find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Allah ke nabi 11 shadiyan ki thi?

Kya Allah ke nabi ne 11 shadiyan ki thi?
Aap Sallahu Alaihe Wasallam ne kitni shadiyan ki thi?
سوال: کیا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے 11 شادیاں کی تھی؟

جواب تحریری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  ایک شوہر کی حثییت

از قلم خادم علم العلماء حافظ عامر سہیل عثمانی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں 11 نکاح کیے جن کی تفصیل درج ذیل ہے

1️⃣ سب سے پہلے آپ نے حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر 25 سال تھی اور حضرت خدیجة الکبری عمر 40سال تھی (طبقات ابن سعد 1/129 )

2️⃣دوسرا نکاح سودہ رضی اللہ عنہا سے ہو انکے والد کا نام زمعہ ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر 50 سال تھی اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی عمر بھی 50سال تھی یہ نکاح حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد ہوا (طبقات ابن سعد 8/58 'الاصابة 4/338

3️⃣تیسرا نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوا جو من جانب اللہ تھا تفصیل درج ذیل ہے عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :    أُرِيتُكِ قَبْلَ أَنْ أَتَزَوَّجَكِ مَرَّتَيْنِ ، رَأَيْتُ الْمَلَكَ يَحْمِلُكِ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ ، فَقُلْتُ لَهُ : اكْشِفْ ، فَكَشَفَ ، فَإِذَا هِيَ أَنْتِ ، فَقُلْتُ : إِنْ يَكُنْ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ ، ثُمَّ أُرِيتُكِ يَحْمِلُكِ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ ، فَقُلْتُ : اكْشِفْ ، فَكَشَفَ فَإِذَا هِيَ أَنْتِ ، فَقُلْتُ : إِنْ يَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ    .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم سے شادی کرنے سے پہلے مجھے تم دو مرتبہ دیکھائی گئیں، میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ کھولو اس نے کھولا تو وہ تم تھیں۔ میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کے پاس سے ہے تو وہ خود ہی اسے انجام تک پہنچائے گا۔ پھر میں نے تمہیں دیکھا کہ فرشتہ تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے ہے۔ میں نے کہا کہ کھولو! اس نے کھولا تو اس میں تم تھیں، پھر میں نے کہا کہ یہ تو اللہ کی طرف سے ہے جو ضرور پورا ہو گا۔“ ( صحیح البخاری 7012)

4️⃣چوتھا نکاح آپ کا حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا جو بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : أَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ ، فَقَالَ : سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ لَقِيَنِي ، فَقَالَ : قَدْ بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا ، قَالَ عُمَرُ : فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ ، فَقُلْتُ : إِنْ شِئْتَ زَوَّجْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ ، فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا وَكُنْتُ أَوْجَدَ عَلَيْهِ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ : لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا ، قَالَ عُمَرُ : قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ عَلَيَّ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا ، فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلَوْ تَرَكَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَبِلْتُهَا    .
جب ( ان کی صاحبزادی ) حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا ( اپنے شوہر ) خنیس بن حذافہ سہمی کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں اور خنیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کے لیے حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا۔ میں نے کچھ دنوں تک انتظار کیا۔ پھر مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ملاقات کی اور میں نے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ رضی اللہ عنہا سے کر دوں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کی اس بےرخی سے مجھے عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ سے بھی زیادہ رنج ہوا۔ کچھ دنوں تک میں خاموش رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شادی کر دی۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا کہ جب تم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ میرے سامنے پیش کیا تھا تو میرے اس پر میرے خاموش رہنے سے تمہیں تکلیف ہوئی ہو گی کہ میں نے تمہیں اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ واقعی ہوئی تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے جو کچھ میرے سامنے رکھا تھا، اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ میرے علم میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا ہے اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ دیتے تو میں حفصہ کو اپنے نکاح میں لے آتا۔  (صحیح مسلم 2438)
5️⃣ پانچواں نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زینب بنت خزیمہ سے ہو جو بعد نکاح میں ماہ تک زندہ رہی (الاصابة 4/315,316)
6️⃣ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ہو یہ بھی بیوہ تھی یہ قدیم الاسلام تھی
7️⃣پانچواں نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ام حبیبہ بنت ابی سفیان سے ہو انکے شوہر کا نام عبد اللہ بن جحش تھا جو مرتد ہو گیا تھا یہ بھی  (الاصابہ 4/305)
8️⃣آٹھواں نکاح آپ کا زینب بنت جحش سے ہوا جو مطلقہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئیں جب آپ کا ان سے نکاح ہو تو حضرت زینب کی عمر 36سال تھی
9️⃣آپ کا نکاح حضرت جویرہ سے ہوا اس وقت حضرت جویرہ کی عمر 20سال تھی یہ بھی بیوہ تھی( الاصابة 4/26)
🔟دسواں نکاح آپ کا حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سےے ہوا یہ بھی بیوہ تھی جب آپ سے نکاح ہو انکی عمر 17سال تھی حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ،    أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ ، فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ ، وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ حَسَرَ الْإِزَارَ عَنْ فَخِذِهِ حَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ ، قَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ، قَالَهَا ثَلَاثًا ، قَالَ : وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ ، فَقَالُوا : مُحَمَّدٌ ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ : وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَالْخَمِيسُ يَعْنِي الْجَيْشَ ، قَالَ : فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً فَجُمِعَ السَّبْيُ فَجَاءَ دِحْيَةُ ، فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ ، قَالَ : اذْهَبْ ، فَخُذْ جَارِيَةً ، فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ ، قَالَ : ادْعُوهُ بِهَا ، فَجَاءَ بِهَا ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا ، قَالَ : فَأَعْتَقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَزَوَّجَهَا ، فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ : يَا أَبَا حَمْزَةَ ، مَا أَصْدَقَهَا ؟ قَالَ : نَفْسَهَا ، أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ ، فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا ، فَقَالَ : مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ ، وَبَسَطَ نِطَعًا فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ ، قَالَ : وَأَحْسِبُهُ قَدْ ذَكَرَ السَّوِيقَ ، قَالَ : فَحَاسُوا حَيْسًا ، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ    .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر میں تشریف لے گئے۔ ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے۔ اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے۔ میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا۔ میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو جاتا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران سے تہبند کو ہٹایا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاف اور سفید رانوں کی سفیدی اور چمک دیکھنے لگا۔ جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «الله اكبر» اللہ سب سے بڑا ہے، خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا، اس نے کہا کہ خیبر کے یہودی لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آن پہنچے۔ اور عبدالعزیز راوی نے کہا کہ بعض انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے «والخميس‏» کا لفظ بھی نقل کیا ہے ( یعنی وہ چلا اٹھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر پہنچ گئے ) پس ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا اور قیدی جمع کئے گئے۔ پھر دحیہ رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجیئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ کوئی باندی لے لو۔ انہوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! صفیہ جو قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں، انہیں آپ نے دحیہ کو دے دیا۔ وہ تو صرف آپ ہی کے لیے مناسب تھیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ، وہ لائے گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو۔ راوی نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور انہیں اپنے نکاح میں لے لیا۔ ثابت بنانی نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ابوحمزہ! ان کا مہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا تھا؟ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خود انہیں کی آزادی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ نے نکاح کیا۔ پھر راستے ہی میں ام سلیم رضی اللہ عنہا ( انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ) نے انہیں دلہن بنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات کے وقت بھیجا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے۔ آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی، عبدالعزیز نے کہا کہ میرا خیال ہے انس رضی اللہ عنہ نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔  (صحیح بخاری 371)

(11) آپ کا نکاح حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے ہوا یہ بھی بیوہ تھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نکاح تھا جو ذیقعدہ 7ہجری کو ہو جب آپ صلی اللہ علیہ پکی عمر 59سال تھی (صحیح بخاری مختصرا 1837  الااصابہ 4/404 )


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو کنیزہ(لونڈیاں ) بھی تھی  جنکے نام حسب ذیل ہیں
1 حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا

(نوٹ )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ازدواج کے اسباب ❓

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سارے نکاح کسی نفسانی خواہش کی بنا پر نہیں کیے تھے بلکہ مشئت الہی اور مامور من اللہ ہونے کی حثییت سے کیے  عالم شباب یعنی 25سال سے50سال کی عمر تو ایک بیوی کے ساتھ بسر کی بیوی بھی وہ جو بیوہ ہونے کے ساتھ عمر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے 15سال بڑی تھی

کثرت ازدواج کی وجوہات

1️⃣  بیوگان کے نکاح میں خواہ مخواہ کی رکاوٹ کو دور کر کے انھیں اذیت ناک زندگی سے نجات دلانا تھا
2️⃣  عورتوں کو ممتاز مقام عطا کرنے کی کوشش تھی
3️⃣  امت کو بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا عملی نمونہ پیش کرنا تھا

4️⃣ عورتوں میں اسلام کی تبلیغ وأشاره مطلوب تھی
5️⃣  عرب میں بیواؤں کو منحوس سمجھا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسومات کا خاتمہ کرنا

2حضرت ریحانہ بنت شمعون رضی اللہ عنہا

Share:

Shariyat ke mutabik Fakir aur miskeen me fark kya hai?

Shariyat ke mutabik Fakir aur miskeen me kya fark hai?
Fakir kaun hai aur miskeen kaun hai?
السلام علیکم
شریعت کے مطابق فقیر اور مسکین میں کیا فرق ہے؟

جواب تحریری

جواب از شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ:

مسکین وہی فقیر ہوتا ہے کہ جسے مکمل کفایت حاصل نہیں ہوتی، البتہ فقیر اس سے زیادہ شدید حاجت مند ہوتا ہے۔ اور دونوں ہی زکوٰۃ کے مستحقین میں شامل ہیں جن کا ذکر اس فرمان الہی میں ہے کہ:

﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا﴾ (التوبۃ: 60)

(صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں ،اور مسکینوں کے لئے ،اور زکوٰۃ وصول کرنے والوں کے لئے۔۔۔)

جس کی اتنی آمدنی ہو کہ جو اس کے کھانے، پینے، پہننے اور رہائش کے لیے کافی ہو خواہ وقف سے ہو، یا کمائی سے، یا ملازمت سے یا ان جیسے کسی ذریعے سے تو وہ نہ فقیر کہلائے گا نہ ہی مسکین، اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں([1])۔

سوال: ہم پر فقیر اور مسکین کی معرفت میں اشکال ہوگیا ہے، آپ اس کی وضاحت فرمائیں؟

جواب از شیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ:

فقیر : وہ ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اس سے  فقر یوں چمٹی ہوتی ہے جیسے ”الفقار“ (کمردرد) کسی شخص کو زمین سے چمٹا دیتاہے۔

مسکین: جس کے پاس اتنا ہوتا ہے کہ اس کے لیے کافی نہيں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا:

﴿ اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ۔۔۔﴾  (الکہف: 79)

(اور جو کشتی تھی تو وہ مساکین کی تھی۔۔۔)۔

دیکھیں اللہ تعالی نے انہیں مساکین کی صفت دی حالانکہ ان کے پاس کشتی تھی جس پر وہ کام کاج بھی کرتے تھے۔

لہذا مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے کافی نہيں پڑتا۔ ہوسکتا ہے وہ نوکری کرتا ہو اور اس کی تنخواہ 5 ہزار ریال ہو، لیکن اس کے ماہانہ خرچے  6 ہزار ریال ہوں، تو اس کی تنخواہ کافی نہ ہوئی، پس وہ مصارف زکوٰۃ میں شامل ہوا (یعنی اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے) ([2])۔

[1] نشر في (جريدة المدينة) العدد 11387 وتاريخ 25/12/1414هـ، وفي جريدة (الرياض) العدد 1093 وتاريخ 4/1/1419هـ، وفي (كتاب الدعوة) ج1 ص 109. (مجموع فتاوى ومقالات ابن باز 14/265)

Share:

Aaj ka Musalman Quran se Kitna door hai?

Aaj Musalman Quran se Kitna Door hai?
Aakhir aaj ke Musalmano ki halat ke jimmedar kaun hai?
Aaj Jab Musalmanon ke yaha kisi se Jhhagra hota hai to Us waqt Quran uthane ki bat aati hai chal tu sahi ya mai Quran uthao?
Quran Majeed Sirf Quran khawani me hi padhi jati hai?
Quran khawani unhi logo ke yaha aksar hota hai jinke yaha koi quran padhne wala nahi hai ya hai to padhta nahi hai isliye ise ek rasm ke taur pe samajha jata hai?
Jin gharon me hamesha Quran Majeed ki tilawat ki jati hai waha Quran khawani ki jarurat hi kya hai?
Aaj Agar Musalman Quran-o-Hadees pe amal kiya hota to Quran khawani jaisi biddat hamare bich hoti hi nahi?
Aaj Ka Musalman Quran Majeed se kitna door hai aap is waqiye se samajh sakte hai, ise sirf apne tak hi nahi rakhe balke Apne dusre bhaiyon tak jarur pahuchaye.
آج کا مسلمان قرآن کریم سے کتنا دُور ہے؟
مسلمانوں کے بدترین حالات کا زمدار لائن ہے؟
آج جہاں مسلمانوں کے گھر سے قرآن کی تلاوت کی آواز آنی چاہیئے تھی وہاں سے موشقی اور گندی ویڈیوز کی آوازیں آتی ہے۔ ٹک ٹوک پے ناچنے والا اور ناچنے والی، پب جی کھیلنے والو کو مسلم معاشرے میں آسانی سے دیکھا جائے سکتا ہے، آنلائن ویڈیوز بناکر ہماری مسلم بہنے سوشل میڈیا پے ڈال رہی ہے تاکہ اس سے ہمیں فلمی دنیا میں انتخاب کیا جائے گا، اس سے وہ اداکارہ بن جائے گی، جہاں جسم فروشی کرکے پیسے کمایا جاتا ہے، جہاں پیسو کے لیے غیر مرد کے ساتھ ہمبستر ہونا پڑتا ہے، مسلم سماج میں آج اس قدر برائی پھیل چکی ہے کے اس میں پتہ نہیں چل رہا کے کون صحیح ہے اور کون غلط ہے؟ آج ہم بابری مسجد کا رونا رو رہے ہیں کے کافروں نے مسجد توڑ کر وہاں اپنی عبادت گاہ مندر بنا دیے، (فیصلہ آ چکا ہے آج یہ کل بنےگا تو وہی) مگر افسوس کے ہمارے محلے کی مسجدیں ویران ہے، اس میں ہم جا ہی نہیں رہے ہیں اور فیس بک، ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پے مکہ اور مدینہ میں نمازیں ادا کرنے کی دعاء کر رہے، کیا یہی ہمنے قرآن سے نصیحت حاصل کی ہے یہ پھر اُسے ہمنے صرف جھگڑا و تکرار کے وقت تک ہی محدود رکھا؟

नबी साल्लाहू अलैहि वसलम्म ने अपने जिंदगी के आखिरी वक़्त मे अपने उम्मत से कहा था, मेरे बाद तुम दो चीजो को अगर मजबूती से पकड़े रहोगे तो कभी भी गुमराह नही होगे | ये दो चीज़े है — किताबुल्लाह व सुन्नती रसूल
मतलब अल्लाह की किताब और नबी की सुन्नत

1— कुरान

2— नबी की सुन्नत

लेकिन अफसोस की बात है की मुसलमानो ने कुरान को छोड़ दिया, और जो पढ़ते भी है तो उसका मतलब नही समझते है | आज मुसलमानो की हालात का सबसे बड़ी वजह यही है|

आज का मुसलमान क़ुरआन व हदीस से कितना दूर है आप इस वाक़िए से समझ सकते है।

*एक नसीहत भरा वाक़िया*

एक बार अफ्रीका के एक गांव में एक इमाम मुकर्रर किए गए, बेहतरीन हाफ़िज़ होने के साथ साथ क़ुरआन मजीद की तिलावत बड़ी शानदार करते थे, वक़्त के पाबंद और तकवे वाले थे, लिहाज़ा लोगों को बहुत पसंद आए, गांव के लोग बड़ी इज्जत करने लगे, उस गांव का हर शख्स उस इमाम की दावत करना अपने लिए इज्जत समझता और बढ़ चढ़ कर इज्जत अफजाई की कोशिश करता इसलिए इमाम साहब की खाने की बारी लग गई थी,

रमज़ान का महीना शुरू हो गया, आदत के मुताबिक गांव के एक शख्स ने बड़े शौक से उस आलिम ए दीन को दावत दिया, उसने इमाम साहब की बड़ी ताज़ीम वा तकरीम किया, दस्तरखान को तरह तरह के समान से सजाया गया, इमाम साहब खाने से फारिग हुए और खुशदिली से दुआएं देते हुए रुखसत हो गए,

उधर उस शख्स की बीवी दस्तरख्वान समेटने अाई तो उसे याद आया के दस्तरख्वान के करीब उसने एक मोटी रकम रख कर भूल गई थी मगर अब उसका कहीं नाम ओ निशा नहीं था, पूरा कमरा और घर छान मारा मगर वह रकम ना मिल सकी, जब उसका खाविंद नमाज़ पढ़ कर घर आया तो बीवी ने सारा माजरा कह सुनाया शौहर ने भी रकम के मुतल्लिक़ ला इलमी का इजहार किया, थोड़ी देर गौर और फिक्र करने के बाद उन्होंने सोचा के आज इमाम साहब के इलावा हमारे घर और कोई नहीं आया था, और इस घर में हमारे सिवा इस घर में एक दूध पीती बच्ची है, लिहाज़ा हो या ना हो पैसे इमाम साहब ने ही उठाए है,

उस आदमी को बहुत गुस्सा आया के हमने ही जिसे इस मुबारक और बाबरकत महीने में दावत दी और उसने इस मेहमाननवाजी का  ये सिला दिया, मगर उसने शर्म के मारे इमाम साहब से कुछ पूछा नहीं अलबत्ता उस रोज़ के बाद से वह इमाम साहब से कतराने लगा,

इस वाकिया को पूरा एक साल बीत गया, फिर रमज़ान के महीने में उसी घर में इमाम साहब की दावत परी।

शौहर ने बीते रमज़ान के वाक्ये को सामने रखते हुए बीवी से मशवरा किया, बीवी नेक और फर्माबरदार थी शौहर से बोली हो सकता है इमाम साहब को किसी परेशानी या मजबूरी के सबब ऐसा किया हो, हम उन्हें माफ कर दें ताकि अल्लाह पाक हमें बख्स दे,

चुनांचे इमाम साहब को फिर दावत दी गई, शाम में जब सब लोग खाना खा चुके तो उस आदमी ने इमाम साहब से कहा :

"क्या आपने महसूस किया के पिछले रमज़ान से मैं आप से कतराने लगा था ?

इमाम साहब बोले जी हां ! मगर मसरूफियत की वजह से सबब दरयाफ्त ना कर सका, उसने कहा मैं आपसे कुछ पूछना चाहता हूं आप उसका सही सही जवाब दीजिए, पिछली बार मेरी बीवी दस्तरख्वान के पास कुछ पैसे भूल गई थी जो आपके जाने के बाद गायब हो गए थे, कहीं वह पैसे आपने तो नहीं उठा लिए थे

इमाम साहब फौरन बोले जी हां ! मैंने ही उठाया था !
ये सुनकर उस आदमी के होश उड़ गए, इमाम साहब ने कहा के

"मैंने दस्तरख्वान के करीब कुछ नोट देखा जो हवा की वजह से बिखर गए थे, खिड़की खुली हुई थी और पंखा चल रहा था, मुझे लगा के कहीं नोट उड़ ना जाए, फिर मैंने उन नोटों को जमा करके उठा लिया,

इतना कह कर सर झुका कर इमाम साहब रोने लगे, घर वाले हैरत से इमाम साहब को देखने लगे के एक तो यह मेरा पैसा चुरा लिया और ऊपर से रो रहा है ताकि इसकी हमदर्दी को जीत सकू , फिर उन्होने कहा तुम्हे मालूम है के मैं क्यूं रो पड़ा ??

मैं इस बात पर नहीं रो रहा के तुमने मुझपर इलज़ाम लगाया और बोहतान तराशी किया बल्कि इस बात पर रो रहा हूं कि आज पिछले एक साल से तुम्हारे घर में किसी ने भी क़ुरआन मजीद छुआ तक नहीं, अगर एक बार ही क़ुरआन मजीद सिर्फ खोल ही लेते तो अपने पैसे पा लेते,

*इतना सुनते ही वह आदमी दौड़ा दौड़ा क़ुरआन मजीद के पास गया और उसे खोल कर देखा तो उसमें सारे पैसे मौजूद थे,

आखिर यह नजम किसी ने सही ही कहा है।

अमल की किताब थी,

दुआ की किताब बना दिया |

समझने की किताब थी,

पढ़ने की किताब बना दिया |

जिंदगी का दस्तूर थी,

मुर्दो का मंसूर बना दिया |

जो इल्म की किताब थी,

ला- इल्मो के हाथ थमा दिया |

तस्खीरे- कायनात का दर्स देने आयी थी,

सिर्फ मदरसो का निसाब बना दिया |

मुर्दा कौमों को जिंदा करने आयी थी,

मुर्दो की बख्शिस में लगा दिया |

ऐ मुसलमान ये तुमने क्या किया??

Share:

Kya Aapne Is qurbani Ke falsafe ko samjha?

Kya hamne Qurbani ke falsafe ko samjha?
Qurbani sirf
السلام عليكم ورحمة الله وبرکاته*

آج میں نے🐐🐪🐄 جانور کے گلے پہ چھری تو چلا دی اسکا گوشت کھا بھی لیا اور لوگوں میں بانٹ بھی دیا
          👈 *لیکن* 👉
کیا میں نے ایک لمحہ کیلیے بھی سوچا کہ اللہ تعالٰی اس قربانی کے زریعے مجھ سے کیا تقاضہ فرما رہا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ آج یہ جانور تو اپنے اللہ کے حکم پر اپنی گردن پیش کر کے مجھ پہ سبقت لے گیا ہو؟اور میں صرف  اسکے گلے پہ چھری چلا کے اسکا گوشت کھا کے اسکو خوش فہمی میں قربانی کا نام دیتا رہا؟

*کیا میں نے قربانی کے فلسفہ کو سمجھا؟*

👈 کیا میں نے آج اپنی نفسانی خواہشات پہ📌 چھری چلائی؟

👈 کیا میں نے آج اپنے رَب کی نافرمانیوں پہ📌 چھری چلائی؟

👈 کیا میں نے آج اپنے تکبر اور خود پسندی پہ📌 چھری چلائی؟

👈 کیا میں نے آج جھوٹ چغلی غیبت پہ📌 چھری چلائی؟

👈 کیا میں نے آج شرک و بدعات پہ📌 چھری چلائی؟

👈 کیا میں نے آج شخصیت پرستی اور تعصبانہ سوچ پہ 📌چھری چلائی؟

👈 کیا میں نے آج اللہ کی تمام تر بغاوتوں پہ📌 چھری چلائی

اگر جواب🌹 اثبات میں ہے تو اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ نے قربانی کے مقصد کو پا لیا

اور اگر جواب 🔥 نفی میں ہے تو سوچئے کہ آج تک آپکی قربانیاں کونسے کھاتے میں جاتی رہیں؟

اللہ مجھے اور آپکو قربانی کے فلسفہ کو سمجھ کر اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے
اَمِين يَا رَبَّ الْعَالَمِيْن

Share:

Aaj ka Musalman Quran se Kitna door hai?

Aaj Musalman Quran se Kitna Door hai?
Aakhir aaj ke Musalmano ki halat ke jimmedar kaun hai?
Aaj Jab Musalmanon ke yaha kisi se Jhhagra hota hai to Us waqt Quran uthane ki bat aati hai chal tu sahi ya mai Quran uthao?
Quran Majeed Sirf Quran khawani me hi padhi jati hai?
Quran khawani unhi logo ke yaha aksar hota hai jinke yaha koi quran padhne wala nahi hai ya hai to padhta nahi hai isliye ise ek rasm ke taur pe samajha jata hai?
Jin gharon me hamesha Quran Majeed ki tilawat ki jati hai waha Quran khawani ki jarurat hi kya hai?
Aaj Agar Musalman Quran-o-Hadees pe amal kiya hota to Quran khawani jaisi biddat hamare bich hoti hi nahi?
Aaj Ka Musalman Quran Majeed se kitna door hai aap is waqiye se samajh sakte hai, ise sirf apne tak hi nahi rakhe balke Apne dusre bhaiyon tak jarur pahuchaye.

آج کا مسلمان قرآن کریم سے کتنا دُور ہے
مسلمانوں کے بدترین حالات کا زمدار لائن ہے؟
آج جہاں مسلمانوں کے گھر سے قرآن کی تلاوت کی آواز آنی چاہیئے تھی وہاں سے موشقی اور گندی ویڈیوز کی آوازیں آتی ہے۔ ٹک ٹوک پے ناچنے والا اور ناچنے والی، پب جی کھیلنے والو کو مسلم معاشرے میں آسانی سے دیکھا جائے سکتا ہے، آنلائن ویڈیوز بناکر ہماری مسلم بہنے سوشل میڈیا پے ڈال رہی ہے تاکہ اس سے ہمیں فلمی دنیا میں انتخاب کیا جائے گا، اس سے وہ اداکارہ بن جائے گی، جہاں جسم فروشی کرکے پیسے کمایا جاتا ہے، جہاں پیسو کے لیے غیر مرد کے ساتھ ہمبستر ہونا پڑتا ہے، مسلم سماج میں آج اس قدر برائی پھیل چکی ہے کے اس میں پتہ نہیں چل رہا کے کون صحیح ہے اور کون غلط ہے؟ آج ہم بابری مسجد کا رونا رو رہے ہیں کے کافروں نے مسجد توڑ کر وہاں اپنی عبادت گاہ مندر بنا دیے، (فیصلہ آ چکا ہے آج یہ کل بنےگا تو وہی) مگر افسوس کے ہمارے محلے کی مسجدیں ویران ہے، اس میں ہم جا ہی نہیں رہے ہیں اور فیس بک، ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پے مکہ اور مدینہ میں نمازیں ادا کرنے کی دعاء کر رہے، کیا یہی ہمنے قرآن سے نصیحت حاصل کی ہے یہ پھر اُسے ہمنے صرف جھگڑا و تکرار کے وقت تک ہی محدود رکھا؟

नबी साल्लाहू अलैहि वसलम्म ने अपने जिंदगी के आखिरी वक़्त मे अपने उम्मत से कहा था, मेरे बाद तुम दो चीजो को अगर मजबूती से पकड़े रहोगे तो कभी भी गुमराह नही होगे | ये दो चीज़े है — किताबुल्लाह व सुन्नती रसूल
मतलब अल्लाह की किताब और नबी की सुन्नत

1— कुरान

2— नबी की सुन्नत

लेकिन अफसोस की बात है की मुसलमानो ने कुरान को छोड़ दिया, और जो पढ़ते भी है तो उसका मतलब नही समझते है | आज मुसलमानो की हालात का सबसे बड़ी वजह यही है|

आज का मुसलमान क़ुरआन व हदीस से कितना दूर है आप इस वाक़िए से समझ सकते है।

*एक नसीहत भरा वाक़िया*

एक बार अफ्रीका के एक गांव में एक इमाम मुकर्रर किए गए, बेहतरीन हाफ़िज़ होने के साथ साथ क़ुरआन मजीद की तिलावत बड़ी शानदार करते थे, वक़्त के पाबंद और तकवे वाले थे, लिहाज़ा लोगों को बहुत पसंद आए, गांव के लोग बड़ी इज्जत करने लगे, उस गांव का हर शख्स उस इमाम की दावत करना अपने लिए इज्जत समझता और बढ़ चढ़ कर इज्जत अफजाई की कोशिश करता इसलिए इमाम साहब की खाने की बारी लग गई थी,

रमज़ान का महीना शुरू हो गया, आदत के मुताबिक गांव के एक शख्स ने बड़े शौक से उस आलिम ए दीन को दावत दिया, उसने इमाम साहब की बड़ी ताज़ीम वा तकरीम किया, दस्तरखान को तरह तरह के समान से सजाया गया, इमाम साहब खाने से फारिग हुए और खुशदिली से दुआएं देते हुए रुखसत हो गए,

उधर उस शख्स की बीवी दस्तरख्वान समेटने अाई तो उसे याद आया के दस्तरख्वान के करीब उसने एक मोटी रकम रख कर भूल गई थी मगर अब उसका कहीं नाम ओ निशा नहीं था, पूरा कमरा और घर छान मारा मगर वह रकम ना मिल सकी, जब उसका खाविंद नमाज़ पढ़ कर घर आया तो बीवी ने सारा माजरा कह सुनाया शौहर ने भी रकम के मुतल्लिक़ ला इलमी का इजहार किया, थोड़ी देर गौर और फिक्र करने के बाद उन्होंने सोचा के आज इमाम साहब के इलावा हमारे घर और कोई नहीं आया था, और इस घर में हमारे सिवा इस घर में एक दूध पीती बच्ची है, लिहाज़ा हो या ना हो पैसे इमाम साहब ने ही उठाए है,

उस आदमी को बहुत गुस्सा आया के हमने ही जिसे इस मुबारक और बाबरकत महीने में दावत दी और उसने इस मेहमाननवाजी का  ये सिला दिया, मगर उसने शर्म के मारे इमाम साहब से कुछ पूछा नहीं अलबत्ता उस रोज़ के बाद से वह इमाम साहब से कतराने लगा,

इस वाकिया को पूरा एक साल बीत गया, फिर रमज़ान के महीने में उसी घर में इमाम साहब की दावत परी।

शौहर ने बीते रमज़ान के वाक्ये को सामने रखते हुए बीवी से मशवरा किया, बीवी नेक और फर्माबरदार थी शौहर से बोली हो सकता है इमाम साहब को किसी परेशानी या मजबूरी के सबब ऐसा किया हो, हम उन्हें माफ कर दें ताकि अल्लाह पाक हमें बख्स दे,

चुनांचे इमाम साहब को फिर दावत दी गई, शाम में जब सब लोग खाना खा चुके तो उस आदमी ने इमाम साहब से कहा :

"क्या आपने महसूस किया के पिछले रमज़ान से मैं आप से कतराने लगा था ?

इमाम साहब बोले जी हां ! मगर मसरूफियत की वजह से सबब दरयाफ्त ना कर सका, उसने कहा मैं आपसे कुछ पूछना चाहता हूं आप उसका सही सही जवाब दीजिए, पिछली बार मेरी बीवी दस्तरख्वान के पास कुछ पैसे भूल गई थी जो आपके जाने के बाद गायब हो गए थे, कहीं वह पैसे आपने तो नहीं उठा लिए थे

इमाम साहब फौरन बोले जी हां ! मैंने ही उठाया था !
ये सुनकर उस आदमी के होश उड़ गए, इमाम साहब ने कहा के

"मैंने दस्तरख्वान के करीब कुछ नोट देखा जो हवा की वजह से बिखर गए थे, खिड़की खुली हुई थी और पंखा चल रहा था, मुझे लगा के कहीं नोट उड़ ना जाए, फिर मैंने उन नोटों को जमा करके उठा लिया,

इतना कह कर सर झुका कर इमाम साहब रोने लगे, घर वाले हैरत से इमाम साहब को देखने लगे के एक तो यह मेरा पैसा चुरा लिया और ऊपर से रो रहा है ताकि इसकी हमदर्दी को जीत सकू , फिर उन्होने कहा तुम्हे मालूम है के मैं क्यूं रो पड़ा ??

मैं इस बात पर नहीं रो रहा के तुमने मुझपर इलज़ाम लगाया और बोहतान तराशी किया बल्कि इस बात पर रो रहा हूं कि आज पिछले एक साल से तुम्हारे घर में किसी ने भी क़ुरआन मजीद छुआ तक नहीं, अगर एक बार ही क़ुरआन मजीद सिर्फ खोल ही लेते तो अपने पैसे पा लेते,

*इतना सुनते ही वह आदमी दौड़ा दौड़ा क़ुरआन मजीद के पास गया और उसे खोल कर देखा तो उसमें सारे पैसे मौजूद थे,

आखिर यह नजम किसी ने सही ही कहा है।

अमल की किताब थी,

दुआ की किताब बना दिया |

समझने की किताब थी,

पढ़ने की किताब बना दिया |

जिंदगी का दस्तूर थी,

मुर्दो का मंसूर बना दिया |

जो इल्म की किताब थी,

ला- इल्मो के हाथ थमा दिया |

तस्खीरे- कायनात का दर्स देने आयी थी,

सिर्फ मदरसो का निसाब बना दिया |

मुर्दा कौमों को जिंदा करने आयी थी,

मुर्दो की बख्शिस में लगा दिया |

ऐ मुसलमान ये तुमने क्या किया??

Share:

Qurbani ke 4 chaar din Quran-o-Hadees (Kitab-o-sunnat) Ki Raushani me.

Qurbani Kitne din ki ja sakti hai?

Qurbani ke 4 din hone ke dalail Quran-o-Hadees se.
Qurbani Ke char din kitab-o-sunnat se.

Qurbani ke Ahkaam o Masail.

Jo log Qurbani Karne ki Istaat nahi rakhte wah kya kare?

قربانی کے چار دن کتاب وسنت کی روشنی میں

=============
سب سے پہلے لغوی اعتبار سے ایام تشریق کا مفہوم دیکھتے ہیں۔
(1) چنانچہ علامہ ابن حجر فتح الباری(4؍242) میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں
"وسميت أيام التشريق لأ لحوم الاضاحى تشرق فيها أي تنشر فى الشمس وقيل لأن الهدى لاينحر حتى تشرق الشمس"
''ان تینوں دنوں (11،12،13)کو ایام تشریق اس لیے کہا جاتاہے کہ ان دنوں میں قربانی کے گوشت کودھوپ میں سوکھنے کےلیے پھیلایا جاتا ہے نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ چونکہ قربانی کے جانور سورج چمکنے سےپہلے ذبح نہیں کئے جاتے۔

(2)مولانا انعام اللّٰہ صاحب قاسمی لکھتے ہیں:
''اس قول 'یعنی وجہ تسمیہ' کے بموجب ایامِ تشریق کا اطلاق جتنے دنوں پر بھی ہو گا اس کا تعلق ذبیحہ اور قربانی سے ہو گا۔ کیونکہ کوئی ایسا دن جس میں قربانی جائز نہ ہو تشریق کا دن نہیں کہا جا سکتا لہٰذا جب یوم النحر کے بعد تین دنوں کو باجماعِ اُمت تشریق کہا گیا ہے تو قربانی بھی یوم النحر کے بعد تین دنوں تک جائز ہو گی۔(ایام قربانی: ص 22)

چاردن قربانی کےدلائل قرآن کریم سے
ــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالى نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ : 203)
اور (ایام تشریق کے) معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔
نیز فرمایا :
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ( الحج : 28)
اور وہ ایام تشریق کےمعلوم دنوں میں اللہ کے دیے ہوئے مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں ۔
یعنی ایام معلومات اور ایام معدودات جو کہ باتفاق امت ایام تشریق ہی ہیں اور جن میں جلدی کے بارہ میں اللہ تعالى فرماتے ہیں وہ دو دن ہیں اور تیسرا دن بھی انہیں میں شامل ہے ‘ ان دنوں میں قربانی کے جانوروں پر اللہ کا نام لے کر ذبح ونحر کریں اور خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں ۔
اور ایام تشریق ذوالحجہ کی گیارہ اور بارہ اور تیرہ اور ذوالحجہ کی دس تاریخ کو یوم نحر کہا جاتا ہے
الغرض چار دن قربانی کرنا کتاب اللہ سے بھی ثابت ہے.

احادیث صحیحہ سے دلائل
ــــــــــــــــــــــــــ
(1) أن نافع بن جبير بن مطعم رضي الله عنه أخبره، عن رجل من أصحاب النبي ﷺ قد سماه نافع فنسيته، أن النبي ﷺ قال لرجل من غفار: «قُم فأذّن أنه لا يدخل الجنة إلا مؤمن، وأنها أيام أكل وشرب أيام مني» زاد سليمان بن موسى وذبح، يقول: أيام ذبح ابن جريج يقوله. (السنن الکبرٰی للبیہقی: 9؍296)
''ایک صحابی سے مروی ہے کہ اللّٰہ کے نبی ﷺ نے ایک غفاری صحابی سے کہا کہ تم کھڑےہو اور اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مؤمن ہی جائیں گے اور ایام منیٰ (ایام تشریق) کھانے پینے کے دن ہیں۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ ان کے اُستاذ سلیمان بن موسیٰ نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے ذبح کے لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی وہ یہ بھی روایت کرتے تھے کہ یہ ذبح کے دن ہیں۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔(سلسلہ احادیث الصحیحہ: 5؍ 621، رقم: 2476)

(2) امام ابن حبان(م 354ھ) سیدنا جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں :
قال رسول الله ﷺ: «كل عرفات موقف، وارفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، فكل فجاج من منحر، وفي كل أيام التشريق ذبح۔ (صحیح ابن حبان: 9؍ 166، رقم 3854 )
'' اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادئ محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔''

(3) عن سعید بن المسیب ، مرة عن أبي سعيد ومرة عن أبي هريرة رضي الله عنهما عن النبي ﷺ «أيام التشريق كلها ذبح۔( السنن الکبری للبیہقی: 9؍ 296)
''دو صحابہ ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ اللّٰہ کے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں۔''
یہ حدیث بھی بالکل صحیح اور اس کی سند بھی متصل ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی نے اسے حسن قراردیا ہے۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ: 5؍621

صحابہ کرام سے ثبوت
ــــــــــــــــــــــــــ
(1) مفسر قرآن عبد اللّٰہ بن عباس :
''عبد اللّٰہ بن عباس نے کہا کہ قربانی یوم النحر (10 ذوالحجہ) کے بعد تین دن(11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (یعنی یوم النحر عید کے دن کو لے کر کل چار دن قربانی کے ہیں . (السنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296)
اس کی سند ضعیف ہے لیکن اسی مفہوم کی بات ابن عباس سے متعدد سندوں سے منقول ہے جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے

(2) خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب:
''امام ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528)نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291)۔

(3) صحابی رسول جبیر بن مطعم:
''امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک قربانی کے آخری وقت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ یوم الاضحیٰ اور اس کے بعد تشریق کے تینوں دنوں میں قربانی جائز ہے اور یہی بات علی بن ابی طالب ، جبیر بن مطعم اور عبد اللّٰہ بن عباس نے بھی کہی ہے۔''(شرح مسلم: 13؍ 111)

(4) صحابی رسول اللّٰہ عبد اللّٰہ بن عمر:
''عبد اللّٰہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایام معلومات (قربانی کے معلوم دن) یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں اور یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر اور ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،: دار طیبہ)

تابعین سے ثبوت
ـــــــــــــــــــــــــــــ
(1) امام اہل مکہ عطا بن رباح رحمۃ اللہ علیہ:
امام طحاوی فرماتے ہیں:
. ''امام حسن اور امام عطا نے کہا ہے کہ قربانی ایام تشرق کے آخری دن تک یعنی عیدسے لے کر چار دن تک ہے۔''
(احکام القرآن للطحاوی: 2؍ 206؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 299)

(2) امام اہل بصرہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ :
امام ابو عبد اللّٰہ المحاملی(م 330ھ) نے کہا:
''حسن بصری رحمہ اللہ کہتے تھے کہ تشریق کے تمام دنوں میں یعنی عید الاضحیٰ سمیت چار دنوں: 10، 11،، 12، 13 میں قربانی کی جائے۔''
(امالی المحاملی روایۃ ابن یحییٰ البیع: ص 89؛ سنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296من طریق حماد واسنادہ صحیح)

(3) امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ :
امام بیہقی (م 458ھ) فرماتے ہیں:
''خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے کہ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے (یعنی کل چار دن قربانی ہے)۔''(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 297 اسنادہ صحیح)
اس کے علاوہ درج ذیل تابعین سے بھی اہل علم نے چار دن قربانی کا قول نقل کیا ہے:
امام زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، اوزاعی اور سلیمان بن موسیٰ رحمہم اللہ
(التمہید لابن عبد البر: 23؍ 196؛ شرح النووی علی مسلم: 13؍ 111؛ زاد المعاد لابن القیم: 2؍ 319؛ المحلیٰ لابن حزم: 7؍ 378؛ تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،دارِ طیبہ)

چار دن قربانی اور ائمہ اربعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
بعض نے امام ابو حنیفہ کی طرف تین دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے۔ مگر واقعۃً امام ابو حنیفہ کے نزدیک قربانی کتنے دن تھی، اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ سے صحیح سند سے کوئی قول ہمیں نہیں ملا۔

(2)امام شافعی رحمہ اللہ
امام شافعی(م 204ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
'جب تشریق کے آخری دن یعنی 13؍ ذو الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد کوئی قربانی کرے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔''(الام للشافعی: 2؍ 244)

(3)امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
آپ کی طرف تین دن اور چار دن دونوں طرح کے اقوال منسوب ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ(م 774ھ) نے کہا:
''عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13 ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر ، ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی یہی مذہب ہے۔''
(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416؛ الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف للمرداوی: 4؍ 87)

(4)امام مالک رحمہ اللہ
آپ نے تین دن قربانی والا موقف اپنایا ہے لیکن اس سلسلے میں آپ نے کوئی حدیث پیش نہیں کی ہے، غالباً موطا میں آپ نے ابن عمر کے قول کی بنیاد پر یہ موقف اپنایا ہے۔لیکن خود ابن عمر کی طرف چار دن قربانی والا قول بھی منسوب ہے جیسا کہ ماقبل میں ابن کثیر کے حوالہ سے گذر چکا۔

چار دن قربانی سے متعلق اقوالِ محدثین ومحققین
➖➖➖➖➖➖➖
1. امام ابن المنذر(م 319ھ) نے کہا:
''قربانی کا وقت عید کا دن اور اس کے بعد تشریق کے تین دن ہیں۔''( الاقناع لابن المنذر: ص 376)

2. امام بیہقی(م 458ھ) نے کہا:
''سلیمان بن موسیٰ (چار دن قربانی) والی حدیث زیادہ مناسب ہے کہ اس کے مطابق موقف اپنایا جائے۔''(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 298)

3. امام ابو الحسن الواحدی(م 468ھ)نے کہا :
''قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔''(تفسیر الوسیط للواحدی: 3؍ 268)

4. امام نووی(م676ھ) نے کہا:
''قربانی کا وقت تشریق کے آخر دن سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گا۔''(روضۃ الطالبین للنووی: 2؍468)

5. شیخ الاسلام ابن تیمیہ(م 728ھ) نے کہا:
''قربانی کا آخری وقت تشریق کا آخری دن ہے۔''(فتاویٰ الکبیر لابن تیمیہ: 5؍ 384)

6. امام ابن قیم(م751ھ) نے کہا:
''اور سیدنا علی نے کہا: قربانی کے دن: عید کا دن اور اس کے بعد تین دن ہیں اور اہل بصرہ کے امام حسن بصری اور اہل مکہ کے امام عطا بن ابی رباح اور اہل شام کے امام اوزاعی کا یہی موقف ہے اور یہی فقہائے اہل الحدیث کے امام شافعی کا موقف ہے اور اسے ہی امام ابن المنذر نے اختیار کیا ہے اور پورے ایام تشریق یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز)۔ جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پائی جاتی ہے اور نہ ہی اجماعِ اُمت، بلکہ اس کے برعکس نبی ﷺ سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے۔''( زاد المعاد: 2؍ 319)

7. امام ابن کثیر(م 774ھ) نے کہا:
''اور اس سلسلے میں راجح امام شافعی کا مذہب ہے اور وہ یہ کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔''( تفسیر ابن کثیر:1؍ 561)

8. امام شوکانی(1250ھ) نے کہا:
''چار دن قربانی والا موقف راجح ہے کیونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث ایک دوسرے سے مل کر قوی ہو جاتی ہیں۔''( نیل الاوطار:5؍149)

خلاصۂ بحث
〰➖〰➖〰➖
قرآنی آ یات، احادیثِ صحیحہ اور جمہور سلف صالحین سے اسی بات کا ثبوت ملتا ہے کہ قربانی کے کل چار دن ہیں۔ جماعت اہل حدیث کا یہی متفقہ موقف ہے۔ علماے ہند کے علاوہ پاکستان و عرب کے معاصر کبار اہل علم نے بھی اسی موقف کی صراحت کی ہے۔ مجلس کبار علما ، سعودی عرب کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
ربّ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے، حق بات سننے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
〰〰〰〰〰〰〰
Part 2

ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﻥ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟
ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺍﻟﻌﺜﯿﻤﯿﻦ
=================
ﻣﺼﺪﺭ : ﮐﺘﺎﺏ ﺃﺣﻜﺎﻡ ﺍﻻﺿﺤﻴﺔ ﻭﺍﻟﺰﻛﺎﺓ
ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﺎﻡِ ﺗﺸﺮﯾﻖ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﻏﺮﻭﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ
ﮨﮯ ﺟﻮﮐﮧ ﺫﻭﺍﻟﺤﺞ ﮐﯽ ﺗﯿﺮﮨﻮﯾﮟ ‏( 13 ‏) ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺫﺑﺢ ﮐﮯ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ
ﮨﯿﮟ : ﯾﻮﻡ ﺍﻟﻌﯿﺪ، ﮔﯿﺎﺭﮨﻮﯾﮟ، ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﮨﻮﯾﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ
ﺗﯿﻦ ﺭﺍﺗﯿﮟ : ﮔﯿﺎﺭﮨﻮﯾﮟ، ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﮨﻮﯾﮟ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ۔
ﯾﮩﯽ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﺍﻗﻮﺍﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﺭﺍﺟﺢ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﺩﻭ ﺭﻭﺍﯾﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻘﯿﻢ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ : ﯾﮩﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﺍﮨﻞ ﺑﺼﺮﮦ ﮐﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﺑﺼﺮﯼ ﮐﺎ ﮨﮯ، ﺍﮨﻞ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﻣﺎﻡ
ﺍﻻﻭﺯﺍﻋﯽ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﻘﮩﺎﺀ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﯽ ﮐﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮨﯽ
ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻤﻨﺬﺭ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﻧﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ‏( ﺍﺑﻦ ﻋﺜﯿﻤﯿﻦ ‏) ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ : ﺍﺳﮯ ﮨﯽ ﺷﯿﺦ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺗﻘﯽ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻦ ﺗﯿﻤﯿﮧ
ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻇﺎﮨﺮﺍ ًﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻘﯿﻢ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ
ﯾﮩﯽ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ : ﴿ﻟِﻴَﺸْﻬَﺪُﻭﺍْ ﻣَﻨَﺎﻓِﻊَ ﻟَﻬُﻢْ ﻭَﻳَﺬْﻛُﺮُﻭﺍ
ﺍﺳْﻢَ ﺍﻟﻠّٰﻪِ ﻓِﻲْٓ ﺍَﻳَّﺎﻡٍ ﻣَّﻌْﻠُﻮْﻣٰﺖٍ ﻋَﻠٰﻲ ﻣَﺎ ﺭَﺯَﻗَﻬُﻢْ ﻣِّﻦْۢ ﺑَﻬِﻴْﻤَﺔِ ﺍﻟْﺎَﻧْﻌَﺎﻡِ﴾ ‏(ﺍﻟﺤﺞ : 28 ‏)
‏(ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺁﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ’’ﺍَﻳَّﺎﻡٍ ﻣَّﻌْﻠُﻮْﻣٰﺖٍ‘‘ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ
ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﮟ ﺍﻥ ﭼﻮﭘﺎﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﭘﺎﻟﺘﻮ ﮨﯿﮟ ‏) ([1])
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ’’ ﺍﻷﻳﺎﻡ ﺍﻟﻤﻌﻠﻮﻣﺎﺕ : ﻳﻮﻡ ﺍﻟﻨﺤﺮ ،
ﻭﺛﻼﺛﺔ ﺃﻳﺎﻡ ﺑﻌﺪﻩ ([2])‘‘ ‏(ﺍﯾﺎﻡ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﯾﻮﻡ ﺍﻟﻨﺤﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﺍﯾﺎﻡ ﮨﯿﮟ ‏) ۔
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺟﺒﯿﺮ ﺑﻦ ﻣﻄﻌﻢ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻤﻨﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’:ﻛُﻞُّ ﺃَﻳَّﺎﻡِ ﺍﻟﺘَّﺸْﺮِﻳﻖِ ﺫَﺑْﺢٌ‘‘ ﺍﺳﮯ ﺍﺣﻤﺪ، ﺑﯿﮩﻘﯽ ﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ
ﺣﺒﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ([3]) ۔
‏( ﺗﻤﺎﻡ ﺍﯾﺎﻡ ﺗﺸﺮﯾﻖ ﺫﺑﺢ ﮐﮯ ﺍﯾﺎﻡ ﮨﯿﮟ ‏) ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﻧﻘﻄﺎﻉ ﮐﯽ ﻋﻠﺖ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﮯ ﮐﮧ ’’:ﺃَﻳَّﺎﻡُ ﺍﻟﺘَّﺸْﺮِﻳﻖِ ﺃَﻳَّﺎﻡُ ﺃَﻛْﻞٍ، ﻭَﺷُﺮْﺏٍ، ﻭَﺫِﻛْﺮِ ﺍﻟﻠَّﻪِ‘‘ ﺍﺳﮯ ﻣﺴﻠﻢ ﻧﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ([4]) ۔
‏(ﺍﯾﺎﻡ ﺗﺸﺮﯾﻖ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺫﮐﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﺎﻡ ﮨﯿﮟ ‏) ۔ﭘﺲ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﯾﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﯾﺎﻡِ ﺫﮐﺮ ﺍﻟﻠﮧ
ﮨﯿﮟ۔ ﭼﻮﭘﺎﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺫﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺫﮐﺮ ِﻣﻄﻠﻖ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﯿﺪ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ
ﺍﯾﺎﻡ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﺘﺮﮎ ﮨﯿﮟ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻞ ﻧﺰﺍﻉ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺍﯾﺎﻡِ ﻣﻨﯽٰ ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﺎﻡ ِﺭﻣﯽ ﺟﻤﺎﺭ ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﺎﻡِ ﺫﮐﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ
ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ، ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﻮ ﺧﺎﺭﺝ ﮐﺮﺩﯾﺎ
ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﺤﺾ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺩﻭ ﺍﯾﺎﻡ ﺗﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ؟۔
‏[ 1‏] ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ۔ ‏( ﺍﻟﺸﯿﺦ ‏)
‏[ 2‏] ﺭﻭﺍﻩ ﺍﺑﻦ ﺣﺎﺗﻢ ﻓﻲ ﺗﻔﺴﻴﺮﻩ ‏( 8/2489 ‏) ۔
‏[ 3‏] ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺣﻤﺪ ‏( 4/82 ‏) ﻭﺍﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ‏(9/256 ‏) ، ﻭﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ‏( 9/166 ‏) ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺦ
ﺍﻟﺒﺎﻧﯽ ﺍﻟﺴﻠﺴﻠﺔ ﺍﻟﺼﺤﻴﺤﺔ 2476 ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ’’ ﻻ ﻳﻨﺰﻝ ﻋﻦ ﺩﺭﺟﺔ ﺍﻟﺤﺴﻦ
ﺑﺎﻟﺸﻮﺍﻫﺪ‘‘ ۔
‏[ 4‏] ﺭﻭﺍﻩ ﻣﺴﻠﻢ، ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻴﺎﻡ/ ﺑﺎﺏ ﺗﺤﺮﻳﻢ ﺻﻮﻡ ﺃﻳﺎﻡ ﺍﻟﺘﺸﺮﻳﻖ، ﺭﻗﻢ ‏( 1141

Share:

Kuchh Jahilana jumle aur uske jawabat: Mohabbat aur Jung me sab kuchh Jayez hai.

Kuchh Aeise jumle jo aam taur pe hamare bich Bole jate hai.

Chand Mashhoor jahilana jumle aur unke jawabat.
jaise Namaje Bakshwane gaye they roje gale lag gaye....
Mohabbat aur Jung me sab kuchh Jayez hai.
Nau Sau (Nine hundreds) chuhe khakar Billi chali hajj karne.
Aaj ke Daur men Deen me tabdeeli waqt ki jarurat hai.
Aaj ka Jamana Bahut hi kharab aur gaddar hai.


چند مشہور جاھلانہ جملے اور ان کے جوابات*

جملہ:
نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے،

جواب: حدیث مبارکہ میں ہے؛
جس نے رسول اللہ ﷺ پر نازل شدہ دین کی کسی چیز کا یا اس کی جزا و سزا کا مذاق اڑایا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔

(اگر چہ اس نے ہنسی مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔)

جملہ:
"محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے"
.
جواب:
بالکل غلط، بحیثیت مسلمان ہمارے لئے محبت اور جنگ دونوں کی متعین حدود دین اسلام میں موجود ہیں،
جن سے تجاوز کرنا جائز نہیں.
جملہ:
"نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی-
یعنی ساری زندگی گناہوں میں گزری اب نیک ہونے کا کیا فائدہ؟"
.
جواب: 100% غلط... !
بحیثیت مسلمان لاکھوں، کروڑوں چوہے کھا کر بھی اگر بلی حج کو جائے گی تو ان شاء اللہ رب کی رحمت کو اپنے قریب پائے گی.
گویا کوئی شخص کتنا ہی گناہ سے آلودہ کیوں نہ رہا ہو؟
اگر سچی توبہ کرکے پلٹ آنا چاہے تو مغفرت کا دروازہ کھلا ہے.

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى

اور جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اچھے عمل کرے اور راہ راست پر گامزن رہے تو اسے میں یقیناً بہت زیادہ معاف کرنے والا ہوں۔
[طه: 82]

(”بلی حج کو چلیں“ یہ کہنا شعائر اسلام کی توہین ہے اس لئے ایسا کوئی بھی جملہ جس سے اسلام و مسلمین کی تنقیص و تحقیر کا پہلو نکلتا ہو، اُس سے گریز کریں۔)

جملہ:
آج کے دور کے مطابق دین میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے

جواب۔ اللہ فرماتا ہے۔

```الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً```

“(1440 سال پہلے )

آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا“
(المائدہ 3)

جملہ:
آخر اللہ کو ہماری یاد آ ہی گئی

جواب: اللہ فرماتا ہے.

َمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيّاً

تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں
[مريم : 64]

جملہ: کہاں رہتے ہو؟
اوو خدا کے پچھواڑے؟

جواب :
خدا کے لئے کچھ بھی غائب نہیں ہے
تو خود سوچیں اس کا پچھواڑا کیسے ہو سکتا ہے
مگر جملہ بولنے والے نے رب العزت کی کتنی بڑی توہین کر دی ہے

`جملہ:
زمانہ بہت خراب ہو گیا ہے، زمانہ بڑا غدار ہے
جواب:
حدیث القدسی
ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے ۔ وہ زمانے (وقت) کو گالی دیتا ہے جب کہ زمانہ “میں “ ہوں ہر حکم میرے ہاتھ میں ہے اور میں ہی دن رات کو پلٹاتا ہوں
(متفق علیہ )

جملہ:
فلاں بہت منحوس ہے وغیرہ وغیرہ ۔

جواب:
بالکل غلط
یہ وہمی لوگوں کی باتیں ہیں ۔
اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں ہے ،
یہ محض توہم پرستی ہے۔

حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدے کی تردید فرمائی گئی ہے۔

سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے۔

قرآن میں ارشاد ہے۔

”تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور
جو بُرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے،“
سورة النساء (4) آیات (79).

لہذا اپنا اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کون کون سے ایسے جملے بولتے رہتے ہیں اور وہ جملے کتنے بھاری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن رہے ہیں
اور ہماری آخرت تباہ ہو رہی ہے اور ہمیں علم ہی نہیں ہے

بولنے سے پہلے سوچیں پھر تولیں پھر بولیں اور جب بھی بولیں بامقصد بولیں
فضول بولنے سے خاموشی لاکھ درجے بہتر ہے

خود بھی شعوری طور پر بچیں اور دوسروں کی بھی اصلاح فرمائیں

جزاک اللہ خیرا و احسن الجزا

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS