find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Maut Ke Bad Kya Marne wale ke taraf Se Sadqa Kiya Ja Sakta Hai?

 Faut Hone Wale Ki Taraf Se Sadqa Dene Ka Sawab Kya Unhe Milta Hai

جیسا کہ حدیث میں مذکور ھے کہ مرنے کے بعد اعمانامہ بند ھو جاتا ھے سوائے 3 چیزوں کے۔
صدقہ جاریہ۔ صالح اولاد۔نافع علم
اب گزارش یہ ھے کہ آپ نے فرمایا ھے کہ اپنی والدہ محترمہ کیلئے کنواں کھدوالیں تاکہ ان کیلئے صدقہ جاریہ ھو۔  اولاد کا مرحوم والدین کیلئے صدقہ جاریہ کرنے کی دلیل درکار ھے.
اللہ آپکو جزائے خیر دے
___________________________
فوت شدگان کی طرف سے صدقے کا فوت شدہ کو ثواب پہنچتا ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔
مسلم: (1630) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا: "میرا باپ فوت ہو گیا ہے، اور اس کے ترکے میں مال موجود ہے، لیکن کسی قسم کی کوئی وصیت نہیں کی، تو کیا اگر میں انکی طرف سے صدقہ کروں تو انکے گناہ مٹ جائیں گے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں)
➖ اسی طرح مسلم: (1004) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "میری والدہ اچانک فوت ہو گئیں ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہیں کچھ بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا مجھے اس میں سے ثواب ملے گا، اگر میں انکی طرف سے صدقہ کروں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں)
➖ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا:
’’ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ، وَلَمْ تُوصِ، أَفَيَنْفَعُهَا أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا؟، قَالَ: نَعَمْ، وَعَلَيْكَ بِالْمَاءِ‘‘
(یا رسول اللہ! میری والدہ وفات پاگئیں مگر کوئی وصیت نہ کر پائیں، اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو وہ انہيں فائدہ دے گا؟ فرمایا: ہاں، اور تم پانی کو لازم پکڑو(یعنی پانی پلانے کے ذریعے صدقہ کرو))۔
اسے الطبرانی نے الاوسط میں روایت کیا اور الالبانی نے الصحیحۃ 2615 میں اسے صحیح فرمایا۔
➖ اسی طرح سے سیدنا سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ، فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَاءُ، قَالَ: فَحَفَرَ بِئْرًا، وَقَالَ: هَذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ‘‘
(یا رسول اللہ! ام سعد فوت ہوگئيں، پس ان کی طرف سے کون سا صدقہ افضل ہوگا؟ فرمایا: پانی۔ راوی کہتے ہیں: پھر انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور فرمایا کہ: یہ ام سعد کے لیے ہے)۔
اسے ابو داود نے روایت کیا اور الالبانی صحیح ابی داود 1681 میں فرماتے ہیں یہ حسن لغیرہ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
Share:

Kisi Ke Maut Pe Barish Ka Hone Ki Alamat.

Kya Kisi Ke Maut Pe Barish Hona uske Nek Hone Ki Nishaniyo Me Se Ek Hai

 ا لسلام علیکم..حضرت سعد رضی الله عنه کی موت پر عرش کا ہلنا.اور عذاب قبر کا هونا پهر هلکا هونا...اسکے متعلق مکمل معلمومات چاهئے.کیا کسی کی موت پر بارش کا هونا نیکی کی علامت ہے...شکریه
_________________________________
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
بھائی کے سوال کا پہلا حصہ 
⬅حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا فَضْلُ بْنُ مُسَاوِرٍ خَتَنُ أَبِي عَوَانَةَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَعَنْ الْأَعْمَشِ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ فَقَالَ رَجُلٌ لِجَابِرٍ فَإِنَّ الْبَرَاءَ يَقُولُ اهْتَزَّ السَّرِيرُ فَقَالَ إِنَّهُ كَانَ بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَيَّيْنِ ضَغَائِنُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ
➖ صحیح البخاری/رقم الحدیث : 3803
➖ کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ
➖ بَابُ مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ؓ
ترجمہ : مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہاہم سے ابوعوانہ کے داماد فضل بن مساور نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے ، ان سے ابوسفیان نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ۔ آپ نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش ہل گیا اور اعمش سے روایت ہے ، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ، ایک صاحب نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ براءرضی اللہ عنہ تو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ چار پائی جس پر معاذ رضی اللہ عنہ کی نعش رکھی ہوئی تھی ، ہل گئی تھی ، حضرت جابررضی اللہ عنہ نے کہا ان دونوں قبیلوں ( اوس اور خزرج ) کے درمیان ( زمانہ جاہلیت میں ) دشمنی تھی ، میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش رحمن ہل گیا تھا ۔
صحیح بخاری / حدیث : 3803
کتاب: انصار کے مناقب
باب :حضرت سعد بن معاذ ؓ کے فضائل کابیان
⬅سنن ترمذی میں حدیث ہے:
﴿جابر بن عبداللہ t یقول: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول و جنازة سعد بن معاذ بین ایدیھم اھتزلہ عرش الرحمن ﴾
(سنن الترمذی مع تحفة الاحوذی، ج ۱۰، رقم ۳​۸۵۷)​
ترجمہ: (جابر بن عبداللہ t نے فرمایا کہ سعد بن معاذ t کا جنازہ موجود تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سعد بن معاذ کی موت پر رحمن کا عرش ہل گیا۔ )
یہ حدیث سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ، یہ حدیث درج ذیل کتب میں دیکھی جا سکتی ہے۔
صحیح مسلم ۴/۱۹۱۵ کتاب الفضائل الصحابة۔ سنن الترمذی کتاب المناقب رقم ۳۸۵۸ والبیھقی فی اثبات عذاب القبر ۱۱۳، معجم الکبیر للطبرانی ۵۳۳۲،۵۳۳۳،۵۳۳۴،۵۳۳۵،۵۳۳۶،۵۳۳۷، شرح السنة للبغوی، ج ۵ ص ۳۳۷، رواہ عبدالرزاق رقم ۶۷۴۷، مجمع الزوائد ۹/۳۰۹، مسند احمد ، ج ۲۳، رقم ۱۴۸۷۳۔ ۱۴۵۰۵۔
لہٰذا یہ حدیث کثرت طرق سے ثابت ہے اس کا انکار جائز نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ قد جاء حدیث اھتز العرش ’’سعد بن معاذ‘‘ عن عشرة من
الصحابة اٴو اکثر وثبت فی الصحیحین فلا معنی لانکارہ﴾
(فتح الباری ، ج ۷، ص ۱۵۶)
ترجمہ: (یقیناً یہ حدیث ’’عرش ہلنا‘‘ سعد بن معاذ کے موت پر دس صحابہ سے مروی ہے ، یہ حدیث صحیحین میں بھی موجود ہے، پس اس کا انکار کرنا کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔)
⛔رحمن کا عرش ہلنا اس سے کیا مراد ہے:
کئی علماء نے اس کی مختلف تعبیر دی ہیں۔ مختصر یہ کہ حدیث کے الفاظ سے عرش کا ہلنا ہی ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے عرش کے ہلنے سے مراد جنازے کے بعد سریر کا ہلنا مراد لیا ہے۔ جس کے بارے میں عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں
’’ھذا لاقول باطل‘‘
یہ قول باطل ہے ،
جس کا رد صریح احادیث جو مسلم میں موجود ہیں وہ کرتی ہیں۔
(تحفة الاحوذی ج ۱۰، ص ۳۶۰)
بھائی کے سوال کا دوسرا حصہ 
موت کے بعد ایسی کوئی قوی علامت ثابت نہیں معزز بھائی جو بندے کے صالح اور متقی ہونے کو ظاہر کرے ، تاہم کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک ،یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں ، یہ بات واضح رہے کہ یہ اس وقت ہے جب اس شخص کو زندگی میں لوگوں کے درمیان اچھے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہو، تاہم اس بارے میں کوئی یقینی اور ٹھوس بات نہیں کی جا سکتی۔
لہٰذا اگر مرنے والا بندہ اپنی زندگی میں نیکی و تقوی میں مشہور تھا، پھر اسکی موت کے بعد اس کا چہرہ خوبصورتی سے چمک اٹھا تو یہ ایسی علامت ہے جس سے اچھا تاثر لیا جاسکتا ہے اور اس پر خیر کی امید کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مرنے کے بعد لوگ اس کی تعریف کریں، اور اس کے لئے دعائیں کریں تو یہ اس کے نیک ہونے کی نشانی ہے، اسی طرح زندگی میں اچھے لوگوں کی صحبت بھی انسان کے نیک ہونے کی نشانی ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُا
Share:

Quran ko Apne Pichhe Ki Taraf Karke Baitna Kaisa Hai?

Quran Ki Taraf Pusht Karna Kaisa Hai Namaji ke Aage Se Gujarna Ya Fir Aage Table Wagairah Rakh Dene Ka Tarika

⬅ قرآن کی طرف پشت کرنا
⬅ قرآن نیچے اور کوئی شخص اوپر
⬅ قرآن کے سامنے نمازی کی پشت
➊ سوال : اگر کوئی شخص قُرآن پاک پڑھ رہا ہو۔جیسے مسجد میں‌ پڑھتے ہیں‌ لوگ،اگر کوئی انسان اُس کے آگے آکر نماز پڑھنا شروع کر دے اس طرح‌کہ نماز پڑھنے والے کی پُشت قُرآن پاک کی طرف ہو جائے تو کیا اس سے کوئی گُناہ ملتا ہے؟
➖ جواب :
اس عمل سے قرآن پڑھنے والے یا نماز پڑھنے والے کو کوئی نہیں گناہ نہیں ملے گا ۔
➋ سوال :
اگر گھر میں‌کوئی بیڈ روم کی زمین پر بیٹھ کر تلاوت کرنا شروع کر دے اور سامنے بیڈ پر آکر کوئی بیٹھ جائے تو کہتے ہیں‌ نیچے اُٹھ جانا چاہیے کیونکہ قُرآن نیچے کی طرف ہو جاتا ہے کیا ایسا کچھ ہے کہ نہیں؟
➖ جواب :
ایسا ہی کرنا چاہیے , کیونکہ اللہ تعالى کافرمان ہے :
ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ [الحج : 32]
یہ بات خوب سمجھ لو ,اور جو اللہ تعالى کی نشانیوں کی
تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کےتقوى کی نشانی ہے
➌ سوال :
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کئی لوگ گھر کے کسی بھی درمیانی والی جگہ پر نماز شروع کر دیتے ہیں‌اور اپنے آگے کُرسی یا کچھ اور رکھ دیتے ہیں‌۔ اگر کوئی آگے سے گزر جائے تو کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔کیا اس طرح‌آگے کی طرف کچھ رکھ کر نماز پڑھ لی جائے تو اس میں‌کچھ مسئلہ تو نہیں؟
➖ جواب :
اسے سترہ کہتے ہیں , ایسا ہی کرنا چاہیے کہ نمازی یا تو دیوار یا ستون کے قریب ہو جائے یا پھر اپنے آگے کم از کم ڈیڑھ فٹ اونچی کوئی چیز رکھ لیے , اسکے آگے سے جو چاہے گزر جائے کوئی گناہ نہیں لیکن اس سترے اور نمازی کے درمیان سے اگر کوئی گزرے تو اس پر گناہ ہے ۔
الشیخ عبدالرحمٰن رفیق طاہر حفظہ اللہ
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
Share:

Kafir Ko Cheenk Ka Jawab kaise Diya Jaye?

Kafir Ko Salam Ka Jawab Dena Ya Cheenk Aane Pe Kya Kahna Chahiye

ذمی کافر کو چھینک کا جواب کیسے دیں ؟
سنن ابوداؤد:  ادب کا بیان :
باب :ذمی کافر کو چھینک کا جواب کیسے دیا جائے۔
سیدناابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر چھینکتے اس امید پر کہ آپ انہیں يَرْحَمُکُمْ اللَّهُ کہیں گے لیکن آپ انہیں يَهْدِيکُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَکُمْ کہتے۔
فائدہ : غیر مسلم کو چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کی بجائے یھدیکم اللہ و یصلح بالکم کہنا چاہیئے جیسے کہ اسے السلام علیکم کہنے میں ابتدا نہیں کی جاسکتی اور وہ کہے تو جواباً صرف'' علیکم '' کہا جاتا ہے ۔ (ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ)
Share:

Islamic Bank Me Paisa Jma Karne Ke Masail.

Mera sawal ye hai ke Kya jo log Islamic banks Mai Paisay fix karwate hain 3 ya 5 saal k liye ...or phir us se jo monthly profit lete hain Kya wo jayez hai. jab ke bank walon k pass bahut Se fatawe Bhi hain ke ye paise jayez hain Kyu Ke  profit or loss dono Me shareek hota hai Paisy fix karwane wala..... Bahut Se log aajkal Aeisa kar rahe hain to Kya ye paise Sood ke zimray Me Nahi Aatey?
یاد رکھیے سسٹر کہ FIXED ACCOUNT کا مقصد ہی سود کھانا ہوتا ہے ۔ بینک والوں کے یہ جھوٹے فتوے اور اپنے کاروبار کی خاطر حیلے بہانے اور فنکاریاں درست نہیں ہیں ۔
بینک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اپنے کاروبار میں نفع و نقصان کی شرائط پر شریک نہیں کرتا، بلکہ وہ انھیں اُن کی جمع شدہ رقوم پر متعین مدت میں، متعین اضافہ کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اسی کو سود اور ربا کہتے ہیں۔
بینک کے دیوالیہ ہو جانے پر اکاؤنٹ ہولڈرز کی رقموں کا ٹوٹ جانا یا ان کو نقصان ہو جانا یا اس طرح کی بعض دوسری صورتوں میں انھیں گھاٹا پڑنا، کاروبار کا نفع و نقصان نہیں ہے، بلکہ یہ بینک سے متعلق افراد پر آفات و حوادث کی صورت میں ہونے والے اثرات ہیں۔ بینک بہرحال، سودی نظام پر مبنی ادارہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت کیا ہوتی ہے۔ وہ نفع و نقصان کی شرائط پر لوگوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرتا، بلکہ سود کے اصول پر ان سے رقوم لیتا اور انھیں دیتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں سے خود کو دھوکا نہیں دیناچاہیے
____________________________

Share:

Qist Pe Udhar Ya Nakad Saman Kharidna Jabke Dono Surat Me Keemat Alag Ho.

Qist Pe Saman Kharidne Ke Masail

 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میں ایک گاڑی لینا چاھتا ھوں۔جس کی قیمت 70000روپے ھے
لیکن میں ابھی 70000 افورڈ نہیں کرسکتا ۔وھی گاڑی ایک کمپنی مجھے 10000روپے ادا کرنے پر دے رھی ھے
اور باقی کی قیمت 3500روپے ھر مہینے کی قسط وار ادا کرنے ھوں گیں
ساری قسطیں ادا کرنے کے بعد گاڑی کی قیمت تقریباً 85000 روپے بنے گی
تو کیا جو اضافی 15000بنتے ھیں وہ سود یا رباع کے زمرے میں تو نہیں آ ئیں گیں
مہربانی فرما کر رھنمائی فرمائیں   شکریہ
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
دور حاضر میں جن معاملات کووسیع پیمانے پر فروغ حاصل ہوا ہے ان میں قسطوں پر خرید و فروخت بھی شامل ہے اس کو عربی میں البيع بالتقسيط کہا جاتا ہےجس کا مفہوم یہ ہے کہ چیز تو فورا مشتری کےحوالے کردی جائے مگر اس کی قیمت طے شدہ اقساط میں وصول کی جائےبعض لوگ اس کو موجودہ دور کی ایجاد سمجھتے ہیں جو درست نہیں اس کا رواج تو عہد رسالت و صحابہ میں بھی موجود تھا جیساکہ ذیل میں دلیل سے ثابت ہوتا ہے ۔​
(قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: إِنَّ بَرِيرَةَ دَخَلَتْ عَلَيْهَا تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَعَلَيْهَا خَمْسَةُ أَوَاقٍ نُجِّمَتْ عَلَيْهَا فِي خَمْسِ سِنِينَ )) (صحيح البخاري رقم 2560 ، كتاب المكاتب )​
'' عروہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس اپنی مکاتبت میں مدد کے سلسلے میں حاضر ہوئی اس کے ذمہ پانچ اوقیہ چاندی تھی جو اس نے پانچ سالانہ اقساط میں ادا کرنا تھی ۔ ''​
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری میں اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :​
((بَابُ المُكَاتِبِ، وَنُجُومِهِ فِي كُلِّ سَنَةٍ نَجْمٌ))​
'' مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان ، ہر سال میں ایک قسط ۔ ''​
قسطوں پر خریداری کی صورتیں :
1۔ نقد اور ادھار دونوں صورتوں میں ایک ہی قیمت ہو ۔ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے ۔ تاہم اس کے جواز میں کوئی کلام نہیں ۔​
2۔ ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت وصول کی جائے ۔ مثلا یوں کہا جائے کہ یہ چیزنقد سو روپے کی اور ادھار ایک سو دس کی ہوکی ۔ اس کے بارہ میں تین نقطہ نظر ہیں
(1) ➖ جمہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کی رائے میں یہ جائز ہے ۔ چنانچہ امام شوکانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :​
( و قالت الشافعیة والحنفية و زيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور إنه يجوز )
( نيل الأوطار ج 8 ص 201 )​
➖اهل حديث علماء میں سے سید نذیر حسین محدث دہلوی ، نواب صدیق حسن خان اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ جمیعا بھی اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ ( فتاوی نذیریہ ج 2 ص 162 و الروضۃ الندیۃ ج 2 ص 89 و فتاوی اہل حدیث ج 2 ص 663 ، 664 )​
➖ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی اس کے جواز کے حامی ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں :​
'' قسطوں کی بیع میں کوئی حرج نہیں جب کہ مدت اور قسطیں معلوم ہوں خواہ قسطوں کی صورت میں قیمت نقد قیمت سے زیادہ ہو کیونکہ قسطوں کی صورت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ بائع زیادہ قیمت سے اور مشتری مہلت سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ '' ( فتاوی اسلامیہ ج 2 ص 445 )​
➖ اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے بھی اپنے چھٹے اور ساتویں اجلاس میں جو بالترتیب سترہ تا تیس شعبان 1410 ھ اور سات سے بارہ ذیقعدہ 1412 ھ کو جدہ میں ہوئے ، اس کو جائز قرار دیا ہے ۔ چھٹے اجلاس کی قرار داد کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں :​
(( تجوز الزيادة في الثمن المؤجل عن الثمن الحال كما يجوز ذكر ثمن المبيع نقدا و ثمنه بالأقساط بمدة معلومة )) ( موسوعة القضايا الفقهية المعاصرة والاقتصاد الإسلامي للدكتور على أحمد سالوس )​
'' ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت جائز ہے ۔ جس طرح چیز کی قیمت نقد اور متعینہ اقساط میں ذکر کرنا جائز ہے ۔ ''​
ساتویں اجلاس کے الفاظ یوں ہیں :​
( البيع بالتقسيط جائز شرعا و لو زاد فيه ثمن المؤجل على المعجل )) ( أيضا )​
'' بیع قسط شرعا جائز ہے خواہ اس میں ادھار قیمت نقد سے زیادہ ہو ۔ ''​
(2)امام ابن حزم ، امام ابن سیرین اور زین العابدین عدم جواز کے قائل ہیں ۔​
محدث البانی رحمہ اللہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں ۔ ( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )​
(3)​حضرات طاؤس ، ثوری ، اور اوزاعی کی رائے میں یہ ہے تو ناجائز لیکن اگر بائع اس طرح ہونے کے بعد دو قیمتوں میں سے کم یعنی نقد والی قیمت وصول کرے تو جائز ورنہ نا جائز ۔
( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )​
Share:

Kya Gair Muslim Ko Unke Apne Andaaj Me Salam Kiya Ja Sakta Hai?

Kya Hm Sikh,Ya Isai Ko Unke Andaaj Me Salam Kar Sakte Hai

کیا ہم غیر مسلم کو ان کے انداز میں سلام کر سکتے ہیں یعنی سکھوں کو ھاتھ باندھ کر ان کا مخصوص جملہ کہنا یا انگریزوں کو گڈ مارننگ وغیرہ کہنا. کیونکہ یہ چیزیں میری نوکری کا حصہ ہیں.
سوال  صحیح مسلم ومسند احمد میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’تم یہود ونصاریٰ کو سلام کی ابتداء نہ کرو۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’یہاں نہی تحریم کیلئے ہے لہٰذا انہیں سلام کی ابتداء کرنا حرام ہے۔‘‘
جو حضرات جواز کے قائل ہیں ان دلیل قرآن کریم میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کو ’سلام علیک‘ کہنا ہے۔ اسی طرح فرمانِ باری ہے: ’’اے نبی! ان سے در گزر کریں اور انہیں سلام کہیں۔‘‘
بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ کفار کو کسی ضرورت کی بناء پر سلام کرنا جائز ہے۔ اور اگر وہ سلام کرے تو جواب میں صرف ’’وعلیکم‘‘کہہ دیا جائے

Kafir Ko Salam Ka Jawab Dena Ya Cheenk Aane Pe Kya Kahna Chahiye

ذمی کافر کو چھینک کا جواب کیسے دیں ؟
سنن ابوداؤد:
ادب کا بیان :
باب :ذمی کافر کو چھینک کا جواب کیسے دیا جائے۔
سیدناابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر چھینکتے اس امید پر کہ آپ انہیں يَرْحَمُکُمْ اللَّهُ کہیں گے لیکن آپ انہیں يَهْدِيکُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَکُمْ کہتے۔
فائدہ : غیر مسلم کو چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کی بجائے یھدیکم اللہ و یصلح بالکم کہنا چاہیئے جیسے کہ اسے السلام علیکم کہنے میں ابتدا نہیں کی جاسکتی اور وہ کہے تو جواباً صرف'' علیکم '' کہا جاتا ہے ۔ (ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ)
Share:

Khatne Ke Mauke Pe Dawat Pe Khana Khilana Kaisa Hai?

Khatne Ki Dawat Ya Imtihan Me Kamyab Hone Pe Logo Ko Dawat Dekar Khana Khilana Kaisa Hai

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ختنہ کی دعوت کہانا کیسا ہے  ہمارے ہاں جب بچوں کا ختنہ کیا جاتا ہے تو لوگ ولیمہ کی طرح لوگوں میں کارڈ بانٹتے ہیں اور لوگوں کو بلاتے ہیں کہھانے پے۔۔؟؟   جزاک اللہ خیرا کثیرا
۔.........................................................................
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
ختنہ کے موقع پراللہ کے نام پر ذبیحہ کرکے دوست و احباب اور اعزاء و اقرباء کی دعوت (جس کو طعام الغدیرہ یا طعام الختان بھی کہتے ہیں) کے اہتمام اور فقراء و مساکین میں اس کا صدقہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"ولیمہ کے علاوہ باقی تمام دعوتیں ،مثلاً : ختنے کی دعوت ،جس کا نام "إعذار" یا " عذیرۃ "، رکھتے ہیں ، اسی طرح بچے کی پیدائش پر کی جانے والی دعوت:"خرس" یا "خرسۃ" ہے، مکان کی تعمیر کی دعوت "الوکیرۃ" ، اور لا پتہ فرد کی واپسی پر دعوت "النقيعة" ، بچے کے کسی کام میں ماہر ہونے پر دعوت "الحذاق" ،اور کسی بھی عام دعوت"مأدبة" کہتے ہیں خواہ کسی سبب سے ہو یا بغیر کسی سبب کے ،یہ تمام دعوتیں مستحب ہیں ،کیونکہ اس میں کھانا کھلایا جاتا ہے اور نعمت کا اظہار کیا جاتا ہے، لیکن ان دعوتوں میں ولیمے کی دعوت کی طرح شرکت ضروری نہیں ہے "
واضح ہو کہ ختنہ کی تقریب کو ولیمہ کی طرح منعقد کرنا تو یہ غلط ہے ۔ ہند و پاک میں غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں بچہ کے ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر بعض بُری رسومات دیکھنے میں آتی ہیں۔مثلاً ناچ رنگ و ڈھول، گانے باجے یا مجلس میلاد کا اہتمام، گھوڑے پر بچہ کو سوار کرا کر کسی مسجد یا بزرگ کے مزار تک لے جانا، بچہ کے سر پر پھول و سہرا باندھنا، نظر بد سے بچانے کے لیے اس کے چہرے پرکالا ٹیکہ لگانا، منت کے طور پر لڑکے کے کان چھیدنا، سرخ و پیلے رنگ یا کالے رنگ کا دھاگا گلے میں لٹکانا یا بازو اور کمر پرباندھنا، کوئی سکہ یا ہڈی کا ٹکڑا یا لوہے یا چاندی یاسونے کا چاقو گلے میں لٹکانا، بچہ کے سر کے چاروں طرف روپیہ کئی بار گھما کر اس کا صدقہ اور بلائیں اتارنا، بچہ کے بازو پر امام ضامن باندھنا، کمر میں پٹہ اور تلوار لٹکانا، نیاز و فاتحہ کرنا اور اس کی شیرینی تقسیم کرنا وغیرہ، یہ سب غیر شرعی اور جاہلانہ رسوم و اختراعات ہیں۔ ان سے خود بچنا اور دوسروں کو بھی روکنا چاہیے
Share:

Washroom Me wuzu Ke Dua Padhne Ke Masail.

Toilet me wuzu Ke Dua Padhna Kaisa Hai

 السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم اور مسز اے انصاری بہن
سوال
واشروم میں وضو کرتے وقت زبان سے بسم اللہ کے الفاظ ادا کیے جا سکتے؟
۔.........................................................................
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
عمومًا ہمارے جدت پسند معاشرے میں جو سٹائل عام ہے، اس کے مطابق غسل خانہ اور ٹوائلٹ ایک ساتھ بنائے جاتے ہیں یعنی ان کا داخلہ ایک ہوتا ہے لیکن ان کی جگہ یا مقام الگ الگ ہوتے ہیں لہذا غسل کرنے اور وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رہا مسئلہ وضو سے قبل بسم اللہ پڑھنے کا تو اگر وہاں ہی دل میں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر زبان سے پڑھنی ہے تو باہر آ کر پڑھے۔
Share:

Hafij E Quran Ke Gharwale Ki Fazilat.

