find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Roza kis Tarikh se rakhna chahiye Saudi Arab ke Mutabik ya Apne Mulk me Chand dekhe jane par, Kya Mulk ke alag alag hisso me do baar Eid ki Namaj padh Sakte hai?

Musalmano ko kis tarikh se roza rakhna chahiye apne mulk me chand dikhne par ya Saudi Arab ke calender ke hisaab se?

Sawal; kya Ham apne mulk ke logo ke saath roza rakhein aur Eid ki Namaj padhe ya Kisi aur mulk ke sath jahan hamaare mulk se pahle chand najar aa gaya ho unke sath roza rakhein aur Eid manayein.
Agar Ek hi mulk ke do alag alag jagaho par Chand dekhne me ikhtelaf ho jaye toh kya hukm hai?

India, Pakistan Uf Bangladesh ke Musalman kis din se roza rakhenge aur Eid ki Namaj padhenge Saudi Arab ke mutabik ya Apne Mulk ke Committee ke mutabik?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر_126"

سوال_ كيا ہم اپنے ملک كے باشندوں كے ساتھ روزہ ركھیں اور عید کریں يا كسى اور ملک كے ساتھ جہاں ہمارے ملک سے پہلے چاند نظر آ گیا ہو انکے ساتھ روزہ رکھیں اور عید منائیں؟ اور اگر ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں میں چاند دیکھنے پر اختلاف ہو جائے تو کیا حکم ہے؟

Published Date:23-04-2020
جواب۔۔۔!!
الحمد للہ:

*مسلمانوں کے اندر اس مسئلہ کو لے کر کافی بحث رہتی ہے اور ہر سال ہی خاص کر پاکستان میں اس معاملے میں شدید قسم کا اختلاف کیا جاتا ہے ،بہت سے لوگ اپنے ملک کی اپنی حکومتی کمیٹی کے چاند دیکھنے کو کوئی حیثیت نہیں دیتے بلکہ سعودی عرب کے ساتھ ہی روزہ رکھتے اور انکے ساتھ ہی عید کرتے ہیں، اور دوسری طرف ملک کے اندر ہی کچھ علاقوں/صوبوں میں دوسرے صوبوں سے پہلے  روزہ رکھ لیا جاتا ہے اور پہلے عید کر لی جاتی ہے، جس پر بہت سے لوگ انکے اس عمل سے ناراض ہوتے ہیں کہ جی ملک میں دو دو عیدیں شروع کر لی، وغیرہ.

*لوگوں اور علماء کا اختلاف اپنی جگہ مگر  اس بات میں دوسری رائے ہی نہیں کہ مطلع مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں چاند بھی مختلف ہوتا ہے،*

اسکی مضبوط ترین دلیل کریب کی حدیث اور اس پر محدثین کی تبویب ہے.!!

یہاں ہم رؤیت ہلال کے سلسلے میں بہت ہی مشہور اور اہم دلیل حدیث کریب کی وضاحت کرتے ہیں تاکہ حالات کے تقاضہ سے ہٹ کر ہمیں رویت ہلال سے متعلق فہم سلف کی روشنی میں اسلام کا موقف معلوم ہوسکےکیونکہ کتاب وسنت کو ہمیں فہم سلف کی روشنی میں سمجھنا ہے ۔ اگر فہم قرآن وحدیث سے فہم سلف کو نکال دیا جائے تو پھر کوئی بھی نص کے مفہوم کو اپنے مسلک کی تائید میں موڑ سکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں فہم سلف کا درجہ ویسے ہی ہے جیسے حدیث میں سند کا۔ آئیے حدیث کریب کا ایک مطالعہ کرتے ہیں ،

📚أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ : فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ، وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ : مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ ؟ فَقُلْتُ : رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ : أَنْتَ رَأَيْتَهُ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا، وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ : لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ : أَوَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ ؟ فَقَالَ : لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
کریب کو سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف شام میں بھیجا،کریب کہتے ہیں کہ میں شام گیا اور ان کا کام نکال دیا اور میں نے وہاں جمعہ کی شب کو رمضان کا چاند دیکھا،وہ کہتے ہیں  پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے وہاں چاند کب دیکھا؟
میں نے کہا: جمعہ کی شب کو۔
انہوں نے کہا: تم نے خود دیکھا؟
میں نے کہا: ہاں میں نے خود دیکھا،  اور لوگوں نے بھی دیکھا،
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور لوگوں نے روزہ بھی رکھا،
تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
کہ ہم نے تو ہفتہ کی شب کو چاند دیکھا تھا،
اور ہم پورے تیس روزے رکھیں گے یا چاند دیکھ کر عید کریں گے،
تو کریب نے کہا: کہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں سمجھتے؟
تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا،
نہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا کرنے کا ہی حکم دیا ہے
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_1087)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-2332)
(سنن نسائی حدیث نمبر 2111)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-693)
(صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر-1916)
(سنن الکبری للبیھقی حدیث نمبر-8007)
(سنن دارقطنی 21/2185)
(مسند احمد،حدیث نمبر_2789)

یہ حدیث مختلف کتب احادیث میں مروی ہے، یہ حدیث جن محدثین کے توسط سے ہم تک منقول ہوئی ہے انہوں نے اپنے اپنے اساتذہ سے کیا سمجھا ہے یہ جاننے کی اہم بات ہے۔ اس سے حدیث کا معنی ومفہوم متعین کرنے میں آسانی ہوگی کیونکہ حدیث اپنے معانی ومفاہیم کے ساتھ منتقل ہوتی آرہی ہے اس لئے ہمارے واسطے حدیث کی فہم وفراست میں سلف کی فہم ہی معیار ہے،

*حدیث کریب پہ محدثین کے قائم کئے گئے ابواب*

محدثین نے احادیث کو کتاب اور ابواب کے اعتبار سے جمع کیا ہے اس طرح محدثین نے حدیث سے کیا سمجھا ہے اس کا معنی متعین کرنے میں ہمارے لئے آسانی ہوگئی ہے،

📒 *مسلم شریف میں اس حدیث پر یوں باب باندھا گیا ہے*
’’بابُ بیانِ أنَّ لکلِ بلدٍ رؤیتُھم وأنھم اِذَا رأوا الھلالَ ببلدٍلایثبتُ حکمُہ لما بَعُدَ عَنْھُمْ ‘‘
اس چیز کا بیان کہ ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کسی علاقہ کے لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم دور کے لوگوں کے لیے ثابت نہیں ہوگا۔

📒 *امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں مذکورہ حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے*
’’باب اذا رؤي الھلال فی بلدٍ قبلَ الآخرین بلیلۃٍ ‘‘باب اس بیان میں کہ جب چاند کسی شہر میں دوسروں سے ایک دن قبل نظر آجائے تو کیا کیا جائے؟۔

📒 *امام ترمذی نے اپنی جامع میں اس طرح باب قائم کیا ہے*
’’ باب لکل أھل بلد رؤیتھم‘‘۔
باب اس چیز کے بیان میں کہ ہر علاقہ والوں کے لئے اپنی اپنی رویت کا اعتبار ہوگا۔

اور پھر امام ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
:"العملُ عَلَی ھَذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَ أَھْلِ الْعِلْمِ اَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ
"اہل علم کے مابین اس حدیث کے مطابق عمل ہے کہ ہرعلاقے کی رویت کا اعتبار ہوگا۔

📒 *امام نسائی نے کچھ اس طرح باب باندھا ہے:* "باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ
"باب اس حکم کے بیان میں کہ جب مختلف ممالک کے باشندے رؤیت ہلال کے سلسلے میں مختلف ہوں۔

📒 *امام ابن خزیمہ نے یہ باب قائم کیا ہے:*
’’ باب الدليل على أن الواجب على أهل كل بلدة صيام رمضان لرؤيتهم لا رؤية غيرهم‘‘
یعنی اس بات پر دلیل کہ ہر علاقہ والے کے لیے اپنی ہی رؤیت پر رمضان کے روزے کا آغاز کرنا ضروری ہے ۔

📒 *حدیث کریب کی روایت کو بیہقی نے اپنی السنن الکبری میں اس باب سے بیان کیا ہے*
" باب الهلال يرى في بلد ولا يرى في آخر"
چاند کے بارے میں باب جسے ایک شہر والے نے دیکھا اور دوسرے شہر والے نے نہیں دیکھا۔

📒 *دارقطنی نے اپنی سنن میں باندھا ہے کہ*
"باب الشهادة على رؤية الهلال"

(چاند دیکھنے کے سلسلے میں گواہی کا باب )

اوپر ہم نے ذکر کیا ہے کہ کتاب و سنت کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھنا ہے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول سے فہم سلف نکال دیا جائے تو نص کو جو چاہے گا اپنے مقصد و ہدف کی طرف پھیر لے گا۔ یہ حدیث جن کتب احادیث میں آئی ہے ان کی تدوین وترتیب کرنے والوں نے اپنے اپنے اساتذہ سےرویت ہلال کا یہی مذکورہ معنی معلوم کیا ہے اور انہوں نے اپنے اپنے شاگردوں کو بھی اسی معنی ومفہوم کی تعلیم دی ہوگی ۔ ان سارے شیوخ و تلامذہ کی تعداد دیکھی جائے تو ہزاروں میں ممکن ہے۔ ان کے علاوہ اسلاف کی ایک بڑی جماعت سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا اعتبار کرنا منقول ہے جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور آخر اسی پر چودہ صدیوں سے امت کا تعامل بھی رہا ہے

📒جیساکہ امام ترمذی نےحدیث کریب پہ لکھا ہے کہ اہل علم کے درمیان اسی حدیث پر عمل ہے کہ ہرعلاقہ کی رویت کا اعتبار ہوگااور امام بغوی نے بھی لکھا ہے کہ اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ "ان لکل اھل بلد رویتھم" کہ بے شک ہر شہر والوں کیلئے انکی اپنی روئیت معتبر ہے،

*حدیث کی شرح اور اس کا مفہوم*
 
اس حدیث میں مذکور ہے کہ ام الفضل نے کریب کو شعبان کے اخیر میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کام سے بھیجا تو وہاں انہوں نے اور اہل شام نے جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اور سبھوں نے روزہ رکھا۔ جب کریب کام مکمل کرکے دوران رمضان ہی مدینہ لوٹ آئے ۔ ابن عباس سے کریب کی رویت ہلال پہ گفتگو ہوئی تو کریب نے کہا کہ ہم لوگوں نے جمعہ کی شب چاند دیکھا ہے ، تاکید ابن عباس نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے بھی دیکھا اور اہل شام نے بھی دیکھا ۔ ابن عباس نے کہا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے اور اسی دن سے روزہ شروع کیا ہے لہذا ہم روزہ رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ ہم چاند دیکھ لیں تو عید منائیں گے یا چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے مکمل کریں گے ۔گویا ابن عباس نے اہل شام کی رویت کا اعتبار نہیں کیا۔ کریب نے اس بات پہ تعجب کا اظہار کیا کہ کیا امیرمعاویہ کی رویت آپ کے لئے کافی نہیں ہے ؟ تو ابن عباس نے جواب دیا کہ نہیں ہمارے لئے امیر معاویہ کی رویت کافی نہیں ہے کیونکہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے

*اس حدیث میں تین باتیں اہم ہیں*

1-پہلی بات یہ ہے کہ شام اور مدینہ کے درمیان کتنی مسافت ہے ؟ 

2-دوسری بات یہ ہے کہ ابن عباس نے معاویہ کی رویت کا اعتبار کیوں نہیں کیا؟ 

3-تیسری بات یہ ہے کہ ابن عباس کا کہنا ایسے ہی نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ 

📒پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میپ زوم ڈاٹ کام کے اعتبار سے طریق(راستہ) کا اعتبار کرکے 1267 کیلو میٹر ہے اور خط مستقیم کا اعتبار کرکے 1045 کیلو میٹر ہے۔ صاحب سبل السلام تحریر فرما ہیں کہ اہل شام کی رویت کا اعتبار اہل حجاز کے لئے نہیں ہوگا اور کریب نے اکتیسواں روزہ رکھا جو کہ اہل مدینہ کے حساب سے وہ تیسواں ہی تھا۔ (سبل السلام :ص156)

کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ اگر شام ومدینہ کے درمیان 1045 یا 1267کیلو میٹر کا فرق ہے تو ہندوستان میں پندرہ کیلو میٹر یا دوسری جگہ اس سے کم اور زیادہ کا اعتبار کیوں ہوتا ہے ؟ کرہ ارض کے نشیب وفراز سے مطلع کے فرق میں بعض مقامات کا بعض دوسرے مقامات سے فرق ہوسکتا ہے اس لئے اصلا مطلع کا فرق دیکھا جائے گا نہ کہ کیلو میٹر کا ۔ اس کا عمومی طریقہ یہ ہے کہ عموماجن علاقوں میں ایک ساتھ رویت ہوتی ہے ان تمام علاقوں کا مطلع ایک مانا جائے گاخواہ مسافت جو بھی ہو۔ 

📒دوسرے سوال کا جواب صحیح مسلم کی مشہور زمانہ شرح (شرح نووی) کی روشنی میں دو معانی کا امکان ہے ۔ پہلا معنی تو یہ ہوسکتا ہے کہ کریب کی خبر ،خبر واحد تھی اور یہاں شہادت کا معاملہ تھا جس کے لئے خبر واحد کافی نہیں ہوتی ۔ حدیث کا یہ معنی متعین کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ خود امام نووی نے کہا کہ یہ بات ظاہر حدیث کے خلاف ہے کیونکہ چاند دیکھنے والے اکیلے کریب نہیں تھے بلکہ شام کے سب لوگوں نے دیکھا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھا دوسرا معنی یہ ہے کہ ابن عباس نے کریب کی خبر اس لئے رد کردی کیونکہ رویت دور والوں کے حق میں ثابت نہیں ہوتی۔ حدیث کے ظاہر سے یہی دوسرا معنی صحیح ہے۔ 

📒تیسری بات ابن عباس کا قول کہ اسی طرح ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے اس سے مراد ابوداؤد کی عمدہ شرح عون المعبود میں حدیث کریب کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ چیز یاد کررکھی تھی کہ ایک شہر کا دوسرے شہر والوں کی رویت پر عمل لازم نہیں ہے ۔

*حدیث کریب کے چند اہم مستفادات*

حدیث کریب سے ایسے نکتے بھی نکلتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی اعتراض کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی مثلا 

1- کریب نے شام میں شام کی رویت کا اعتبار کرکے روزہ رکھا اور مدینہ آئے تو اہل مدینہ کے حساب سے روزہ رکھا اور عید منائی جبکہ شام کے حساب سے انہوں نے اکتیس روزے رکھے۔ 

2-کوئی صحابی اپنی جانب سے اجتہاد کرکے کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، سارے صحابہ عادل ہیں ۔

3- رویت ہلال بہت ہی اہم معاملہ ہے ،اگر ایک جگہ کی رویت ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے معتبر ہوتی تو ابن عباس جیسےجلیل القدر صحابی رسول فورا رویت اپنے لئے بھی معتبر گردانتے ۔ بھلا فرمان رسول کے سامنے صحابی اپنا اجتہاد چلا ئے،گیا گزرا مسلمان بھی ایسی بات نہیں سوچ سکتا۔ 

4- رؤیت کے فرق سے اہل شام اور اہل مدینہ کے شب قدر میں فرق ہورہاہے اور رمضان کی اصل پونجی والی رات تو یہی ہے۔ کریب کی خبر نہ مان کر اپنےآپ کو اور اہل مدینہ کو شب قدر کی فضیلت سے کیسے محروم کرسکتے ہیں ؟ 

5- رویت ہلال کا فرق تو بہر کیف زمانے میں موجود ہے ، مطلع کا واضح فرق ہے اور اس کااعتبار کرنا ہی دلائل سے قوی معلوم ہوتا ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ کریب نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے حساب سے اپنا روزہ مکمل کیا اور اس طرح اکتیس روزے ہوگئے ۔ گویا ہر علاقے کی اپنی اپنی رویت ہے ۔ وہ اس طرح کہ اگر شام میں تیس دن رمضان کے مکمل ہوئے تو مدینہ میں بھی وہاں والوں کی رویت کے اعتبار سے تیس روزے ہوئے ۔ اس اہم نکتہ سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا معتبر ہونا معلوم ہوتا ہے۔ 

6- دنیا بھر میں ایک ہی رؤیت کو ماننے سے حدیث کریب کی روشنی میں اہل مدینہ کا ایک روزہ چھوٹ گیا جس کی قضا کرنی تھی ، اگر اس کی قضا کر لی جاتی تو اہل مدینہ کا روزہ کریب کی طرح اکتیس کا ہوجاتا جبکہ مہینہ اکتیس کا ہوتا ہی نہیں ہے۔ اہم سوال قضا کا ہے ۔ ابن عباس کا ایک روزہ قضا نہ کرنا اور اہل مدینہ کو قضا کا حکم نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ دور والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ 

7- کریب کی خبرسے جس طرح اہل شام اور اہل مدینہ کے روزہ میں فرق واقع ہورہا ہےاورشب قدر میں فرق ہوا، اسی طرح عیدمیں بھی فرق ہورہاہے جبکہ وحدت رویت والے کہتے ہیں عید اس دن ہے جس دن سب منائیں ۔ یہاں اس کی مخالفت ہورہی ہے۔

8- کریب کی خبر کی تصدیق وتسلیم نہ کرنا اس کا بین ثبوت ہے کہ ہر علاقہ والے اپنے حساب سے رویت کا اعتبار کرتے تھے ورنہ اولا ایک جگہ سے دوسری جگہ کی خبریں وصول کی جاتیں اور خلفاء وامراء کا باقاعدہ رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ ایلچی کے ذریعہ کسی جگہ رویت ہوجائے تو دوسرےتمام علاقوں میں خبر دی جاتی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کام نہ عہد رسول میں ہو ا اور نہ ہی عہد خلافت میں جو سراسر رویت وحدت کے خلاف ہے۔ 

9- رویت ہلال کو ہم رمضان کے ساتھ ہی خاص سمجھتے ہیں جبکہ یہ پورے سال کے ساتھ خاص ہے ، ہرماہ ایام بیض کے روزے تیرہ، چودہ اور پندرہ کو رکھنا ہے ۔ امت کی آسانی اسی میں ہے کہ اپنے علاقہ کی رویت کا اعتبار کریں ۔ قریب وبعید کے علاقوں میں نہ صرف گھنٹوں اوقات کا فرق پایا جاتا ہے بلکہ رات ودن کا بھی فرق ہےجوکہ قدرتی نظام ہے اس میں ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔ مجھے تو اس میں وحدت نظر نہیں آتی کہ ایک مسلمان ایک جگہ عید منائے اور دوسری جگہ رات ہونے کے سبب ہمارے دوسرے مسلمان بھائی سورہے ہوں ۔

10-اللہ تعالی جس طرح سورج کو ایک وقت میں نکالتا اور ڈباتا ہے اسی طرح چاند کو بھی ایک وقت میں اگاتا اور ڈباتا ہےاور ان دونوں (شمس وقمر) کے طلوع وغروب ، صبح صادق اور اوقات زوال بلکہ پنچ وقتہ نمازوں کے اوقات مختلف ہیں حتی کے سارے مسلمانوں کا قبلہ ایک جہت میں نہیں ہے۔ جس طرح ہم نمازوں کے اوقات کے فرق کو امت کے اختلاف سے تعبیر نہیں کرتے اسی طرح علاقائی رویت کے حساب سے روزہ اور عید منانے کو امت کا اختلاف نہیں کہیں گے ۔ 

*ہر شہر والے کے لئے اپنی اپنی رویت پر اجماع*

📒علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ:
اس بات پر علماء کا اجماع ہوگیا ہےکہ جو ایک شہر ایک دوسرے سے دور واقع ہو اس کی رویت کا اعتبار نہیں ہوگا جیسے کہ خراسان اندلس سے دور ہےاس لئے کہ ہر شہر کے لئے ایک خاص حکم ہےجو اس شہر کے ساتھ ہی مخصوص ہےجیساکہ حدیث میں آیا ہےچنانچہ جو شہر آپس میں قریب ہوں ان کی رویت ایک دوسرے لئے معتبر ہوگی ۔ خبر خواہ حکومت کی جانب سے ہو یا دو عادل گواہوں کی طرف سے یا جماعت مستفیضہ کی طرف سے بہر حال قریبی شہر والوں کو شامل ہوگی اور جو شہر زیادہ دور واقع ہو اس کو شامل نہیں ہوگی ۔ ابن عرفہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔ (التمہید لابن عبدالبر)

______________&________

*چونکہ مخلتف ملکوں میں روئیت مختلف ہوتی ہے لہذاٰ ہر ملک والوں کو اپنے ملک والوں کے ساتھ ہی روزہ رکھنا چاہیے اور عید کرنی چاہیے اور جب ایک ہی ملک کے دور دراز کے علاقوں میں چاند دیکھنے میں اختلاف ہو جائے تو پھر وہاں رہنے والے تمام مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کہ جس دن روزہ رکھنے یا عید منانے کا انکے علاقے میں فیصلہ ہو جائے سب مسلمانوں کو اسی دن روزہ رکھنا چاہیے اور عید بھی اسی دن منانی چاہیے،*

كيونكہ

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَفِطْرُكُمْ يَوْمَ تُفْطِرُونَ، وَأَضْحَاكُمْ يَوْمَ تُضَحُّونَ،
”صیام کا دن وہی ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو اور افطار کا دن وہی ہے جب سب عید الفطر مناتے ہو اور اضحٰی کا دن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو“
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبع_2324)
باب/ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_697)

📒امام ترمذی نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ
"روزے کا دن وہی ہے جب سب روزہ رکھیں اور عید کا دن وہی ہے سب عید منائیں"
امام ترمذی کا اس حدیث پر عنوان لگانے کا مطلب یہ ہے کہ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو پھر سب لوگ غور و خوض کے بعد جس دن روزہ رکھنے یا عید منانے پر ایک دن کا فیصلہ کر لیں تو سب مسلمانوں کو اسی دن روزہ اور عید منانی چاہیے،

کیونکہ اختلاف شر اور برائى ہے، اس ليے سب كو اپنے علاقے كے باشندوں كے ساتھ ہى رہنا ہوگا، جب آپ كے علاقے جہاں آپ رہائش پذير ہيں وہاں كے مسلمان روزہ ركھيں تو آپ بھى روزہ ركھ ليں، اور جب آپ كے علاقے ميں عيد ہو تو آپ بھى عيد منائيں،

*رہا ایک ہی ملک میں اختلاف كا سبب تو اس وجہ سے ہے كہ كچھ علاقے کے لوگوں كو چاند نظر آ جاتا ہے، اور كچھ كو چاند نظر نہيں آتا، پھر جنہوں نے چاند ديكھا ہوتا ہے دوسرے لوگ ان كو ثقہ سمجھتے ہيں اور ان پر مطمئن ہوتے اور ان كى رؤيت پر عمل كرتے ہيں، اور كچھ ان كو ثقہ نہيں سمجھتے اور ان كى رؤيت پر عمل نہيں كرتے تو اس طرح يہ اختلاف پيدا ہو جاتا ہے*

*اور بعض اوقات آپ يہ بھى ديكھتے ہيں كہ ایک علاقے کی حكومت چاند ديكھ ليتى ہے اور روزہ ركھنے يا عيد منانے كا حكم دے ديتى ہے اور دوسرے علاقے کی حكومت اس رؤيت پر مطمئن نہيں ہوتى اور وہ اس حكومت كو كئى ايک اسباب كى بنا پر ثقہ نہيں سمجھتى چاہے وہ اسباب سياسى ہوں يا دوسرے*

چنانچہ جب ایک ہی ملک کے تمام علاقوں میں چاند  نظر آ جائے اور سب متفق ہو جائیں تو سب علاقے والوں کو اپنے اس ملک کی رؤيت كے ساتھ روزہ ركھنا اور اس رؤيت كے ساتھ عيد كرنا واجب ہے،

ليكن جب ایک ہی ملک کے دور دراز کے مختلف علاقوں کے لوگ آپس ميں فى الواقع اختلاف كريں اور ايک دوسرے كو ثقہ نہ سمجھيں تو آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے علاقے كے مسلمانوں كے ساتھ ہی روزہ ركھيں، اور ان كے ساتھ ہى عيد منائيں،

📚تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر عمل ہو سکے!

الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ، وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ، وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ
کہ روزہ اس دن رکھو جب سب روزہ ركھتے ہیں، اور عيد الفطر اس دن ہے جس دن سب عيد الفطر كرتے ہیں، اور عيد الاضحى اس دن ہے جس دن سب قربانى كرتے ہیں،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_796)

*لہذاٰ جب ایک ہی علاقے میں بہت سی شہادتیں مل جائیں کہ چاند نظر آ گیا  ہے اور سب لوگ متحد ہوں اس بات پر تو پھر انکے لیے اپنے علاقے کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور چاند دیکھ کر عید منانا جائز ہے، کیونکہ ایک ملک کے اندر بھی بہت دور دراز علاقے ہیں، ہم غور کریں تو پنجاب اور سندھ کی نمازوں کے اوقات میں تیس تیس منٹ کا فرق ہے،اور انڈیا کے اندر کہ جسکا علاقہ بہت وسیع ہے، گھنٹوں میں فرق ہے،*

*اور اوپر ذکر کردہ حدیث کا مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے باقی اہل علاقہ سے اختلاف کر کے اپنے سے دور علاقے یا کسی دوسرے ملک کے لوگوں ساتھ اکیلا ہی عید نا منانے لگ جائے، یا اکیلے ہی روزہ نا رکھنے لگ جائے، یا کوئی ایک جماعت چاند دیکھ کر روزے رکھنے شروع نا کر دے،بلکہ اگر چاند دیکھنے میں اختلاف ہو تو اس علاقے کے سب لوگ جب روزہ رکھیں تو وہ بھی روزہ رکھیں اور جب اس علاقے کے سب لوگ عید منائیں تو وہ بھی انکے ساتھ ہی عید منائیں،*

اس سب کا خلاصہ یہ ہوا کہ!

*کہ روزے اور عید کا تعلق چاند دیکھنے سے ہے، اور مختلف ملکوں کی روئیت مختلف ہو سکتی ہے اور ہر ملک والے اپنی روئیت کے حساب سے روزہ رکھیں گے اور عید کریں گے،*

*اور اگر ایک ہی ملک کے اندر کسی دور دراز علاقے میں چاند نظر آ جاتا ہے تو اس علاقے کے لوگ شرعی طور روزہ رکھیں گے اور عید منائیں گے کیونکہ رمضان کا چاند دیکھنے کے بعد روزہ نا رکھنا اور عید کا چاند دیکھنے کے بعد روزہ رکھنا درست نہیں،لیکن یہ بہت احتیاط کا کام ہے، ذمے دار اور غیر سیاسی لوگوں سے شہادت لینی چاہیے،*

*لیکن اگر ایک ہی علاقے میں چاند دیکھنے پر لوگوں کا اختلاف ہو تو پھر انکو چاہیے کہ اختلاف کو چھوڑ کر اپنے ملک کے لوگوں ساتھ عید منائیں،*

*اسی طرح اگر ایک ہی ملک کے کچھ لوگ چاند دیکھے بنا کسی دوسرے ملک کو دیکھ کر عید منائیں تو یہ بات بالکل غلط ہے، اور سر سرا ملک و علاقے میں فتنہ پھیلانے کے جیسا ہے، انکا کسی دوسرے ملک ساتھ روزہ رکھنا یا عید منانا جائز نہیں،*

*اللہ پاک تمام مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کرے، اور ہر  قسم کے شر اور اختلاف سے بچائے،آمین یا رب العالمین*

((((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

📚سوال_دنیا بھر کے مسلمان، یومِ عرفہ کا روزہ کس دن رکھیں ؟ اپنے ملک کے قمری کیلنڈر کے حساب سے 9 ذی الحجہ کو یا حج کے دوران حجاج کرام کے وقوفِ عرفات کے دن؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-73))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ 
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//

https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Kis umar (Age) ke bache (Child) par roza rakhna farz hai, Roza kaun rakh sakta hai?

Kis umer ke baccho par Roza rakhna farz hai?

Sawal: Kitni umar ke bacho par Roza rakhna wazib ho jata hai? Aur hum unhein roza rakhne ke liye kaise taiyar kar sakte hai?

 
Sehri Mubaarak ya Chand mubaarak kahna kaisa hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-243"
سوال_کتنی عمر کے بچوں پر روزہ رکھنا واجب ہو جاتا ہے؟ اور ہم انہيں روزہ ركھنے پر کیسے ابھار سکتے ہیں؟

Published Date : 6-5-2019

جواب :
الحمد للہ :

*پہلی بات کہ بالغ ہونے سے قبل چھوٹے بچے پر روزہ ركھنا واجب نہيں*

كيونكہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ،
رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
ميرى امت ميں سے تين قسم ( كے لوگوں ) سے قلم اٹھا ليا گيا ہے،
1_مجنون، پاگل اور بے عقل سے جب تک كہ وہ ہوش ميں نا آجائیں،
2_ اور سوئے ہوئے سے جب تک كہ وہ بيدار نا ہو جائے،

3_اور بچے سے جب تک كہ وہ بالغ نا ہو جائے"
(سنن ابو داود حديث نمبر_4398)
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

*ليكن اس كے باوجود بھی بچے كو روزہ رکھنے كا كہا جائے تا كہ وہ روزے كا عادى بن جائے، اور اس ليے بھى كہ وہ جو اعمال صالحہ كرتا ہے وہ لكھے جاتے ہيں.

ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء ( یعنی دس محرم ) کی صبح انصار صحابہ کرام کی بستی میں یہ پیغام بھیجا کہ جس نے بھی روزہ نہیں رکھا وہ باقی دن کچھ بھی نہ کھائے پیے اورجس نے روزہ رکھا ہے وہ روزہ پورا کرے ۔

وہ کہتی ہيں کہ ہم اس کےبعد روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے اور انہیں اپنے ساتھ مسجد میں لےجاتے تھے ، اوران کے لیے روئي کے کھلونے بناتے تھے ، ان میں سے جب بھی کوئي کھانے کی وجہ سے روتا تو ہم وہ کھلونا اسے دیتے حتی کہ افطاری تک یہی ہوتا ۔

(صحیح بخاری حدیث نمبر_ 1965)
(صحیح مسلم حدیث نمبر_ 1136)

 امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اس حدیث میں بچوں کو اطاعت کرنے کی مشق اور انہیں عبادت کرنے کا عادی بنانا ہے ، لیکن وہ اس کے مکلف تو نہیں ہیں بلکہ یہ تو صرف انہیں عادت ڈالنے کےلیے ہے ۔

قاضی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : عروہ رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے کہ بچے جب بھی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ان پرروزہ رکھنا واجب ہے ،
اوریہ غلط ہے جو کہ صحیح نہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تین اشخاص مرفوع عن القلم ہیں : چھوٹا بچہ جب تک اسے احتلام نہ ہوجائے اورایک روایت میں بالغ کے الفاظ ہیں ) واللہ تعالی اعلم ۔
(دیکھیں شرح مسلم للنووی_ 8 / 14 )

لہذا والدين كو چاہيے كہ وہ بچے كو اس عمر سے ہى روزہ ركھنے كى عادت ڈالنا شروع كرديں جس ميں وہ روزہ ركھنے كى طاقت ركھے، اور يہ عمر بچے كے جسم اور بناوٹ كے اعتبار سے مختلف ہوتى ہے، اور بعض علماء كرام نے اس كى تحديد كرتے ہوئے دس برس كى عمر كہا ہے.

خرقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور جب بچہ دس برس كى عمر كا ہو اور روزہ ركھنے كى طاقت ركھے تو اس كا مؤاخذہ كيا جائے"

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" يعنى: اس پر روزہ لازم كيا جائے اور اسے روزہ ركھنے كا حكم ديا جائے اور اگر روزہ نہ ركھے تو اسے مار كر سزا دى جائے، تا كہ وہ روزہ ركھنے كى مشق كر سكے اور اس كا عادى بنے، جيسا كہ اسے نماز كا بھى حكم ديا جائے اور اس پر نماز كى ادائيگى لازم كى جائے، بچے كو روزہ ركھنے كا حكم دينے والوں كا مسلک اختيار كرنے والوں ميں عطاء، حسن، ابن سيرين، زہرى، قتادہ اور شافعى رحمہم اللہ شامل ہيں.

اور اوزاعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" جب بچہ مسلسل تين روزے ركھنے كى طاقت ركھتا ہو اور ان ايام ميں كمزور اور ڈھيلا و سست نہ ہو تو اس پر رمضان المبارك كے روزے ركھنے لازم كيے جائيں.

اور اسحاق رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جب بچہ بارہ برس كا ہو جائے تو ميں يہ پسند كرتا ہوں كہ اسے روزہ ركھنے كا مكلف كيا جائے تا كہ وہ اس كا عادى ہو جائے.

اور دس برس كى عمر كو معتبر شمار كرنا اولى اور بہتر ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عمر ميں نماز كى ادائيگى نہ كرنے پر مارنے كا حكم ديا ہے، اور روزے كو نماز كے ساتھ ہى معتبر سمجھنا زيادہ بہتر اور احسن ہے كيونكہ يہ ايك دوسرے كے زيادہ قريب ہيں، اور اركان اسلام ميں يہ دونوں بدنى عبادتيں اكٹھيں ہيں، ليكن يہ ہے كہ روزہ زيادہ مشقت كا باعث ہے اس ليے اس كے ليے طاقت اور استطاعت كا معتبر سمجھا گيا ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے بعض اوقات نماز كى ادائيگى كى استطاعت ركھنے والا شخص روزہ ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا" انتہى

(ديكھيں المغنى لابن قدامہ المقدسى4/412)

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كا بھى اپنى اولاد كے متعلق يہى طريقہ تھا، بچوں ميں سے جو روزہ ركھنے كى طاقت ركھتا وہ اسے روزہ ركھنے كا حكم ديتے، اور جب ان ميں سے كوئى بھوک كى بنا پر روتا تو انہيں كھلونے دے ديتے تا كہ وہ اس سے كھيلنے لگے، اگر ان كى جسمانى يا بيمارى كمزورى كى بنا پر روزہ انہيں ضرر ديتا ہو تو پھر روزہ ركھنے پر اصرار كرنا جائز نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" چھوٹے بچے پر بالغ ہونے تك روزے ركھنے لازم نہيں، ليكن جب وہ روزے كى طاقت ركھے تو اسے روزہ ركھنے كا حكم ديا جائے گا تا كہ وہ روزہ ركھنے كى مشق كر سكے اور اس كا عادى بنے، اور بلوغت كے بعد اس كے ليے روزہ ركھنا آسان ہو سكے، صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم ـ جو كہ اس امت كے بہترين لوگ تھے ـ بچپن ميں ہى اپنے بچوں كو روزہ ركھوايا كرتے تھے" انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 28 - 29 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

سوال: ؟
ميرا چھوٹا بچہ رمضان المبارك كے روزے ركھنے پر اصرار كرتا ہے، حالانكہ چھوٹى عمر اور صحت كى خرابى كى بنا پر روزہ اسے ضرر ديتا ہے، تو كيا ميں اس كے ليے سخت رويہ اختيار كرسكتا ہوں تا كہ وہ روزہ نہ ركھے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" جب بچہ چھوٹا ہو اور بالغ نہ ہوا تو اس كے ليے روزہ ركھنا لازم نہيں ليكن اگر وہ بغير كسى مشقت كے روزہ ركھنے كى استطاعت ركھتا ہو تو اسے روزہ ركھنے كا حكم ديا جائے گا، صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين اپنے بچوں كو روزہ ركھوايا كرتے تھے، حتى كہ ان ميں سے چھوٹے بچے روتے تو وہ انہيں كھيلنے كے ليے كھلونے ديتے، ليكن اگر يہ ثابت ہو جائے كہ يہ اسے ضرر اور نقصان ديتا ہے تو اسے ايسا كرنے سے منع كيا جائے گا.
جب اللہ سبحانہ وتعالى نے ہميں بچوں كو ان كا مال اس خدشہ سے دينے سے منع كيا ہے كہ كہيں وہ اپنا مال خراب ہى نہ كر بيٹھيں، تو جسمانى ضرر اور نقصان كى بنا پر ہم بدرجہ اولى انہيں اس سے منع كرينگے.
ليكن انہيں سختى سے نہيں بلكہ اچھے اور بہتر طريقہ سے منع كيا جائے كيونكہ بچوں كى تربيت ميں سختى سے اجتناب كرنا چاہيے" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 83 ).

*بچوں میں روزہ رکھنے کا شوق ڈالیں*

والدين كے ليے يہ ممكن ہے كہ وہ اپنى اولاد كو روزے ركھنے پر ابھارنے كے ليے ہر دن ہديہ اور تحفہ ديں، يا پھر ان كے دوستوں اور ان كے درميان آپس ميں مقابلہ بازى كى روح پيدا كريں اور جو ان سے چھوٹى عمر كے بچے ہيں ان كے مابين مقابلہ بازى، اور يہ بھى ممكن ہے كہ انہيں نماز كى ادائيگى پر ابھارنے كے ليے مسجد ميں ليجايا جائے، اور خاص كر جب وہ والد كے ساتھ نكل كر ہر روز مختلف مسجدوں ميں نماز ادا كرے.

اور اسى طرح يہ بھى ممكن ہے كہ روزہ ركھنے پر كوئى انعام ديا جائے چاہے يہ انعام ان كى تعريف كر كے يا پھر انہيں سيرو تفريح كے ليے ليجا كر يا پھر ان كى پسنديدہ اشياء كى خريدارى وغيرہ كى صورت ميں ديا جائے.

افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ كچھ والدين كى جانب سے اس سلسلے ميں بچوں كو روزہ پر ابھارنے كے ليے بہت كوتاہى ہوتى ہے، بلكہ بعض اوقات تو آپ كو ان عبادات ميں ركاوٹ ملے گى، اور بعض والدين يہ گمان كرتے ہيں كہ بچوں كے ساتھ شفقت اور مہربانى كرنے كا تقاضا يہ ہے كہ انہيں روزہ نہ ركھوايا جائے يا ان كے بچے نماز كى ادائيگى نہ كريں، حالانكہ شرعى اور تربيتى طور پر يہ بہت بڑى اور فحش غلطى ہے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ وتعالى نے ہر مكلف اور استطاعت ركھنے والے مقيم مسلمان پر روزے ركھنے فرض كيے ہيں، ليكن وہ چھوٹا بچہ جو ابھى بالغ نہيں ہوا اس پر روزہ فرض نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تين قسم ( كے افراد ) سے قلم اٹھا لى گئى ہے، اور اس ميں نابالغ بچہ ذكر كيا "

ليكن بچے كے ولى پر واجب ہوتا ہے كہ جب بچہ اس عمر كو پہنچے جب وہ روزہ ركھنے كى استطاعت ركھتا ہو تو اسے روزہ ركھنے كا حكم دے؛ كيونكہ اس سے اس كى اركان اسلام پر عمل كرنے كى مشق اور تربيت ہو گى، اور بعض لوگوں كو ديكھتے ہيں كہ وہ اپنے بچوں كو ويسے ہى چھوڑ ديتے ہيں اور انہيں نہ تو نماز ادا كرنے كى تلقين كرتے ہيں اور نہ ہى روزہ ركھنے كى، حالانكہ يہ بہت غلط ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كے ہاں اس نے اس كا جواب دينا ہے اور اس سے اس كى باز پرس ہو گى.
لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ وہ بچوں پر شفقت اور مہربانى كرتے ہوئے انہيں روزہ نہيں ركھواتے، حالانكہ حقيقت يہ ہے كہ اپنى اولاد پر شفقت اور مہربانى كرنے والا شخص تو وہ ہے جو انہيں خير و بھلائى اور نيكى كے كاموں كى مشق كروائے اور اس كى تربيت دے، نہ كہ وہ جو ان كى نفع مند تربيت كو ترك كر دے" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 19 - 20 ).

سوم:

اور يہ بھى ممكن ہے كہ والدين اپنى اولاد كو روزانہ كچھ نہ كچھ قرآن مجيد حفظ كرنے اور تلاوت كرنے ميں مشغول ركھيں، اور اسى طرح وہ كتابيں جو ان كى عمر كے مناسب ہوں پڑھائيں، صحابہ کرام کے ایمان افروز واقعات اور انہيں مختلف قسم كى مفيد كيسٹيں سنوائيں جس ميں ترانے اور تقارير وغيرہ ہوں، اور ان كے ليے مفيد قسم كى ويڈيوز جو بچوں كے ٹى وى چينل " المجد عربی " یا یوٹیوب پر عبدالباری کی اردو اصلاحی ویڈیوز وغیرہ ہیں وہ دکھائیں اور اس طرح روزانہ اس كے ليے كوئى خاص وقت متعين كر ليا جائے جس سے بچوں كو فائدہ ہو.

ہم سوال كرنے والى بہن كا بچوں كى تربيت ميں اہتمام كرنے پر شكر گزار ہيں، يہ مسلمان خاندان ميں خير وبھلائى كى دليل ہے، ليكن بہت سے لوگ اپنى اولاد كى ذہنى اور بدنى طاقت كو بہتر اور اچھے انداز سے پھلنے پھولنے كا موقع نہيں ديتے، بلكہ انہيں سست اور كاہل بنا كر دوسروں كے محتاج كر ديتے ہيں.

اور اسى طرح وہ انہيں نماز و روزہ جيسى عبادات كى عادت نہيں ڈالتے تو اس طرح بہت سى نسليں ايسے ہى بڑى ہوئيں اور بڑے ہو كر عبادت سے ان كے دلوں ميں نفرت پيدا ہو گئى، اور بڑى عمر كے ہو جانے كے بعد ان كے والدين كے ليے انہيں راہ راست پر لانا اور نصيحت كرنا مشكل ہو گيا، ليكن اگر وہ شروع ميں ہى اس معاملے كا خيال كرتے تو آخر ميں انہيں ندامت كا سامنا نہ كرنا پڑتا.

*اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ ہمیں اپنی اور اپنی اولاد كى تربيت اور انہيں عبادت سے محبت پيدا كرنے ميں ہمارى مدد و نصرت فرمائے، اور جو كچھ ہم پر اولاد كے بارہ ميں واجب ہے اس كى ادائيگى كى توفيق عطا فرمائے،آمین*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//

https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Mera Sabse pasandida Leader Hai Barak obama. Malala Yusufajai

Europe Ke god me Baithkar zehar ugalne wali aasteen ke saanp.

क्या आप जानते है मलाला यूसुफजई कौन है?

यूरोप मुस्लिम महिलाओं को बिकनी पहनाकर क्या साबित करना चाहता है?

" मेरा जिस्म मेरी मर्ज़ी " यह है इंसानियत के थिकेदारो का नारा।

एक ईसाई शख्स जिन्हें इस्लाम कुबूल करने की वजह से मौत की सजा दी गयी।

मलाला यूसुफजई और उनके वालिद के हवाले से बहुत कुछ ऐसा है जिसे आपको जरूर जानना चाहिए।

मलाला के लिए अमेरिका और सलेबी इतना मेहरबान क्यों? 

मलाला मीडिया कॉवेराज के लिए, सलेबियो को खुश कर के अवार्ड पाने के लिए हमेशा इस्लाम के खिलाफ औरतों के हुकुक के नाम पर बयाँ देती है। 

मलाला की किताब "आई एम मलाला" लिखने में उनकी मदद क्रिस्टियानो लिंब नाम की जर्नलिस्ट ने की।

 
क्रिस्टियानो लिंब को इसलिए शोहरत मिली क्योंकि वह पाक फौज और पाकिस्तान की विरोधी है। इसलिए क्रिस्टियानो लिंब पर पाकिस्तान सरकार के तरफ से पाबंदी भी है।

मलाला यूसुफजई सलमान रुश्दी की गुस्ताखाना किताब " शैतानी आयात " के बारे में लिखती है के "उसके वालिद के ख्याल में वह आजादी इजहार (freedom of expression) है" ।

मलाला यूसुफजई अपनी किताब में कुरान पर टिप्पणी करती है और उसमे खवातीन से मुतल्लिक मौजूद क्वानिन से वह इत्तेफाक नहीं रखती।

मसलन वह एक मर्द और दो औरत की गवाही को गलत कहती है जो के कुरान का हुक्म है ।

इसी तरह जीना (illegal Sex) से मुतल्लिक चार लोगो की गवाही को भी दुरुस्त नहीं समझती।
   (आई एम मलाला पेज 24 और 79)

इसी किताब के पेज 28 पर वह इस्लाम का सेकुलरिज्म और लिबरलिज्म से तुलना करते हुए दीन ए इस्लाम को दहशतगर्द करार देती है।  नौजोबिल्लाह

वह तसलीमा नसरीन को अपनी लाडली बहन करार देती है। यह दोनो के अच्छे ताल्लुकात है।

तसलीमा नसरीन को बांग्लादेश हुकूमत ने  गुस्ताख ए रसूल  की वजह से पाबंदी लगा रखा है।

मलाला ने अपनी पूरी किताब में अल्लाह के लिए लफ्ज़ " गॉड " इस्तेमाल किया है और नबी ए अकरम सल्लाहू अलीहे वसल्लम के लिए सिर्फ नाम लिखा है जैसे गैर मुस्लिम और काफिर लिखा करते है। इसने कही भी नबी सल्लाहु अलैहे वसल्लम के लिए " दुरुद " या " पीस बी अपॉन हिम " (PBUH) नही लिखा है।

मलाला यूसुफजई गुस्ताख ए रसूल पर सजा ए मौत वाले कानून के खिलाफ है।

मलाला यूसुफजई के मुताबिक पाकिस्तान रात के अंधेरे में बना था। इसके किताब में ये अल्फाज पढ़कर यह मतलब निकाला जा सकता है गोया रात के अंधेरे में कोई गुनाह या जुर्म हुआ था।

मलाला यूसुफजई के मुताबिक इन के वालिद जियाउद्दीन यूसुफजई पाकिस्तान के यौम ए आजादी के दिन (14 अगस्त) को काली रिबन बांधी थी जिसपर वह गिरफ्तार किए गए थे और जुर्माना देना पड़ा था।

वह कहती है पहले मैं स्वाति हूं, फिर पश्तून और तब मैं पाकिस्तानी हूं। अपने मुसलमान होने का जिक्र कहीं भी नही करती।

मलाला के वालिद जियाउद्दीन यूसुफजई का कहना है के अगर मुझे किसी मुल्क का शहरी (नागरिक) बनने की ख्वाहिश है तो वह अफगानिस्तान है।

वह अपने मुल्क के कानून का मजाक बनाते हुए कहती है के अहमदी खुद को मुस्लिम कहते है लेकिन यहां का कानून उसे गैर मुस्लिम करार दिया है। (पेज 72)

मलाला और उनके वालिद शकील आफरीदी की हिमायत करते है जो पाकिस्तानी सरकार के मुताबिक गद्दार और जासूस है और इस वक्त सजा काट रहा है।

मलाला की तकरीर उसके वालिद लिखते थे जबकि ब्लॉग अब्दुल हई काकर नामी बीबीसी का नुमाइंदा लिखता था जैसा के वह अपनी किताब में यह सब का जिक्र कर चुकी है।

एडम बि एलेक नाम का सीआईए (CIA) एजेंट कई महीनो तक अपनी शक्ल बदल कर मलाला के घर रहा और उनके वालिद के साथ मिलकर मलाला की तरबियत की ताकि उसको आने वाले वक्त के लिए तैयार किया जा सके। (यह खबर भी फैली के उसने बाद में मलाला से नोबेल इनाम में अपना हिस्सा मांगा था)

मलाला के मुताबिक उनके वालिद जियाउद्दीन यूसुफजई बिजली चोरी में कई बार पकड़े गए थे जिसकी वजह से जुर्माना भी हुआ था।

मलाला की पसंदीदा शक्सियत "बराक ओबामा" है । (हो सकता है अब ट्रंप और बाइडेन हो)

मलाला के मुताबिक वह भेष (रूप) बदल कर यानी बगैर यूनिफॉर्म के ही स्कूल जाती थी क्योंकि तालिबान से खतरा था।

जबकि जहां मलाला रहती थी वहां कोई स्कूल बंद नहीं था। तालिबान मट्ठा के इलाके में ही पाबंदी लगा सके थे। जहां कुछ ही  स्कूल बंद किए गए थे। खास बात यह है के वह जिस वक्त की बात कर रही है उस वक्त वह अपने बाप जियाउद्दीन यूसुफजई के ही स्कूल में जेरे तालीम थी। जो उन्ही के घर के निचले छत में था।

तो क्या वह ऊपर वाले छत से नीचे आने के लिए अपना भेष बदलती थी?

यह है मलाला और उसका असल चेहरा जो आज पाकिस्तान और दुनिया भर के लिबरल टोला वाले की अगुवाई कर रही है।

यह वही मलाला है जो हमेशा मुसलमान हुक्मरानों को औरतों  की आजादी के लिए नसीहत करती है।

यह वही शख्स है जो तसलीमा नसरीन को बहन बताती है और खुद को मुस्लिम औरतों की नुमाइंदा बनती है।

क्या हम एक ऐसे मुस्लिम मुआश्रे की बुनियाद देना चाहते है जिसमे आस्तीन के सांपो को पनाह मिले और इस्लामी निजाम को बर्बाद करने के लिए दिन रात कोशिश करते रहे?

इन को इस्लामी निजाम से नफरत है , हमारे नबी, साहाबा और अल्लाह का कलाम से इन लोगो को दुश्मनी है और यही लोग मुस्लिम खवातीन् के हक़ की बात करते है।

आप सब से गुजारिश है के ऐसे लोगो का बॉयकॉट किया जाए, सोशल मीडिया पर अन फॉलो कीजिये और इनका सामाजिक बॉयकॉट कीजिये। या लोग फिरंगियों के गोद मे बैठ कर मुसलमानो के खिलाफ जहर उगलते है। इन के बहकावे मे न आवे। जो इस्लाम का नही वह भला मुसलमानो का नुमाइंदा कैसे हों सकता है।

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS