Kya Allah ke nabi ne 11 shadiyan ki thi?
Aap Sallahu Alaihe Wasallam ne kitni shadiyan ki thi?
سوال: کیا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے 11 شادیاں کی تھی؟
جواب تحریری
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک شوہر کی حثییت
از قلم خادم علم العلماء حافظ عامر سہیل عثمانی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں 11 نکاح کیے جن کی تفصیل درج ذیل ہے
1️⃣ سب سے پہلے آپ نے حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر 25 سال تھی اور حضرت خدیجة الکبری عمر 40سال تھی (طبقات ابن سعد 1/129 )
2️⃣دوسرا نکاح سودہ رضی اللہ عنہا سے ہو انکے والد کا نام زمعہ ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر 50 سال تھی اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی عمر بھی 50سال تھی یہ نکاح حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد ہوا (طبقات ابن سعد 8/58 'الاصابة 4/338
3️⃣تیسرا نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوا جو من جانب اللہ تھا تفصیل درج ذیل ہے عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أُرِيتُكِ قَبْلَ أَنْ أَتَزَوَّجَكِ مَرَّتَيْنِ ، رَأَيْتُ الْمَلَكَ يَحْمِلُكِ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ ، فَقُلْتُ لَهُ : اكْشِفْ ، فَكَشَفَ ، فَإِذَا هِيَ أَنْتِ ، فَقُلْتُ : إِنْ يَكُنْ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ ، ثُمَّ أُرِيتُكِ يَحْمِلُكِ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ ، فَقُلْتُ : اكْشِفْ ، فَكَشَفَ فَإِذَا هِيَ أَنْتِ ، فَقُلْتُ : إِنْ يَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم سے شادی کرنے سے پہلے مجھے تم دو مرتبہ دیکھائی گئیں، میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ کھولو اس نے کھولا تو وہ تم تھیں۔ میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کے پاس سے ہے تو وہ خود ہی اسے انجام تک پہنچائے گا۔ پھر میں نے تمہیں دیکھا کہ فرشتہ تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے ہے۔ میں نے کہا کہ کھولو! اس نے کھولا تو اس میں تم تھیں، پھر میں نے کہا کہ یہ تو اللہ کی طرف سے ہے جو ضرور پورا ہو گا۔“ ( صحیح البخاری 7012)
4️⃣چوتھا نکاح آپ کا حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا جو بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : أَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ ، فَقَالَ : سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ لَقِيَنِي ، فَقَالَ : قَدْ بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا ، قَالَ عُمَرُ : فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ ، فَقُلْتُ : إِنْ شِئْتَ زَوَّجْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ ، فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا وَكُنْتُ أَوْجَدَ عَلَيْهِ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ : لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا ، قَالَ عُمَرُ : قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ عَلَيَّ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا ، فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلَوْ تَرَكَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَبِلْتُهَا .
جب ( ان کی صاحبزادی ) حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا ( اپنے شوہر ) خنیس بن حذافہ سہمی کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں اور خنیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کے لیے حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا۔ میں نے کچھ دنوں تک انتظار کیا۔ پھر مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ملاقات کی اور میں نے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ رضی اللہ عنہا سے کر دوں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کی اس بےرخی سے مجھے عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ سے بھی زیادہ رنج ہوا۔ کچھ دنوں تک میں خاموش رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شادی کر دی۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا کہ جب تم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ میرے سامنے پیش کیا تھا تو میرے اس پر میرے خاموش رہنے سے تمہیں تکلیف ہوئی ہو گی کہ میں نے تمہیں اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ واقعی ہوئی تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے جو کچھ میرے سامنے رکھا تھا، اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ میرے علم میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا ہے اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ دیتے تو میں حفصہ کو اپنے نکاح میں لے آتا۔ (صحیح مسلم 2438)
5️⃣ پانچواں نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زینب بنت خزیمہ سے ہو جو بعد نکاح میں ماہ تک زندہ رہی (الاصابة 4/315,316)
6️⃣ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ہو یہ بھی بیوہ تھی یہ قدیم الاسلام تھی
7️⃣پانچواں نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ام حبیبہ بنت ابی سفیان سے ہو انکے شوہر کا نام عبد اللہ بن جحش تھا جو مرتد ہو گیا تھا یہ بھی (الاصابہ 4/305)
8️⃣آٹھواں نکاح آپ کا زینب بنت جحش سے ہوا جو مطلقہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئیں جب آپ کا ان سے نکاح ہو تو حضرت زینب کی عمر 36سال تھی
9️⃣آپ کا نکاح حضرت جویرہ سے ہوا اس وقت حضرت جویرہ کی عمر 20سال تھی یہ بھی بیوہ تھی( الاصابة 4/26)
🔟دسواں نکاح آپ کا حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سےے ہوا یہ بھی بیوہ تھی جب آپ سے نکاح ہو انکی عمر 17سال تھی حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ ، فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ ، وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ حَسَرَ الْإِزَارَ عَنْ فَخِذِهِ حَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ ، قَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ، قَالَهَا ثَلَاثًا ، قَالَ : وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ ، فَقَالُوا : مُحَمَّدٌ ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ : وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَالْخَمِيسُ يَعْنِي الْجَيْشَ ، قَالَ : فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً فَجُمِعَ السَّبْيُ فَجَاءَ دِحْيَةُ ، فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ ، قَالَ : اذْهَبْ ، فَخُذْ جَارِيَةً ، فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ ، قَالَ : ادْعُوهُ بِهَا ، فَجَاءَ بِهَا ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا ، قَالَ : فَأَعْتَقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَزَوَّجَهَا ، فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ : يَا أَبَا حَمْزَةَ ، مَا أَصْدَقَهَا ؟ قَالَ : نَفْسَهَا ، أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ ، فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا ، فَقَالَ : مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ ، وَبَسَطَ نِطَعًا فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ ، قَالَ : وَأَحْسِبُهُ قَدْ ذَكَرَ السَّوِيقَ ، قَالَ : فَحَاسُوا حَيْسًا ، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر میں تشریف لے گئے۔ ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے۔ اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے۔ میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا۔ میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو جاتا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران سے تہبند کو ہٹایا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاف اور سفید رانوں کی سفیدی اور چمک دیکھنے لگا۔ جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «الله اكبر» اللہ سب سے بڑا ہے، خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا، اس نے کہا کہ خیبر کے یہودی لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آن پہنچے۔ اور عبدالعزیز راوی نے کہا کہ بعض انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے «والخميس» کا لفظ بھی نقل کیا ہے ( یعنی وہ چلا اٹھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر پہنچ گئے ) پس ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا اور قیدی جمع کئے گئے۔ پھر دحیہ رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجیئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ کوئی باندی لے لو۔ انہوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! صفیہ جو قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں، انہیں آپ نے دحیہ کو دے دیا۔ وہ تو صرف آپ ہی کے لیے مناسب تھیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ، وہ لائے گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو۔ راوی نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور انہیں اپنے نکاح میں لے لیا۔ ثابت بنانی نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ابوحمزہ! ان کا مہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا تھا؟ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خود انہیں کی آزادی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ نے نکاح کیا۔ پھر راستے ہی میں ام سلیم رضی اللہ عنہا ( انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ) نے انہیں دلہن بنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات کے وقت بھیجا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے۔ آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی، عبدالعزیز نے کہا کہ میرا خیال ہے انس رضی اللہ عنہ نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔ (صحیح بخاری 371)
(11) آپ کا نکاح حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے ہوا یہ بھی بیوہ تھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نکاح تھا جو ذیقعدہ 7ہجری کو ہو جب آپ صلی اللہ علیہ پکی عمر 59سال تھی (صحیح بخاری مختصرا 1837 الااصابہ 4/404 )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو کنیزہ(لونڈیاں ) بھی تھی جنکے نام حسب ذیل ہیں
1 حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
(نوٹ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ازدواج کے اسباب ❓
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سارے نکاح کسی نفسانی خواہش کی بنا پر نہیں کیے تھے بلکہ مشئت الہی اور مامور من اللہ ہونے کی حثییت سے کیے عالم شباب یعنی 25سال سے50سال کی عمر تو ایک بیوی کے ساتھ بسر کی بیوی بھی وہ جو بیوہ ہونے کے ساتھ عمر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے 15سال بڑی تھی
کثرت ازدواج کی وجوہات
1️⃣ بیوگان کے نکاح میں خواہ مخواہ کی رکاوٹ کو دور کر کے انھیں اذیت ناک زندگی سے نجات دلانا تھا
2️⃣ عورتوں کو ممتاز مقام عطا کرنے کی کوشش تھی
3️⃣ امت کو بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا عملی نمونہ پیش کرنا تھا
4️⃣ عورتوں میں اسلام کی تبلیغ وأشاره مطلوب تھی
5️⃣ عرب میں بیواؤں کو منحوس سمجھا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسومات کا خاتمہ کرنا
2حضرت ریحانہ بنت شمعون رضی اللہ عنہا