find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Naye Hijri Saal ya Eid ke mauke par "Kullo Amantum Bakhair" Padhna Kaisa hai?

Eid ki mubarak Bad dene par "Kullo amantum Bakhair" Padhna Kaisa hai?

Naye saal ki ya Eid ki Mubarak Bad ke liye kaun se jumle Istemal kiye jane chahiye?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

کل عام وانتم بخیر جملے کا حکم اور نئے سال کی مبارکباد کے شرعئی احکامات :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عیدین اور نئے ہجری سال کے موقعہ پر لوگوں کا ایکدوسرے کو نئے سال کی مبارکباد کے ساتھ ایک جملہ کل عام وانتم بخیر (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) زبان زد عام ہے ، یہ جملہ سلف صالحین سے ثابتہ نہیں ہے، یہ اغیار کا خود ساختہ کلمہ ہے جو مسلمانوں میں اس حد تک رائج ہوچکا ہے کہ دین کی ہی تعلیم محصوص ہوتی ہے ۔ آئیے جید علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں اس جملہ کے حکم کے بارے میں جانتے ہیں :

کل عام وانتم بخیر جملے کا کیا حکم ھے؟

امام البانی کہتے ہیں کہ اسکی کوئی اصل نہیں ھے۔ تقبل اللہ طاعتك کہنا کافی ھے۔ باقی رہا *کل عام وانتم بخیر کہنا یہ ھم مسلمانوں میں غفلت کیوجہ سے رائج کر چکا ھے۔  نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی.
[ علاّمہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ تعالیٰ / {سلسلۃالھدیٰ النور : ٣٢٣} ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ کا فتویٰ

سوال: اگر کوئی شخص کہے ’’کل عام وأنتم بخیر‘‘ (عرف عام میں: سال نو مبارک یا happy new year)، تو کیا ایسا کہنا مشروع (شرعاً جائز) ہے؟
جواب: نہیں یہ مشروع نہیں اور نہ ہی ایسا کہنا جائز ہے۔
[ فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ/(کتاب ’’الإجابات المهمة‘‘  ص 230) ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیارِ حرمین کے مفتی اور دورِحاضر کے معروف امام سماحۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ :
آپ رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب "الضياء اللامع" ص:702 میں فرماتے ہیں:

سائل: کیا یہ کہا جائے ’’كل عام وأنتم بخير‘‘؟
جواب : نہیں ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ نہیں کہنا چاہیے، نہ عیدالاضحی میں، نہ عیدالفطر میں اور نہ ہی اس موقع پر۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ/(لقاء الباب المفتوح: 202 بروز جمعرات 6 محرم الحرام سن 1420ھ)
اللجنۃ الدائمۃ  للبحوث العلمیۃ والافتاء
(دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتوی نویسی، سعودی عرب)
نئے ہجری سال کی مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی مبارکباد دینا غیرمشروع ہے۔
(فتوی نمبر 20795)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیارِ حرمین کے سابق مفتی اعظم استاذ العلماء:سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ کا فتویٰ :

سوال: فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ"كل عام وأنتم بخير"(آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)،اس (طرح یا اس سے ملتے جلتے مبارکباد کے طریقوں) کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب1: بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على عبده ورسوله، وخيرته من خلقه، وأمينه على وحيه، نبينا وإمامنا وسيدنا محمد بن عبد الله وعلى آله وأصحابه ومن سلك سبيله، واهتدى بهداه إلى يوم الدين. أما بعد:

نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین (یعنی امتِ مسلمہ کے نیک و بزرگ لوگ) سے کوئی اصل (دلیل و ثبوت) نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب عزیز (قرآن کریم) اس کی مشروعیت (جائز ہونے پر) پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ "کل عام وانت بخیر"یا "فی کل عام وانت بخیر" (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) کہے تو کوئی مانع نہیں کہ تم بھی اسے "وانت کذلک"کہو (یعنی تم بھی ہرسال بخیر رہو) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور تمہارے لئے دعاگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
[ نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042 شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ ]

۔✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦

✦مذکورہ فتاویٰ کی روشنی میں خلاصہ کے طور پر مندرجہ ذیل نتیجہ نکلتا ہے:

1۔نئے سال کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا شرعی طور پر کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنا مسلمانوں کی محترم و نیک شخصیات یعنی سلف صالحین رحمہم اللہ سے بھی ثابت نہیں ، جن میں سرِفہرست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین و اتباعہم شامل ہیں۔ اور تمام مسلمانوں کوزندگی کے ہر معاملہ میں قرآن و سنت اور سلف صالحین رحمہم اللہ کےمعروف طریقہ کے مطابق ہی عمل کرنا چاہیے ، اسی میں خیر ہے۔

2۔اگر کوئی مسلمان نئے سال کی مبارکباد دینے یا وصول کرنے کو مسنون سمجھتا ہے تو یہ انتہائی بڑی غلطی ہے،ایسی صورت میں مبارکباد دینا بدعت اور اسکا جواب دینا بھی جائز نہیں ہے۔

3۔اگر کوئی مسلمان اسے امور عادیہ (عام عادت کے معاملات، جنہیں شرعی طور پر ادا نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے) میں شامل سمجھتے ہوئے مبارکباد دیتا ہے تو اسے امور عادیہ ہی سمجھتے ہوئے جواب دینے کی حد تک مبارکباد دینا جائز ہے، البتہ:

4۔اس معاملہ میں علم آجانے کے بعد پہل کرنا ہرگز جائز نہیں ، یعنی خود سے کسی کو مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ شرعا اسکا ثبوت نہیں ہے البتہ دعائیہ کلمات کا جواب دینا، گرچہ وہ مبارکباد ہی کے کیوں نہ ہوں بشرطیکہ امور عادیہ میں سے ہو ں شریعت کے عمومی نصوص کی و جہ سے جائز قرار پاتا ہے۔

5۔نئے سال کی آمد کو خوشی کا تہوار سمجھنا ہی شرعا ثابت نہیں ہے،کیونکہ اجتماعی طور پر مسلم اُمہ کے خوشی کے تہوار دو ہیں : عید الفطر اور عید الاضحیٰ اسکے علاوہ عمومی و اجتماعی طور پر کوئی بھی مسلسل آنے والا ،موسمی خوشی کےتہوار کا شریعت ِ مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

6۔لہٰذا جواب کی حد تک مبارکباد دینے کے علاوہ :

نئے سال منانے کی مروّجہ تمام صورتیں خلافِ شرع ہیں ان سے ا جتناب کرنا چاہیے ۔ جیسے نئے سال کی مبارکباد باد پر مشتمل کارڈز کا تبادلہ کرنا، خوشی کے تہوار کے طور پر مجالس، تقریبات ، پارٹیز ، پروگرامز منعقد کرنا، چہ جائکہ اُن میں خلافِ شریعت امور کا انفرادی یا اجتماعی طور پر ارتکاب و مظاہرہ کیا جائےجس سے اس عمل کی قباحت میں مزیداضافہ ہوجائے۔

7۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں خود کے اندر ایسی فکر اور سوچ بیدار کرنی چاہیے کہ:

ہماری زندگی کا مزید ایک سال کم ہوگیا ہے اور ہم اپنے اچھے یا برے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ، کیا اس انجام کو قبول کرنے کے لیے اور اسکا سامنے کرنے کے لیے ہم تیار ہیں؟ کیا کل اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور آخرت میں جوابدہی کے لیے ہم تیار ہیں؟

گذرےسال میں ہم نے کہاں کہاں اور کون کون سی غلطیاں کی ہیں، کون سے گناہ کیے ہیں ، کتنے حق اللہ تعالی کے اور کتنے حق اللہ کے بندوں کے پامال کیے ہیں ؟ انفرادی و اجتماعی اعتبار سے ہماری طرف سے ہماری ذات کو اور معاشرے و امت کو کتنا نقصان پہنچا ہے اور اُس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟

ہمیں سوچنا چاہیےکہ ہماری انفرادی و اجتماعی حالت آج کیسی ہے اور آج ہم پچھلے سال کی نسبت کہاں کھڑے ہیں اور کیا آنے والے سال کو گذرے سال سے ہر لحاظ سے بہتر بنانے کے لیے ہم نے کوئی تیاری اور پلاننگ کی ہے؟

کیا جو غلطیاں ہم سے گذرے سال میں ہوئیں ،دوبارہ اُن غلطیوں کو دہرانے سے ہم اپنے آپ کو روک پائیں گے؟
کیا ہم آنے والے سال میں اپنی ذات سے خود کو ، معاشرے کو ،اس امت کو اور سب سے بڑھکر اللہ کے اس دین کو جسکی دعوت لیکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمین شریفین سے اُٹھے تھے ،کوئی فائدہ پہنچاسکیں گے؟ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں اور انہیں نبھانے کے لیے تیار ہیں ؟؟؟

نئے سال کی آمد ان تمام باتوں کے عملی جواب کا ہم سے مطالبہ کرتی ہے ........

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین (رحمہما اللہ) فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ) اور دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب کے مذکورہ فتاویٰ :(کتاب " الإجابات المهمة " ص : 230) پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔

مقرر، مرتب اور توضیح: حافظ حماد امین چاؤلہ حفظہ اللہ
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share:

Kya Jume ki Eid Hukumat par Bhari hoti hai, Jume ke din ki Eid kisi hadse ki nishani hai?

Kya Juma Ke din Ki Eid Nahusat bhari hoti hai?
Jume ke Din ki Eid Hukumat ke liye Khatra hoti hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

یہ کہنا کہ جمعہ کی عید حکومت پر بھاری ہوتی ہے ، تو یہ سراسر بے بنیاد مفروضہ ہے ، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بات کی خبر ضرور کرتے، کیونکہ جمعہ کے دن عید تو آپ کے عہد میں بھی آئی تھی ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں عید الفطر اور جمعہ جمع ہو گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی اور پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

(قد اجتمع في يومكم هذا عيدان، فمن شاء أجزأه من الجمعة، وإنا مجمعون)

’’تمہارے اس دن میں دو عیدین جمع ہو گئیں ہیں، تو جو چاہے یہ (نمازِ عید) جمعہ کے بدلے کافی ہے اور بلاشبہ ہم جمعہ پڑھیں گے
(ابوداؤد، الصلاة، اذا وافق یوم الجمعة یوم عید، ح: 1073، ابن ماجه، ح: 1311، حاکم (288/1) نے مسلم کی شرائط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے، البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔)

نیز عید خیر و برکت کا حامل عمل ہے، اسی طرح جمعہ کی بھی بہت زیادہ فضیلت ہے لہذا اِن کا ایک ہی دن میں آ جانا بھاری اور باعث مشکلات کی بجائے مزید باعثِ رحمت و برکت اور نور علیٰ نور ہے ۔
فقط واللہ اعلم بالصواب

Share:

Eid Ke din kisi ke faut hone par matam karna aur Khushi nahi manana kaisa hai?

Eid ke Din Maiyyat ka SOG manana aur logo ka maiyyat ke ghar jama hona.

Eid Ke din Kisi ke inteqal ho jane par Agle Sal ki Eid me Khushi nahi manana, naye kapde nahi pehanana aur matam karna kaisa hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

عید کے دن میت کا سوگ منانا اور لوگوں کا میت کے گھر جمع ہونا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

اسلام ادیانِ عالم میں امن و سلامتی کا دین ہے ۔ حلم و بردباری، عفو و درگزر، اور احترامِ انسانیت اسلام کا طُرۂ امتیاز ہے۔ یہ آفاوی دین، دنیا میں فلاح اور آخرت میں نجات کا نقیب و امین ہے ۔
اسلام میں مسلمانوں کے لیے دو تہوار " عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ " ہیں جو خوشیوں کے دن ہیں،
پورا مہینہ روزہ رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید الفطر خوشیوں کا دن منایا جاتا ہے، عید الفطر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لیے ایک عظیم انعام اور امّتِ مسلمہ کے لیے جشن کا ایک مخصوص دن ہے اور اس اعتبار سے بھی عیدالفطر جشنِ مسرّت کا دن ہے کہ اس سے ایک ہی دن قبل وہ ماہِ مبارک تھا، جس میں قرآنِ حکیم نازل ہوا
لہٰذا اکثر لوگوں کا اپنے فوت شدگان کے بعد پہلی عید نا منانا ای بے دلیل اور غیر ثابتہ خود ساختہ طرز عمل ہے جو خلافِ شرع ہے ۔

شرعً مسلان کو جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ سوگ منائے ، البتہ خاوند کی وفات پر بیوی چار مہینے دس دن سوگ مناتی ہے۔

جب میت کے انتقال کو کچھ عرصہ گزر گیا ہو، چاہے چند دن، چند ماہ یا ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو  تو معاشرے میں موجود کچھ  غیر شرعئی روایات دیکھنے میں آتی ہیں، جیسے

- عید کے دن اپنے فوت شدہ کے سوگ کی وجہ سے اچھے کپڑے نہ پہننا شریعت کی خلاف ورزی ہے ۔

- عید کے دن تعزیت کی غرض سے اس گھر میں جمع ہونا جہاں گزرے وقت میں کسی کی وفات ہوئی ہو اور اس وفات کے بعد لواحقین کی یہ پہلی عید ہو اور گھر والوں کا غم تازہ کرنا جائز نہیں ہے، صاحبِ شریعتﷺ نے ہمیں اس کا حکم نہیں دیا، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ البتہ عید کی خوشی میں شریک کرنے کے لیے اس گھر میں جانا درست ہے۔

جس گھر میں کسی کی وفات ہو اور وفات کو تین دن ہوچکے ہوں تو معمول کے مطابق عید کی خوشی اور دیگر امور انجام دینے چاہییں ۔ فوت شدہ پر نا ہی گھر والوں کو تعزیت کرنا جائز ہے اور نا ہی متعلقین کو میت کے گھر جمع ہوکر گھروالوں کے غموں کو تازہ کرنا مدتحسن عمل ہے، سلف صالحین شریعتِ محمدیﷺ کے زیادہ پاسدار تھے، ان میں بھی اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا، لہذا اس قسم کی بدعتوں سے بچنا اور انہیں ترک کر دینا واجب ہے ، کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

(مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ، فَهُوَ رَدٌّ )
(صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)
’’جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:
( إِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ)
(سنن ابي داود‘ السنة‘ باب في لزوم السنة‘ ه: 4607‘ واصله في صحيح مسلم)
اپنے آپ کو(دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچاؤ، کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہےاور ہر بدعت گمراہی ہے

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Aeitekaf kitne dino ka hota hai? Aeitekaf me 1 ghanta ya 1 din ke liye baith sakta hai?

Aeitekaf Kitne Dino ka hota hai?

Koi Shakhs Aeitekaf Me jyada se jyada aur kam se kam kitne Dino tak baith sakta hai?
Aeitekaf ki minimum aur Maximum timing kitne dino ki hai?
Kya koi Shakhs 1 din ke liye ya 1 ghante ke liye Aeitekaf me baith sakta hai?
Kya Har Roja ke liye alag se niyat karna hoga?
Doodh Pilane wali Aurat ke liye roze ka hukm.
Kya Na Paki Ki halat me Sehri kha sakte hai?
Nak se Khoon aane par ya Aankh me drops dalne par roja toot jayega?

Kya Haiz wali aurat Aeitekaf me baith sakti hai?
Kya koi khatoon Ghar me hi Aeitekaf ke liye baith sakti hai?

Laylatul Qadar ki fajilat aur Ahamiyat.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

اعتکاف کتنے دن کا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

گو کہ اعتکاف صرف دس دن سنت ہے ، آپﷺ نے رمضان کے آخری عشرہ میں دس دن میں اعتکاف کیا ہے۔ لیکن اپنی وفات کے سال آپ نے 20 دن کا بھی اعتکاف کیا تھا۔

اب اگر کوئی رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرے، تو یہ سنت کہلائے گا اور اگر 20 دن کا اعتکاف کرے تو یہ بھی جائز کہلائے گا ۔ اسی طرح دس دن سے زیادہ یا کم مثلاً سات دن، پانچ دن، تین دن، ایک دن یا کچھ گھنٹوں وغیر کےلیے جو اعتکاف کرتا ہے۔ تو یہ بھی جائز و درست ہے۔ کیونکہ کتاب وسنت میں عام اعتکاف کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ اس کا حکم عام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ۔ (البقرة:125)

’’ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں ‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس نذر کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" اوف بنذرك واعتكف ليلة " ( صحیح بخاری مع الفتح 4/333، صحیح مسلم 11/134)

یعنی اپنی نذر کو پورا کرو اور ایک رات کا اعتکاف کرو۔

سلف صالحین سے بھی یہ عمل ثابت ہے مثلاً صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" اني لامكث في المسجد وما امكث الا لاعتكاف " (المحلی لابن حزم5/180)

یعنی میں ایک گھڑی مسجد میں بیٹھتا ہوں مگر یہ کہ میری نیت اعتکاف کی ہوتی ہے۔

حافظ ثناء اللہ مدنی سے سوال پوچھا گیا

اعتکاف کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنے دنوں تک ہو سکتا ہے؟

شریعت مطہرہ میں اعتکاف کے لیے وقت کی کوئی پابندی نہیں۔ البتہ رسولِ کریمﷺ کی اقتداء میں مستحب یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا جائے۔

امام عبدالرزاق نے یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے بسندہ بیان کیا ہے، وہ فرماے ہیں ، میں تھوڑے سے وقفہ کے لیے بہ نیت اعتکاف مسجد میں ٹھہر جاتا ہوں۔ (فتح الباری،ج:۴،ص:۲۷۳)

( دیکھیے : فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی/جلد:3/کتاب الصوم/صفحہ:277 )

Share:

Dukandaro Se saman kharidte waqt Na Mehram Auraton ko Dekh sakte hai?

Dukano se Saman kharidte waqt kya Na mehram Auraton ko dekh sakte hai?
Churiyo (Bangles) aur kapdo ke dukano par Kya Custumers Ke chehre ko dekh sakte hai?

M.A
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

دوکانداروں کا خریدو فروخت کے وقت نامحرم عورتوں کی طرف دیکھنا کیسا ہے؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🖋️: مسز انصاری

مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں شریعت کےحرام و حلال کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھے ۔ اور نامحرم کے ضمن میں مسلمان کو شہوت وغیرہ کے تعلق سے ”نظروں کی حفاظت“ کا حکم ہے ۔ کیونکہ حقیقتًا ”بدنظری“ہی ”بدکاری“ کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے، تاہم قرآن و حدیث میں مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کو مطلقاً دیکھنا حرام قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ بحالت مجبوری بقدر ضرورت مرد و عورت ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں ۔ البتہ ”غضِ بصر“ کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہےغض البصر، کسی نامحرم کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے کو کہتے ہیں ۔

لہٰذا معاملہ کرتے وقت یعنی ،اشیاء کے لینے و دینے اور خرید و فروخت کے وقت عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے ، وہ اس لیے تاکہ بائع یا مشتری معاملہ کرتے وقت اس عورت کو پہچان لے ، مبادا کسی وجہ سے چیز واپس کرنی پڑے یا کسی بھی قسم کے مالی نقصان وضرر سے بچا جاسکے ، یا قیمت کی وصول کرنی ہو تو دوسر ی عورتوں سے الگ شناخت کی جاسکے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر عورت خريد و فروخت يا اجرت كا لين دين كرے تو مرد اس كے چہرے كو ديكھ سكتا ہے تا كہ اسے وہ بعينہ جان لے اور درك ( يعنى استحقاق بيع كے وقت قيمت كى ضمانت ہے ) اس عورت پر ہے، ليكن ضرورت كے وقت اور بغير شہوت كے اس ميں كوئى حرج نہيں "
ديكھيے : المغنى ( 7 / 459 ) الشرح الكبير على متن القنع بھامش المغنى ( 7 / 348 ) ، اور الھدايۃ مع تكملۃ فتح القدير ( 10 / 24 ).

اور امام نووی رحمہ اللہ اس بارے میں رقمطراز ہیں :

جواز النظر للحاجة عند البیع والشراء
(النووی ،شرح صحیح مسلم ،جلد۹،صفحہ۲۱۰۔)
”خرید وفروخت کی ضرورت کے وقت عورت کی طرف نظر کرنا جائز ہے ۔

اور امام کاسانی لکھتے ہیں :
لأن إباحة النظر إلی وجہ الأجنبیة وکفیھا للحاجة إلی کشفھا فی الأخذ والعطاء
(الکاسانی،البدائع والصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۲۔)
”اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کی طرف نظر کرنا جائز ہے“۔

لہٰذا دوکانوں پر خریداری کے لیے آنے والی خواتین کو دیکھنا جائز ہے، اور يہ نظر بطور لذت نہيں ہونى چاہيے ، اور اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بلا ضرورت نامحرم عورتوں کو دیکھا جائے، بلکہ دوکاندار مرد حضرات لین دین کرتے وقت کم سے کم نظریں اٹھائیں، اور اسی طرح بے پردہ خواتین بھی نا ہی بلا ضرورت فضول گفتگو یا ہنسی مذاق کریں اور نا ہی دوکاندار کی طرف بلا ضرورت دیکھیں ۔۔۔۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Laylatul Qadar (Shab-E-Qadar) ki Fajilat, is rat ki nishaniya aur Padhi jane wali Masnun Duwayein.

Shab-E-Qadar ki fajilat aur ahamiyat?

Is rat ki nishaniya aur padhi jane wali dua?

Sawal: Shab-E-Qadar (Laylatul Qadar) ki kya Fajilat hai? Yah kaun si rat hai? Is rat ki nishaniya (Signs) aur Masnun dua.
Shab-E-Qadar Ki Ahmiyat aur fajilat.

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے،
وہ کہتی ہیں: اے اللہ کے رسول! اگر میں شب ِ قدر کو پا لوں تو کونسی دعا کروں؟
آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
یہ دعا کرنا:
اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔
(اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کر دے۔)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3850)

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-120"

سوال_لیلة القدر کی کیا فضیلت ہے؟ اور یہ  کون سی رات ہے؟ نیز اس رات کی نشانیاں اور مسنون دعا بیان کریں؟

جواب..!
الحمدللہ..!!

*لیلۃ القدر کی فضیلت*

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ ﴿٣﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَ‌بِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ‌ ﴿٤﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ‌ ﴿٥
(سورہ القدر: آئیت نمبر-3٫4٫5)
ترجمہ_
قدر کی رات ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے متعلق اترتے ہیں۔ وہ رات فجر طلوع ہونے تک سر اسر سلامتی ہے۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ خالص ﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے لیلۃ القدر کا قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2014)

*نبی مکرم ﷺرمضان کے آخری عشرہ میں بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے ، اس میں نماز ، اور قرات قرآن اور دعا وغیرہ جیسے اعمال بہت ہی زیادہ بجا لاتے تھے*

امام بخاری نے اپنی کتاب میں،
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا ہے کہ:جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی اکرم ﷺرات کو بیدار ہوتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے اورکمر کس لیتے تھے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2024)

*شب قدر کونسی رات میں ہے اس بارے علماء کا اختلاف ہے، کوئی 21 رمضان کی رات کو کہتے ہیں کوئی 23 اور ہماے ہاں ایشیاء میں تو زیادہ تر 27 رمضآن کو ہی شب قدر کہا جاتا ہے، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے اور یہ رات تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے*

دلائل درج ذیل ہیں!!

امام بخارى رحمہ اللہ ني اپنی صحیح میں باب باندھا  "باب تَحَرِّي لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ " یعنی لیلۃ القدر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا بیان،

 ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
شب قدر کورمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو ۔
(صحیح بخاری:حدیث نمبر- 2017)

ایک روایت میں ہے کہ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے ( وہ کون سی رات ہے ) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھا لی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔
( تو اب ایسا کرو کہ ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-49)

اور ایک روایت میں ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ ( یعنی اکیسوئیں یا تئیسوئیں یا پچیسوئیں راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو )
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2021)

عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے: ” شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو“
۔ امام ترمذی کہتے ہیں:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اکثر روایات یہی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اسے آخری عشرے کی تمام طاق راتوں میں تلاش کرو“، اور شب قدر کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں، اور رمضان کی آخری رات کے اقوال مروی ہیں،
شافعی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا مفہوم -

«واللہ اعلم» - یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سائل کو اس کے سوال کے مطابق جواب دیتے تھے۔ آپ سے کہا جاتا: ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں؟ آپ فرماتے: ہاں فلاں رات میں تلاش کرو، ۵- شافعی کہتے ہیں: میرے نزدیک سب سے قوی روایت اکیسویں رات کی ہے، - ابی بن کعب سے مروی ہے وہ قسم کھا کر کہتے کہ یہ ستائیسویں رات ہے۔ کہتے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی علامتیں بتائیں، ہم نے اسے گن کر یاد رکھا۔ ابوقلابہ سے مروی ہے کہ شب قدر آخری عشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-792)

عیینہ بن عبدالرحمان کہتے ہیں
مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ ابوبکرہ رضی الله عنہ کے پاس شب قدر کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: ”جس چیز کی وجہ سے میں اسے صرف آخری عشرے ہی میں تلاش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی ہے، میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: ”تلاش کرو جب ( مہینہ پورا ہونے میں ) نو دن باقی رہ جائیں، یا جب سات دن باقی رہ جائیں، یا جب پانچ دن رہ جائیں، یا جب تین دن رہ جائیں“۔ ابوبکرہ رضی الله عنہ رمضان کے بیس دن نماز پڑھتے تھے جیسے پورے سال پڑھتے تھے لیکن جب آخری عشرہ آتا تو عبادت میں خوب محنت کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-794)

زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے کہا آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: جو سال بھر ( رات کو ) کھڑے ہو کر نمازیں پڑھتا رہے وہ لیلۃ القدر پا لے گا، ابی بن کعب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے ( ابوعبدالرحمٰن، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی کنیت ہے ) انہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان کی ستائیسویں ( ۲۷ ) رات ہے، لیکن وہ چاہتے تھے کی لوگ اسی ایک ستائیسویں ( ۲۷ ) رات پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ رہیں کہ دوسری راتوں میں عبادت کرنے اور جاگنے سے باز آ جائیں، بغیر کسی استثناء کے ابی بن کعب رضی الله عنہ نے قسم کھا کر کہا: ( شب قدر ) یہ ( ۲۷ ) رات ہی ہے، زر بن حبیش کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: ابوالمنذر! آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس آیت اور نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی ہے ( یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ انہوں نے «بالآية» کا لفظ استعمال کیا یا «بالعلامة» کا آپ نے علامت یہ بتائی ( کہ ستائیسویں شب کی صبح ) سورج طلوع تو ہو گا لیکن اس میں شعاع نہ ہو گی
۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3351)
(صحیح مسلم حدیث نمبر 762)

 عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، کہ میں بنی سلمہ کی مجلس میں تھا، اور ان میں سب سے چھوٹا تھا، لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے شب قدر کے بارے میں کون پوچھے گا؟ یہ رمضان کی اکیسویں صبح کی بات ہے، تو میں نکلا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھی، پھر آپ کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: اندر آ جاؤ ، میں اندر داخل ہو گیا، آپ کا شام کا کھانا آیا تو آپ نے مجھے دیکھا کہ میں کھانا تھوڑا ہونے کی وجہ سے کم کم کھا رہا ہوں، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو فرمایا: مجھے میرا جوتا دو ، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لگتا ہے تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے؟ ، میں نے کہا: جی ہاں، مجھے قبیلہ بنی سلمہ کے کچھ لوگوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے، وہ شب قدر کے سلسلے میں پوچھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آج کون سی رات ہے؟ ، میں نے کہا: بائیسویں رات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی شب قدر ہے ، پھر لوٹے اور فرمایا: یا کل کی رات ہو گی آپ کی مراد تیئسویں رات تھی۔

(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1379)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے متعلق فرمایا: شب قدر ستائیسویں رات ہے
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر_1386)

حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : مجھے شب قدر دکھا ئی گئی پھر مجھے بھلا دی گئی ۔ اس کی صبح میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں ۔ کہا : تیئسویں رات ہم پر بارش ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھا ئی پھر آپ نے ( رخ ) پھیرا تو آپ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے نشانات تھے ۔ کہا : اور عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے ( لیلۃالقدر ) تیئیسویں ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1168)
(اسلام360 میں مسلم حدیث نمبر-2775)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ترکی خیمے کے اندر جس کے دروازے پر چٹائی تھی ، رمضا ن کے پہلے عشرے میں اعتکا ف کیا ، پھر درمیانے عشرے میں اعتکاف کیا ۔ کہا : تو آپ نے چٹا ئی کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر خیمے کے ایک کونے میں کیا ، پھر اپنا سر مبا رک خیمے سے باہر نکا ل کر لو گوں سے گفتگو فر ما ئی ، لوگ آپ کے قریب ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : میں نے اس شب ( قدر ) کوتلاش کرنے کے لیے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا ، پھر میں نے درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا ، پھر میرے پاس ( بخاری حدیث : 813میں ہے : جبریل ؑ کی )آمد ہو ئی تو مجھ سے کہا گیا : وہ آخری دس راتوں میں ہے تو اب تم میں سے جو اعتکاف کرنا چا ہے وہ اعتکاف کر لے ، لوگوں نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا ۔ آپ نے فر مایا : اور مجھے وہ ایک طاق رات دکھا ئی گئی اور یہ کہ میں اس ( رات ) کی صبح مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیسویں رات کی صبح کی ، اور آپ نے ( اس میں ) صبح تک قیام کیا تھا پھر بارش ہو ئی تو مسجد ( کی چھت ) ٹپک پڑی ، میں نے مٹی اور پانی دیکھا اس کے بعد جب آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو آپ کی پیشانی اور ناک کے کنارے دونوں میں مٹی اور پانی ( کے نشانات ) موجود تھے اور یہ آخری عشرے میں اکیسویں کی رات تھی
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1167)
(اسلام360 میں مسلم حدیث نمبر-2771)

*ان احادیث اور ان جیسی باقی تمام  احادیث کو ملا کر  یہ پتا چلا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی رات بھی ہو سکتی ہے*

*اور یہ رات تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے،یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف راتوں کے بارے شب قدر کی روایات ملتی ہیں کیونکہ جس صحابی نے جس رات میں شب قدر کو پایا اسی رات بارے انہوں نے گواہی دے دی*

*شب قدر کی علامات*

پہلی علامت..!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نشانی یہ بتائی کہ،
شب قدر کی صبح کو سورج کے بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی وہ ایسے ہوتا ہے جیسے تھالی،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1378)

دوسری علامت:

رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا،
تم میں سے کون شب قدر کو یاد رکھتا ہے (اس میں ) جب چاند نکلتا ہے تو ایسے ہوتا ہے جیسے بڑے تھال کا کنارہ،
(صحیح  مسلم،حدیث نمبر-1170)

تیسری علامت:

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''لیلۃ القدر آسان و معتدل رات ہے جس میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ ہی سردی۔ اس کی صبح کو سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدھم ہوتی ہے ۔
(مسند بزار: 11/486)
مسند طیالسی: 349)
( ابنِ خزیمہ:3/231)
یہ روایت حسن ہے!۔

*نوٹ
شب قدر کی رات کو کتے نا بھونکنے والی بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں*

*شب قدر کی دعا*

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے،
وہ کہتی ہیں: اے اللہ کے رسول! اگر میں شب ِ قدر کو پا لوں تو کونسی دعا کروں؟
آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
یہ دعا کرنا:
اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔
(اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کر دے۔)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3850)

نوٹ_
اس دعا کے ساتھ مزید دعائیں بھی کریں، خاص کر مسلمانوں کی مدد اور حفاظت کے لیے، ہمارے پیارے وطن پاکستان کی حفاظت کی دعائیں کریں،  اس وقت ملک دشمن عناصر بہت اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ،
اللہ پاک ہم سب کا ،ہمارے ملک کا اور پوری دنیا میں مقیم مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو، اور انکی غیبی مدد فرمائے،
آمین یا رب العالمین,

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Hazrat Khalid bin Walid Rz ne kaise Roman Empire aur Farsi Saltnat ko Shikasht di?

Khalid Bin Walid ne Roman Empire aur Faras Empire ko kaise Shikasht di?

Khalid bin Walid ko "Saifullah" Ka laqab kyu mila?
Aaj koi Baccha Sultan Salahuddin Ayyubi jaisa kyu nahi banta?

Sultan Salahuddin Ayyubi aur Masjid Al Aqsa.

مسلم ملکوں نے اسلام کو اپنا دستور مانا لیکن عمل اس پر نہیں

مغربی ملکوں نے عقل کو اپنا دستور مانا تو اس پر عمل بھی کر کے دکھایا.

طبعی بات تھی کہ نئی آنے والی نسلیں اسلام کے متعلق بدگمانیاں پالتیں اور مغرب کے متعلق اچھے خیالات!

حضرت خالد بن ولید 592ء میں مکہ میں بنو مخزوم کے سردار ولید بن مغیرہ کے گھر پیدا ہوئے۔

ان کے سن پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے آپ شروع سے ہی دلیر اور غیر معمولی بہادری کے حامل تھے اور غزوہِ احد میں مسلمانوں کے خلاف جنگ کا پیاسا الٹنے والے یہ ہی تھے اس کے علاؤہ آپ غزوہِ خندق میں بھی مسلمانوں کے خلاف لڑے آپ بت پرستی کی طرف اتنے مائل نہ تھے آپ ایک آزاد ذہنیت کے حامل تھے.
جب مسلمان 5 ھ میں خندق کی جنگ جیت گئے اس وقت سے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگی صلاحیت کے معترف ہو گئے.

خالد بن ولید خود ایک بہادر تھے اس لئے وہ جوہر شناس تھے.
7ھ کو سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے فتح خیبر کے بعد آپ اسلام کے اور نزدیک ہو گئے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے پہلے ہی مکہ میں عکرمہ بن ابی جہل کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ ایمان لا چکے ہیں عکرمہ بن ابی جہل نے یہ بات ابو سفیان تک پہنچائی کیونکہ اس وقت مکہ میں خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے بہادر تھے اس لئے عکرمہ بن ابی جہل اور ابو سفیان دونوں نے آپ کے اس فیصلے کو مجبوراً قبول کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر عمر بن عاص اور سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ 31 مئی 629ء بمطابق یکم صفر 8ھ کو مدینہ منورہ پہنچے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھو مشرف بہ اسلام ہوئے۔

جس سال آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے یعنی 8ھ کو اسی سال مسلمان جنگ موتہ میں رومیوں سے لڑے۔

اس جنگ جب سیدنا زید بن حارثہ، سیدنا جعفر بن طیار اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ کے شہادت کے مسلمانوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سپہ سالار بنایا۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خداداد صلاحیتوں مسلمان لشکر واپس لوٹ آیا اس جنگ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سیف اللہ کا لقب دیا .
خلافت صدیقی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپہ سالار اعلیٰ تھے اور مسلمہ کذاب کے خلاف کھٹن جنگوں میں فتح یاب ہوئے.
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو  کہہ کر معزول کر دیا کہ کہیں مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ کہ ہر جگہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وجہ سے فتح یاب ہو رہے بلکہ یہ فتوحات اللہ کی طرف سے ہے۔

معزول ہونے کے بعد بھی انہوں نے ہر جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا انہوں نے جنگ یرموک میں فتح سمیٹی اجنا دین میں جیتے دومتہ الجندل جیتے اردن فتح کیا فارسی سلطنت کے عراق علاقے فتح کیے تمام شام فتح کیا ترک علاؤہ انطاکیہ فتح کیا, فلسطین بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمان میں فتح ہوا, الغرض آپ نے سو چھوٹی بڑی جنگوں میں حصہ لیا اور ہر ایک میں کامیاب رہے.

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی معزولی کی وجہ سے بھی رنجیدہ تھے اس کے علاؤہ اسی عرصے کے دوران جب شام اور فلسطین میں طاعون کی وبا پھیلی تو وبا کی زد میں بڑے بڑے صحابہ کرام جب میں آپ کے قریبی ساتھی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی. اسی سال حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وجہ سے غمگین رہتے تھے.

مسلسل جنگوں میں شرکت کی وجہ سے ان کی جسمانی قوت سرعت سے زائل ہونے لگی اور آپ شہادت کی آرزو میں جینے لگے آپ کی وفات سے قبل ایک دوست آپ سے ملنے آئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سینہ ٹانگیں کمر اور بازو دکھائے جن پہ تلواروں تیروں اور نیزوں کے زخموں کے نشانات تھے اور کہا کہ مجھے اس کے باوجود بھی شہادت نصیب نہ ہوئی آپ کے دوست نے کہا کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کہا ہے اگر آپ شہید ہو جاتے تو کفار کہتے ہم نے اللہ کی تلوار توڑ دی .

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 18 رمضان المبارک 21 ھ بمطابق 20 اگست 642ء کو شام کے شہر حمص میں ہوئی۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملکیت میں چند تلواریں ایک گھوڑا اور ایک غلام تھا جب آپ کی وفات کی خبر مدینہ پہنچی تو عورتیں بین کرنے لگ گئی سیدنا عمر فاروق کسی کی وفات پہ رونے کے سخت خلاف تھے لیکن ابو سلیمان (خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی وفات پہ فرمایا کہ عورتوں کو رو لینے دو ایسا بیٹا مائیں روز روز پیدا نہیں کرتیں۔

سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدفین شام کے شہر حمص میں ہوئی اس جگہ پہ مسجد خالد بن ولید کے نام سے تعمیر کی گئی.

خاک بطحا خالدے دیگر بزاے
نغمہ ی توحید را دیگر سراے
مطلب: اے سرزمین مکہ تو پھر کوئی خالد پیدا کر اور ایک بار پھر توحید کا راگ گا.

#خالد_بن_ولید
#رمضان٢٠٢٣
#رمضان

Share:

Auraton ka Masjid me Namaj padhna Afzal hai ya Ghar me? Kya Auraten Masjid me Taraweeh ki Namaj padhne ja sakti hai?

Khawateen ka Masjid me Namaj padhna Afzal hai ya Ghar me?

Asmara HT
اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُاللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ

خیریت سے ہیں آپ؟

ڈیر اپی میں پوچھنا یہ چاہ رہی تھی کہ کیا عورتیں مُسلسل جماعت سے نماز نہ ادا کریں؟
کیا عورتوں کا انفرادی طور پر نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے؟
کیونکہ میری دو بہنیں اور امّی اکٹھا تراویح کی نماز اور باقی نمازوں میں اکثر جماعت سے ہی ادا کر لیتے ہیں تو میرا سوال یہاں یہ ہے کہ ہم نماز الگ الگ پڑھیں یہ ایسے ہی جماعت کے ساتھ پڑھتے رہیں؟
کُچھ لوگوں کو اِس پر اعتراض ہے پلیز واضح کر دیں۔۔
آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔
شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ معزز و مکرم سسٹر

الحمدللہ انابخیر اختی ۔۔۔۔

ہر حال میں عورت کی گھر میں پڑھی جانے والی نماز اس نماز سے افضل ہے جو مسجدوں میں پڑھی جاتی ہے چاہے وہ گھروں میں تنہا نماز ادا کرے یا با جماعت بنا کر ۔ احادیث اس مسئلہ پر بعبارۃ النص دلالت کرتی ہیں کہ بہ نسبت مسجد کے عورتوں کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنا بہتر اور افضل ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

صلاةُ المرأةِ في بيتِها أفضلُ من صلاتِها في حجرتِها وصلاتُها في مَخدعِها أفضلُ من صلاتِها في بيتِها(صحيح أبي داود : ۵٧۰ )

عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے ( اندرونی ) کوٹھری میں زیادہ افضل ہے ۔

تاہم اگر خاتون مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا چاہے تو  اسے روکنا نہیں چاہیے بشرطیکہ مکمل شرعی پردے کے ساتھ ہو اور خوشبو استعمال کئے بغیر  مسجد میں جائے اور مردوں کے پیچھے نماز ادا کرے ۔

عن ابی هریرة ان النبی صلی اللہ علیه وسلم قال لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ ولیخرجن تفلات۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا: لوگو! تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے منع نہ کرو۔
(صحيح أبي داود: ۵۶٧)

اور اگر گھر میں نماز با جماعت کا اہتمام ہو تو عورت کیلیے افضل یہی ہے کہ انفرادی طور پر نماز ادا کرنے کے بجائے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے چاہے یہ جماعت خواتین کے ساتھ ہو یا محرم مردوں کے ساتھ ۔چنانچہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی "مصنف" (4989) میں ام الحسن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ خواتین کی امامت کرواتی تھیں، اور وہ اس دوران انہی کی صف میں کھڑی ہوتیں۔

اس اثر کو البانی رحمہ اللہ نے "تمام المنہ" صفحہ: 154 میں صحیح کہا ہے۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ اگر گھر کی خواتین گھر میں با جماعت نماز کا اہتمام کریں تو یہ افضل ہے، اس کیلیے خاتون امام پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو گی ، ان کی امامت وہی کروائے گی جس کے پاس سب سے زیادہ قرآن کا علم ہو اور دین کے احکامات اس کے پاس سب سے زیادہ ہوں ۔

لہٰذا گھر کی خواتین کو چاہیے کہ وہ گھر میں جماعت کی سہولت ملنے پر انفرادی نماز پر با جماعت کو فوقیت دیں اور نماز میں خشوع حاصل کرنے کیلیے بھر پور کوشش کرے۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS