﺭﻭ ﭘﮍﯼ-
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻣﻮﺍﻗﻊ ﺁﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﮨﻢ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺧﻔﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ- ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ
ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ
ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ-
ﮨﻢ ﺧﻮﺵ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺍﭼﮭﯽ
ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﻏﻠﻄﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﻼ ﺩﯾﮟ- ﺍﺱ
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﮯ ،ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ
ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ
ﮐﯽ ﻏﻠﻄﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻈﺮﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﯿﮑﮫ
ﺟﺎﺋﯿﮟ-
ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺁﭖ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﯾﮟ- ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺑﮭﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ-

Share:

Apni Biwi Ke Khidmat Ki Qader Karna.

" اپنی بیوی کی خدمات کی قدر کیا کریں ! "
"عورت کی جگہ باورچی خانہ اور مرد کا کام کمانا "
یہ ایک عام سوچ ہے ہمارے معاشرے کی ، اور کوئی غلط بھی نہیں ہے
ایک پر سکوں زندگی گزارنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے کہ عورت گھر میں رہ کر بچوں کی تعلیم و تربیت کرے اور شوہر کما کر گھریلو اخراجات پورے کرے !
لیکن اس بات کا اکثر غلط استعمال بھی دیکھنے میں آیا ہے جہاں کچھہ مرد حضرات یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر کبھی کھانا بنا لیا یا گھر کا کوئی اور کام کر لیا تو ان پر زن مریدی کا ٹھپہ لگ جائے گا ، یا پھر یہ کہ عورتوں کے کام ہم مرد کرتے ہوئے کوئی اچھے لگیں گے بھلا ؟
یہ تھوڑی backwordd سوچ ہے ، بیشک گھر کو سنبھالنا عورت ہی کا کام ہے مگر مرد کو اتنا گھریلو کام تو آنا چاہیے کہ اگر کبھی بیچاری بیوی بیمار ہو جائے تو شوہر کو گھر کے کاموں میں مدد کے لئے کسی اور کی طرف نہ دیکھنا پڑے
ذرا سوچئے کہ روز جب آپ صبح اٹھتے ہیں. آپ کو چائے بنی ہوئی ملتی ہے ناشتہ تیار ملتا ہے کپڑے استری ہوئے ملتے ہیں اور جب شام کو تھکے ہارے گھر کو لوٹتے ہیں تو گرم کھانا بھی تیار ملتا ہے
یہ سب باتیں ایک بیوی کی اپنے شوہر سے فرمانبرداری کو ظاہری کرتی ہیں نا؟
گھر میاں بیوی دونوں کی زمے داری ہے یہ ٹیم ورک ہوتا ہے، ایک دوسرے کی undrstanding سے ہی گھر " گھر" بنتا ہے
یقین مانیں اگر آپ کبھی گھر کے کام میں تھوڑی مدد کر لینگے تو آپ کی عزت پر کوئی حرف نہیں آئے گا بلکہ یہ effort آپ دونوں کے پیار میں اور اضافہ ہی کرے گا ..
دین اسلام نے خاوند پر بیوی کے کچھ حقوق رکھے ہيں ، اور اسی طرح بیوی پر بھی اپنے خاوند کے کچھ حقوق مقرر کیے ہيں ، اور کچھ حقوق تو خاوند اور بیوی دونوں پر مشترکہ طور پر واجب ہیں ۔ اگر دونوں ان حقوق کو ادا کرینگے تو ان کی زندگی ہمیشہ پرسکون گزرے گی ان شاء الله !!!
سبق کے لئے مثالی شوھر کی سب سے بڑی مثال ہمارے پیارے آقا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں جو کبھی بھی کوئی کام کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے اور ان کا اپنی بیویوں سے سلوک مثالی تھا!!!
ابن زید رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :
تم ان عورتوں کے بارے میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو اور اس سے ڈرو ، جس طرح کہ ان عورتوں پر بھی ہے کہ وہ بھی تمہارے بارے میں اللہ تاکوا اختیار کرے۔

Share:

Shauhar Aur Biwi ka Ek Dusre ka fikr nahi karna.

ایک دوسرے کے لئے فکر نہ کرنا

میاں بیوی کے درمیان جو سب سے اہم چیزہے وہ ایک دوسرے کے لئے فکر کرنا ہے۔اگر دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کا خیال نہیں رکھے گا تو یہ رشتے میں دراڑ کی آغاز ہوگا۔
اعتماد کی کمی

ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہی رشتے کی مضبوطی کی ضمانت ہے لیکن اگر اعتماد میں کمی آنے لگے تو پھر جان لیں کہ اب رشتہ ٹوٹنے کی جانب گامزن ہے۔

اپنی محسوسات کا اظہار نہ کرنا

خاموشی رشتے کے لئے شدید نقصان دہ ہے،اگر آپ اپنے محسوسات کا اظہار نہیں کریں گے تو آپ کے جیون ساتھی کو آپ کے جذبات کا علم نہیں ہوپائے گا اور بلاوجہ تعلق میں بدمزگی پیدا ہوگی اور رشتہ خطرے میں پڑجائے گا۔
ایک دوسرے کو نظرانداز کرنا

اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ہمارا جیون ساتھی ایک فضول چیز ہے اور ہم اسے نظرانداز ہی کرنا شروع کردیں تو ایسی صورت میں بھی کئی قباحتیں جنم لیں گی۔

طنز کرنا

ہر انسان سے غلطی ہوتی ہے لیکن اس غلطی کو معاف کردینا ایک اچھی چیز ہے۔میاں بیوی کے تعلق میں تو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کسی غلطی پر ایک دوسرے کو طنز نہ کیا جائے۔اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کا رشتہ جلد کمزور ہونے لگے گا کیونکہ یہ انسانی جبلت ہے کہ اسے طنز بالکل بھی پسند نہیں ہوتا۔

مالی معاملات میں لاپرواہی کرنا

میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور مل جل کر گھر چلانا دونوں کی ذمہ داری ہے۔اگر میاں کماکر لائے اور بیوی فضول خرچی کرے یا میاں کام کرنے کی بجائے گھر پر ہی پڑا رہے تو دونوں صورتوں میں مالی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور گھر میں ناچاقی شروع ہوجاتی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ایسی صورتحال سے بچا جائے ورنہ رشتہ کمزور ہوجائے گا۔

ایک دوسرے کو مکمل تبدیل ہوتے دیکھنا

یہ کسی بھی صورت ممکن نہیں کہ آپ کی بیوی یا شوہر آپ کی خاطر مکمل طور پر تبدیل ہوجائے۔ہر انسان کی کچھ عادات ہوتی ہیں اور انہیں تبدیل کرنا آسان نہیں۔اگر آپ اپنے جیون ساتھی سے ایسی کوئی امید لگاکر بیٹھے ہیں تو فوری طور پر اپنی اس امید کو بدل لیں ورنہ کافی مسائل پیدا ہوں گے۔

شک کرنا

بلاوجہ شک کی وجہ سے بھیکئی گھر برباد ہوتے ہیں لہذا آپ کو اس عادت کو دور رہنا ہوگا ورنہ رشتہ نبھانے میں فی مشکل پیش آئے گی۔

ایک دوسرے کے خاندانوں کو نظر انداز کرنا

ہر مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیوی اس کے والدین اور بین بھائیوں کو وقت دے اور اسی طرح عورت بھی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس کی فیملی کی عزت کرے لیکن اگر دونوں میں سے کوئی بھی ایک یہ کام نہ کرے تو مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔

ماضی کی باتوںپر نظر رکھنا

ہر انسان کو ایک ماضی ہوتا ہے جو اچھا اور برا ہوسکتا ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے جیون ساتھی کے ماضی کو کریدنا شروع کردیں کیونکہ اس طرح مسائل کا پیدا ہونا یقینی ہے۔

Share:

Kamyab Shauhar Banne Ke Chand Nasihatein.

Ache SHUHAR banne ke Kuchh Nasihaten

کامیاب شوہر بننے کے لیے 10 تجاویز
(1)شریکِ حیات کے لیے زیبائش اِختیار کیجیے:اپنی شریکِ حیات کے لیے خُوبصورت لباس زیبِ تن کیجیے،خُوشبو لگائیے۔ آپ آخری بار اپنی بیوی کے لیے کب بنے سنورے تھے؟؟رسول اللہ ﷺ کا فرمان گرامی ہے :إنَّ اللهَ جميلٌ يحبُّ الجَمالَ( السلسلة الصحيحة 4/167)ترجمہ : اللہ تعالیٰ خود بھی خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں۔جیسے مرد چاہتے ہیں کہ اُن کی بیویاں اُن کے لیے زیبائش اِختیار کریں،اسی طرح خواتین بھی یہ خواہش رکھتی ہیں کہ اُن کے شوہر بھی اُن کے لیے زیبائش اختیار کریں۔ یاد رکھیے کہ اللہ کے رسول ﷺ گھر لوٹتے وقت مسواک استعمال کرتے ۔سألتُ عائشةَ . قلتُ : بأيِّ شيءٍ كان يبدأُ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إذا دخل بيتَهُ ؟ قالتْ : بالسواكِ .(صحيح مسلم:253)ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ نبی ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تو کس چیز سے شروع کرتے ؟ تو انہوں نے جواب دیا: مسواک سے ۔
(2)شریکِ حیات کواس کے اپنے محبوب نام سے پکاراجائے:بہت سے لوگ اپنی بیوی کو برے برے القاب سے پکارتے ہیں جس کی وجہ سے بیوی کے دل میں ہمیشہ نفرت بنی رہتی ہے ۔نبی ﷺ اپنے بیویوں کو اس کے اپنے نام سے پکارا کرتے تھے ۔ جیساکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے :إِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِعَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ(البخاري:3230ومسلم:2446).ترجمہ: بے شک عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں میں ویسے ہی ہے جیسے سارے کھانوں میں ثرید۔اگر شوہر بیوی کو اس کے پسندیدہ نام سے پکارے تو یہ بھی اچھا ہے ، اس سے محبت میں زیادتی پیدا ہوگی ۔
(3)خوبیوں کی قدر کیجیے :اپنی شریکِ حیات سے مکھی جیسا برتاؤ مت کیجیے۔اپنی روزمرہ زندگی میں ھم مکھی کے بارے میں سوچتے بھی نہیں،یہاں تک کہ وہ ہمیں تنگ کرے۔ اسی طرح بعض اوقات عورت تمام دن اچھا کام کر کے بھی شوہر کی توجہ حاصل نہیں کر پاتی،یہاں تک کہ اُس کی کوئی غلطی شوہر کا دھیان کھینچ لیتی ہے۔ ایسا برتاؤ مت کیجیے،یہ غلط ہے۔ اُس کی خوبیوں کی قدر کیجیے اور انھی خوبیوں پر توجہ مرکوز کیجیے۔خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي(صحيح ابن ماجه:1621 و صحيح الترمذي:3895)ترجمہ : تُم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے والا ہے۔اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں سے بہترین پیش آنے والا ہوں۔
(4)غلطیوں سے صرفِ نظر کیجیے:اگر آپ اپنی شریکِ حیات سے کوئی غلطی سرزد ہوتے دیکھیں تو درگزر کیجیے۔ یہی طریقہ نبی اکرم ﷺ نے اپنایا کہ جب آپ ﷺ نے ازواجِ مطہرات سے کچھ غیر موزوں ہوتے دیکھا تو آپ ﷺ نےخاموشی اختیار کی۔ اس اسلوب میں بہت کم مسلمان مرد ہی مہارت رکھتے ہیں۔حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنھم کے لئے ایک چوڑے برتن میں کھانا لائیں۔(اتنے میں) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آگئیں۔ انہوں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی اور ان کے پاس ایک پتھر تھا۔ انہوں نے پتھر مار کر برتن توڑدیا۔ نبی اکرمﷺ نے برتن کو دونوں ٹکڑوں کو ملا کر رکھا اور دوبار فرمایا:”کھاؤ ، تمہاری ماں کو غیرت آگئی تھی”۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا برتن لے کر حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا کے ہاں بھیج دیا اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا کا(ٹوٹا ہوا) برتن حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو دے دیا۔(صحیح سنن النسائی:3693)
(5)شریکِ حیات کو دیکھ کر مسکرائیے: ۔جب بھی اپنی شریکِ حیات کو دیکھیں تو دیکھ کر مسکرا دیجیے اور اکثر گلے لگائیے۔ مُسکرانا صدقہ ہے اور آپ کی شریکِ حیات اُمّتِ مسلمہ سے الگ نہیں ہے۔تبسُّمُكَ في وجْهِ أخيكَ لَكَ صدقةٌ(صحيح الترمذي: 1956)ترجمہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی پر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔تصور کیجیے کہ آپ کی شریکِ حیات آپ کو ہمیشہ مسکراتے ہوۓ دیکھے تو آپ کی زندگی کیسی گزرے گی۔ اُن احادیث کو یاد کیجیے کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے جانے سے پہلے اپنی زوجہ کو بوسہ دیتے جبکہ آپ ﷺ روزہ کی حالت میں ہوتے۔ ۔عن عائشة رضي الله عنها قَالَتْ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لأرْبِهِ(صحیح البخاری :1927 وصحیح مسلم:1106 )ترجمہ : عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے روزہ کی حالت میں بوس وکنار کیا کرتے تھے ، اورانہيں اپنے آپ پرتم سے زيادہ کنٹرول تھا ۔
(6)شکریہ ادا کیجیے:وہ تمام کام جو آپ کی شریکِ حیات آپ کے لیے کرتی ہیں،اُن سب کے لیے اُن کا شکریہ ادا کیجیے۔ بار بار شکریہ ادا کیجیے،مثال کے طور پر گھر پر رات کا کھانا۔ وہ آپ کے لیے کھانا بناتی ہے،گھر صاف کرتی ہےاور درجنوں دوسرے کام۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ لاَّ یَشْکُرِ النَّاسَ لَا یَشْکُرِ اللّٰہَ۔(صحیح سنن الترمذي: 1952)ترجمہ: جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔اکثر دیکھا جاتا ہے کہ شکریہ کے بجائے ہرکام کی عیب جوئی کی جاتی ہے ۔ بعض اوقات واحد ‘تعریف’ جس کی وہ مستحق قرار پاتی ہے وہ یہ کہ ‘آج سالن میں نمک کم تھا’۔ خدارا! ایسا مت کیجیے۔ اُس کا احسان مند رہیے۔ ۔
(7)شریکِ حیات کو خوش رکھیے:اپنی شریکِ حیات سے کہیے کہ وہ ایسی 10 باتوں سے متعلق آگاہ کرے جو آپ نے اُس کے لیے کیں اور وہ چیزیں اُس کی خوشی کا باعث بنیں۔ پھر آپ ان چیزوں کو اپنی شریکِ حیات کے لیے دہرائیے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جاننا مشکل ہو کہ کیا چیز اسے خُوشی دے سکتی ہے۔ آپ اس بارے میں خود سے قیاس مت کیجیے، براہِ راست اپنی شریکِ حیات سے معلوم کیجیے اور ایسے لمحوں کو اپنی زندگی میں بار بار دھراتے رہیے۔ ۔
(8)آرام کا خیال رکھیے:اپنی شریکِ حیات کی خواہشات کو کم مت جانیے۔اسے آرام پہنچائیے۔ بعض اوقات شوہر اپنی بیویوں کی خواہشات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں۔ ایسا مت کیجیے۔هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا(اعراف : 189)وه اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وه اس اپنے جوڑے سے سکون حاصل کرے۔بیوی اپنے شوہر کو راحت وسکون دینے والی ہے لہذا مرد کو بھی اپنے بیوی کی راحت کا بھرپور خیال کرنا چاہئے ۔
(9)مزاح کیجیے:اپنی شریکِ حیات سے مزاح کیجیے اور اس کا دل بہلائیے۔ نبی ﷺ مزاح کیا کرتے تھے اور لوگوں کا دل بہلایا کرتے تھے ۔قالوا: يا رسولَ اللَّهِ ! إنَّكَ تداعِبُنا ؟ ! قالَ: إنِّي لا أقولُ إلَّا حقًّا(صحيح الترمذي:1990)ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے خوش طبعی کی باتیں کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(ہاں لیکن ) میں حق بات ہی کہتا ہوں۔آپ بھی مزاح کے ذریعہ اپنی بیوی دل جیت سکتے ہیں مگر یاد رہے خوش طبعی یا مزاح میں بھی بیوی کی جھوٹی تعریف یا جھوٹا مذاق نہیں کرنا چاہئے۔
(10)بہتر بننے کی کوشش کیجیے: ۔ ہمیشہ نبی اکرم ﷺ کے یہ الفاظ یاد رکھیے:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي(صحيح ابن ماجه:1621 و صحيح الترمذي:3895)
”تُم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے والا ہے۔اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں سے بہترین پیش آنے والا ہوں”۔اس لئے آپ بھی ہمیشہ بھتر بننے کی کوشش کیجیے اوراپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اللہ کے حضور دعا کرنا مت بھولیے کیونکہ اللہ کی مدد کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے ، وہ ہمارے معاملات سے باخبر ہے ۔
Share:

Neki Ki Taraf Bulane wale ko Neki Karne wale ke braber Sawab Milega.

NEKI KI  TARAF REHNUMAI KARNE WALE KA SAWAB

          Abu Mas'ood ansari Raziyallahu anhu farmate hain ke aek aadmi nabi sallallahu alaihi wa sallam ke pas aaya aur kaha meri sawari halak ho chuki hai aap mujhe koi sawari de dijiye, aap ne farmaya: mere pas sawari nahi hai, aek aadmi ne kaha My is aadmi ko aise aadmi ka pata de sakta hu jo ise sawari de sakta hai ,Aap ne farmaya: *neki ka hukm dene wale ko neki karne wale ke barabar sawab hai.
📖 MUSLIM: 1893 📚
SAHEEH HADEES

Share:

Filisteen Ke Halaat Aur Hm Musalmano Ki Ikdamaat.

Filisteen Me Musalmano Ka Halaat Aur Humari Ikdamaat.

موضوع: اٹھے گا کب تلک شعلہ فلسطیں کے مکانوں سے. تحریر عبدالســـــــلام ندوی*Tahreer 2017
مسئلہ فلسطیں کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی یہ رسائل ومجلات کی زینت اور اخبارات وجرائد کی سرخی بنا رہا ہے،خصوصا قیام اسرائیل کے بعد پوری دنیا کیلئے درخور اعتناء بن گیا ہے،اور اب جبکہ ہزارہ سوم کی دوسری دہائی کا نصف حصہ گزر چکا ہے،پوری دنیا خصوصا یہودی طبقہ نے اپنی پوری توجہ اسکی جانب مبذول کردی ہے،یہودیوں کی نظر میں بیت المقدوس کا حصول اور اسکی جگہ ہیکل سلیمانی کی ازسر نو تعمیر پوری دنیا پر حکمرانی کی ہری جھنڈی اور عظیم اسرائیل(جوکہ پورے عالم عرب پہ محیط ایک اسرائیلی ملک بنانے کا خواب ہے، جیساکہ انہوں اپنے قومی پرچم میں دو دریاؤوں کی تصویر کے ذریعہ ظاہر کیا ہے جن سے مراد دریائے نیل وفرات ہے،Google پہ Greater Israel کی تصاویر دیکھیں) کے قیام کے خواب کی تکمیل ہوگی،چنانچہ اسکے لئے انہوں نے بیسوی صدی کی پہلی دہائی سے ہی سیاسی اور عسکری اعتبار سے ہی کوششیں شروع کردی ہیں، اور روز افزوں ظلم،جبر،سازش،روباہ بازی،اور غیرمعمولی ذہانت کا استعمال کرکےاپنے مقصد کےحصول ونفاذ کے قریب ہوتے جارہے ہیں،
ان تمام جارحانہ کاروائیوں سے یہودیوں کا اصل مقصد بیت المقصد کو منہدم کرکے اسکی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا ہے،انکی نظر میں ہیکل سلیمانی اپنے اصل شکل میں موجود نہیں ہے،لہذا اسے اسکی پہلی اور اصل شکل میں تعمیر کرنا ہی انکے تمام ظالمانہ وجابرانہ اقدامات کا ھدف اصلی ہے،(واضح رہے بیت المقدس قبل از عہد اسلام دو مرتبہ منہدم کیا گیا تھا،پہلی مرتبہ بخت نصر کے ذریعہ 570 ق م میں اور دوسری مرتبہ رومن حاکم ٹائٹس کے ہاتھوں 70ء میں)
ایک طرف یہودیوں کا یہ بخار اور جنون ہے اور دوسری طرف مسلمان خواب خرگوش میں محو ہیں،ملت اسلامیہ کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو دل دردمند اور فکر سوزمند رکھتا اور مسئلہ فلسطین کو سنجیدگی سے لیتا ہو،
علماء عالمی حالات سے ناواقف بوسیدہ فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور حکمراں وبرسر اقتدار طبقہ شکم پروری ،حصول جاہ،اور شاہ کی مصاحبت میں بدمست ہیں،تنگ خیال، پست حوصلہ، تہی ظرف دشمن اسلام فتوے باز دوسروں کی تکفیر میں لگے ہوئے ہیں اور آرام طلب،تن پرور،پست ہمت عوام انکی اندھی تقلید میں، نہ کوئی تنظیم اسکی جانب توجہ کررہی ہے نہ ہی کوئی تحریک -حالانکہ ۵۸ مسلم ملکوں پہ مشتمل اسلامی دنیا کی سب سے بڑی تنظیمO.I.C کا قیام ہی بیت المقدس میں آتش زنی کی مجرمانہ حرکت کے بعد عمل میں آیاتھا، لیکن اسکا بھی کوئی اقدام سامنے نہیں آرہا ہے،ایسے موقعہ پر تو حسین آزاد کا وہ ناصحانہ شعر ہی یاد آتا ہے،جس میں انہوں نے عالم اسلام خصوصا عالم عرب کو مخطب کرکے کہا تھا کہ،
ذرا سوچو عرب والوں فلسطیں کی مصیبت پر یہ کیوں خاموش بیٹھے ہو سگے بھائی کی رحلت پر 
 
چنانچہ ایسے پرخطر حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کا ہر طبقہ اپنے روایتی اور بوسیدہ فروعی مسائل کو بالائے طاق رکھ کے مسئلہ فلسطین کیلئے سنجیدہ ہوں اور ایک مقام پر سر جوڑ کر بیٹھ کے شہر قدس کی بازیابی کی فکر کرے ورنہ مسقبل میں جو خطرات رونما ہونے کے اندیشے ہیں وہ کس قدر تباہ کن ہوں گے اسکا تخمینہ کرنا بھی ناممکن ہے-
Share:

Deeni Adaare Me Chamche Baji Ya Chamcha Giri.

دینی ادارے اور چمچے بازی یا چمچہ گیری

سچ تو یہی بات کہلاتی کہ کھانے پینے میں برتن اور کٹورے  قاب
کے رہتے بھی چمچہ کا کتنا بڑا رول ہے کہ جب تک اس کا سہارا
نہیں لیجیئے آپ قاب سے پلاؤ ،بریانی اور چاول نکال تو سکتے ہیں
لیکن اتنی خوبصورتی اور سلیقے نہیں لگیں گے ،جتنا خوبصورت وہ
ساری دسترخوان پر لگیں قسم قسم کی اشیاءِ خوردنی
چمچے کے قبیل یا اسی قبیلے خاندان سے کف گیر کا تعلق بتلایا جاتا
اور نسب نامے میں ان کا ذکر بھی ملتا ہے ،اس لیئے چونکنے  کی کوئی ضرورت نہیں ، بس قدوقامت کا فرق تسلیم کیا  جاسکتا ہے
لیکن اسے کیسے باور کرلیا جائے کہ جب چمچے کا سہارا لیا ہی جاتا
ہے تو پھر اسے پکڑ کے  کوئی ،چمچہ گیری یا کف  خیزی  کا  کام کیوں کرے ، لیکن بعضے لوگ اپنی طبیعت اور فطرت سے اتنے
مجبور لگتے کہ ان کو شرم بھی نہیں آتی اور چمچے پکڑ لیتے ۔ اسی سے چمچہ گیری کی وجہِ تسمیہ سمجھی جاسکتی ہے ،لیکن  یہ سمجھنا
قدرے مشکل سا لگتا کہ جہاں شب و روز کتاب و سنت اور
فرمانِ الہی اور بیان رسول ربانی کے سبق پڑھائے جاتے ،جس
کا مطلب ہی ہے ،حق جوئی ، حق گوئی اور حق طلبی و حق بیانی
تو پھر اپنے چھوٹے سے فائدے کی خاطر لوگ کسی طرح  کے
دینی تعلیمی و تنظیمی اداروں میں  آقا کو خوش کرنے اوربہ ذریعہ چمچہ گیری اپنی نا اہلیت کو صلاحیت و لیاقت کا جامہ  پہنا  کر
اوروں کا حق مارنے کا کام کرتے کیا شرماتے نہیں ۔ یارا
حد کردی جاتی کبھی کبھی اور اپنے میں ہی ایسا خراب لگنے لگتا
کہ توبہ بھلی ، نہ جانے کیسی ہے یہ رسم چلی ۔ چمچہ گیری کو آپ کسی وبا سے کم نہیں سمجھئیے، بلکہ یہ اس کو پیچھے   چھوڑکر کہیں مضرکہلا سکتی کہ کوئی وبا تو اسی کو اپنی زد پر لیتی ،لیکن اس اخلاقی وبا کا اثر ان پر بھی مرتب  لگنے لگتا ، جو واقعی سچے پکے
سزاوار و حقدار سمجھے جاتے ۔ لیکن کیا کیجئے کہ جب تملق باز و
تملق پسند اور چمچے کف خیز و کف گیراور کٹورے قاب ایک ہی قطار کھڑے دِکھیں تو  پھر اللہ کرے  خیر.
Share:

Cheenk Aane Pe Jo Alhamdulillah Kahe Usi Ko Jawab Dena Chahiye.

Cheenk aane par jo Alhamdulillah kahe sirf usee ko YarhamakAllah kah Kar Jawab dena  chahiye.
Rasool-Allah Sallallahu Alaihi Wasallam ke paas do admiyon ko cheenk aayee Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne Ek ki cheenk par dua di (yani yarhamakAllah kaha) aur dusre ki cheenk Ka Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne Jawab nahi diya , usne Kaha Ya Rasool-Allah Sallallahu Alaihi Wasallam Aap ne uski cheenk par dua di aur meri cheenk par Aap ne dua Nahi di, to Rasool-Allah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaya unko cheenk aayee to unhone Allah Subhanahu ki hamd bayan ki aur aapko cheenk aayee to aapne Allah Subhanahu ki hamd bayan nahi ki
Jamia Tirmaizi, Jild 2,640-Sahih
------
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی، آپ نے ایک کی چھینک پر دعا دی  (یعنی يرحمك الله کہا )اور دوسرے کی چھینک کا آپ نے جواب نہیں دیا، تو جس کی چھینک کا آپ نے جواب نہ دیا تھا اس نے کہا:اے  اللہ کے رسول آپ نے  ان کی چھینک پر  دعا دی اور میری چھینک پر آپ نے مجھے  دعا نہیں دی تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہونے چھینک آنے پر اللہ سبحانه  کی حمد بیان کی اور ( آپ کو  چھینک آئی تو ) آپ  نے اس  کی حمد نہ کی
جامع ترمذی جلد ۲ حدیث ٦٤٠ صحیح
Two men sneezed in the presence of the Prophet (ﷺ); he responded to one of them (By saying YarhamakAllah) and did not respond to the other. The one who was not responded to said: O Messenger of Allah ﷺ You responded to this person and did not respond to me ? So the Messenger of Allah (ﷺ) said: He praised Allah while you did not praise Him.
Jamia Tirmizi,Book 41, 2742-Sahih
       ☆▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬☆
Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo

Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare !
  JazakAllah  Khaira Kaseera

Share:

Kya Quran Ko Chumna Aur Aankho Se Lagana Sahi Hai?

Kya Quran Ko Chumna,Peshani Se Lagana Aur Aankhon Se Lagana Sahi Hai?

سوال۔ایک آدمی جب بہی مسجد میں نماز کیلے آتا ہے تو وہ پہلے قرآن مجید کو چومتا ھے اور آنکھوں سے لگاتا ہے۔اتنا ہی نہی بلکہ اپنی پیشانی سے مسح یعنی رگڑتا ہے پہر ہا تھ مل کر بدن پر پہیر تا ہے۔قر ان وسنت سے محظوظ فرماے.
الجواب بعون رب العياد:
كتبه:ابوزهير محمد.يوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
تخصص:فقہ واصولہ۔
☪☪☪☪☪☪☪☪
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم رب کریم کی آخری مقدس کتاب ہے اسے محبت کرنا اسے محبت کرنا اسکے احکام ومسائل پر عمل کرنا ہر مسلمان مردوعورت کے لئے لازمی ہے۔
لیکن اس رب کی کتاب کو چومنا اسے اپنی پیشانی کے ساتھ لگانا نبی علیہ السلام کا فعل نہیں ہے۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کو چومنا اسے اپنی پیشانی کے ساتھ لگانا مشروع عمل نہیں اسلئے کہ ایسا کرنا نبی اکرم علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے۔
البتہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو چومے اور اسے اپنی پیشانی کے ساتھ محبتا اور تعظیما لگائے تو ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکا ترک ہی افضل واولی ہے۔
اسلئے کہ عکرمہ بن ابی جھل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ مصحف کو چومتے اور فرماتے کہ یہ میرے رب کا کلام ہے۔[ فتاوى نور على الدرب ،  حكم تقبيل المصحف ووضعه على الجبهة ، الأثر:كشاف القناع عن متن الاقناع137/1].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ نے قرآن کریم کو چومنا اسے بدعت کہا ہے اسلئے کہ ایسا کرنا نبی علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے۔[فتاوی ابن عثیمن]۔
علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اسے بدعت قرار دیتے ہیں اسلئے کہ ایسا کرنا نبی علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے ،  نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر ندعت گمراہی ہے اور بدعت کا انجام جہنم ہے۔[صحيح الترغيب والترهيب1/92/34]۔
اگے فرماتے ہیں کہ دین میں ہر کسی عمل کے قبول ہونے کے لئے دو اہم شرط ہیں: ایک اخلاص دوسری شرط اتباع اور قرآن کو چومنا جب نبی علیہ السلام سے ثابت ہی نہیں اسلئے اسے بدعت کہنا صحیح ہے۔[شریط الشیخ ، كيف نفسر القرآن].
فتوی لجنہ میں یہ فتوی موجود ہے کہ قرآن کو چومنا اسکی کوئی اصل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔ ۔ ۔  ۔ ۔  [فتاوى اللجنة الدائمة رقم4172]۔
علامہ ابن باز ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ قرآن کو چومنا من باب عبادت بدعت ہے البتہ اگر صرف تعظیم وغیرہ کے لئے چومے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔[فتوى لسماحة الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله من فتاوى مجلة الدعوة العدد:1643]۔
**************************
خلاصہ کلام: قرآن کو چومنا وغیرہ کسی بھی صحیح دلیل سے ثابت نہیں نہ ایسا نبی علیہ السلام نے کیا اور نہ صحابہ نے نہ ہی ایسا سلف صالحین سے ثابت ہے علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے جو عکرمہ کا فعل نقل کیا ہے اسے بعض علماء ومحدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اسلئے بہتر اور افضل یہی ہے کہ قرآن کو نہ چوما جائے اسلئے کہ اگر ایسا کرنے میں خیر وبھلائی ہوتی تو ضرور ایسا خود نبی علیہ السلام کرتے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
Share:

Kya Aurat Bagair Mehram Ke Hajj Ya Umrah Pe Ja Sakti Hai?

KYA AURAT BAGHAIR MEHRAM KE HAJ YA UMRAH KAR SAKTI HAI?

Jawab📕

Bismillahhirrahmanirrahim
  Mehram ke baghair aurat ke liye safar karna jayez nahi chahe uska safar farz  haj ya umrah ke liye hi kyu na ho.

✔☘ibn Abbas Radiallahu anhu se rivayat hai ke Rasool’Allah sallallaho alaihi wasallam ne farmaya
“Mehram ke baghair aurat safar mat kare aur nahi koi shaks uski tanhaai me uske paas jaaye siwaye iske ke aurat ka mehram uske sath ho.
To ek shaksh ne arz kiya
Mera to irada fala fala lashkar ke sath jane ka hai aur meri biwi haj pe jana chahti hai❓
To Rasool’Allah sallallaho alaihi wasallam ne farmaya tum apni biwi ke sath jaao.”

📚Sahi Bukhari, 1729
📚Sahi Muslim 2391

Is hadees ke alawa dusri ahadees jo baghair mehram aurat ke safar ki hurmat karti hai uske bina pe ulemae deen ne aurat par haj farz hone ki sharto me ek shart aurat ka mehram ke sath hona bhi rakhi hai, isliye agar apke sath jane ke liye mehram nahi hai to ap par haj farz nahi hai aur ap mazoor hai aur in shaa’a Allah apko apni niyat ka ajr wa sawab hasil hoga.
Imam Ahmad Rahimahullah se sawal kiya gaya ke
Ek maaldaar aurat ke paas mehram nahi to kya us par haj farz hota hai❓
Imam Ahmad Rahimahullah ne jawab diya
Nahiiiii ❗
📘Al Mughni Ibn Qudaimah(3/97)

✔Standing committee ne kaha:

Sahi Qual ye hai ke aurat ka agar shauhar ya uska koi mehram nahi hai to us par haj farz nahi hai kyunki haj ke farz hone ki sharto me se ek shart ye bhi hai ke aurat ka mehram uske sath ho.
Allah Ta’ala Surah Al-Imran Ayat 97 me farmata hai ke jo haj kar sakta hai uspe haj farz hai

“Allah Ta’ala ne un logo par jo uski taraf ki Raah pa sakte ho, us ghar ka haj farz kar diya hai.”
📘Fataawa al-Lajnah al-Daa’imah (11/90, 91)

🔴Ulemaae deen Qur’an ki tafseer me likhte hai ke:
“Raah pa sakte ho” ka matlab ye hai ke Raste ke kharch ka intezam ho, yani itna maal ho ke Raste ka kharch asaani se pura ho jaaye,iske siwaye intezam se murad ye bhi hai ke raaste me aman ho aur jaan wa maal mahfooz ho, isi tarah ye bhi zaruri hai ke sehat safar ke layaq ho, iske alawa aurat ke liye uska mehram zaruri hai.
📗Fatahul Qadeer

Share:

Jume Ke Din ki Fazilat Quran-O-Hadees Se.

Jume Ke Din Ki Fazilat Quran-o-Hadees Me

جمعہ کے فضائل قرآن و صحیح حدیث سے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو ۔
سورہ جمعہ آیت نمبر 09
پہلے جانے کی فضیلت
 *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا*
کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کر کے نماز پڑھنے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی ( اگر اول وقت مسجد میں پہنچا ) اور اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسرے نمبر پر گیا تو گویا اس نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی دی۔ اور جو کوئی چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا اس نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا۔ لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 881
عورتوں کے لئے نماز جمعہ
❤اس پہ بات سب کا اتفاق ہے کہ جمعہ کی نماز صرف مردوں پہ فرض ہے ، عورتوں پہ فرض نہیں ہے ۔اس کی دلیل :
الجمعةُ حقٌّ واجبٌ على كلِّ مسلمٍ في جماعةٍ ؛ إلا أربعةً : عبدًا مملوكاً ، أو امرأةً ، أو صبيًّا ، أو مريضًا(صحيح الجامع للالباني : 3111)
ترجمہ: جمعہ کی نماز ہر مسلمان پہ جماعت کے ساتھ واجب ہے سوائے چار لوگوں کے ، غلام،عورت ، بچہ اور بیمار۔
لیکن یہاں یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ اگر عورت جمعہ کی نماز میں شامل ہوجاتی ہے تو اس کی نماز جمعہ صحیح ہے اور اس سے ظہر کی نماز ساقط ہوجائے گی ۔ نبی ﷺ کے زمانے میں صحابیات جمعہ میں شریک ہوتی تھیں۔
⭐دلیل : عن أم هشام بنت حارثة بن النعمان: وما أخذت (ق والقرآن المجيد) إلا عن لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها كل يوم جمعة على المنبر إذا خطب الناس.(صحیح مسلم : 873)
ترجمہ :سیدہ اُم ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورۂ ق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے (سن کر) ہی تو یاد کی تھی، آپ اسے ہر جمعہ کے دن منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
اس حدیث میں دلیل ہے کہ صحابیہ ام ہشام رضی اللہ عنہاجمعہ کی نماز میں شریک ہوتی تھی ، جمعہ میں شرکت کی وجہ سے خطبہ نبوی میں پڑھی جانے والی سورت ق انہیں حفظ ہوگئی۔
❤یہاں ایک اور بات یاد رکھنی چاہئے کہ عورتوں کا اکٹھا ہوکر الگ سے عورتوں کے لئے جمعہ کی نماز قائم کرنے کی دلیل نہیں ملتی ۔
خطبہ سنا اور خاموش رہا
❤ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا* جس نے وضو کیا اور اچھی طرح کیا ۱؎ پھر جمعہ کے لیے آیا ۲؎، امام کے قریب بیٹھا، غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن کے ۳؎ کے گناہ ۴؎ بخش دیئے جائیں گے۔ اور جس نے کنکریاں ہٹائیں تو اس نے لغو کیا۔
 یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جامع ترمذی رقم 498
جمعہ کے فرائض دو رکعت ہیں۔
آپﷺ نےفرمایا
«من أدرك من الجمعة رکعة فلیصلي إلیها أخری» (سنن ابن ماجہ:١١٢١)
’’جو شخص جمعہ سے ایک رکعت پالے تو اسکے ساتھ دوسری آخری رکعت ملا لے۔‘‘
⚛اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ نمازِ جمعہ کے فرائض صرف دو رکعات ہیں۔ جو اس دن ظہر کی نماز کے متبادل ہوجائیں گے اور ظہر کی نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
♥‍دل پر مہر لگا دے گا“
 _*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم*_ نے فرمایا: ”جو جمعہ تین بار سستی ۱؎ سے حقیر جان کر چھوڑ دے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا“
جامع ترمذی رقم 500
درود کثرت سے پڑھیں
 *نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا*
تمہارے دنوں میں سب سے افضل  ( بہترین )  جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن بیہوشی طاری ہو گی، لہٰذا تم مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلاۃ  ( درود و رحمت )  بھیجو کیونکہ تمہاری صلاۃ  ( درود و رحمت )  مجھ پر پیش کیے جائیں گے  ۱؎ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری صلاۃ  ( درود و رحمت )  آپ پر کس طرح پیش کی جائیں گی حالانکہ آپ ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے، کہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، آپ نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ
انبیاء علیہم السلام کے جسم کو کھائے ۔
نسائی حدیث نمبر 1375
کفارہ
❤ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا*: ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔
ابن ماجہ حدیث نمبر 1086
ایک ساعت ( گھڑی
❤ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا* جمعہ کا دن بارہ ساعت ( گھڑی ) کا ہے، اس میں ایک ساعت ( گھڑی ) ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اس ساعت کو پا کر اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور دیتا ہے، لہٰذا تم اسے عصر کے بعد آخری ساعت ( گھڑی ) میں تلاش کرو ۔
ابو داود حدیث نمبر 1048
جمعہ کے دن سورۃ کہف
 حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے والے کے لئے دو جمعوں کے درمیانی عرصہ کے لئے روشنی رہتی ہے۔
امام حاکم نے بھی اسے روایت کیا ہے ( مستدرک ص368 ج 2 )..
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS