Jab Ajiz-E-Mishr ki Biwi ne Yusuf Alaihe Salam ko fitne me dalne ki nakam koshish ki.
Husn Khud ek bahut bada firna hai aur Husn parasti usse bhi bara fitna.
حسن خود ایک بہت بڑا فتنہ اور اس حسن کے پرستار ہوں یہ اس سے بھی بڑا فتنہ ہے !
یوسف علیہ السلام کے پاس کائنات کا آدھا حسن تھا... ذرا اس جملے کو دوبارہ پڑھیے... صرف اس دنیا کا نہیں پوری کائنات کا آدھا حسن ۔
جب عزیز مصر کی بیوی نے بند دروازوں کے پیچھے اپنی بری خواہش کا اظہار کیا تھا تو آپ اللہ کی پناہ مانگتے اس جگہ سے دوڑے تھے... چلے نہیں، دوڑے تھے... پھر اس واقعے کا چرچا شہر میں پھیل گیا... پہلے ایک عورت تھی اب عورتیں ہو گئیں... صرف عزیز مصر کی بیوی نہیں، شہر کی عورتیں آپ کے حسن سے مرعوب ہو کے آپ پر فریفتہ ہوئی تھیں...
آپ کو قید کرنے کی باتیں کیے جانے لگیں... مصر کا معاشرہ ایسا تھا کہ وہاں مرد وزن کے اختلاط کی کھلی اجازت تھی تو اپنی عورتوں کو سمجھانے کی بجائے یہ فیصلہ گیا کہ یوسف کو قید خانے میں ڈال دیا جائے...
یوسف علیہ السلام نے اس وقت ایک فیصلہ کیا... ایک کٹھن فیصلہ جو کوئی کوئی ہی کرتا ہے... جو بمشکل ہی کوئی کرسکتا ہے... لیکن آپ نے کیا... ایک دعا کی...
"اے میرے رب مجھے ان عورتوں کے مکر سے زیادہ قید خانہ محبوب ہے...تو مجھے اس فتنے سے بچا... "
پھر آپ کو بچایا گیا... آپ کو قید خانے میں ڈال دیا گیا... کیا قید خانے میں ڈالے جانا، بچایا جانا تھا... لیکن اس زنا جیسی برائی کے سر زد ہو جانے کا خطرہ اس قید خانے کے دکھ کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا...اس لیے آپ نے قید ہو جانا پسند کیا... آپ چھپ گئے... دور ہوگئے ان کی نظروں سے جن کے لیے آپ کا حسن آزمائش بن رہا تھا، اور جن کی خواہش آپ کے لیے فتنہ بن رہی تھی...
چھپ گئے... قید خانے کی تنگ و تاریک کوٹھری میں...
دور ہو گئے آزمائش بننے سے، اور آزمائش میں پڑنے سے...
سبحان اللہ... ایسا خوب صورت کردار بہت کم ہی نظر آتا ہے... جب یوسف علیہ السلام کے قصے کے اس موڑ پہ اپنا، اور آج کے معاشرے کا موازنہ اس قصے سے کیا...
کوئی اتنا پاک دامن، اعلی کردار کا مالک کیسے ہو سکتا ہے...؟؟؟ جس کے پاس حسن ہو، جس کے پاس اس حسن پہ فریفتہ ہونے والے لوگ ہوں، جو اپنی جوانی کی نہج پہ ہو مگر پھر بھی ڈر جائے... اللہ کا خوف کھائے... روپوش ہو جائے... مگر یوسف نے ایسا کیا... یوسف ہی ایسا کر سکتے تھے...
آج کے معاشرے میں تھوڑی نظر دوڑائی جائے تو کوئی فتنے کے ڈر سے قید تو کیا روپوش ہونا بھی پسند نہ کرے... چھپنا بھی نہ چاہے... خود کو ڈھکنا بھی نہ چاہے... بلکہ الٹا دوسروں کے لیے فتنہ بننے کی کوشش کی جاتی ہے... خواہش رکھی جاتی ہے کہ شہرت ملے... پرستار ہوں... جو میری طرف مائل ہوں... یوسف تو مائل کرنے والی سے پناہ مانگتے دوڑے تھے، یہاں تو خود ہی خود کو مائل کرنے والا بنایا جاتا ہے...
بیشتر نوجوان نسل نہ ہی تو چھپتی نہ ہی ڈرتی ہے بلکہ خود مائل ہوتی ہے، اپنی طرف دوسروں کو مائل کرواتی ہے... آج نہ ہی تو عورتوں کو چھپنا، ڈھک جانا پسند ہے اور نہ مردوں کو نظروں کی قید ...!
کسی مرد کو اللہ نے وجیہہ بنایا ہے تو وہ اپنی نمائش کرتا پھرتا ہے... عورتیں اس کی وجاہت پہ فریفتہ ہو کر آہیں بھرتی ہیں... لیکن مرد یوسف نہیں بنتا...
کسی عورت کو اللہ نے حسن کی دولت سے نوازا ہے تو ادائیں دکھاتی عزیز مصر کی بیوی بن جاتی ہے... مرد پھر بھی یوسف نہیں بنتا...
اگر عورتیں خود کو ڈھانپ لیں اور مرد اپنی نگاہوں کو یوسف علیہ السلام کی طرح قید کر لیں تو فتنہ شروع ہونے سے پہلے ختم ہو جائے...!
آج کی نوجوان نسل اور حضرت یوسف کے اعلی کردار و اخلاق کا موازنہ کیا جائے تو یوسف آسمان پر ایک چمکتا ستارہ نظر آتے ہیں... اور ہم زمین پہ پڑے بے نور شہاب ثاقب... ہم آسمان پہ اس ستارے کو چمکتا دیکھ کر بھی یہ نہیں سوچتے کہ یہ ستارہ جو چار ہزار سال پہلے چمکا تھا... آج چار ہزار سال بعد بھی کیسے چمک رہا ہے... کیوں چمک رہا ہے...؟؟؟
یہ ستارہ اس لیے چمک رہا کہ لوگوں کو پاکیزگی، عفت و پاکدامنی کی راہ دکھائے...!
مگر کیا آج کے دور میں کوئی ہے جو اس ستارے سے راہنمائی چاہتا ہو...؟
Copy/paste