Namaj-E-Tasbeeh Kaise Padhe aur iski Fazilat.
Namaj-E-Tasbeeh kya Har Musalman ko Zindagi me Ek bar padhna Lazim hai?
نمازِ تسبیح کا ثبوت
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
اللہ رب العزت کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو نوافل کے ذریعہ سے اپنا قرب بخشا ، نیز ان کو مغفرت و معافی کے اسباب عطا فرمائے ۔ ان میں سے ایک نماز ِ تسبیح ہے ۔ یہ بڑی فضیلت والی نماز ہے ، روزانہ پڑھیں ، ہفتہ میں یامہینہ میں یاسال کے بعد یا زندگی میں ایک بار پڑھ لیں ۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت وبرکت سے جھولی بھرلیں ۔ اس نماز کا ثبوت اورطریقہ ملاحظہ ہو ۔
قال الإمام أبوداو،د : حدّثنا عبد الرحمن بن بشر بن الحکم النیسابوریّ ، حدّثنا موسی بن عبد العزیز ، حدّثنا الحکم بن أبان عن عکرمۃ عن ابن عبّاس : أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال للعبّاس بن عبد المطّلب : یا عبّاس ! یا عمّاہ ! ألا أعطیک ؟ ألا أمنحک ؟ ألا أحبوک ؟ ألا أفعل بک عشر خصال ؟ إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذنبک أوّلہ وآخرہ ، قدیمہ وحدیثہ ، خطأہ وعمدہ ، صغیرہ وکبیرہ ، سرّہ وعلانیتہ ، عشر خصال ؛ أن تصلّی أربع رکعات ، تقرأ فی کلّ رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ ، فإذا فرغت من القراء ۃ فی أوّل رکعۃ وأنت قائم ، قلت سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلّا اللّٰہ واللّٰہ أکبر خمس عشرۃ مرّۃ ، ثمّ ترکع ، فتقولہا وأنت راکع عشرا ، ثمّ ترفع رأسک من الرکوع ، فتقولہا عشرا ، ثمّ تہوی ساجدا ، فتقولہا وأنت ساجد عشرا ، ثمّ ترفع رأسک من السجود ، فتقولہا عشرا ، ثمّ تسجد فتقولہا عشرا ، ثمّ ترفع رأسک فتقولہا عشرا ، فذلک خمس وسبعون فی کلّ رکعۃ ، تفعل ذلک فی أربع رکعات ، إن استطعت أن تصلّیہا فی کلّ یوم مرّۃ ، فافعل ، فإن لم تفعل ، ففی کلّ جمعۃ مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی کلّ شہر مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی کلّ سنۃ مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی عمرک مرّۃ ۔
”سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اے عباس ، اے میرے چچا ! کیا میں آپ کو تحفہ نہ دوں ، کیا میں آپ کو گراں مایہ چیز مفت میں عطا نہ کردوں ، کیا میں آپ کے لیے دس خصلتیں بیان نہ کردوں کہ جب آپ ان کو کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اول وآخر ، قدیم وجدید ، غلطی سے سر زد ہونے والے اورجان بوجھ کر کیے ہوئے ، صغیرو کبیرہ ، مخفی وظاہری تمام گناہ معاف کردے ؟ وہ دس خصلتیں یہ ہیں کہ آپ چار رکعات ادا کریں۔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اورایک سورت پڑھیں ، پھرپہلی رکعت میں قرائت سے فارغ ہوکر قیام کی حالت میں ہی پندرہ دفعہ یہ دعا پڑھیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ (اللہ تعالیٰ پاک ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے)، پھر آپ رکوع کریں اور(رکوع کی تسبیحات کے بعد)رکوع کی حالت میں دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ رکوع سے سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے کے جھک جائیں اور سجدے کی حالت میں (تسبیحات کے بعد)دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے سے اپنا سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ دوسرا سجدہ کریں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ سجدے سے سر اٹھائیں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ۔ یہ ہررکعت میں کل پچھتر تسبیحات ہوجائیں گی ۔ چاروں رکعتوں میں اسی طرح کریں ۔ اگر آپ روزانہ یہ نماز پڑھ سکتے ہیں تو روزانہ پڑھیں ، ورنہ ہر ہفتے ، ورنہ ہر مہینے ایک مرتبہ پڑھ لیں ۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اوراگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ یہ نماز پڑھ لیں۔”(سنن ابی داو،د : ١٢٩٧، سنن ابن ماجہ : ١٣٨٧، صحیح ابن خزیمۃ : ١٢١٦، المعجم الکبیر للطبرانی : ١١٦٢٢، المستدرک للحاکم : ١/٣١٨، وسندہ، حسنٌ)
ابوحامد احمد بن محمد بن الحسن الشرقی الحافظ کہتے ہیں کہ میں نے امام مسلم رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : لا یروی فی ھذا الحدیث إسناد أحسن من ھذا ۔
”اس حدیث کی اس سے بڑھ کر بہتر سند کوئی نہیں بیان کی گئی ۔”
(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی : ١/٣٢٦، وسندہ، صحیحٌ)
ابنِ شاہین رحمہ اللہ (٢٩٧۔٣٨٥ھ)فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابوداؤد سے سنا:
أصحّ حدیثا فی التسبیح حدیث العبّاس ۔ ”نماز ِ تسبیح کے بارے میں سب سے صحیح حدیث ، سیدنا عباس کی حدیث ہے ۔”(الثقات لابن شاہین : ١٣٥٦)
حافظ منذری رحمہ اللہ (٥٨١۔٦٥٦ھ)لکھتے ہیں : صحّح حدیث عکرمۃ عن ابن عبّاس ھذا جماعۃ ، منھم : الحافظ أبوبکر الآجری ، وشیخنا أبو محمّد عبد الرحیم المصریّ ، وشیخنا الحافظ أبو الحسن المقدسیّ ۔
”اس حدیث کو ائمہ کرام کی ایک جماعت نے صحیح قرار دیا ہے ، ان میں سے حافظ ابوبکرالآجری ہیں اورہمارے شیخ ابو محمدعبدالرحیم المصری ہیں اورہمارے شیخ حافظ ابوالحسن المقدسی ہیں ۔”(الترغیب والترھیب للمنذری : ١/٤٦٨)
حافظ علائی رحمہ اللہ (٦٩٤۔٧٦١ھ)لکھتے ہیں ـ: حدیث حسن صحیح ، رواہ أبوداو،د وابن ماجہ بسند جیّد إلی ابن عبّاس ۔
”یہ حدیث حسن صحیح ہے ، اس کو امام ابوداؤد اورامام ابنِ ماجہ نے ابنِ عباسw سے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔”(النقد الصحیح : ص ٣٠)
حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ (٧٢٣۔٨٠٤ھ)فرماتے ہیں : وھذا الإسناد جیّد ۔
”یہ سند جید ہے ۔”(البدر المنیر لابن الملقن : ٤/٢٣٥)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (م ٩١١ھ)فرماتے ہیں : وھذا إسناد حسنٌ ۔
”یہ سند حسن ہے۔” (اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ : ٢/٣٥)
اس حدیث کے متعلق حافظ نووی(٦٣١۔٦٧٦ھ)اورحافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ)کی کلام متناقض ہے ۔ بعض اہل علم کا اس حدیث کی صحت کا انکار کرنا بے معنیٰ ہے ۔ علمائے کرام نے اس نماز کے ثبوت وفضیلت پر ایک درجن سے زائد تصانیف کی ہیں ۔ اس حدیث کے راویوں کے متعلق محدثین کی شہادتیں ملاحظہ ہوں :
1 عبدالرحمن بن بشر بن الحکم النیسابوری : یہ ثقہ ہیں۔
(تقریب التھذیب لابن حجر : ٣٨١٠)
2 موسیٰ بن عبدالعزیز العدنی : جمہور محدثین کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہیں۔ ان کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا أرٰی بہ بأسا ۔ ”میں اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا ۔”
(العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد بن حنبل : ٣٩١٩، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٨/١٥١)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (الثقات : ٩/١٥٩)اورامام ابنِ شاہین رحمہ اللہ (الثقات : ١٣٥٦) نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے ۔
امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ (١٢٦۔٢١١ھ)سے ان کے بارے میں پوچھا تو :
فأحسن الثناء علیہ ۔ ”آپ نے اس کی تعریف کی ۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٣١٩، وسندہ، صحیحٌ)
رہا امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کا اسے ”ضعیف” کہنا(تہذیب التہذیب لابن حجر: ١٠/٣١٨) تو یہ ثابت نہیں ہوسکا ۔ ثابت ہونے کی صورت میں جمہور کی توثیق کے مقابلہ میں ناقابل التفات ہے ۔ الحافظ السلیمانی کا ان کو ”منکر الحدیث”کہنا بھی مردود ہے ۔
اوّلاً یہ جمہور کے خلاف ہے ۔ ثانیاً حافظ سلیمانی ، ثقہ راویوں کے بارے میں اس طرح کی سخت کلام کرتے رہتے ہیں ۔ خود حافظ سلیمانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
رأیت للسلیمانیّ کتابا ، فیہ حطّ علی کبار ، فلا یسمع منہ ما شذّ فیہ ۔
”میں نے حافظ سلیمانی کی ایک کتاب دیکھی ہے ، جس میں بڑے بڑے علماء پر کلام کی گئی ہے۔ ان کی وہ بات نہیں سنی جائے گی ، جس میں انہوں نے عام علماء سے شذوذ اختیار کیا ہے ۔”
(سیر اعلام النبلاء للذہبی : ١٧/٢٠٣)
موسیٰ بن عبدالعزیز کی دوسری روایات کی علمائے کرام نے ”تصحیح” کررکھی ہے ۔ یہ ان کی توثیق ہے ۔
3 الحکم بن ابان العدنی : اس راوی کی کبار محدثین نے توثیق کر رکھی ہے ، سوائے امام ابنِ عدی رحمہ اللہ کے ۔ امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کا إرم بہ (اس کو پھینک دو) کہنا ثابت نہیں ، کیونکہ امام عقیلی رحمہ اللہ کے استاذ عبداللہ بن محمد بن سعدویہ کی توثیق نہیں مل سکی ۔ اگر بالفرض یہ ثابت ہوبھی جائے تو جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلہ میں مردود ہے ۔
4 عکرمہ مولیٰ ابنِ عباس : عکرمہ ، جمہور کے نزدیک ”ثقہ” ہیں ۔
حافظ بیہقی رحمہ اللہ (٣٨٤۔٤٥٨ھ)لکھتے ہیں : وعکرمۃ عند أکثر الأئمّۃ من الثقات الأثبات ۔ ”عکرمہ اکثر ائمہ کے نزدیک ثقہ ثبت راویوں میں سے ہیں۔”
(السنن الکبرٰی للبیقی : ٨/٢٣٤)
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (٧٦٢۔٨٥٥ھ) لکھتے ہیں : والجمہور وثّقوہ ، واحتجّوا بہ ۔ ”جمہور نے ان کی توثیق کی ہے اور ان سے حجت لی ہے ۔”
(عمدۃ القاری للعینی : ١/٨)
خلاصۃ الکلام : صلاۃ التسبیح کے بارے میں حدیث ابنِ عباس کی سند بلاشک وشبہ ”حسن” ہے ۔ ان شاء اللہ !
تنبیہ بلیغ : صلاۃ التسبیح کے بارے میں سنن ابی داؤد (١٢٩٩)میں ایک انصاری صحابی سے بھی حدیث آتی ہے ، جس کی سند بالکل ”صحیح” ہے ، لہٰذا نماز ِ تسبیح کے ثبوت میں کوئی شبہ نہیں رہا ۔
فائدہ نمبر 1 : شیخ الاسلام ، الامام ، المجاہد ، عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نماز ِ تسبیح کا طریقہ یوں بیان کرتے ہیں : یکبّر ، ثمّ یقول : سبحانک اللّٰہمّ وبحمدک ، وتبارک اسمک ، وتعالی جدّک ، ولا إلہ غیرک ، ثمّ یقول خمس عشرۃ مرّۃ : سبحان اللّٰہ ، والحمد للّٰہ ، ولا إلہ إلّا اللّٰہ ، واللّٰہ أکبر ، ثمّ یتعوّذ ، ویقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ، و فاتحۃ الکتاب ، وسورۃ ، ثمّ یقول عشر مرات : سبحان اللّٰہ ، والحمد للّٰہ ، ولا إلہ إلّا اللّٰہ ، واللّٰہ أکبر ، ثمّ یرکع ، فیقولہا عشرا ، ثمّ یرفع رأسہ من الرکوع ، فیقولہا عشرا ، ثمّ یسجد ، فیقولہا عشرا ، ثمّ یسجد الثانیۃ ، فیقولہا عشرا ، یصلّی أربع رکعات علی ہذا ، فذلک خمس وسبعون تسبیحۃ فی کلّ رکعۃ ، یبدأ فی کلّ رکعۃ بخمس عشر تسبیحۃ ، ثمّ یقرأ ، ثمّ یسبّح عشرا ، فإن صلّی لیلا ، فأحبّ إلی أن یسلّم فی الرکعتین ، وإن صلّی نہارا ، فإن شاء سلّم ، وإن شاء لم یسلّم ۔
”نمازی تکبیر کہے ، پھر سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ پڑھے ، پندرہ مرتبہ یہ دعا پڑھے : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ (اللہ تعالیٰ پاک ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے)، پھر تعوذ وبسم اللہ پڑھ کر سورۃ الفاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھ لے ، پھر دس مرتبہ یہی دعا پڑھے ، پھر رکوع کرے اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھے ، پھر رکوع سے سر اٹھائے اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھے ، پھر سجدہ کرے اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھے ، پھر دوسرا سجدہ کرے اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھے ، اسی طرح چاررکعتیں ادا کرلے۔یہ ہررکعت میں کل پچھتر تسبیحات ہوجائیں گی ، ہررکعت کو پندرہ دفعہ تسبیح کے ساتھ شروع کرے گا ، پھر قرائت کرے گا ، پھردس دفعہ تسبیح پڑھے گا ، اگر رات کو نماز ِ تسبیح ادا کرے توزیادہ پسندیدہ بات یہ ہے کہ دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرے اور اگر دن کو پڑھے تو سلام پھیرے یا نہ پھیرے ، درست ہے۔”
(سنن الترمذی ، تحت حدیث : ٤٨١، المستدرک للحاکم : ١/٣٢٠، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 2 : علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں :
اعلم أنّ أکثر أصحابنا الحنفیّۃ وکثیر من المشایخ الصوفیّۃ ، قد ذکروا فی کیفیّۃ صلاۃ التسبیح الکیفیّۃ الّتی حکاہا الترمذیّ والحاکم عن عبد اللّٰہ ابن المبارک الخالیۃ عن جلسۃ الاستراحۃ ، والمشتملۃ علی التسبیحات قبل القرائۃ وبعد القرائۃ ، وذلک لعدم قولہم بجلسۃ الاستراحۃ فی غیرہا من الصلوات الراتبۃ ، والشافعیّۃ والمحدثون أکثرہم اختاروا الکیفیّۃ المشتملۃ علی جلسۃ الاستراحۃ ، وقد علم ممّا أسلفنا أنّ الأصحّ ثبوتا ، ہو ہذہ الکیفیّۃ ، فلیأخذ بہا من یصلّیہا حنفیّا کان أو شافعیّا ۔
”جان لیں کہ ہمارے اکثر حنفی اصحاب اور بہت سے صوفی مشایخ نے نماز ِ تسبیح کے طریقے میں اس طریقے کو ذکر کیا ہے ، جسے امام ترمذی اورامام حاکم نے امام عبداللہ بن المبارک سے نقل کیا ہے ۔ یہ طریقہ جلسہ استراحت سے خالی ہے اور قرائت سے پہلے اور بعد تسبیحات پر مشتمل ہے۔ اکثر احناف نے یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا کہ وہ عام نمازوں میں جلسہ استراحت کے قائل نہیں ہیں ، جبکہ شوافع اور اکثر محدثین نے نماز ِ تسبیح کے اس طریقے کو پسند کیا ہے ، جس میں جلسہ استراحت موجود ہے ۔ ہماری گزشتہ بحث سے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ زیادہ صحیح ثابت یہی (جلسہ استراحت والا)طریقہ ہے ۔ نماز ِ تسبیح پڑھنے والا خواہ حنفی ہو یا شافعی اسے یہی (جلسہ استراحت والا)طریقہ اختیار کرنا چاہیے ۔”(الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لعبد الحی :١٤١)
فائدہ نمبر 3 : امام عبدالعزیز بن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ امام عبداللہ ابن المبارک رحمہ اللہ نے فرمایا : یبدأ فی الرکوع ، سبحان ربّی العظیم ، وفی السجود ، سبحان ربّی الأعلی ثلاثا ، ثمّ یسبّح التسبیحات ۔
”نماز ِ تسبیح پڑھنے والا رکوع میں پہلے تین دفعہ سبحان ربّی العظیم پڑھے گا اور سجدے میں پہلے تین دفعہ سبحان ربّی الأعلی پڑھے گا ،پھر نماز ِ تسبیح کی تسبیحات پڑھے گا۔”(سنن الترمذی ، تحت حدیث : ٤٨١، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 4 : نیز فرماتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے کہا کہ نمازی بھول گیا توکیاسجدہئ سہو میں بھی دس مرتبہ تسبیحات پڑھے گا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا : لا ، إنّما ھی ثلاثمائۃ تسبیحۃ ۔
”نہیں ، یہ صرف (چار رکعات میں)تین سو تسبیحات ہیں ۔” (ایضا ، وسندہ، صحیحٌ)
تنبیہ : نماز ِ تسبیح کی جماعت کروانا بدعت ہے ، کیونکہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جماعت ثابت نہیں ہے ۔جن نوافل کی جماعت سنت سے ثابت ہے ، انہی کوباجماعت ادا کرنا مشروع ہے ، ورنہ تو سننِ رواتب کی بھی جماعت جائز ہونی چاہیے ، حالانکہ آج تک کسی مسلمان نے ایسا نہیں کیا۔