Agar tere bashindon ne mujhe nahi nikala hota to mai tujhe Chhor kar kabhi nahi jata.
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 19...
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 28 صفر 14 نبوت مطابق 12 ستمبر 622ء کی درمیانی رات اپنے مکان سے نکل کر جان و مال کے سلسلے میں اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور ان کے ہمراہ مکہ سے نکلے اور نکلتے ہوئے حزدرہ کے مقام پر کعبۃ اللہ کی طرف منہ کیا اور بڑے دکھ سے فرمایا.. "اے مکہ ! اللہ کی قسم ! تو مجھے روئے زمین پر سب سے زیادہ محبوب ہے اور خدا کو بھی اپنی زمین میں تو ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہے.. اگر تیرے باشندوں نے مجھے نہ نکالا ہوتا تو میں کبھی تجھے نہ چھوڑتا.."
چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپ کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر فورا" نظر اٹھے گی , وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے , اس لیے آپ نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا یعنی یمن جانے والا راستہ جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فاصلہ طے کیا اور اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جو ثور کے نام سے معروف ہے.. یہ نہایت بلند , پرپیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے.. یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ آپ نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے.. اس لیے آپ کے پاؤں زخمی ہوگئے.. بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھالیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جا پہنچے جو تاریخ میں ''غارِ ثور'' کے نام سے معروف ہے..
غار کے پاس پہنچ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "اللہ کے لیے ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوں.. پہلے میں داخل ہو کر دیکھ لیتا ہوں.. اگر اس میں کوئی (ضرر رساں) چیز ہوئی تو آپ کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا.." چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا.. ایک جانب چند سوراخ تھے , انہیں اپنا تہبند پھاڑ کر بند کیا , پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ اندر تشریف لائیں..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے.. اتفاق سے سامنے کا ایک سوراخ بند نہیں ہوا تھا جسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے پاؤں کی ایڑھی رکھ کر بند کیا.. اس سوراخ میں ایک سانپ (یا کوئی زہریلا کیڑا) رہتا تھا جس نے آپ رضی اللہ عنہ کو ڈس لیا مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ نہ جائیں لیکن درد و تکلیف کی شدت سے ان کے آنسو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر ٹپک گئے (اور آپ کی آنکھ کھل گئی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ابوبکر ! تمہیں کیا ہوا..؟"
عرض کی.. "میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے.." رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر لعاب دہن لگادیا اور تکلیف جاتی رہی.. یہ بات زرین نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے.. اس روایت میں یہ بھی ہے کہ پھر یہ زہر پھوٹ پڑا (یعنی موت کے وقت اس کا اثر پلٹ آیا) اور یہی موت کا سبب بنا.. (دیکھئے مشکوٰۃ 2/556 , باب مناقب حضرت ابی بکر رضی اللہ عنہ)
یہاں دونوں حضرات نے تین راتیں یعنی جمعہ , سنیچر اور اتوار کی راتیں غار میں چھپ کر گزاریں.. اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی یہیں رات گزارتے تھے.. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک , سخن فہم نوجوان تھے.. سحر کی تاریکی میں ان دونوں حضرات کے پاس سے چلے جاتے اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے , گویا انہوں نے یہیں رات گزاری ہے.. پھر آپ دونوں کے خلاف کے سازش کی جو کوئی بات سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے اور جب تاریکی گہری ہوجاتی تو اس کی خبر لے کر غار میں پہنچ جاتے..
ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام "عامر بن فُہَیْرَہ" رضی اللہ عنہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے.. اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے.. پھر صبح تڑکے ہی حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ بکریاں ہانک کر چل دیتے.. تینوں رات انہوں نے یہی کیا.. مزید یہ کہ حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مکہ جانے کے بعد انہیں کے نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ نشانات مٹ جائیں..
ادھر قریش کا یہ حال تھا کہ جب منصوبۂ قتل کی رات گزر گئی اور صبح کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ان پر گویا جنون طاری ہوگیا.. انہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اتارا.. آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ لے گئے اور ایک گھڑی زیر حراست رکھا کہ ممکن ہے ان دونوں کی خبر لگ جائے لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ حاصل نہ ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا.. حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا برآمد ہوئیں.. ان سے پوچھا.. "تمہارے ابا کہاں ہیں..؟"
انہوں نے کہا.. "واللہ ! مجھے معلوم نہیں کہ میرے ابا کہاں ہیں.." اس پر خبیث ابوجہل نے ہاتھ اٹھا کر ان کے رخسار پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی گرگئی.. اس کے بعد قریش نے ایک ہنگامی اجلاس کرکے یہ طے کیا کہ ان دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل کام میں لائے جائیں.. چنانچہ مکے سے نکلنے والے تمام راستوں پر خواہ وہ کسی بھی سمت جارہا ہو , نہایت کڑا مسلح پہرہ بٹھا دیا گیا.. اسی طرح یہ اعلان عام بھی کیا گیا کہ جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو یا ان میں سے کسی ایک کو زندہ یا مردہ حاضر کرے گا اسے ہر ایک کے بدلے سو اونٹوں کا گرانقدر انعام دیا جائے گا..
اس اعلان کے نتیجے میں سوار اور پیادے اور نشانات ِ قدم کے ماہر کھوجی نہایت سرگرمی سے تلاش میں لگ گئے اور پہاڑوں , وادیوں اور نشیب وفراز میں ہر طرف بکھر گئے لیکن نتیجہ اور حاصل کچھ نہ رہا.. تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. "میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا.. سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آرہے ہیں.. میں نے کہا.. "اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا.. مجھے اپنی جان کا غم نہیں , اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اُمت ہلاک ہو جائے گی.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ابوبکر ! خاموش رہو.. (ہم ) دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے.. ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں.. "ابوبکر ! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے..''
وہ غار پر گھومتے رہے لیکن تقدیر الہٰی یہ تھی کہ وہ لوگ دیکھ نہ سکیں..
یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اضطراب اپنی جان کے خوف سے نہ تھا بلکہ اس کا واحد سبب وہی تھا جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب قیافہ شناسوں کو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ رضی اللہ عنہ کا غم فزوں تر ہوگیا اور آپ نے کہا.. "اگر میں مارا گیا تو میں محض ایک آدمی ہوں لیکن آگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیے گئے تو پوری امت ہی غارت ہوجائے گی.."
اور اسی موقع پر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا.. "غم نہ کرو.. یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے.."
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرف فرمایا چنانچہ تلاش کرنے والے اس وقت واپس پلٹ گئے جب آپ کے درمیان اور ان کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ باقی نہ رہ گیا تھا..
انعام کی لالچ میں کئی لوگ تلاش میں نکلے تھے.. بنی مدلج کا سردار "سُراقہ بن مالک بن جعشم" بھی تیر کمان لے کر عود نامی گھوڑے پر سوار ہوا اور تیر کمان لے کر آپ کی تلاش میں نکلا.. راستہ میں ٹھوکر لگنے سے گھوڑا گر گیا.. عرب کے قاعدہ کے مطابق اس نے ترکش سے فال کے تیر نکالے کہ تعاقب کرنا چاہیے یا نہیں.. فال الٹی نکلی مگر لالچ میں گھوڑا دوڑایا.. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چو طرف نظر رکھے ہوئے تھے.. گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر عرض کیا.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کوئی ہمارے تعاقب میں آرہا ہے.." حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "گھبرانے کی ضرورت نہیں , اللہ ہمارے ساتھ ہے.."
سُراقہ کے گھوڑے نے دوبارہ ٹھوکر کھائی تو اس نے پھر فال دیکھی جو اس کی مرضی کے خلاف نکلی مگر سو اونٹ کا لالچ کچھ کم نہ تھا.. پھر جب وہ گھوڑے پر سوار ہوکر بڑھا تو ٹھوکر کھا کر گرا اور اب کی مرتبہ گھوڑے کے پاوں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے.. اب ہمت ٹوٹ گئی اور سمجھ گیا کہ غیبی طاقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محافظ ہے.. قریب آکر امان طلب کی اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی تو زمین نے گھوڑے کے پاؤں چھوڑ دئیے.. عرض کیا.. "مجھے امان نامہ عطا ہو.." حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امان کا فرمان لکھ کر دیا جسے سُراقہ نے محفوظ رکھا اور آٹھ سال بعد فتح مکہ , حنین اور طائف کے غزوات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس ہوئے اور جعرانہ میں مال ِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو اُس وقت سُراقہ نے حاضر ہو کر امان نامہ پیش کیا..
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں سے بہت کچھ عطا فرمایا.. سُراقہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن ِسلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا.. جب جانے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "وہ بھی کیا وقت ہوگا جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے.." حیران ہو کر پوچھا.. "کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن.."؟ فرمایا.. "ہاں.."
بعد کے واقعات نے بتلایا کہ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایران فتح کرکے وہاں کی ساری دولت مدینہ روانہ کی , اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سُراقہ رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ کسریٰ کے کنگن اسے پہنائے جائیں.. پھر زرِبفت کا کمر پٹہ , ہیروں اور جواہرات سے مرصّع تاج پہنایا گیا اور فرمایا.. "ہاتھ اٹھاؤ اور کہو ___ تعریف ہے اس اللہ کی جس نے یہ چیزیں کسریٰ بن ہرمزسے چھین لیں جو کہتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں اور انھیں بنی مدلج کے ایک بدو سُراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنا دیں.." حضرت عمر رضی اللہ عنہ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کی تکبیر کہتے رہے..
جب جستجو کی آگ بجھ گئی , تلاش کی تگ ودو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش وجذبات سرد پڑ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے لیے نکلنے کا عزم فرمایا.. عبداللہ بن اریقط لَیْثی سے جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا , پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا.. یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا لیکن قابل اطمینان تھا.. اس لیے سواریاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں اور طے ہوا تھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غار ثور پہنچ جائے گا.. چنانچہ جب دوشنبہ کی رات جو ربیع الاول 1 ھ کی چاند رات تھی (مطابق 16 ستمبر 622 ء) عبداللہ بن اریقط سواریاں لے کر آگیا..
ادھر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا (بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ) بھی زاد سفر لے کر آئیں مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول گئیں.. جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں ہے.. انہوں نے اپنا پٹکا (کمر بند) کھولا اور دو حصوں میں چاک کرکے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا.. اسی وجہ سے ان کا لقب "ذاتُ النّطاقین" پڑ گیا..
(صحیح بخاری ۱/۵۵۳، ۵۵۵ ، ابن ہشام ۱/۴۸۶)
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کوچ فرمایا.. حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے.. دلیل راہ عبداللہ بن اریقط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا.. غار سے روانہ ہوکر اس نے سب سے پہلے یمن کے رخ پر چلایا اور جنوب کی سمت خوب دور تک لے گیا.. پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحل سمندر کا رخ کیا.. پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے , شمال کی طرف مڑ گیا.. یہ راستہ ساحل بحرِ احمر کے قریب ہی تھا اور اس پر شاذو نادر ہی کوئی چلتا تھا..
اس سفر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ردیف رہا کرتے تھے یعنی سواری پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے.. چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ابھی جوانی کے آثار غالب تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کم توجہ جاتی تھی.. اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھتا کہ آپ کے آگے کون آدمی ہے..؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کا بڑا لطیف جواب دیتے.. فرماتے.. "یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے.." اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس راستے میں جن مقامات سے گزرے ' ابن اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے.. وہ کہتے ہیں کہ جب راہنما آپ دونوں کو ساتھ لے کر نکلا تو زیرین مکہ سے لے چلا.. پھر ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا زیر ین عسفان سے راستہ کاٹا.. پھر زیرین امج سے گزرتا ہوا آگے بڑھا اور قدید پار کرنے کے بعد پھر راستہ کاٹا اور وہیں سے آگے بڑھتا ہوا خرار سے گزرا.. پھر ثنیۃ المرہ سے , پھر لقف سے , پھر بیابان لقف سے گزرا.. پھر مجاح کے بیابان میں پہنچا اور وہاں سے پھر مجاح کے موڑ سے گزرا.. پھر ذی الغضوین کے موڑ کے نشیب میں چلا.. پھر ذی کشر کی وادی میں داخل ہوا.. پھر جداجد کا رخ کیا.. پھر اجرد پہنچا اور اس کے بعد بیابان تعہن کے وادئ ذوسلم سے گزرا.. وہاں سے عبابید اور اس کے بعد فاجہ کا رخ کیا.. پھر عرج میں اترا.. پھر رکوبہ کے داہنے ہاتھ ثنیۃ العائر میں چلا.. یہاں تک کہ وادی رئم میں اترا اور اس کے بعد قباء پہنچ گیا..
صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا.. "ہم لوگ (غار سے نکل کر) رات بھراور دن میں دوپہر تک چلتے رہے.. جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہوگیا , راستہ خالی ہوگیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھلائی پڑی جس کے سائے پر دھوپ نہیں آئی تھی.. ہم وہیں اترپڑے..
میں نے اپنے ہاتھ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سونے کے لیے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی.. "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ سو جائیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد وپیش کی دیکھ بھال کیے لیتا ہوں.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو گئے اور میں آپ کے گردوپیش کی دیکھ بھال کے لیے نکلا.. ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چٹان کی جانب چلا آرہا ہے.. وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جو ہم نے چاہا تھا.. میں نے اس سے کہا.. "اے جوان ! تم کس کے آدمی ہو..؟" اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا..
میں نے کہا.. "تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے..؟" اس نے کہا.. "ہاں... "
میں نے کہا.. "دوھ سکتا ہوں.." اس نے کہا.. "ہاں.." اور ایک بکری پکڑی..
میں نے کہا.. "ذرا تھن کو مٹی , بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کرلو.." اس نے ایک کاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پینے اور وضو کرنے کے لیے رکھ لیا تھا..
میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا لیکن گوارا نہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں.. چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو میں آپ کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا.. یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا.. اس کے بعد میں نے کہا.. "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! پی لیجئے.. آپ نے پیا ' یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا..
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "کیا ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا..؟"
میں کہا.. "کیوں نہیں.." اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے..
(صحیح البخاری ۱/۵۱۰)
اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپ کا گزر "اُمّ معبد خزاعیہ" کے خیمے سے ہوا.. (اس اہم واقعہ کا تفصیلی ذکر اگلی قسط میں ہوگا)
اس کے بعد آپ مقام حجفہ پہنچے جو مکہ کی شاہراہ پر ہے اور جہاں سے مدینہ کی طرف راستہ نکلتا ہے.. وہاں بیت اللہ اور مکہ کی یاد سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اُداسی کے آثار نمایاں ہوئے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ سورۂ قصص کی آیت ۸۵ نازل ہوئی..
"اے پیغمبر! جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے.. کہہ دیجئے کہ میرا رب اُسے بھی بخوبی جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے.." (سورہ قصص ۸ ۲: ۸۵)
اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑی تسکین ہوئ.. یہاں سے یہ مختصر قافلہ یثرب کی جانب روانہ ہوا.. اثنائے راہ میں بنی اسلم کا سردار "بریدہ بن خصیب اسلمی" ملا جس کے ساتھ ستر (۷۰) آدمی تھے.. قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گرفتاری پر ایک سو اونٹ کے انعام کا اعلان کیا تھا اور بریدہ اسی انعام کے لالچ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلا تھا.. جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامنا ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرفِ ہمکلامی کا موقع ملا.. وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت متاثرہوا اور ستر (۷۰) ساتھیوں سمیت مسلمان ہوگیا اور آپ کے ساتھ شریک سفر ہوگیا..
جب یہ قافلہ قبا کے قریب پہنچا تو بریدہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا.. "کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ قافلۂ نبوت کے ساتھ آپ کا پرچم بھی موجود ہو.." چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا عمامہ اتارا , اپنے ہاتھ سے اسے نیزہ پر باندھا اور بطور پرچم بُریدہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا.. انھوں نے اسے ہوا میں لہرایا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم بردار کی حیثیت سے آگے آگے چلنے لگے.. یہ تایخ اسلام کا پہلا پرچم تھا..
(قاضی سلیمان منصور پوری : رحمتہ للعالمین.. مصباح الدین شکیل : سیرت احمد مجتبیٰ.. ابن جوزی : الوفا)
راستہ میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی.. وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے آرہے تھے.. انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے خسر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سفید کپڑوں کا ایک جوڑا پیش کیا اور کہا کہ قافلہ اور مال کو مکہ پہنچا کر ہجرت کرکے آجاؤں گا..
ادھرمکے میں ایک آواز ابھری جسے لوگ سن رہے تھے مگر اس کا بولنے والا دکھائی نہیں پڑرہا تھا.. آواز یہ تھی..
جزی اللہ رب العرش خیر جزائہ رفیقین حـلا خیمتی أم معبـد..
ہمـا نـزلا بالبـر وارتحـلا بـــہ وأفلح من أمسی رفیق محمـد..
فیـا لقصـی مـا زوی اللہ عنکـم بہ من فعال لا یجازی وسودد..
لیہن بـنی کـعب مـکان فتاتہـم ومقعدہـا للمؤمنیـن بمرصد..
سلوا أختکـم عن شأتہـا وإنائہا فإنکم إن تسألوا الشـاۃ تشہـد..
''اللہ رب العرش ان دورفیقوں کو بہتر جزادے جو امِ معبد کے خیمے میں نازل ہوئے.. وہ دونوں خیر کے ساتھ اترے اور خیر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رفیق ہوا وہ کامیاب ہوا.. ہائے قصی ! اللہ نے اس کے ساتھ کتنے بے نظیر کارنامے اور سرداریاں تم سے سمیٹ لیں.. بنوکعب کو ان کی خاتون کی قیام گاہ اور مومنین کی نگہداشت کا پڑاؤ مبارک ہو.. تم اپنی خاتون سے اس کی بکری اور برتن کے متعلق پوچھو.. تم خود بکری سے پوچھو گے تو وہ بھی شہادت دے گی.."
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں.. "ہمیں معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کدھر کا رخ فرمایا ہے کہ ایک جن زیرین مکہ سے یہ اشعار پڑھتا ہو آیا.. لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے.. اس کی آواز سن رہے تھے لیکن خود اسے نہیں دیکھ رہے تھے.. یہاں تک کہ وہ بالائی مکہ سے نکل گیا.." وہ کہتی ہیں کہ جب ہم نے اس کی بات سنی تو ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کدھر کا رُخ فرمایا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رُخ مدینہ کی جانب ہے..
(زاد المعاد ۲/۵۳، ۵۴۔ مستدرک حاکم ۳/۹، ۱۰حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے.. اسے بغوی نے بھی شرح السنہ ۱۳/۲۶۴ میں روایت کیا ہے)
اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر "اُمّ معبد خزاعیہ" کے خیمے سے ہوا.. یہ خیمہ قدید کے اطرف میں مشلل کے اندر واقع تھا.. اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس (۱۳۰) کیلو میٹر ہے..
اُمّ معبد ایک نمایاں اور توانا خاتون تھیں.. خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والے کو کھلاتی پلاتی رہتیں.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ان کے پاس کچھ ہے..؟ بولیں.. "واللہ ! ہمارے پاس کچھ ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی.. بکریاں بھی دور دراز ہیں.." یہ قحط کا زمانہ تھا..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے.. فرمایا.. "ام معبد ! یہ کیسی بکری ہے..؟"
بولیں.. "اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا کہ اس میں کچھ دودھ ہے..؟ بولیں.. "وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اجازت ہے کہ اسے دوھ لوں..؟"
بولیں.. "ہاں.. اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوھ لو.."
اس گفتگو کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا ,اللہ کا نام لیا اور دعا کی.. بکری نے پاؤں پھیلا دیئے.. تھن میں بھرپور دودھ اُتر آیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام معبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کرسکتا تھا اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آگیا.. پھر ام معبد کو پلایا.. وہ پی کر شکم سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا.. وہ بھی شکم سیر ہوگئے تو خود پیا.. پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنا دودھ دوہا کہ برتن بھر گیا اور اسے ام معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے..
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر "ابو معبد" اپنی کمزور بکریوں کو جو دُبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں ' ہانکتے ہوئے آپہنچے.. دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے.. پوچھا.. "یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا جبکہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی..؟"
بولیں.. "واللہ ! کوئی بات نہیں , سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک بابرکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی اور یہ اور یہ حال تھا.."
ابومعبد نے کہا.. "یہ تو وہی صاحب قریش معلوم ہوتا ہے جسے قریش تلاش کررہے ہیں.. اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو.."
اس پر اُمِ معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف وکمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے.. اُم معبد کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ تو کوئی تعارف تھا نہ کسی طرح کا تعصب بلکہ جو کچھ دیکھا من و عن کہہ دیا.. اصل متن عربی میں دیکھنے کی چیز ہے.. اس کا جو ترجمہ مؤلف "رحمۃ للعالمین" نے کیا ہے وہ حسبِ ذیل ہے..
" پاکیزہ رو , کشادہ چہرہ ، پسندیدہ خو ، نہ پیٹ باہر کو نکلا ہوا نہ سر کے بال گرے ہوئے ، زیبا ، صاحب جمال ، آنکھیں سیاہ و فراغ ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن ، بلند گردن ، روشن مردمک ، سرمگیں چشم ، باریک و پیوستہ ابرو ، سیاہ گھنگھریالے بال ، خاموش وقار کے ساتھ ، گویا دل بستگی لئے ہوئے ، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب ، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین ، شیریں کلام ، واضح الفاظ ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے مبّرا ، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی ، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے ، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی ، زیبندہ نہال کی تازہ شاخ ، زیبندہ منظر والا قد ، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں ، جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں ، جب حکم دیتا تو تعمیل کے لئے جھپٹتے ہیں ، مخدوم ، مطاع ، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو"
(زاد المعاد ، جلد دوم.. رحمۃ للعالمین : قاضی سلیمان منصورپوری)
اُم معبد کی یہ قلمی تصویر سیرت کا ایک انمول خزانہ ہے.. بعد میں دونوں میاں بیوی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر اسلام قبول کیا..
8 ربیع الاول 14 نبوت یعنی 1 ہجری مطابق 23 ستمبر 622ء بروز دوشنبہ یہ مقدس قافلہ قبا پہنچا.. مکہ سے قبا تک کا سفر آٹھ روز میں طے ہوا.. اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بغیر کسی کمی بیشی کے ٹھیک ترپن سال ہوئی تھی اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا آغاز 9 ربیع الاول 41 عام الفیل سے مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق آپ کی نبوت پر ٹھیک تیرہ سال پورے ہوئے تھے.. البتہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا آغاز رمضان 41 عام الفیل سے مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق بارہ سال پانچ مہینہ اٹھارہ دن یا بائیس دن ہوئے تھے..
قبا کی بستی مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں قبیلہ اوس کے خاندان آباد تھے.. ان میں سب سے ممتاز عمرو بن عوف کا خاندان تھا جس کے سردار اس وقت حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ تھے..
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مسلمانانِ مدینہ نے مکہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روانگی کی خبرسن لی تھی اس لیے لوگ روزانہ صبح ہی صبح نکل جاتے تھے اور شام تک ایک سیاہ چٹان پر جسے "حرّہ العصبہ" کہتے ہیں ' آ کر بیٹھ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ تکتے رہتے.. جب دوپہر کو دھوپ سخت ہوجاتی تو واپس پلٹ آتے..
ایک روز طویل انتظار کے بعد واپس پلٹ کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ چکے تھے کہ ایک یہودی اپنے کسی ٹیلے پر کچھ دیکھنے کے لیے چڑھا.. کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رفقاء سفید کپڑوں میں ملبوس جن سے چاندنی چھٹک رہی تھی ' تشریف لارہے ہیں.. اس نے بیخود ہوکر نہایت بلند آواز سے کہا.. "عرب کے لوگو ! یہ رہا تمہارا نصیب ! جس کا تم انتظار کررہے تھے.."
یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیاروں کی طرف دوڑ پڑے اور ہتھیار سے سج دھج کر استقبال کے لیے امنڈ پڑے اور حرہ کی پشت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا..
(صحیح بخاری ۱/۵۵۵)
ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی بنی عمرو بن عوف میں شور بلند ہوا اور تکبیر سنی گئی.. انصار ہر طرف سے جوق در جوق آتے اور نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے جوش عقیدت کے ساتھ سلام عرض کرتے.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل کر تحیۂ نبوت پیش کیا اور گردوپیش پروانوں کی طرح جمع ہوگئے.. اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سکینت چھائی ہوئی تھی اور یہ وحی نازل ہورہی تھی..
فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ (۶۶: ۴)
''اللہ آپ کا مولیٰ ہے اور جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مددگارہیں..''
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ لوگوں سے ملنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ داہنے جانب مڑے اور بنی عمرو بن عوف میں تشریف لائے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قباء میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام فرمایا.. یہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا.. حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے مکان میں حضرت ابو عبیدہ , حضرت مقداد , حضرت خبّاب , حضرت سہیل , حضرت صفوان , حضرت عیاض , حضرت وہب بن سعد , حضرت معمر بن ابی برح , حضرت عمیر بن عوف رضی اللہ عنہم پہلے سے مقیم تھے.. ابن کثیر کا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے قبل ہی حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ مسلمان ہوچکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ میں آنے کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے..
لوگوں سے ملاقات حضرت سعد بن خشیمہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر ہوتی.. یہ مکان "منزل العزآب" (کنواروں کا گھر) کے نام سے مشہور تھا.. اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھے.. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چپ چاپ بیٹھے تھے.. انصار کے جو لوگ آتے تھے جنہوں نے رسول اللہ کو دیکھا نہ تھا ' وہ سیدھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سلام کرتے.. یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دھوپ آگئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چادر تان کر آپ پر سایہ کیا.. تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال اور دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ پڑا تھا.. یہ ایک تاریخی دن تھا جس کی نظیر سرزمین مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی.. آج یہود نے بھی "حبقوق نبی" کی اس بشارت کا مطلب دیکھ لیا تھا 'کہ...
"اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا.."
(زاد المعاد ۲/۵۴ .. صحیح بخاری ۱/۵۵۵ .. کتاب بائبل , صحیفہ حبقوق ۳/۳)
ادھر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں تین روز ٹھہر کر اور لوگوں کی جو امانتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں ' انہیں ادا کرکے پیدل ہی مدینہ کا رخ کیا اور قباء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آ ملے اور حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام فرمایا..
صحیح بخاری کے بموجب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام قبا میں چودہ روز رہا.. یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا کام مسجد کا تعمیر کرانا تھا.. حضرت کلثوم رضی اللہ عنہ کی ایک افتادہ زمین تھی جہاں کھجوریں سکھائی جاتی تھیں.. یہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے مسجد قبا کی بنیاد ڈالی اور اس میں نماز بھی پڑھی..
مسجد قبا اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کا سنگ بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے رکھا تھا.. سب مسلمانوں نے جوش وخروش کے ساتھ اس کی تعمیر میں حصہ لیا.. خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنی عادت کے مطابق عام مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور پتھروں کو اٹھانے اور ردّے جمانے میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے.. یہی وہ مسجد ہے جس کی شان میں قرآن مجید کی سورۂ توبہ کی ۱۰۸ ویں آیت میں فرمایا گیا..
"(اے پیغمبر) تم اس (نام نہاد) مسجد (ضرار) میں کبھی (نماز کے لئے) کھڑے نہ ہونا البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ واقعی اس لائق ہے کہ تم اس میں (نماز کے لئے) کھڑے ہو.. اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اﷲ پاک صاف رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے..
(سورۂ توبہ : ۱۰۸)
اس شرف کی بناء پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ سے ہر ہفتہ کو قباء تشریف لایا کرتے تھے.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہفتہ میں دو دن تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس کے خس و خاشاک دور کرکے اور جاروب کشی کرکے برکت اندوزی فرماتے تھے..
===========>جاری ھے..