Hafiz e Quran ki Kya fazilat Hai aur Hafiz e Quran k parents ki Kya fazilat Hai

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
جو شخص قرآن مجید کو حفظ کرنے کے بعداس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالی اسے اجر عظیم سے نوازتے ہیں ۔اور اسے اتنی عزت وشرف سے نوازا جاتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کو جتنا پڑھتا ہے اس حساب سے اسے جنت کے درجات ملتے ہیں ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
( صاحب قرآن کوکہا جاۓ گا کہ جس طرح تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے تھے آج بھی پڑھتے جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھوگے وہی تمہاری منزل ہوگي ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2914 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1464 ) اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے سلسلۃ احادیث صحیحۃ میں ( 5 / 281 ) حدیث نمبر ( 2240 ) صحیح کہنے کے بعد یہ کہا ہے :
یہاں حفظ قرآن کریم کی فضیلت میں وارد ایک ضعیف حدیث کی آگاہی ضروری ہے کہ :
( وہ حافظ قرآن جواس کی حلال کردہ اشیاء کوحلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام کرتا ہے وہ اپنے گھرانے کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی سفارش کرے گا ) امام بیھقی نے اسے شعب الایمان میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔
لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے ضعیف الجامع میں ضعیف کہا ہے ۔
جبکہ حافظ قرآن کے والدین کے بارے میں دلیل ملتی ہے کہ حافظ قرآن کے والدین کو دو لباس پہنائے جائیں گے جن کی قیمت دنیا وما فیہا بھی نہیں ہے، اس لیے کہ حافظ قرآن کے والدین نے اپنے بچے کی خوب محنت کے ساتھ پرورش کی اور اسے تعلیم دلوائی
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قیامت کے دن متغیر رنگت والے آدمی کی شکل میں قرآن مجید آ کر قرآن پڑھنے والے سے کہے گا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں ہی ہوں وہ جو تمہیں راتوں کو جگاتا تھا اور گرمی کے دنوں میں [روزے رکھوا کر ] پیاس برداشت کرواتا تھا۔ ہر تاجر کے سامنے اس کی تجارت ہوتی ہے اور میں آج تمہارے لیے کسی بھی تاجر سے پیش پیش ہوں گا، تو وہ حافظ قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہی دے گا اور بائیں ہاتھ میں سرمدی زندگی دے گا، اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ دنیا و مافیہا بھی اس کے برابر نہیں پہنچ سکتے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمارے لیے کہاں سے ؟ تو انہیں کہا جائے گا: تم نے اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی اس کے عوض ۔ طبرانی نے اسے معجم الاوسط: (6/51) میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص قرآن کریم پڑھے اور پھر اس کے احکام سیکھے نیز اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالی اس کے والدین کو نور کا تاج پہنائے گا، اس کی روشنی سورج جیسی ہو گی، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ پوری دنیا بھی اس کے برابر نہ پہنچ سکے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمیں کس کے عوض پہنایا گیا؟ تو انہیں کہا جائے گا: تمہارے بچوں کے قرآن سیکھنے کی وجہ سے۔) حاکم (1/756)نے اسے روایت کیا ہے۔
یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کو حسن درجے تک پہنچا دیتی ہیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے سلسلہ صحیحہ (2829) کا مطالعہ کیا جائے۔
میسز اے انصاری
Share:

Qaber Pe Pani Dalne Ke Masail.

Maiyyat ki Qaber Par Kitne Dino Tak Pani Dal Sakte Hai?
میت   کی قبر  پر  پانی  ڈالنا   کیسا  ہے
کیا  میت  کی  قبر  پر  چالیس  دن تک پانی  ڈال  سکتے  ہیں
اس کا کوی  جواز  حدیث  سے ثابت  ہے
جواب ارسال کریں.
الجواب بعون رب العباد:
تحریر:ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
میت کے دفن کرنے کے بعد اسکی قبر پر پانی  چھڑکنا جائز اور مستحب ہے۔
اہل علم نے میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر  پانی ڈالنے کو مستحب قرار دیا ہے۔
پانی چھڑکنے کی کئی علتیں بیان کی گئی ہیں:
نمبر ایک:پانی ڈالنے سے میت کی قبر کی مٹی اور اسکا گردا دب جاتا ہے تاکہ ہوا وغیرہ سے وہ مٹی اڑ نہ جائے۔
نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے ابراھیم رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکا تھا۔
شیخ زکریا انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت کو دفن کرنے کے بعد اسکی قبر پر پانی چھرکنا مستحب ہے تاکہ ہوا سے قبر کی مٹی اڑ نہ جائے اور نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قبر پر ایسا کیا۔[رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ  في أسنى المطالب329/1]۔
علامہ منصور بھوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت کے دفن کرنے کے بعد اسکی قبر پر پانی چھڑکنا سنت ہے تاکہ قبر کی مٹی اسے دب جائے اور مٹی محفوظ رہے ، اور نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قبر پانی چھڑکا ہے اور پہر نبی علیہ السلام نے اس قبر پر ایک پتھر بھی رکھا۔[كشاف القناع 139/2]۔
علامہ شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ میت کے دفن کے بعد ہی قبر پر پانی چھڑکا جائے ، لیکن اگر اسکے بعد بھی کبھی پانی چھڑکنے ضرورت پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
حاشية الرملي الكبير میں ہے کہ دفن کرنے کے بعد ہی  قبر پر پانی چھڑکنا مستحب ہے لیکن اگر اسکے بعد بھی کبھی ضرورت پڑے تو اسوقت بھی جائز ہے جیساکہ ہمارے شیخ نے کہا ہے۔[حاشية الرملي الكبیر328/1]۔
شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رہا مسئلہ کہ کوئی شخص بغیر کسی سبب کے ہر زیارت پر قبر پر پانی چھڑکے ایسا کرنا نبی مکرم علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے اور نہ ایسا کرنا کسی صحابی سے ثابت ہے اسلئے ایسا کرنا صحیح نہیں بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔[فتاوی للشيخ صالح المنجد].
موسوعہ فقہیہ میں ہے کہ ایمہ شوافع،  موالک اور حنفیہ کے نزدیک میت کو دفنانے کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا مشروع اور سنت ہے اسلئے کہ نبی علیہ السلام نے سعد بن معاذ کی قبر پر پانی چھڑکا ، اسی طرح سے نبی مکرم علیہ السلام نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم فرمایا۔
ائمہ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک میت کے دفن کے بعد اسکی قبر پر چھوٹا سا پتھر رکھنا بھی مشروع ہے اسلئے کہ نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے ابراھیم رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکا اور پہر اس پر ایک چھوٹا سا پتھر رکھا۔[الموسوعة الفقهية250/32 ، تبيين الحقائق 246/1 ، أسنى المطالب 328/1 ، كشاف القناع 138/2].
علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبر پر پانی چھڑکنے کے بارے میں کثرت سے احادیث موجود ہیں لیکن وہ احادیث علت سے خالی نہیں ہیں جیساکہ میں إرواء الغليل میں بیان کردیا ہے۔[الإرواء 205/3]۔
البتہ مجھے اوسط طبرانی میں ایک حدیث ملی جوکہ سند کے لحاظ سے قوی ہے کہ نبی علیہ السلام نے اپنے بیٹے ابراھیم رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکا ، میں اسے کتاب من سلسلة الأحاديث الصحيحة  میں نکالاہوں۔[سلسلة الأحاديث الصحيحة 3045 ، سلسلة الأحاديث الضعيفة 994/13].
البتہ بعض لوگوں کا یہ اعتقاد رکھنا کہ میت کی قبر پر پانی چھڑکنے سے میت کا کچھ فائدہ پہنچتا ہے ایسا اعتقاد رکھنا باطل ہے اسکی کوئی اصل نہیں ہے۔
علامہ شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت کی قبر پر پانی چھڑکنے سے میت کو کوئی نفع نہیں ہوتا جو لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ میت کی قبر پر پانی چھڑکنے سے اسے کوئی نفع پہنچتا ہے ایسا عقیدہ رکھنا صحیح نہیں ہے ، میت کے دفن کے بعد اسکی قبر پر پانی چھڑکنے سے اس مٹی محفوظ رہتی ہے اسی لئے اس پر پانی چھڑکنا مستحب ہے۔[فتاوى ورسائل للشيخ ابن عثيمن ، ور على الدرب].
................................................
خلاصہ کلام:میت کی قبر پر اس پر مٹی کو روکنے اور محفوظ کرنے کے لئے اس پر پانی چھڑکنا جائز اور مستحب ہے البتہ یہ اعتقاد رکھنا کہ اسے میت کو کوئی فائدہ اور نفع پہنچتا ہے ایسا عقیدہ باطل اور فاسد عقیدہ ہے۔
سائل نے ذکر کیا ہے کہ چالیس دن تک جی ایسا کرنا کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں ہے البتہ میت کے دفن کرنے کے بعد قبر پر پانی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح اگر اسکے بعد بھی کبھی ضرورت پیش آئے مثلا قبر پر نئی مٹی ڈالی وغیرہ اس مٹی کو دبانے اور محفوظ رکھنے کے لئے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر کوئی اس اعتقاد سے پژی چھڑکے کہ اسے میت کو کوئی نفع پہنچتا ہے ایسا اعتقاد رکھنا باطل ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.

Share:

Kya Biwi Apne Nam Ke Sath Apne Khawind Ka Nam Lga Sakti Hai?

Kya Biwi Apne Nam Ke Sath Apne Mahboob (Shauhar) Ka Nam Lga Sakti Hai?

میرا اپ سے ایک سوال ہے کہ بیوی اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگا سکتی ہے جو اج کل فیشن بنا ہوا ہے جبکہ میں نے سنا ہے اور پڑھا بھی ہے کہ عورت اپنے نام کے ساتھ صرف اپنے باپ کا نام لگا سکتی ہے۔ پوری تفصیل سے جواب دینا مہربانی ہوگی۔
Tahreer: Mrs Jarjis Ansari
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
عام معمول تو یہ ہے کہ نام کے ساتھ اپنے باپ کا نام لکھا ہوتا ہے۔ لیکن بیوی اگر اپنے نام کے ساتھ میاں کا نام کسی بھی وجہ سے لکھ دیتی ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ والی بات نہیں۔اور اگر ایک عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام نہیں بھی لگاتی تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں
الشیخ محمد عبدالرحمن رفیق طاہر حفظہ اللہ کہتے ہیں
شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا شرعا ممنوع نہیں ہے بلکہ ایسا ہوا ہے کہ شوہر کا نام عورت اپنے نام کے ساتھ لگائے یا کوئی اور اسکا نام لیتے ہوئے شوہر کے نام کو ساتھ ذکر کرے, بالخصوص امہات المؤمنین کے ناموں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ "زوجۃ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم " کا لاحقہ انکے ناموں کے ساتھ لگتا ہے کتب احادیث میں اسکی بے شمار مثالیں ہیں ۔
اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارہ میں پوچھا کہ کون سی زینب ہے تو بتانے والے بتایا " امرأۃ ابن مسعود " یعنی ابن مسعود کی بیوی ہے ۔ یعنی باپ کے نام کی بجائے اس زینب کے شوہر کا نام ذکر کیا گیا ۔ اسی کلمہ " امرأۃ ابن مسعود " کو آج لوگ مسز ابن مسعود کہہ دیں تو کیا عار ہے ؟؟؟
⬅مزید:
راقم کے خیال میں عورت جب اپنے شوہر کا نام اپنے ساتھ لگاتی ہے تو اس سے مراد نسبت ابوت نہیں ہوتی لہذا جائز ہے اور اس نسبت کی ممانعت کے جتنے بھی دلائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں نسبت ابوت کے لیے غیر کا نام ساتھ لگانے کی ممانعت ہے ورنہ تو سلف صالحین یا امت مسلمہ کی ١٤ سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ لوگوں کے عرفی نام ان کے شہروں ، علاقوں، قبیلوں، مسالک اور باپ کے علاوہ دادا یا دادی یا پردادا یا پردادی وغیرہ کی طرف بھی نسبت سے معروف ہوئے ہیں اور کسی نے ان کے استعمال پر اعتراض نہیں کیا ہےکیونکہ وہ نسبت ابوت نہیں ہے اور یہ سب کو معلوم ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عرفی نام میں باپ کی طرف نسبت کہاں موجود ہے اور نسل مرد کی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی اور میرے علم میں تو اس پر کوئی اعتراض دیکھنے میں نہیں آیا ہے ۔ اور جہاں تک مغرب کی مشابہت کا معاملہ ہے تو تو یہ ایسی مشابہت ہی ہے جیسی میز اور کرسی کے استعمال میں مشابہت ہے یعنی جب کوئی عمل مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف عام بن جائے تو پھر اگر وہ عمل شریعت کے خلاف نہ ہو تو صرف اس بنیاد پر مرودو نہیں ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں تو آپ اپنے رجحان کے مطابق کسی پر بھی رائے پر عمل کر سکتے ہیں.
"الشیخ ابوالحسن علوی"
⬅مزید:
عورت اپنے شوہر کی طرف اپنے نام کی نسبت کر سکتی یا نہیں تو اس بارے شیخ صالح المنجد کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ باپ کے علاوہ کی طرف نسبت سے قرآن نے منع کیا ہے۔ شیخ پر یہ اعتراض ہوا کہ باپ کے علاوہ جس نسبت سے منع کیا گیا ہے وہ تو ابوت یعنی باپ ہونے کی نسبت ہے جبکہ شوہر کی طرف یہ نسبت نہیں کی جاتی لہذا آپ کی دلیل درست نہیں ہے تو شیخ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ چودہویں صدی کا رواج کہ جس میں درمیان میں سے بن یا بنت کا لفظ نکال دیا گیا ہے ورنہ تو کوئی نام ساتھ لگانے سے مراد بن فلاں یا بنت فلاں ہی ہوتا ہے..شیخ کا کلام ختم ہوا
پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام بطور شوہر کے ہی لگاتی ہے تو کوئی حرج نہیں..ان شاء اللہ!
⬅اس بارے میں دیوبند کا موقف
آج کل سوشل میڈیا پر ایک بات کثرت سے پھیلائی جارہی ہے کہ بیوی کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا حرام ہے لیکن یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے کیونکہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے جو دلائل دیئےپیش کئے جارہے ہیں ان کا مذکورہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسے شخص کے بارے میں ممانعت آئی ہے جو اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرے
عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وآلہ وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» صحيح البخاري (8/ 156)
ترجمہ: "جس شخص نے اپنے آپ کو (حقیقی والد کے علاوہ) کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے.."
قرآن و حدیث کے مذکورہ اور دیگر دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو حقیقی باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کا بیٹا ظاہر کرنا ناجائز و حرام ہے..
جبکہ کسی لڑکی کا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنا والد تبدیل کررہی ہے اور اپنے آپ کو کسی اور کی بیٹی ثابت کررہی ہے بلکہ یہ بات تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی..حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی عورت کیلئے تعارف کے طور پراپنے نام کے ساتھ والد یا شوہر کا نام لکھنا شرعاً ضروری نہیں.. صرف تعارف کے لئے والد یا شوہر کا نام لکھا جاتا ہے.. عام طور پر شادی سے پہلے والد کانام لکھتے ہیں اور اس میں اثبات ِ نسب ہے جو شریعت کے مطابق ہے اور شادی کے بعد شوہر کا نام لکھتے ہیں اور چونکہ تعارف کیلئے شوہر کا نام لکھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے اس لئے یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی عورت کا نسب مشتبہ نہ ہو ( متخصص فی الافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی،پاکستان)
واللہ اعلم!"
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS