find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Muslim ladkiyo ka Gair Muslim Ladko ke sath bhag kar Shadi karne ka riwaaz. Hindu Ladke Muslim ladkiyo ko kaise Bhaga kar Shadi kar rahe hai?

Muslim ladkiyo ko Bhagakar Shadi karne ki muhim shuru ki gayi hai jisse Musalmano ke gharo ko barbad kiya ja sake.

Muslim ladkiyo ko Gair Muslim ladko ke sath bhagne ya shadi karne se rokne ke tarike.

मुस्लिम लड़कियो को भगा कर शादी का झासा देकर उससे गलत काम कैसे करवाया जाता है? 

⚙ فتنہ ارتداد پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جائیں۔۔!

ایمان والے جب اپنے ایمان و عمل میں کمزور ہوجاتے ہیں تو انہیں باطل قوتیں مختلف طریقوں سے دین سے پھیرنے کی کوشش کرتی ہیں، یہ کوششیں مختلف طرح کی ہوتی ہیں جیسے بداعتقادی کے ذریعہ ارتداد، اور فکری ارتداد یا مذہب کی تبدیلی۔

(١) کبھی تو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر بد اعتقادی کے فتنے پیدا کئے جاتے ہیں، جیسے مرزا غلام احمد قادیانی کے مانے والے ختم نبوت کا انکار کرکے دین اسلام کی بنیاد کو منہدم کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مالی تحریص (لالچ) کے ذریعہ قادیانی بناکر مرتد کرتے ہیں، یا جیسے موجودہ دور میں شکیل بن حنیف نے ہندوستان میں اپنے آپ کو مسیح موعود، یا مہدی موعود بناکر پیش کیا ہے اور وہ دین کے لبادہ میں مسلم نوجوانوں کو گمراہ کر کے مرید بناتا ہے۔

(۲) اسی طرح فکری ارتداد جیسے کمیونزم ، نیچریت ، یا انکار حدیث ، یا انکار رسالت وغیرہ۔

(۳) اور کبھی براہ راست دین اسلام سے ہٹاکر ایمان والوں کو ہندو، عیسائی وغیرہ بناکر مرتد کرتے ہیں۔

یہ فتنے ہر زمانہ میں ہوتے رہتے ہیں مگر اس وقت کئی طبقے متاثر ہیں، جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ دین کی تعلیمات سے ناواقف ہے، یا غربت و افلاس میں مبتلا طبقہ جو کئی نسلوں سے دینی تعلیم سے محروم ہے، جیسے جھگی جھونپڑی میں رہنے والے، یا مختلف کمزور برادریوں کے افراد، مرد وخواتین، اسی طرح وہ بچے جو شرک و بت پرستی کے ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور دینی تعلیم سے محروم ہیں، اسی طرح مسلمان نوجوانوں خاص طور پر مسلم لڑکیوں کو ہندؤ تنظیموں سے وابستہ افراد ورغلا کر ہندو لڑکوں سے شادی کراکر مرتد کر رہے ہیں غور کرنے پر اس کے مندرجہ ذیل وجوہ و اسباب سامنے آتے ہیں، جیسے:

»  ملک کی فرقہ پرست تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس کی طرف سے منظم سازش کے ذریعہ غیرمسلم لڑکوں کا مسلم لڑکیوں سے رابطہ کرانے کی تحریک چلانا اور ترغیب دے کر ان سے شادی کرلینا۔

»  مسلم لڑکیوں کا دین وشریعت سے نا واقفیت کی بنیاد پر ارتداد کی راہ اختیار کر لینا

» مسلم لڑکے اور ان کے والدین کی طرف سے تلک و جہیز کا مطالبہ کرنا اور مسلم لڑکیوں کے سرپرستوں کا اپنی غربت کی وجہ سے بے دست و پا ہونا۔

»  مسلم لڑکیوں اور لڑکوں کا تاخیر سے شادی ہونا۔
»  ہاسٹلوں میں لڑکیوں کا آزادانہ طریقے پر زندگی گزارنا۔

»  اسکول، کالج اور کو چنگ سنٹر میں مخلوط تعلیم کی وجہ سےلڑکے اور لڑکیوں کے درمیان راه ور سم کا بڑھ جانا۔
»  والدین کا اولاد کی دینی تعلیم و تربیت سے بے تو جہی برتنا۔
»  لڑکے اور لڑکیوں کا موبائل،ٹی وی اور انٹرنیٹ پر عریاں تصاویر کو دیکھنا۔

»  سماجی طور پر بے حیائی اور عریانیت کا پھیلاؤ اور لڑ کے ولڑکیوں کا غیر شرعی لباس پہننا۔

موجودہ ملکی قانون سے سہارا پا کر ارتداد کی راہ اختیار کرنا،یا باہمی رضامندی سے نا جائز رشتوں کو اختیار کرنا۔
»  مسلم مردوں کا ایک لمبے عرصہ تک ملازمت کے لیے گھر اور وطن سے دور رہنا اور ان کی بیویوں کا شہروں، یا قصبوں میں علاحدہ مکان لے کر رہنا۔

»  مسلم لڑکیوں کا مردوں کے ساتھ مخلوط جگہوں پر ملازمت اور نوکری کرنا ۔

اس فتنہ پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جائیں:

(الف) غیر مسلم لڑکوں کا مسلم لڑکیوں سے رابطہ ختم ، یا کم کرنے کی کوشش۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جائیں:-

(۱) گاؤں اور محلہ کے مسلم و غیر مسلم دانشور حضرات مل بیٹھ کر سماجی طور پر دباؤ بنائیں کہ اس طرح کے عمل سے سماج تناؤ کا شکار ہوتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ختم ہوتی ہے۔

(۲) ہر پندرہ دن پر خواتین بالخصوص اسکول اور کالج میں پڑھنے والی لڑکیوں کا دینی اجتماع کسی محفوظ مقام پر کیا جائے اور اس میں پردہ و حیا کے شرعی احکام، ایمان و عمل صالح اور دین کی باتیں بتائی جائیں۔

(۳) آر ایس ایس کی ترغیبی مہم کے فتنہ سے عام لوگوں کو واقف کرایا جائے اور اس سے بچنے کی ترغیب دیجائے۔

(۴) اور خواص کو بھی اس تحریک سے جوڑا جائے اور ان سے ان کے اپنے حلقہ اثر میں اس کام کو مہم کے طور پر کرنے کی ضرورت بتلائی جائے۔

(٥) مسلم گھرانے کے اندرونی حالات کی اصلاح پر توجہ دی جائے۔

(٦) ان کاموں کے لئے محلہ کی سطح پر نگراں کمیٹی بنائی جائے، جو گاؤں اور محلہ میں غیر مسلم لڑکوں کی آمد و رفت، تعلقات وغیرہ پر نگاہ رکھیں۔

(٧) غیر مسلم لڑکوں کی کوچنگ سے جہاں مخلوط تعلیم ہوتی ہو حتیٰ المقدور بچنے کی کوشش کی جائے۔

(ب) دین و شریعت سے نا واقفیت دور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کئے جائیں۔

(١) بچیوں کی ابتدائی دینی تعلیم و تربیت کو فوقیت دی جائے۔

نیز گھر میں اسلامی ماحول کو بنانے کے لئے نماز کا قیام روزانہ تلاوت کلام پاک کا معمول اور ۱۰ ، ۱۵ منٹ کوئی دینی کتاب پڑھی جائے۔

(٢) اسکول و کالج میں ماہانہ دینی و تربیتی پروگرام کا نظام بنایا جائے اور تمام اقلیتی اسکول کے نصاب تعلیم میں دینیات کو بھی داخل درس کرانے کی کوشش کی جائے۔

علماء مدارس ذمہ داران اور ائمہ کرام کے نام خطوط ارسال کئے جائیں اور انہیں اس پر متوجہ کیا جائے، تاکہ عوام و خواص کو بچے بچیوں کی دینی تعلیم دینے کی ترغیب دینے پر آمادہ کریں-

(٤) اسلام کا تعارف آسان کتابوں کے ذریعہ بھی کیا جائے۔ وہ اگر اردو پڑھنا نہیں جانتی ہیں تو ہندی زبان کی مفید کتابیں انہیں فراہم کی جائیں۔

(٥) سیرت نبی صل اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کے لیے ماہ ربیع الاول یا دیگر مہینوں میں مرد و خواتین کے الگ الگ سیرت کے جلسے منعقد کئے جائیں۔

(ج) تلک و جہیز کو روکنے کے لے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرنی چاہئے۔

(١) تلک وجہیز کی قباحت پر ائمہ کرام جمعہ کے خطبات میں تقریر کریں اور سال میں کم سے کم تین چار مرتبہ اس کو موضوع سخن بنائیں اور قوم کو سمجھائیں کہ تلک و جہیز کی رسم حرام ہے، اس سے بچنے میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

(٢) بلاک کی سطح سے کام کو شروع کیا جائے اور پہلے مرحلہ میں کسی ایک بلاک کو مثالی بنا کر شادی وںیاہ میں ہونے والے بے جا رسومات، فضول خرچی، ریا و نمائش وغیرہ سے پر ہیز کرنے کی تلقین کی جائے۔

(٣) نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد کرنے کی تحریک چلائی جائے، اس کے لیے لوگوں کا مزاج بنایا جائے ۔

(٤) بارات کی رسم کو بھی ختم کیا جائے۔
(٥) لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کا شرعی طریقہ بتلایا جائے  اور نص قطعی سے اس کو مستدل کیا جائے۔

(ه)  تاخیر سے شادی نہ کی جائے۔
(١)  شرعی اعتبار سے جب لڑکے و لڑکیاں جوان ہو جائیں تو مناسب رشتہ تلاش کر کے ان کی شادی کردی جائے ، اس میں بےجا تاخیر نہ کی جائے اور اس کے لئے  لوگوں میں بیداری مہم چلائی جائے۔

(د) مخلوط تعلیم کے نقصانات سے بچا جائے۔
مسلم اسکولوں کے ذمہ داروں سے گزارش کی جائے کہ چوتھے کلاس سے بچوں کے سیکشن علاحدہ کر دیں۔
(کمپوزر حافظ آفاق عادل)

Share:

Nawjawano (young) ka waqt par Shadi nahi hone se Muashare me failti Buraiya iske zimmedar kaun?

Aaj ke Nawjawano me Jinsi hajit itni kyu badh gayi hai?
🍁 جنسی حاجت اور نوجوان !

انسان کے بالغ ہونے سے بھی بہت پہلے جنسی جبلت اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔

کچھ خوراک اور ماحول بھی قبل از وقت بلوغت میں کرادر ادا کرتے ہیں۔

جنسی جبلت کی تسکین کا صحیح اور محفوظ راستہ جسے نکاح کہا جاتا ہے۔ وہ اتنا طویل اور مشکلات بھرا کر دیا گیا ہے کہ محض ایک جذبہ کی تسکین کے لئے اتنا لمبا انتظار دل پر بوجھ بن جاتا ہے۔ مالی خود مختاری،  بہت سی رسومات، دکھاوا، شور شرابا اور لڑکی یا لڑکے والوں کی طرف سے نخروں نے نوجوان کے نکاح کو ایک ڈراونا خواب بنائے ہوئے ہیں۔

اب دین کا علم عمومی طور پر عوام میں نہایت سطحی ہے اور عمل اس سے بھی کم ہے۔

تصویر، گندی فلم اور پھر تصورات تک رسائی۔۔ ۔۔۔

بڑوں کی نگرانی یا راھنمائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ والدین کو پتہ ہے نہ پروا کہ اولاد کیا کر رہی ہے۔

اس سب میں ناپختہ ذھن بعض جگہ پر بے حوصلہ ہو جاتے ہیں کئی جگہ بے رحم اور پھر کردار بھی خراب کر لیتے ہیں۔ بس موقع اور ماحول یہ طے کرتے ہیں کہ کون کتنا خراب ہو گا۔
اس دور کی نوجوان نسل میں پانی کم ہے لیکن آگ بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ ہماری خوراک اور فلم انڈسٹری ہے۔
تو لازمی بات ہے فساد اور بگاڑ یقینی امر ہے اور ناگزیر بھی.. بگاڑ ایک نیم شعوری تسلسل  سے پیدا ہوتا ہے جبکہ سدھار ہمیشہ ایک شعوری کوشش کا نتیجہ۔

ملکی اور معاشرتی انحطاط اور انتشار نے نوجوانوں کی زندگی پر گہرے اثرات ثبت کیے ہیں۔ 

ہمارے ملک میں نوجوان خود رو جھاڑیوں کی طرح ہیں جنکی کوئی کانٹ چھانٹ دیکھ بھال نہیں کرتا۔ یہ پیدا بھی بغیر منصوبہ بندی اور مقصدیت کے ہوتے ہیں ۔

ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم لوگ وضاحت کیساتھ آرزو کریں۔
الله تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ نے جو جنسی جبلت کی تسکین کا صحیح اور محفوظ راستہ دیا ہے جسے نکاح کہا جاتا ہے۔ ہمیں اسے آسان کرنا ہوگا فضول کی رسومات ختم کرنی ہونگیں ماں ماب اپنے پرائم ٹائم کو یاد کریں اور اپنے بچوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

رب تعالیٰ لکھنے اور پڑھنے والوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
منقول

Share:

Palestin ki Auratein Duniya ki Sabse Azim khawateen hai.

Filistin ki khawateen : Duniya ki Azim Khawateen.

Jab Zermany world war ii me hara tha to waha ki Auratein kabiz fauj ko khush karne me lagi thi.


فلسطینی خواتین - دنیا کی عظیم خواتین ۔

(قطری اخبار 'الراية' میں ایک قطری مصنف کا مضمون)

فلسطینی خواتین وہ عظیم مرتبے کی حامل خواتین ہیں جن کا مقام دنیا کے مرد حضرات بھی اکثر حاصل نہیں کر پاتے۔
حالیہ جنگ کے دوران انہوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے اور اس کی مثال دنیا کی دوسری قوموں میں نہیں ملتی۔

فلسطینی خواتین کے عزم کے سامنے مردوں کو بھی شرم سے سر جھکا لینا چاہئے اور چاند کو بھی چاہیے کہ کہیں دور جا کر چھپ جائے۔ میں پورے ادب اور احترام کے ساتھ ہر فلسطینی خاتون کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں، چاہے وہ غریب ہو، یتیم ہو، بیوہ ہو، کسی شہید کی ماں ہو، زخمی یا قیدی ہو۔

جب سوویت یونین ٹوٹا تھا تو ملک کے سارے نائٹ کلب روسی خواتین اور لڑکیوں سے بھر گئے تھے جو وہاں اس غرض سے جمع کی گئی تھیں کہ اپنے ہی ملک کے مارے جانے والے لوگوں کی لاشوں پر ناچ کر دشمن فوج کا دل بہلائیں۔ جب جرمنی ہارا تھا تو بیشمار جرمن خواتین قابض فوج کی گود میں جا گری تھیں۔ فرانس کی آزادی کے بعد ملک کے ہر گلی کوچے میں درجنوں فرانسیسی خواتین کے بال کاٹے گئے تھے کیونکہ وہ نازیوں کے ساتھ تعاون کر رہی تھیں۔ زیادہ تر مقبوضہ ممالک میں شراب خانے بھر گئے اور مقامی خواتین قابض فوجیوں کو خوش کر رہی تھیں۔

مگر ائے فلسطین کی پاکیزہ خواتین! تم نے خود کو صرف پاکیزگی اور عزت کی ماں کے طور پر پیش کیا!!

ائے زیتون کی شاخ، ائے عظمت کا درخت، ائے عزت و عفت کا سرچشمہ، تمہیں مشکلات نے دبایا اور ہتھوڑوں نے مارا، مگر تم نہ دبیں اور نہ ٹوٹیں۔ ائے میری ماں، میری بیٹی، میری بہن! اپنے اس بھائی کو اجازت دو کہ وہ تمہیں یاد کرے، کیونکہ بہت سارے لوگ تمہیں بھول چکے ہیں۔

ائے صابر، ائے پاکباز، ائے محلات میں رہنے والیوں سے زیادہ امیر خواتین، وہ مٹی اور گرد و غبار جو تمہارے چہروں کو چھو لے، وہ میری نظر میں چاند کے چہرے کو چومنے والے بادلوں سے زیادہ خوبصورت اور شاندار ہے۔ تمہاری پھٹی ہوئی چادریں، میں نہیں جانتا کہ انہیں کس نے پھاڑا! کیا دشمن کی گولیاں تمہاری پیٹھ پر لگی تھیں یا پھر لوگوں کی حاسد نظریں تھیں جو تمہاری پاکیزگی کو تار تار کر رہی تھیں؟

ائے شریف زادیو! تم بھوکی تھیں، مگر تم نے کفایت سے کام لیا، تم ننگی تھیں مگر تم نے عفت کا لباس پہنا۔ تم عظیم ہو، خواتین میں سب سے اعلیٰ ہو، چاہے تم اپنے گھروں کی چھتوں پر اپنے وطن کی نگرانی کر رہی ہو یا ملبے کے نیچے دبی ہوئی اپنے روتے بچوں کو سنبھال رہی ہو۔ جنت کا راستہ تمہارے قدموں کے نیچے ہے اور قدس کی چابی تمہارے ہاتھوں میں ہے، ائے عزت دار خواتین! اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے، اور تمہارے اوقات کو خوشگوار بنائے۔

Share:

Social Media par Khawateen Apne Pairo, zoote, Ring, Mehandi wale Hatho ki Tasweer kyu upload kar rahi hai?

Social Media par Be Pardagi failane me Aalimat ki tadad jyada hai?
Aeisi Khawateen jo Social Media par apne Hatho, kano, Pairo aur Zoote ki tasweer upload karti hai?.

🥀 عالمات ہوش میں آجائیں ۔

کئ سالوں سے مسلسل مشاہدے میں آ رہا ہے کہ اسٹیٹس پر تصاویر لگانے والی بھاری بھرکم تعداد عالمات کی بھی ہے، طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ چہرے کے آدھے حصہ پر اسٹیکر لگا کر ہاتھوں پر مہندی، انگلیوں میں انگوٹھی، کلائیوں میں چوڑیاں اور کپڑے بھی عمدہ سے عمدہ ترین، کبھی آنکھوں کو مکمل آراستہ کر کے کبھی کچھ نہیں ملا تو اپنا جوتا چپل ہی پہن کر لوگوں کو دکھا دیا اور لوگ دیکھ بھی رہے ہیں۔ اگر ان سے یہ کہا جاۓ کہ آپ  اسٹیٹس پر تصاویر رکھتی ہیں؟

تو جواب ملتا ہے چہرا چھپا ہوتا ہے کبھی کہتی ہیں مرد حضرات کو پرائویسی کر دیتی ہوں کبھی کہتی ہیں صرف سہیلیاں ہی دیکھتی ہیں اللہ بہتر جانے کہ کیا سچ ہے۔
صرف اتنا ہی نہیں حج و عمرہ کے مقدس سفر میں بھی ان کی یہ حرکت بدستور قائم ہے۔

میں نے چند عالمات کو  اس تعلق سے ٹوکا انہوں نے مجھے ہائڈ کردیا مگر لگانے سے باز نہیں رہیں_ 

خود کا تماشا کراکے ملتا کیا ہے اللہ ہی جانے!

  پھر جب عوام خواتین یہی کام کریں تو یہی عالمات اسٹیج پر جاکر لمبی لمبی تقریریں کرتیں ہیں جہنم کے سب سے سخت عذاب سنائیں جاتے ہیں  خدارا ہوش کے ناخن لیں اللہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین

منقول

اس تحریر کو جتنا ہو سکے آگے شئر کیجئے آپ سب بہت ہی پر اثر ہیں۔

Share:

Parda karne wali Khawateen Aur Ladkiyaa Social media par Short videos me Dance kar rahi hai.

Aaj Parde me dikhne wali Khawateen Kal Social Media par Nangi Nazar aayegi.
Aeise Ladkiya jo Deen ki dawat bhi deti hai aur Yutube par Short Videos me Raksh bhi karti hai.

🥀 آج پردہ ہے، کل کھل جاۓ گا۔

میری یہ بات شاید بہت سی لڑکیوں کے دل پہ لگ جاۓ، مگر جو دیکھا ہے وہی بول رہا ہوں، تکلیف معاف۔۔!
شوسل میڈیا پر مختلف قسم کے ویڈیوز حجاب و نقاب میں ڈالی جارہی ہیں، جن میں کوئی اداکاری والی ویڈیو ہے تو کوئی دعوتِ دین کو لے کر مفکر ویڈیو نظر آتی ہے، ہمیں اس پر اعتراض نہیں، لیکن اندیشہ ہے۔

کئی ایک ایسی لڑکیوں کا شوسل پلیٹ فارم دیکھا، جس میں ابتداء دعوتِ دین، نغماتِ حسنہ اور حمدِ باریﷻ سے ہوئی، لیکن آج انہیں چینلوں پر ہم شاٹ ویڈیوز کو گانے اور ناچنے کی شکل میں دیکھتے ہیں، کیا یہ ممکن نہیں، کہ جب وہ حیا سے بے حیائی تک آ پہنچی تو وہی علامات قیامت میں سے ایک علامت بن جائیں گی، یوں کہ قیامت کے نزدیک زنا عام ہوجاۓ گا، میرے علم کے مطابق واٹس ایپ پر ایک یا دو چینل ایسے ہیں جن کی آنر عالمہ حافظہ قاریہ ہیں لیکن وہاں خود اونر نقاب میں اپنی تصویریں لے کر ان کے ساتھ کہانیاں یا اقوالِ زریں لگا کر نشر کرتی ہیں، جب کہ ان باحجاب تصاویر میں آنکھوں کی نمائش مقصود ہوتی ہے، کاجل آئی لائنر لگا کر نشیلی نگاہوں کو بانقاب قید کرنا، کیا یہ نمائش نہیں۔؟

جب ان کو سمجھانے کے طور پر کچھ کہا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے، کہ تم کیوں دیکھتے ہو؟

چلیے ہم نہیں دیکھیں گے، لیکن آپ کس کس کو روکیں گی؟
اگر تصویریں نہیں ڈالیں گی تو کیا آپ کے پوسٹ کیے ہوۓ الفاظ کا وزن کم ہوجاۓ گا؟
یہاں تصویریں ڈالنے کا مقصد ہی نمائش ہے، آج صرف آنکھوں کی نمائش کی جارہی ہے، کل شاید نقاب بھی اتر جاۓ۔

ہر پڑھنے والا یہ سوچ رہا ہوگا تا آں کہ میں بھی، کہ ہم ایسے نہیں ہیں، ہم نہیں بدلنے والے، پیارے عزیزو!

جب فین فالوئنگ بڑھتی ہے اور لائکز زیادہ ملنے لگتے ہیں، تو پھر کنٹرول اور حیا برداشت سے نکل جاتی ہے، اس لیے پہلے ہی حد میں رہیں، مشکل نہیں کہ وہ وقت آجاۓ: جب آپ خود کو چاہ کر بھی نہ روک پائیں، چینل چلائیے، فین فالوئنگ بڑھائیے، لیکن نمائش سے جہاں تک ممکن ہو بچنے کی کوشش کیجیے۔!

لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کو کنٹرول کی ضرورت ہے، کیوں کہ لڑکیاں گھاس نہ ڈالیں تو کسی مائی کے لال میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ آپ کی طرف آنکھ بھی اٹھا سکے، خدارا پردے کے ساتھ آنکھوں کی نمائش سے بچیے۔! پردہ براۓ پردہ ہی ہو، برائے ریا نہ ہو۔!

✍🏻 عاقل ابنِ افتخار ؛

Share:

Kya Musalman apna koi Saman Girwi rakh kar Paise le sakta hai? Zamin, Makan ya Sone chandi Girwi rakhna kaisa hai?

Zamin,Zewrat ya koi Saman Girwi  rakhne ke bare me Sharai hukm kya hai?

Sawal: zamin, Zewrat ya Makan wagairah girwi rakhne ke bare me Islam kya kahta hai? Kya Musalman koi Chij girwi rakh kar Paise le sakta hai? Kya Girwi rakhi hui chij istemal karna ya us se fayeda uthana Jayez hai?


"سلسلہ سوال و جواب نمبر -386"

سوال- زمین/ زیورات یا مکان وغیرہ گروی رکھنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا ہم کوئی چیز گروی رکھوا کر پیسے لے سکتے ہیں؟نیز کیا گروی رکھی ہوئی چیز استمعال کرنا یا اس سے فائیدہ اٹھانا جائز ہے؟

Published Date: 25-8-2024

جواب...!
الحمدللہ..!!

*کسی سے کوئی چیز خریدنے یا قرضہ لینے پر بطور ضمانت کوئی چیز  رکھوانے کو گروی یا رہن کہا جاتا ہے۔ جو گروی رکھتا ہے اسے راہن کہتے ہیں اور جس کے پاس گروی رکھیں اسے مرتہن کہتے ہیں، لہٰذا راہن کوئی چیز سونا یا جانور یا مکان  وغیرہ مرتہن کے پاس امانت رکھواتا ہے کہ مجھے اتنے پیسے قرض دے دو جب قرض ادا کر دوں گا تو میری چیز مجھے واپس مل جائے گی۔ جائز مقصد کےلیے کوئی چیز گروی رکھنے میں کوئی خرابی یا قباحت نہیں لیکن گروی رکھی ہوئی چیز سے مرتہن کا  فائدہ اٹھانا ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ قرضے یا ادھار قیمت کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔*

جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے!
کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
باب: باب: عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3814
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا وَتَمْرًا وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ رِبًا،‏‏‏‏ وَلَمْ يَذْكُرِ النَّضْرُ،‏‏‏‏ وَأَبُو دَاوُدَ،‏‏‏‏ وَوَهْبٌ عَنْ شُعْبَةَ الْبَيْت.
ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ  میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام ؓ سے ملاقات کی، انہوں نے کہا، آؤ تمہیں میں ستو اور کھجور کھلاؤں گا اور تم ایک  (باعظمت)  مکان میں داخل ہو گے  (کہ رسول  ﷺ  بھی اس میں تشریف لے گئے تھے)
پھر آپ نے فرمایا تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمہیں ایک تنکے یا جَو کے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابر بھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے۔

*اس لیے سلف صالحین بدلے میں کوئی چیز نہیں لیتے تھے*

 سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں:
ہمارا ایک پڑوسی مچھلی فروش تھا اس کے ذمے کسی آدمی کے پچاس درہم تھے وہ قرض دینے والے کو مچھلی ہدیہ بھیجتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا "جو وہ تجھے تحفے میں دے رہا ہے اسے حساب میں شمار کر۔"
(بیہقی، باب کل قرض جر منفعۃ فھو رباہ 5/350، کتاب التحقیق مع تنقیح 3/8 (1572)

*اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض لینے والے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مقروض کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے یا اس سے تحفے قبول کرے، لہذا اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہو تو وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اگر وہ فائدہ اٹھائے تو اصل رقم سے حساب کر کے اتنی رقم کم کر دی جائے گی اور اگر حق سے زائد فائدہ اٹھایا تو واپس کرنا ہو گا وگرنہ سود ہو گا*

*ہاں گروی رکھی ہوئی چیز پر خرچ کرنا پڑتا ہو تو خرچ کے عوض تھوڑا بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی نے حقدار کے پاس بطور ضمانت کوئی جانور وغیرہ گروی رکھا ہو تو اسے گھاس یا چارہ ڈال کر اس پر سواری کی جا سکتی ہے یا اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے۔*

جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:

صحیح بخاری
کتاب: رہن کا بیان
باب: باب: گروی جانور پر سواری کرنا اس کا دودھ پینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 2512
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الرَّهْنُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ النَّفَقَةُ.
ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں زکریا نے خبر دی، انہیں شعبی نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا، گروی جانور پر اس کے خرچ کے بدل سواری کی جائے۔ اسی طرح دودھ والے جانور کا جب وہ گروی ہو تو خرچ کے بدل اس کا دودھ پیا جائے اور جو کوئی سواری کرے یا دودھ پئے وہی اس کا خرچ اٹھائے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کسی کے پاس گروی شدہ بکری ہے تو چارے کی قیمت کے مطابق اس کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں، قیمت سے زیادہ دودھ حاصل کرنا سود ہے۔‘‘ (فتح الباری، ج5/ص178)

اور سود یقیناً باطل طریقہ ہے مال کھانے کا ،

 اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلوا أَمو‌ٰلَكُم بَينَكُم بِالبـٰطِلِ ...
"اے ایمان والو اپنے مالوں کو آپس میں ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ۔" (سورہ نساء -29)

,رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے: (إن دماءَكم وأموالكم حرامٌ عليكم)
"بلاشبہ تمہارے خون اور اموال تم پر حرام ہیں"
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (1218)

*ان نصوص صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسلمان کا مال مسلمان پر اصلا حرام ہے جواز تصرف کے لئے کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں مفقود ہے گروی رکھنے والا شخص اپنی گروی شدہ چیز کا مالک ہے اور اس کا اپنی چیز سے فائدہ اٹھانا تو معقول ہے جب کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے اس کی حیثیت امین کی ہے اور اس کے پاس پڑی ہوئی چیز امانت ہے جو کہ رقم کے تحفظ کے لیے ہے کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت اور ناجائز ہے۔*

اور حدیث میں جو خرچ کے عوض جانور کے دودھ اور سواری کرنے کی اجازت موجود ہے اس سے استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ یہ حدیث عمومی شرعی اصول کے منافی ہے یہ صرف سواری یا دودھ کے ساتھ خاص ہے۔ اس پر عام قیاس کرنا درست نہیں۔

صحیح بخاری میں امام بخاری کا فہم بھی یہی ہے حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔
ایک گروہ نے کہا ہے کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے وہ خرچ کے عوض گروی جانور پر سواری کر سکتا ہے اور دودھ دوھ سکتا ہے اس حدیث کی وجہ سے دو فائدوں کے علاوہ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔
(فتح الباری 5ج/ص144)

اسی طرح مرھونہ زمین ( یعنی گروی رکھی ہوئی زمین) کی صورت میں اگر مرتھن( جو گروی پر زمین لیتا ) وہ زمین آگے ٹھیکے پر دے تو ٹھیکے کی رقم گروی رکھنے والے کے قرضے سے منہا کر دی جائے۔ اگر مرتھن خود کاشت کرے تو پیداوار تقسیم کر کے مالک کے حصہ کے مطابق اس کا قرضہ کم کر دے۔
اسی طرح  اگر کسی نے قرضہ کے بدلے اپنا مکان گروی رکھا ہے اگر قرضدار اس میں رہائش رکھنا چاہتا ہے تو اس کا کرایہ طے کیا جائے اور اس کرائے کی رقم کو قرضے سے کم کرتا رہے، اگر کرایہ کی رقم کو قرض سے منہا نہیں کرتا تو یہ صریح سود ہے۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسی چیز گروی رکھی جائے جس پر خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ جیسے زیورات وغیرہ تاکہ وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ گروی چیز کی حیثیت ایک امانت کی سی ہے، جب ادھار یا قرض چکا دیا جائے تو وہ چیز مالک کو اصل حالت میں واپس کر دی جائے گی۔

*مذکورہ بالا دلائل کی بنا پر ہر وہ مرتھن چیز جس کی دیکھ بھال نہ کرنے سے تلف ہوجانے کا خدشہ ہو اس سے بقدر خرچ اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔*
لیکن مکان کی صورت حال کچھ اور نوعیت کی ہے۔ مکان گروی رکھنے والا اسے استعمال نہیں کرسکتا اگر استعمال کرنا چاہے تو اس کا راہن سے کرایہ وغیرہ کا طے کرلے کیونکہ آج کل صورت حال یوں ہےکہ ایک آدمی مکان رہن رکھ کے مرتھن سے کچھ رقم لیتا ہے اور مرتھن اس مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے یعنی اس میں سکونت اختیار کرتا ہے جبکہ راہن اس کی رقم استعمال کرتا ہے حالانکہ مکان کو جانور وغیرہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جانور کا اگر دودھ وغیرہ نہ دھویا جائے گا اور چارہ وغیرہ نہ ڈالا جائے گا تو اس کے تلف و ضرر کا خدشہ ہے جبکہ مکان میں ایسی کوئی صورت نہیں ہاں اگر وہ راہن سے مکان کا کرایہ طے کرلیتا ہے تو اس میں سکونت اختیار کرسکتا ہے وگرنہ اس کا اس سے فائدہ اٹھانا سود کے زمرے میں آئے گا۔

*ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر راہن گروی رکھی چیز استعمال کرنے کی اجازت دے دے تو کیا پھر بھی یہ ناجائز ہے؟*

جیسا کہ اوپر دلائل سے یہ بات طے ہو چکی کہ مرتہن کا راہن کی چیز کو قرض کے بدلے میں استعمال کرنا ’’ سود ‘‘ میں داخل ہے تو پھر اقرب یہی لگتا ہے کہ یہ ناجائز ہی رہے گا ۔
کیونکہ سودی کار و بار ناجائز ہے چاہے وہ فریق کی مرضی سے ہو یا فریقین کی رضا مندی سے ۔۔ واللہ اعلم
۔اصل میں مسئلہ صرف اجازت دینے نہ دینے کا بھی نہیں ہے ۔

مسئلہ یہ ہے کہ آپ ایک ایسی چیز سے فائدہ اٹھارہے ہیں جس سے شریعت نے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی ۔

ویسے بھی راہن عموما اس لیے اجازت دے دیتا ہے کیونکہ وہ مرتہن کا مقروض ہوتا ہے ۔ گویا کہ مرتہن راہن کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔

کیونکہ اگر ان کے درمیان اتنے اچھے تعلقات ہوتے تو ’’ راہن ‘‘ کو اپنی ضرورت کے لیے ’’ قرض ‘‘ لینے کے لیے اپنے استعمال کی چیز مثلا گاڑی یا گھر وغیرہ اس کے پاس نہ رکھوانا پڑتا۔

یہ تو گروی چیز کا معاملہ ہے ، سلف صالحین سے یہ بات منقول ہے کہ اگر انہوں نے کسی کو قرض دیا ہوتا تو وہ اس قدر احتیاط کیا کرتےتھے کہ مقروض کے گھر یا درخت کے سایہ کے نیچے بھی نہیں بیٹھا کرتے تھے کہ کہیں وہ ’’ قرض ‘‘ کے بدلے میں ’’ نفع ‘‘ اٹھانے والوں میں شمار نہ ہوں ۔

مآخذ :
محدث فتویٰ/  محدث فورم
(فتاویٰ ارکان اسلام/ آپکے مسائل اور انکا حل )

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

ملتے جلتے سوالات ۔۔۔۔۔!!

سوال_سود کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بینک یا سودی لین دین والے کاروبار میں جاب کرنا کیسا ہے؟ دیکھیں سلسلہ نمبر -169

سوال_سود خور خاوند كے ساتھ رہنے كا کیا حكم ہے؟كيا بینک میں ملازمت کرنے والے یا سود پر قرض لينے/دینے والے خاوند كے ساتھ رہنے والى بيوى اور سکے بچے بھى گنہگار شمار ہوں گے؟
دیکھیں سلسلہ نمبر -170

سوال_کسی کافر،مشرک سے تعلقات رکھنا، اسکی دعوت قبول کرنا ،اس سے لین دین کرنا یا قرض لینا کیسا ہے؟ اور ایسے مسلمان رشتے دار جنکی آمدن حرام کی ہو جیسے سود وغیرہ تو کیا انکا دیا ہوا تحفہ یا دعوت قبول کر سکتے ہیں؟
دیکھیے سلسلہ نمبر -104

سوال- اسلام ميں مالی سزاؤں كا كيا حكم ہے ؟ اگر سکول یا گورنمنٹ کی فیس/چالان وغیرہ لیٹ ادا کریں تو اس پر جرمانہ ہوتا ہے، کیا یہ بھی سود ہے؟
دیکھیے سلسلہ نمبر -352

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Baccho ke name kaise Rakhne chahiye? Kya Name badalne se Taqdeer Badal jayegi?

Bacho ke Nam kaise rakhne chahiye?
Sawal. Baccho ke nam kaise rakhne chahiye? Kya yah bat Sahi hai ke Nam Shakshiyat par Asar Andaz hote hai? Agar koi baccha Bimar rahta ho to kya uska nam tabdil karne se wah thik ho jayega, Kya Nam Badalne se Taqdeer badal jayegi?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-385"
سوال_بچوں کے نام کیسے رکھنے چاہیے؟ کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ نام شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ اور اگر کوئی بچہ بیمار رہتا ہو تو کیا اسکا نام تبدیل کرنے سے وہ ٹھیک ہو جائے گا؟ نیز کیا نام بدلنے سے تقدیر بدل جائیگی.؟

Published Date- 22-08-2024

جواب۔۔۔!
الحمدللہ۔۔!

*بچے کی پیدائش کے بعد جو اسکے حقوق شرعی طور پر شروع ہوتے ہیں، ان میں سے ایک حق بچے کا اچھا نام رکھنے کا بھی ہے، یعنی بچے کا مسنون وقت میں نام رکھا جائے اور نام ایسا رکھا جائے کہ جس نام کا معنی اچھا ہو،یا کسی صحابی یا پیغمبر کا نام ہو، یا کسی مجاہد یا عالم کہ جس نے اسلام کے لیے قربانیاں دی ہوں یا کوئی بھی اچھے معنی والا خوبصورت نام ہو،تا کہ اس نام کی تاثیر بھی اچھی ہو، اور برے نام رکھنے سے صاحب شریعت نے منع کیا ہے، اور اگر کوئی لا علمی میں برا نام رکھ لے تو جب معلوم ہو تو اسکو اچھے نام سے بدل دے، کیونکہ برے ناموں کی تاثیر بھی بری ہوتی ہے،جسکے دلائل آگے آ رہے ہیں*  ان شاءاللہ

*بچے کی پیدائش سے ساتویں دن تک اسکا نام رکھنا مسنون عمل ہے*

📚جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ : تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُحْلَقُ، وَيُسَمَّى "
ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے، ساتویں روز اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-2838)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1522)
(سنن نسائی حدیث نمبر-4220,4221)

📚امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلیل ہے کہ ساتویں دن بچے کا سر مونڈنا اور نام رکھنا مستحب عمل ہے،
(المغنی لابن قدامہ،8ج/ص22)

📚امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ،
حدیث میں وارد لفظ "یسمی" ساتویں روز بچے کا نام تجویز کرنے کے مستحب ہونے کی دلیل ہے،
(نیل الاوطار،ج 5/ص194 )

*لیکن ضروری نہیں کہ ساتویں روز رکھا جائے،اگر کوئی پہلے دن نام رکھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں،*

📚جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ،
میرے ہاں آج رات ایک بچہ پیدا ہوا ہے ۔ میں نے اس کا نام اپنے والد کے نام پر ” ابراہیم “ رکھا ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2315)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3126)

📚ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو اپنے دندان مبارک سے نرم کر کے اسے چٹایا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی پھر مجھے دے دیا۔ یہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے لڑکے تھے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5467)

📚امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر باب باندھا ہے کہ:
بَابُ تَسْمِيَةِ الْمَوْلُودِ غَدَاةَ يُولَدُ، لِمَنْ لَمْ يَعُقَّ عَنْهُ، وَتَحْنِيكِهِ:
باب: اگر بچے کے عقیقہ کا ارادہ نہ ہو تو پیدائش کے دن ہی اس کا نام رکھنا اور اس کی تحنیک کرنا جائز ہے۔

*لہذا ان دلائل سے ثابت ہوا کہ بچے کی پیدائش والے دن اور پیدائش کے ساتویں روز نام رکھنا مسنون ہے*

📚 چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ،
ألسنة أن يسمى المولود أليوم السابع من ولادته أو يوم الولادة،
نومولود کا ولادت کے ساتویں دن یا ولادت کے دن نام رکھنا مسنون ہے،
(شرح النووی، ج14/ص165)

📚ابن علان رحمہ اللہ " المواہب الدینیۃ" میں لکھتے ہیں کہ،
ان احادیث کو اس معنی پر مجہول کیا جائے گا کہ ولادت کے ساتویں دن سے نام رکھنے میں تاخیر مشروع نہیں، (یعنی ساتویں روز ہی نام رکھ لینا چاہیے) اسکا یہ مطلب یہ نہیں کہ ساتویں روز ہی نام رکھا جائے بلکہ پیدائش سے لیکر ساتویں روز تک نام تجویز کرنا مشروع ہے،
(الفتوحات الربانیه،ج6/ص97)

*ناموں کا انتخاب*
بچوں کے نام رکھتے وقت آپس میں مشورہ کر لیں، والدہ، والد اور دادا دادی اور نانا نانی وغیرہ سب سے مشورہ کر کے جس پر سب متفق ہو جائیں وہ نام رکھا جائے اور  ان ناموں کو ترجیح دی جائے جو اللہ کے پسندیدہ نام ہیں یا شرعاً مستحب ہیں، اور ایسے ناموں سے پرہیز کرنا چاہیے جو شرعاً حرام یا مکروہ ہیں، جنکا معنی اچھا نہیں یا جنکی نسبت یہود و نصارٰی کی طرف ہوتی ہو وغیرہ، ایسے نام نہیں رکھنے چاہیے*

*اللہ کے پسندیدہ افضل نام*

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:‏‏‏‏
إِنَّ أَحَبَّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ”
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں“
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2132)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2834)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر4949)

📚عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں،
اس حدیث میں یہ دو نام( عبداللہ اور عبدالرحمن ) رکھنے کی ترغیب ہے اور یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دو نام تمام ناموں سے افضل ہیں،
(تحفة الاحوذى، ج8/ص99٫100)
(عون المعبود ،ج13/ص199)

📚حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ،
علماء کا ان ناموں کے مستحسن ہونے پر اتفاق ہے جو نام اللہ کی طرف منسوب ہیں، جیسے عبداللہ اور عبدالرحمن، اور ان جیسے دوسرے نام بھی، (جن میں بندے کی نسبت اللہ کی طرف ہو)
(مراتب الاجماع،ص154)

📚سعید بن مسیب رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ،
أحب الأسماء إليه أسماء الأنبياء
اللہ کے ہاں پسندیدہ ترین نام انبیاء کے نام ہیں،
(مصنف ابن شیبہ،حدیث نمبر-26430)

*یہ قول سندا تو صحیح ہے مگر اوپر موجود صحیح حدیث کے مقابلے میں یہ قول کوئی حیثیت نہیں رکھتا،لہذا افضل نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہی ہیں،*

📚حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ "فتح الباری" میں اسکی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
ان دو ناموں کے ساتھ انکے ہم مثل نام مثلاً عبدالمالک، عبد الصمد، عبد الرحیم وغیرہ بھی شامل ہیں ان ناموں کا اللہ کے پسندیدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اللہ کے لازم وصف معبود اور بندے کے لازم وصف یعنی عبودیت کو شامل ہے۔۔۔۔انہتی۔۔! انکے علاوہ دیگر علماء فرماتے ہیں کہ ان دو ناموں کی فضیلت اس لیے ہے کہ قرآن مجید میں عبد کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ کے ان دو ناموں کی طرف ہی ہے۔۔!

*یاد رہے عبد کی نسبت کر کے نام رکھنے کی فضیلت میں کچھ احادیث بھی نقل کی گئیں ہیں مگر ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح سند سے ثابت نہیں،*

📚جیسا کہ ابو ثقفی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
إذا سميتم فعبدوا،
جب تم نام رکھو تو اس میں عبد کا لفظ شامل کرو،
(معجم طبرانی کبیر، (٢٠/١٧٩) (٣٨٣)
(أبو نعيم في «معرفة الصحابة» (٦٨٠١)

🚫(الهيثمي مجمع الزوائد ٨/٥٣ • فيه أبو أمية بن يعلى وهو ضعيف جدا‏‏ )
(الألباني السلسلة الضعيفة ٦٩٩٠ • ضعيف جدا •)

📚ایک روایت میں آتا ہے کہ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
أحَبُّ الأسماءِ إلى اللهِ: ما تُعُبِّدَ،
اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نام وہ ہیں جن میں عبد کے الفاظ ہوں،
(الطبراني (١٠/٨٩) (٩٩٩٢)
🚫(الألباني ضعيف الجامع ١٥٦ • موضوع)
(ابن حجر العسقلاني فتح الباري لابن حجر ١٠/٥٨٦ • إسناده ضعيف)

📚ایک اور روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
أحبُّ الأسماءِ إلى اللهِ ما عُبِّدَ وما حُمِّدَ
اللہ تعالیٰ کے انتہائی پسندیدہ نام وہ ہیں جنکے اندر عبد اور حمد کے الفاظ آئیں،

🚫یہ روائیت بغیر سند کے ہے اسکی کوئی اصل نہیں
(الألبانی السلسلة الضعيفة ٤١١ • لا أصل له)

*اگرچہ یہ روایات ضعیف ہیں لیکن اوپر بیان کردہ صحیح احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی طرف عبدیت کی نسبت کر کے نام رکھنا افضل ہے،*

*انبیاء و صالحین کے نام پر نام رکھنا*

اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی طرف عبدیت کی نسبت کر کے نام رکھنا تو افضل و مسنون ہے ہی ہے اسکے ساتھ ساتھ انبیاء کے نام پر نام رکھنا بھی مسنون و مستحب ہے،

احادیث ملاحظہ فرمائیں،

📚جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ،
میرے ہاں آج رات ایک بچہ پیدا ہوا ہے ۔ میں نے اس کا نام اپنے والد کے نام پر ” ابراہیم “ رکھا ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2315)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3126)

📚عبدالمحسن العباد سنن ابو داؤد کی شرح میں لکھتے ہیں یہ حدیث دلیل ہے کہ انبیاء کے نام پر نام رکھنا جائز ہے،
(شرح سنن ابو داؤد 16ج/ص444)

📚یوسف بن سلام بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا نام یوسف رکھا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا،
(مسند احمد حدیث نمبر- 16404)
• إسناده صحيح

*لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں کا نام رکھتے ہوئے ٹی وی اداکاروں کو دیکھا جاتا ہے، جسکا جو پسندیدہ ایکٹر ہے اسکا نام اسے پسند ہوتا ، وہ بھلے ہندوؤں کا ہو یا عیسائیوں کا ، اسکا معنی اچھا ہو یا نا ہو اس سے انکو کوئی فرق نہیں پڑتا، اسی طرح ہمارے ہاں بچوں کے نام رکھنے کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں*

مثلاً

(1) اگر بچہ شرارتی ہو تو کہا جاتا ہے کہ نام بدل لو اس کی قسمت بدل جائے گی !

(2) ایسے ہی بچہ بیمار رہتا ہو تو اسے نام بدلنے کو کہا جاتا ہے تاکہ ٹھیک ہوجائے۔

(3) ایک بڑی بھیانک غلط فہمی یہ ہے کہ اگر گھر میں ایک بچہ مرجائے تو اس کا نام دوسرے بچے کو رکھنا منحوس سمجھاجاتا ہے بلکہ یہ سوچا جاتا ہے کہ اگر یہ نام رکھ لیا گیا تو دوسرا بچہ بھی مرجائے گا۔

(4) بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے اونچے اونچے لوگوں کا نام رکھنے سے بچہ انہیں جیسا بلند ہوگا۔

📒ان خیالات کے پس منظر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اچھے نام واقعی قیمتی جوہر ہیں، اس لئے اسلام میں نام رکھنے کے طریقے ہیں۔
اسلام میں سب سے بہتر نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔

٭ان کے علاوہ اللہ کی صفتوں کی طرف عبدیت کا انتساب کرکے نام رکھنا مثلا عبدالرحیم، عبدالجبار وغیرہ ۔ 
٭اسی طرح نبیوں، رسولوں اور ان کی اولاد کے نام پہ ، صحابہ کرام اور ان کی اولاد کے نام پہ نام رکھنا مستحب ہے!!
اور ان ناموں سے بچا جائے جن میں شرک ، معصیت، کراہت اورخرابی کاکوئی پہلو نکلتا ہو۔

*اب میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ناموں سے فرق پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پہ سہل بن عمرو بات چیت کے لئے تو آپ نے فرمایاکہ معاملہ سہل ہوگا۔*
*اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے سہل کے نام سے نیک فالی لی ہے*

📚سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا حزن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا نام حزن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سہل ہو، انہوں نے کہا کہ میں تو اپنے باپ کا رکھا ہوا نام نہیں بدلوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان میں سختی اور مصیبت ہی رہی۔ («حزونة» سے صعوبت مراد ہے)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6193)

اس کے علاوہ دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے بعض ناموں کو ناپسند فرمایا اور بعض ناموں کو بدل دیا۔
لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناموں میں تاثیر پائی جاتی ہے مگر یہ تاثیر انسان کی صحت/ شخصیت اور اس کے کردار کو نہیں بدل سکتی ۔زیادہ سے زیادہ اچھے ناموں سے اچھا تصور کرسکتے ہیں ۔ اگر کچھ تاثیر ظاہر بھی ہوئی تو یہ اللہ کی قدرت سے ہے ،
احادیث کے مجموعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں نیک فالی ہے لیکن بدفالی نہیں ہے ۔

مثلاً جب نبی علیہ السلام کسی جگہ سفر پر روانہ ہوتے تو راستوں کا نام پوچھتے ، جس راستے کا نام برا ہوتا ،اس کے متعلق کچھ نہیں فرماتے اور جس راستے کا نام اچھا ہوتا اس پر چل پڑتے ۔کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اس راستہ میں خیر وبرکت دیں گے ان شاءاللہ ۔

📚ایک غزوہ سے واپسی پر آپ دو پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دونوں پہاڑوں کے نام دریافت کیے پتہ چلا کہ ایک کا نام ”فاضح“ اور دوسرے کا نام ”مخز“ (ذلیل و رسوا کرنے والا) ہے۔، آپ صلى الله عليه وسلم نے وہ راستہ فوراً بدل دیا۔
(زاد المعاد ۲/۵، سیرت ابن ہشام2-253)

📚رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اپنی دودھاری اونٹنی کے دودھ نکالنے کے لیے چند لوگوں کو بلایا، ایک ”مرّہ“ (کڑواہٹ) نامی آدمی اس کے لیے کھڑاہوا، آپ ﷺنے اس کو بٹھادیا، دوسرا شخص کھڑاہوا،اس کا نام بھی حرب (جنگ وجدال) تھا، آپ ﷺنے اس کو بھی کہا بیٹھ جاؤ۔ تیسرا شخص کھڑاہوا،جس کا نام تھا ’یعیش“ (زندگی) آپ نے اس کو دوہنے کی اجازت دی۔
( زاد المعاد ۲/۴، موطا امام مالک ۲/۷۴۱، الادب المفرد حدیث نمبر ۸۳۵)

📚صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں سہیل بن عمرو آئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے محض ان کے نام سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ ”ان شاء اللہ مشرکین مکہ کے ساتھ جاری ہماری مصالحتی کوشش بھی ”سہل“ رہے گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا“(زاد المعاد۲/۴)

📒مشہور اسلامی سائیٹ ۔۔اسلام ویب ‘‘
پر ایک سوال کے جواب میں ایک مفصل فتوی دیا گیا ہے ؛
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
خلاصة الفتوى:
إن تأثير الاسم على صاحبه قد أكدته الدراسات النفسية، ويدل له تحديد النبي -صلى الله عليه وسلم- لخير الأسماء، وتغييره لبعضها وتفاؤله بالبعض.
علم النفس کے مطالعہ اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ناموں کا اثر نام والے پر ہوتا ہے ۔۔ اور اس بات پر دلیل ہے رسول اللہ ﷺ اچھے ناموں کے اختیار کرنا ،اور کچھ ناموں کو اچھے ناموں سے بدل دینے ،اور بعض ناموں سے اچھی صورت حال اخذ کرنا۔۔

تأثير الأسماء في نفوس أصحابها
الأربعاء 21 محرم 1429 - 30-1-2008
(رقم الفتوى: 104126التصنيف: أحكام المولود)

📒علامہ شمس الدين ابن قيم الجوزیہ
(المتوفى: 751هـ)
زاد المعاد میں لکھتے ہیں :
[اخْتِيَارُ الْأَسْمَاءِ الْحَسَنَةِ لِأَنَّ الْأَسْمَاءَ قَوَالِبُ لِلْمَعَانِي]
فَصْلٌ فِي فِقْهِ هَذَا الْبَابِ
لَمَّا كَانَتِ الْأَسْمَاءُ قَوَالِبَ لِلْمَعَانِي، وَدَالَّةً عَلَيْهَا، اقْتَضَتِ الْحِكْمَةُ أَنْ يَكُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَهَا ارْتِبَاطٌ وَتَنَاسُبٌ، وَأَنْ لَا يَكُونَ الْمَعْنَى مَعَهَا بِمَنْزِلَةِ الْأَجْنَبِيِّ الْمَحْضِ الَّذِي لَا تَعَلُّقَ لَهُ بِهَا، فَإِنَّ حِكْمَةَ الْحَكِيمِ تَأْبَى ذَلِكَ، وَالْوَاقِعُ يَشْهَدُ بِخِلَافِهِ، بَلْ لِلْأَسْمَاءِ تَأْثِيرٌ فِي الْمُسَمَّيَاتِ، وَلِلْمُسَمَّيَاتِ تَأَثُّرٌ عَنْ أَسْمَائِهَا فِي الْحُسْنِ وَالْقُبْحِ، وَالْخِفَّةِ وَالثِّقَلِ، وَاللَّطَافَةِ وَالْكَثَافَةِ كَمَا قِيلَ:
وَقَلَّمَا أَبْصَرَتْ عَيْنَاكَ ذَا لَقَبٍ ... إِلَّا وَمَعْنَاهُ إِنْ فَكَّرْتَ فِي لَقَبِهْ
( «وَكَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحِبُّ الِاسْمَ الْحَسَنِ، وَأَمَرَ إِذَا أَبْرَدُوا إِلَيْهِ بَرِيدًا أَنْ يَكُونَ حَسَنَ الِاسْمِ حَسَنَ الْوَجْهِ» )
وَكَانَ يَأْخُذُ الْمَعَانِيَ مِنْ أَسْمَائِهَا فِي الْمَنَامِ وَالْيَقَظَةِ كَمَا ( «رَأَى أَنَّهُ وَأَصْحَابَهُ فِي دَارِ عقبة بن رافع، فَأُتُوا بِرُطَبٍ مِنْ رُطَبِ ابْنِ طَابَ، فَأَوَّلَهُ بِأَنَّ لَهُمُ الرِّفْعَةَ فِي الدُّنْيَا، وَالْعَاقِبَةَ فِي الْآخِرَةِ، وَأَنَّ الدِّينَ الَّذِي قَدِ اخْتَارَهُ اللَّهُ لَهُمْ قَدْ أَرْطَبَ وَطَابَ، وَتَأَوَّلَ سُهُولَةَ أَمْرِهِمْ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ مِنْ مَجِيءِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو إِلَيْهِ» ) .
اچھے ،پیارے نام منتخب کرنا چاہئیے کیونکہ نام دراصل معانی کے قالب ہوتے ہیں ؛
اس باب کی فقہ یہ ہے کہ :
" جب نام معانى كے قالب اور اس پر دلالت كرنے والے ہوتے ہيں ؛
تو حكمت كا تقاضہ ہے كہ نام اور معانى كے درميان ارتباط اور مناسبت ہو، اور اس كے ساتھ معنى اس طرح محض اجنبى نہ ہو كہ اس كے ساتھ تعلق اور مناسبت ہى نہ ركھے؛ كيونكہ حكمت والے حكيم كى حكمت اور واقع اس كے خلاف گواہى ديتا ہے.
بلكہ ناموں كى مسميات پر ضرور تاثير ہوتى ہے، اور مسميات يعنى جن كا نام ركھا گيا ہو ان پر اچھے اور برے، اور ہلكے اور بھارى، اور لطيف و كثيف ناموں كى تاثير ضرور ہوتى ہے، جيسا كہ كہا جاتا ہے:
آپ كى آنكھوں نے لقب والا ايسا بہت ہى كم ديكھا ہے كہ اگر اسكے لقب ميں آپ غور كريں تو كوئى معنى ضرور پايا جاتا ہے.اسی لئے نبی کریم ﷺ کو یہ بات پسند تھی جب کوئی سفیر اور پیغام رساں انکے پاس بھیجا جائے ،تو اچھے نام ،اور خوبصورت چہرے والا ہونا چاہیئے ؛
آپ نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں ناموں سے معانی کو اخذ کرتے تھے
جیسا آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اور آپ صحابہ عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں
اور انکے پاس ابن طاب کی تر کھجوریں پیش کی گئیں ،تو آپ نے اس کی یہ تعبیر و تاویل فرمائی ،کہ دنیا میں کامیابی و سرخ روئی ۔اور آخرت کی فوز و فلاح ملے گی؛
اور حدیبیہ کے دن ۔سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو ۔کے آنے سے آپ نے اخذ فرمایا کہ آسانی اور سہولت ملے گی ۔۔..!!!
(( ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 336 )

📒 اسی طرح سعودی فتاویٰ ویبسائٹ islamqa پر  سوال کیا گیا کہ..!

السؤال
هل تغيير الاسم يغير القدر ؟.
کیا نام تبدیل کرنے سے تقدیر بدل جاتی ہے.؟

الجواب
الحمد لله.
تغيير الأسماء لا يغير القدر ، لكن قد يكون له تأثير في الشخص وحياته .
نام بدلنے سے تقدیر نہیں بدلتی لیکن اسکا اثر ضرور ہوتا ہے شخصیت اور اسکی زندگی پر۔۔!

(( آگے انہوں نے وہی دلائل دیے جو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں.!!))

والله اعلم .
(https://islamqa.info/ar/answers/14626)
(تقدیر کے بارے مزید تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر ـ322)

*عام روٹین میں بھی ہم دیکھیں تو نام سے بھی آدمی کی شان اور شخصیت کا اظہار ہوتا ہے اور نفسیاتی طور پر نام کا بڑا اثر پڑتا ہے آپ کسی خاتون کو کسی بھدے اور برے نام سے خطاب کیجیئے اور پھر دیکھیئے اس خاتون کی ناگواری اور غم و غصے کا کیا حال ہوتا ہے ۔۔۔۔!!*
آپ نے اسے اس کو برے نام سے پکار کے اس کے دل میں اپنے لئے برے جذبات ابھار دیئے ۔ اسکے برخلاف کسی خاتون کو کسی اچھے نام سے پکاریئے اور پھر دیکھیئے جواب میں وہ خاتون کس طرح شکر ومحبت کے جذبات پیش کرتی ہے اپنا اچھا نام سن کر وہ یہ محسوس کرتی ہے کہ پکارنے والی نے میری عزت کی اور برا خطاب سن کر یہ محسوس کرتی ہے کہ پکارنے والی نے میری توہین کی ،یہ اس لئے کہ الفاظ کے معنی اور مفہوم کا آدمی کے جذبات واحساسات پر اثر پڑتا ہے ۔
فطری طور پر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کے بچے کو اچھے نام سے پکاریں جس سے بچہ خوش ہو یہ جب ہی ہوگا جب آپ اپنے پیارے بچے کا اچھا سا نام تجویز کریں
آپ کے پیارے بچے کا آپ پر حق ہے کہ آپ اس کا اچھا اور پاکیزہ نام رکھیں ۔ نبی ﷺ نے اپنی امت کو ہدایت دی ہے کہ اچھے اور پاکیزہ نام رکھو صحابی اور صحابیات اپنے بچے کا نام رکھنے کے لئے آپ ﷺ سے درخواست کرتے تو آپﷺ
نہایت پاکیزہ اور با مقصد نام تجویز فرماتے ،آپ ﷺ کسی سے نام پوچھتے اور وہ اپنا کوئی بے معنی اور ناپسندیدہ نام بتاتا تو آپﷺ ناپسند فرماتے اور اپنا کام اس کے حوالے نہ کرتے ، جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس کا نام معلوم فرماتے پسند آتا تو بہت مسرور ہو تے اکثر ایسا بھی ہوتا کہ آپﷺ نا پسندیدہ نام کو بدل دیتے برا نام کسی چیز کے لئے گوارا نہ کرتے خواہ وہ کوئی زمین ہو یا گھاٹی ، کوئی بستی ہو یا خود انسان ،ایک گھاٹی کو لوگ شعب ضالہ (گمراہی کی گھاٹی) کہتے تھے آپﷺ نے اس کا نام شعب ہدیٰ رکھ دیا۔

اچھا نام رکھنے میں ہدایت وحکمت بھی ہے نبیﷺ نے فرمایا تم لوگ قیامت کے روز اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہذا اچھے نام رکھا کرو۔
پسندیدہ نام وہ ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے پسندیدہ بتایا ہو مثلاً اللہ کے ذاتی صفاتی نام کے ساتھ عبد یا امتہ کا لفظ ملا کر ترکیب کیا گیا ہو جیسے عبداللہ عبدالرحمٰن عبدالغفار امتہ اللہ امتہ الرحمٰن وغیرہ یا ایسا نام ہو جس سے اللہ کی تعریف کا اظہار ہو ۔
یا کسی پیغمبر کے نام پر ہو جیسے یعقوب یوسف ادریس ابراہیم اسمٰعیل احمد وغیرہ
یا کسی مجاہد اور خادم دین کے نام پر ہو جس نے دین کے لئے قربانیاں دی ہوں جیسے عمر فاروق خالد ہاجرہ مریم ام سلمیٰ سمیہّ وغیرہ
یا آپ کے دینی جذبات نیک خواہشات اور پاکیزہ آرزؤں کا آئینہ دار ہو مثلاً ملت کی موجودہ پستی دیکھ کر آپ اپنے ننھے کا نام عمر بن عبدالعزیز یا صلاح الدین وغیرہ رکھیں اور یہ تمنا ہو کہ آپ کا ننھا مجاہد ملت کی ہچکولے لیتی ناؤ کو پار لگائے گا ۔
کچھ نام ایسے بھی ہیں جن سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے یعنی ایسا نام جو اسلامی عقائد ونظریات کے خلاف ہو جس سے عقیدہ توحید مجروح ہو جیسے نبی بخش عبدالرسول وغیرہ نہ ہی کوئی ایسا نام رکھیں جس سے فخروغرور اور بڑائی کا اظہار ہوتا ہو یا وہ غیر اسلامی ہو یا اللہ کی رحمت سے دور کرنے والا ہو جیسے ملک الاملاک یا شہنشاہ جیسے نام بھی بدترین ناموں میں شمارکئے جاتے ہیں ۔

*لہٰذا شریعت نے اولاد کے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا  ہے، نام اچھا ہونے کے باوجود اگر بچہ بیمار ہو  یا زیادہ روئے تو یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس کا  نام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا؛ لہٰذا نام کے اثر  کا انسان کی صحت پر اثر انداز ہونے کا یا نام کے بھاری ہونے کا عقیدہ  رکھنا شرعاً درست نہیں ہے ، البتہ نام کا معنی درست نہ ہو تو اس کو تبدیل کرنا چاہیے*

*اللہ رب العزت ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں کا نام تجویز کرتے وقت اللہ اور اسکے رسولﷺ کی خوشنودی کا خیال رکھیں آمین*

مآخذ -
محدث فورم/ نسرین فاطمہ و شیخ اسحاق سلفی و شیخ مقبول سلفی/ الاسلام سوال وجواب/ الاسلام ویب/ دار الافتاء دیوبند

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📒سوال_ کیا اکیلا محمد نام رکھنا جائز ہے؟ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اکیلا محمد نام نہیں رکھنا چاہیے؟ اور کیا محمد نام رکھنے کی کوئی فضیلت و برکت صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ محمد نام والے سب لوگوں کو بخش دیا جائے گا..؟
دیکھیے
(( “سلسلہ سوال و جواب نمبر -307”))

📒سوال_قیامت کے دن لوگوں کو انکے باپ کے نام سے پکارا جائے گا یا ماں کے نام سے؟
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ماں کے نام سے پکارا جائے گا اسکی حقیقت کیا یے؟
((دیکھیے“سلسلہ سوال و جواب نمبر-292″))

📒سوال : تقدیر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی تقدیر ہی میں برائی لکھی ہے تو پھر اس برائی کے کرنے پر عذاب اور گناہ کیوں ملے گا ؟ حالانکہ وہ تو مجبور تھا۔؟ نیز کیا دعاؤں سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
((دیکھیے سلسلہ نمبر ـ322))

        ..ــــــــ&ـــــــــــــ

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS