find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Tasbeeh ki Namaz kaise Padha Jata Hai iski Fazilat?

Namaj-E-Tasbeeh Kaise Padhe aur iski Fazilat.
Namaj-E-Tasbeeh kya Har Musalman ko Zindagi me Ek bar padhna Lazim hai?
نمازِ تسبیح کا ثبوت
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

اللہ رب العزت کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو نوافل کے ذریعہ سے اپنا قرب بخشا ، نیز ان کو مغفرت و معافی کے اسباب عطا فرمائے ۔ ان میں سے ایک نماز ِ تسبیح ہے ۔ یہ بڑی فضیلت والی نماز ہے ، روزانہ پڑھیں ، ہفتہ میں یامہینہ میں یاسال کے بعد یا زندگی میں ایک بار پڑھ لیں ۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت وبرکت سے جھولی بھرلیں ۔ اس نماز کا ثبوت اورطریقہ ملاحظہ ہو ۔

قال الإمام أبوداو،د : حدّثنا عبد الرحمن بن بشر بن الحکم النیسابوریّ ، حدّثنا موسی بن عبد العزیز ، حدّثنا الحکم بن أبان عن عکرمۃ عن ابن عبّاس : أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال للعبّاس بن عبد المطّلب : یا عبّاس ! یا عمّاہ ! ألا أعطیک ؟ ألا أمنحک ؟ ألا أحبوک ؟ ألا أفعل بک عشر خصال ؟ إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذنبک أوّلہ وآخرہ ، قدیمہ وحدیثہ ، خطأہ وعمدہ ، صغیرہ وکبیرہ ، سرّہ وعلانیتہ ، عشر خصال ؛ أن تصلّی أربع رکعات ، تقرأ فی کلّ رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ ، فإذا فرغت من القراء ۃ فی أوّل رکعۃ وأنت قائم ، قلت سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلّا اللّٰہ واللّٰہ أکبر خمس عشرۃ مرّۃ ، ثمّ ترکع ، فتقولہا وأنت راکع عشرا ، ثمّ ترفع رأسک من الرکوع ، فتقولہا عشرا ، ثمّ تہوی ساجدا ، فتقولہا وأنت ساجد عشرا ، ثمّ ترفع رأسک من السجود ، فتقولہا عشرا ، ثمّ تسجد فتقولہا عشرا ، ثمّ ترفع رأسک فتقولہا عشرا ، فذلک خمس وسبعون فی کلّ رکعۃ ، تفعل ذلک فی أربع رکعات ، إن استطعت أن تصلّیہا فی کلّ یوم مرّۃ ، فافعل ، فإن لم تفعل ، ففی کلّ جمعۃ مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی کلّ شہر مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی کلّ سنۃ مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی عمرک مرّۃ ۔
”سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اے عباس ، اے میرے چچا ! کیا میں آپ کو تحفہ نہ دوں ، کیا میں آپ کو گراں مایہ چیز مفت میں عطا نہ کردوں ، کیا میں آپ کے لیے دس خصلتیں بیان نہ کردوں کہ جب آپ ان کو کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اول وآخر ، قدیم وجدید ، غلطی سے سر زد ہونے والے اورجان بوجھ کر کیے ہوئے ، صغیرو کبیرہ ، مخفی وظاہری تمام گناہ معاف کردے ؟ وہ دس خصلتیں یہ ہیں کہ آپ چار رکعات ادا کریں۔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اورایک سورت پڑھیں ، پھرپہلی رکعت میں قرائت سے فارغ ہوکر قیام کی حالت میں ہی پندرہ دفعہ یہ دعا پڑھیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ (اللہ تعالیٰ پاک ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے)، پھر آپ رکوع کریں اور(رکوع کی تسبیحات کے بعد)رکوع کی حالت میں دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ رکوع سے سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے کے جھک جائیں اور سجدے کی حالت میں (تسبیحات کے بعد)دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے سے اپنا سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ دوسرا سجدہ کریں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ سجدے سے سر اٹھائیں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ۔ یہ ہررکعت میں کل پچھتر تسبیحات ہوجائیں گی ۔ چاروں رکعتوں میں اسی طرح کریں ۔ اگر آپ روزانہ یہ نماز پڑھ سکتے ہیں تو روزانہ پڑھیں ، ورنہ ہر ہفتے ، ورنہ ہر مہینے ایک مرتبہ پڑھ لیں ۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اوراگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ یہ نماز پڑھ لیں۔”(سنن ابی داو،د : ١٢٩٧، سنن ابن ماجہ : ١٣٨٧، صحیح ابن خزیمۃ : ١٢١٦، المعجم الکبیر للطبرانی : ١١٦٢٢، المستدرک للحاکم : ١/٣١٨، وسندہ، حسنٌ)
ابوحامد احمد بن محمد بن الحسن الشرقی الحافظ کہتے ہیں کہ میں نے امام مسلم  رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : لا یروی فی ھذا الحدیث إسناد أحسن من ھذا ۔
”اس حدیث کی اس سے بڑھ کر بہتر سند کوئی نہیں بیان کی گئی ۔”
(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی : ١/٣٢٦، وسندہ، صحیحٌ)
ابنِ شاہین رحمہ اللہ (٢٩٧۔٣٨٥ھ)فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوداؤد سے سنا:
أصحّ حدیثا فی التسبیح حدیث العبّاس ۔ ”نماز ِ تسبیح کے بارے میں سب سے صحیح حدیث ، سیدنا عباس کی حدیث ہے ۔”(الثقات لابن شاہین : ١٣٥٦)
حافظ منذری رحمہ اللہ (٥٨١۔٦٥٦ھ)لکھتے ہیں : صحّح حدیث عکرمۃ عن ابن عبّاس ھذا جماعۃ ، منھم : الحافظ أبوبکر الآجری ، وشیخنا أبو محمّد عبد الرحیم المصریّ ، وشیخنا الحافظ أبو الحسن المقدسیّ ۔
”اس حدیث کو ائمہ کرام کی ایک جماعت نے صحیح قرار دیا ہے ، ان میں سے حافظ ابوبکرالآجری ہیں اورہمارے شیخ ابو محمدعبدالرحیم المصری ہیں اورہمارے شیخ حافظ ابوالحسن المقدسی ہیں ۔”(الترغیب والترھیب للمنذری : ١/٤٦٨)
حافظ علائی رحمہ اللہ (٦٩٤۔٧٦١ھ)لکھتے ہیں ـ: حدیث حسن صحیح ، رواہ أبوداو،د وابن ماجہ بسند جیّد إلی ابن عبّاس ۔
”یہ حدیث حسن صحیح ہے ، اس کو امام ابوداؤد اورامام ابنِ ماجہ نے ابنِ عباسw سے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔”(النقد الصحیح : ص ٣٠)
حافظ ابن الملقن  رحمہ اللہ (٧٢٣۔٨٠٤ھ)فرماتے ہیں : وھذا الإسناد جیّد ۔
”یہ سند جید ہے ۔”(البدر المنیر لابن الملقن : ٤/٢٣٥)
حافظ سیوطی  رحمہ اللہ (م ٩١١ھ)فرماتے ہیں : وھذا إسناد حسنٌ ۔
”یہ سند حسن ہے۔” (اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ : ٢/٣٥)
اس حدیث کے متعلق حافظ نووی(٦٣١۔٦٧٦ھ)اورحافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ  (٧٧٣۔٨٥٢ھ)کی کلام متناقض ہے ۔ بعض اہل علم کا اس حدیث کی صحت کا انکار کرنا بے معنیٰ ہے ۔ علمائے کرام نے اس نماز کے ثبوت وفضیلت پر ایک درجن سے زائد تصانیف کی ہیں ۔ اس حدیث کے راویوں کے متعلق محدثین کی شہادتیں ملاحظہ ہوں :
1    عبدالرحمن بن بشر بن الحکم النیسابوری : یہ ثقہ ہیں۔
(تقریب التھذیب لابن حجر : ٣٨١٠)
2    موسیٰ بن عبدالعزیز العدنی : جمہور محدثین کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہیں۔ ان کے بارے میں امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا أرٰی بہ بأسا ۔ ”میں اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا ۔”
(العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد بن حنبل : ٣٩١٩، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٨/١٥١)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (الثقات : ٩/١٥٩)اورامام ابنِ شاہین رحمہ اللہ  (الثقات : ١٣٥٦) نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے ۔
امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی  رحمہ اللہ (١٢٦۔٢١١ھ)سے ان کے بارے میں پوچھا تو :
فأحسن الثناء علیہ ۔ ”آپ نے اس کی تعریف کی ۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٣١٩، وسندہ، صحیحٌ)
رہا امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کا اسے ”ضعیف” کہنا(تہذیب التہذیب لابن حجر: ١٠/٣١٨) تو یہ ثابت نہیں ہوسکا ۔ ثابت ہونے کی صورت میں جمہور کی توثیق کے مقابلہ میں ناقابل التفات ہے ۔ الحافظ السلیمانی کا ان کو ”منکر الحدیث”کہنا بھی مردود ہے ۔
اوّلاً یہ جمہور کے خلاف ہے ۔ ثانیاً حافظ سلیمانی ، ثقہ راویوں کے بارے میں اس طرح کی سخت کلام کرتے رہتے ہیں ۔ خود حافظ سلیمانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
رأیت للسلیمانیّ کتابا ، فیہ حطّ علی کبار ، فلا یسمع منہ ما شذّ فیہ ۔
”میں نے حافظ سلیمانی کی ایک کتاب دیکھی ہے ، جس میں بڑے بڑے علماء پر کلام کی گئی ہے۔ ان کی وہ بات نہیں سنی جائے گی ، جس میں انہوں نے عام علماء سے شذوذ اختیار کیا ہے ۔”
(سیر اعلام النبلاء للذہبی : ١٧/٢٠٣)
موسیٰ بن عبدالعزیز کی دوسری روایات کی علمائے کرام نے ”تصحیح” کررکھی ہے ۔ یہ ان کی توثیق ہے ۔
3    الحکم بن ابان العدنی : اس راوی کی کبار محدثین نے توثیق کر رکھی ہے ، سوائے امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ کے ۔ امام عبداللہ بن المبارک  رحمہ اللہ  کا إرم بہ (اس کو پھینک دو) کہنا ثابت نہیں ، کیونکہ امام عقیلی  رحمہ اللہ کے استاذ عبداللہ بن محمد بن سعدویہ کی توثیق نہیں مل سکی ۔ اگر بالفرض یہ ثابت ہوبھی جائے تو جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلہ میں مردود ہے ۔
4    عکرمہ مولیٰ ابنِ عباس : عکرمہ ، جمہور کے نزدیک ”ثقہ” ہیں ۔
حافظ بیہقی رحمہ اللہ (٣٨٤۔٤٥٨ھ)لکھتے ہیں : وعکرمۃ عند أکثر الأئمّۃ من الثقات الأثبات ۔ ”عکرمہ اکثر ائمہ کے نزدیک ثقہ ثبت راویوں میں سے ہیں۔”
(السنن الکبرٰی للبیقی : ٨/٢٣٤)
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (٧٦٢۔٨٥٥ھ) لکھتے ہیں : والجمہور وثّقوہ ، واحتجّوا بہ ۔ ”جمہور نے ان کی توثیق کی ہے اور ان سے حجت لی ہے ۔”
(عمدۃ القاری للعینی : ١/٨)
خلاصۃ الکلام : صلاۃ التسبیح کے بارے میں حدیث ابنِ عباس کی سند بلاشک وشبہ ”حسن” ہے ۔ ان شاء اللہ !
تنبیہ بلیغ : صلاۃ التسبیح کے بارے میں سنن ابی داؤد (١٢٩٩)میں ایک انصاری صحابی سے بھی حدیث آتی ہے ، جس کی سند بالکل ”صحیح” ہے ، لہٰذا نماز ِ تسبیح کے ثبوت میں کوئی شبہ نہیں رہا ۔
فائدہ نمبر 1 : شیخ الاسلام ، الامام ، المجاہد ، عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ  نماز ِ تسبیح کا طریقہ یوں بیان کرتے ہیں : یکبّر ، ثمّ یقول : سبحانک اللّٰہمّ وبحمدک ، وتبارک اسمک ، وتعالی جدّک ، ولا إلہ غیرک ، ثمّ یقول خمس عشرۃ مرّۃ : سبحان اللّٰہ ، والحمد للّٰہ ، ولا إلہ إلّا اللّٰہ ، واللّٰہ أکبر ، ثمّ یتعوّذ ، ویقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ، و فاتحۃ الکتاب ، وسورۃ ، ثمّ یقول عشر مرات : سبحان اللّٰہ ، والحمد للّٰہ ، ولا إلہ إلّا اللّٰہ ، واللّٰہ أکبر ، ثمّ یرکع ، فیقولہا عشرا ، ثمّ یرفع رأسہ من الرکوع ، فیقولہا عشرا ، ثمّ یسجد ، فیقولہا عشرا ، ثمّ یسجد الثانیۃ ، فیقولہا عشرا ، یصلّی أربع رکعات علی ہذا ، فذلک خمس وسبعون تسبیحۃ فی کلّ رکعۃ ، یبدأ فی کلّ رکعۃ بخمس عشر تسبیحۃ ، ثمّ یقرأ ، ثمّ یسبّح عشرا ، فإن صلّی لیلا ، فأحبّ إلی أن یسلّم فی الرکعتین ، وإن صلّی نہارا ، فإن شاء سلّم ، وإن شاء لم یسلّم ۔
”نمازی تکبیر کہے ، پھر سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ پڑھے ، پندرہ مرتبہ یہ دعا پڑھے : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ (اللہ تعالیٰ پاک ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے)، پھر تعوذ وبسم اللہ پڑھ کر سورۃ الفاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھ لے ، پھر دس مرتبہ یہی دعا پڑھے ، پھر رکوع کرے اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھے ، پھر رکوع سے سر اٹھائے اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھے ، پھر سجدہ کرے اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھے ، پھر دوسرا سجدہ کرے اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھے ، اسی طرح چاررکعتیں ادا کرلے۔یہ ہررکعت میں کل پچھتر تسبیحات ہوجائیں گی ، ہررکعت کو پندرہ دفعہ تسبیح کے ساتھ شروع کرے گا ، پھر قرائت کرے گا ، پھردس دفعہ تسبیح پڑھے گا ، اگر رات کو نماز ِ تسبیح ادا کرے توزیادہ پسندیدہ بات یہ ہے کہ دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرے اور اگر دن کو پڑھے تو سلام پھیرے یا نہ پھیرے ، درست ہے۔”
(سنن الترمذی ، تحت حدیث : ٤٨١، المستدرک للحاکم : ١/٣٢٠، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 2 : علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں :
اعلم أنّ أکثر أصحابنا الحنفیّۃ وکثیر من المشایخ الصوفیّۃ ، قد ذکروا فی کیفیّۃ صلاۃ التسبیح الکیفیّۃ الّتی حکاہا الترمذیّ والحاکم عن عبد اللّٰہ ابن المبارک الخالیۃ عن جلسۃ الاستراحۃ ، والمشتملۃ علی التسبیحات قبل القرائۃ وبعد القرائۃ ، وذلک لعدم قولہم بجلسۃ الاستراحۃ فی غیرہا من الصلوات الراتبۃ ، والشافعیّۃ والمحدثون أکثرہم اختاروا الکیفیّۃ المشتملۃ علی جلسۃ الاستراحۃ ، وقد علم ممّا أسلفنا أنّ الأصحّ ثبوتا ، ہو ہذہ الکیفیّۃ ، فلیأخذ بہا من یصلّیہا حنفیّا کان أو شافعیّا ۔
”جان لیں کہ ہمارے اکثر حنفی اصحاب اور بہت سے صوفی مشایخ نے نماز ِ تسبیح کے طریقے میں اس طریقے کو ذکر کیا ہے ، جسے امام ترمذی اورامام حاکم نے امام عبداللہ بن المبارک سے نقل کیا ہے ۔ یہ طریقہ جلسہ استراحت سے خالی ہے اور قرائت سے پہلے اور بعد تسبیحات پر مشتمل ہے۔ اکثر احناف نے یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا کہ وہ عام نمازوں میں جلسہ استراحت کے قائل نہیں ہیں ، جبکہ شوافع اور اکثر محدثین نے نماز ِ تسبیح کے اس طریقے کو پسند کیا ہے ، جس میں جلسہ استراحت موجود ہے ۔ ہماری گزشتہ بحث سے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ زیادہ صحیح ثابت یہی (جلسہ استراحت والا)طریقہ ہے ۔ نماز ِ تسبیح پڑھنے والا خواہ حنفی ہو یا شافعی اسے یہی (جلسہ استراحت والا)طریقہ اختیار کرنا چاہیے ۔”(الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لعبد الحی :١٤١)
فائدہ نمبر 3 : امام عبدالعزیز بن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ امام عبداللہ ابن المبارک  رحمہ اللہ نے فرمایا : یبدأ فی الرکوع ، سبحان ربّی العظیم ، وفی السجود ، سبحان ربّی الأعلی ثلاثا ، ثمّ یسبّح التسبیحات ۔
”نماز ِ تسبیح پڑھنے والا رکوع میں پہلے تین دفعہ سبحان ربّی العظیم پڑھے گا اور سجدے میں پہلے تین دفعہ سبحان ربّی الأعلی پڑھے گا ،پھر نماز ِ تسبیح کی تسبیحات پڑھے گا۔”(سنن الترمذی ، تحت حدیث : ٤٨١، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 4 : نیز فرماتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ  سے کہا کہ نمازی بھول گیا توکیاسجدہئ سہو میں بھی دس مرتبہ تسبیحات پڑھے گا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا : لا ، إنّما ھی ثلاثمائۃ تسبیحۃ ۔
”نہیں ، یہ صرف (چار رکعات میں)تین سو تسبیحات ہیں ۔” (ایضا ، وسندہ، صحیحٌ)
تنبیہ : نماز ِ تسبیح کی جماعت کروانا بدعت ہے ، کیونکہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کی جماعت ثابت نہیں ہے ۔جن نوافل کی جماعت سنت سے ثابت ہے ، انہی کوباجماعت ادا کرنا مشروع ہے ، ورنہ تو سننِ رواتب کی بھی جماعت جائز ہونی چاہیے ، حالانکہ آج تک کسی مسلمان نے ایسا نہیں کیا۔

Share:

Dhadhi Ke Balo me kala Paint Lga Sakte Hai?

Kya Dhadhi ke baal ko hm Saiyah kar sakte hai?
*داڑھی کے مسائل*
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ:
مرد كے ليے داڑھى كے بال سياہ كرنا جائز نہيں، كيونكہ سياہ رنگ سے اجتناب كرنے كا حكم ہے، اور ايسا كرنے سےمنع كيا گيا ہے.

ابو داود رحمہ اللہ نے اپنى سند كے ساتھ جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" فتح مكہ كے دن ابو قحافہ كو لايا گيا توان كے سر اور داڑھى كے بال بالكل سفيد تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اسے كسى چيز سے تبديل كرو، اور سياہ سے اجتناب كرو "

اسےمسلم، نسائى اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.

اور امام احمد، ابو داود، اور نسائى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" آخرى زمانے ميں كچھ ايسے لوگ ہونگے جو سياہ خضاب لگائينگے، جيسے كبوتر كى پوٹ ہوتى ہے، وہ جنت كى خوشبو نہيں پائينگے "

ليكن جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى مذكورہ بالا حديث كى بنا پر سفيد بالوں كو سياہ كے علاوہ كسى اور رنگ سے بدلنا مستحب ہے.

اور مہندى وغيرہ كے ساتھ بالوں كو رنگنا مشروع ہے، جو اسے سرخ يا زرد كر ديں، حديث ميں آتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم زرد رنگ كے ساتھ بالوں كو رنگ كرتے تھے.

اور اس ليے بھى كہ امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ مہندى اور كتم كے ساتھ بالوں كو خضاب لگاتے، اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے مہندى كے ساتھ بال رنگے تھے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے.

" تم جس سے بڑھاپے كو تبيديل كرتے ہو ان ميں سب سے بہتر مہندى اور كتم ہے "

اسے امام احمد اور ابو داود اور نسائى اور ترمذى نے روايت كيا اور اسے صحيح كہا ہے.

Share:

Shia Kya hai aur kya nahi Hai? (Part 08)

Shia Kya Hai Aur Kya Nahi Hai Urdu Post Part 8

Shia Kya Hai uske Aqeede Kya Hain urdu post
Part 08
ﺑِﺴْـــــــــــــــــــــــﻢِ ﺍﻟﻠﮧِ ﺍﻟﺮَّﺣْﻤٰﻦِ ﺍﻟﺮَّﺣِﯿْﻢِ
ﺍﻟﺴَّــــﻼﻡَ ﻋَﻠَﻴــْـــﻛُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَـــــــﺔُﺍﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛـَـــــﺎﺗُﻪ

ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﻣﻨﻄﻮﻕ ﻣﺪﻟﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻭﺍﺿﺢ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﻮ ﺭﮨﯽ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻗﻄﻌﺎً ﺣﺮﺍﻡ ﮬﮯ ﺍﺱ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺁﯾﺖ ﻧﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺊ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﮬﮯ -
ﻭَﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻫُﻢْ ﻟِﻔُﺮُﻭﺟِﻬِﻢْ ﺣَﺎﻓِﻈُﻮﻥَ ﺇِﻟَّﺎ ﻋَﻠَﻰٰ ﺃَﺯْﻭَﺍﺟِﻬِﻢْ ﺃَﻭْ ﻣَﺎ ﻣَﻠَﻜَﺖْ ﺃَﻳْﻤَﺎﻧُﻬُﻢْ ﻓَﺈِﻧَّﻬُﻢْ ﻏَﻴْﺮُ ﻣَﻠُﻮﻣِﻴﻦَ ﻓَﻤَﻦِ ﺍﺑْﺘَﻐَﻰٰ ﻭَﺭَﺍﺀَ ﺫَٰﻟِﻚَ ﻓَﺄُﻭﻟَـٰﺌِﻚَ ﻫُﻢُ ﺍﻟْﻌَﺎﺩُﻭﻥَ
ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻡ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﯾﺎ ﻟﻮﻧﮉﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺲ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻃﻠﺐ ﮔﺎﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮨﯽ ﺣﺪ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻮﻥ 5، 6، 7
ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﻓﻘﺮﮮ ﻧﮯ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺑﺎﻻ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺻﻮﺭﺗﻮﮞ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﻨﮑﻮﺣﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﻤﻠﻮﮐﮧ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺻﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮬﮯ ﺧﻮﺍﮦ ﺫﻧﺎ ﮬﻮ ﯾﮧ ﻋﻤﻞ ﻗﻮﻡ ﻟﻮﻁ ﯾﺎ ﻭﻃﯽ ﺑﮩﺎﺋﻢ ﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﻣﯿﮟ
ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺗﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮬﮯ ﮐﮯ ﻧﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻧﮭﯽ ﮐﮯ ﺯﻭﺟﯿﺖ ﻟﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﺟﺘﻨﮯ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﮬﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﻃﻼﻕ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﻧﮧ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﻭﺍﺭﺙ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﻧﮧ ﻣﺮﺩ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﺍﺭﺙ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﺪﺕ ﮬﮯ ﻧﮧ ﻃﻼﻕ ﻧﮧ ﻧﻔﻘﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﭼﺎﺭ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﺘﺸﻨﯽ ﮬﮯ ﭘﺲ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻧﮭﯽ ﺁ ﺗﯽ ﺗﻮ ﻣﺤﺂﻟﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎ ﺭ ﮬﻮﮔﯽ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻃﻼﻟﺐ ﮐﻮ ﻗﺮﺁﻥ ﺣﺪ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ
ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺷﯿﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﻣﻌﺘﺮﻑ ﮬﯿﮟ ﮐﮯ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺯﻭﺟﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻧﮭﯽ ﮬﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻭﺗﻘﺎﺩﺍﺕ ﺍﺑﻦ ﺑﺎﺑﻮﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﺼﺮﯾﺢ ﮬﮯ
'' ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺣﻼﻝ ﮬﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﭼﺎﺭ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﮨﯿﮟ -:
-1 ﻧﮑﺎﺡ -2 ﻣﻠﮏ ﯾﻤﻦ -3 ﻣﺘﻌﮧ -4 ﺣﻼﻟﮧ
ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ ﻟﺒﺼﯿﺮ ﻧﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﯿﺢ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﺭﺡ ﺳﮯ ﺭﺍﻭﯾﺖ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﻥ ﭼﺎﺭ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯽ ؟
ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ - ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺍﺯﯼ ﺭﺡ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﺹ 214 ﭘﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ -:
ﮐﯿﺎ ﻗﺎﺳﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﺗﺤﺮﯾﻢ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮬﮯ ؟
ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﺎﮞ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﺣﺮﻣﺖ ﻣﺘﻌﮧ ﭘﺮ ﺩﻻﻟﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﯾﮧ ﮬﮯ ﮐﮯ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻧﮭﯽ ﮬﮯ ﻟﮩﺰﺍ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺣﻼﻝ ﻧﮭﯽ ﮬﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﯾﮧ ﺟﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮭﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻣﺖ ﺷﯿﻌﮧ ﺳﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﺟﻤﺎﻉ ﮬﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﻦ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﻭﺍﺭﺙ ﻧﮭﯽ ﮬﻮﺗﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﺘﯽ -
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﮬﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺁﺩﮬﺎ ﺗﻤﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭﺟﺐ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﻮﺍ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﻣﯿﮟ ﻧﮭﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺣﻼﻝ ﻧﮭﯽ ﻧﮭﯽ ﮬﻮ ﺳﮑﺘﯽ -
ﺍﻡ ﻣﻮﻣﻨﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺽ ﺍﺳﯽ ﺁﯾﺖ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺁﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﯿﮟ
ﺍﻡ ﻣﻮﻣﻨﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺽ ﺳﮯ ﺟﺐ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﻮﺍﻝ ﮬﻮﺍ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﺠﻮﺯﯾﻦ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮬﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺰﮐﻮﺭﮦ ﺁﯾﺖ ﺗﻼﻭﺕ ﻓﺮﻣﺎﺉ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﮐﻮ ﺣﻼﻝ ﻗﺮﺁﺭ ﺩﯾﺎ ﮬﮯ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺟﻮ ﮐﻮﺉ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻮﺭﺕ ﻧﮑﺎﻟﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺑﻼ ﺷﻌﺒﮧ ﺣﺪﻭﺩ ﺷﺮﻋﯿﮧ ﺳﮯ ﺗﺠﺎﻭﺯ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮬﮯ - ﺳﻨﻦ ﺑﯿﮭﻘﯽ
ﻭَﻟْﻴَﺴْﺘَﻌْﻔِﻒِ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻟَﺎ ﻳَﺠِﺪُﻭﻥَ ﻧِﻜَﺎﺣًﺎ ﺣَﺘَّﻰٰ ﻳُﻐْﻨِﻴَﻬُﻢُ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻣِﻦ ﻓَﻀْﻠِﻪِ
ﺍﻭﺭ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﭘﺎﮎ ﺩﺍﻣﻦ ﺭﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﻮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﻏﻨﯽ ﮐﺮ ﺩﮮ
ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﻮﺭ 33
ﺍﮔﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﮬﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻣﻤﮑﻦ ﮬﻮﺗﺎ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺧﺮﭺ ﺩﯾﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺟﻤﺎﻉ ﮐﺮﮐﮯ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﻋﻔﺖ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﻣﯿﻦ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﻘﺖ ﻧﺎ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﯿﺶ ﺁﺗﯽ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﯾﻂ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮯ ﺟﺐ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮧ ﮬﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻮﺭﺕ ﻋﻔﺖ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﮭﯽ
ﯾﮩﺎﮞ ﻭﮦ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﮭﯽ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﮟ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺽ ﺭﺍﻭﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
'' ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﯽ ﭼﺎﮬﯿﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻧﮕﺎﮦ ﮐﻮ ﺑﺪ ﻧﻈﺮﯼ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻔﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺯﺭﯾﻌﮧ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺍﺳﺘﻄﺎﺕ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﻮ ﻭﮦ ﺭﻭﺯﮮ ﺭﮐﮭﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺭﻭﺯﮮ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﮯ ﺟﻮﺵ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮐﻮ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ -
ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ ﺹ 255 ﺟﻠﺪ 1
ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮔﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﻧﺎ ﮬﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺟﻮﺵ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮐﻮ ﺗﮭﻨﮉﺍ ﺭﮐﻨﮭﮯ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﮟ ﻧﺎ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﺟﻮﺵ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮐﻮ ﺗﮭﻨﮉﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﮩﻞ ﺍﻟﺤﺼﻮﻝ ﻋﻼﺝ ﻣﺘﻌﮧ ﮬﺮ ﻭﻗﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮬﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺯﺣﻤﺖ ﮔﻮﺍﺭﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮬﮯ ﻟﮩﮩﺬ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮬﻮﻧﺎ ﺍﻇﮩﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﺸﻤﺲ ﮬﮯ ۔
█▓▒░ ﺡ̳ﺭ̳ﻡ̳ﺕ̳ ﻡ̳ﺕ̳ﻉ̳ﮦ̳ ﺍ̳ﺡ̳ﺍ̳ﺩ̳ﯼ̳ﺙ̳ ﺭ̳ﺱ̳ﻭ̳ﻝ̳ ﻥ̳ﺏ̳ﯼ̳ ﮎ̳ﺭ̳ﯼ̳ﻡ̳ﷺﺱ̳ﮮ̳ ░▒▓█
ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺁﺣﺎﺩﯾﺚ ﺑﮭﯽ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺷﮕﺎﻑ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﻮ ﺗﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺁﺭ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ -
ﺭﺑﯿﻊ ﺭﺽ ﺑﻦ ﺳﺒﺮﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﺭﺍﻭﯾﺖ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺭﺳﻮﻝ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﮯ ﺳﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﮮ ﻟﻮﮔﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻢ ﮐﻮ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺗﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﮏ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮬﮯ ﺳﻮ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺉ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭼﺎﮬﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﺗﻢ ﺍﻧﮑﻮ ﺩﮮ ﭼﮑﮯ ﮬﻮ ﻭﮦ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﻟﻮ -
ﻣﺴﻠﻢ ﺷﺮﯾﻒ ﺟﻠﺪ 1 ﺹ 451
ﺍﺑﻮﺩﺍﻭﺩ ﺟﻠﺪ 1 ﺹ 290
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻧﺲ ﺭﺽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮬﮯ
ﺍﻟﺴﺮﺍﺝ ﺍﻟﻮﮨﺎﺝ ﺹ 526 ﺟﻠﺪ 1
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺽ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮬﮯ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺟﻨﮓ ﺧﯿﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺘﻌﮧ ﻧﺴﺎﺀ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮬﮯ
ﮐﻨﺰ ﺍﻟﻌﻤﺎﻝ ﺟﻠﺪ 5 ﺹ 527
ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﺭﻭﺯ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻋﯿﺎﮞ ﮬﮯ ﺍﻥ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭﺍﮬﻞ ﺳﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﻧﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﺳﺐ ﻧﮯ ﮬﯽ ﺑﺎﻻﺗﻔﺎﻕ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼ ﺩﯾﺎ ﮬﮯ
ﺁﻝ ﻧﺒﯽ ‏( ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ‏) ﮐﮯ ﺫﻣﺎﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﻭ ﺣﻠﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﯾﮧ ﺩﻭ ﺳﮯ ﺫﺍﺋﺪ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺣﻼﻝ ﻭ ﺣﺮﺍﻡ ﮬﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮬﻮ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﯾﻌﻨﯽ ﺧﯿﺒﺮ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺣﻼﻝ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﯾﻮﻡ ﺧﯿﺐ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮬﻮﺍ ﭘﮭﺮ ﻓﺘﺢ ﻣﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﯽ ﺍﻭﻃﺎﺱ ﮐﺎ ﺩﻥ ﮬﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺘﺼﻞ ﮬﯿﮟ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺣﻼﻝ ﮬﻮ ﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ۔
ﺗﻤﺎﻡ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﺤﺮﯾﻢ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺷﮩﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺍﺗﺮ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﻦ ﺭﺽ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﻔﯿﮧ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﮬﻞ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﮬﻞ ﺗﺸﯿﻊ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮬﮯ
ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺏ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ -:
ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺘﻌﮧ ﺁﻝ ﻧﺒﯽ ‏( ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ‏) ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﻊ
ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺡ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﮬﮯ
ﻧﺒﯽﷺ ﻧﮯ ﻣﻨﻊ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻠﮯ ﮬﻮﮮ ﺷﮩﺮﯼ ﮔﺪﮬﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺧﯿﺒﺮ ﮐﮯ ﺩﻥ
ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ ﺟﻠﺪ 2 ﺹ 767
ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺻﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻣﻨﺪﺭﺟﮧ ﺯﯾﻞ ﮐﺘﺐ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮬﮯ
ﺻﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ، ﺗﺮﻣﺬﯼ ﺷﺮﯾﻒ ، ﻧﺴﺎﺉ ،ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ،ﻣﻮﻃﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ،ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ
ﮐﺘﺐ ﺷﯿﻌﮧ
ﺍﻣﺎﻣﯿﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯽ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮐﺘﺐ ﺍﺳﺘﯿﺼﺎﺭ ، ﻓﺮﻭﻍ ﮐﺎﻓﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﮩﺬ ﯾﺐ ﺍﻻﺣﮑﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﺳﮯ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮬﮯ ﭘﮭﺮ ﻟﻄﻒ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮬﮯ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺍﻥ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮬﯿﻦ ﺟﻦ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﺍﮬﻞ ﺳﻨﺖ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ - ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮬﻮ
'' ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮬﮯ ﮐﮯ ﺧﯿﺒﺮ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﮔﺪﮬﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ
ﺍﺳﺘﯿﺼﺎﺭ ﺟﻠﺪ 3 ﺹ 142 ، ﻓﺮﻭﻍ ﮐﺎﻓﯽ ﺹ 192 ﺟﻠﺪ 2 ، ﺍﻭﺭ ﺗﮩﺬ ﯾﺐ ﺍﻻﺣﮑﺎﻡ ﺟﻠﺪ 2 ﺹ ﺍ 86
ﮐﯿﺴﯽ ﺻﺎﻑ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮬﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺏ ﻋﻠﯽؓ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﮩﻢ ﺳﮯ ﻓﺘﻮﯼ ﻧﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ -
ﮐﯿﺴﯽ ﺻﺮﯾﺢ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺴﺎ ﺻﺎﻑ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮬﮯ ﭘﺮ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯽ ﮐﺘﻨﯽ ﺟﺮﺕ ﮬﮯ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﯾﻮﮞ ﮔﻮﮨﺮ ﺍﻓﺸﺎﻧﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺟﻨﺎﺏ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﮐﯽ ﻓﺮﻑ ﺳﮯ ﺗﻘﯿﮧ ﭘﺮ ﻣﺤﻠﻮﻝ ﮬﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺳﺘﻔﺴﺎﺭﻣﺤﺪﺙ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺳﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﯾﮧ ﮬﯿﮟ -
'' ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺗﻘﯿﮧ ﭘﺮ ﻣﺤﻠﻮﻝ ﮬﮯ ﺍﻟﻌﺎﻣﺘﮫ ﺹ 142
ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﻧﮯ ﻋﻮﺍﻡ ﺍﮬﻞ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﮈﺭ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺳﺮ ﺗﮭﻮﭖ ﺩﯼ ﻣﻌﺎﺫ ﺍﻟﻠﮧ ۔
ﺑﮭﻼ ﺁﻝ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺗﻘﯿﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻘﯿﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺗﻘﯿﮧ ﮬﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﻗﯽ ﺫﺧﯿﺮﮦ ﺩﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺗﻘﯿﮧ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﺣﻘﯿﻘﺖ - ﻣﻤﮑﻦ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺗﻘﯿﮧ ﭘﺮ ﻣﺤﻠﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﺪﮬﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮬﻮﮞ - ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﯿﮧ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﺍﻋﻼﻥ ﮬﮯ - ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮬﮯ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻣﺘﻌﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﭨﮭﮩﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﻘﯿﮧ ﭘﺮ ﻣﺤﻤﻮﻝ ﮬﮯ ﺗﻮ ﮔﺪﮬﮯ ﺑﮭﯽ ﺣﻼﻝ ﮬﻮ ﮔﺌﮯ -
اس ﻃﺮﺡ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮬﯽ ﺍﺋﻤﮧ ﺍﮬﻞ ﺑﯿﺖ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮬﻮ
ﻣﻔﻀﻞ ﮐﮩﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺩﻕ ﺭﺽ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮬﻮﮮ ﺳﻨﺎ :
'' ﻣﺘﻌﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺷﺮﻡ ﻧﮭﯽ ﺁ ﺗﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺷﺮﻡ ﮔﺎﮦ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺳﮯ ﺟﺎ ﮐﺮﮮ '''
ﻓﺮﻭﻍ ﮐﺎﻓﯽ ﺟﻠﺪ 2 ﺹ 192
ﺍﺱ ﺭﺍﻭﯾﺖ ﻣﯿﻦ ﻧﺎ ﺻﺮﻑ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮬﯽ ﻣﺤﺘﺼﺮ ﻣﮕﺮ ﻣﻌﻨﯽ ﺧﯿﺰ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻗﻊ ﮐﯿﻨﭽﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﻮ ﺍ ﻣﺘﻌﮧ ﻓﻌﻞ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﮬﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻓﻌﻞ ﮐﺎ ﺍﺭﺗﮑﺎﺏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺣﯿﺎ ﻧﮭﯽ ﺑﻨﻨﺎ ﭼﺎﮬﯿﮯ ۔

ﺷﯿﻌﮧ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮍﯼ ﺷﺪﻭﻣﺪ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﻟﮩﺬﺍ ﮬﻢ ﭼﺎﮬﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﮬﻞ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﻌﮧ ﮬﺮ ﺩﻭ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻣﺮﻭﯼ ﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯽ ﺧﻮﺵ ﻓﮩﻤﯽ ﺩﻭﺭ ﮬﻮ ﺟﺎﮮ - ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻻﺣﻈﮧ ﮬﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﻧﮯ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ
'' ﺑﺎﺏ ﻣﺎﺟﺎ ﻓﯽ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺘﻌﮧ ''
ﮐﺎ ﺑﺎﺏ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻧﻘﻞ ﮐﯽ ﮬﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﮔﺰﺭ ﭼﮑﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺣﺪﯾﺚ
'' ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮬﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﮬﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﺭﺽ ﻧﮑﺎﺡ ﻭ ﻃﻼﻕ ﮐﮯ ﺟﮕﮭﮍﯾﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﺎ ﭘﮍﺗﮯ -
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﻦ ﺭﺽ ﺑﺎﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﺠﻠﺲ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﺍﻭﺭ ﻃﻼﻕ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ -
ﻏﻮﺭ ﮐﯿﺠﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﺣﻼﻝ ﮬﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺣﺴﻦ ﺭﺽ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻨﺎﺭﮦ ﮐﺸﯽ ﻧﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﻞ ﺍﺋﻤﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﻋﺼﻤﺖ ﻣﺘﻌﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻓﻌﻞ ﺳﮯ ﺁﻟﻮﺩﮦ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ -
ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﺿﺮﻭﺭ ﮬﮯ ﮐﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﯿﮧ ﺗﮏ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﻮ ﺍﺿﻄﺮﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺷﺪﯾﺪ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﺰ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﮐﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ - ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮯ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﮐﯽ ﻣﺰﮐﻮﺭﮦ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮬﻮﺍ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﮐﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﯾﮧ ﮬﮯ
'' ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﻨﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮐﭽﮫ ﻧﺮﻡ ﻓﺘﻮﯼ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﮮ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺧﯿﺒﺮ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻟﺘﻮ ﮔﺪﮬﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﯽ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ -
ﯾﮩﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺗﺤﻔﮧ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻤﺤﺎﺳﻦ ﺍﻟﺒﺮﻗﯽ ﺟﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯽ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮐﺘﺐ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﺎﺏ ﺍﻣﯿﺮ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮬﮯ ﭘﺲ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﯿﮫ ﻓﺮﯾﻘﯿﻦ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺻﺤﺖ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯽ ﮔﺠﺎﺋﺶ ﻧﮭﯽ ﺭﮬﺘﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻁ ﯾﮧ ﮨﯿﻦ -
ﺟﻨﺎﺏ ﺍﻣﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮯ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺗﻮ ﻣﺮﺩ ﻋﯿﺎﺵ ﮬﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ''
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺍﺑﻦ ﺫﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺑﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﺳﮯ ﺑﺤﺚ ﻭ ﺗﮑﺮﺍﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮬﮯ ﺍﻟﻐﺮﺽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﺫﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﺑﺤﺚ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺑﻖ ﻓﺘﻮﯼ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺎ ﻣﻨﺴﻮﺥ ﮬﻮﻧﺎ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻇﺎﮨﺮ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ -
ﺍﻣﺎﻡ ﻓﺨﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺭﺍﺯﯼ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﮐﺒﯿﺮ ﻣﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ
'' ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﺣﻠﺖ ﮐﮯ ﻗﻮﻝ ﺳﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﻮﮞ ۔
ﻣﻨﺪﺭﺟﮧ ﺯﯾﻞ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﻧﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﺣﻠﺖ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺑﻮ ﺍﺳﺤﺎﻕ ﻣﻮﻟﯽ ﺑﻦ ﮨﺎﺷﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ -
'' ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﯼ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮦ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻓﻘﺎ ﻭﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺒﺎﺡ ﮐﺮ ﺩﯼ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﯽ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﻠﮑﻞ ﺫﻧﺎ ﮬﮯ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻓﺘﻮﯼ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﻮﺯﻧﺎ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ -
ﺷﯿﻌﮧ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺑﻐﺾ ﻭﻋﻨﺎﺩ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺣﺮﻣﺖ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺍﻋﻈﻢ ﺭﺽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﻼﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻏﻠﻂ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﺧﻮﺩ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﻧﺼﻮﺹ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺻﯿﺢ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮬﻮ ﭼﮑﺎ - ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺽ ﺍﺱ ﺣﮑﻢ ﮐﮯ ﻣﻮﺟﺪ ﻧﮩﯽ ﺗﮭﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﮯ ﻧﺎﻓﺬ ﺷﺎﺋﻊ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﺘﮩﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﻦ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺗﮏ ﻧﺎ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺎﻡ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺬﺭﯾﻌﮧ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﺎﻓﺬ ﮐﯿﺎ -
ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ﻣﯿﮟ ﺻﯿﺢ ﺳﻨﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺽ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﻨﻘﻌﻮﻝ ﮨﯿﮟ -
ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺍﻋﻈﻢ ﺭﺽ ﺍﯾﮏ ﺧﻄﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﺒﺎﺡ ﮐﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺭﺟﻢ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ -
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﺻﯿﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﮯ ﻟﮩﮩﺬﺍ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺽ ﭘﺮ ﺣﺮﻣﺖ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺎ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻟﻐﻮ ﻣﺮﺩﻭﺩ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻃﻞ ﮬﮯ
ﺻﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺡ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﮐﮯ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﯽ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻧﺴﺦ ﺧﻮﺩ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺽ ﭘﺮ ﺣﺮﻣﺖ ﮐﺎ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺑﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﮬﮯ
ﺻﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ ﺹ 767 ﺟﻠﺪ 2

ﺷﯿﻌﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﺮﺯﮦ ﺳﺮﺍﺉ ﮐﯽ ﮬﮯ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﺫﺍﻟﻠﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﮮ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺩﻋﻮﯼ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﻟﻐﻮ ﮐﺰﺏ ﻭ ﺍﻓﺘﺮﺍ ﺑﺎﻃﻞ ﻭ ﻣﺮﺩﻭﺩ ﻭ ﺑﮩﺘﺎﻥ ﮬﮯ ﻧﯿﺰ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﺉ ﺑﻐﺾ ﻭﻋﻨﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﮐﺘﺐ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺳﮯ ﻧﺎ ﻋﻠﻢ ﮬﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﯿﻦ ﺩﻟﯿﻞ ﮬﮯ ﺍﺱ ﻟﻐﻮ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﮐﯽ ﺗﺮﺩﯾﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﻮ ﻧﺎ ﺗﮭﯽ ﺗﺎﮨﻢ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮬﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﮐﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺽ ﺣﻮﺍﺭﯼ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﮐﮯ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺍﺭﺟﻤﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎ ﺭﺽ ﮐﮯ ﻟﺨﺖ ﺟﮕﺮ ‏( ﺷﯿﻌﮧ ﻣﻮﻣﻨﯿﻨﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ‏) ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﻭﺍﺭ ﻧﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺻﯿﺢ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮑﺎﺡ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﮮ ﮬﯿﻦ -
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ ﺭﺡ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﺀ ؓ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﮯ ﺿﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎ ﺀ ﺭﺽ ﻣﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺣﻠﻘﮧ ﺑﮕﻮﺵ ﺍﺳﻼﻡ ﮬﻮ ﮔﺊ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﺭﺽ ﻧﮯ ﻣﺪﻧﯿﺘﮧ ﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﮐﯽ
ﮨﺠﺮﺕ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺣﺎﻣﻠﮧ ﺗﮭﯿﮟ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺟﺐ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺽ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﮮ -
ﺍﺻﺎﺑﮧ ﺟﻠﺪ 4 ﺹ 335
ﺍﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﺭﺽ ﮐﮯ ﺗﺰﮐﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﺭﺽ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﺑﻦ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯿﺎ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺽ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﮮ -
ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺍﻟﺘﮩﺬﯾﺐ ﺟﻠﺪ 2 ﺹ 589
ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻟﻤﺤﺪﺛﯿﻦ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﻮﻣﯿﻨﯿﻦ ﻓﯽ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺡ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺫﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ -
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﻧﮯ ﺟﺐ ﮨﺠﺮﺕ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺣﻤﻞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﻦ ﺗﮭﯿﻦ ﻓﺮﻣﺎﺗﯽ ﮬﯿﻦ ﮐﮯ ﺟﺐ ﻣﻘﺎﻡ ﻗﺒﺎﺀ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﮮ ﺍﺳﮯ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁ ﻏﻮﺵ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﮐﮭﺠﻮﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﮨﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﭼﺒﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻮﺍﺑﺪﮨﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻧﻨﮭﮯ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﻦ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﭼﯿﺰ ﺟﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺽ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮔﺊ ﻭﮦ ﺁﭖ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻟﻌﺎﺏ ﺩﮨﻦ ﺗﮭﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺩﻭ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮔﮍﺗﯽ ﺩﯼ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎﮮ ﺧﯿﺮﻭ ﺑﺮﮐﺖ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮨﺠﺮﺕ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﻮﻟﻮﺩ ﻓﯽ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺫﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﺗﮭﮯ -
ﺣﺎﻓﻂ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭ ﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ ﺹ 34 ﺟﻠﺪ 5 ﭘﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮬﯿﻦ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﺭﺽ ﻋﻤﺮ ﺭﺳﯿﺪﮦ ﮬﻮ ﮔﯿﺌﮟ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻃﻼﻕ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ -
ﺍﻟﻐﺮﺽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮬﻮ ﺍ ﮐﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﮐﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﯾﺒﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮬﻮ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻃﻼﻕ ﺗﺴﻨﯿﺦ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﻟﻮﺍﺯﻣﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮬﮯ ﺯﻥ ﻣﺘﻤﻮﻋﮧ ﮐﯽ ﻋﻠﯿﺤﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻃﻼﻕ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮬﯽ ﻧﮭﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻧﻘﻄﺎﻉ ﻣﯿﻌﺎﺩ ﮬﯽ ﻃﻼﻕ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ -

ﺣﻀﺮﺕ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺽ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﺭﺽ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ 5 ﺑﯿﭩﮯ ﺍﻭﺭ 3 ﺑﯿﭩﺎﮞ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺗﻌﺠﺐ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮬﮯ ﮐﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﺭﺍﻓﻀﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﭘﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﺍﻭﻻﺩ ﮬﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻟﮕﺎﯾﺎ -
ﻋﻼﻣﮧ ﺣﻠﯽ ﺷﯿﻌﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ -
ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﺘﻌﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺋﻤﮧ ﺍﺭﺑﻌﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﻡ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ
ﻣﺰﮐﻮﺭﮦ ﻋﻼﻣﮧ ﺣﻠﯽ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮬﻮﺍ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﮬﻞ ﺳﻨﺖ ﺣﺮﻣﺖ ﻣﺘﻌﮧ ﭘﺮ ﻣﺘﻔﻖ ﮬﯿﮟ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺷﯿﻌﮧ ﺳﯿﺪ ﺑﺸﯿﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﺮﻣﺎﻧﺎ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﮧ ﮐﻮﺉ ﻣﺎﺑﮧ ﻧﺰﺍﻉ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﺑﺎﻃﻞ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ
】 ﺍﺯ : ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﺎﻧﺒﺎﺯ ﺣﻔﻈﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ 【
ﮬﺬﺍ , ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﺃﻋﻠﻢ , ﻭﻋﻠﻤﮧ ﺃﮐﻤﻞ ﻭﺃﺗﻢ ﻭﺭﺩ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﺇﻟﯿﮧ ﺃﺳﻠﻢ ﻭﺍﻟﺸﮑﺮ ﻭﺍﻟﺪﻋﺎﺀ ﻟﻤﻦ ﻧﺒﮧ ﻭﺃﺭﺷﺪ ﻭﻗﻮﻡ , ﻭﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﻰ ﻧﺒﯿﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﻭَﺍﻟﺴَّـــــﻻَﻡ ﻋَﻠَﻴــْــــﻛُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَــــــﺔُﺍﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛـَـــــﺎﺗُﻪ
Taken From Shaikh Jarjees Ansari A Fairless Orator on Facebook Group
Written By Mrs A Ansari
Copy Through this Link 
Wazeh Rahe ke Yah Tahreer Mrs A Ansari ne likhi Hai Lihaja iska Sehra unhe hi Jata hai, Aap Logo se Guzarish hai ke Inke liye Dua Kijiye. Allah inki Jayez Tamannayein aur khawahishen Puri kare aur Hamesha Sehatyab rakhe take Deen ki Dawat de Sake.
yah Tahreer Naqal Kiya hua hai isliye Ager Isme koi Galati ho gayi ho to Aap hme Comment ke jariye btaye Mai use Fir se Sahi kardunga.

Share:

Acha Shauhar Kaise Bane?

Ache Shauhar ke Ander kaun kaun Si khoobiyan Honi Chahiye?

Assalamu alaikum wa rahmattullahi wa barkatuhu ....



Apni Biwi Se Acche Raha Karo.

Nikah ke teen bol padh lene ke baad Ladki apne Maa, Baap, Bhai, Bahen, apna pura Ghar khandan chhor kar Apne shohar ke Ghar aajati hai, jo ke us ke liye Bilkul Ajnabi hai, har koi cheez nayi hai, sab ko Apnane aur Nibhane ke liye tayyar hojati hai, to kya tum uski Qurbani ko nahi maanoge.
zara socho, Agar Bilkul is ka ulta hota, Aap ko ladki ki tarah Apna ghar khandan Maa, Baap, Bhai, Bahen chhor ke kisi Ajnabi khandan mein jana padhta to? Us waqt tumhare liye kitna Mushkil hota.
Isliye! Aurat ki Qurbaniyon ki Qadar karen aur us ke sath Accha Sulook karen.
Quran Mein ALLAH Ka Farman Hai,
وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ اَزۡوَاجَہُمۡ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ شُہَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُہُمۡ فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمۡ اَرۡبَعُ شَہٰدٰتٍۭ بِاللّٰہِ ۙ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۶﴾
Tarjuma:-
Jo log apni biwiyon per bad-kaari ki tohmat lagayen aur unn ka koi gawah ba-juz khud unn ki zaat kay na ho to aisay logon mein say her aik ka saboot yeh hai kay char martaba Allah ki qasam kha ker kahen kay woh sachon mein say hain.
(Surha Noor, 24 - Aayat No,6)
Nabi-e-Kareem (Sallallahu Alaihay Wasallam) ne farmaya,..
"Tumme sabse behtar wo hai jo apni biwi se accha rahta ho."
Miya bivi ke bich sulha :-
.Quran Mein ALLAH me Farmaya hai ,

وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا فَابۡعَثُوۡا حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ اِنۡ یُّرِیۡدَاۤ اِصۡلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیۡنَہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا خَبِیۡرًا ﴿۳۵﴾
Tarjuma:- Agar tumhen miyan biwi kay darmiyan aapas ki ann bann ka khauf ho to aik munsif mard walon mein say aur ek aurat kay ghar walon mein say muqarrar karo agar yeh dono sulah kerana chahayen gay to Allah dono mein milaap kera de ga yaqeenan Allah Taalaa pooray ilm wala poori khabar wala hai.
( Surha Nissa 4 Aayat,35)
Behtareen Shohar Kaun
1- Jo Apni Biwi Ke Sath Narmi, aur acchi tarah se Pesh Aaye.
2 - Jo Apni Biwi Ka haque (Right) ada karne mein, apni haisiyat ke hisab se kisi tarah ki kami na rakhe
3 - Jo Apni Biwi Ka Iss Tarah Ho Kar Rahen Ke Kisi Ajnabi Aurat Per Nigah Na Dale.
4 - Jo Apni Biwi Ko Apne aaram, khushiyo mein shaamil rakhe.
5 - Jo Apni Biwi Per Kabhi Zulm na kare
6 - Jo Apni Biwi Ki kisi kharab baat par bhi sabr kare
7 - Jo Apni Biwi Ki acchaiyon Par Nazar Rakhe Aur chhoti-moti Galatiyon Ko Nazar Andaz Kare.
8- Jo Apni Biwi Ki Musibaton Bimariyon mein wafadari kare.
9 - Jo Apni Biwi Ko Parde Me Rakh Kar Izzat-O-Aabru Ki Hifazat Kare.
10 - Jo Apni Biwi Per Iss Tarah control mein rakhe ke wo kisi burai ki taraf na jaye.
11 - Jo Apni Biwi Ko islam par chalne ke liye Samjhata Rahe.
12 - Jo Apni Biwi Ko Zillat-o-Ruswayi Se Bachaye Rakhe.
13 - Jo Apni Biwi Ke jayaz kharcho mein Kanjoosi Na Kare.
Share:

Shadi ki Pahli Subah Jab Shauhar Biwi Ne Namaj Padha.

Shadi ki Pahli Subah Khawind Aur Biwi ka.

آج انکی شادی کے بعد ایک ساتھ پہلی صبح تھی ۔۔۔ 
وہ پچھلے پندرہ منٹ سے اسے مسلسل اٹھا رہا تھا پر وہ پوری طرح نیند میں غرق تکیے میں منہ دئیے سو رہی تھی ۔۔۔
ازل اٹھ جاؤ نماز کا وقت گزر جائے گا ۔۔۔ وہ اسکے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے بولا تھا اور وہ کسمسائی تھی سونے دیں ۔۔۔
وہ مسکرا اٹھا تھا اسکی اس ادا پے ۔۔۔
جھک کر اسکی پیشانی پے اپنی محبت کی پہلی نشانی ثبت کی تھی 
اچھا میں جارہا ہوں مسجد ۔۔ وہ اٹھا تو جان نکلی تھی اسکی ۔۔
کب آئیں گے ۔۔ نیند فورا بھاگی تھی 
بیس منٹ تک آتا ہوں ۔۔۔ وہ کف بٹن بند کرتے کمرے کے دروازے پے رکا تھا  ۔۔اسے نظر بھر کر دیکھا تھا جو الجھے بال لئے چہرے پے اظطراب لئے بیٹھی بلکل جھلی لگ رہی تھی ۔۔۔
وہ جاچکا تو وہ دوپٹہ سنبھالے اٹھی تھی ۔۔۔
اتنی کوفت تو اسے کبھی نہی ہوئی تھی اٹھنے میں وہ نماز وقت پے پڑھنے کی عادی تھی اور آج آنکھیں ہی نہی کھل رہی تھی ۔۔۔ کیا سوچ رہے ہوں گے احمد میرے بارے میں ۔۔۔ شرمندگی ہی شرمندگی تھی
یہی سب سوچتے وہ وضو کر چکی تھی ۔۔۔
وہ جائے نماز پر کهڑی ہونے لگی تو اس کو احمد کا خیال آنے لگا.اس نے وہ خیال جهٹک دیا.وہ پھر سے نیت باندھنے والی تھی کہ احمد نے آواز دی ازل رکیں.ازل کے کان کهڑے ہوگئے فورا احمد کی آواز پر مڑ کر احمد کو دیکھا.
"احمد آپ مسجد نماز پڑھنے نہیں گئے؟"
ازل نے سوال کیا.
"نہیں میں نہیں گیا ازل نماز پڑھنے مسجد."
احمد نے جواب دیا
"مگر کیوں؟آپ کو نماز پڑھنی چاہیے نماز سے الغرضی نہیں کرنی چاہیے.آپ کو مسجد جانا چاہیے وہاں جا کر نماز پڑھنی چاہیے."
ازل نے خفگی دکهائی.ازل یوں احمد کو سمجھا رہی تھی اور احمد خاموشی سے کهڑا ازل کی باتیں سن رہا تھا.باکل ویسے ہی جیسے وہ پہلے سنتا تھا. پھر ازل نے جب سمجھا لیا تو احمد نے کہا:
"ازل میں تمہیں اپنے ساتھ نماز پڑھانا چاپتا تھا.اکٹهے مل کر اللہ کی عبادت کرنا چاہتا تها میں اس لیے نہیں گیا.تم میری امامت میں نماز پڑھو گی آج.میں تو صرف یہی چاہتا تھا."
"احمد سوری!"
ازل نے احمد سے معزرت والے لہجے میں بات کی.
"سوری مت کرو سنتیں پڑھو."
احمد جے جوابا کہا
"اوکے احمد"
اب ازل اور احمد سنتیں ادا کر رہے تھے.وہ سنتیں اکٹھے ادا کر رہے تھے جو سارے جہان سے بہتر ہیں.
سلام پھیرا اور ایک دوسری کی طرف دیکھا. 
"ازل چلو اب تم میری امامت میں نماز پڑھو گی."
احمد نے مسکراتے ہوئے دیکھتے ہوئے کہا.
"احمد جی ضرور"
ازل بھی ہونٹ پر تبسم لیے مسکرا رہی تھی.
اب احمد نے فرض ادا کرنے شروع کیے اور ازل نے بھی اس کی امامت میں ادا کیے.احمد نے سورت واضحی اور سورت الم نشرح کی تلاوت کی.پهر جب فرض بھی ادا کر لیے تو سلام پھیرا.
احمد نے اونچی ساری سبحان اللہ الحمداللہ اللہ اکبر استغفراللہ کہا.
ازل نے بھی الفاظ دہرائے.
احمد کا چہرہ ایک بار پھر کھل اٹھا. 
احمد نے ازل کی جانب اپنا منہ کیا اور اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے.اب وہ اس کی انگلی پر درود شریف کی تسبیح کرنا شروع کی.بڑی بڑی انگلیوں پر احمد کا لمس ازل محسوس کر رہی تھی اور اتنا خوبصورت محسوس کر رہی تھی. 
وہ احمد کو دیکھ رہی تھی اور احمد ازل کی انگلیوں پر تسبیح پڑھ رہا تھا. ایک سکون و اطمینان کے ساتھ ساتھ دوسرا سکون و اطمینان بھی ان کے سینے میں اتر آیا تھا کہ اب دونوں کو کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتا.
تسبیح کے بعد دونوں نے دعا کے لیے ہاته اٹھائے اور دعا مانگی.پهر جب دعا مانگ لی تو دعا سے فارغ ہو کر احمد نے ازل سے پوچھا کہ کیا مانگا ازل نے کہا جو آپ نے مانگا.پهر ازل نے احمد سے پوچھا کہ کیا مانگا تو احمد نے کہا ازل وہی جو تم نے مانگا.
پھر احمد نے پوچھا 
"ازل رات پرسکون نیند آگئی تھی"
"جی احمد بہت پرسکون تھی.اس لیے آپ اٹھاتے رہے تو الغرضی کی."
ازل نے جوابا کہا 
"میں جانتا ہوں"
احمد نے مسکراتے ہوئے کہا.
اب ازل نے احمد سے خواہش ظاہر کی اور وہ بهی فجر کے وقت بالکل فجر جیسی خواہش 
"احمد آپ مجھے سورت رحمن کی تلاوت کر کے سنا دیں."
"ازل میری آواز نہیں پیاری ہے."
"احمد پلیز نا میں کچھ نہیں جانتی"
ازل نے ضد کی اور احمد مان گیا.
وہیں جائےنماز پر بیٹھے ازل نے اپنا سر احمد کی گود میں رکھ لیا اور احمد نے ازل کے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کیں.
احمد نے بسماللە پڑھی اور شروع کی تلاوت.ازل نے غور سے سننا شروع کیا.
"الرحمن"
احمد اور ازل کی دهڑکن بے قابو ہوئی.پهر آہستہ آہستہ احمد کی تلاوت کے دوران دونوں کے چہرے پر خوشی کے اثرات نمایاں تھے.آنکهیں نم ہونا شروع ہو گئی تهیں.احمد کی انگلیاں اب بھی زلفوں میں اٹکی تھی.
جب احمد نے کہا
"فبای الا ربکما تکذبن"

ایک وجد کی کیفیت دونوں پر طاری ہوئی اور دونوں کے آنسو گال کی جانب بہ نکلے. احمد کے اشک گال سے بہتے بہتے ازل کے چہرے پر گرتے .یوں جب بھی یہ آیت بڑھی جاتی اشک ضرور بہتا اور چہرے پر گرتا.مکمل سورت پڑھ لی گئی اور جدھر ریت زیادہ تھی وہاں چہرہ زیادہ بھیگا ہوا تھا.ازل کی آنکهیں بند تهیں اور احمد اس کے ہاتھوں کی انگلیاں پھیر رہا تھا.
⁦️
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS