find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Biddat. Show all posts
Showing posts with label Biddat. Show all posts

Juma Mubarak Kahna Biddat (encourage things) hai, Juma Mubarak Ka Messages.

Juma Mubarak kahna Biddat hai?

kisi Musalman ke liye Juma Mubarak kahna Kaisa hai?

#Juma Mubarak #Biddat #Gumrahi #Shirk #Gairullah 

Allah ta’ala ne Mubarakbaad dene ke tareeqe bataaye hain. Hamen waisa hi karna chahiye…  Jaise Eidain Ki mUbarakbaad ke liye dua sikhaayi “Taqabballahi Wa minna Wa minkum” (AL-MUGHNEE 2/259)

Lekin Jumah Ke liye Aisa kuch ni faramaya lihaza ye biddat hai.. Jumah Mubarak bolna Nabi se ya sahaba se sabit nahi hai, kisi hadees me bhi nahi hy… Nabi (S.A.W) ne Deen kaha tak sikhaye waha tak hamw sikhna hai.

Nabi se agay nahi badna hai. ….Quran ,Surah Furqan (ayat no 27) me Allah swt kahte hai “Aur us din zalim shaksh apne hath chaba chaba kar kahega ke haye kash ke maine Rasul (saw) ki raah ikhteyar ki hoti”…

—>>Ayesha r.a. riwayat karti hai ki

Mohammad s.a.w. ne farmaya ki Jisne hamare is deen me kuch aisi baat shamil ki jisme hamara amal nai hai to wo mardud (Rejected) hai.

{Sahih al bukhari, had-2697
Sahih Muslim, had-1718.}

–>>Abdullah Ibn UMar (RA) farmate hain:

TAMAAM Biddatein GUMRAAHI hain, agarche “Ba-Zaahir woh, logon ko ACHCHI lagein”.
{SUNAN KUBRA BAIHAQI (HADITH138).}

Jumma Mubarak kehna ALLAH ke Rasul s.a.w. se sabit nai hai aur jo kehte hai …wo sahih hadith se sabit karke batayen.

…Upar Quran aur Ahadith ki roshani se ye pata chala ke apni taraf se koi kam karne me koi fayeda nahi hai aur jo aisa krta hai wo qayamat ke din ruswa hoga ke jo ALLAH ke Rasul saw hame bata ke nahi gaye hamne  wo kam kyun kiya.

ख्वाजा गरीब नवाज कौन है, आला हजरत किसको कहते है, क्या ख्वाजा मतलब हिजड़ा होता है?

अहले बैत में कौन लोग शामिल है, अहले बैत किसको कहते है?

एक नेक सैय्यद जादी खातून का वाक्या जिसने शादी नही की मगर दूसरो से...

क्या इस्लाम मुहब्बत का दुश्मन है? इस्लाम में वेलेंटाइन डे या कोई और दिन मनाने का हुक्म?

Share:

Khawaja kaun hai, Khawaja Sira ka matlab kya hota hai, Transgender Kaise hote hai?

Khawaja Sira kise kahte hai?
Khawaja ke bare me Sharai ahkamat kya hai?



"سلسلہ سوال و جواب نمبر-369"
سوال- خواجہ سرا کسے کہتے؟ ان کے بارے شرعی احکامات کیا ہیں؟ کیا وہ مردوں میں شامل ہیں یا عورتوں میں؟ انکو وراثت میں حصہ کس طرح دیا جائے گا؟ نیز انکے نکاح ، جنازہ اور انکی نماز میں امامت  کے بارے شریعت کیا کہتی ہے؟ تفصیلی جواب درکار ہے!

Published Date: 6-2-2022

جواب!
الحمدللہ!

*خواجہ سرا کو عربی میں ’’مخنث‘‘ اور اردو میں ’’ہیجڑہ‘‘ یا "کھسرا" کہا جاتا ہے۔ جو حرکات و سکنات اور گفتگو میں پیدایشی طور پر عورتوں کے مشابہ ہو، اور ایسی خلقت والے لوگ آج کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی موجود تھے،اور شریعت میں ایسے لوگوں کے حوالے سے تفصیلی راہنمائی موجود ہے،فقہائے کرام نے اپنی کتب فقہ میں ایسے لوگوں کے حوالے سے تفصیلی مباحث بیان فرمائی ہیں*

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ جنس موجود تھی، بعض کے نام بھی ملتے تھے کہ وہ معیت ،نافع ،ابوماریہ الجنّہ اور مابور جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ یہ لوگ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرائع اسلام اداکرتے تھے۔نمازیں پڑھتے ،جہاد میں شریک ہوتے اور دیگر امورخیربھی بجالاتے تھے ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بے ضررمخلوق ہے۔ آدمی ہونے کے باوجود انہیں عورتوں کے معاملات میں چنداں دلچسپی نہیں ہے ۔اس لئے آپ ازواج مطہرات کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب آپ کوپتہ چلا کہ انہیں عورتوں کے معاملات میں خاصی دلچسپی ہی نہیں بلکہ یہ لوگ نسوانی معلومات بھی رکھتے ہیں، توآپ نے انہیں ازواج مطہرات اوردیگر مسلمان خواتین کے ہاں آنے جانے سے منع فرما دیا، بلکہ انہیں مدینہ بدر کر کے روضہ خاخ ،حمرآء الاسد اور نقیع کی طرف آبادی سے دور بھیج دیا،تاکہ دوسرے لوگ ان کے برے اثرات سے محفوظ رہیں۔(صحیح بخاری، المغازی: ۴۲۳۴)

صحیح بخاری
کتاب: نکاح کا بیان
باب: عورتوں کا بھیس بدلنے والے مردوں کا خواتین کے پاس آمدورفت کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 5235
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا وَفِي الْبَيْتِ مُخَنَّثٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْمُخَنَّثُ لِأَخِي أُمِّ سَلَمَةَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ:‏‏‏‏ إِنْ فَتَحَ اللَّهُ لَكُمْ الطَّائِفَ غَدًا أَدُلُّكَ عَلَى بِنْتِ غَيْلَانَ فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَدْخُلَنَّ هَذَا عَلَيْكُنَّ
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ام سلمہ ؓ نے اور ان سے ام المؤمنین ام سلمہ نے کہ  نبی کریم  ﷺ  ان کے یہاں تشریف رکھتے تھے، گھر میں ایک مغیث نامی مخنث بھی تھا۔ اس مخنث  (ہیجڑے)  نے ام سلمہ کے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ ؓ سے کہا کہ اگر کل اللہ نے تمہیں طائف پر فتح عنایت فرمائی تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی کو دکھلاؤں گا کیونکہ وہ سامنے آتی ہے تو  (موٹاپے کی وجہ سے)  اس کے چار شکنیں پڑجاتی ہیں اور جب پیچھے پھرتی ہے تو آٹھ ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم  ﷺ  نے  (ام سلمہ سے)  فرمایا کہ یہ  (مخنث)  تمہارے پاس اب نہ آیا کرے۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم دیا کہ ان مخنثوں کو بے ضررخیال کرکے اپنے پاس نہ آنے دیں ،بلکہ انہیں گھروں میں داخل ہونے سے روکیں۔

*واضح رہے کہ مخنّث بنیادی طورپر مرد ہوتا ہے، لیکن مردانی قوت سے محروم ہونے کی وجہ سے عورتوں جیسی چال ڈھال اور گفتار اختیار کئے ہوتا ہے ۔یہ عادات اگر پیدائشی ہیں تو انہیں چھوڑنا ہو گا، اگر پیدائشی نہیں بلکہ تکلف کے ساتھ انہیں اختیار کیا گیا ہے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختیار پر لعنت فرمائی ہے،احادیث ملاحظہ فرمائیں*

صحیح بخاری
کتاب: لباس کا بیان
باب: مردوں کا عورتوں کی سی صورت اور عورتوں کا مردوں کی سی صورت اختیار کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 5885
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ عَمْرٌو ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ .
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں۔

صحیح بخاری

کتاب: لباس کا بیان
باب: عورتوں کی صورت اختیار کرنے والے کو گھر سے نکال دینا
حدیث نمبر: 5886
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْقَالَ:‏‏‏‏ فَأَخْرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فُلَانًا، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْرَجَ عُمَرُ فُلَانًا.
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے مخنث مردوں پر اور مردوں کی چال چلن اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی اور فرمایا کہ ان زنانہ بننے والے مردوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم  نے فلاں ہیجڑے کو نکالا تھا اور عمر ؓ نے فلاں ہیجڑے کو نکالا تھا۔

سنن ابوداؤد
کتاب: ادب کا بیان
باب: ہیجڑوں کا بیان
حدیث نمبر: 4928
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا أُسَامَةَ أَخْبَرَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي يَسَارٍ الْقُرَشِيِّ،‏‏‏‏عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَأُتِيَ بِمُخَنَّثٍ قَدْ خَضَّبَ يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ بِالْحِنَّاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا بَالُ هَذَا ؟ فَقِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَتَشَبَّهُ بِالنِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِهِ فَنُفِيَ إِلَى النَّقِيعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا نَقْتُلُهُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي نُهِيتُ عَنْ قَتْلِ الْمُصَلِّينَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ:‏‏‏‏ وَالنَّقِيعُ نَاحِيَةٌ عَنْ الْمَدِينَةِ وَلَيْسَ بِالْبَقِيعِ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  کے پاس ایک ہیجڑا لایا گیا جس نے اپنے ہاتھوں اور پیروں میں مہندی لگا رکھی تھی تو نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا:  اس کا کیا حال ہے؟ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ عورتوں جیسا بنتا ہے، آپ نے حکم دیا تو اسے نقیع کی طرف نکال دیا گیا، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اسے قتل نہ کردیں؟، آپ نے فرمایا:  مجھے نماز پڑھنے والوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے  نقیع مدینے کے نواح میں ایک جگہ ہے اس سے مراد بقیع  (مدینہ کا قبرستان)  نہیں ہے۔  
تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١٥٤٦٤) (صحیح  )

 البتہ خنثی اس سے مختلف ہوتا ہے، کیونکہ فقہا کے ہاں اس کی تعریف یہ ہے کہ ’’جو مردانہ اور زنانہ آلات جنسی رکھتا ہو یا دونوں سے محروم ہو۔‘‘   
[المغنی لابن قدامہ، ص:۱۰۸ ، ج۹]

 *بلوغت سے پہلے اس کے لڑکے یا لڑکی ہونے کی پہچان اس کے پیشاب کرنے سے ہوسکتی ہے اور بلوغ کے بعد اس کی داڑھی یا چھاتی سے پہچانا جا سکتا ہے ۔بہر صورت وہ شرعی احکام کاپابندہے، اگر مرد ہے تو مردوں جیسے اور اگر عورت ہے تو عورتوں کے احکام پر عمل کیا جائے۔*

_______&_________

 *سعودی مفتی شیخ صالح المنجد سے مخنث کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:*

اول:
1 ـ خنثى لغت عرب ميں اس شخص كو كہتے ہيں جو نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہى خالص عورت، يا پھر وہ شخص جس ميں مرد و عورت دونوں كے اعضاء ہوں ، يہ خنث سے ماخوذ ہے جس كا معنىٰ نرمى اور كسر ہے، كہا جاتا ہے خنثت الشئ فتخنث، يعنى: ميں نے اسے نرم كيا تو وہ نرم ہو گئى، اور الخنث اسم ہے.
اور اصطلاح ميں: اس شخص كو كہتے ہيں جس ميں مرد و عورت دونوں كے آلہ تناسل ہوں، يا پھر جسے اصل ميں كچھ بھى نہ ہو، اور صرف پيشاب نكلنے والا سوراخ ہو.

2 ـ اور المخنث: نون پر زبر كے ساتھ: اس كو كہتے ہيں جو كلام اور حركات و سكنات اور نظر ميں عورت كى طرح نرمى ركھے، اس كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:
جو پيدائشى طور پر ہى ايسا ہو، اس پر كوئى گناہ نہيں.

دوسرى قسم:
جو پيدائشى تو ايسا نہيں، بلكہ حركات و سكنات اور كلام ميں عورتوں سے مشابہت اختيار كرے، تو ايسے شخص كے متعلق صحيح احاديث ميں لعنت وارد ہے، خنثى كے برخلاف مخنث كے ذكر يعنى نر ہونے ميں كوئى اخفاء نہيں ہے.

3 ـ خنثى كى دو قسميں ہيں:
منثى مشكل اور خنثى غير مشكل.

ا ـ خنثى غير مشكل:
جس ميں مرد يا عورت كى علامات پائى جائيں، اور يہ معلوم ہو جائے كہ يہ مرد ہے يا عورت، تو يہ خنثى مشكل نہيں ہو گا، بلكہ يہ مرد ہے اور اس ميں زائد خلقت پائى جاتى ہے، يا پھر يہ عورت ہو گى جس ميں كچھ زائد اشياء ہيں، اور اس كے متعلق اس كى وراثت اور باقى سارے احكام ميں اس كا حكم اس كے مطابق ہو گا جس طرح كى علامات ظاہر ہونگى.

ب ـ خنثى مشكل:
يہ وہ ہے جس ميں نہ تو مرد اور نہ ہى عورت كى علامات ظاہر ہوں، اور يہ معلوم نہ ہو سكے كہ يہ مرد ہے يا عورت، يا پھر اس كى علامات ميں تعارض پايا جائے.

تو اس سے يہ حاصل ہوا كہ خنثى مشكل كى دو قسميں ہيں:

ايك تو وہ جس كو دونوں آلے ہوں، اور اس ميں علامات بھى برابر ہوں، اور ايك ايسى قسم جس ميں دونوں ميں سے كوئى بھى آلہ نہ ہو بلكہ صرف سوراخ ہو.

4 ـ جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ اگر بلوغت سے قبل خنثى ذكر سے پيشاب كرے تو يہ بچہ ہوگا، اور اگر فرج سے پيشاب كرے تو يہ بچى ہے.

اور بلوغت كے بعد درج ذيل اسباب ميں سے كسى ايك سے واضح ہو جائيگا:

اگر تو اس كى داڑھى آ گئى، يا پھر ذكر سے منى ٹپكى، يا پھر كسى عورت كو حاملہ كر ديا، يا اس تك پہنچ گيا تو يہ مرد ہے، اور اسى طرح اس ميں بہادرى و شجاعت كا آنا، اور دشمن پر حملہ آور ہونا بھى اس كى مردانگى كى دليل ہے، جيسا كہ علامہ سيوطى نے اسنوى سے نقل كيا ہے.

اور اگر اس كے پستان ظاہر ہو گئے، يا اس سے دودھ نكل آيا، يا پھر حيض آ گيا، يا اس سےجماع كرنا ممكن ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر اسے ولادت بھى ہو جائے تو يہ عورت كى قطعيت پر دلالت كرتى ہے، اسے باقى سب معارض علامات پر مقدم كيا جائےگا.

اور رہا ميلان كا مسئلہ تو اگر ان سابقہ نشانيوں سے عاجز ہو تو پھر ميلان سے استدلال كيا جائيگا، چنانچہ اگر وہ مردوں كى طرف مائل ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر وہ عورتوں كى طرف مائل ہو تو يہ مرد ہے، اور اگر وہ كہے كہ ميں دونوں كى طرف ايك جيسا ہى مائل ہوں، يا پھر ميں دونوں ميں سے كسى كى طرف بھى مائل نہيں تو پھر يہ مشكل ہے.

سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
فقہ ميں جہاں بھى خنثى كو مطلق بيان كيا جائے تو اس سے خنثى مشكل مراد ہے. انتہى مختصرا (ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 21 - 23 )

دوم:
الخنثى: ہمارى مراد خنثى مشكل ہے، اس كو دونوں آلے يعنى مرد اور عورت دوں كے عضو ہوں تو اس كى دو قسميں ہيں:

ايك تو ايسى قسم ہے جس ميں يہ راجح نہيں كہ وہ دونوں ميں سے كونسى جنس ہے، اور دوسرى وہ قسم جس كے بارہ ميں معلوم ہو جائے اس كى علامات ميں: ميلان شامل ہے،
چنانچہ اگر تو وہ عورت كى طرف مائل ہو تو وہ مرد ہے، اور اگر اس كا ميلان مردوں كى جانب ہے تو وہ عورت ہو گى.
اور جنسى طور پر عاجز وہ شخص ہو گا جس كا عضو تناسل تو ہے ليكن كسى بيمارى يا نفسياتى يا عصبى يا كسى اور سبب كے باعث وہ جماع كى طاقت نہ ركھتا ہو، جس كے نتيجہ ميں نہ تو اس سے جماع ہو گا، اور نہ ہى استمتاع اور نہ ہى اولاد پيدا ہو گى.

اس سے يہ واضح ہوا كہ جنسى طور پر ہر عاجز شخص ہيجڑا يعنى خنثى نہيں ہوتا، بلكہ ہو سكتا ہے وہ كسى بيمارى كى علت كے سبب جنسى عاجز ہو، اور اس كا تخنث كے ساتھ كوئى تعلق ہى نہيں، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ مخنث يعنى ہيجڑا ہو ليكن وہ جنسى طور پر وطئ كرنے پر قادر ہو.

ا ـ رہا ہيجڑے كى شادى كا مسئلہ تو اس كے متعلق عرض ہے كہ:

اگر تو وہ غير مشكل ہے تو اس كى حالت كے مطابق اس كى دوسرى جنس سے شادى كى جائيگا، اور اگر وہ خنثى مشكل ہے تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، اس كا سبب يہ ہے كہ احتمال ہے كہ وہ مرد ہو تو مرد مرد سے كيسے شادى كر سكتا ہے ؟! اور يہ بھى احتمال ہے كہ وہ عورت ہو تو عورت عورت سے كيسے شادى كر سكتى ہے؟!

اور اگر وہ عورت كى طرف مائل ہو اور مرد ہونے كا دعوى كرے تو يہ اس كے مرد ہونے كى ترجيح كى علامت ہے، اور اسى طرح اگر وہ مرد كى طرف مائل ہو اور عورت ہونے كا دعوى كرے تو وہ عورت ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خنثى يا تو مشكل ہو گا يا پھر غير مشكل، اگر وہ غير مشكل ہو اور اس ميں مردوں كى علامات ظاہر ہوں تو مرد ہے اور اسے مردوں كے احكام حاصل ہونگے، يا پھر اس ميں عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو وہ عورت ہے اور اسے عورتوں كے احكام حاصل ہوں گے. اور اگر وہ خنثى مشكل ہے اس ميں نہ تو مردوں اور نہ ہى عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو اس كے نكاح ميں ہمارے اصحاب كا اختلاف ہے: خرقى كا كہنا ہے كہ اس ميں اس كا قول مرجع ہوگا اور اس كے قول كو مانا جائيگا، اگر تو وہ كہتا ہے كہ وہ مرد ہے، اور اس كى طبيعت عورتوں سے نكاح كى طرف مائل ہوتى ہے تو اسے عورت سے نكاح كا حق حاصل ہے. اور اگر وہ يہ بيان كرے كہ وہ عورت ہے اور اس كى طبيعت مردوں كى طرف مائل ہوتى ہے تو اس كى مرد سے شادى كى جائيگى؛ كيونكہ يہ ايسا معنى ہے جس تك اس كے ذريعہ ہى پہنچا جا سكتا ہے، اور اس ميں كسى دوسرے كو ايجاب كا حق حاصل نہيں، تو بالكل اس كا قول قبول ہو گا جس طرح عورت كا حيض اور عدت ميں قبول كيا جاتا ہے، اور وہ اپنے آپ كو جانتا ہے كہ اس كى طبيعت اور شہوت كس جنس كى طرف مائل ہوتى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حيوانات ميں عادت بنائى ہے كہ مذكر مؤنث كى طرف مائل ہوتا ہے، اور مؤنث مذكر كى طرف مائل ہوتا ہے. اور يہ ميلان نفس اور شہوت ميں ايك ايسا معاملہ ہے جس پر كوئى دوسرا مطلع نہيں ہو سكتا صرف صاحب ميلان اور شہوت كو پتہ چلتا ہے، اور اس كى ظاہرى علامات كى معرفت ہمارے ليے مشكل ہے، اس ليے باطنى امور ميں جو اس كے ساتھ مخصوص ہيں ميں اس كے حكم كى طرف رجوع كيا جائيگا، يعنى اس كى بات مانى جائيگى.(ديكھيں: المغنى ( 7 / 319 )

اور يہ كہنا كہ خنثى مشكل كى شادى صحيح نہيں يہ جمہور علماء كا قول ہے، اگر وہ اپنى طبيعت ميں ميلان اور شہوت ديكھے تو كيا كرے ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

ہم اسے كہيں گے صبر كرو، حتى كہ اللہ تعالى آپ كى حالت اس سے بہتر كر دے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور نكاح كے باب ميں " خنثى مشكل " جس كا مرد اور عورت دونوں كا عضو تناسل ہو، يعنى مرد كا عضو تناسل بھى اور عورت كى شرمگاہ بھى اور يہ واضح نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت، اس طرح كہ وہ پيشاب دونوں سے كرتا ہو، اور اس ميں كوئى ايسى چيز نہ ہو جو اسے امتياز كرے كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، نہ تو وہ عورت سے شادى كرے اور نہ ہى مرد سے، عورت سے شادى اس ليے نہ كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى عورت ہو، اور عورت كى عورت سے شادى نہيں ہو سكتى، اور نہ ہى كسى مرد سے شادى كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى مرد ہو اور مرد كى مرد سے شادى نہيں ہو سكتى. وہ اسى طرح بغير شادى كے ہى رہے حتى كہ اس كا معاملہ واضح ہو جائے، اور جب واضح ہو جائے تو اگر وہ مردوں ميں ہو تو عورت سے شادى كر لے، اور اگر عورتوں ميں شامل ہو تو مرد سے شادى كر لے، يہ اس وقت تك حرام ہے جب تك اس كا معاملہ واضح نہيں ہو جاتا۔ (ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 160 )

اور شيخ رحمہ اللہ اس كو مكمل كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اور اگر اسے شہوت ہو اور اب شرعى طور پر اس كى شادى ممنوع ہو تو وہ كيا كرے ؟ ہم اسے كہيں گے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے جو كوئى بھى طاقت ركھتا ہے وہ شادى كرے كيونكہ يہ اس كى آنكھوں كو نيچا كر ديتى ہے، اور شرمگاہ كو محفوظ كرتى ہے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا وہ روزے ركھے "
تو ہم اسے كہيں گے كہ تم روزے ركھو. اور اگر وہ كہتا ہے كہ: ميں روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو اسے ايسى ادويات دى جا سكتى ہيں جو اس كے معاملہ كو آسان كر دے، اور يہ قول غير مشروع طريقہ سے منى خارج كرنے كے قول سے بہتر ہے. (ديكھيں: الشرح المتتع ( 12 / 161 )

ب ـ اور جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى كے متعلق عرض ہے كہ:
شريعت ميں اس كے ليے كوئى مانع نہيں، ليكن اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ جس سے شادى كر رہا ہے اس كے سامنے واضح كرے كہ وہ جنسى طور پر عاجز ہے يعنى اپنى پورى حالت بيان كرے، اور اگر بيان نہيں كرتا تو گنہگار ہوگا، اور عورت كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے؛ كيونكہ استمتاع اور اولاد شادى كے عظيم مقاصد ميں شامل ہيں، اور يہ ان حقوق ميں شامل ہيں جو خاوند اور بيوى دونوں ميں مشترك ہيں "

اور الموسوعۃ الفقہيۃ ميں درج ہے:
" العنۃ: يعنى شہوت نہ ہونا: جمہور فقھاء كے ہاں يہ ايك ايسا عيب ہے جو ايك برس كى مہلت دينے كے بعد بيوى كو خاوند سے عليحدگى كا اختيار ديتا ہے.
حنابلہ ميں سے ايك جماعت جن ميں ابو بكر اور المجد ـ يعنى ابن تيميہ ـ شامل ہيں، نے اختيار كيا ہے كہ عورت كو في الحال فسخ كا اختيار حاصل ہے.
اور جمہور نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى روايت جس ميں انہوں نے شہوت سے عاجز شخص كے ليے ايك برس كى مدت مقرر كى تھى سے استدلال كيا ہے؛ اور اس ليے كہ بيوى كا مقصود تو شادى كر كے عفت و عصمت اختيار كرنا ہے، اور اس سے اس كو اپنے نفس كے ليے عفت حاصل ہو سكتى ہے، اور ايسا عقد نكاح سے مقصود كا بالكل ہى خاتمہ كر دے اس ميں عاقد كو عقد ختم كرنے كا حق حاصل ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ خريد و فروخت ميں عيب كى وجہ سے تھوڑا سا بھى مال جاتا رہے تو اس ميں اختيار ثابت ہو جاتا ہے، چنانچہ عيب كى وجہ سے بالاولى نكاح كا مقصد فوت ہو جائيگا " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 31 / 16 )

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

(مآخذ:
فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 09 ص
محدث فتوی)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں پیدائشی طورپر ایک ہیجڑاہوں۔میری شکل وصورت ،چال ڈھال اورجسمانی ساخت وپرواخت انتہائی طورپر لڑکیوں سے مشابہہ ہے میرانام لڑکیوں والااورلباس بھی لڑکیوں والاپہنتا ہوں ۔میرے سرکے بال لڑکیوں کی طرح لمبے اور خوبصورت ہیں۔ایک آواز ہے جولڑکیوں سے قدرے بھاری ہے ۔مجھے دیکھنے والالڑکی ہی خیال کرتا ہے ۔میرے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ میرا گروعدالتی کارروائی کے ذریعے مجھے میرے والدین سے چھین کرلے آیاتھا۔ میں بچپن سے اب تک گرو کی صحبت میں اوراسی کی زیرتربیت رہا ہوں، اس لئے ناچ گانے کاپیشہ اپناناایک فطرتی بات تھی ،تاہم میں شروع ہی سے اس کاربدکونفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا،اب جبکہ میراگرومرچکا ہے اورمیں آزاد ہوں ۔میری عمر تیس بتیس سال کے قریب ہے، لیکن میں اپنے گرو کے مکان میں دوسرے ہیجڑے ساتھیوں کے ساتھ رہتاہوں ۔مجھے اس پیشہ سے جنون کی حدتک نفرت ہوچکی ہے، میں نے عزم کرلیا ہے کہ میں اس پیشہ اورہیجڑوں سے کنارہ کش ہوجاؤں اوراپنی توبہ کاآغاز حج بیت اللہ کی سعادت سے کرناچاہتاہوں ۔میری الجھن یہ ہے کہ میں مردوں کی طرح حج کروں یاعورتوں کی طرح ۔کتاب وسنت کے مطابق میری الجھن حل کریں مجھے اس بات کاعلم ہے کہ اگرمیں مردوں کی طرح حج کروں تو مجھے احرام باندھنا ہوگااورمجھے بدن کاکچھ حصہ ننگارکھناہوگا،اس کے علاوہ سرکے بال بھی منڈوانا ہوں گے، لیکن سچی بات ہے کہ میرے لئے یہ امربہت مشکل ہوگا۔جس سے مجھے خوف آتا ہے بلکہ تصور کرکے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جبکہ عورتوں کی طرح حج کرنے میں مجھے آسانی ہی آسانی ہے، کیونکہ میں نے اب تک عمرکاتمام حصہ عورتوں کی طرح گزاراہے اور جنسی طورپر مردانہ خواہش کبھی بھی میرے دل میں نہیں ابھری، بعض علما سے دریافت کرنے سے الجھن کاشکارہو چکاہوں کہ کیا کروں اور کیانہ کروں ،مجھے کسی نے کہا ہے کہ اگرتم مسئلہ کاصحیح حل چاہتے ہوتوکسی وہابی عالم کی طرف رجوع کرو، اس لئے میں نے آپ کی طرف رجوع کیا ہے ۔مجھے جلدی اس کاجواب دیا جائے؟

 جواب!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس قدر طویل سوال کے باوجود بعض امور دریافت طلب ہیں،تاہم جواب پیش خدمت ہے۔ اس سلسلہ میں چندباتیں ملاحظہ کریں:

اولاً: گرو کا والدین سے عدالتی کارروائی کے ذریعے چھین کر لے آنا انتہائی محل نظر ہے، کیونکہ ایساکوئی قانون نہیں ہے جس کا سہارالے کرعدالتی کارروائی کے ذریعے اس ’’مخلوق ‘‘کواس کے والدین سے زبردستی چھینا جھپٹی کی جاسکے ۔یقینا اس میں والدین کی مرضی شامل ہو گی، جس کے متعلق وہ جوابدہ ہوں گے۔ ایسے متعددواقعات ہمارے مشاہدے میں ہیں کہ اس جنس کے گروحضرات والدین سے انہیں لینے آئے، لیکن والدین نے انکار کردیااورانہیں دینی مدرسہ میں داخل کرایا۔دینی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ وہ گانے بجانے کا دھندا کرنے کے بجائے دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کافریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔

ثانیاً: اس کام سے صرف نفرت ہی کافی نہیں ہو گی، بلکہ فریضہ حج کاانتظارکئے بغیر فوراًاس سے توبہ کی جائے۔ اپنے ساتھیوں سے الگ ہو جانا چاہیے، کیونکہ موت کاکوئی پتہ نہیں کب آجائے ،اخروی نجات کے لئے برے کام سے صرف نفرت ہی کافی نہیں، بلکہ اسے اللہ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے چھوڑدیناضروری ہے ۔پھرنیک اعمال نماز ،روزہ وغیرہ سے اس کی تلافی کرنابھی لازمی ہے ۔اس بنا پر سائل کوہماری نصیحت ہے کہ وہ فوراًاس کام سے باز آجائے اوراپنے ہم پیشہ ساتھیوں سے کنارہ کش ہوکر اخروی نجات کی فکر کرے ۔

ثالثاً: صورت مسئولہ میں جس طرح تفصیل بیان کی گئی ہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ سائل لڑکی ہے اوراس پرعورتوں جیسے احکام لاگوہوں گے، لیکن حقیقت حال وہ خودہی بہتر جانتا ہے کہ اگر وہ مرد ہے اورعورتوں جیسی شکل وصورت اختیارکی ہے جواس کے گروکی صحبت اورتربیت کانتیجہ ہے تواسے اس شکل وصورت کویکسر ختم کرناہوگا،کیونکہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح عورتوں کاروپ دھارنے والے پرلعنت فرمائی ہے اوراگروہ حقیقت میں عورت ہی ہے، نیزگروکی مجلس نے اس کی نسوانیت کو دو آتشہ کردیاہے تب بھی اسے یہ کام ختم کرناہوں گے اورمسلمان عورتوں کی طرح چادر اورچاردیواری کاتحفظ کرنا ہو گا، تاہم احتیاط کا تقاضاہے کہ حج کے لئے عورتوں جیسااحرام اختیارکرے، یعنی عام لباس پہنے ،اپنے چہرے کو کھلا رکھے، تاہم اگرکوئی اجنبی سامنے آجائے توگھونگھٹ نکالے،
جیساکہ سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کابیان کتب حدیث میں مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت احرام میں ہوتیں اورقافلے ہمارے پاس سے گزرتے جب وہ ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنی چادر یں اپنے چہروں پرلٹکالیتیں اورجب وہ گزرجاتے توہم انہیں اٹھادیتیں۔     [ابوداؤد، المناسک: ۱۸۳۳]

اس کے علاوہ محرم کی بھی پابندی ہے کہ وہ اپنے کسی محرم کے ساتھ یہ مبارک سفر کرے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کواس کی بیوی کے ساتھ سفرحج پرروانہ کیاتھا جبکہ وہ جہاد میں اپنانام لکھواچکاتھا ، اس لئے سائل کوحج پرجانے کے لئے اپنے کسی محرم کاانتخاب بھی کرنا ضروری ہے، اگراسے اپنے کسی محرم کا پتہ نہیں ہے، جیساکہ سوال میں بیان کردہ صورت حال سے واضح ہوتاہے  تواسے چاہیے کہ چند ایسی عورتوں کی رفاقت اختیار کرے، جن کے محرم ان کے ساتھ ہوں ،اسے اکیلی عورتوں یا اکیلے مردوں کے ساتھ سفر کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ ( کچھ اختصار کے ساتھ )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد:2 صفحہ:482)

_________&_______

*شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ!*

 مخّنث(ہیجڑے) کی وراثت کا کیا حکم ہے؟

جواب !
مخّنث کےبارے تفصیل ہے،بلوغت سے پہلے شبہ ہے کہ وہ مذکر ہے یا مؤنث؟
کیونکہ اس کےدو آلے ہوتے ہیں،ایک عورت والا اور دوسرا مرد والا،لیکن بالغ ہونے کےبعد غالباً اس کا مذکر یا مؤنث ہونا واضح ہوجاتا ہے،جب اس کی کوئی ایسی چیزظاہر ہو جو اسکے مؤنث ہونے کی علامت ہے،جیساکہ پستانوں کاابھر آنایاحیض کا آجانایا عورت والے آلے سے پیشاب کرنا تو اس کے بارے مؤنث کا حکم لاگو کیاجائے گا،اور طبی علاج کے ذریعے محفوظ طریقے سے مذکر والا آلہ ختم کردیا جائے گا،اور جب وہ چیز ظاہر ہو جو اس کے مذکر ہونے پر دلالت کرے، جیسا کہ داڑھی کا اُگ آنا اور مذکر والے آلے سے پیشاب کرنا،نیز دیگر علامات جنھیں ڈاکٹر پہچانتے ہیں تو اس پر مذکر کا حکم لاگو ہو گا اور مذکر والا معاملہ ادا کیا جائے گا، اس سے پہلے موقوف ہو گا تاآنکہ معاملہ واضح ہو جائے،بات کھلنے سے پہلے شادی نہیں کی جا سکتی اور وہ بلوغت کے بعد ہی ہو گا، جیسا کہ اہل علم نے فرمایا ہے۔
(ابن باز:مجموع الفتاويٰ والمقالات:20/251)

__________&_______

*مشہور اسلامک بلاگر شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ سے درج ذیل سوال کیے گئے کہ..!*

سوال:  خواجہ سرا ( مخنث / ہیجڑا) کی میت غسل اور جنازہ کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے جبکہ یہ طبقہ پاکستان میں لواطت پھیلانے کا بھی مرتکب ہے؟

 الجواب: 
فطری اور طبعی طور پر کوئی مخنث ہو تو یہ ﷲ کی طرف سے ہے اور وہ بھی شریعت کا مکلف ہے اگر جسمانی اور خلقی اعتبار سے وہ مرد کے مشابہ ہے تو مردوں کے احکام اس پر لاگو ہوں گے اور اگر وہ غالب جسمانی ساخت کے اعتبار سے عورت کے مشابہ ہے تو اس پر عورتوں کے احکامات لوگوں ہوں گے اور اگر وہ شرعی احکام کا لحاظ و پاس نہ کرے تو عند ﷲ فاسق ہے اور شاید اسی بنیاد پر بعض احادیث میں ان پر لعنت بھی کی گئی ہے۔
مردوں پر (از خود ) مخنث بننا حرام ہے اور عورتوں سے مشابہت بھی حرام ہے نبی علیہ السلام نے ان پر لعنت کی ہے۔
فقہا ء کے مباحث میں مخنث کے احکام خیار العیب ، شہادت، نکاح اجنبی عورت کی طرف دیکھنا، لباس، زینت اور حَظر ابا حت کی بحث میں ملتے ہیں۔ (الموسوعة الفقھیة الکویتیہ 63/11 ،بحوالہ مکتبہ شاملہ)

 قرآن میں جو '' اوالتعابعین غیر اولی الا ربة'' کی آیت ہے تو تفسیر طبری کے مطابق اس سے مراد مخنث/ خواجہ سرا ہی ہے۔
مخنث کے احکامات واضح ہیں اگر مرد کے مشابہ ہے تو مردوں کے احکام وگرنہ عورتوں کے احکام اس پر لاگو ہوں گے۔ ہر مسئلے میں البتہ اگر خنثی مشکل ہے تو اسکی وفات پر اسے کپڑوں سمیت غسل دیا جائے گا یا پھر فقط تیمم کروا کر دفن کر دیا جائے ۔(المغنی وغیرہ)

اور اگر اس مخنث کے محارم موجود ہیں تو وہ اسے غسل دے سکتے ہیں (الموسوعة الفقھیہ الکویتیہ)
 نماز جنازہ کے وقت خنثی کے وسط میں امام کھڑا ہو، البتہ شافعیہ کے ہاں اسکی کمر کے پاس سرین کے نزدیک کھڑا ہو۔ ( حوالہ سابقہ)
 باقی احکامات مرد یا عورت کی طرح ہی ہوں گے۔
 البتہ جس قبیح فعل کے یہ فی زمانہ مرتکب ہیں تو انہیں جلا وطن کر دینا چاہئے اور سزا بھی دلوانی چاہئے ۔ مزید یہ کہ یہ ملعون بھی ہیں کیونکہ قصداً عورتوں سے مشابہت اختیار کر تے ہیں۔ (واللہ اعلم)
___&__

سوال: مخنث کو غسل کون دے ؟

جواب : مخنث تین قسم کا ہوتا ہے ۔
پہلی قسم : جس میں لڑکی کے آثار ہوں اس پہ لڑکی کا حکم لگے گا اور عورت اسے غسل دے گی ۔
دوسری قسم : جس میں لڑکے کے آثار ہوں اسے مرد غسل دے گا۔
تیسری قسم : مخنث مشکل کی ہے ، اس کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر اس کے محارم ہوں تو اسے غسل دیدے ورنہ کپڑا سمیت کوئی دوسرا غسل دے سکتا ہے ، بعض نے یہ کہا ہے کہ تیمم کرادے۔

سوال : دفن کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب : دفن کا طریقہ بھی مسلمان مرد و عورت کی طرح ہے ۔
نوٹ : جو فطری طور پر مخنث ہوں ان پر کوئی گناہ نہیں ، مگر جو ہیجڑا بن جاتے ہیں وہ ملعون ہیں انہیں توبہ کرنا چاہئے ۔
(مآخذ- شیخ مقبول احمد سلفی بلاگ)

_________&________

*اس تیسری جنس (ہیجڑے ) کے پیچھے جماعت میں نماز پڑھنا جائز نہیں ، کیونکہ ہوسکتا ہے وہ شرعاً عورت کے حکم میں ہو ، علماء کا فتوی درج ذیل ہے*

وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ، قَالَ: الزُّهْرِيُّ: «لاَ نَرَى أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ المُخَنَّثِ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ لاَ بُدَّ مِنْهَا»
محمد بن یزید زبیدی نے کہا کہ امام زہری نے فرمایا کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہیجڑے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ مگر ایسی ہی لاچاری ہو تو اور بات ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
(صحیح البخاری کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں / باب: اگر امام اپنی نماز کو پورا نہ کرے)
(قبل الحدیث- 695

*یہی فتویٰ سعودی فتاوی ویبسائٹ پر درج ہے،*
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
فتاوى إسلام ويب
عنوان الفتوى:
حكم إمامة الجنس الثالث
رقـم الفتوى:189089

تاريخ الفتوى:(الأحد 6 ذو الحجة 1433 21-10-2012 )

السؤال: هل يجوز للجنس الثالث أو قليل الشهوة أن يؤم المصلين؟

الفتوى:

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:
فأما قليل الشهوة - كالعنين ونحوه - فلا مانع من إمامته في الصلاة بحال، وأما من سميتهم الجنس الثالث فإن كان مرادك به الخنثى المشكل، فهو لا تصح إمامته للرجال, ولا لمثله من الخناثى لاحتمال أن يكون امرأة، وتصح إمامته للنساء عند الجمهور، قال الشيرازي في المهذب: ولا تجوز صلاة الرجل خلف الخنثى الْمُشْكِلِ لِجَوَازِ أَنْ يَكُونَ امرأة, ولا صلاة الخنثى خلف الخنثى لِجَوَازِ أَنْ يَكُونَ الْمَأْمُومُ رَجُلًا وَالْإِمَامُ امرأة. انتهى.

وقال الشيخ ابن عثيمين - رحمه الله -: والخُنثى هو: الذي لا يُعْلَمُ أَذكرٌ هو أم أنثى؟ فيشمَلُ مَن له ذَكَرٌ وفَرْجٌ يبول منهما جميعاً, ويشمَلُ مَن ليس له ذَكَرٌ ولا فَرْجٌ، لكن له دُبُرٌ فقط, والخُنثى سواءٌ كان على هذه الصُّورةِ أو صُورةٍ أخرى لا يَصحُّ أن يكون إماماً للرِّجال، لاحتمالِ أنْ يكون أُنثى، وإذا احتملَ أن يكونَ أُنثى، فإنَّ الصَّلاةَ خلفَه تكون مشكوكاً فيها، فلا تصحُّ.... وفُهِمَ مِن قولِ المؤلِّفِ: «ولا امرأة وخنثى للرجال» أنه يصحُّ أن تكون المرأةُ إماماً للمرأةِ، والخُنثى يصحُّ أن يكون إماماً للمرأة؛ لأنه إما مثلُها أو أعلى منها, لكن؛ هل يصحُّ أن تكون المرأةُ إماماً للخُنثى؟ الجواب: لا؛ لاحتمالِ أن يكون ذَكَراً. انتهى.
وأما إن كان قصدك بالجنس الثالث الذي يتشبه بالنساء في هيئتهن وحركتهن ففي حكم إمامته تفصيل، جاء في الموسوعة الفقهية: المخنث بالخلقة، وهو من يكون في كلامه لين, وفي أعضائه تكسر خلقة، ولم يشتهر بشيء من الأفعال الرديئة لا يعتبر فاسقًا، ولا يدخله الذم واللعنة الواردة في الأحاديث، فتصح إمامته، لكنه يؤمر بتكلف تركه, والإدمان على ذلك بالتدريج، فإذا لم يقدر على تركه فليس عليه لوم, أما المتخلق بخلق النساء حركة وهيئة، والذي يتشبه بهن في تليين الكلام, وتكسر الأعضاء عمدا، فإن ذلك عادة قبيحة ومعصية, ويعتبر فاعلها آثما وفاسقا, والفاسق تكره إمامته عند الحنفية والشافعية، وهو رواية عند المالكية, وقال الحنابلة والمالكية في رواية أخرى ببطلان إمامة الفاسق. انتهى.
والله أعلم.
المفتـــي: مركز الفتوى
www.islamweb.net
_______&________
_______&________

* سلسلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر ہیجڑا وغیرہ بننے والے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، اور جو پیدائشی ایسے ہوں تو ان پر اسکا کوئی گناہ نہیں، اور مردوں کی علامات رکھنے والے پر مرد کے احکامات لاگو ہونگے اور عورتوں کی علامات رکھنے والی پر عورت کے احکامات لاگو ہونگے،  جو کہ بالغ ہونے کے بعد ظاہر ہو جاتے ہیں، اور جنکی کوئی علامات نا ہوں تو انکے رجحان کے مطابق ان پر احکامات لاگو ہونگے یعنی اس سے پوچھا جائے گا کہ وہ مردوں والے خیالات رکھتا یا عورتوں والے۔۔۔تو جس طرف اسکا فطرتی رجحان ہو اس جنس کے احکامات اس پر لاگو ہونگے،*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ

+923036501765

آفیشل ویب سائٹ

http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//

https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Christmas day manana Islam me haram hai.

Celebrations/Extending Christmas Greetings Could be Disbelief – al-Uthaymeen

TRANSLATOR: Daar us Sunnah

SOURCE: Audio

Shaykh Muḥammad ibn Ṣāliḥ al-ʿUthaimīn said:

As for extending greetings to non-Muslims on their festivals, then this, without doubt, is forbidden and could, in some instances, be disbelief, as wishing them well on the occasions of their festivals shows one’s approval of them, and showing approval of acts of disbelief is itself an act of disbelief. 

This includes wishing them well on what is known as Christmas, or Easter and the likes. This is not permissible whatever the case may be. 

Even if they wish us well on our festivals we do not wish them well on their festivals. And the difference is that when they wish us well on our festivals, they wish us well for something that is right. Whilst if we were to wish them well on their festivals, we would be wishing them well for something that is wrong. This is the difference. 

We therefore do not say we are returning the gesture – if they extend greetings to us on our festivals we should not extend them greetings on their festivals, due to the difference mentioned earlier.

 
أما التهنئة بالأعياد فهذه حرام بلا شك، وربما لا يسلم الإنسان من الكفر لأن تهنئتهم بأعياد الكفر رضا بها، ورضا بالكفر كفر، ومن ذلك تهنئتهم بما يسمى عيد الكريسماس أو عيد الفُصْح أو ما أشبه ذلك، فهذا لا يجوز إطلاقاً حتى وإن كانوا يهنئوننا بأعيادنا فإننا لا نهنئهم بأعيادهم، والفرق أن تهنئتهم إيانا بأعيادنا تهنئة بحق، و أن تهتئتنا إياهم بأعيادهم تهنئة بباطل، هذا هو الفرق، فلا نقول إننا نعاملهم بمثل إذا يهنئوننا بأعيادنا فنهنئهم بأعيادهم للفرق الذي سمعتم.

Share:

Participating in Christmas with The Kuffar.

《 PARTICIPATING IN CHRISTMAS WITH THE KUFFAAR 》

▪️ Shaykh ‘Abdul-‘Azeez ibn Baaz

❪❓❫ The question:

Our brother says: He notices that some of the Muslims participate along with the Christians in the Festival of the Birth, or Christmas as they call it; he hopes for some guidance regarding that.

❪ ✅ ❫ The answer:

It is not permissible for the Muslim male or female to participate with the Christians, the Jews, or other than them from the disbelievers in their holidays. Rather, it is obligatory to abandon that. This is because:

«ْمن تشبه بقوم فهو منهم»

“He who imitates a people is from them.”
And the Messenger ﷺ warned us against imitating them and adorning ourselves with their mannerisms. 

So it is upon the believing male and female to beware of that, and not to aid in the celebration of these holidays with anything. This is because they are holidays which oppose the Legislation of Allaah and the enemies of Allaah establish them. 

So it is not permissible to participate in them nor to cooperate with its people or to assist them with anything; not with (giving them) tea, coffee, or anything at all; such as utensils, and the likes. Also, Allaah the Glorified says:

ِْ﴿وَتَعَاوَنُواْ عَلَى البِرِّ والتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالعُدْوَانِ﴾

Help you one another in Al-Birr and At-Taqwaa (virtue, righteousness and piety); but do not help one another in sin and transgression. (Al-Ma'idah 5:2)

So participating with the disbelievers in their holidays is a type of helping them upon sin and transgression.

 Hence, it is obligatory upon every Muslim male and female to abandon that and it is not befitting for the one who has intellect to be deceived by the people in their actions. It is obligatory to ponder over the legislation of Al-Islaam and that which is has brought and to adhere to the command of Allaah and His Messenger, and not to look towards the affairs of the people. 
For most of the creation has no concern for the Legislation of Allaah. As Allaah the Mighty and Majestic has said:
ِْ
﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ﴾

And if you obey most of those on earth, they will mislead you far away from Allaah’s Path. (Al-An'am 6:116)
He, Glorified be He, has said:
َْ
﴿وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ﴾

And most of mankind will not believe even if you desire it eagerly. (Yusuf 12:103)
So the holidays which oppose the Legislation, then it is not permissible to accept them, even if the people are doing it.

 For the believer weighs his actions and statements, and the actions and statements of the people, by the Book and the Sunnah; the Book of Allaah and the Sunnah of His Messenger ﷺ. That which coincides with them or one of them, then it is accepted, even if the people have abandoned it. 

That which opposes them or one of them, then it is rejected, even if the people do it. And may Allaah grant all Tawfeeq and guidance.

Source:
Share:

Rulling on fire Crackers and Fireworks.

Ruling on fire crackers and fireworks | Shaykh Abdul Muhsin al-Abbad al Badr حفظه الله

Question: What is the ruling on using fire crackers and fireworks during the Eid and other days?

Shaykh Abdul Muhsin: There is no doubt that there is harm in this upon the children who use them. 

It is also harmful upon the people by alarming them and preventing them from relaxing. 
They are not able to rest during their sleep and rest periods due to these disturbing noises. In reality it is evil. It is not befitting to use them.

Translated by Rasheed ibn Estes Barbee
Share:

Shab e Baraat Manana Sunnat hai Ya Biddat Quran o hadees ki Raushani me?

Shab-E-Barat Manana Sunnat hai Ya Biddat?
Shab-E-Barat manane ki ijazat kya islam deta hai?
Islam Shab-E-Barat manane ke bare me Kya Kahta hai?
Kya Koi Momin Kisi Biddati se Muhabbat kar sakta hai?
Shab-E-Barat ki Sharai Haisiyat part 2
Kaun se 3 waseela Jayez hai?
Biddat kis ko kahte hai, iske mana o mafhoom?
Shab-E-Barat se joodi Mangharat aur Zaeef hadees.

شب برات ماننا سنت ہے یہ بدّت؟
کیا شب برات ماننے کا حکم اسلام دیتا ہے؟

*شب برأت کی حقیقت*

""شب"" فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "رات"

.۔اور لفظ ""برأت"" عربی، اردو اور فارسی۔میں الگ الگ۔معنی دے گا.

*عربی میں برأت۔کے معنی بےزاری، نفرت اور لاتعلقی۔کے ہیں.*

حوالہ: سورة البقرہ> 167 سورة التوبه> 1

*اردو میں بارات سے مراد وہ جلوس جو دولہا اپنے ساتھ شادی کیلئے لے کر۔جاتا ہے*

اور
*فارسی میں۔برأت ۔یعنی حصہ، اور وہ کاغذ جس کے ذریعہ سے کسی کا روزینہ خزانہ سے ملتا ہو۔ یا  کاغذ ہے جس کی وجہ سے خزانہ سے روپیہ ملتا ہو۔ (غیاث اللغات ص؍۷۰)

لہذا
*شب_برأت۔کے خالص عربی۔نہ ہونے سے ہی اس کے بناوٹی۔ہونے کا ثبوت۔ملتاہے.*

*قرآن اور حدیث۔عربی میں نازل ہوا تھا نہ کہ فارسی میں.*

*اگر دین میں۔اس کا کوئی۔ثبوت ہوتا تواس کا نام عربی میں"لیلة البراة"۔ہوتا.*

*شب برأت کی حقیقت*

"ایک غلط فہمی"
بعض لوگ سورة الدخان۔کی آیت سے
اس رات کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.

*القــرآن الکـریـم*
*حم.*
*اس بیان کرنے والی کتاب کی قسم!*
*بےشک ہم نے اس (قرآن) کو ایک بہت برکت والی رات میں اتارا، بےشک ہم ڈرانے والے ہیں.*

*اسی (رات) میں ہر محکم کام کا فیصلہ کیا جاتاہے.*

[سورة الدخان]آیت: 3-2-1

اب اگر غور کیا
جائے تو بات
واضح ہے کہ
لیلة مبارکہ,لیلة القدر ہے
جس میں قرآن نازل کیا گیا،
جو رمضان المبارک کے مہینہ میں آتی ہے۔
*القــرآن الکـریـم*

شھر رمضان الذي انزل فیه القرآن¤*
ترجمہ:
*رمضان وہ( مبارکـــ)مہینہ ہےجس میں قرآن کونازل کیا گیا.*
[سورة البقرہ]آیت: 185

انآ انزلنه في لیلة القدر¤*
بےشک ہم نےاس ( قرآن )کولیلة القدر میں اتارا ہے.
[سورة القدر]

نہ کہ پندرھویں
شعبان کو.

*نوٹ*
اور اس رات کی خاص عبادت اور نفل نوافل کا کوئی قرآن و حدیث میں ذکر نہیں
اگر کوئی روایات بیان کی جاتی ہیں تو وہ
جھوٹ اور من گھڑت پہ مبنی ہیں

*شب برأت کی حقیقت*

*سوال:*

کیا شعبان کی پندرھویں رات کو لوگوں کی تقدیر اور
موت وحیات وغیره کے فیصلے ہوتےہیں؟

*جواب
جی نہیں!
قران اور حدیث سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں
*بلکہ الـلـہ تعالی نے انسان کی پیدائش سےپہلےہی اسکی زندگی،موت وغیرہ کا فیصلہ لکھ دیا ہے.
*القــــــران*

*اللہ کے حکم کے بغیر کوئی جاندار نہیں مر سکتا، مقرر شده وقت لکھا ہوا ہے.*

[سورة آل عمران]آیت 145

*حدیث مبارکہ*

*پیارےرسـول الـلـہ ﷺ نے ارشاد فرمایا!*

اللہ تعالی نےزمین اور آسمان کی پیدائش سے50 ہزار سال پہلےھی سب کی تقدیریں لکھ دی تھیں.

[صحیح مسلم]حدیث: 6748

*شب براءت کی حقیقت*

*سوال:*

کیا شعبان کی 15 ویں رات کو ہی نامہ_اعمال ، خصوصی طور پرالله کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور کیا 15 شعبان کو روزہ رکھنا  ثابت پے؟

*جواب-
جی نہیں!
ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں جس میں صرف 15 شعبان کواعمال نامےپیش ہونے اوراس دن روزہ رکھنے کا ذکرہو،

*بلکہ ہرسومواراور جمعرات کواعمال نامےاللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتےہیں اور اس لیے سوموار اورجمعرات کو روزہ رکھنابھی آپﷺکی سنت ہے.*

دلیل
*پیارےرســول الـلہﷺ نے فرمایا:*

*"سوموار اور جمعرات کو اعمال(اللہ کی بارگاہ میں)پیش کیے جاتے ہیں،میں پسند کرتاہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کیے جائیں کہ میں روزے سے ہوں"*

[جامع ترمذی]حدیث: 747

*شب براءت کی حقیقت*

*سوال:*

کیا اللہ تعالی 15 شعبان کی رات کو دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے بلکہ الـلـہ ہر رات دنیا کےآسمان پر نزول فرماتا ہے۔

*دلیل

*پیارےرســول الــلــہﷺ نے فرمایا:*

*"ہمارا رب بلنداور برکت والاہررات کے آخری حصے میں دنیا کے آسمان پر نزول فرماتاہےاور پکارتاہے:*

کـون ہے

جو مجھ سے دعـا کرے کہ میں اس کی دعـا قبول کروں،*
کـون ہے
جومجھ سے مانگےکہ میں اسےعطا کروں،*

کـون ہے جو
*مجھ سے بخشش طلب کرے کہ میں اسے معاف کر دوں۔"*
[صحیح بخاری]حدیث: 1145

*شب براءت کی حقیقت*

*سوال:*

کیا 15شعبان کی رات کو خصوصی طور پر قبرستان جانا چاہئے؟

*جواب-

جی نہیں!
15شعبان کی رات کو خاص اہتمام کے ساتھ قبرستان جانےکے حوالے سےکوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔

*بلکہ قبرستان جانے کا اصل مقصد مـوت کویاد کرنا ہے.*

*پیارےرســول اللہﷺ نے فرمایا:*

*قبروں کی زیارت کیا کرو،یہ موت یاددلاتی ہے۔*

[صحیح مسلم]کتاب الجنائزحدیث:*

هذا ما عندي

Share:

Kya 15 Shaban ka roja rakhna Quran o Sunnat se Sabit hai?

Kya 15 Shaban ka roja rakhna Quran o hadees se sabit hai?

Shab-E-Barat Manana Sunnat hai Ya Biddat?
Shab-E-Barat se zoodi Mangharat aur Jhhooti ahadess
Shab-E-Barat Ki hakikat roman urdu me padhe.
Kya Shab-E-Barat ek Islami Festival hai?

* « 15  شعبان » *
 جن روایات کی روشنی میں *15 شعبان کو دن میں لوگ روزہ رکهتے اور رات کو مخصوص عبادتیں کرتے ہیں* ان سے درج ذيل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
*⚫ دن کو روزه رکهنا*
*⚫ اللہ تعالیٰ کا آسمان دنیا پر نزول فرمانا*
*⚫ سب کی بخشش سوائے مشرک اور بغض رکهنے والے کے*
 کسی حدیث سے کوئی مسئلہ ثابت کرنے سے پہلے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ وه *حدیث صحیح ہے یا نہيں*، کیونکہ *عمارت کهڑی کرنے سے پہلے بنیاد ڈالنا ضروری ہے*
 ان روايات كے *باطل ہونے كا حكم اكثر اہل علم نے لگايا ہے*، مثلًا: *ابنِ جوزى* رحمہ اللہ نے *الموضوعات* میں، *ابنِ قيم* رحمہ اللہ نے *المنار المنيف* میں، اور *ابنِ تیمیہ* رحمہ اللہ نے *مجموع الفتاوىٰ* ميں ان کا باطل ہونا نقل كيا ہے
* سمجھ نہيں آتا* کہ لوگ اس رات کی عبادت کو ثابت کرنے کیلئے *ضعیف و موضوع روایات کا سہارا* لیتے ہیں جبکہ سال کے دوسرے ایام میں یہی فضائل *صحیح احاديث سے ثابت ہیں* مگر ان کا اہتمام نہيں کرتے، جیسا کہ:
* روزہ رکهنا: سوموار اور جمعرات کا روزہ، ایامِ بیض کے صیام، اور شعبان میں کثرت سے روزہ ركھنا مستحب ہے*۔ جہلاء ان کا اہتمام کرنے کی بجائے *15 شعبان کا ایک روزہ رکهنے کیلئے ضعیف و موضوع روایات کا سہارا* لیتے ہیں
* اللہ تعالیٰ کا آسمانِ دنيا پر نزول فرمانا*
* رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں قبول کروں، جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے دوں، جو مجھ سے بخشش طلب کرے کہ میں اس کی بخشش کروں*
* صحيح بخارى: 6321*
 پهر ہم روزانہ اس وقت بیدار ہو کر *اللہ کے بلاوے پر لبیک* کیوں نہیں کہتے اور *دعاؤں کا اہتمام* کیوں نہيں کرتے!
* مشرک اور کینہ رکهنے والے کے سوا اللہ سب کو معاف کر دیتا ہے*، اللہ کا یہ انعام و اکرام بهی *ہر ہفتے* ہوتا ہے
* رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سوموار اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو سوائے اس آدمی کے جو اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھتا ہو اور کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کی طرف دیکھتے رہو یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں* (آخری جملہ تین بار فرمایا)
* صحيح مسلم: 6544*
 ان صحیح احاديث کی روشنی میں ہمیں *روزانہ اللہ کی مغفرت پانے کیلئے کوشاں* رہنا چاہیے، نہ کہ شعبان کے مہینے کا انتظار کریں
 معلوم ہوا کہ *خصوصًا 15 شعبان کے دن روزہ رکھنا اور اس کی رات کو قیام و عبادت کیلئے خاص کرنا بدعت ہے* جس کے *انجام جہنم* ہے۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے
 لہٰذا جو شخص آج سے قبل اس دن کو *صوم کیلئے خاص کر کے روزہ رکھ چکا* اور اسی طرح اس کی *رات کو خاص کر کے عبادت کر چکا*، ضرور *اللہ سے مغفرت طلب کرتے ہوئے توبہ کرے اور آئندہ ایسی خرافات سے باز رہے*، یقینًا اللہ ہی توفیق دینے والا اور معاف فرمانے والا ہے
* والله تعالیٰ أعلم *

Share:

Shab-E-Barat manane ke mutalliq Sawal o jawab

Shab-E-Barat Manana Sunnat se Sabit hai ya nahi?
Shab-E-Barat ke mutalliq Kuchh ahem Sawalat.
Kya Shab-E-Barat ka Lafj Quran Me kahi aaya hai?
क्या शब ए बारात एक इस्लामी त्योहार है?
शब ए बारात के बारे में इसलाम क्या कहता है?

سوالات و جوابات بسلسلہ شبِ برات* ۔۔۔

*سوال # 01*
کیا شعبان کی 15 تاریخ کو لوگوں کی تقدیروں اور موت حیات وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں ؟

جواب :
جی نہیں، قرآن و حدیث سے ایسا کچھ ثابت نہیں ، بلکہ اللّه تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اسکی زندگی اور موت وغیرہ کے فیصلے لکھ دیے ہیں ۔
اللّه تعالیٰ نے فرمایا :
" اللّه کے حکم کے بنا کوئی جاندار نہیں مر سکتا, مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے."
(سورة آل عمران
آیة : 145)
اور
رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :
" اللّه تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے 50 ہزار سال قبل ہی سب کی تقدیریں لکھ دی تھیں۔"
(صحیح مسلم ، کتاب القدر ، حدیث : 4797)

*سوال # 02*
کیا 15 شعبان کو اعمال نامے اللّه کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں ؟

جواب :
جی نہیں ، ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں جس میں صرف 15 شعبان کو اعمال پیش ہونے کا ذکر ہو ۔ بلکہ ہر روز اعمال اللّه کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں ۔
رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :
" رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اللّه کی طرف چڑھتے (پیش ہوتے) ہیں۔"
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، حدیث : 447)

*سوال # 03*
کیا اللّه تعالیٰ صرف 15 شعبان کی رات پہلے آسمان (آسمانِ دنیا) پر نزول فرماتا ہے ؟ اور کیا ہمیں صرف 15 شعبان کی رات عبادت کرنی چاہیے ؟

جواب :
جی نہیں ، کسی بھی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں کہ اللّه تعالیٰ صرف 15 شعبان کی رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ۔
رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :
" ہمارا رب بلند اور برکت والا ہر رات جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو دنیا کے آسمان (پہلے آسمان) کی طرف نزول فرماتا ہے اور پکارتا ہے : "کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تا کہ میں اسکی دعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے مانگے تا کہ میں اسے عطا کروں ، کون ہے جو مجھ سے بخشش طالب کرے تا کہ میں اسے معاف کر دوں۔"
(صحیح بخاری ، کتاب التہجد ، حدیث : 1145)

*سوال #  04*
کیا خصوصی طور پر 15 شعبان کو روزہ رکھنا ثابت ہے ؟

جواب :
جی نہیں ، کسی بھی صحیح حدیث میں صرف 15 شعبان کو روزہ رکھنے کا ذکر نہیں ، بلکہ رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم ماہِ شعبان کے اکثر ایام روزے سے گزارتے تھے ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ مطہرہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
"میں نے نبی صلی اللّه علیہ و سلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں اتنے (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔"
(صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، حدیث : 1969)

*سوال # 05*
کیا 15 شعبان کی رات فوت  شدگان کی روحیں گھروں کی طرف لوٹتی ہیں ؟ اور کیا اس رات خصوصی طور پر قبرستان جانا چاہیے ؟

جواب :
جی نہیں ، جب کوئی بندہ فوت ہو جاتا ہے تو اسکی روح اس دنیا سے عالم ارواح منتقل ہو جاتی ہے اور دنیا سے اسکا رابطہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے ۔
اللّه تعالیٰ نے فرمایا :
" یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب ، مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں اس (دنیا) میں نیک کام کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ، (اللّه فرماۓ گا) ہرگز نہیں،  یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ (حسرت سے) کہنے والا ہے ، اور ان سب (روحوں) کے آگے اس دن تک ایک برزخ (آڑ) ہے جس دن وہ (قبروں سے) اُٹھائے جائیں گے۔"
(سورة المومنون آیة : 99 - 100)
اور 15 شعبان کی رات خصوصی طور پر قبرستان جانے کے حوالے سے کوئی صحیح حدیث نہیں ، ویسے بھی قبرستان جانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ وہاں جا کر صرف اہل قبرستان کے لئے دعا کی جاۓ ، کیوں فوت شدگان کے لئے مغفرت کی دعا تو مسجد میں اور گھر بیٹھ کر بھی کی جا سکتی ہے ، بلکہ قبرستان جانے کا اصل مقصد موت کو یاد کرنا ہوتا ہے ۔
رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :
" قبروں کی زیارت کیا کرو ، یہ موت یاد دلاتی ہیں۔"
(صحیح مسلم ، کتاب الجنائز ، حدیث : 976)

*سوال # 06*
کیا "شبِ برات" کے الفاظ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ؟ اور کیا یہ اسلامی تہوار ہے ؟

جواب :
جی نہیں ، "شب" فارسی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ہیں "رات" ، اور "برات" عربی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے "بیزاری ، دوری ، لا تعلقی اور نجات" ۔ ان الفاظ سے ہی ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ ایک من گھڑت اور ایران سے سمگل شدہ رات ہے ، کیونکہ اسلام قربت کی راتوں کا قائل ہے ، نہ کہ بیزاری اور دوری کا ، اور  اللّه تعالیٰ نے اسلام "فارسی" میں نہیں اتارا ، البتہ رافضیت نے فارسی عقائد و نظریات اسلامی معاشروں خصوصاً برصغیر میں ضرور پھیلاے ہیں ۔
دراصل رافضی (موجودہ شیعہ) 15 شعبان کی رات "شبِ تبراء" مناتے ہیں ، ان کا فاسد و باطل عقیدہ ہے کہ
"اس رات امام مہدی آئینگے اور (سیدینا) ابو بکر و عمر (رضی اللّه عنہم) کو انکی قبروں سے نکال کر سولی پر لٹکایں گے اور شیعوں کو اہل سنّت سے نجات دلائیں گے۔ (نعوذ باللہ) "
(شیعہ کتاب: حق الیقین
مصنف: ملا باقر مجلسی
صفحہ 145)
غور طلب بات یہ ہے کہ لفظ "برات" اور "تبراء" دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی "کسی سے لا تعلقی ، بیزاری ، دوری یا نجات کا اظھار کرنا۔"

اللّه تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث اور اہل سنّت کے اصل منہج کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ، آمین ۔
اللھم اھدنا و سددنا !
*الدين النصيحة*

Share:

Kya Murda Insan Ki rooh Duniya me wapas aati hai?

Kya Murda Insan ki rooh duniya me waapas aati hai?
Kya Insan ki rooh maut ke bad bhi idhar udhar bhatakati hai?

*کیا مردہ انسان کی روح دنیا میں واپس آتی ہے ؟*

ہندو مذہب کے پیرو کار مردہ انسانوں کی ارواح کی دنیا میں واپسی کے قائل ہیں اور دیگر کچھ مذاہب کے لوگ بھی اس نظریہ کے قائل ہیں ۔
جبکہ اسلام کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کی دنیا میں واپسی کی نفی کرتا ہے ، اسلام کی تعلیم تو یہ ہے جسے قرآن نے پیش کیا ہے ۔
ہر مرنے والے کی روح عالم دنیا سے روز محشر تک عالَم برزخ منتقل کردی جاتی ہے ،جہاں سے واپسی ناممکن ہے ، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)
ترجمہ :
(نافرمانوں کی ساری زندگی ایسے ہی غفلت میں گزرتی ہے ) حتی کہ جب ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ''( المومنون ۹۹۔۱۰۰ )
شرح : جب کفار و مشرکین اور نافرمانوں کو اپنی موت کے آثار آنے لگیں گے اور ان کے گناہوں کے سیاہ بادل ان کی آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگیں گے، تو کہیں گے کہ میرے رب ! مجھے مہلت دے، تاکہ دنیا میں رہ کر نیک کام کروں، تو اللہ تعالیٰ ان کی طلب کو رد کردے گا اور کہے گا کہ اب ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔(کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا) کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات یونہی ان کی زبان سے نکل رہی ہے، اگر ایسا کر بھی دیا جائے تو بھی وہ اپنے کفر پر جمے رہیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (28) میں فرمایا ہے : (ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ) اگر وہ دنیا کی طرف لوٹا بھی دیئے جائیں گے تو جس کفر و شرک سے انہیں روکا گیا تھا وہی دوبارہ کرنے لگیں گے۔ (تیسیر الرحمن )
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (سورۃ الزمر آیت 24)
ترجمہ :اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرا نہ ہو اس کی روح نیند کی حالت میں قبض کرلیتا ہے پھر جس کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہو اس کی روح کو تو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک مقررہ وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ ۔

یہ واضح اور سیدھا اصولی عقیدہ قرآن نے اہل اسلام کو دیا ہے ۔
لیکن جب کسی امت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے اصلی نظریات سے انحراف کر جاتی ہے ۔ ہندؤ مذہب کا نظریہ اب نام نہاد مسلمانوں میں موجود ہے کیونکہ Indo-Pak Nation culture متفرق Relationship اور مخلوط طرز زندگی کی وجہ سے ہندو مذہب کےکچھ نظریات کچھ جاہل بدعتی مسلمانوں میں بھی آ گئے ہیں ،اور اب یہ مستقل عقیدہ کاحصہ بن چکے ہیں ۔
ہندؤں کے ہاں ایک نظریہ پایا جاتا ہے ایک انسان مرنے کے بعد کسی نہ کسی روپ میں آ سکتا ہے "سات جنم والا عقیدہ "۔
ان کی دیکھا دیکھی ان کے ماحول میں بسنے والے بے خبر مسلمانوں نے یہ عقیدہ گھڑلیا کہ ہر جمعرات کو ‛‛ مردہ انسانوں ‛‛ کی روحیں آتی ہیں اور گھر سے کچھ کھا کر جاتی ہیں ۔

اس حوالہ سے ہندستان کے اسلامی تعلیم سے بے خبر ایک مسلم گھرانے کا واقعہ۔
ایک بندہ اپنے دور کے رشتے دار کے ہاں گیا کچھ دن کے بعد جمعرات ‛‛ کا دن آگیا تو اس کی کزن نے کچھ پکانا شروع کیا تو اس نے پوچھا آج آپ لوگ کس کے لیئے کھانا پکا رہے ہو ؟ اس کی کزن نے جواب دیا ؛ کہ کوئی مہمان نہیں آ رہا ہے بلکہ آج جمعرات ہے ہمارے جو آباؤاجداد مر گئے ہیں ان کی روحیں آئیں گی ہم ان کے لیئے کھانا بنا رہے ہیں ۔ اس نے پو چھا وہ تو مر گئے ہیں گئے اب وہ کیسے کھا سکتے ہیں ؟ اس کی کزن نے جواب دیا وہ کسی بھی روپ میں آکے کھا سکتے ہیں ہمارا عقیدہ ہے ۔ بس شام ہوئی اس کی کزن نے کھانا پکا ہوا دروازہ کی چوکھٹ پر رکھ دیا اور ساتھ دیا بھی جلا دیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک کتا Dog " آیا وہ سارا کھانا کھا کے چلا گیا تو اس کی کزن نے پوچھا وہ کھانا تو ایک کتا ‛‛ کھا کر چلا گیا ہے اور آپ کے دادا GrandFather " تو نہیں آئے ۔ اس نے جواب دیا ‛ وہ کسی بھی روپ میں آسکتے ہیں یعنی اس کے دادا ایک کتے ‛‛ کے روپ میں اور کھانا کھا گئے ۔"

اصلی دین اور شریعت سے بے خبری اور جہالت کا یہ عالم گذشتہ کئی صدیوں سے پاک و ہند کے خطہ میں بسنے والے مسلمانوں پر طاری ہے ،
بعض سادہ لوح لوگ جمعرات کا جمعہ کو کھانا پکا کر اپنے محلہ کے امام مسجد کوبلاتے ہیں اور ختم وغیرہ مروجہ طریق پر دلاتے اور مرنے والوں کی ارواح کو ثواب پہنچاتے ہیں ان لوگوں کو ان کے ائمہ مساجد یہ کہتے ہیں کہ ہر جمعرات کور وح قبروں یا گھروں میں آتی اور اپنے ورثاء سے توقع کرتی ہیں کہ انہیں کچھ نہ کچھ دیا جائے۔ طبعی طور پر ہر شخص کے دل پر اثر پڑتا ہے کہ جن لوگوں نے ہمارے لیے اچھے طریق پر دنیا میں کاوش کی اب وہ بے بس ہیں ان کو کچھ دینا چاہیے۔
یہ تو ہیں عوام میں جذباتی تخیلات، بلکہ یوں کہیئے کہ موہوم خیالات۔
مگر افسوس مردوں کی ارواح کی اپنے گھروں کو واپسی کا عقیدہ رکھنے والوں کے دل میں اس عقیدہ کی حقیقت جاننے کی کبھی خواہش پیدا نہیں ہوتی ،حالانکہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی باتوں کی تصدیق یا تکذیب قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر کی جائے، جو بات قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو اسے دین و شریعت کا حصہ بالکل نہ بنایا جائے۔
بات درحقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مر جاتے ہیں وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آتے۔
اور اگر وہ مرنے کے بعد بھی اپنے گھروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں تو مرنا کیسا ؟ اور ان کی موت پر رونا پیٹنا اور جنازہ تعزیت کس لئے ؟
قرآن پاک کا ارشاد ہے:
{ حَرَامٌ عَلیٰ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَھَا اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْن }
’’ جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک کر دیا وہ دنیا میں واپس نہ آئیں گے ۔‘‘
" اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے" ترجمہ جونا گڑھی

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کا مفہوم یوں ادا کرتے ہیں:
((قال ابن عباس: وجب، يعني: قدرا مقدرا أن أهل كل قرية أهلكوا أنهم لا يرجعون إلى الدنيا قبل يوم القيامة. هكذا صرح به ابن عباس، وأبو جعفر الباقر، وقتادة، وغير واحد )) تفسیرابن کثیر))
’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مقدر کر دیا گیا ہے کہ ہر بستی والے پر جو لوگ ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ وہ دنیا کی طرف قیامت سے پہلے واپس نہ آئیں گے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ جناب امام ابو جعفر باقرؒ ،امام قتادہؒ اور دیگر کئی ایک اہل علم نے اس کی تصریح کی ہے۔‘‘

اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:
عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} [آل عمران: 169] قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:«أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ
شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلَاعَةً»، فَقَالَ: " هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟ قَالُوا: أَيَّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا، فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا، قَالُوا: يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا "
ترجمہ
مشہور تابعی مسروقؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے (سورۃ آل عمران )اس آیت کی تفسیر دریافت کی: "جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھو، وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، ان کو رزق دیا جاتا ہے۔"
تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے بھی اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا: "ان کی روحیں سبز پرندوں کے اندر رہتی ہیں، ان کے لیے عرش الہیٰ کے ساتھ قبدیلیں لٹکی ہوئی ہیں، وہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں، ان کے رب نے اوپر سے ان کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: "کیا تمہیں کس چیز کی خواہش ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم (اور) کیا خواہش کریں، ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ نے تین بار ایسا کیا (جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔) جب انہوں نے دیکھا کہ ان کو چھوڑا نہیں جائے گا، ان سے سوال ہوتا رہے گا تو انہوں نے نے کہا: اے ہمارے رب! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے (تاکہ ہم واپس دنیا میں جائیں اور ) ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ ان کو کوئی حاجت نہیں ہے تو ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔"(صحیح مسلم ،کتاب الامارۃ )
٭٭٭
یعنی اللہ کے محبوب شہداء جنت میں اللہ تعالی کے پوچھنے پر کہ تمہاری کوئی خواہش ہو جو ہم پورا کریں تو ہمیں بتاؤ ۔تو شہداء جو اللہ کے بہت پیارے ہیں وہ خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں واپس بھیجا جائے تاکہ تیری راہ میں لڑ کر پھر شہید ہوں اور شہادت کالطف اٹھائیں کیوں کہ وہ اگلے جہان پہنچ کر شہادت کا عظیم ثواب اور مزہ دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ان کا مطالبہ یا خواہش قبول نہیں ہوتی‘‘
تو شہداء جیسے محبوب حضرات کی ارواح کو دنیا میں واپسی کی اجازت نہیں ،تو باقی ارواح کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
*یہ وہ مضبوط عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث صحیح سے ثابت ہے اور عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔*
ـــــــــــــــــــــــ​

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS